دعوۃ القرآن

سُوۡرَةُ النُّور

تعارف

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

نام

 

آیت ۳۵  میں بیان ہوا ہے کہ اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔  اسی مناسبت سے اس سورہ کا نام ،النور، ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مدنی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ ۰۶ھ  میں نازل ہوئی ہو گی۔  سورۂ احزاب میں جو غزوۂ خندق (شوال ۰۵ھ) کے بعد نازل ہوئی تھی گھر کے باہر کے پردہ کے سلسلہ میں احکام بیان ہوئے ہیں اور اس میں گھر کے اندر غیر محرموں پر زینت کے اظہار سے منع کیا گیا ہے۔  یہ تدریجی حکم ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ سورہ اس وقت نازل ہوئی جبکہ اس سے پہلے گھر کے باہر پردہ کا حکم آ چکا تھا یعنی سورہ احزاب نازل ہو چکی تھی۔

 

اس سورہ میں جو حدود (تعزیری قوانین) بیان ہوئے ہیں وہ بھی ایسے موقع پرہی دئے جا سکتے ہیں جبکہ قوت نافذہ حاصل ہو گئی ہو۔

 

مدینہ میں مسلمانوں کو یہ قوت غزوۂ بنی قریظہ کے بعد ہی حاصل ہو گئی تھی جو غزوۂ خندق کے متصلاً بعد پیش آیا تھا اور جس کے بعد یہود نواز منافق کمزور پڑ گئے تھے اور بوکھلاہٹ کی وجہ سے اوچھی باتوں پر اتر آئے تھے یعنی شریف عورتوں پر تہمت لگانا وغیرہ۔

 

مرکزی مضمون

 

عفت و پاک دامانی اور شرم و حیاء کے تحفظ کے لیے جن باتوں کا اہتمام ضروری ہے ان کی ہدایت،  بدکاری کرنے والوں اور جھوٹی تہمتیں لگا کر بے حیائی پھیلانے والوں کے خلاف کڑی سزاؤں کا اعلان اور اس حقیقت کا اظہار کہ ایمان سے مؤمن کی پوری زندگی منور ہو جاتی ہے۔ عفت و پاک دامانی اس کی درخشندہ کرنیں ہیں۔  پھر اس سورہ کا دائرہ اخلاقی نصیحت تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس سلسلہ میں سماج پر اس کی ذمہ داریاں بھی واضح کر دی گئی ہیں اور اسلامی حکومت پر اس کے فرائض بھی۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱  میں بطور تمہید اس سورہ کی یہ اہمیت واضح کی گئی ہے کہ اس میں جو احکام دئے جا رہے ہیں ان کی تعمیل فرض ہے۔  آیت ۲  تا ۱۰  میں زنا اور زنا کی تہمت کی سزائیں بیان کی گئی ہیں۔

 

آیت ۱۱  تا ۲۶  میں منافقوں کو تنبیہ جو شریف مؤمن مردوں اور شریف مؤمن عورتوں کی عزت و ناموس پر دھبہ لگانے کے لیے جھوٹے قصے گڑھ کر سوسائٹی میں پھیلاتے تھے اور ان کے اس فتنہ کا شکار کمزور اور سادہ لوح مسلمان بھی ہو جاتے تھے۔

 

آیت ۲۷  تا ۳۴ میں ان باتوں کا اہتمام کرنے کی ہدایت جو عزت و ناموس کے تحفظ کے لیے ضروری ہیں۔

 

آیت ۳۵  تا۴۰  میں اس حقیقت کو نمایاں کیا گیا ہے کہ جو لوگ اللہ کی روشنی میں چلتے ہیں ان کی زندگیاں اللہ کے نور سے منور ہو جاتی ہیں اور جو لوگ اس سے انکار کرتے ہیں وہ گہری تاریکیوں میں ڈوب جاتے ہیں۔

 

آیت ۴۱  تا ۵۴  میں ان دلائل کو بیان کرتے ہوئے جن سے خالص ایمان پیدا ہوتا ہے منافقوں کو دعوت کہ وہ اخلاص کے ساتھ ایمان لائیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت اختیار کریں۔

 

آیت ۵۵  تا ۵۷  میں اہل ایمان کو بشارت کہ وہ ان کو اس طرح خلافت (اقتدار) سے نوازے گا کہ موجودہ خوف و خطر کا ماحول اطمینان و سکون کے ماحول میں تبدیل ہو جائے گا۔

 

آیت ۵۸  تا ۶۱  میں ان احکام کا تتمہ جو آیت ۲۷  تا ۳۴  میں گھر کے آداب کے تعلق سے دی گئی ہیں۔

 

آیت ۶۲  تا ۶۴  اختتامی آیات ہیں جن میں رسول کی پکار کو غیر معمولی اہمیت دینے اور اس کی طرف پوری طرح متوجہ ہونے کی ہدایت کی گئی ہے۔  

ترجمہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ایک سورہ ہے جو ہم نے نازل کی ہے ۱ * اور اسے ہم نے فرض کیا ہے ۲* اور اس میں ہم نے واضح احکام نازل کئے ہیں ۳* تاکہ تم سبق لو ۴*

 

۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زانی عورت اور زانی مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو۔  ۵* اور اللہ کے دین کے معاملہ میں تم کو ان پر ترس نہ آئے۔  ۶* اگر تم اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو۔  اور ان کو سزا دیتے وقت اہل ایمان کا ایک گروہ موجود رہے۔ ۷*

 

۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زانی نکاح نہیں کرتا مگر زانیہ یا مشرکہ سے اور زانیہ سے نکاح نہیں کرتا مگر زانی یا مشرک اور یہ حرام کر دیا گیا ہے اہل ایمان پر۔  ۸*

 

۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں پھر چار گواہ پیش نہ کریں ان کو اسّی کوڑے مارو ۹* اور ان کی گواہی کبھی قبول نہ کرو۔  ۱۰* وہ فاسق ہیں۔  ۱۱*

 

۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر جو لوگ اس کے بعد توبہ کریں اور اصلاح کر لیں تو اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔  ۱۲*

 

۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو لوگ اپنی بیویوں پر تہمت لگائیں اور ان کے پاس گواہ نہ ہوں بجز ان کی اپنی ذات کے تو (اس صورت میں) ان میں سے ایک کی (یعنی شوہر کی) گواہی یہ ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ وہ سچا ہے۔

 

۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور پانچویں بار یہ کہے کہ اللہ کی لعنت ہو اس پر اگر وہ جھوٹا ہے۔

 

۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور عورت سے سزا اس طرح ٹل سکتی ہے کہ وہ چار بار اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ یہ شخص (اس کا شوہر) جھوٹا ہے۔

 

۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور پانچویں مرتبہ یہ کہے کہ اس پر اللہ کا غضب ہو اگر مرد سچا ہے۔  ۱۳*

 

۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی (تو تم مشکل میں پڑ جاتے۔  پس جان لو کہ اللہ فضل والا رحمت والا ہے) اور یہ کہ اللہ توبہ قبول کرنے والا اور حکمت والا ہے۔  ۱۴*

 

۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ بہتان گھڑ لائے ہیں وہ تمہارے ہی اندر کا ایک گروہ ہیں۔  ۱۵* تم اس چیز کو اپنے لیے برا نہ سمجھو بلکہ یہ تمہارے لیے اچھا ہے۔  ۱۶* ان میں سے جس نے جتنا گناہ کمایا اتنا ہی وبال اس پر ہے۔  اور جس شخص نے اس میں بڑا حصہ لیا اس کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔  ۱۷*

 

۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب تم لوگوں نے یہ بات سنی تو مومن مردوں اور مومن عورتوں نے ایک دوسرے کے بارے میں نیک گمان کیوں نہیں کیا اور کیوں نہیں کہا یہ صریح بہتان ہے۔ ۱۸*

 

۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ لوگ اس (الزام) کے ثبوت میں چار گواہ کیوں نہ لائے ؟ اور جب وہ گواہ نہیں لائے ہیں تو اللہ کے نزدیک وہی جھوٹے ہیں۔  ۱۹*

 

۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر تم لوگوں پر دنیا و آخرت میں اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوئی تو جن باتوں میں تم پڑ گئے تھے اس کی وجہ سے بڑا عذاب تمہیں آ لیتا۔  ۲۰*

 

۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب تماس (جھوٹ) کو اپنی زبانوں پر لا رہے تھے اور اپنے منہ سے وہ بات کہہ رہے تھے جس کے بارے میں تمہیں کوئی علم نہ تھا۔  تم اسے معمولی بات خیال کر رہ تھے حالانکہ اللہ کے نزدیک وہ بڑی بات تھی۔  ۲۱*

 

۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب تم نے یہ بات سنی تو کیوں نہ کہہ دیا کہ ہمیں ایسی بات زبان پر لانا زیب نہیں دیتا۔  سبحان اللہ! یہ تو بہت بڑا بہتان ہے۔  ۲۲*

 

۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ پھر کبھی ایسی حرکت نہ کرنا اگر تم مومن ہو۔

 

۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تمہارے لیے صاف صاف احکام بیان کرتا ہے وہ علم والا حکمت والا ہے۔

 

۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ چاہتے ہیں کہ اہل ایمان میں بے حیائی پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں درد ناک سزا ہے۔  ۲۳* اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔  ۲۴*

 

۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی (تو تم کو برے نتائج کا سامنا کرنا پڑتا مگر اس نے تمہیں بچایا) اور یہ کہ اللہ شفیق و رحیم ہے۔

 

۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو ! شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو۔  اور جو کوئی شیطان کے نقش ِ قدم پر چلے گا تو وہ اسے بے حیائی اور برائی ہی کا حکم دے گا۔  اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی شخص بھی پاک نہ ہو سکتا۔  ۲۵* مگر اللہ جسے چاہتا ہے پاک کرتا اور اللہ سنے والا جاننے والا ہے۔  ۲۶*

 

۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم میں جو لوگ صاحبِ فضل اور صاحبِ حیثیت ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھا بیٹھیں کہ رشتہ داروں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کی اعانت نہیں کریں گے۔  انہیں چاہیے کہ معاف کریں اور درگزر سے کام لیں۔  کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں بخش دے اور اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔ ۲۷*

 

۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ پاکدامن،  بے خبر ۲۸* مومن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی گئی اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔

 

۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس دن ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ پاؤں ان کے خلاف ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔

 

۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس دن اللہ انہیں پورا پورا بدلہ دے گا ایسا بدلہ جو حق ہے۔  اور وہ جان لیں گے کہ اللہ ہی ہے حق۔  حقیقت کو آشکارا کرنے والا۔  ۲۹*

 

۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لیے۔  اور پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لیے ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے۔  ۳۰* یہ لوگ بری ہیں ان باتوں سے جو یہ لوگ بناتے ہیں۔ ۳۱* ان کے لیے مغفرت ہے اور عزت کی روزی۔

 

۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہو ا کرو جب تک کہ مانوس ہو کر اجازت نہ حاصل نہ کر لو اور گھر والوں کو سلام نہ کر لو۔  ۳۲* یہ طریقہ تمہارے لیے بہتر ہے تاکہ تم سوجھ بوجھ سے کام لو۔  ۳۳*

 

۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر وہاں کسی کو نہ پاؤ تو داخل نہ ہو جب تک کہ تم کو اجازت نہ مل جائے۔  اور اگر تم سے واپس ہونے کے لیے کہا جائے تو واپس ہو جاؤ۔  ۳۴* یہ طریقہ تمہارے لیے خوب پاکیزہ ہے۔  ۳۵* اور جو کچھ تم کرتے ہو اسے اللہ بخوبی جانتا ہے۔

 

۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تمہارے لیے اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ ان غیر رہائشی مکانوں میں داخل ہو جاؤ جن میں تمہارے فائدہ کا سامان ہے۔  ۳۵* تم جو کچھ ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ چھپاتے ہو اللہ سب جانتا ہے۔  ۳۷*

 

۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مؤمن مردوں سے کہو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں ۳۸* اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔  ۳۹* یہ طریقہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔  جو کچھ وہ کرتے ہیں اس سے اللہ با خبر ہے۔

 

۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور مؤمن عورتوں سے کہو وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں ۴۰* اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔  ۴۱* اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں بجز اس کے جو ظاہر ہو جائے ۴۲* اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالیں۔  ۴۲* اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں کے سامنے یا اپنے باپ یا اپنے شوہروں کے باپ یا اپنے بیٹوں یا اپنے شوہروں کے بیٹوں یا اپنے بھائیوں یا اپنی عورتوں یا اپنے مملوکوں یا ان مردوں کے سامنے جو تابع ہوں اور (عورتوں سے) غرض نہ رکھتے ہوں یا ان بچوں کے سامنے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی آشنا نہ ہوئے ہوں۔ ۴۴* اور اپنے پاؤں (زمین پر) مارتی ہوئی نہ چلیں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہے وہ معلوم ہو جائے ۴۵* اور اے مؤمنو! تم سب اللہ کے حضور توبہ کرو ۴۶*  تاکہ فلاح پاؤ۔   ۴۷*

 

۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تم میں سے جو لوگ مجرد (بغیر شوہر یا بیوی کے) ہوں اور تمہارے غلاموں اور لونڈیو میں سے جو صالح ہوں ان کے نکاح کر دو۔  ۴۸* اگر وہ تنگ دست ہوں تو اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔  ۴۹* اللہ بڑی وسعت والا علم والا ہے۔  ۵۰*

 

۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو لوگ نکاح کی مقدرت نہ رکھتے ہوں وہ پاک دامانی اختیار کریں یہاں تک کہ اللہ ان کو اپنے فضل سے غنی کر دے۔  ۵۱* اور تمہارے مملوکوں میں سے جو (اپنے آزاد ہونے کے لیے) تحریری معاہدہ کر لو اگر تم جانتے ہو کہ ان کے اندر بھلائی ہے۔  ۵۲* اور ان کو اللہ کے اس مال میں سے دو جو اس نے تمہیں دیا ہے۔  ۵۳* اور اپنی لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ خود پاک دامن رہنا چاہتی ہوں محض اس لیے کہ تمہیں دنیوی زندگی کے فائدے حاصل ہو جائیں۔  ۵۴* اور جو ان کو مجبور کرے گا تو ان کے مجبور کئے جانے کے بعد اللہ (ان کے لیے) معاف کرنے والا رحم فرمانے والا ہے۔  ۵۵*

 

۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے تمہاری طرف واضح احکام نازل کئے ہیں اور ان لوگوں کی مثالیں بھی جو تم سے پہلے ہو گزرے ہیں۔  ۵۶* اور متقیوں کے لیے نصیحت بھی۔

 

۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔  ۵۷* اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق جس میں چراغ ہو۔  ۵۸* چراغ شیشہ (قندیل) کے اندر ہو۔  شیشہ ایسا ہو جیسے چمکتا ہوا تارہ۔  اس چراغ کو زیتون کے ایسے مبارک درخت سے جو نہ شرقی ہو نہ غربی روشن کیا جاتا ہو۔  اس کا تیل بھڑک اٹھنے کو ہو گو آگ نے اس کو چھوا نہ ہو۔  نور پر نور۔ ۵۹* اللہ اپنے نور کی جس کو چاہتا ہے ہدایت بخشتا ہے۔  ۶۰* اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے۔  اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔  ۶۱*

 

۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (یہ چراغ روشن ہے) ایسے گھروں میں جن کو اللہ نے بلند کرنے اور جن میں اس کے نام کا ذکر کرنے کا حکم دیا ہے۔  ۶۲* ان میں اس کی تسبیح کرتے ہیں صبح و شام۔

 

۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایسے لوگ جنہیں تجارت اور خریدو فروخت اللہ کی یاد سے ، نماز قائم کرنے سے اور زکوٰۃ دینے سے غافل نہیں کرتی۔ ۶۳* وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جب دل اور آنکھیں الٹ جائیں گی۔  ۶۴*

 

۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تاکہ اللہ ان کو ان کے بہترین اعمال کی جزا دے اور اپنے فضل سے مزید نوازے۔  ۶۵* اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب دیتا ہے۔  ۶۶*

 

۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن لوگوں نے کفر کیا ۶۷* ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے صحرا میں سراب کہ پیاسا اسے پانی سمجھے یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس پہنچا تو کچھ نہ پایا البتہ اللہ کو وہاں موجود پایا اور اس نے اس کا حساب پورا پورا چکا دیا۔  ۶۸* اور اللہ حساب چکانے میں بڑا تیز ہے۔  ۶۹*

 

۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یا اس کی مثال ایسی ہے جیسے گہرے سمندر میں تاریکیاں جس کو موج پر موج ڈھانک رہی ہو اور اس کے اوپر بادل۔  تاریکیوں پر تاریکیاں ہوں۔  اگر اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی نہ دیکھ سکے۔  ۷۰* جس کو اللہ نور نہ بخشے اس کے لیے کوئی نور نہیں۔  ۷۱*

 

۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم ۷۲* دیکھتے نہیں کہ اللہ ہی کی تسبیح کرتے ہیں وہ جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور پرندے بھی پر پھیلائے ہوئے۔  ہر ایک کو اپنی نماز اور تسبیح معلوم ہے۔  ۷۳* اور وہ جو کچھ کرتے ہیں اس سے اللہ با خبر ہے۔

 

۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اللہ ہی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ۷۴* اور اللہ ہی کی طرف سب کو لوٹنا ہے۔  

 

۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ بادلوں کو ہنکاتے ہوئے لے جاتا ہے پھر ان کو باہم ملا دیتا ہے پھر ان کو تہ بہ تہ کر دیتا ہے پھر تم دیکھتے ہو کہ ان کے درمیان سے بارش کے قطرے نکلتے ہیں۔  ۷۵* اور وہ آسمان سے اولے برساتا ہے ان پہاڑوں سے جو اس کے اندر ہیں۔ ۷۶* پھر جس پر چاہتا ہے آفت نازل کرتا ہے ۷۷* اور جس کو چاہتا ہے اس سے بچاتا ہے۔  اس کی بجلی کی چمک ایسی ہوتی ہے کہ نگاہوں کو اچک لے۔  ۷۸*

 

۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ ہی رات اور دن کا الٹ پھیر کرتا ہے۔  ۷۹* اس میں سبق ہے ان لوگوں کے لیے جو دیدہ بینا رکھتے ہیں۔

 

۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور الہ نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا۔  ۸۰* ان میں سے کوئی اپنے پیٹ کے بل چلتا ہے۔  ۸۱* تو کوئی دو پاؤں پر ۸۲* اور کوئی چار پاؤں پر۔  ۸۳* اللہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔  ۸۴* یقیناً اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

 

۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے واضح کر دینے والی آیتیں نازل کی ہیں اور اللہ جس کو چاہتا ہے سیدھی راہ کی ہدایت دیتا ہے۔  ۸۵*

 

۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کہتے ہیں ہم اللہ اور رسول پر ایمان لائے اور ہم نے اطاعت اختیار کی۔  اس کے بعد ان میں سے ایک گروہ روگردانی کرتا ہے۔  یہ لوگ ہرگز مومن نہیں ہیں۔  ۸۶*

 

۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ رسول ان کے درمیان فیصلہ کرے تو ان میں سے ایک گروہ گریز کرتا ہے۔  ۸۷*

 

۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن اگر حق ان کی موافقت میں ہو تو رسول کے پاس بڑے فرمانبردار بنکر آتے ہیں۔  ۸۸*

 

۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا ان کے دلوں میں روگ ہے یا یہ شک میں پڑے ہوئے ہیں یا ان کو یہ اندیشہ ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان کے ساتھ نا انصافی کریں گے ؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ خود ہی ظالم ہیں۔  ۸۹*

 

۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اہل ایمان کو تو جب اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ رسول ان کے درمیان فیصلہ کر ے تو کہتے ہیں ہم نے سنا اور اطاعت کی۔  ۹۰* یہی لوگ ہیں کامیاب ہونے والے۔

 

۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں گے اور اللہ سے ڈریں گے اور پرہیزگاری اختیار کریں گے وہی ہیں مراد کو پہنچنے والے۔ ۹۱*

 

۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اللہ کے نام سے کڑی قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر تم ان کو حکم دو تو نکل کھڑے ہوں گے۔  ۹۲* ان سے کہو قسمیں نہ کھاؤ۔  معروف طریقہ پر اطاعت کرنا چاہیے۔  ۹۳* تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔

 

۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی۔  ۹۴* لیکن اگر تم روگردانی کرتے ہو تو (یاد رکھو) رسول پر وہ ذمہ داری ہے جس کا بار اس پر ڈالا گیا ہے اور تم پر وہ ذمہ داری ہے جس کا بار تم پر ڈالا گیا ہے اس کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پاؤ گے۔  اور رسول پر اس کے سوا کوئی ذمہ داری نہیں کہ صاف صاف (احکام) پہنچا دے۔

 

۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیا ان سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کو زمین میں خلافت (اقتدار) بخشے گا جس طرح ان لوگوں کو بخشی تھی جو ان سے پہلے گزر چکے۔  اور ان کے لیے ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لیے پسند فرمایا ہے مضبوطی عطا کر ے گا اور ان کی خوف کی حالت کو امن سے بدل دے گا۔  وہ میری ہی عبادت کریں گے ، کسی کو میرا شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔  اور جو اس کے بعد کفر کریں گے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں۔  ۹۵*

 

۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نماز قائم کرو ،زکوٰۃ دو اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

 

۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کافروں کے بارے میں یہ خیال نہ کرو کہ وہ ہمارے قابو سے نکل جائیں گے۔  ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔

 

۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو! تمہارے مملوک اور تم لوگوں کے وہ بچے جو ابھی بلوغ کو نہیں پہنچے تین اوقات میں تم سے اجازت لیا کریں۔  نماز فجر سے پہلے ، دوپہر کو جبکہ تم کپڑے اتار کر رکھتے ہو اور عشاء کی نماز کے بعد۔ یہ تین اوقات تمہارے لیے پردہ کے ہیں۔  ان کے علاوہ دیگر اوقات میں (اجازت لیے بغیر ان کے آنے میں) نہ تم پر کوئی گرفت ہے اور نہ ان پر۔  تمہارا ایک دوسرے کے پاس بار بار آنا جانا ہوتا ہے۔  اس طرح اللہ تمہارے لیے اپنی آیتیں واضح فرماتا ہے۔  ۹۶* اور اللہ علم والا حکمت والا ہے۔  ۹۷*

 

۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب تم لوگوں کے بچے بلوغ کو پہنچ جائیں تو چاہیے کہ وہ بھی اسی طرح اجازت لیا کریں جس طرح ان سے پہلے (بلوغ کو پہنچنے) والے اجازت لیتے ہیں۔  ۹۸* اس طرح اللہ اپنے احکام تمہارے لیے واضح فرماتا ہے اور اللہ علم والا حکمت والا ہے۔  

 

۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ بوڑھی عورتیں جو نکاح کی امید نہیں رکھتیں اگر اپنے کپڑے اتار کر رکھ دیں تو ان پر کوئی گرفت نہیں ۹۹* بشرطیکہ اپنی زینت کی نمائش کرنے والی نہ ہوں۔  ۱۰۰* مگر ان کے حق میں بہتر یہی ہے کہ اس سے بچیں۔  اللہ سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے۔

 

۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ نابینا پر کوئی حرج ہے ، نہ لنگڑے پر کوئی حرج ہے ، نہ مریض پر کوئی حرج ہے اور نہ خود تم پر کوئی حرج ہے کہ اپنے گھروں سے کھانا کھاؤ یا اپنے باپ داد کے گھروں یا اپنے ماؤں کے گھروں یا اپنے بھائیوں کے گھروں یا اپنی بہنوں کے گھروں یا اپنے چچاؤں کے گھروں یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں یا اپنے ماموؤں کے گھروں یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے یا ان گھروں سے جن کی کنجیاں تمہارے قبضہ میں ہوں یا اپنے دوستوں کے گھروں سے کھاؤ۔  ۱۰۱ اس بات میں بھی تم پر کوئی گناہ نہیں کہ مل کر کھاؤ یا الگ الگ۔  ۱۰۲* البتہ جب گھروں میں داخل ہو تو اپنے لوگوں کو سلام کرو ۱۰۳* البتہ جب گھروں میں داخل ہو تو اپنے لوگوں کو سلام کرو ۱۰۳* یہ اللہ کی طرف سے مبارک اور پاکیزہ دعائیہ کلمہ ہے۔  ۱۰۴* اس طرح اللہ اپنی آیتیں تم پر واضح فرماتا ہے۔  تاکہ تم عقل سے کام لو۔  ۱۰۵*

 

۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مؤمن تو در حقیقت وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں ۱۰۶* اور جب کسی اجتماعی کام کے لیے رسول کے ساتھ ہوتے ہیں تو اس وقت تک چلے نہیں جاتے جب تک کہ اس سے اجازت نہ لیں۔ ۱۰۷* جو لوگ تم سے اجازت طلب کرتے ہیں وہی ہیں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھنے والے۔  لہٰذا جب وہ اپنی کسی ضرورت سے اجازت مانگیں تو جسے تم چاہو اجازت دے دیا کرو۔  اور ان کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کرو۔  ۱۰۸* یقیناً اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔

 

۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رسول کے بلانے کو تم آپس میں ایک دوسرے کا بلانا نہ سمجھو۔  ۱۰۹* اللہ تم میں سے ان لوگوں کو جانتا ہے جو ایک دوسرے کی آڑ لیکر کھسک جاتے ہیں۔  ۱۱۰* تو جو لوگ رسول کے حکم کو ماننے سے گریز کرتے ہیں انہیں اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ وہ کسی فتنہ کا شکار نہ ہو جائیں یا درد ناک عذاب ان کو پکڑ نہ لے۔  ۱۱۱*

 

۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سنو! آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ ہی کا ہے۔  تم جس حال پر ہو اللہ اسے جانتا ہے۔  اور جس دن یہ اس کی طرف لوٹائے جائیں گے۔  وہ انہیں بتا دے گا کہ وہ کیا کر کے آئے ہیں۔  اللہ کو ہر چیز کا علم ہے۔  

تفسیر

ا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واضح ہوا کہ قرآن کی آیتیں جن سورتوں (Chapters) کی شکل میں موجود ہیں ان کی تشکیل اللہ ہی کی طرف سے ہوئی ہے۔  یہاں "ایک سورہ" کہنے کا مطلب اس سورہ کی اہمیت کو واضح کرنا ہے۔

 

۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چونکہ اس سورہ میں زنا اور تہمتِ زنا کی سخت سزائیں بیان ہوئی ہیں جن کا نفاذ طبیعتوں پر سخت گراں گزرتا ہے نیز جنسی بے راہ روی کے سدباب کے لیے بھی سخت احکام دئے گئے ہیں اس لیے آغاز ہی میں واضح کر دیا گیا کہ جو احکام اس میں دئے گئے ہیں وہ فرض ہیں لہٰذا لازماً ان کی تعمیل کی جانی چاہیے۔

 

تعزیرات (عقوبات) کے لیے قوتِ نافذہ کا ہونا ضروری ہے اور اس کا تعلق نظم اجتماعی اور حکومت سے ہے۔  اس سے اسلام کی یہ حیثیت بالکل نمایاں ہو جاتی ہے کہ وہ وسیع تر معنی میں دین ہے جو اجتماعی زندگی سے متعلق بھی ہدایات دیتا ہے اور اس کا اپنا ایک تعزیری قانون بھی ہے جس کو نافذ نہ کرنا جبکہ قوتِ نافذہ موجود ہو فرض کی ادائیگی سے گریز ہے اور ان کی جگہ وضعی (انسان کے بنائے ہوئے) قوانین کو نافذ کرنا احکام الٰہی کی صریح خلاف ورزی بلکہ خدا سے سرکشی ہے لیکن افسوس کہ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی بیشتر حکومتیں بڑی بے شرمی کے ساتھ اسلام کے تعزیری قوانین کی جگہ خود ساختہ تعزیری قوانین نافذ کر رہی ہیں اور جہاں مسلمان کسی سیکولر اسٹیٹ کے تحت رہتے ہیں وہاں انہیں اسلام کے تعزیری قوانین کی صحت اور برتری ظاہر کرنے میں بھی تا مل ہوتا ہے تاکہ ان کا سیکولر ازم چکنا چور نہ ہو جائے !

 

ضمناً یہ بات بھی واضح ہوئی کہ قرآن کا علم حاصل کرنا فرض ہے کیونکہ عمل کے لیے علم شرط ہے اور تذکیر و تربیت کے پہلو سے بھی قرآن کا مطالعہ ضروری ہے۔  احکامِ الٰہی کے جو اثرات قلب و ذہن پر مرتب ہوتے ہیں وہ کسی اور کتاب سے نہیں ہو سکتے خواہ وہ کتنی ہی مفید کیوں نہ ہو۔

 

۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واضح احکام کا مطلب یہ ہے کہ ان کا مفہوم بالکل واضح ہے۔  قرآن کی اس صراحت کے بعد اس کے کسی حکم کا کوئی مطلب لینا صحیح نہیں ہو سکتا جو واضح مفہوم کے خلاف ہو۔  اس سے ان تمام بحثوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے جو قرآن کے کسی واضح حکم کو مبہم سمجھ کر کی جاتی ہیں۔

 

۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ جو تعزیری احکام دئے جا رہے ہیں وہ عبرت پذیری کے لیے ہیں یعنی اس لیے ہیں کہ کوئی شخص جرم کرنے کا حوصلہ نہ کرے نیز اس بات کی یاد دہانی ہو کہ اللہ کا قانون عدل جب مجرموں کے لیے دنیا میں سزا تجویز کرتا ہے تو اس نے جو دن انصاف کے لیے مقرر کیا ہے اس دن وہ مجرموں کو کیفر کردار کو کیوں نہیں پہنچائے گا؟

 

۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت کے ذیل میں چند باتوں کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے :

 

۱) زنا ایک سنگین گناہ اور قابلِ سزا جرم ہے۔  مرد اور عورت کا اپنی مرضی سے زنا کا ارتکاب نہ ان کو بے گناہ قرار دیتا ہے اور نہ جرم سے بری۔  اس معاملہ میں مرد اور عورت دونوں یکساں ہیں اور یکساں سزا کے مستحق البتہ اگر مرد نے عورت پر جبر کر کے زنا کیا ہے تو عورت بے قصور ہے اور اسے زانیہ نہیں کہا جا سکتا ایسی صورت میں صرف مرد سزا کا مستحق ہو گا۔

 

۲) متن میں لفظ ، جَلْدَہْ، استعمال ہوا ہے جس کے معنی کسی ایسی چیز سے مارنے کے ہیں جس کا اثر جلد پر ہو اور اس سے متجاوز نہ ہو۔  یہ مقصد کوڑے یا بید کے ذریعہ حاصل کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ ضرب اس شدت سے نہ لگائی جائے کہ چمڑی ادھیڑ جائے اور جسم لہو لہان ہو جائے۔  مارتے وقت جسم پر جو معمول کپڑے ہوں وہ رہنے دئے جائیں گے اور منہ اور نازک اعضاء پر ضرب نہیں لگائی جائے گی۔  مرد کو کھڑا کر کے اور عورت کو بٹھا کر ضربیں لگائی جائیں گی۔

 

۳) عام جرائم کے لیے دو گواہ کافی ہوتے ہیں لیکن زنا کے ثبوت کے لیے قرآن نے چار گواہوں کا نصاب مقرر کیا ہے۔  یہ کڑی شرط اس لیے عائد کی گئی ہے تاکہ کسی کی عزت و ناموس کو آسانی سے بٹہ نہ لگایا جا سکے۔

 

۴) آیت کے الفاظ حکم کی عمومیت پر دلالت کرتے ہیں یعنی زانی اور زانیہ کنوارے ہوں یا شادی شدہ دونوں کو سو کوڑے مارے جائیں لیکن بہ کثرت احادیث سے یہ ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے زنا کے مختلف مقدمات میں شادی شدہ مرد اور شادی شدہ عورت کو زنا کا مرتکب ہونے کی بنا پر رجم یعنی سنگسار کرنے کا حکم دیا تھا جس کی صحابۂ کرام نے تعمیل کی۔  یہ حدیثیں بخاری، مسلم، ترمذی، ابوداؤد اور مؤطا وغیرہ میں دیکھی جا سکتی ہیں۔  پھر خلفاء راشدین کے زمانہ میں بھی اس پر عمل درآمد ہوتا رہا اور امت کے علماء و فقہا اس پر متفق ہیں۔  علاوہ ازیں ایک حدیث میں جو سند کے اعتبار سے صحیح ہے یہ اصولی بات بھی بیان ہوئی ہے کہ:

 

لاَ یَحلُّ دَمُ امْرِیٍٔ مسلم یَشْہَدُ اَنْ الاّاِلٰہَ اِلاّ بَاحْدیٰ ثلاثٍ: اَلنَّفسُ بِالنَّفسْ وَالثیبُ الزَّانی وَالمارق و مِنَ الدّینِ اَلتّارک الجماعۃ (بخاری کتاب الدیات) "کسی مسلمان کا جو یہ گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں خون جائز نہیں الا یہ کہ ان تین صورتوں میں سے کوئی صورت پیش آ جائے : اس نے کسی کا خون کیا ہو یا شادی شدہ ہو کر زنا کا مرتکب ہوا ہو یا دین سے نکل گیا ہو اور ملت کو چھوڑ دیا ہو (یعنی مرتد ہو گیا ہو) ۔"

 

اس لیے شادی شدہ زانی مرد و عورت کے لیے رجم کی سزا ایک ناقابل انکار حقیقت ہے البتہ یہاں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ قرآن عمومیت کے ساتھ کوڑوں کی سزا بیان کرتا ہے جبکہ حدیث شادی شدہ زانی و زانیہ کے لیے سنگسار کرنے کی سزا تجویز کرتی ہے تو دونوں میں مطابقت کی کیا صورت ہے ؟ اس کا جواب قدرے تفصیلی ہے :

 

زنا زمانۂ جاہلیت میں عام تھا اور اگر باہم رضامندی سے کیا گیا ہو تو اس کے لیے کسی سزا کا کوئی تصور نہیں تھا جیسا کہ موجودہ "مہذب جاہلیت" میں نہیں ہے اپنے معاشرہ میں زنا کی انتہائی سزا کے لیے تدریج ضروری تھی بالکل اسی طرح جس طرح کہ شراب کے متوالوں کو پہلے شراب سے نفرت دلائی گئی پھر صراحت کے ساتھ حرام قرار دیا گیا اور پھر شراب پینے والوں کے لیے سزا متعین ہوئی اور اس سزا میں بھی کسی قدر تدریج رہی یعنی پہلے صرف ہاتھ سے مارنے کی سزا تھی بعد میں کوڑوں کی سزا مقرر کی گئی جس کی تفصیل احادیث میں ملتی ہے۔  اس حکمت تشریع کے پیش نظر مدینہ میں پہلے مرحلہ میں زانیہ عورتوں کو خواہ وہ کنواری ہوں یا شادی شدہ گھروں میں نظر بند کرنے کا حکم ہوا اور زانی مرد اور عورت دونوں کو خواہ وہ کنوارے ہوں یا شادی شدہ تادیبی سزا دینے کا مجمل حکم دیا گیا۔  یہ حکم سورۂ نساء آیت ۱۵  اور ۱۶ میں بیان ہوا ہے۔  اس کے بعد دوسرے مرحلہ میں سورۂ نور کی یہ آیت نازل ہوئی جس میں ہر قسم کے زانی کے لیے خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور خواہ وہ کنوارا ہو یا شادی شدہ سو کوڑوں کی سزا کا حکم سنایا گیا۔  اس حکم سے نظر بند عورتوں کی رہائی کی سبیل پیدا ہو گئی جس کا وعدہ سورۂ نسا ء میں ان الفاظ میں کیا گیا تھا:

 

اَوْیَجْعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِلاً (نساء ۱۵) "(انہیں گھروں میں روکے رکھو یہاں تک کہ انہیں موت آ جائے) یا اللہ ان کے لیے کوئی راہ نکالے۔"

 

"سبیل" قید و بند سے رہائی کے معنی میں ہے اور کوڑوں کی سزا کا نفاذ ان کو قید و بند سے رہائی دلانے والا تھا۔  رجم کا حکم اس وقت نہیں دیا گیا تھا اور نہ رجم کو سبیل سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔  اس مرحلہ میں کوڑوں کی سزا کا حکم عمومیت کے ساتھ دیا گیا جو بالکل بر محل تھا کیونکہ اس وقت تک شادی شدہ زانی کے لیے رجم کا حکم دیا ہی نہیں گیا تھا۔

 

بعد میں یعنی سورۂ نور کی تنزیل کے کم از کم ایک سال بعد غالباً ۰۷ ھ  میں جو زنا کی سزا کے لیے تیسرے مرحلہ کی حیثیت رکھتا ہے انتہائی سزا تجویز کی گئی چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں زنا کے جو مقدمات پیش ہوئے ان میں آپ نے شادی شدہ زانی مرد اور شادی شدہ زانی عورت کو رجم کی سزا دی یہاں تک کہ یہود کے زنا کے مقدمہ میں بھی آپ نے یہی فیصلہ سنایا اور تورات میں رجم کا جو حکم موجود ہے اس سے ان پر حجت قائم کی۔

 

"اگر کوئی مرد کسی شوہر والی عورت سے زنا کرتے پکڑا جائے تو وہ دونوں مار ڈالے جائیں یعنی وہ مرد جس نے اس عورت سے صحبت کی اور وہ عورت بھی۔  یوں تو اسرائیل میں سے ایسی برائی کو دفع کرنا۔ اگر کوئی کنواری لڑکی کسی شخص سے منسوب ہو گئی ہو اور کوئی دوسرا آدمی اسے شہر میں پا کر اس سے صحبت کرے تو تم ان دونوں کو اس شہر کے پھاٹک پر نکال لانا اور ان کو تم سنگسار کر دینا کہ وہ مر جائیں۔" (استثنا۲۲:۲۲،۲۳)

 

ان واقعات کے لیے دیکھئے بخاری،مسلم، ترمذی، ابو داؤد اور دیگر کتب حدیث کی کتاب الجدود) اس طرح تدریج کے آخری مرحلہ میں سنت نبوی نے جو وحی الٰہی ہی کی روشنی میں متعین ہوتی ہے شادی شدہ زانی مرد اور عورت کے لیے رجم کی سزا مقرر کی۔  اس سے کوڑوں کی سزا کا حکم جو سورۂ نور کی زیرتفسیر آیت میں دیا گیا ہے کنوارے مرد و عورت کے لیے مخصوص ہو گیا اور اب اس میں وہ عموم باقی نہیں رہا جو اس کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے۔  سنت یا احادیث صحیحہ کے ذریعہ قرآن کے احکام کی تخصیص کی بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں مثلاً سورۂ جمعہ میں یہ حکم کہ جمعہ کے دن جب نماز کے لیے اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو، بظاہر عام ہے یعنی مرد عورت سب کے لیے ہے لیکن سنت نے عورتوں کو اس سے مستثنیٰ کر کے مردوں کے لیے اس کو خاص کر دیا۔  قرآن نے وصیت کی تعمیل کا حکم دیا اور کوئی تحدید نہیں کی لیکن سنت نے ۳/۱ حصہ کے لیے اس کی تحدید کر دی۔  لہٰذا اگر سنت نے قرآن کی بیان کردہ کوڑوں کی سزا کو کنوارے زانی مرد و عورت کے لیے خاص کر دیا اور شادی شدہ زانی مرد و عورت کے لیے اس سے زیادہ سنگین سزا تجویز کی تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے ؟ کنوارے شخص کے مقابلہ میں شادی شدہ شخص سے زنا کا ارتکاب جرم کو سنگین بناتا ہے اس لیے اس کی سزا بھی مقابلتہً سخت ہونی چاہیے لہٰذا سنت نے جو حد (سزا) مقرر کی وہ مبنی بر انصاف ہے۔  

 

رجم کی سزا اگرچہ قرآن میں بیان نہیں ہوئی ہے لیکن سورۂ نور ہی کی آیت وَالَّذِین یُحِبُّونَ اَنْ تَشِیْعَ الفَاحِشَۃُ فِی الَّذیْنَ آمَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ فِی الدنیا وَالْآخِرۃِ  (جو لوگ اہل ایمان میں بے حیائی پھیلانا چاہتے ہیں ان کے لیے دنیا میں بھی دردناک عذاب ہے اور آخرت میں بھی۔  آیت ۱۹) اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ زنا کاروں کو درد ناک سزا دی جائے۔  سنت نے شادی شدہ زانیوں کے لیے رجم کی سزا کا قاعدہ جاری کر کے اس آیت کے منشاء کو پورا کیا ہے۔  لہٰذا یہ کہنا صحیح نہ ہو گا کہ رجم کی سزا کے لیے قرآن میں کوئی ماخذ موجود نہیں ہے۔  البتہ رجم کی تائید میں اس روایت سے استدلال صحیح نہیں ہے جس میں حضرت عمر کی طرف یہ بات منسوب کی گئی ہے کہ انہوں نے فرمایا تھا کہ قرآن میں رجم کی آیت موجود تھی مگر بعد میں اس کی تلاوت اٹھا لی گئی اور حکم برقرار رہا۔  یہ ایک بیہودہ بات ہے جو روایتوں میں آ گئی ہے اور اس کی نسبت حضرت عمر کی طرف ہرگز صحیح نہیں۔  قرآن تو ایک قطعی چیز ہے جس میں شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔  وہ کسی راوی کے روایت کرنے سے نہیں بلکہ امت کے تواتر سے ثابت ہے اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالیٰ نے لے رکھی ہے پھر اگر کوئی روایت قرآن میں کسی آیت کے اضافہ کی مدعی ہو تو اس کا دعویٰ سراسر غلط بلکہ باطل قرار پائے گا اس لیے یہ روایت اس لائق نہیں کہ اس کو کوئی اہمیت دی جائے پھر اس روایت میں آیت (الشیخ والشیخۃ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔) جن الفاظ اور جن اسلوب میں بیان ہوئی ہے وہ اس قدر لچر ہیں کہ اس کو قرآن سے جوڑنا ایسا ہی جیسے تاج محل میں مٹی کی دیوار کا جوڑ لگانا۔  اور اگر یہ آیت تھی تو اس کی تلاوت کا منسوخ ہونا اور حکم کا باقی رہنا بھی ایک ایسی بات ہے جو روایت پرستوں ہی کی سمجھ میں آ سکتی ہے۔  افسوس کہ لوگوں نے حدیثیں گھڑنے ہی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ آیتیں گھڑنے کی بھی جسارت کی اور روایت پرست خلافِ قرآن اور بے ہودہ روایتوں کو بھی صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے۔

 

۵) آیت میں خطاب اہل ایمان سے ہے اس لیے مسلم معاشرہ میں اس بات کا مکلف (ذمہ دار) ہے کہ اس تعزیری قانون (حد) کو جاری کرے اور اس کے نفاذ کی عملی صورت یہ ہے کہ مسلمانوں کی حکومتیں جو ان کی نمائندگی کرتی ہیں اس کو (اور اسی طرح اسلام کے دوسرے تعزیری قوانین کو) جاری و نافذ کریں۔

 

۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کا دین جہاں سختی کا مطالبہ کرتا ہے وہاں نرمی نہ برتو۔

 

علامہ رازی لکھتے ہیں :

 

"فِی دِینِ اللہ فرما کر اس بات پر متنبہ فرمایا ہے کہ دین نے جب ایک کام کو واجب قرار دیا تو اس کے بر خلاف نرمی کا استعمال صحیح نہیں۔" (تفسیر کبیر ج ۲۳ ص ۱۴۸)

 

نرمی کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں مثلاً ایک صورت یہ کہ شریعت کے تعزیری قانون کو کسی نرم قانون سے بدل دیا جائے جو کفر ہے۔  دوسری صورت یہ ہے کہ عملاً اس کے نفاذ میں رعایت برتی جائے اور تیسری صورت یہ ہے کہ مار اتنی ہلکی ہو کہ سزا کا مقصد ہی فوت ہو جائے۔  نرمی کی ان تمام صورتوں سے احتراز ضروری ہے۔

 

شریعت کے تعزیری قوانین یقیناً سخت ہیں لیکن جرائم کو روکنے اور مجرموں کو سبق دینے کے لیے یہ ضروری ہیں چنانچہ آج مکہ و مدینہ کی سرزمین میں جرائم کی جو حیرت انگیز حد تک کمی ہے وہ ان قوانین ہی کے اجراء کی برکتیں ہیں۔

 

موجودہ دور میں تو مجرموں کے لیے بہت ہلکی پھلکی سزائیں تجویز کی جاتی ہیں۔  لوگوں کو ظالموں پر رحم آتا ہے مگر ان مظلوموں پر رحم نہیں آتا جو اغوا اور عصمت دری اور قتل و غارت گری کا شکار ہو جاتے ہیں۔  انہیں وہ سختی بھی دکھائی نہیں دیتی جو کسی جرم کا اعتراف کرانے کے لیے پولیس برتتی ہے۔  اور ایسی ایسی اذیتیں (Torture) دیتی ہے کہ دورِ وحشت کی یاد تازہ ہو جاتی ہے اور کبھی بھی تو ملزم دم توڑ دیتا ہے حالانکہ اس کا جرم ابھی ثابت نہیں ہوا۔

 

۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مسلمانوں کی ایک تعداد سزا کے وقت موجود رہے تاکہ وہ عبرت حاصل کریں اور کسی شخص کو جرم کرنے کا حوصلہ پیدا ہی نہ ہو۔

 

۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت میں زنا کاروں کا عام طرز عمل بیان ہوا ہے۔  ایک زانی مرد زانی عورت یا مشرکہ سے نکاح کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا اور نہ ایک زانیہ زانی مرد یا مشرک سے نکاح کرنے میں عار محسوس کرتی ہے لیکن اہل ایمان کے لیے ایسے رشتہ حرام ہیں۔  مومن عورت کے لیے کسی زانی یا مشرک سے نکاح ہرگز جائز نہیں اور نہ مومن مرد کے لیے زانیہ یا مشرکہ سے نکاح جائز ہے۔  بدکاری اور بد عقیدگی کی بنا پر ایسے رشتے اہل ایمان کے لیے موزوں نہیں ہیں اس لیے لازماً اس سے احتراز کرنا چاہیے۔

 

جہاں تک زنا بالجبر کا تعلق ہے وہ تو ایک زانی کسی پاکدامن خاتون کے ساتھ بھی کرتا ہے لیکن اس کو زانیہ نہیں کہا جا سکتا۔  اسی طرح ایک مسلمان خاتون لا علمی کی بنا پر ایک ایسے مسلمان کے نکاح میں آ جاتی ہے جو زانی ہے۔  اس بنا پر وہ زانیہ نہیں ہو جاتی اس لیے آیت کا مفہوم وہی صحیح معلوم ہوتا ہے جو اوپر بیان ہوا۔  واللہ اعلم۔

 

۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تہمت سے مراد زنا کی تہمت ہے اور پاکدامن عورتوں پر خواہ وہ کنواری ہوں یا شادی شدہ زنا کی تہمت لگانا ان کی عزت و ناموس کو بٹہ لگانا ہے جو ان کے لیے عار اور بدنامی کا باعث ہے اس لیے شریعت نے اس الزام کو ثابت نہ کرنے والے کے لیے سخت سزا مقرر کی یعنی اسّی کورے لگانا۔

 

یہ سزا ہر قسم کے الزام کے لیے نہیں ہے بلکہ زنا کی تہمت کے لیے خاص ہے جس کو فقہی اصطلاح میں قذف کہا جاتا ہے۔  سزا دینا اسلامی عدالت کا کام ہے جس کے سامنے یہ مقدمہ پیش کیا گیا ہو اور تہمت لگانے والا چار گواہ پیش نہ کر سکے۔

 

۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تہمت لگانے والوں کی شہادت ہمیشہ کے لیے ناقابل قبول ہے۔

 

۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی انہوں نے بہت بڑا جھوٹ بولا اور پاکدامن عورتوں کی عزت و ناموس کو داغ دار بنانا چاہا اس لیے وہ بہت بڑے گناہ (فسق) کے مرتکب ہوئے۔

 

اس سے ضمناً یہ اصولی بات بھی واضح ہوئی کہ ایک مسلمان فاسق بھی ہو سکتا ہے اگر وہ گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرے اور جب وہ دنیا میں سخت سزا کا مستحق ہو جاتا ہے تو آخرت میں فاسق مسلمانوں کو سزا سے کیوں نہ دوچار ہونا پڑے گا مگر آج مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد فسق و فجور کی زندگی گزارتے ہوئے اس خام خیالی میں مبتلا ہے کہ کلمہ گو ہونے کی بنا پر قیامت کے دن ان کو کسی سزا سے واسطہ پڑنے والا ہی نہیں ہے۔  

 

۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر ایسا شخص توبہ کر کے اپنی اصلاح کر لیتا ہے تو پھر وہ فاسق نہیں رہے گا۔  اللہ تعالیٰ اس کے گناہ بخش دے گا اور اس پر رحم فرمائے گا۔  مسلمانوں کی سوسائٹی میں بھی اسے پھر فاسق نہیں کہا جا سکے گا۔

 

۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان آیتوں میں لعان کا حکم بیان ہوا ہے۔  لعان کا مطلب یہ ہے کہ شوہر اور بیوی یہ حلفیہ بیان دیں کہ اگر وہ اپنے بیان میں جھوٹے ہیں تو ان پر اللہ کی لعنت ہو۔  اس کی صورت یہ ہے کہ اگر شوہر بیوی پر زنا کا الزام عائد کرتا ہے لیکن اس کے پاس ذاتی شہادت کے علاوہ پیش کرنے کے لیے گواہ نہیں ہیں جبکہ زنا کو ثابت کرنے کے لیے چار گواہ ضروری ہے تو وہ اسلامی عدالت کے سامنے چار مرتبہ حلفیہ بیان دے کہ وہ اپنے بیان میں بالکل سچا ہے اور پانچویں مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ اللہ کی لعنت ہو اس پر اگر وہ جھوٹا ہے۔  اس کے بعد عورت کو موقع دیا جائے گا کہ وہ اگر شوہر کے الزام کو جھوٹا سمجھتی ہے تو اس کی تردید کرے اور اس تردید کے لیے اسے چار مرتبہ حلفیہ بیان دینا ہو گا کہ شوہر اس پر الزام لگانے میں جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہنا ہو گا کہ اللہ کا غضب ہو اس پر (یعنی عورت پر) اگر شوہر اپنے بیان میں سچا ہے۔  اس کے بعد عدالت ان دونوں کے درمیان تفریق کرا دے گی اور کسی کو کوئی سزا نہیں دی جائے گی۔  لیکن اگر شوہر کے حلفیہ بیان کے بعد بیوی زنا کے الزام کی تردید اپنے حلفیہ بیان کے ذریعہ نہیں کرتی تو وہ سزا کی مستحق ہے۔  یہ سزا وہی ہو گی جو اوپر آیت ۲  میں بیان ہوئی یعنی سو کوڑوں کی سزا کیونکہ یَدْرَ أعُنْہا العَذَابُ (اس سے سزا اس صورت میں ٹل جائے گی جبکہ۔ ۔ ۔) میں العذاب سے مراد وہی سزا لی جا سکتی ہے جو اس سیاق (Context) میں بیان ہوئی ہے۔

 

یہ صحیح ہے کہ شادی شدہ زانیہ کی سزا سنت نے رجم مقرر کی ہے مگر وہ اس صورت میں ہے جبکہ چار گواہوں کے ذریعہ جرم ثابت ہو گیا ہو یا ملزم نے خود اپنے جرم کا اعتراف کر لیا ہو۔  یہاں دونوں میں سے کوئی صورت بھی موجود نہیں ہے اس لیے شوہر کے حلفیہ بیان کی تردید نہ کرنے پر عورت کو زنا کی انتہائی سزا دینے کے لیے کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے۔  لہٰذا عورت کو زنا کی کم سے کم سزا ہی دی جا سکتی ہے یعنی سو کوڑے۔

 

حنفی مسلک ایسی صورت میں عورت کے لیے حَبسْ (قید) کی سزا تجویز کرتا ہے یعنی جب تک عورت شوہر کے بیان کی حلفیہ تردید نہیں کرتی اسے قید میں رکھا جائے گا مگر یَدْرَاُء عَنْہَاالْعَذَابُ (سزا عورت پر سے ٹل جائیگی۔ ۔ ۔) میں سزا سے مراد حَبس (قید) لینے کے لیے کوئی قرینہ نہیں ہے۔  قریب ہی میں (آیت۲  میں) زنا کی سزا بیان ہوئی ہے اور زنا ہی سے متعلق سلسلۂ بیان میں یَدْرَأُ عنہَا العَذَابُ (عورت سے سزا اسی صورت میں ٹل سکتی ہے جبکہ وہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔) فرمایا گیا ہے اس لیے یہاں سزا سے ذہن اسی سزا کی طرف منتقل ہوتا ہے جو آیت ۲  میں بیان ہوئی ہے یعنی سو کوڑوں کی سزا۔

 

لعان کی صورت میں نکاح فسخ (Dissolve) ہو جاتا ہے چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ :"نبی صلی اللہ علیہ سلم نے انصار کے ایک مرد اور عورت کے درمیان لعان کرایا اور ان دونوں کو جدا کر دیا (بخاری کتاب الطلاق) ۔

 

لعان کا حکم تورات میں بھی موجود ہے مگر اس تفصیل کے ساتھ نہیں جو قرآن نے بیان کی ہے۔ (ملاحظہ ہو گنتی ۵:۱۱ تا ۳۱)

 

۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ اللہ کا فضل ہے کہ اس نے پر پیچ عائلی مسائل میں تمہاری رہنمائی کی اور یہ اس کی رحمت ہے کہ اس نے تمہارے لی مشکلات سے نکلنے کی صورت پیدا کر دی اگر ایسا نہ ہوتا تو تم مشکل میں پڑ جاتے۔  وہ توبہ قبول کرنے والا ہے اس لیے اس نے گنہگاروں کے لیے توبہ کا دروازہ کھلا رکھا ہے۔  وہ توبہ کر کے اپنی اصلاح کر سکتے ہیں اور اس کی رحمت کے مستحق بن سکتے ہیں۔  وہ حکمت والا ہے اس لیے اس کے یہ احکام و قوانین حکمت و مصلحت پر مبنی ہیں۔  ان کو غیر حکیمانہ اور غیر معقول وہی لوگ خیال کرتے ہیں جو اللہ کے صاحب حکمت ہونے پر یقین نہیں رکھتے۔

 

واضح رہے کہ آیت میں لو لا (اگر ایسا نہ ہوتا) کا جواب عربی کے بلاغت کے اصول پر محذوف ہے یعنی الفاظ میں بیان نہیں ہوا ہے۔  مگر فحوائے کلام سے جو مفہوم واضح ہوتا ہے اسے ہم نے قوسین میں بیان کیا ہے۔

 

۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے جھوٹ کے اس طوفان کی طرف جو منافقین نے کسی پاکدامن مؤمنہ کے خلاف اٹھایا تھا۔  یہ گروہ شامل تو تھا مسلمانوں میں لیکن نہ صرف یہ کہ اس نے دل سے اسلام قبول نہیں کیا تھا بلکہ اس کا مخالف اور مسلمانوں کے درپے آزار تھا۔  وہ محض اپنے قبیلہ کے مسلمان ہو جانے یا اس قسم کی دوسری مصلحتوں کی بنا پر اسلام لایا تھا۔  حقیقتہً اسے اسلام سے کوئی دلچسپی نہیں تھی بلکہ اس سے بغض رکھتا تھا اور اپنے اس بغض کی بنا پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کی سازشیں کرتا رہتا تھا۔  غزوہ احزاب (۰۵ھ) کے بعد اس نے مسلم سماج کی ساکھ کو متاثر کرنے کے لیے شریف مسلمان خواتین کو بدنام کرنے ، بے حیائی کا چرچا کرنے اور جھوٹی افواہیں پھیلانے کا کام شروع کیا۔  اس موقع پر وہ ایک عفت مآب مومن خاتون کے خلاف ایک گھناؤنا قصہ گھڑ لائے اور اس بہتان کو اس طرح پھیلانا شروع کیا کہ بعض غیر محتاط مسلمان بھی اس کا چرچا کرنے میں شریک ہو گئے۔  منافقوں کے اسی نئے فتنہ کی طرف ان آیات میں اشارہ کیا گیا ہے اور ان مسلمانوں کو سخت تنبیہ کی گئی ہے جنہوں نے جھوٹی افواہوں سے متاثر ہو کر برائی کا چرچا کرنے میں حصہ لیا تھا۔

 

قرآن نے یہ صراحت نہیں کی کہ وہ کون خاتون تھیں جن کے خلاف طوفان کھڑا کیا گیا تھا اس لیے اس کا تعین ضروری نہیں اور چونکہ اس کا چرچا کرنے سے روکا گیا ہے جیسا کہ آگے کی آیات سے واضح ہے اس لیے صحابۂ کرام نے اس آیت کی تفسیر میں طوفان کا وہ واقعہ نقل نہیں کیا جو اس وقت پیش آیا تھا۔  اس لیے اس بات کا کھوج لگانے کی کوشش بالکل غیر ضروری اور نا مناسب ہے کہ یہ تہمت کس خاتون پر لگائی گئی تھی اور کیا افسانہ تراشا گیا تھا۔  بے حیائی کے جھوٹے قصے بیان کرنے سے خواہ وہ تردید ہی کے ساتھ کیوں نہ ہوں برے اثرات مرتب ہوتے ہیں اس لیے ان کو نقل نہ کرنا ہی مناسب ہے اور سلامتی کی راہ یہی ہے کہ قرآن کے اجمالی بیان پر اکتفاء کر  کے متعلقہ احکام پر نگاہوں کو مرکوز کیا جائے۔

 

رہیں وہ روایتیں جن میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت کا قصہ بیان ہوا ہے تو قرآن سے اس کی تائید نہیں ہوتی کیونکہ قرآن کا بیان عام مومن عفیفہ عورتوں سے متعلق ہے جیسا کہ آیت ۱۲  اور ۲۳ سے واضح ہے۔  اس میں کوئی اشارہ بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی کسی زوجۂ مطہرہ کی طرف نہیں ہے۔  اگر واقعہ حضرت عائشہ صدیقہ پر تہمت لگانے کا ہوتا تو تہمت لگانے والوں کا جرم اور سنگین ہو جاتا کہ یہ لوگ مومنوں کی ماں (ام المومنین) کی شان میں گستاخی کے مرتکب ہوئے ہیں نیز انہوں نے اپنی اس حرکت سے خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اذیت پہنچائی ہے اور خاندان نبوت کی بدنامی کا باعث ہوئے ہیں لیکن اس قسم کی کوئی بات ان آیات میں اشارۃً بھی مذکور نہیں ہے۔  پھر ان روایتوں پر اسناد کے لحاظ سے بھی کلام کی گنجائش ہے اور متن (مضمون) کے اعتبار سے تو بہت سی باتیں ناقابل تسلیم ہیں ان روایتوں میں سب سے زیادہ مشہور اور مبسوط روایت زہری کی ہے جو مشہور تابعی تھے۔  یہ روایت بخاری، مسلم اور دیگر کتب حدیث میں تفصیل سے بیان ہوئی ہیں نیز سیرت ابن ہشام میں بھی یہ ابن اسحق سے نقل ہوئی ہے۔  اس روایت کو یہاں نقل کرنا باعث طوالت ہو گا۔  نیز یہ بات مناسب بھی نہیں معلوم ہوتی کہ ایک ایسی روایت کو قرآن کی تفسیر میں جگہ دی جائے جس کو بیان کرنے میں انقباض محسوس ہوتا ہے۔  اس لیے ہم مختصراً یہ بیان کرنے پر اکتفاء کریں گے کہ کن وجوہ سے یہ روایت قابل قبول نہیں ہے :

 

۱) سب سے پہلی بات جو اس روایت میں کھٹکتی ہے وہ یہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم تک اس بہتان کی اطلاع پہنچ گئی تو آپ کی نظر التفات حضرت عائشہ کی طرف نہیں رہی در آنحالیکہ حضرت عائشہ ان دنوں بیمار رہیں۔  آپ صرف خیریت معلوم کر کے چلے جاتے اس لیے حضرت عائشہ نے محسوس کیا کہ ضرور کوئی بات ہے پھر جب ام مِسطح نے حضرت عائشہ کو مطلع کیا کہ ان پر تہمت لگائی گئی ہے تو ان کو سخت صدمہ ہوا اور وہ روتی رہیں۔  اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس افواہ کو سن کر اس کی فوراً تردید نہیں کی اور حضرت عائشہ سے کچھ پوچھے بغیر اور معاملہ کی تحقیق کئے بغیر ان سے بدگمان ہو گئے۔  حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی شان سے یہ بعید ہے کہ آپ ایسا طرز عمل اختیار کریں اپنی زوجۂ مطہرہ کے ساتھ جس کی عفت اور پاک دامانی شک سے بالاتر ہو۔  قرآن تو اہل ایمان سے کہتا ہے کہ تم نے جب بہتان کا قصہ سنا تو ایک دوسرے کے بارے میں نیک گمان کیوں نہیں کیا اور یہ کیوں نہیں کہا کہ یہ صریح بہتان ہے (آیت ۱۲) ۔  قرآن کے اس عتاب کا رخ ان مسلمانوں کی طرف ہے جنہوں نے ایک پاکدامن خاتون پر لگائے گئے بہتان کی فوراً تردید نہیں کی۔  مگر مذکورہ روایت کو قبول کرنے کی صورت میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے طرزِ عمل کی توجہ کرنا مشکل ہے اور کوئی ایسی روایت جس سے منصب نبوت پر حرف آتا ہو قابل رد ہے۔

 

۲)  اس روایت میں دوسری بات نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف یہ منسوب کی گئی ہے کہ جب آپ نے دیکھا کہ حضرت عائشہ رو رہی ہیں تو حضرت علی اور اسامہ کو بلایا اور ان سے اپنی اہلیہ کو چھوڑ دینے کے بارے میں مشورہ چاہا۔  اسامہ نے کہا یا رسول اللہ ہم آپ کے گھر والوں کے بارے میں خیر کے سوا کچھ نہیں جانتے اور حضرت علی نے کہا اللہ نے آپ پر تنگی نہیں فرمائی ہے۔  عائشہ کے علاوہ بہ کثرت عورتیں موجود ہیں (یعنی) آپ دوسری عورتوں سے نکاح کر سکتے ہیں) آپ باندی سے پوچھ لیجئے وہ آپ کو سچ سچ بتائیں گی۔  آپ نے بُریرَہ کو بلا کر پوچھا تو بریرہ نے کہا میں نے ان میں کوئی بات ایسی نہیں دیکھی جو شک پیدا کرنے والی ہو۔  

 

یہ بات بھی باور کرنے کے قابل نہیں ہے کہ ایک ایسے مسئلہ میں جو ازدواجی زندگی سے متعلق تھا اسامہ جیسے کم عمر لڑکے سے مشورہ کیا ہو گا اور پھر یہ بات کتنی عجیب ہے کہ آپ ایک لونڈی سے تو پوچھیں لیکن اپنی دوسری ازواج سے نہ پوچھیں سوائے زینب کے حضرت علی سے تو آپ مشورہ کریں لیکن حضرت ابوبکر اور حضرت عمر جیسے جلیل القدر صحابہ کو بالکل نظر انداز کر دیں۔  حضرت ابوبکر سے روایت میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں کہ آپ نے حضرت ابوبکر کو اس طرف توجہ دلائی ہو کہ ان کی بیٹی کے بارے میں لوگوں میں کیا چہ می گوئیاں ہو رہی ہیں۔  پھر حضر ت علی کا جواب بھی کچھ واجبی تھا۔  بجائے اس کے کہ ان کی زبان سے وہ کلمات نکلتے جن کی توقع ایک مومن سے کی جا سکتی ہے یعنی قرآن کے ارشاد کے مطابق سُبْحانَکَ ہٰذَا بُھْتَانٌ عظیمٌ (خدایا تو پاک ہے۔  یہ تو بڑا بہتان ہے) انہوں نے کہا کہ عائشہ کے علاوہ آپ کو بہت سی دوسری عورتیں مل سکتی ہیں۔  ایک زیر تحقیق مسئلہ میں یہ کیا جواب ہوا؟ حضرت علی کے بارے میں ہمیں یہ بدگمانی نہیں ہے کہ انہوں نے ایسا جواب دیا ہو گا بلکہ یہ راوی کی اپنی ذہنی اپج ہے جو یہ تاثر دیتی ہے کہ حضرت علی پہلے ہی سے حضرت عائشہ کو وقعت کی نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔  اس سے راوی (زہری) کے بارے میں شیعی ذہنیت کا شبہ ضرور ہوتا ہے۔  

 

۳)  مذکورہ روایت میں ہے کہ حضرت علی سے مشورہ کرنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم منبر پر تشریف لے گئے اور مسلمانوں سے خطاب کر کے فرمایا کہ کون میری مدافعت کرے گا اس شخص سے جس نے میر ے اہل بیت کے بارے میں مجھے اذیت پہنچائی ہے اور اللہ کی قسم میں نے اپنے گھر والوں میں اچھائی ہی دیکھی ہے اور جس شخص پر یہ الزام لگا رہے ہیں اس میں بھی اچھائی ہی دیکھی ہے۔  اس پر سعد بن معاذ نے کہا اگر وہ الزام لگانے والا شخص قبیلۂ اوس سے ہے تو میں اس کی گردن اڑا دوں گا اور اگر قبیلۂ خزرج سے ہے تو آپ جو حکم دیں گے ہم اس کی تعمیل کریں گے۔  یہ سنتے ہی سعد بن عبادہ کھڑے ہو گئے اور سعد بن معاذ سے کہا کہ آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔  آپ ہرگز اسے قتل نہیں کر سکتے۔  سعد بن معاذ نے کہا ہم اسے ضرورت قتل کریں گے۔  تم تو منافق ہو اور منافقوں کی طرف سے بول رہے ہو۔  قریب تھا کہ اوس اور خزرج لڑ پڑیں مگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو ٹھنڈا کر دیا۔

 

نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی موجودگی میں انصار کے دو قبیلوں کا اس طرح جھگڑنا ناقابل یقین ہے۔  سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ دونوں جلیل القدر صحابی ہیں ان کے بارے میں ہرگز یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ انہوں نے ایک دوسرے پر ذاتی حملے کئے ہوں گے۔  یہ روایت ان کے کردار کو مجروح کرتی ہے اور یہ بات بھی بہت عجیب ہے کہ اگر یہ واقعہ پیش آیا تھا تو حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی کس طرح خاموش رہے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی حمایت میں کیوں نہ اٹھ کھرے ہوئے۔  یہ باتیں اس روایت کو بالکل مشکوک بناتی ہیں۔

 

۴)  روایت میں آگے بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم حضرت عائشہ کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا اے عائشہ مجھے تمہارے بارے میں یہ خبریں پہنچی ہیں۔  اگر تم بے گناہ ہو تو اللہ تمہاری برأت ظاہر کر دے گا اور اگر واقعی تم سے کوئی گناہ سرزد ہوا ہے تو اللہ سے معافی مانگو اور توبہ کرو کہ جب بندہ اپنے گناہ کا اعتراف کرتا ہے اور توبہ کرتا ہے تو وہ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔  حضرت عائشہ فرماتی ہیں یہ سن کر میرے آنسو خشک ہو گئے۔  اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی نازل ہوئی اور آپ نے فرمایا اے عائشہ اللہ نے تمہاری برأت نازل فرمائی۔

 

اس روایت سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم حضرت عائشہ سے بدگمان ہو گئے تھے جو آیت ۱۲  کی روشنی میں جس میں اہل ایمان کو آپس میں نیک گمان رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہے۔  پھر آپ کا حضرت عائشہ سے یہ کہنا کہ اگر تم سے گناہ سرزد ہوا ہے تو توبہ کرو کا مطلب یہ ہوا کہ اگر حضرت عائشہ سے اتنا بڑا گناہ سرزد ہوا تھا تو اس کے لیے ان کا توبہ کرنا کافی تھا حالانکہ اس صورت میں ان پر اسلام کا تعزیری قانون نافذ ہوتا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم انہیں اپنی زوجیت میں کبھی نہ رکھتے کیونکہ یہ بات ناموس نبی کو مجروح کرنے والی ہوتی ہے۔  معلوم ہوا کہ یہ قصہ محض افسانہ ہے۔

 

۵)  سورۂ نور سے پہلے سورۂ احزاب نازل ہو چکی تھی جس میں نبی کی ازواج کو امہات المؤمنین (مومنوں کی مائیں) قرار دیا گیا تھا نیز رسول کو اذیت دینے والوں کو لعنت کا مستحق ٹھہرایا گیا تھا۔  اس کے بعد کون ایسا مسلمان ہو سکتا تھا جو اپنے ایمان میں مخلص بھی ہوتا اور امہات المومنین میں سے کسی پر تہمت لگانے کی جسارت کرتا؟

 

۶)  اس فتنہ کا اصل ذمہ دار منافقوں کا سردار عبداللہ بن اُبیَ تھا لیکن اس روایت میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ حضرت عائشہ کی برأت والی آیات نازل ہونے کے بعد اس پر حدِ قذف جاری کی گئی البتہ دوسری روایتوں میں حضرت مسطح پر جو ایک بدری صحابی ہیں ، حضرت حسان بن ثابت پر جو دربار نبوی کے شاعر ہیں اور حضرت حمنہ بنت حجش پر حدِ قذف جاری کرنے کا ذکر ملتا ہے۔  یہ عجیب معاملہ ہے کہ جس نے اس طوفان کو اٹھایا تھا اس کو تو کوئی سزا دی ہی نہیں گئی البتہ جو لوگ اس سے متاثر ہو گئے تھے انہیں سزا دیدی گئی جبکہ قرآن کہتا ہے جس شخص نے اس بہتان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اس کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔

 

حضرت مسِطح بدری صحابی ہیں اس لیے اتنے غیر ذمہ دار نہیں ہو سکتے کہ ام المومنین پر تہمت لگائیں حضرت حسان اپنی شاعری کے ذریعہ کافروں کو منہ توڑ جواب دیا کرتے تھے اور وہ اس میدان کے مجاہد تھے۔  کیا ایسی شخصیت کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے کہ وہ حضرت عائشہ کے خلاف بہتان لگانے میں حصہ لیں گے ؟ اگر بالفرض انہیں کوئی شبہ ہو گیا تھا تو وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے علم میں لا سکتے تھے۔  آپ کے علم لائے بغیر آپ کے گھر والوں کو بدنام کرنے کی کوشش کسی مؤمن کا کام نہیں ہو سکتا کجا کہ کسی صحابیٔ رسول کے بارے میں یہ رائے قائم کی جائے۔  پھر حضرت حسان کو توسیرت ابن ہشام کی روایت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے انعامات سے نوازا کیونکہ حضرت صفوان نے برہم ہو کر ان پر تلوار سے حملہ کر دیا تھا اگر وہ قذف کے مرتکب ہو کر مردود الشہادۃ ہو گئے تھے تو آپ ان کو انعامات سے کیسے نوازتے ! حمنہ حضرت زینب کی بہن تھیں اور اس روایت کی رو سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے دریافت کرنے پر حضرت زینب نے حضرت عائشہ کے بارے میں اچھی رائے کا اظہار کیا تھا اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ حضرت حمنہ نے ان تمام حقائق کو نظر انداز کر کے حضرت عائشہ پر تہمت لگانے میں حصہ لیا ہو۔  واقعہ یہ ہے کہ یہ روایت متعدد صحابہ کے کردار کو مجروح کرتی ہے۔

 

۷)  اسناد کے لحاظ سے بھی افک کی روایتوں میں کلام کی کافی گنجائش ہے۔  یہ طویل روایت تو ابن شہاب زہری سے مروی (منقول) ہے اور زہری کا شمار تو ثقہ راویوں میں ہوتا ہے مگر جیسا کہ حافظ ذہبی نے اسماء الرجال کی کتاب میزان الاعتدال میں صراحت کی ہے وہ کبھی تدلیس (گھپلا) بھی کیا کرتے ہیں۔

 

کان یدلس فی النادر "وہ نادر (روایتوں) میں تدلیس کیا کرتے تھے۔" (میزان الاعتدلال ج ۴ص۴۰)

 

تدلیس کا مطلب یہ ہے کہ روایت اصلاً جس راوی سے مروی ہے اس کی طرف اس کو منسوب نہ کرتے ہوئے کسی اور راوی کی طرف منسوب کی جائے تاکہ اسناد کی اصل حقیقت پر پردہ پڑا رہے اور لوگوں کے لیے روایت قابل قبول بن جائے۔  

 

اور ابن حجر لکھتے ہیں : لا یثبت لہ السماع من عروۃ  "عروہ سے ان کا سننا ثابت نہیں۔" (تہذیب التہذیب ج۹ ص ۴۵۰)

 

زہری کے بارے میں ایک بات یہ بھی محسوس ہوتی ہے کہ وہ ایسی روایتوں کے راوی ہیں جو حضرت عائشہ اور خلفائے راشدین کو معرض بحث میں لاتے ہیں جس سے ان کے بارے میں شیعی ذہنیت کا شبہ ہوتا ہے مگر چونکہ ان کا تعلق خلیفہ عبدالملک کے دربار سے تھا اس لیے انہوں نے درمیانی طریقہ اختیار کر رکھا تھا۔

 

غرض زہری کی روایت کسی پہلو سے بھی اطمینان بخش نہیں ہے کہ اس کو اس آیت کی جس میں افک کے کسی واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے تفسیر قرار دیا جائے۔

 

رہیں دوسری روایتیں جس میں حضرت عائشہ پر تہمت کا مجملاً ذکر ہوا ہے تو ان پر بھی کلام کی کافی گنجائش موجود ہے (اس مسئلہ کی تحقیق کے لیے دیکھئے حکیم نیاز احمد صاحب کی کتاب "روایت افک" مطبوعہ مشکور اکیڈیمی ۲/F/۸۹ خالد بن ولید روڈ کراچی ۲۹)

 

۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خیر اس وجہ سے کہ مسلمانوں کو سوسائٹی میں جو منافق شامل ہو گئے ہیں ان کی اصلیت نمایاں ہو جائے گی۔  اسی طرح سادہ لوح مسلمانوں کو جو ان کی باتوں سے متاثر ہو گئے تھے سبق ملے گا اور محتاط رہنے والے مخلص مسلمانوں کی شان میں اضافہ ہو گا اور وہ اپنے محتاط اور متقیانہ رویہ کی بنا پر اجر کے مستحق ہوں گے۔

 

۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس شرمناک جھوٹ کو پھیلانے میں جس نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے وہ اللہ کے ہاں بہت بڑی سزا کا مستحق ہے۔

 

۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بات اگرچہ ایک مخصوص واقعہ کے تعلق سے کہی گئی ہے مگر اس سے جو اصولی ہدایت ملتی ہے وہ یہ ہے کہ جب کسی پاکدامن مسلمان خاتون پر زنا کی تہمت لگائی جائے تو مسلمان مردوں اور عورتوں کو چاہیے کہ وہ بدگمانی میں مبتلا نہ ہوں اور نہ صرف یہ کہ حسن ظن سے کام لیں بلکہ اس الزام کی تردید بھی کریں اور اس تردید کے لیے یہ بات بالکل کافی ہے کہ وہ کھلا بہتان ہے۔  آیت میں بات اگرچہ عورتوں کے تعلق سے کہی گئی ہے کیونکہ کسی شریف خاتون پر تہمت کا معاملہ بڑے سنگین نتائج کا حامل ہوتا ہے لیکن فحوائے کلام (انداز بیان) سے یہ بات بھی واضح ہے کہ پاکباز مسلمان مرد پر تہمت لگانا بھی بہت بڑا گنا ہے۔  

 

۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زنا کے الزام کو ثابت کرنے کے لیے قرآن نے چار گواہوں کی قید لگائی ہے۔  اگر کوئی شخص الزام عائد کرنے کے بعد چار گواہ پیش نہیں کرتا تو اللہ کے قانون میں وہ جھوٹا ہے اگر بالفرض اس نے گواہوں کی عدم موجودگی میں زنا کے کسی واقعہ کو دیکھا تھا تو اسے چاہیے کہ اس کا چرچا نہ کرے کیونکہ ناکافی ثبوت کی بنا پر ملزم کو سزا تو نہیں دی جا سکتی اور چرچا کرنے کا نقصان یہ ہو گا کہ سوسائٹی میں بے حیائی کی باتیں پھیلنے لگیں گی۔  گواہوں کا عادل ہونا ضروری ہے کیونکہ قرآن نے دوسری جگہ صراحت کی ہے کہ:

 

وَ اَشْہِدُوْا ذَوَیْ عَدْلٍ مِنکُمْ۔ (طلاق:۲) "اپنے میں سے دو عادل شخصوں کو گواہ کر لو۔"

 

فاسقوں کی گواہی پر حد جاری نہیں کی جا سکتی۔  رہا یہ سوال کہ کیا عورتوں کی گواہی اس معاملہ میں قابل قبول ہے تو جمہور فقہا حدود و قصاص کے معاملہ میں عورت کی گواہی کو قابل قبول نہیں قرار دیتے لیکن قرآن نے اس کی تصریح نہیں کی ہے۔  اور نہ کسی صحیح حدیث میں یہ بات بیان ہوئی ہے۔  قرآن کے احکام مردوں اور عورتوں سب کے لیے یکساں ہیں الا یہ کہ کوئی دلیل کسی حکم کو مردوں کے لیے خاص کر رہی ہو۔  سورۂ بقرہ میں قرض کے معاملہ میں ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی کو قابل قبول قرار دیا گیا ہے اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ زنا اور قتل جیسے عینی مشاہدہ کے معاملوں میں عورتوں کی گواہی کو ساقط الاعتبار مانا جائے چنانچہ عطاء اور حماد نے زنا کے ایک مقدمہ میں مردوں اور دو عورتوں کی شہادت قبول کی تھی۔  اور ابن حزم کے نزدیک ایک مرد کی جگہ دو عادل مسلمان عورتوں کی گواہی قبول کرنا جائز ہے۔ (التشریع الجنائی ج ۲ ص ۴۱۱)

 

زنا بالجبر کے مقدمات میں عورتوں کی گواہی ایک ضرورت بنکر سامنے آ سکتی ہے۔

 

۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ منافقوں کے اٹھائے ہوئے فتنہ میں کچھ کم فہم مسلمان بھی شریک ہو گئے تھے۔  اسی پر یہاں گرفت کی گئی ہے کہ اس قسم کے فتنہ کے نتائج بڑے خطرناک ہوتے ہیں۔  وہ تو اللہ کا فضل ہوا کہ اس نے بر وقت تمہیں اس پر متنبہ کر کے ایک بڑے عذاب سے بچا لیا لہٰذا تمہیں اللہ کا شکر گزار ہونا چاہیے اور آئندہ کے لیے محتاط ہونا چاہیے۔  اس آیت میں تنبیہ کا جو پہلو ہے وہ اگرچہ زنا کے بہتان کے تعلق سے ہے لیکن اس میں تنبیہ کا یہ عام پہلو بھی مضمر ہیں کہ اگر مسلمان منافقوں کے فتنوں کا شکار ہو گئے تو انہیں بدترین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا اور تاریخ شاہد ہے کہ مسلمان جب سبائی فتنہ کا شکار ہو گئے تو ان کے اندر تلوار چلی اور خلافتِ راشدہ سے وہ محروم ہو گئے۔  

 

۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ لوگ ان کو معمولی سمجھ کر زبان پر لاتے ہیں اور ان کو نقل کرنے لگتے ہیں لیکن وہ اخلاقاً غیر ذمہ دارانہ، شرعاً بہت بڑے گناہ کا موجب اور نتائج کے اعتبار سے نہایت خطرناک ہوتی ہیں اس لیے آدمی کسی کے خلاف محض سنی سنائی باتوں پر یقین نہ کرے اور غیر ذمہ دارانہ باتیں کرنے سے احتراز کرے۔

 

۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے یہ اصولی رہنمائی ہوتی ہے کہ آدمی کو سنی سنائی باتوں پر یقین نہیں کرنا چاہیے بلکہ اپنی سوجھ بوجھ سے کام لینا چاہیے۔  

 

حدیث میں آتا ہے :

 

کَفَی بالمَرْء کَذِباً اَنْ یُّحَدِّث بِکُلّ مَاسَمِعَ "آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بیان کرے۔" (مسلم)

 

اسی طرح روایات کے بارے میں بھی اس سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ جو روایتیں اللہ، اس کے رسول نیز رسول کے مخلص ساتھیوں پر کھلے بہتان کی حیثیت رکھتی ہوں ان کو فوراً رد کر دینا چاہیے۔  اس کاوش میں پڑے بغیر کہ اس کی اسناد کیسی ہے اور اس کے راوی کون ہیں کیونکہ جو بات بالبداہۃ غلط ہو وہ بہر صورت قابلِ رد ہے۔  اس کی واضح مثال تلک الغرانیق (بتوں کی تعریف) والی وہ روایت ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف منسوب کی گئی ہے اور جس کی تردید ہم سورۂ حج نوٹ ۹۱  میں کر چکے ہیں۔

 

۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بے حیائی (فحش) کی اشاعت ایک جامع بات ہے جس میں زنا، تہمت زنا، بے حیائی کی باتوں کا چرچا کرنا اور انسان کو زنا کی طرف مائل کرنے وا لی باتیں اور حرکتیں کرنا سب شامل ہیں۔  موجودہ زمانہ میں اشاعتِ فحش کے موڈرن طور طریقے ایجاد ہو گئے ہیں مثلاً نائٹ کلب، مخلوط تیراکی کے مظاہرے ، عشق بازی کا جنون پیدا کرنے وا لی فلمیں ، جنسی بے راہ روی پیدا کرنے والے اور اخلاق سوز گانے ، ذہنوں پر عورت کا بھوت سوار کرانے والے اشتہارات، حسن کے مقابلے ، ٹی وی پر عورتوں کے بے ڈھنگے پن کے مظاہرے ، ہیجان انگیز ناولیں اور افسانے ، اخبارات و رسائل میں عورتوں کی برہنہ اور نیم برہنہ تصویریں اور ڈانس کے پروگرام وغیرہ۔  

 

چونکہ بے حیائی انسان کے وقار کو کھو دیتی ہے ، اس کی عزت کو خاک میں ملاتی اور اس کے اخلاق کو تباہ کرتی ہے اس لیے مسلم معاشرہ میں بے حیائی پھیلانے والوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ ان کے لیے نہ صرف آخرت میں بلکہ دنیا میں بھی دردناک سزا ہے اور یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اسلامی حکومت ایسے لوگوں کے لیے کڑی سزائیں تجویز کرے۔  جرم کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے سزائیں تجویز کرنا اور ان کو نافذ کرنا اس آیت کے منشاء کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہے۔

 

۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تم نہیں جانتے کہ بے حیائی کی اشاعت کے نتائج کتنے دور رس اور سنگین ہوتے ہیں۔

 

۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی پاکیزہ صفت لوگوں کو شیطان کے زیر اثر غرور نفس میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے بلکہ انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ جو پاکیزگی انہیں حاصل ہوئی ہے وہ اللہ کی توفیق سے ہوئی ہے۔ اخلاقی پاکیزگی اللہ کا فضل بھی ہے اور اس کی رحمت کا مستحق بنانے والی چیز بھی۔  

 

۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی نفس کا تزکیہ اور اخلاق و کردار کو سنوارنے کا کام اللہ ہی کی توفیق پر منحصر ہے وہ جسے چاہتا ہے زر خالص بنا دیتا ہے مگر اس کے فضل کی یہ بانٹ غلط نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ بندوں کے احوال سے بخوبی واقف ہے۔  وہ جانتا ہے کہ کون پاکیزگی کا طالب ہے اور اپنی اس طلب میں کتنا مخلص ہے۔  اس موقع پر وہ دعا بھی پیش نظر رہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے سکھائی ہے :

 

اللّہُمَّ آتِ نَفْسِیْ تَقْوَاہَاوَ زَکِّہَا اَنْتَ خَیْرُ مَنْ زَکَّاہَا اَنْتَ وَلِیُّہَا وَمَوْلٰہَا۔  "اے اللہ میرے نفس کو تقوی عطا فرما اور اس کا تزکیہ کر دے۔  تو بہتر تزکیہ کرنے والا ہے۔  تو اس کا رفیق اور مددگار ہے۔" (مشکوٰۃ کتاب الدعوات بحوالہ مسلم)

 

۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسلمانوں میں کچھ لوگ اپنی کم فہمی کی بنا پر منافقوں کے اس پروپگنڈے کا شکار ہو گئے تھے جو انہوں نے بعض پاکدامن مومن عورتوں کے خلاف شروع کیا تھا خاص طور سے وہ عورتیں جو ہجرت کر کے مدینہ آئیں ان کو بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں سخت تنبیہات نازل فرمائیں تو بعض حضرات نے جو ان قصور وار مسلمانوں کی مدد کرتے تھے قسم کھا بیٹھے کہ وہ اب ان کی مدد نہیں کریں گے اس آیت میں انہیں ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ایسی قسمیں نہ کھائیں اور ضرورت مندوں کی مدد سے ہاتھ نہ روکیں۔  انہیں چاہیے کہ درگزر سے کام لیں۔  اگر وہ اللہ سے اپنے لیے معافی کے خواہاں ہیں تو انہیں اپنے جیسے دوسرے انسانوں کے قصور بھی معاف کر دینے چاہئیں۔  

 

قرآن نے یہ بات کسی خاص شخص کے بارے میں نہیں کہی ہے بلکہ عام قرابتداروں مسکینوں اور مہاجرین کے بارے میں کہی ہے یعنی ان میں سے جن لوگوں سے بھی قصور سرزد ہوا ہے ان کی مالی اعانت سے وہ ہاتھ کھینچ نہ لیں۔  

 

آیت سے یہ شرعی مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص کسی نیک کام کو نہ کرنے کی قسم کھا بیٹھے تو اسے ایسی قسم توڑ دینی چاہیے۔

 

۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بے خبر (غافلات) سے مراد وہ سیدھی سادی عورتیں ہیں جن کے حاشیۂ خیال میں بھی یہ بات نہیں ہوتی کہ وہ کبھی بدکاری کی مرتکب ہو سکتی ہیں۔  یا ان پر تہمت لگائی جا سکتی ہے ان کو نہ بے حیائی کی باتوں سے دلچسپی ہوتی ہے اور نہ ان کے رنگ ڈھنگ برے ہوتے ہیں۔  

 

۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی دنیا میں تو بہت سی باتوں پر پردہ پڑا رہتا ہے لیکن قیامت کے دن ہر بات کی حقیقت بالکل کھل کر سامنے آئے گی۔  جو جھوٹ دنیا میں بولے گئے تھے ان کی قلعی کھل جائے گی اور بے گناہوں پر جو الزام تراشیاں کی گئی تھیں ان کی حقیقت بھی واضح ہو جائے گی۔  اس روز لوگوں کو اس بات کا اچھی طرح احساس ہو گا کہ اللہ حق ہے اس لیے وہ عدل کرتا ہے اور عدل کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ان پردوں کو اُٹھاتا ہے جن میں سچائیاں مستور ہو کر رہ گئی تھیں۔

 

۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں خبیث سے مراد بدکار ہیں۔  مطلب یہ ہے کہ خبیث عورتوں کے لیے خبیث مرد ہی موزوں ہیں اور خبیث مردوں کے لیے خبیث عورتیں۔  اسی طرح طیب یعنی پاکیزہ عورتوں کے لیے پاکیزہ مرد ہی موزوں ہیں اور پاکیزہ مردوں کے لیے پاکیزہ عورتیں۔

 

اس موزونیت کا تقاضا ہے کہ پاکیزہ عورتوں کا رشتہ پاکیزہ مردوں ہی سے کیا جائے اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں ہی سے بیاہ کریں۔

 

۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی پاکیزہ عورتوں اور پاکیزہ مردوں کے خلاف تہمت کا جو فتنہ کھڑا کیا گیا ہے اس کا جھوٹ ہونا بالکل کھلی بات ہے۔  با اخلاق عورتوں اور با اخلاق مردوں پر بدکاری کی تہمت لگانے سے ان کا دامن داغدار نہیں ہوتا۔  وہ ان جھوٹے الزامات سے بالکل بری ہیں۔

 

الزامات سے بری ہونے کی بات یہاں عمومیت کے ساتھ کہی گئی ہے یعنی تمام پاکیزہ عورتوں اور مردوں کے بارے میں یہ ایک اصولی بات ہے۔  کسی واقعہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔  

 

۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب وہ احکام دئے جا رہے ہیں جو گھریلو زندگی کو شائستہ بنانے اور بہت سے فتنوں کی راہ بند کرواتے ہیں۔  اس سلسلہ کا پہلا حکم یہ ہے کہ کوئی شخص کسی کے گھر میں بلا اجازت داخل نہ ہو۔  متن میں لفظ تَسْتَأنِسُوْ استعمال ہوا ہے جس کے معنی انس کے ساتھ اجازت حاصل کرنے کے ہیں اور یہاں اس کا مفہوم یہ ہے کہ اپنے کو صاحب خانہ سے متعارف کرا کے اس کی رضامندی کے ساتھ گھر میں داخل ہونے کی اجازت حاصل کر لی جائے۔  مطلب یہ ہے کہ وہی شخص گھر میں داخل ہو جس کا داخل ہونا صاحب خانہ پسند کرے اور اجازت دیدے۔

 

جب اجازت دیدے تو اندر داخل ہوتے وقت گھر والوں کو سلام کرنا چاہیے کہ یہ گھر میں داخل ہونے کے آداب میں سے ہے اور اس بات کا اظہار بھی کہ وہ گھر والوں کے لیے سلامتی کی دعائیں لئے ہوئے داخل ہو رہا ہے اس لیے اس سے امن ہی کی توقع کی جا سکتی ہے۔

 

اجازت طلب کرنے کا جو معروف طریقہ ہو وہ اختیار کرنا چاہیے۔  دروازہ پر دستک دینا یا گھنٹی بجانا موجودہ زمانہ کا معروف طریقہ ہے۔  اس کے بعد اگر صاحب خانہ باہر آئے تو پہلے اسے سلام کرنا چاہیے اور جب وہ اندر آنے کے لیے کہے تو داخل ہوتے ہوئے گھر والوں کو سلام کرنا چاہیے۔  

 

۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اخلاقی اور دینی پہلو سے یہ نہایت شائستہ طریقہ ہے اور اس شائستگی کی تعلیم تمہیں اس لیے دی جا رہی ہے تاکہ تم سوجھ بوجھ سے کام لو۔  بالفاظ دیگر اس تعلیم کے زیر اثر تمہیں تمام گھریلو معاملات و مسائل میں ہوش مندی کا ثبوت دینا چاہیے۔  اس حکم سے اس اصولی بات کی طرف رہنمائی ہوتی ہے کہ حق خلوت (Right of Privacy) ہر شخص کا اپنا حق ہے۔

 

۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی رہائشی مکانوں میں بلا اجازت کسی حال میں داخل نہیں ہونا چاہیے۔  گھر میں کسی کے موجود نہ ہونے کی صورت میں بھی اور اس صورت میں بھی جبکہ صاحب خانہ کسی وجہ سے اندر نہ بلائے۔  ایسی صورت میں آدمی کو خاموشی کے ساتھ واپس جانا چاہیے اور اس بحث میں نہیں پڑنا چاہیے کہ اس نے کیوں اجازت نہ دی۔  ہو سکتا ہے کوئی مصلحت یا مجبوری مانع ہوئی ہو۔

 

۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اخلاقی لحاظ سے یہ طریقہ پاکیزہ ہے۔

 

۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد وہ مکانات ہیں جو عام فائدے کے ہوتے ہیں اس لیے اس میں داخلہ کی عام اجازت ہوتی ہے مثلاً مسافر خانے ، سایہ کے لیے بنی ہوئی جگہیں ،دکانیں ،ہوٹلیں ، کھلے دفاتر وغیرہ۔

 

۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تم کس نیت سے کہاں داخل ہوتے ہو اللہ اس سے بخوبی واقف ہے اس لیے اس سے ڈرو اور اپنی نیتیں درست رکھو۔

 

۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غضِّ بصر (نگاہیں نیچی رکھنے) کا مطلب یہ ہے کہ جس چیز کا دیکھنا جائز نہیں ہے اس سے نگاہوں کو بچا لیا جائے۔  اگر اچانک نگاہ پڑے تو اس کو پھیر لیا جائے۔  یہاں خاص طور سے جیسا کہ سیاق کلام سے واضح ہے عورتوں کو دیکھنے سے (بجز اپنی بیوی اور محرم عورتوں کے) نگاہوں کو بچانا ہے۔  نگاہیں چونکہ شہوت کی محرک ہیں اور شہوت بے حیائی پر آمادہ کرتی ہے اس لیے قرآن نے نگاہوں پر پہرے بٹھانے کا حکم دیا ہے۔  نیچی نگاہیں شرم و حیاء کی علامت ہیں اور نفس اور اخلاق کی پاکیزگی کا ذریعہ۔  اسلام شرم و حیاء کے معاملہ میں اہل ایمان کو اتنا حساس دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ عورتوں پر نگاہ غلط بھی نہ ڈالیں۔  تانک جھانک کرنا، نظریں جمانا اور گھور کر دیکھنا بڑی بد اخلاقی کی بات ہے اور شر کا باعث۔  قرآنِ کریم میں ایک جگہ فرمایا گیا ہے :

 

یَعْلَمُ خَائِنَۃَ الْاَعْیُنِ  (المومن:۱۹) "وہ آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے۔"

 

یہ گویا تانک جھانک کرنے والوں کے لیے تنبیہ ہے۔  غضِّ بصر کا حکم گھر اور باہر دونوں سے متعلق ہے۔ ایک مسلمان جب کسی کے گھر میں داخل ہو تو وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھے اور تانک جھانک نہ کرے اور جب راہ چل رہا ہو تو اجنبی عورتوں کو دیکھنے سے احتراز کرے۔  اگرچہ یہ کام مشکل ہے مگر جنت کی راہ مشکلات سے ہو کر ہی گزرتی ہے۔  پھر یہ مشکل ایسی نہیں ہے کہ آدمی کے اختیار سے باہر ہو کیونکہ قرآن نے نگاہیں پست کرنے کا حکم دیا ہے نہ کہ آنکھیں بند کر لینے کا۔  جس طرح وَاغفُضْ مِنْ صَوْتِکَ (لقمان۔ ۱۹) میں غضِّ صوت کا مطلب آواز کو بند کرنا نہیں بلکہ پست کرنا ہے۔  اسی طرح غضِّ بصر کا مطلب آنکھوں کو بند کرنا نہیں بلکہ نگاہوں کو پست کرنا ہے۔  لہٰذا بلا ضرورت عورت کے محاسن پر نظر ڈالنا ناجائز ہے اور شہوت کی نظر سے دیکھنا آنکھوں کا زنا ہے۔  نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے :

 

زِنَاالْعَیْنِ النَّظَرُ "آنکھ کا زنا نظر ہے۔" (بخاری کتاب الاستیذان)

 

انجیل میں بھی اس کو زنا سے تعبیر کیا گیا ہے :

 

"تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ زنا نہ کرنا لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ جس کسی نے بری خواہش سے کسی عورت پر نگاہ کی وہ اپنے دل میں اس کے ساتھ زنا کر چکا۔" (متی ۵:۲۷۔ ۲۸)

 

اگر اچانک نظر پڑے تو اس کو پھیر لینا چاہیے۔  حدیث میں آتا ہے کہ جریر بن عبداللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے نگاہ کے اچانک پڑ جانے کے بارے میں پوچھا:

 

فَاَمَرَنِیْ اَنْ اَصْرِفَ بَصَرِیْ "تو آپؐ نے فرمایا کہ اپنی نگاہیں پھیر لو۔" (مسلم کتاب الآداب)

 

۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شرم گاہوں کی حفاظت کے مفہوم میں ان کو پوشیدہ رکھنا بھی شامل ہے اور حرام کاری سے بچنا بھی۔

 

جسم کا وہ حصہ جس کو دوسروں کے سامنے کھولنے میں انسان فطرۃً شرم محسوس کرتا ہے سَتر (اور عربی میں عورہ) کہلاتا ہے۔  مرد کا ستر جمہور فقہاء کے نزدیک ناف سے گھٹنہ تک کا حصہ ہے مگر قرآن کا انداز فقہی ناپ تول کا نہیں ہے بلکہ وہ انسانی فطرت کو جگا کر اور اخلاقی حس کو بیدار کر کے کہتا ہے : ولباسُ التقویٰ ذٰلکَ خَیْرٌ (اعراف۔ ۲۶) "اور تقویٰ کا لباس بہترین لباس ہے۔"

 

ظاہر ہے جو شخص بھی تقویٰ کا لباس اختیار کرے گا وہ زیادہ سے زیادہ ساتر لباس استعمال کرے گا۔  قرآن نے برہنگی کو شیطان کا فتنہ قرار دیا ہے۔  

 

"اے اولاد آدم! ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں بہکا دے جس طرح اس نے تمہارے والدین کو (بہکا کر) جنت سے نکلوایا تھا اور ان کے لباس اتروا دئے تھے تاکہ ان کے ستر انہیں دکھا دے۔" (اعراف۔ ۲۷)

 

۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نظریں نیچی رکھنے کا حکم جس طرح مردوں کو دیا گیا ہے اسی طرح عورتوں کو بھی دیا گیا ہے جب کوئی شخص اجازت لیکر گھر میں داخل ہو تو گھر کی عورتوں کو چاہیے کہ وہ اس شخص پر نگاہیں نہ جمائے اسی طرح جب عورتیں باہر نکلیں تو اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔  بلا ضرورت اجنبی مردوں کو دیکھنے سے احتراز کرنا چاہیے۔

 

اس حکم کے منشاء کو سمجھ کر اگر نیک نیتی کے ساتھ اس کی تعمیل کی جاتی ہے تو جو واقعی ضرورتیں روز مرہ کی زندگی میں عورت کے مرد کو دیکھنے اور مرد کے عورت کو دیکھنے کے تعلق سے پیش آتی ہیں ان کو پورا کرنے سے اسلام نہیں روکتا کیونکہ مقصود حرج پیدا کرنا نہیں ہے مثلاً شناخت یا گواہی کی غرض سے عورت کا مرد کو دیکھنا مجمعِ عام پر نگاہ ڈالنا وغیرہ۔

 

۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شرم گاہوں کی حفاظت میں ستر پوشی بھی شامل ہے۔

 

۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زینت سے مراد لباس بھی ہے اور آرائش کی چیزیں بھی۔  لباس کو قرآن میں زینت سے تعبیر کیا گیا ہے :

 

خُذُوْا زِینَتَکُمْ عِنْدَکُلِّ مَسْجِدٍ (اعراف۔ ۳۱) "ہر مسجد کے پاس (عبادت کے موقع و محل میں) اپنی زینت لیے رہو۔"

 

قَدْ اَنْزَلنَا عَلَیْکُمْ لِبَاساً یُوَارِیْ سَوْاٰتِکُمْ وَرِیْشاً۔ (اعراف۔ ۲۶) "ہم نے تم پر لباس اتارا ہے کہ تمہاری ستر پوشی بھی کرے اور زینت کا ذریعہ بھی ہو۔"

 

اور لسان العرب میں ہے :

 

وَ الزِّیْنَۃ مَایَتَزیّنُ بہ "زینت یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ آرائش کی جائے۔" (لسان العرب ج ۱۳ ص ۲۰۲) آرائش کی مثال سرمہ، مہندی، انگوٹھی وغیرہ ہیں۔  

 

آیت میں عورتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی زینت کا اظہار نہ کریں بجز اس زینت کے جو ظاہر ہو جائے۔  اس استثناء کا واضح مطلب یہ ہے کہ جو زینت کام کاج اور چلنے پھرنے کے تعلق سے کھلی رہتی ہے اس کے کھلے رہنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ اس کی غرض زینت کو دوسروں پر ظاہر کرنا نہیں بلکہ ضرورۃً زینت کو کھلا رہنے دینا ہے۔  یہ استثناء اگرچہ زینت کے اظہار سے متعلق ہے لیکن طبعاً اس میں وہ اعضاء شامل ہو جاتے ہیں جو اس زینت کا محل ہیں یعنی ہاتھ اور چہرہ کیونکہ ظاہر ہونے والی زینت مہندی اور انگوٹھی ہے جس کا محل ہاتھ ہیں اور سرمہ اور کاجل ہے جس کا محل آنکھیں ہیں جو چہرہ کا جزو ہیں۔  اس لیے اگر ہاتھ اور چہرہ اپنی زینت کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے تو عورت کو اس کی رخصت ہے۔  اور اس رخصت نے پردہ کے احکام میں اعتدال کی صورت پیدا کر دی ہے اور عورت کے لیے کام کاج میں جو حرج پیدا ہو سکتا تھا اس کو رفع کر دیا ہے۔  احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں عورتیں چہرہ کا پردہ کرتی تھیں اور نہیں بھی کرتی تھیں۔  مثال کے طور پر صحیح مسلم کی حدیث :

 

"عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ فضل (بن عباس) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے سوار تھے۔  بنی خشعم کی ایک عورت آئی تو فضل اس کی طرف دیکھنے لگے اور وہ ان کی طرف دیکھنے لگی۔  نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فضل کا چہرہ دوسری طرف پھیر دیا۔  اس عورت نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! اللہ نے اپنے بندوں پر حج فرض کیا ہے اور میرے والد پر فرض ہے لیکن وہ بہت بوڑھے ہیں اس لیے سواری پر بیٹھ نہیں سکتے تو کیا میں اس کی طرف سے حج کروں ؟آپ نے فرمایا جی ہاں۔  یہ واقعہ حجۃ الوداع کے موقع کا ہے۔" (مسلم کتاب المناسک)

 

معلوم ہوا عورت کا چہرہ کھلا تھا اس لیے اس پر نظر پڑ گئی صحیح مسلم ہی کی دوسری حدیث ہے :

 

"جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ عید کے دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نماز میں شریک تھا۔  آپ نے خطبہ سے پہلے نماز پڑھائی بغیر اذان اور اقامت کے پھر بلال رضی اللہ عنہ کے سہارے کھڑے ہو گئے اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی ہدایت کی اور اس کی اطاعت کی ترغیب دی۔  لوگوں کو نصیحت کی اور سمجھایا۔  آپ نے فرمایا صدقہ کرو کیونکہ تم میں سے اکثر جہنم کا ایندھن بننے والی ہیں۔  یہ سنکر عورتوں کے درمیان سے ایک عورت جو پچکے ہوئے سیاہ رخساروں والی تھی، کھڑی ہو گئی اور اس نے پوچھا اے اللہ کے رسول ایسا کیوں ہو گا؟ فرمایا اس لیے کہ تم شکایت بہت کرتی ہو اور اپنے ساتھی کی ناشکری کرتی ہو۔  راوی کہتے ہیں یہ سن کر عورتیں اپنے زیور صدقہ کرنے لگیں۔  وہ اپنی بالیاں اور انگوٹھیاں بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑے میں ڈالتے جاتی تھیں۔" (مسلم کتاب صلاۃ العیدین)

 

ظاہر ہے سوال کرنے والی عورت کا چہرہ کھلا تھا اس لیے راوی کو اس کے رخسار پچکے ہوئے دکھائی دئیے۔

 

حدیث سے یہ ثابت ہے کہ عورت کا چہرہ اور ہتھیلیاں ستر میں داخل نہیں ہیں چنانچہ احرام کی حالت میں عورت کو نقاب ڈالنے اور دستانے پہننے سے منع کیا گیا ہے :

 

بخاری کی حدیث ہے :

 

"عورت احرام کی حالت میں نقاب نہ ڈالے اور نہ دستانے پہنے۔" (بخاری۔  کتاب المناسک)

 

اور نماز کے بارے میں حدیث میں آتا ہے :

 

لاتُقْبَلُ صَلاَۃُ الْحَائِضِ اِلاّ بَخِمارٍ (ترمذی ابواب الصلوٰۃ) "بالغ عورت کی نماز بغیر اوڑھنی کے قبول نہیں ہوتی۔"

 

اور اوڑھنی سے سر ، کان، گردن اور سینہ ڈھانک لیا جاتا ہے۔  منہ نہیں ڈھانکا جاتا۔  یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کے لیے چہرہ چھپانا ضروری نہیں چنانچہ فقہائے نے اس کی صراحت کی ہے۔  مغنی میں ہے :

 

"اس مسلک (حنبلی) میں اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ عورت کے لیے نماز میں اپنا چہرہ کھولنا جائز ہے اور یہ کہ چہرہ اور ہتھیلیوں کے سوا جسم کا کوئی حصہ کھولنا جائز نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور اس بات پر بھی اہل علم متفق ہیں کہ آزاد عورت کو نماز میں اپنا سر ڈھانکنا چاہیے۔" (مغنی ج۱ ص۶۰۱)

 

ہدایہ میں ہے :

 

"آزاد عورت کا پورا جسم ستر ہے سوائے چہرہ اور ہتھیلیوں کے۔" (ہدایہ ج ۱ص ۳۹)

 

ابن رشد لکھتے ہیں :

 

"اکثر علماء اس بات پر متفق ہیں کہ عورت کا پورا جسم ستر ہے بجز چہرہ اور ہتھیلیوں کے۔" (بدایۃ المجتہد ج۱ ص ۱۱۱)

 

رہا قدموں کا سوال تو ام سلمہ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ لباس اگر اتنا لمبا ہو کہ قدموں کے ظاہری حصہ کو ایک حد تک ڈھانک دے تو کافی ہے (قالت اذا تنکشف اقدامہن قال فیر خین ذراعًالایزدن علیہ۔ مشکوٰۃ کتاب اللباس بحوالہ ترمذی)

 

ان دلائل سے واضح ہوا کہ عورت کا چہرہ اور ہتھیلیاں ستر میں سے نہیں ہیں کہ ان کا چھپانا واجب ہو لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ غیر محرم مردوں کے لیے بلا ضرورت ان کو دیکھنا جائز ہے۔  نظروں کو نیچا رکھنے کا حکم بلا ضرورت عورتوں کو دیکھنے کے لیے کوئی وجہ جواز فراہم نہیں کرتا اور نہ ہی اس کا یہ مطلب ہے کہ عورتیں لازماً اپنا چہرہ ہر وقت کھلا رکھیں۔  ازواج مطہرات چہرہ کا پردہ کیا کرتی تھیں اور بہتر یہی ہے کہ جہاں تک ہو سکے عورتیں نقاب ڈالی رہیں۔ ہم نے قرآن کی دی ہوئی رخصت کو زیادہ وضاحت کے ساتھ اس لیے پیش کر دیا تاکہ لوگ اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ اسلام عورتوں کے لیے پردہ کی ایسی پابندیاں عائد کرتا ہے جو موجودہ دور میں قابل عمل نہیں ہیں اس غلط فہمی میں مبتلا ہو کر عورتیں پردہ ہی کو ترک کر دیتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ رخصت کا پہلو بھی سامنے لایا جائے تاکہ اسلام نے پردہ کے جو کم سے کم حدود قائم کئے ہیں ان پر عورتیں کاربند رہیں۔

 

واقعہ یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں ٹریفک کے بڑھتے ہوئے حادثات کے پیش نظر عورت اپنا چہرہ کھلا رکھنے پر مجبور ہے ،بس ریل وغیرہ کا گھنٹوں اور دنوں کا سفر نقاب کی صورت میں گھٹن پیدا کر دیتا ہے اس لیے نقاب اٹھائے بغیر چارہ کار نہیں ، خرید و فروخت اور لین دین کے موقع پر بھی ہتھیلیوں کا کھل جانا ایک معروف بات ہے۔  اس لیے پردہ کے احکام میں ایسی شدت پیدا کرنا کہ شریعت کی دی ہوئی رخصتیں ختم ہو جائیں نہ صحیح ہے اور نہ مفید۔

 

ہم یہاں مزید چند علماء کی رائیں پیش کرتے ہیں علامہ مقدسی مغنی میں لکھتے ہیں :

 

"ضرورت داعی ہے کہ عورت خرید و فروخت کے لیے اپنا چہرہ کھولے اور لین دین کے لیے اپنی ہتھیلیاں کھولے۔" (مغنی ج۱ص۶۰۱)

 

علامہ ناصر الدین البان نے پردہ کے مسئلہ پر ایک محققانہ کتاب "حجاب المرأۃ المسلمہ" لکھی ہے جو المکتب الاسلامی بیروت سے شائع ہوئی ہے علامہ فرماتے ہیں :

 

"حدیث عائشہ جو ابوداؤد میں ہے اس بات کی واضح دلیل ہے کہ عورت کے لیے چہرہ اور ہتھیلیوں کو کھلا رکھنا جائز ہے اگر اس حدیث کی اسناد میں وہ بات نہ ہوتی جو ہم نے اپنے نوٹ میں بیان کی ہے (اشارہ ہے حدیث کے مرسل ہونے کی طرف۔  اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف یہ ارشاد منسوب ہے کہ آپ نے حضرت اسماء کو ایسے کپڑوں میں دیکھ کر جس سے ان کا بدن جھلکتا تھا فرمایا عورت جب بالغ ہو جائے تو جائز نہیں کہ اس کے جسم کا کوئی حصہ سوائے چہرہ اور ہتھیلیوں کے ظاہر ہو جائے۔) الا یہ کہ یہ کہا جائے کہ یہ روایت مختلف طریقوں سے مروی ہونے کی بنا پر قوی ہے اور بیہقی نے اسے قوی قرار دیا ہے لہٰذا ایسی صورت میں مذکورہ بات کے جواز کی دلیل بن سکتی ہے خاص طور سے اس لیے بھی کہ اس پر عہد نبوت میں عورتیں عمل کرتی رہی ہیں چنانچہ وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی موجودگی میں اپنے چہرہ اور ہتھیلیوں کو کھلا رکھتی تھیں اور آپ منع نہیں فرماتے تھے اور یہ بات متعدد احادیث سے ثابت ہے۔" (حجاب المرأۃ المسلمہ ص ۲۴)

 

آگے چل کر لکھتے ہیں :

 

"ہم نے جو کچھ بیان کیا اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ عورت کا اپنے چہرہ کو برقع وغیرہ سے جو موجودہ زمانہ میں معروف ہے ڈھانکنا پاکدامن عورتوں کے نزدیک ایک مشروع اور محمود بات ہے اگرچہ ایسا کرنا اس پر واجب نہیں ہے بلکہ جس نے اچھا کیا اور جس نے نہیں کیا تو کوئی حرج بھی نہیں۔" (حجاب المرأۃ المسلمہ ص ۵۳)

 

شیخ علی طنطاوی لکھتے ہیں :

 

"خلاصہ یہ کہ عورت کا چہرہ اصلاً ستر نہیں ہے اور اکثر فقہاء (اصحاب مذاہب اربعہ) اس کے ستر نہ ہونے کے قائل ہیں لیکن چہرہ نہ کھولنا اکمل اور افضل ہے۔" (فتاویٰ علی الطنطاوی ص۱۵۵)

 

سید قطب لکھتے ہیں :

 

"رہی چہرہ اور ہاتھوں کے ظاہر ہونے والی زینت تو اس کا کھولنا جائز ہے کیونکہ چہرہ اور ہاتھ کھولنا مباح ہے۔ " (فی ظلال القرآن ج۴ ص۲۵۱۲)

 

ڈاکٹر یوسف قرضاوی فرماتے ہیں :

 

"چہرہ اور ہتھیلیوں کے بارے میں یہ رعایت اس لیے کر دی گئی ہے کہ ان کو چھپانا عورت کے لیے باعث حرج ہے،  خاص طور سے ایسی صورت میں جبکہ اسے جائز ضرورت سے باہر نکلنا پڑے مثلاً بیواؤں کو اپنی اولاد کی ضروریات کے لیے اور غریب عورتوں کو اپنے شوہروں کی معاونت کے لیے باہر نکلنا پڑے ایسی صورت میں نقاب ڈالنے اور ہتھیلیاں چھپانے کی پابندی ان کے لیے مشکلات اور دشواریوں کا باعث ہو گی۔" (اسلام میں حلال و حرام ص ۲۰۸)

 

اور مولانا شبیر احمد عثمانی فرماتے ہیں :

 

"حدیث و آثار سے ثابت ہوتا ہے کہ چہرہ اور کَفَّین (ہتھیلیاں) اِلاّ مَاظَہَرَمنہا میں داخل ہیں کیونکہ بہت سی ضروریات دینی و دنیوی ان کے کھلا رکھنے پر مجبور کرتی ہیں۔  اگر ان کے چھپانے کا مطلقاً حکم دیا جائے تو عورتوں کے لیے کاروبار میں سخت تنگی اور دشواری پیش آئے گی۔  آگے فقہاء نے قدمین کو بھی ان ہی اعضاء پر قیاس کیا ہے اور جب یہ اعضاء مستثنیٰ ہوئے تو ان کے متعلقات مثلاً انگوٹھی یا مہندی۔  کاجل وغیرہ کو بھی استثناء میں داخل ماننا پڑے گا۔" (تفسیر مولانا شبیر احمد عثمانی ص۴۵۸)

 

بعض علماء نے اِلاّ مَاظَہَرَمِنْہَا (مگر جو زینت ظاہر ہو جائے) سے مراد وہ چادر لی ہے جو اوپر سے اوڑھی جاتی ہے اور جس کا چھپانا ممکن نہیں یا ہوا کے جھونکے سے چادر کا اڑ جانا مراد لیا ہے مگر یہ سراسر تکلف ہے اور جیسا کہ علامہ جصاص نے لکھا ہے یہ ایک بے معنی بات ہے کیونکہ اگر یہی مراد ہوتا تو اس کو قرآن اس اہتمام کے ساتھ بیان نہ کرتا۔ (احکام القرآن ج۳ص۳۸۹۔ ۳۹۰)

 

۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوڑھنی (خمار) اس کپڑے کو کہتے ہیں جو سر کو ڈھانک دے اور گریبانوں (جیوب) سے مراد لباس کا وہ حصہ ہے جو گردن اور سینہ کے پاس قطع ہوتا ہے۔  اوڑھنیوں کے آنچل گریبانوں پر ڈالے رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ عورت سر پر اوڑھنی ڈال کر اس کے آنچل اپنے گریبانوں پر اس طرح ڈالے کہ سر، کان ، گردن اور سینہ پوری طرح ڈھک جائے۔  نہ سر کی زینت ظاہر ہو نہ کان کی اور نہ گردن کی اور نہ ہی سینہ کا ابھار نمایاں ہو۔

 

اوڑھنی کا یہ حکم گھر کے لیے بھی ہے اور باہر کے لیے بھی اور باہر کے لیے ایک مزید حکم جلباب (چادر) کا بھی ہے مگر چونکہ چادر کھل جایا کرتی ہے جس سے گردن اور سینہ کے ظاہر ہونے کا احتمال ہوتا ہے  اس لیے اوڑھنی بھی ضروری ہے۔  موجودہ دور میں برقع کا رواج ہے۔  اگر برقع اوڑھنی کے مقصد کو بھی پورا کرتا ہو یعنی گردن وغیرہ کے کھل جانے اور متعلقہ زینت کے ظاہر ہونے کا احتمال نہ ہو تو صرف برقع بھی کافی ہو سکتا ہے واللہ اعلم۔

 

گھر میں صاحبِ خانہ کی اجازت سے جب کوئی غیر محرم داخل ہو جائے تو اس سے پردہ کے کم سے کم حدود یہ ہیں کہ عورت ساتر لباس میں ہو اور دوپٹہ سے اپنا سر، کان، گردن اور سینہ چھپا لے اور چہرہ اور ہاتھ اور ان کی زینت کے علاوہ کوئی اور زینت یا جسم کا حصہ ظاہر نہ ہونے دے۔  لیکن اگر درمیان میں پردہ لٹکا دیا جاتا ہے یا مردوں کے لیے الگ کمرہ کا انتظام ہے تو یہ بہتر صورت ہو گی۔  ازواج مطہرات کے لیے کچھ مخصوص پابندیاں تھیں جن میں سے ایک پابندی یہ تھی کہ ان کے اور غیر محرموں کے درمیان پردہ حائل ہو۔  اگر کوئی چیز مانگی جائے تو پردہ کی آڑ سے مانگی جائے۔ (سورۂ احزاب آیت ۵۳) لیکن عام مسلمان خواتین کے لیے گھر کے پردہ کے معاملہ میں کسی حد تک نرمی برتی گئی ہے۔

 

اس نرمی کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ غیر محرم رشتہ داروں کے ساتھ رشتہ داری کے تعلق کو نبھانا آسان ہو جاتا ہے۔  ان کی آمد پر اگر درمیان میں پردہ حائل کر دیا جاتا ہے تو بہتر ہے لیکن اگر اس سے حرج ہوتا ہو تو پردہ کے جن کم سے کم حدود کا ابھی ذکر ہوا،  ان کی پابندی کرنا کافی ہے۔  مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ غیر محرم کے لیے خواہ وہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو خلو ت کی اجازت ہے بلکہ شوہر یا کسی محرم کی موجودگی میں عورت غیر محرم رشتہ داروں کے سامنے مذکورہ پابندیوں کے ساتھ آ سکتی ہے۔  

 

یہ بھی واضح رہے کہ دوپٹہ اتنا باریک نہیں ہونا چاہیے کہ بدن جھلکے کیونکہ دوپٹہ تو اعضاء کو چھپانے کے لیے ہے نہ کہ گلے میں ڈالنے یا فیشن کا مظاہرہ کرنے کے لیے ہے لہٰذا دوپٹہ کے لیے ایسا کپڑا استعمال کرنا چاہیے جس سے اس کا مقصد پورا ہوتا ہو۔

 

۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس فقرہ میں زینت کو ظاہر کرنے کی جو اجازت دی گئی ہے اس سے مراد عورت کا بناؤ سنگھار کے ساتھ سامنے آنا ہے اور بناؤ سنگھار کے ساتھ عورت جن کے سامنے آ سکتی ہے ان کی تفصیل یہ ہے :

 

        ۱) شوہر۔

 

        ۲) باب ، خسر، بیٹے ، شوہر کے بیٹے یعنی سوتیلے بیٹے ، بھائی، بھتیجے اور بھانجے۔  یہ سب عورت کے لیے محرم ہیں (یعنی ان سے نکاح حرام ہے) اس لیے ان کے سامنے ، عورت زینت (لباس اور زیورات وغیرہ) کے ساتھ بے تکلف آ سکتی ہے ان کے علاوہ دیگر محرم بھی ہیں مثلاً چچا، ماموں ، داماد، رضائی بھائی وغیرہ جن کا ذکر یہاں نہیں ہوا۔  ان کا ذکر نہ کرنے سے قرآن کا اشارہ اس بات کی طرف معلوم ہوتا ہے کہ عورت ان کے سامنے تو آ سکتی ہے مگر زینت کا اظہار ان کے سامنے ضروری حد تک ہی ہونا چاہیے۔

 

        ۳) نِساہنَّ (اپنی عورتوں) سے مراد اپنے میل جول کی اور خدمت کرنے والی عورتیں۔  پوری زینت کے ساتھ ایسی ہی عورتوں کے سامنے آنے کی اجازت دی گئی ہے۔  رہیں دوسری عورتیں تو قرآن کا اشارہ اس بات کا طرف معلوم ہوتا ہے کہ ان کے سامنے اسی حد تک زینت کو ظاہر کیا جائے جس حد تک ظاہر ہونے میں فتنہ کی کوئی بات نہ ہو۔

 

        ۴) مملوک میں لونڈی غلام دونوں شامل ہیں۔  غلام کو اسلام نے گھر کے ایک فرد کی حیثیت دی ہے اور اس کو جو خدمت انجام دینا پڑتی ہے اس کے پیش نظر ضرورت داعی ہے کہ گھر کی عورتوں پر غلام کے معاملہ میں پردہ کی پابندی نہ رہے۔  اب غلامی کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے اس لیے غلاموں کا مسئلہ بھی نہیں رہا۔

 

        ۵) ان مردوں کے سامنے جو تابع ہوں اور غرض نہ رکھتے ہوں۔  سے مراد وہ خادم یا ملازم ہیں جو بڑھاپے کی وجہ سے یا بے عقل ہونے کے سبب اپنی کوئی شہوانی غرض نہ رکھتے ہوں۔  جو ان ملازمین کے لیے یہ رخصت نہیں ہے۔  

 

        ۶) "وہ بچے جو ابھی عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے واقف نہ ہوئے ہوں۔" یعنی وہ نابالغ بچے جن پر نہ نسوانی راز کھل گئے ہوں اور نہ ان میں شہوانی احساسات بیدار ہوئے ہوں۔

 

۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی عورتوں کو اس طرح پاؤں مارتے ہوئے نہیں چلنا چاہیے کہ زیور کی جھنکار سنائی دے۔  یہ اشارہ ہے خاص طور سے پازیب کی طرف کہ ان میں گھنگرو یا بجنے والی کوئی چیز نہیں ہونی چاہیے اور نہ چلنے کا کوئی ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہیے کہ پازیب سے کوئی چیز ٹکرا کر آواز پیدا کرے۔

 

آیت کے الفاظ مَایُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِہِنَّ۔  "جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہے۔" اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ پازیب پاؤں میں چھپے ہوئے ہونے چاہیے۔  اجنبی مردوں پر ان کو ظاہر نہیں ہونے دینا چاہیے۔

 

پاؤں مارتے ہوئے نہ چلنے کی یہ ہدایت گھر کے لیے بھی ہے اور باہر کے لیے بھی۔  گھر میں جب کوئی غیر محرم اجازت لیکر داخل ہو تو عورتوں کو چاہیے کہ گھر میں چلتے ہوئے اس احتیاط کو ملحوظ رکھیں اور جب باہر نکلنا ہو تو اس کا پورا پورا خیال رکھیں۔

 

اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جو دین زیوروں کی جھنکار کے معاملہ میں محتاط رہنے کی تعلیم دیتا ہو اور پاؤں زمین پر مارتے ہوئے چلنے کی ممانعت کرتا ہو وہ عورتوں کی نازو ادا کی چال کو اور ان کے رقص و سرور کو کب گوارا کر سکتا ہے۔

 

۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ توبہ کے معنی رجوع کرنے کے بھی ہیں اور گناہ سے تائب ہونے کے بھی۔  اس موقع پر تمام اہل ایمان کو اللہ کی طرف رجوع کرنے اور اپنے گذشتہ گناہوں سے توبہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔  مطلب یہ ہے کہ گھریلو زندگی کے سلسلہ میں جو ہدایت دی گئی ہیں ان کی پابندی کرو اور اخلاقی پاکیزگی کے تعلق سے جو قصور اس سے پہلے تم سے سرزد ہو چکے ہوں ان کے بارے میں اللہ سے معافی مانگو اور آئندہ کے لیے اپنی اصلاح کر لو۔

 

۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واضح ہوا کہ فلاح ان قرآنی ہدایت پر عمل پیرا ہونے میں ہے نہ کہ ان کو پس پشت ڈال کر "موڈرن" اور "فیشن پرست" بننے میں۔

 

۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متن میں لفظ اَیامیٰ استعمال ہوا ہے جس کے معنی محض بیواؤں کے نہیں ہیں بلکہ ان مردوں اور عورتوں کے ہیں جو مجرد ہوں یعنی وہ مرد جن کی بیویاں نہ ہوں اور وہ عورتیں جن کے شوہر نہ ہوں۔  ان کے نکاح کرا دینے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے متعلقین انہیں نکاح کی ترغیب دیں اور اس معاملہ میں ان کی مدد کریں۔  اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ بیواؤں کے نکاح کو برا خیال کرنا صحیح نہیں اسلام بیواؤں کے نکاح کو نہ صرف جائز قرار دیتا ہے بلکہ اس کی ترغیب دیتا ہے۔

 

غلاموں اور لونڈیوں کے سلسلہ میں بھی اسلام نے اصلاحی قدم اٹھایا اور اس بات کی ہدایت کی کہ ان میں سے جو صالح زندگی گزار رہے ہیں ان کے نکاح کر دئے جائیں یہ ذمہ داری خاص طور سے ان کے مالکوں کی قرار پائی۔

 

یہ اس سلسلۂ ہدایت کی ایک کڑی ہے جو زنا کے سد باب کے لیے دی جا رہی ہیں۔

 

۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی نکاح کے معاملہ میں تنگ دستی مانع نہیں ہونی چاہیے بلکہ اللہ پر بھروسہ کر کے اس مبارک کام کو انجام دینا چاہیے۔  جو شخص اللہ کے حکم کی تعمیل کرے گا اللہ اسے ضرور اپنے فضل سے نوازے گا۔  اور یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ شادی کے بعد کتنے ہی غریبوں کی آمدنی میں اضافہ ہوا ہے اور کتنے ہی لوگ خوشحال ہو گئے ہیں۔

 

مگر موجودہ دور کے نوجوانوں کا حال بھی عجیب ہے جو جدید تہذیب کے زیر اثر ازدواج کی ذمہ داریوں سے کتراتے رہتے ہیں۔  پچیس سال کی عمر تک تو وہ حصول تعلیم میں مشغول رہتی ہیں اس کے بعد پانچ سال معاشی جدوجہد میں اس طرح صرف کرتے ہیں کہ ان کا معیار زندگی قائم ہو جائے اور اتنا پس انداز ہو کہ وہ ٹھاٹ باٹ سے شادی کر سکیں۔  اس طرح ان کی جوانی تجرد میں گزرتی ہے اور آدھی عمر کے بعد وہ رشتہ تلاش کرتے ہیں۔  تہذیب جدید نے ایک طرف نا بالغوں کو بالغ بنا دینے والا ہیجان انگیز ماحول بنایا ہے اور دوسری طرف شادی کی ذمہ داریوں سے کترانے کا رجحان پیدا کر دیا ہے۔  نتیجہ یہ کہ بیشتر نوجوان بری طرح جنسی بے راہ روی کا شکار ہو رہے ہیں اور دوسری طرف لڑکیوں کو رشتہ نہ ملنے کی وجہ سے ان کی شادی کی عمریں ضائع ہو رہی ہیں۔  یہ صورتِ حال اصلاح طلب ہے اور قرآن کی ہدایت پر عمل کی متقاضی۔

 

۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ بڑی وسعت والا ہے اس لیے اس سے امید رکھو کہ وہ رزق میں کشائش اور فراخی پیدا کرے گا۔  وہ علم والا ہے اس لیے وہ جانتا ہے کہ کون عفت کی زندگی چاہتا ہے اور تنگ دست ہونے کے باوجود ازدواج کی ذمہ داریوں کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو گیا ہے۔  

 

۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو لوگ واقعی مجبوریوں کی وجہ سے نکاح نہ کر سکتے ہوں مثلاً موزوں رشتہ نہ ملنے یا رہائش کا انتظام نہ ہونے کی بنا پر نکاح کو مؤخر کرنا پڑ رہا ہو انہیں چاہیے کہ عفت کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیں اور جب اللہ ان کی مشکلات کو دور کر دے تو وہ ازدواجی زندگی اختیار کریں۔

 

۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "مکاتبت" سے مراد وہ تحریری معاہدہ ہے جو ایک غلام اپنے آقا کے ساتھ اپنی آزادی کے لیے کرتا ہے جس میں مدت کے ساتھ رقم کا تعین ہوتا ہے اور غلام کو یہ موقع حاصل ہوتا ہے کہ وہ کسی دوسری جگہ محنت و مشقت کر کے رقم لائے اور قسط وار مالک کو ادا کر کے غلامی سے رہائی حاصل کرے۔

 

رہی یہ بات کہ "اگر تم جانتے ہو کہ ان میں بھلائی ہے" تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جن غلاموں کو آزاد کرنے سے سماج کے لیے کسی شر کا اندیشہ نہ ہو بلکہ خیر کی توقع ہو ان کے ساتھ مکاتبت کر لی جائے۔  اس احتیاط کی ضرورت خاص طور سے اس لیے بھی تھی کہ اس وقت غلاموں کی بڑی تعداد جنگی اسیروں پر مشتمل تھی۔

 

غلاموں کو آزاد کرانے کے لیے اسلام نے جو طریقے رائج کئے ان میں مکاتبت (تحریری معاہدہ) بھی ایک اہم ذریعہ تھا۔

 

۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ترغیب ہے غلاموں کی مدد کے لیے تاکہ وہ معاہدہ کے مطابق معاوضہ ادا کر  کے آزادی حاصل کر سکیں۔  جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے دولت عطا کی ہے ان کو چاہیے کہ گردنیں چھڑانے میں مال خرچ کریں۔

 

۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فقرہ "جبکہ وہ خود پاکدامن رہنا چاہتی ہوں" صورت حال کو واضح کر رہا ہے یعنی یہ بڑی ہی ظالمانہ حرکت ہے کہ لونڈیوں کو ان کی مرضی کے خلاف پیشہ کے لیے مجبور کیا جائے۔  اس وقت لونڈیوں کو ان کے مالک پیشہ کے لیے مجبور کرتے تھے تاکہ ان کے ذریعہ کو کمائی ہو وہ انہیں حاصل ہو جائے۔  یہاں اسی منکر سے روکا گیا ہے۔

 

۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر لونڈیوں کو زنا کے لیے مجبور کیا جاتا ہے تو اللہ ان کی مجبوری کو دیکھتے ہوئے انہیں معاف کرے گا اور ان پر رحم فرمائے گا۔  اس سے یہ اصولی بات معلوم ہوئی کہ جس پاکدامن عورت زنا کے لیے جبر کیا جائے خواہ وہ لونڈی ہو یا آزاد اس کو نہ زانیہ کہا جا سکتا ہے اور نہ وہ کسی سزا کی مستحق ہے۔  اس کے لیے تو اللہ کی طرف سے مغفرت اور رحمت کا وعدہ ہے بشرطیکہ اس نے بدکاری سے بچنے کی پوری کوشش کی ہو۔

 

رہے زنا کاری پر مجبور کرنے والے لوگ تو قرآن ان کو آخرت ہی میں نہیں دنیا میں بھی دردناک سزا کا مستحق قرار دیتا ہے جیسا کہ اس سورہ کی آیت ۱۹ سے واضح ہے نیز سورہ مائدہ آیت ۳۳ میں جو سزائیں سوسائٹی میں فساد پھیلانے والوں کے لیے تجویز کی گئی ہیں ان کے تحت حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے ہ وہ عورتوں کو اغوا کرنے والوں۔  ان کو زنا کے لیے مجبور کرنے والوں اور قحبہ گری کے اڈے قائم کرنے والوں کو کڑی اور عبرتناک سزا دے جو موت تک کی ہو سکتی ہے۔  

 

۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے ان مفسد قوموں کے انجام کی طرف جنہوں نے اللہ کے احکام کی پروا نہیں کی اور اپنی خواہشات کے غلام بن کر برائیاں سمیٹتے رہے۔

 

۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نور ایک نہایت لطیف، جمیل اور پاکیزہ چیز ہے۔  وہ خود بھی ظاہر ہوتا ہے اور اپنی روشنی سے دوسری چیزوں کو بھی ظاہر کرتا ہے۔  اللہ کے آسمانوں اور زمین کا نور ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کائنات میں پوری طرح جلوہ گر ہے۔  وہ نہایت لطیف ہے،  صاحب جمال ہے،  پاک اور منزہ ہے اور اس کا وجود اپنے آپ ظاہر ہے۔  ورنہ اللہ نہ مادی معنی میں نور ہے اور نہ اس مادی نور پر اسے قیاس کرنا صحیح ہے کیونکہ لیسَ کَمِثْلِہٖ شَیْ ءٌ (شوری ۱۱) "اس جیسی کوئی چیز نہیں۔" لہٰذا کسی فلسفیانہ بحث میں یا تاویلات کے چکر میں پڑے بغیر اللہ کے آسمانوں اور زمین کا نور ہونے کا جو سیدھا سادھا مفہوم ذہن میں آتا ہے اس پر اکتفاء کرنا چاہیے۔  اللہ کی صفات کے بارے میں سلف صالحین کا یہی طریقہ تھا اور یہی سلامتی کی راہ ہے۔

 

۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں جو مثال بیان ہوئی ہے اس سے مقصود اللہ کی صفت نور کی ہیئت بیان کرنا نہیں ہے کیونکہ اس کی ماہیت انسانی عقل کے ادراک سے باہر ہے بلکہ مقصود اس کے اس نور کی طرف رہنمائی کرنا ہے جو اس کائنات میں جلوہ گر ہے اور جس سے اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔  اس نور معرفت کے کمال اور اس کی جلوہ آفرینیوں کو ایک مثال کے ذریعہ واضح کیا گیا ہے۔

 

۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو چراغ طاق میں رکھا ہوا ہو وہ زیادہ روشن ہوتا ہے پھر اگر وہ شیشہ کے اندر یعنی قندیل میں ہو تو اس کی روشنی صاف ہو گی اور شیشہ اگر چمکتے ہوئے تارہ کی طرح شفاف ہو تو اس کی روشنی نہایت درخشاں ہو گی۔  پھر اگر اس چراغ کو زیتون کے تیل سے جلایا گیا ہو، خاص طور سے زیتون کے اس درخت کے تیل سے جو کھلی جگہ میں ہونے کی وجہ سے صبح و شام اس پر سورج کی شعاعیں پڑتی ہوں کہ ایسے درخت کا تیل نہایت چمکیلا ہوتا ہے تو اس صورت میں اس چراغ کی روشنی نہایت تابناک ہو گی اور وہ روشنی پر روشنی دے رہا ہو گا۔  اس مثال سے مقصود نور کی انتہائی تابناکی کو واضح کرنا ہے۔

 

یہ تابناک نور معرفت الٰہی کا نور ہے جو اس کائنات میں جلوہ گر ہے مگر اس کو دیکھنے کے لیے بصیرت کی آنکھیں درکار ہیں۔

 

تمثیل میں زیتون کے درخت کو مبارک اس لیے کہا گیا ہے کہ اس کے فوائد بہت ہیں اور اس کا تیل بڑا ہی منفعت بخش ہوتا ہے۔  یہ درخت اگر پہاڑ پر یا میدان میں اس طرح کھڑا ہو کہ اس کے مشرقی یا مغربی جانب کوئی آر نہ ہو تو سورج کی شعاعیں اس پر صبح و شام پڑیں گی۔  زیتون کے ایسے درخت کا تیل بڑا صاف اور ایسا چمکیلا ہوتا ہے کہ گویا بھڑک اٹھنے کو ہے۔

 

زیتون کی مثال یہاں مغفرتِ الٰہی کے نور کے سلسلہ میں بیان ہوئی ہے لیکن ایک دوسرے پہلو سے دیکھئے تو یہ مثال اسلام پر بھی صادق آتی ہے کہ اسلام ایک مبارک دین ہے اور وہ شرقی ہے نہ عربی بلکہ آفاقی دین ہے۔  اسی طرح زیتون کے تیل کی مثال سلیم الفطرت انسان پر صادق آتی ہے جس کا دل توحید کا ساز چھیڑنے کو ہوتا ہے اور جب وحی الٰہی اسے توحید کا پیغام سناتی ہے تو وہ اس سے بالکل ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔  فطرت کی رہنمائی کے ساتھ وحی (قرآن) کی رہنمائی روشنی پر روشنی (نور علی نور) کا مصداق بن جاتی ہے۔

 

۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا کہ اوپر جس نور کی مثال پیش کی گئی ہے اس کا تعلق ہدایت سے ہے اس لیے اس سے مراد معرفتِ الٰہی کا نور ہی ہے۔  اور معرفت الٰہی کا نور ہی ایسا ہے جو پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہونے کے باوجود ان ہی لوگوں کو دکھائی دیتا ہے جو بصیرت کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔  اللہ ایسے ہی لوگوں کی رہنمائی فرماتا ہے اور ایسے ہی لوگوں کو اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔  

 

آیتِ نور کااس سورہ میں بلکہ پورے قرآن میں جو مقام ہے وہ ایسا ہے جیسے ایک عالیشان محل میں لعلِ درخشاں جڑا ہوا ہو۔ معرفتِ الٰہی کے نور سے جب دل میں ایمان کا نور پیدا ہو جاتا ہے تو مؤمن کی پوری زندگی منور ہو جاتی ہے۔  گھریلو اور عائلی زندگی ہو یا خارجی اور اجتماعی، ایمان کے نور سے زندگی کا ہر گوشہ روشن ہو جاتا ہے۔

 

۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ نے جو مثال بیان فرمائی ہے وہ علم کی بنیاد پر ہے اس لیے وہ بالکل موزوں ہے اور جو بات اس مثال کے ذریعہ واضح کی گئی ہے وہ سر تا سر حقیقت ہے۔

 

۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد مسجدیں ہیں اور ان کو بلند کرنے کا مطلب تعمیر کرنا بھی ہے اور ان کی تعظیم کرنا بھی،  نیز مسجد کی عمارت کو مناسب حد تک اونچا اٹھانا بھی تاکہ مسجدوں کی عظمت کا تصور قائم ہو۔  مساجد کی تعمیر کو حدیث میں جنت کا مستحق بنانے والا عمل قرار دیا گیا ہے :

 

مَن بَنیَ لِلّٰہ مَسْجدٍابَنیَ اللّٰہُ لَہ، بَیْتًا فِی اَلْجَنَّۃِ (مشکوٰۃ کتاب الصلوٰۃ بحوالہ صحیحین) "جس نے اللہ کے لیے مسجد بنائی اللہ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا۔"

 

اور مسجد کی تعظیم کرنے میں جہاں اس کو پاک صاف رکھنا، اس میں پاکیزہ حالت میں داخل ہونا،  وہاں خرید و فروخت نہ کرنا اور کوئی ایسی بات نہ کرنا جو آدابِ مسجد کے خلاف ہو شامل ہے وہاں یہ بات بھی شامل ہے کہ نہ مسجد کے اندر کسی کی قبر بنائی جائے اور نہ کسی قبر کے اوپر کوئی مسجد تعمیر کی جائے کیونکہ یہ بات مسجد کے تقدس کے سراسر خلاف ہے۔  حدیث میں آتا ہے :

 

لَعَنَ اللّٰہُ الیَہُوْدَ وَالنِّصَاریٰ اِتَّخَذُوْاقَبُوْرَ اَنْبیَائہمْ مَسَاجِدَ (مشکوٰۃ کتاب الصلوٰۃ بحوالہ صحیحین) "اللہ یہود و نصاریٰ پر لعنت کرے۔  انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجد بنا لیا"

 

اور مسجدوں کی تعمیر کا مقصد یہ ہے کہ ان میں اللہ کے نام کا ذکر ہو یعنی وہاں اللہ ہی کے نام کا غلغلہ بلند ہو کہ مسجدیں اللہ کی عبادت کے لیے مخصوص ہیں۔  بعض جاہل مسلمان اپنے پیر دستگیر کو بھی مسجد میں پکارنے سے نہیں چوکتے۔  ان کی یہ مشرکانہ دعائیں مسجد کے تقدس کو بری طرح پامال کرتی ہیں۔

 

۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوپر کی آیتوں میں گھروں میں داخل ہونے کے آداب اور گھریلو زندگی سے متعلق احکام بیان ہوئے تھے اور اس آیت میں اللہ کے گھروں کے آداب بیان ہوئے ہیں۔  یعنی جب ذکر گھروں کا ہوا تو رخ اللہ کے گھروں کی طرف پھیر دیا گیا اور قرآن کا طریقِ تربیت یہی ہے کہ وہ ذہنوں کو ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف اور فرع (شاخ) سے اصول (جڑ) کی طرف موڑ دیتا ہے چنانچہ جب لباس کا ذکر ہوا تو ذہنوں کو تقویٰ کے لباس کی طرف موڑ دیا گیا۔ (سورۂ اعراف آیت ۲۶)

 

اوپر کی آیت میں اللہ کی عبادت گاہوں کا ذکر ہوا جہاں سے اس کے نور کی ضیاء پاشی ہو رہی ہے اور اس آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہو رہا ہے جو اس نور سے کسبِ فیض کرتے رہتے ہیں۔  ان کا بنیادی وصف یہ ہے کہ ان کو معاشی دوڑ دھوپ اللہ کی یاد سے غافل نہیں کرتی۔  وہ اپنی کاروباری مصروفیتوں اور خرید و فروخت کے معاملات طے کرتے ہوئے بھی اللہ کو یاد رکھتے ہیں ، نماز وقت پر ادا کرتے ہیں اور زکوٰۃ کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں برتتے۔

 

یہاں یہ بات آپ سے آپ واضح ہو رہی ہے کہ جو شخص کاروباری مصروفیتوں کے دوران اللہ کو یاد رکھے گا وہ کسب حلال ہی کے لیے جدوجہد کرے گا۔

 

آج مسلمانوں کا حال بڑا افسوسناک ہے۔  کتنے ہی لوگ کاروباری مصروفیتوں کے دوران نماز کو وقت پر ادا نہیں کرتے اور کتنے ہی ایسے ہیں جن کو نماز پڑھنے کی فرصت ہی نہیں ہے۔  گویا نماز بھی فرصت کا کوئی کام ہے اور کاروبار اس پر مقدم ہے۔  سوچنے کا یہ انداز ہی سراسر دنیا پرستانہ ہے۔  ایسے فاسقوں کو اقامتِ صلوٰۃ کی سعادت کس طرح نصیب ہو گی۔  

 

۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت کے دن کی ہولناکی سے نہ دل ٹھکانے پر رہیں گے اور نہ آنکھیں۔

 

اہلِ ایمان اس دن کے خوف سے لرزاں رہتے ہیں اور یہ چیز ان کو سنجیدہ بناتی ہے اور ان کے اندر احساس ذمہ داری پیدا کرتی ہے اور جب بندہ میں احساسِ ذمہ داری پیدا ہوتا ہے تو وہ اللہ کی اطاعت کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔  

 

۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کے یہ بندے اپنے اندر یہ اوصاف جو پیدا کرتے ہیں تو اس کا ثمرہ انہیں یہ ملے گا کہ ان کے جو بہترین اعمال ہوں گے ان کو معیار قرار دیکر جزاء عطاء کی جائے گی مزید براں اللہ اپنے فضل خاص سے انہیں نوازے گا۔

 

۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اتنا دیتا ہے کہ اس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔  وہ دینے میں نہایت فیاض ہے اور جن انعامات سے وہ اپنے ان مخلص بندوں کو نوازے گا اس کا تصور وہ اس دنیا میں نہیں کر سکتے۔

 

۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قرآن کی اصطلاح میں کفر صرف یہی نہیں ہے کہ آدمی خدا کے وجود کا انکار کر دے بلکہ خدا کو مانتے ہوئے اس کی صفات کا انکار کرنا یا اس کے ساتھ شریک ٹھہرانا یا اس کی بلا شرکتِ غیرے عبادت کرنے سے انکار کرنا،  اس کے رسولوں اور کتابوں میں سے کسی کو نہ ماننا، اس کی ہدایت کو قبول نہ کرنا ، اس کی اطاعت اور اس کے احکام کو ماننے سے انکار کرنا اور آخرت پر یقین نہ رکھنا بھی کفر ہے۔  اس لیے اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ جو شخص اللہ کے وجود کا منکر ہو وہی کافر ہے بلکہ وہ شخص بھی کافر ہے جو خدا کا اقرار کرتے ہوئے اس طرح خدا کو نہیں مانتا جس طرح ماننے کا حکم اللہ نے قرآن میں دیا ہے۔

 

۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کافروں کے اعمال میں وہ تمام اعمال شامل ہیں جو خدا اور مذہب کی بنیاد پر وہ کرتے ہیں مثلاً مشرکین کا دان کرنا، خیراتی ادارے قائم کرنا، رفاہِ عامہ کے کام وغیرہ اور مشرکین عرب تو حج بھی کرتے تھے اور جہاں تک یہود و نصاریٰ کا تعلق ہے وہ اپنے طریقہ پر اللہ کی عبادت بھی کرتے ہیں اور آسمانی شریعت کی کچھ باتوں پر عمل بھی کرتے ہیں۔  اسی طرح جو مسلمان منافق ہیں وہ کبھی کبھی نماز بھی پڑھ لیتے ہیں اور دوسرے دینی کاموں میں بھی شریک ہو جاتے ہیں یہ سب کا نیکی کے ہونے کے باوجود چونکہ وہ کفر کی نجاست سے ملوث ہوتے ہیں اس لیے ان کے یہ سب کام بے حقیقت ہیں اور ان کا کوئی ثمرہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ملنے والا نہیں اور نہ ان کے ان کارناموں کا کوئی صلہ انہیں ملے گا جو قوم اور وطن کی خاطر انہوں نے انجام دئے ہوں گے۔

 

ان کے اعمال کے بے نتیجہ ہونے کو یہاں سراب کی مثال سے واضح کیا گیا ہے۔  جس طرح ایک پیاسا، صحرا میں سراب کو دیکھ کر اسے پانی گمان کر لے اور اس امید پر وہاں جائے کہ وہ اپنی پیاس کو بجھا سکے گا مگر وہاں پہنچ کر اس کو معلوم ہو جائے کہ اس نے دھوکہ کھایا اسی طرح یہ کافر اگر یہ سمجھتی ہیں کہ مرنے کے بعد اگر جزا و سزا کا معاملہ پیش آ ہی گیا تو ان کے ان اعمال کا اجر ان کو اللہ کے ہاں ملے گا محض خوش فہمی ہے قیامت کے دن انہیں معلوم ہو جائے گا کہ انہوں نے اپنے اعمال کے بارے میں جو امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں ان کی حقیقت سراب سے زیادہ کچھ نہیں۔  وہ جزا و سزا کے دن اللہ کو موجود پائیں گے اور وہ ان کے اعمال کا حساب پورے عدل کے ساتھ چکا دے گا۔

 

۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قیامت کے دن اربوں اور کھربوں انسانوں کا حساب چکانے میں اللہ کو کچھ دیر نہ لگے گی۔

 

۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ دوسری مثال کافروں کے جہل مرکب کی ہے کہ وہ جہالت کی تہ در تہ تاریکیوں میں اس طرح گھر گئے ہیں کہ انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا۔  

 

۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واضح ہوا کہ جس کو اللہ کی طرف سے روشنی نہیں ملتی اس کو پھر کہیں سے روشنی نہیں مل سکتی۔  اس کے لیے یہ بات مقدر ہے کہ وہ تاریکیوں میں بھٹکتا رہے۔

 

۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب وہ نشانیاں بیان کی جا رہی ہیں جن پر غور کرنے سے اللہ کی معرفت (پہچان) حاصل ہوتی ہے۔

 

۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "دیکھتے نہیں" یہاں "غور کرتے نہیں" کے معنی میں ہے۔  دعوت اس حقیقت پر غور کرنے کی دی جا رہی ہے کہ آسمانوں کی مخلوق ہو یا زمین کی سب اللہ ہی کی پاکی اور اس کے گن گاتے ہیں۔  فرشتے ہوں یا کوئی اور جاندار مخلوق سب اپنے اپنے طریقہ پر نماز بھی پڑھتے ہیں اور تسبیح بھی کرتے ہیں۔  یہاں تک کہ پرندے جو فضا میں پر پھیلاتے ہیں وہ اللہ کے آگے بجھ جانے ہی کی علامت ہے۔  کوئل کی کوک ، بلبل کی نغمہ سرائی،مرغ کی اذان اور چڑیوں کی چہچہاہٹ میں تسبیح کی گونج سنائی دیتی ہے بشرطیکہ آدمی گوش حقیقت نیوش سے سنے۔  علی الصبح جب چڑیاں درخت پر جمع ہو کر چہچہانے لگتی ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ اپنے رب کی تسبیح میں زمزمہ سنج ہیں اور صبح کی نماز میں مشغول ہیں۔  مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ بنی اسرائیل نوٹ ۵۸  اور سورۂ حج نوٹ ۳۲)۔

 

۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بات کہ اللہ بلا شرکت غیرے پوری کائنات کا بادشاہ ہے ایک کھلی حقیقت ہے مگر مشرکین اس کے اختیارات میں دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں اور تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ مسلمان جن کی گھٹی میں بدعتیں پڑی ہیں اللہ کو اگر بادشاہ قرار دیتے ہیں تو رسول کو وزیر اعظم۔ (مختصر تفسیر نعیمی ص۵۲۷) میں ہے "حضور صلی اللہ علیہ و سلم سلطنت الٰہیہ کے گویا وزیر اعظم ہیں"۔  اللہ کی پناہ ایسی بدعتی تفسیر سے !

 

۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بارش کے بادلوں کا یہ نظام عام مشاہدہ میں آنے والی چیز ہے لیکن اگر آدمی ہوائی جہاز میں سفر کر رہا ہو تو وہ اس کا بخوبی مشاہدہ کر لیتا ہے۔  اسے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بادلوں کا ایک سمندر ہے جو زمین پر چھا گیا ہے۔  وہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ بادل ادھر ادھر سے آ کر بڑی تیزی سے ایک دوسرے سے ملتے ہیں پھر ان کے تہ بہ تہ ہونے کا سلسلہ تو کئی میل کی بلندی تک رہتا ہے۔  اور عجیب بات تو یہ ہے کہ بادل نیچے پانی برسا رہے ہوتے ہیں اور ہوائی جہاز ان کے اوپر سے گزرتا ہے۔  یہ مشاہدہ دعوتِ فکر دیتا ہے اور آدمی اگر غور کرے تو یہ بات بہ آسانی سمجھ میں آ سکتی ہے کہ یہ سارے کام ایک منصوبہ کے تحت ہو رہے ہیں اور یہ اسی ہستی کی کارفرمائی ہے جس کا تصرف پوری کائنات پر ہے۔

 

۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں آسمان سے مراد بلندی ہے۔  بلندی پر سرد ہوا کی شدت سے بادل برف (Snow) سے بھر جاتے ہیں اور ان کے بڑے بڑے تودے ایسے ہوتے ہیں جیسے پہاڑ پھر ان پہاڑ جیسے تودوں سے برف باری ہونے لگتی ہے۔

 

۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بعض مرتبہ برف باری طوفان کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور اس سے زبردست نقصان پہنچتا ہے۔  راقم سطور کو چندسال قبل دبئی میں ژالہ باری کے طوفان کو دیکھنے کا موقع ملا۔  برف کے گولے اوپر سے اس طرح برس رہے تھے کہ معلوم ہوتا تھا مشین گن سے گولیاں چلائی جا رہی ہیں اور گولوں کو دیکھ کر شبہ ہوتا تھا کہ کسی کارخانہ میں ڈھلے ہوئے ہیں۔  راقم نے تو راہ چلتے ہوئے ایک دکان میں پناہ لی تھی وہیں سے یہ منظر دیکھ رہا تھا اور اللہ سے سلامتی کے لیے دعا کر رہا تھا۔  بعد میں معلوم ہوا کہ اس ژالہ باری سے زبردست تباہی ہوئی اور کتنے ہی راہ چلتے لوگ اس کی زد میں آ گئے۔  ایسے واقعات انسان کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں۔  

 

۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی بجلی کی چمک نگاہوں کو خیرہ کر دینے والی ہوتی ہیں۔  

 

۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فلکیات کی رو سے رات اور دن کا الٹ پھیر زمین کی محوری گردش کا نتیجہ ہے مگر سوال یہ ہے کہ وہ کون ہے جو زمین کو اس طرح گردش میں لا رہا ہے کہ طویل زمانہ گزرنے کے باوجود نہ اس کی رفتار میں کوئی فرق آیا اور نہ رات اور دن کے اوقات میں کوئی باقاعدگی ہوئی؟

 

۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ انبیاء نوٹ ۳۵۔

 

۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پیٹ کے بل چلنے والے جانداروں کی مثال سانپ ہے اور پانی میں تیرنے والی مچھلی بھی۔

 

۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دو پاؤں والے جانداروں میں انسان اور پرندے شامل ہیں۔

 

۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چار پاؤں والے جانوروں میں چرنے والے مویشی بھی ہیں اور وحشی جانور بھی۔

 

۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تخلیق کی اس گوناگونی میں اللہ ہی کا ارادہ کارفرما ہے۔

 

۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ آیتیں توحید کو بالکل واضح کر دینے والی ہیں مگر ان سے ہدایت وہی لوگ پائیں گے جو اللہ کی مشیت کے تحت ہدایت کے مستحق قرار پائیں گے اور اللہ کی مشیت حکیمانہ فیصلے ہی کرتی ہے۔  

 

۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ان لوگوں کا حال بیان ہو رہا ہے جو ایمان کا دعویٰ تو کرتے تھے لیکن اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے روگردانی کرتے تھے۔ یہ بات ایمان کے تقاضے کے بالکل خلاف تھی اس لیے ان کے بارے میں فرمایا گیا کہ یہ درحقیقت مؤمن نہیں ہیں۔  بالفاظ دیگر ایسے لوگ منافق ہیں۔

 

معلوم ہوا کہ ایمان اور اطاعت سے انکار دو متضاد باتیں ہیں۔  جس دل میں ایمان ہو گا اس کا اثر عمل سے ظاہر ہوئے بغیر نہیں رہے گا۔  وقتی طور پر کسی گناہ کا سرزد ہونا اور بات ہے اور سرے سے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہی کو ضروری نہ سمجھنا اور بات۔  پہلی چیز معصیت ہے اور دوسری چیز کفر۔

 

آج مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو ایک طرف اسلام سے عقیدت کا اظہار کرتی ہے اور دوسری طرف کتاب و سنت کی پیروی سے بالکل آزاد ہے۔  جہالت کی وجہ سے یہ لوگ خوش فہمی میں مبتلا ہیں اگر وہ ان آیتوں کو غور سے پڑھ لیں جن میں منافقوں کا حال بیان ہوا ہے تو وہ ایمان کی حقیقت کو سمجھ لیں اور انہیں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی توفیق نصیب ہو۔

 

۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنا مقدمہ رسول کے پاس لے جانے سے انکار کرنا یا باہم نزاعی امور کو قرآن و سنت کے سامنے پیش کرنے کے لیے آمادہ نہ ہونا ایک منافقانہ حرکت ہے جس کی وضاحت سورۂ نسا نوٹ ۱۲۹  اور ۱۳۴  میں کی جا چکی ہے۔

 

۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ فیصلہ ان کے حق میں ہو گا تو سر تسلیم خم کرتے ہوئے رسول کے پاس دوڑے چلے آتے ہیں۔  

 

یہی حال موجودہ دور کے منافقوں کا ہے۔  وہ شریعت کے صرف ان احکام کو لے لیتے ہیں جن سے ان کے مفادات وابستہ ہیں۔  یہ مفاد پرستی ہے نہ کہ شریعت کی اتباع۔

 

۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان کا یہ منافقانہ طرزِ عمل یا تو اس وجہ سے ہے کہ ان کے دلوں میں نفاق (منافقت) کی بیماری ہے اس لیے ان کا ظاہر کچھ ہے اور باطن کچھ یا یہ شک میں پڑے ہوئے ہیں کہ آیا یہ احکام اللہ کے ہیں بھی؟ یا پھر وہ اللہ اور اس کے رسول سے اپنے لیے انصاف کی امید ہی نہیں رکھتے اس لیے اس اندیشہ میں مبتلا ہیں کہ ان کی حق تلفی ہو گی۔  ان میں سے جو بات بھی ہو ایمان کے منافی ہے اور اصل بات یہ ہے کہ یہ اپنے ہی حق میں ظالم بن گئے ہیں یعنی خواہش پرستی نے انہیں غلط کار اور اپنے ہی اوپر ظلم ڈھانے والا بنا دیا ہے۔

 

۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تو ہے مخلص مؤمنوں کا طرز عمل لیکن موجودہ مسلمانوں کا طرز عمل یہ ہے کہ نہ وہ اللہ و رسول کی بات سننے کے لیے تیار ہیں اور نہ اطاعت کرنے کے لیے۔  بہت کم لوگ ہیں جو صحیح طرز عمل اختیار کئے ہوئے ہیں۔  

 

واضح رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے جو فیصلے احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں وہ ہم سب کے لیے متعلقہ امور میں واجب الاطاعت ہیں اور اصولی رہنمائی کا سامان بھی۔

 

۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی با مراد ہونے کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت اس طور سے ضروری ہے کہ دل میں اللہ کا ڈر اور اس کی معصیت سے بچنے کا جذبہ ہو۔

 

۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ منافق قسمیں کھا کر یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اے پیغمبر اگر تم انہیں جہاد کا حکم دو تو وہ ضرور نکلیں گے۔

 

۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قسمیں وہی لوگ زیادہ کھاتے ہیں جن کا کردار قابل اعتبار نہیں ہوتا۔  یہاں منافقین سے کہا جا رہا ہے کہ جھوٹی قسمیں کھا کر اطاعت کا یقین دلانے کے بجائے اطاعت کا جو معروف اور معلوم طریقہ ہے وہ اختیار کرو کہ سچے مومنوں کا یہی طریقہ ہے۔

 

۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان آیتوں میں اللہ کی اطاعت کے ساتھ رسول کی اطاعت کی بھی بڑی تاکید کی گئی ہے اور اسے ایمان کا تقاضا قرار دیا گیا ہے۔  اللہ کی اطاعت کے لیے ضروری ہے کہ اس کی کتاب یعنی قرآن کو مضبوطی کے ساتھ تھام لیا جائے اور رسول کی اطاعت کے لیے ضروری ہے کہ اس کی سنت کو جس کو اس نے اس امت میں رائج کیا اور جو احادیث صحیحہ سے ثابت ہے مضبوطی کے ساتھ تھام لیا جائے۔

 

۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت میں اہلِ ایمان کے لیے خوشخبری ہے اور منافقوں کے لیے تنبیہ۔  منافق اس انتظار میں تھے کہ حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔  انہیں متنبہ کیا گیا کہ وہ کسی خام حیالی میں نہ رہیں۔  خوف اور جنگ کی یہ حالت جس سے اس وقت اہل ایمان گزر رہے ہیں باقی رہنے والی نہیں۔  عنقریب ان کو اقتدار بخشا جانے والا ہے اور اس سرزمین پر اسلام کا مکمل غلبہ ہونے والا ہے۔  

 

استخلاف کے معنی خلیفہ بنانے کے ہیں اور خلیفہ کے معنیٰ با اختیار اور با اقتدار کے ہیں۔

 

لسان العرب میں ہے :

 

وَ الْخِلَافَۃُ الْاِمَارَۃُ "خلافت کے معنی اِمارت کے ہیں۔" (لسان العرب ج۹ ص۸۳)

 

اور قرآن کی اصطلاح میں خلیفہ بنانے کا مطلب اللہ تعالیٰ کی طرف سے اقتدار عطا کئے جانے کے ہیں اور اس اقدار سے مطلوب اختیارات کو اس کی شریعت کے مطابق استعمال کرنا ہے۔  بالفاظ دیگر خلیفہ مطلق العنان حاکم (Absolute Monarch) نہیں ہوتا بلکہ اس کی حیثیت اختیارات کو اللہ کی امانت سمجھ کر استعمال کرنے والے کی ہوتی ہے۔  اس معنی میں ایک نبی بھی اقتدار پانے کے بعد خلیفہ ہوتا ہے چنانچہ قرآن میں حضرت داؤد کو خلیفہ کہا گیا ہے۔ (سورۂ ص آیت ۲۶)

 

اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ کہ وہ مومنین صالحین کو اقتدار اور حکومت سے سرفراز فرمائے گا بہت جلد پورا ہوا۔  فتح مکہ (رمضان ۰۸ ھ  ۶۳۰ء) اس اقتدار کا پیش خیمہ ثابت ہوا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی ہی میں پورے عرب پر اسلام کا اقتدار قائم ہو گیا،  پھر خلفائے راشدین کے زمانہ میں وقت کی دو عظیم الشان سلطنتیں فارس اور روم اسلام کی ابھرتی ہوئی طاقت سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گئیں اور خلافت کے حدود ایران، عراق، شام اور مصر تک وسیع ہو گئے۔  مدینہ پر مشرکوں اور کافروں کے حملہ کا جو خطرہ لگا رہتا تھا وہ اس طرح ختم ہو گیا کہ اب کوئی طاقت بھی اس کی جرأت نہیں کر سکتی تھی اور دین کو ایسی قوت فراہم ہو گئی تھی کہ ریاست کے نظام کو اسلام کے مطابق چلانے اور اس کے قوانین کو نافذ کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں رہ گئی تھی۔  پورے عرب میں توحید کا غلغلہ ہوا اور شرک سے عرب کی زمین یکسر پاک ہو گئی۔  اس طرح خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا دور قرآن کے اس وعدہ کا مصداق قرار پایا مگر تعجب ہے کہ اس واضح حقیقت کے باوجود مسلمانوں کا ایک فرقہ تینوں خلفاء (حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم) کو غاصب قرار دیکر ان کو مطعون کرتا ہے۔  اگر اس فرقہ کے لوگ اس آیت کی روشنی میں خلافت کے مسئلہ پر غور کریں تو جس فرقہ بندی میں وہ مبتلا ہیں اس کی حقیقت ان پر واضح ہو جائے۔  

 

آیت میں یہ جو فرمایا گیا ہے کہ "جس طرح ان کو بخشا گیا تھا جو ان سے پہلے گزر چکے" تو یہ اشارہ ہے اللہ کی اس سنت کی طرف کہ جب کسی رسول کو اس کی قوم نے جھٹلایا ہے تو اس کو تباہ کر دیا گیا اور رسول اور اس کے اہلِ ایمان ساتھیوں کو با اقتدار بنایا گیا۔  اس کی مثالیں حضرت نوح، حضرت ہود اور حضرت صالح اور ان کے ساتھی اہل ایمان ہیں۔ اسی طرح بنی اسرائیل کو ارض مقدس عطاء کی گئی اور حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کے ذریعہ حکومت کو وسیع اور مستحکم کیا گیا۔

 

"اس کے بعد جو کفر کریں گے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں" کا مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان کو خلافت سے جو سرفراز کیا جائے گا تو یہ اللہ تعالیٰ کے وعدہ کی تکمیل اور اس کا غیر معمولی فضل ہو گا۔  یہ سب کچھ دیکھ لینے کے بعد بھی جو لوگ اس نعمت کی نا قدری کریں گے اور فتنے کھڑے کر کے امن کو بد امنی سے بدلنے کی کوشش کریں گے وہ کھلے فاسق ہوں گے یہ گویا اشارہ تھا سبائی فتنہ کی طرف جو حضرت عثمان کی خلافت کے زمانہ میں اٹھا اور جس نے حضرت علی کی خلافت کو پوری طرح لپیٹ میں لے لیا۔

 

"رہا یہ سوال کہ اقتدار کا یہ وعدہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھیوں کے لیے تھا یا یہ بعد کے مسلمانوں کے لیے بھی ہے تو اس کا جواب علامہ ابن تیمیہ نے یہ دیا کہ : "یہ وعدہ ان سب کے لیے ہے جو یہ وصف رکھتے ہوں۔  جب اگلوں نے یہ وصف اپنے اندر پیدا کر لیا تو اللہ نے اپنے وعدہ کے مطابق انہیں خلافت سے سرفراز کیا اور ان کے بعد ایک گروہ اپنے ایمان اور عمل صالح کے اعتبار سے اس وصف کا حامل ہوا۔  تو جو اپنے ایمان میں کامل اور نیک عمل تھے ان کو مذکورہ خلافت بدرجۂ اتم عطاء ہوئی اور جن کے اندر اس اعتبار سے نقص اور خرابی رہی ان کے اقتدار میں بھی خلل اور نقص تھا۔  یہ اس عمل کی جزاء ہے تو جو لوگ یہ عمل کریں گے وہ اس جزا کے مستحق ہوں گے۔" (مجموعہ فتاویٰ ابن تیمیہ ج ۱۸ ص ۳۰۲)

 

۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا کہ یہ آیت توضیحی ہے۔  آیت ۲۷  میں گھروں میں اجازت لے کر داخل ہونے کا جو حکم دیا گیا تھا اس کے سلسلہ میں یہاں یہ وضاحت کر دی گئی کہ جہاں تک تمہارے لونڈی غلاموں اور نابالغ بچوں کا تعلق ہے ان کا چونکہ بار بار تمہارے پاس آنا جانا ہوتا ہے۔  اس لیے ہر وقت اجازت لینا ان کے لیے ضروری نہیں لیکن تین اوقات ایسے ہیں جن میں اجازت لینے کی پابندی ان کو بھی کرنا چاہیے اور وہ اوقات تمہارے پردہ کے ہیں۔  ایک تو عشا کے بعد کا وقت جب آدمی بستر پر جاتا ہے دوسرا نماز فجر سے پہلے کا وقت اور تیسرادوپہر کا وقت جو قیلولے کا وقت ہے خاص طور سے گرم ممالک کے لیے۔  ان اوقات میں آدمی چونکہ اپنی بیوی کے پاس خلوت میں ہوتا ہے یا جسم پر ناکافی کپڑے ہوتے ہیں اس لیے نابالغ بچوں کو بھی اس بات کا پابند بنانا ضروری ہے کہ اگر وہ ان اوقات میں اندر آنا چاہیں تو اجازت لے کر ہی آئیں۔  اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ بچوں کی صحیح تربیت کا خیال رکھنا چاہیے اور ان کے سامنے کوئی ایسی بات نہیں ہونی چاہیے جس کا اثر ان کے اخلاق پر بر ا پڑتا ہو۔

 

موجودہ دور میں آبادی کی کثرت نے بڑے بڑے شہروں میں رہائش کے مسئلہ کو بڑا مشکل بنا دیا ہے۔  لوگ تنگ کمروں میں اپنے بال چوں کے ساتھ رہتے ہیں۔  ایک طرف رہنے کی یہ مجبوری ہے اور دوسری طرف حیا داری کے تقاضے ہیں جن کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔  ایسی صورت میں جو محتاط طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہو وہ لازماً اختیار کرنا چاہیے ے اور دوسری تمدنی ضرورتوں پر رہائش کے مسئلہ کو مقدم رکھنا چاہیے۔  یعنی رہائش کا ایسا انتظام کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ خلوت بھی میسر آئے اور رہنے سہنے کے تعلق سے شرعی حدود کی پابندی بھی کی جا سکے۔ جو لوگ اخلاقی حس رکھتے ہیں اور اسلامی زندگی گزارنا چاہتے ہیں ان کے لیے ازبس ضروری ہے کہ وہ رہائش کے مسئلہ کو مناسب طریقہ پر حل کرنے کے لیے نسبتاً زیادہ مالی بار برداشت کریں۔

 

۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اس کے یہ احکام علم و حکمت پر مبنی ہیں۔

 

۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی بچے جب بالغ ہو جائیں تو ان کو دیگر اوقات میں بھی اجازت لے کر داخل ہونا چاہیے۔  یہ پابندی ان کے لیے اسی طرح ہے جس طرح پہلے سے ان سے بڑوں کے لیے ہے۔

 

۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آیت ۳۱  میں عورتوں کو دوپٹہ کا حکم دیا گیا تھا کہ اگر کوئی غیر محرم گھر میں آئے تو اپنے گریبانوں پر اس کے آنچل ڈالی رہیں۔  اس آیت میں ان بوڑھی عورتوں کو جو نکاح کی امید نہ رکھتی ہوں یہ رخصت دیدی گئی کہ وہ اگر اپنے دوپٹے اتار دیں تو کوئی حرج نہیں بشرطیکہ زینت کی نمائش مقصود نہ ہو اور بہتر یہی ہے کہ وہ دوپٹے نہ اتاریں کہ اس میں زیادہ حیا داری ہے۔

 

اکثر مفسرین نے کپڑوں سے چادریں مراد لی ہیں یعنی ان کے نزدیک بوڑھی عورتیں اگر باہر نکلتے وقت اپنے اوپر چادریں نہ ڈالیں تو کوئی حرج نہیں لیکن چادر (جلباب) کا حکم سورۂ احزاب میں بیان ہوا ہے۔  اس سورہ (نور) میں تو گھر کے تعلق سے احکام بیان ہوئے ہیں جن میں اوڑھنی کا حکم بھی دیا گیا ہے اور آیت زیر تفسیر ایک توضیحی آیت ہے اس لیے اس کا تعلق اوڑھنی کے حکم سے بدرجۂ اولیٰ ہے۔  

 

۱۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زینت کے اظہار کی تین صورتیں اس سورہ میں بیان ہوئی ہیں۔  ایک یہ کہ جو زینت ضرورۃً ظاہر ہوتی رہتی ہے اس کے غیر محرم کے سامنے ظاہر ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔  اس کا حکم آیت ۳۱  میں اِلاّ مَا ظَہَرَ مِنْہَا کے الفاظ میں بیان ہوا ہے۔  دوسری صورت یہ ہے کہ عورت زینت کے ساتھ اپنے شوہر کے علاوہ اپنے محرم رشتہ داروں کے سامنے بھی آ سکتی ہے اس کا حکم آیت ۳۱  میں بیان ہوا ہے اور تیسری صورت یہ ہے کہ عورت غیر محرم مردوں کے سامنے زینت کی نمائش کرے یعنی جس زینت کو چھپانا غیر محرموں کے تعلق سے ضروری ہے اس کو وہ دکھاتی پھرے۔  زینت کی یہ نمائش حرام ہے اور قرآن کی اصطلاح میں اس کا نام "تبرج" ہے اس آیت میں اسی تبرّج کی ممانعت کی گئی ہے۔

 

۱۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سورہ میں گھر کے تعلق سے جو احکام دئے گئے ہیں ان کی توضیح کے طور پر یہ آیت نازل ہوئی ہے۔  مقصد اس غلط فہمی کا ازالہ ہے کہ مذکورہ پابندیوں کے پیش نظر نہ معذوروں کے لیے یہ گنجائش باقی رہتی ہے کہ وہ بدستور ان گھروں میں جا کر کھاتے رہیں جہاں ان کے لیے اہل خیر نے انتظام کر رکھا تھا اور نہ قریبی رشتہ دار اور دوست احباب ایک دوسرے کے گھروں میں جا کر کھانا کھا سکتے ہیں۔  اس آیت میں واضح کر دیا گیا ہے کہ معذور اشخاص کے کھانے کا انتظام جن لوگوں نے اپنے گھروں میں کیا ہو وہ وہاں جا کر کھانا کھا سکتے ہیں۔  گھروں میں داخل ہونے کی اجازت اور پردہ کے حدود کے یہ معنی نہیں ہیں کہ معذوروں کے ساتھ ہمدردانہ سلوک ختم کر دیا جائے۔  رہے قریبی رشتہ دار مثلاً باپ، ماں ، بھائی، بہن، چچا، پھوپھی، ماموں اور خالہ تو اگر تمہارے کھانے کا انتظام ان رشتہ داروں میں سے کسی کے گھر میں ہے تو وہاں جا کر تمہارے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔  اسی طرح ان گھروں سے بھی جو تمہاری تحویل میں ہوں مثلاً کوئی شخص سفر پر چلا گیا اور اپنا بند گھر تم پر چھوڑ دیاتو اس کے گھر میں جو کھانے پینے کا سامان ہے اس سے تمہارے کھا لینے میں کوئی حرج نہیں ہے نیز اپنے دوستوں کے گھروں میں بھی جا سکتے ہیں اور بے تکلف کھا سکتے ہو۔  باہمی تعلقات کو خوشگوار بنانے میں ایک دوسرے کے ہاں کھانا پینا ممد ثابت ہوتا ہے اس لیے گھر سے متعلق جو احکام دئے گئے ہیں ان کی پابندی کرتے ہوئے ان گھروں میں جانے اور کھانے پینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

 

رہی یہ بات کہ "نہ خود تم پر کوئی حرج ہے کہ اپنے گھروں سے کھانا کھاؤ۔" تو یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اصلاً تمہارے اپنے گھر ہی میں جہاں تم کسی روک ٹوک کے بغیر کھانا کھا سکتے ہو لیکن اگر کسی وجہ سے تمہارے کھانے کا انتظام تمہارے قریبی رشتہ داروں کے ہاں ہے یا تمہارے کسی دوست کے گھر پر ہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔

 

آیت میں بیٹوں کے گھر سے کھانے کا ذکر نہیں ہوا کیونکہ جہاں تک کھانے کا تعلق ہے والدین کے لیے اپنے بیٹے کا گھر اپنے ہی گھر کے حکم میں ہے۔  

 

۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کھانا الگ الگ کھائیں یا مل کر کھائیں یہ حالات، ضرورت اور مصالح کے لحاظ سے طے کرنے کی بات ہے۔  شرعاً اس سلسلہ میں کوئی پابندی نہیں ہے اور سہولت کے پیش نظر دونوں طریقوں کو جائز قرار دیا گیا ہے۔

 

۱۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ نہ بھولو کہ تمہارا اپنا گھر ہو یا تمہارے رشتہ داروں وغیرہ کا،  داخل ہوتے وقت تمہیں لازماً سلام کرنا چاہیے۔  آدمی کے اپنے اہل و عیال ہوں یا گھر کے دوسرے افراد اپنی ملت کے افراد ہونے کی حیثیت سے اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کو آدمی سلامتی کی دعا کا تحفہ پیش کرے۔

 

۱۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ دعائیہ کلمہ ہے جس کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے تمہیں دی ہے اور جو نہایت ہی خیر و برکت والا پاکیزہ کلمہ ہے۔

 

۱۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان احکام پر جو کافی وضاحت کے ساتھ پیش کئے گئے ہیں عمل درآمد کے لیے ضروری ہے کہ سوجھ بوجھ سے کام لو۔  احکام کی تعمیل محض خانہ پوری کی حد تک کرنے سے مطلوبہ مقاصد پورے نہیں ہوتے اور نہ فقہی موشگافیاں کرنے سے شریعت کے تقاضے پورے ہوتے ہیں۔  عمل کی صحیح صورت یہ ہے کہ جو حکم دیا گیا ہے اس کے مدعا کو آدمی اچھی طرح سمجھ لے اور اس پر عمل درآمد کے سلسلہ میں ہوش مندی کا ثبوت دے۔  اگر مسائل پیدا ہو رہے ہوں تو انہیں اپنے ناخن تدبیر سے حل کرنے کی کوشش کرے۔  اللہ تعالیٰ نے عقل اس لیے نہیں عطا کی ہے کہ اسے معطل کر کے رکھا جائے بلکہ اس لیے عطا کی ہے کہ اسے صحیح طور سے استعمال کیا جائے اور شرعی احکام کو رو بہ عمل لانے میں عقلِ سلیم سے مدد لی جائے۔

 

۱۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں ایمان سے مراد سچا ایمان ہے جو شعوری ہوتا ہے۔  منافقوں کا سا ایمان نہیں جو نہ شعوری ہوتا ہے اور نہ اس میں وہ مخلص ہوتے ہیں بلکہ محض عقیدہ کا اظہار ہے جو وہ کرتے رہتے ہیں۔

 

۱۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اجتماعی کام سے مراد مشاورتی مجلس بھی ہو سکتی ہے اور وہ نشست بھی جو جہاد وغیرہ کے بارے میں ہدایات دینے کے لیے بلائی گئی ہو۔  ایسی نشستیں بجائے خود اہمیت کی حامل ہوتی ہیں اور ان میں حاضری بھی ضروری ہے لیکن جب ایسی نشست اللہ کے رسول کی موجودگی میں منعقد ہو رہی ہو تو اس کی اہمیت بدرجہا بڑھ جاتی ہے اور اس سے بلا عذر غیر حاضری یا رسول کی اجازت کے بغیر اس نشست کو چھوڑ کر چلا جانا ایک ایسی سنگین بات ہے جو ایمان سے میل نہیں کھاتی۔

 

۱۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اختیار دیا گیا کہ جو لوگ اپنی کسی ضرورت سے اجازت مانگیں ان میں سے جن کو آپ مناسب سمجھیں اجازت دیدیں۔  ساتھ ہی ان کے حق میں استغفار کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے اگر ان کا عذر قوی نہیں تھا اور انہوں نے اجازت طلب کی تھی تو اللہ ان کے قصور کو معاف کر دے۔

 

۱۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی رسول جب تمہیں کسی کام کے لیے بلائے تو تم پر فرض ہو جاتا ہے کہ سارے کام چھوڑ کر اس کی خدمت میں حاضر ہو جاؤ۔  اس کے بلاوے کو اس سطح پر نہیں رکھا جا سکتا جس سطح پر تم آپس میں ایک دوسرے کے بلاوے کو رکھتے ہو۔  رسول کا بلاوا، اس کی پکار اور اس کی دعوت ایک امتیازی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ رسول کا جو مقام ہے وہ تم میں سے کسی کا بھی نہیں ہے۔

 

واضح ہوا کہ ان دو آیتوں میں جو ہدایات دی گئی ہیں وہ رسول کے ساتھ خاص ہیں ان کو عام امراء پر منطبق کرنا صحیح نہیں۔  ان کی اطاعت کے معروف حدود ہیں جبکہ رسول کی اطاعت اور اس کے آداب کا معاملہ اس سے بہت مختلف ہے۔

 

۱۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے منافقین کی طرف جو رسول کی مجلس سے اپنی عدم دلچسپی کے باعث کسی کی آڑ لیکر کھسک جاتے تاکہ ان کے جانے کا کسی کو پتہ نہ چلے۔

 

۱۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سخت تنبیہ ہے ان لوگوں کے لیے جو رسول کے حکم کو ماننے کے بجائے اس سے گریز کرنے لگتے ہیں مگر ان کا نتیجہ ایسے لوگوں کے حق میں نہایت خطرناک ہو سکتا ہے یا تو وہ کسی فتنہ کا شکار ہو کر رہ جائیں یا دردناک عذاب کی گرفت میں آ جائیں۔

 

آج مسلمان طرح طرح کے فتنے میں گھرے ہوئے ہیں اور نئے نئے فتنوں کا اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔  یہ صورتِ حال نتیجہ ہے اسی ہدایت کو نظر انداز کر دینے کا یعنی رسول کی اطاعت سے گریز کرنے اور اس کے احکام کی خلاف ورزی کرنے کا۔  کاش وہ ان آیات کی روشنی میں اپنا احتساب کرتے !

 

***