۱ ۔۔۔ بڑی فیصلہ کن چیز یہ تھی کہ مکہ معظمہ (جو زمین پر اللہ کا دارالسلطنت ہے) فتح ہو جائے۔ اسی پر اکثر قبائلِ عرب کی نظریں لگی ہوئی تھی۔ اس سے پہلے ایک ایک دو دو آدمی اسلام میں داخل ہوتے تھے۔ فتح مکہ کے بعد جوق در جوق داخل ہونے لگے۔ حتیٰ کہ سارا جزیرہ عرب اسلام کا کلمہ پڑھنے لگا۔ اور جو مقصد نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے تھا پورا ہوا۔
۳ ۔۔۔ ۱: یعنی سمجھ لیجئے کہ مقصود بعثت کا اور دنیا میں رہنے کا (جو تکمیل دین و تمہیدِ خلافت کبریٰ ہے) پورا ہوا، اب سفرِ آخرت قریب ہے۔ لہٰذا ادھر سے فارغ ہو کر ہمہ تن ادھر ہی لگ جائیے اور پہلے سے بھی زیادہ کثرت سے اللہ کی تسبیح و تحمید اور ان فتوحات اور کامیابیوں پر اس کا شکر ادا کیجئے۔
۲: یعنی اپنے لئے اور امت کے لئے استغفار کیجئے۔ (تنبیہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا اپنے لئے استغفار کرنا پہلے کئی جگہ بیان ہو چکا ہے۔ وہیں دیکھ لیا جائے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ۔ "یعنی قرآن میں ہر جگہ وعدہ ہے فیصلہ کا، اور کافر شتائی کرتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی آخری عمر میں مکہ فتح ہو چکا، قبائلِ عرب دَل کے دَل مسلمان ہونے لگے۔ وعدہ سچا ہوا۔ اب امت کے گناہ بخشوایا کر کہ درجہ شفاعت کا بھی ملے۔ یہ سورت اتری آخر عمر میں ، حضرت نے جانا کہ میرا کام تھا دنیا میں کر چکا اب سفر ہے آخرت کا۔"