۱ ۔۔۔ چند رؤسائے قریش نے کہا کہ اے محمد! (صلی اللہ علیہ و سلم) آؤ! ہم تم صلح کر لیں کہ ایک سال تک آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے معبودوں کی پرستش کیا کریں ، پھر دوسرے سال ہم آپ کے معبود کو پوجیں ۔ اس طرح دونوں فریق کو ہر ایک کے دین سے کچھ نہ کچھ حصہ مل جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا خدا کی پناہ کہ میں اس کے ساتھ (ایک لمحہ کے لئے بھی) کسی کو شریک ٹھہراؤں ۔ کہنے لگے اچھا تم ہمارے بعض معبودوں کو مان لو (ان کی مذمت نہ کرو) ہم تمہاری تصدیق کریں گے اور تمہارے معبود کو پوجیں گے۔ اس پر یہ سورت نازل ہوئی، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو مجمع میں پڑھ کر سنائی۔ جس کا خلاصہ مشرکین کے طور و طریق سے بکلی بیزاری کا اظہار اور انقطاع تعلقات کا اعلان کرتا ہے۔ بھلا انبیاء علیہم السلام جن کا پہلا کام شرک کی جڑیں کاٹنا ہے۔ ایسی ناپاک اور گندی صلح پر کب راضی ہو سکتے ہیں ۔ فی الحقیقت اللہ کے معبود ہونے میں تو کسی مذہب والے کو اختلاف ہی نہیں ۔ خود مشرکین اس کا اقرار کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم بتوں کی پرستش اس لئے کرتے ہیں کہ یہ ہم کو اللہ سے نزدیک کر دیں گے "مانعبدھم الا لیقربونا الی اللّٰہ زلفی (زمر۔ رکوع۱) اختلاف جو کچھ ہے غیر اللہ دونوں کی پرستش میں ہے۔ لہذا صلح کی جو صورت قریش نے پیش کی تھی اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ وہ تو برابر اپنی روش پر قائم رہیں ۔ یعنی اللہ اور غیر اللہ دونوں کی پرستش کیا کریں اور آپ اپنے مسلک توحید سے دستبردار ہو جائیں ۔ اسے گفتگوئے مصالحت کو ختم کرنے کے لئے یہ سورت اتاری گئی ہے۔
۳ ۔۔۔ یعنی خدا کے سوا جو معبود تم نے بنا رکھے ہیں میں فی الحال ان کو نہیں پوج رہا اور نہ تم اس احد و صمد خدا کو بلا شرکت غیرے پوجتے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں ۔
۵ ۔۔۔ یعنی آئندہ بھی میں تمہارے معبودوں کو کبھی پوجنے والا نہیں اور نہ تم میرے معبود واحد کی بلا شرکت غیرے پرستش کرنے والے ہو۔ مطلب یہ ہے کہ میں موحد نہیں قرار دیا جا سکتا نہ اب نہ آئندہ اور تم مشرک رہ کر موحد نہیں قرار دیئے جا سکتے نہ اب نہ آئندہ، اس تقریر کے موافق آیتوں میں تکرار نہیں رہی (تنبیہ) بعض علماء نے یہاں تکرار کو تاکید پر حمل کیا ہے اور بعض نے پہلے دو جملوں میں حال و استقبال کی نفی، اور اخیر کے دو جملوں میں ماضی کی نفی مراد لی ہے۔ کما صرح بہ الزمخشری اور بعض نے پہلے جملوں میں حال کا اور اخیر کے جملوں میں استقبال کا ارادہ کیا ہے۔ کمایظھر منالترجمۃ۔ لیکن بعض محققین نے پہلے دو جملوں میں "ما" موصولہ اور دوسرے دونوں جملوں میں "ما" کو مصدر یہ لے کر یوں تقریر کی ہے کہ میرے اور تمہارے درمیان معبود میں اشتراک ہے نہ طریق عبادت میں ۔ تم بتوں کو پوجتے ہو، وہ میرے معبود نہیں ، میں اس خدا کو پوجتا ہوں جس کی شان و صفت میں کوئی شریک نہ ہو سکے، ایسا خدا تمہارا معبود نہیں ۔ علیٰ ہذا القیاس تم جس طرح عبادت کرتے ہو، مثلاً ننگے ہو کر کعبہ کے گرد ناچنے لگے یا ذکر اللہ کی جگہ سیٹیاں اور تالیاں بجانے لگے، میں اس طرح کی عبادت کرنے والا نہیں ۔ اور میں جس شان سے اللہ کی عبادت بجا لاتا ہوں تم کو اس کی توفیق نہیں لہٰذا میرا اور تمہارا راستہ بالکل الگ الگ ہے اور احقر کے خیال میں یوں آتا ہے کہ پہلے جملے کو حال و استقبال کی نفی کے لئے رکھا جائے۔ یعنی میں اب یا آیندہ تمہارے معبودوں کی پرستش نہیں کر سکتا جیسا کہ تم مجھ سے چاہتے ہو۔ اور "ولا انا عابد ما عبدتم " کا مطلب (بقول حافظ ابن تیمیہرحمۃ اللہ) یہ لیا جائے کہ (جب میں خدا کا رسول ہوں تو) میری شان یہ نہیں اور نہ کسی وقت مجھ سے ممکن ہے (بامکان شرعی) کہ شرک کا ارتکاب کروں ۔ حتیٰ کہ گزشتہ زمانہ میں نزول وحی سے پہلے بھی جب تم سب پتھروں اور درختوں کو پوج رہے تھے، میں نے کسی غیر اللہ کی پرستش نہیں کی۔ پھر اب اللہ کی طرف سے نور وحی و بینات و ہدیٰ وغیرہ آنے کے بعد کہاں ممکن ہے کہ شرکیات میں تمہارا ہم نوا ہو جاؤں ۔ شاید اسی لئے یہاں "ولا انا عابد" میں جملہ اسمیہ، اور "ماعبدتم" میں صیغہء ماضی کا عنوان اختیار فرمایا۔ رہا کفار کا حال، اس کا بیان دونوں مرتبہ ایک ہی عنوان سے فرمایا۔ "ولا انتم عابدون ما اعبد۔" یعنی تم لوگ تو اپنی سوء استعداد اور انتہائی بد بختی سے اس لائق نہیں کہ کسی وقت اور کسی حال میں خدائے واحد کی بلا شرکت غیرے پرستش کرنے والے بنو۔ حتیٰ کہ عین گفتگوئے صلح کے وقت بھی شرک کا دم چھلا ساتھ لگائے رکھتے ہو۔ اور ایک جگہ "ماتعبدون" بصیغہ مضارع اور دوسری جگہ "ماعبدتم" بصیغہ ماضی لانے میں شاید اس طرف اشارہ ہو کہ ان کے معبود ہر روز بدلتے رہتے ہیں جو چیز عجیب سی نظر آئی یا کوئی خوبصورت سات پتھر نظر پڑا اس کو اٹھا کر معبود بنا لیا۔ اور پہلے کو رخصت کیا۔ پھر ہر موسم کا اور ہر کام کا جدامعبود ہے، ایک سفر کا، ایک حضر کا، ایک حضر کا، کوئی روٹی دینے والا، کوئی اولاد دینے والا، وقس علیٰ ہذٰا حافظ شمس الدین ابن قیم رحمۃ اللہ نے بدائع الفوائد میں اس سورت کے لطائف و مزا یا پر بہت نفیس کلام کیا ہے جس کو معارف قرآنی کا شوق ہو۔ اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہئے۔
۶ ۔۔۔ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ لکھتے ہیں ۔ "یعنی تم نے ضد باندھی اب سمجھانا کیا فائدہ کرے گا جب تک اللہ فیصلہ کریں " اب ہم تم سے بالکل بیزار ہو کر اسی فیصلہ کے منتظر ہیں ۔ اور جو دینِ قویم اللہ نے ہم کو مرحمت فرمایا ہے اس پر نہایت خوش ہیں ، تم نے اپنے لئے بدبختی سے جو روش پسند کی وہ تمہیں مبارک رہے۔ ہر ایک فریق کو اس کی راہ و روش کا نتیجہ مل رہے گا۔