۲ ۔۔۔ یعنی اول ہوا نرم اور اور خوشگوار چلتی ہے، جس سے مخلوق کی بہت سی توقعات اور منافع وابستہ ہوتے ہیں ۔ پھر کچھ دیر بعد وہی ہوا ایک تند آندھی اور طوفان جھکڑ کی شکل اختیار کر کے وہ خرابی اور غضب ڈھاتی ہے کہ لوگ بلبلا اٹھتے ہیں ۔ یہی مثال دنیا و آخرت کی سمجھو کتنے ہی کام ہیں جن کو لوگ فی الحال مفید اور نافع تصور کرتے ہیں اور ان پر بڑی بڑی امیدیں باندھتے ہیں ۔ لیکن وہی کام جب قیامت کے دن اپنی اصلی اور سخت ترین خوفناک صورت میں ظاہر ہوں گے تو لوگ پناہ مانگنے لگیں گے۔
۴ ۔۔۔ یعنی ان ہواؤں کی قسم جو بخارات وغیرہ کو اٹھا کر اوپر لے جاتی ہیں اور ابر کو ابھار کر جو میں پھیلا دیتی ہیں پھر جہاں جہاں پہنچانا ہے اللہ کے حکم سے اس کے حصے کر کے بانٹتی ہیں اور بارش کے بعد بادلوں کو پھاڑ کر ادھر ادھر متفرق کرتی ہیں اور کچھ ابر کے ساتھ مخصوص نہیں ، ہوا کی عام خاصیت یہ ہے کہ اشیاء کی کیفیات مثلاً بدبو وغیرہ کو پھیلائے ان کے لطیف اجزا کو جدا کر کے لے اڑے اور ایک چیز کو اٹھا کر دوسری چیز سے جا ملائے۔ غرض یہ جمع و تفریق جو ہوا کا خاصہ ہے ایک نمونہ ہے آخرت کا، جہاں حشر و نشر کے بعد لوگ جدا کیے جائیں گے اور ایک جگہ جمع ہونے کے بعد الگ الگ ٹھکانوں پر پہنچا دیے جائیں گے۔ "ہٰذَا یَوْمَ الْفَصْلِ جَمَعْنٰکُمْ وَالْاَ وَّلِیْنَ۔"
۵ ۔۔۔ حضرت شاہ صاحب عبدالعزیز رحمۃ اللہ نے "اَلْمُلٰقِیٰتِ ذِکْرًا" سے بھی ہوائیں مراد لی ہیں کیونکہ وحی کی آواز کا لوگوں کے کانوں تک پہنچانا بھی ہوا کے ذریعہ سے ہے۔ (تنبیہ) "اَلْمُرْسَلٰتِ"، "اَلْعٰصِفٰتِ"، " اَلنّٰشِرَاتِ الْفٰرِقٰتِ"، "اَلْمُلٰقِیٰتِ" پانچوں کا مصداق کسی نے ہواؤں کو ٹھہرایا ہے، کسی نے فرشتوں کو، کسی نے پیغمبروں کو، اور بعض مفسرین نے پہلی چار سے ہوائیں مراد لیں ہیں اور پانچویں سے فرشتے، جیسا کہ ترجمہ سے ظاہر ہے۔ اور بھی اقوال ہیں جن سب کی تفصیل روح المعانی میں ملے گی۔
۶ ۔۔۔ حضرت شاہ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں "کہ (وحی سے) کافروں کا الزام اتارنا منظور ہے کہ (سزا کے وقت) نہ کہیں ہم کو خبر نہ تھی اور جن کی قسمت میں ایمان ہے ان کو ڈر سنانا تاکہ ایمان لائیں ۔" اور حضرت شاہ عبدالعزیز فرماتے ہیں کہ جو کلام الٰہی امرونہی اور عقائد و احکام پر مشتمل ہے۔ وہ عذر کرنے کے واسطے ہے، تاکہ اعمال کی باز پرس کے وقت اس شخص کے لیے عذر اور دستاویز ہو کہ میں نے فلاں کام حق تعالیٰ کے حکم کے بموجب کیا اور فلاں کام اس کے حکم سے ترک کیا۔ اور جو کلام الٰہی قصص و اخبار وغیرہ پر مشتمل ہو وہ عموماً منکرین کو ڈرانے اور خوف دلانے کے لیے ہے اور اس سورت میں روئے سخن بیشتر مکذبین و منکرین کی طرف تھا۔ اس لیے بشارت کا ذکر نہیں کیا گیا۔ واللہ اعلم۔ بہرحال وحی لانے والے فرشتے اور وحی پہنچانے والی ہوائیں شاید ہیں کہ ایک وقت ضرور آنا چاہیے جب مجرموں کو ان کی حرکات پر ملزم کیا جائے اور خدا سے ڈرنے والوں کو بالکلیہ مامون و بے فکر کر دیا جائے۔
۷ ۔۔۔ یعنی قیامت کا اور آخرت کے حساب و کتاب اور جزا و سزا کا وعدہ۔
۹ ۔۔۔ یعنی تارے بے نور ہو جائیں ، آسمان پھٹ پڑیں اور پھٹنے کی وجہ سے ان میں دریچیاں اور جھروکے سے نظر آنے لگیں ۔
۱۰ ۔۔۔ یعنی روئی کی طرح ہوا میں اڑتے پھریں ۔
۱۱ ۔۔۔ تا آگے پیچھے وقت مقرر کے موافق اپنی اپنی امتوں کے ساتھ رب العزت کی سب سے بڑی پیشی میں حاضر ہوں ۔
۱۳ ۔۔۔ یعنی جانتے ہو؟ ان امور کو کس دن کے لیے اٹھا رکھا ہے؟ اس دن کے لیے جس میں ہر بات کا بالکل اور دو ٹوک فیصلہ ہو گا۔ بیشک اللہ چاہتا تو ابھی ہاتھوں ہاتھ ہر چیز کا فیصلہ کر دیتا۔ لیکن اس کی حکمت مقتضی نہیں ہوئی کہ ایسا کیا جائے۔
۱۵ ۔۔۔ یعنی کچھ مت پوچھو، فیصلہ کا دن کیا چیز ہے۔ بس یہ سمجھ لو کہ جھٹلانے والوں کو اس روز سخت تباہی اور مصیبت کا سامنا ہو گا۔ کیونکہ جس چیز کی انہیں امید نہ تھی جب وہ یکایک اپنی ہولناک صورت میں آن پہنچے گی تو ہوش پراں ہو جائیں گے، اور حیرت و ندامت سے حواس باختہ ہوں گے۔
۱۸ ۔۔۔ منکرین قیامت سمجھتے تھے کہ اتنی بڑی دنیا کہاں ختم ہوتی ہے؟ بھلا کون باور کرے گا کہ سب آدمی بیک وقت مر جائیں گے اور نسل انسانی بالکل نابود ہو جائے گی؟ یہ دوزخ اور عذاب کے ڈراوے سب فرضی اور بناوٹی باتیں معلوم ہوتی ہیں ۔ اس کا جواب دیا کہ پہلے کتنے آدمی مر چکے اور کتنی قومیں اپنے گناہوں کی پاداش میں تباہ کی جا چکی ہیں ۔ پھر ان کے پیچھے بھی موت و ہلاکت کا یہ سلسلہ برابر جاری ہے۔ جب ہماری قدیم عادت مجرموں کی نسبت معلوم ہو چکی تو سمجھ لو کہ دورِ حاضر کے کفار کو بھی ہم ان ہی اگلوں کے پیچھے چلتا کر دیں گے۔ جو ہستی الگ الگ زمانوں میں بڑے بڑے مضبوط آدمیوں کو مار سکتی اور طاقتور مجرموں کو پکڑ کر ہلاک کر سکتی ہے، وہ اس پر کیوں قادر نہ ہو گی کہ سب مخلوق کو ایک دم میں فنا کر دے۔ اور تمام مجرموں کو بیک وقت عذاب کا مزہ چکھائے۔
۱۹ ۔۔۔ یعنی جو قیامت کی آمد کو اس لیے جھٹلاتے ہیں کہ سب انسان ایک دم کیسے فنا کر دیے جائیں گے اور کس طرح سب مجرموں کو بیک وقت گرفتار کر کے سزا دیں گے۔
۲۱ ۔۔۔ یعنی ایک ٹھہراؤ کی جگہ میں محفوظ رکھا۔ مراد اس سے رحم مادر ہے جسے ہمارے محاورات میں بچہ دان کہتے ہیں ۔
۲۲ ۔۔۔ اکثر وہاں ٹھہرنے کی مدت نو مہینے ہوتی ہے۔
۲۳ ۔۔۔ یعنی اس پانی کی پوند کی بتدریج پورا کر کے انسان عاقل بنا دیا۔ اس سے ہماری قدرت اور سکت کو سمجھ لو۔ تو اسی انسان کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ نہیں کر سکتے؟ (تنبیہ) بعض نے "قدرنا" کے معنی اندازہ کرنے کے لیے ہیں ۔ "اندازہ کیا ہم نے" اور ہم کیا خوب اندازہ کرنے والے ہیں کہ اتنی مدت میں کوئی ضروری چیز رہ نہیں جاتی اور کوئی زائد و بیکار چیز پیدا نہیں ہوتی۔
۲۶ ۔۔۔ جو یوں کہا کرتے تھے کہ مٹی میں مل کر جب ہماری ہڈیاں تک ریزہ ریزہ ہو جائیں گی، پھر کس طرح زندہ کر دیے جائیں گے؟ اس وقت اپنے لچر پوچ شبہات پر شرمائیں گے۔ اور ندامت سے ہاتھ کاٹیں گے۔
۲۷ ۔۔۔ یعنی زندہ مخلوق اسی زمین میں بسر کرتی ہے اور مردے بھی اس مٹی میں پہنچ جاتے ہیں ۔ انسان کو زندگی بھی اس خاک سے ملی اور موت کے بعد بھی یہی اس کا ٹھکانا ہوا۔ تو دوبارہ اسی خاک سے اس کو اٹھا دینا کیوں مشکل ہو گا۔
۲۸ ۔۔۔ یعنی اس زمین میں پہاڑ جیسی وزنی اور سخت چیز پیدا کر دی جو اپنی جگہ سے ذرا جنبش نہیں کھاتے اور اسی زمین میں پانی کے چشمے جاری کر دیے جو نرم و سیال ہونے کی وجہ سے برابر بہتے رہتے ہیں ، اور بڑی سہولت سے پینے والے کو سیراب کرتے ہیں ۔ پس جو خدا اس حقیر زمین میں اپنی قدرت کے متضاد نمونے دکھلاتا ہے اور موت و حیات اور سختی و نرمی کے مناظر پیش کرتا ہے۔ کیا وہ میدانِ حشر میں سختی و نرمی اور نجات و ہلاکت کے مختلف مناظر نہیں دکھلا سکتا۔ نیز جس کے قبضہ میں پیدا کرنا، ہلاک کرنا، اور حیات و بقاء کے سامان فراہم کرنا یہ سب کام ہوئے اس کی قدرت و نعمت کو جھٹلانا کیوں کر جائز ہو گا۔
۲۹ ۔۔۔ جو سمجھتے تھے کہ ایک جگہ اور ایک وقت میں تمام اولین و آخرین کی اثابت و تعذیب کے اس قدر مختلف اور متضاد کام کیونکر سرانجام پائیں گے۔
۳۰ ۔۔۔ یعنی قیامت کے دن یوں کہا جائے گا۔ قتادہ وغیرہ سے مروی ہے کہ کافروں کے سایہ کے لیے ایک دھواں دوزخ سے اٹھے گا، جو پھٹ کر کئی ٹکڑے ہو جائے گا کہتے ہیں کہ ان میں سے ہر شخص کو تین طرف سے گھیرے گا۔ ایک ٹکڑا سر کے اوپر سائبان کی طرح ٹھہر جائے گا۔ دوسرا ٹکڑا داہنے اور تیسرا بائیں ہو جائے گا۔ حساب سے فارغ ہونے تک وہ لوگ اسی سایہ کے نیچے رہیں گے۔ اور ایمان دار نیک کردار عرش اعظم کے سایہ میں آرام سے کھڑے ہوں گے۔
۳۱ ۔۔۔ یعنی محض برائے نام سیاہ ہو گا، گہری چھاؤں نہیں ہو گی۔ جس سے آفتاب کی گرمی یا آگ کی تپش سے نجات ملے یا اندر کی گرمی اور پیاس میں کمی ہو۔
۳۲ ۔۔۔ یعنی اونچی ہوتی ہیں ، چنگاریاں بڑے اونچے محل کے برابر۔ یا اس کے انگارے کلانی میں محل کے برابر ہوں گے۔
۳۳ ۔۔۔ یعنی اگر قصر کے ساتھ تشبیہ بلندی میں تھی تو اونٹ کے ساتھ کلانی میں ہو گی۔ اور اگر وہ تشبیہ کلانی میں ہو تو "کَاَنَّہٗ جِمٰلَتٌ صُفْرٌ" کا مطلب یہ ہو گا کہ ابتداء ًچنگاریاں محل کے برابر ہوں گی پھر ٹوٹ کر اور چھوٹی ہو کر اونٹ کے برابر ہو جائیں گی۔ یا اونٹ کے ساتھ رنگت میں تشبیہ ہو، لیکن اس صورت میں "جملت صفر" کا ترجمہ جنہوں نے "کالے اونٹوں " سے کیا ہے وہ زیادہ چسپاں ہو گا۔ کیونکہ روایات سے جہنم کی آگ کا سیاہ و تاریک ہونا ثابت ہو چکا ہے۔ اور عرب کالے اونٹ کو صفر اس لیے کہتے ہیں کہ عموماً وہ زردی مائل ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔
۳ ۴ ۔۔۔ ۱: جو سمجھتے تھے کہ قیامت آنے والی نہیں ، اور اگر آئی تو ہم وہاں بھی آرام سے رہیں گے۔
۲: یعنی محشر کے بعض مواطن میں بالکل بول نہ سکیں گے اور جن مواطن میں بولیں گے وہ نافع نہ ہو گا۔ اس لحاظ سے بولنا نہ بولنا برابر ہوا۔
۳۶ ۔۔۔ کیونکہ معذرت اور توبہ کے قبول ہونے کا وقت گزر گیا۔
۳۷ ۔۔۔ یعنی جنہوں نے دنیا کی عدالتوں پر قیاس کر کے سمجھ رکھا ہو گا کہ اگر ایسا موقع پیش آگیا وہاں بھی زبان چلا کر اور کچھ عذر معذرت کر کے چھوٹ جائیں گے۔
۳۸ ۔۔۔ تاکہ سب کو اکٹھا کر کے پھر الگ الگ کر دیں اور آخری فیصلہ سنائیں ۔
۳۹ ۔۔۔ لو! سب کو ہم نے یہاں جمع کر دیا آپس میں مل کر اور مشورے کر کے جو داؤ تدبیر ہماری گرفت سے نکلنے کی کر سکتے ہو کر دیکھو! دنیا میں حق کو دبانے کی بہت تدبیریں کی تھیں ۔ آج ان میں سے کوئی یاد کرو۔
۴۰ ۔۔۔ جو دوسروں پر بھروسہ کیے ہوئے تھے کہ وہ کسی نہ کسی طرح ہم کو چھڑا لیں گے اور بعض گستاخ تو دوزخ کے فرشتوں کی تعداد انیس سن کر یہاں تک کہہ گزرتے تھے کہ ان میں سے سترہ کو میں اکیلا کافی ہوں ۔
۴۱ ۔۔۔ یعنی اول عرش کے پھر جنت کے سایوں میں ۔
۴۳ ۔۔۔ مکذبین کے مقابل یہ متقین کا حال بیان فرما دیا کہ "الاشیاء تعرف باضدادہا۔"
۴۵ ۔۔۔ جو دنیا میں مسلمانوں سے کہا کرتے تھے کہ اگر مرنے کے بعد دوسری زندگی ہے تو وہاں بھی ہم تم سے اچھے رہیں گے۔ اب ان کو عیش میں اور اپنے کو تکلیف میں دیکھ کر اور زیادہ جلیں گے اور ذلیل و رسوا ہوں گے۔
۴۶ ۔۔۔ یہ خطاب مکذبین کو ہے کہ چند روز اور مزے اڑا لو۔ آخر یہ کھایا پیا بہت بری طرح نکلے گا۔ کیونکہ تم اللہ کے مجرم ہو جس کی سزا حبسِ دوام اور عذاب الیم کے سوا کچھ نہیں ۔ گویا "کُلُوْا وَتَمَتَّعُوا" فرمانا ایسا ہوا جیسے ایک مجرم کو جس کے لیے پھانسی کا حکم ہو چکا ہو، پھانسی دینے سے قبل کہہ دیتے ہیں کہ کوئی خواہش ہو تو ظاہر کرو تاکہ اس کے پورا کرنے کی کوشش کی جائے۔
۴۷ ۔۔۔ جو دنیا کے عیش و بہار اور لذتوں پر ریجھ رہے تھے، یہ خبر نہ تھی کہ جس چیز کو پھولوں کا ہار سمجھ کر گلے میں ڈال رہے ہیں وہ کالا ناگ ہے۔
۴۸ ۔۔۔ یعنی نماز میں یا اللہ کے عام احکام کے سامنے۔
۴۹ ۔۔۔ اس دن پچھتائیں گے کہ دنیا میں احکام الٰہی کے سامنے کیوں نہ جھکے۔ وہاں سر جھکاتے تو آج یہاں سربلند ہوتے۔
۵۰ ۔۔۔ یعنی قرآن سے بڑھ کر کامل اور موثر بیان کس کا ہو گا۔ اگر یہ مکذبین اس پر یقین نہیں لاتے تو اور کس بات پر ایمان لائیں گے؟ کیا قرآن کے بعد کسی اور کتاب کے منتظر ہیں جو آسمان سے اترے گی؟