تفسیر مدنی

سُوۡرَةُ النّصر

(سورۃ النصر ۔ سورہ نمبر ۱۱۰ ۔ تعداد آیات ۳)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     جب آ جائے مدد اللہ کی اور وہ فتح (عظیم)

۲۔۔۔     اور آپ دیکھ لیں لوگوں کو (اے پیغمبر !) کہ وہ داخل ہو رہے ہیں اللہ کے دین میں فوج در فوج

۳۔۔۔     تو آپ اپنے رب کی تسبیح میں لگ جائیں اس کی حمد کے ساتھ اور اس سے بخشش مانگیں بے شک وہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا ہے

تفسیر

 

۱۔۔۔    یعنی الفتح پر جو الف لام ہے یہ عہد کا ہے اور اس سے مراد وہ فتح موعود و منتظر ہے جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں اور ان کے ساتھیوں سے فرمایا ہوتا ہے اور جو سنت خداوندی کا تقاضا ہے اور حضرات انبیاء ورسل علیہم الصلوٰۃ والسلام مشکل سے مشکل حالات اور کٹھن سے کٹھن مراحل میں بھی اس کی توقع اور انتظار رکھتے رہے اور اسی فتح کی طرف سورہ صف کی آیت نمبر۱۳ میں اشارہ فرمایا گیا ہے یہاں پر اللہ تعالیٰ کی نصرت اور فتح کا ذکر جس طریقے سے فرمایا گیا ہے اس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ کوئی بھی فتح اللہ تعالیٰ کی نصرت و امداد کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس لئے کسی کے لئے یہ بات جائز نہیں کہ وہ فتح و کامیابی کو اپنی لیاقت و قابلیت کا کرشمہ قرار دے اور اس پر اترانے لگے اور اس کو اپنی تدبیر اور مہارت کا نتیجہ قرار دینے لگے۔ بلکہ اس کو اللہ تعالیٰ ہی کی تدبیر و حکمت اور اس کی رحمت و عنایت سمجھ کر اس کا شکر ادا کرے۔

۲۔۔۔     فتح مکہ سے پہلے لوگ قبول اسلام کے لئے حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ڈرتے ڈرتے اور اکیلے اکیلے آتے تھے کیونکہ اس وقت تک صورت حال یہ تھی کہ اسلام قبول کرنا تو درکنار اسلام کے حق میں ہمدردی کا کوئی کلمہ کہنا بھی عام لوگوں کے لئے ایک خطرہ مول لینے کے مترادف تھا۔ اور اس وقت اسلام قبول کرنے کا حوصلہ وہی لوگ کر سکتے تھے جو پہاڑوں سے ٹکرا جانے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔ لیکن جب جبر واستبداد کی یہ فضا چھٹ گئی، ظلم و جبر کے پہاڑ پاش پاش ہو گئے اور مزاحمت ختم ہو گئی تو لوگ جوق در جوق اور فوج در فوج مدینے کی طرف اس طرح بڑھنا شروع ہو گئے جس طرح پیاسے پانی کی طرف بڑھتے ہیں سو اس میں فتح مکہ کی بشارت دی گئی۔ اور یہ کہ اس فتح سے مراد فتح مکہ ہی ہے۔ و الحمد للہ

۳۔۔۔     یعنی اس عظیم الشان نصرت اور فتح پر اترانے اور تکبر کرنے کے بجائے اپنے رب کی حمد و ثنا کے ساتھ اس کی تسبیح کریں، اور اپنی کوتاہیوں کی معافی مانگیں، اور اس سے بخشش کی توقع رکھیں، کہ وہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا ہے اس کے جو بندے صدق دل سے اس کی طرف رجوع کرتے اور اپنی کوتاہیوں کی بخشش مانگتے ہیں وہ اپنی رحمت و بخشش کے ساتھ ان کی طرف متوجہ ہوتا ہے سبحانہ و تعالیٰ۔