۱۔۔۔ یعنی کوہ "طور" جس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اللہ نے کلام کیا۔
۳۔۔۔ اس کتاب سے شاید لوح محفوظ مراد ہو یا لوگوں کا اعمالنامہ یا قرآن کریم یا طور کی مناسبت سے تورات یا عام کتب سماویہ، سب احتمالات ہیں۔
۴۔۔۔ شاید کعبہ کو کہا یا ساتویں آسمان پر خانہ کعبہ کی ٹھیک محاذات میں فرشتوں کا کعبہ ہے اس کو "بیت معمور" کہتے ہیں جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے۔
۵۔۔۔ یعنی آسمان کی قسم جو زمین کے اوپر ایک چھت کی طرح ہے اور یا "سقف مرفوع" عرش عظیم کو کہا جو تمام آسمانوں کے اوپر ہے اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جنت کی چھت ہے۔
۶۔۔۔ دنیا کے ابلتے ہوئے دریا مراد ہوں، یا وہ عظیم الشان دریا مراد ہو جس کا وجود عرش عظیم کے نیچے اور آسمانوں کے اوپر روایات سے ثابت ہوا ہے۔
۸۔۔۔ یعنی یہ تمام چیزیں جن کی قسم کھائی شہادت دیتی ہیں کہ وہ خدا بہت بڑی قدرت و عظمت والا ہے۔ پھر اس کی نافرمانی کرنے والوں پر عذاب کیوں نہیں آئے گا۔ اور کس کی طاقت ہے جو اس کے بھیجے ہوئے عذاب کو الٹا واپس کر دے گا۔
۹۔۔۔ یعنی آسمان لرز کر اور کپکپا کر پھٹ پڑے گا۔
۱۰۔۔۔ یعنی پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ دیں گے اور روئی کے گالوں کی طرح اڑتے پھریں گے۔
۱۲۔۔۔ یعنی جو آج کھیل کود میں مشغول ہو کر طرح طرح کی باتیں بناتے اور آخرت کی تکذیب کرتے ہیں۔ ان کے لیے اس روز سخت خرابی اور تباہی ہے۔
۱۴۔۔۔ یعنی فرشتے ان کو سخت ذلت کے ساتھ دھکیلتے ہوئے دوزخ کی طرف لے جائیں گے اور وہاں پہنچا کر کہا جائے گا کہ یہ وہ آگ حاضر ہے جس کو تم جھوٹ جانتے تھے۔
۱۵۔۔۔ یعنی تم دنیا میں انبیاء کو جادوگر اور ان کی وحی کو جادو کہا کرتے تھے۔ ذرا اب بتلاؤ کہ یہ دوزخ جس کی خبر انبیاء نے دی تھی کیا واقعی جادو یا نظر بندی ہے یا جیسے دنیا میں تم کو کچھ سوجھتا نہ تھا، اب بھی نہیں سوجھتا۔
۱۶۔۔۔ یعنی دوزخ میں پڑ کر اگر گھبراؤ اور چلاؤ گے، تب کوئی فریاد کو پہنچنے والا نہیں۔ اور بفرض محال صبر کر کے چپ ہو رہو تب تم پر کوئی رحم کھانے والا نہیں۔ غرض دونوں حالتیں برابر ہیں۔ اس جیل خانہ سے نکلنے کی تمہارے لیے کوئی سبیل نہیں۔ جو کرتوت دنیا میں کیے ان کی سزا یہی حبس دوام اور ابدی عذاب ہے۔
۱۸۔۔۔ یعنی جو دنیا میں اللہ سے ڈرتے تھے۔ وہاں بالکل مامون اور بے فکر ہوں گے۔ ہر قسم کے عیش و آرام کے سامان ان کے لیے حاضر رہیں گے اور یہ ہی انعام کیا کم ہے کہ دوزخ کے عذاب سے اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے گا۔
۲۰۔۔۔ یعنی جنتیوں کی مجلس اس طرح ہو گی کہ سب جنتی بادشاہوں کی طرح اپنے اپنے تخت پر ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے ہوں گے اور ان کی ترتیب نہایت قرینہ سے ہو گی۔
۲۱۔۔۔ یعنی کاملوں کی اولاد اور متعلقین اگر ایمان پر قائم ہوں اور ان ہی کاموں کی راہ پر چلیں۔ جو خدمات ان کے بزرگوں نے انجام دی تھی یہ بھی ان کی تکمیل میں ساعی ہوں تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو جنت میں ان ہی کے ساتھ ملحق کر دے گا۔ گو ان کے اعمال و احوال سے کما و کیفا فروتر ہوں۔ تاہم ان بزرگوں کے اکرام اور عزت افزائی کے لیے ان تابعین کو ان متبوعین کے جوار میں رکھا جائے گا۔ اور ممکن ہے بعض کو بالکل ان ہی کے مقام اور درجہ پر پہنچا دیا جائے جیسا کہ روایات سے ظاہر ہوتا ہے۔ اور اس صورت میں یہ گمان نہ کیا جائے کہ ان کاملین کی بعض نیکیوں کا ثواب کاٹ کر ذریت کو دے دیا جائے گا۔ نہیں یہ محض اللہ کا فضل واحسان ہو گا کہ قاصرین کو ذرا ابھار کر اوپر کاملین کے مقام تک پہنچا دیا جائے۔ تنبیہ: احقر نے واتبعتھم ذریتھم کا جو مطلب لیا ہے صحیح بخاری کی یہ حدیث اس کے مناسب معلوم ہوتی ہے۔ قالت الانصار یا رسول اللہ ان لکل قوم اتباعا وانا قد اتبعناک فادع اللہ ان یجعل اتباعنا منا۔ قال النبی صلی اللہ علیہ و سلم اللھم اجعل اتباعھم منھم۔
اوپر فضل کا بیان تھا یہاں عدل کا ضابطہ بتلا دیا یعنی عدل کا مقتضی یہ ہے کہ جس آدمی نے جو کچھ اچھا یا برا عمل کیا ہے اسی کے موافق بدلہ پائے۔ آگے اللہ کا فضل ہے کہ وہ کسی کی تقصیر معاف فرما دے یا کسی کا درجہ بلند کر دے۔
۲۲۔۔۔ یعنی جس قسم کا گوشت مرغوب ہو اور جس جس میوے کو دل چاہے بلا توقف لگاتار حاضر کیے جائیں گے۔
۲۳۔۔۔ یعنی شراب طہور کا دور جب چلے گا تو جنتی بطور خوش طبعی کے ایک دوسرے سے چھینا جھپٹی کریں گے۔ لیکن اس شراب میں محض نشاط اور لذت ہو گی۔ نشہٗ بکواس اور فتور عقل وغیرہ کچھ نہ ہو گا نہ کوئی گناہ کی بات ہو گی۔
۲۴۔۔۔ یعنی جیسے موتی اپنے غلاف کے اندر بالکل صاف و شفاف رہتا ہے گردو غبار کچھ نہیں پہنچتا۔ یہ ہی حال ان کی صفائی اور پاکیزگی کا ہو گا۔
۲۸۔۔۔ یعنی جنتی اس وقت ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر باتیں کریں گے اور غایت مسرت و امتنان سے کہیں گے کہ بھائی ہم دنیا میں ڈرتے رہتے تھے کہ دیکھیے مرنے کے بعد کیا انجام ہو۔ یہ کھٹکا برابر لگا رہتا تھا۔ اللہ کا احسان دیکھو کہ آج اس نے کیسا مامون و مطمئن کر دیا کہ دوزخ کی بھاپ بھی ہم کو نہیں لگی۔ ہم اپنے رب کو ڈر کر اور امید باندھ کر پکارا کرتے تھے۔ آج دیکھ لیا کہ اس نے اپنی مہربانی سے ہماری پکار سنی اور ہمارے ساتھ کیسا اچھا سلوک کیا۔
۲۹۔۔۔ کفار، حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو کبھی دیوانہ کہتے، کبھی کاہن، یعنی جنوں اور شیطانوں سے کچھ جھوٹی سچی خبریں لے کر دیتے ہیں۔ اتنا نہیں سمجھتے تھے کہ آج تک کسی کاہن اور دیوانے نے ایسی اعلیٰ درجہ کی نصیحتیں اور حکیمانہ اصول، اس طرح کے صاف، شستہ اور شائستہ طرز میں بیان نہیں کیے ہیں۔ اسی لیے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کو بھلا برا سمجھاتے رہیے اور پیغمبرانہ نصیحتیں کرتے رہیے۔ ان کی بکواس سے دل گیر نہ ہوں۔ جب اللہ کے فضل و رحمت سے نہ آپ کاہن ہیں نہ مجنون بلکہ ا سکے مقدس رسول ہیں تو نصیحت کرتے رہنا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرض منصبی ہے۔
۳۰۔۔۔ یعنی پیغمبر جو اللہ کی باتیں سناتا اور نصیحت کرتا ہے۔ کیا یہ لوگ اس لیے قبول نہیں کرتے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو محض ایک شاعر سمجھتے ہیں اور اس بات کے منتظر ہیں کہ جس طرح قدیم زمانہ کے بہت سے شعراء گردش زمانہ سے یونہی مر مرا کر ختم ہو گئے ہیں، یہ بھی ٹھنڈے ہو جائیں گے۔ کوئی کامیاب مستقبل ان کے ہاتھ میں نہیں۔ محض چند روز کی وقتی واہ واہ ہے اور بس۔
۳۱۔۔۔ یعنی اچھا تم میرا انجام دیکھتے رہو۔ میں تمہارا دیکھتا ہوں۔ عنقریب کھل جائے گا کہ کون کامیاب ہے، کون خائب و خاسر۔
۳۲۔۔۔ یعنی پیغمبر کو مجنون کہہ کر گویا اپنے کو بڑا عقلمند ثابت کرتے ہیں۔ کیا ان کی عقل و دانش نے یہ ہی سکھلایا ہے کہ ایک انتہائی صادق، امین، عاقل و فرزانہ اور سچے پیغمبر کو شاعر یا کاہن یا دیوانہ قرار دے کر نظر انداز کر دیا جائے۔ اگر شاعروں اور پیغمبروں کے کلام میں تمیز بھی نہیں کر سکتے تو کیسے عقلمند ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دل میں سمجھتے سب کچھ ہیں مگر محض شرارت اور کجروی سے باتیں بناتے ہیں۔
۳۴۔۔۔ یعنی کیا یہ خیال ہے کہ پیغمبر جو کچھ سنا رہا ہے وہ اللہ کا کلام نہیں؟ بلکہ اپنے دل سے گھڑ لایا؟ اور جھوٹ موٹ خدا کی طرف منسوب کر دیا؟ سو نہ ماننے کے ہزار بہانے۔ جو شخص ایک بات پر یقین نہ رکھے اور اسے تسلیم نہ کرنا چاہے وہ اسی طرح کے بے سروپا احتمالات نکالا کرتا ہے ورنہ آدمی ماننا چاہے تو اتنی بات سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ وہ دنیا کی تمام طاقتوں کو اکٹھا کر کے بھی اس قرآن کا مثل نہیں لا سکتے۔ اور جیسے خدا کی زمین جیسی زمین، اور اس کے آسمان جیسا آسمان بنانا کسی سے ممکن نہیں، اس کے قرآن جیسا قرآن بنا لانا بھی محال ہے۔
۳۶۔۔۔ یعنی پیغمبر خدا کی بات کیوں نہیں مانتے۔ کیا ان کے اوپر کوئی خدا نہیں جس کی بات ماننا ان کے ذمہ لازم ہو۔ کیا بغیر کسی پید ا کرنے والے کے خود بخود پیدا ہو گئے ہیں؟ یا خود اپنے آپ کو خدا سمجھتے ہیں؟ یا یہ خیال ہے کہ آسمان و زمین ان کے بنائے ہوئے ہیں لہٰذا اس قلم رو میں جو چاہیں کرتے پھریں، کوئی ان کو روکنے ٹوکنے کا اختیار نہیں رکھتا۔ یہ سب خیالات باطل اور مہمل ہیں۔ وہ بھی دلوں میں جانتے ہیں کہ ضرور خدا موجود ہے جس نے ان کو اور تمام زمین و آسمان کو نیست سے ہست کیا۔ مگر اس علم کے باوجود جو ایمان و یقین شرعاً مطلوب ہے اس سے محروم اور بے بہرہ ہیں۔
۳۷۔۔۔ یعنی کیا یہ خیال ہے کہ زمین و آسمان گو خدا کے بنائے ہوئے ہیں مگر اس نے اپنے خزانوں کا مالک ان کو بنا دیا ہے؟ یا اس ملک اور خزانوں پر انہوں نے زور سے تسلط اور قبضہ حاصل کر لیا ہے۔ پھر ایسے صاحب تصرف و اقتدار ہو کر وہ کسی کے مطیع و منقاد کیوں بنیں۔
۳۸۔۔۔ یعنی کیا یہ دعویٰ ہے کہ وہ زینہ لگا کر آسمان پر چڑھ جاتے اور وہاں سے ملاء اعلیٰ کی باتیں سن آتے ہیں۔ پھر جب ان کی رسائی براہ راست اس بارگاہ تک ہو تو کسی بشر کا اتباع کرنے کی کیا ضرورت رہی۔ جس کا یہ دعویٰ ہو تو بسم اللہ اپنی سند اور حجت پیش کرے۔
۳۹۔۔۔ یعنی کیا (معاذ اللہ) خدا کو اپنے سے گھٹیا سمجھتے ہیں جیسا کہ بیٹے اور بیٹیوں کی اس تقسیم سے مترشح ہوتا ہے اور اس لیے اس کے احکام و ہدایات کے سامنے سر تسلیم جھکانا اپنی کسر شان سمجھتے ہیں۔
۴۰۔۔۔ یعنی کیا یہ لوگ آپ کی بات اس لیے نہیں مانتے کہ خدا نکردہ آپ ان سے اس ارشاد و تبلیغ پر کوئی بھاری معاوضہ طلب کر رہے ہیں جس کے بوجھ سے وہ دبے جاتے ہیں۔
۴۱۔۔۔ یعنی کیا خود ان پر اللہ اپنی وحی بھیجتا اور پیغمبروں کی طرح اپنے بھید پر مطلع کرتا ہے جسے یہ لوگ لکھ لیتے ہیں جیسے انبیاء کی وحی لکھی جاتی ہے۔ اس لیے ان کو آپ کی پیروی کی ضرورت نہیں۔
۴۲۔۔۔ یعنی ان میں سے کوئی بات نہیں تو کیا پھر یہ ہی ارادہ ہے کہ پیغمبر کے ساتھ داؤ پیچ کھیلیں اور مکر و فریب اور خفیہ تدبیریں گانٹھ کر حق کو مغلوب یا نیست و نابود کر دیں۔ ایسا ہے تو یاد رہے کہ یہ داؤ پیچ سب ان ہی پر الٹنے والے ہیں عنقریب پتہ لگ جائے گا کہ حق مغلوب ہوتا ہے یا وہ نابود ہوتے ہیں۔
۴۳۔۔۔ یعنی کیا خدا کے سوا کوئی اور حاکم اور معبود تجویز کر رکھے ہیں جو مصیبت پڑنے پر ان کی مدد کریں گے؟ اور جن کی پرستش نے خدا کی طرف سے ان کو بے نیاز کر رکھا ہے؟ سو یاد رہے کہ یہ سب اوہام و وساوس ہیں۔ اللہ کی ذات اس سے پاک ہے کہ کوئی اس کا شریک و مثیل یا مقابل و مزاحم ہو۔
۴۴۔۔۔ یعنی حقیقت میں ان میں سے کوئی بات نہیں۔ صرف ایک چیز ہے "ضد اور عناد" جس کی وجہ سے سے یہ لوگ ہر سچی بات کے جھٹلانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان کی کیفیت تو یہ ہے کہ اگر ان کی فرمائش کے موافق فرض کیجیے آسمان سے ایک تختہ ان پر گرا دیا جائے تو دیکھتی آنکھوں اس کو بھی کوئی تاویل کر دیں گے۔ مثلاً کہیں گے کہ آسمان سے نہیں آیا۔ بادل کا ایک حصہ گاڑھا اور منجمد ہو کر گر پڑا ہے جیسے بڑے بڑے اولے کبھی کبھی گرتے ہیں بھلا ایسے متعصب معاندوں سے ماننے کی کیا توقع ہو سکتی ہے۔
۴۶۔۔۔ یعنی ایسے معاندوں کے پیچھے پڑنے کی زیادہ ضرورت نہیں۔ چھوڑ دیجیے کہ چند روز اور کھیل لیں اور باتیں بنا لیں۔ آخر وہ دن آتا ہے جب قہر الٰہی کی کڑک بجلی سے ان کے ہوش و حواس جاتے رہیں گے۔ اور بچاؤ کی کوئی تدبیر کام نہ دے گی، نہ کسی طرف سے مدد پہنچے گی.
۴۷۔۔۔ یعنی ان میں سے اکثروں کو خبر نہیں کہ آخرت کے عذاب سے ورے دنیا میں بھی ان کے لیے ایک سزا ہے جو مل کر رہے گی۔ شاید یہ معرکہ "بدر" وغیرہ کی سزا ہو۔
۴۸۔۔۔ ۱: یعنی صبر و استقامت کے ساتھ اپنے رب کے حکم تکوینی و تشریعی کا انتظار کیجیے جو عنقریب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اور ان کے درمیان فیصلہ کر دے گا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو مخالفین کی طرف سے کچھ بھی نقصان نہ پہنچے گا۔ کیونکہ آپ ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہمارے زیر حفاطت ہیں۔
۲: یعنی صبر تحمل اور سکون و اطمینان کے ساتھ ہمہ وقت اللہ کی تسبیح و تحمید اور عبادت گزاری میں لگے رہیے۔ خصوصاً جس وقت آپ سو کر اٹھیں یا نماز کے لیے کھڑے ہوں، یا مجلس سے اٹھ کر تشریف لے جائیں۔ ان حالات میں تسبیح وغیرہ کی مزید ترغیب و تاکید آئی ہے۔
۴۹۔۔۔ "رات کے حصہ" سے مراد شاید تہجد کا وقت ہو، اور تاروں کے پیٹھ پھیرنے کا وقت صبح کا وقت ہے۔ کیونکہ صبح کا اجالا ہوتے ہی ستارے غائب ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ تم سورۃ الطور وللّٰہ الحمد والمنۃ۔