تفسیر عثمانی

سُوۡرَةُ المَائدة

سورہ مائدہ مدینہ میں نازل ہوئی اور اس میں ایک سو بیس آیتیں اور سولہ رکوع ہیں

۱۔۔۔  ۱: ایمان شرعی دو چیزوں کا نام ہے صحیح معرفت اور تسلیم وانقیاد۔ یعنی خدا اور رسول کے جملہ ارشادات کو صحیح و صادق سمجھ کر تسلیم و قبول کے لئے اخلاص سے گردن جھکا دینا۔ اس تسلیمی جزء کے لحاظ سے ایمان فی الحقیقت تمام قوانین و احکام الٰہیہ کے ماننے اور جملہ حقوق ادا کرنے کا ایک مضبوط عہد و اقرار ہے گویا حق تعالیٰ کی ربوبیت کاملہ کا وہ اقرار جو عہد الست کے سلسلہ میں لیا گیا تھا جس کا نمایاں اثر انسان کی فطرت اور سرشت میں آج تک موجود ہے اسی کی تجدید و تشریح ایمان شرعی سے ہوتی ہے۔ پھر ایمان شرعی میں جو کچھ اجمالی عہد و پیمان تھا اسی کی تفصیل پورے قرآن و سنت میں دکھلائی گئی ہے۔ اس صورت میں دعویٰ ایمان کا مطلب یہ ہوا کہ بندہ تمام احکام الٰہیہ میں خواہ ان کا تعلق براہ راست خدا سے ہو یا بندوں سے جسمانی تربیت سے ہو یا روحانی اصلاح سے دنیاوی مفاد سے ہو یا اخروی فلاح سے شخصی زندگی سے ہو یا حیات اجتماعی سے، صلح سے ہو یا جنگ سے، اس کا عہد کرتا ہے کہ ہر نہج سے اپنے مالک کا وفادار رہے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم جو عہد و پیمان اسلام، جہاد، سمع و طاعت، یا دوسرے عمدہ خصال اور امور خیر کے متعلق صحابہ سے بشکل بیعت لیتے تھے وہ اسی عہد ایمانی کی ایک مخصوص صورت تھی۔ اور چونکہ ایمان کے ضمن میں بندہ کو حق تعالیٰ کے جلال و جبروت کی صحیح معرفت اور اس کی شان انصاف و انتقام اور وعدوں کی سچائی کا پورا پورا یقین بھی حاصل ہو چکا ہے، اس کا مقتضا یہ ہے کہ وہ بد عہدی اور غداری کے مہلک عواقب سے ڈر کر اپنے تمام عہدوں کو جو خدا سے یا بندوں سے یا خود اپنے نفس سے کئے ہوں اس طرح پورا کرے کہ مالک حقیقی کی وفاداری میں کوئی فرق نہ آنے پائے۔ اس تقریر کے موافق عقود (عہدوں) کی تفسیر میں جو مختلف چیزیں سلف سے منقول ہیں ان سب میں تطبیق ہو جاتی ہے اور آیت میں ایمان والو کے لفظ سے خطاب فرمانے کا لطف مزید حاصل ہوتا ہے۔

۲: سورہ نساء میں گزر چکا ہے کہ یہود کو ظلم وبدعہدی کی سزا میں بعض حلال و طیب چیزوں سے محروم کر دیا گیا تھا۔ فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ ھَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَیْھِمْ طَیِبٰتٍ (نسآء رکوع ۲۲'آیت نمبر ۱۶۰) جن کی تفصیل  سورہ انعام میں ہے اس امت مرحومہ کو ایفائے عہد کی ہدایت کے ساتھ ان چیزوں سے بھی منتفع ہونے کی اجازت دے دی گئی۔ یعنی اونٹ، گائے، بھیڑ، بکری، اور اسی جنس کے تمام اہلی اور وحشی (پالتو اور جنگلی) چوپائے مثلاً ہرن، نیل گائے وغیرہ تمہارے لیے ہر حالت میں حلال کئے گئے، بجز ان حیوانات یا حالات کے جن کے متعلق حق تعالیٰ نے قرآن کریم میں یا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زبانی تمہارے جسمانی یا روحانی یا اخلاقی مصلحت کے لئے ممانعت فرما دی ہے۔

۳: غالباً اس سے مراد وہ چیزیں ہیں جو اسی رکوع کی تیسری آیت میں بیان کی گئی ہیں۔ یعنی حرمت علیکم المیتۃ  سے ذلکم فسق تک۔

۴: محرم کو صرف خشکی کے جانور کا شکار جائز نہیں دریائی شکار کی اجازت ہے۔ اور جب حالت احرام کی رعایت اس قدر ہے کہ اس میں شکار کرنا ممنوع ٹھرا تو خود حرم شریف کی حرمت کا لحاظ اس سے کہیں زیادہ ہونا چاہئے۔ یعنی حرم کے جانور کا شکار محرم و غیر محرم سب کے لئے حرام ہو گا جیسا کہ لا تحلوا شعائر اللہ کے عموم سے مترشح ہوتا ہے۔

۵:  جس خدا نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا پھر کمال حکمت سے ان میں باہم فرق مراتب رکھا ہر نوع میں اس کی استعداد کے موافق جدا جدا فطری خواص و قویٰ ودیعت کئے۔ زندگی اور موت کی مختلف صورتیں تجویز کیں بلاشبہ اسی خدا کو اپنی مخلوقات میں یہ حق حاصل ہے کہ اپنے اختیار کامل علم محیط اور حکمت بالغہ کے اقتضا سے جس چیز کو جس کسی کے لئے جن حالات میں چاہے حلال یا حرام کر دے لا یسئل عما یفعل و ھم یسئلون۔

۲۔۔۔   ۱: یعنی جو چیزیں حق تعالیٰ کی عظمت و معبودیت کے لئے علامات اور نشانات خاص قرار دی گئی ہیں ان کی بے حرمتی مت کرو۔ ان میں حرم، محترم بیت اللہ شریف، جمرات، صفا و مروہ، ہدی، احرام، مساجد، کتب سماویہ وغیرہ تمامی حدود و فرائض اور احکام دینیہ شامل ہیں۔ آگے ان نشانیوں میں سے بعض مخصوص چیزوں کو جو مناسک سے متعلق ہیں ذکر فرماتے ہیں جیسا کہ اس سے پہلی آیت میں بھی محرم کے بعض احکام ذکر کئے گئے تھے۔

۲:  ادب والے مہینے چار ہیں منھا اربعۃ حرم (توبہ رکوع۵) ذوالقعدہ، ذی الحجہ، محرم، رجب ان کی تعظیم و احترام یہ ہے کہ دوسرے مہینوں سے بڑھ کر ان میں نیکی اور تقویٰ کو لازم پکڑے اور شرو فساد سے بچنے کا اہتمام کیا جائے خصوصاً حجاج کو ستا کر اور دق کر کے حج بیت اللہ سے نہ روکا جائے۔ گویا یہ امور سال کے بارہ مہینوں میں واجب العمل ہیں لیکن ان محترم مہینوں میں بالخصوص بہت زیادہ مؤکد قرار دیے گئے۔ باقی دشمنان اسلام کے مقابلہ میں ہاجمانہ اقدام ہو تو جمہور کا مذہب یہ ہی ہے بلکہ ابن جریر نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ اس کی ان مہینوں میں ممانعت نہیں رہی اس کا بیان سورہ توبہ میں آئے گا۔ انشاء اللہ

۳: قلائد قلادہ کی جمع ہے جس سے مراد وہ ہار یا پٹا ہے جو ہدی کے جانور کے گلے میں نشان کے طور پر ڈالتے تھے تاکہ ہدی کا جانور سمجھ کر اس سے تعرض نہ کیا جائے اور دیکھنے والوں کو اسی جیسا عمل کرنے کی ترغیب بھی ہو قرآن کریم نے ان چیزوں کی تعظیم و حرمت کو باقی رکھا اور ہدی یا اس کی علامات سے تعرض کرنے کو ممنوع قرار دیا۔

۴:  بظاہر یہ شان صرف مسلمانوں کی ہے۔ یعنی جو مخلص مسلمان حج و عمرہ کے لئے جائیں ان کی تعظیم و احترام کرو۔ اور ان کی راہ میں روڑے مت اٹکاؤ اور جو مشرکین حج بیت اللہ کے لئے آتے تھے اگر وہ بھی اس آیت کے عموم میں داخل ہوں کیونکہ وہ بھی اپنے زعم اور عقیدہ کے موافق خدا کے فضل و قرب اور خوشنودی کے طالب ہوتے تھے تو کہنا پڑے گا کہ یہ حکم اس وقت سے پہلے کا ہے جب کہ اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِھِمْ ھٰذَا کی منادی کرائی گئی۔

۵: یعنی حالت احرام میں شکار کی جو ممانعت کی گئی تھی وہ احرام کھول دینے کے بعد باقی نہیں رہی۔

۶:  پچھلی آیت میں جن شعائر کو حق تعالیٰ نے معظم و محترم قرار دیا تھا ۶ھ ہجری میں مشرکین مکہ نے ان سب کی اہانت کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور تقریباً ڈیڑھ ہزار صحابہ ماہ ذیقعدہ میں محض عمرہ ادا کرنے کیلئے مدینہ طیبہ سے روانہ ہوئے حدیبیہ کے مقام پر پہنچ کر مشرکین نے اس مذہبی وظیفہ کی بجا آوری سے روک دیا نہ حالت احرام کا خیال کیا نہ کعبہ کی حرمت کا نہ محترم مہینہ کا نہ ہدی و قلائد کا، مسلمان شعائر اللہ کی اس توہین اور مذہبی فرائض سے روک دیے جانے پر ایسی ظالم اور وحشی قوم کے مقابلہ میں جس قدر بھی غیظ و غضب اور بغض و عداوت کا اظہار کرتے وہ حق بجانب تھے اور جوش انتقام سے برافروختہ ہو کر جو کاروائی بھی کر بیٹھتے وہ ممکن تھی۔ لیکن اسلام کی محبت و عداوت دونوں جچی تلی ہیں۔ قرآن کریم نے ایسے جابر و ظالم دشمن کے مقابلہ پر بھی اپنے جذبات کو قابو میں رکھنے کا حکم دیا۔ عموماً آدمی زیادہ محبت یا زیادہ عداوت کے جوش میں حد سے گزر جاتا ہے۔ اس لئے فرمایا کہ سخت سے سخت دشمنی تمہارے لئے اس کا باعث نہ ہو کہ تم زیادتی کر بیٹھو اور عدل و انصاف کو ہاتھ سے چھوڑ دو۔

۷:  اگر کوئی شخص بالفرض جوش انتقام میں زیادتی کر بیٹھے تو اس کے روکنے کی تدبیر یہ ہے کہ جماعت اسلام اس کے ظلم و عدوان کی اعانت نہ کرے۔ بلکہ سب مل کر نیکی اور پرہیزگاری کا مظاہرہ کریں اور اشخاص کی زیادتیوں اور بے اعتدالیوں کو روکیں۔

۸:  یعنی حق پرستی، انصاف پسندی اور تمام عمدہ اخلاق کی جڑ خدا کا خوف ہے اور اگر خدا سے ڈر کر نیکی سے تعاون اور بدی سے ترک تعاون نہ کیا تو عام عذاب کا اندیشہ ہے۔

۳۔۔۔ ۱: اس آیت سے جن چیزوں کا کھانا حرام ہوا ان میں اول میۃ (مردار جانور) ہے جو واجب الذبح جانور ذبح کئے بدون خود اپنی موت سے مر جائے اس کا خون اور حرارت غلیظ یہ گوشت ہی میں محتقن اور جذب ہو کر رہ جاتی ہے جس کی سمیت اور گندگی سے کئی قسم کے بدنی اور دینی مضار لاحق ہوتے ہیں (ابن کثیر) شاید اسی تعلیل پر متنبہ فرمانے کے لئے میۃ (مردہ جانور) کے بعد دم (خون) کی حرمت مذکور ہوئی اس کے بعد حیوانات کی ایک خاص نوع (خنزیر) کی تحریم کا ذکر کیا۔ جس کی بے انتہا نجاست خوری اور بے حیائی مشہور عام ہے شاید اسی لئے شریعت حقہ نے دم (خون) کی طرح اس کو نجس العین قرار دیا ان تین چیزوں کے ذکر کے بعد جن کی ذوات میں مادی گندگی اور خباثت پائی جاتی تھی، محرمات کی ایک اور قسم کا ذکر فرمایا یعنی وہ جانور جو اپنی ذات کے اعتبار سے حلال و طیب ہے، مگر مالک حقیقی کے سوا کسی اور کی نیاز کے طور پر نامزد کر دیا گیا ہو اس کا کھانا بھی نیت کی خباثت اور عقیدہ کی گندگی کی بنا پر حرام ہے۔ کسی جاندار کی جان صرف اسی مالک و خالق کے حکم اور نام پر لی جا سکتی ہے جس کے حکم اور ارادہ سے اس پر موت و حیات طاری ہوتی ہے۔ باقی مُنْخَنِقَہ وغیرہ غیر مذبوح جانور سب میۃ کے حکم میں داخل ہیں جیسا کہ مَاذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ، مَااُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللہ کے ساتھ ملحق ہے۔ جاہلیت میں ان سب چیزوں کے کھانے کی عادت تھی اس لئے اس قدر تفصیل سے ان کا بیان فرمایا۔

۲:  یعنی بہتا ہوا خون اَوْدَماً مَّسَفُوحاً (انعام رکوع ۱۸)

۳: تھوڑا سا پہلے ہدی کے ادب و احترام کا ذکر فرمایا تھا یعنی وہ جانور جو تقرب الی اللہ کی غرض سے خدائے واحد کی سب سے پہلی عبادت گاہ کی نیاز کے طور پر ذبح کیا جاتا ہے اس کے بالمقابل اس جانور کا بیان فرمانا جسے خدا کے سوا کسی دوسرے کے نام پر یا خانہ خدا کے سوا کسی دوسرے مکان کی تعظیم کے لئے ذبح کیا جائے (موضح القرآن) اس دوسری صورت میں بھی فی الحقیقت نیت نذر غیر اللہ ہی کی ہوتی ہے گو ذبح کے وقت زبان سے بسم اللہ اللہ اکبر کہا جائے۔ اس تقریر کے موافق ما اھل بہ لغیر اللہ  اور ما ذبح علی النصب  کا فرق واضح ہو گیا (ابن کثیر)

۴: بعض مفسرین نے ازلام سے تقسیم کے تیر مراد لئے ہیں جو زمانہ جاہلیت میں لحم ذبیحہ وغیرہ کے بانٹنے میں استعمال ہوتے تھے اور وہ ایک صورت قمار (جوئے) کی تھی جیسے آجکل چٹھی ڈالنے کی رسم ہے لیکن حافظ عماد الدین ابن کثیر وغیرہ محققین کے نزدیک راجح یہ ہے کہ ازلام سے مراد وہ تیر ہیں جن سے مشرکین مکہ کسی اشکال اور تردد کے وقت اپنے ارادوں اور کاموں کا فیصلہ کرتے تھے یہ تیر خانہ کعبہ میں قریش کے سب سے بڑے بت ہبل کے پاس رکھتے تھے۔ ان میں سے کسی پر امرنی ربی، لکھا تھا (میرے پروردگار نے حکم دیا) کسی پر نھانی ربی اسی طرح ہر تیر پر یوں ہی اٹکل پچو باتیں لکھ چھوڑی تھیں۔ جب کسی کام میں تذبذب ہوا تو تیر نکال کر دیکھ لئے۔ اگر امرنی ربی والا تیر نکل آیا تو کام شروع کر دیا اور اس کے خلاف نکلا تو رک گئے و علیٰ ہذا القیاس گویا بتوں سے یہ ایک قسم کا مشورہ اور استعانت تھی۔ چونکہ اس رسم کا مبنیٰ خالص جہل، شرک، اوہام پرستی اور افتراء علی اللہ پر تھا اس لئے قرآن کریم نے متعدد مواقع میں نہایت تغلیظ و تشدید کے ساتھ اس کی حرمت کو ظاہر فرمایا ہے اس تقریر کے موافق ازلام کا ذکر نصب کی مناسبت سے ہوا اور مردار، خون، خنزیر وغیرہ نہایت ہی خبیث اور گندی چیزوں کی تحریم کے سلسلہ میں منسلک کر کے بتلا دیا کہ اس کی معنوی اور اعتقادی نجاست و خباثت ان چیزوں سے کم نہیں جیسا کہ ایک دوسری آیت میں رجس کے اطلاق سے ظاہر ہوتا ہے۔

۵: یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب کہ زندگی کے ہر شعبہ اور علوم ہدایت کے ہر باب کے متعلق اصول و قواعد ایسی طرح ممہد ہو چکے تھے اور فروع و جزئیات کا بیان بھی اتنی کافی تفصیل اور جامعیت سے کیا جا چکا تھا کہ پیروان اسلام کے لئے قیامت تک قانون الٰہی کے سوا کوئی دوسرا قانون قابل التفات نہیں رہا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی تربیت سے ہزاروں سے متجاوز خدا پرست، جانباز اور سرفروش ہادیوں اور معلموں کی ایسی عظیم الشان جماعت تیار ہو چکی تھی جس کو قرآنی تعلیم کا مجسم نمونہ کہا جا سکتا تھا مکہ معظمہ فتح ہو چکا تھا صحابہ رضی اللہ عنہم کامل وفاداری کے ساتھ خدا سے عہد و پیمان پورے کر رہے تھے نہایت گندی غذائیں اور مردار کھانے والی قوم مادی اور روحانی طیبات کے ذائقہ سے لذت اندوز ہو رہی تھی۔ شعائر الٰہیہ کا ادب و احترام قلوب میں راسخ ہو چکا تھا۔ ظنون و اوہام اور انصاب و ازلام کا تار و پود بکھر چکا تھا۔ شیطان جزیرۃ العرب کی طرف سے ہمیشہ کے لئے مایوس کر دیا گیا تھا کہ دوبارہ وہاں اس کی پرستش ہو سکے ان حالات میں ارشاد ہوا الیوم یئس الذین کفروا من دینکم فلا تخشو ھم واخشون۔ یعنی آج کفار اس بات سے مایوس ہو گئے ہیں کہ تم کو تمہارے دین قیم سے ہٹا کر پھر انصاب و ازلام وغیرہ کی طرف لے جائیں یا دین اسلام کو مغلوب کر لینے کی توقعات باندھیں یا احکام دینیہ میں کسی تحریف و تبدیل کی امید قائم کر سکیں آج تم کو کامل و مکمل مذہب مل چکا جس میں کسی ترمیم کا آئندہ امکان نہیں خدا کا انعام تم پر پورا ہو چکا جس کے بعد تمہاری جانب سے اس کے ضائع کر دینے کا کوئی اندیشہ نہیں۔ خدا نے ابدی طور پر اسی دین اسلام کو تمہارے لئے پسند کر لیا اس لئے اب کسی ناسخ کے آنے کا بھی احتمال نہیں۔ ایسے حالات میں تم کو کفار سے خوف کھانے کی کوئی وجہ نہیں وہ تمہارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔ البتہ اس محسن جلیل اور منعم حقیقی کی ناراضی سے ہمیشہ ڈرتے رہو جس کے ہاتھ میں تمہاری ساری نجاح و فلاح اور کل سود و زیاں ہے۔ گویا فلا تخشو ھم واخشون  میں اس پر متنبہ فرما دیا کہ آئندہ مسلم قوم کو کفار سے اس وقت تک کوئی اندیشہ نہیں جب تک ان میں خشیت الٰہی اور تقویٰ کی شان موجود رہے۔

۶:  یعنی اس کے اخبار و قصص میں پوری سچائی بیان میں پوری تاثیر اور قوانین و احکام میں پورا توسط و اعتدال موجود ہے۔ جو حقائق کتب سابقہ اور دوسرے ادیان سماویہ میں محدود و ناتمام تھے ان کی تکمیل و تعمیم اس دین قیم سے کر دی گئی۔ قرآن و سنت نے حلتو حرمت وغیرہ کے متعلق تنصیصاً یا تعلیلاً جو احکام دیے ان کا اظہار و ایضاح تو ہمیشہ ہوتا رہے گا لیکن اضافہ یا ترمیم کی مطلق گنجائش نہیں چھوڑی۔

۷:  سب سے بڑا احسان تو یہ ہی ہے کہ اسلام جیسا مکمل اور ابدی قانون اور خاتم الانبیاء جیسا نبی تم کو مرحمت فرمایا۔ مزید برآں اطاعت اور استقامت کی توفیق بخشی۔ روحانی غذاؤں اور دنیاوی نعمتوں کا دستر خوان تمہارے لئے بچھا دیا، حفاظت قرآن، غلبہ اسلام اور اصلاح عالم کا سامان مہیا فرما دیا۔

۸: یعنی اس عالمگیر اور مکمل دین کے بعد اب کسی اور دین کا انتظار کرنا سفاہت ہے اسلام جو تفویض و تسلیم کا مترادف ہے اس کے سوا مقبولیت اور نجات کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں (تنبیہ) اس آیت  الیوم اکملت لکم دینکم الخ کا نازل فرمانا بھی منجملہ نعمائے عظیمہ کے لیے ایک نعمت ہے۔ اسی لئے بعض یہود نے حضرت عمر رضی اللہ عنہم سے عرض کیا کہ امیر المومنین! اگر یہ آیت ہم پر نازل کی جاتی تو ہم اس کے یوم نزول کو عید منایا کرتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہم نے فرمایا تجھے معلوم نہیں کہ جس روز یہ ہم پر نازل کی گئی مسلمانوں کی دو عیدیں جمع ہو گئی تھیں۔ یہ آیت ۱۰ ہجری میں حجۃ الوداع کے موقع پر عرفہ کے روز جمعہ کے دن عصر کے وقت نازل ہوئی جب کہ میدان عرفات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی اونٹنی کے گرد چالیس ہزار سے زائد اًتقیا و ابرار رضی اللہ عنہم کا مجمع کثیر تھا۔ اس کے بعد صرف اکیاسی روز حضور اس دنیا میں جلوہ افروز رہے۔

۹: یعنی حلال و حرام کا قانون تو مکمل ہو چکا اس میں اب کوئی تغیر و تبدل نہیں ہو سکتا البتہ مضطر جو بھوک پیاس کی شدت سے بیتاب اور لاچار ہو وہ اگر حرام چیز کھا پی کر جان بچا لے بشرطیکہ مقدار ضرورت سے تجاوز نہ کرے اور لذت مقصود نہ ہو (غیر باغ ولا عاد) تو حق تعالیٰ اس تناول محرم کو اپنی بخشش اور مہربانی سے معاف فرما دے گا۔ گویا وہ چیز تو حرام ہی رہی مگر اسے کھا پی کر جان بچانے والا خدا کے نزدیک مجرم نہ رہا یہ بھی اتمام نعمت کا ایک شعبہ ہے۔

۴۔۔۔  ۱: پچھلی آیات میں بہت سی حرام چیزوں کی فہرست دی گئی تو قدرتی طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ حلال چیزیں کیا کیا ہیں؟ اس کا جواب دے دیا کہ حلال کا دائرہ تو بہت وسیع ہے۔ چند چیزوں کو چھوڑ کر جن میں کوئی دینی یا بدنی نقصان تھا دنیا کی تمام ستھری اور پاکیزہ چیزیں حلال ہی ہیں اور چونکہ شکاری جانور سے شکار کرنے کے متعلق بعض لوگوں نے خصوصیت سے سوال کیا تھا۔ اس لئے آیت کے اگلے حصہ میں اس کو تفصیلاً بتلا دیا گیا۔

۲:  شکاری کتے یا باز وغیرہ سے شکار کیا ہوا جانور ان شروط سے حلال ہے (۱) شکاری جانور سدھا ہوا ہو (۲) شکار پر چھوڑا جائے (۳) اسے اس طریقہ سے تعلیم دی گئی ہو جس کو شریعت نے معتبر رکھا ہے یعنی کتے کو سکھلایا جائے کہ شکار کو پکڑ کر کھائے نہیں اور باز کو یہ تعلیم دی جائے کہ جب اس کو بلاؤ گو شکار کے پیچھے جا رہا ہو فوراً چلا آئے۔ اگر کتا شکار کو خود کھانے لگے یا باز بلانے سے نہ آئے تو سمجھا جائے گا کہ جب اس کے کہنے میں نہیں تو شکار بھی اس کے لئے نہیں پکڑا بلکہ اپنے لئے پکڑا ہے۔ اسی کو حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ جب اس نے آدمی کی تعلیم سیکھی تو گویا آدمی نے ذبح کیا  (۴) چھوڑنے کے وقت اللہ کا نام لو یعنی بسم اللہ کہہ کر چھوڑو۔ ان چار شرطوں کی تصریح تو نص قرآنی میں ہو گئی۔ (۵) شرط جو امام ابو حنیفہ کے نزدیک معتبر ہے کہ شکاری جانور اگرچہ شکار کو زخمی بھی کر دے کہ خون بہنے لگے۔ اس کی طرف لفظ جوارح اپنے مادہ جرح کے اعتبار سے مشعر ہے۔ ان میں سے اگر ایک شرط بھی مفقود ہوئی تو شکاری جانور کا مارا ہوا شکار حرام ہے۔ ہاں اگر مرا نہ ہوا اور ذبح کر لیا جائے تو وما اکل السبع الا ماذکیتم کے قاعدہ سے حلال ہو گا۔

۳: یعنی ہر حالت میں خدا سے ڈرتے رہو، کہیں طیبات کے استعمال اور شکار وغیرہ سے منتفع ہونے میں حدودو قیود شرعیہ سے تجاوز نہ ہو جائے۔ عموماً آدمی دنیاوی لذتوں میں منہمک ہو کر اور شکار وغیرہ مشاغل میں پڑ کر خدا اور آخرت سے غافل ہو جاتا ہے اس لئے تنبیہ کی ضرورت تھی کہ خدا کو مت بھولو اور یاد رکھو کہ حساب ہونے والا ہے۔

۵۔۔۔ ۱: یعنی جیسے آج دین کامل تم کو دیا گیا دنیا کی تمام پاکیزہ نعمتیں بھی تمہارے لئے دائمی طور پر حلال کر دی گئیں جو کبھی منسوخ نہ ہوں گی۔

۲: یہاں طعام (کھانے) سے مراد ذبیحہ ہے یعنی کوئی یہودی یا نصرانی (بشرطیکہ اسلام سے مرتد ہو کر یہودی یا نصرانی نہ بنا ہو) اگر حلال جانور ذبح کرتے وقت غیر اللہ کا نام نہ لے تو اس کا کھانا مسلمان کو حلال ہے مرتد کے احکام جدا گانہ ہیں۔

۳: اس مقام پر اس کا ذکر بطور مجازات و مکانات کے استطراداً فرما دیا۔ یعنی بعض احادیث میں جو آیا ہے لَا یَاْ کُلُ طَعَامَکَ اِلاَّ تَقِیٌّ (تیرا کھانا نہ کھائے مگر پرہیز گار) اس کا مطلب یہ نہیں کہ غیر پرہیز گارورں کے لئے تمام کھانا حرام ہے۔ جب مسلمان کے لئے کافر کتابی کے ذبیحہ کی اجازت ہو گئی تو ایک موحد مسلم کا ذبیحہ اور کھانا دوسروں کیلئے کیوں حرام ہو گا۔

۴: پاک دامن کی قید شاید ترغیب کے لئے ہو یعنی ایک مسلمان کو چاہیے کہ نکاح کرتے وقت پہلی نظر عورت کی عفت اور پاک دامنی پر ڈالے۔ یہ مطلب نہیں کہ پاک دامن کے سوا کسی اور سے نکاح صحیح نہیں ہو گا۔

۵: اہل کتاب کے ایک مخصوص حکم کے ساتھ دوسرا مخصوص حکم بھی بیان فرما دیا۔ یعنی یہ کہ کتابی عورت سے نکاح کرنا شریعت میں جائز ہے۔ مشرکہ سے اجازت نہیں وَلَا تَنْکِحُو ا الْمُشْرِکَاتِ حَتَّی یُوْ مِنَّ (بقرہ رکوع ۲۷'آیت۔ ۲۲۱) مگر یہ یاد رہے کہ ہمارے زمانہ کے نصاریٰ عموماً برائے نام نصاریٰ ہیں ان میں بکثرت وہ ہیں جو نہ کسی کتاب آسمانی کے قائل ہیں نہ مذہب کے نہ خدا کے، ان پر اہل کتاب کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا ان کے ذبیحہ اور نساء کا حکم اہل کتاب کا سا نہ ہو گا نیز یہ ملحوظ رہے کہ کسی چیز کے حلال ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس میں فی حد ذاتہ کوئی وجہ تحریم کی نہیں۔ لیکن اگر خارجی اثرات و حالات ایسے ہوں کہ اس حلال سے منتفع ہونے میں بہت سے حرام کا ارتکاب کرنا پڑتا ہے بلکہ کفر میں مبتلا ہونے کا احتمال ہو تو ایسے حلال سے انتفاع کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ موجودہ زمانہ میں یہود نصاریٰ کے ساتھ کھانا پینا بے ضرورت اختلاط کرنا، ان کی عورتوں کے جال میں پھنسنا، یہ چیزیں جو خطرناک نتائج پیدا کرتی ہیں وہ مخفی نہیں۔ لہٰذا بدی اور بد دینی کے اسباب و ذرائع سے اجتناب ہی کرنا چاہئے۔

۶: یعنی قید نکاح میں لانے کو۔ گویا اس طرف اشارہ ہو گیا کہ نکاح بظاہر قید ہے لیکن یہ قید ان آزادیوں اور ہوس رانیوں سے بہتر ہے جن کی طلب میں انسان نما بہائم سلسلہ ازدواج ہی کو معدوم کر دینا چاہتے ہیں۔

۷: جس طرح پہلے عورت کی پاکدامنی کا ذکر کیا تھا، یہاں مرد کو پاک باز اور عفیف رہنے کی ہدایت فرما دی وَالطَّیِّبَاتُ لِلطَّیِّبِیْنَ وَالطَّیِّبُونَ لِلطَّیِّبَاتِ ( رکوع۳'آیت۔ ۲۶) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حق تعالیٰ کی نظر میں نکاح کی غرض گوہر عصمت کو محفوظ اور مقصد تزویج کو پورا کرنا ہے شہوت رانی اور ہوا پرستی مقصود نہیں۔

۸: جن کتابی عورتوں سے نکاح کی اجازت ہوئی اس کا فائدہ یہ ہونا چاہیے کہ مومن قانت کی حقانیت عورت کے دل میں گھر کر جائے۔ نہ یہ کہ کتابیات پر مفتون ہو کر الٹا اپنی متاع ایمانی ہی کو گنوا بیٹھے اور خسر الدنیا و الاخرہ کا مصداق ہو کر رہ جائے۔ چونکہ کافر عورت سے نکاح کرنے میں اس فتنہ کا قوی احتمال ہو سکتا ہے اس لئے ومن یکفر بالایمان فقد حبط عملہ کی تہدید نہایت ہی برمحل ہے یہ میرا خیال ہے۔ باقی حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ اہل کتاب کو کفار سے دو حکم میں مخصوص کیا یہ فقط دنیا میں ہے اور آخرت میں ہر کافر خراب ہے اگر عمل نیک بھی کرے تو قبول نہیں۔

۶۔۔۔    ۱: امت محمدیہ پر جو عظیم الشان احسانات کئے گئے ان کا بیان سن کر ایک شریف اور حق شناس مومن کا دل شکر گزاری اور اظہار وفاداری کے جذبات سے لبریز ہو جائے گا اور فطری طور پر اس کی یہ خواہش ہو گی کہ اس منعم حقیقی کی بارگاہ رفیع میں دست بستہ حاضر ہو کر جبین نیاز خم کرے اور اپنی غلامانہ منت پذیری اور انتہائی عبودیت کا عملی ثبوت دے۔ اس لئے ارشاد ہوا کہ جب ہمارے دربار میں حاضری کا ارادہ کرو یعنی نماز کے لئے اٹھو تو پاک و صاف ہو کر آؤ۔ جن لذائذ دینوی اور مرغوبات طبیعی سے متمتع ہونے کی آیت وضو سے پہلی آیت میں اجازت دی گئی (یعنی طیبات اور محصنات) وہ ایک حد تک انسان کو ملکوتی صفات سے دور اور بہیمیت سے نزدیک کرنے والی چیزیں ہیں اور کل احداث (موجبات وضو و غسل) ان ہی کے استعمال سے لازمی نتیجہ کے طور پر پیدا ہوتے ہیں۔ لہٰذا مرغوبات نفسانی سے یکسو ہو کر جب ہماری طرف آنے کا قصد کرو تو پہلے بہیمیت کے اثرات اور اکل و شرب وغیرہ کے پیدا کئے ہوئے تکدرات سے پاک ہو جاؤ یہ پاکی وضو اور غسل سے حاصل ہوتی ہے۔ نہ صرف یہ کہ وضو کرنے سے مومن کا بدن پاک و صاف ہو جاتا ہے بلکہ جب وضو باقاعدہ کیا جائے تو پانی کے قطرات کے ساتھ گناہ بھی جھڑتے جاتے ہیں۔

۲: یعنی سو کر اٹھو یا دنیا کے مشاغل چھوڑ کر نماز کے لئے اٹھ کھڑے ہو تو پہلے وضو کر لو لیکن وضو کرنا ضروری اس وقت ہے جب کہ پیشتر سے با وضو نہ ہو۔ آیت کے آخر میں ان احکام کی جو غرض و غایت ولکن یرید لیطھر کم سے بیان فرمائی ہے اس سے معلوم ہو گیا کہ ہاتھ منہ دھونے وغیرہ کا وجوب اسی لئے ہے کہ حق تعالیٰ تم کو پاک کر کے اپنے دربار میں جگہ دے۔ اگر یہ پاکی پہلے سے حاصل ہے اور کوئی ناقص وضو پیش نہیں آیا تو پاک کو پاک کرنے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ اس کو ضروری قرار دینے سے امت حرج میں پڑتی ہے جس کی نفی مایرید اللہ لیجعل علیکم من حرج میں کی گئی۔ ہاں مزید نظافت، نورانیت اور نشاط حاصل کرنے کے لئے اگر تازہ وضو کر لیا جائے تو مستحب ہو گا۔ شاید اسی لئے اذا قمتم الی الصلٰو ۃِ فاغسلوا وجوھکم الآیہ میں سطح کلام کی ایسی رکھی ہے جس سے ہر مرتبہ نماز کی طرف جانے کے وقت تازہ وضو کی ترغیب ہوتی ہے۔

۳:  یعنی تر ہاتھ سر پر پھیر لو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے مدت العمر میں مقدار ناصیہ سے کم کا مسح ثابت نہیں ہوتا مقدار ناصیہ چوتھائی سر کے قریب ہے۔ ابو حنیفہ اس قدر مسح کو فرض کہتے ہیں۔ باقی اختلافات اور دلائل کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔

۴: مترجم محقق نے پاؤں کے بعد لفظ کو نہ لکھ کر نہایت لطیف اشارہ فرما دیا کہ ارجلکم کا عطف مغسولات پر ہے یعنی جس طرح منہ، ہاتھ دھونے کا حکم ہے، پاؤں بھی ٹخنوں تک دھونے چاہئیں سر کی طرح مسح کافی نہیں چنانچہ اہلسنت والجماعت کا اس پر اجماع ہے اور احادیث کثیرہ سے یہ ہی ثابت ہوتا ہے کہ اگر پاؤں میں موزے نہ ہوں تو دھونا فرض ہے۔ ہاں موزوں پر ان شرائط کے موافق جو کتب فقہ میں مذکور ہیں مقیم ایک دن رات اور مسافر تین دن تک مسح کر سکتا ہے۔

۵: یعنی جنابت سے پاک ہونے میں صرف اعضائے اربعہ کا دھونا اور مسح کرنا کافی نہیں۔ سطح بدن کے جس حصہ تک پانی بدون تضرر کے پہنچ سکتا ہو وہاں تک پہنچانا ضروری ہے اسی لئے حنفیہ غسل میں مضمضہ اور استنشاق (کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا) کو بھی ضروری کہتے ہیں وضو میں ضروری نہیں سنت ہے۔

۶: یعنی مرض کی وجہ سے پانی کا استعمال مضر ہو یا سفر میں پانی بقدر کفایت نہ ملے یا مثلاً کوئی قضائے حاجت کر کے آیا اور وضو کی ضرورت ہے یا جنابت کی وجہ سے غسل ناگزیر ہے مگر پانی کے حاصل کرنے یا استعمال کرنے پر کسی وجہ سے قادر نہیں تو ان صورتوں میں وضو یا غسل کی جگہ تیمم کر لے۔ وضو اور غسل دونوں کے تیمم کی مشروعیت سے جو غرض ہے وہ بہر صورت یکساں طور پر حاصل ہوتی ہے تیمم کے اسرار و مسائل اور اس آیت کے فوائد سورہ نسآء کے ساتویں رکوع میں مفصل گزر چکے۔ (تنبیہ) مترجم محقق قدس سرہ نے لَمَسْتُمُ النِّسَآئَ کا جو ترجمہ کیا ہے (پاس گئے ہو عورتوں کے) وہ محاورہ کے اعتبار سے حالت جنابت ہی پر دلالت کرتا ہے۔ یہ ترجمہ ابن عباس اور ابو موسیٰ اشعری کی تفسیر کے موافق ہے جسے ابن مسعود نے بھی سکوتاً تسلیم کیا ہے (کمافی البخاری) نیز مترجم علام نے فَتَیَمَّمُوْا  کے ترجمہ میں قصد کرو کہہ کر اشارہ فرما دیا کہ اصل لغت کے اعتبار سے تیمم کے معنی میں قصد معتبر ہے۔ اور اس لغوی معنی کی مناسبت کا خیال رکھتے ہوئے تیمم شرعی میں بھی قصد یعنی نیت کو علماء نے ضروری قرار دیا ہے۔

۷:  اس لئے جو احداث کثیر الوقوع تھے ان میں سارے جسم کا دھونا ضروری نہ رکھا صرف اور اعضاء (منہ، ہاتھ، پاؤں، سر) جن کو اکثر بلادِ متمدنہ کے رہنے والے عموماً کھلا رکھنے میں مضائقہ نہیں سمجھتے ان کا دھونا اور مسح کرنا ضروری بتلایا تاکہ کوئی تنگی اور دقت نہ ہو۔ ہاں حدث اکبر بمعنی جنابت جو احیاناً پیش آتی ہے اور اس حالت میں نفس کو ملکوتی خصال کی طرف ابھارنے کے لئے کسی غیر معمولی تنبیہ کی ضرورت ہے، اس کے ازالہ کے لئے تمام بدن کا دھونا فرض کیا۔ پھر مرض اور سفر وغیرہ حالات میں کس قدر آسانی فرما دی۔ اول تو پانی کی جگہ مٹی کو مطہر بنا دیا۔ پھر اعضائے وضو میں سے نصف کی تخفیف اس طرح کر دی کہ جہاں پہلے ہی سے تخفیف تھی یعنی سر کا مسح اسے بالکل اڑا دیا اور پاؤں کو شاید اس لئے ساقط کر دیا کہ وہ عموماً مٹی میں یا مٹی کے قریب رہتے ہیں اور تمام اعضائے بدن کی نسبت سے گرد و غبار میں ان کا تلوث شدید تر ہے۔ لہٰذا ان پر مٹی کا ہاتھ پھیرنا بے کار سا تھا۔ بس دو عضو رہ گئے منہ اور ہاتھ ان ہی کو ملنے سے وضو اور غسل دونوں کا تیمم ہو جاتا ہے۔

۸: کیونکہ وہ خود پاک ہے تو پاکی ہی پسند کرتا ہے۔

۹:  پچھلے رکوع میں جو نعمائے عظیمہ بیان ہوئی تھیں انکو سن کر بندہ کے دل میں جوش اٹھا کہ اس منعم حقیقی کی بندگی کے لئے فوراً کھڑا ہو جائے۔ اسے بتلا دیا کہ ہماری طرف آؤ تو کس طریقہ سے پاک ہو کر آؤ۔ یہ بتلانا خود ایک نعمت ہوئی اور بدن کی سطح ظاہر پر پانی ڈالنے یا مٹی ڈالنے یا مٹی لگانے سے اندرونی پاکی عطا فرما دینا یہ دوسری نعمت ہوئی۔ بندہ ابھی پچھلی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کر سکا تھا قصد ہی کر رہا تھا کہ یہ جدید انعامات فائض ہو گئے۔ اس لئے ارشاد ہوا للَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ یعنی ان پہلی نعمتوں کو یاد کرنے سے پہلے ان جدید نعمتوں کا جو احکام وضو وغیرہ کے ضمن میں مبذول ہوئیں شکر ادا کرنا چاہئے۔ شاید اسی لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْن سے حضرت بلال نے تحیۃ الوضو کا سراغ لگایا ہو۔ اس درمیانی نعمت کے شکریہ پر متوجہ کرنے کے بعد اگلی آیت میں ان سابق نعمتوں اور احسانات عظیمہ کو پھر اجمالاً یاد دلاتے ہیں جن کی شکر گزاری کے لئے بندہ اپنے مولا کے حضور میں کھڑا ہونا چاہتا تھا۔ چنانچہ فرماتے ہیں وَاذْکُرُوْ نِعْمَۃَ اللہ عَلَیْکُمْ الخ۔

۷۔۔۔  ۱: غالباً یہ عہد وہ ہی ہے جو سورہ بقرہ کے آخر میں مومنین کی زبان سے نقل فرمایا تھا۔ وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَاِلَیْکَ الْمَصِیْرُ (سورہ بقرہ رکوع ۴۰'آیت۔۲۸۵) جب صحابہ رضی اللہ عنہم آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے دست مبارک پر بیعت کرتے تھے اس وقت بھی یہ اقرار کرتے تھے کہ ہم اپنی استطاعت کے موافق آپ کی ہر بات کو سنیں گے اور مانیں گے خواہ ہمارے منشاء اور طبیعت کے موافق ہو یا خلاف۔ یہ تو عام عہد تھا۔ اس کے بعد بعض ارکان اسلام یا مناسب حال اہم چیزوں کے متعلق خصوصیت سے بھی عہد لیا جاتا تھا گویا اس سورت کے شروع میں جو اَوْفُوْا بِا لْعُقُوْدِ فرمایا تھا، درمیان میں بہت سے احسانات کا ذکر کر کے جن کو سن کر ایفائے عہد کی مزید ترغیب ہوتی ہے پھر وہ ہی اصلی سبق یاد دلایا گیا۔

۲:  ایک شریف اور حیا دار آدمی کی گردن اپنے محسن اعظم کے سامنے جھک جانی چاہئے۔ مروت و شرافت اور آئندہ مزید احسانات کی توقع اسی کو مقتضی ہے کہ بندہ اس منعم حقیقی کا بالکل تابع فرمان بن جائے، خصوصاً جب کہ زبان سے اطاعت و وفاداری کا پختہ عہد و اقرار بھی کر چکا ہے ممکن ہے حق تعالیٰ کی بے انتہا مہربانیاں دیکھ کر بندہ مغرور ہو جائے اس کی نعمتوں کی قدر اور اپنے قول و قرار کی کوئی پروا نہ کرے اس لئے فرمایا وَاتَّقُوْ اللہ یعنی خدا سے ہمیشہ ڈرتے رہو۔ وہ ایک لمحہ میں تم سے سب نعمتیں چھین سکتا ہے اور ناشکری اور بد عہدی کی سزا میں بہت سخت پکڑ سکتا ہے۔ بہر حال مروت، شرافت، امید اور خوف ہر چیز کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اس کی مخلصانہ اطاعت اور وفاداری میں پوری مستعدی دکھلائیں۔ آگے وہ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ ہے ہم جو کچھ کریں گے وہ ہمارے اخلاص یا نفاق، ریاکاری یا قلبی نیاز مندی کو خوب جانتا ہے۔ فقط زبان سے سمعنا و اطعنا  کہنے یا شکر گزاری کی رسمی اور ظاہری نمائش سے ہم اس کو دھوکا نہیں دے سکتے۔

۸۔۔۔ ۱: اس سے پہلی آیت میں مومنین کو حق تعالیٰ کے احسانات اور اپنا عہد و پیمان یاد کرنے کا حکم دیا تھا۔ یہاں بتلا دیا کہ صرف زبان سے یاد کرنا نہیں بلکہ عملی رنگ میں ان سے اس کا ثبوت مطلوب ہے اس آیت میں اسی پر تنبیہ کی گئی ہے کہ اگر تم نے خدا کے بے شمار احسانات اور اپنے عہد و اقرار کو بھلا نہیں دیا تو لازم ہے کہ اس محسن حقیقی کے حقوق ادا کرنے اور اپنے عہد کو سچا کر دکھانے کے لئے ہر وقت کمر بستہ رہو اور جب کوئی حکم اپنے آقائے ولی نعمت کی طرف سے ملے فوراً تعمیل حکم کے لئے کھڑے ہو جاؤ اور خدا کے حقوق کے ساتھ مخلوق کے حقوق ادا کرنے میں بھی پوری جدو جہد اور اہتمام کرو۔ چنانچہ قَوَّامِیْنَ لِلّٰہِ میں حقوق اللہ کی  اور شُھَدَآءَ بِالْقِسْطِ میں حقوق العباد کی طرف اشارہ ہے۔ اسی قسم کی آیت وَالْمُحْصَنٰتِ کے آخر میں گزر چکی ہے۔ صرف اس قدر فرق ہے وہاں بالقسط  کی اور یہاں للّٰہ کی تقدیم مناسب ہوئی۔ نیز یہاں لحاق میں مبغوض دشمن سے معاملہ کرنے کا ذکر ہے جس کے ساتھ قسط کو یاد دلانے کی ضرورت ہے اور سورہ نساء کے لحاق میں محبوب چیزوں کا ذکر ہے اس لئے وہاں سب سے بڑے محبوب (اللہ) کو یاد دلایا گیا۔

۲: عدل کا مطلب ہے کسی شخص کے ساتھ بدون افراط و تفریط کے وہ معاملہ کرنا جس کا وہ واقعی مستحق ہے۔ عدل و انصاف کی ترازو ایسی صحیح اور برابر ہونی چاہیے کہ عمیق سے عمیق محبت اور شدید سے شدید عداوت بھی اس کے دونوں پلوں میں سے کسی پلہ کو جھکا نہ سکے۔

۳:  جو چیزیں شرعاً مہلک یا کسی درجہ میں مضر ہیں اس سے بچاؤ کرتے رہنے سے جو ایک خاص نورانی کیفیت آدمی کے دل میں راسخ ہو جاتی ہے اس کا نام تقویٰ ہے۔ تحصیل تقویٰ کے اسباب قریبہ وبعیدہ بہت سے ہیں۔ تمام اعمال حسنہ اور خصال خیر کو اس کے اسباب و معدات میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ عدل و قسط یعنی دوست و دشمن کے ساتھ یکساں انصاف کرنا اور حق کے معاملہ میں جذبات محبت و عداوت سے قطعاً مغلوب نہ ہونا یہ خصلت حصول تقویٰ کے موثر ترین اور قریب ترین اسباب میں سے ہے۔ اسی لئے ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوَیٰ فرمایا (یعنی یہ عدل جس کا حکم دیا گیا تقویٰ سے نزدیک تر ہے) کہ اس کی مزاولت کے بعد تقویٰ کی کیفیت بہت جلد حاصل ہو جاتی ہے۔

۴:  یعنی ایسا عدل و انصاف جسے کوئی دوستی یا دشمنی نہ روک سکے اور جس کے اختیار کرنے سے آدمی کو متقی بننا سہل ہو جاتا ہے اس کے حصول کا واحد ذریعہ خدا کا ڈر اور اس کی شان انتقام کا خوف ہے۔ اور یہ خوف اِنَّ اللہ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ کے مضمون کا بار بار مراقبہ کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔ جس کسی مومن کے دل میں یہ یقین مستحضر ہو گا کہ ہماری کوئی چھپی یا کھلی حرکت حق تعالیٰ سے پوشیدہ نہیں تو اس کا قلب خشیۃ الٰہی سے لرزنے لگے گا جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ تمام معاملات میں عدل و انصاف کا راستہ اختیار کرے گا۔ اور احکام الٰہیہ کے امتثال کے لئے غلامانہ تیار رہے گا۔ پھر اس نتیجہ پر ثمرہ وہ ملے گا جسے اگلی آیت میں بیان فرمایا ہے۔ وَعْدَاللہ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا الخ۔

۹۔۔۔  یعنی نہ صرف یہ کہ ان کوتاہیوں کو معاف کر دیں گے جو بمقتضائے بشریت رہ جاتی ہیں بلکہ عظیم الشان اجر و ثواب بھی عطا فرمائیں گے۔

۱۰۔۔۔   یہ پہلے فریق کے بالمقابل اس جماعت کی سزا ذکر کی گئی جس نے قرآن کریم کے ان صاف و صریح حقائق کو جھٹلایا یا ان نشانات کی تکذیب کی جو سچائی کی طرف راہنمائی کرنے کے لئے خدا کی طرف سے دکھلائے جاتے ہیں۔

۱۱۔۔۔  عمومی احسانات یاد دلانے کے بعد بعض خصوصی احسان یاد دلاتے ہیں۔ یعنی قریش مکہ اور ان کے پٹھوؤں نے حضور پر نور صلی اللہ علیہ و سلم کو صدمہ پہنچانے اور اسلام کو مٹانے کے لئے کس قدر ہاتھ پاؤں مارے مگر حق تعالیٰ کے فضل و رحمت نے انکا کوئی داؤ چلنے نہ دیا۔ اس احسان عظیم کا اثر یہ ہونا چاہیے کہ مسلمان غلبہ اور قابو حاصل کر لینے کے باوجود اپنے دشمنوں کو ہر قسم کے ظلم اور زیادتی سے محفوظ رکھیں اور جوش انتقام میں عدل و انصاف کا رشتہ ہاتھ سے نہ چھوڑیں جیسا کہ پچھلی آیات میں اس کی تاکید کی گئی ہے ممکن ہے کسی کو یہ شبہ گزرے کہ ایسے معاند دشمنوں کے حق میں اس قدر رواداری کی تعلیم کہیں اصول سیاست کے خلاف تو نہ ہو گی۔ کیونکہ ایسا نرم برتاؤ دیکھ کر مسلمانوں کے خلاف شریروں اور بد باطنوں کی جرأت بڑھ جانے کا قوی احتمال ہے اس کا ازالہ وَاتَّقُوْا اللہ وَعَلَی اللہ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤمِنُونَ سے فرما دیا۔ یعنی مومن کی سب سے بڑی سیاست تقویٰ  اور توکل علی اللہ (خدا سے ڈرنا اور اسی پر بھروسہ کرنا) ہے۔ خدا سے ڈرنے کا مطلب یہ ہے کہ ظاہر و باطن میں اس سے اپنا معاملہ صاف رکھو اور جو عہد و اقرار کئے ہیں ان میں پوری وفاداری دکھلاتے رہو۔ پھر بحمد اللہ کسی سے کوئی خطرہ نہیں۔ اگلی آیت میں ہماری عبرت کے لئے ایک ایسی قوم کا ذکر فرما دیا جس نے خدا سے نڈر ہو کر بد عہدی اور غداری کی تھی وہ کس طرح ذلیل و خوار ہوئی۔

۱۲۔۔۔ ۱: یعنی کچھ امت محمدیہ ہی کی خصوصیت نہیں پہلی امتوں سے بھی عہد لئے جا چکے ہیں۔

۲:  بنی اسرائیل کے بارہ قبائل میں سے بارہ سردار حضرت موسیٰ علیہ السلام نے چن لئے تھے جن کے نام بھی مفسرین نے تورات سے نقل کئے ہیں، ان کا فرض یہ تھا کہ وہ اپنی قوم پر عہد پورا کرنے کی تاکید اور ان کے احوال کی نگرانی رکھیں۔ عجب اتفاق یہ ہے کہ ہجرت سے پہلے جب انصار نے لیلۃ العقبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ پر بیعت کی تو ان میں سے بھی بارہ ہی نقیب نامزد ہوئے۔ ان ہی بارہ آدمیوں نے اپنی قوم کی طرف سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے دست مبارک پر بیعت کی تھی۔ جابر بن سمرہ کی ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس امت کے متعلق جو بارہ خلفاء کی پیشین گوئی فرمائی ان کا عدد بھی نقبائے بنی اسرائیل کے عدد کے موافق ہے اور مفسرین نے تورات سے نقل کیا ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام سے حق تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تیری ذریت میں سے بارہ سردار پیدا کروں گا۔ غالباً یہ وہی بارہ ہیں جن کا ذکر جابر بن سمرہ کی حدیث میں ہے۔

۳:  یا تو یہ خطاب بارہ سرداروں کو ہے یعنی تم اپنا فرض ادا کرو میری حمایت اور امداد تمہارے ساتھ ہے۔ یا سب بنی اسرائیل کو کہ میں تمہارے ساتھ ہوں یعنی کسی وقت تم مجھے اپنے سے دور مت سمجھو۔ جو کچھ معاملہ تم سراً یا اعلانیہ کرو گے وہ ہر جگہ اور ہر وقت میں دیکھ رہا اور سن رہا ہوں۔ اس لئے جو کچھ کرو خبردار ہو کر کرو۔

۴: یعنی جو رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد آتے رہیں گے ان سب کی تصدیق کرو گے اور دلی تعظیم سے پیش آؤ گے اور دشمنان حق کے مقابلہ پر ان کا پورا ساتھ دو گے۔ جان سے بھی اور مال سے بھی۔

۵: خدا کو قرض دینے سے مراد اس کے دین اور اس کے پیغمبروں کی حمایت میں مال خرچ کرنا ہے۔ جس طرح روپیہ قرض لینے والا اس امید پر دیتا ہے کہ اس کا روپیہ واپس مل جائے گا اور قرض لینے والا اس کے ادا کرنے کو اپنے ذمہ پر لازم کر لیتا ہے، اسی طرح خدا ہی کی دی ہوئی جو چیز یہاں اسی کے راستہ میں خرچ کی جائے گی وہ ہرگز گم یا کم نہیں ہو گی، حق تعالیٰ نے کسی مجبوری سے نہیں محض اپنے فضل و رحمت سے اپنے ذمہ لازم کر لیا ہے کہ وہ چیز تم کو عظیم الشان نفع کی صورت میں واپس کر دے۔

۶:  اچھی طرح سے مراد یہ ہے کہ اخلاص سے دو اور اپنے محبوب و مرغوب اور پاک و صاف مال میں سے دو۔

۷: یعنی نیکیاں جب کثرت سے ہوں تو وہ برائیوں کو دبا لیتی ہیں۔ جب آدمی خدا کے عہد کو پورا کرنے کی کوشش میں لگا رہے تو حق تعالیٰ اس کی کمزوریوں کو دور کر کے اپنی خوشنودی اور قرب کے مکان میں جگہ دیتا ہے۔

۸: یعنی ایسے صاف اور پختہ عہد و پیمان کے بعد بھی جو شخص خدا کا وفادار ثابت نہ ہوا اور غدر و خیانت پر کمر بستہ ہو گیا تو سمجھ لو کہ اس نے کامیابی اور نجات کا سیدھا راستہ گم کر دیا۔ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ ہلاکت کے کس گڑھے میں جا کر گرے گا۔ بنی اسرائیل سے جن باتوں کے عہد لینے کا یہاں ذکر ہے وہ یہ ہیں نماز، زکوٰۃ، پیغمبروں پر ایمان لانا، ان کی جان و مال سے مدد کرنا۔ ان میں سے پہلی عبادت بدنی ہے، دوسری عبادت مالی، تیسری قلبی مع لسانی،چوتھی فی الحقیقت تیسری کی اخلاقی تکمیل ہے۔ گویا ان چیزوں کو ذکر کر کے اشارہ فرما دیا کہ جان ومال اور قلب و قالب ہر چیز سے خدا کی اطاعت اور وفا شعاری کا اظہار کرو۔ لیکن بنی اسرائیل نے چن چن کر ایک ایک عہد کی خلاف ورزی کی۔ کسی قول و قرار پر قائم نہ رہے۔ ان عہد شکنیوں کا جو نتیجہ ہوا اسے اگلی آیت میں بیان فرماتے ہیں۔

۱۳۔۔۔ ۱: لَعْن کے معنی طرد و ابعاد کے ہیں۔ یعنی عہد شکنی اور غداری کی وجہ سے ہم نے اپنی رحمت سے انہیں دور پھینک دیا۔ اور ان کے دلوں کو سخت کر دیا۔ فَبِمَا نَقْضِھِمْ مِیْثَاقَھُمْ کے لفظ سے ظاہر فرما دیا کہ ان کے ملعون اور سنگدل ہونے کا سبب عہد شکنی اور بے وفائی ہے جو خود انہی کا فعل ہے۔ اسباب پر مسبب کا مرتب کرنا چونکہ خدا ہی کا کام تھا اس لحاظ سے جَعَلْنَا قُلُوْبَھُمْ قَاسِیَۃً کی نسبت اسی کی طرف کی گئی۔

۲: یعنی خدا کے کلام میں تحریف کرتے ہیں کبھی اس کے الفاظ میں، کبھی معنی میں، کبھی تلاوت میں۔ تحریف کی یہ سب اقسام قرآن کریم اور کتب حدیث میں بیان کی گئی ہیں۔ جس کا قدرے اعتراف آجکل بعض یورپین عیسائیوں کو بھی کرنا پڑا ہے۔  یعنی چاہیے تو یہ تھا کہ ان قیمتی نصیحتوں سے فائدہ اٹھاتے جو مثلاً نبی آخرالزمان کی آمد اور دوسرے مہمات دینیہ کے متعلق ان کی کتابوں میں موجود تھیں مگر اپنی غفلتوں اور شرارتوں میں پھنس کر یہ سب بھول گئے بلکہ نصیحتوں کا وہ ضروری حصہ ہی گم کر دیا اور اب بھی جو نصیحتیں اور مفید باتیں خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان سے ان کو یاد دلائی جاتی ہیں ان کا کوئی اثر قبول نہیں کرتے۔ حافظ ابن رجب حنبلی نے لکھا ہے کہ نقض عہد کے سبب سے ان میں دو باتیں آئیں۔ ملعونیت اور قسوت قلب ان دونوں کا نتیجہ یہ دو چیزیں ہوئیں تحریف کلام اللہ اور عدم انتفاع بالذکر یعنی لعنت کے اثر سے ان کا دماغ ممسوخ ہو گیا حتیٰ کہ نہایت بے باکی اور بد عقلی سے کتب سماویہ کی تحریف پر آمادہ ہو گئے۔ دوسری طرف جب عہد شکنی کی نحوست سے دل سخت ہو گئے تو قبول حق اور نصیحت سے متاثر ہونے کا مادہ نہ رہا اس طرح علمی اور عملی دونوں قسم کی قوتیں ضائع کر بیٹھے۔

۳: یعنی دغا بازی اور خیانت کا سلسلہ آج تک چل رہا ہے اور آئندہ بھی چلتا رہے گا۔ اسی لئے ہمیشہ ان کی کسی نہ کسی دغا بازی اور مکر و فریب پر آپ مطلع ہوتے رہتے ہیں۔

۴: یعنی عبد اللہ بن سلام وغیرہ جو اسلام میں داخل ہو چکے۔

۵: یعنی جب ان کی عادت قدیمہ ہی یہ ہے تو ایسے لوگوں سے ہر جزئی پر الجھنے اور ان کی ہر خیانت کا پردہ فاش کرنے کی ضرورت نہیں، ان کو چھوڑیے اور درگزر کیجئے اور ان کی برائی کا بدلہ عفو و احسان سے دیجئے شاید اسی سے کچھ متاثر ہوں۔ قتادہ وغیرہ نے کہا ہے یہ آیت منسوخ ہے۔ قَاتِلُو ا الَّذِیْنَ لَا یُوْمِنُونَ بِاللہ وَلَا بِالْیَوْمِ الْاَخِرِ الخ سے مگر اس کی کچھ حاجت نہیں۔ قتال کے حکم سے یہ لازم نہیں آتا کہ کسی وقت اور کسی موقع پر بھی ایسی قوم کے مقابلہ میں عفو و درگزر اور تالیف قلب سے کام نہ لیا جا سکے۔

۱۴۔۔۔   ۱: نصاریٰ کا ماخذ یا تو نصر ہے جس کے معنی مدد کرنے کے ہیں اور ناصرہ کی طرف نسبت ہے جو ملک شام میں اس بستی کا نام ہے جہاں حضرت مسیح علیہ السلام رہے تھے۔ اسی لئے ان کو مسیح ناصری کہتے ہیں۔ جو لوگ اپنے کو نصاریٰ کہتے تھے وہ گویا اس بات کے مدعی تھے کہ ہم خدا کے سچے دین اور پیغمبروں کے حامی و ناصر اور حضرت مسیح ناصری کے متبع ہیں اس زبانی دعوے اور لقبی تفاخر کے باوجود دین کے معاملہ میں جو رویہ تھا وہ آگے ذکر کیا گیا ہے۔

۲: یعنی یہود کی طرح ان سے بھی عہد لیا گیا لیکن یہ بھی عہد شکنی اور بے وفائی میں اپنے پیشروؤں سے کچھ کم نہیں رہے۔ انہوں نے بھی ان بیش بہا نصائح سے جن پر نجات و فلاح ابدی کا مدار تھا کوئی فائدہ نہ اٹھایا بلکہ بائبل میں نصیحتوں کا وہ حصہ باقی ہی نہ چھوڑا جو حقیقۃً مذہب کا مغز تھا۔

۳: یعنی باہم نصاریٰ میں یا یہود اور نصاریٰ دونوں میں عداوتیں اور جھگڑے ہمیشہ کے لئے قائم ہو گئے۔ آسمانی سبق کو ضائع کرنے اور بھلا دینے کا جو نتیجہ ہونا چاہیے تھا وہ ہوا۔ یعنی جب وحی الٰہی کی اصلی روشنی ان کے پاس نہ رہی تو اوہام و اہوا کے اندھیریوں میں ایک دوسرے سے الجھنے لگے۔ مذہب تو نہ رہا پر مذہب کے جھگڑے رہ گئے۔ یہ ہی فرقے پیدا ہو کر اندھیرے میں ایک دوسرے سے ٹکرانے لگے۔ یہ ہی فرقہ وار تصادم آخرکار آپس کی شدید ترین عداوت و بغض پر منتہی ہوا۔ کوئی شبہ نہیں کہ آج مسلمانوں میں بھی بیحد تفرق و تشتت اور مذہبی تصادم موجود ہے لیکن چونکہ ہمارے پاس وحی الٰہی اور قانون سماوی بحمد اللہ بلا کم و کاست محفوظ ہے۔ اس لئے اختلافات کی موجودگی میں بھی مسلمانوں کی بہت بڑی جماعت برابر مرکز حق و صداقت پر قائم رہی ہے اور رہے گی۔ اس کے برخلاف یہود و نصاریٰ کے اختلافات یا مثلاً پروٹسٹنٹ اور رومن کیتھولک وغیرہ فرقوں کی باہمی مخالفت میں کوئی ایک فریق بھی نہ آج شاہراہ حق و صداقت پر قائم ہے اور نہ قیامت تک ہو سکتا ہے۔ کیونکہ وہ وحی الٰہی کی روشنی کو جس کے بدون کوئی انسان خدا تعالیٰ اور اس کے قوانین کی صحیح معرفت حاصل نہیں کر سکتا اپنی بے اعتدالیوں اور غلط کاریوں سے ضائع کر چکے ہیں۔ اب جب تک وہ اس محرف بائبل کے دامن سے وابستہ رہیں گے محال ہے کہ قیامت تک ان کو رانہ اور محض بے اصول اختلافات اور فرقہ وار بغض و عناد کی ظلمت سے نکل کر حق کا راستہ دیکھ سکیں اور نجات ابدی کی شاہراہ پر چل سکیں۔ باقی جو لوگ آج نفس مذہب خصوصاً عیسائیت کا مذاق اڑاتے ہیں اور جنہوں نے لفظ مسیحیت یا موجودہ بائبل کو محض چند سیاسی ضرورتوں کے لئے رکھ چھوڑا ہے اس آیت میں ان نصاریٰ کا ذکر نہیں اور اگر مان لیا جائے کہ وہ بھی آیت کے تحت میں داخل ہیں تو ان کی باہمی عداوتیں اور ایک دوسرے کے خلاف خفیہ ریشہ دوانیاں اور اعلانیہ محاربات بھی باخبر اصحاب پر پوشیدہ نہیں ہیں۔

۴: یعنی جب تک وہ رہیں گے یہ اختلافات اور بغض و عناد بھی ہمیشہ رہے گا۔ یہاں قیامت تک کا لفظ ایسا ہے جیسے ہمارے محاورات میں کہہ دیتے ہیں کہ فلاں شخص تو قیامت تک بھی فلاں حرکت سے باز نہ آئے گا۔ اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ وہ شخص قیامت تک زندہ رہے گا اور یہ حرکت کرتا رہے گا۔ مراد یہ ہے کہ اگر قیامت تک بھی زندہ رہے تو اس بات کو نہ چھوڑے گا۔ اسی طرح آیت میں الیٰ یوم القیامۃ کا لفظ آنے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہود و نصاریٰ کا وجود قیامت تک رہے جیسا کہ ہمارے زمانے کے بعض مبطلین نے اپنی تفسیر میں لکھ دیا ہے۔

          ۵: یعنی آخرت میں پوری طرح اور دنیا میں بھی بعض واقعات کے ذریعہ سے ان کو اپنی کرتوت کا نتیجہ معلوم ہو جائے گا۔

۱۵۔۔۔ یہ سب یہود و نصاریٰ کو خطاب ہے کہ وہ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ و سلم جن کی آمد کی بشارت تمہاری کتابوں میں اس قدر تحریف ہونے پر بھی کسی نہ کسی عنوان سے موجود ہیں۔ تشریف لے آئے جن کے منہ میں خدا نے اپنا کلام ڈالا ہے اور جنہوں نے ان حقائق کی تکمیل کی جو حضرت مسیح ناتمام چھوڑ گئے تھے تورات و انجیل کی جن باتوں کو تم چھپاتے تھے اور بدل سدل کر بیان کرتے تھے ان میں ان کی سب ضروری باتیں اس نبی آخر الزمان نے ظاہر فرما دیں اور جن باتوں کی اب چنداں ضرورت نہ تھی ان سے درگزر کیا۔

۱۶۔۔۔ شاید نور سے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور کتاب مبین سے قرآن کریم مراد ہے۔ یعنی یہود و نصاریٰ جو وحی الٰہی کی روشنی کو ضائع کر کے اہواء و آراء کی تاریکیوں اور باہمی خلاف و شقاق کے گڑھوں میں پڑے دھکے کھا رہے ہیں جس سے نکلنے کا بحالت موجودہ قیامت تک امکان نہیں ان سے کہہ دو کہ خدا کی سب سے بڑی روشنی آ گئی اگر نجات ابدی کے صحیح راستہ پر چلنا چاہتے ہو تو اس روشنی میں حق تعالیٰ کی رضا کے پیچھے چل پڑو سلامتی کی راہیں کھلی پاؤ گے اور اندھیرے سے نکل کر اجالے میں بے کھٹکے چل سکو گے۔ اور جس کی رضا کے تابع ہو کر چل رہے ہو اسی کی دستگیری سے صراط مستقیم کو بے تکلف طے کر لو گے۔

۱۷۔۔۔ ۱: یعنی مسیح کے علاوہ خدا کوئی اور چیز نہیں کہتے ہیں کہ یہ عقیدہ نصاریٰ میں سے فرقہ یعقوبیہ کا ہے جس کے نزدیک مسیح کے قالب میں خدا حلول کئے ہوئے ہے (معاذاللہ) یا یوں کہا جائے کہ جب نصاریٰ حضرت مسیح کی نسبت الوہیت کے قائل ہیں اور ساتھ ہی توحید کا بھی زبان سے اقرار کرتے جاتے ہیں یعنی خدا ایک ہی ہے تو ان دونوں دعووں کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک مسیح کے سوا کوئی خدا نہ ہو۔ بہر حال کوئی صورت لی جائے اس عقیدہ کے کفر صریح ہونے میں کیا شبہ ہو سکتا ہے۔

۲: یعنی اگر فرض کرو خدائے قادر و قہار یہ چاہے کہ حضرت مسیح اور مریم اور اگلے پچھلے کل زمین پر بسنے والوں کو اکٹھا کر کے ایک دم میں ہلاک کر دے، تو تم ہی بتلاؤ کہ اس کا ہاتھ کون پکڑ سکتا ہے۔ یعنی ازل و ابد کے سارے انسان بھی اگر فرض کرو مجتمع کر دیے جائیں اور خدا ایک آن میں سب کو ہلاک کرنا چاہے تو سب کی اجتماعی قوت بھی خدا کے ارادہ کو تھوڑی دیر کے لیے ملتوی نہیں کر سکتی۔ کیونکہ مخلوقات کی قدرت جو عطائی اور محدود ہے خدا کی ذاتی اور لا محدود قدرت کے مقابلہ میں عاجز محض ہے جس کا اعتراف خود وہ لوگ بھی کرتے ہیں جن کے رد میں یہ خطاب کیا جا رہا ہے بلکہ خود مسیح ابن مریم بھی جن کو یہ لوگ خدا بنا رہے ہیں ا سکے معترف ہیں چنانچہ مرقس کی انجیل میں حضرت مسیح کا یہ مقولہ موجود ہے۔ اے باپ ہر چیز تیری قدرت کے تحت میں ہے تو مجھ سے یہ (موت کا) پیالہ ٹلا دے اس طرح نہیں جو میں چاہتا ہوں بلکہ اس طرح جیسے تیرا ارادہ ہے پس جب حضرت مسیح علیہ السلام جن کو تم خدا کہتے ہو اور ان کی والدہ ماجدہ مریم صدیقہ جو تمہارے زعم میں خدا کی ماں ہوئیں۔ وہ دونوں بھی تمام من فی الارض کے ساتھ مل کر خدا کی مشیت و ارادہ کے سامنے عاجز ٹھرے تو خود سوچ لو کہ ان کی یا ان کی والدہ یا کسی اور مخلوق کی نسبت خدائی کا دعویٰ کرنا کس قدر گستاخی اور شوخ چشمی ہو گی۔ آیت کی اس تقریر میں ہم نے ہلاک کو موت کے معنی میں لیا ہے۔ مگر جمیعاً کے لفظ کی تھوڑی سی وضاحت کر دی جو مدلول لفظ جمیعاً کا ہم نے بیان کیا وہ ائمہ عربیہ کی تصریحات کے عین موافق ہے۔ اس کے سوا یہ بھی ممکن ہے کہ آیت میں ہلاک کے معنی موت کے نہ لیے جائیں جیسا کہ راغب نے لکھا ہے کبھی ہلاک کے معنی ہوتے ہیں کسی چیز کا مطلقاً فنا اور نیست و نابود ہو جانا۔ مثلاً کُلُّ شَیْءٍ ھَالِکٌ اِلَّا وَجْھَہ، یعنی خدا کی ذات کے سوا ہر چیز نابود ہونے والی ہے۔ اس معنی پر آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ اگر خدائے قدیر حضرت مسیح اور ان کی والدہ اور تمام من فی الارض کو قطعاً نیست و نابود اور بالکلیہ فنا کر ڈالنے کا ارادہ کر لے تو کون ہے جو اس کے ارادہ کو روک دے گا اوست سلطان ہر چہ خواہدآں کند عالمے رادردمے ویراں کند۔ حضرت شاہ صاحب تحریر فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کسی جگہ نبیوں کے حق میں ایسی بات فرماتے ہیں تاکہ ان کی امت بندگی کی حد سے زیادہ نہ چڑھا دے واِلاَّ نبی اس لائق کا ہے کہ ان کے مرتبہ عالی اور وجاہت عند اللہ کا خیال کرتے ہوئے ایسا خطاب کیا جاتا۔

۳: جو چاہے اور جس طرح چاہے۔ مثلاً حضرت مسیح کو بدون باپ کے حضرت حوا  کو بدون ماں کے اور حضرت آدم علیہ السلام کو بدون ماں اور باپ کے پیدا کر دیا۔

۴: کسی کا زور اس کے سامنے نہیں چل سکتا۔ سب اخیار وابرار بھی وہاں مجبور ہیں۔

۱۸۔۔۔    ۱: شاید اپنے کو بیٹے یعنی اولاد اس لئے کہتے ہوں کہ ان کی بائبل  میں خدا نے اسرائیل (یعقوب علیہ السلام) کو اپنا پہلوٹا بیٹا اور اپنے کو اس کا باپ کہا ہے۔ ادھر نصاریٰ حضرت مسیح علیہ السلام کو ابن اللہ مانتے ہیں تو اسرائیل کی اولاد اور حضرت مسیح کی امت ہونے کی وجہ سے غالباً ابناء اللہ کا لفظ اپنی نسبت استعمال کیا ہو گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ بیٹا کہنے سے مراد یہ ہو کہ ہم خدا کے خواص اور محبوب ہونے کی وجہ سے گویا اولاد ہی جیسے ہیں۔ اس صورت میں ابناء کا حاصل وہ ہی ہو جائے گا جو لفظ احباء کا ہے۔

۲: چونکہ کسی مخلوق کا حقیقۃً ابن اللہ ہونا بالکل محال اور بد یہی البطلان ہے اور خدا کا محبوب بن جانا ممکن تھا۔ یُحِبُّھُمْ وَ یُحِبُّوْنَہ، (مائدہ رکوع۸'آیت۔ ۵۴) اس لئے اس جملہ میں اول محبوبیت (پیارے ہونے) کے دعوے کا رد کیا گیا یعنی جو قوم اعلانیہ بغاوتوں اور شدید ترین گناہوں کی بدولت یہاں بھی کئی طرح کی رسوائیوں اور عذاب میں گرفتار ہو چکی اور آخرت میں بھی حبس دوام کی سزا کا عقلاً و نقلاً استحقاق رکھتی ہے۔ کیا ایسی باغی و عاصی قوم کی نسبت ایک لمحہ کے لئے بھی کوئی ذی شعور یہ خیال کر سکتا ہے کہ وہ خدا کی محبوب اور پیاری ہو گی؟ خدا سے کسی کا نسبی رشتہ نہیں۔ اس کا پیار اور اس کی محبت صرف اطاعت اور حسن عمل سے حاصل ہو سکتی ہے۔ ایسے کٹر مجرموں کو جو سخت سزا کے مستحق اور مورد بن چکے ہوں، شرمانا چاہیے کہ وہ نَحْنُ اَبْنَاءُ اللہ وَ اَحِبَّاوُہ، کا دعویٰ کریں۔ حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے کو باوجودیکہ انکا صلبی بیٹا تھا خدا نے فرما دیا اِنَّہ، لَیْسَ مِنْ اَھْلِکَ اِنَّہ، عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ (ہود، رکوع۴'آیت۔ ۴۶)

          ۳: بَشَر اصل لغت میں کھال کی اوپر والی سطح کو کہتے ہیں۔ تھوڑی سی مناسبت سے آدمی کو بشر کہنے لگے۔ شاید اس لفظ کے یہاں اختیار کرنے میں یہ نکتہ ہو کہ تم کو خدا کا بیٹا اور پیارا تو درکنار، شریف اور ممتاز انسان بھی نہیں کہا جا سکتا۔ صرف بشرہ اور شکل و صورت کے لحاظ سے خدا کے پیدا کئے ہوئے ایک معمولی آدمی کہلائے جا سکتے ہو جن کی پیدائش بھی اسی معتاد طریقہ سے ہوئی ہے جس طرح عام انسانوں کی ہوتی ہے۔ پھر بھلا ابنیت کا وہم کدھر سے راہ پا سکتا ہے۔

۴:  کیونکہ وہ ہی جانتا ہے کہ کون بخشنے کے لائق ہے اور کسے سزا دی جائے۔  تو جسے وہ اپنی رحمت اور حکمت سے معاف کرنا چاہے یا عدل و انصاف سے سزا دینا چاہے اس میں کون مزاحم ہو سکتا ہے نہ کسی مجرم کے لئے یہ گنجائش ہے کہ اس کے قلمرو آسمان و زمین سے باہر نکل جائے اور نہ یہ کہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں کہیں اور بھاگ جائے۔

۱۹۔۔۔  ۱: یعنی ہمارے احکام و شرائع نہایت توضیح کے ساتھ کھول کھول کر بیان کرتے ہیں۔ اس رکوع کے شروع سے بنی اسرائیل (یہود و نصاریٰ) کے مختلف قسم کی شرارتوں اور حماقتوں کو بیان فرما کر یہ بتلایا تھا کہ اب ہمارا رسول تمہارے پاس آ چکا جو تمہاری غلط کاریوں کو واضح کرتا ہے اور تم کو ظلمت سے نکال کر نور کی طرف لے جانا چاہتا ہے۔ اس کے بعد اس پر متنبہ فرمایا کہ اب نور ہدایت کی طرف جانا دو چیزوں پر موقوف ہے۔ ایک یہ کہ خدا تعالیٰ کی صحیح معرفت حاصل کرو اور مخلوق و خالق کے تعلق کے متعلق غلط عقیدے مت جماؤ۔ لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْا اِنَّ اللہ ھُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ سے یہاں تک اسی جزو کا بیان تھا۔ دوسری چیز یہ ہے کہ نبی الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لاؤ جو تمام انبیائے سابقین کے کمالات کے جامع اور شرائع الٰہیہ کے سب سے بڑے اور آخری شارح ہیں۔ اس جزو کا بیان اس آیت یَا اَھْلَ الْکِتَابِ قَدْ جَاءَ کُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ عَلیٰ فَتْرَۃٍ الخ میں کیا گیا ہے۔

۲: حضرت مسیح علیہ السلام کے بعد تقریباً چھ سو برس سے انبیاء کی آمد کا سلسلہ منقطع ہو چکا تھا۔ ساری دنیا الا ما شاء اللہ جہل، غفلت اور اوہام و اہواء کی تاریکیوں میں پڑی تھی۔ ہدایت کے چراغ گل ہو چکے تھے۔ ظلم و عدوان اور فساد و الحاد کی گھٹا تمام آفاق پر چھا رہی تھی۔ اس وقت سارے جہان کی اصلاح کے لئے خدا نے سب سے بڑا ہادی اور نذیر و بشیر بھیجا، جو جاہلوں کو فلاح دارین کے راستے بتلائے۔ غافلوں کو اپنے انذار و تخویف سے بیدار کرے اور پست ہمتوں کو بشارتیں سنا کر ابھارے۔ اس طرح ساری مخلوق پر خدا کی حجت تمام ہو گئی۔ کوئی مانے یا نہ مانے۔

۳: یعنی تم اگر اس پیغمبر کی بات نہ مانو گے تو خدا کو قدرت ہے کہ کوئی دوسری قوم کھڑی کر دے جو اس کے پیغام کو پوری طرح قبول کرے گی اور پیغمبر کا ساتھ دے گی خدا کا کام کچھ تم پر موقوف نہیں۔

۲۰۔۔۔ ۱: موضح القرآن میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے باپ کا وطن چھوڑ نکلے اللہ کی راہ میں اور ملک شام میں آ کر ٹھہرے اور مدت تک ان کے اولاد نہ ہوئی تب اللہ تعالیٰ نے بشارت دی کہ تیری اولاد بہت پھیلاؤں گا اور زمین شام ان کو دوں گا اور نبوت، دین، کتاب اور سلطنت ان میں رکھوں گا۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت وہ وعدہ پورا کیا۔ بنی اسرائیل کو فرعون کی بیگار سے خلاص کیا اور اس کو غرق کیا اور ان کو فرمایا کہ جہاد کرو عمالقہ سے، ملک شام فتح کر لو۔ پھر ہمیشہ وہ ملک شام تمہارا ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بارہ شخص بارہ قبائل بنی اسرائیل پر سردار کئے تھے ان کو بھیجا کہ اس ملک کی خبر لاویں وہ خبر لائے تو ملک شام کی بہت خوبیاں بیان کیں اور وہاں جو عمالقہ مسلط تھے ان کا زور و قوت بیان کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کو کہا کہ تم قوم کے سامنے ملک کی خوبی بیان کرو اور دشمن کی قوت کا ذکر مت کرو۔ ان میں سے دو شخص اس حکم پر رہے اور دس نے خلاف کیا۔ قوم نے سنا تو نامردی کرنے لگی اور چاہا کہ پھر الٹے مصر چلے جائیں۔ اس تقصیر کی وجہ سے چالیس برس فتح میں دیر لگی۔ اس قدر مدت جنگلوں میں بھٹکتے پھرتے رہے۔ جب اس قرن کے لوگ مر چکے مگر وہ دو شخص کہ وہ ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد خلیفہ ہوئے ان کے ہاتھ سے فتح ہوئی۔

۲: یعنی تمہارے جد اعلیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے لے کر آج تک کتنے نبی تم میں پیدا کئے۔ مثلاً حضرت اسماعیل، اسحاق، یعقوب، یوسف اور خود موسیٰ و ہارون علیہم الصلوٰۃ والسلام پھر ان کے بعد بھی یہ ہی سلسلہ مدت دراز تک ان میں قائم رکھا۔

۳: یعنی فرعونیوں کی ذلیل ترین غلامی سے آزادی دلا کر ان کے اموال و املاک پر قبضہ کیا اور اس سے پہلے تم ہی میں سے حضرت یوسف علیہ السلام کو مصر کے خزائن اور سلطنت پر کیسا تسلط عطا فرمایا۔ پھر مستقبل میں بھی حضرت سلیمان علیہ السلام وغیرہ نبی اور بادشاہ پیدا کئے گویا دین اور دنیا دونوں کی اعلیٰ نعمتوں سے تم کو سرفراز کیا۔ کیونکہ دینی مناصب میں سب سے بڑا منصب نبوت اور دنیاوی اقبال کی آخری حد آزادی اور بادشاہت ہے یہ دونوں چیزیں مرحمت کی گئیں۔

۴: یعنی اس وقت جب موسیٰ علیہ السلام کو یہ خطاب فرما رہے تھے بنی اسرائیل پر تمام دنیا کے لوگوں سے زیادہ خدا کی نوازشیں ہوئیں اور اگر اَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِیْنَ کا عموم پر حمل کیا جائے تو یہ اس لئے صحیح نہیں کہ امت محمدیہ کی نسبت خود قرآن میں تصریح ہے۔ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (آل عمران رکوع۱۲'آیت۱۱۰) اور وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدآءَ عَلَی النَّاسِ(بقرہ رکوع۱۷'آیت ۱۴۳)۔

۲۱۔۔۔  ۱: یعنی خدا نے پیشتر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے وعدہ فرمایا تھا کہ تیری اولاد کو یہ ملک دوں گا وہ و عدہ ضرور پورا ہونا ہے۔ خوش قسمت ہوں گے وہ لوگ جن کے ہاتھوں پر پورا ہو۔

۲: یعنی جہاد فی سبیل اللہ میں بزدلی اور پست ہمتی دیکھ کر غلامی کی زندگی کی طرف مت بھاگو۔

۲۲۔۔۔ ۱: یعنی بہت قوی ہیکل تنومند اور پر رعب۔

۲: یعنی مقابلہ کی ہمت ہم میں نہیں ہاں بدون ہاتھ پاؤں ہلائے پکی پکائی کھا لیں گے آپ معجزہ کے زور سے انہیں نکال دیں۔

۲۳۔۔۔    ۱: دو شخص حضرت یوشع بن نون اور کالب بن یوحنا تھے جو خدا سے ڈرتے تھے اسی لئے عمالقہ وغیرہ کا کچھ ڈر ان کو نہ رہا۔

ہر کہ تر سید از حق و تقویٰ گزید ترسد ازوے جن وانس و ہر کہ دید

۲: یعنی ہمت کر کے شہر کے پھاٹک تک تو چلو پھر خدا تم کو غالب کرے گا خدا اسی کی مدد کرتا ہے جو خود بھی اپنی مدد کرے۔

۳: معلوم ہوا کہ اسباب مشروعہ کو ترک کرنا توکل نہیں۔ توکل یہ ہے کہ کسی نیک مقصد کے لئے انتہائی کوشش اور جہاد کرے پھر اس کے مثمر و منتج ہونے کے لئے خدا پر بھروسہ رکھے اپنی کوشش پر نازاں اور مغرور نہ ہو۔ باقی اسباب مشروعہ کو چھوڑ کر خالی امیدیں باندھتے رہنا توکل نہیں تعطل ہے۔

۲۴۔۔۔  یہ اس قوم کا مقولہ ہے جو نحن ابناء اللہ و احباوہکا دعویٰ رکھتی تھی مگر یہ گستاخانہ کلمات ان کے مستمر تمرد و طغیان سے کچھ بھی مستبعد نہیں۔

۲۵۔۔۔   حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سخت دلگیر ہو کر یہ دعا فرمائی۔ چونکہ تمام قوم کی عدول حکمی اور بزدلانہ عصیان کو مشاہدہ فرما رہے تھے۔ اس لئے دعا میں بھی اپنے اور اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کے سوا کہ وہ بھی نبی معصوم تھے اور کسی کا ذکر نہیں کیا۔ یوشع اور کالب بھی دونوں کے ساتھ تبعاً آ گئے۔

۲۶۔۔۔ یعنی جدائی کی دعا حسی اور ظاہری طور پر تو قبول نہ ہوئی۔ ہاں معناً جدائی ہو گئی کہ وہ سب تو عذاب الٰہی میں گرفتار ہو کر حیران و سرگرداں پھرتے تھے اور حضرت موسیٰ ہارون علیہما السلام پیغمبرانہ اطمینان اور پورے قلبی سکون کے ساتھ اپنے منصب ارشاد و اصلاح پر قائم رہے جیسے کسی بستی میں عام وبا پھیل پڑے اور ہزاروں بیماروں کے مجمع میں دو چار تندرست اور قوی القلب ہوں جو ان کے معالجہ، چارہ سازی اور تفقد احوال میں مشغول رہیں۔ اگر فافرق بیننا کا ترجمہ ’جدائی کر دے‘ کی جگہ ’فیصلہ کر دے‘ ہوتا تو یہ مطلب زیادہ واضح ہو جاتا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ سب قصہ اہل کتاب کو سنایا اس پر کہ تم پیغمبر آخرالزمان کی رفاقت نہ کرو گے جیسے تمہارے اجداد نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی رفاقت چھوڑ دی تھی اور جہاد سے جان چرا بیٹھے تھے تو یہ نعمت اوروں کو نصیب ہو گی چنانچہ نصیب ہوئی۔ ایک لمحہ کے لئے اس سارے رکوع کو سامنے رکھ کر امت محمدیہ کے احوال پر غور کیجئے ان پر خدا کے وہ انعامات ہوئے جو نہ پہلے کسی امت پر ہوئے نہ آئندہ ہوں گے۔ ان کے لئے خاتم الانبیاء سید الرسل صلی اللہ علیہ و سلم کو ابدی شریعت دیکر بھیجا۔ ان میں وہ علماء اور ائمہ پیدا کئے جو باوجود غیر نبی ہونے کے انبیاء کے وظائف کو نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیتے رہے۔ ایسے ایسے خلفاء نبی علیہ السلام کے بعد امت کے قائد بنے جنہوں نے سارے جہان کو اخلاق اور اصول سیاست وغیرہ کی ہدایت کی۔ اس امت کو بھی جہاد کا حکم ہوا۔ عمالقہ کے مقابلہ میں نہیں روئے زمین کے تمام جبارین کے مقابلہ میں۔ محض سرزمین شام فتح کرنے کے لئے نہیں بلکہ شرق و غرب میں کلمۃ اللہ بلند کرنے اور فتنہ کی جڑ کاٹنے کے لئے بنی اسرائیل سے خدا نے ارض مقدسہ کا وعدہ کیا تھا لیکن اس امت سے یہ فرمایا وَعَدَاللہ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا مِنْکُمْ وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِیْ ارْتَضَیٰ لَھُمْ وَلَیُبَدِّ لَنَّھُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا (نو رکوع۷'آیت ۵۵) اگر بنی اسرائیل کو موسیٰ علیہ السلام نے جہاد میں پیٹھ پھیرنے سے منع کیا تھا تو اس امت کو بھی خدا نے اس طرح خطاب کیا یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اَمَنُوْا اِذَالَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا زَحْفًا فَلاَ تُوَ لُّو ھُمُ الْاَدْبَارَ (انفال، رکوع۲'آیت۱۵) انجام یہ ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے رفقا تو عمالقہ سے ڈر کر یہاں تک کہہ گزرے کہ اِذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَا اِنَّا ھٰھُنَا قَاعِدُوْنَ۔ تم اور تمہارا پروردگار جا کر لڑ لو ہم یہاں بیٹھے ہیں لیکن اصحاب محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ کہا کہ خدا کی قسم اگر آپ سمندر کی موجوں میں گھس جانے کا حکم دیں گے تو ہم اسی میں کود پڑیں گے اور ایک شخص بھی ہم میں سے علیحدہ نہیں رہے گا۔ امید ہے کہ خدا آپ کو ہماری طرف سے وہ چیز دکھلائے گا جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں گی۔ ہم اپنے پیغمبر کے ساتھ ہو کر اس کے دائیں اور بائیں آگے اور پیچھے ہر طرف جہاد کریں گے۔ خدا کے فضل سے ہم وہ نہیں ہیں جنہوں نے موسیٰ علیہ السلام سے کہہ دیا تھا  اِذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَا اِنَّا ھٰھُنَا قَاعِدُوْنَ اسی کا نتیجہ ہے کہ جتنی مدت بنی اسرائیل فتوحات سے محروم ہو کر وادی تیہمیں بھٹکتے رہے اس سے کم مدت میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اصحاب نے مشرق و مغرب میں ہدایت و ارشاد کا جھنڈا گاڑ دیا۔ رضی اللہ عنھم و رضواعنہ ذٰلک لمن خشی ربہ۔

۲۷۔۔۔ ۱: یعنی آدم کے دو صلبی بیٹوں قابیل و ہابیل کا قصہ ان کو سناؤ۔ کیونکہ اس قصہ میں ایک بھائی کے دوسرے بھائی کی مقبولیت اور تقویٰ پر حسد کرنے اور اسی غیظ میں اس کو ناحق قتل کر ڈالنے کا ذکر ہے اور ناحق خون کرنے کی عواقب بیان کئے ہیں۔ پچھلے رکوع میں یہ بتلایا تھا کہ بنی اسرائیل کو جب یہ حکم دیا گیا کہ ظالموں اور جابروں سے قتال کرو تو خوف زدہ ہو کر بھاگنے لگے۔ اب ہابیل و قابیل کا قصہ سنانا اس کی تمہید ہے کہ متقی اور مقبول بندوں کا قتل جو شدید ترین جرائم میں سے ہے اور جس سے ان لوگوں کو بے انتہا تہدید و تشدید کے ساتھ منع کیا گیا تھا اس کے لئے یہ ملعون ہمیشہ کیسے مستعد اور تیار نظر آتے ہیں۔ پہلے بھی کتنے نبیوں کو قتل کیا اور آج بھی خدا کے سب سے بڑے پیغمبر کے خلاف از راہ بغض و حسد کیسے کیسے منصوبے گانٹھتے رہتے ہیں۔ گویا ظالموں اور شریروں کے مقابلہ سے جان چرانا اور بے گناہ معصوم بندوں کے خلاف قتل و آسر کی سازشیں کرنا، یہ اس قوم کا شیوہ رہا ہے اور اس پر نحن ابنآء اللہ واحبآوہ کا دعویٰ بھی رکھتے ہیں اس تقریر کے موافق قابیل و ہابیل کا قصہ پھر اس پر مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ كَتَبْنَا عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ الآیۃکی تفریع، یہ سب تمہید ہو گی اس مضمون کی جو اس قصہ اور تفریع کے ختم پر فرمایا وَلَقَدْ جَآءَ تُھُمْ رُسُلُنَا بِالْبَیِّنٰتِ ثُمَّ اِنَّ کَثِیْرًا مِّنْھُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ فِی الْاَرْضِ لَمُسْرِفُوْنَ اِنَّمَا جَزَآءُ الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللہ وَرَسُوْلَہ،۔ الخ

۲: یعنی آدم علیہ السلام دستور کے موافق جو لڑکی ہابیل کے نکاح میں دینا چاہتے تھے قابیل اس کا طلب گار ہوا۔ آخر حضرت آدم علیہ السلام کے اشارہ سے دونوں نے خدا کے لئے کچھ نیاز کی کہ جس کی نیاز مقبول ہو جائے لڑکی اسی کو دے دی جائے۔ آدم علیہ السلام کو غالباً یہ یقین تھا کہ ہابیل ہی کی نیاز مقبول ہو گی چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ آتش آسمانی ظاہر ہوئی اور ہابیل کی نیاز کو کھا گئی۔ یہ ہی علامت اس وقت قبول عند اللہ کی تھی۔

۳:  قابیل یہ دیکھ کر آتش حسد میں جلنے لگا اور بجائے اس کے کہ مقبولیت کے وسائل اختیار کرتا غیظ و غضب میں اپنے حقیقی بھائی کو قتل کی دھمکیاں دینے لگا۔

۴: یعنی ہابیل نے کہا کہ میرا اس میں کیا قصور ہے خدا کے یہاں کسی کی زبردستی نہیں چلتی تقویٰ چلتا ہے۔ گویا میری نیاز جو قبول کر لی گئی اس کا سبب تقویٰ ہے تو بھی اگر تقویٰ اختیار کر لے تو خدا کو تجھ سے کوئی ضد نہیں۔

۲۸۔۔۔    ۱: حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ اگر کوئی ناحق کسی کو مارنے لگے اس کو رخصت ہے کہ ظالم کو مارے اور اگر صبر کرے تو شہادت کا درجہ ہے اور یہ حکم اپنے مسلمان بھائی کے مقابلہ میں ہے ورنہ جہاں انتقام و مدافعت میں شرعی مصلحت و ضرورت ہو وہاں ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ رہنا جائز نہیں۔ مثلاً کافروں یا باغیوں سے قتال کرنا۔ والذین اذآاصابھم البغی ھم ینتصرون (شوریٰ رکوع۴)۔

۲: یعنی میں تجھ سے ڈر کر نہیں بلکہ خدا سے ڈر کر یہ چاہتا ہوں کہ جہاں تک شرعاً گنجائش ہے بھائی کے خون میں اپنے ہاتھ رنگین نہ کروں ایوب سختیانی فرماتے تھے کہ امت محمدیہ میں سے پہلا شخص جس نے اس آیت پر عمل کر کے دکھلایا حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ہے (ابن کثیر) جنہوں نے اپنا گلا کٹوا دیا لیکن اپنی رضا سے کسی مسلمان کی انگلی نہ کٹنے دی۔

۲۹۔۔۔   ۱: یعنی میرے قتل کا گناہ بھی اپنے دوسرے گناہوں کے ساتھ حاصل کر لے۔ ابن جریر نے مفسرین کا اجماع نقل کیا ہے کہ باثمی کے معنی یہی ہیں۔ باقی جنہوں نے یہ لکھا ہے کہ قیامت میں مظلوم کے گناہ ظالم پر ڈالے جائیں گے وہ مضمون بھی ایک حیثیت سے صحیح ہے مگر محققین کے نزدیک وہ اس آیت کی تفسیر نہیں۔ اب ہابیل کے کلام کا حاصل یہ ہوا کہ اگر تو نے یہ ہی ٹھان لی ہے کہ میرے قتل کا وبال اپنے سر رکھے تو میں نے بھی ارادہ کر لیا ہے کہ کوئی مدافعت اپنی جانب سے نہ کروں حتی کہ ترک عزیمت کا حرف بھی مجھ پر نہ آنے پائے۔

۲: یعنی تیرے عمر بھر کے گناہ تجھ پر ثابت رہیں اور میرے خون کا گناہ چڑھے اور مظلومیت کی وجہ سے میرے گناہ اتریں (موضح القرآن)۔

۳۰۔۔۔ ۱: شاید ابتدا میں کچھ جھجک ہو گی شدہ شدہ نفس امارہ نے خیال پختہ کر دیا اور یہ ہی کیفیت عموماً معاصی کی ابتدا میں ہوتی ہے۔

۲: دنیاوی خسران تو یہ کہ ایسا نیک بھائی جو قوت بازو بنتا ہاتھ سے کھویا اور خود پاگل ہو کر مرا۔ حدیث میں ہے کہ ظلم اور قطع رحمی دو گناہ ایسے ہیں جن کی سزا آخرت سے پہلے یہاں بھی ملتی ہے اور اخروی خسران یہ کہ ظلم، قطع رحم، قتل عمد اور بدامنی کا دروازہ دنیا میں کھول دینے سے ان سب گناہوں کی سزا کا مستوجب ہوا اور آئندہ بھی جتنے اس نوعیت کے گناہ دنیا میں کئے جائیں گے سب میں بانی ہونے کی وجہ سے اس کی شرکت رہی جیسا کہ حدیث میں مصرح ہے۔

۳۱۔۔۔ ۱: چونکہ اس سے پہلے کوئی انسان مرا نہ تھا اس لئے قتل کے بعد اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ لاش کو کیا کرے۔ آخر ایک کوے کو دیکھا کہ زمین کرید رہا ہے یا دوسرے مردہ کوے کو مٹی ہٹا کر زمین میں چھپا رہا ہے اسے دیکھ کر کچھ عقل آئی کہ میں بھی اپنے بھائی کی لاش کو دفن کر دوں اور افسوس بھی ہوا کہ میں عقل و فہم اور بھائی کی ہمدردی میں اس جانور سے بھی گیا گزرا ہوا شاید اسی لئے حق تعالیٰ نے ایک ادنیٰ جانور کے ذریعہ سے اسے تنبیہ فرمائی کہ وہ اپنی وحشت اور حماقت پر کچھ شرمائے جانوروں میں کوے کی یہ خصوصیت ہے کہ اپنے بھائی کی لاش کو کھلا چھوڑ دینے پر بہت شور مچاتا ہے۔

۲: پچھتانا وہ نافع ہے جس کے ساتھ گناہ سے معذرت و انکسار اور فکر و تدارک بھی ہو۔ اس موقع پر اس کا پچھتانا حق تعالیٰ کے عصیان پر نہیں بلکہ اپنی بدحالی پر تھا جو قتل کے بعد اسے لاحق ہوئی۔

۳۲۔۔۔ ۱: یعنی ناحق قتل میں جو دنیاوی اور اخروی خسران ہے اور جو بد نتائج اس پر مرتب ہوتے ہیں حتیٰ کہ خود قاتل بھی اس حرکت کے بعد بسا اوقات پچھتاتا اور کف افسوس ملتا ہے۔ اسی سبب سے ہم نے بنی اسرائیل کو یہ ہدایت کی۔ الخ۔

۲:  ملک میں فساد کرنے کی بہت سی صورتیں ہیں۔ مثلاً اہل حق کو دین حق سے روکے یا پیغمبروں کی اہانت کرے یا العیاذ باللہمرتد ہو کر اپنے وجود سے دوسروں کو مرتد ہونے کی ترغیب دے وقس علیٰ ذٰلک۔۔

۳: یعنی اول روئے زمین پر بڑا گناہ یہ ہی ہوا کہ قابیل نے ہابیل کو قتل کیا اس کے بعد رسم پڑ گئی اسی سبب سے تورات میں اس طرح فرمایا کہ ایک کو مارا جیسے سب کو مارا  یعنی ایک کے ناحق خون کرنے سے دوسرے بھی اس جرم پر دلیر ہوتے ہیں تو اس حیثیت سے جو شخص ایک کو قتل کر کے بدامنی کی جڑ قائم کرتا ہے گویا وہ سب انسانوں کو قتل اور عام بدامنی کا دروازہ کھول رہا ہے اور جو کسی ایک کو زندہ کرتا یعنی کسی کو ظالم قاتل کے ہاتھ سے بچاتا ہے گویا وہ اپنے عمل سے سارے انسانوں کو بچانے اور مامون کرنے کی دعوت دے رہا ہے۔

۴: مترجم رحمۃ اللہ نے بینات  سے کھلے ہوئے حکم مراد لئے اور یہ بھی ممکن ہے کہ بینات سے وہ کھلے کھلے نشان مراد لئے جائیں جن سے کسی پیغمبر کے من عند اللہ ہونے کی تصدیق ہوتی ہو۔

۵: یعنی بنی اسرائیل کے بہت سے لوگ ایسے کھلے نشان دیکھ کر اور ایسے کھلے احکام سن کر بھی اپنے ظلم و طغیان اور دست درازیوں سے باز نہ آئے انبیائے معصومین کو قتل اور آپس میں ناحق خون کرنا ان کا ہمیشہ سے و تیرہ رہا ہے اور آج بھی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کے (معاذاللہ) قتل یا ایذاء رسانی اور مسلمانوں کی تذلیل کے لئے ہر قسم کی ناپاک سازشیں کرتے رہتے ہیں اور اتنا نہیں سمجھتے کہ جب حکم تورات کے موافق کیف ما اتفق کسی ایک آدمی کا ناحق مار ڈالنا اتنا بڑا جرم ہے کہ گویا اس کا قاتل تمام دنیا کے انسانوں کا قاتل ہے تو دنیا کے سب سے زیادہ کامل و اکمل انسان اور سب سے زیادہ مقبول و مقدس جماعت کے قتل و ایذاء رسانی کے درپے ہونا اور ان سے لڑائی اور مقابلہ کے لئے کمر باندھنا خدا کے نزدیک کتنا بھاری جرم ہو گا۔ خدا کے سفراء سے لڑائی تو درحقیقت خدا ہی سے لڑائی کرنا ہے۔ شاید اسی لئے اگلی آیت میں ان لوگوں کی دنیاوی اور اخروی سزا کا ذکر کیا گیا ہے جو خدا اور پیغمبر سے لڑائی کرتے ہیں یا دنیا میں طرح طرح کے فساد پھیلا کر مسرفون فی الارض کے مصداق بنتے ہیں۔

۳۳۔۔۔  ۱: یعنی بد امنی کرنے کو اکثر مفسرین نے اس جگہ رہزنی اور ڈکیتی مراد لی ہے مگر الفاظ کو عموم پر رکھا جائے تو مضمون زیادہ وسیع ہو جاتا ہے آیت کا جو شان نزول احادیث صحیحہ میں بیان ہوا وہ بھی اسی کو مقتضی ہے کہ الفاظ کو ان کے عموم پر رکھا جائے اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرنا  یا زمین میں فساد اور بدامنی پھیلانا یہ دو لفظ ایسے ہیں جن میں کفار کے حملے ارتداد کا فتنہ، رہزنی، ڈکیتی، ناحق قتل و نہب، مجرمانہ سازشیں اور مغویانہ پروپیگنڈا سب داخل ہو سکتے ہیں اور ان میں سے ہر جرم ایسا ہے جس کا ارتکاب کرنے والا ان چار سزاؤں میں سے جو آگے مذکور ہیں کسی نہ کسی سزا کا ضرور مستحق ٹھرتا ہے۔

۲: یعنی داہنا ہاتھ اور بایاں پاؤں۔

۳: کہیں اور لیجا کر انہیں قید کر دیں کما ہو مذہب الامام ابی حنیفہ رحمۃ اللہ

۴: ڈاکوؤں کے احوال چار ہو سکتے تھے۔ (۱) قتل کیا ہو مگر مال لینے کی نوبت نہ آئی (۲) قتل بھی کیا اور مال بھی لیا (۳) مال چھین لیا مگر قتل نہیں کیا (۴) نہ مال چھین سکے نہ قتل کر سکے قصد اور تیاری کرنے کے بعد ہی گرفتار ہو گئے۔ چاورں حالتوں میں بالترتیب یہ ہی چار سزائیں ہیں جو بیان ہوئیں۔

۳۴۔۔۔    یعنی مذکور بالا سزائیں جو حدود اور حق اللہ کے طور پر تھیں وہ گرفتاری سے قبل توبہ کر لینے سے معاف ہو جاتی ہیں۔ حقوق العباد معاف نہیں ہوں گے۔ مثلاً اگر کسی کا مال لیا تھا تو ضمان دینا ہو گا، قتل کیا تھا تو قصاص لیا جائے گا۔ ہاں ان چیزوں کے معاف کرنے کا حق صاحب مال اور ولی مقتول کو حاصل ہے (تنبیہ) اس حد کے سوا باقی حدود مثلاً حد زنا، حد شرب خمر، حد سرقہ، حد قذف توبہ سے مطلقاً ساقط نہیں ہوتیں۔

۳۵۔۔۔ ۱: وسیلہ کی تفسیر ابن عباس رضی اللہ عنہم، مجاہد، ابووائل، حسن وغیر ہم اکابر سلف نے قربت سے کی ہے تو وسیلہ ڈھونڈھنے کے معنی یہ ہوں گے کہ اس کا قرب وصول تلاش کرو۔ قتادہ نے کہا ای تقربو الیہ بطاعۃ والعمل بما یرضیہ خدا کی نزدیکی حاصل کرو اس کی فرمانبرداری اور پسندیدہ عمل کے ذریعہ سے ایک شاعر کہتا ہے۔

 اذا عفل الواشون عدنا لو صلنا وعاد التصافی بیننا والوسائل

۲: اس میں یہ ہی معنی قرب و اتصال کے مراد ہے اور جو حدیث میں آیا ہے کہ وسیلہ جنت میں ایک نہایت ہی اعلیٰ منزل ہے جو دنیا میں سے کسی ایک بندہ کو ملے گی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ تم اذان کے بعد میرے لئے خدا سے وہ ہی مقام طلب کیا کرو تو اس مقام کا نام بھی وسیلہ اسی لئے رکھا گیا کہ جنت کی تمام منزلوں میں وہ سب سے زیادہ عرش رحمان کے قریب ہے اور حق تعالیٰ کے مقامات قرب میں سب سے بلند واقع ہوا ہے۔ بہر حال پہلے فرمایا کہ ڈرتے رہو اللہ سے لیکن یہ ڈر ایسا نہیں جیسے آدمی سانپ بچھو یا شیر بھیڑیے ڈر کر دور بھاگتا ہے بلکہ اس بات سے ڈرنا کہ کہیں اس کی خوشنودی اور رحمت سے دور نہ جا پڑو۔ اسی لئے اتقوا اللہ کے بعد وابتغوا الیہ الوسیلۃ فرمایا۔ یعنی اس کی نا خوشی اور بعد و ہجر سے ڈر کر قرب و وصول حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ اور ظاہر ہے کہ کسی چیز سے قریب ہم اسی وقت ہو سکتے ہیں جبکہ درمیانی راستہ قطع کر لیں جس پر چل کر اس کے پاس پہنچ سکتے ہوں۔ اسی کو فرمایا  وجاھدوا فی سبیلہ  جہاد کرو اس کی راہ میں یعنی اسی پر چلنے کی پوری پوری کوشش کرو لعلکم تفلحون تاکہ تم اس کی نزدیکی حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکو۔

۳: پچھلے رکوع کے آخر میں ان لوگوں کی دنیاوی و اخروی سزا بیان فرمائی تھی جو خدا اور رسول سے جنگ کرتے اور ملک میں بدامنی اور فساد پھیلاتے ہیں۔ اس رکوع میں مسلمانوں کو ان سزاؤں سے ڈرا کر بتلایا گیا کہ جب شقی اور بدبخت لوگ خدا اور رسول سے جنگ کریں تو تم خدا اور رسول کی طرف ہو کر جہاد کرو۔ وہ اگر زمین پر فساد پھیلاتے ہیں تو تم اپنی کوشش اور حسن عمل سے امن و سکون قائم کرنے کی فکر کرو۔

۳۶۔۔۔ پچھلی آیت میں بتلایا تھا کہ انسان خدا سے ڈرنے اس کا قرب حاصل کرنے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے ہی سے فلاح و کامیابی کی امید کر سکتا ہے۔ اس آیت میں متنبہ فرما دیا کہ جن لوگوں نے خدا سے روگردانی کی وہ آخرت میں اگر روئے زمین کے سارے خزانے بلکہ اس سے بھی زائد خرچ کر ڈالیں گے اور فدیہ دیکر عذاب الٰہی سے چھوٹنا چاہیں گے تو یہ ممکن نہ ہو گا۔ غرض وہاں کی کامیابی تقویٰ ابتغائے وسیلہ اور جہاد فی سبیل اللہ سے حاصل ہوتی ہے رشوت اور فدیہ سے نہیں ہو سکتی۔

۳۷۔۔۔ احادیث کثیرہ سے ثابت ہے کہ بہت سے گنہگار مومنین ایک مدت تک دوزخ میں رہ کر پھر نکالے جائیں گے اور حق تعالیٰ اپنے فضل و رحمت سے جنت میں داخل کرے گا یہ آیت ان احادیث کے مخالف نہیں کیونکہ یہاں شروع آیت سے صرف کفارہ کا بیان کیا گیا ہے مومنین کے متعلق اس آیت میں کوئی حرف نہیں۔

۳۸۔۔۔ ۱: یعنی پہلی مرتبہ چوری کرے تو داہنا ہاتھ گٹے پر سے کاٹ دو۔ باقی تفاصیل کتب فقہ میں ملیں گی۔ پچھلے رکوع میں ڈکیتی وغیرہ سزا ذکر کی گئی تھی درمیان میں بعض مناسبات کی وجہ سے جن کو ہم بیان کر چکے ہیں مومنین کو چند ضروری نصائح کی گئیں اب پھر سے پچھلے مضمون کی تکمیل کی جاتی ہے۔ یعنی وہاں ڈکیتی کی سزا مذکور ہوئی تھی اس آیت میں چوری کی سزا بتلا دی۔

۲:  یعنی جو سزا چور کو دی جارہی ہے وہ مال مسروق کا بدلہ نہیں بلکہ اس کے معل سرقہ کی سزا ہے تاکہ اسے اور دوسرے چوروں کو تنبیہ ہو جائے بلاشبہ جہاں کہیں یہ حدود جاری ہوتی ہیں، دو چار ہی کی سزا یابی کے بعد چوری کا دروازہ قطعاً بند ہو جاتا ہے آجکل مدعیان تہذیب اس قسم کی حدود کو وحشیانہ سزا سے موسوم کرتے ہیں لیکن چوری کرنا اگر ان صاحبوں کے نزدیک کوئی مہذب فعل نہیں ہے تو یقیناً آپ کی مہذب سزا اس غیر مہذب دستبرد کے استیصال میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اگر تھوڑی سی وحشت کا تحمل کرنے سے بہت سے چور مہذب بنائے جا سکتے ہوں تو حاملین تہذیب کو خوش ہونا چاہیے کہ ان کے تہذیبی مشن میں اس وحشت سے مدد مل رہی ہے۔ بعض نام نہاد مفسر بھی اس کوشش میں ہیں کہ قطع ید (ہاتھ کاٹنے) کی سزا کو چوری کی انتہائی سزا قرار دیکر اس سے ہلکی سزا دہی کا اختیار شریعت حقہ سے حاصل کر لیں مگر مشکل یہ ہے کہ نہ تو چوری کی اس سے ہلکی سزا قرآن کریم میں کہیں موجود ہے اور نہ عہد نبوت یا عہد صحابہ میں اس کی کوئی نظیر پائی گئی۔ کیا کوئی شخص یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ اتنے طویل عرصہ میں جتنے چور پکڑے گئے ان میں ایک بھی ابتدائی چور نہ تھا جس پر کم از کم بیان جواز ہی کے طور پر قطع ید سے ہلکی کوئی ابتدائی سزا جاری کی جاتی۔ کسی ملحد نے پرانے زمانہ میں اس حد سرقہ پر یہ بھی شبہ کیا تھا کہ جب شریعت نے ایک ہاتھ کی دیت پانچ سو دینا رکھی ہے تو اتنا قیمتی ہاتھ جس کے کٹنے پر پانچ سو دینار واجب ہوں دس پانچ روپیہ کی چوری میں کس طرح کاٹا جا سکتا ہے۔ ایک عالم نے اس جواب میں کیا جواب فرمایا انھا لما کانت امینۃ کانت ثمینۃ فلما خانت ھانت یعنی جو ہاتھ امین تھا وہ قیمتی تھا۔ جب (چوری کر کے) خائن ہوا تو ذلیل ہوا۔

۳:چونکہ غالب ہے اس لئے اسے حق ہے کہ جو چاہے قانون نافذ کر دے کوئی چون و چرا نہیں کر سکتا۔ لیکن چونکہ حکمت والا بھی ہے اس لئے یہ احتمال نہیں کہ محض اپنے اختیار کامل سے لے کر کوئی قانون بے موقع نافذ کرے۔ نیز وہ اپنے ناتواں بندوں کے اموال کی حفاظت کا کوئی انتظام نہ کر سکے، یہ اس کی عزت اور غلبہ کے منافی ہے اور چوروں ڈاکوؤں کو یونہی آزاد چھوڑ دے یہ اس کی حکمت کے خلاف ہے۔

۳۹۔۔۔    یعنی توبہ اگر ٹھیک ٹھیک ہو جس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ چوری کا مال مالک کو واپس کرے اور اگر تلف ہو گیا ہو تو ضمان دے اور ضمان نہ دے سکے تو معاف کرائے۔ اور اپنے فعل پر نادم ہوا اور آئندہ کے لئے اس سے مجتنب رہنے کا عزم رکھے۔ تو اس طرح کی توبہ سے امید ہے کہ حق تعالیٰ اخروی عقوبت جس کے مقابلہ میں دنیاوی سزا کی کچھ حقیقت نہیں اس پر سے اٹھا لے۔

۴۰۔۔۔ جب حقیقی سلطنت و حکومت اسی کی ہے تو بلاشبہ اسی کو یہ اختیار ہو گا کہ جسے مناسب جانے معاف کر دے اور جسے اپنی حکمت و عدل کے موافق سزا دینا ہے سزا دے اور نہ صرف یہ کہ اسے معاف کرنے اور سزا دینے کے کلی اختیارات حاصل ہیں بلکہ ان اختیارات کے استعمال سے کوئی روکنے والا بھی نہیں کیونکہ ہر چیز پر وہ پوری قدرت رکھتا ہے۔

۴۱۔۔۔  ۱: پچھلی آیات میں ڈکیتی اور چوری وغیرہ کی حدود بیان کی گئی تھیں۔ اب بعض ان اقوام کا حال سناتے ہیں جنہوں نے حدود اللہ میں تحریف کر کے اپنے کو عذاب عظیم کا مستحق ٹھرایا۔ ان کا مفصل واقعہ بغوی نے یہ لکھا ہے کہ خیبر کے ایک یہودی مرد اور عورت نے جو کنوارے نہ تھے زنا کیا۔ باوجودیکہ تورات میں اس جرم کی سزا رجم (سنگسار کرنا) تھی، مگر ان دونوں کی بڑائی مانع تھی کہ یہ سزا جاری کی جائے آپس میں یہ مشورہ ہوا کہ یہ شخص جو یثرب میں ہے (یعنی محمد صلی اللہ علیہ و سلم) ان کی کتاب میں زانی کے لئے رجم کا حکم نہیں، کوڑے مارنے کا ہے تو بنی قریظہ کے یہود میں سے کچھ آدمی ان کے پاس بھیجو کیونکہ وہ ان کے ہمسایہ ہیں اور ان سے صلح کا معاہدہ بھی کر چکے ہیں وہ ان کا خیال معلوم کر لیں گے چنانچہ ایک جماعت اس کام کے لئے روانہ کی گئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا عندیہ معلوم کر لے کہ زانی محض کی کیا سزا تجویز کرتے ہیں۔ اگر وہ کوڑے مارنے کا حکم دیں تو ان پر رکھ کر قبول کر لو۔ اور رجم کا حکم دیں تو مت مانو۔ ان کے دریافت کرنے پر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم میرے فیصلہ پر رضامند ہو گے؟ انہوں نے اقرار کر لیا۔ خدا کی طرف سے جبرائیل رجم کا حکم لے آئے مگر وہ لوگ اپنے اقرار سے پھر گئے آخر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ فدک کا رہنے والا ابن صور یا تم میں کیسا شخص ہے سب نے کہا کہ آج روئے زمین پر شرائع موسویہ کا اس سے زیادہ جاننے والا کوئی نہیں۔ آپ نے اس کو بلوایا اور نہایت ہی شدید حلف دے کر پوچھا کہ تورات میں اس گناہ کی سزا کیا ہے؟ باوجودیکہ دوسرے یہود اس حکم کو چھپانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے تھے جس کا پردہ حضرت عبد اللہ بن سلام کے ذریعہ سے فاش ہو چکا تھا۔ تاہم ابن صوریہ نے جو ان کا مسلم معتمد تھا کسی نہ کسی وجہ سے اس کا اقرار کر لیا کہ بیشک تورات میں اس جرم کی سزا رجم ہی ہے۔ بعدہٗ اس نے سب حقیقت ظاہر کی کہ کس طرح یہود نے رجم کو اڑا کر زنا کی سزا یہ رکھ دی کہ زانی کو کوڑے لگائے جائیں اور کالا منہ کر کے اور گدھے پر الٹا سوار کرا کر گشت کرایا جائے۔ الحاصل حضور پر نور صلی اللہ علیہ و سلم نے ان دونوں مرد و عورت پر رجم کی سزا جاری کی اور فرمایا کہ اے اللہ آج میں پہلا شخص ہوں جس نے تیرے حکم کو دنیا میں زندہ کیا اس کے بعد کہ وہ اسے مردہ کر چکے تھے۔ یہ واقعہ ہے۔

یعنی منافقین اور یہود بنی قریظہ۔

۲: سمّا عون کے معنی ہیں بہت زیادہ سننے والے اور کان دھرنے والے، پھر بہت زیادہ سننا کبھی تو جاسوسی پر اطلاق کیا جاتا ہے اور کبھی اس کے معنی ہوتے ہیں بہت زیادہ قبول کرنے والا جیسے سَمِعَ اللہ لِّمَنْ حَمِدَہ، میں سننے کے معنی قبول کرنے کے ہیں۔ مترجم رحمہ اللہ نے یہاں پہلے معنی مراد لئے ہیں۔ لیکن ابن جریر وغیرہ محققین نے دوسرے معنی پر حمل کیا ہے سَمَّاعُوْنَ لِلْکَذِبِ یعنی جھوٹ اور باطل کو بہت زیادہ ماننے اور قبول کرنے والے سماعون لقوم اٰخرینیعنی دوسری جماعت جس نے ان کو بھیجا اور خود تمہارے پاس نہیں آئی ان کی بات بہت زیادہ ماننے والے۔

۳: یعنی خدا کے احکام میں تحریف کرتے ہیں یا کہیں لگا دیتے ہیں۔

۴: یعنی اگر کوڑے لگانے کا حکم ملے تو قبول کرو ورنہ نہیں۔ گویا خدا کی شریعت کو اپنی ہوا کے تابع رکھنا چاہتے تھے۔

 ۴:  ہدایت و ضلالت، خیر و شر کوئی چیز بھی بدون ارادہ خداوندی کے عالم وجود میں نہیں آ سکتی۔ یہ ایک ایسا اصول ہے کہ جس کا انکار کرنا اس کے تسلیم کرنے سے زیادہ مشکل ہے۔ فرض کرو کہ ایک شخص چوری کرنے کا ارادہ کرتا ہے لیکن خدا کا ارادہ یہ ہے کہ چوری نہ کرے اب وہ شخص اگر اپنے ارادہ میں کامیاب رہا تو لازم آتا ہے کہ خدا اس کے مقابلہ معاذاللہ عاجز ہو اور اگر خدا ہی کا ارادہ بندہ کے ارادہ پر غالب رہتا ہے تو لازم آتا ہے کہ دنیا میں کہیں چوری وغیرہ کسی شر کا وجود نہ رہے اور اگر خدا تعالیٰ خیر و شر میں سے کسی کا بھی ارادہ نہیں کرتا تو اس سے معاذاللہ اس کا تعطل یا غفلت و سفاہت لازم آتی ہے۔ تعالیٰ اللہ عن کل الشرور و تقدس۔ ان تمام شقوق پر غور کرنے کے بعد ناچار وہ ہی ماننا پڑے گا کہ کوئی چیز بھی اس کے ارادہ تخلیق کے بدون موجود نہیں ہو سکتی۔ یہ مسئلہ نہایت مہم اور طویل الذیل ہے۔ ہمارا قصد ہے کہ اس قسم کے مسائل کے متعلق مستقل مضمون لکھ کر فوائد کے ساتھ ملحق کر دیا جائے۔ واللہ الموافق۔

۵:  اول منافقین اور یہود کا طرز عمل بیان فرمایا جس میں یہ چند اعمال بالخصوص ذکر کئے گئے۔ ہمیشہ جھوٹ اور باطل کی طرف جھکنا۔ اہل حق کے خلاف جاسوسی کرنا۔ بد باطن اور شریر جماعتوں کو مدد پہنچانا۔ ہدایت کی باتوں کو تحریف کر کے بدل ڈالنا۔ اپنی خواہش اور مرضی کے خلاف کسی حق بات کو قبول نہ کرنا۔ جس قوم میں یہ خصال پائی جائیں اس کی مثال ایسے مریض کی سمجھو جو نہ دوا استعمال کرے نہ مہلک اور مضر چیزوں سے پرہیز قائم رکھ سکے اطباء اور ڈاکٹروں کا مذاق اڑائے فہمایش کرنے والوں کو گالیاں دے نسخہ پھاڑ کر پھینک دے یا اپنی رائے سے اس کے اجزاء بدل ڈالے اور یہ عہد بھی کر لے کہ جو دوا میری خواہش اور مذاق کے خلاف ہو گی کبھی استعمال نہ کروں گا ان حالات کی موجودگی میں کوئی ڈاکٹر یا طبیب خواہ اس کا باپ ہی کیوں نہ ہو، اگر معالجہ سے دست بردار ہو کر یہ ہی ارادہ کر لے کہ ایسے مریض کو اب اس کی بے اعتدالیوں، غلط کاریوں، ضد اور ہٹ کا خمیازہ بھگتنے دو تو کیا یہ طبیب کی بے رحمی یا بے اعتنائی کا ثبوت ہو گا یا خود مریض کی خود کشی سمجھی جائے گی۔ اب اگر مریض اس بیماری سے ہلاک ہو گیا تو طبیب کو مورد الزام نہیں ٹھرا سکتے کہ اس نے علاج نہ کیا اور تندرست کرنا نہ چاہا۔ بلکہ بیمار خود ملزم ہے کہ اس نے اپنے ہاتھوں سے اپنے کو تباہ کیا اور طبیب کو موقع نہ دیا کہ وہ اس کی صحت واپس لانے کی کوشش کرتا۔ ٹھیک اسی طرح یہاں یہود کی شرارت ہوا پرستی، ضد اور ہٹ دھرمی کو بیان فرما کر جو یہ لفظ فرمائے ومن یرید اللہ فتنۃ (جس کو اللہ نے گمراہ کرنا چاہا) اور اولئک الذین لم یرد اللہ ان یطھر قلوبھم (یہ ہی وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے نہ چاہا کہ ان کے دلوں کو پاک کرے) اس کا یہ ہی مطلب ہے کہ خدا نے ان کی سوء استعداد اور بدکاریوں کی وجہ سے اپنی نظر لطف و عنایت ان پر سے اٹھا لی۔ جس کے بعد ان کے راہ پر آنے اور پاکی قبول کرنے کی کوئی توقع نہیں رہی ہے۔ آپ ان کے غم میں اپنے کو نہ گھلائیں لقولہ تعالیٰ لا یحزنک الذین الخ باقی یہ شبہ کہ خدا تو اس پر بھی قادر تھا کہ ان کی سب شرارتوں اور غلط کاریوں کو جبراً روک دیتا اور مجبور کر دیتا کہ وہ کوئی ضد اور ہٹ کر ہی نہ سکیں۔ تو بیشک میں تسلیم کرتا ہوں کہ خدا کی قدرت کے سامنے یہ چیز کچھ مشکل نہ تھی ولو شآء ربک لَاٰمِنْ مَنْ فِی الْاَرْضِ کلھم جمیعاً (یونس، رکوع ۱۰) لیکن اس دنیا کا سارا نظام ہی ایسا رکھا گیا ہے کہ بندوں کو خیر و شر کے اکتساب میں مجبور محض نہ بنایا جائے اگر صرف خیر کے اختیار پر سب کو مجبور کر دیا جاتا تو تخلیق عالم کی حکمت و مصلحت پوری نہ ہوتی اور حق تعالیٰ کی بہت سی صفات ایسی رہ جاتیں کہ ان کے ظہور کے لئے کوئی محل نہ ملتا۔ مثلاً عفوٌ غَفُورٌ، حَلِیْمٌ 'منتقم، ذوالبطش الشدید، قائم بالقسط، مالک یوم الدین وغیرہ حالانکہ عالم کے پیدا کرنے سے غرض ہی یہ ہے کہ اس کی تمامی صفات کمالیہ کا مظاہرہ ہو، کوئی مذہب یا کوئی انسان جو خدا کو فاعل مختار مانتا ہے انجام کار اس کے سوا کوئی دوسری غرض نہیں بتلا سکا۔ لِیَبْلُوَ کُمْ اَیُّکُمْ احسن عملاً (سورہ ملک، رکوع۱) اس سے زائد تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں بلکہ اس قدر بھی ہمارے موضوع سے زائد ہی ہے۔

۴۲۔۔۔  ۱: ابن عباس ، مجاہد اور عکرمہ وغیرہ اکابر سلف سے منقول ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ اختیار ابتداء میں تھا۔ آخر میں جب اسلام کا تسلط اور نفوذ کامل ہو گیا تو ارشاد ہوا (وان احکم بینھم بما انزل اللہ) یعنی ان کے نزاعات کا فیصلہ قانون شریعت کے موافق کر دیا کرو۔ مطلب یہ کہ اعراض اور کنارہ کشی کی ضرورت نہیں۔

۲:  قران کریم نے بار بار اس پر زور دیا ہے کہ کوئی شخص کتنا ہی شریر ظالم اور بدمعاش کیوں نہ ہو مگر اس کے حق میں بھی تمہارا دامن عدالت نا انصافی کے چھینٹوں سے داغدار نہ ہونے پائے۔ یہ ہی وہ خصلت ہے جس کے سہارے زمین و آسمان کا نظام قائم رہ سکتا ہے۔

۴۳۔۔۔  یعنی تعجب کی بات ہے کہ آپ کو حکم ٹھراتے ہیں اور جس تورات کو کتاب آسمانی مانتے ہیں اس کے فیصلہ پر بھی راضی نہیں تو حقیقت میں ان کا ایمان کسی پر بھی نہیں۔ نہ قرآن پر نہ تورات پر۔ اگلے رکوع میں تورات و انجیل کی مدح فرما کر متنبہ کیا ہے کہ کیسی عمدہ کتاب اور کیسے علوم ہدایت تھے جن کی ان نالائقوں نے بے قدری کی اور انہیں ایسا ضائع کیا کہ آج اصل چیز کا پتہ لگانا بھی مشکل ہو گیا۔ آخر حق تعالیٰ نے اپنی رحمت کاملہ سے بالکل آخر میں وہ کتاب بھیجی جو ان سب پہلی کتابوں کے مطالب اصلیہ کی محافظ اور مصدق ہے۔ اور جس کی ابدی حفاظت کا انتظام نازل کرنے والے نے خود اپنے ذمہ لیا ہے فللّٰہ الحمد والمنہ۔

۴۴۔۔۔  ۱: یعنی وصول الی اللہ کے طالبین کے لئے ہدایت کا اور شبہات و مشکلات کی ظلمت میں پھنس جانے والوں کے لئے روشنی کا کام دیتی ہے۔

۲: یعنی تورات میں ایسا عظیم الشان دستور العمل اور عین ہدایت تھا کہ کثیر التعداد پیغمبر اور اہل اللہ اور علماء برابر اسی کے موافق حکم دیتے اور نزاعات کے فیصلے کرتے رہے۔

۳:  یعنی تورات کی حفاظت کا ان کو ذمہ دار بنایا گیا تھا۔ قرآن کریم کی طرح انا لہ لحافظون کا وعدہ نہیں ہوا۔ تو جب تک علماء و احبار نے اپنی ذمہ داری کا احساس کیا، تورات محفوظ و معمول رہی۔ آخر دنیا پرست علمائے سوء کے ہاتھوں سے تحریف ہو کر ضائع ہوئی۔

۴: یعنی لوگوں کے خوف یا دنیاوی طمع کی وجہ سے آسمانی کتاب میں تبدیل و تحریف مت کرو۔ اس کے احکام و اخبار کو مت چھپاؤ اور خدا کی تعذیب و انتقام سے ڈرتے رہو۔ تورات کی عظمت شان اور مقبولیت جتلانے کے بعد یہ خطاب یا تو ان رؤسا و علمائے یہود کو کیا گیا ہے جو نزول قرآن کے وقت موجود تھے۔ کیونکہ انہوں نے حکم رجم سے انکار کر دیا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق پیشین گوئیوں کو چھپاتے اور ان کے معنی میں عجیب طرح کے ہیر پھیر کرتے تھے اور یا درمیان میں امت مسلمہ کو نصیحت ہے کہ تم دوسری قوموں کی طرح کسی سے ڈر کر یا حب مال و جاہ میں پھنس کر اپنی آسمانی کتاب کو ضائع مت کرنا۔ چنانچہ اس امت نے بحمد اللہ ایک حرف بھی اپنی کتاب کا کم نہیں کیا اور آج تک اس کو مبطلین کی تغییر و تحریف سے محفوظ رکھنے میں کامیاب رہے اور ہمیشہ رہیں گے۔

۵:  مآ انزل اللہ کے موافق حکم نہ کرنے سے غالباً یہ مراد ہے کہ منصوص حکم کے وجود ہی سے انکار کر دے اور اس کی جگہ دوسرے احکام اپنی رائے اور خواہش سے تصنیف کر لے۔ جیسا کہ یہود نے حکم رجم کے متعلق کیا تھا۔ تو ایسے لوگوں کے کافر ہونے میں کیا شبہ ہو سکتا ہے اور اگر مراد یہ ہو کہ مآانزل اللہ کو عقیدۃ ثابت مان کر پھر فیصلہ عملاً اس کے خلاف کرے تو کافر سے مراد عملی کافر ہو گا۔ یعنی اس کی عملی حالت کافروں جیسی ہے۔

۴۵۔۔۔   ۱: قصاص کا یہ حکم شریعت موسوی میں تھا۔ اور بہت سے علمائے اصول نے تصریح کی ہے کہ جو پچھلی شرائع قرآن کریم یا ہمارے پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نقل فرمائیں بشرطیکہ ان کی نسبت کسی جگہ حضور نے کوئی انکار یا ترمیم نہ فرمائی ہو تو وہ اس امت کے حق میں بھی تسلیم کی جائیں گی۔ گویا بدون رد و انکار کے ان کو سنانا تلقی بالقبول کی دلیل ہے۔

۲: یعنی جروح کے قصاص کو معاف کر دینا مجروح کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔ جیسا کہ بعض احادیث میں اس کی تصریح آئی ہے۔ اور بعض مفسرین نے اس آیت کو جارح کے حق میں رکھا ہے یعنی اگر مجروح نے جارح کو معافی دے دی تو اس کا گناہ معاف ہو جائے گا والراجع ھو الاول۔

۳: یہود نے حکم قصاص کے خلاف بھی تعامل قائم کر لیا تھا۔ ان میں بنی نضیر جو زیادہ معزز اور قوی سمجھے جاتے تھے، بنو قریظہ سے پوری دیت وصول کرتے اور جب ان کو دینے کی نوبت آتی تو نصف دیت ادا کرتے۔ بنی قریظہ نے اپنی کمزوری کی وجہ سے ان سے اس طرح کا معاہدہ کر رکھا تھا اتفاقاً بنی قریظہ کے ہاتھ سے بنی نظیر کا آدمی مارا گیا۔ انہوں نے دستور سابق کے موافق ان سے پوری دیت طلب کی بنی قریظہ نے جواب دیا کہ جاؤ وہ زمانہ گیا جب ہم نے تمہاری قوت سے مجبور ہو کر یہ ظلم منظور کر لیا تھا۔ اب محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی موجودگی میں محال ہے کہ کوئی قوی ضعیف کو کچل سکے یا دبا سکے۔ کیونکہ سب کو یقین تھا کہ آپ ہر ضعیف و قوی کے ساتھ یکساں انصاف کرتے ہیں اور اقویاء کے مظالم کے مقابلہ میں ضعفاء کی دستگیری فرماتے ہیں۔ انجام کار یہ معاملہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی عدالت میں پیش ہوا اور بنی قریظہ نے جو خیال اس پیکر عدل و انصاف کی نسبت ظاہر کیا تھا بلا کم و کاست صحیح نکلا۔ حکم قصاص کے بعد ومن لم یحکم بمآ انزل اللہ الخ فرمانے سے اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ اور چونکہ رجم کی طرح قصاص کے حکم شرعی ہونے سے صریحاً انکار نہیں کیا تھا بلکہ آپس کی مفاہمت سے خلاف حکم شرعی ایک دستور قائم کر لیا تھا تو قانون عدل کی یہ اعتقادی نہیں صرف عملی مخالفت ہوئی۔ اسی لئے یہاں کافروں کی جگہ ظٰلمون فرمایا۔ یعنی یہ ظلم صریح ہے کہ قوی سے کم اور ضعیف سے زیادہ دیت لی جائے۔

۴۶۔۔۔   ۱: یعنی ان کے نقش قدم پر یہ بھی چلتے تھے۔

۲: یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام خود اپنی زبان سے تورات کی تصدیق فرماتے تھے اور جو کتاب (انجیل) ان کو دی گئی تھی وہ بھی تورات کی تصدیق کرتی تھی اور انجیل کی نوعیت بھی نور وہدایت ہونے میں تورات کی طرح تھی۔ احکام و شرائع کے اعتبار سے دونوں میں بہت ہی قلیل فرق تھا۔ جیسا کہ وَلِاُ حِّلَّ لَکُمْ بَعْضَ الَّذِیْ حُرِّمَ عَلَیْکُمْ میں اشارہ کیا گیا ہے۔ اور یہ فرق تورات کی تصدیق کے منافی نہیں جیسے آج ہم قرآن کو ماننے اور صرف اسی کے احکام کو تسلیم کرنے کے باوجود بحمد اللہ تمام کتب سماویہ کے من عند اللہ ہونے کی تصدیق کرتے ہیں۔

۴۷۔۔۔  یا تو عیسائی جو نزول انجیل کے وقت موجود تھے ان کو یہ حکم دیا گیا تھا اسی کو یہاں نقل فرما رہے ہیں۔ اور ہو سکتا ہے کہ نزول قرآن کے وقت جو عیسائی مخاطب تھے ان سے کہا گیا ہو کہ جو کچھ انجیل میں اللہ تعالیٰ نے اتارا ہے اس کے موافق ٹھیک ٹھیک حکم کریں۔ یعنی ان پیشین گوئیوں کو چھپانے یا لغو اور مہمل تاویلات سے بدلنے کی کوشش نہ کریں جو انجیل میں پیغمبر آخرالزمان اور مقدس فارقلیط کی نسبت حضرت مسیح کی زبانی کی گئی ہیں۔ یہ خدا تعالیٰ کی سخت نا فرمانی ہو گی کہ جس ہادی جلیل اور مصلح عظیم کے متعلق حضرت مسیح یہ فرمائیں کہ جب وہ روح حق آئے گی تو تمہیں سچائی کی ساری راہیں بتائے گی۔ اسی کی تکذیب پر کمر بستہ ہو کر اپنے لئے ابدی خسران قبول کرو۔ کیا مقدس مسیح اور اس کے پروردگار کی فرمانبرداری کے یہ ہی معنی ہیں۔؟

۴۸۔۔۔  ۱: مہیمن کے کئی معنی بیان کئے گئے ہیں۔ امین، غالب، حاکم، محافظ و نگہبان اور ہر معنی کے اعتبار سے قرآن کریم کا کتب سابقہ کے لئے مہیمن ہونا صحیح ہے۔ خدا کی جو امانت تورات و انجیل وغیرہ کتب سماویہ میں ودیعت کی گئی تھی وہ مع شے زائد قرآن میں محفوظ ہے۔ جس میں کوئی خیانت نہیں ہوئی اور جو بعض فروعی چیزیں ان کتابوں میں اس زمانہ یا ان مخصوص مخاطبین کے حسب حال تھیں ان کو قرآن نے منسوخ کر دیا اور جو حقائق ناتمام تھیں ان کی پوری تکمیل فرما دی ہے اور جو حصہ اس وقت کے اعتبار سے غیر مبہم تھا اسے بالکل نظر انداز کر دیا ہے۔

۲:  یہود میں باہم کچھ نزاع ہو گیا تھا۔ ایک فریق جس میں ان کے بڑے بڑے مشہور علماء اور مقتدا شامل تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فصل نزاع کی درخواست کی اور یہ بھی کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ عموماً قوم یہود ہمارے اختیار اور اقتدار میں ہے اگر آپ فیصلہ ہمارے موافق کر دیں گے تو ہم مسلمان ہو جائیں گے اور ہمارے اسلام لانے سے جمہور یہود اسلام قبول کر لیں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس رشوتی اسلام کو منظور نہ کیا اور ان کی خواہشات کی پیروی سے صاف انکار فرما دیا۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ (ابن کثیر)

۳: گذشتہ فائدہ میں ان آیات کا جو شان نزول ہم لکھ چکے ہیں اس سے صاف عیاں ہے کہ آیت کا نزول بعد اس کے ہوا کہ آپ ان کی خوشی اور خواہش پر چلنے سے انکار فرما چکے تھے۔ تو یہ آیات آپ کی استقامت کی تصویب اور آئندہ بھی ایسی ہی شان عصمت پر ثابت قدم رہنے کی تاکید کے لئے نازل ہوئیں۔ جو لوگ اس قسم کی آیات کو نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شان عصمت کے خلاف تصور کرتے ہیں وہ نہایت ہی قاصر الفہم ہیں۔ اول تو کسی چیز سے منع کرنا اس کی دلیل نہیں کہ جس کو منع کیا جا رہا ہے وہ اس ممنوع چیز کا ارتکاب کرنا چاہتا تھا۔ دوسرے انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی معصومیت کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی معصیت ان سے صادر نہیں ہو سکتی۔ یعنی کسی کام کو یہ سمجھتے ہوئے کہ خدا کو ناپسند ہے ہرگز اختیار نہیں کر سکتے۔ اور اگر اتفاقاً کسی وقت بھول چوک یا رائے واجتہاد کی غلطی سے راجح و افضل کی جگہ مرجوح و  مفضول کو اختیار کر لیں یا غیر مرضی کو مرضی سمجھ کر عمل کر گزریں جس کو اصطلاح میں زَلۃ کہتے ہیں۔ تو اس طرح کے واقعات مسئلہ عصمت کے منافی نہیں۔ جیسا کہ حضرت آدم اور بعض دیگر انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے واقعات شاہد ہیں۔ اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد وَلَا تَتَّبِعْ اَھْوَآء ھُمْ عَمَّا جَآءَ کَ مِنَ الْحَقِّ اور وَاَحْذَرْھُمْ اَن یَّفْتِنُوْکَ عَن مْ بَعْضِ مَا اَنْزَلَ اللہ اِلَیْکَ اور اسی طرح کی دوسری آیات کا مطلب سمجھنے میں کوئی خلجان نہیں رہتا۔ کیونکہ ان میں صرف اس بات پر متنبہ کیا گیا ہے کہ آپ ان ملعونوں کی تلمیع اور سخن سازی سے قطعًا متاثر نہ ہوں اور کوئی ایسی رائے قائم نہ فرما لیں جس میں بلا قصد ان کی خواہشات کے اتباع کی صورت پیدا ہو جائے۔ مثلاً اسی قصہ میں جو ان آیات کی شان نزول ہے یہود نے کیسی عیارانہ اور پرفریب صورت حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے پیش کی تھی کہ اگر آپ ان کے حسب منشاء فیصلہ کر دیں تو سب یہود مسلمان ہو جائیں گے۔ وہ جانتے تھے کہ اسلام سے بڑھ کر دنیا میں کوئی چیز آپ کے نزدیک محبوب اور عزیز نہیں۔ ایسے موقع پر امکان تھا کہ بڑے سے بڑا مستقیم انسان بھی رائے قائم کر لے کہ ان کی ایک چھوٹی سی خواہش کے قبول کر لینے میں جب کہ اتنی عظیم الشان دینی منفعت کی توقع ہو، کیا مضائقہ ہے۔ اس طرح کے خطرناک اور مزلۃ الاقدام موقع پر قرآن کریم پیغمبر علیہ السلام کو متنبہ کرتا ہے کہ دیکھو بھول کر بھی کوئی ایسی رائے قائم نہ کر لیجئے جو آپ کی شان رفیع کے مناسب نہ ہو۔ حضور کا کمال تقویٰ اور انتہائی فہم و تدبر تو نزول آیت سے پہلے ہی ان ملاعین کے مکر و فریب کو رد کر چکا تھا۔ لیکن فرض کیجئے اگر ایسا نہ ہو چکا ہوتا تب بھی آیت کا مضمون جیسا کہ ہم تقریر کر چکے ہیں حضور کی شان عصمت کے اصلاً مخالف نہیں۔

۴:  یعنی خدا نے ہر امت کا آئین اور طریق کار اس کے احوال و استعداد کے مناسب جداگانہ رکھا اور باوجودیکہ تمام انبیاء اور ملل سماویہ اصول دین اور مقاصد کلیہ میں جن پر نجات ابدی کا مدار ہے، باہم متحد اور ایک دوسرے کے مصدق رہے ہیں۔ پھر بھی جزئیات اور فروع کے لحاظ سے ہر امت کو ان کے ماحول اور مخصوص استعداد کے موافق خاص خاص احکام و ہدایات دی گئیں۔ اس آیت میں اسی فروعی اختلاف کی طرف اشارہ ہے۔ صحیح بخاری کی ایک حدیث میں جو سب انبیاء علیہم السلام کو آپس میں علاتی بھائی فرمایا ہے جن کا باپ ایک ہو اور مائیں مختلف ہوں۔ اس کا مطلب بھی یہ ہی ہے کہ اصول سب کے ایک ہیں اور فروع میں اختلاف ہے۔ اور چونکہ بچہ کی تولید میں باپ فاعل و مفیض اور ماں قابل اور محل افاضہ بنتی ہے، اس سے نہایت لطیف اشارہ اس طرف بھی ہو گیا کہ شرائع سماویہ کا اختلاف مخاطبین کی قابلیت و استعداد پر مبنی ہے، ورنہ مبداء فیاض میں کوئی اختلاف و تعدد نہیں۔ سب شرائع و ادیان سماویہ کا سر چشمہ ایک ہی ذات اور اس کا علم ازلی ہے۔

۵:  یعنی کون تم میں سے خدا کی مالکیت مطلقہ، علم محیط اور حکمت بالغہ پر یقین کر کے ہر نئے حکم کو حق و صواب سمجھ کر بطوع و رغبت قبول کرتا ہے اور ایک وفادار غلام کی طرح جدید حکم کے سامنے گردن جھکا دینے کے لئے تیار رہتا ہے۔

۶: یعنی شرائع کے اختلاف کو دیکھ کر خواہ مخواہ کی قیل و قال اور کج بحثیوں میں پڑ کر وقت نہ گنواؤ۔ وصول الی اللہ کا ارادہ کرنے والوں کو عملی زندگی میں اپنی دوڑ دھوپ رکھنی چاہیے اور جو عقائد، اخلاق اور اعمال کی خوبیاں شریعت سماویہ پیش کر رہی ہے ان کے لینے میں چستی دکھلانی چاہئے۔

۷:  تو انجام کا خیال کر کے حسنات و خیرات کی تحصیل میں مستعدی دکھلاؤ۔ اختلافات کی سب حقیقت وہاں جا کر کھل جائے گی۔

۴۹۔۔۔  ۱: یعنی آپس کے اختلافات میں خواہ دنیا کیسی ہی دست و گریباں رہے آپ کو یہ ہی حکم ہے کہ مَآ اَنْزَلَ اللہ کے موافق حکم دیتے رہیں۔ اور کسی کے کہنے سننے کی کوئی پروا نہ کریں۔

۲: پوری سزا تو قیامت میں ملے گی۔ لیکن کچھ تھوڑی سی سزا دے کر یہاں بھی مجرم کو یا دوسرے دیکھنے والوں کو ایک گو نہ تنبیہ کر دی جاتی ہے۔

۳: یعنی آپ ان لوگوں کے اعراض و انحراف سے زیادہ ملول نہ ہوں دنیا میں فرمانبردار بندے ہمیشہ تھوڑے ہی ہوتے ہیں وَمَآ اَکْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُوْمِنِیْنَ (یوسف، رکوع ۱۱'آیت ۳۔۱)

۵۰۔۔۔ یعنی جو لوگ خدا کی شہنشاہیت، رحمت کاملہ اور علم محیط پر یقین کامل رکھتے ہیں، ان کے نزدیک دنیا میں کسی کا حکم خدا کے حکم کے سامنے لائق التفات نہیں ہو سکتا۔ پھر کیا یہ لوگ احکام الٰہیہ کی روشنی آ جانے کے بعد ظنون وا ہواء اور کفرو جاہلیت کے اندھیرے ہی کی طرف جانا پسند کرتے ہیں۔

۵۱۔۔۔    ۱: اولیاء ولی کی جمع ہے ولی دوست کو بھی کہتے ہیں، قریب کو بھی، ناصر اور مددگار کو بھی۔ غرض یہ ہے کہ یہود و نصاریٰ بلکہ تمام کفار سے جیسا کہ سورہ نسآء میں تصریح کی گئی ہے مسلمان دوستانہ تعلقات قائم نہ کریں۔ اس موقع پر یہ ملحوظ رکھنا چاہیے کہ موالات، مروت و حسن سلوک، مصالحت، روا داری اور عدل و انصاف یہ سب چیزیں الگ الگ ہیں۔ اہل اسلام اگر مصلحت سمجھیں تو ہر کافر سے صلح اور عہد و پیمان مشروع طریقہ پر کر سکتے ہیں۔ وَاِنْ جَنَحُوْ الِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَھَا وَ تَوَکَّلْ عَلَی اللہ (انفال، رکوع۸'آیت ۶۱) عدل و انصاف کا حکم جیسا کہ گذشتہ آیات سے معلوم ہو چکا، مسلم و کافر ہر فرد بشر کے حق میں ہے۔ مروت اور حسن سلوک یا روا داری کا برتاؤ ان کفار کے ساتھ ہو سکتا ہے جو جماعت اسلام کے مقابلہ میں دشمنی اور عناد کا مظاہرہ نہ کریں۔ جیسا کہ سورہ ممتحنہ میں تصریح ہے۔ باقی موالات یعنی دوستانہ اعتماد اور برادرانہ مناصرت و معاونت، تو کسی مسلمان کا حق نہیں کہ یہ تعلق کسی غیر مسلم سے قائم کرے۔ البتہ صوری موالات جو اِلَّااَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقَاۃً کے تحت میں داخل ہو، اور عام تعاون جس کا اسلام اور مسلمانوں کی پوزیشن پر کوئی برا اثر نہ پڑے اس کی اجازت ہے۔ بعض خلفائے راشدین سے اس بارے میں جو غیر معمولی تشدید و تضییق منقول ہے اس کو محض سد ذرائع اور مزید احتیاط پر مبنی سمجھنا چاہئے۔

۲: یعنی مذہبی فرقہ بندی اور اندرونی بغض و عداوت کے باوجود باہم ایک دوسرے سے دوستانہ تعلقات رکھتے ہیں۔ یہودی یہودی کا، نصرانی نصرانی کا دوست بن سکتا ہے اور جماعت اسلام کے مقابلہ میں سب کفار ایک دوسرے کے دوست اور معاون بن جاتے ہیں۔ اَلْکُفْرُ مِلَّۃٌ وّاَحِدَۃٌ

۳: یعنی ان ہی کے زمرہ میں شامل ہے۔ یہ آیتیں رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی کے باب میں نازل ہوئی تھیں۔ یہود سے اس کا بہت دوستانہ تھا۔ اس کا گمان یہ تھا کہ اگر مسلمانوں پر کئی افتاد پڑی اور پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت مغلوب ہو گئی تو یہود سے ہماری یہ دوستی کام آئے گی۔ اسی واقعہ کی طرف اگلی آیت میں اشارہ کیا گیا ہے۔ توفی الحقیقت یہود کے ساتھ منافقین کی موالات کا اصلی منشاء یہ تھا کہ یہود جماعت اسلام ہے اس کے کفر میں کیا شبہ ہو سکتا ہے۔ منافقین میں کچھ لوگ اور بھی تھے جنہوں نے جنگ احد میں لڑائی کا پانسا بدلا ہوا دیکھ کر کہنا شروع کیا تھا کہ ہم تو اب فلاں یہودی یا فلاں نصرانی سے دوستانہ گانٹھیں گے اور ضرورت پیش آنے پر ان ہی کا مذہب اختیار کر لیں گے۔ اس قماش کے لوگوں کی نسبت بھی وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہُ مِنْھُمْ کا ظاہری مدلول اعلانیہ صادق ہے۔ رہے وہ مسلمان جو اس قسم کی نیت اور منشاء سے خالی ہو کر یہود و نصاریٰ کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کریں، چونکہ ان کی نسبت بھی قوی خطرہ رہتا ہے کہ وہ کفار کی حد سے زیادہ ہم نشینی اور اختلاط سے متاثر ہو کر رفتہ رفتہ ان ہی کا مذہب اختیار کر لیں۔ یا کم از کم اور رسوم شعائر کفر اور رسوم شرکیہ سے کارہ اور نفور نہ رہیں۔ اس اعتبار سے فانہ منھم کا اطلاق ان کے حق میں بھی ہو سکتا ہے جیسا کہ حدیث المرامع من احب نے اس مضمون کی طرف توجہ دلائی ہے۔

۴: یعنی جو لوگ کہ دشمنان اسلام سے موالات کر کے خود اپنی جان پر اور مسلمانوں پر ظلم کرتے ہیں اور جماعت اسلام کے مغلوب و مقہور ہونے کا انتظار کر رہے ہیں، ایسی بد بخت، معاند اور دغا باز قوم کی نسبت یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ بھی راہ ہدایت پر آئے گی۔

۵۲۔۔۔    ۱: یہ وہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں شک اور نفاق کی بیماری ہے جن کو خدا کے وعدوں پر اعتماد اور مسلمانوں کی حقانیت پر یقین نہیں، اسی لئے دوڑ دوڑ کر کافروں کی آغوش میں پناہ لینا چاہتے ہیں۔ تاکہ ان کے موہوم غلبہ کے وقت ثمرات فتح سے متمتع ہو سکیں۔ اور ان کے زعم میں جو گردشیں اور آفات جماعت اسلام پر آنے والی تھیں ان سے محفوظ رہیں۔ نَخْشیٰ اَنْ تُصِیْبَنَا دَآئِرَۃٌ کے یہ ہی معنی ان کے دلوں میں مکنون تھے۔ لیکن یہ ہی الفاظ (نخشیٰ ان تصیبنا دآئرۃ) جب پیغمبر علیہ السلام اور مخلص مسلمانوں کے سامنے یہود سے دوستانہ رکھنے کی معذرت میں کہتے تھے تو گردش زمانہ کا یہ مطلب ظاہر کرتے کہ یہود ہمارے ساہو کار ہیں ہم ان سے قرض و دام لے لیتے ہیں۔ اگر کوئی مصیبت قحط وغیرہ کی پڑی تو وہ ہمارے دوستانہ تعلقات کی وجہ سے آڑے وقت میں کام آ جائیں گے ان ہی خیالات کا جواب آگے دیا گیا ہے۔

۲: یعنی وہ وقت نزدیک ہے کہ حق تعالیٰ اپنے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کو فیصلہ کن فتوحات اور غلبہ عطا فرمائے اور مکہ معظمہ میں بھی جو تمام عرب کا مسلمہ مرکز تھا حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا فاتحانہ داخل کرے یا اس کے ما سوا اپنی قدرت اور حکم سے کچھ اور امور بروئے کار لائے جنہیں دیکھ کر ان منافقین کی ساری باطل توقعات کا خاتمہ ہو اور انہیں منکشف ہو جائے کہ دشمنان اسلام کی موالات کا نتیجہ دنیاوی ذلت ورسوائی اور اخروی عذاب الیم کے سوا کچھ نہیں۔ جب فضیحت و خسران کے یہ نتائج سامنے آ جائیں گے اس وقت بجز پچھتانے اور کف افسوس ملنے کے کچھ حاصل نہ ہو گا۔ الاٰن قد ندمت و ما ینفع الندم چنانچہ ایسا ہی ہوا اسلام کے عام غلبہ اور فتح مکہ وغیرہ کو دیکھ کر تمام اعدائے اسلام کے حوصلے پست ہو لئے بہت سے یہود مارے گئے، بہت سے جلا وطن ہوئے۔ منافقین کی ساری امیدوں پر پانی پھر گیا۔ مسلمانوں کے سامنے صریح طور پر جھوٹے ثابت ہوئے۔ موالات یہود میں جو کوششیں کی تھیں وہ اکارت گئیں اور خسران دنیاوی اور ہلاکت ابدی کا طوق گلے میں پڑا۔ اگلی آیت میں اسی مضمون کو بیان فرمایا ہے۔

۵۴۔۔۔   ۱: اس آیت میں اسلام کی ابدی بقا اور حفاظت کے متعلق عظیم الشان پیشین گوئی کی گئی ہے پچھلی آیات میں کفار کے موالات سے منع کیا گیا تھا۔ ممکن تھا کہ کوئی شخص یا قوم موالات کفار کی بدولت صریحاً اسلام سے پھر جائے۔ جیسا کہ وَ مَنْ یَّتَوَلُّھُمْ مِنْکُمْ فَاِنَّہ، مِنْھُمْ میں تنبیہ کی گئی ہے۔ قرآن کریم نے نہایت قوت اور صفائی سے آگاہ کر دیا کہ ایسے لوگ اسلام سے پھر کر کچھ اپنا ہی نقصان کریں گے، اسلام کو کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتے حق تعالیٰ مرتدین کے بدلے میں یا ان کے مقابلہ پر ایسی قوم لے آئے گا جن کو خدا کا عشق ہو اور خدا ان سے محبت کرے وہ مسلمانوں پر شفیق و مہربان اور دشمنان اسلام کے مقابلہ میں غالب اور زبردست ہوں گے یہ پیشین گوئی بحول اللہ وقوۃ ہر قرن میں پوری ہوتی رہی ارتداد کا فتنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد صدیق اکبر کے عہد میں پھیلا۔ کئی طرح کے مرتدین اسلام کے مقابلہ میں کھڑے ہو گئے۔ مگر صدیق اکبر کی ایمانی جرات اور اعلیٰ تدبر اور مخلص مسلمانوں کی سرفروشانہ اور عاشقانہ خدمات اسلام نے اس آگ کو بجھایا اور سارے عرب کو متحد کر کے از سر نو اخلاص و ایمان کے راستہ پر گامزن کر دیا۔ آج بھی ہم مشاہدہ کرتے رہتے ہیں کہ جب کبھی چند جاہل اور طامع افراد اسلام کے حلقہ سے نکلنے لگتے ہیں تو ان سے زیادہ اور ان سے بہتر تعلیم یافتہ اور محقق غیر مسلموں کو اسلام فطری کشش سے اپنی طرف جذب کر لیتا ہے اور مرتدین کی سرکوبی کے لئے خدا ایسے وفادار اور جاں نثار مسلمانوں کو کھڑا کر دیتا ہے جنہیں خدا کے راستہ میں کسی کی ملامت اور طعن و تشنیع کی پروا نہیں ہوتی۔

۲:  انسان کی بڑی سعادت اور اس پر خدا کا بڑا فضل یہ ہے کہ وہ فتنہ کے وقت خود جادہ حق پر ثابت قدم رہ کر دوسروں کو ہلاکت سے بچانے کی فکر کرے۔ خدا جن بندوں کو چاہے اس سعادت کبریٰ اور فضل عظیم سے حصہ وافر عطا فرماتا ہے۔ اس کا فضل غیر محدود ہے۔ اور وہی خوب جانتا ہے کہ کونسا بندہ اس کا اہل اور مستحق ہے۔

۵۵۔۔۔ پچھلی آیتوں میں یہود نصاریٰ کی موالات اور رفاقت کن سے ہونے چاہئیں یہ بتایا۔ اب اس آیت میں بتلا دیا گیا کہ ان کا رفیق اصلی خدا اور پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام اور مخلص مسلمانوں کے سوا کوئی نہیں ہو سکتا۔

۵۶۔۔۔ کفار کی کثرت اور مسلمانوں کی قلت عدد کو دیکھتے ہوئے ممکن تھا کہ کوئی ضعیف القلب اور ظاہر بین مسلمان اس تردد میں پڑ جاتا کہ تمام دنیا سے موالات منقطع کرنے اور چند مسلمانوں کی رفاقت پر اکتفا کر لینے کے بعد غالب ہونا تو درکنار، کفار کے حملوں سے اپنی زندگی اور بقاء کی حفاظت بھی دشوار ہے۔ ایسے لوگوں کی تسلی کے لئے فرما دیا کہ مسلمانوں کی قلت اور ظاہری بے سر و سامانی پر نظر مت کرو۔ جس طرف خدا اور اس کا رسول اور سچے وفادار مسلمان ہوں گے، وہ ہی پلہ بھاری رہے گا۔ یہ آیتیں خصوصیت سے حضرت عبادہ ابن صامت رضی اللہ عنہ کی منقبت میں نازل ہوئی ہیں۔ یہود بنی قینقاع سے ان کے بہت زیادہ دوستانہ تعلقات تھے۔ مگر خدا اور رسول کی موالات اور مومنین کی رفاقت کے سامنے انہوں نے اپنے سب تعلقات منقطع کر دیے۔

۵۷۔۔۔   ۱: کفار سے مراد یہاں مشرکین ہیں جیسا کہ عطف سے ظاہر ہے۔

۲:  گذشتہ آیات میں مسلمانوں کو موالات کفار سے منع فرمایا تھا اس آیت میں ایک خاص موثر عنوان سے اسی ممانعت کی تاکید کی گئی اور موالات سے نفرت دلائی گئی ہے ایک مسلمان کی نظر میں کوئی چیز اپنے مذہب سے زیادہ معظم و محترم نہیں ہو سکتی لہٰذا اسے بتایا گیا کہ یہود و نصاریٰ اور مشرکین تمہارے مذہب پر طعن و استہزاء کرتے ہیں اور شعائر اللہ (اذان وغیرہ) کا مذاق اڑاتے ہیں اور جو ان میں خاموش ہیں وہ بھی ان افعال شنیعہ کو دیکھ کر اظہار نفرت نہیں کرتے بلکہ خوش ہوتے ہیں کفار کی ان احمقانہ اور کمینہ حرکات پر مطلع ہو کر کوئی فرد مسلم جس کے دل میں خشیۃ الٰہی اور غیرت ایمانی کا ذرا سا شائبہ ہو کیا ایسی قوم سے موالات اور دوستانہ راہ و رسم پیدا کرنے یا قائم رکھنے کو ایک منٹ کے لئے گوارا کرے گا اگر ان کے کفر و عناد اور عداوت اسلام سے بھی قطع نظر کر لی جائے تو دین قیم کے ساتھ ان کا یہ تمسخر و استہزاء ہی علاوہ دوسرے اسباب کے ایک مستقل سبب ترک موالات کا ہے۔

۵۸۔۔۔  یعنی جب اذان کہتے ہو تو اس سے جلتے ہیں اور ٹھٹھا کرتے ہیں جو ان کی کمال حماقت اور بے عقلی کی دلیل ہے۔ کلمات اذان میں خداوند قدوس کی عظمت و کبریاء کا اظہار، توحید کا اعلان، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم جو تمام انبیاء سابقین اور کتب سماویہ کے مصدق ہیں، ان کی رسالت کا اقرار۔ نماز جو تمام اوضاع عبودیت کو جامع اور غایت درجہ کی بندگی پر دال ہے، اس کی طرف دعوت، فلاح دارین اور اعلیٰ سے اعلیٰ کامیابی حاصل کرنے کے لئے بلاوا، ان چیزوں کے سوا اور کیا ہوتا ہے پھر اس میں کونسی چیز ہے جو ہنسی اڑانے کے قابل ہو ایسی نیکی اور حق و صداقت کی آواز پر مسخرا پن کرنا صرف اسی شخص کا کام ہو سکتا ہے جس کا دماغ عقل سے یکسر خالی ہو اور جسے نیک و بد کی قطعاً تمیز باقی نہ رہے۔ بعض روایات میں ہے کہ مدینہ میں ایک نصرانی جب اذان میں اشھد ان محمدًا رسول اللہ سنتا تو کہتا قد حرق الکاذب (جھوٹا جل گیا یا جل جائے) اس کی نیت تو ان الفاظ سے جو کچھ ہو، مگر یہ بات بالکل اس کے حسب حال تھی۔ کیونکہ وہ خبیث جھوٹا تھا اور اسلام کا عروج و شیوع دیکھ کر آتش حسد میں جلا جاتا تھا۔ اتفاقاً ایک شب میں کوئی چھوکری آگ لے کر اس کے گھر میں آئی۔ وہ اور اس کے اہل و عیال سو رہے تھے ذرا سی چنگاری نادانستہ اس کے ہاتھ سے گر گئی جس سے سارا گھر مع سونے والوں کے جل گیا اور اس طرح خدا نے دکھلا دیا کہ جھوٹے لوگ دوزخ کی آگ سے پہلے ہی دنیا کی آگ میں کس طرح جل جاتے ہیں۔ اذان کے ساتھ استہزاء کرنے کا ایک اور واقعہ صحیح روایات میں منقول ہے وہ یہ کہ فتح مکہ کے بعد آپ حنین سے واپس ہو رہے تھے۔ راستہ میں حضرت بلال نے اذان کہی، چند نو عمر لڑکے جن میں ابو محذورہ بھی تھے، اذان کی ہنسی اور نقل کرنے لگے، آپ نے سب کو پکڑ بلوایا۔ آخر نتیجہ یہ ہوا کہ ابو محذورہ کے دل میں خدا نے اسلام ڈال دیا اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو مکہ کا موذن مقرر فرما دیا۔ اس طرح خدا کی قدرت نقل سے اصل بن گئی۔

۵۹۔۔۔  کسی کام پر طعن کرنا یا ہنسی اڑانا دو وجہ سے ہو سکتا ہے یا تو وہ کام ہی قابل استہزاء ہو یا کام کرنے والے کی حالت تمسخر کے لائق ہو پچھلی آیت میں بتلا دیا گیا کہ اذان کوئی ایسی چیز نہیں جس پر بجز پرلے درجہ کے احمق اور خفیف العقل کے کوئی شخص طعن یا استہزاء کر سکے۔ اس آیت میں اذان دینے والوں کے مقدس حالات پر بعنوان سوال متنبہ کیا گیا ہے یعنی استہزاء کرنے والے جو خیر سے اہل کتاب اور عالم شرائع ہونے کا بھی دعویٰ رکھتے ہیں وہ ذرا سوچ کر انصاف سے بتائیں کہ مسلمانوں سے ان کو اتنی ضد کیوں ہے اور کیا ایسی برائی وہ ہماری طرف دیکھتے ہیں جو ان کے زعم میں لائق استہزاء ہو بجز اس کے کہ ہم اس خدائے وحدہٗ لاشریک لہٗ پر اور اس کی اتاری ہوئی تمام کتابوں اور اس کے بھیجے ہوئے تمام پیغمبروں پر صدق دل سے ایمان رکھتے ہیں۔ اور اس کے بالمقابل استہزاء کرنے والوں کا حال یہ ہے کہ نہ خدا کی سچی اور صحیح توحید پر قائم ہیں اور نہ تمام انبیاء و رسل کی تصدیق و تکریم کرتے ہیں۔ اب تم ہی انصاف سے کہو کہ انتہا درجہ کے نا فرمان کو خدا کے فرمانبردار بندوں پر آوازہ کسنے اور طعن و تشنیع کرنے کا کہاں تک حق حاصل ہے۔

۶۰۔۔۔  یعنی اگر ایمان باللہ پر مستقیم ہونا اور ہر اس چیز کی جو خدا کی طرف سے کسی زمانہ میں نازل ہو سچے دل سے تصدیق کرنا ہی تمہارے زعم میں مسلمانوں کا سب سے بڑا جرم اور سب سے بڑی برائی ہے اور اسی وجہ سے تم ان کو مورد طعن و ملامت بناتے ہو تو آؤ کہ میں تم کو ایک ایسی قوم کا پتہ بتلاؤں جو اپنی شرارت اور گندگی کی وجہ سے بدترین خلائق ہے۔ جن پر خدا کی لعنت اور غضب کا اثر آج بھی نمایاں طور پر آشکارا ہے۔ جس کے بہت سے افراد اپنی مکاری اور بے حیائی اور حرص دنیا کی سزا میں بندر اور سور بنائے جا چکے ہیں اور جس نے خدا کی بندگی سے نکل کر شیطان کی غلامی اختیار کر لی۔ اگر انصاف سے دیکھا جائے تو یہ بدترین خلائق اور گم کردہ راہ قوم ہی اصلی معنی میں تمہارے طعن و استہزاء کی مستحق ہو سکتی ہے اور وہ خود تم ہی ہو۔

۶۱۔۔۔  یہاں ان ہی استہزاء کرنے والوں کے بعض مخصوص افراد کا بیان ہے جو غائبانہ تو مذہب اسلام پر طعن و تشنیع کرتے اور مسلمانوں کا مذاق اڑاتے تھے، لیکن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم یا مخلص مسلمانوں سے ملتے تو از راہ نفاق اپنے کو مسلمان ظاہر کرتے حالانکہ شروع سے آخر تک ایک منٹ کے لئے بھی انہیں اسلام سے تعلق نہیں ہوا نہ پیغمبر علیہ السلام کے ربانی وعظ و تذکیر کا کوئی اثر انہوں نے قبول کیا۔ کیا محض لفظ ایمان و اسلام زبان سے بول کر وہ خدا کو معاذ اللہ دھوکا دے سکتے ہیں۔ اگر اس  عالم الغیب والشہادہ کی نسبت جو ہر قسم کے ضمائر و سرائر پر مطلع ہے۔ ان کا گمان یہ ہو کہ محض لفظی ایمان سے اسے خوش کر لیں گے تو اس سے بڑھ کر کونسی حرکت قابل استہزاء و تمسخر ہو سکتی ہے۔ گویا اس آیت سے یہود نصاریٰ کے ان مضحکہ انگیز افعال و حرکات کا بیان شروع ہوا جن پر متنبہ کئے جانے کے بعد مسلمانوں کا استہزاء کرنے کے بجائے انہیں خود اپنا استہزاء کرنا چاہئے۔ اگلی آیات میں بھی اسی مضمون کی تتمیم و تکمیل ہے۔

۶۲۔۔۔  غالباً اثم سے لازمی اور عدوان سے متعدی گناہ مراد ہیں۔ یعنی ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ بہت شوق اور رغبت سے ہر قسم کے گناہوں کی طرف جھپٹتے ہیں۔ خواہ ان کا اثر اپنی ذات تک محدود ہو یا دوسروں تک پہنچے۔ جن کی اخلاقی حالت ایسی زبوں ہو اور حرام خوری ان کا شیوہ ٹھر گیا ہو ان کی برائی میں کسے شبہ ہو سکتا ہے یہ تو ان کے عوام کا حال تھا آگے خواص کا بیان کیا گیا ہے۔

۶۳۔۔۔ جب خدا کسی قوم کو تباہ کرتا ہے تو اس کی عوام گناہوں اور نا فرمانیوں میں غرق ہو جاتے ہیں اور اس کے خواص یعنی درویش اور علماء گونگے شیطان بن جاتے ہیں۔ بنی اسرائیل کا حال یہ ہی ہوا کہ لوگ عموماً دنیاوی لذات و شہوات میں منہمک ہو کر خدا تعالیٰ کی عظمت و جلال اور اس کے قوانین و احکام کو بھلا بیٹھے۔ اور جو مشائخ اور علماء کہلاتے تھے انہوں نے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ ترک کر دیا۔ کیونکہ دنیا کی حرص اور اتباع شہوات میں وہ اپنے عوام سے بھی آگے تھے۔ مخلوق کا خوف یا دنیا کا لالچ حق کی آواز بلند کرنے سے مانع ہوتا تھا۔ اسی سکونت اور مداہنت سے پہلی قومیں تباہ ہوئیں۔ اسی لئے امت محمدیہ علی صاحبہا الصلٰوۃ والتسلیم کو قرآن و حدیث کی بے شمار نصوص میں بہت ہی سخت تاکید و تہدید کی گئی ہے کہ کسی وقت اور کسی شخص کے مقابلہ میں اس فرض امر بالمعروف کے ادا کرنے سے تغافل نہ برتیں۔

۶۴۔۔۔  ۱: نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کے وقت اہل کتاب کے قلوب ان کی شرارت، کفر و طغیان، بدکاری، حرام خوری وغیرہ کی ممارست سے اس قدر مسخ ہو گئے تھے کہ بارگاہ ربوبیت میں گستاخی کرنے سے بھی ان کو کچھ باک نہ ہوتا تھا خداوند قدوس کا رتبہ ان کے یہاں ایک معمولی انسان کی حیثیت سے زیادہ نہ رہا تھا حق تعالیٰ کی جناب میں بے تکلف ایسے ہی واہی تباہی کلمات بک دیتے تھے۔ جنہیں سن کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔ کبھی کہتے اِنَّ اللہ فَقِیْرٌ وَّ نَحْنُ اَغْنِیَآءُ کبھی یہ الفاظ منہ سے نکالتے یَدُ اللہ مَغْلُوْلَۃً (خدا کا ہاتھ بند ہو گیا) اس سے مراد یا تو وہ ہی ہو گی جو ان اللہ فقیر سے تھی کہ خدا معاذ اللہ تنگ دست ہو گیا اس کے خزانہ میں کچھ رہا نہیں اور یا غل ید کنایہ بخل و امساک سے ہو۔ یعنی تنگ دست تو نہیں مگر آجکل بخل کرنے لگا ہے (العیاذباللہ) بہر حال کوئی معنی لو، اس کلمۂ  کفر کا منشا یہ تھا کہ جب تمرد و طغیان کی پاداش میں حق تعالیٰ نے ان ملاعین پر ذلت و نکبت، ضیق عیش، بدحالی اور تنگ میدانی مسلط فرما دی تو بجائے اس کے کہ اپنی سیاہ کاریوں اور شرارتوں پر متنبہ اور نادم ہوتے، الٹے حق تعالیٰ کی جناب میں گستاخیاں کرنے لگے۔ شاید یہ خیال ہوا ہو گا کہ ہم تو پیغمبروں کی اولاد بلکہ خدا کے بیٹے اور اس کے پیارے تھے۔ پھر یہ کیا معاملہ ہونے لگا کہ آج بنی اسماعیل تو دنیا میں پھیلتے جا رہے ہیں۔ زمینی فتوحات اور آسمانی برکات تو ان پر کشادہ کر دی گئی ہیں اور ہم بنی اسرائیل کہ خدا صرف ہمارا اور ہم اس کے تھے۔ اس طرح ذلیل و مغلوب اور تنگ ہو کر دربدر بھٹکتے پھرتے ہیں۔ ہم تو وہ ہی اسرائیل کی اولاد اور اَبْنَآ ؤُ اللہ وَاَحِبَّا ؤُہ، آج بھی ہیں جو پہلے تھے مگر معلوم ہوتا ہے کہ جس خدا کی ہم اولاد اور محبوب تھے (معاذاللہ) اس کے خزانہ میں کمی آ گئی یا آجکل بخل و امساک نے اس کا ہاتھ بند کر دیا ہے۔ احمق اتنا نہ سمجھے کہ حق تعالیٰ کے خزائن تو لا محدود اور اس کے کمالات غیر متبدل اور غیر متناہی ہیں۔ اگر معاذاللہ اس کے خزانہ میں کچھ نہ رہتا یا مخلوق کی تربیت و اعانت سے وہ ہاتھ کھینچ لیتا تو دنیا کا نظام کس طرح قائم رہ سکتا تھا اور جو روز افزوں عروج و فروغ پیغمبر علیہ السلام اور ان کے رفقاء کا تم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو یہ کس کے خزانہ اور دست کرم کار ہیں منت ہوتا۔ لہٰذا تم کو سمجھ لینا چاہیے کہ اس کا ہاتھ بند نہیں ہوا۔ البتہ گستاخیوں اور شرارتوں کی نحوست سے خدا کی جو لعنت اور پھٹکار تم پر پڑی ہے اس نے تمہارے حق میں خدا کی زمین باوجود وسعت کے تنگ کر دی ہے اور آئندہ اور زیادہ تنگ ہونے والی ہے اپنی تنگ حالی کو خدا کی تنگدستی سے منسوب کرنا تمہاری انتہائی سفاہت ہے۔

۲:  یہ دعا کے رنگ میں پیشین گوئی یا ان کی حالت واقع کی خبر دی گئی ہے چنانچہ واقعہ میں بخل و جبن نے ان کے ہاتھ بالکل بند کر دیے تھے۔

۳: حق تعالیٰ کے لئے جہاں ہاتھ، پاؤں، آنکھ وغیرہ نعوت ذکر کئی گئی ہیں ان سے بھول کر بھی یہ وہم نہ ہونا چاہیے کہ وہ معاذ اللہ مخلوق کی طرح جسم اور اعضائے جسمانی رکھتا ہے بس جس طرح خدا کی ذات اور وجود، حیات، علم، وغیرہ تمامی صفات کی کوئی نظیر اور مثال اور کیفیت اس کے سوا بیان نہیں ہو سکتی۔ اے برتر از خیال و قیاس و گمان و وہم وزہر چہ گفتہ اندو شنیدیم و خواندہ ایم دفتر تمام گشت و بپایاں رسید عمر ما ہمچناں در اول تو ماندہ ایم

۴:  اسی طرح ان نعوت و صفات کو خیال کرو خلاصہ یہ کہ جیسے خدا کی ذات بے چون و بیچگوں ہے اس کے سمع، بصر، ید وغیرہ نعوت و صفات کے معانی بھی اس کی ذات اور شان اقدس کے لائق اور ہمارے کیف و کم اور تعبیر و بیان کے احاطہ سے بالکل وراء الوراء ہیں لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ وَّھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْر (شوریٰ، رکوع۲) حضرت شاہ عبدالقادر نے ان آیات پر جو فائدہ لکھا ہے اس میں دو ہاتھوں سے مراد مہر کا اور قہر کا ہاتھ لیا ہے۔ یعنی آجکل خدا کے مہر کا ہاتھ امت محمدیہ پر اور قہر کا بنی اسرائیل پر کھلا ہوا ہے جیسا کہ اگلی آیتوں میں اشارہ فرمایا۔

۵: یعنی اس کو وہ ہی خوب جانتا ہے کہ کس وقت، کس پر، کس قدر خرچ کیا جائے۔ کبھی ایک وفادار کو امتحان یا اصلاح حال کی غرض سے تنگی اور عسرت میں مبتلا کر دیتا ہے اور کبھی اس کی وفاداری کے صلہ میں نعمائے آخرت سے پہلے دنیاوی برکات کے دروازے بھی کھول دیتا ہے۔ اس کے بالمقابل ایک مجرم متمرد پر کبھی آخرت کی سزا سے پہلے تنگ حالی، ضیق عیش اور مصائب آفات دنیاوی کی سزا بھیجتا ہے اور کسی وقت دنیاوی ساز و سامان کو فراخ کر کے مزید مہلت دیتا ہے کہ خدا کے احسانات سے متاثر ہو کر اپنے فسق و فجور پر کچھ شرمائے اور یا اپنی شقاوت کا پیمانہ پوری طرح لبریز کر کے انتہائی سزا کا مستحق ہو۔ ان مختلف احوال و اغراض اور متنوع حکمتوں کی موجودگی میں کسی شخص کے مقبول و مردود ہونے کا فیصلہ خدا کی اطلاع یا قرائن واحوال خارجیہ کی بناء پر کیا جا سکتا ہے جس طرح ایک چور کا ہاتھ کاٹا جائے، یا ڈاکٹر کسی مریض کا ہاتھ کاٹے، دونوں کی نسبت ہم احوال خارجہ اور قرائن سے سمجھ لیتے ہیں کہ ایک بطور سزا اور دوسرا از راہ شفقت و علاج کاٹا گیا ہے۔

۶: ان کی گستاخی کا جواب دیا جا چکا ہے، لیکن قرآن کے ایسے حکیمانہ جوابات سے ان معاندین اور سفہاء کو تسکین نہیں ہو گی بلکہ کلام الٰہی سن کر شرارت اور انکار میں اور زیادہ ترقی کریں گے۔ اگر غذائے صالح ایک بیمار کے معدہ میں پہنچ کر اس کے مرض کو زیادہ کر دیتی ہے تو اس میں غذا کا قصور نہیں مریض کے مزاج کی خرابی ہے۔

۷:  اگرچہ قریب میں خاص یہود کا مقولہ نقل کیا تھا۔ لیکن القینا بینھم سے مراد غالباً وہ اور ان کے بھائی بند سب ہیں۔ یعنی یہود نصاریٰ سب اہل کتاب کا حال بیان فرمایا ہے جیسا کہ پہلے اسی سورۃ میں گزر چکا اور اگلی آیت میں بھی سب اہل کتاب کو خطاب فرمایا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ جوں جوں ان کی شرارت اور انکار کو ترقی ہوئی اسی قدر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں اور منصوبے گانٹھیں گے اور لڑائی کی آگ سلگانے کے لئے تیار ہوں گے۔ لیکن ان کے آپس میں پھوٹ پڑ چکی ہے جو مٹ نہیں سکتی۔ اس سبب سے اسلامی برادری کے خلاف ان کی جنگی تیاریاں کامیاب نہیں ہوئیں۔

۸:  اس سے معلوم ہوا کہ اہل اسلام میں جب تک باہمی محبت اور اخوت مستحکم رہے گی اور رشد و صلاح کے طریق پر گامزن ہو کر فتنہ اور فساد سے مجتنب رہنے کا اہتمام رہے گا جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں تھا اس وقت تک اہل کتاب کی سب کوششیں ان کے مقابلہ میں بے کار ثابت ہوں گی۔

۶۵۔۔۔  یعنی باوجود ایسے شدید جرائم اور سخت شرارتوں کے اگر اب بھی اہل کتاب اپنے رویہ سے تائب ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور قرآن پر ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کر لیتے تو دروازہ توبہ کا بند نہیں ہوا۔ حق تعالیٰ کمال فضل و رحمت سے ان کو اخروی و دنیاوی نعمتوں سے سرفراز فرما دیتا اس کی رحمت بڑے سے بڑے مجرم کو بھی جب وہ شرمسار اور معترف ہو کر آئے مایوس نہیں کرتی۔

۶۶۔۔۔ ۱: یعنی قرآن کریم جو تورات و انجیل کے بعد ان کی تنبیہ اور ہدایت کے لئے نازل ہوا اس کو قائم کرتے کیونکہ اس کے تسلیم کے بدون تورات و انجیل کی بھی صحیح معنی میں اقامت نہیں ہو سکتی بلکہ تورات و انجیل اور جملہ کتب سماویہ کی اقامت کا مطلب ہی اب یہ ہو سکتا ہے کہ قرآن کریم اور پیغمبر آخرالزمان صلی اللہ علیہ و سلم جو کتب سابقہ کی پیشین گوئیوں کے مطابق بھیجے گئے ہیں ان کو قبول کیا جائے گویا اقامت تورات و انجیل کا حوالہ دیکر آگاہ فرما دیا کہ اگر قرآن کو انہوں نے قبول نہ کیا تو اس کے معنی یہ ہی ہیں کہ اپنی کتابوں کے قبول کرنے سے بھی منکر ہو گئے۔

۲: یعنی تمام ارضی سماوی برکات سے ان کو متمتع کیا جاتا اور ذلت، بدحالی اور ضیق عیش کی جو سزا ان کے عصیان و تمرد پر دی گئی تھی وہ اٹھا لی جاتی۔

۳:  یہ وہ معدود افراد ہیں جنہوں نے فطری سعادت سے توسط و اعتدال کی راہ اختیار کی اور حق کی آواز پر لبیک کہا۔ مثلاً عبد اللہ بن سلام اور ملک حبشہ نجاشی وغیرہ رضی اللہ عنہم۔

۶۷۔۔۔  پچھلی آیات میں اہل کتاب کی شرارت، کفر اور سیاہ کاریوں کا ذکر کر کے تورات، انجیل، قرآن اور کل کتب سماویہ کی اقامت کی ترغیب دی گئی تھی آئندہ قُلْ یَآاَھْلَ الْکِتَابِ لَسْتُمْ عَلیٰ شَیءٍ سے اہل کتاب کے مجمع میں اعلان کرنا چاہتے ہیں کہ اس اقامت کے بدون تمہاری مذہبی زندگی بالکل صفر اور لاشے محض ہے یَآ اَیُّھَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَآاُنْزِلَ اِلَیْکَ مِن رَّبِّکَ میں اسی دو ٹوک اعلان کے لئے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو تیار کیا گیا ہے۔ یعنی آپ پر جو کچھ پروردگار کی طرف سے اتارا جائے خصوصاً اس طرح کے فیصلہ کن اعلانات آپ بے خوف و خطر اور بلا تامل پہنچاتے رہیے۔ اگر بفرض محال کسی ایک چیز کی تبلیغ میں بھی آپ سے کوتاہی ہوئی تو بحیثیت رسول (خدائی پیغمبر) ہونے کے رسالت و پیغام رسانی کا جو منصب جلیل آپ کو تفویض ہوا ہے سمجھا جائے گا کہ آپ نے اس کا حق کچھ بھی ادا نہ کیا۔ بلاشبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے حق میں فریضہ تبلیغ کی انجام دہی پر بیش از بیش ثابت قدم رکھنے کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی موثر عنوان نہ ہو سکتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیس بائیس سال تک جس بے نظیر اولوالعزمی، جانفشانی، مسلسل جدو جہد اور صبر و استقلال سے فرض رسالت و تبلیغ کو ادا کیا، وہ اس کی واضح دلیل تھی کہ آپ کو دنیا میں ہر چیز سے بڑھ کر اپنے فرض منصبی (رسالت و بلاغ) کی اہمیت کا احساس ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے اس احساس قوی اور تبلیغی جہاد کو ملحوظ رکھتے ہوئے وظیفہ تبلیغ میں مزید استحکام و متثبت کی تاکید کے موقع پر موثر ترین عنوان یہ ہی ہو سکتا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو یٰایّھا الرسول سے خطاب کر کے صرف اتنا کہہ دیا جائے کہ اگر بفرض محال تبلیغ میں ادنیٰ سی کوتاہی ہوئی تو سمجھو کہ آپ اپنے فرض منصبی کے ادا کرنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ اور ظاہر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تمام تر کوششوں اور قربانیوں کا مقصد وحید ہی یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم خدا کے سامنے فرض رسالت کی انجام دہی میں اعلیٰ سے اعلیٰ کامیابی حاصل فرمائیں۔ لہٰذا یہ کسی طرح ممکن ہی نہیں کہ کسی ایک پیغام کے پہنچانے میں بھی ذرا سی کوتاہی کریں۔ عموماً یہ تجربہ ہوا ہے کہ فریضہ تبلیغ ادا کرنے میں انسان چند وجہ سے مقصر رہتا ہے۔ یا تو اسے اپنے فرض کی اہمیت کا کافی احساس اور شغف نہ ہو یا لوگوں کی عام مخالفت سے نقصان شدید پہنچنے یا کم از کم بعض فوائد کے فوت ہونے کا خوف ہو اور یا مخاطبین کے عام تمرد و طغیان کو دیکھتے ہوئے جیسا کہ پچھلی اور اگلی آیات میں اہل کتاب کی نسبت بتلایا گیا ہے، تبلیغ کے مثمر اور منتج ہونے سے مایوسی ہو پہلی وجہ کا جواب یآ ایھا الرسول سے فما بلغت رسالۃ تک، دوسری کا وَاللہ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ میں، اور تیسری کا اِنَّ اللہ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الکٰفِرِیْنَ میں دے دیا گیا۔ یعنی تم اپنا فرض ادا کئے جاؤ خدا تعالیٰ آپ کی جان اور عزت و آبرو کی حفاظت فرمانے والا ہے وہ تمام روئے زمین کے دشمنوں کو بھی آپ کے مقابلہ پر کامیابی کی راہ نہ دکھلائے گا، باقی ہدایت و ضلالت خدا کے ہاتھ میں ہے ایسی قوم جس نے کفر و انکار ہی پر کمر باندھ لی ہے اگر راہ راست پر نہ آئی تو تم غم نہ کرو اور نہ مایوس ہو کر اپنے فرض کو چھوڑو۔ نبی کریم نے اس ہدایت ربانی اور آئین آسمانی کے موا فق امت کو ہر چھوٹی بڑی چیز کی تبلیغ کی۔ نوع انسانی کے عوام وخواص میں سے جوابات جس طبقہ کے لائق اور جس کی استعداد کے مطابق تھی، آپ نے بلا کم و کاست اور بے خوف و خطر پہنچا کر خدا کی حجت بندوں پر تمام کر دی، اور وفات سے دو ڈھائی مہینے پہلے حجۃ الوداع کے موقع پر، جہاں چالیس ہزار سے زائد خادمان اسلام اور عاشقان تبلیغ کا اجتماع تھا، آپ نے علیٰ رؤس الاشہاد اعلان فرمایا کہ اے خدا تو گواہ رہ میں (تیری امانت) پہنچا چکا۔

۶۸۔۔۔  ۱: یعنی کل کتب سماویہ جن کا خاتم اور مہیمن قرآن کریم ہے۔ پچھلے رکوع میں اس آیت کی تفسیر گزر چکی۔

۲:  یعنی اس غم اور افسوس میں پڑ کر تنگ دل نہ ہوں اپنا فرض امن و اطمینان سے ادا فرماتے رہیں۔

۶۹۔۔۔  یعنی جو قوم مسلمان کہلاتی ہے یا یہود یا نصاریٰ یا صابی (یا اور کچھ ثمثیلاً چند مشہور مذاہب کا ذکر کیا گیا ہے) کوئی شخص ان ناموں کی بدولت یا نسل، رنگ، پیشہ، وطن وغیرہ احوال و خصائص کے لحاظ سے حقیقی فلاح اور دائمی کامیابی حاصل نہیں کر سکتا۔ کامیاب اور مامون و مصؤن ہونے کا ایک اور صرف ایک معیار ہے یعنی ایمان و عمل صالح جس قوم کو اپنے مقرب الٰہی یا کامیاب ہونے کا دعویٰ ہو وہ اسی کسوٹی پر اپنے کو کس کر دیکھ لے۔ اگر اس میں کھری اترے تو بے خوف و خطر مفلح اور کامیاب ہے ورنہ ہر وقت اپنے خدا کے غضب و قہر کے نیچے سمجھے۔ پچھلی آیات میں خاص اہل کتاب کو تبلیغ تھی اس آیت میں تمام اقوام و ملل کے سامنے بلا رو رعایت ایسا عجیب و غریب معقول اور منصافانہ قانون پیش کیا گیا ہے جس کے بعد کسی سلیم الفطرت انسان کو اسلام کی صداقت اور ہمہ گیری میں شبہ نہیں رہ سکتا۔ ایک شخص جب تک خدا (یعنی اس کے وجود، وحدانیت، صفات کمالیہ، نشانہائے قدرت، تمام احکام و قوانین، کل نائبین وسفراء) پر اور روز جزاء پر ایمان نہ لائے اور نیکی اختیار نہ کرے، کیا عقل سلیم قبول کر سکتی ہے کہ وہ نعیم دائم، رضائے حق اور سرور ابدی سے ہمکنار ہو سکے گا۔ ایمان باللہ کے تحت میں یہ سب چیزیں داخل ہیں۔ فرض کرو ایک شخض روشن دلائل نبوت کی موجودگی میں کسی پیغمبر کی توہین کرتا ہے (اور اس کو دعویٰ نبوت میں جھوٹا کہنا یہی اس کی توہین ہے) تو کیا کسی حکومت کے سفیر کی توہین اور اس کے صاف و صریح اسناد سفارت کی تکذیب اس حکومت کی توہین و تکذیب نہیں؟ اسی طرح سمجھ لو کہ جو شخص کسی ایک سچے پیغمبر کی تکذیب کرتا ہے اور اس کو قبول نہیں کرتا وہ فی الحقیقت خدا کے ان صاف و صریح نشانات و دلائل کو جھٹلا رہا ہے جو اس نے تصدیق نبوت کے لئے اتارے تھے۔ فَاِنَّھُمْ لاَ یُکَذِّبُوْنَکَ وَلٰکِنَّ الظَّالِمِیْنَ بِایٰاتِ اللہ یَجْحَدُوْنَ (انعام، رکوع۴'آیت ۳۳) کیا اللہ کی آیات اور صریح و اعلانیہ نشانات کو جھٹلانے کے بعد بھی ایمان باللہ کا دعویٰ رہ سکے گا۔ قرآن کریم نے جن تفصیلات کی طرف ایمان باللہ و عمل صالح کے اجمالی عنوان سے یہاں اشارہ فرمایا ہے۔ دوسرے مواضع میں وہ شرح و بسط سے مذکور ہیں۔ میرے نزدیک زیادہ صحیح اور قوی قول یہ ہے کہ صابئین عراق میں ایک فرقہ تھا جن کے مذہبی اصول عموماً حکمائے اشراقیین اور فلاسفہ طبیعیین کے اصول سے ماخوذ تھے۔ یہ لوگ روحانیات کے متعلق نہایت غلو رکھتے بلکہ ان کی پرستش کرتے تھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ ارواح مجردہ اور مد برات فلکیہ وغیرہ کی استعانت و استمداد سے ہی ہم رب الارباب (یعنی بڑے معبود) تک پہنچ سکتے ہیں۔ اتباع انبیاء کی ضرورت نہیں۔ کواکب کی ارواح مدبرہ اور اسی طرح دوسری روحانیات کو اپنے سے خوش رکھنے کے لئے ہیاکل بناتے تھے اور انہی ارواح کے لئے نماز، روزہ اور قربانی وغیرہ کرتے تھے۔ خلاصہ یہ کہ حنفاء کے مقابلہ میں صابئین کی جماعت تھی۔ جن کا سب سے بڑا حملہ نبوت اور اس کے لوازم و خواص پر ہوتا تھا۔ حضرت ابراہیم حنیف علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے وقت نمرود کی قوم صابی العقیدہ تھی جس کے رد و ابطال میں خدا کے خلیل نے جانبازی دکھلائی۔

۷۰۔۔۔ ۱:گذشتہ آیت میں جو معیار قبول عند اللہ کا بیان ہوا تھا یعنی ایمان اور عمل صالح یہاں یہ دکھلانا ہے کہ یہود اس معیار پر کہاں تک پورے اترتے ہیں۔

۲:  غلام کی وفاداری کا امتحان اس میں ہے کہ جس بات کو دل نہ چاہے آقا کے حکم سے کر گزرے اور اپنی رائے یا خواہش کو آقا کی مرضی کے تابع بنا دے۔ ورنہ صرف ان چیزوں کا مان لینا جو مرضی اور خواہش کے موافق ہوں یہ کونسا کمال ہے۔

۷۱۔۔۔  ۱: یعنی پختہ عہد و پیمان توڑ کر خدا سے غداری کی اس کے سفراء میں سے کسی کو قتل کیا یہ تو ان کے ایمان باللہ اور عمل صالح کا حال تھا۔ ایمان بالیوم الآخر کا اندازہ اس سے کر لو کہ اس قدر شدید مظالم اور باغیانہ جرائم کا ارتکاب کر کے بالکل بے فکر ہو بیٹھے۔ گویا ان حرکات کا کوئی خمیازہ بھگتنا نہیں پڑے گا۔ اور ظلم و بغاوت کے خراب نتائج کبھی سامنے نہ آئیں گے۔ یہ خیال کر کے خدائی نشانات اور خدائی کلام کی طرف سے بالکل ہی اندھے اور بہرے ہو گئے اور جو نا کردنی کام تھے وہ کئے حتیٰ کہ بعض انبیاء کو قتل اور بعض کو قید کیا آخر خدا تعالیٰ نے ان پر بخت نصر کو مسلط فرمایا پھر ایک مدت دراز کے بعد بعض ملوک فارس نے بخت نصر کی قید ذلت و رسوائی سے چھڑا کر بابل سے بیت المقدس کو واپس کیا۔ اس وقت لوگوں نے توبہ کی اور اصلاح حال کی طرف متوجہ ہوئے۔ خدا نے توبہ قبول کی لیکن کچھ زمانے کے بعد پھر وہ ہی شرارتیں سوجھیں اور بالکل اندھے بہرے ہو کر حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ علیہما السلام کے قتل کی جرات کی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل پر تیار ہو گئے۔

۲:  یعنی وہ اگرچہ خدا کے غضب و قہر کی طرف سے اندھے ہو گئے ہیں لیکن خدا ان کی تمام حرکات کو برابر دیکھتا رہا ہے۔ چنانچہ ان حرکات کی سزا اب امت محمدیہ کے ہاتھوں سے دلوا رہا ہے۔

۷۲۔۔۔  یہاں سے نصاریٰ کے ایمان باللہ کی کیفیت دکھلائی گئی ہے کہ وہ کہاں تک حقانیت کے اس معیار پر پورے اترے۔ ان کے ایمان باللہ کا حال یہ ہے کہ عقل کے خلاف، فطرت سلیمہ کے خلاف اور خود حضرت مسیح کی تصریحات کے خلاف مسیح ابن مریم کو خدا بنا دیا۔ ایک تین اور تین ایک کی بھول بھلیاں تو محض برائے نام ہیں حقیقتہً سارا زور و قوت صرف حضرت مسیح کی الوہیت ثابت کرنے پر صرف کیا جاتا ہے۔ حالانکہ خود حضرت مسیح علیہ السلام خدا کے رب ہونے اور دوسرے آدمیوں کی طرح اپنے مربوب ہونے کا اعلانیہ اعتراف فرما رہے ہیں۔ اور جس شرک میں ان کی امت مبتلا ہونے والی تھی اس کی برائی کس زور و شور سے بیان کر رہے ہیں۔ پھر بھی ان اندھوں کی عبرت نہیں ہوتی۔

۷۳۔۔۔ یعنی حضرت مسیح، روح القدس اور اللہ یا مسیح، مریم اور اللہ تینوں خدا ہیں (العیاذباللہ) ان میں ہر ایک کا حصہ دار اللہ ہوا پھر وہ تینوں ایک اور وہ ایک تین ہیں۔ عیسائیوں کا عام عقیدہ یہ ہی ہے اور اس خلاف عقل اور بدایت عقیدہ کو عجب گول مول اور پیچدار عبارتوں سے ادا کرتے ہیں اور جب کسی کی سمجھ میں نہیں آتا تو اس کو ایک ماوراء العقل حقیقت قرار دیتے ہیں سچ ہے لن یصلح العطار ما افسدہ الدھر۔

۷۴۔۔۔  یہ اسی غفور رحیم کی شان ہے کہ ایسے ایسے باغی اور گستاخ مجرم بھی جب شرمندہ ہو کر اور اصلاح کا عزم کر کے حاضر ہوں تو ایک منٹ میں عمر بھر کے جرائم معاف فرما دیتا ہے۔

۷۵۔۔۔ ۱: یعنی اسی مقدس و معصوم جماعت کے یہ بھی ایک فرد ہیں، نہیں خدا بنا لینا تمہاری سفاہت ہے۔

۲:  جمہور امت کی تحقیق یہ ہی ہے کہ خواتین میں نبوت نہیں آئی یہ منصب رجال ہی کے لئے مخصوص رہا ہے وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلاَّ رِجَالاً نُوْحِیْ اِلَیْھِمْ مِّنْ اَھْلِ الْقُریٰ (یوسف، رکوع۱۲'آیت ۱۰۹) حضرت مریم بتول بھی ایک ولی بی بی تھیں۔ نبی نہیں۔

۳:  غور کرنے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ جو شخص کھانے پینے کا محتاج ہے وہ تقریباً دنیا کی ہر چیز کا محتاج ہے۔ زمین، ہوا، پانی، سورج، حیوانات حتیٰ کہ میلے اور کھاد سے بھی اسے استغنا نہیں ہو سکتا۔ غلہ کے پیٹ میں پہنچنے اور ہضم ہونے تک خیال کرو بالواسطہ یا بلاواسطہ کتنی چیزوں کی ضرورت ہے۔ پھر کھانے سے جو اثرات و نتائج پیدا ہوں گے ان کا سلسلہ کہاں تک جاتا ہے۔ احتیاج و افتقار کے اس طویل الذیل سلسلہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہم الوہیت مسیح و مریم کے ابطال کو بشکل استدلال یوں بیان کر سکتے ہیں کہ مسیح و مریم اکل و شرب کی ضروریات سے مستغنی نہ تھے جو مشاہدہ اور تواتر سے ثابت ہے اور جو اکل و شرب سے مستغنی نہ ہو وہ دنیا کی کسی چیز سے مستغنی نہیں ہو سکتا پھر تم ہی کہو کہ جو ذات تمام انسانوں کی طرح اپنی بقاء میں عالم اسباب سے مستغنی نہ ہو وہ خدا کیونکر بن سکتی ہے یہ ایسی قوی اور واضح دلیل ہے جسے عالم و جاہل یکساں طور پر سمجھ سکتے ہیں یعنی کھانا پینا الوہیت کے منافی ہے اگرچہ نہ کھانا الوہیت کی دلیل نہیں ورنہ سارے فرشتے خدا بن جائیں معاذاللہ۔

۷۶۔۔۔ یعنی جب مسیح کو خدا کہا تو لازم ہے کہ معبود بھی کہو مگر معبود بننا صرف اسی ذات کے ساتھ مختص ہے جو ہر قسم کی نفع و ضرر کا مالک اور پورا با اختیار ہو کیونکہ عبادت انتہائی تذلل کا نام ہے اور انتہائی تذلل اسی کے سامنے اختیار کر سکتے ہیں جو انتہائی عزت اور غلبہ رکھنے والا ہر آن سب کی سننے والا اور سب کے احوال کا پوری طرح جاننے والا ہو اس میں تثلیث کے عقیدہ شرکیہ کے ساتھ تمام مشرکین کا رد ہو گیا۔

۷۷۔۔۔    ۱: عقیدہ کا مبالغہ یہ ہے کہ ایک مولود بشری کو خدا بنا دیا۔ اور عمل میں غلو وہ ہے جسے رہبانیت کہتے ہیں وَرَھْبَانِیَّۃنِ ابْتَدَعُوْھَا مَا کَتَبْنَاھَا عَلَیْھِمْ (الحدید، رکوع۴'آیت ۲۷) یہود کی جو قبائح بیان کی جا چکیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا پرستی میں غرق ہونے کی وجہ سے دین اور دینداروں کی ان کے یہاں کوئی عظمت و وقعت نہ تھی حتیٰ کہ انبیاء علیہم السلام کی اہانت و قتل وغیرہ ان کا خاص شعار تھا۔ برخلاف اس کے نصاریٰ نے تعظیم انبیاء میں اس قدر غلو کیا کہ ان میں سے بعض کو خدا یا خدا کا بیٹا کہنے لگے اور ترک دنیا کر کے رہبانیت اختیار کر لی۔

۲:  یعنی اصل انجیل وغیرہ کتب سماویہ میں اس عقیدہ شرکیہ کا کہیں پتہ نہ تھا۔ بعد میں یونانی بت پرستوں کی تقلید میں پولوس نے ایجاد کیا اسی پر سب چل پڑے اور اسی پر جمے رہے ایسی اندھی تقلید سے نجات کی توقع رکھنا کسی عاقل کو زیبا نہیں۔

۷۸۔۔۔ یوں تو تمام کتب سماویہ میں کافروں پر لعنت کی گئی ہے لیکن بنی اسرائیل کے کافروں پر جب وہ عصیان و تمرد میں حد سے گزر گئے کہ نہ مجرم کسی طرح ارتکاب جرائم سے باز آتا تھا اور نہ غیر مجرم مجرم کو روکتا تھا بلکہ سب شیر و شکر ہو کر بے تکلف ایک دوسرے کے ہم پیالہ و ہم نوالہ بنے ہوئے تھے۔ منکرات و فواحش کا ارتکاب کرنے والوں پر کسی طرح کے انقباض، تکدر اور تر شروئی کا اظہار بھی نہ ہوتا تھا۔ تب خدا نے حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت مسیح علیہ السلام کی زبان سے ان پر لعنت کی۔ جیسے گناہوں پر ان کی جسارت حد سے گزر چکی تھی۔ یہ لعنت بھی جو ایسے جلیل القدر انبیاء کے توسط سے کی گئی، غیر معمولی طور پر تباہ کن ثابت ہوئی۔ غالباً اسی لعنت کے نتیجہ میں ان میں کے بہت سے افراد ظاہراً اور باطناً بندر اور خنزیر کی شکل میں مسخ کر دیے گئے اور باطنی مسخ کا دائرہ تو اس قدر وسیع ہوا کہ ان کے بہت سے لوگ آج بھی ان مسلمانوں کو چھوڑ کر جو خدا کی تمام کتب سماویہ اور تمام انبیاء کی تصدیق و تعظیم کرتے ہیں، مشرکین مکہ سے جو خالص بت پرست اور نبوات وغیرہ سے جاہل محض ہیں، مسلمانوں کے خلاف دوستی گانٹھتے ہیں۔ اگر ان اہل کتاب کو خدا پر، نبی پر اور وحی الٰہی پر واقعی اعتقاد ہوتا تو کیا یہ ممکن تھا کہ اس قوم کی ضد میں جو ان تمام چیزوں کو مکمل طور پر مانتے ہیں بت پرستوں سے ساز باز کرتے۔ یہ بے حسی، بد مذاقی اور خدا پرستوں سے بھاگ کر بت پرستوں سے دوستی کرنا، اسی لعنت اور پھٹکار کا اثر ہے جس نے انہیں خدا کی رحمت عظیمہ سے کوسوں دور پھینک دیا ہے۔ پچھلی آیات میں ان کی گذشتہ کفریات اور جرائم کو بیان کر کے غلو فی الدین اور گمراہوں کی کورانہ تقلید سے منع فرمایا تھا تاکہ اب بھی اپنی ملعون حرکات سے تائب ہو کر حق و صداقت کے راستہ پر چلنے کی کوشش کریں۔ اس رکوع میں ان کی موجودہ حالت پر متنبہ کرتے ہوئے بتلایا کہ جو لعنت داؤد اور مسیح علیہما السلام کی زبانی ہوئی تھی اس کے آثار آج تک موجود ہیں۔ اہل اللہ اور عارفین سے نفرت و عداوت اور جاہل مشرکوں سے محبت، یہ کھلی دلیل اس کی ہے کہ ان کے قلوب خدائی لعنت کے اثر سے بالکل ممسوخ ہو چکے ہیں۔ اگر اب بھی انہوں نے اپنی حالت کو نہ سنبھالہ اور حق کی طرف رجوع نہ کیا تو ایسی شدید لعنت کے مورد بنیں گے جو خدا تعالیٰ سید الانبیاء خاتم الرسل صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان سے ان پر بھیجے گا۔

۷۹۔۔۔ لَا یَتَنَاھَوْنَ کے دو معنی ہو سکتے ہیں (۱) نہیں رکتے تھے کما فی روح المعانی (۲) نہیں روکتے تھے ایک دوسرے کو کما ہوالمشہور جب بدی کسی قوم میں پھیلے اور کوئی روکنے ٹوکنے والا بھی نہ ہو تو عذاب عام کا اندیشہ ہے۔

۸۰۔۔۔ ۱: کافروں سے مراد مشرکین ہیں اور ان آیات کا مصداق یہود مدینہ تھے۔ جنہوں نے مشرکین مکہ کے ساتھ سازش کر کے مسلمانوں سے لڑائی کی ٹھانی تھی۔

۲: یعنی جو ذخیرہ اعمال کا مرنے سے پہلے آخرت کے لئے بھیج رہے ہیں وہ ایسا ہے جو ان کو غضب الٰہی اور عذاب ابدی کا مستحق بناتا ہے۔

۸۱۔۔۔    ۱: النبی سے بعض مفسرین نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اور بعض نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو مراد لیا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ اگر ان یہود کو واقعی یقین حضرت موسیٰ علیہ السلام کی صداقت اور تعلیمات پر ہوتا تو نبی آخرالزمان کے مقابلہ میں جن کی بشارت خود موسیٰ علیہ السلام دے چکے ہیں مشرکین سے دوستی نہ کرتے یا یہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم پر مخلصانہ ایمان لے آتے تو ایسی حرکت ان سے سر زد نہ ہوتی کہ دشمنان اسلام سے ساز باز کریں۔ اس دوسری تقدیر پر آیت منافقین یہود کے حق میں ہو گی۔

۲:  خدا کی اور خود اپنے تسلیم کردہ پیغمبر کی نا فرمانی کرتے کرتے یہ حالت ہو گئی کہ اب موحدین پر مشرکین کو ترجیح دیتے ہیں۔ افسوس کہ آج ہم بہت سے نام نہاد مسلمانوں کی حالت بھی یہ ہی پاتے ہیں کہ مسلمان اور کفار کے مقابلہ کے وقت کافروں کو دوست بناتے اور انہی کی حمایت و وکالت کرتے ہیں۔ اَللّٰھُمَّ احْفَظْنَا مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئَاتِ اَعْمَالِنَا۔

۸۶۔۔۔ ان آیات میں بتلایا گیا کہ یہود کا مشرکین سے دوستی کرنا محض اسلام اور مسلمانوں کی عداوت و بغض کی وجہ سے ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو جن اقوام سے زیادہ سابقہ پڑتا تھا ان میں یہ دونوں قومیں یہود اور مشرکین علی الترتیب اسلام و مسلمین کی شدید ترین دشمن تھیں۔ مشرکین مکہ کی ایذا رسانیاں تو اظہر من الشمس ہیں۔ لیکن ملعون یہود نے بھی کوئی کمینہ سے کمینہ حرکت اٹھا کر نہیں رکھی۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو بے خبری میں پتھر کی چٹان گرا کر شہید کرنا چاہا، کھانے میں زہر دینے کی کوشش کی، سحر اور ٹوٹکے کرائے، غرض غضب پر غضب اور لعنت پر لعنت حاصل کرتے رہے۔ اس کے بالمقابل نصاریٰ باوجودیکہ وہ بھی کفر میں مبتلا تھے، اسلام سے جلتے تھے، مسلمانوں کا عروج ان کو ایک نظر نہ بھاتا تھا، تاہم ان میں قبول حق کی استعداد ان دونوں گروہوں سے زیادہ تھی۔ ان کے دل اسلام اور مسلمانوں سے محبت کرنے کی طرف نسبتاً جلد مائل ہو جاتے تھے اس کا سبب یہ تھا کہ اس وقت تک عیسائیوں میں علم دین کا چرچا دوسری قوموں سے زائد تھا، اپنے طریقہ کے موافق ترک دنیا اور زاہدانہ زندگی اختیار کرنے والے ان میں بکثرت پائے جاتے تھے۔ نرم دلی اور تواضع ان کی خاص صفت تھی جس قوم میں یہ خصال کثرت سے پائی جائیں ان کا لازمی نتیجہ یہ ہونا چاہئیے کہ اس میں قبول حق اور سلامت روی کا مادہ دوسری اقوام سے زیادہ ہو کیونکہ قبول حق سے عموماً تین چیزیں مانع ہوتی ہیں جہل، حب دنیا یا حسد و تکبّر وغیرہ۔ نصاریٰ میں قسیسین کا وجود جہل کو، رہبان کی کثرت حب دنیا کو، نرمی دل اور تواضع کی صفت کبر و نخوت وغیرہ کو کم کرتی تھی چنانچہ قیصر روم مقوقس مصر اور نجاشی ملک حبشہ نے جو کچھ برتاؤ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پیغام رسالت کے ساتھ کیا وہ اس کا شاہد ہے کہ اس وقت نصاریٰ میں قبول حق اور مودت مسلمین کی صلاحیت نسبتاً دوسری قوموں سے زائد تھی۔ مشرکین مکہ کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر جب ایک جماعت صحابہ رضی اللہ عنہم نے حبشہ کو ہجرت کی اور مشرکین نے وہاں بھی ملک حبشہ کے دربار تک اپنا پروپیگنڈا نہ چھوڑا تو بادشاہ نے ایک روز مسلمانوں کو بلا کر کچھ سوالات کئے اور حضرت مسیح علیہ السلام کی نسبت بھی ان کا عقیدہ دریافت کیا۔ حضرت جعفر نے سورہ مریم کی آیات پڑھیں اور اپنا عقیدہ صاف صاف بیان فرمایا۔ بادشاہ بے انتہا متاثر ہوا اور اقرار کیا کہ جو کچھ قرآن نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت عقیدہ ظاہر کیا ہے وہ بلا کم و کاست صحیح ہے۔ اس نے کتب سابقہ کی بشارات کے موافق حضور پر نور صلی اللہ علیہ و سلم کی نبی آخر الزمان تسلیم کیا۔ قصہ طویل ہے انجام کار ہجرت کے کئی سال بعد ایک وفد جو ستر نو مسلم عیسائیوں پر مشتمل تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس میں روانہ کیا۔ یہ لوگ جب مدینہ پہنچے اور قرآن کریم کے سماع سے لذت اندوز ہوئے تو کلام الٰہی سن کر وقف گریہ و بکا ہو گئے۔ آنکھوں سے آنسو اور زبان پررَبَّنَا اٰمنَّا الخ یہ کلمات جاری تھے۔ ان آیات میں اسی جماعت کا حال بیان فرمایا ہے۔ قیامت تک کے لئے کوئی خبر نہیں دی گئی کہ ہمیشہ عیسائیوں اور یہود و مشرکین وغیرہ کے تعلقات کی نوعیت اسلام و مسلمین کے ساتھ یہ ہی رہے گی۔ آج جو لوگ عیسائی کہلاتے ہیں ان میں کتنے قسیس و رہبان اور متواضع و منکسر المزاج ہیں اور کتنے ہیں جن کی آنکھوں سے کلام الٰہی سن کر آنسو ٹپک پڑتے ہیں جب اقربھم مودۃ کی علت ہی جو ذٰلِکَ بِاَنَّ مِنْھُمْ قِسِّیْسِیْنَ الخ سے بیان کی گئی، موجود نہیں تو معلول یعنی قرب موئدت کیوں موجود ہو گا۔ بہر حال جو اوصاف عہد نبوی کے عیسائیوں اور یہود و مشرکین کے بیان ہوئے، وہ جب کبھی اور جہاں کہیں جس مقدار میں موجود ہوں گے، اسی نسبت سے اسلام و مسلمین کی محبت و عداوت کو خیال کر لیا جائے۔

۸۸۔۔۔ آغاز سورت میں ایفائے عہود کی تاکید کے بعد حلال و حرام کا بیان شروع ہوا تھا۔ اسی ضمن میں خاص خاص مناسبات سے جن کا ذکر موقع بہ موقع ہم کر چکے ہیں، دوسرے مفید مضامین کا سلسلہ شروع ہو گیاالشیء بالشیء یذکر بات میں سے بات نکلتی رہی تمام استطرادی مضامین کو تمام کر کے اس پارہ کے پہلے رکوع سے پھر اصل موضوع بحث کی طرف عود کیا گیا ہے اور لطف یہ ہے کہ اس رکوع سے متصل پہلے رکوع میں جو مضمون گزرا اس سے بھی رکوع حاضر کا مضمون پوری طرح مربوط ہے۔ کیونکہ پچھلے رکوع میں یہود و نصاریٰ کی جو فضائح بیان کی گئیں سمجھنے والوں کے نزدیک ان کا خلاصہ دو چیزیں تھیں۔ یعنی یہود کا لذات و شہوات دنیا اور حرام خوری میں انہماک جو تفریط فی الدین کا سبب ہوا۔ اور نصاریٰ کا دین میں غلو اور افراط جو آخرکار رہبانیت وغیرہ پر منتہی ہوا۔ بلاشبہ رہبانیت جسے دینداری یا روحانیت کا ہیضہ کہنا چاہئیے، نیت اور منشائے اصلی کے اعتبار سے فی الجملہ محمود ہو سکتی تھی۔ اسی لئے  ذٰلِکَ بِانَّ مِنْھُمْ قِسِّیْسِیْنَ وَرَھْبَانًا کو من وجہ معرض مدح میں پیش کیا گیا۔ لیکن چونکہ اس طرح کا تجرد و ترک دنیا، اس مقصد عظیم اور قانون قدرت کے راستہ میں حائل تھا جو فاطر عالم نے عالم کی تخلیق میں مرعی رکھا ہے اس لئے وہ عالمگیر مذہب جو ابدی طور پر تمام بنی نوع انسان کی فلاح دارین اور اصلاح معاش و معاد کا متکفل ہو کر آیا ہے، ضروری تھا کہ اس طرح کے متبدعانہ طریق عبادت پر سختی سے نکتہ چینی کرے۔ کوئی آسمانی کتاب آج تک ایسی جامع، معتدل، فطری تعلیم انسانی ترقیات کے ہر شعبہ کے متعلق پیش نہیں کر سکتی، جو قرآن کریم نے ان دو آیتوں میں پیش کی ہے۔ ان آیتوں میں حق تعالیٰ نے مسلمانوں کو صاف طور پر اس سے روک دیا کہ وہ کسی لذیذ حلال و طیب چیز کو اپنے اوپر عقیدۃ یا عملاً حرام ٹھہرا لیں۔ نہ صرف یہ ہی بلکہ ان کو خدا کی پیدا کی ہوئی حلال و طیب نعمتوں سے متمتع ہونے کی ترغیب دی ہے مگر سلبی اور ایجابی دو شرطوں کے ساتھ (۱) اعتداء نہ کریں (حد سے نہ بڑھیں) (۲) اور تقویٰ اختیار کریں (خدا سے ڈرتے رہیں) اعتداء کے دو مطلب ہو سکتے ہیں حلال چیزوں کے ساتھ حرام کا سا معاملہ کرنے لگیں اور نصاریٰ کی طرح رہبانیت میں مبتلا ہو جائیں۔ یا لذائذ و طیبات سے تمتع کرنے میں حد اعتدال سے گزر جائیں حتیٰ کہ لذات و شہوات میں منہمک ہو کر یہود کی طرح حیات دنیا ہی کو اپنا مطمح نظر بنا لیں۔ الغرض غلو و جفا اور افراط و تفریط کے درمیان متوسط و معتدل راستہ اختیار کرنا چاہئے۔ نہ تو لذائذ دنیاوی میں غرق ہونے کی اجازت ہے اور نہ از راہ رہبانیت مباحات و طیبات کو چھوڑنے کی۔ از راہ رہبانیت کی قید ہم نے اس لئے لگائی کہ بعض اوقات بدنی یا نفسی علاج کی غرض کسی مباح سے عارضی طور پر پرہیز کرنا ممانعت میں داخل نہیں۔ نیز مسلمان تقویٰ کے مامور ہیں جس کے معنی ہیں خدا سے ڈر کر ممنوعات سے اجتناب کرنا، اور تجربہ سے معلوم ہے کہ بعض مباحات کا استعمال بعض اوقات کسی حرام یا ممنوع کے ارتکاب کی طرف مفضی ہو جاتا ہے۔ ایسے مباحات کو عہد و قسم یا تقرب کے طور پر نہیں بلکہ بطریق احتیاط اگر کوئی شخص کسی وقت باوجود اعتقاد اباحت ترک کر دے تو یہ رہبانیت نہیں بلکہ ورع و تقویٰ میں شامل ہے حدیث میں ہے لا یبلغ العبدان یکون من المتقین حتّیٰ یَدَعَ مَالَا بَاسَ بہ حذراً ممابہ باس (ترمذی) الحاصل ترک اعتداء اور اختیار تقویٰ کی قید کو ملحوظ رکھ کر ہر قسم کے طیبات سے مومن مستفید ہو سکتا ہے اور زندگی کے ہر شعبہ میں ترقیات کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔

۸۹۔۔۔ ۱: یعنی ان پر دنیا میں کفارہ نہیں جیسا کہ یمین منعقدہ میں واجب ہے۔ لغو و بیہودہ قسم کی تفسیر پارہ سیقول کے اواخر میں گزر چکی) آیت نمبر ۲۲۵ میں موجود ہے (۔ چونکہ اوپر تحریم طیبات کا ذکر تھا اور تحریم کی ایک قسم یمین بھی ہے اس لئے یمین کے احکام بیان کئے جاتے ہیں۔

۲: یعنی قسم توڑنے کے بعد یہ کفارہ دیا جائے گا۔ کھانا دینے میں اختیار ہے خواہ دس مساکین کو گھر بٹھلا کر کھانا کھلا دے یا صدقہ فطر کے برابر ہر مسکین کو غلہ یا اس کی قیمت ادا کر دے۔

۳: اس قدر جس سے بدن کا اکثر حصہ ڈھک جائے۔ مثلاً کرتہ اور پاجامہ یا لنگی اور چادر۔

۴:  یعنی ایک بردہ آزاد کرنا اس میں مومن ہونا شرط نہیں۔

۵: یعنی متواتر روزے تین دن کے رکھے اور میسر نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ صاحب نصاب نہ ہو کذا فی روح المعانی۔

۶: قسموں کی حفاظت یہ ہے کہ بلا ضرورت بات بات پر قسمیں نہ کھائے یہ عادت بھلی نہیں۔ اور اگر قسم کھائی تو تا مقدور پوری کرے اور اگر کسی وجہ سے توڑے تو کفارہ ادا کرے۔ یہ سب چیزیں حفاظت یمین میں داخل ہیں۔

۷:  کتنا بڑا احسان ہے کہ ہم نے طیبات سے گریز کیا تو اس گریز سے منع فرمایا۔ اور اگر کسی نے غلطی سے طیبات کو اپنے اوپر حرام ہی کر لیا تو اس کو حفاظت یمین کے ساتھ اس سے حلال ہونے کا طریقہ بھی بتلا دیا۔

۹۰۔۔۔ ۱: انصاب و ازلام کی تفسیر اسی سورت کی ابتداء میں وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِا لْاَزْلاَمِ) المائدہ رکوع۱ آیت نمبر ۳(کے تحت میں گزر چکی۔

۲: اس آیت سے پہلے بھی بعض آیات خمر (شراب) کے بارے میں نازل ہو چکی تھیں۔ اول یہ آیت نازل ہوئی یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ قُلْ فِیْھِمَا اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ اِثْمُھُمَا اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِھِمَا (البقرہ، آیت نمبر ۲۱۹) گو اس سے نہایت واضح اشارہ تحریم خمر کی طرف کیا جا رہا تھا مگر چونکہ صاف طور اس کے چھوڑنے کا حکم نہ تھا اس لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سن کر کہا اللھم بین لنا بیانا شافیا اس کے بعد دوسری آیت آئی یَآیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ الاَ تَقْرَبُو الصَّلٰوۃَ وَ اَنْتُمْ سُکَاریٰ الی آخر الآیۃ(نساء آیت نمبر ۴۳، رکوع۶) اس میں بھی تحریم خمر کی تصریح نہ تھی۔ گو نشہ کی حالت میں نماز کی ممانعت ہوئی اور یہ قرینہ اسی کا تھا کہ غالباً یہ چیز عنقریب کلیۃً حرام ہونے والی ہے۔ مگر چونکہ عرب میں شراب کا رواج انتہا کو پہنچ چکا تھا اور اس کا دفعتاً چھڑا دینا مخاطبین کے لحاظ سے سہل نہ تھا اس لئے نہایت حکیمانہ تدریج سے اولاً قلوب میں اس کی نفرت بٹھلائی گئی اور آہستہ آہستہ حکم تحریم سے مانوس کیا گیا۔ چنانچہ حضرت عمر نے اس دوسری آیت کو سن کر پھر وہ ہی لفظ کہے اللّٰھم بین لنا بیاناً شافیاً آخرکارمائدہ کی یہ آیتیں جو اس وقت ہمارے سامنے ہیں یَآ اَیُّھَا الَّذْینَ اٰمَنُوا سے فَھَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَھُوْنَ تک نازل کی گئیں جس میں صاف صاف بت پرستی کی طرح اس گندی چیز سے بھی اجتناب کرنے کی ہدایت تھی۔ چنانچہ حضرت عمرفھل انتم منتھون سنتے ہی چلا اٹھے انتھینا انتھینا لوگوں نے شراب کے مٹکے توڑ ڈالے، خم خانے برباد کر دئیے۔ مدینہ کی گلی کوچوں میں شراب پانی کی طرح بہتی پھرتی تھی۔ سارا عرب اس گندی شراب کو چھوڑ کر معرفت ربانی اور محبت و اطاعت نبوی کی شراب طہور سے مخمور ہو گیا اور ام الخبائث کے مقابلہ پر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ جہاد ایسا کامیاب ہوا جس کی نظیر تاریخ میں نہیں مل سکتی۔ خدا کی قدرت دیکھو کہ جس چیز کو قرآن کریم نے اتنا پہلے اتنی شدت سے روکا تھا، آج سب سے بڑے شراب خوار ملک امریکہ وغیرہ اس کی خرابیوں اور نقصانات کو محسوس کر کے اس کے مٹا دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ فللّٰہ الحمد والمنۃ۔

۹۱۔۔۔ شراب پی کر جب عقل جاتی رہتی ہے تو بعض اوقات شرابی پاگل ہو کر آپس میں لڑ پڑتے ہیں۔ کہ نشہ اترنے کے بعد بھی بعض دفعہ لڑائی کا اثر باقی رہتا ہے اور باہمی عداوتیں قائم ہو جاتی ہیں، یہ ہی حال بلکہ کچھ بڑھ کر جوئے کا ہے۔ اس میں ہار جیت پر سخت جھگڑے اور فساد برپا ہوتے ہیں جس سے شیطان کو اودھم مچانے کا خوب موقع ملتا ہے یہ تو ظاہری خرابی ہوئی اور باطنی نقصان یہ ہے کہ ان چیزوں میں مشغول ہو کر انسان خدا کی یاد اور عبادت الٰہی سے بالکل غافل ہو جاتا ہے۔ اس کی دلیل مشاہدہ اور تجربہ ہے۔ شطرنج کھیلنے والوں ہی کو دیکھ لو۔ نماز تو کیا، کھانے پینے اور گھر بار کی بھی خبر نہیں رہتی۔ جب یہ چیز اس قدر ظاہری و باطنی نقصانات پر مشتمل ہے تو کیا ایک مسلمان اتنا سن کر بھی باز نہ آئے گا۔

۹۲۔۔۔ اگر کسی چیز کے منافع و مضار کا احاطہ نہ کر سکو تب بھی خدا اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے احکام کا امتثال کرو اور قانون کی خلاف ورزی سے بچتے رہو۔ اگر نہ بچو گے تو ہمارے پیغمبر تم کو قانون و احکام الٰہی کھول کر پہنچا چکے۔ نتیجہ خلاف ورزی کا خود سوچ لو کیا ہو گا۔

۹۳۔۔۔ نہایت صحیح اور قوی احادیث میں ہے کہ جب تحریم کی آیات نازل ہوئیں تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان مسلمانوں کا کیا حال ہو گا جنہوں نے حکم تحریم آنے سے پہلے شراب پی اور اسی حالت میں انتقال کر گئے۔ مثلاً بعض صحابہ جو جنگ احد میں شراب پی کر شریک ہوئے اور اسی حالت میں شہید ہو گئے کہ پیٹ میں شراب موجود تھی۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ عموم الفاظ اور دوسری روایات کو دیکھتے ہوئے ان آیات کا مطلب یہ ہے کہ زندہ ہوں یا مردہ جو لوگ ایمان اور عمل صالح رکھتے ہیں ان کے لئے کسی مباح چیز کے بوقت اباحت کھا لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ خصوصاً جب کہ وہ لوگ عام احوال میں تقویٰ اور ایمان کی خصال سے متصف ہوں۔ پھر ان خصال میں برابر ترقی کرتے رہے ہوں حتیٰ کہ مدارج تقویٰ و ایمان میں ترقی کرتے کرتے مرتبہ احسان تک جا پہنچے ہوں جو ایک مومن کے لئے روحانی ترقیات کا انتہائی مقام ہو سکتا ہے۔ جہاں جہاں پہنچ کر حق تعالیٰ اپنے بندے کے ساتھ خصوصی محبت کرتا ہے و فی حدیث جبریلَ اْلاَحْسَان ان تَعْبَدَاللہ کَانَّکَ تَرَاہُ پس جو پاک باز صحابہ ایمان و تقویٰ میں عمر گزار کر اور نسبت احسان حاصل کر کے خدا کی راہ میں شہید ہو چکے ان کی نسبت اس طرح کے خلجان اور توہمات پیدا کرنے کی قطعاً گنجائش نہیں کہ وہ ایک ایسی چیز کا استعمال کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوئے ہیں جو اس وقت حرام نہیں تھی مگر بعد کو حرام ہوئی۔ محققین نے لکھا ہے کہ تقویٰ (یعنی مضار دینی سے مجتنب ہونے کے) کئی درجے ہیں۔ اور ایمان و یقین کے مراتب بھی بلحاظ قوت و ضعف متفاوت ہیں تجربہ اور نصوص شرعیہ سے ثابت ہے کہ جس قدر آدمی ذکر و فکر، عمل صالح اور جہاد فی سبیل اللہ میں ترقی کرتا ہے اسی قدر خدا کے خوف اور اس کی عظمت و جلال کے تصور سے قلب معمور اور ایمان و یقین مضبوط و مستحکم ہوتا رہتا ہے۔ مراتب سیرالی اللہ کی اسی ترقی و عروج کی طرف اس آیت میں تقویٰ اور ایمان کی تکرار سے اشارہ فرمایا اور سلوک کے آخری مقام احسان اور اس کے ثمرہ پر بھی تنبیہ فرما دی۔ اور جن حضرات صحابہ کے متعلق سوال کیا گیا تھا اس کا جواب ایک عام و تام ضابطہ بیان فرما کر ایسے عنوان سے دے دیا گیا جس میں ان مرحومین کی فضیلت و منقبت کی طرف بھی لطیف اشارہ ہو گیا۔ ذخیرہ احادیث صحیحہ میں دو مواقع ایسے ہیں جہاں صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس قسم کا سوال کیا ہے۔ ایک موقع تو یہی تحریم خمر کے متعلق ہے اور دوسرا تحویل قبلہ کے وقت سوال کیا گیا تھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جو لوگ حکم تحویل قبلہ سے پہلے وفات پا گئے اور ایک نماز بھی کعبہ کی طرف نہیں پڑھی ان کی نمازوں کا کیا حال ہو گا۔ اس پر آیت وَ مَا کَانَ اللہ لِیْضِیعَ اِیْمَانَکُمْ اِنَّ اللہ بِالنَّاسِ لَرَوُّفُ رَّحِیْم) البقرۃ آیت نمبر ۱۴۳(نازل ہوئی۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہی دو مسئلے ایسے تھے جن میں صاف صاف دو ٹوک حکم نازل ہونے سے پہلے نہایت ہی واضح آثار و قرائن ایسے موجود تھے جن کو دیکھ کر صحابہ رضی اللہ عنہم ہر آن نزول حکم صریح کا انتظار کر رہے تھے۔ خمر کے متعلق تو ابھی چند فوائد پہلے ہم ایسی روایات نقل کر چکے ہیں جن سے ہمارے اس دعوے کا کافی زائد ثبوت ملتا ہے اور تحویل قبلہ کے باب میں قرآن کریم کی آیات قَدْ نَرَیٰ تَقَلَّبَ وَ جْھِکَ فِی السَّمَآءِ فلَنُوَ لِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضٰھَا) البقرۃ آیت نمبر ۱۴۰(جو سیقول کے شروع میں گزریں خبر دے رہی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ہر وقت منتظر تھے کہ کب تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ ایسے واضح حالات صحابہ پر مخفی نہیں رہ سکتے تھے۔ اس لئے تحویل قبلہ کا حکم جب ایک آدمی نے کسی محلہ کی مسجد میں جا کر سنایا تو سارے نمازی محض خبر واحد سن کر بیت المقدس سے کعبہ کی طرف پھر گئے حالانکہ بیت المقدس کا استقبال قطعی طور پر انہیں معلوم تھا اور خبر واحد ظنی قطعی کے لئے ناسخ نہ ہو سکتی تھی اس لئے علمائے اصول نے تصریح کی ہے کہ یہ خبر واحد محفوف بالقرائن ہونے کی وجہ سے قطعی سمجھی گئی پس جو قرائن و آثار حتمی طور پر خبر دے رہے تھے کہ تحریم خمر یا تحویل قبلہ کا حکم امروز و فردا میں پہنچنے والا ہے۔ گویا وہ ایک طرح سے صحابہ کو نزول حکم سے پہلے مرضی الٰہی پر فی الجملہ مطلع کر رہے تھے۔ اسی لئے ان دو مسئلوں میں نزول حکم سے قبل کی حالت کے متعلق سوال کرنا محل استبعاد نہیں ہو سکتا۔ خصوصاً خمر کی نسبت جس کی ممانعت کے نہایت واضح اشارات وَ اِثْمُھُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِھِمَا وغیرہ میں موجود تھے۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔

۹۴۔۔۔ ۱: پچھلے رکوع میں تحریم طیبات اور اعتداء سے منع فرما کر بعض چیزوں سے اجتناب کا حکم دیا تھا جو دائمی طور پر حرام ہیں، اس رکوع میں بعض ایسی اشیاء کے ارتکاب سے منع کیا گیا ہے جس کی حرمت دائمی نہیں۔ بلکہ بعض احوال و اوضاع سے مخصوص ہے یعنی بحالت احرام شکار کرنا، مطلب یہ ہے کہ خدا کی طرف سے مطیع و فرمانبردار بندوں کا یہ امتحان ہے کہ وہ حالت احرام میں جب کہ شکار ان کے سامنے ہے اور بسہولت اس کے مارنے یا پکڑنے پر بھی قادر ہوں، کون ہے جو بن دیکھے خدا سے ڈر کر اس کے حکم کا امتثال کرتا اور اعتداء (احکام خداوندی سے تجاوز کرنے) کی خدائی سزا سے خوف کھاتا ہے۔ اصحاب سبت کا قصہ سورہ بقرہ میں گزر چکا کہ ان کو حق تعالیٰ نے خاص شنبہ کے دن مچھلی کے شکار کی ممانعت فرمائی تھی۔ مگر انہوں نے مکاری اور حیلہ بازی سے اس حکم کی مخالفت کی اور حد سے تجاوز کر گئے۔ خدا نے ان پر نہایت رسوا کن عذاب نازل فرمایا۔ اسی طرح حق تعالیٰ نے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ و سلم کا تھوڑا سا امتحان اس مسئلہ میں لیا کہ حالت احرام میں شکار نہ کریں۔ حدیبیہ کے موقع پر جب یہ حکم بھیجا گیا تو شکار اس قدر کثیر اور قریب تھا کہ ہاتھوں اور نیزوں سے مار سکتے تھے۔ مگر اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ثابت کر دکھایا کہ خدا کے امتحان میں ان کے برابر دنیا کی کوئی قوم کامیاب نہیں ہو سکی۔

۲:  لیعلم اللہ کے لفظ سے جو حدوث علم باری کا وہم گزرتا ہے اس کے ازالہ کے لئے پارہ سیقول کے شروع میں الا لنعلم من یتبع الرسول کا فائدہ ملاحظہ کرو۔

۹۵۔۔۔ ۱: اس کے متعلق بعض احکام سورہ مائدہ کے شروع میں میں گزر چکے۔

۲: جان کر مارنے کا یہ مطلب ہے کہ اپنا مُحرِم ہونا یاد ہو اور یہ بھی مستحضر ہو کہ حالت احرام میں شکار جائز نہیں۔ یہاں صرف معتمد کا حکم بیان فرمایا کہ اس کے فعل کی جزا یہ ہے اور خدا جو انتقام لے گا وہ الگ رہا جیسا کہ ومن عاد فینتقم اللہ منہ سے تنبیہ فرمائی۔ اور اگر بھول کر شکار کیا تو جزاء تو یہ ہی رہے گی یعنی ہدی یا طعام یا صیام البتہ خدا اس سے انتقامی سزا اٹھا لے گا۔

۳:  حنفیہ کے یہاں مسئلہ یہ ہے کہ اگر احرام میں شکار پکڑا تو فرض ہے کہ چھوڑ دے۔ اگر مار دیا تو صاحب بصیرت اور تجربہ کار معتبر آدمیوں سے اس جانور کی قیمت لگوائی اسی قدر قیمت کا مویشی میں سے ایک جانور لے کر (مثلاً بکری، گائے، اونٹ وغیرہ) کعبہ کے نزدیک یعنی حدود حرم میں پہنچا کر ذبح کرے، اور خود اس میں سے نہ کھائے یا اسی قیمت کا غلہ لے کر محتاجوں کو فی محتاج صدقۃ الفطر کی مقدار تقسیم کر دے یا جس قدر محتاجوں کو پہنچتا، اتنے ہی دنوں کے روزے رکھ لے۔

۴: یعنی نزول حکم سے پہلے یا اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں کسی نے یہ حرکت کی تھی تو اس سے اب خدا تعرُّض نہیں کرتا۔ حالانکہ اسلام سے پہلے بھی عرب حالت احرام میں شکار کو نہایت برا جانتے تھے اس لئے اس پر مواخذہ ہونا بیجا نہ تھا کہ جو چیز تمہارے زعم کے موافق جرائم میں داخل تھی اس کا ارتکاب کیوں کیا گیا۔

۵: یعنی نہ کوئی مجرم اس کے قبضہ قدرت سے نکل کر بھاگ سکتا ہے اور بہ مقتضائے عدل و حکمت جو جرائم سزا دینے کے قابل ہیں نہ خدا ان سے درگزر کرنے والا ہے۔

۹۶۔۔۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں احرام میں دریا کا شکار یعنی مچھلی حلال اور دریا کا کھانا یعنی جو مچھلی پانی سے جدا ہو کر مر گئی اس نے نہیں پکڑی وہ بھی حلال ہے۔ فرمایا یہ تمہارے فائدہ کو رخصت دی۔ پھر کوئی نہ سمجھے کہ حج کے طفیل سے حلال ہے۔ فرمایا کہ اور سب مسافروں کے فائدہ کو مچھلی اگر تالاب میں ہو وہ بھی شکار دریا ہے۔ یہ حکم شکار کا معلوم ہوا احرام کے اندر، اور احرام میں قصد ہے مکہ کا۔ اس شہر مکہ اور گرد و پیش میں ہمیشہ شکار مارنا حرام ہے بلکہ شکار کو ڈرانا اور بھگانا بھی۔

۹۷۔۔۔ کعبہ شریف دینی اور دنیاوی دونوں حیثیت سے لوگوں کے قیام کا باعث ہے۔ حج و عمرہ تو وہ عبادات ہیں جن کا ادا کرنا براہِ راست کعبہ ہی سے متعلق ہے۔ لیکن نماز کے لئے بھی استقبال قبلہ شرط ہے، اس طرح کعبہ لوگوں کی دینی عبادات کے قیام کا سبب ہو گیا۔ پھر حج وغیرہ کے موقع پر تمام بلاد اسلامیہ سے لاکھوں مسلمان جب وہاں جمع ہوتے ہیں تو بے شمار تجارتی، سیاسی، اخلاقی، مذہبی اور روحانی فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔ خدا نے اس جگہ کو حرم اٰمن بنایا۔ اس لئے انسانوں بلکہ بہت جانوروں تک کو وہاں رہ کر امن نصیب ہوتا ہے۔ عہد جاہلیت میں جب کہ ظلم و خونریزی اور فتنہ و فساد محض معمولی بات تھی ایک آدمی اپنے باپ کے قاتل سے بھی حرم شریف میں تعرض نہ کر سکتا تھا۔ مادی حیثیت سے انسان یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ جاتا ہے کہ اس وادی غیر ذی زرع میں اتنی افراط سے سامان خورد و نوش اور نفیس قسم کے پھل اور میوے کہاں سے کھنچے چلے آتے ہیں۔ یہ سب حیثیات قیاماً للناس میں معتبر ہو سکتی ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ علم الٰہی میں پہلے ہی مقدر ہو چکا تھا کہ نوع انسان کے لئے اسی جگہ سے عالمگیر اور ابدی ہدایت کا چشمہ پھوٹے گا اور مصلح اعظم سید کائنات محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے مولد ومسکن مبارک بننے کا شرف بھی سارے جہان میں سے اسی خاک پاک کو حاصل ہو گا۔ ان سب وجوہ سے کعبہ کو قیاماًللناس کہہ سکتے ہیں۔ کیونکہ کعبہ تمام روئے زمین کے انسانوں کے حق میں اصلاح اخلاق، تکمیل روحانیت اور علوم ہدایت کا مرکزی نقطہ ہے اور کسی چیز کا قیام اپنے مرکز کے بدون نہیں ہو سکتا۔ اس کے علاوہ محقِّقین کے نزدیک قیاماًللناس کا مطلب یہ ہے کہ کعبہ شریف کا مبارک وجود کل عالم کے قیام اور بقا کا باعث ہے۔ دنیا کی آبادی اسی وقت تک ہے جب تک خانہ کعبہ اور اس کا احترام کرنے والی مخلوق موجود ہے۔ جس وقت خدا کا ارادہ یہ ہو گا کہ کارخانہ عالم کو ختم کیا جائے تو سب کاموں سے پہلے اسی مبارک مکان کو جسے بیت اللہ شریف کہتے ہیں اٹھا لیا جائے گا، جیسا کہ بنانے کے وقت بھی زمین پر سب سے پہلا مکان یہ ہی بنایا گیا تھا۔ اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ الخ بخاری کی حدیث میں ہے کہ ایک سیاہ فام حبشی (جسے ذوالسویقتین کے لقب سے ذکر فرمایا ہے) عمارت کعبہ کا ایک ایک پتھر اکھیڑ کر ڈال دے گا جب تک خدا کو اس دنیا کا نظام قائم رکھنا منظور ہے کوئی طاقتور سے طاقتور قوم جس کا مقصد کعبہ کو ہدم کرنا ہو، اپنے اس ناپاک ارادہ میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اصحاب فیل کا قصہ تو ہر شخص نے سنا ہے لیکن ان کے بعد بھی ہر زمانہ میں کتنی قوموں اور شخصوں نے ایسے منصوبے باندھے ہیں اور باندھتے رہتے ہیں۔ یہ محض خدائی حفاظت اور اسلام کی صداقت کا عظیم الشان نشان ہے کہ باوجود سامان و اسباب ظاہرہ کے فقدان کے آج تک کوئی شخص اس ابلیسانہ مقصد میں کامیاب نہ ہو سکا اور نہ ہو سکے گا اور جب عمارت کعبہ کے گرا دینے میں قدرت کی طرف سے مزاحمت نہ رہے گی تو سمجھ لو کہ عالم کی ویرانی کا حکم آن پہنچا۔ دنیا کی حکومتیں اپنے دارالسلطنت اور قصر شاہی کی حفاظت کے لئے لاکھوں سپاہی کٹوا دیتی ہیں لیکن اگر کبھی خود ہی قصر شاہی کو کسی مصلحت سے تبدیل یا ترمیم کرنا چاہیں تو معمولی مزدوروں سے اس کے گروا دینے کا کام لے لیا جاتا ہے۔ شاید اسی لئے امام بخاری نے باب جعل اللہ الکعبۃ البیت الحرام قیاما للناس الایہ میں ذوالسویقتین کی حدیث درج کر کے قیاما للناس کے اسی مطلب کی طرف اشارہ کیا ہے جو ہم نقل کر چکے ہیں (نبہ علیہ شیخنا المترجم قدس اللہ روحہ فی دروس البخاری) بہر حال آیت زیر بحث میں احکا م محرم بیان فرمانے کے بعد کعبہ شریف کی عظمت و حرمت بیان کرنا مقصود ہے پھر کعبہ اور احرام کی مناسبت سے شہر حرام اور ہدی و قلائد کا بھی ذکر فرما دیا۔ جیسا کہ اسی سورت کے شروع میں غَیْرَ مُحِلِّی الصَّیْدِ وَاَنْتُمْ حُرُمٌ کے ساتھ لاَ تُحِلُّو ا شَعَآئِرَ اللہ وَلاَ الشَّھْرَ الْحَرَامَ وَلاَ الھدی ولاالقلائد کو ملحق فرمایا تھا واللہ اعلم۔

۲:  یعنی کعبہ وغیرہ کے قیاماًللناس بنانے میں جن مصالح دینی و دنیاوی کی رعایت فرمائی اور بظاہر بالکل خلاف قیاس جو عظیم الشان پیشین گوئی کی گئی وہ اس کی دلیل ہے کہ آسمان و زمین کی کوئی چیز حق تعالیٰ کے غیر محدود علم کے احاطہ سے باہر نہیں ہو سکتی۔

۹۸۔۔۔ یعنی جو احکام حالت احرام یا احترام کعبہ وغیرہ کے متعلق دیے گئے اگر ان کی عمداً خلاف ورزی کرو گے تو سمجھ لو کہ خدا کا عذاب بہت سخت ہے۔ اور بھول چوک سے کچھ تقصیر ہو جائے پھر کفارہ وغیرہ سے اس کی تلافی کر لو تو بیشک وہ بڑا بخشنے والا اور مہربان بھی ہے۔

۹۹۔۔۔ پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خدا کا قانون اور پیام پہنچا کر اپنا فرض ادا کر دیا اور خدا کی حجت بندوں پر تمام ہو چکی اب ظاہر و باطن میں جیسا عمل کرو گے وہ سب خدا کے سامنے ہے۔ حساب و جزا کے وقت ذرہ ذرہ تمہارے سامنے رکھ دیا جائے گا۔

۱۰۰۔۔۔    اس رکوع سے پہلے رکوع میں فرمایا تھا کہ طیبات کو حرام مت ٹھہراؤ بلکہ ان سے اعتدال کے ساتھ تمتع کرو۔ اس مضمون کی تکمیل کے بعد خمر وغیرہ چند ناپاک اور خبیث چیزوں کی حرمت بیان فرمائی۔ اسی سلسلے میں محرم کے شکار کو حرام کیا۔ یعنی جس طرح خمر سیتہ وغیرہ خبیث چیزیں ہیں اسی طرح محرم کے شکار کو سمجھو محرم کی مناسبت سے چند ضمنی چیزوں کا بیان فرمانے کے بعد اب متنبہ فرماتے ہیں کہ طیب اور خبیث یکساں نہیں ہو سکتے۔ تھوڑی چیز اگر طیب و حلال ہو وہ بہت سی خبیث و حرام چیز سے بہتر ہے۔ عقلمند کو چاہیے کہ ہمیشہ طیب و حلال کو اختیار کرے، گندی اور خراب چیزوں کی طرف خواہ وہ دیکھنے میں کتنی ہی زیادہ ہوں اور بھلی لگیں نظر نہ اٹھائے۔

۱۰۱۔۔۔ ۱: پچھلے دو رکوع کا حاصل احکام دینیہ میں غلو اور تساہل سے روکنا تھا یعنی جو طیبات خدا نے حلال کی ہیں ان کو اپنے اوپر حرام مت ٹھہراؤ اور جو چیزیں خبیث و حرام ہیں خواہ دائمی طور پر یا خاص احوال و اوقات میں ان سے پوری طرح اجتناب کرو۔ ان آیات میں تنبیہ فرما دی کہ جو چیزیں شارع نے تصریحاً بیان نہیں فرمائیں ان کے متعلق فضول اور دوراز کار سوالات مت کیا کرو جس طرح تحلیل و تحریم کے سلسلہ میں شارع کا بیان موجب ہدایت و بصیرت ہے۔ اس کا سکوت بھی ذریعہ رحمت و سہولت ہے۔ خدا نے جس چیز کو کمال حکمت و عدل سے حلال یا حرام کر دیا وہ حلال یا حرام ہو گئی اور جس سے سکوت کیا اس میں گنجائش اور توسیع رہی۔ مجتہدین کو اجتہاد کا موقع ملا عمل کرنے والے اس کے فعل و ترک میں آزاد رہے۔ اب اگر ایسی چیزوں کی نسبت خواہ مخواہ کھود کرید اور بحث و سوال کا دروازہ کھولا جائے گا بحالیکہ قرآن شریف نازل ہو رہا ہے اور تشریع کا باب مفتوح ہے تو بہت ممکن ہے کہ سوالات کے جواب میں بعض ایسے احکام نازل ہو جائیں جن کے بعد تمہاری یہ آزادی اور گنجائش اجتہاد باقی نہ رہے۔ پھر یہ سخت شرم کی بات ہو گی کہ جو چیز خود مانگ کر لی ہے اس کو نباہ نہ سکیں۔ سنت اللہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ جب کسی معاملہ میں بکثرت سوال اور کھود کرید کی جائے اور خواہ مخواہ شقوق اور احتمالات نکالے جائیں تو ادھر سے تشدید (سختی) بڑھتی جاتی ہے کیونکہ اس طرح کے سوالات ظاہر کرتے ہیں کہ گویا سائلین کو اپنے نفس پر بھروسہ ہے اور جو حکم ملے گا اس کے اٹھانے کے لئے وہ بہمہ وجوہ تیار ہیں۔ اس قسم کا دعویٰ جو بندہ کے ضعف و افتقار کے مناسب نہیں، مستحق بنا دیتا ہے کہ ادھر سے حکم میں کچھ سختی ہو اور جتنا یہ اپنے کو قابل ظاہر کرتا ہے اسی کے موافق امتحان بھی سخت ہو۔ چنانچہ بنی اسرائیل کے ذبح بقرہ والے قصہ میں ایسا ہی ہوا۔ حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ اے لوگوں خدا نے تم پر حج فرض کیا ہے ایک شخص بول اٹھا کیا ہر سال یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا اگر میں (ہاں) کہہ دیتا تو ہر سال واجب ہو جاتا پھر تم ادا نہ کر سکتے، جس چیز میں تم کو آزاد چھوڑوں تم بھی مجھ کو چھوڑ دو۔ ایک حدیث میں فرمایا کہ مسلمانوں میں وہ شخص بڑا مجرم ہے جس کے سوالات کی بدولت ایسی چیز حرام کی گئی جو حرام نہ تھی۔ بہر حال یہ آیت احکام شرعیہ کے باب میں اس طرح کے دور از کار اور بے ضرورت سوالات کا دروازہ بند کرتی ہے۔ باقی بعض احادیث میں جو یہ مذکور ہے کہ کچھ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے جزئی واقعات کے متعلق لغو سوال کرتے تھے ان کو روکا گیا وہ ہماری تقریر کے مخالف نہیں۔ ہم لاَ تَسْئَلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ  میں اشیآء کو عام رکھتے ہیں جو واقعات و احکام دونوں کو شامل ہے اور تَسُؤْکُمْ  میں بھی جو برا لگنے کے معنی پر مشتمل ہے تعمیم رکھی جائے۔ حاصل یہ ہو گا کہ نہ احکام کے باب میں فضول سوالات کیا کرو اور نہ واقعات کے سلسلہ میں کیونکہ ممکن ہے جو جواب آئے وہ تم کو ناگوار ہو مثلاً کوئی سخت حکم آیا یا کوئی قید بڑھ گئی۔ یا ایسے واقعہ کا اظہار ہوا جس سے تمہاری فضیحت ہو، یا بیہودہ سوالات پر ڈانٹ بتلائی گئی، یہ سب احتمالات تَسُؤْکُمْ کے تحت میں داخل ہیں۔ باقی ضروری بات پوچھنے یا شبہ ناشی عن دلیل کے رفع کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

۲: یا تو مراد یہ ہے کہ ان اشیاء سے درگزر کی، یعنی جب خدا نے ان کے متعلق کوئی حکم نہ دیا تو انسان ان کے بارے میں آزاد ہے خدا ایسی چیزوں پر گرفت نہ کرے گا۔ چنانچہ اسی سے بعض علمائے اصول نے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ اصل اشیاء میں اباحت ہے اور یا یہ کہ ان فضول سوالات سے جو پہلے کر چکے ہو اللہ نے درگزر کی آئندہ احتیاط رکھو۔

۱۰۲۔۔۔ حدیث صحیح میں ہے کہ پہلی قومیں کثرت سوال اور انبیاء سے اختلاف کرنے کی بدولت ہلاک ہوئیں۔

۱۰۳۔۔۔ بحیرہ، صائبہ، وسیلہ، حامی یہ سب زمانہ جاہلیت کے رسوم و شعائر سے متعلق ہیں۔ مفسرین نے ان کی تفسیر میں بہت اختلاف کیا ہے ممکن ہے ان میں سے ہر ایک لفظ کا اطلاق مختلف صورتوں پر ہوتا ہو ہم صرف سعید بن المسیب کی تفسیر صحیح بخاری سے نقل کرتے ہیں۔ بحیرہ جس جانور کا دودھ بتوں کے نام کر دیتے تھے کوئی اپنے کام میں نہ لاتا تھا۔ سائبہ جو جانور بتوں کے نام پر ہمارے زمانے کے سانڈھ کی طرح چھوڑ دیا جاتا تھا۔ وصیلہ جو اونٹنی مسلسل مادہ بچہ جنے درمیان میں نر بچہ پیدا نہ ہو اسے بھی بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے تھے۔ حامی نر اونٹ جو ایک خاص عدد سے جفتی کر چکا ہو اسے بھی بتوں کے نام پر چھوڑتے تھے۔ علاوہ اس کے کہ یہ چیزیں شعائر شرک میں سے تھیں، جس جانور کے گوشت یا دودھ یا سواری وغیرہ سے منتفع ہونے کو حق تعالیٰ نے جائز رکھا اس کی حلت و حرمت پر اپنی طرف سے قیود لگانا، گویا اپنے لئے منصب تشریع کو تجویز کرنا تھا اور بڑی ستم ظریفی یہ تھی کہ اپنی ان مشرکانہ رسوم کو حق تعالیٰ کی خوشنودی اور قربت کا ذریعہ تصور کرتے تھے اس کا جواب دیا گیا کہ اللہ نے ہرگز یہ رسوم مقرر نہیں کیں۔ ان کے بڑوں نے خدا پر یہ بہتان باندھا اور اکثر بے عقل عوام نے اسے قبول کر لیا۔ الغرض یہاں تنبیہ کی گئی کہ جس طرح فضول دبے کار سوالات کر کے احکام شرعیہ میں تنگی اور سختی کرانا جرم ہے اس سے کہیں بڑھ کر یہ جرم ہے کہ بدون حکم شارع کے محض اپنی آراء و اہواء سے حلال و حرام تجویز کر لئے جائیں۔

۱۰۴۔۔۔ جاہلوں کی سب سے بڑی حجت یہ ہی ہوتی ہے کہ جو کام باپ دادا سے ہوتا آیا ہے اس کا خلاف کیسے کریں۔ ان کو بتلایا گیا کہ اگر تمہارے اسلاف بے عقلی یا بے راہی سے قعر ہلاکت میں جا گرے ہوں تو کیا پھر بھی تم ان ہی کی راہ چلو گے؟ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں باپ کا حال معلوم ہو کہ حق کا تابع اور صاحب علم تھا تو اس کی راہ پکڑے نہیں تو عبث ہے یعنی کیف ما اتفق ہر کسی کی کو رانہ تقلید جائز نہیں۔

۱۰۵۔۔۔ ۱: یعنی اگر کفار رسوم شرکیہ اور آباؤ اجداد کی اندھی تقلید سے باوجود اس قدر نصیحت و فہمائش کے باز نہیں آتے تو تم زیادہ اس غم میں مت پڑو۔ کسی کی گمراہی سے تمہارا کوئی نقصان نہیں بشرطیکہ تم سیدھی راہ پر چل رہے ہو۔ سیدھی راہ یہ ہی ہے کہ آدمی ایمان و تقویٰ اختیار کرے، خود برائی سے رُکے اور دوسروں کو روکنے کی امکانی کوشش کرے پھر بھی اگر لوگ برائی سے نہ رکیں تو اس کا کوئی نقصان نہیں۔ اس آیت سے یہ سمجھ لینا کہ جب ایک شخص اپنا نماز روزہ ٹھیک کر لے تو امر بالمعروف چھوڑ دینے سے اسے کوئی مضرت نہیں ہوتی، سخت غلطی ہے۔ لفظ اہتداء امربالمعروف وغیرہ تمام وظائف ہدایت کو شامل ہے۔ اس آیت میں گو روئے سخن بظاہر مسلمانوں کی طرف ہے لیکن ان کفار کو بھی متنبہ کرنا ہے جو باپ دادا کی کو رانہ تقلید پر اڑے ہوئے تھے یعنی اگر تمہارے باپ دادا راہ حق سے بھٹک گئے تو ان کی تقلید میں اپنے کو جان بوجھ کر کیوں ہلاک کرتے ہو۔ انہیں چھوڑ کر تم اپنی عاقبت کی فکر کرو اور نفع و نقصان کو سمجھو۔ باپ دادا اگر گمراہ ہوں اور اولاد ان کے خلاف راہ حق پر چلنے لگے تو آباؤ اجداد کی یہ مخالفت اولاد کو قطعاً مضر نہیں۔ یہ خیالات محض جہالت کے ہیں کہ کسی حال میں بھی آدمی باپ دادا کے طریقہ سے قدم باہر نہ رکھے، رکھے گا تو ناک کٹ جائے گی۔ عقلمند کو چاہیے کہ انجام کا خیال کرے۔ سب اگلے پچھلے جب خدا کے سامنے اکٹھے پیش ہوں گے تب ہر ایک کو اپنا عمل اور انجام نظر آ جائے گا۔

۲: یعنی جو گمراہ رہا اور جس نے راہ پائی سب کے نیک و بد اعمال اور ان کے نتائج سامنے کے دئیے جائیں گے۔

۱۰۶۔۔۔ ۱: یعنی بہتر یہ ہے۔ باقی اگر دو نہ ہوں یا معتبر نہ ہوں تب بھی وصی بنا سکتا ہے اور گواہ سے مراد یہاں وصی ہے اس کے اقرار و اظہار کو گواہی سے تعبیر فرما دیا۔

۲:  یعنی مسلمانوں میں سے۔

۳: یعنی غیر مسلم۔

۴: یعنی نماز عصر کے بعد کہ وہ وقت اجتماع اور قبول کا ہے شاید ڈر کر جھوٹی قسم نہ کھائیں۔ یا کسی نماز کے بعد یا وصی جس مذہب کے ہوں ان کی نماز کے بعد۔

۵:  یعنی جب خدا کے پاس سب کو جانا ہے تو جانے سے پہلے سب کام ٹھیک کر لو۔ اسی میں سے ایک اہم کام ضروری امور کی وصیت اور اس کے متعلقات ہیں۔ ان آیات میں وصیت کا بہترین طریقہ تلقین فرمایا ہے۔ یعنی مسلمان اگر مرتے وقت کسی کو اپنا مال وغیرہ حوالہ کرے تو بہتر ہے کہ دو معتبر مسلمانوں کو گواہ کرے۔ مسلمان اگر نہ ملیں جیسے سفر وغیرہ میں اتفاق ہو جاتا ہے تو دو کافروں کو وصی بنائے پھر اگر وارثوں کو شبہ پڑ جائے کہ ان شخصوں نے کچھ مال چھپا لیا اور وارث دعویٰ کر دیں اور دعوے کے ساتھ شاہد موجود نہ ہوں تو وہ دونوں شخص قسم کھائیں کہ ہم نے نہیں چھپایا اور ہم کسی طمع یا قرابت کی وجہ سے جھوٹ نہیں کہہ سکتے۔ اگر کہیں تو گنہگار ہیں۔

۱۰۷۔۔۔ ۱: ایک ہو تب بھی مضائقہ نہیں۔

۲:  یعنی اگر قرائن و آثار سے اوصیاء کی قسم کا جھوٹ معلوم ہو اور وہ بذریعہ شہادت شرعی اپنی سچائی ثابت نہ کر سکیں تو میت کے وارثوں کو قسم دی جائے گی کہ ان کو اوصیاء کے دعوے کی واقعیت کا کوئی علم نہیں اور یہ کہ ان کی گواہی اوصیاء کی گواہی سے زیادہ احق بالقبول ہے۔ ان آیات کی شان نزول یہ ہے کہ ایک شخص  بُدَیل نامی جو مسلمان تھا دو شخصوں تمیم و عدی کے ساتھ جو اس وقت نصرانی تھے بغرض تجارت ملک شام کی طرف گیا۔ شام پہنچ کر بدیل بیمار پڑ گیا۔ اس نے اپنے مال کی فہرست لکھ کر اسباب میں رکھ دی اور اپنے دونوں رفیقوں کو اطلاع نہ کی۔ مرض جب زیادہ بڑھا تو اس نے دونوں نصرانی رفقاء کو وصیت کی کہ کل سامان میرے وارثوں کو پہنچا دینا۔ انہوں نے سب سامان لا کر وارثوں کے حوالہ کر دیا، مگر چاندی کا ایک پیالہ جس پر سونے کا ملمع یا نقش و نگار تھے اس میں سے نکال لیا۔ وارثوں کو فہرست اسباب میں سے دستیاب ہوئی۔ انہوں نے اوصیاء سے پوچھا کہ میت نے کچھ مال فروخت کیا تھا یا کچھ زیادہ بیمار رہا کہ معالجہ وغیرہ میں کچھ خرچ ہوا ہو، ان دونوں نے اس کا جواب نفی میں دیا۔ آخر معاملہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی عدالت میں پیش ہوا۔ چونکہ وارثوں کے پاس گواہ نہ تھے، تو ان دونوں نصرانیوں سے قسم لی گئی کہ ہم نے میت کے مال میں کسی طرح کی خیانت نہیں کی نہ کوئی چیز اس کی چھپائی۔ آخر قسم پر فیصلہ ان کے حق میں کر دیا گیا۔ کچھ مدت کے بعد ظاہر ہوا کہ وہ پیالہ ان دونوں نے مکہ میں کسی سنار کے ہاتھ فروخت کیا ہے۔ جب سوال ہوا تو کہنے لگے کہ وہ ہم نے میت سے خرید لیا تھا۔ چونکہ خریداری کے گواہ موجود نہ تھے اس لئے ہم نے پہلے اس کا ذکر نہیں کیا مبادا ہماری تکذیب کر دی جائے۔ میت کے وارثوں نے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں مرافعہ کیا۔ اب پہلی صورت کے برعکس اوصیاء خریداری کے مدعی اور وارث منکر تھے۔ شہادت موجود نہ ہونے کی وجہ سے وارثوں میں سے دو شخصوں نے جو میت سے قریب تر تھے قسم کھائی کہ پیالہ میت کے ملک تھا اور یہ دونوں نصرانی اپنی قسم میں جھوٹے ہیں۔ چنانچہ جس قیمت پر انہوں نے فرو خت کیا تھا (ایک ہزار درہم) وہ وارثوں کو دلائی گئی۔

۱۰۸۔۔۔ ۱: یعنی وارثوں کو شبہ پڑے تو قسم دینے کا حکم رکھا۔ اس لئے کہ قسم سے ڈر کر اول ہی جھوٹ نہ ظاہر کریں پھر اگر ان کی بات جھوٹ نکلے تو وارث قسم کھائیں۔ یہ بھی اسی واسطے کہ وہ قسم میں دغا نہ کریں۔ جانیں کہ آخر ہماری قسم الٹی پڑے گی۔ کذافی موضح القرآن۔

۲: خدا کی نا فرمانی کرنے والا انجام کار رسوا اور ذلیل ہی ہوتا ہے حقیقی کامیابی کا چہرہ نہیں دیکھتا۔

۱۰۹۔۔۔    ۱: یہ سوال محشر میں امتوں کے رو برو پیغمبروں سے کیا جائے گا کہ دنیا میں جب تم ان کے پاس پیغام حق لے کر گئے تو انہوں نے کیا جواب دیا اور کہاں تک دعوت الٰہی کی اجابت کی؟ گزشتہ رکوع میں بتلایا تھا کہ خدا کے یہاں جانے سے پہلے بذریعہ وصیت وغیرہ یہاں کا انتظام ٹھیک کر لو۔ اب متنبہ فرماتے ہیں کہ وہاں کی جواب دہی کے لئے تیار رہو۔

۲: محشر کے ہولناک دن میں جب خدائے قہار کی شان جلالی کا انتہائی ظہور ہو گا، اکابر و اعاظم کے بھی ہوش بجا نہ رہیں گے، اولوالعزم انبیاء کی زبان پر نفسی نفسی ہو گا۔ اسی وقت انتہائی خوف و خشیت سے حق تعالیٰ کے سوال کا جواب لا علم لنا (ہمیں کچھ خبر نہیں) کے سوا نہ دے سکیں گے پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے طفیل میں سب کی طرف خدا کی نظر لطف و رحمت ہو گی تب کچھ عرض کرنے کی جرات کریں گے۔ حسن و مجاہد وغیرہ سے ایسا ہی منقول ہے۔ لیکن ابن عباس کے نزدیک لا علم لنا کا مطلب یہ ہے کہ خداوندا! تیرے علم کامل و محیط کے سامنے ہمارا علم کچھ بھی نہیں۔ گویا یہ الفاظ  تادب مع اللہ کے طور پر کہے۔ ابن جریج کے نزدیک لا علم لنا سے یہ مراد ہے کہ ہم کو معلوم نہیں کہ ہمارے پیچھے انہوں نے کیا کچھ کیا۔ ہم صرف انہی افعال و احوال پر مطلع ہو سکتے ہیں جو ہمارے سامنے ظاہری طور پر پیش آئے تھے۔ بواطن و سرائر کا علم عالم الغیوب ہی کو ہے۔ آئندہ رکوع میں حضرت مسیح علیہ السلام کی زبانی جو جواب نقل فرمایا ہے وَکُنْتُ عَلَیْھِمْ شَھِیدًا الخ  اس سے آخری معنی کی تائید ہوتی ہے۔ اور صحیح حدیث میں ہے کہ جب حوض پر بعض لوگوں کی نسبت حضور فرمائیں گے ھَولاء اصْحَابِی تو جواب ملے گا لاَ تَدْرِی مَا اَحَدَثُوا بَعْدَکَ) الحدیث (یعنی آپ کو خبر نہیں کہ آپ کے پیچھے انہوں نے کیا حرکات کیں۔

۱۱۰۔۔۔   ۱: غالباً یہ پورا رکوع آنے والے رکوع کی تمہید ہے۔ احسانات یاد دلا کر وہ سوال ہو گا جو آئندہ رکوع میں مذکور ہے۔

۲:  اول تو اولاد پر احسان کرنا من وجہ ماں پر احسان ہے۔ دوسرے ظالم لوگ جو تہمت مریم صدیقہ پر لگاتے تھے حق تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ان کی برات و نزاہت کے لئے برہان مبین بنا دیا اور تولد مسیح سے پہلے اور بعد عجیب و غریب نشانات حضرت مریم کو دکھلائے جو ان کی تقویت و تسکین کا باعث ہوئے۔ یہ احسانات بالواسطہ ان پر تھے۔

۳:  گود میں جو کلام کیا اس کا ذکر سورہ مریم میں آئے گا اِنیِّ عبداللہ اَتانِیْ الْکِتَابِ الیٰ آخرہ) سورۃ مریم آیت نمبر ۳۰(تعجب ہے کہ عیسائیوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کے تکلم فی المہد کا کچھ ذکر نہیں کیا۔ البتہ یہ لکھا ہے کہ بارہ برس کی عمر میں یہود کے سامنے انہوں نے ایسی حکیمانہ دلائل و براہین بیان فرمائیں کہ تمام علماء عاجزو مبہوت رہ گئے اور سامعین عش عش کرنے لگے۔ یوں تو روح القدسسے حسب مراتب سب انبیاء علیہم السلام بلکہ بعض مومنین کی بھی تائید ہوتی ہے لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جن کا وجود ہی  نفخہ جبرائیل یہ سے ہوا، کوئی خاص قسم کی فطری مناسبت اور تائید حاصل ہے جسے تفضیل انبیاء کے صدد میں بیان فرمایا گیا۔ تِلْکَ الرُّسُلْ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلیٰ بَعْضٍ مِنْھُمْ مَّنْ کَلَّمَ اللہ وَرَفَعَ بَعْضَھُمْ دَرَجَاتٍ وَاٰتَیْنَا عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنَاتِ وَاَیَّدْنَاہُ بِرُوحِ الْقُدْسِ (بقرہ، رکوع۳۳'آیت ۲۵۳) روح القدس کی مثال عالم ارواح میں ایسی سمجھو جیسے عالم مادیات میں قوت کہربائیہ (بجلی) کا خزانہ، جس وقت اس خزانہ کا مدیر معین اصول کے موافق کرنٹ چھوڑتا اور جن اشیا میں بجلی کا اثر پہنچاتا ہے، ان کا کنکشن درست کر دیتا ہے تو فوراً خاموش اور ساکن مشینیں بڑے زور سے گھومنے لگتی ہیں۔ اگر کسی مریض پر بجلی کا عمل کیا گیا تو مشلول اعضاء اور بے حس ہو جانے والے اعصاب میں بجلی کے پہنچنے سے حس و حرکت پیدا ہو جاتی ہے۔ بعض اوقات ایسے بیمار کے حلقوم میں جس کی زبان بالکل بند ہو گئی ہو قوت کہربائیہ کے پہنچانے سے قوت گویائی واپس کی گئی ہے۔ حتیٰ کہ بعض غالی ڈاکٹروں نے تو یہ دعویٰ کر دیا کہ ہر قسم کی بیماری کا علاج قوت کہربائیہ سے کیا جا سکتا ہے (دائرۃ المعارف فرید وجدی) جب اس معمولی مادی کہربائیہ کا حال یہ ہے تو اندازہ کر لو کہ عالم ارواح کی کہربائیہ میں جس کا خزانہ روح القدس ہے کیا کچھ طاقت ہو گی۔ حق تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ذات گرامی کا تعلق روح القدس سے کسی ایسی خاص نوعیت اور اصول کے ماتحت رکھا ہے جس کا اثر کھلے ہوئے غلبہ روحیت، تجرد اور مخصوص آثار حیات کی شکل میں ظاہر ہوا۔ ان کا روح اللہ سے ملقب ہونا، بچپن، جوانی اور کہولت میں یکساں کلام کرنا، خدا کے حکم سے افاضہ حیات کے قابل کالبد خاکی تیار کر لینا، اس میں باذن اللہ روح حیات پھونکنا، مایوس العلاج مریضوں کی حیات کو باذن اللہ بدون توسط اسباب عادیہ کے کار آمد اور بے عیب بنا دینا، حتیٰ کہ مردہ لاشہ میں باذن اللہ دوبارہ روح حیات کو واپس لے آنا، بنی اسرائیل کے ناپاک منصوبوں کو خاک میں ملا کر آپ کا آسمان پر اٹھا لیا جانا، اور آپ کی حیات طیبہ پر اس قدر طول عمر کا کوئی اثر نہ ہونا، وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب آثار اسی تعلق خصوصی سے پیدا ہوئے ہیں جو رب العزت نے کسی مخصوص نوعیت واصول سے آپ کے اور روح القدس کے مابین قائم فرمایا ہے۔ ہر پیغمبر کے ساتھ کچھ امتیازی معاملات خدا تعالیٰ کے ہوتے ہیں، ان کے علل و اسرار کا احاطہ اسی علام الغیوب کو ہے۔ ان ہی امتیازات کو علماء کی اصطلاح میں فضائل جزئیہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ ایسی چیزوں سے کلی فضیلت ثابت نہیں ہوتی۔ چہ جائیکہ الوہیت ثابت ہو۔ واذتخلق من الطین میں خلق کا لفظ محض صوری اور حسی لحاظ سے استعمال کیا گیا ہے ورنہ خالق حقیقی احسن الخالقین کے سوا کوئی نہیں۔ اسی لئے باذنی کا بار بار اعادہ کیا گیا اور آل عمران میں حضرت مسیح علیہ السلام کی زبان سے باذن اللہ کی تکرار کرائی گئی۔ بہر حال جو خوارق ان آیات میں اور ان سے پہلےآل عمران میں حضرت مسیح علیہ السلام کی طرف منسوب ہوئے ہیں، ان کا انکار یا تحریف صرف اسی ملحد کا کام ہو سکتا ہے جو آیات اللہ کو اپنی عقل شخصی کے تابع کرنا چاہے۔ باقی جو لوگ قانون قدرت کا نام لے کر معجزات و خوارق کا انکار کرنا چاہتے ہیں، ان کا جواب ہم نے ایک مستقل مضمون میں دیا ہے اس کے مطالعہ سے انشاء اللہ تمام شکوک و شبہات کا ازالہ ہو سکے گا۔

۴: معجزات اور فوق العادت تصرفات کو جادو کہنے لگے اور انجام کار حضرت مسیح علیہ السلام کے قتل کے درپے ہوئے۔ حق تعالیٰ نے اپنے لطف و کرم سے حضرت مسیح کو آسمان پر اٹھا لیا۔ اس طرح یہود کو ان کے ناپاک مقصد میں کامیاب ہونے سے روک دیا گیا۔

۱۱۲۔۔۔ ۱: کر سکتا ہے اس لئے کہا کہ آپ کی رعایت اور دعا سے ہمارے لئے بطورخرق عادت نہ معلوم ایسا کرے یا نہ کرے۔

۲:  یعنی آسمان کی طرف سے بے محنت روزی پہنچ جایا کرے۔ یہ ضرور نہیں کہ وہ خوان جنت ہی کا ہو۔

۳: یعنی ایماندار بندہ کو لائق نہیں کہ ایسی غیر معمولی فرمائشیں کر کے خدا کو آزمائے خواہ اس کی طرف سے کتنی ہی مہربانی کا اظہار ہو، روزی ان ہی ذرائع سے طلب کرنا چاہیے جو قدرت نے اس کی تحصیل کے لئے مقرر فرما دیئے ہیں بندہ جب خدا سے ڈر کر تقویٰ اختیار کرے اور اسی پر ایمان و اعتماد رکھے تو حق تعالیٰ ایسی جگہ سے اس کو رزق پہنچائے گا جہاں سے وہم و گمان بھی نہ ہو گا۔ وَمَنَ یَّتَّقِ اللہ یَجْعَلْ لَّہُ مَخْرَجًا وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَّایَحْتَسِبُ : الخ (طلاق آیت نمبر ۳'۲'، رکوع۱)

۱۱۳۔۔۔    یعنی آزمانے کو نہیں مانگتے بلکہ برکت کی امید پر مانگتے ہیں کہ غیب سے بے محنت روزی ملتی رہے تاکہ اطمینان قلب اور دلجمعی سے عبادت میں لگے رہیں۔ اور آپ نے جو غیبی خبریں نعمائے جنت وغیرہ کے متعلق دی ہیں، ایک چھوٹا سا نمونہ دیکھ کر ان کا بھی یقین کامل ہو جائے۔ اور ایک عینی شاہد کے طور پر ہم اس کی گواہی دیں جس سے یہ معجزہ ہمیشہ مشہور رہے۔ بعض مفسرین نے نقل کیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے وعدہ فرمایا تھا کہ تم خدا کے لئے تیس دن کے روزے رکھ کر جو کچھ طلب کرو گے وہ دیا جائے گا۔ حواریین نے روزے رکھ لئے اور مائدہ طلب کیا وتعلم ان قد صدقتنا سے یہ ہی مراد ہے واللہ اعلم۔

۱۱۴۔۔۔ ۱: یعنی وہ دن جس میں مائدہ آسمانی نازل ہو، ہمارے اگلے پچھلے لوگوں کے حق میں عید ہو جائے کہ ہمیشہ ہماری قوم اس دن کو بطور یادگار تہوار منایا کرے۔ اس تقریر کے موافق تکون لنا عیداً کا اطلاق ایسا ہوا جیسا کہ آیۃ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُم کے متعلق بخاری میں یہود کا یہ مقولہ نقل کیا ہے انکم تَقْرَعُونَ ایٰۃ لَوَنَزَلَتْ فِیْنَا لاَ تَّخَذْ نَا ھَا عِیْداً جس طرح آیۃ کو عید بنانے کا مطلب اس کے یوم نزول کو عید بنانا ہے (کما ہو مصرح فی الروایات الاخر) اسی پر مائدہ کے عید ہونے کو بھی قیاس کر لو کہتے ہیں کہ وہ خوان اترا اتوار کو جو نصاریٰ کے یہاں ہفتہ کی عید ہے جیسے مسلمانوں کے یہاں جمعہ۔

۲:  یعنی تیری قدرت کی اور میری نبوت و صداقت کی نشانی ہو۔

          ۳: یعنی بدون تعب و کسب کے روزی عطا فرمائے۔ آپ کے یہاں کیا کمی ہے اور کیا مشکل ہے۔

۱۱۵۔۔۔ جب نعمت غیر معمولی اور نرالی ہو گی تو اس کی شکر گزاری کی تاکید بھی معمول سے بہت بڑھ کر ہونی چاہئے۔ اور ناشکری پر عذاب بھی غیر معمولی اور نرالا آئے گا۔ موضح القرآن میں ہے بعضے کہتے ہیں وہ خوان اترا چالیس روز تک پھر بعضوں نے ناشکری کی۔ یعنی حکم ہوا تھا کہ فقیر اور مریض کھاویں۔ محظوظ اور چنگے بھی لگے کھانے۔ پھر قریب اَسی آدمی کے سور اور بندر ہو گئے۔ یہ عذاب پہلے یہود میں ہوا تھا۔ پیچھے کسی کو نہیں ہوا۔ اور بعضے کہتے ہیں کہ نہیں اترا۔ یہ تہدید سن کر مانگنے والے ڈر گئے، نہ مانگا لیکن پیغمبر کی دعا عبث نہیں اور اس کلام میں نقل کرنا بے حکمت نہیں۔ شاید اس دعا کا اثر یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی امت میں آسودگی مال ہمیشہ رہی اور جو کوئی ان میں ناشکری کرے یعنی دل کے اطمینان سے عبادت میں نہ لگے بلکہ گناہ میں خرچ کرے تو شاید آخرت میں سب سے زیادہ عذاب پاوے اس میں مسلمان کو عبرت ہے کہ اپنا مدعا خرق عادت کی راہ سے نہ چاہے کہ پھر اس کی شکر گزاری بہت مشکل ہے۔ اسباب ظاہری پر قناعت کرے تو بہتر ہے۔ اس قصہ میں بھی ثابت ہوا کہ حق تعالیٰ کے آگے حمایت پیش نہیں جاتی۔

۱۱۶۔۔۔ ۱: پچھلا رکوع حقیقت میں اس رکوع کی تمہید تھی۔ پچھلے رکوع کی ابتدا میں یَوْمَ یَجْمَعَ اللہ الرَّسُلَ الخ فرما کر آگاہ کیا تھا کہ قیامت کے دن تمام مرسلین سے ان کی امتوں کے مواجہ میں علی رؤس الاشہاد سوال و جواب ہوں گے پھر ان میں سے خاص حضرت مسیح علیہ السلام کا ذکر فرمایا جن کو کروڑوں آدمیوں نے خدائی کا درجہ دے رکھا ہے کہ ان سے بالخصوص اس عقیدہ باطلہ کی نسبت دریافت کیا جائے گا لیکن اول وہ عظیم الشان احسانات اور ممتاز انعامات یاد دلائیں گے جو ان پر اور ان کی والدہ ماجدہ پر فائض ہوئے۔ بعدہ ارشاد ہو گا، أاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذِوُنِیئ الخ (کیا تو نے لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو بھی خدا کے سوا معبود مانو) حضرت مسیح علیہ السلام اس سوال پر کانپ اٹھیں گے اور وہ عرض کریں گے جو آگے آتا ہے۔ آخر میں ارشاد ہو گا ھٰذَا یَوْمُ یَنفْعُ الصَّادِقِیْنَ صِدْقُہُمْ ہٰذا کا اشارہ اسی یوم کی طرف ہے جو یوم یجمع اللہ الرسل میں مذکور تھا۔ بہر حال یہ سب واقعہ روز قیامت کا ہے جسے متیقن الوقوع ہونے کی وجہ سے قرآن و حدیث میں بصیغہ ماضی (قال) تعبیر فرمایا ہے۔

۲:  یعنی میں ایسی گندی بات کیسے کہہ سکتا تھا۔ آپ کی ذات اس سے پاک ہے کہ الوہیت وغیرہ میں کسی کو اس کا شریک کیا جائے۔ اور جس کو آپ پیغمبری کا منصب جلیل عطا فرمائیں۔ اس کی یہ شان نہیں کہ کوئی ناحق بات منہ سے نکالے۔ پس آپ کی سبوحیت اور میری عصمت دونوں کا اقتضاء یہ ہے کہ میں ایسی ناپاک بات کبھی نہیں کہہ سکتا۔ اور سب دلائل کو چھوڑ کر آخری بات یہ ہے کہ آپ کے علم محیط سے کوئی چیز باہر نہیں ہو سکتی، اگر فی الواقع میں ایسا کہتا تو آپ کے علم میں ضرور موجود ہوتا۔ آپ خود جانتے ہیں کہ میں نے خفیہ یا اعلانیہ کوئی ایسا حرف منہ سے نہیں نکالا۔ بلکہ میرے دل میں اس طرح کے گندے خیال کا خطور بھی نہیں ہوا۔ آپ سے میرے یا کسی کے دل کے چھپے ہوئے ہوا جس و خواطر بھی پوشیدہ نہیں۔

۱۱۷۔۔۔ ۱: میں نے آپ کے حکم سے سر مو تجاوز نہیں کیا۔ اپنی الوہیت کی تعلیم تو کیسے دے سکتا تھا اس کے بالمقابل میں نے ان کو صرف تیری بندگی کی طرف بلایا اور کھول کھول کر بتلا دیا کہ میرا اور تمہارا سب کا رب (پروردگار) وہ ہی ایک خدا ہے جو تنہا عبادت کے لائق ہے۔ چنانچہ آج بھی بائیبل میں صریح نصوص اس مضمون کی بکثرت موجود ہیں۔

۲:  نہ صرف یہ کہ میں نے مخلوق کو تیری توحید اور عبودیت کی طرف دعوت دی، بلکہ جب تک ان کے اندر قیام پذیر رہا، برابر ان کے احوال کی نگرانی اور خبر گیری کرتا رہا کہ کوئی غلط عقیدہ یا بے موقع خیال قائم نہ کر لیں البتہ ان میں قیام کرنے کی جو مدت آپ کے علم میں مقدر تھی، جب وہ پوری کر کے آپ نے مجھ کو ان میں سے اٹھا لیا (کما یظہر من مادۃ التو فی و مقابلۃ مادمت فیہم) تو پھر صرف آپ ہی ان کے احوال کے نگران اور خبردار ہو سکتے تھے، میں اس کے متعلق کچھ عرض نہیں کر سکتا (تنبیہ) حضرت مسیح علیہ السلام کی موت یا رفع الی السماء وغیرہ کی بحث آل عمران  میں زیر فائدہ انی متوفیک و رافعک الی) اٰل عمران آیت نمبر ۵۵ (ملاحظہ کیجئے۔ مترجم محقق قدس سرہ نے یہاں فلماتوفیتنی کا جو ترجمہ تو نے مجھ کو اٹھا لیا سے کیا یہ باعتبار محاورات موت اور رفع الی السماء دونوں پر صادق آ سکتا ہے۔ گویا متنبہ کر دیا کہ نہ لفظ توفی کیلئے موت لازم ہے اور نہ خاص توفی بصورت موت کو مضمون زیر بحث میں کسی قسم کا مدخل ہے۔ حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ بعض لوگوں کی نسبت میں قیامت کے دن اسی طرح کہوں گا جس طرح بندہ صالح (عیسیٰ علیہ السلام) نے کہا وکُنْتُ عَلَیْھِمْ شَھِیدًا مَّادُمْتُ فِیْھِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتُ اَنْتَ الرَقِیْبَ عَلَیْھِمْ اس قسم کی تشبیہات سے یہ نکالنا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی اور حضرت مسیح علیہ السلام کی توفی بھی بہمہ وجوہ یکساں اور ہم رنگ ہونی چاہئے، عربیت سے ناواقفیت کی دلیل ہے مشرکین مکہ ایک درخت (ذات انماط) پر ہتھیار لٹکایا کرتے تھے۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! ہمارے لئے بھی ذات انماط مقرر کر دیجئے جیسے ان کے یہاں ہے۔ آپ نے فرمایا ھٰذا کما قال قوم موسیٰ اجعل لنا الھٰا کما لھم اٰلھۃ (یہ تو ایسا ہوا جیسے موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے درخواست کی تھی کہ ہمارے لئے بھی ایسا معبود تجویز کر دو جیسا ان بت پرستوں کا ہے) کیا کوئی مسلمان اس تشبیہ کو سن کر یہ گمان کر سکتا ہے کہ صحابہ نے معاذ اللہ بت پرستی کی درخواست کی تھی؟ اس طرح کی تشبیہات سے نصوص محکمہ اور اجماع امت کے مخالف عقائد پر تمسک کرنا صرف اسی جماعت کا حصہ ہو سکتا ہے جن کی نسبت یہ ارشاد ہوا فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوبِھِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبعُوْنَ مَاتَشَابَہَ مِنْہ، ابْتِغَاءَ الفِتْنَۃَ وَابْتِغَاءَ تَاْوِیْلِہٖ۔

۱۱۸۔۔۔ یعنی آپ اپنے بندوں پر ظلم اور بیجا سختی نہیں کر سکتے اس لئے اگر ان کو سزا دیں گے تو عین عدل و حکمت پر مبنی ہو گی اور فرض کیجئے معاف کر دیں تو یہ معافی بھی از راہ عجز وسفہ نہ ہو گی۔ چونکہ آپ عزیز (زبردست اور غالب) ہیں اس لئے کوئی مجرم آپ کے قبضہ قدرت سے نکل کر بھاگ نہیں سکتا کہ آپ اس پر قابو نہ پا سکیں۔ اور چونکہ حکیم (حکمت والے) ہیں۔ اس لئے یہ بھی ممکن نہیں کہ کسی مجرم کو یونہی بے موقع چھوڑ دیں۔ بہر حال جو فیصلہ آپ ان مجرمین کے حق میں کریں گے وہ بالکل حکیمانہ اور قادرانہ ہو گا۔ حضرت مسیح علیہ السلام کا یہ کلام چونکہ محشر میں ہو گا جہاں کفار کے حق میں کوئی شفاعت اور استدعاء رحم وغیرہ نہیں ہو سکتی، اسی لئے حضرت مسیح نے عزیز حکیم کی جگہ غفور رحیم وغیرہ صفات کو اختیار نہیں فرمایا برخلاف اس کے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دنیا میں اپنے پروردگار سے عرض کیا تھا۔ رب انھن اضللن کثیرا من الناس فمن تبعنی فانہ منی و من عصانی فانک عفور رحیم) سورۃ ابراہیم آیت نمبر ۳۶ (اے پروردگار ان بتوں نے بہت سے آدمیوں کو گمراہ کر دیا تو جو ان میں سے میرے تابع ہوا وہ میرا آدمی ہے اور جس نے میری نا فرمانی کی تو پھر تو غفور رحیم ہے) یعنی ابھی موقع ہے کہ تو اپنی رحمت سے آئندہ ان کو توبہ اور رجوع الی الحق کی توفیق دے کر پچھلے گناہوں کو معاف فرما دے۔

۱۱۹۔۔۔ ۱: جو لوگ اعتقاداً اور قولاً و عملاً سچے رہے ہیں (جیسے حضرت مسیح علیہ السلام) ان کی سچائی کا پھل آج ملے گا۔

۲:  بڑی کامیابی حق تعالیٰ کی رضاء ہے اور جنت بھی اسی لئے مطلوب ہے کہ وہ محل رضائے الٰہی ہے۔

۱۲۰۔۔۔ یعنی ہر وفادار اور مجرم کے ساتھ وہ ہی معاملہ ہو گا جو ایک شہنشاہ مطلق کی عظمت و جلال کے مناسب ہے۔