خزائن العرفان

سُوۡرَةُ الحُجرَات

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا ہے  (ف ۱)

۱                 سورۂ حجرات مدنیّہ ہے، اس میں دو۲ رکوع، اٹھارہ ۱۸ آیتیں، تین سو تینتالیس ۳۴۳کلمے اور ایک ہزار چار سو چھہتر ۱۴۷۶حرف ہیں۔

(۱) اے  ایمان والو اللہ اور اس کے  رسول سے  آگے  نہ بڑھو (ف ۲) اور اللہ سے  ڈرو بیشک اللہ سنتا جانتا ہے۔

۲                 یعنی تمہیں لازم ہے کہ اصلاً تم سے تقدیم واقع نہ ہو، نہ قول میں، نہ فعل میں کہ تقدیم کرنا رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے ادب و احترام کے خلاف ہے بارگاہِ رسالت میں نیاز مندی و آداب لازم ہیں۔ شانِ نزول : چند شخصوں نے عیدِ اضحیٰ کے دن سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے پہلے قربانی کر لی تو ان کو حکم دیا گیا کہ دوبارہ قربانی کریں اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ بعضے لوگ رمضان سے ایک روز پہلے ہی روزہ رکھنا شروع کر دیتے تھے، ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی اور حکم دیا گیا کہ روزہ رکھنے میں اپنے نبی سے تقدم نہ کرو۔ ( صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم)

(۲) اے  ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے  والے  (نبی) کی  آواز سے  (ف ۳) اور ان کے  حضور بات چلا کر نہ کہو جیسے  آپس میں ایک دوسرے  کے  سامنے  چلاتے  ہو کہ کہیں تمہارے  عمل  اَکارت نہ ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو (ف ۴)

۳                 یعنی جب حضور میں کچھ عرض کر و تو آہستہ پست آواز سے عرض کرو، یہی دربارِ رسالت کا ادب و احترام ہے۔

۴                 اس آیت میں حضور کا اجلال و اکرام و ادب و احترام تعلیم فرمایا گیا اور حکم دیا گیا کہ ندا کرنے میں ادب کا پورا لحاظ رکھیں جیسے آپس میں ایک دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہیں اس طرح نہ پکاریں بلکہ کلماتِ ادب و تعظیم و توصیف و تکریم و القابِ عظمت کے ساتھ عرض کرو جو عرض کرنا ہو کہ ترکِ ادب سے نیکیوں کے برباد ہونے کا اندیشہ ہے۔

شانِ نزول : حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ یہ آیت ثابت بن قیس بن شماس کے حق میں نازل ہوئی انہیں ثقلِ سماعت تھا اور آواز ان کی اونچی تھی، بات کرنے میں آواز بلند ہو جایا کرتی تھی، جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت ثابت اپنے گھر میں بیٹھ رہے اور کہنے لگے کہ میں اہلِ نار سے ہوں، حضور نے حضرت سعد سے ان کا حال دریافت فرمایا، انھوں نے عرض کیا کہ وہ میرے پڑوسی ہیں اور میرے علم میں انہیں کوئی بیماری تو نہیں ہوئی، پھر آ کر حضرت ثابت سے اس کا ذکر کیا، ثابت نے کہا، یہ آیت نازل ہوئی اور تم جانتے ہو کہ میں تم سب سے زیادہ بلند آواز ہوں تو میں جہنّمی ہو گیا، حضرت سعد نے یہ حال خدمتِ اقدس میں عرض کیا تو حضور نے فرمایا کہ وہ اہلِ جنّت سے ہیں۔

(۳) بیشک وہ جو اپنی آوازیں پست کرتے  ہیں رسول اللہ کے  پاس (ف ۵) وہ ہیں جن کا دل اللہ نے  پرہیز گاری کے  لیے  پرکھ لیا ہے، ان کے  لیے  بخشش اور بڑا ثواب ہے۔

۵                 براہِ ادب و تعظیم۔

شان نزول : آیۂ یٰۤاَ یّھَُاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ کے نازل ہونے کے بعد حضرت ابوبکر صدیق و عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور بعض اور صحابہ نے بہت احتیاط لازم کر لی اور خدمتِ اقدس میں بہت ہی پست آواز سے عرض معروض کرتے۔ ان حضرات کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔

(۴) بیشک  وہ  جو تمہیں حجروں کے  باہر سے  پکارتے  ہیں ان میں اکثر بے  عقل ہیں (ف ۶)

۶                 شانِ نزول : یہ آیت وفدِ بنی تمیم کے حق میں نازل ہوئی کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی خدمت میں دوپہر کے وقت پہنچے جب کہ حضور آرام فرما رہے تھے ان لوگوں نے حجروں کے باہر سے حضور ِ اقدس صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو پکارنا شروع کیا، حضور تشریف لے آئے، ان لوگوں کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی اور اجلالِ شانِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا بیان فرمایا گیا کہ بارگاہِ اقدس میں اس طرح پکارنا جہل و بے عقلی ہے اور ان لوگوں کو ادب کی تلقین کی گئی۔

(۵) اور اگر وہ صبر کرتے  یہاں تک کہ تم آپ ان کے  پاس تشریف لاتے (ف ۷) تو یہ ان کے  لیے  بہتر تھا، اور اللہ  بخشنے  والا مہربان ہے  (ف ۸)

۷                 اس وقت وہ عرض کرتے جو انہیں عرض کرنا تھا، یہ ادب ان پر لازم تھا، اس کو بجا لاتے۔

۸                 ان میں سے ان کے لئے جو توبہ کریں۔

(۶) اے  ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے  پاس کوئی خبر لائے  تو تحقیق کر لو (ف ۹) کہ کہیں کسی قوم کو بے  جانے  ایذا نہ دے  بیٹھو پھر اپنے  کیے  پر پچھتاتے  رہ جاؤ۔

۹                 کہ صحیح ہے یا غلط۔ شانِ نزول : یہ آیت ولید بن عقبہ کے حق میں نازل ہوئی کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے ان کو بنی مصطلق سے صدقات وصول کرنے بھیجا تھا اور زمانۂ جاہلیّت میں انکے اور انکے درمیان عداوت تھی، جب ولید ان کے دیار کے قریب پہنچے اور انہیں خبر ہوئی تو اس خیال سے کہ وہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے بھیجے ہوئے ہیں بہت سے لو گ تعظیماً ان کے استقبال کے واسطے آئے، ولید نے گمان کیا کہ یہ پرانی عداوت سے مجھے قتل کرنے آرہے ہیں، یہ خیال کر کے ولید واپس ہو گئے اور سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے عرض کر دیا کہ حضور ان لوگوں نے صدقہ کو منع کر دیا اور میرے قتل کے درپے ہو گئے۔ حضور نے خالد بن ولید کو تحقیقِ حال کے لئے بھیجا۔ حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیکھا کہ وہ لوگ اذانیں کہتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں اور ان لوگوں نے صدقات پیش کر دیئے، حضرت خالد یہ صدقات لے کر خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور واقعہ عرض کیا، اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔ بعض مفسّرین نے کہا کہ یہ آیت عام ہے اس بیان میں نازل ہوئی ہے کہ فاسق کے قول پر اعتماد نہ کیا جائے۔ مسئلہ : اس آیت سے ثابت ہوا کہ ایک شخص اگر عادل ہو تو اس کی خبر معتبر ہے۔

(۷) اور جان لو کہ تم میں اللہ کے  رسول ہیں (ف ۱۰) بہت معاملوں میں اگر یہ تمہاری خوشی کریں (ف ۱۱) تو تم ضرور مشقت میں پڑو لیکن اللہ نے  تمہیں ایمان پیارا  کر دیا ہے  اور اسے  تمہارے  دلوں میں آراستہ کر دیا اور کفر اور حکم عدولی اور نافرمانی تمہیں ناگوار کر دی، ایسے  ہی لوگ راہ پر ہیں (ف ۱۲)

۱۰               اگر تم جھوٹ بولو گے تو اللہ تعالیٰ کے خبردار کرنے سے وہ تمہارا افشائے حال کر کے تمہیں رسوا کر دیں گے۔

۱۱               اور تمہاری رائے کے مطابق حکم دے دیں۔

۱۲               کہ طریقِ حق پر قائم رہے۔

(۸) اللہ کا فضل اور احسان، اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔

(۹) اور اگر مسلمانوں کے  دو گروہ آپس میں لڑیں تو ان میں صلح کراؤ (ف ۱۳)  پھر اگر ایک دوسرے  پر زیادتی کرے  (ف ۱۴) تو اس زیادتی والے  سے  لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے  حکم کی طرف پلٹ آئے، پھر اگر پلٹ آئے  تو انصاف کے   ساتھ ان میں اصلاح کر دو اور عدل کرو، بیشک عدل والے  اللہ کو پیارے  ہیں۔

۱۳               شانِ نزول : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم دراز گوش پر سوار تشریف لے جاتے تھے، انصار کی مجلس پر گزر ہوا، وہاں تھوڑا سا توقف فرمایا، اس جگہ دراز گوش نے پیشاب کیا تو ابنِ اُ بَیْ نے ناک بند کر لی۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ حضور کے دراز گوش کا پیشاب تیرے مشک سے بہتر خوشبو رکھتا ہے، حضور تو تشریف لے گئے، ان دونوں میں بات بڑھ گئی اور ان دونوں کی قومیں آپس میں لڑ گئیں اور ہاتھا پائی تک نوبت پہنچی تو سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم واپس تشریف لائے اور ان میں صلح کرا دی اس معاملہ میں یہ آیت نازل ہوئی۔

۱۴               ظلم کرے اور صلح سے منکِر ہو جائے۔

مسئلہ : باغی گروہ کا یہی حکم ہے کہ اس سے قتال کیا جائے یہاں تک کہ وہ جنگ سے باز آئے۔

(۱۰) مسلمان مسلمان بھائی ہیں (ف ۱۵) تو اپنے  دو بھائیوں میں صلح کرو (ف ۱۶) اور اللہ سے  ڈرو کہ تم پر رحمت ہو (ف ۱۷)

۱۵               کہ آپس میں دینی رابطہ اور اسلامی محبّت کے ساتھ مربوط ہیں، یہ رشتہ تمام دنیوی رشتوں سے قوی تر ہے۔

۱۶               جب کبھی ان میں نزاع واقع ہو۔

۱۷               کیونکہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنا اور پرہیزگاری اختیار کرنا مومنین کی باہمی محبّت و مودّت کا سبب ہے اور جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ کی رحمت اس پر ہوتی ہے۔

(۱۱) اے  ایمان والو نہ مَرد مَردوں سے  ہنسیں (ف ۱۸) عجب نہیں کہ وہ ان ہنسنے  والوں سے  بہتر ہوں (ف ۱۹) اور نہ عورتیں عورتوں سے، دور نہیں کہ وہ ان ہنسے  وا لیوں سے  بہتر ہوں (ف ۲۰) اور آپس میں طعنہ نہ کرو (ف ۲۱) اور ایک دوسرے  کے  برے  نام نہ رکھو (ف ۲۲) کیا ہی برا  نام ہے  مسلمان ہو کر فاسق کہلانا (ف ۲۳)  اور  جو  توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہیں۔

۱۸               شانِ نزول : اس آیت کا نزول کئی واقعوں میں ہوا پہلا واقعہ یہ ہے کہ ثابت ا بنِ قیس بن شمّاس کو ثقلِ سماعت تھا جب وہ سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی مجلس شریف میں حاضر ہوتے تو صحابہ انہیں آگے بٹھاتے اور ان کے لئے جگہ خالی کر دیتے تاکہ وہ حضور کے قریب حاضر رہ کر کلامِ مبارک سن سکیں، ایک روز انہیں حاضری میں دیر ہو گئی اور مجلس شریف خوب بھر گئی، اس وقت ثابت آئے اور قاعدہ یہ تھا کہ جو شخص ایسے وقت آتا اور مجلس میں جگہ نہ پاتا تو جہاں ہوتا کھڑا رہتا، ثابت آئے تو وہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے قریب بیٹھنے کے لئے لوگوں کو ہٹاتے ہوئے یہ کہتے چلے کہ جگہ دو جگہ یہاں تک کہ حضور کے قریب پہنچ گئے اور انکے اور حضور کے درمیان میں صرف ایک شخص رہ گیا، انہوں نے اس سے بھی کہا کہ جگہ دو، اس نے کہا تمہیں جگہ مل گئی، بیٹھ جاؤ، ثابت غصّہ میں آ کر اس کے پیچھے بیٹھ گئے اور جب دن خوب روشن ہوا تو ثابت نے اس کا جسم دبا کر کہا کہ،کون ؟ اس نے کہا میں فلاں شخص ہوں، ثابت نے اس کی ماں کا نام لے کر کہا فلانی کا لڑکا اس پر اس شخص نے شرم سے سر جھکا لیا اور اس زمانہ میں ایسا کلمہ عار دلانے کے لئے کہا جاتا تھا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ دوسرا واقعہ ضحاک نے بیان کیا کہ یہ آیت بنی تمیم کے حق میں نازل ہوئی جو حضرت عمّار و خبّاب  و بلا ل و صہیب و سلمان و سالم وغیرہ غریب صحابہ کی غربت دیکھ کر ان کے ساتھ تمسخر کرتے تھے، ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ مرد مَردوں سے نہ ہنسیں یعنی مال دار غریبوں کی ہنسی نہ بنائیں، نہ عالی نسب غیرِ ذی نسب کی، اور نہ تندرست اپاہج کی، نہ بینا اس کی جس کی آنکھ میں عیب ہو۔

۱۹               صدق و اخلاص میں۔

۲۰               شانِ نزول : یہ آیت اُمُّ المومنین حضرت صفیہ بنت حُیَیّ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حق میں نازل ہوئی، انہیں معلوم ہوا تھا کہ اُمُّ المومنین حضرت حفصہ نے انہیں یہودی کی لڑکی کہا، اس پر انہیں رنج ہوا اور روئیں اور سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے شکایت کی تو حضور نے فرمایا کہ تم نبی زادی اور نبی کی بی بی ہو تم پر وہ کیا فخر کرتی ہیں اور حضرت حفصہ سے فرمایا اے حفصہ خدا سے ڈرو۔ (الترمذی وقال حسن صحیح غریب)

۲۱               ایک دوسرے پر عیب نہ لگاؤ، اگر ایک مومن نے دوسرے مومن پر عیب لگایا تو گویا اپنے ہی آپ کو عیب لگایا۔

۲۲               جو انہیں ناگوار معلوم ہوں۔

مسائل : حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ اگر کسی آدمی نے کسی برائی سے توبہ کر لی ہو اس کو بعدِ توبہ اس برائی سے عار دلانا بھی اس نہی میں داخل اور ممنوع ہے۔ بعض علماء نے فرمایا کہ کسی مسلمان کو کُتّا یا گدھا یا سور کہنا بھی اسی میں داخل ہے۔ بعض علماء نے فرمایا کہ اس سے وہ القاب مراد ہیں جن سے مسلمان کی برائی نکلتی ہو اور اس کو ناگوار ہو لیکن تعریف کے القاب جو سچّے ہوں ممنوع نہیں جیسے کہ حضرت ابوبکر کا لقب عتیق اور حضرت عمر کا فاروق اور حضرت عثمانِ غنی کا ذو النورین اور حضرت علی کا ابو تراب اور حضرت خالد کا سیف اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور جو القاب بمنزلۂ عَلم ہو گئے اور صاحبِ القاب کو ناگوار نہیں وہ القاب بھی ممنوع نہیں جیسے کہ اعمش،  اعرج۔

۲۳               تو اے مسلمانو کسی مسلمان کی ہنسی بنا کر یا اس کو عیب لگا کر یا اس کا نام بگاڑ کر اپنے آپ کو فاسق نہ کہلاؤ۔

(۱۲) اے  ایمان والو بہت گمانوں سے  بچو (۲۴) بیشک کوئی گمان گناہ ہو جاتا ہے   (ف ۲۵) اور عیب نہ ڈھونڈھو (ف ۲۶) اور ایک دوسرے  کی غیبت نہ کرو (ف ۲۷) کیا تم میں کوئی پسند رکھے  گا کہ اپنے  مرے  بھائی کا گوشت کھائے  تو یہ تمہیں گوارا نہ ہو گا (ف ۲۸) اور اللہ سے  ڈرو بیشک اللہ بہت توبہ قبول کرنے  والا مہربان ہے۔

۲۴               کیونکہ ہر گمان صحیح نہیں ہوتا۔

۲۵               مسئلہ : مومنِ صالح کے ساتھ بُرا گمان ممنوع ہے، اسی طرح اس کا کوئی کلام سن کر فاسد معنیٰ مراد لینا باوجود یہ کہ اس کے دوسرے صحیح معنیٰ موجود ہوں اور مسلمان کا حال ان کے موافق ہو، یہ بھی گمانِ بد میں داخل ہے۔ سفیان ثوری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا گمان دو طرح کا ہے، ایک وہ کہ دل میں آئے اور زبان سے بھی کہہ دیا جائے، یہ اگر مسلمان پر بدی کے ساتھ ہے گناہ ہے، دوسرا یہ کہ دل میں آئے اور زبان سے نہ کہا جائے، یہ اگرچہ گناہ نہیں مگر اس سے بھی دل خالی کرنا ضرور ہے۔ مسئلہ : گمان کی کئی قسمیں ہیں، ایک واجب ہے وہ اللہ کے ساتھ اچھا گمان رکھنا ایک مستحب وہ مومنِ صالح کے ساتھ نیک گمان ایک ممنوع حرام وہ اللہ کے ساتھ بُرا گمان کرنا اور مومن کے ساتھ بُرا گمان کرنا ایک جائز وہ فاسقِ معلن کے ساتھ ایسا گمان کرنا جیسے افعال اس سے ظہور میں آتے ہوں۔

۲۶               یعنی مسلمانوں کی عیب جوئی نہ کرو اور ان کے چھُپے حال کی جستجو میں نہ رہو جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی ستّاری سے چھُپایا۔ حدیث شریف میں ہے گمان سے بچو گمان بڑی جھوٹی بات ہے اور مسلمانوں کی عیب جوئی نہ کرو، ان کے ساتھ حرص و حسد، بغض، بے مروتی نہ کرو، اے اللہ تعالیٰ کے بندو بھائی بنے رہو جیسا تمہیں حکم دیا گیا، مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، اس پر ظلم نہ کرے، اس کو رسوا نہ کرے، اس کی تحقیر نہ کرے، تقویٰ یہاں ہے، تقویٰ یہاں ہے، تقویٰ یہاں ہے، ( اور یہاں کے لفظ سے اپنے سینے کی طرف اشارہ فرمایا) آدمی کے لئے یہ برائی بہت ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر دیکھے، ہر مسلمان مسلمان پر حرام ہے اس کا خون بھی، اس کی آبرو بھی، اس کا مال بھی، اللہ تعالیٰ تمہارے جسموں اور صورتوں اور عملوں پر نظر نہیں فرماتا لیکن تمہارے دلوں پر نظر فرماتا ہے۔ (بخاری و مسلم) حدیث جو بندہ دنیا میں دوسرے کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ تعالیٰ روزِ قیامت اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔

۲۷               حدیث شریف : میں ہے کہ غیبت یہ ہے کہ مسلمان بھائی کے پیٹھ پیچھے ایسی بات کہی جائے جو اسے ناگوار گذرے اگر وہ بات سچّی ہے تو غیبت ہے ورنہ بہتان۔

۲۸               تو مسلمان بھائی کی غیبت بھی گوارا نہ ہونی چاہئے کیونکہ اس کو پیٹھ پیچھے بُرا کہنا اس کے مرنے کے بعد اس کا گوشت کھانے کے مثل ہے کیونکہ جس طرح کسی کا گوشت کاٹنے سے اس کو ایذا ہوتی ہے اسی طرح اس کو بدگوئی سے قلبی تکلیف ہوتی ہے اور درحقیقت آبرو گوشت سے زیادہ پیاری ہے۔ شانِ نزول : سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم جب جہاد کے لئے روانہ ہوتے اور سفر فرماتے تو ہر دو مال داروں کے ساتھ ایک غریب مسلمان کو کر دیتے کہ وہ غریب ان کی خدمت کرے وہ اسے کھلائیں پلائیں ہر ایک کاکا م چلے اسی طرح حضرت سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ دو آدمیوں کے ساتھ کئے گئے تھے، ایک روز وہ سو گئے اور کھانا تیار نہ کر سکے تو ان دونوں نے انہیں کھانا طلب کرنے کے لئے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی خدمت میں بھیجا، حضور کے خادمِ مطبخ حضرت اُسامہ تھے رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ان کے پاس کچھ رہا نہ تھا، انہوں نے فرمایا کہ میرے پاس کچھ نہیں، حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے یہی آ کر کہہ دیا تو ان دونوں رفیقوں نے کہا کہ اُسامہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے بُخل کیا، جب وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، فرمایا میں تمہارے منہ میں گوشت کی رنگت دیکھتا ہوں، انہوں نے عرض کیا ہم نے گوشت کھایا ہی نہیں، فرمایا تم نے غیبت کی اور جو مسلمان کی غیبت کرے اس نے مسلمان کا گوشت کھایا۔ مسئلہ : غیبت بالاتفاق کبائر میں سے ہے، غیبت کرنے والے کو توبہ لازم ہے، ایک حدیث میں یہ ہے کہ غیبت کا کَفّارہ یہ ہے کہ جس کی غیبت کی ہے اس کے لئے دعائے مغفرت کرے۔

مسئلہ : فاسقِ معلِن کے عیب کا بیان غیبت نہیں، حدیث شریف میں ہے کہ فاجر کے عیب بیان کرو کہ لوگ اس سے بچیں۔

مسئلہ : حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ تین شخصوں کی حرمت نہیں ایک صاحبِ ہوا (بد مذہب)، دوسرا فاسقِ معلِن، تیسرا بادشاہ ظالم، یعنی ان کے عیوب بیان کرنا غیبت نہیں۔

(۱۳) اے  لوگو! ہم نے  تمہیں ایک مرد (ف ۲۹) اور ایک عورت (ف ۳۰) سے  پیدا کیا (ف ۳۱) اور تمہیں شاخیں اور قبیلے  کیا کہ آپس میں پہچان رکھو  (ف ۳۲) بیشک اللہ کے  یہاں تم میں زیادہ عزت والا  وہ جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے  (ف ۳۳) بیشک اللہ جاننے  والا خبردار ہے۔

۲۹               حضرت آدم علیہ السلام۔

۳۰               حضرت حوا۔

۳۱               نسب کے اس انتہائی درجہ پر جا کر تم سب کے سب مل جاتے ہو تو نسب میں تفاخر اور تفاضل کی کوئی وجہ نہیں، سب برابر ہو، ایک جدِّ اعلی کی اولاد۔

۳۲               اور ایک دوسرے کا نسب جانے اور کوئی اپنے باپ دادا کے سوا دوسرے کی طرف اپنی نسبت نہ کرے، نہ یہ کہ نسب پر فخر کرے اور دوسروں کی تحقیر کرے۔ اس کے بعد اس چیز کا بیان فرمایا جاتا ہے جو انسان کے لئے شرافت و فضیلت کا سبب اور جس سے اس کو بارگاہِ الٰہی میں عزّت حاصل ہوتی ہے۔

۳۳               اس سے معلوم ہوا کہ مدار عزّت و فضیلت کا پرہیزگاری ہے، نہ کہ نسب۔ شانِ نزول : رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے بازارِ مدینہ میں ایک حبشی غلام ملاحظہ فرمایا جو یہ کہہ رہا تھا کہ جو مجھے خریدے اس سے میری یہ شرط ہے کہ مجھے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی اقتداء میں پانچوں نمازیں ادا کرنے سے منع نہ کرے، اس غلام کو ایک شخص نے خرید لیا، پھر وہ غلام بیمار ہو گیا تو سیّدِ عالَمین صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم اس کی عیادت کے لئے تشریف لائے، پھر اس کی وفات ہو گئی اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم اس کے دفن میں تشریف لائے، اس پر لوگوں نے کچھ کہا، اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔

(۱۴)  گنوار بولے  ہم ایمان لائے  (ف ۳۴) تم فرماؤ  تم ایمان تو نہ لائے  (ف ۳۵) ہاں یوں کہوں کہ ہم مطیع ہوئے  (ف ۳۶) اور ابھی ایمان تمہارے  دلوں میں کہاں داخل ہوا  (ف ۳۷) اور اگر تم اللہ اور اس کے  رسول کی فرمانبرداری کرو گے  (ف ۳۸) تو تمہارے  کسی عمل کا تمہیں نقصان نہ دے  گا (ف ۳۹) بیشک اللہ بخشنے  والا مہربان ہے۔

۳۴               شانِ نزول : یہ آیت بنی اسد بن خزیمہ کی ایک جماعت کے حق میں نازل ہوئی جو خشک سالی کے زمانہ میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے اسلام کا اظہار کیا اور حقیقت میں وہ ایمان نہ رکھتے تھے، ان لوگوں نے مدینہ کے رستہ میں گندگیاں کیں اور وہاں کے بھاؤ گراں کر دیئے، صبح و شام رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی خدمت میں آ کر اپنے اسلام لانے کا احسان جتاتے اور کہتے ہمیں کچھ دیجئے، ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔

۳۵               صدقِ دل سے۔

۳۶               ظاہر میں۔

۳۷               مسئلہ : محض زبانی اقرار جس کے ساتھ قلبی تصدیق نہ ہو معتبر نہیں، اس سے آدمی مومن نہیں ہوتا، اطاعت و فرمانبرداری اسلام کے لغوی معنیٰ ہیں اور شرعی معنیٰ میں اسلام اور ایمان ایک ہیں کوئی فرق نہیں۔

۳۸               ظاہراً و باطناً صدق و اخلاص کے ساتھ نفاق کو چھوڑ کر۔

۳۹               تمہاری نیکیوں کا ثواب کم نہ کرے گا۔

(۱۵) ایمان والے  تو وہی ہیں جو اللہ اور اس کے  رسول پر ایمان لائے  پھر شک نہ کیا (ف ۴۰) اور اپنی جان اور مال سے  اللہ کی راہ میں جہاد کیا وہی سچے  ہیں (ف ۴۱)

۴۰               اپنے دِین و ایمان میں۔

۴۱               ایمان کے دعویٰ میں۔

 شانِ نزول : جب یہ دونوں آیتیں نازل ہوئیں تو اعراب سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے قَسمیں کھائیں کہ ہم مومنِ مخلص ہیں۔ اس پر اگلی آیت نازل ہوئی اور سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو خطاب فرمایا گیا۔

(۱۶) تم فرماؤ کیا تم اللہ کو اپنا دین بتاتے  ہو، اور اللہ جانتا ہے  جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے  (ف ۴۲) اور اللہ سب کچھ جانتا ہے  (ف ۴۳)

۴۲               اس سے کچھ مخفی نہیں۔

۴۳               مومن کا ایمان بھی اور منافق کا نفاق بھی، تمہارے بتانے اور خبر دینے کی حاجت نہیں۔

(۱۷) اے  محبوب وہ تم پر احسان جتاتے  ہیں کہ مسلمان ہو گئے، تم فرماؤ اپنے  اسلام کا احسان مجھ پر  نہ رکھو بلکہ اللہ تم پر احسان رکھتا ہے  کہ اس نے  تمہیں  اسلام کی ہدایت کی اگر تم سچے  ہو (ف ۴۴)

۴۴               اپنے دعوے میں۔

(۱۸) بیشک اللہ جانتا ہے  آسمانوں اور زمین کے  سب غیب، اور اللہ تمہارے  کام دیکھ رہا ہے  (ف ۴۵)

۴۵               اس سے تمہارا کوئی حال چھُپا نہیں، نہ ظاہر، نہ مخفی۔