تفسیر مدنی

سُوۡرَةُ النُّور

(سورۃ النور ۔ سورہ نمبر ۲۴ ۔ تعداد آیات ۶۴)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔

 

۱۔۔۔      یہ ایک عظیم الشان سورت ہے جس کو ہم نے نازل کیا ہے اور اس کے احکام کو بھی ہم ہی نے فرض کیا ہے اور ہم نے اس میں صاف صاف آیتیں نازل کیں تاکہ تم لوگ سمجھو،

۲۔۔۔      زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرد میں سے ہر ایک کو سو سو کوڑے مارو، اور تمہیں ان کے بارہ میں اﷲ کے دین کے معاملے میں کوئی ترس نہیں آنا چاہیے ۔ اگر تم ایمان رکھتے ہو اﷲ پر اور قیامت کے دن پر، اور حاضر رہے ان کی سزا کے اس موقع پر ایک گروہ ایمان والوں کا عبرت پذیری کے لیے

۳۔۔۔      بدکار مرد نکاح نہیں کرتا مگر کسی بدکار یا مشرک عورت سے ، اور بدکار عورت سے نکاح نہیں کرتی مگر کوئی بدکار یا مشرک شخص، اور حرام کر دیا گیا اس کو ایمان والوں پر

۴۔۔۔      اور جو لوگ تہمت لگائیں پاک دامن عورتوں کو پھر وہ اس پر گواہ نہ چار لا سکیں ، تو انکو تم لوگ اسی کوڑے مارو، اور ان کی کوئی گواہی بھی کبھی قبول مت کرو، اور یہی لوگ ہیں بدکار،

۵۔۔۔     سوائے ان لوگوں کے جو اس کے بعد توبہ کر لیں اور وہ اپنی اصلاح بھی کر لیں تو ان کا گناہ معاف ہو جائے گا کہ بے شک اﷲ بڑا ہی معاف کرنے والا نہایت ہی مہربان ہے ۔

۶۔۔۔      اور جو لوگ تہمت لگائیں اپنی بیویوں کو جب کہ ان کے پاس اس کے لیے کوئی گواہ نہ ہوں ، سوائے ان کی اپنی جانوں کے تو ان میں سے ایک شخص کی شہادت کی صورت یہ ہے کہ وہ چار مرتبہ اﷲ کی قسم کھا کر گواہی دے کہ وہ اپنے اس الزام میں قطعی طور پر سچا ہے

۷۔۔۔     اور پانچویں مرتبہ وہ یوں کہے کہ اس پر اﷲ کی لعنت و پھٹکار ہو اگر وہ جھوٹا ہو اپنے اس الزام میں ۔

۸۔۔۔      اس کے بعد اس عورت سے سزا اس طرح ٹل سکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ ﷲ کی قسم کھا کر یوں کہے ، کہ یہ شخص اپنے الزام میں قطعی طور پر جھوٹا ہے

۹۔۔۔     اور پانچویں بار وہ یہ کہے کہ مجھ پر خدا کا غضب ٹوٹے اگر یہ شخص سچا ہو (اپنے اس الزام و اتہام میں )

۱۰۔۔۔      اور اگر تم لوگوں پر اﷲ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی، نیز یہ بات نہ ہوتی کہ اﷲ بڑا ہی توبہ قبول فرمانے والا نہایت ہی حکمت والا ہے (تو تمہیں کیا کچھ بھگتان بھگتنے پڑتے )

۱۱۔۔۔     بلاشبہ جو لوگ یہ طوفان گھڑ لائے وہ تمہارے اندر ہی کا ایک ٹولہ ہے ، تم اس کو اپنے لیے برابر نہ سمجھو بلکہ یہ تمہارے لیے بہتر ہی ہے ان میں سے ہر شخص نے اپنے کیے کے مطابق گناہ سمیٹا ہے ، اور ان میں سے جس نے اس کا بڑا حصہ اپنے سر لیا اس کے لیے بڑا عذاب ہے ۔

۱۲۔۔۔      یہ کیوں نہ ہوا کہ جب تم لوگوں نے ان کو سنا تھا تو مومن مرد اور مومن عورتیں اپنے بارے میں نیک گمان کرتے اور وہ سب یوں کہتے کہ یہ تو ایک کھلا بہتان ہے ،

۱۳۔۔۔      یہ لوگ اس الزام پر چار گواہ کیوں نہ لائے ، پھر جب وہ گواہ نہیں لا سکے تو تو اﷲ کے نزدیک یہی ہیں جھوٹے ،

۱۴۔۔۔      اور اگر تم لوگوں پر اﷲ کی مہربانی اور اس کی رحمت نہ ہوتی دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، تو یقینی طور پر تم لوگوں کو پہنچ کر رہتا، ایک بہت بڑا عذاب ان باتوں کی وجہ سے جن میں تم لوگ پڑ گئے تھے

۱۵۔۔۔      جب کہ تم لوگ اس طوفان کو اپنی زبانوں سے نقل در نقل کرتے جا رہے تھے اور تم اپنے مونہوں سے وہ کچھ کہتے جا رہے تھے جس کا تمہیں کوئی علم نہ تھا اور تم اس کو معمولی چیز سمجھ رہے تھے ، مگر اﷲ کے نزدیک وہ بہت بڑی بات تھی،

۱۶۔۔۔      اور یہ کیوں نہ ہوا کہ جب تم لوگوں نے اس کو سنا تھا تو تم سنتے ہی یوں کہہ دیتے کہ ہمیں تو ایسی بات منہ سے نکالنا بھی زیب نہیں دیتا،ﷲ تو پاک ہے یہ تو ایک بہت بڑا بہتان ہے ۔

۱۷۔۔۔     اﷲ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ تم پھر کبھی ایسا نہ کرنا اگر تم ایماندار ہو

۱۸۔۔۔     اور اﷲ کھول کر بیان فرماتا ہے تمہارے لیے اپنے احکام و فرامین اور اللہ سب کچھ جانتا بڑا ہی حکمت والا ہے ۔

۱۹۔۔۔      بلاشبہ جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلے ان کے لیے ایک بڑا ہی دردناک عذاب ہے ، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، اﷲ جانتا ہے اور تم لوگ نہیں جانتے ۔

۲۰۔۔۔     اور اگر تم لوگوں پر اﷲ کی مہربانی اور اس کی رحمت نہ ہوتی اور یہ بات نہ ہوتی کہ اﷲ بڑا ہی نرمی کرنے والا نہایت مہربان ہے

۲۱۔۔۔      تو تم بھی اس وعید سے نہ بچتے اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو تم پیروی نہ کرنا شیطان کے نقش قدم کی، اور جو کوئی پیروی کرے گا شیطان کے نقش قدم کی تو یقیناً وہ اپنا ہی نقصان کرے گا کہ بے شک وہ تو بے حیائی اور برائی ہی سکھاتا ہے ۔ اور اگر اﷲ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی بھی کبھی بھی پاک صاف نہ ہوتا، لیکن اﷲ جسے چاہے پاک کر دیتا ہے ، اور اﷲ ہر کسی کی سنتا سب کچھ جانتا ہے ۔

۲۲۔۔۔      اور تم میں سے جو لوگ فضل اور کشائش والے ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھا بیٹھیں کہ وہ اپنے رشتہ داروں محتاجوں اور اﷲ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کی مدد نہیں کریں گے ، انہیں معافی اور درگزر ہی سے کام لینا چاہیے کیا تم لوگ نہیں چاہتے کہ اﷲ تمہیں معاف کر دے ؟ اور اللہ بڑا ہی معاف کرنے والا نہایت ہی مہربان ہے ۔

۲۳۔۔۔     جو لوگ تہمت لگاتے ہیں پاک دامن، بھولی بھالی، ایماندار عورتوں کو اور ان پر لعنت اور پھٹکار ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے ۔

۲۴۔۔۔     جس دن ان کے خلاف گواہی دیں گی خود ان کی اپنی زبانیں اور ان کے اپنے ہاتھ اور پاؤں ان کاموں کی جو یہ لوگ کیا کرتے تھے

۲۵۔۔۔     اس دن اﷲ انہیں ان کا وہ بدلہ پورے کا پورا دے گا جس کے وہ مستحق ہیں اور انہیں قطعی طور پر خود معلوم ہو جائے گا کہ اﷲ ہی ہے حق اور حقیقت کو کھول دینے والا۔

۲۶۔۔۔      خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لائق ہوتی ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لیے اور پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لائق ہوتی ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے یہ ان باتوں سے پاک ہیں جو بنانے والے بناتے ہیں ، ان کے لیے بخشش بھی ہے اور عزت کی روزی بھی۔

۲۷۔۔۔     اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو یہاں تک کہ تم اجازت نہ لے لو اور اجازت لینے سے پہلے گھر والوں کو سلام نہ کر لو یہ تمہارے لیے بہت بہتر ہے تاکہ تم لوگ نصیحت حاصل کرو

۲۸۔۔۔      پھر اگر تم کو ان گھروں میں کوئی اجازت دینے والا نہ ملے تو تم ان میں داخل نہ ہوا کرو یہاں تک کہ تم کو اجازت دی جائے ، اور اگر کبھی تم سے کہہ دیا جائے کہ واپس چلے جاؤ تو تم واپس چلے جایا کرو یہ تمہارے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے ، اور اللہ پوری طرح جانتا ہے ان سب کاموں کو جو تم لوگ کرتے ہو

۲۹۔۔۔     تم پر اس بات میں کوئی گناہ نہیں کہ تم ایسے مکانوں میں بلا اجازت داخل ہو جاؤ جن میں کوئی بستا نہیں اور تمہیں بھی ان کے برتنے کا حق ہے اور اللہ کو ایک برابر معلوم ہے وہ سب کچھ جو تم لوگ ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے ہو۔

۳۰۔۔۔     کہہ دو! ایماندار مردوں سے اے پیغمبر کہ وہ بچا کر رکھیں اپنی نگاہوں کو اور حفاظت کریں اپنی شرمگاہوں کی حرام سے یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے ۔ بلا شبہ اﷲ کو پوری خبر ہے ان سب کاموں کی جو یہ لوگ کرتے ہیں

۳۱۔۔۔     اور مومن عورتوں سے بھی کہہ دو کہ وہ بچا کر رکھیں اپنی نگاہوں کو اور حفاظت کریں اپنی شرمگاہوں کی اور ظاہر نہ کریں اپنی زینت کو مگر جو خود ظاہر ہو جائے اور اپنی اوڑھنیوں کے آنچلوں کو وہ اپنے سینوں پر ڈال دیا کریں اور اپنا بناؤ سنگھار ظاہر نہ کریں مگر اپنے خاوندوں کے سامنے یا اپنے باپوں کے سامنے یا اپنے خاوندوں کے باپوں کے سامنے یا اپنے بیٹوں کے سامنے یا اپنے خاوندوں کے بیٹوں کے سامنے یا اپنے بھائیوں کے سامنے یا اپنے بھتیجوں کے سامنے یا اپنے بھانجوں کے سامنے یا اپنی دین شریک عورتوں کے سامنے یا ان مملوکوں کے سامنے جن کے مالک ہو چکے ہوں ان کے داہنے ہاتھ یا ان ماتحت مردوں کے سامنے جنہیں عورتوں کی حاجت نہ ہو یا ان لڑکوں کے سامنے جو عورتوں کی پردہ کی چیزوں سے واقف نہ ہوں اور وہ زمین پر اس طرح زور سے پاؤں مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہو وہ ظاہر ہونے لگے اور تم سب توبہ کرو اﷲ کے حضور ایمان والو تاکہ تم فلاح پا سکو۔

۳۲۔۔۔      اور نکاح کرا دیا کرو تم لوگ ان کے جو تم میں سے بے نکاح ہوں اور اپنے ان غلام اور لونڈیوں کے بھی جو صالح ہوں ، اگر وہ محتاج ہوں گے تو اللہ ان کو غنی و مالدار بنا دے گا اپنے فضل و کرم سے اور اللہ بڑی ہی کشائش والا سب کچھ جانتا ہے

۳۳۔۔۔      اور جو لوگ نکاح کی قدرت نہیں رکھتے ان کو چاہیے کہ وہ پاک دامن رہیں یہاں تک کہ اﷲ ان کو غنی اور مالدار بنا دے اپنے فضل و کرم سے اور تمہارے مملوکوں میں سے جو لوگ مکاتب ہونے کی خواہش کریں تم ان کو مکاتب بنا دیا کرو اگر تم ان میں بہتری کے آثار پاؤ اور ان کو اﷲ کے اس مال میں سے دیا کرو جو اس نے تم کو عطا فرما رکھا ہے اور اپنی لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور نہ کیا کرو، بالخصوص جب کہ وہ خود پاک دامن رہنا چاہتی ہوں اور تم یہ ذلیل حرکت محض اس لیے کرو کہ تم دنیا کا کچھ مال حاصل کر سکو پھر یاد رکھو کہ جو ان کو مجبور کرے گا تو اﷲ ان کے مجبور ہونے کے بعد ان کی بخشش فرما دے گا کہ بے شک اﷲ بڑا ہی بخشنے والا انتہائی مہربان ہے

۳۴۔۔۔     اور بلاشبہ ہم نے تمہاری طرف کھلے کھلے احکام بھی اتار دئیے (اے لوگو!) اور کچھ عبرت انگیز واقعات بھی ان لوگوں کے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں اور ایک عظیم الشان نصیحت بھی پرہیزگاروں کے لیے ۔

۳۵۔۔۔     اﷲ نور ہے آسمانوں اور زمین کا اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے کہ ایک طاق ہو اس میں ایک چراغ ہو، وہ چراغ ایک فانوس میں ہو، وہ فانوس ایسا کہ گویا کہ وہ موتی جیسا چمکتا ہوا ایک ستارہ ہے وہ چراغ زیتون کے ایک ایسے مبارک درخت کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو جو نہ مشرقی ہو نہ مغربی اس کا تیل بھی ایسا صاف و شفاف ہو کہ وہ خود بخود بھڑکا پڑتا ہو، اگرچہ آگ نے اس کو چھوا تک بھی نہ ہو (بس) نور پر نور ہے اﷲ اپنے اس نور کی طرف ہدایت کی توفیق و عنایت سے نوازتا ہے جس کو چاہتا ہے اور وہ بیان فرماتا ہے لوگوں کے لیے طرح طرح کی اور عمدہ عمدہ مثالیں اور اللہ ہر چیز کا پورا پورا علم رکھتا ہے

۳۶۔۔۔      وہ نور ملتا ہے ایسے گھروں میں جن کے بارے میں اﷲ نے حکم دیا ہے کہ ان کی تعظیم کی جائے اور ان میں اس کا نام لیا جائے ، ان میں صبح و شام اس کی تسبیح کرتے ہیں ۔

۳۷۔۔۔     ایسے لوگ جنہیں اﷲ کی یاد اقامت نماز اور ادائیگی زکوٰۃ سے نہ کوئی سوداگری غفلت میں ڈال سکتی ہے اور نہ ہی کوئی خرید و فروخت ان کے آڑے آ سکتی ہے وہ ڈرتے رہتے ہیں ایک ایسے ہولناک دن سے جس میں الٹ دئیے جائیں گے دل اور پتھرا جائیں گی آنکھیں

۳۸۔۔۔     اور یہ اس لیے کہ تاکہ اﷲ ان کو بہترین بدلے سے نوازے ان کے زندگی بھر کے کیے کرائے پر اور مزید برآں وہ ان کو سرفراز فرمائے اپنی شان کریمی کی بناء پر اپنے خاص فضل و کرم سے اور اللہ جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے بغیر کسی حساب کے

۳۹۔۔۔     اور اس کے برعکس جو لوگ اڑے رہے ہوں گے اپنے کفر و باطل پر ان کے اعمال کی مثال کسی چٹیل میدان میں چمکنے والی اس ریت کی سی ہے جسے پیاسا شخص پانی سمجھ رہا ہو یہاں تک کہ جب وہ پانی کی امید میں چلتا ہوا اس کے پاس پہنچے تو اس کو وہاں پانی والی تو کچھ بھی نہ ملے البتہ وہاں وہ اﷲکی طرف سے آنے والی موت کو پا لے اور وہ اس کا حساب چکا دے ۔

۴۰۔۔۔     کہ اﷲ کو تو حساب چکاتے کوئی دیر نہیں لگتی یا جیسے کسی گہرے سمندر کے ایسے ہولناک اور گمبھیر اندھیرے ہوں جہاں موج پر موج چھائے جا رہی ہو اور اس کے اوپر بادل ہو غرضیکہ طرح طرح کے گھٹا ٹوپ اندھیرے ایک دوسرے پر اس طرح مسلط ہوں کہ آدمی جب اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی دیکھنے نہ پائے اور جسے اﷲ نور سے نہ نوازے اس کے لیے کہیں سے بھی کوئی نور نہیں ہو سکتا

۴۱۔۔۔     کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اﷲ  ہی کی تسبیح کرتے ہیں وہ سب جو کہ آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں اور پرند بھی اپنے پر پھیلائے ہوئے ہر ایک نے اچھی طرح جان پہچان رکھا ہے اپنی نماز اور اپنی تسبیح کو اور اللہ کو پوری طرح علم ہے ان سب کاموں کا جو یہ لوگ کر رہے ہیں

۴۲۔۔۔     اور اللہ ہی کے لیے ہے بادشاہی آسمانوں کی اور زمین کی اور اللہ ہی کی طرف پلٹنا ہے سب کو۔

۴۳۔۔۔      کیا تم دیکھتے نہیں کہ اﷲ کس طرح بادل کو چلاتا ہے پھر اس کی مختلف ٹکڑیوں کو آپس میں جوڑ دیتا ہے پھر اس کو تہ بر تہ کر کے ایک کثیف بادل بنا دیتا ہے پھر تم بارش کو دیکھتے ہو کہ وہ اس کے بیچ میں سے نکل نکل کر برستی ہے اور وہ آسمانوں سے یعنی ایسے پہاڑوں سے جن میں اولے ہیں اولے برساتا ہے پھر ان کو وہ جس پر چاہتا ہے گرا دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے پھیر دیتا ہے اور حال یہ ہوتا ہے کہ قریب ہے کہ اس کی بجلی کی کوند اور چمک اچک لے اس کی نگاہوں کو،

۴۴۔۔۔     اﷲ ہی ادلتا بدلتا ہے رات اور دن کو نہایت پر حکمت طریقے سے بلاشبہ اس سارے نظام میں بڑا بھاری سامان عبرت ہے آنکھوں والوں کے لیے

۴۵۔۔۔     ﷲ ہی نے پیدا فرمایا ہر جاندار کو پانی کے جو ہر عظیم سے پھر ان میں سے کچھ پیٹ کے بل چلتے ہیں اور کچھ دو پاؤں پر چلتے ہیں اور کچھ چار پر، اور اس کے علاوہ بھی اﷲ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے بے شک  اﷲ ہر چیز کے خلق و ابداع پر پوری قدرت رکھتا ہے

۴۶۔۔۔      بلاشبہ ہم ہی نے اتاریں حق اور حقیقت کو کھول کر بیان کرنے والی عظیم الشان آیتیں ، اور اللہ جس کو چاہتا ہے ہدایت سے نوازتا ہے سیدھے راستے کی طرف،

۴۷۔۔۔     اور کہنے کو تو یہ منافق لوگ یوں کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے  اﷲ  پر اور اس کے رسول پر اور ہم نے اطاعت قبول کی مگر حال ان کا یہ ہے کہ پھر انہی میں کا ایک گروہ اس کے بعد پھر جاتا ہے راہ حق و صواب سے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ ایماندار ہیں ہی نہیں

۴۸۔۔۔     اور ان کا حال یہ ہے کہ جب ان کو بلایا جاتا ہے  اﷲ اور اس کے رسول کی طرف تاکہ فیصلہ فرمائے رسول ان کے درمیان تو ان میں سے ایک گروہ منہ موڑ لیتا ہے حق و صواب سے

۴۹۔۔۔     اور اگر کہیں حق ان کو پہنچتا ہو تو یہ آپ کے پاس گردن جھکائے دوڑے چلے آتے ہیں

۵۰۔۔۔     کیا ان لوگوں کے دلوں میں روگ ہے کفرو نفاق کا؟ یا یہ لوگ شک میں پڑے ہوئے ہیں ؟ یا ان کو اس بات کا خوف و اندیشہ لاحق ہے کہ کہیں ظلم اور بے انصافی کر دے گا ان پرﷲپاک اور اس کا رسول؟ نہیں ان میں سے کچھ بھی نہیں بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ ہیں ہی ظالم اور بے انصاف لوگ

۵۱۔۔۔     اس کے برعکس سچے مسلمانوں کی شان یہ ہے کہ جب ان کو بلایا جاتا ہے اﷲ اور اس کے رسول کی طرف تاکہ فیصلہ فرمائے ان کے درمیانﷲ کا رسول تو وہ برضا و رغبت یوں کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مانا اپنے اور اس کے رسول کے حکم کو اور یہی لوگ ہیں فلاح پانے والے

۵۲۔۔۔     اور عام ضابطہ و قانون ہمارے یہاں یہ ہے کہ جو بھی کوئی صدق دل سے اطاعت و فرمانبرداری کرے گا اﷲاور اس کے رسول کی اور وہ ڈرتا رہے گاﷲکی گرفت و پکڑ سے اور بچتا رہے گا اس کی نافرمانی سے تو ایسے ہی لوگ ہیں کامیاب ہونے والے

۵۳۔۔۔     اور منافقوں کے بارے میں مزید سنو کہ یہ لوگ قسمیں کھاتے ہیں اﷲ کے پاک نام کی بڑے زور شور سے کہ اگر آپ ان کو گھر بار چھوڑ دینے کا بھی حکم دیں تو وہ ضرور نکل کھڑے ہوں گے سو ان سے کہو کہ قسمیں نہ کھاؤ فرمانبرداری کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں بلا شبہ اﷲ کو ان سب کاموں کی پوری خبر ہے جو تم لوگ کر رہے ہو

۵۴۔۔۔     ان سے کہو کہ کہا مانو تم لوگ اللہ کا اور اس کے رسول کا پھر اگر تم لوگ پھر گئے تو خوب سمجھ لو کہ رسول کے ذمے بس وہی ہے جو ان پر ڈالا گیا اور تمہارے ذمے وہ ہے جو تم پر ڈالا گیا اور اگر تم لوگ رسول کی اطاعت کرو گے تو تم خود ہی ہدایت پاؤ گے ورنہ رسول کے ذمے صاف صاف پہنچا دینے کے سوا اور کچھ نہیں ۔

۵۵۔۔۔     اﷲ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو صدق دل سے ایمان لائے اور انہوں نے کام بھی نیک کیے کہ وہ ان کو ضرور بالضرور نوازے گا اس زمین میں خلافت و حکمرانی کے شرف سے جیسا کہ وہ نواز چکا ہے خلافت و حکمرانی کے اس شرف سے ان لوگوں کو جو گزر چکے ہیں ان سے پہلے اور وہ ضرور بالضرور مستحکم و مضبوط فرما دے گا ان کے لیے ان کے اس دین کو جس کو اس نے پسند فرمایا ہے ان کی صلاح و فلاح کے لیے اور وہ ضرور بالضرور بدل دے گا ان کے خوف و ہراس کو امن و امان کی نعمت سے بشرطیکہ وہ میری عبادت و بندگی کریں صدق و اخلاص سے اور میرے ساتھ کسی بھی قسم کا کوئی شرک نہ کریں اور جس نے کفر و ناشکری کا ارتکاب کیا اس نعمت سے سرفرازی کے بعد تو ایسے ہی لوگ ہیں فاسق و بدکار

۵۶۔۔۔     اور تم قائم رکھو نماز کو اور ادا کرتے رہا کرو فریضہ زکوٰۃ کو اور صدق دل سے اطاعت و فرمانبرداری کرو اﷲ کے رسول کی

۵۷۔۔۔     تاکہ تم کو نوازا جائے اس کے رحم و کرم سے اور کبھی تم ان لوگوں کے بارے میں یہ گمان بھی نہ کرنا جو کہ اڑے ہوئے ہیں اپنے کفر و باطل پر کہ وہ عاجز کر دیں گے  اﷲ کو اس کی اس زمین میں اور ان سب کا آخری ٹھکانا تو بہر حال دوزخ ہے اور بڑا ہی برا ٹھکانا ہے وہ

۵۸۔۔۔      اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو تمہارے مملوکوں اور ان لڑکوں کو جو ابھی بلوغ کی حد کو نہیں پہنچے تمہارے پاس آنے کے لیے تین وقتوں میں اجازت لینی چاہیے یعنی صبح کی نماز سے پہلے دوپہر کے وقت جب تم لوگ اپنے کپڑے اتار دیتے ہو اور عشاء کی نماز کے بعد کیونکہ یہ تینوں وقت تمہارے پردے کے وقت کے ہوتے ہیں ۔ ان کے علاوہ ان کے بلا اجازت آ جانے میں نہ تم پر کوئی گناہ ہے نہ ان پر، کیونکہ تمہیں آپس میں ایک دوسرے کے پاس بار بار آنا جانا ہوتا ہے تو ہر وقت اجازت لینے میں حرج ہوتا ہے اسی طرح اﷲ کھول کر بیان فرماتا ہے تمہارے لیے اپنے احکام اور اللہ سب کچھ جانتا بڑا ہی حکمت والا ہے

۵۹۔۔۔      اور جب تمہارے لڑکے بلوغ کی حد کو پہنچ جائیں ، تو ان کو بھی اسی طرح اجازت لینی چاہیے جس طرح کہ ان کے بڑے اجازت لیتے ہیں اسی طرح اﷲ کھول کھول کر بیان کرتا ہے تمہارے لیے اپنے احکام اور اللہ سب کچھ جانتا بڑا ہی حکمت والا ہے ۔

۶۰۔۔۔      اور وہ خانہ نشیں بوڑھی عورتیں جو کو نکاح کی کوئی امید باقی نہ رہی ہو ان پر اس بات میں کوئی گناہ نہیں کہ وہ اپنے زائد کپڑے اتار کر رکھ دیں بشرطیکہ وہ کسی زینت کی نماز کرنے والی نہ ہوں ، اور اس رخصت کے باوجود اگر وہ بھی بچ کر رہیں تو یہ ان کے حق میں بہر حال بہتر ہے اور اللہ ہر کسی کی سنتا سب کچھ جانتا ہے ۔

۶۱۔۔۔      نہ اندھے پر کوئی حرج و تنگی ہے اور نہ لنگڑے پر اور نہ ہی بیمار پر، اور نہ خود تم پر اس بات میں کہ تم لوگ کھاؤ پیو اپنے گھروں سے یا اپنے باپوں کے گھروں سے یا اپنی ماؤں کے گھروں سے ، یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے ، یا اپنی بہنوں کے گھروں سے یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے یا ان گھروں سے جن کی کنجیاں تمہارے حوالے ہوں ، یا اپنے دوستوں کے گھروں سے پھر اس میں بھی خواہ تم سب مل کر کھاؤ یا الگ الگ تم پر کوئی حرج نہیں ، پھر یہ بھی یاد رہے کہ جب تم داخل ہونے لگو گھروں میں تو سب سے پہلے سلام کیا کرو اپنے لوگوں کو،اﷲ کی طرف سے تعلیم فرمودہ ایک حیات آفریں اور پاکیزہ دعا کے طور پر اسی طرح اﷲ کھول کر بیان کرتا ہے تمہارے لیے اپنے احکام تاکہ تم لوگ سمجھو اور عقل سے کام لو

۶۲۔۔۔     مومن تو حقیقت میں وہی لوگ ہیں جو (دل و جان سے ) ایمان لائے اﷲ اور اس کے رسول پر اور جب وہ کسی اجتماعی کام میں رسول کے ساتھ ہوں تو اس وقت تک نہ جائیں جب تک کہ وہ ان سے اجازت نہ لے لیں اے پیغمبر جو لوگ آپ سے اجازت مانگتے ہیں بلاشبہ وہی ہیں جو ایمان و یقین رکھتے ہیں اﷲ  پر اور اس کے رسول پر پس جب یہ لوگ اپنے کسی کے لیے آپ سے اجازت مانگا کریں تو آپ ان میں سے جس کے لیے چاہیں اجازت دے دیا کریں اور ان کے لئے  اﷲ  سے بخشش کی دعاء بھی کیا کریں بے شک  اﷲ  بڑا ہی بخشنے والا نہایت ہی مہربان ہے ۔

۶۳۔۔۔      ایمان والو، خبردار کہیں تم رسول کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کو بلانے کی طرح نہ سمجھ لینا۔ یقیناً اﷲ پوری اور اچھی طرح جانتا پہچانتا ہے ان لوگوں کو جو تم میں کھسک جاتے ہیں آنکھ بچا کر سو ڈرنا اور اپنے ہولناک انجام سے بچنا چاہیے ان لوگوں کو جو خلاف ورزی کرتے ہیں اس وحدہٗ لاشریک کے حکم و ارشاد کی اس بات سے کہ کہیں اچانک اس دنیا ہی میں آن پڑے ان پر کوئی ہولناک آفت یا آ پکڑے ان کو آخرت کا دردناک عذاب

۶۴۔۔۔     آگاہ رہو کہ بے شک  اﷲ ہی کا ہے وہ سب کچھ جو کہ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ پوری طرح جانتا ہے اس حال کو جس پر تم لوگ ہو اور یاد رکھو اس دن کو جس دن کہ ان سب کو اسی کی طرف پھیر لایا جائے گا پھر وہ ان کو وہ سب کچھ ٹھیک ٹھیک بتا دے گا جو انہوں نے زندگی بھر کیا کرایا ہو گا اور اللہ ہر چیز کو پوری طرح جانتا ہے ۔

تفسیر

 

۱.      سو اس سے اس سورہ کریمہ کی عظمت شان کو واضح فرما دیا گیا کہ یہ ایک ایسی عظیم الشان سورت ہے جس کو ہم نے اتارا ہے، سو یہ کوئی معمولی چیز نہیں۔ بلکہ یہ ہمارا اتارا ہوا کلام اور ہمارا نازل کردہ فرمان ہے، پس اس میں جو کچھ فرمایا گیا وہ سب سراسر حق و صدق، اور واجب الاذعان ہے اور اس میں جو احکام اتارے گئے ہیں، اور جو ہدایات و تعلیمات ارشاد فرمائی گئی ہیں، ان سب کو ہم نے فرض قرار دیا ہے سو ان کی حیثیت کوئی سفارشات کی نہیں، بلکہ فرائض کی ہے جن کی تعمیل ضروری اور انکی اطاعت فرض ہے، اس میں کسی تساہل اور سہل انگاری کی کوئی گنجائش نہیں۔ ان سے متعلق بہر حال پُرسش ہو گی۔ سو اس سورہ کریمہ کی اس عظمت شان کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کو سیکھا اور پڑھا جائے، وباللہ التوفیق،

۲.      معاشرتی استحکام کا دارو مدار بڑی حد تک اور بنیادی طور پر رحمی رشتوں کی سلامتی و پاکیزگی، اور اس بارہ خلل و فساد سے حفاظت ہی پر مبنی ہے، اور زنا اس معاشرتی پاکیزگی کے اختلال و فساد کا سب سے بڑا اور بنیادی سبب اور باعث ہے، اس لئے یہاں پر سب سے پہلے اسی خلل و فساد کے سدِّباب کے لئے اس سے متعلق تعزیری حکم کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ کہ اس جرم کا ارتکاب کرنے والے مرد اور عورت میں سے ہر ایک کو سو سو کوڑے مارے جائیں۔

 سو اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان و یقین کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کے دین اور اس کے احکام کی تنفیذ کے بارے میں کسی طرح کی کوئی نرمی اور رحمدلی آڑے نہ آنے پائے۔ کیونکہ خدائے رحمان کے احکام و ارشادات پر بلاچوں و چرا، اور صدق و اخلاص سے عمل کرنا ہی رحمت کا تقاضا ہے، اسی میں پورے معاشرے اور مجموعی طور پر ساری انسانیت کا بھلا ہے، دین اللہ سے یہاں پر یہی حدِّ زنا مراد ہے جس کا ذکر و بیان یہاں فرمایا جا رہا ہے سو مطلب یہ ہوا کہ اس کی تنفیذ میں کسی طرح کی نرمی یا مداہنت اور چشم پوشی سے کام نہ لیا جائے اور ایسی کسی چیز کو اس راہ میں حائل نہ ہونے دیا جائے پس نہ ایسی عورت کے ساتھ کوئی نرمی برتی جائے اور نہ ایسے مرد کے ساتھ نہ امیر کے ساتھ، اور نہ غریب کے ساتھ بلکہ خدائے پاک کی مقرر فرمودہ حد کو بے لاگ طور پر اور بغیر کسی رُو رعایت کے نافذ کیا جائے۔ کہ خدائے رحمان و رحیم کی مقرر فرمودہ حدود کی پابندی و پاسداری ہی تقاضاء رحمت و عنایت ہے۔ کہ اس کی رحمت سب سے بڑی اور سب پر حاوی و محیط ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ

 تاکہ اس طرح عبرت پذیری کے تقاضے پورے ہو سکیں۔ جو کہ اسلامی حدود و تعزیر کا ایک اہم اور بنیادی مقصد ہے، اسی لئے ان کو دوسرے مقام پر نکال کے لفظ سے تعبیر فرمایا گیا ہے جس کے معنی عبرت انگیز سزا کے ہوتے ہیں سو اس مصلحت کا تقاضا یہ ہے کہ یہ سزائیں کھلے عام اور پبلک مقامات پر دی جائیں تاکہ دنیا عبرت پکڑے اور معاشرہ ایسے جرائم سے پاک ہو سکے اس کے برعکس اگر یہ سزائیں چپ چپاتے اور جیلوں کی کال کوٹھڑیوں میں دی جائیں جیسا کہ آجکل ہو رہا ہے تو یہ مصلحت فوت ہو جاتی ہے اس لئے ارشاد فرمایا گیا کہ ان دونوں کی سزا کے موقع پر اہل ایمان کے ایک گروہ کو وہاں پر موجود رہنا چاہیئے، تاکہ وہ انکے عبرتناک انجام کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔

۴.      سو حد زنا کے بیان کے بعد اب اس سے قذف کے معاملہ میں شہادت اور سزا کا قانون بیان فرمایا جا رہا ہے سو جو لوگ شریف آزاد اور مؤمن عورت کو زنا کی تہمت لگائیں ان کے ذمے لازم ہے کہ وہ اپنی اس تہمت اور اس الزام کے ثبوت کے لئے چار عینی گواہ پیش کریں۔ جو کہ حد زنا کے ثبوت کے لئے ضروری ہے، اور اگر وہ چار ایسے معتبر گواہ نہ پیش کر سکیں۔ تو پھر حکم یہ ہے کہ ان کو اسّی کوڑے لگائے جائیں۔ اور ان کو ہمیشہ کے لئے ساقط الشہادۃ قرار دیا جائے۔ یعنی انکی شہادت اور گواہی کو کبھی اور کسی معاملہ میں قبول نہ کیا جائے۔ اور یہ کوئی معمولی سزا نہیں، بلکہ اسلامی معاشرے میں یہ بڑی بُری اور سخت سزا ہے، کیونکہ یہ چیز ایسے لوگوں کی حیثیت کے خاتمے کے مترادف ہے، کہ امت مسلمہ کا اصل شرف اور مرتبہ ہی یہ ہے۔ یعنی شہادت علی الناس، یعنی لوگوں پر گواہی دینا، کیونکہ حق کی دولت اور اس کی گواہی کا شرف مسلمان ہی کے پاس ہے، پس کسی مسلمان سے اس شرف کو چھین لینا اور اس کو ساقط الشہادۃ قرار دینا ایسے ہی ہے جیسے ایک فوجی جرنیل سے اس کے سارے تمغے اور سٹار چھین لئے جائیں،

۹.      ان آیات کریمات میں لِعْان کا حکم بیان فرمایا گیا ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگائے، اور اس کے پاس اس کی ذات کے سوا کوئی گواہ موجود نہ ہو تو اس صورت میں اس کا فیصلہ قسموں کے ذریعے ہو گا۔ اس کو شریعت کی اصطلاح میں لِعان کہا جاتا ہے۔ سو اس سلسلہ میں ان قسموں کی شکل یہ ہو گی کہ ایسا شخص چار مرتبہ قسم کھا کر کہے کہ میں اپنے اس الزام میں سچا ہوں جو میں اس عورت پر لگا رہا ہوں۔ اور پانچویں مرتبہ وہ یوں کہے کہ اگر وہ اپنے اس الزام میں جھوٹا ہے تو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ مرد کی ان قسموں کے بعد عورت اگر خاموش رہتی ہے اور وہ مرد کی ان قسموں کی کوئی مدافعت نہیں کرتی۔ تو اس پر حد زنا جاری ہو گی، اور اگر وہ اس الزام کو تسلیم نہیں کرتی، تو اس کی برأت کی صورت یہ ہو گی کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ یہ شخص اپنے اس الزام میں جھوٹا ہے جو اس نے مجھ پر لگایا ہے، اور پانچویں بار وہ یوں کہے کہ مجھ پر اللہ کا غضب ہو اگر یہ شخص اپنے اس الزام میں سچا ہے، میاں بیوی کے درمیان اس تکذیب اور باہم اگر ملاعنت کے بعد قاضی ان کے درمیان تفریق کرا دے گا، کیونکہ اس کے بعد ان کے درمیان اس سازگاری کی توقع نہیں کی جا سکتی جو میاں بیوی کے درمیان ازدواجی زندگی کے لئے ضروری ہوتی ہے۔

۱۰.    سو اس سے لَوْ شرطیہ کے جواب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، جو کہ اسی طرح کے کسی جملے سے مقدر و محذوف مانا جا سکتا ہے یعنی اگر تم لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور اس کی رحمت و عنایت نہ ہوتی۔ اور یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ تعالیٰ بڑا ہی تَوَّاب و حکیم ہے تو تم لوگ اپنے کئے کرائے کی پاداش میں اللہ کے غضب اور اس کے عذاب میں مبتلا ہو جاتے کیونکہ جس رَوش پر تم لوگ چل پڑے تھے اس کا نتیجہ و انجام یہی ہونا تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت و عنایت اور اپنے فضل و کرم سے تم لوگوں کو ایسی روشن ہدایات اور پُر حکمت احکام و تعلیمات سے نواز دیا۔ اور تمہارے لئے توبہ و اصلاح کے راستے کھل گئے والحمد للہ جل وعلا

۱۱.    اِفْکَ دراصل اس بات کو کہا جاتا ہے جو جھوٹی، من گھڑت، بے بنیاد، اور خلاف واقعہ ہوتی ہے۔ یہاں پر اس لفظ سے اس فتنے کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے جو غزوہ بنی مصطلق کے موقع پر منافقین نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی تہمت و الزام تراشی کے سلسلے میں گھڑا تھا سو اس لفظ سے واضح فرما دیا گیا کہ یہ جھوٹ اتنا بڑا سنگین اور اس قدر ہولناک جھوٹ تھا کہ اس کو زبان پر لانا بھی گوارا نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ یہ جھوٹ اس عظیم الشان اور مقدس ہستی سے متعلق تھا جو حضرت امام الانبیاء کی زوجہ مطہرہ اور تمام مسلمانوں کی ماں ہیں، اس لئے قرآن حکیم نے لفظ افک سے اس کی سنگینی کی طرف اشارہ کرنے کے بعد اس سے صرف نظر کر دیا۔ بس اتنا پتہ دے دیا کہ اس کو ایجاد کرنے والے اور اس کو پھیلانے والے کون لوگ ہیں تاکہ منبع شر و فساد سے بھی آگہی ہو جائے۔ اور اس سے ملنے والے دروس وعبر کو بھی اپنایا جائے، سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ یہ منافقین کا ایک گروہ ہے جو تمہارے اندر گھسا ہوا ہے، جن کا سرغنہ اور سردار عبد اللہ بن ابی تھا جس نے اس طوفان کا بڑا حصہ اپنے سر اٹھایا تھا، سو اس کو تم لوگ اپنے لئے شر نہ سمجھو، بلکہ اس سے صحیح فائدہ اٹھاؤ کہ اس کے اندر تمہارے لئے خیر کے بھی بہت سے پہلو ہیں مثلاً یہ کہ اس سے تمہیں اپنے اندر کے مار آسینوں کا پتہ چل گیا۔ تمہیں اپنی اصلاح کا موقع مل گیا، تاکہ تم لوگ معاشرے کے تزکیہ و تطہیر کے اہتمام کی طرف توجہ کر سکو، وغیرہ وغیرہ

۱۴.    اَفَاضَ فی الحدیث کا مطلب ہوتا ہے بات میں گھس جانا اور کھو جانا، اور اس طور پر کہ بات سے بات نکالتے ہوئے آدمی کہیں سے کہیں جا پہنچے اور بات کا بتنگڑ بنا ڈالے۔ اور یہ دراصل کسی بات کے پیچھے لگ جانے اور اس کو نقل در نقل کرتے جانے کا ایک طبعی تقاضا اور لازمی نتیجہ ہوتا ہے سو اس سے مسلمانوں کو دوبارہ تنبیہ فرمائی گئی کہ اس معاملے میں تم لوگ جس روش پر چل نکلے تھے اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ تم کو ایک عذاب عظیم آ پکڑے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم اور اپنی رحمت و عنایت سے تم کو اس سے بچا لیا۔ کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت تم لوگوں پر دنیا و آخرت دونوں میں بہت بڑی ہے، اس لئے تم لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے اس فضل و کرم کی قدر کرنی چاہیے ایسا نہ ہو کہ تم اسی طرح کے کسی فتنے میں پھر مبتلا ہو کر کہیں اپنے آپ کو عذاب کا مستحق بنا ڈالو۔ والعیاذُ باللہ العظیم

۱۶.    یعنی تمہارے ایمان و یقین اور مرتبہ و مقام کا تقاضا یہ تھا کہ تم لوگ اس بات کو سنتے ہی رد کر دیتے اور اس کو زبان پر لانا بھی گوارا نہ کرتے، اور تم سنتے ہی اس کے بارے میں کہہ دیتے کہ اللہ کی پناہ یہ تو ایک بہتان عظیم ہے کیونکہ یہ بات ثبوت و شہادت سے بالکل عاری تھی، اور اس کی زد حضرت ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کی عزت و ناموس پر پڑتی تھی، جس سے اس کی سنگینی اور خطورت کہیں زیادہ ہو جاتی ہے۔

۱۹.    سیاق و سباق کے لحاظ سے اگرچہ اس ارشاد کا تعلق اس خاص واقعہ ہی سے ہے، کہ اس کا ذکر اسی کے ذیل میں فرمایا گیا ہے، لیکن الفاظ و کلمات کے عموم و شمول کے اعتبار سے یہ ہر دور اور ہر معاشرے پر حاوی ہے۔ سو اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مسلمان معاشرے کے اندر بے حیائی کے فروغ اور اس کی اشاعت کا جرم کتنا سنگین اور اس قدر ہولناک جرم ہے، اور یہ اس لئے کہ اشاعت فاحشہ، یعنی بے حیائی کے پھیلانے کا یہ جرم مسلمانوں کے اخلاقی وقار کی عمارت کو ڈھا دینے کا باعث ہے، حالانکہ ان کا اصل سرمایہ یہی ہے، یعنی ایمان و یقین کی مضبوطی اور اخلاق و کردار کی پاکیزگی اور سربلندی، اس لئے ارشاد فرمایا گیا اور اِنَّ کے حرف تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ بیشک جو لوگ اہل ایمان کے اندر بے حیائی پھیلانا چاہتے ہیں ان کے لئے بڑا دردناک عذاب ہے، دنیا میں بھی، اور آخرت میں بھی، اور جرم کی سنگینی کو مزید واضح کرنے کے لئے آیت کریمہ کے آخر میں ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ جانتا ہے اور تم لوگ نہیں جانتے اس لئے پورے معاشرے کو، اور خود اپنے آپ کو ان زہریلے اور مضرت رساں اثرات سے بچانے اور محفوظ رکھنے کے لئے اشاعت فاحشہ کے اس سنگین جرم سے خود بھی بچو، اور دوسروں کو بھی بچانے کی فکر کرو، ورنہ اس کا نتیجہ و انجام بہت بُرا ہے، والعیاذُ باللہ، یعنی بے حیائی کے پھیلانے کی ایسی کوششوں کے اثرات کہاں کہاں تک پہنچتے ہیں، اور کیا کیا گل کھلاتے ہیں، اور ان سے کون کونسے لوگ متاثر ہوتے ہیں، اور کس حد تک اور کس قدر متاثر ہوتے ہیں، اور ان کے زہریلے اثرات کہاں کہاں تک سرایت کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ، سو ان سب باتوں کو اللہ ہی جانتا ہے تم لوگ نہیں جان سکتے، لیکن افسوس کہ اس قدر سخت وعید کے باوجود آج شیاطین کی فوجیں دن رات اشاعت فاحشہ یعنی بے حیائی پھیلانے کے اس سنگین، جرم اور تباہ کن کام میں برابر مشغول ہیں۔ اور اس کے لئے وہ طرح طرح کے ہتھیاروں، اور نت نئے ہتھکنڈوں سے کام لے رہی ہیں، والعیاذ باللہ العظیم، والی اللّٰہ المشتکیٰ وہو المستعان فی کُلِّ حِیْنٍ وَّاٰن۔

۲۲.    روایات کے مطابق حضرت مسطح بن اثاثہ ایک نادار صحابی تھے جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے قریبی عزیز بھی تھے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ انکی ناداری کی بناء پر ان کی سرپرستی فرماتے تھے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت کے سلسلہ میں جب مسطح بھی اپنی نادانی کی بناء پر دوسرے لوگوں کی باتوں میں آگئے اور حضرت صدیق اکبر کو اس بات کا علم ہوا کہ وہ بھی کسی حد تک اس جھوٹے پروپیگنڈے میں شریک ہو گئے ہیں، تو طبعی طور پر آپ کو اس سے بہت صدمہ لاحق ہوا۔ اور آپ نے قسم کھا لی کہ اب میں مسطح کی کوئی مدد نہیں کروں گا۔ اور اسی قسم کے رویے کا اندیشہ دوسرے غیرت مند مسلمانوں سے بھی تھا اس لئے اس ارشاد سے ایسے سب لوگوں کو تنبیہ فرمائی گئی کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے نوازا ہے اور ان کو رزق کی کشائش عطا فرمائی ہے وہ اپنے مستحق قرابتداروں مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو انکی کسی غلطی کی بناء پر اپنی سرپرستی و امداد سے محروم کرنے کی قسم نہ کھا بیٹھیں۔ بلکہ وہ عفو و درگزری ہی سے کام لیں۔ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو حضرت ابوبکر نے اس کو سنتے ہی فوراً کہا۔ بَلیٰ وَاللّٰہِ اِنَّا تُحِبُّ اَنْ تَغْفِرْلَنَا یَا رَبَّنَا۔ یعنی ہاں اللہ کی قسم ہم سب اے ہمارے رب یہ چاہتے ہیں کہ تو ہماری بخشش فرمائے۔ چنانچہ اس کے بعد آپ نے نہ صرف یہ کہ حضرت مسطح کی امداد بحال کر دی، بلکہ آپ ان پر پہلے سے بھی زیادہ عنایات فرمانے لگے۔

۲۳.    سو اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پاکدامن بھولی بھالی ایماندار عورتوں پر تہمت لگانا کس قدر سنگین اور کتنا ہولناک جرم ہے، کہ ایسے لوگوں پر اس دنیا میں بھی لعنت و پھٹکار ہے، اور آخرت میں بھی، نہ ان کو دنیا میں سچی عزت و آبرو نصیب ہو سکے گی، اور نہ ہی آخرت میں اور ان کے لئے بہر حال بہت بڑا عذاب طے و مقرر ہے۔ والعیاذُ باللہ العظیم۔

۲۵.    سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ ان پر وہ ہولناک عذاب بدلہ و جزا کے اس ہولناک دن میں واقع ہو گا جبکہ خود انکی اپنی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور پاؤں بھی ان کے خلاف ان کے ان تمام کاموں کی گواہی دیں گے جو یہ لوگ زندگی بھر کرتے رہے تھے اس وقت نہ یہ کوئی عذر اور بہانہ پیش کر سکیں گے اور نہ ان کے جرائم کے ثبوت کے لئے کسی خارجی دلیل اور شہادت کی کوئی ضرورت ہو گی، تب ان کو اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا پورا پورا صلہ و بدلہ مل کر رہے گا، ان کی نگاہوں کے سامنے کے سب پردے ہٹ اور چھٹ جائیں گے اور ان کے سامنے پوری طرح واضح ہو جائے گا کہ اللہ ہی سراسر حق و عدل اور تمام حقائق کو آشکارا کرنے والا ہے۔

۲۶.    اس ارشاد سے ایک اصولی بات بیان فرمائی گئی ہے کہ خبیثوں کا جوڑ خبیثوں ہی سے لگتا ہے، اور پاکیزوں کا پاکیزوں کے ساتھ، اس دنیا میں بھی یہ چیز ایک طبعی تقاضے کے طور پر موجود ہوتی ہے، جبکہ آخرت کے یوم جزاء میں تو لوگوں کی درجہ بندی ہی ان کے ایمان و عقیدہ اور عمل و کردار کی بناء پر ہو گی، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَاِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ (التکویر۔۷) سو اس روز خبیثوں کو خبیثوں کے ساتھ جوڑ دیا جائے گا، اور پاکوں کو پاکوں کے ساتھ، تاکہ اس طرح ہر کوئی اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا صلہ و بدلہ پاس کے۔ سو اس روز پاکیزہ لوگ وہاں ہونگے جہاں وہ ان تمام خرافات اور بکواسات سے پاک اور ان سے بالکل بری ہونگے، جو ان کے خلاف اشرار کی طرف سے کی جاتی رہیں، اور ان کے لئے وہاں پر عظیم الشان بخشش اور عزت کی روزی ہو گی، یعنی وہ جنت کی سدا بہار نعمتوں سے سرفراز ہونگے۔ اللہ نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین

۲۷.    یہاں سے آگے کی آیات کریمات میں ان تعلیمات و ہدایات سے نوازا جا رہا ہے، جن کا مقصد ان رخنوں کو بند کرنا ہے جن سے معاشرے میں بدنظری اور تہمت طرازی وغیرہ اخلاقی مفاسد جنم لیتے ہیں، جن میں پہلی بات دوسروں کے گھروں میں آزادانہ آنے جانے سے متعلق پابندی کے بارے میں ہے۔ سو اس سے واضح فرما دیا گیا ہے کہ اگر تم میں سے کسی کو اپنے کسی دوسرے مسلمان بھائی کے گھر میں جانے کی ضرورت پیش آئے، تو وہ یونہی منہ اٹھا کر بغیر پوچھے اس کے گھر میں داخل نہ ہو جایا کرے۔ بلکہ پہلے اُنس و تعارف حاصل کرے۔ جس کا شائستہ اور بابرکت طریقہ یہ ہے کہ وہ گھر کے دروازے پر کھڑا ہو کر گھر والوں کو سلام کرے، اس کے بعد اگر اس کو سلام کا جواب اور اندر آنے کی اجازت ملے تو اندر داخل ہو، ورنہ واپس ہو جائے، اور اس طریقے میں گھر والوں اور باہر سے آنے والے دونوں کا بھلا اور ان کی بہتری ہے اور یہ طریقہ طرفین کے لئے موجب راحت اور باعث خیر و برکت ہے۔

۲۹.    غَیْرَ مَسْکُوْنَۃٍ سے مراد وہ مکافات ہیں جو غیر رہائشی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ یعنی ان کے اندر کسی کے بال بچے نہیں رہتے۔ بلکہ وہ عام لوگوں کے مشترکہ مفادات کے لئے ہوتے ہیں، کہ ان کا حکم الگ ہے سو ان میں داخلے کے لئے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہوتی، لیکن یہاں پر ان سے متعلق فِیْہَا مَتَاعٌ لَّکُمْ کی قید سے اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ ان میں داخلے سے متعلق تمہاری کوئی ضرورت اور مصلحت وابستہ ہو، پس اس کے عموم میں دکانیں، سرائیں، ہوٹل، مساجد و معابد، اور مردانہ نشست گاہیں وغیرہ وہ سب ہی مقامات داخل ہیں جن کے مفادات عام اور مشترک ہوتے ہیں، لہٰذا ایسے مقامات میں سے کسی کے اندر داخلے کے لئے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔ آیت کریمہ کے آخر میں اللہ تعالیٰ کی صفت علم کے حو آلہ و ذکر سے اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تمہارے ظاہر و باطن کو پوری طرح اور ایک برابر جاننے والا ہے۔ پس تم لوگوں کو ہمیشہ اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ تمہارا معاملہ اس کے ساتھ صحیح رہے، وباللہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلیٰ ما یُحِبُّ ویرید۔

۳۰.    مذکورہ بالا ہدایت کا تعلق دوسروں کے گھروں میں داخل ہونے کے معاملے سے ہے، جبکہ اس ہدایت کا تعلق خود انسان کی اپنی نگاہ کی حفاظت و نگہداشت سے ہے، یہاں پر قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ کے الفاظ سے یہ بات نکلتی ہے کہ غَضٍّ بَصَر اور حفظِ فروج تقاضائے ایمان و یقین ہے، اور مِنْ اَبْصَارِہِمْ میں کلمہ مِنْ سے یہ بات نکلتی ہے کہ غَضِّ بَصَر یعنی نگاہوں کو نیچی رکھنے کی ہدایت اس حد تک مطلوب ہے کہ انسان اجنبی اور غیر محرم عورتوں سے اپنی نگاہوں کو بچا کر رکھے۔ اور اگر دیکھا جائے تو اس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ غَضِّ بَصَر یعنی نگاہوں کی حفاظت کی تعلیم بڑی اہم اور بنیادی تعلیم ہے کیونکہ نگاہ درحقیقت وہ اولین قاصد ہے جو مرد اور عورت کے درمیان رابطے اور تعلق کا کام دیتی ہے، اگر کوئی شخص ایمانداری کے ساتھ اس پر پہرہ بٹھا دے تو وہ محض اسی کے نتیجے میں شیطان کے بہت سے فتنوں سے محفوظ ہو جاتا ہے، اور اس امر کی اساس و بنیاد خوف خداوندی ہے، اسی لئے آیت کریمہ کے آخر میں ارشاد فرمایا گیا کہ بیشک اللہ پوری طرح باخبر ہے ان تمام کاموں سے جو لوگ کرتے ہیں، پس فکر و کوشش ہمیشہ اس بات کی رہے کہ اس علیم و خبیر کے ساتھ میرا معاملہ صحیح ہو وباللّٰہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلیٰ ما یُحِبُّ ویرید، بِکُلِّ حَالٍ مِنْ الاحوال۔

۳۱.    اس آیت کریمہ میں ایماندار عورتوں کو جو غَضِّ بَصَر یعنی نگاہوں کی حفاظت سے متعلق ہدایات دی گئی ہیں ان کے بارے میں ایک بات تو یہ واضح رہنی چاہیے کہ ان کا تعلق اس ستر و حجاب سے ہے جو گھروں کے اندر مطلوب و مامور ہے نہ کہ گھر سے باہر کے ستر وحجاب سے متعلق کہ اس کا ذکر بنیادی طور پر سورہ احزاب میں فرمایا گیا ہے، اور دوسری بات اس سے متعلق یہ واضح رہنی چاہیے کہ اس میں زِیْنَتَہُنَّ کے لفظ میں زینت سے مراد عورتوں کے لباس اور زیورات وغیرہ ہیں جو کہ اس لفظ کا اولین اور متبادر مفہوم و مصداق ہے، پس جن لوگوں نے زینت کو مواضع زینت کے معنی میں لے کر چہرے کو پردے کے اعضاء سے خارج و مستثنیٰ قرار دیا ہے وہ صحیح نہیں کہ وہ لفظ کے ظاہر و تبادر کے بھی خلاف ہے اور حکمت ستر و حجاب کے تقاضوں کے بھی منافی کیونکہ چہرہ ہی انسانی جسم کا وہ اشرف و اعلیٰ حصہ ہے جو مفاسد و مفاتن کا اولین اور اہم مرکز ہے، اس کو ستر و حجاب سے خارج قرار دینے کے بعد اس حکم کا اصل مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے، سو آیت کریمہ میں وارد شدہ اور ارشاد فرمودہ حکم و ارشاد کا حاصل و خلاصہ یہ ہے کہ اگر گھر کے اندر کوئی غیر محرم داخل ہو تو ایماندار عورتوں کے دین و ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنی نگاہوں کی نگہداشت کریں، اور ان کو بچا کر رکھیں، اپنی شرم کی جگہوں کی حفاظت کریں۔ اور اپنی زینت کی چیزوں یعنی اپنے لباس اور زیور وغیرہ کو اس کے سامنے ظاہر نہ ہونے دیں، سوائے اس کے جس کا ظاہر ہونا ناگزیر ہو، یعنی ان کا ظاہری حصہ اور اپنی زینت کی چیزوں کا اظہار وہ صرف اپنے شوہروں کے سامنے ہی کر سکتی ہیں یا اپنے محرموں کے سامنے یا اپنے تعلق اور میل جول کی عورتوں کے سامنے۔ یا اپنے مملوکوں اور ایسے مردوں کے سامنے جو بہت بوڑھے ہو چکے ہوں۔ جن کی کفالت و نگہداشت کی ذمہ داری گھر والوں نے اپنے ذمے لے رکھی ہو۔ یا ان بچوں کے سامنے جو ابھی جنسی معاملات سے ناآشنا ہوں، اور مزید یہ کہ اگر کسی غیر محرم کی موجودگی میں عورتوں کو اپنے گھروں کے اندر نقل و حرکت کی ضرورت پیش آئے۔ تو وہ زمین پر اپنے پاؤں اس زور سے نہ ماریں جس سے ان کے زیورات کی جھنکار کا پتہ چلے۔ سو ان تمام ہدایات کا تعلق اندورن خانہ کی صورت حال سے ہے۔ نہ کہ گھر سے باہر کی صورت حال سے۔

۳۲.    ایامی جمع ہے ایم کی جس کے معنی بے نکاح شخص کے ہوتے ہیں۔ اس لئے اس کا اطلاق اس مرد پر بھی ہوتا ہے جو بیوی سے محروم ہو۔ اور اس عورت پر بھی جو شوہر سے محروم ہو، اور صالحین کے لفظ سے یہاں پر مراد وہ لوگ ہیں، جو جسمانی اور اخلاقی دونوں قسم کی صلاحتیں اپنے اندر رکھتے ہوں سو اس سے معاشرے کے اندر بے راہ روی اور جنسی شدت کو روکنے کے لئے اور معاشرے کی صحت و صفائی اور پاکیزگی کو برقرار کے لئے ایک اور اہم حکم و ارشاد فرمایا گیا ہے، کہ معاشرے کے اندر موجود بے نکاح لوگوں کے نکاح کا اہتمام وانتظام کیا جائے۔ اور اس ضمن میں عام لوگوں کے علاوہ ان غلاموں اور باندیوں کے بھی نکاح کرا دئے جائیں جو جسمانی اور اخلاقی اعتبار سے اس کی اہلیت اور صلاحیت رکھتے ہوں، کہ وہ اپنے حقوق و فرائض کو سمجھتے ہوں، اور اپنی ذمہ سنبھال سکتے ہوں، تاکہ اس طرح انکا اخلاقی مرتبہ ومقام بھی بلند ہو سکے اور اس کے نتیجے میں وہ بھی معاشرے کے صالح افراد بن سکیں، نیز یہ بھی ہدایت فرمائی گئی کہ بے نکاح لوگوں کے نکاح کے سلسلے میں ان کی مفلسی و ناداری رکاوٹ نہیں بننی چاہئے، کیونکہ صدق و اخلاص کی بنا پر کئے گئے نکاح کے صلہ و بدلے میں اللہ تعالیٰ ایسوں کو اپنے فضل و کرم سے غنی و مالدار بنا دے گا۔ پس محض اس بناء پر بے نکاحوں کو انکے حق نکاح سے محروم نہ رکھا جائے۔ کہ وہ نادار اور مفلس ہیں۔

۳۳.    سو اس سے ان منافق لوگوں کو تنبیہ فرمائی گئی ہے، جنہوں نے حرام کمائی کے لئے چکلے قائم کر رکھے تھے، اور وہ اپنی باندیوں سے کسب کرایا کرتے تھے، سو ایسے لوگوں کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ اپنی باندیوں کو بدکاری پر مجبور مت کرو جبکہ وہ پاکدامنی کی زندگی اختیار کرنا چاہتی ہوں، ورنہ یاد رکھو کہ اگر تم لوگوں نے ان کو مجبور کیا تو اللہ تعالیٰ ان کو تو ان کی مجبوری اور جبر و اکراہ کی بنا پر معاف فرما دے گا۔ مگر تم لوگوں کو اپنے اس گھناؤنے جرم کا بھگتان بہر حال بھگتنا ہو گا۔ اور جس قدر یہ جرم سنگین ہے اسی قدر اس کا بھگتان بھی بڑا سنگین اور ہولناک ہو گا، والعیاذُ باللہ۔ یہاں پر اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنَا (جبکہ وہ پاکدامن رہنا چاہتی ہوں) کی قید و شرط احتراز کے لئے نہیں۔ بلکہ بیان واقعہ اور معاملہ کی سنگینی کے اظہار و بیان کے لئے ہے۔ سو یہ ایسے ہی ہے جیسے دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا لَا تَاْکُلُوا الرِّبٰوْا اَضْعَافًا مُّضَاعَفَۃً (کہ تم لوگ بڑھتا چڑھتا سود مت کھاؤ) یعنی ایسی صورت میں اس جرم شناعت و سنگینی اور بھی بڑھ جاتی ہے سو یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی سے کہا جائے کہ تم روزہ رکھ کر جھوٹ مت بولو۔ یا تم مسجد کے اندر غیبت نہ کرو، وغیرہ وغیرہ، یعنی ایسی صورت میں جرم و قصور کی سنگینی اور بڑھ جاتی ہے۔ پس جس طرح سود خوری، دروغ گوئی، اور غیبت، وغیرہ بہر صورت جرم اور گناہ ہے، اسی طرح باندیوں سے کسب کرانا بہر طور جرم اور گناہ ہے۔ والعیاذُ باللہ العظیم،

۳۴.    یعنی تمہاری ہدایت و راہنمائی کے لئے ہم نے تمہاری طرف کھول کر بیان کرنے والی ایسی آیتیں بھی نازل کر دی ہیں، جن سے راہ حق و ہدایت پوری طرح واضح ہو جاتی ہے، اور گذشتہ اقوام و امم سے متعلق ایسے عبرتناک اور چشم کشا حالات و واقعات بھی بیان کر دیئے ہیں جن میں بڑے درسہائے عبرت و بصیرت ہیں اور ایسے درسہائے عبرت و بصیرت کہ ان سے دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کی راہیں روشن ہوتی ہیں۔ مگر ان سے مستفید و فیضیاب وہی لوگ ہوتے ہیں، اور وہی ہو سکتے ہیں، جو خوف خدا کی دولت سے مالا مال ہوتے ہیں رہے وہ بدنصیب جن کے دل خوف خدا سے عاری اور محروم ہوتے ہیں، ان پر ان آیات و امثال کا کوئی اثر نہیں ہوتا، کہ پتھر پر جونک لگنا ممکن نہیں۔ ایسے لوگوں کی آنکھیں اسی وقت کھلیں گی جبکہ وہ اپنے انجام کو پہنچ کر رہیں گے، والعیاذُ باللہ جل وعلا

۳۶.    یعنی ایمان و یقین کا یہ عظیم الشان و بے مثال اور انقلاب آفریں نور انہی عظیم الشان اور پاکیزہ و مقدس گھروں میں مل سکتا ہے جن کو تعمیر کرنے اور آباد رکھنے کا حکم و ارشاد اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اور ان کا اولین مصداق بیت اللہ ہی ہے، کہ اس کو حضرت ابراہیم و اسماعیل نے اسی غرض کے لئے براہ راست اللہ تعالیٰ کے حکم و ارشاد سے تعمیر فرمایا تھا۔ لیکن الفاظ و کلمات کے عموم کے مطابق وہ تمام معابد و ساجد بھی اسی حکم میں داخل ہیں جو اس مقصد کے لئے تعمیر کئے گئے، یا آئندہ تعمیر کئے جائیں گے، کہ وہ سب اسی اُمّ المعابد و المساجد کی فروع اور اس کی شاخوں کا حکم رکھتے ہیں اس کے برعکس وہ معابد جن کو مشرکوں نے اللہ تعالیٰ کے اذن کے خلاف اور اپنے کفر و شرک کے لئے تعمیر کیا یا کریں گے وہ سب اس سے خارج ہیں کہ ان کی حیثیت اللہ کے گھروں کی نہیں بلکہ نجاست خانوں کی ہے جو کہ کفر و شرک کی اس معنوی نجاست کے اڈے ہیں جو ظاہری اور حسی نجاست سے کہیں بڑھ کر نجس و ناپاک اور مہلک و تباہ کن ہے، والعیاذُ باللہ العظیم،

۳۷.    اس آیت کریمہ میں وارد لفظ تجارت تو عام ہے جو ہر قسم کے کاروبار کو شامل ہے، اور بیع کا لفظ جو کہ بیچنے کے معنی ہی میں مشہور و معروف ہے، یہاں پر یہ اسی معنی میں یعنی خریدو فروخت اور لین دین کے معنی میں استعمال ہوا ہے، ہم نے اپنے ترجمے کے اندر ان دونوں لفظوں کے اس فرق کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے، والحمد للہ، سو تجارت کے بعد بیع کا لفظ عام کے بعد خاص کے ذکر کے طور پر ہے۔ کیونکہ اس کی ایک خاص اہمیت ہے اور یہ اس لئے کہ تاجر کو جب کسی چیز کے بیچنے کا موقع میسر آتا ہے تو وہ اس کو کبھی ضائع نہیں کرنا چاہتا، لیکن جن بندگانِ صدق و اخلاص کا ذکر یہاں فرمایا جا رہا ہے ان کی شان یہ ہوتی ہے کہ عام تجارت اور کاروبار تو درکنار، بیع کے اس طرح کے خاص مواقع بھی ان کو یادِ خدا سے غافل نہیں کرتے اور یہی اصل شان ہوتی ہے مومن صادق کی کہ وہ ہر طرح کے کاروبار اور بیع و شراء کے مختلف مواقع میں بھی اپنے خالق و مالک کی یادِ دلشاد اور اس کے فرائض کی بجا آوری سے غافل نہیں ہوتا۔ اور اس طرح اس کے دنیاوی کاروبار اور لین دین کی ہر حالت اس کے لئے سراسر خیر اور نیکی بن جاتی ہے، پس ایمان و یقین کی دولت ایسی عظیم الشان بابرکت اور انقلاب آفریں دولت ہے کہ اس کے بعد بندہ مومن کی ہر حالت اس کے لئے خیر ہی خیر بن جاتی ہے، جیسا کہ حضرت نبی معصوم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کی تصریح فرمائی ہے، یہاں پر نماز اور زکوٰۃ کا ذکر ان کی خاص اہمیت کی بناء پر فرمایا گیا ہے، کہ یہ وہ دو بنیادی فرائض ہیں کہ دین حنیف کی جملہ تعلیمات مقدسہ درحقیقت انہی کے ماتحت اور اسی محور کے گرد گھومتی ہیں، اور ان بندگان خدا کی اس کامل اطاعت شعاری کی وجہ یہ بیان فرمائی گئی ہیں کہ یہ اس یوم عظیم اور اس کے تقاضوں سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں لوٹ پوٹ ہو رہے ہونگے لوگوں کے دل، اور پتھرا رہی ہونگی ان کی آنکھیں، سو آخرت کے یوم عظیم کا خوف واندیشہ اور اس کی جوابدہی کا یقین واستحضار اصلاح احوال کی اصل اساس و بنیاد ہے اور ایسی عظیم الشان اساس و بنیاد کہ اس کے نتیجے میں یہ بندہ خاکی رشک ملائک بن جاتا ہے، اور ایسا کہ حاملین عرش فرشتے بھی انکے لئے مغفرت و بخشش کی دعائیں کرنے لگتے ہیں۔ جیسا کہ سورہ مومن کی آیات نمبر۶ تا ٩ میں اس کی تصریح فرمائی گئی ہے، والحمدللہ جَلَّ وَعَلَا

۳۹.    بلکہ وقت آنے پر وہ ان کا حساب پوری طرح اور فوری طور پر چکا دے گا۔ سو اہل ایمان و یقین کی تمثیل کے ذکر و بیان کے بعد اب اس سے اہل کفر و باطل کی تمثیل بیان فرمائی جا رہی ہے، جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ جس طرح اہل ایمان کی مثال نُوْرٌ عَلیٰ نُوْر یعنی روشنی پر روشنی کی ہے، اسی طرح اہل کفر و باطل کی مثال اندھیروں پر اندھیروں کی ہے، سو اس سے واضح فرمایا گیا کہ اہل کفر و باطل کی مثال ایسے ہے جیسے ایک وسیع و عریض چٹیل ریگستان میں سراب یعنی چمکتی ریت ہو جس کو دور سے دیکھنے والا پیاسا پانی سمجھ کر اس کی طرف لپکے۔ لیکن اس کے پاس پہنچنے کے بعد اسے معلوم ہو کہ جس کو وہ پانی سمجھ رہا تھا وہ پانی نہیں تھا بلکہ درحقیقت وہ چمکتی ہوئی ریت تھی اور اس کے نتیجے میں وہ آس توڑ بیٹھے اور عاجز و درماندہ ہو کر رہ جائے۔ اور ایسا کہ اب اس کو واپس جانے کی بھی ہمت نہ رہے۔ اور آخرکار وہیں تڑپ تڑپ کر جان دے دے۔ سو یہی حال ان اہل کفر و باطل کا قیامت کے یوم حساب میں ہو گا۔ زندگی بھر انہوں نے جو عمل کئے تھے۔ اور جن کو انہوں نے اپنے طور پر بہت کچھ سمجھ رکھا تھا، قیامت کے اس یوم عظیم میں وہ سب خاک اور راکھ کی طرح پراگندہ ہو کر ہَبَاءً مَّنْثُوْرًا ہو جائیں گے۔ اور یہ اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا حساب دینے کے لئے اپنے رب کے حضور حاضر ہونگے جو چشم زدن میں ان کا حساب چکا دے گا۔ سبحانہ و تعالیٰ،

۴۲.    سو آسمانوں اور زمین کی اس پوری کائنات میں اصل اور حقیقی بادشاہی اللہ وحدہٗ لاشریک ہی کی ہے، اور سب کا رجوع اور واپسی بھی بالآخر اسی وحدہٗ لاشریک کی طرف ہو گی، نہ دنیا میں اس کائنات کے نظام میں کسی اور کا کوئی عمل دخل ہے اور نہ آخرت میں کوئی اس وحدہٗ لاشریک کے سوا مرجع و ماویٰ بن سکے گا، اور جب یہاں اور وہاں یعنی دنیا و آخرت دونوں میں سارا اختیار اور اقتدار اسی وحدہٗ لاشریک کا ہے تو پھر اس کے سوا اور کوئی معبود کس طرح ہو سکتا ہے؟ پس معبود برحق بھی وہی اور صرف وہی وحدہٗ لاشریک ہے، اور عبادت و بندگی کی ہر قسم اور اس کی ہر شکل بھی اسی کا اور صرف کا حق ہے، اس میں دوسرا کوئی نہ اس کا کسی بھی درجے میں شریک و سہیم ہے، نہ ہو سکتا ہے، اسی لئے کائنات کی ہر چیز اسی کی تسبیح کرتی ہے، اور وہ اپنی زبان حال سے انسان کو بھی اسی کی دعوت دیتی ہے، کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کی تسبیح و تقدیس اور اسی کی عبادت و بندگی کرے۔ اس طرح اس کو کائنات کے ساتھ ہم آہنگی نصیب ہو گی، اور اس کی زندگی امن و سکون والی اور سعادت مندی کی زندگی ہو گی۔ ورنہ اس کی روش کائنات سے تصادم و ٹکراؤ کی روش ہو گی، جس کے نتیجے میں وہ معیشت ضَنْک۔ یعنی تنگ گزران اور کٹھن راہ سے دو چار ہو گا، اور اس کی زندگی سخت گھٹن اور محرومی کی زندگی ہو گی، اور انجام کار اس کو بڑا ہی ہولناک بھگتان ہو گا، والعیاذ باللہ العظیم

۴۵.    سو مختلف انواع و اقسام کی یہ گوناگوں مخلوق جو اس زمین میں ہر طرف پھیلی بکھری ہوئی ہے یہ بھی اپنی زبان بے زبانی یعنی اپنی زبان حال سے اپنے اس خالق و مالک کی قدرت بے پایاں اس کی حکمت بے نہایت اور اس کی رحمت و عنایت بے غایت کا پتہ دیتی ہے۔ کہ دیکھو کس طرح اس قادرِ مطلق اور حکیم مطلق نے ایک ہی پانی سے طرح طرح کی ان سب چیزوں کو وجود بخشا ہے، لیکن آگے ان کے اندر حیرت انگیز بوقلمونی پائی جاتی ہے اس کے پیدا کردہ ان جانداروں میں سے کچھ لو وہ ہیں جو پیٹ کے بل رینگتے ہوئے چلتے ہیں، اور کچھ وہ ہیں جو دو ٹانگوں پر چلتے ہیں، اور کچھ ایسے ہیں جو چار پر چلتے ہیں، ان سب میں سے کسی کی بھی تخلیق، یا ان میں سے کسی کے بھی ان احوال میں اس وحدہٗ لاشریک کے سوا اور کسی کا بھی کوئی عمل دخل نہیں پس وہی خالق و مالک اور حاکم و متصرف ہے سبحانہ و تعالیٰ۔ سو ان اشیاء میں گونا گوں درسہائے عبرت و بصیرت ہیں۔

۴۶.    سو اس خالق کل اور مالک مطلق نے اپنے بندوں کی ہدایت و راہنمائی کے لئے ایسی عظیم الشان آیتیں اتار دی ہیں جن سے راہ حق و ہدایت پوری طرح واضح ہو جاتی ہے، لیکن حق و ہدایت کی یہ دولت انہی خوش نصیبوں کو نصیب ہوتی ہے جو اس کی طلب رکھتے ہیں کہ اس واہب مطلق جل جلالہ، کی سنت اور اس کا دستور یہی ہے کہ وہ صراط مستقیم کی ہدایت و توفیق سے انہی کو نوازتا ہے جو اپنے اندر اس کے لئے طلب صادق رکھتے ہیں، رہے وہ بے قدرے اور ناشکرے لوگ جو اعراض و روگردانی ہی سے کام لیتے ہیں۔ وہ اس سے محروم ہی رہتے ہیں، کہ وہ طلب صادق کی دولت سے محروم ہوتے ہیں۔ جو کہ سعادت و سرفرازی کی اصل اور اساس ہے سو انسان کی صلاح و فلاح کا اصل دارو مدار اس کی اپنی نیت اور اس کے ارادے پر ہے، اور دلوں کے ارادوں اور ان کی نیتوں کا حال اس وحدہٗ لاشریک سے مخفی نہیں رہ سکتا، کہ وہ علیم بذات الصدور ہے۔ وباللّٰہ التوفیق لما یُحبُّ ویرید، وعلیٰ ما یُحِبُّ ویرید، بِکُلِّ حَالٍ مِّنَ الْاحوال۔

۴۷.    سو اللہ تعالیٰ کے یہاں محض زبانی کلامی دعوؤں سے کام نہیں چلے گا بلکہ اس کے یہاں دل کے صدق و اخلاص اور عملی ثبوت و تصدیق کی ضرورت ہے۔ اور ایسے لوگ زبانی کلامی طور پر اگرچہ بڑے بلند بانگ اور زور دار دعوے کرتے ہیں لیکن عمل و کردار کے اعتبار سے ایسے لوگ صفر ہوتے ہیں۔ اور ایسے زبانی کلامی دعوؤں سے لوگوں کو تو دھوکہ دیا جا سکتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے یہاں اس طرح کے دعوؤں کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہو سکتی۔ اس کے یہاں سرخروئی کے لئے اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی بے چون و چرا اطاعت کی جائے۔ اور ان کے اوامر و ارشادات کو صدق دل سے بجا لایا جائے۔ ورنہ اطاعت و فرمانبرداری کے بغیر محض زبانی کلامی دعوے نرا نفاق ہیں، والعیاذُ باللہ جَلَّ وَعَلَا

۵۲.    اس آیت کریمہ سے حقیقی فوز و فلاح سے سرفرازی کے لئے ایک مختصر مگر جامع لائحہ عمل پیش فرما دیا گیا، جس میں ایمان صادق کے بعد پہلی چیز ہے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت و فرمانبرداری، اور اطاعت و فرمانبرداری بھی وہ جو خوف و خشیت خداوندی پر مبنی اور تقویٰ و پرہیزگاری کی امین و پاسدار ہو، یہاں پر خشیت اور تقویٰ کے دونوں لفظ یکجا استعمال فرمائے گئے ہیں سو ان دونوں میں دراصل ظاہر اور باطن کا فرق ہے خشیت کا تعلق قلب و باطن سے ہے، اور تقویٰ کا ظاہر اور عمل سے یعنی اس سے مراد حدود الٰہی کی پابندی و پاسداری ہے، پس نجات و فلاح سے سرفرازی کے لئے محض زبانی کلامی دعوی ایمان کافی نہیں، بلکہ اس کے لئے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت و فرمانبرداری کے عملی ثبوت کی ضرورت ہوتی ہے، اور اطاعت بھی محض ظاہری نہیں بلکہ وہ اطاعت مطلوب ہے جو کہ خوف و خشیت خداوندی پر مبنی اور تقویٰ و پرہیزگاری کے ساتھ ہو، کہ یہی وہ چیز ہے جو انسان کو ظاہر و باطن دونوں اعتبار سے صالح اور اللہ تعالیٰ کی خاص عنایات کا اہل اور مستحق بناتی ہے۔ اس لئے آیت کریمہ کے آخر میں ارشاد فرمایا گیا اور حصر و قصر کے انداز و اسلوب میں ارشاد فرمایا گیا، کہ یہی لوگ ہیں فائز المرام ہونے والے رہے وہ ابن الوقت اور مفاد پرست لوگ جن کی کارگزاریوں کا اصل محور و مقصد ان کے اپنے مفادات ہی ہوتے ہیں، اور وہ محض اپنے مفاد ہی کی حد تک اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں تو ان کا اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، اور انکی ایسی نمائشی اور ظاہرداری کی اطاعت کی اللہ تعالیٰ کے یہاں کوئی قدر و قیمت نہیں، والعیاذُ باللہ العظیم،

۵۳.    اس ارشاد ربانی سے منافق لوگوں کے منافقانہ رویے کو بھی واضح فرما دیا گیا اور ان کو اس پر تنبیہ بھی فرما دی گئی۔ سو منافق لوگ زبانی طور پر دعوؤں کے ذریعے اور قسمیں کھا کھا کر اپنا اعتبار قائم کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے، اور یہ ایسے لوگوں کی ایک نفسیاتی بیماری ہوتی ہے کہ جن کے پاس عمل و کردار کی شہادت موجود نہیں ہوتی، وہ قسمیں کھا کھا کر اپنا اعتبار قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں سو اس ارشاد سے واضح فرمایا گیا کہ منافق لوگ قسمیں کھا کھا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے کہتے ہیں کہ آپ ہمیں اگر جہاد کے لئے نکلنے کا حکم دیں گے تو ہم اس کے لئے فوراً نکل جائیں گے، ہمارے جان و مال سب آپ کے لئے حاضر ہیں، لیکن جب اس کا موقع آتا ہے، یہ لوگ کنی کترا جاتے ہیں، سو ایسوں کو تنبیہ فرمائی گئی کہ تم لوگ زیادہ قسمیں مت کھاؤ۔ اللہ سے تمہارا کوئی حال مخفی نہیں، اصل جو چیز مطلوب ہے وہ ضابطہ واصول کے مطابق اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہے۔ اور بس،

۵۴.    سو پیغام حق و ہدایت کو پہنچا دینے کے بعد پیغمبر کا ذمہ فارغ اور انہوں نے تبلیغ حق کی اس ذمہ داری کو نہایت حسن و خوبی کے ساتھ اور بتمام و کمال پورا کر دیا، اب اگر تم لوگ صدق و اخلاص کے ساتھ ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرو گے تو خود اپنی بھلائی اور سرخروئی کا سامان کرو گے کہ اس سے تم لوگ راہِ حق و ہدایت سے سرفراز و فیضیاب ہو جاؤ گے، اور اس کے برعکس اگر تم لوگوں نے اعراض و روگردانی سے کام لیا تو تم خود اپنا ہی نقصان کرو گے کہ اس سے تم لوگ راہ حق و ہدایت سے محروم ہو کر دائمی ہلاکت و تباہی کے ہولناک گڑھے میں جا گرو گے سو راہ حق و ہدایت سے محرومی سب سے بڑا خسارہ اور انتہائی ہولناک محرومی ہے، والعیاذُ باللہ العظیم،

۵۵.    سو اس ارشاد سے اللہ اور اس کے رسول کی صحیح اور سچی اطاعت و فرمانبرداری یعنی ایمان صادق اور عمل صالح کی ان بعض خاص اور اہم برکات کا ذکر فرما دیا گیا جو مومنین صادقین کو آخرت سے پہلے اس دنیا میں نصیب ہوتی ہیں۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ تم میں سے جو لوگ صدق و اخلاص کے ساتھ ایمان اور عمل صالح کی راہ کو اپنائیں گے ان سے اللہ تعالیٰ اس بات کا وعدہ فرما چکا ہے کہ وہ ان کو اس سرزمین میں اقتدار بخشے گا جیسا کہ اس نے ان سے پہلے کے لوگوں یعنی گذشتہ رسولوں اور ان کی امتوں کو اقتدار بخشا، اور وہ ان کے اس دین کو اس ملک میں استحکام بخشے گا جس کو اس نے ان کے لئے پسند فرمایا ہے، یعنی اسلام کو کہ یہی دین دین حق اور دین فطرت ہے، اور اسی کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے پسند فرمایا ہے، جیسا کہ دوسرے مقام پر اس کی اس طرح تصریح فرمائی گئی وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا۔ یعنی میں نے تمہارے لئے اسلام کو دین کے طور پر پسند کر لیا، اور مزید یہ کہ وہ ان کو خوف کے بجائے امن و امان کی دولت سے نوازے گا، چنانچہ فتح مکہ کے بعد اور پھر حضرات خلفاء راشدین کی خلافت علی منہاج النبوۃ کے دور میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ وعدہ پورا ہوا اور اس کی ان خیرات و برکات کو دنیا نے خود اور بچشم سر دیکھا والحمد للہ جَلَّ وَعَلَا، آخر میں ارشاد فرمایا گیا کہ جو لوگ اس کے بعد کفر کریں گے وہی فاسق ہونگے۔ اور فسق کا لفظ یہاں برفقہی مفہوم میں نہیں، بلکہ قرآنی مفہوم میں ہے اور قرآنی مفہوم میں یہ عام ہے جو کفر کو بھی شامل ہے، کیونکہ فسق کے اصل معنی خروج کے ہوتے ہیں سو فسق کے معنی ہونگے اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کی حدود سے نکل جانا اور ظاہر ہے کہ اس مفہوم کے اعتبار سے یہ لفظ کفر و شرک سب ہی مفاہیم کو عام اور شامل ہے، والعیاذُ باللہ العظیم، اللہ ہمیشہ اپنی پناہ میں رکھے، آمین

۵۶.    سو اس ارشاد سے وہ نسخہ تعلیم و تلقین فرمایا گیا ہے جس میں نفاق و غیرہ جیسے مہلک امراض کا علاج بھی ہے اور دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی اور رحمت خداوندی سے بہرہ مندی کا سامان بھی اور اس میں تین اہم اور بنیادی باتوں کو اپنانے کا حکم و ارشاد فرمایا گیا ہے، جن میں پہلی بات نماز کو قائم کرنا ہے، جو کہ بدنی عبادات میں سب سے بڑی عبادت اور اپنے خالق و مالک سے ربط و تعلق کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، اور دوسری چیز ہے ادائیگی زکوٰۃ جو کہ خلق خدا سے ربط و تعلق کا سب سے بڑا اور مقدس و پاکیزہ ذریعہ ہے، اور تیسری چیز ہے اللہ کے رسول کی اطاعت جو کہ پورے دین کا خلاصہ اور بندگی کے ہر زاوئے پر حاوی ہے، وباللہ التوفیق لمایحب ویرید، وعلیٰ مایحب ویرید، وہو الہادی الی سواء السبیل،

۵۷.    یعنی یہ تین اوقات چونکہ عام طور پر بے تکلفی اور بے پردگی کے ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان میں سے کسی بھی وقت میں غلاموں اور نابالغ بچوں کو بھی اجازت لئے بغیر اندر نہیں آنا چاہیئے، کہ مبادا ان میں سے کسی کی نظر گھر والوں کے کسی ایسے حال پر پڑ جائے جس میں دیکھنا ان کو پسند نہ ہو۔ اس لئے پرائیویسی کے ان تین وقتوں میں داخلے کے لئے غلاموں اور نابالغ بچوں کو بھی داخل ہونے سے پہلے اجازت لینا ضروری ہے، کیونکہ یہ تینوں وقت آرام و راحت، سکون و نیند اور تنہائی و یکسوئی کے اوقات ہوتے ہیں جن میں عام طور پر انسان آرام کرتا ہے۔ اور بے تکلفی کے ساتھ رہتا ہے۔

 ف اور جب وہ علیم و حکیم یعنی کامل علم و حکمت والا ہے، تو اس کا ہر حکم و ارشاد کمال علم و حکمت ہی پر مبنی ہوتا ہے اور یہ شان جب اس وحدہٗ لاشریک کے سوا اور کسی کی نہ ہے، اور نہ ہو سکتی ہے تو پھر اس کے کسی حکم و ارشاد کا بھی کوئی متبادل نہ ممکن ہے نہ ہو سکتا ہے، اس لئے بندوں کو چاہیے کہ وہ اس کے ہر حکم و ارشاد کو صدق دل سے اپنائیں۔ اور اس کو بتمام و کمال بجا لائیں، کہ اسی میں ان کا بھلا اور بہتری ہے، دنیا کی اس عارضی زندگی میں بھی اور آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہاں میں بھی جو اس کے بعد آنے والا ہے، وباللّٰہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلیٰ ما یُحِبُّ ویرید، بِکُلِّ حَالٍ مِّن الْاحوال، وفی کُلِّ مَوْطِنٍ مِّن المواطِنٍ فی الحیاۃ۔

 یعنی نابالغ بچے اجازت لینے کے حکم سے مستثنیٰ صرف اسی وقت تک ہیں جب تک کہ وہ نابالغ ہیں پس جب وہ بالغ ہو جائیں تو ان پر بھی وہ تمام پابندیاں عائد ہو جائیں گی جو دوسروں پر عائد ہوتی ہیں، محض اس بناء پر کہ یہ بچپن سے اجازت لئے بغیر گھروں میں آرہے ہیں، ان کے لئے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی، بلکہ اس کے بعد ان کے لئے بڑوں ہی کے احکام ہونگے۔ اور آیت کریمہ کے آخر میں ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ تم لوگوں کے بھلے کے لئے اپنے حکام اسی طرح کھول کر بیان فرماتا ہے۔ اور اللہ بڑا ہی علم والا۔ اور کمال حکمت والا ہے۔ اس لئے اس کا ہر حکم و ارشاد کمال علم و حکمت پر مبنی اور ناقابل تبدیلی ہے، سبحانہ و تعالیٰ، پس اس کا تقاضا ہے کہ تم اس کے ہر حکم و ارشاد کو صدق دل سے اپناؤ۔

۵۹.    یعنی نابالغ بچے اجازت لینے کے حکم سے مستثنیٰ صرف اسی وقت تک ہیں جب تک کہ وہ نابالغ ہیں پس جب وہ بالغ ہو جائیں تو ان پر بھی وہ تمام پابندیاں عائد ہو جائیں گی جو دوسروں پر عائد ہوتی ہیں، محض اس بناء پر کہ یہ بچپن سے اجازت لئے بغیر گھروں میں آرہے ہیں، ان کے لئے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی، بلکہ اس کے بعد ان کے لئے بڑوں ہی کے احکام ہونگے۔ اور آیت کریمہ کے آخر میں ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ تم لوگوں کے بھلے کے لئے اپنے احکام اسی طرح کھول کر بیان فرماتا ہے۔ اور اللہ بڑا ہی علم والا۔ اور کمال حکمت والا ہے۔ اس لئے اس کا ہر حکم و ارشاد کمال علم و حکمت پر مبنی اور ناقابل تبدیلی ہے، سبحانہ و تعالیٰ، پس اس کا تقاضا ہے کہ تم اس کے ہر حکم و ارشاد کو صدق دل سے اپناؤ۔

۶۰.    اوپر آیت نمبر۳۱ میں گھر کے اندر کسی غیر محرم کی موجودگی کی صورت میں یہ خاص ہدایت دی گئی تھی وَلْیَضْرِبَنَّ بِخُمُرِہِنَّ عَلیٰ جُیُوْبِہِنَّ یعنی وہ اپنی اوڑھنیوں کے آنچل اپنے گریبانوں پر ڈال دیا کریں، اب یہاں پر اس ارشاد کے ذریعے ان عورتوں کو اس حکم عام سے مستثنیٰ قرار دیا جا رہا ہے، جو نکاح کی عمر سے گزر چکی ہوں، پس وہ اگر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل اپنے سینوں پر نہ ڈالیں تو اس میں ان پر کوئی حرج نہیں، بشرطیکہ وہ زیب و زینت کی نمائش کرنے والی نہ ہوں، اگرچہ افضل اور بہتر ان کے لئے بھی یہی ہے کہ وہ اس احتیاط کو ملحوظ رکھیں جس کا حکم عام عورتوں کو دیا گیا ہے کیونکہ فتنے کا احتمال ان سے متعلق بھی کسی نہ کسی درجے میں موجود ہوتا ہی ہے کیونکہ لِکُلِّ سَاقِطٍ لَافِطٌ کے معروف ضابطے کے مطابق کچھ مرد ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی ناگ ان کے بوڑھے ہو جانے کے بعد بھی لگی ہی رہتی ہے، والعیاذُ باللہ العظیم، اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہر حال میں، اور ہر اعتبار سے اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں ہی پر چلنا نصیب فرمائے۔ اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین یا ربَّ العالمین

۶۱.    ۱: گھروں کے اندر داخلے سے متعلق اذن و اجازت کی پابندی کے بارے میں جب مذکورہ بالا آیات کریمات نازل ہوئیں تو اس سے اہل ایمان کے مختلف لوگوں کے اندر کئی طرح کے شکوک و شبہات پیدا ہو گئے، جو ان کے ایمان و یقین اور خوف و خشیت خداوندی کا طبعی تقاضا، اور فطری نتیجہ تھا، مثلاً کچھ معذور لوگ جو اپنے اعزاء و اقارب کے پاس رہتے اور انہی کے ساتھ کھایا پیا کرتے تھے یا جو لوگ اپنے رشتہ داروں کے یہاں آیا جایا اور کھایا پیا کرتے تھے تو ان کو اس بارہ فکر لاحق ہوتی کہ اب ان کا کیا بنے گا، وغیرہ وغیرہ تو اس آیت کریمہ سے ایسے لوگوں کے اس طرح کے تمام شکوک و شبہات کا ازالہ فرما دیا گیا اور واضح فرما دیا گیا کہ معذوروں مجبوروں اور رشتہ داروں پر اس ضمن میں کوئی حرج اور گناہ نہیں، پس ایسے لوگ ایک دوسرے کے یہاں آئیں جائیں۔ ملیں جلیں، کھائیں پئیں سب جائز ہے، خواہ یہ کھانا پینا انفرادی صورت میں ہو یا اجتماعی طور پر مختلف تقریبات کی صورت میں اس میں کوئی حرج نہیں۔

۲:  سو گھروں میں داخلے کے وقت باہمی سلام مطلوب ہے، کہ یہ ایک پاکیزہ اور بابرکت طریقہ ہے کہ اس میں ایک دوسرے کے لئے محبت کا اظہار اور عظیم الشان دعا ہے اور اس سے باہمی تعلقات کی خوشگواری میں اضافہ ہوتا ہے، اور شیطان کی در اندازیوں کے راستے مسدود ہوتے ہیں، سو یہ تعلیم سراسر تمہارے لئے خیر و برکت کا ذریعہ و وسیلہ ہے، اور اس میں خود تمہاری ہی فلاح و بہود کا سامان ہے اور اللہ تعالیٰ تم لوگوں کے بھلے اور فائدے کے لئے یہ مقدس اور پاکیزہ احکام اسی طرح کھول کھول کر بیان کرتا ہے، تاکہ تم لوگ سمجھو اور اپنے نفع و نقصان کے لئے عقل سے کام لو۔

۶۲.    اس آیت کریمہ میں سچے اہل ایمان کے طرز عمل کا ذکر فرمایا گیا ہے، کہ وہ سچے دل سے ایمان رکھتے ہیں اللہ پر، اور اس کے رسول پر، اور جب وہ کسی اجتماعی کام میں اللہ کے رسول کے ساتھ ہوتے ہیں، تو ان سے اجازت لئے بغیر وہاں سے نہیں جاتے جو علامت ہے ان کے رسوخ ایمان کی۔ سو ان کا طریقہ ان منافقوں کے طریقے کے بالکل برعکس ہوتا ہے جو ایسے مواقع پر نظر بچا کر اور کھسک کر نکل جاتے ہیں، اس لئے ایسے سچے اہل ایمان کے لئے یہاں پر ارشاد فرمایا گیا کہ جو لوگ آپ سے (اے پیغمبر!) اس طرح اجازت مانگتے ہیں، دراصل یہی ہیں جو سچے دل سے ایمان رکھتے ہیں اللہ اور اس کے رسول پر، جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جو لوگ ان اہل ایمان کے طریقے کے خلاف چلتے ہیں وہ ایماندار نہیں، بلکہ پکے منافق ہیں والعیاذُ باللہ، پس آپ صلی اللہ علیہ و سلم اے پیغمبر! ان اجازت مانگنے والے سچے اہل ایمان میں سے جس کو چاہیں اجازت دے دیا کریں، اور ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے بخشش کی دعا بھی کیا کریں اس سے معلوم ہوا کہ اس طرح کی اجازت مانگنا کوئی پسندیدہ چیز نہیں، اس لئے کہ اللہ کے رسول کی معیت اور ان کی ہم نشینی، اور وہ بھی اس صورت میں جبکہ کوئی اجتماعی ضرورت درپیش ہو۔ ایک ایسی عظیم الشان سعادت ہے کہ اس سے بڑھ کر دوسری کوئی غرض اور سعادت نہیں ہو سکتی اس لئے اجازت مانگنے والے ایسے حضرات کو اگر آپ ان کی کسی مجبوری کی بناء پر اجازت دے دیں تو ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے بخشش کی دعا بھی کیا کریں۔ تاکہ اس طرح جبر نقص اور تلافی مافات ہو جایا کرے۔ فالحمدللہ جَلَّ وَعَلَا

۶۳.    لفظ دعاء کے معنی بلانے پکارنے کے بھی آتے ہیں، اور دعا کرنے کے بھی، پھر دُعَاءَ الرَّسُوْل کی اضافت۔ اضافت الی الفاعل کے قبیل سے بھی ہو سکتی ہے، اور اضافت الی المفعول کے قبیل سے بھی، سو اس طرح دُعَاءَ الرَّسُوْل کی ترکیب کے تین مطلب بن سکتے ہیں، اور تینوں ہی اہم اور نہایت وقیع ہیں، اول یہ کہ جب رسول تم لوگوں کو کسی کام کے لئے پکارے اور بلائے تو تم اس کے بلانے اور پکارنے کو آپس کے عام بلانے اور پکارنے کی طرح نہ سمجھ لینا کہ مرضی ہوئی تو سنا نہیں تو نہیں۔ سو رسول کے بارے میں اس طرح کا رویہ کبھی نہ اختیار کرنا۔ بلکہ ان کی دعا و پکار پر فوراً اور صدق دل سے لبیک کہنا کہ یہی رسول کا تم لوگوں پر حق ہے یہی تمہارے ایمان کا تقاضا، اور اسی میں تمہارا بھلا ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی یہ اس ترکیب کا پہلا مطلب ہے اور یہی سیاق و سباق کے لائق ہے جبکہ دوسرا مطلب اس کا یہ ہے کہ رسول کی دعا کو آپس کی عام دعا کی طرح نہیں سمجھنا۔ کہ رسول کی دعا بہت بڑی عظمت کی حامل ہوتی ہے وہ اگر تمہارے حق میں ہو گی تو اس سے بڑھ کر تمہارے لئے اور کوئی خیر اور بھلائی نہیں ہو سکتی اور اگر خدا نخواستہ وہ تمہارے خلاف ہو گئی تو اس سے بڑھ کر تمہارے لئے محرومی اور بدبختی اور کوئی نہیں ہو سکتی، والعیاذُ باللہ جبکہ تیسرا مطلب اس کا یہ بنتا ہے کہ رسول کو کبھی اس طرح نہ بلانا جس طرح تم لوگ آپس میں ایک دوسرے کو بلاتے ہو۔ بلکہ ان کو نہایت عزت و احترام سے بلایا کرو۔ جس میں یہ بھی داخل ہے کہ ان کو انکے صریح نام نامی سے یعنی یا محمد کہہ کر نہیں پکارنا۔ بلکہ ان کی کسی صفت ہی کے ذریعے پکارنا۔ جیسے یَا اَیُّہَا الرَّسُوْلُ، یَا اَیُّہَا النَّبِیُّ اوریَا اَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ، وغیرہ۔ سو دعاء الرسول کی ترکیب میں یہ تینوں ہی مفہوم و مطلب شامل ہیں۔ مگر سیاق وسباق کے اعتبار سے ظاہر و متبادر پہلا ہی ہے۔

۶۴.    سو جب زمین و آسمان کی اس ساری کائنات کا خالق و مالک بھی اللہ وحدہٗ لاشریک ہی ہے، وہ تمہاری ہر حالت کو جانتا بھی ہے، اور ایک دن سب کو اس کے حضور حاضر بھی ہونا ہے، جس میں وہ ان کو ان کے سب کئے کرائے سے آگاہ کر دے گا۔ اور وہ ہر چیز کو بتمام و کمال اور پوری طرح جانتا ہے، سبحانہ و تعالیٰ، تو تمہیں ہمیشہ اس بات کا پاس و احساس رہنا چاہیے کہ اس کے ساتھ میرا معاملہ ظاہر و باطن ہر اعتبار سے صحیح اور درست رہے۔ اور یہی چیز اصل مقصود اور اصلاح احوال کی اصل اور اساس ہے وباللّٰہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلیٰ ما یُحِبُّ ویرید، بِکُلِّ حَالٍ مِّن الْاحوال، وفی کُلِّ مَوْطِنٍ مِّن المواطِنٍ فی الحیاۃ۔ فہو المستعان وعلیہ التکلان وبہذا تم التفسیر المختصر لسورۃ النور