۱۔۔۔ یہ سورت بعض نہایت ضروری احکام و حدود، امثال و مواعظ، حقائق توحید اور بہت ہی اہم تنبیہات و اصلاحات پر مشتمل ہے اس کا سب سے زیادہ ممتاز اور سبق آموز حصہ وہ ہے جس کا تعلق قصہ "افک" سے ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر منافقین نے جو جھوٹی تہمت لگائی تھی اس میں بعض سادہ دل اور مخلص مسلمانوں کے پائے استقامت کو بھی قدرے لغزش ہو گئی تھی۔ جس کا خطرناک اثر نہ صرف عائشہ صدیقہ کی پوزیشن پر پڑتا تھا، بلکہ ایک حیثیت سے خود پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہِ مجدد شرف تک پہنچتا تھا، اس لیے ضروری ہوا کہ قرآن کریم پورے اہتمام اور قوت سے ایسی خوفناک غلط کاری یا غلط فہمی کی اصلاح کرے اور ہمیشہ کے لیے ایمانداروں کے کان کھول دے کہ آئندہ کبھی دشمنوں کے پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر ایسی ٹھوکر نہ کھائیں۔ پیغمبر علیہ السلام کا مرتبہ رفیع یا امہات المومنین کی پاک و محترم حیثیت ایسی نہیں جس کے سمجھنے اور یاد رکھنے میں کوئی مسلمان کسی وقت بھی ذرا سا تساہل روا رکھے۔ شاید اسی لیے سورت کا آغاز ان الفاظ سے فرمایا۔ " سُورَۃٌ اَنْزَلْنَاہَا وَفَرَضَنَاہَا الخ" تا مخاطبین سمجھ لیں کہ اس کے مضامین ایک خاص اہمیت رکھتے ہیں اور بہت زیادہ محفوظ رکھنے اور لازم پکڑنے کے مستحق ہیں۔ اور جو صاف صاف نصیحتیں اور کھری کھری باتیں اس سورت میں بیان فرمائی گئی ہیں، اس لائق ہیں کہ ہر مسلمان ان کو حرز جان بنائے اور یاد رکھے۔ ایک منٹ کے لیے اس سے غفلت نہ کرے ورنہ دین و دنیا کی تباہی ہے۔
۲۔۔۔ ۱: یہ سزا اس زانی اور زانیہ کی ہے جو آزاد، عاقل، بالغ اور نکاح کیے ہوئے نہ ہو یا نکاح کرنے کے بعد ہم بستری نہ کر چکے ہوں اور جو آزاد نہ ہو اس کے پچاس درے لگتے ہیں، اس کا حکم پانچویں پارہ کے اول رکوع کے ختم پر مذکور ہے۔ اور جو عاقل یا بالغ نہ ہو وہ مکلف ہی نہیں اور جس مسلمان میں تمام صفتیں موجود ہوں (حریت، بلوغ، عقل، نکاح اور ہم بستری سے فراغ) ایسے شخص کو "محصن"کہتے ہیں۔ اس کی سزا "رجم" (سنگسار کرنا) ہے جیسا کہ سورہ مائدہ میں "تورات" کے حوالہ سے فرمایا "وَکَیْفَ یُحَکِّمُونَکَ وَعِنْدَہُمْ التَّوراۃِ فِیْہَا حُکْمُ اللّٰہِ الخ" اور وہ حکم اللہ رجم تھا جیسا کہ وہاں کے فوائد میں گزر چکا۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اسی کے موافق فیصلہ کیا اور فرمایا "اَللّٰہُمَّ اِنِّی اَوَّلُ مَنْ اَحْیَآ اَمْرَکَ اِذَامَاتُوہٗ "(خدایا! میں پہلا شخص ہوں جس نے تیرے حکم کو زندہ کیا جبکہ وہ اسے مٹا چکے تھے) پھر نہ صرف ان یہود کو بلکہ جس قدر واقعات اس قسم کے پیش آئے ان سب میں زانی محصن کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ ہی رجم کی سزا دی، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم کا عمل برابر اسی قانونِ رجم پر رہا۔ بلکہ اہل السنت و الجماعت میں کسی ایک شخص نے بھی اس سے اختلاف کی جرأت نہ کی۔ گویا سنت متواترہ اور اجماع اہل حق نے بتلا دیا کہ اس مسئلہ میں شریعت محمدیہ نے تورات کے حکم کو باقی رکھا ہے جیسا کہ قتل عمد کی سزا قتل ہونا قرآن کریم نے بحوالہ تورات بیان فرمایا تھا "وَکَتَبْنَا عَلَیہِمْ فِیْہَا اَنَّ النَّفْسَ بِالَّنفْسِ" الخاور مرتدین کے قتل کا بنی اسرائیل کو حکم دینا سورہ "بقرہ" میں بیان کیا گیا۔ "فَتُوبُوا اِلیٰ بَارِئِکُمْ فَاقْتُلُوآ اَنْفُسَکُمْ" پھر ان ہی احکام کو امت محمدیہ کے حق میں بھی قائم رکھا گیا۔ شاید رجم محصن اور مسئلہ قصاص کو نقل کرنے کے بعد جو بڑی شدت و تاکید سے ترک حکم بما انزل اللہ کی برائی بیان فرمائی اور آخر میں ارشاد ہوا "وَاَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًالِّمَابَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتَابِ وَمُہَیْمِنًا عَلَیْہِ فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ الخ" اس سے یہ ہی غرض ہو کہ تورات کے یہ احکام اب قرآن کے زیر حفاظت ہیں جن کے قائم رکھنے میں پیغمبر کو کسی اہواء و آراء کی پروا نہیں کرنی چاہیے۔ چنانچہ نہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پروا کی نہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے خلفاء نے۔ حتیٰ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جب رجم محصن کے متعلق یہ اندیشہ ہوا بلکہ مکشوف ہو گیا کہ آگے چل کر بعض زائغین اس کا انکار کرنے لگیں گے (چنانچہ خوارج نے اور ہمارے زمانے کے ایک ممسوخ فرقہ نے کیا) تو آپ نے منبر پر چڑھ کر صحابہ و تابعین کے مجمع میں اس حکم خداوندی کا بہت شدومد سے اعلان فرمایا اور اس میں قرآن کی ایک آیت کا حوالہ دیا جس میں رجم محصن کا صریح حکم تھا اور جس کی تلاوت گو بعد میں منسوخ ہو گئی مگر حکم برابر باقی رہا۔ (تنبیہ) کسی آیت کا محض منسوخ التلاوت ہونا اور حکم باقی رہنا یہ ایک مستقل مسئلہ ہے جس کی تحقیق ان مختصر فوائد میں درج نہیں ہو سکتی۔ انشاء اللہ العزیز اگر مستقل تفسیر قرآن لکھنے کی نوبت آئی تو وہاں لکھا جائے گا۔
۲: یعنی اگر اللہ پر یقین رکھتے ہو تو اس کے احکام و حدود جاری کرنے میں کچھ پس و پیش نہ کرو۔ ایسا نہ ہو کہ مجرم پر ترس کھا کر سزا بالکل روک لو یا اس میں کمی کرنے لگو یا سزا دینے کی ایسی ہلکی اور غیر موثر طرز اختیار کرو کہ سزا سزا نہ رہے۔ خوب سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ حکیم مطلق اور تم سے زیادہ اپنے بندوں پر مہربان ہے اس کا کوئی حکم سخت ہو یا نرم مجموعہ عالم کے حق میں حکمت و رحمت سے خالی نہیں ہو سکتا۔ اگر تم اس کے احکام و حدود کے اجراء میں کوتاہی کرو گے تو آخرت کے دن تمہاری پکڑ ہو گی۔
۳: یعنی سزا تنہائی میں نہیں، مسلمانوں کے مجمع میں دینی چاہیے کیونکہ اس رسوائی میں سزا کی تکمیل و تشہیر اور دیکھنے سننے والوں کے لیے سامانِ عبرت ہے۔ اور شاید یہ بھی غرض ہو کہ دیکھنے والے مسلمان اس کی حالت پر رحم کھا کر عفو و مغفرت کی دعا کریں گے۔ واللہ اعلم۔
۳۔۔۔ ۱: زنا کی سزا ذکر کرنے کے بعد اس فعل کی غایت شناعت بیان فرماتے ہیں۔ یعنی جو مرد یا عورت اس عادت شنیع میں مبتلا ہیں حقیقت میں وہ اس لائق نہیں رہتے کہ کسی عفیف مسلمان سے ان کا تعلق ازدواج و ہمبستری قائم کی جائے ان کی پلید طبیعت اور میلان کے مناسب تو یہ ہے کہ ایسے ہی کسی بدکار و تباہ حال مرد عورت سے یا ان سے بھی بدتر کسی مشرک و مشرکہ سے ان کا تعلق ہو۔ کما قال تعالیٰ۔ اَلْخَبِیْثَاتُ لِلْخَبِیْثِےْنَ وَالْخَبِیْثُونَ لِلْخَبِیْثَاتِ وَالطَّیِّبَاتُ لِلطَّیِّبِیْنَ وَالطَّیِّبُونَ لِلطَّیِّبَاتِ۔ (سورہ نور'آیت ۲۶) کندہم جنس باہم جنس پرواز۔ کبوتر با کبوتر باز با باز۔ ان کی حرکت کا اصلی اقتضاء تو یہ ہی تھا۔ اب یہ جداگانہ امر ہے کہ حق تعالیٰ نے دوسری مصالح و حکم کی بنا پر کسی نام نہاد مسلمان کا مشرک و مشرکہ سے عقد جائز نہیں رکھا۔ یا مثلاً بدکار مرد کا پاکباز عورت سے نکاح ہو جائے تو بالکل باطل نہیں ٹھہرایا۔ (تنبیہ) آیت کی جو تقریر ہم نے کی وہ بالکل سہل اور بے تکلف ہے اس میں "لاینکح" کے معنی وہ لیے گئے جو "اَلْسُلْطَانُ لاَیَکْذِبُ" وغیرہ محاورات میں لیے جاتے ہیں۔ یعنی نفی لیاقت فعل کو نفی فعل کی حیثیت دے دی گئی۔ فاَفْہَمْ وَ اسْتَقِمْ۔
۲: یعنی زنا مومنین پر حرام ہے۔ ایک مومن مومن رہتے ہوئے یہ حرکت کیسے کرے گا۔ حدیث میں ہے "لاَیَزْنِی الزَّانِی حِیْنَ یَزْنِی وَہُوَ مُوْمِنُ " یا یہ مطلب ہو کہ زانیہ سے نکاح کرنا ان پاکباز مردوں پر حرام کر دیا گیا ہے جو صحیح اور حقیقی معنوں میں مومنین کہلانے کے مستحق ہیں۔ یعنی تکوینی طور پر ان کے پاک نفوس کو ایسی گندی جگہ کی طرف مائل ہونے سے روک دیا گیا ہے۔ اس وقت "حرم" کے معنی وہ ہوں گے جو "حَرَّمْنَا عَلَیہِ الْمَرَاضِعَ" میں، یا "حَرَامٌ عَلیٰ قَرْیَۃٍ اَہْلَکْنَا ہَا" میں لیے گئے ہیں۔ واللہ اعلم۔
۴۔۔۔ ۱: یعنی ایسی پاکدامن عورتوں کو زنا کی تہمت لگائیں جن کا بدکار ہونا کسی دلیل یا قرینہ شرعیہ سے ثابت نہیں۔ اس کی سزا بیان فرماتے ہیں اور یہ ہی حکم پاکباز مردوں پر تہمت لگانے کا ہے۔ چونکہ یہ آیات ایک عورت کے قصہ میں نازل ہوئیں اس لیے ان ہی کا ذکر فرمایا۔ اگر چار گواہ پیش کر دیے اور ان کی شہادت بقاعدہ شریعت پوری اتری تو مقذوف یا مقذوفہ پر حد زنا جاری کی جائے گی۔
۲: یہ سزا قاذف (تہمت لگانے والے) کی ہوئی کہ (مقذوف کے مطالبہ پر) اسی درے لگائے جائیں اور آئندہ ہمیشہ کے لیے (معاملات) میں مردود الشہادت قرار دیا جائے۔ حنفیہ کے نزدیک توبہ کے بعد بھی اس کی شہادت معاملات میں قبول نہیں کی جا سکتی۔
۳: اگر واقعی جان بوجھ کر جھوٹی تہمت لگائی تھی تب تو ان کا فاسق و نافرمان ہونا ظاہر ہے اور اگر واقعی سچ بیان کیا تھا لیکن جانتے تھے کہ چار گواہوں سے ہم اپنا دعویٰ ثابت نہیں کر سکیں گے تو ایسی بات کا اظہار کرنے سے بجز ایک مسلمان کی آبرو ریزی اور پردہ دری کے کیا مقصود ہوا جو بجائے خود ایک مستقل گناہ ہے اور علماء نے اس کو کبائر میں شمار کیا ہے۔
۵۔۔۔ یعنی توبہ اور اصلاح حال کے بعد اللہ کے نافرمان بندوں میں اس کا شمار نہ رہے گا۔ گو پچھلے قذف کی سزا میں مردود الشہادت پھر بھی رہے۔ یہ ہی مذہب سلف میں سے قاضی شریح، ابراہیم نخعی، سعید بن جبیر، کحول، عبدالرحمن بن زید بن جابر، حسن بصری، محمد بن سیرین اور سعید بن المسیب رحمہم اللہ کا ہے۔ کما فی الدرالمنثو وابن کثیر۔
۶۔۔۔ یعنی زنا کی تہمت لگائے یا اپنے بچہ کو کہے کہ یہ میرے نطفہ سے نہیں۔
۹۔۔۔ یعنی جو اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائے اولاً اس سے چار گواہ طلب کیے جائیں گے، اگر پیش کر دے تو عورت پر حد زنا جاری کر دی جائے گی۔ اگر گواہ نہ لا سکا تو اس کو کہا جائے گا کہ چار مرتبہ قسم کھا کر بیان کرے کہ وہ اپنے دعوے میں سچا ہے (یعنی جو تہمت اپنی بیوی پر لگائی ہے اس میں جھوٹ نہیں بولا) گویا چار گواہوں کی جگہ خود اس کی یہ چار حلفیہ شہادتیں ہوئیں اور آخر میں پانچویں مرتبہ یہ الفاظ کہنے ہوں گے کہ "اگر وہ اپنے دعوے میں جھوٹا ہو تو اس پر خدا کی لعنت اور پھٹکار" اگر الفاظ مذکورہ بالا کہنے سے انکار کرے تو حبس کا کیا جائے گا اور حاکم اس کو مجبور کرے گا کہ یا اپنے جھوٹے ہونے کا اقرار کرے، تو حد قذف لگے گی جو اوپر گزری۔ اور یا پانچ مرتبہ وہ ہی الفاظ کہے جو اوپر مذکور ہوئے۔ اگر کہہ لیے تو پھر عورت سے کہا جائے گا کہ وہ چار مرتبہ قسم کھا کر بیان کرے کہ "یہ مرد تہمت لگانے میں جھوٹا ہے" اور پانچویں دفعہ یہ الفاظ کہے کہ "اللہ کا غضب آوے اس عورت پر اگر یہ مرد اپنے دعوے میں سچا ہو" تاوقتیکہ عورت یہ الفاظ کہے گی اس کو قید میں رکھیں گے اور مجبور کریں گے کہ یا صاف طور پر مرد کے دعوے کی تصدیق کرے تب تو حد زنا اس پر جاری ہو گی، اور یا بالفاظ مذکورہ بالا اس کی تکذیب کرے۔ اگر اس نے بھی مرد کی طرح یہ الفاظ کہہ دیے اور "لعان" سے فراغت ہوئی تو اس عورت سے صحبت اور داعی صحبت سب حرام ہو گئے۔ پھر اگر مرد نے اس کو طلاق دے دی فبہا ورنہ قاضی ان میں تفریق کر دے۔ گو دونوں رضامند نہ ہوں۔ یعنی زبان سے کہہ دے کہ میں نے ان میں تفریق کی۔ اور یہ تفریق طلانِ بائن کے حکم میں ہو گی۔ (تنبیہ) زوجین سے اس طرح الفاظ کہلوانے کو شریعت میں "لعان" کہتے ہیں اور لعان صرف قذفِ ازواج کے ساتھ مخصوص ہے عام محصنات کے قذف کا وہ ہی حکم ہے جو اوپر کی آیات میں مذکور ہو چکا۔
۱۰۔۔۔ یعنی اگر یہ حکم لعان مشروع نہ ہوتا تو قذف کے عام قاعدہ کے موافق زوج پر حد قذف آتی اور یا ساری عمر خون کے گھونٹ پیتا۔ کیونکہ ممکن ہے وہ سچا ہو۔ بخلاف غیر شوہر کے کہ وہ اظہار میں مضطر نہیں، اس لیے اس کے قانون میں ان امور کی رعایت ضروری نہیں۔ دوسری طرف اگر محض خاوند کے قسمیں کھانے پر زنا کا ثبوت ہو جایا کرتا تو عورت کی سخت مصیبت تھی، حالانکہ ممکن ہے وہ ہی سچی ہو۔ اسی طرح اگر عورت کو قسمیں کھانے پر یقیناً بری سمجھ لیا جاتا تو مرد پر حدقذف واجب ہو جاتی باوجود یہ کہ اس کے صادق ہونے کا بھی مساوی احتمال موجود ہے پس ایسے طور پر لعان کا مشروع کرنا کہ سب کی رعایت رہے۔ یہ اثر ہے حق تعالیٰ کے فضل و رحمت اور حکمت کا کیونکہ فریقین میں سے جو سچا ہو وہ بے محل سزا سے بچ گیا۔ اور جھوٹے کی دنیا میں پردہ پوشی کر کے مہلت دی گئی کہ شاید توبہ کرے۔ پھر اس کی توبہ کا قبول کر لینا یہ اثر صفت توابیت کا ہوا۔
۱۱۔۔۔ ۱: یہاں سے اس طوفان کا ذکر ہے جو حضرت عائشہ صدیقہ پر اٹھایا گیا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ۶ھ میں غزوہ بنی المصطلق سے واپس مدینہ تشریف لا رہے تھے، حضرت عائشہ صدیقہ بھی ہمراہ تھیں، ان کی سواری کا اونٹ علیحدہ تھا، وہ ہودہ میں پردہ چھوڑ کر بیٹھ جاتیں۔ جمال ہودے کو اونٹ پر باندھ دیتے۔ ایک منزل پر قافلہ ٹھہرا ہوا تھا، کوچ سے ذرا پہلے حضرت عائشہ کو قضاء حاجت کی ضرورت پیش آئی۔ جس کے لیے قافلہ سے علیحدہ ہو کر جنگل کی طرف تشریف لے گئیں، وہاں اتفاق سے ان کا ہار ٹوٹ کر گر گیا۔ اس کی تلاش میں دیر لگ گئی۔ یہاں پیچھے کوچ ہو گیا۔ جمال حسب عادت اونٹ پر ہودہ باندھنے آئے، اور اس کے پردے پڑے رہنے سے گمان کیا کہ حضرت عائشہ اس میں تشریف رکھتی ہیں۔ اٹھاتے وقت بھی شبہ نہ ہوا۔ کیونکہ ان کی عمر تھوڑی تھی اور بدن بہت ہلکا پھلکا تھا۔ غرض جمالوں نے ہودہ باندھ کر اونٹ کو چلتا کر دیا۔ حضرت عائشہ واپس آئیں تو وہاں کوئی نہ تھا۔ نہایت استقلال سے انہوں نے یہ رائے قائم کی کہ یہاں سے اب جانا خلاف مصلحت ہے۔ جب آگے جا کر میں نہ ملوں گی تو یہیں تلاش کرنے آئیں گے۔ آخر وہیں قیام کیا، رات کا وقت تھا، نیند کا غلبہ ہوا وہیں لیٹ گئیں حضرت صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ گرے پڑے کی خبر گیری کی غرض سے قافلہ کے پیچھے کچھ فاصلہ سے رہا کرتے تھے، وہ اس موقع پر صبح کے وقت پہنچے۔ دیکھا کوئی آدمی پڑا سوتا ہے۔ قریب آ کر پہچانا کہ حضرت عائشہ ہیں (کیونکہ پردہ کا حکم آنے سے پہلے انہوں نے ان کو دیکھا تھا) دیکھ کر گھبرا گئے اور "اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا ِالَیْہِ رَاجِعُون"پڑھا۔ جس سے ان کی آنکھ کل گئی فوراً چہرہ چادر سے ڈھانک لیا۔ حضرت صفوان نے اونٹ ان کے قریب لا کر بٹھلا دیا۔ یہ اس پر پردہ کے ساتھ سوار ہو گئیں۔ انہوں نے اونٹ کی نکیل پکڑ کر دوپہر کے وقت قافلہ سے جا ملایا۔ عبد اللہ بن ابی بڑا خبیث، بدباطن، اور دشمن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا تھا، اسے ایک بات ہاتھ لگ گئی اور بدبخت نے واہی تباہی بکنا شروع کیا۔ اور بعض بھولے بھالے مسلمان بھی (مثلاً مردوں میں سے حضرت حسان، حضرت مسطح، اور عورتوں میں سے حضرت حمنہ بنت جحش) منافقین کے مغویان پراپیگنڈا سے متاثر ہو کر اس قسم کے افسوس ناک تذکرے کرنے لگے۔ عموماً مسلمانوں کو اور خود جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو اس قسم کے واہیات تذکروں اور شہرتوں سے سخت صدمہ تھا۔ ایک مہینہ تک یہ ہی چرچا رہا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم سنتے اور بغیر تحقیق کچھ نہ کہتے، مگر دل میں خفا رہتے۔ ایک ماہ بعد ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اس شہرت کی اطلاع ہوئی شدت غم سے بیتاب ہو گئیں اور بیمار پڑ گئیں۔ شب و روز روتی تھیں۔ ایک منٹ کے لیے آنسو نہ تھمتے تھے۔ اسی دوران میں بہت سے واقعات پیش آئے اور گفتگوئیں ہوئیں جو صحیح بخاری وغیرہ میں مذکور ہیں اور پڑھنے کے قابل ہیں۔ آخر حضرت صدیقہ کی برأت میں خود حق تعالیٰ نے قرآن کریم میں سورہ "نور" کی یہ آیتیں "اِنَّ الَّذِیْنَ جَآءُ وَبِالْاِ فْکِ" الخ سے دور تک نازل فرمائیں جس پر عائشہ صدیقہ فخر کیا کرتی تھیں اور بلاشبہ جتنا فخر کریں تھوڑا تھا۔
۲: یعنی طوفان اٹھانے والے خیر سے وہ لوگ ہیں جو جھوٹ یا سچ اسلام کا نام لیتے اور اپنے کو مسلمان بتلاتے ہیں۔ ان میں سے چند آدمیوں نے مل کر یہ سازش کی اور کچھ لوگ نادانستہ ان کی عیارانہ سازش کا شکار ہو گئے۔ تاہم خدا کا احسان ہے کہ جمہور مسلمان ان کے جال میں نہیں پھنسے۔
۳: یہ خطاب ان مسلمانوں کی تسلی کے لیے ہے جنہیں اس واقعہ سے صدمہ پہنچا تھا بالخصوص عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور ان کے گھرانا کہ ظاہر ہے وہ سخت غمزدہ اور پریشان تھے۔ یعنی گو بظاہر یہ چرچا بہت مکروہ، رنجیدہ اور ناخوشگوار تھا۔ لیکن فی الحقیقت تمہارے لیے اس کی تہ میں بڑی بہتری چھپی ہوئی تھی۔ آخر اتنی مدت تک ایسے جگر خراش حملوں اور ایذاؤں پر صبر کرنا کیا خالی جا سکتا ہے۔ کیا یہ شرف تھوڑا ہے کہ خود حق تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں تمہاری نزاہت و برأت اتاری۔ اور دشمنوں کو رسوا کیا اور قیامت تک کے لیے تمہارا ذکر خیر قرآن پڑھنے والوں کی زبان پر جاری کر دیا۔ اور مسلمانوں کو پیغمبر علیہ السلام کی ازواج و اہل بیت کا حق پہچاننے کے لیے ایسا سبق دیا جو کبھی فراموش نہ ہو سکے۔ فَلِلّٰہ الحمد علیٰ ذلک۔
۴: یعنی جس شخص نے اس فتنہ میں جس قدر حصہ لیا اسی قدر گناہ سمیٹا اور سزا کا مستحق ہوا۔ مثلاً بعض خوش ہو کر اور خوب مزے لے کر ان واہیات باتوں کا تذکرہ کرتے تھے۔ بعض اظہار افسوس کے طرز میں، بعض چھیڑ کر مجلس میں چرچا اٹھا دیتے آپ صلی اللہ علیہ و سلم خود چپکے سنا کرتے۔ بعض سن کر تردد میں پڑ جاتے، بہت سے خاموش رہتے اور بہت سے سن کر جھٹلا دیتے۔ ان پچھلوں کو پسند فرمایا اور سب کو درجہ بدرجہ کم و بیش الزام دیا۔ اور بڑا بوجھ اٹھانے والا منافقوں کا سردار عبد اللہ بن ابی تھا جیسا کہ روایات کثیرہ میں تصریح ہے۔ یہ ہی خبیث لوگوں کو جمع کرتا اور ابھارتا اور نہایت چالاکی سے خود دامن بچا کر دوسروں سے اس کی اشاعت کرایا کرتا تھا۔ اس کے لیے آخرت میں بڑا عذاب تو ہے ہی، دنیا میں بھی ملعون خوب ذلیل و رسوا ہوا اور قیامت تک اسی ذلت و خواری سے یاد کیا جائے گا۔
۱۲۔۔۔۱: مسلمان کو چاہیے کہ اپنے مسلمان بھائی بہنوں کے ساتھ حسن ظن رکھے۔ اور جب سنے کہ لوگ ایک نیک شخص پر یوں ہی رجماً بالغیب بری تہمتیں لگاتے ہیں تو اپنے دل میں ایسے خیالات کو راہ نہ دے بلکہ ان کو جھٹلائے۔ پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا کہ جو کوئی پیٹھ پیچھے بھائی مسلمان کی مدد کرے۔ اللہ پیٹھ پیچھے اس کی مدد کرے گا۔ بے تحقیق تہمتیں تراشنا ایمان سے بعید ہے۔ چاہیے کہ آدمی خود اپنی آبرو پر دوسروں کی آبرو کو قیاس کر لے۔ جیسا کہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ وغیرہ نے قصہ "افک" میں کیا۔ ایک روز ان کی بیوی نے کہا کہ لوگ عائشہ صدیقہ کی نسبت ایسا کہتے ہیں، انہوں نے فرمایا کہ جھوٹے ہیں۔ کیا ایسا کام تو کر سکتی ہے؟ بولی ہرگز نہیں۔ فرمایا پھر (صدیق کی بیٹی اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بیوی) عائشہ صدیقہ تجھ سے کہیں بڑھ کر پاک و صاف اور طاہر و مطہر ہیں، ان کی نسبت بے وجہ ایسا گمان کیوں کیا جائے۔
۲: یعنی اللہ کے حکم اور اس کی شریعت کے موافق وہ لوگ جھوٹے قرار دیے گئے ہیں۔ جو کسی پر بدکاری کی تہمت لگا کر چار گواہ پیش نہ کر سکیں اور بدون کافی ثبوت کے ایسی سنگین بات زبان سے بکتے پھریں۔
۱۴۔۔۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اس امت کو پیغمبر کے طفیل دنیا کے عذابوں سے بچایا ہے۔ نہیں تو یہ بات قابل تھی عذاب کے۔ (موضح القرآن) نیز تم میں سے مخلصین کو توبہ کی توفیق دے کر خطا معاف کر دی ورنہ منافقین کی طرح وہ بھی قیامت کے دن عذابِ عظیم میں گرفتار ہوتے۔ (العیاذ باللہ)
۱ ۵۔۔۔ یعنی عذابِ عظیم کے مستحق کیوں نہ ہوتے جبکہ تم ایسی بے تحقیق اور ظاہر البطلان بات کو ایک دوسرے کی طرف چلتا کر رہے تھے۔ اور زبان سے وہ اٹکل پچو باتیں نکالتے تھے جن کی واقعیت کی تمہیں کچھ خبر نہ تھی۔ پھر طرفہ یہ ہے کہ ایسی سخت بات کو (یعنی کسی محصنہ خصوصاً پیغمبر علیہ السلام کی زوجہ مطہرہ اور مومنین کی روحانی والدہ کو مہتم کرنا) جو اللہ کے نزدیک بہت بڑا سنگین جرم ہے محض ایک ہلکی اور معمولی بات سمجھنا، یہ اصل جرم سے بھی بڑھ کر جرم تھا۔
۱۶۔۔۔ یعنی اول تو حسن ظن کا اقتضاء یہ تھا کہ دل میں بھی یہ خیال نہ گزرنے پائے۔ جیسا کہ اوپر ارشاد ہوا۔ لیکن اگر شیطانی اغواء سے فرض کیجئے کسی کے دل میں کوئی برا وسوسہ گزرے تو پھر یہ جائز نہیں کہ ایسی ناپاک بات زبان پر لائی جائے۔ چاہیے کہ اس وقت مومن اپنی حیثیت اور دیانت کو ملحوظ رکھے اور صاف کہہ دے کہ ایسی بے سروپا بات کا زبان سے نکالنا مجھ کو زیب نہیں دیتا۔ اے اللہ تو پاک ہے۔ کسی طرح لوگ ایسی نامعقول بات منہ سے نکالتے ہیں۔ بھلا جس پاکباز خاتون کو تو نے سید الانبیاء اور راس المتقین کی زوجیت کے لیے چنا، کیا وہ (معاذ اللہ) خود بے آبرو ہو کر پیغمبر کی آبرو کو بٹہ لگائے گی (حاشاہا ثم حاشاہا) ہو نہ ہو دشمنوں نے ایک بے قصور پر بہتان باندھا ہے۔
۱۷۔۔۔ یعنی مومنین کو پوری طرح چوکس اور ہوشیار رہنا چاہیے۔ بد باطن منافقین کے چکموں میں کبھی نہ آئیں۔ ہمیشہ پیغمبر علیہ السلام اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اہل بیت کی عظمت شان کو ملحوظ رکھیں۔
۱۸۔۔۔ یعنی پتہ اس کا کہ یہ طوفان اٹھایا کس نے۔ معلوم ہوا کہ منافقین نے جو ہمیشہ چھپے دشمن تھے۔ اگلی آیت میں پتہ بتلا دیا۔ (کذافی الموضح) عموماً مفسرین نے آیات سے مراد احکام، نصائح، حدود اور قبول توبہ وغیرہ کے مضامین لیے ہیں۔ اس وقت صفات علم و حکمت کے ذکر سے یہ غرض ہو گی کہ اللہ تعالیٰ تم میں سے مخلصین کی ندامت قلبی کا حال خوب جانتا ہے۔ اس لیے توبہ قبول کی اور چونکہ حکیم مطلق ہے اس لیے نہایت حکمت و دانائی کے ساتھ تمہاری سیاست کی گئی۔
۱۹۔۔۔ ۱: یعنی بدکاری پھیلے یا بدکاری کی خبریں پھیلیں۔ یہ چاہنے والے منافقین تھے۔ لیکن ان کا تذکرہ کر کے مومنین کو بھی متنبہ فرما دیا کہ اگر فرض کرو کسی کے دل میں ایک بات کا خطرہ گزرا اور بے پروائی سے کوئی لفظ زبان سے بھی کہہ گزرا تو چاہیے کہ اب ایسی مہمل بات کا چرچا کرتا نہ پھرے۔ اگر خواہی نہ خواہی کسی مومن کی آبروریزی کرے گا تو خوب سمجھ لے کہ اس کی آبرو بھی محفوظ نہ رہے گی۔ حق تعالیٰ اسے ذلیل و خوار کر کے چھوڑے گا۔ کما فی حدیث احمد رحمہ اللہ۔
۲: دنیا میں حد قذف، رسوائی اور قسم قسم کی سزائیں اور آخرت میں دوزخ کی سزا۔
۳: یعنی اسے فتنہ پردازوں کو خدا خوب جانتا ہے گو تم نہ جانتے ہو۔ اور یہ بھی اسی کے علم میں ہے کہ کس کا جرم کتنا ہے اور کس کی کیا غرض ہے (تنبیہ) جب شیوع فاحشہ، حسد و کینہ وغیرہ کی طرح اعمال قلبیہ میں سے ہے مراتب قصد میں سے نہیں۔ اس لیے اس پر ماخوذ ہونے میں اختلاف نہ ہونا چاہیے۔ فتنبہ لہ۔
۲۰۔۔۔ یعنی یہ طوفان تو ایسا اٹھا تھا کہ نہ معلوم کون کون اس کی نذر ہوتے، لیکن اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و رحمت اور شفقت و مہربانی سے تم سے تائبین کی توبہ کو قبول فرمایا اور بعض کو حد شرعی جاری کر کے پاک کیا اور جو زیادہ خبیث تھے ان کو ایک گو نہ مہلت دی۔
۲۱۔۔۔ ۱: یعنی شیطان کی چالوں سے ہوشیار رہا کرو۔ مسلمان کا یہ کام نہیں ہونا چاہیے کہ شیاطین الانس و الجن کے قدم بقدم چلنے لگے۔ ان ملعونوں کا تو مشن ہی یہ ہے کہ لوگوں کو بے حیائی اور برائی کی طرف لے جائیں۔ تم جان بوجھ کر کیوں ان کے بھرے میں آتے ہو۔ دیکھ لو شیطان نے ذرا سا چرکا لگا کر کتنا بڑا طوفان کھڑا کر دیا اور کئی سیدھے سادھے مسلمان کس طرح اس کے قدم پر چل پڑے۔
۲: یعنی شیطان تو سب کو بگاڑ کر چھوڑتا ایک کو بھی سیدھے راستہ پر نہ رہنے دیتا۔ یہ تو خدا کا فضل اور اس کی رحمت ہے کہ وہ اپنے مخلص بندوں کی دستگیری فرما کر بہتیروں کو محفوظ رکھتا ہے اور بعض کو مبتلا ہو جانے کے بعد توبہ کی توفیق دے کر درست کر دیتا ہے۔ یہ بات اسی خدائے واحد کے اختیار میں ہے اور وہ ہی اپنے علم محیط اور حکمت کاملہ سے جانتا ہے کہ کون بندہ سنوارے جانے کے قابل ہے اور کس کی توبہ قبول ہونی چاہیے۔ وہ سب کی توبہ وغیرہ کو سنتا اور ان کی قلبی کیفیات سے پوری طرح آگاہ ہے۔
۲۲۔۔۔ حضرت عائشہ پر طوفان اٹھانے والوں میں بعض مسلمان بھی نادانی سے شریک ہو گئے۔ ان میں سے ایک حضرت مسطح تھے جو ایک مفلس مہاجر ہونے کے علاوہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بھانجے یا خالہ زاد بھائی ہوتے ہیں۔ قصہ "افک" سے پہلے حضرت صدیق اکبر ان کی امداد اور خبر گیری کیا کرتے۔ جب یہ قصہ ختم ہوا اور عائشہ صدیقہ کی برأت آسمان سے نازل ہو چکی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قسم کھائی کہ آئندہ مسطح کی امداد نہ کروں گا۔ شاید بعض دوسرے صحابہ کو بھی ایسی صورت پیش آئی ہو۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ یعنی تم میں سے جن کو اللہ تعالیٰ نے دین کی بزرگی اور دنیا کی وسعت دی ہے انہیں لائق نہیں کہ ایسی قسم کھائیں ان کا ظرف بہت بڑا اور ان کے اخلاق بہت بلند ہونے چاہیں۔ محتاج رشتہ داروں اور خدا کے لیے وطن چھوڑنے والوں کی اعانت سے دستکش ہو جانا بزرگوں اور بہادروں کا کام نہیں۔ اگر قسم کھا لی ہے تو ایسی قسم کو پورا مت کرو۔ اس کا کفارہ ادا کر دو۔ تمہاری شان یہ ہونی چاہیے کہ خطا کاروں کی خطا سے اغماض اور درگزر کرو۔ ایسا کرو گے تو حق تعالیٰ تمہاری کوتاہیوں سے درگزر کرے گا۔ کیا تم حق تعالیٰ سے عفو و درگزر کی امید اور خواہش نہیں رکھتے؟ اگر رکھتے ہو تو تم کو اس کے بندوں کے معاملہ میں یہ ہی خو اختیار کرنی چاہیے۔ گویا اس میں "تخلق بِاَخْلَاق اللّٰہِ" کی تعلیم ہوئی۔ احادیث میں ہے کہ حضرت ابوبکر نے جب سنا "الاتُحِبُّونَ اَنْ یَّغْفِرَاللّٰہُ لَکُمْ " (کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تم کو معاف کرے؟) تو فوراً بول اٹھے۔ "بَلیٰ یَارَبَّنَا اِنَّا نُحِبُّ" (بیشک اے پروردگار! ہم ضرور چاہتے ہیں) یہ کہہ کر مسطح کی جو امداد کرتے تھے بدستور جاری فرما دی، بلکہ بعض روایات میں ہے کہ پہلے سے دگنی کر دی۔ رضی اللہ عنہ۔
۲۳۔۔۔ صحیحین کی حدیث میں ہے۔ "اِجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُوْبِقَات الشِّرْکِ بِاللّٰہ وَقَتْلَ النَّفْسُ الَّتِی حَرَّمَ اللّٰہ اِلَّا بِالْحَقِّ وَاَکْلَ الرِّبٰوا وَاَکْلَ مَالِ الْیَتِیْم وَالتَّوَلّی یَوْمَ الزَّحْفِ وَقَذْفَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُوْمِنَاتِ الْغَافِلَاتِ۔" اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قذفِ محصنات مطلقاً مہلکات میں سے ہے۔ پھر ان میں سے بھی ازواج مطہرات بالخصوص ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کا قذف تو کس درجہ کا گناہ ہو گا، علماء نے تصریح کی ہے کہ ان آیات کے نزول کے بعد جو شخص عائشہ صدیقہ یا ازواج مطہرات میں سے کسی کو متہم کرے وہ کافر، مکذبِ قرآن اور دائرہ اسلام سے خارج ہے اور طبرانی کی ایک حدیث میں ہے۔"قَذَفَ الْمُحْصَنَۃِ یَہْدِمُ عَمَلَ مِائَۃِ سَنَۃٍ" (محصنہ پر تہمت لگانا سو برس کے عمل کو ڈھا دیتا ہے)۔ العیاذ باللہ۔
۲۴۔۔۔ یعنی مجرم منہ سے بولنا اور ظاہر کرنا نہ چاہے گا۔ مگر خود زبان اور ہاتھ پاؤں بولیں گے اور ان میں سے ہر عضو اس عمل کو ظاہر کرے گا جو اس کے ذریعہ سے کیا گیا تھا (لطیفہ) قاذف نے زبان سے تہمت لگائی تھی اور چار گواہوں کا اس سے مطالبہ تھا جو پورا نہ کر سکا۔ اس کے بالمقابل یہاں یہی پانچ چیزیں ذکر ہوئیں۔ ایک زبان جو قذف کا اصلی آلہ ہے اور چار ہاتھ پاؤں جو اس کی شرارت کے گواہ ہوں گے۔
۲ ۵۔۔۔ جو رتی رتی عمل کھول کر سامنے رکھ دیتا ہے اور جس کا حساب بالکل صاف ہے اس کے ہاں کسی طرح کا ظلم و تعدی نہیں۔ یہ مضمون قیامت کے دن سب کو مکشوف و مشہود ہو جائے گا۔
۲۶۔۔۔ ۱: یعنی بدکار اور گندی عورتیں گندے اور بدکار مردوں کے لائق ہیں۔ اسی طرح بدکار اور گندے مرد اس قابل ہیں کہ ان کا تعلق اپنے جیسی گندی اور بدکار عورتوں سے ہو۔ پاک اور ستھرے آدمیوں کا ناپاک بدکاروں سے کیا مطلب۔ ابن عباس نے فرمایا کہ پیغمبر کی عورت بدکار (زانیہ) نہیں ہوتی، یعنی اللہ تعالیٰ ان کی ناموس کی حفاظت فرماتا ہے۔ نقلہ فی موضح القرآن۔ (تنبیہ) آیت کا یہ مطلب تو ترجمہ کے موافق ہوا۔ مگر بعض مفسرین سلف سے یہ منقول ہے کہ "الخبیثات" اور "الطیبات" سے یہاں عورتیں مراد نہیں۔ بلکہ اقوال و کلمات مراد ہیں۔ یعنی گندی باتیں گندوں کے لائق ہیں۔ اور ستھری باتیں ستھرے آدمیوں کے۔ پاکباز اور ستھرے مرد و عورت ایسی گندی تہمتوں سے بری ہوتے ہیں جیسا کہ آگے "اُوْلٰئِکَ مُبَرَّءُ وْنَ مِمَّا یَقُوْلُونَ"سے ظاہر ہے۔ یا یوں کہا جائے کہ گندی باتیں گندوں کی زبان سے نکلا کرتی ہیں تو جنہوں نے کسی پاکباز کی نسبت گندی بات کہی، سمجھ لو کہ وہ خود گندے ہیں۔
۲: یعنی ستھرے آدمی ان باتوں سے بری ہیں جو یہ گندے لوگ بکتے پھرتے ہیں۔
۳: یعنی برا کہنے سے وہ برے نہیں ہو جاتے، بلکہ جب وہ اس پر صبر کرتے ہیں تو یہ چیز ان کی خطاؤں یا لغزشوں کا کفارہ بنتی ہے۔ اور یہاں مفسد لوگ جس قدر ان کو ذلیل کرنا چاہتے ہیں وہاں اس کے بدلہ میں عزت کی روزی ملتی ہے۔
۲۷۔۔۔ یعنی خاص اپنے ہی رہنے کا جو گھر ہو اس کے سوا کسی دوسرے کے رہنے کے گھر میں یوں ہی بے خبر نہ گھس جائے کیا جانے وہ کس حال میں ہو اور اس وقت کسی کا اندر آنا پسند کرتا ہے یا نہیں۔ لہٰذا اندر جانے سے پہلے آواز دے کر اجازت حاصل کرے اور سب سے بہتر آواز سلام کی، حدیث میں ہے کہ تین مرتبہ سلام کرے اور اجازت داخل ہونے کی لے۔ اگر تین بار سلام کرنے کے بعد بھی اجازت نہ ملے تو واپس چلا جائے۔ فی الحقیقت یہ ایسی حکیمانہ تعلیم ہے کہ اگر اس کی پابندی کی جائے تو صاحب خانہ اور ملاقاتی دونوں کے حق میں بہتر ہے۔ مگر افسوس آج مسلمان ان مفید ہدایات کو ترک کرتے جاتے ہیں۔ جن کو دوسری قومیں ان ہی سے سیکھ کر ترقی کر رہی ہیں۔ (ربط) شروع سورت سے احکامِ زنا و قذف وغیرہ بیان ہوئے تھے۔ چونکہ بسا اوقات بلا اجازت کسی کے گھر میں چلا جانا ان امور کی طرف مفضی ہو جاتا ہے، اس لیے ان آیات میں مسائل استیذان کو بیان فرمایا۔
۲۸۔۔۔ ۱: اگر یہ معلوم ہوا ہو کہ گھر میں کوئی موجود نہیں تب بھی دوسرے کے گھر میں بدون مالک و مختار کی اجازت کے مت جاؤ۔ کیونکہ ملک غیر میں بدون اجازت تصرف کا کوئی حق نہیں۔ نہ معلوم بے اجازت چلے جانے سے کیا جھگڑا پیش آ جائے ہاں صراحتًا یا دلالۃً اجازت ہو تو جانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
۲: یعنی ایسا کہے سے برا نہ مانو۔ بسا اوقات آدمی کی طبیعت کسی سے ملنے کو نہیں چاہتی یا حرج ہوتا ہے یا کوئی ایسی بات کر رہا ہے جس پر غیر کو مطلع کرنا پسند نہیں کرتا تو تم کو کیا ضرورت ہے کہ خواہ مخواہ اس پر بوجھ ڈالو۔ اس طرح بارِ خاطر بننے سے تعلقات صاف نہیں رہتے۔
۳: وہ تمہارے تمام اعمال قلبیہ و قالبیہ سے باخبر ہے جیسا کچھ کرو گے اور جس نیت سے کرو گے حق تعالیٰ اس کے مناسب جزا دے گا۔ اور اس نے اپنے علم محیط سے تمام امور کی رعایت کر کے یہ احکام دیے ہیں۔
۲۹۔۔۔ ۱: یعنی جن مکانوں میں کوئی خاص آدمی نہیں رہتا، نہ کوئی روک ٹوک ہے مثلاً مسجد، مدرسہ، خانقاہ، سرائے وغیرہ۔ اگر وہاں تمہاری کوئی چیز ہے یا تم کو چندے اس کے برتنے کی ضرورت ہے تو بیشک وہاں جا سکتے ہو اور اس کے لیے استیذان کی ضرورت نہیں۔ اس طرح کے مسائل کی تفصیل فقہ میں دیکھی جائے۔
۲: اس نے تمہارے تمام کھلے چھپے حالات کی رعایت سے یہ احکام مشروع کیے ہیں جن سے مقصود فتنہ و فساد کے مداخل کو بند کرنا ہے۔ مومن کو چاہیے کہ اپنے دل میں اسی غرض کو پیش نظر رکھ کر عمل کرے۔
۳۰۔۔۔ ۱: بد نظری عموماً زنا کی پہلی سیڑھی ہے۔ اسی سے بڑے بڑے فواحش کا دروازہ کھلتا ہے۔ قرآن کریم نے بدکاری اور بے حیائی کا انسداد کرنے کے لیے اول اسی سوراخ کو بند کرنا چاہا۔ یعنی مسلمان مرد و عورت کو حکم دیا کہ بد نظری سے بچیں اور اپنی شہوات کو قابو میں رکھیں۔ اگر ایک مرتب بے ساختہ مرد کی کسی اجنبی عورت پر یا عورت کی کسی اجنبی مرد پر نظر پڑ جائے تو دوبارہ ارادہ سے اس طرف نظر نہ کرے۔ کیونکہ یہ دوبارہ دیکھنا اس کے اختیار سے ہو گا، جس میں وہ معذور نہیں سمجھا جا سکتا۔ اگر آدمی نگاہ نیچی رکھنے کی عادت ڈال لے اور اختیار و ارادہ سے ناجائز امور کی طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھا کرے تو بہت جلد اس کے نفس کا تزکیہ ہو سکتا ہے چونکہ پہلی مرتبہ دفعتاً جو بے ساختہ نظر پڑتی ہے از راہِ شہوت و نفسانیت نہیں ہوتی۔ اس لیے حدیث میں اس کو معاف رکھا گیا ہے۔ شاید یہاں بھی من ابصارہم میں من کو تبعیضیہ لے کر اسی طرف اشارہ ہو۔
۲: یعنی حرام کاری سے بچیں اور سترکسی کے سامنے نہ کھولیں۔ اِلَّاعِنْدَ مَنْ اَبَاحَہٗ الشَّارِعُ مِنَ الْاَزْوَاجِ وَمَامَلَکَتْ اَیْمَانَہُمْ۔
۳: یعنی آنکھ کی چوری اور دلوں کے بھید اور نیتوں کا حال اس کو سب معلوم ہے لہٰذا اس کا خیال کر کے بدنگاہی اور ہر قسم کی بدکاری سے بچو۔ ورنہ وہ اپنے علم کے موافق تم کو سزا دے گا۔ "یَعْلَمُ خَائِنَۃَ الْاَعْیُنِ وَمَاتُخْفِی الصُّدُورِ" (مومن، رکوع۲'آیت ۱۹) حضرت شاہ صاحب نے "مایصنعون" سے مراد غالباً جاہلیت کی بے اعتدالیاں لی ہیں۔ یعنی جو بے اعتدالیاں پہلے سے کرتے آ رہے ہو اللہ کو سب معلوم ہے اسی لیے اب اس نے اپنے پیغمبر کے ذریعہ سے یہ احکام جاری کیے تاکہ تمہارا تزکیہ ہو سکے۔
۳۱۔۔۔ ۱ : سنگار عرف میں خارجی اور کسبی آرائش کو کہتے ہیں جو مثلاً لباس یا زیور وغیرہ سے حاصل ہو۔ احقر کے نزدیک یہاں "زینت" کا ترجمہ "سنگار" کے بجائے "زیبائش" کیا جاتا تو زیادہ جامع اور مناسب ہوتا۔ زیبائش کا لفظ ہر قسم کی خلقی اور کسبی زینت کو شامل ہے، خواہ وہ جسم کی پیدائشی ساخت سے متعلق ہو یا پوشاک وغیرہ خارجی ٹیپ ٹاپ سے۔ خلاصہ مطلب یہ ہے کہ عورت کو کسی قسم کی خلقی یا کسبی زیبائش کا اظہار بجز محارم کے جن کا ذکر آگے آتا ہے کسی کے سامنے جائز نہیں۔ ہاں جس قدر زیبائش کا ظہور ناگزیر ہے اور اس کے ظہور کو بسبب عدم قدرت یا ضرورت کے روک نہیں سکتی، اس کے بمجبوری یا بضرورت کھلا رکھنے میں مضائقہ نہیں (بشرطیکہ فتنہ کا خوف نہ ہو) حدیث و آثار سے ثابت ہوتا ہے کہ چہرہ اور کفین (ہتھیلیاں) "اِلَّامَاظَہَرَ مِنْہَا" میں داخل ہیں۔ کیونکہ بہت سی ضروریات دینی و دنیاوی ان کے کھلا رکھنے پر مجبور کرتی ہیں۔ اگر ان کے چھپانے کا مطلقاً حکم دیا جائے تو عورتوں کے لیے کاروبار میں سخت تنگی اور دشواری پیش آئے گی۔ آگے فقہا نے قدمین کو بھی ان ہی اعضاء پر قیاس کیا ہے اور جب یہ اعضاء مستثنیٰ ہوئے تو ان کے متعلقات مثلاً انگوٹھی، چھلا یا مہندی، کاجل وغیرہ کو بھی استثناء میں داخل ماننا پڑے گا۔ لیکن واضح رہے کہ "اِلَّا مَاظَہَرَمِنْہَا" سے صاف عورتوں کو بضرورت ان کے کھلا رکھنے کی اجازت ہوئی۔ نامحرم مردوں کو اجازت نہیں دی گئی کہ وہ آنکھیں لڑایا کریں اور ان اعضاء کا نظارہ کیا کریں۔شاید اسی لیے اس اجازت سے پیشتر ہی حق تعالیٰ نے غض بصر کا حکم مومنین کو سنا دیا ہے۔ معلوم ہوا کہ ایک طرف سے کسی عضو کے کھولنے کی اجازت اس کو مستلزم نہیں کہ دوسری طرف سے اس کو دیکھنا بھی جائز ہو۔ آخر مرد جن کے لیے پردہ کا حکم نہیں اسی آیت بالا میں عورتوں کو ان کی طرف دیکھنے سے منع کیا گیا۔ نیز یاد رکھنا چاہیے کہ ان آیات میں محض ستر کا مسئلہ بیان ہوا ہے یعنی اس سے قطع نظر کرتے ہوئے کہ اپنے گھر کے اندر ہو یا باہر، عورت کو کس حصہ بدن کا کس کے سامنے کن حالات میں کھلا رکھنا جائز ہے۔ باقی مسئلہ "حجاب" یعنی شریعت نے اس کو کن حالات میں گھر سے باہر نکلنے اور سیر و سیاحت کرنے کی اجازت دی، یہاں مذکور نہیں۔ اس کی کچھ تفصیل انشاء اللہ سورہ احزاب میں آئے گی۔ اور ہم نے فتنہ کا خوف نہ ہونے کی جو شرط بڑھائی وہ دوسرے دلائل اور قواعد شرعیہ سے ماخوذ ہے جو ادنیٰ تامل اور مراجعت نصوص سے دریافت ہو سکتی ہیں۔
۲: بدن کی خلقی زیبائش میں سب سے زیادہ نمایاں چیز سینہ کا ابھار ہے، اس کے مزید تستر کی خاص طور پر تاکید فرمائی اور جاہلیت کی رسم کو مٹانے کی صورت بھی بتلا دی۔ جاہلیت میں عورتیں خمار (اوڑھنی) سر پر ڈال کر اس کے دونوں پلے پشت پر لٹکا لیتی تھیں۔ اس طرح سینہ کی ہیئت نمایاں رہتی تھی۔ یہ گویا حسن کا مظاہرہ تھا۔ قرآن کریم نے بتلا دیا کہ اوڑھنی کو سر پر سے لا کر گریبان پر ڈالنا چاہیے تاکہ اس طرح کان، گردن اور سینہ پوری طرح مستور رہے۔
۳: چچا اور ماموں کا بھی یہ ہی حکم ہے اور ان محارم میں پھر فرق مراتب ہے، مثلاً جو زینت خاوند کے آگے ظاہر کر سکتی ہے دوسرے محارم کے سامنے نہیں کر سکتی۔ ابدائے زینت کے درجات ہیں جن کی تفصیل تفاسیر اور کتب فقہ میں دیکھنی چاہیے۔ یہاں صرف یہ بتلانا ہے کہ جس قدر تستر کا اہتمام اجنبیوں سے تھا، اتنا محارم سے نہیں۔ یہ مطلب نہیں کہ ہر ایک عضو کو ان میں سے ہر ایک کے آگے کھول سکتی ہے۔
۴: یعنی جو عورتیں اس کے پاس اٹھنے بیٹھنے والی ہیں بشرطیکہ نیک چلن ہوں۔ بد راہ عورتوں کے سامنے نہیں۔ اور بہت سے سلف کے نزدیک اس سے مسلمان عورتیں مراد ہیں۔ کافر عورت اجنبی مرد کے حکم میں ہے۔
۵: یعنی اپنی لونڈیاں (باندیاں) اور بعض سلف کے نزدیک مملوک غلام بھی اس میں داخل ہے اور ظاہر قرآن سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ لیکن جمہور ائمہ اور سلف کا یہ مذہب نہیں۔
۶: یعنی کمیرے خدمت گار جو محض اپنے کام سے کام رکھیں اور کھانے سونے میں غرق ہوں، شوخی نہ رکھتے ہوں یا فاترالعقل پاگل جن کے حواس وغیرہ بھی ٹھکانے نہ ہوں، محض کھانے پینے میں گھر والوں کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔
۷: یا جن لڑکوں کو ابھی تک نسوانی سرائر کی کوئی تمیز نہیں، نہ نفسانی جذبات رکھتے ہیں۔
۸: یعنی چال ڈھال ایسی نہ ہونی چاہیے کہ زیور وغیرہ کی آواز سے اجانب کو ادھر میلان اور توجہ ہو۔ بسا اوقات اس قسم کی آواز صورت دیکھنے سے بھی زیادہ نفسانی جذبات کے لیے محرک ہو جاتی ہے۔
۹: یعنی پہلے جو کچھ حرکات ہو چکیں ان سے توبہ کرو اور آئندہ کے لیے ہر مرد و عورت کو خدا سے ڈر کر اپنی تمام حرکات و سکنات اور چال چلن میں انابت اور تقویٰ کی راہ اختیار کرنی چاہیے۔ اس میں دارین کی بھلائی اور کامیابی ہے۔
۳۲۔۔۔ ۱: اوپر استیذان، غض بصر اور تستر وغیرہ کے احکام بیان ہوئے تھے، تاکہ بے حیائی اور بدکاری کی روک تھام کی جائے۔ اس آیت میں یہ حکم دیا کہ جن کا نکاح نہیں ہوا یا ہو کر بیوہ اور رنڈوے ہو گئے تو موقع مناسب ملنے پر ان کا نکاح کر دیا کرو۔ حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ "اے علی! تین کاموں میں دیر نہ کر، نماز فرض کا جب وقت آ جائے، جنازہ جب موجود ہو، اور رانڈ عورت جب اس کا کفو مل جائے۔" جو قومیں رانڈوں کے نکاح پر ناک بھوں چڑھاتی ہیں سمجھ لیں کہ ان کا ایمان سلامت نہیں۔
۲: یعنی لونڈی غلام کو اگر اس لائق سمجھو کہ حقوق زوجیت ادا کر سکیں گے اور نکاح ہو جانے پر مغرور ہو کر تمہاری خدمت نہ چھوڑ بیٹھیں گے تو ان کا بھی نکاح کر دو۔
۳: بعض لوگ نکاح میں اس لیے پس و پیش کیا کرتے ہیں کہ نکاح ہو جانے کے بعد بیوی بچوں کا بار کیسے اٹھے گا۔ انہیں سمجھا دیا کہ ایسے موہوم خطرات پر نکاح سے مت رکو۔ روزی تمہاری اور بیوی بچوں کی اللہ کے ہاتھ میں ہے کیا معلوم ہے کہ خدا چاہے تو ان ہی کی قسمت سے تمہارے رزق میں کشایش کر دے۔ نہ مجرد رہنا غنا کا موجب ہے اور نہ نکاح کرنا فقر و افلاس کو مستلزم ہے۔ یہ باتیں حق تعالیٰ کی مشیت پر ہیں۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا۔ "وَاِنْ خِفْتُمْ عَیْلَۃً فَسَوْفَ یُغْنِیْکُمْ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِاِ انْ شَآئ" (توبہ، رکوع۴'آیت ۲۸) اور ظاہری اسباب کے اعتبار سے بھی یہ چیز معقول ہے کہ نکاح کر لینے یا ایسا ارادہ کرنے سے آدمی پر بوجھ پڑتا ہے اور وہ پہلے سے بڑھ کر کمائی کے لیے جدوجہد کرتا ہے۔ ادھر بیوی اور اولاد ہو جائے تو وہ بلکہ بعض اوقات بیوی کے کنبہ والے بھی کسب معاش میں اس کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ بہرحال روزی کی تنگی یا وسعت نکاح یا تجرد پر موقوف نہیں۔ پھر یہ خیال نکاح سے مانع کیوں ہو۔
۴: جس کے حق میں مناسب جانتا ہے کشایش کر دیتا ہے۔
۳۳۔۔۔ ۱: یعنی جن کو فی الحال اتنا بھی مقدور نہیں کہ کسی عورت کو نکاح میں لا سکیں تو جب تک خدا تعالیٰ مقدور دے چاہیے کہ اپنے نفس کو قابو میں رکھیں۔ اور عفیف رہنے کی کوشش کریں۔ کچھ بعید نہیں کہ اسی ضبط نفس اور عفت کی برکت سے حق تعالیٰ ان کو غنی کر دے اور نکاح کے بہترین مواقع مہیا فرما دے۔
۲: یعنی کسی کا غلام یا لونڈی کہے یا مزید توثیق کے لیے لکھوانا چاہے کہ میں اتنی مدت میں اس قدر مال تجھ کو کما دوں تو مجھے آزاد کر دے، تو مالک کو چاہیے کہ قبول کر لے اور لکھ دے (اس معاملہ کو "مکاتبت" کہتے ہیں اور یہ غلاموں کے آزاد کرانے کی ایک خاص صورت ہے) لیکن یہ مالک کو اس وقت قبول کرنا چاہیے جبکہ وہ سمجھے کہ واقعی اس غلام یا لونڈی کے حق میں آزادی بہتر ہو گی۔ قید غلامی سے چھوٹ کر چوری یا بدکاری یا اور طرح کی بدمعاشیاں کرتا نہ پھرے گا۔ اگر یہ اطمینان ہو تو بیشک اس کو آزادی کا موقع دینا چاہیے۔ تاکہ وہ آزاد ہو کر اپنی فلاح کے میدانوں میں خوب ترقی کر سکے اور کہیں نکاح کرنا چاہے تو باختیار خود نکاح کر لے۔ غلامی کی وجہ سے میدان تنگ نہ ہو۔
۳: یہ دولت مند مسلمانوں کو فرمایا کہ ایسی لونڈی غلام کی مالی امداد کرو خواہ زکوٰۃ سے یا عام صدقات و خیرات وغیرہ سے، تاکہ وہ جلدی آزادی حاصل کر سکیں، اور اگر مالک بدلِ کتابت کا کوئی حصہ معاف کر دے، یہ بھی بڑی امداد ہے (تنبیہ) مصارف زکوٰۃ میں جو وفی الرقاب کا ایک مد رکھا ہے وہ ان ہی غلاموں کے آزاد کرانے کا فنڈ ہے۔ خلفائے راشدین کے عہد میں بیت المال سے ایسے غلاموں کی امداد ہوتی تھی۔
۴: جاہلیت میں بعض لوگ اپنی لونڈیوں سے کسب کراتے تھے۔ عبد اللہ بن ابی رئیس المنافقین کے پاس کئی لونڈیاں تھیں جن سے بدکاری کرا کر روپیہ حاصل کرتا تھا۔ ان میں بعض مسلمان ہو گئیں تو اس فعل شنیع سے انکار کیا۔ اس پر وہ ملعون زد و کوب کرتا تھا، یہ آیت اسی قصہ میں نازل ہوئی۔ اور اسی شان نزول کی رعایت سے مزید تقبیح کے لیے "اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا"اور "لِتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا" کی قیود بڑھائی ہیں ورنہ لونڈیوں سے بدکاری کرانا بہرحال حرام ہے اور اس طرح جو کمائی کریں سب ناپاک ہے۔ خواہ لونڈیاں یہ کام رضاء و رغبت سے کریں یا زبردستی اور ناخوشی سے۔ ہاں اگر لونڈیاں نہ چاہیں اور یہ محض دنیا کے حقیر فائدے کے لیے زبردستی مجبور کرے تو اور بھی زیادہ وبال اور انتہائی وقاحت اور بے شرمی کی دلیل ہے۔
۵: یعنی زنا ایسی بری چیز ہے جو جبر و اکراہ کے بعد بھی بری رہتی ہے لیکن حق تعالیٰ محض اپنی رحمت سے "مکرہہ" کی بے بسی اور بیچارگی کو دیکھ کر درگزر فرماتا ہے۔ اس صورت میں مکرِہ (زبردستی کرنے والے) پر سخت عذاب ہو گا اور مکرَہ پر (جس پر زبردستی کی گئی) رحم کیا جائے گا۔
۳۴۔۔۔ یعنی قرآن میں سب کچھ نصیحتیں، احکام اور گذشتہ اقوام کے عبرتناک واقعات بیان کر دیے گئے ہیں تاکہ خدا کا ڈر رکھنے والے سن کر نصیحت و عبرت حاصل کریں اور اپنے انجام کو سوچیں۔ یا مثلاً من الذین خلوا سے مراد یہ ہو کہ پہلی امتوں پر بھی اسی طرح کی حدود اور احکام جاری کیے گئے تھے جو اس سورت میں مذکور ہوئے۔ اور بعض قصے بھی اسی قصہ "افک" کے مشابہ پیش آئے جو سورت ہذا میں بیان کیا گیا ہے۔ پس جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم صدیقہ اور حضرت یوسف صدیق کی دشمنوں کے بہتان سے برأت ظاہر فرمائی، عائشہ صدیقہ بنت الصدیق کی برأت اور بزرگی بھی تا قیام قیامت صادقین کے قلوب میں نقش فی الحجر کر دی۔ اور دشمنوں کا منہ کالا کیا۔
۳ ۵۔۔۔ ۱: یعنی اللہ سے رونق اور بستی ہے زمین اور آسمان کی، اس کی مدد نہ ہو تو سب ویران ہو جائیں (موضح القرآن) سب مخلوق کو نور وجود اسی سے ملا ہے۔ چاند، سورج، ستارے، فرشتے اور انبیاء و اولیاء میں جو ظاہری یا باطنی روشنی ہے اسی منبع النور سے مستفاد ہے۔ ہدایت و معرفت کا جو چمکارا کسی کو پہنچتا ہے اسی بارگاہِ رفیع سے پہنچتا ہے۔ تمام علویات و سفلیات اس کی آیات تکوینیہ و تنزیلیہ سے منور ہیں۔ حسن و جمال یا خوبی و کمال کی کوئی چمک اگر کہیں نظر پڑتی ہے وہ اسی کے وجہ منور اور ذاتِ مبارک کے جمال و کمال کا ایک پر تو ہے۔ سیرت ابن اسحاق میں ہے کہ طائف میں جب لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو ستایا تو یہ دعا زبان پر تھی۔ "اَعُوذُبِنُورِ وَجْہِکَ الَّذِیْ اَشْرَقْتَ لَہٗ الظُّلُمَاتُ وَصَلُحَ عَلَیْہِ اَمْرُ الدُّنْیَا وَالْاَخِرَۃِ اَنْ یَحِلَّ بِیْ غَضَبُکَ اَوْیَنْزِلُ بِیْ سَخَطُکَ لَکَ الْعُتْبَی حَتّیٰ تَرْضیٰ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ۔" رات کی تاریکی میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے رب کو "انت نور السموات والارض" کہہ کر پکارا کرتے اور اپنے کان، آنکھ، دل، ہر ہر عضو بلکہ بال بال میں اس سے نور طلب فرماتے تھے اور اخیر میں بطور خلاصہ فرماتے۔ "وَاَعْظِمْ لِی نُورًا" یا "وَاجْعَلْنِی نُوْرًا"یعنی میرے نور کو بڑھا بلکہ مجھے نور ہی نور بنا دے۔ اور ایک حدیث میں ہے۔ "اِنَّ اللّٰہ خَلَقَ خَلْقَہُ فِی ظُلْمَۃٍ ثُمَّ اَلْقیٰ عَلَیْہِمْ مِنْ نُّورِہٖ فَمَنْ اَصَابَہٗ مِنْ نُورِہٖ یَوْمَئِذٍ اہْتَدَی وَمَنْ اَخْطَاہٗ ضَلَّ" (فتح الباری، ص ۶/۴۳۰) یعنی جس کو اس وقت اللہ کے نور (توفیق) سے حصہ ملا وہ ہدایت پر آیا اور جو اس سے چوکا گمراہ رہا۔ واضح رہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی دوسری صفات مثلاً سمع بصر وغیرہ کی کوئی کیفیت بیان نہیں کی جا سکتی۔ ایسے ہی صفت نور بھی ہے ممکنات کے نور پر قیاس نہ کیا جائے تفصیل کے لیے امام غزالی کا رسالہ "مشکوٰۃ الانوار" دیکھو۔"
۲: یعنی یوں تو اللہ تعالیٰ کے نور سے تمام موجودات کی نمود ہے۔ لیکن مومنین مہتدین کو نورِ الٰہی سے ہدایت و عرفان کو جو خصوصی حصہ ملتا ہے اس کی مثال ایسی سمجھو گویا مومنِ قانت کا جسم ایک طاق کی طرح ہے جس کے اندر ایک ستارہ کی طرح چمک دار شیشہ (قندیل) رکھا ہو۔ یہ شیشہ اس کا قلب ہوا جس کا تعلق عالم بالا سے ہے۔ اس شیشہ (قندیل) میں معرفت و ہدایت کا چراغ روشن ہے، یہ روشنی ایسے صاف و شفاف اور لطیف تیل سے حاصل ہو رہی ہے جو ایک نہایت ہی مبارک درخت (زیتون) سے نکل کر آیا ہے اور زیتون بھی وہ جو کسی حجاب سے نہ مشرق میں ہو نہ مغرب میں یعنی کسی طرف دھوپ کی روک نہیں کھلے میدان میں کھڑا ہے جس پر صبح و شام دونوں وقت کی دھوپ پڑتی ہے۔ تجربہ سے معلوم ہوا کہ ایسے زیتون کا تیل اور بھی زیادہ لطیف و صاف ہوتا ہے۔ غرض اس کا تیل اس قدر صاف اور چمکدار ہے کہ بدون آگے دکھلائے ہی معلوم ہوتا ہے کہ خود بخود روشن ہو جائے گا۔ یہ تیل میرے نزدیک ایک اسی حسن استعداد اور نورِ توفیق کا ہوا جو نور مبارک کے القاء سے بدء فطرت میں مومن کو حاصل ہوا تھا۔ جیسا کہ اوپر کے فائدہ میں گزر چکا اور جس طرح شجرہ مبارکہ کو "لا شَرْقِیَّۃٍ وَلَا غَرْبِیَّۃٍ" فرمایا تھا وہ نور ربانی بھی جہت کی قید سے پاک ہے۔ خلاصہ یہ ہوا کہ مومن کا شیشہ دل نہایت صاف ہوتا ہے اور خدا کی توفیق سے اس میں قبولِ حق کی ایسی زبردست استعداد پائی جاتی ہے کہ بدون دیا سلائی دکھائے ہی جل اٹھنے کو تیار ہوتا ہے۔ اب جہاں ذرا آگ دکھائی یعنی وحی و قرآن کی تیز روشنی نے اس کو مس کیا فوراً اس کی فطری روشنی بھڑک اٹھی۔ اسی کو "نُوْرٌٌ عَلیٰ نُوْرٍ"فرمایا۔ باقی یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے، جس کو چاہے اپنی روشنی عنایت فرمائے اور وہ ہی جانتا ہے کہ کس کو یہ روشنی ملنی چاہیے کس کو نہیں۔ ان عجیب و غریب مثالوں کا بیان فرمانا بھی اسی غرض سے ہے کہ استعداد رکھنے والوں کو بصیرت کی ایک روشنی حاصل ہو۔ حق تعالیٰ ہی تمثیل کے لیے مناسب موقع و محل کو پوری طرح جانتا ہے، کسی دوسرے کو قدرت کہاں کہ ایسی موزوں و جامع مثال پیش کر سکے۔ آگے فرمایا کہ وہ روشنی ملتی ہے اس سے کہ جن مسجدوں میں کامل لوگ صبح و شام بندگی کرتے ہیں وہاں دھیان لگا رہے۔ (تنبیہ) مفسرین نے تشبیہ کی تقریر بہت طرح کی ہے، حضرت شاہ صاحب نے بھی موضح القرآن میں نہایت لطیف و عمیق تقریر فرمائی ہے مگر بندہ کے خیال میں جو توجیہ آئی وہ درج کر دی۔ وللناس فیما یعشقون مذاہب۔ واضح رہے کہ "یوقد" اور "وَلَوْلَمْ تَمْسَسْہٗ نَارٌ" میں جس نار کی طرف اشارہ ہے میں نے مشبہ میں اس کی جگہ وحی و قرآن کو رکھا ہے۔ اس کا ماخذ وہ فائدہ ہے جو حضرت شاہ صاحب نے "مَثَلَہُمْ کَمَثَلِ الَّذِیْ اسْتَوْقَدَنَارًا" پر لکھا ہے اور جس کی تائید صحیحین کی ایک حدیث سے ہوتی ہے جس میں آپ نے یہ الفاظ فرمائے ہیں۔ "اِنَّمَا مَثَلِی وَ مَثَلَ النَّاسِ کَرَجُلٍ اسْتَوْقَدَنَاراً فَلَمَّا اَضَآءَت مَاحَوْلَہٌ جَعَلَ الفَرَاش وَہٰذِہِ الدَّوَابَّ الَّتِی یَقَعْنَ فِیْہَا الخ
۳۶۔۔۔ ۱: ان کی تعظیم و تطہیر کا حکم دیا یعنی ان کی خبر گیری کی جائے اور ہر قسم کی گندگی اور لغو افعال و اقوال سے پاک رکھا جائے۔ مساجد کی تعظیم میں یہ بھی داخل ہے کہ وہاں پہنچ کر دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھے۔
۲: تسبیح و تہلیل اور تلاوت قرآن وغیرہ سب اذکار اس میں شامل ہیں۔
۳: یعنی تمام مناسب اوقات میں خدا کو یاد کرتے ہیں۔ بعض مفسرین نے کہا کہ "غدو" سے صبح کی نماز مراد ہے اور "آصال" میں باقی چاروں نمازیں داخل ہیں۔ کیونکہ اصیل زوال شمس سے صبح تک کے اوقات پر بولا جاتا ہے۔
۳۷۔۔۔ ۱: یعنی معاش کے دھندے ان کو اللہ کی یاد اور احکام الٰہیہ کی بجا آوری سے غافل نہیں کرتے۔ بڑے سے بڑا بیوپار یا معمولی خریدو فروخت کوئی چیز خدا کے ذکر سے نہیں روکتی۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کی یہی شان تھی۔
۲: یعنی اس روز دل وہ باتیں سمجھ لیں گے جو ابھی تک نہ سمجھے تھے اور آنکھیں وہ ہولناک واقعات دیکھیں گی جو کبھی نہ دیکھے تھے۔ قلوب میں کبھی نجات کی توقع پیدا ہو گی، کبھی ہلاکت کا خوف۔ اور آنکھیں کبھی داہنے کبھی بائیں دیکھیں گی کہ دیکھئے کس طرف سے پکڑے جائیں، یا کس جانب سے اعمالنامہ ہاتھ میں دیا جائے۔
۳۸۔۔۔ ۱:یعنی اچھے کاموں کا جو صلہ مقرر ہے وہ ملے گا۔ اور حق تعالیٰ کے فضل سے اور زیادہ دیا جائے گا جس کی تفصیل و تعیین ابھی نہیں کی جا سکتی۔
۲: یعنی اس کے ہاں کیا کمی ہے، اگر جنتیوں کو بیحدو حساب عنایت فرمائے تو کچھ مشکل نہیں۔
۳۹۔۔۔ کافر دو قسم کے ہیں ایک وہ جو اپنے زعم اور عقیدہ کے موافق کچھ اچھے کام کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مرنے کے بعد کام آئیں گے۔ حالانکہ اگر کوئی کام بظاہر اچھا بھی ہو تو کفر کی شامت سے وہ عند اللہ مقبول و معتبر نہیں۔ ان فریب خوردہ کافروں کی مثال ایسی سمجھو کہ دوپہر کے وقت جنگل میں ایک پیاسے کو دور سے پانی دکھائی دیا اور وہ حقیقت میں چمکتی ہوئی ریت تھی۔ پیاسا شدت تشنگی سے بیتاب ہو کر وہاں پہنچا، دیکھا تو پانی وانی کچھ نہ تھا، ہاں ہلاکت کی گھڑی سامنے تھی اور اللہ تعالیٰ عمر بھر کا حساب لینے کے لیے موجود تھا، چنانچہ اسی اضطراب و حسرت کے وقت اللہ نے اس کا سب حساب ایک دم میں چکا دیا۔ کیونکہ وہاں حساب کرتے کیا دیر لگتی ہے۔ ہاتھوں ہاتھ عمر بھر کی شرارتوں اور غفلتوں کا بھگتان کر دیا گیا۔ دوسرے وہ ہیں جو سر سے پاؤں تک دنیا کے مزوں میں غرق اور جہل و کفر، ظلم و عصیان کی اندھیروں میں پڑے غوطے کھا رہے ہیں ان کی مثال آگے بیان فرمائی۔ ان کے پاس روشنی کی اتنی بھی چمک نہیں جتنی سراب پر دھوکہ کھانے والے کو نظر آتی تھی۔ یہ لوگ خالص اندھیریوں اور تہ بر تہ ظلمات میں بند ہیں کسی طرف سے روشنی کی شعاع اپنے تک نہیں پہنچنے دیتے۔ نعوذ باللہ منہا۔
۴۰۔۔۔ ۱: یعنی سمندر کی تہ میں خود دریا کا اندھیرا، اس پر طوفانی لہریں جو ایک پر ایک چڑھی آتی ہیں۔ پھر سب کو اوپر گھٹا بادل کا اندھیرا، اور رات کا وقت فرض کیا جائے تو ان اندھیریوں میں اور اضافہ ہو جائے گا۔
۲: یعنی اپنا ہاتھ اٹھا کر آنکھوں سے قریب کر کے دیکھے تو اندھیرے کی وجہ سے نظر نہ آئے جس کو ہمارے یہاں کہتے ہیں کہ ہاتھ کو ہاتھ نہیں پہچانتا۔
۳: اوپر مومنین کے ذکر میں جو "یَہْدِی اللّٰہُ لِنُوْرِہٖ مَنْ یَّشَا ءُ ' فرمایا تھا، یہ جملہ اس کے مقابل ہوا یعنی جس کو خدا تعالیٰ نورِ توفیق نہ دے اسے اور کون روشنی پہنچا سکتا ہے۔ ان کی استعداد خراب تھی توفیق نہ ملی۔ اور دریا کی تہ میں گر کر انہوں نے سب دروازے روشنی کے اپنے اوپر بند کر لیے۔ پھر نور آئے تو کدھر سے آئے۔
۴۱۔۔۔ ۱: شاید اڑتے جانوروں کا علیحدہ ذکر اس لیے کیا کہ وہ اس وقت آسمان اور زمین کے بیچ میں معلق ہوتے ہیں۔ اور ان کا اس طرح ہوا میں اڑتے رہنا قدرت کی بڑی نشانی ہے۔
۲: یعنی حق تعالیٰ نے ہر ایک چیز کو اس کے حال کے مناسب جو طریقہ انابت و بندگی اور تسبیح خوانی کا الہام فرمایا اس کو سمجھ کر وہ اپنا وظیفہ ادا کرتی رہتی ہے۔ لیکن افسوس و تعجب کا مقام ہے کہ بہت سے انسان کہلانے والے غرور و غفلت اور ظلمت جہالت میں پھنس کر مالک حقیقی کی یاد اور ادائے وظیفہ عبودیت سے بے بہرہ ہیں۔ (تنبیہ) مخلوقات کی تسبیح کے متعلق پندرھویں پارہ میں ربع کے قریب کچھ مضمون گزر چکا۔ وہاں دیکھ لیا جائے۔ ایک حدیث میں ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو تسبیح کی وصیت کی اور فرمایا۔ "واِنَّہَا لِصَلٰوۃِ الْخَلْقِ۔" (یہ ہی مخلوق کی نماز ہے)
۳: یعنی ان کی بندگی اور تسبیح کو خواہ تم نہ سمجھو، لیکن حق تعالیٰ کو سب معلوم ہے کہ کون کیا کرتا ہے۔
۴۲۔۔۔ یعنی جیسے اس کا علم سب کو محیط ہے، اس کی حکومت بھی تمام علویات و سفلیات پر حاوی ہے اور سب کو آخرکار اسی کے پاس لوٹ کر جانا ہے۔ آگے اپنے حاکمانہ اور قادرانہ تصرفات کو بیان فرماتے ہیں۔
۴۳۔۔۔ ۱: یعنی ابتداء میں بادل کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اٹھتے ہیں پھر مل کر بڑا بادل بن جاتا ہے۔ پھر بادلوں کی تہ پر تہ جما دی جاتی ہے۔
۲: یعنی جیسے زمین میں پتھروں کے پہاڑ ہیں، بعض سلف نے کہا کہ اسی طرح آسمان میں اولوں کے پہاڑ ہیں۔ مترجم رحمہ اللہ نے اسی کے موافق ترجمہ کیا ہے۔ لیکن زیادہ راجح اور قوی یہ ہے کہ "سماء" سے بادل مراد ہو۔ مطلب یہ ہے کہ بادلوں سے جو کثیف اور بھاری ہونے میں پہاڑوں کی طرح ہیں، اولے برساتا ہے جس سے بہتوں کو جانی یا مالی نقصان پہنچ جاتا ہے اور بہت سے محفوظ رکھے جاتے ہیں۔ مشہور ہے کہ اولے کی چھال بیل کے ایک سینگ پر پڑتی ہے اور دوسرا سینگ خشک رہ جاتا ہے۔
۳: یعنی بجلی کی چمک اس قدر تیز ہوتی ہے کہ آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں، قریب ہے کہ بینائی جاتی رہے۔
۴۴۔۔۔ ۱: یعنی دن کے بعد رات اور رات کے بعد دن اسی کی قدرت سے آتا ہے۔ وہ ہی کبھی رات کو کبھی دن کو گھٹاتا بڑھاتا رہتا ہے، اور ان کی گرمی کو سردی سے، سردی کو گرمی سے تبدیل کرتا ہے۔
۲: یعنی چاہیے کہ قدرت کے ایسے عظیم الشان نشانات دیکھ کر آدمی بصیرت و عبرت حاصل کرے اور اس شہنشاہِ حقیقی کی طرف سچے دل سے رجوع ہو جس کے قبضہ میں ان تمام تصرفات و تقلبات کی باگ ہے۔
۴ ۵۔۔۔۱: اس کے لیے سترھویں پارہ کے تیسرے رکوع میں آیت "وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ کُلَّ شَیْ ءٍ حَیٍّ" کا فائدہ دیکھنا چاہیے۔
۵: یعنی کسی جانور کو چار سے زائد پاؤں دیے ہوں تو بعید نہیں۔ اس کی لامحدود قدرت و مشیت کو کوئی محصور نہیں کر سکتا۔
۴۶۔۔۔ یعنی آیات تکوینیہ و تنزیلیہ تو اس قدر واضح ہیں کہ انہیں دیکھ کر اور سن کر چاہیے کوئی آدمی نہ بہکے لیکن سیدھی راہ پر چلتا وہ ہی ہے جسے خدا تعالیٰ نے ہدایت کی توفیق دی ہو۔ لاکھوں آدمی یہ کھلی کھلی نشانیاں دیکھتے ہیں پر نتیجہ کے اعتبار سے ان کا دیکھنا نہ دیکھنا برابر ہے۔
۴۷۔۔۔ یہ منافقین کا ذکر ہے۔ وہ زبان سے دعوے ایمان و اطاعت کیا کرتے تھے اور جب عمل کا وقت آتا تو پھر جاتے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے دلوں میں شروع سے ایمان و انقیاد موجود ہی نہ تھا۔ جو کچھ زبانی جمع خرچ تھا امتحان و ابتلاء کے وقت اس کی بھی قلعی کھل جاتی تھی۔
۴۹۔۔۔ یعنی اگر ان کا جھگڑا کسی سے ہو گیا اور سمجھتے ہوں کہ ہم ناحق پر ہیں اس وقت اگر دوسرا فریق کہتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں چل کر اس معاملہ کو طے کرا لو تو یہ منافق رضامند نہیں ہوتے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر یقیناً بلا رو رعایت حق کے موافق فیصلہ کریں گے۔ جو ان کے مفاد کے خلاف پڑے گا۔ حالانکہ پہلے سے یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ ہم اللہ و رسول پر ایمان لانے اور ان کا حکم ماننے کو تیار ہیں۔ اب وہ دعویٰ کہاں گیا۔ ہاں فرض کیجئے اگر کسی معاملہ میں حق ان کی جانب ہو تو اس وقت بہت جلدی سے گردن جھکا کر بارگاہِ نبوت میں حاضر ہو جائیں اور فیصلہ کا انحصار حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات مبارک پر کر دیں گے۔ کیونکہ سمجھتے ہیں عدالت سے ہمارے موافق فیصلہ ہو گا۔ تو یہ ایمان و اسلام کیا ہوا، محض ہوا پرستی ہوئی۔
۵۰۔۔۔ ۱: روگ یہ کہ خدا اور رسول کو سچ مانا لیکن حرص نہیں چھوڑتی کہ کہے پر چلیں جیسے بیمار چاہتا ہے چلے اور پاؤں نہیں اٹھتا۔
۲: یعنی خدا اور رسول کی بابت کوئی دھوکہ لگا ہوا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی صداقت یا اللہ کے وعدہ وعید میں کوئی شک و شبہ ہے؟ یا یہ گمان ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان کے معاملات کا خلاف انصاف فیصلہ کریں گے؟ اس لیے ان کی عدالت میں مقدمہ لے جانے سے کتراتے ہیں۔ سو یاد رکھو وہاں تو ظلم و بے انصافی کا احتمال ہی نہیں۔ ہاں خود ان ہی لوگوں نے ظلم پر کمر باندھ رکھی ہے۔ چاہتے ہیں کہ اپنا حق پورا وصول کر لیں اور دوسروں کا ایک پیسہ نہ دیں۔ اسی لیے ان معاملات کو خدائی عدالت میں لانے سے گھبراتے ہیں جن میں سمجھتے ہیں کہ رسول کا منصفان فیصلہ ہمارے مطلب کے خلاف ہو گا۔ یہ تو منافقین کا ذکر تھا، آگے ان کے بالمقابل مخلصین کی اطاعت و فرمانبرداری کو بیان فرماتے ہیں۔
۵۱۔۔۔ یعنی سچے مسلمان کا کام یہ ہوتا ہے اور یہ ہونا چاہیے کہ جب کسی معاملہ میں ان کو خدا اور رسول کی طرف بلایا جائے خواہ اس میں بظاہر ان کا نفع ہو یا نقصان۔ ایک منٹ کا توقف نہ کریں۔ فی الفور "سمعاً وطاعۃ" کہہ کر حکم ماننے کے لیے تیار ہو جائیں۔ اسی میں ان کی اصلی بھلائی اور حقیقی فلاں کا راز مضمر ہے۔
۵۲۔۔۔ یعنی جو فی الحال فرمانبردار ہو، گذشتہ تقصیرات پر نادم ہو کر اور خدا سے ڈر کر توبہ کرے اور آئندہ برے راستہ سے بچ کر چلے، اسی کے لیے دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔
۵۳۔۔۔ یعنی منافقین بڑی سخت تاکیدی قسمیں کھا کر آپ کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ہم کو آپ حکم دیں تو سب گھر بار چھوڑ کر خدا کے راستہ میں نکل جانے کے لیے تیار ہیں ذرا حضور صلی اللہ علیہ و سلم اشارہ فرمائیں تو سب مال و دولت اللہ کے راستہ میں لُٹا کر الگ ہو جائیں۔ اس پر فرمایا کہ اس قدر منہ بھر کر لمبی چوڑی قسمیں کھانے کی ضرورت نہیں۔ تمہاری فرمانبرداری کی حقیقت سب معلوم ہو چکی کہ زبان سے دعوے بہت کیا کرتے ہو۔ اور عمل کا وقت آئے تو آہستہ سے کھسک جاتے ہو۔ چاہیے کہ سچے مسلمانوں کے دستور کے موافق حکمبرداری کر کے دکھلاؤ زبانی قسمیں کھانے سے کوئی فائدہ نہیں۔ فرض کرو تم قسمیں کھا کر بندوں کو اپنی بات کا یقین دلا دو۔ لیکن اللہ کے آگے کسی کی چالاکی اور فریب نہیں چل سکتا۔ وہ تو تمام ظاہر اور پوشیدہ باتوں کی خبر رکھتا ہے۔ آگے چل کر تمہاری مکاری کا پردہ فاش کر دے گا۔
۵۴۔۔۔ یعنی پیغمبر پر خدا کی طرف سے تبلیغ کا جو بوجھ رکھا گیا ہے، سو اس نے پوری طرح ادا کر دیا۔ اور تم پر جو بوجھ ڈالا گیا وہ تصدیق و قبول حق کا ہے، اور یہ کہ اس کے ارشاد کے موافق چلو۔ اگر تم اپنی ذمہ داری کو محسوس کر کے اس کے احکام کی تعمیل کرو گے تو کامیابی دارین کی راہ پاؤ گے اور دنیا و آخرت میں خوش رہو گے ورنہ پیغمبر کا کچھ نقصان نہیں، تمہاری شرارت و سرکشی کا خمیازہ تم کو ہی بھگتنا پڑے گا۔ پیغمبر تو اپنا فرض ادا کر کے عند اللہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو چکے۔ آگے اطاعت رسول کے بعض ثمرات بیان فرماتے ہیں جن کا سلسلہ دنیا ہی میں شروع ہو جائے گا۔
۵ ۵۔۔۔ ۱: یہ خطاب فرمایا حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے وقت کے لوگوں کو یعنی جو ان میں اعلیٰ درجہ کے نیک اور رسول کے کامل متبع ہیں رسول کے بعد ان کو زمین کی حکومت دے گا اور جو دین اسلام خدا کو پسند ہے ان کے ہاتھوں سے دنیا میں ان کو قائم کرے گا۔ گویا جیسا کہ لفظ استخلاف میں اشارہ ہے وہ لوگ محض دنیاوی بادشاہوں کی طرح نہ ہوں گے۔ بلکہ پیغمبر کے جانشین ہو کر آسمانی بادشاہت کا اعلان کریں گے اور دین حق کی بنیادیں جمائیں گے اور خشکی و تری میں اس کا سکہ بٹھلا دیں گے۔ اس وقت مسلمانوں کو کفار کا خوف مرعوب نہ کرے گا وہ کامل امن و اطمینان کے ساتھ اپنے پروردگار کی عبادت میں مشغول رہیں گے اور دنیا میں امن و امان کا دور دورہ ہو گا۔ اور ان مقبول و معزز بندوں کی ممتاز شان یہ ہو گی کہ وہ خالص خدائے واحد کی بندگی کریں گے جس میں ذرہ برابر شرک کی آمیزش نہ ہو گی۔ شرک جلی کا تو وہاں ذکر کیا ہے شرک خفی کی ہوا بھی ان کو نہ پہنچے گی۔ صرف ایک خدا کے غلام ہوں گے، اسی سے ڈریں گے اسی سے امید رکھیں گے۔ اسی پر بھروسہ کریں گے اسی کی رضا میں ان کا جینا اور مرنا ہو گا۔ کسی دوسری ہستی کا خوف و ہراس ان کے پاس نہ پھٹکے گا۔ نہ کسی دوسرے کی خوشی ناخوشی کی پروا کریں گے۔ الحمدللہ۔ کہ یہ وعدہ الٰہی چاروں خلفاء رضی اللہ عنہم کے ہاتھوں پر پورا ہوا۔ اور دنیا نے اس عظیم الشان پیشین گوئی کے ایک ایک حرف کا مصداق اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ خلفائے اربعہ کے بعد بھی کچھ بادشاہان اسلام وقتاً و فوقتاً اس نمونہ کے آتے رہے اور جب اللہ چاہے گا آئندہ بھی آئیں گے۔ احادیث سے معلوم ہوا کہ آخری خلیفہ حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ ہوں گے جن کے متعلق عجیب و غریب بشارات سنائی گئی ہیں۔ وہ خدا کی زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے اور خارق عبادت جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعہ سے اسلام کا کلمہ بلند کریں گے۔ "اَللّٰہُمَّ احْشُرْنَا فِی زُمْرَتِہٖ وَارْزُقْنَا شَہَادَۃً فِی سَبِیْلِکَ اِنَّکَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَۃِ وَذُوالْفَضْلِ الْعَظِےْمِ۔"(تنبیہ) اس آیت استخلاف سے خلفائے اربعہ کی بڑی بھاری فضیلت و منقبت نکلتی ہے۔ ابن کثیر نے اس کے تحت میں عہد نبوت سے لے کر عہد عثمانی تک کی فتوحات کو درجہ بدرجہ بیان کیا ہے اور آخر میں یہ الفاظ لکھے ہیں: "وَجُبِیَ الْخَرَاجُ مِنَ الْمَشَارِقِ وَالْمَغَارِبِ اِلیٰ حَضْرۃِ اَمِیْرِ الْمُوْمِنِیْنَ عُثْمَانْ بِنْ عَفَانِ رَضِیَ اللّٰہ عَنْہُ وَذٰلِکَ بِبَرْکَۃِ تِلَاوَتِہٖ وَدَرَاسَتِہٖ وَجَمْعہ الْاُمَّۃِ عَلیٰ حِفْظِ الْقُرْاٰنِ وَلِہٰذَا ثَبَتَ فِی الصَّحِیْحِ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و سلم قَالَ اِنَّ اللّٰہَ زَویٰ لِی الْاَرْضِ فَرَأیْتَ مَشَارِقِہَا وَمَغَارِبِہَا وَسَیَبْلُغُ مُلْکُ اُمَّتِی مَازُوِیَ لِی مِنْہَا فَہَا نَحْنُ نَتَقَلَّبُ فِیْمَا وَعَدْنَا اللّٰہُ وَرَسُولِہٖ وَصَدَقَ اللّٰہ وَرَسُولُہ فَنَسْئَالَ اللّٰہ الْاِیْمَانَ بِہٖ وَبِرَسُولِہٖ وَالْقِیَامَ بِشُکْرِہٖ عَلیٰ الْوجْہِ الَّذِیْ یُرْضِیہ عَنَّا۔"
۲: یعنی ایسے انعامات عظیمہ کے بعد ناشکری کرنا بہت ہی بڑے نافرمان اور ہیکڑ مجرم کا کام ہے حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ جو کوئی خلفائے اربعہ کی خلافت (اور ان کے فضل و شرف) سے منکر ہوا۔ ان الفاظ سے اس کا حال سمجھا گیا۔ رَبَّنَا اَغْفِرْلَنَا وَلِاِ خْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُونَا بِالْاِیْمَانِ وَلَا تَجَعَلْ فِی قُلُوبِنَا غِلاَّ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوا رَبَّنَا اِنَّکَ رَءُ وْفٌ رَّحِْیمٌ۔
۵۶۔۔۔ یعنی خدا کی رحمت سے حصہ لینا چاہتے ہو تم بھی ان ہی مقبول بندوں کی روش اختیار کرو۔ اور روش یہ ہی ہے نمازیں قائم کرنا، زکوٰۃ دیتے رہنا اور تمام شعب زندگی میں رسول کے احکام پر چلنا۔ "اَللّٰہُمَّ ارْزُقْنَا مُتَابِعَۃَ رَسُولِکَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ و سلم وَتَوَفَّنَا عَلَیْہَا وَاَلْحِقْنَا بِالصَّالِحِیْنَ۔" آمین۔
۵۷۔۔۔ یہ نیک بندوں کے بالمقابل مردود و مغضوب لوگوں کا انجام بتلایا۔ یعنی جبکہ نیکوں کو ملک کی حکومت اور زمین کی خلافت عطا کی جاتی ہے، کافروں اور بدکاروں کی ساری مکاریاں اور تدبیریں شکست ہو جاتی ہیں۔ اللہ کے ارادہ کو کوئی روک نہیں سکتا۔ اگر تمام خدائی میں ادھر ادھر بھاگتے پھریں تب بھی وہ خدائی سزا سے اپنے کو نہیں بچا سکتے۔ یقیناً ان کو جہنم کے جیل خانہ میں جانا پڑے گا۔
۵۸۔۔۔ ۱: یعنی لونڈی، غلام، چار رکوع پہلے مسئلہ استیذان (اجازت لینے) کا ذکر تھا۔ یہ اسی کا تتمہ ہے۔ درمیان میں خاص خاص مناسبتوں سے دوسرے مضامین آ گئے۔
۲: ان تین وقتوں میں عموماً زائد کپڑے اتار دیے جاتے ہیں یا سونے جاگنے کا لباس تبدیل کیا جاتا ہے اور بیوی کے ساتھ مصاحبت بھی بیشتر ان ہی اوقات میں ہوتی ہے کبھی فجر سے قبل یا دوپہر کے وقت آدمی غسل کرنے کا ارادہ کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ کوئی مطلع نہ ہو۔ اس لیے حکم دیا کہ ان تین وقتوں میں نابالغ لڑکوں اور لونڈی غلام کو بھی اجازت لے کر آنا چاہیے۔ باقی وقتوں میں ان کو اجانب کی طرح اجازت طلب کرنے کی حاجت نہیں۔ الا یہ کہ کوئی شخص اپنی مصلحت سے دوسرے اوقات میں بھی استیذان کی پابندی عائد کر دے۔
۳: یعنی اوقات مذکورہ بالا کو چھوڑ کر باقی جن اوقات میں عادۃً ایک دوسرے کے پاس بے روک ٹوک آتے جاتے ہیں ان میں نابالغ لڑکوں یا لونڈی غلام کو ہر مرتبہ اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ ایسا پابند کرنے میں بہت تنگی اور کاروبار کا تعطل ہے جو حق تعالیٰ کی حکمت کے خلاف ہے۔
۵۹۔۔۔ یعنی لڑکا جب تک نابالغ ہے تین وقتوں کے سوا باقی اوقات میں بلا اجازت لیے آ جا سکتا ہے۔ جس وقت حد بلوغ کو پہنچا پھر اس کا حکم ان ہی مردوں جیسا ہو گیا جو اس سے پہلے بالغ ہو چکے ہیں اور جن کا حکم پیشتر آیت "یَآاَیُّہَاالَّذِیْنَ آمَنُوا لاَ تَدْخُلُوا بُیُوتاً غَیْرَ بُیُوتِکُمْ حَتّیٰ تَسْتَاْ نِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلیٰ اَہْلِہَا" میں گزر چکا ہے۔
۶۰۔۔۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "یعنی بوڑھی عورتیں گھر میں تھوڑے کپڑوں میں رہیں تو درست ہے اور پورا پردہ رکھیں تو اور بہتر" اور گھر سے باہر نکلتے وقت بھی زائد کپڑے مثلاً برقع وغیرہ اتار دیں تو کچھ مضائقہ نہیں۔ بشرطیکہ اس زینت کا اظہار نہ ہو جس کے چھپانے کا حکم آیت "وَلاَ یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ الخ" میں دیا جا چکا ہے۔ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ جوان عورتوں کے تستر کے متعلق قرآن کریم کا منشاء کیا ہے۔ ف۵۔ یعنی یہ تو فتنہ کی روک تھام کے ظاہری انتظامات ہیں باقی پردہ کے اندر جو باتیں کی جاتی ہیں اور فتنے اٹھائے جاتے ہیں یاد رہے کہ خدا تعالیٰ ان سب کو سنتا اور جانتا ہے۔ اسی کے موافق ہر ایک سے معاملہ کرے گا۔
۶۱۔۔۔ ۱: یعنی جو کام تکلیف کے ہیں وہ ان کو معاف ہیں مثلاً جہاد، حج، جمعہ اور جماعت اور ایسی چیزیں۔ (کذافی الموضح) یا یہ مطلب ہے کہ ان معذور محتاج لوگوں کو تندرستوں کے ساتھ کھانے میں کچھ حرج نہیں۔ جاہلیت میں اس قسم کے محتاج و معذور آدمی اغنیاء اور تندرستوں کے ساتھ کھانے سے رکتے تھے انہیں خیال گزرتا تھا کہ شاید لوگوں کو ہمارے ساتھ کھانے سے نفرت ہو اور ہماری بعض حرکات و اوضاع سے ایذاء پہنچتی ہو، اور واقعی بعضوں کو نفرت و وحشت ہوتی بھی تھی۔ نیز بعض مومنین کو غایت اتقاء سے یہ خیال پیدا ہوا کہ ایسے معذوروں اور مریضوں کے ساتھ کھانے میں شاید اصول عدل و مساوات قائم نہ رہ سکے۔ اندھے کو سب کھانے نظر نہیں آتے لنگڑا ممکن ہے دیر میں پہنچے اور مناسب نشست سے نہ بیٹھ سکے۔ بیمار کا تو پوچھنا ہی کیا ہے اس بناء پر ساتھ کھلانے میں احتیاط کرتے تھے کہ ان کی حق تلفی نہ ہو۔ دوسری ایک اور صورت پیش آتی تھی کہ یہ معذور محتاج لوگ کسی کے پاس گئے، وہ شخص استطاعت نہ رکھتا تھا، ازراہ بے تکلفی ان کو اپنے باپ، بھائی، بہن، چچا، ماموں وغیرہ کسی عزیز و قریب کے گھر لے گیا۔ اس پر ان حاجت مندوں کو خیال ہوتا تھا کہ ہم تو آئے تھے اس کے پاس، یہ دوسرے کے ہاں لے گیا۔ کیا معلوم وہ ہمارے کھلانے سے کارہِ اور ناخوش تو نہیں۔ ان تمام خیالات کی اصلاح آیت حاضرہ میں کر دی گئی کہ خوا ہی نہ خواہی اس طرح کے اوہام و وساوس میں مت پڑو۔ اللہ تعالیٰ نے اس معاملہ میں وسعت رکھی ہے پھر تم خود اپنے اوپر تنگی کیوں کرتے ہو۔
۲: یعنی تمہارے زیر تصرف دیا گیا ہو۔ مثلاً کسی نے اپنی چیز کا وکیل یا محافظ بنا دیا اور بقدر معروف اس میں سے کھانے پینے کی اجازت دے دی۔
۳: یعنی اپنایت کے علاقوں میں کھانے کی چیز کو ہر وقت پوچھنا ضروری نہیں۔ نہ کھانے والا حجاب کرے نہ گھر والا دریغ کرے۔ مگر عورت کا گھر اگر اس کے خاوند کا ہو۔ اس کی مرضی حاصل کرنی چاہیے اور مل کر کھاؤ یا جدا یعنی اس کی تکرار دل میں نہ رکھے کہ کسی نے کم کھایا کس نے زیادہ۔ سب نے مل کر پکایا سب نے مل کر کھایا۔ اور اگر ایک شخص کی مرضی نہ ہو تو پھر کسی کی چیز کھانی ہرگز درست نہیں اور تقید فرمایا سلام کا آپس کی ملاقات میں۔ کیونکہ اس سے بہتر دعا نہیں۔ جو لوگ اس کو چھوڑ کر اور الفاظ گھڑتے ہیں اللہ کی تجویز سے ان کی تجویز بہتر نہیں ہو سکتی۔ (تنبیہ) آیت سے تنہا کھانے کا جواز بھی نکلا۔ بعض حضرات کو لکھا ہے کہ جب تک کوئی مہمان ساتھ نہ ہو کھانا نہ کھاتے تھے۔ معلوم ہوا یہ غلو ہے۔ البتہ اگر کئی کھانے والے ہوں اور اکٹھے بیٹھ کر کھائیں تو موجب برکت ہوتا ہے۔ کما وردفی الحدیث۔
۶۲۔۔۔ ۱: اوپر کی آیتوں میں آنے کے وقت استیذان (اجازت طلب کرنے) کا ذکر تھا۔ یہاں جانے کے وقت استیذان کی ضرورت بتائی ہے یعنی پورے ایمان والے وہ ہیں جو رسول کے بلانے پر حاضر ہوتے ہیں اور جب کسی اجتماعی کام میں شریک ہوں مثلاً جمعہ، عیدین، جہاد اور مجلس مشاورت وغیرہ میں تو بدون اجازت کے اٹھ کر نہیں جاتے۔ یہ ہی لوگ ہیں جو کامل اور صحیح معنی میں اللہ اور رسول کو مانتے ہیں۔
۲: یعنی غور و فکر کے بعد جس کو مناسب سمجھیں اجازت دے دیں۔ اور چونکہ اس اجازت پر عمل کرنا بھی فی الجملہ صحبت نبوی سے حرمان اور صورت تقدیم الدنیا علی الدین کا شائبہ اپنے اندر رکھتا ہے اس لیے ان مخلصین کے حق میں استغفار فرمائیں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے استغفار کی برکت سے اس نقص کا تدارک ہو سکے۔
۶۳۔۔۔ ۱: یعنی حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بلانے پر حاضر ہونا فرض ہو جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا بلانا اوروں کی طرح نہیں کہ چاہے اس پر "لبیک" کہے یا نہ کہے۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے بلانے پر حاضر نہ ہو تو آپ کی بددعا سے ڈرنا چاہیے کیونکہ آپ کی دعا معمولی انسانوں جیسی نہیں۔ نیز مخاطبات میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ادب و عظمت کا پورا خیال رکھنا چاہیے۔ عام لوگوں کی طرح "یا محمد" وغیرہ کہہ کر خطاب نہ کیا جائے "یا نبی اللہ" اور "یا رسول اﷲ" جیسے تعظیمی القاب سے پکارنا چاہیے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ "حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بلانے سے فرض ہوتا تھا حاضر ہونا جس کام کو بلائیں۔ پھر یہ بھی تھا کہ وہاں سے بے اجازت اٹھ کر چلے نہ جائیں۔ اب بھی سب مسلمان کو اپنے سرداروں کے ساتھ یہ برتاؤ کرنا چاہیے۔"
۲: یہ منافقین تھے جن کو مجلس نبوی میں بیٹھنا اور پند و نصیحت سننا شاق گزرتا تھا۔ وہ اکثر موقع پا کر اور آنکھ بچا کر مجلس سے بلا اجازت کھسک جاتے تھے۔ مثلاً کوئی مسلمان اجازت لے کر اٹھا، یہ بھی اس کی آڑ میں ہو کر ساتھ ساتھ چل دیئے، اس کو فرمایا کہ تم پیغمبر سے کیا چھپاتے ہو، خدا تعالیٰ کو تمہارا سب کا حال معلوم ہے۔
۳: یعنی اللہ و رسول کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرتے رنا چاہیے کہ کہیں ان کے دلوں میں کفر و نفاق وغیرہ کا فتنہ ہمیشہ کے لیے جڑ نہ پکڑ جائے۔ اور اس طرح دنیا کی کسی سخت آفت یا آخرت کے دردناک عذاب میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ العیاذ باللہ۔
۶۴۔۔۔ یعنی ممکن ہے مخلوق سے آنکھ بچا کر کوئی کام کر گزرو، لیکن حق تعالیٰ سے تمہارا کوئی حال پوشیدہ نہیں رہ سکتا نہ اس کی زمین و آسمان میں سے نکل کر کہیں بھاگ سکتے ہو۔ وہ جس طرح تمہارے احوال موجودہ سے باخبر ہے ایسے ہی اس دن کی کیفیت مجازات سے بھی پورا آگاہ ہے۔ جب تمام مخلوق حساب و کتاب کے لیے اس کی طرف لوٹائی جائے گی اور ہر ایک کے سامنے اس کا ذرہ ذرہ عمل کھول کر رکھ دیا جائے گا۔ ایسے علیم الکل اور مالک الکل کی سزا سے مجرم کس طرح اپنے کو بچا سکتا ہے۔ " تَمَّ سُورَۃٌ النُّوْرِ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَتُوفِیقِہٖ اَللّٰہُمَّ نَوِّرْ قُلُوبَنَا بِاا لْاِ یْمَانِ وَالْاِحْسَانِ وَنَوِّرْ قُبُورَنَا وَاَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْلَنَا اِنَّکَ عَلیٰ کُلِّ شَیْ ءٍ قَدِیْر وَبِاْلِاجَابَۃِ جَدِیْرٌ۔"