خزائن العرفان

سورة دهر / الإنسَان

اللہ کے  نام سے  جو نہایت مہربان رحم والا(ف ۱)

۱                 سورۂ دہر اس کا نام سورۂ انسان بھی ہے، مجاہد و قتادہ اور جمہور کے نزدیک یہ سورت مدنیّہ ہے، بعض نے اس کو مکّیہ کہا ہے، اس میں دو۲ رکوع، اکتّیس۳۱ آیتیں، دو سو چالیس ۴۰ ۲کلمے اور ایک ہزار چوّن ۱۰۵۴ حرف ہیں۔

(۱) بیشک آدمی پر (ف ۲) ایک وقت وہ گزرا کہ کہیں اس کا نام بھی نہ تھا (ف ۳)

۲                 یعنی حضرت آدم علیہ السلام پر نفخِ روح سے پہلے چالیس سال کا۔

۳                 کیونکہ وہ ایک مٹی کا خمیر تھا، نہ کہیں اس کا ذکر تھا، نہ اس کو کوئی جانتا تھا، نہ کسی کو اس کی پیدائش کی حکمتیں معلوم تھیں۔ اس آیت کی تفسیر میں یہ بھی کہا گیا ہے انسان سے جنس مراد ہے اور وقت سے اس کے حمل میں رہنے کا زمانہ۔

(۲) بیشک ہم نے  آدمی کو کیا ملی ہوئی منی سے  (ف ۴) کہ وہ اسے  جانچیں (ف ۵) تو اسے  سنتا دیکھتا کر دیا (ف ۶)

۴                 مردو عورت کی۔

۵                 مکلّف کر کے اپنے امرو نہی سے۔

۶                 تاکہ دلائل کا مشاہدہ اور آیات کا استماع کر سکے۔

(۳)  بیشک ہم نے   اسے  راہ بتائی (ف ۷) یا حق مانتا (ف ۸) یا ناشکری کرتا (ف ۹)

۷                 دلائل قائم کر کے، رسول بھیج کر،کتابیں نازل فرما کر، تاکہ ہو۔

۸                 یعنی مومن سعید۔

۹                 کافر شقی۔

(۴) بیشک ہم نے  کافروں کے  لیے  تیار  کر رکھی ہیں زنجیریں (ف ۱۰) اور طوق (ف ۱۱) اور بھڑکتی آگ (ف ۱۲)

۱۰               جنہیں باندھ کر دوزخ کی طرف گھسیٹے جائیں گے۔

۱۱               جو گلوں میں ڈالے جائیں گے۔

۱۲               جس میں جَلائے جائیں گے۔

(۵) بیشک نیک پئیں گے  اس جام میں سے  جس کی ملونی کافور ہے  وہ کافور کیا ایک چشمہ ہے   (ف ۱۳)

۱۳               جنّت میں۔

(۶)  جس میں سے  اللہ کے  نہایت خاص بندے  پئیں گے  اپنے  محلوں میں اسے  جہاں چاہیں بہا کر لے  جائیں گے  (ف ۱۴)

۱۴               ابرار کے ثواب بیان فرمانے کے بعد ان کے اعمال کا ذکر فرمایا جاتا ہے، جو اس ثواب کا سبب ہوئے۔

(۷) اپنی منتیں پوری کرتے  ہیں (ف ۱۵) اور اس دن سے  ڈرتے  ہیں جس کی برائی (ف ۱۶) پھیلی ہوئی ہے  (ف ۱۷)

۱۵               مَنّت یہ ہے کہ جو چیز آدمی پر واجب نہیں ہے وہ کسی شرط سے اپنے اوپر واجب کرے، مثلاً یہ کہے کہ اگر میرا مریض اچھا ہو یا میرا مسافر بخیر واپس آئے تو میں راہِ خدا میں اس قدر صدقہ دوں گا یا اتنی رکعتیں نماز پڑھوں گا۔ اس نذر کی وفا واجب ہوتی ہے۔ معنیٰ یہ ہیں کہ وہ لوگ طاعت و عبادت اور شرع کے واجبات کے عامل ہیں حتّیٰ کہ جو طاعاتِ غیرِ واجبہ اپنے اوپر نذر سے واجب کر لیتے ہیں، اس کو بھی ادا کرتے ہیں۔

۱۶               یعنی شدّت اور سختی۔

۱۷               قتادہ نے کہا کہ اس دن کی شدّت اس قدر پھیلی ہوئی ہے کہ آسمان پھٹ جائیں گے، ستارے گِر پڑیں گے، چاند سورج بے نور ہو جائیں گے، پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں گے، کوئی عمارت باقی نہ رہے گی۔ اس کے بعد یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کے اعمال ریا و نمائش سے خالی ہیں۔

(۸) اور کھانا کھلاتے  ہیں اس کی محبت پر (ف ۱۸) مسکین اور یتیم اور اسیر کو۔

۱۸               یعنی ایسی حالت میں جب کہ خود انہیں کھانے کی حاجت و خواہش ہو اور بعض مفسّرین نے اس کے یہ معنیٰ لئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی محبّت میں کھلاتے ہیں۔ شانِ نزول: یہ آیت حضرت علیِ مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا اور ان کی کنیز فضّہ کے حق میں نازل ہوئی، حسنینِ کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیمار ہوئے، ان حضرات نے ان کی صحت پر تین روزوں کی نذر مانی، اللہ تعالیٰ نے صحت دی، نذر کی وفا کا وقت آیا، سب صاحبوں نے روزے رکھے، حضرت علیِ مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک یہودی سے تین صاع (صاع ایک پیمانہ ہے) جَو لائے، حضرت خاتونِ جنّت نے ایک ایک صاع تینوں دن پکایا لیکن جب افطار کاوقت آیا اور روٹیاں سامنے رکھیں تو ایک روز مسکین، ایک روز یتیم، ایک روز اسیر آیا اور تینوں روز یہ سب روٹیاں ان لوگوں کو دے دی گئیں اور صرف پانی سے افطار کر کے اگلا روزہ رکھ لیا گیا۔

(۹) ان سے  کہتے  ہیں ہم تمہیں خاص اللہ کے  لیے  کھانا دیتے ہیں تم سے  کوئی بدلہ یا شکر گزاری نہیں مانگتے۔

(۱۰) بیشک ہمیں اپنے  رب سے  ایک ایسے  دن کا ڈر ہے  جو بہت ترش نہایت سخت ہے  (ف ۱۹)

۱۹               لہذا ہم اپنے عمل کی جزاء یا شکر گزاری تم سے نہیں چاہتے۔ یہ عمل اس لئے ہے کہ ہم اس دن خوف سے امن میں رہیں۔

(۱۱)  تو انہیں اللہ نے  اس دن کے  شر سے  بچا لیا اور انہیں تازگی اور شادمانی دی۔

(۱۲) اور ان کے  صبر پر انہیں جنت اور ریشمی کپڑے  صلہ میں دیے۔

(۱۳)  جنت میں تختوں پر تکیہ لگائے  ہوں گے، نہ اس میں دھوپ دیکھیں گے  نہ ٹھٹر (سخت سردی) (ف ۲۰)

۲۰               یعنی گرمی یا سردی کی کوئی تکلیف وہاں نہ ہو گی۔

(۱۴) اور اس کے  (ف ۲۱)  سائے  ان پر جھکے  ہوں گے  اور اس کے  گچھے  جھکا کر نیچے  کر دیے   گئے  ہوں گے  (ف ۲۲)

۲۱               یعنی بہشتی درختوں کے۔

۲۲               کہ کھڑے، بیٹھے، لیٹے، ہر حال میں خوشے باآسانی لے سکیں۔

(۱۵) اور ان پر چاندی کے  برتنوں اور کوزوں کا دور ہو گا جو شیشے  کے  مثل ہو رہے  ہوں  گے۔

(۱۶) کیسے  شیشے  چاندی کے  (ف ۲۳) ساقیوں نے  انہیں  پورے  اندازہ پر رکھا ہو گا (ف ۲۴)

۲۳               جنّتی برتن چاندی کے ہوں گے اور چاندی کے رنگ اور اس کے حسن کے ساتھ مثل آبگینہ کے صاف شفاف ہوں گے،کہ ان میں جو چیز پی جائے گی وہ باہر سے نظر آئے گی۔

۲۴               یعنی پینے والوں کی رغبت کی قدر، نہ اس سے کم، نہ زیادہ۔ یہ سلیقہ جنّتی خدام کے ساتھ خاص ہے دنیا کے ساقیوں کو میسّر نہیں۔

(۱۷)  اور اس میں وہ جام پلائے  جائیں گے  (ف ۲۵) جس کی ملونی ادرک ہو گی (ف ۲۶)

۲۵               شرابِ طہور کے۔

۲۶               اس کی آمیزش سے شراب کی لذّت اور زیادہ ہو جائے گی۔

(۱۸) وہ ادرک کیا ہے  جنت میں ایک چشمہ ہے  جسے  سلسبیل کہتے  ہیں (ف ۲۷)

(۱۹)  اور ان کے  آس پاس خدمت میں پھریں گے  ہمیشہ رہنے  والے  لڑکے  (ف ۲۸) جب تو انہیں دیکھے  تو انہیں سمجھے  کہ موتی ہیں بکھیرے  ہوئے  (ف ۲۹)

۲۷               مقرّبین تو خالص اسی کو پئیں گے اور باقی اہلِ جنّت کی شرابوں میں اس کی آمیزش ہو گی۔ یہ چشمہ زیرِ عرش سے جنّتِ عدن ہوتا ہوا تمام جنّتوں میں گزرتا ہے۔

۲۸               جو نہ کبھی مریں گے، نہ بوڑھے ہوں گے، نہ ان میں کوئی تغیّر آئے گا، نہ خدمت سے اکتائیں گے، ان کے حسن کا یہ عالَم ہو گا۔

۲۹               یعنی جس طرح فرشِ مصفّیٰ پر گوہرِ آبدار غلطاں ہو اس حسن و صفا کے ساتھ جنّتی غلمان مشغولِ خدمت ہوں گے۔

(۲۰) اور جب تو ادھر نظر اٹھائے  ایک چین دیکھے  (ف ۳۰) اور بڑی سلطنت (ف ۳۱)

۳۰               جس کا وصف بیان میں نہیں آ سکتا۔

۳۱               جس کی حدّ و نہایت نہیں، نہ اس کو زوال، نہ جنّتی کو وہاں سے انتقال۔ وسعت کا یہ عالَم کہ ادنیٰ مرتبہ کا جنّتی جب اپنے مِلک میں نظر کرے گا تو ہزار برس کی راہ تک ایسے ہی دیکھے گا جیسے اپنے قریب کی جگہ دیکھتا ہو، شوکت و شکوہ یہ ہو گا کہ ملائکہ بے اجازت نہ آئیں گے۔

(۲۱) ان کے  بدن پر ہیں کریب کے  سبز کپڑے  (ف ۳۲) اور قنا  ویز کے  (ف ۳۳) اور انہیں چاندی کے  کنگن پہنائے  گئے  (ف ۳۴) اور انہیں ان کے  رب نے  ستھری شراب پلائی (ف ۳۵)

۳۲               یعنی باریک ریشم کے۔

۳۳               یعنی دبیز ریشم کے۔

۳۴               حضرت ابنِ مسیّب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہر ایک جنّتی کے ہاتھ میں تین گنگن ہوں گے، ایک چاندی کا، ایک سونے کا، ایک موتی کا۔

۳۵               جو نہایت پاک صاف، نہ اسے کسی کا ہاتھ لگا، نہ کسی نے چھوا، نہ وہ پینے کے بعد شرابِ دنیا کی طرح جسم کے اندر سڑ کر بول بنے، بلکہ اس کی صفائی کا یہ عالَم ہے کہ جسم کے اندر اتر کر پاکیزہ خوشبو بن کر جسم سے نکلتی ہے اہلِ جنّت کو کھانے کے بعد شراب پیش کی جائے گی، اس کو پینے سے ان کے پیٹ صاف ہو جائیں گے اور جو انہوں نے کھایا ہے وہ پاکیزہ خوشبو بن کر ان کے جسموں سے نکلے گا اور ان کی خواہشیں اور رغبتیں پھر تازہ ہو جائیں گی۔

(۲۲)  ان سے  فرمایا جائے  گا یہ تمہارا صلہ ہے  (ف ۳۶) اور تمہاری محنت ٹھکانے  لگی (ف ۳۷)

۳۶               یعنی تمہاری اطاعت اور فرمانبرداری کا۔

۳۷               کہ تم سے تمہارا رب راضی ہوا اور اس نے تمہیں ثوابِ عظیم عطا فرمایا۔

(۲۳) بیشک ہم نے  تم پر (ف ۳۸) قرآن بتدریج اتارا (ف ۳۹)

۳۸               اے سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم۔

۳۹               آیت آیت کر کے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی بڑی حکمتیں ہیں۔

(۲۴)  تو اپنے  رب کے  حکم پر صابر رہو (ف ۴۰) اور ان میں کسی گنہگار یا ناشکرے  کی بات نہ سنو (ف ۴۱)

۴۰               رسالت کی تبلیغ فرما کر اور اس میں مشقّتیں اٹھا کر اور دشمنانِ دِین کی ایذائیں برداشت کر کے۔

۴۱               شانِ نزول : عتبہ بن ربیعہ اور ولید ابنِ مغیرہ یہ دونوں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے پاس آئے اور کہنے لگے آپ اس کام سے باز آئیے یعنی دِین سے، عتبہ نے کہا کہ آپ ایسا کریں تو میں اپنی بیٹی آپ کو بیاہ دوں اور بغیر مَہر کے آپ کی خدمت میں حاضر کر دوں، ولید نے کہا کہ میں آپ کو اتنا مال دے دوں کہ آپ راضی ہو جائیں۔ اس پریہ آیت نازل ہوئی۔

(۲۵)  اور اپنے  رب کا نام صبح و شام یاد کرو (ف ۴۲)

۴۲               نماز میں صبح کے ذکر سے نمازِ فجر اور شام کے ذکر سے ظہر اور عصر مراد ہیں۔

(۲۶) اور کچھ میں اسے  سجدہ کرو (ف ۴۳) اور بڑی رات تک اس کی پاکی بولو (ف ۴۴)

۴۳               یعنی مغرب و عشاء کی نمازیں پڑھو۔ اس آیت میں پانچوں نمازوں کا ذکر فرمایا گیا۔

۴۴               یعنی فرائض کے بعد نوافل پڑھتے رہو، اس میں نمازِ تہجد آ گئی۔ بعض مفسّرین نے فرمایا ہے کہ مراد ذکرِ لسانی ہے مقصود یہ ہے کہ روز و شب کے تمام اوقات میں دل اور زبان سے ذکرِ الٰہی میں مشغول رہو۔

(۲۷) بیشک یہ لوگ (ف ۴۵) پاؤں تلے  کی (دنیاوی فائدے  کو) عزیز رکھتے  ہیں (ف ۴۶) اور اپنے   پیچھے  ایک بھاری دن کو چھوڑ بیٹھے  ہیں (ف ۴۷)

۴۵               یعنی کفّار۔

۴۶               یعنی محبّتِ دنیا میں گرفتار ہیں۔

۴۷               یعنی روزِ قیامت کو جس کے شدائد کفّار پر بہت بھاری ہوں گے، نہ اس پر ایمان لاتے ہیں، نہ اس دن کے لئے عمل کرتے ہیں۔

(۲۸)  ہم نے  انہیں پیدا کیا اور ان کے  جوڑ بند مضبوط کیے  اور ہم جب چاہیں (ف ۴۸) ان جیسے  اور بدل دیں (ف ۴۹)

۴۸               انہیں ہلاک کر دیں اور بجائے ان کے۔

۴۹               جو اطاعت شعار ہوں۔

(۲۹)  بیشک یہ نصیحت ہے  (ف ۵۰) تو جو چاہے  اپنے  رب کی طرف راہ لے  (ف ۵۱)

۵۰               مخلوق کے لئے۔

۵۱               اس کی طاعت بجا لا کر اور اس کے رسول کا اتباع کر کے۔

(۳۰)  اور تم کیا چاہو مگر یہ کہ اللہ چاہے  (ف ۵۲) بیشک وہ علم و حکمت والا ہے۔

۵۲               کیونکہ جو کچھ ہوتا ہے اسی کی مشیّت سے ہوتا ہے۔

(۳۱) اپنی رحمت میں لیتا ہے  (ف ۵۳) جسے  چاہے  (ف ۵۴) اور ظالموں کے  لیے  اس نے  دردناک عذاب تیار  کر رکھا ہے  (ف ۵۵)

۵۳               یعنی جنّت میں داخل فرماتا ہے۔

۵۴               ایمان عطا فرما کر۔

۵۵               ظالموں سے مراد کافر ہیں۔