تفسیر عثمانی

سورة دهر / الإنسَان

۱ ۔۔۔     بیشک انسان پر ایک وقت گزر چکا ہے۔ جب اس کا کچھ نام و نشان نہ تھا۔ پھر کتنے ہی دور طے کر کے نطفہ کی شکل میں آیا۔ وہ حالت بھی اس کی موجودہ شرافت و کرامت کو دیکھتے ہوئے اس قابل نہیں کہ زبان پر لائی جائے۔

۲ ۔۔۔       ۱: یعنی مرد اور عورت کے دو رنگے پانی سے پیدا کیا۔    (تنبیہ) "امشاج" کے معنی مخلوط کے ہیں ۔ نطفہ جن غذاؤں کا خلاصہ ہے وہ مختلف چیزوں سے مرکب ہوتی ہیں اس لیے عورت کے پانی قطع نظر کر کے بھی اس کو "امشاج" کہہ سکتے ہیں ۔

۲:  یعنی نطفہ سے جما ہوا خون، پھر اس سے گوشت کا لوتھڑا بنایا۔ اسی طرح کئی طرح کے الٹ پھیر کرنے کے بعد اس درجہ میں پہنچا دیا کہ اب وہ کانوں سے سنتا اور آنکھوں سے دیکھتا ہے اور ان قوتوں سے وہ کام لیتا ہے جو کوئی دوسرا حیوان نہیں لے سکتا۔ گویا اور سب اس کے سامنے بہرے اور اندھے ہیں (تنبیہ) "نبتلیہ" کے معنی اکثر مفسرین نے امتحان و آزمائش کے لیے ہیں ۔ یعنی آدمی کا بنانا اس غرض سے تھا کہ اس کو احکام کا مکلف اور امرو نہی کا مخاطب بنا کر امتحان لیا جائے اور دیکھا جائے کہ کہاں تک مالک کے احکام کی تکمیل میں وفاداری دکھلاتا ہے اسی لئے اس کو سننے، دیکھنے اور سمجھنے کی وہ قوتیں دی گئی ہیں جن پر تکلیف شرعی کا مدار ہے

۳ ۔۔۔       یعنی اولاً اصل فطرت اور پیدائشی عقل و فہم سے، پھر دلائل عقلیہ و نقلیہ سے نیکی کی راہ سمجھائی جس کا مقتضی یہ تھا کہ سب انسان ایک راہ پر چلتے لیکن گردو پیش کے حالات اور خارجی عوارض سے متاثر ہو کر سب ایک راہ پر نہ رہے۔ بعض نے اللہ کو مانا اور اس کا حق پہچانا، اور بعض نے ناشکری اور ناحق کوشی پر کمر باندھ لی۔ آگے دونوں کا انجام مذکور ہے۔

 ۴ ۔۔۔      یعنی جو لوگ رسم و رواج اور اوہام و ظنون کی زنجیروں میں جکڑے رہے اور غیر اللہ کی حکومت و اقتدار کے طوق اپنے گلوں سے نہ نکال سکے۔ بلکہ حق و حاملین حق کے خلاف دشمنی اور لڑائی کی آگ بھڑکانے میں عمریں گزار دیں ، کبھی بھول کر اللہ کی نعمتوں کو یاد نہ کیا۔ نہ اس کی سچی فرمانبرداری کا خیال دل میں لائے۔ ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے آخرت میں دوزخ کے طوق و سلاسل اور بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔

۶ ۔۔۔        ۱: یعنی جام شراب پئیں گے جس میں تھوڑا سا کافور ملایا جائے گا۔ یہ کافور دنیا کا نہیں بلکہ جنت کا ایک خاص چشمہ ہے جو خاص طور پر اللہ کے مقرب و مخصوص بندوں کو ملے گا۔شاید اس کو ٹھنڈا، خوشبودار، مفرح اور سفید رنگ ہونے کی وجہ سے کافور کہتے ہوں گے۔

۲:  یعنی وہ چشمہ ان بندوں کے اختیار میں ہو گا جدھر اشارہ کریں گے اسی طرف کو اس کی نالی بہنے لگے گی۔ بعض کہتے ہیں کہ اس کا اصل منبع حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر نور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے قصر میں ہو گا۔ وہاں سے سب انبیاء و مومنین کے مکانوں تک اس کی نالیاں پہنچائی جائیں گی۔ واللہ اعلم۔ آگے ابرار کی خصلتیں بیان فرمائی ہیں ۔

۷ ۔۔۔        ۱: یعنی جو منت مانی ہو اسے پورا کرتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ جب خود اپنی لازم کی ہوئی چیز کو پورا کریں گے تو اللہ کی لازم کی ہوئی باتوں کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں ۔

۲:  یعنی اس دن کی سختی اور برائی درجہ بدرجہ سب کو عام ہو گی۔ کوئی شخص بالکلیہ محفوظ نہ رہے گا۔ "الا من شاء اللّٰہ"

۸ ۔۔۔       یعنی اللہ کی محبت کے جوش میں اپنا کھانا باوجود خواہش اور احتیاج کے نہایت شوق اور خلوص سے مسکینوں یتیموں اور قیدیوں کو کھلا دیتے ہیں ۔ (تنبیہ) قیدی عام ہے مسلم ہو یا کافر۔ حدیث میں ہے کہ "بدر" کے قیدیوں کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا کہ جس مسلمان کے پاس کوئی قیدی رہے اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے۔ چنانچہ صحابہ اس حکم کی تعمیل میں قیدیوں کو اپنے سے بہتر کھانا کھلاتے تھے حالانکہ وہ قیدی مسلمان نہ تھے۔ مسلمان بھائی کا حق تو اس سے بھی زیادہ ہے۔ اگر لفظ "اسیر" میں ذرا توسیع کر لی جائے تب تو یہ آیت غلام اور مدیون کو بھی شامل ہو سکتی ہے کہ وہ بھی ایک طرح سے قید میں ہیں ۔

۹ ۔۔۔      یہ کھلانے والے زبانِ حال سے کہتے ہیں اور کہیں مصلحت ہو تو زبانِ قال سے بھی کہہ سکتے ہیں ۔

۱۰ ۔۔۔      یعنی کیوں نہ کھلائیں اور کھلانے کے بعد کیونکر بدلہ یا شکریہ کے امید وار رہیں جبکہ ہم کو اپنے پروردگار کا اور اس دن کا خوف لگا ہوا ہے جو بہت سخت اداس اور غصّہ سے چیں بہ چیں ہو گا ہم تو اخلاص کے ساتھ کھلانے پلانے کے بعد بھی ڈرتے ہیں کہ دیکھئے ہمارا عمل مقبول ہوا یا نہیں ۔ مبادا اخلاص وغیرہ میں کمی رہ گئی ہو اور الٹا منہ پر مارا جائے۔

۱۱ ۔۔۔     یعنی جس چیز سے وہ ڈرتے تھے۔ اللہ نے اس سے محفوظ و مامون رکھا۔ اور ان کے چہروں کو تازگی اور دلوں کو سرور عطا کیا۔

۱۲ ۔۔۔     یعنی از بسکہ یہ لوگ دنیا کی تنگیوں اور سختیوں پر صبر کر کے معاصی سے رکے اور طاعت پر جمے رہے تھے۔ اس لیے اللہ نے ان کو عیش کرنے کے لیے جنت کے باغ اور لباسہائے فاخرہ مرحمت فرمائے۔

۱۳ ۔۔۔      ۱:بادشاہوں کی طرح۔

۲:  یعنی جنت کا موسم نہایت معتدل ہو گا نہ گرمی کی تکلیف نہ سردی کی۔

۱ ۴ ۔۔۔      یعنی درختوں کی شاخیں مع اپنے پھول پھل وغیرہ کے ان پر جھکی پڑتی ہوں گی اور پھلوں کے خوشے ایسی طرح لٹکے ہوں گے اور ان کے قبضہ میں کر دیے جائیں گے جنتی جس حالت میں چاہے کھڑے بیٹھے، لیٹے بے تکلف چن سکے (تنبیہ) شاید درختوں کی شاخوں کو یہاں ظلال سے تعبیر فرمایا ہے یا واقعی سایہ ہو۔ کیونکہ آفتاب کی دھوپ نہ سہی، کوئی دوسری قسم کا نور تو وہاں ضرور ہو گا۔ اس کے سایہ میں بہشتی تفنن تفریح کی غرض سے کبھی بیٹھنا چاہیں گے۔ واللہ اعلم۔

۱۶ ۔۔۔        ۱:یعنی آبخورے اصل میں چاندی کے بنے ہوں گے نہایت سفید، بے داغ اور فرحت بخش، لیکن صاف و شفاف اور چمکدار ہونے میں شیشے کی طرح معلوم ہوں گے۔ ان کے اندر کی چیز باہر سے صاف نظر آئے گی۔

۲:  یعنی جنتی کو جس قدر پینے کی خواہش ہو گی ٹھیک اس کے اندازے کے موافق بھرے ہوں گے کہ نہ کمی رہے نہ بچے۔ یا بہشتیوں نے اپنے دل سے جیسا اندازہ کر لیا ہو گا بلا کم و کاست اسی کے موافق آئیں گے۔

۱۷ ۔۔۔     یعنی ایک جام شراب وہ تھا جس کی ملونی کافور ہے۔ دوسرا وہ ہو گا۔ جس میں سونٹھ کی آمیزش ہو گی۔ مگر یہ دنیا کی سونٹھ نہ سمجھے وہ ایک چشمہ ہے۔ جنت میں جس کو سلسبیل کہتے ہیں ۔ سونٹھ کی تاثیر گرم ہے اور وہ حرارتِ عزیزیہ میں انتعاش پیدا کرتی ہے۔ عرب کے لوگ اس کو بہت پسند کرتے تھے۔ بہرحال کسی خاص مناسبت سے اس چشمہ کو زنجبیل کا چشمہ کہتے ہیں ۔ ابرار کے پیالہ میں اس کی تھوڑی سی آمیزش کی جائے گی۔ اصل میں وہ چشمہ بڑے عالی مقام مقربین کے لیے ہے۔ واللہ اعلم۔

۱۸ ۔۔۔     اس نام کے معنی ہیں پانی صاف بہتا ہوا۔ کذا فی الموضح۔

۱۹ ۔۔۔       ۱: یعنی ہمیشہ لڑکے رہیں گے یا جنتیوں سے کبھی چھینے نہ جائیں گے۔

۲:  یعنی اپنے حسن و جمال صفائی اور آب و تاب میں اِدھر اُدھر پھرتے ہوئے ایسے خوش منظر معلوم ہوں گے گویا بہت سے چمکدار خوبصورت موتی زمین پر بکھیر دیے گئے۔

۲۰ ۔۔۔       یعنی جنت کا حال کیا کہا جائے، کوئی دیکھے تو معلوم ہو کہ کیسی عظیم الشان نعمت اور کتنی بھاری بادشاہت ہے جو ادنیٰ ترین جتنی کو نصیب ہو گی۔ رَزَقْنَا اللّٰہ مِنْہَا بمنہٖ وَفَضْلہٖ۔

۲۱ ۔۔۔      ۱: یعنی باریک اور دبیز دونوں قسم کے ریشم کے لباس جنتیوں کو ملیں گے۔

۲:   اس سورت میں تین جگہ چاندی کے برتنوں اور زیور وغیرہ کا ذکر آیا ہے۔ دوسری جگہ سونے کے بیان کیے گئے ہیں ۔ ممکن ہے یہ بھی ہوں اور وہ بھی، کسی کو یہ ملیں ، کسی کو وہ۔ یا کبھی یہ کبھی وہ۔ ف۱۵    یعنی سب نعمتوں کے بعد شراب طہور کا ایک جام محبوب حقیقی کی طرف سے ملے گا، جس میں نہ نجاست ہو گی نہ کدورت، نہ سرگرانی، نہ بدبو، اس کے پینے سے دل پاک اور پیٹ صاف ہوں گے، پینے کے بعد بدن سے پسینہ نکلے گا جس کی خوشبو مشک کی طرح مہکنے والی ہو گی۔

۲۲ ۔۔۔      یعنی مزید اعزاز و اکرام اور تطییب قلوب کے لیے کہا جائے گا کہ یہ تمہارے اعمال کا بدلہ ہے۔ تمہاری کوشش مقبول ہوئی۔ اور محنت ٹھکانے لگی۔ اس کو سن کر جنتی اور زیادہ خوش ہوں گے۔

۲ ۴ ۔۔۔      ۱: تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا دل مضبوط رہے اور لوگ بھی آہستہ آہستہ اپنے نیک و بد کو سمجھ لیں ۔ اور معلوم کر لیں کہ جنت کن اعمال کی بدولت ملتی ہے۔ اگر اس طرح سمجھانے پر بھی نہ مانیں اور اپنی ضدو عناد ہی پر قائم رہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے پروردگار کے حکم پر برابر جمے رہیے۔ اور آخری فیصلہ کا انتظار کیجیے۔

۲:  عتبہ اور ولید وغیرہ کفار قریش آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دنیاوی لالچ دے کر اور چکنی چپڑی باتیں بنا کر چاہتے تھے کہ فرض تبلیغ و دعوت سے باز رکھیں ۔ اللہ نے متنبہ فرما دیا۔ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان میں سے کسی کی بات نہ مانیں ۔ کیونکہ کسی گنہگار فاسق یا ناشکر کافر کا کہنا ماننے سے نقصان کے سوا کچھ حاصل نہیں ۔ ایسے شریروں اور بدبختوں کی بات پر کان دھرنا نہیں چاہیے۔

۲۵ ۔۔۔     یعنی ہمہ وقت اس کو یاد رکھو خصوصاً ان دو وقتوں میں سب خرخشوں کا علاج یہی ذکر خدا ہے۔

۲۶ ۔۔۔      یعنی نماز پڑھ، شاید مغرب و عشاء مراد ہو یا تہجد۔ ف۵    اگر "وَمِنَ الَّیْلِ فَاسْجُدْلَہٗ" سے تہجد مراد لیا جائے تو یہاں تسبیح ہے اس کے معنیٰ متبادل مراد لیں گے۔ یعنی شب کو تہجد کے علاوہ بہت زیادہ تسبیح و تہلیل میں مشغول رہیے اور اگر پہلے مغرب و عشاء مراد تھی تو یہاں تسبیح سے تہجد مراد لے سکتے ہیں ۔

۲۷ ۔۔۔       یعنی یہ لوگ جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نصیحت و ہدایت قبول نہیں کرتے اس کا سبب حب دنیا ہے۔ دنیا چونکہ جلد ہاتھ آنے والی چیز ہے اسی کو یہ چاہتے ہیں اور قیامت کے بھاری دن سے غفلت میں ہیں اس کی کچھ فکر نہیں ۔ بلکہ اس کے آنے کا یقین بھی نہیں ۔ سمجھتے ہیں کہ مر کر جب گل سڑ گئے پھر کون دوبارہ ہم کو ایسا ہی بنا کر کھڑا کر دے گا؟ آگے اس کا جواب دیا ہے۔

۲۸ ۔۔۔     یعنی اول پیدا ہم نے کیا اور سب جوڑ بند درست کیے۔ آج ہماری وہ قدرت سلب نہیں ہو گئی۔ ہم جب چاہیں ان کی موجودہ ہستی کو ختم کر کے دوبارہ ایسی ہی ہستی بنا کر کھڑی کر دیں ۔ یا یہ مطلب ہے کہ یہ لوگ نہ مانیں گے تو ہم قادر ہیں کہ جب چاہیں ان کی جگہ دوسرے ایسے ہی آدمی لے آئیں جو ان کی طرح سرکش نہ ہوں گے۔

۲۹ ۔۔۔      یعنی جبرو زور سے منوا دینا آپ کا کام نہیں ، قرآن کے ذریعہ نصیحت کر دیجئے۔ آگے ہر ایک کو اختیار ہے جس کا جی چاہے اپنے رب کی خوشنودی تک پہنچنے کا راستہ بنا رکھے۔

۳۰ ۔۔۔      یعنی تمہارا چاہنا بھی اللہ کے چاہے بدون نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ بندہ کی مشیت اللہ کی مشیت کے تابع ہے وہ جانتا ہے کہ کس کی استعداد وقابلیت کس قسم کی ہے اسی کے موافق اس کی مشیت کام کرتی ہے۔ پھر وہ جس کو اپنی مشیت سے راہِ راست پر لائے، اور جس کو گمراہی میں پڑا چھوڑ دے عین صواب و حکمت ہے۔

۳۱ ۔۔۔       یعنی جن کی استعداد اچھی ہو گی ان کو نیکی پر چلنے کی توفیق دے گا۔ اور اپنی رحمت و فضل کا مستوجب بنائے گا،