تفسیر مدنی

سُوۡرَةُ الحُجرَات

(سورۃ الحجرات ۔ سورہ نمبر ۴۹ ۔ تعداد آیات ۱۸)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو پیش قدمی مت کرنا تم اللہ اور اس کے رسول کے (حکم کے) آگے اور (ہمیشہ اور ہر حال) میں ڈرتے رہا کرو تم اللہ سے بے شک اللہ (ہر کسی کی) سنتا (سب کچھ) جانتا ہے

۲۔۔۔     اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو بلند نہیں کرنا اپنی آوازوں کو پیغمبر کی آواز سے اور نہ ہی ان سے ایسی اونچی آواز میں بات کرنا جس طرح کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے بات کرتے ہو کہیں ایسا نہ ہو کہ اکارت ہو جائیں تمہارے سب عمل اور تمہیں خبر بھی نہ ہو

۳۔۔۔     بے شک جو لوگ پست رکھتے ہیں اپنی آوازوں کو اللہ کے رسول کے حضور اللہ نے جانچ (اور پرکھ) لیا ان کے دلوں کو قوی (و  پرہیزگاری) کے لئے ایسے (خوش نصیب) لوگوں کے لئے عظیم الشان بخشش بھی ہے اور بہت بڑا اجر بھی

۴۔۔۔     بلاشبہ جو لوگ پکارتے ہیں آپ کو (اے پیغمبر !) حجروں کے باہر سے ان میں سے اکثر بے عقل ہیں

۵۔۔۔     اور اگر یہ لوگ صبر سے کام لیتے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم خود ہی ان کے پاس نکل آتے تو یہ زیادہ بہتر ہوتا خود ان کے لئے اور اللہ بڑا ہی درگزر کرنے والا انتہائی مہربان ہے

۶۔۔۔     اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو اگر کوئی فاسق آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لایا کرے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کوئی نقصان پہنچا بیٹھو کسی قوم کو جہالت (و نادانی) کی بناء پر تو پھر اس کے نتیجے میں تمہیں خود اپنے کئے پر ندامت اٹھانا پڑ جائے

۷۔۔۔     اور خوب جان رکھو کہ تمہارے درمیان اللہ کا رسول موجود ہے اگر وہ بہت سی باتوں میں تمہارا کہنا مان لیا کرے تو تم لوگ خود ہی سخت مشکلات میں پڑ جاؤ لیکن اللہ نے تم کو (اس سے بچا کر) ایمان کی محبت سے نواز دیا اور اس کو مزین (و محبوب) بنا دیا تمہارے دلوں میں اور تمہارے اندر نفرت (و کراہیت) پیدا کر دی کفر نافرمانی اور گناہ سے ایسے ہی لوگ راہ راست پر ہیں

۸۔۔۔     محض اللہ کے فضل اور اس کے احسان سے اور اللہ سب کچھ جانتا نہایت حکمت والا ہے

۹۔۔۔     اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو تم ان کے درمیان صلح کرا دیا کرو پھر اگر ان میں سے ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو تم اس سے لڑو جو زیادتی کرتا ہے یہاں تک کہ وہ لوٹ آئے اللہ کے حکم کی طرف پھر اگر وہ لوٹ آئے پس تم صلح کرا دو ان دونوں کے درمیان عدل (و انصاف) کے ساتھ اور یوں بھی انصاف ہی کیا کرو کہ بے شک اللہ محبت کرتا ہے انصاف کرنے والوں کے ساتھ

۱۰۔۔۔     سوائے اس کے نہیں کہ ایمان والے آپس میں بھائی ہیں پس (اختلاف کی صورت میں) تم صلح کرا دیا کرو اپنے دونوں بھائیوں کے درمیان اور (ہر حال میں) ڈرتے رہا کرو تم لوگ اللہ سے (اور بچتے رہا کرو اس کی نافرمانی سے) تاکہ تم پر رحم کیا جائے

۱۱۔۔۔     اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو نہ مرد مذاق اڑائیں دوسرے مردوں کا ہو سکتا ہے کہ وہ ان (مذاق اڑانے والوں) سے کہیں بڑھ کر اچھے ہوں اور نہ عورتیں مذاق اڑائیں دوسری عورتوں کا ہو سکتا ہے کہ وہ ان (مذاق اڑانے والیوں) سے کہیں بڑھ کر اچھی ہوں نہ تم آپس میں ایک دوسرے کو طعنے دو اور نہ ایک دوسرے کے برے نام رکھو کہ بڑا برا نام ہے گنہگاری (دولتِ) ایمان (سے سرفرازی) کے بعد اور جو باز نہیں آئیں گے تو وہی ہیں ظالم

۱۲۔۔۔     اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو بچتے رہا کرو تم بہت سے گمانوں سے کہ بعض گمان یقیناً گناہ ہوتے ہیں اور نہ تم تجسس کرو (اور نہ کسی کے عیب تلاش کرو) اور نہ ہی تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرے گا کہ وہ گوشت کھائے اپنے مرے ہوئے بھائی کا؟ اس کو تو تم لوگ خود ہی برا سمجھتے ہو اور (ہر حال میں) ڈرتے رہا کرو تم اللہ سے (اور بچتے رہا کرو اس کی نافرمانی سے) اللہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا انتہائی مہربان ہے

۱۳۔۔۔     اے لوگوں یقیناً ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہیں مختلف قوموں اور خاندانوں میں (محض اس لئے) تقسیم کر دیا کہ تاکہ تم آپس میں پہچان کر سکو بے شک اللہ کے یہاں تم میں سے سب سے بڑا عزت دار وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ متقی (و پرہیز گار) ہو بے شک اللہ پوری طرح جانتا ہے (تمہارے عمل و کردار کو اور وہ) پوری طرح باخبر ہے (تمہاری احوال سے)

۱۴۔۔۔     یہ بدوی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے (ان سے) کہو کہ تم ایمان نہیں لائے ہاں یوں کہو کہ ہم مسلمان ہو گئے کہ ایمان تو ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا اور اگر تم نے (صدق دل سے) اطاعت و فرمانبرداری کی اللہ اور اس کے رسول کی تو اللہ تمہارے اعمال میں سے کچھ بھی کم نہیں کرے گا بلاشبہ اللہ بڑا ہی درگزر فرمانے والا انتہائی مہربان ہے

۱۵۔۔۔     مومن تو حقیقت میں وہی لوگ ہیں جو (صدق دل سے) ایمان لائے اللہ اور اس کے رسول پر پھر انہوں نے کوئی شک نہیں کیا اور انہوں نے جہاد کیا اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں یہی لوگ ہیں سچے

۱۶۔۔۔     (ان سے) کہو (اے پیغمبر !) کہ کیا تم اللہ کو آگاہ کر رہے ہو اپنے دین کے بارے میں ؟ حالانکہ اللہ جانتا ہے وہ سب کچھ جو کہ آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے اور اللہ ہر چیز کو پوری طرح جانتا ہے

۱۷۔۔۔     یہ لوگ آپ پر احسان رکھتے ہیں اس بات کا یہ اسلام لائے ہیں (ان سے) کہو کہ اپنے اسلام کا احسان مجھ پر نہ رکھو بلکہ احسان تو اللہ نے تم پر فرمایا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی ہدایت سے نوازا اگر تم سچے ہو (اپنے دعوی ایمان میں)

۱۸۔۔۔     بلاشبہ اللہ جانتا ہے آسمانوں اور زمین کے غیب (اور ان کی چھپی باتوں) کو اور اللہ پوری طرح نگاہ میں رکھے ہوئے ہے ان تمام کاموں کو جو تم کرتے ہو

تفسیر

 

۱۔۔  سو اس آیت کریمہ سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اللہ اور اس کے رسول کے آگے کبھی پیش قدمی نہ کرے۔ نہ کبھی ان کے سامنے اپنی رائے پیش کرنے میں پہل کرے، اور نہ کبھی اپنی کسی رائے کو ان کے کسی حکم و ارشاد پر مقدم سمجھے، اور نہ ہی کبھی ان کی ہدایت و تعلیمات سے آزاد اور لاپرواہ ہو کر اپنے فیصلے آزادانہ طور پر خود کرے، کہ یہ سب باتیں تقاضاء ایمان کے خلاف ہیں کیونکہ ایمان کا اصل اور حقیقی تقاضا یہی ہے کہ انسان زندگی کے ہر معاملے میں اللہ اور اس کے رسول کے ہر حکم و ارشاد کی صدق دل سے اطاعت و اتباع اور فرمانبرداری و پیروی کرے، اور اللہ تعالیٰ کی ہدایات و تعلیمات کتاب اللہ کی شکل میں اور اس کے رسول کے ارشادات سنت نبوی کی صورت میں اپنی اصلی اور حقیقی صورت میں آج بھی موجود ہیں، اور قیامت تک موجود رہیں گے، پس انکی اطاعت و اتباع ہر مسلمان کے ذمے لازم اور اس کے ایمان کا تقاضا ہے، اور یہ اصولی ہدایت مسلمانوں کے تمام ہی معاملات پر حاوی اور ان پر محیط و مشتمل ہے اس سے نہ مسلمانوں کا کوئی فرد آزاد اور مستثنیٰ ہو سکتا ہے، اور نہ ہی ان کی کوئی حکومت اور عدالت و پارلیمنٹ، کہ یہ ان کے ایمان و عقیدہ کا لازمی اور بدیہی تقاضا ہے، سو اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ دین و ایمان کا تقاضا کیا ہے، اور آج کے مسلمان کا عمل اور سلوک کیا گیا ہے؟ دین حنیف کے کتنے ہی صریح احکام ہیں جن کی علی الاعلان خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ اور کتنے ہی بدبخت ایسے ہیں جو اپنی اہوا و اغراض پر مبنی خود ساختہ فلسفوں اور اپنی شخصی آراء کو دین متین کے صریح احکام پر مقدم سمجھتے ہیں، اور اس کے لئے وہ طرح طرح کی منطق بگھارتے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول کے احکام و ارشادات کی اس طرح کھلی اور اعلانیہ مخالفت اور پھر دعوی ہے ایمان و اسلام اور اطاعت و فرمانبرداری کا؟ مجھے تو بتا سہی کہ پھر کافری اور کیا ہے؟ فالی اللہ المشتکیٰ اور آیت کریمہ کے آخر میں بطور تنبیہ و تذکیر اس حقیقت سے آگہی بخشی گئی ہے کہ تم لوگ اس بات کو ہمیشہ پیش نظر رکھو کہ تمہارا معاملہ اس اللہ کے ساتھ ہے جو تمہاری ہر بات کو سنتا، اور تمہارے ظاہر و باطن کو ایک برابر اور پوری طرح جانتا ہے، اس سے نہ تمہارا کوئی عمل مخفی و مستور رہ سکتا ہے، اور نہ اس کے وہ باطنی محرکات جو تمہارے اندر کار فرما ہیں، پس تم لوگوں کو اپنے کئے کرائے کا بھگتان آخرکار، اور بہر حال بھگتنا ہو گا، والعیاذُ باللہ العظیم

۲۔۔  سو اس سے اسی بات کے دوسرے پہلو کو ذکر فرمایا گیا ہے، جس کا ذکر اوپر فرمایا گیا ہے جس سے ادب رسالت سے متعلق اہم اور بنیادی تعلیم و ہدایت بھی ملتی ہے، اور شان رسالت کی عظمت بھی واضح ہو جاتی ہے، سو اس سے ادب رسالت سے متعلق یہ تعلیم و ہدایت فرمائی گئی ہے، کہ تم لوگ پیغمبر کے انتہائی ادب و احترام اور ان کی عظمت شان کو ہمیشہ اور ہر طرح سے ملحوظ خاطر رکھو۔ پس نہ تو تم میں سے کسی کی آواز ان کی آواز سے بلند ہونے پائے، اور نہ ہی تم ان کے سامنے اس طرح بات کرو جس طرح کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے بات کرتے ہو۔ بلکہ ہمیشہ اس بات کو اپنے پیش نظر رکھا کرو کہ تم کسی عام آدمی سے بات نہیں کر رہے۔ بلکہ تم اللہ کے رسول سے مخاطب ہو۔ علیہ الصلوٰۃ والسلام کہیں ایسا نہ ہو کہ اکارت چلے جائیں تمہارے وہ سب عمل جن کو تم لوگ اپنے طور پر نیکی سمجھتے ہو اور وہ بھی اس طرح اکارت جلے جائیں کہ تم لوگوں کو اس کی خبر بھی نہ ہو، اور تم لوگ اس کے احساس و شعور ہی سے محروم ہوؤ۔ اور کل تم لوگ جب قیامت کے یوم حساب میں پہنچو تو تمہارے پاس ان میں سے کچھ بھی باقی نہ ہو، والعیاذُ باللہ سو اس سے رسالت اور صاحب رسالت کی عظمت شان کا اندازہ کیا جا سکتا ہے، کہ اس سلسلے میں گستاخی و بے ادبی حبط اعمال کا باعث ہو سکتی ہے، والعیاذُ باللہ العظیم،

۷۔۔  اس آیت کریمہ میں ایک طرف تو پیغمبر کی عظمت شان اور اس کے تقاضے کو ذکر فرمایا گیا ہے، اور دوسری طرف اس فضل و کرم کا ذکر فرمایا گیا ہے، جس سے حضرت حق جَلَّ مَجْدُہٗ نے ایمان والوں کو نوازا۔ اور تیسری طرف اس سے اس انعام کا بھی ذکر فرما دیا گیا جس سے حق تعالیٰ نے سچے اہل ایمان کو نوازا ہے، سو اس سلسلہ میں ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ اس بات کو یاد رکھا کرو کہ تمہارے اندر اللہ کا رسول موجود ہے، جس کا تم لوگوں پر یہ حق ہے کہ تم اس کی اطاعت و اتباع کرو۔ کیونکہ وہ جو بھی قدم اٹھاتا ہے اللہ تعالیٰ کی ہدایت و راہنمائی ہی میں اٹھاتا ہے، اس لئے ان کی کسی بھی بات میں کسی خطاء و قصور کا کوئی خدشہ و امکان بہر حال نہیں ہو سکتا پس ان کی اطاعت و اتباع ان کا تم پر حق بھی ہے، اور اسی میں خود تم لوگوں کا بھلا بھی ہے دنیا کی اس عارضی زندگی میں بھی اور آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہاں میں بھی، جو اس کے بعد آنے والا ہے پس تم لوگ کبھی اپنی کسی رائے اور مشورہ کو اتنی اہمیت مت دو کہ رسول کو بھی اپنے پیچھے چلانے کی کوشش کرنے لگو۔ کیونکہ تمہاری بہت سی باتیں خام اور راہ راست سے ہٹی ہوئی ہوتی ہیں تو اللہ کا رسول اگر کہیں تمہاری بہت سی باتوں کو مان لیا کرے تو تم لوگ یقیناً بڑی مشکل اور مصیبت میں پڑ جاؤ، کیونکہ کوئی مریض اگر طبیب کی بات ماننے کے بجائے الٹا اس کو اپنے پیچھے چلانا چاہے تو اس مریض کا بیڑا یقیناً غرق ہو جائے گا پس تم میں سے کسی کو اگر پیغمبر کی خدمت میں کوئی رائے پیش کرنی ہو تو وہ نہایت ادب و احترام سے ان کی خدمت میں اس کو پیش کر دیا کرے، اور پھر معاملہ انہی کی صوابدید پر چھوڑ دے۔ اپنی رائے پر اصرار کبھی نہ کرے، کیونکہ صاحب وحی کے سامنے اس طرح کا اصرار کرنے کا راستہ بہت خطرناک راستہ ہے، کہ اس میں پیغمبر کے مقابلے میں اپنی بڑائی کا عنصر پایا جاتا ہے، جو کہ باعث ہلاکت و تباہی ہے، والعیاذُ باللہ العظیم، اس کے بعد اہل ایمان پر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور انعام و احسان کا ذکر فرمایا گیا کہ اس نے اپنے فضل و کرم سے ایمان کو ان کے سامنے محبوب بنا کر پیش کر دیا۔ اور اس کو ان کے دلوں میں مزین و خوشنما بنا دیا اور اس کے مقابلے میں کفر و فسوق اور عصیان کو اس کے سامنے مبغوض و مکروہ بنا کر پیش کیا، جس کے نتیجے میں انہوں نے ایمان کو صدق دل سے اپنا لیا۔ اور وہ کفر و فسوق و عصیان کو دل سے برا جاننے لگے۔ حالانکہ اس سے پہلے دور جاہلیت کی تاریکی میں تمام اقدار تلپٹ ہو کر رہ گئی تھیں، اور ایسی اور اس حد تک کہ حق و باطل کے درمیان فرق و تمیز کرنا بھی کسی کے بس میں نہیں رہ گیا تھا ابلیس نے ایمان کو لوگوں کی نظروں میں مکروہ و مبغوض بنا دیا تھا اور اس کے برعکس کفر وفسوق کو اس نے ان کے سامنے محبوب و مطلوب بنا دیا تھا۔ جیسا کہ جاہلیت جدیدہ کے اس دور میں جس سے آج ہم لوگ گزر رہے ہیں، اسی تلبیس ابلیس کے طرح طرح کے نمونے اور مظاہر ہم لوگ اپنی آنکھوں سے جا بجا دیکھ رہے ہیں، سو جاہلیت اولیٰ کی تاریکی کے اس دور میں شیطان کی شیطانی کوششوں کے نتیجے میں ایمان کو طرح طرح کے اور تہ بہ تہ پردوں کے اندر اس قدر محجوب و مستور کر دیا تھا کہ ان تمام پردوں کو چاک کر کے اس کے حقیقی حسن و جمال کو مخلوق کے لئے بے نقاب کر دینا کسی کے لئے ممکن نہیں تھا۔ سوائے اللہ وحدہٗ لاشریک کے۔ اس کے برعکس اس ملعون نے کفر و فسوق اور عصیان کو مصنوعی غازوں کے اندر ایسا دلکش خوشنما اور پُر فریب بنا دیا تھا، کہ ان کو انکی اصل حقیقی اور گھناؤنی شکل میں دیکھنا اور دکھانا کسی کے لئے ممکن نہیں رہا تھا سوائے حضرت حق جَلَّ مَجْدُہٗ کے، جو کہ قادر مطلق بھی ہے اور رحمان و رحیم بھی سو اس نے اپنے فضل و کرم سے ان سب پردوں کو چاک کر کے ایمان کو اس کے اصل اور حقیقی جمال جہاں آرا کو بھی سب کے سامنے رکھ دیا۔ اور کفر و فسوق و عصیان کو انکی حقیقی اور مکروہ شکل میں دکھا دیا۔ جس سے دنیا کے سامنے حق و باطل کے درمیان فرق و تمیز کرنا بالکل پوری طرح واضح ہو گیا سو اس کے بعد جن سلیم الفطرت لوگوں نے ایمان و یقین کی دولت کو اپنایا، اور وہ کفر و فسوق اور عصیان سے دور و نفور رہے، ان کے لئے ارشاد فرمایا گیا اور حصر و قصر کے انداز و اسلوب میں ارشاد فرمایا گیا کہ یہی لوگ ہیں رشد و ہدایت والے، یعنی جو راہ راست پر ہیں، پس جو لوگ ان کے طریقے اور راستے کے خلاف ہیں وہ رشد و ہدایت کی دولت سے محروم اور اندھیروں میں ہیں، والعیاذُ باللہ العظیم

۱۱۔۔  اس ارشاد کے ذریعے ان باتوں سے روکا اور منع کیا گیا ہے جو ایمان کے تقاضوں کے خلاف ہیں، اور جن سے دلوں کے اندر فساد اور بگاڑ کی تخم ریزی ہوتی ہے، سو اس سے ایک تو یہ ہدایت فرمائی گئی ہے کہ نہ مردوں کی کوئی جماعت دوسرے مردوں کا مذاق اڑائے، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور یہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں عزت و ذلت اور شرافت و رذالت کا تعلق انسان کے ایمان و عقیدہ اور اس کے عمل و کردار سے ہے، اور کسی کے قلب و باطن اور اس کے صدق و اخلاص کو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے، ہو سکتا ہے کہ ایک شخص اپنے آپ کو بہت بڑی چیز سمجھتا ہو، لیکن قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کی میزان عدل میں وہ پر کاہ کے برابر بھی نہ ہو، اور اس کے برعکس یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کی اہل دنیا کی نظروں میں کوئی قدر و قیمت نہ ہو، لیکن وہ حقیقت میں وہ ایسا ہو کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے یہاں اس کا درجہ و مرتبہ اتنا بڑا ہو کہ وہ وہاں کی ابدی بادشاہی کا مستحق ٹھہرے، اور دوسری چیز جس سے اس آیت کریمہ میں روکا گیا ہے وہ ہے لَمْزِ اَنْفُس، یعنی دوسروں کو طعنے دینا اور عیب لگانا، کیونکہ یہ چیز ایسی ہے کہ اس سے عیب لگانے والوں کے اندر حسد اور کبر کے وجود کا بھی پتہ چلتا ہے، اور دوسروں کی تحقیر و تذلیل کا بھی، اور یہ دونوں چیزیں اہل ایمان اور مسلم معاشرے کی شان کے خلاف ہیں، اور تیسری چیز جس سے اس آیت کریمہ میں روکا اور منع فرمایا گیا ہے وہ ہے تَنَابُزْ بِالْاَلْقَابِ، یعنی ایک دوسرے پر برے القاب چسپاں کرنا، کیونکہ یہ چیز بھی عیب لگانے والوں کے تکبر اور دوسروں کی تذلیل و تحقیر کا نتیجہ ہوتی ہے، اور یہ دونوں ہی چیزیں اہل ایمان کی شان اور اسلامی معاشرے کے تقدس کے منافی ہیں، اور آیت کریمہ کے آخر میں ایسے لوگوں کی تنبیہ کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ جو لوگ اس قدر توضیح و تصریح کے باوجود ان باتوں سے توبہ نہیں کریں گے، وہیں ہیں ظالم، سو ان کو اپنے اس ظلم کا بھگتان بھگتنا ہو گا۔ والعیاذُ باللہ العظیم، بہرکیف ان آیات کریمات سے ان اہم اور عظیم الشان معاشرتی آداب سے متعلق تعلیمات دی گئی ہیں، جن کے اپنانے سے معاشرے کے اندر طرح طرح کے مفاسد پیدا ہونے کے راستے بند ہو جاتے ہیں، اور معاشرے کو امن و سکون کی پر کیف فضا نصیب ہوتی ہے، جس میں ایک دوسرے کے لئے عزت و احترام، الفت و محبت، اور حسن ظن کے پاکیزہ جذبات جنم لیتے ہیں، اور بدگمانی اور دوسروں کی تحقیر و تذلیل جیسی بد اخلاقیوں اور خصال شر کی بیخ کنی ہوتی ہے، بشرطیکہ ان مقدس اور پاکیزہ تعلیمات کو صدق دل سے اپنایا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں اصل قدر و قیمت صدق و اخلاص ہی کی ہے محض ظاہر داری اہل دنیا کے یہاں تو جل سکتی ہے اور جل جاتی ہے لیکن اللہ پاک کے یہاں نہیں جل سکتی سبحانہ و تعالی وباللہ التوفیق لما یحب و یرید وعلی ما یحب و یرید

۱۵۔۔  سو اس سے سچے اور حقیقی مومنوں کی صفت اور ان کی شان کو واضح فرما دیا گیا،چنانچہ سو اس سے صاف کر دیا گیا کہ ایمان کا ہر مدعی اللہ تعالیٰ کے نزدیک مومن نہیں ہو سکتا، بلکہ یہاں پر اِنّما کے کلمہ حصر و قصر کے ساتھ اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ سچے اور حقیقی مومن اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہی لوگ ہیں جو سچے دل سے ایمان لائے اللہ اور اس کے رسول پر، پھر وہ کسی شک اور تذبذب میں مبتلا نہیں ہوئے۔ بلکہ انہوں نے اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد بھی کیا اپنے مالوں کے ساتھ بھی اور اپنی جانوں کے ساتھ بھی، پس یہی لوگ ہیں جو اپنے دعوی ایمان میں سچے ہیں، رہ گئے وہ لوگ جو اپنے ایمان کا دعوی تو بڑے زورو شور سے کرتے ہیں لیکن اپنے تذبذب کے سبب وہ اس راہ میں نہ کوئی چوٹ کھانے کے لئے تیار ہیں اور نہ ہی وہ جان و مال کی قربانی دینے کا حوصلہ رکھتے ہیں، تو ایسوں کی اور ان کے دعوی ایمان کی اللہ تعالیٰ کے یہاں کوئی قدر و قیمت نہیں۔ دنیا کے اس دارالامتحان میں جو کہ ابتلاء و آزمائش کا گھر ہے، اس طرح کے لوگ ایسے دعوے کرتے رہیں، اس میں ان پر اس سلسلے میں کوئی پابندی اور قدغن نہیں، لیکن کل قیامت کے اس یوم حساب میں جو کہ کشف حقائق اور ظہور نتائج کا دن ہو گا، ان کے ان دعووں کی قلعی کھل جائے گی، تب انکو معلوم ہو جائے گا کہ وہ سب کچھ سراب و خواب تھا، جس پر ایسے لوگ مست و مگن تھے، اس کی کوئی حقیقت نہیں تھی، کہ وہاں پر قدر و قیمت حق و سچ، اور صدق و اخلاص ہی کی ہو گی، جس سے ایسے لوگ محروم اور تہی دامن ہوں گے، تب ان کی یاس و حسرت کی کوئی حد و انتہا نہیں ہو گی، مگر بے وقت کے اس پچھتاوے کا ان کو کوئی فائدہ بہر حال نہیں ہو گا، سوائے ان کی آتش یاس و حسرت میں اضافے کے، والعیاذُ باللہ العظیم

۱۸۔۔  پس اپنے ایمان و اسلام کے بارے میں زبانی کلامی دعوے کرنے اور ان کو زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی ضرورت نہیں، بلکہ اصل ضرورت جس چیز کی ہے وہ ہے صدق ایمان اور صفائے عمل و کردار، کیونکہ معاملہ اس اللہ وحدہٗ لاشریک کے ساتھ ہے جو آسمانوں اور زمین کی سب چھپی باتوں کو جانتا ہے، اور پوری طرح جانتا ہے، اور وہ تمہارے ان اعمال کو بھی پوری طرح دیکھ رہا ہے جو تم لوگ ظاہر کرتے ہو، اور ان کو بھی جو تم لوگ چھپاتے ہو، کیونکہ اس کے یہاں غیب و شہادت اور نہاں و عیاں دونوں ایک برابر ہیں، اس لئے وہاں پر محض ظاہری داری نہیں چل سکے گی، پس معاملہ اس کے ساتھ صاف رکھنے کی ضرورت ہے۔ اور اس طور پر کہ جس طرح اس کو منظور ہو، اور جس کی وضاحت اس نے اپنی کتاب عزیز کی تعلیمات مقدسہ، اور اپنے رسول عظیم کے ارشادات عالیہ کے ذریعے پوری طرح فرما دی، اور ایسے اور اس طور پر کہ اس میں کسی طرح کا کوئی خفا و غوض باقی نہیں، وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلی ما یحب و یرید بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ وبٰہذا قد تم التفسیر المختصر لسورۃ الحجرات بتوفیق اللہ تعالیٰ وعنایتہ۔