تفسیر عثمانی

سُوۡرَةُ الحُجرَات

۱۔۔۔     یعنی جس معاملہ میں اللہ و رسول کی طرف سے حکم ملنے کی توقع ہو، اس کا فیصلہ پہلے ہی آگے بڑھ کر اپنی رائے سے نہ کر بیٹھو بلکہ حکم الٰہی کا انتظار کرو۔ جس وقت پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کچھ ارشاد فرمائیں، خاموشی سے کان لگا کر سنو۔ ان کے بولنے سے پہلے خود بولنے کی جرأت نہ کرو۔ جو حکم ادھر سے ملے اس پر بے چون و چرا اور بلا پس و پیش عامل بن جاؤ۔ اپنی اغراض اور اہواء و آراء کو ان کے احکام پر مقدم نہ رکھو۔ بلکہ اپنی خواہشات و جذبات کو احکام سماوی کے تابع بناؤ۔ (تنبیہ) اس سورت میں مسلمانوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے آداب و حقوق اور اپنے بھائی مسلمانوں کے ساتھ برادرانہ تعلقات قائم رکھنے کے طریقے سکھلائے ہیں اور یہ کہ مسلمانوں کا جماعتی نظام کن اصول پر کار بند ہونے سے مضبوط و مستحکم رہ سکتا ہے اور اگر کبھی اس میں خرابی اور اختلال پیدا ہو تو اس کا علاج کیا ہے۔ تجربہ شاہد ہے کہ بیشتر نزاعات و مناقشات خود رائی اور غرضوں کو کسی ایک بلند معیار کے تابع کر دیں۔ ظاہر ہے کہ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشادات سے بلند کوئی معیار نہیں ہو سکتا۔ ایسا کرنے میں خواہ وقتی اور عارضی طور پر کتنی ہی تکلیف اٹھانا پڑے لیکن اس کا آخری انجام یقینی طور پر دارین کی سرخروئی اور کامیابی ہے۔

۲:  یعنی اللہ و رسول کی سچی فرمانبرداری اور تعظیم اسی وقت میسر ہو سکتی ہے جب خدا کا خوف دل میں ہو۔ اگر دل میں ڈر نہیں، تو بظاہر دعوائے اسلام کو نباہنے کے لیے اللہ و رسول کا نام بار بار زبان پر لائے گا اور بظاہر ان کے احکام کو آگے رکھے گا لیکن فی الحقیقت ان کو اپنی اندرونی خواہشات و اغراض کی تحصیل کے لیے ایک حیلہ اور آلہ کار بنائے گا۔ سو یاد رہے کہ جو زبان پر ہے اللہ اسے سنتا اور جو دل میں ہے اسے جانتا ہے، پھر اس کے سامنے یہ فریب کیسے چلے گا چاہیے کہ آدمی اس سے ڈر کر کام کرے۔

۲۔۔۔   یعنی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس میں شور نہ کرو اور جیسے آپس میں ایک دوسرے سے بے تکلف چہک کر یا تڑخ کر بات کرتے ہو، حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ یہ طریقہ اختیار کرنا خلافِ ادب ہے۔ آپ سے خطاب کرو تو نرم آواز سے تعظیم و احترام کے لہجہ میں ادب و شائستگی کے ساتھ۔ دیکھو ایک مہذب بیٹا اپنے باپ سے، لائق شاگرد استاد سے، مخلص مرید پیرو مرشد سے، اور ایک سپاہی اپنے افسر سے کسی طرح بات کرتا ہے پیغمبر کا مرتبہ تو ان سب سے کہیں بڑھ کر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے گفتگو کرتے وقت پوری احتیاط رکھنی چاہیے۔ مبادا بے ادبی ہو جائے اور آپ کو تکدر پیش آئے تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی ناخوشی کے بعد مسلمان کا ٹھکانا کہاں ہے۔ ایسی صورت میں تمام اعمال ضائع ہونے اور ساری محنت اکارت جانے کا اندیشہ ہے (تنبیہ) حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث سننے اور پڑھنے کے وقت بھی یہ ہی ادب چاہیے اور جو قبر شریف کے پاس حاضر ہو وہاں بھی ان آداب کو ملحوظ رکھے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے خلفاء علمائے ربانیین اور اولوالامر کے ساتھ درجہ بدرجہ اسی ادب سے پیش آنا چاہیے تاکہ جماعتی نظام قائم رہے۔ فرق مراتب نہ کرنے سے بہت مفاسد اور فتنوں کا دروازہ کھلتا ہے۔

۳۔۔۔   ۱: یعنی جو لوگ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس میں تواضع اور ادب و تعظیم سے بولتے اور نبی کی آواز کے سامنے اپنی آوازوں کو پست کرتے ہیں۔ یہ وہ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے ادب کی تخم ریزی کے لیے پرکھ لیا اور مانجھ کر خالص تقویٰ و طہارت کے واسطے تیار کر دیا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ حجۃ اللہ البالغہ میں لکھتے ہیں کہ چار چیزیں اعظم شعائر اللہ سے ہیں۔ قرآن، پیغمبر، کعبہ، نماز۔ ان کی تعظیم وہ ہی کرے گا جس کا دل تقویٰ سے مالا مال ہو۔ "وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَاِنَّہَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوبِ۔" (الحج، رکوع۴'آیت ۳۲) یہاں سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی آواز سے زیادہ آواز بلند کرنا خلاف ادب ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے احکام و ارشادات سننے کے بعد ان کے خلاف آواز اٹھانا کس درجہ کا گناہ ہو گا۔

۲: یعنی اس اخلاص و حق شناسی کی برکت سے پچھلی کوتاہیاں معاف ہوں گی اور بڑا بھاری ثواب ملے گا۔

۵۔۔۔   بنی تمیم ملنے کو آئے، حضور صلی اللہ علیہ و سلم حجرہ مبارک میں تشریف رکھتے تھے، وہ لوگ باہر سے آوازیں دینے لگے کہ "یا محمد اخرج الینا" (اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم باہر آئیے) یہ بے عقلی اور بے تہذیبی کی بات تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مرتبہ کو نہیں سمجھتے تھے۔ کیا معلوم ہے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی نازل ہو رہی ہو۔ یا کسی اور اہم کام میں مشغول ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات منبع البرکات تو مسلمانوں کے تمام دینی و دنیاوی امور کا مرکز و ملجاء تھی۔ کسی معمولی ذمہ دار آدمی کے لیے بھی کام کرنا سخت مشکل ہو جائے اگر اس کا کوئی نظام الاوقات نہ ہو۔ اور آخر پیغمبر کا ادب و احترام بھی کوئی چیز ہے چاہیے تھا کہ کسی کی زبانی اندر اطلاع کراتے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے باہر تشریف لانے تک صبر کرتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم باہر تشریف لا کر ان کی طرف متوجہ ہوتے اس وقت خطاب کرنا چاہیے تھا۔ ایسا کیا جاتا تو ان کے حق میں بہتر اور قابل ستائش ہوتا۔ تاہم بے عقلی اور نادانستگی سے جو بات اتفاقاً سرزد ہو جائے اللہ اس کو اپنی مہربانی سے بخشنے والا ہے۔ چاہیے کہ اپنی تقصیر پر نادم ہو کر آئندہ ایسا رویہ اختیار نہ کریں۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی تعظیم و محبت ہی وہ نقطہ ہے جس پر قوم مسلم کی تمام پراگندہ قوتیں اور منتشر جذبات جمع ہوتے ہیں اور یہ ہی وہ ایمانی رشتہ ہے جس پر اسلامی اخوت کا نظام قائم ہے۔

۶۔۔۔    اکثر نزاعات و مناقشات کی ابتداء جھوٹی خبروں سے ہوتی ہے۔ اس لیے اول اختلاف و تفریق کے اسی چشمہ کو بند کرنے کی تعلیم دی یعنی کسی خبر کو یوں ہی بے تحقیق قبول نہ کرو۔ فرض کیجیے ایک بے راہرو اور تکلیف دہ آدمی نے اپنے کسی خیال اور جذبہ سے بے قابو ہو کر کسی قوم کی شکایت کی۔ تم محض اس کے بیان پر اعتماد کر کے اس قوم پر چڑھ دوڑے، بعدہٗ ظاہر ہوا کہ اس شخص نے غلط کہا تھا، تو خیال کرو اس وقت کس قدر پچھتانا پڑے گا۔ اور اپنی جلد بازی پر کیا کچھ ندامت ہو گی اور اس کا نتیجہ جماعت اسلام کے حق میں کیسا خراب ہو گا۔

۷۔۔۔   یعنی اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تمہاری کسی خبر یا رائے پر عمل نہ کریں تو برا نہ مانو۔ حق لوگوں کی خواہشوں یا رایوں کے تابع نہیں ہو سکتا۔ ایسا ہو تو زمین و آسمان کا سارا کارخانہ ہی درہم برہم ہو جائے کما قال تعالیٰ ' وَلَوِاتَّبَع الْحَقُّ اَہْوَآءَ ہُمْ لَفَسَدَتِ السَمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ۔" (المومنون، رکوع۴'آیت ۷۱) الغرض خبروں کی تحقیق کیا کرو اور حق کو اپنی خواہش اور رائے کے تابع نہ بناؤ بلکہ اپنی خواہشات کو حق کے تابع رکھو۔ اس طرح تمام جھگڑوں کی جڑ کٹ جائے گی۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "یعنی تمہارا مشورہ قبول نہ ہو تو برا نہ مانو، رسول عمل کرتا ہے اللہ کے حکم پر، اسی میں تمہارا بھلا ہے، اگر تمہاری بات نہ مانا کرے تو ہر کوئی اپنے بھلے کی کہے، پھر کس کس کی بات پر چلے۔

۸۔۔۔  ۱: یعنی اگر تم یہ چاہتے ہو کہ پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام تمہاری ہر بات مانا کریں تو بڑی مشکل ہوئی لیکن اللہ کا شکر کرو کہ اس نے اپنے فضل و احسان سے مومنین قانتین کے دلوں میں ایمان کو محبوب بنا دیا۔ اور کفر و معصیت کی نفرت ڈال دی جس سے وہ ایسی بیہودگی کے پاس بھی نہیں جا سکتے۔ جس مجمع میں اللہ کا رسول جلوہ افروز ہو وہاں کسی کی رائے و خواہش کی پیروی کہاں ہو سکتی ہے۔ آج گو حضور صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے درمیان میں نہیں مگر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیم اور آپ کے وارث و نائب یقیناً موجود ہیں اور رہیں گے۔

۲: یعنی وہ سب کی استعداد کو جانتا ہے اور ہر ایک کو اپنی حکمت سے وہ احوال و مقامات مرحمت فرماتا ہے جو اس کی استعداد کے مناسب ہوں۔

۹۔۔۔   یعنی ان تمام پیش بندیوں کے باوجود اگر اتفاق سے مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو پوری کوشش کرو کہ اختلاف رفع ہو جائے۔ اس میں اگر کامیابی نہ ہو اور کوئی فریق دوسرے پر چڑھا چلا جائے اور ظلم و زیادتی ہی پر کمر باندھ لے تو یکسو ہو کر نہ بیٹھ رہو، بلکہ جس کی زیادتی ہو سب مسلمان مل کر اس سے لڑائی کریں۔ یہاں تک کہ وہ فریق مجبور ہو کر اپنی زیادتیوں سے باز آئے اور خدا کے حکم کی طرف رجوع ہو کر صلح کے لیے اپنے کو پیش کر دے۔ اس وقت چاہیے کہ مسلمان دونوں فریق کے درمیان مساوات و انصاف کے ساتھ صلح اور میل ملاپ کرا دیں۔ کسی ایک کی طرف داری میں جادہ حق سے ادھر ادھر نہ جھکیں۔ (تنبیہ) آیت کا نزول صحیحین کی روایت کے موافق "انصار" کے دو گروہ اوس و خزرج کے ایک وقتی ہنگامے کے متعلق ہوا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے درمیان اسی آیت کے ماتحت صلح کر ادی۔ جو لوگ خلفیہ کے مقابلہ میں بغاوت کریں وہ بھی عموم آیت میں داخل ہیں۔ چنانچہ قدیم سے علمائے سلف بغاوت کے مسئلہ میں اسی سے استدلال کرتے آئے ہیں۔ لیکن جیسا کہ شان نزول سے ظاہر ہوتا ہے یہ حکم مسلمانوں کے تمام جماعتی مناقشات و مشاجرات کو شامل ہے۔ باقی باغیوں کے متعلق احکام شرعیہ کی تفصیل فقہ میں دیکھنی چاہیے۔

۱۰۔۔۔   یعنی صلح اور جنگ کی ہر ایک حالت میں یہ ملحوظ رہے کہ دو بھائیوں کی لڑائی دو بھائیوں کی مصالحت ہے۔ دشمنوں اور کافروں کی طرح برتاؤ نہ کیا جائے۔ جب دو بھائی آپس میں ٹکرا جائیں تو یوں ہی ان کے حال پر نہ چھوڑ دو، بلکہ اصلاح ذات البین کی پوری کوشش کرو۔ اور ایسی کوشش کرتے وقت خدا سے ڈرتے رہو کہ کسی کی بیجا طرفداری یا انتقامی جذبہ سے کام لینے کی نوبت نہ آئے۔

۱۱۔۔۔  ۱: اول مسلمانوں میں نزاع و اختلاف کو روکنے کی تدابیر بتلائی تھیں۔ پھر بتلایا کہ اگر اتفاقاً اختلاف رونما ہو جائے تو پر زور اور موثر طریقہ سے اس کو مٹایا جائے لیکن جب تک نزاع کا خاتمہ نہ ہو کوشش ہونی چاہیے کہ کم از کم جذبات منافرت و مخالفت زیادہ تیز اور مشتعل نہ ہونے پائیں۔ عموماً دیکھا جاتا ہے کہ جہاں دو شخصوں یا دو جماعتوں میں اختلاف رونما ہوا۔ بس ایک دوسرے کا تمسخر اور استہزاء کرنے لگتا ہے۔ ذرا سی بات ہاتھ لگ گئی اور ہنسی مذاق اڑانا شروع کر دیا۔ حالانکہ اسے معلوم نہیں کہ شاید جس کا مذاق اڑا رہا ہے۔ وہ اللہ کے نزدیک اس سے بہتر ہو بلکہ بسا اوقات یہ خود بھی اختلاف سے پہلے اس کو بہتر سمجھتا ہوتا ہے۔ مگر ضدو نفسانیت میں دوسرے کی آنکھ کا تنکا نظر آتا ہے اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا۔ اس طریقہ سے نفرت و عداوت کی خلیج روز بروز وسیع ہوتی رہتی ہے۔ اور قلوب میں اس قدر بعد ہو جاتا ہے کہ صلح و ائتلاف کی کوئی امید باقی نہیں رہتی آیہ ہذا میں خداوند قدوس نے اسی قسم کی باتوں سے منع فرمایا ہے۔ یعنی ایک جماعت دوسری جماعت کے ساتھ نہ مسخراپن کرے نہ ایک دوسرے پر آوازیں کسی جائیں نہ کھوج لگا کر عیب نکالے جائیں اور نہ برے ناموں اور برے القاب سے فریق مقابل کو یاد کیا جائے، کیونکہ ان باتوں سے دشمنی اور نفرت میں ترقی ہوتی ہے اور فتنہ و فساد کی آگ زیادہ تیزی سے پھیلتی ہے۔ سبحان اللہ! کیسی بیش بہا ہدایات ہیں۔ آج اگر مسلمان سمجھیں تو ان کے سب سے بڑے مرض کا مکمل علاج اسی ایک سورہ حجرات میں موجود ہے۔

۲: یعنی کسی کا برا نام ڈالنے سے آدمی خود گنہگار ہوتا ہے۔ اسے تو واقع میں عیب لگایا نہ لگا لیکن اس کا نام بدتہذیب، فاسق، گنہگار اور مردم آزار پڑ گیا۔ خیال کرو۔ "مومن" کے بہترین لقب کے بعد یہ نام کیا اچھے معلوم ہوتے ہیں۔ یا یہ مطلب ہے کہ جب ایک شخص ایمان لا چکا اور مسلمان ہو گیا اس کو مسلمانی سے پہلے کی باتوں پر طعن دینا یا اس وقت کے بدترین القاب سے یاد کرنا مثلاً یہودی یا نصرانی وغیرہ کہہ کر پکارنا نہایت مذموم حرکت ہے۔ اسی طرح جو شخص کسی عیب میں مبتلا ہو اور وہ اس کا اختیاری نہ ہو، یا ایک گناہ سے فرض کیجیے توبہ کر چکا ہے، چڑانے کے لیے اس کا ذکر کرنا بھی جائز نہیں۔

۳: یعنی جو پہلے ہو چکا اب توبہ کر لو۔ اگر یہ احکام و ہدایات سننے کے بعد بھی ان جرائم سے توبہ نہ کی تو اللہ کے نزدیک اصلی ظالم یہ ہی ہوں گے۔

۱۲۔۔۔   ۱: اختلاف و تفریق باہمی کے بڑھانے میں ان امور کو خصوصیت سے دخل ہے ایک فریق دوسرے فریق سے ایسا بدگمان ہو جاتا ہے کہ حسن ظن کو کوئی گنجائش نہیں چھوڑتا۔ مخالف کی کوئی بات ہو اس کا محل اپنے خلاف نکال لیتا ہے۔ اس کی بات میں ہزار احتمال بھلائی کے ہوں اور صرف ایک پہلو برائی کا نکلتا ہو، ہمیشہ اس کی طبیعت برے پہلو کی طرف چلے گی اور اسی برے اور کمزور پہلو کو قطعی اور یقینی قرار دے کر فریق مقابل پر تہمتیں اور الزام لگانا شروع کر دے گا۔ پھر نہ صرف یہ ہی کہ ایک بات حسب اتفاق پہنچ گئی، بدگمانی، سے اس کو غلط معنی پہنا دیے گئے، نہیں، اس جستجو میں رہتا ہے کہ دوسری طرف کے اندرونی بھید معلوم ہوں جس پر ہم خوب حاشیے چڑھائیں اور اس کی غیبت سے اپنی مجلس گرم کریں۔ ان تمام خرافات سے قرآن کریم منع کرتا ہے۔ اگر مسلمان اس پر عمل کریں تو جو اختلافات بدقسمتی سے پیش آ جاتے ہیں وہ اپنی حد سے آگے نہ بڑھیں اور ان کا ضرر بہت محدود ہو جائے۔ بلکہ چند روز میں نفسانی اختلافات کا نام و نشان باقی نہ رہے حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "الزام لگانا اور بھید ٹٹولنا اور پیٹھ پیچھے برا کہنا کسی جگہ بہتر نہیں۔ مگر جہاں اس میں کچھ دین کا فائدہ ہو اور نفسانیت کی غرض نہ ہو۔" وہاں اجازت ہے جیسے رجال حدیث کی نسبت ائمہ جرح و تعدیل کا معمول رہا ہے کیونکہ اس کے بدون دین کا محفوظ رکھنا محال تھا۔

۲: یعنی مسلمان بھائی کی غیبت کرنا ایسا گندہ اور گھناؤنا کام ہے جیسے کوئی اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت نوچ نوچ کر کھائے۔ کیا اس کو کوئی انسان پسند کرے گا؟ بس سمجھ لو غیبت اس سے بھی زیادہ شنیع حرکت ہے۔

۳: یعنی ان نصیحتوں پر کار بند وہ ہی ہو گا جس کے دل میں خدا کا ڈر ہو یہ نہیں تو کچھ نہیں۔ چاہیے کہ ایمان و اسلام کا دعویٰ رکھنے والے واقعی طور پر خداوند قہار کے غضب سے ڈریں اور ایسی ناشائستہ حرکتوں کے قریب نہ جائیں۔ اگر پہلے کچھ غلطیاں اور کمزوریاں سرزد ہوئی ہیں، اللہ کے سامنے صدق دل سے توبہ کریں وہ اپنی مہربانی سے معاف فرما دے گا۔

۱۳۔۔۔ ۱: اکثر غیبت، طعن و تشنیع اور عیب جوئی کا منشاء کبر ہوتا ہے کہ آدمی اپنے کو بڑا اور دوسروں کو حقیر سمجھتا ہے، اس کو بتلاتے ہیں کہ اصل میں انسان کا بڑا چھوٹا یا معزز و حقیر ہونا ذات پات اور خاندان و نسب سے تعلق نہیں رکھتا۔، بلکہ جو شخص جس قدر نیک خصلت، مودب اور پرہیزگار ہو اسی قدر اللہ کے ہاں معزز و مکرم ہے۔ نسب کی حقیقت تو یہ ہے کہ سارے آدمی ایک مرد اور ایک عورت یعنی آدم علیہ السلام و حوا کی اولاد ہیں شیخ، سید، مغل، پٹھان اور صدیقی، فاروقی، عثمانی، انصاری سب کا سلسلہ آدم و حوا پر منتہی ہوتا ہے یہ ذاتیں اور خاندان اللہ تعالیٰ نے محض تعارف اور شناخت کے لیے مقرر کیے ہیں۔ بلاشبہ جس کو حق تعالیٰ کسی شریف اور بزرگ و معزز گھرانے میں پیدا کر دے وہ ایک موہوب شرف ہے، جیسے کسی کو خوبصورت بنا دیا جائے، لیکن یہ چیز ناز اور فخر کرنے کے لائق نہیں کہ اسی کو معیار کمال اور فضیلت کا ٹھہرا لیا جائے اور دوسروں کو حقیر سمجھا جائے۔ ہاں شکر کرنا چاہیے کہ اس نے بلا اختیار و کسب ہم کو یہ نعمت مرحمت فرمائی۔ شکر میں یہ بھی داخل ہے کہ غرور و تفاخر سے باز رہے اور اس نعمت کو کمینہ اخلاق اور بری خصلتوں سے خراب نہ ہونے دے۔ بہرحال مجدو شرف اور فضیلت و عزت کا اصلی معیار نسب نہیں تقویٰ و طہارت ہے اور متقی آدمی دوسروں کو حقیر کب سمجھے گا؟

۲: یعنی تقویٰ اور ادب اصل میں دل سے ہے اللہ ہی کو خبر ہے کہ جو شخص ظاہر میں متقی اور مودب نظر آتا ہے وہ واقع میں کیسا ہے اور آئندہ کیسا رہے گا۔ انما العبرۃ للخواتیم۔

۱۴۔۔۔   ۱: یہاں یہ بتلاتے کہ ایمان و یقین جب پوری طرح دل میں راسخ ہو جائے اور جڑ پکڑ لے اس وقت غیبت اور عیب جوئی وغیرہ کی خصلتیں آدمی سے دور ہو جاتی ہیں۔ جو شخص دوسروں کے عیب ڈھونڈنے اور آزار پہنچانے میں مبتلا ہو، سمجھ لو کہ ابھی تک ایمان اس کے دل میں پوری طرح پیوست نہیں ہوا۔ ایک حدیث میں ہے۔ "یَامَعْشَرَ مَنْ اٰمَنَ بِلِسَانِہٖ وَلَمْ یُفْضِ الْاِیْمَانُ اِلیٰ قَلْبِہٖ لَا تَغْتَابُوا الْمُسْلِمِیْنَ وَلَا تَتَّبِعُوا عَوْرَاتِہِمْ" الخ (ابن کثیر، ۸/۲۴) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "ایک کہتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں یعنی دین مسلمان ہم نے قبول کیا۔ اس کا مضائقہ نہیں۔ اور ایک کہتا ہے کہ ہم کو پورا یقین ہے۔ جو یقین پورا ہے تو اس کے آثار کہاں؟ جس کو واقعی پورا یقین حاصل ہو وہ تو ایسے دعوے کرنے سے ڈرتا اور شرماتا ہے۔" (تنبیہ) اس آیت سے ایمان و اسلام کا فرق ظاہر ہوتا ہے اور یہ ہی بات حدیث جبرائیل وغیرہ سے ثابت ہوئی ہے۔ ہم نے شرح صحیح مسلم میں اس موضوع پر کافی بحث کی ہے۔ یہاں تفصیل کا موقع نہیں۔

۲: یعنی اب بھی اگر فرمانبرداری کا راستہ اختیار کرو گے تو پچھلی کمزوریوں کی وجہ سے تمہارے کسی عمل کے ثواب میں کمی نہ کرے گا۔

۱۵۔۔۔  یعنی سچے مومن کی شان یہ ہوتی ہے کہ اللہ و رسول پر پختہ اعتقاد رکھتا ہو۔ اور ان کی راہ میں ہر طرح جان و مال سے حاضر رہے۔

۱۶۔۔۔   یعنی اگر واقعی سچا دین اور پورا یقین تم کو حاصل ہے تو کہے سے کیا ہو گا جس سے معاملہ ہے وہ آپ خبردار ہے۔

۱۷۔۔۔   ۱: بعض گنوار آ کر کہتے تھے کہ دیکھئے ہم تو بدون لڑے بھڑے مسلمان ہو گئے۔ گویا احسان جتلاتے تھے۔ اس کا جواب آگے دیتے ہیں۔

۲: یعنی اگر واقعی تم دعوائے اسلام و ایمان میں سچے ہو تو یہ تمہارا احسان نہیں۔ اللہ کا احسان ہے کہ اس نے ایمان کی طرف آنے کا راستہ دیا اور دولت اسلام سے سرفراز کیا اگر سچی بات کہو تو واقعہ اس طرح ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "نیکی اپنے ہاتھ سے ہو، اپنی تعریف نہیں۔ رب کی تعریف ہے جس نے وہ نیکی کروائی۔" گویا خاتمہ سورت پر متنبہ کر دیا کہ اگر تم کو قرآنی آیات اور اسلامی تعلیمات پر کاربند ہونے کی توفیق ہو تو احسان نہ جتلاؤ بلکہ اللہ کے احسان و انعام کا شکر ادا کرو جس نے ایسی توفیق ارزانی فرمائی۔

۱۸۔۔۔   یعنی دلوں کے بھید اور ظاہر کا عمل سب کو خدا جانتا ہے۔ اس کے سامنے باتیں نہ بناؤ