آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم بعض سرداران قریش کو مذہب اسلام کے متعلق کچھ سمجھا رہے تھے، اتنے میں ایک نابینا مسلمان (جن کو ابن ام مکتوم کہتے ہیں ) حاضر خدمت ہوئے اور اپنی طرف متوجہ کرنے لگے کہ فلاں آیت کیونکر ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! مجھے اس میں سے کچھ سکھائیے جو اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو سکھلایا ہے۔ حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کا بے وقت کا پوچھنا گراں گزرا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو خیال ہوا ہو گا کہ میں ایک بڑے مہم کام میں مشغول ہوں ۔ قریش کے یہ بڑے بڑے سردار اگر ٹھیک سمجھ کر اسلام لے آئیں تو بہت لوگوں کے مسلمان ہونے کی توقع ہے۔ ابن ام مکتوم بہرحال مسلمان ہے اس کو سمجھنے اور تعلیم حاصل کرنے کے ہزار مواقع حاصل ہیں ، اس کو دکھائی نہیں دیتا کہ میرے پاس ایسے با اثر اور بارسوخ لوگ بیٹھے ہیں جن کو اگر ہدایت ہو جائے تو ہزاروں اشخاص ہدایت پر آ سکتے ہیں ، میں ان کو سمجھا رہا ہوں ، یہ اپنی کہتا چلا جاتا ہے۔ اتنا بھی نہیں سمجھتا کہ اگر ان لوگوں کی طرف ہٹ کر گوشہ التفات اس کی طرف کروں گا تو ان لوگوں پر کس قدر شاق ہو گا۔ شاید پھر وہ میری بات سننا بھی پسند نہ کریں ۔ غرض آپ صلی اللہ علیہ و سلم منقبض ہوئے اور انقباض کے آثار چہرے پر ظاہر ہونے لگے۔ اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں ۔ روایات میں ہے کہ اس کے بعد جب وہ نابینا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آتے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم بہت تعظیم و تکریم سے پیش آتے اور فرماتے "مرحبابمن عاتبنی فیہ ربی "۔
۲ ۔۔۔ یعنی پیغمبر نے ایک اندھے کے آنے پر چیں بجبیں ہو کر منہ پھیر لیا۔ حالانکہ اس کو اندھے کی معذوری، شکستہ حالی اور طلب صادق کا لحاظ زیادہ کرنا چاہیے تھا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ۔ " یہ کلام گویا اوروں کے سامنے گلہ ہے رسول کا (اسی لئے بصیغہ غائب ذکر کیا) آگے خود رسول کو خطاب فرمایا ہے۔ " اور محقیقن کہتے ہیں کہ یہ غایت تکرم و استحیاء متکلم کا، اور غایت کرامت مخاطب کی ہے کہ عتاب کے وقت بھی رو در رو اس امر نسبت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف نہیں فرمائی اور آگے خطاب کا صیغہ بطور التفات کے اس لئے اختیار کیا کہ شبہ اعراض کا نہ ہو۔ نیز وہ مضمون پہلے مضمون سے ہلکا ہے واللہ اعلم۔
۴ ۔۔۔ یعنی وہ اندھا طالب صادق تھا۔ تمہیں کیا معلوم کہ تمہارے فیض توجہ سے اس کا حال سنور جاتا اور اس کا نفس مزکی ہو جاتا۔ یا تمہاری کوئی بات کان میں بڑتی، اس کو اخلاص سے سوچتا سمجھتا اور آخر وہ بات کسی وقت اس کے کام آ جاتی۔
۷ ۔۔۔ یعنی جو لوگ اپنے غرور اور شیخی سے حق کی پروا نہیں کرتے اور ان کا تکبر اجازت نہیں دیتا کہ اللہ و رسول کے سامنے جھکیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ یہ کسی طرح مسلمان ہو جائیں تاکہ ان کے اسلام کا اثر دوسروں پر پڑے۔ حالانکہ اللہ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر کوئی الزام نہیں کہ یہ مغرور اور شیخی باز آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ہدایت سے درست کیوں نہ ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرض دعوت و تبلیغ کا تھا، وہ ادا کر چکے اور کر رہے ہیں ۔ آگے ان لا پروا متکبروں کی فکر میں اس قدر انہماک کی ضرورت نہیں کہ سچے طالب اور مخلص ایماندار توجہ سے محروم ہونے لگیں ۔ یا معاملہ کی ظاہری سطح دیکھ کر بے سوچے سمجھے لوگوں میں یہ خیال پیدا ہو جائے کہ پیغمبر صاحب کی توجہ امیروں اور تونگروں کی طرف زیادہ ہے۔ شکستہ حال غریبوں کی طرف نہیں اس مہمل خیال کے پھیلنے سے جو ضرر دعوت اسلام کے کام کو پہنچ سکتا ہے، وہ اس نفع سے کہیں بڑھ کر ہے جس کی ان چند متکبرین کے مسلمان ہونے سے توقع کی جا سکتی ہے۔
۹ ۔۔۔ یعنی اللہ سے ڈرتا ہے یا ڈر لگا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ملاقات میسر ہو یا نہ ہو۔ پھر اندھا ہے کوئی ہاتھ پکڑنے والا نہیں ۔ اندیشہ ہے کہیں راستہ میں ٹھوکر لگے یا کسی چیز سے ٹکرا جائے یا یہ سمجھ کر کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس جا رہا ہے دشمن ستانے لگیں ۔
۱۰ ۔۔۔ حالانکہ ایسے ہی لوگوں سے امید ہو سکتی ہے کہ ہدایت سے منتفع ہوں گے۔ اور اسلام کے کام آئیں گے۔ کہتے ہیں کہ یہ ہی نابینا بزرگ زرہ پہنے اور جھنڈا ہاتھ میں لئے جنگ قادسیہ میں شریک تھے۔ آخر اسی معرکہ میں شہید ہوئے۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ۔
۱۲ ۔۔۔ یعنی متکبر اغنیاء اگر قرآن کو نہ پڑھیں اور اس نصیحت پر کان نہ دھریں تو اپنا ہی برا کریں گے۔ قرآن کو ان کی کچھ پروا نہیں ۔ نہ آپ کو اس درجہ ان کے درپے ہونے کی ضرورت ہے۔ ایک عام نصیحت تھی سو کر دی گئی جو اپنا فائدہ چاہے اس کو پرکھے اور سمجھے۔
۱۵ ۔۔۔ یعنی کیا ان مغرور سرپھرورں کے ماننے سے قرآن کی عزت و وقعت ہو گئی؟ قرآن تو وہ ہے جس کی آیتیں آسمان کے اوپر نہایت معزز، بلند مرتبہ اور صاف ستھرے ورقوں میں لکھی ہوئی ہیں اور زمین پر مخلص ایماندار بھی اس کے اوراق نہایت عزت و احترام اور تقدیس و تطہیر کے ساتھ اونچی جگہ رکھتے ہیں ۔
۱۶ ۔۔۔ یعنی وہاں فرشتے اس کو لکھتے ہیں اسی کے موافق وحی اترتی ہے۔ اور یہاں بھی اوراق میں لکھنے اور جمع کرنے والے دنیا کے بزرگ ترین پاکباز نیکوکار اور فرشتہ خصلت بندے ہیں جنہوں نے ہر قسم کی کمی بیشی اور تحریف و تبدیل سے اس کو پاک رکھا ہے۔
۱۷ ۔۔۔ یعنی قرآن جیسی نعمت عظمیٰ کی کچھ قدر نہ کی اور اللہ کا حق کچھ نہ پہچانا۔
۱۹ ۔۔۔ ۱: یعنی ذرا اپنی اصل پر تو غور کیا ہوتا کہ وہ پیدا کس چیز سے ہوا ہے۔ ایک ناچیز اور بے قدر قطرہ آب سے جس میں حس و شعور، حسن و جمال اور عقل و ادراک کچھ نہ تھا۔ سب کچھ اللہ نے اپنی مہربانی سے عطا فرمایا۔ جس کی حقیقت کل اتنی ہو کیا اسے یہ طمطراق زیبا ہے کہ خالق و منعم حقیقی ایسی عظیم الشان نصیحت اتارے اور یہ بے شرم اپنی اصل حقیقت اور مالک کی سب نعمتوں کو فراموش کر کے اس کی کچھ پروا نہ کرے۔ اور احسان فراموش! کچھ تو شرمایا ہوتا۔
۲: یعنی ہاتھ پاؤں وغیرہ سب اعضاء و قویٰ ایک خاص اسلوب اور اندازے سے رکھے۔ کوئی چیز یوں ہی بے تکی اور بے ڈھنگی خلاف حکمت نہیں رکھ دی۔
۲۰ ۔۔۔ یعنی ایمان و کفر اور بھلے برے کی سمجھ دی یا ماں کے پیٹ میں سے نکالا آسانی سے۔
۲۱ ۔۔۔ یعنی مرنے کے بعد اس کی لاش کو قبر میں رکھنے کی ہدایت کر دی۔ تاکہ زندوں کے سامنے یوں ہی بے حرمت نہ ہو۔
۲۲ ۔۔۔ یعنی جس نے ایک مرتبہ جِلایا اور مارا۔ اسی کو اختیار ہے کہ جب چاہے دوبارہ زندہ کر کے قبر سے نکالے۔ کیونکہ اس کی قدرت اب کسی نے سلب نہیں کر لی۔ (العیاذ باللہ) بہرحال پیدا کر کے دنیا میں لانا، پھر مار کر برزخ میں لے جانا، پھر زندہ کر کے میدان حشر میں کھڑا کر دینا، یہ امور جس کے قبضہ میں ہوئے کیا اس کی نصیحت سے اعراض وانکار اور اس کی نعمتوں کا استحقار کسی آدمی کے لئے زیبا ہے۔
۲۳ ۔۔۔ یعنی انسان نے ہرگز اپنے مالک کا حق نہیں پہچانا اور جو کچھ حکم ہوا تھا ابھی تک اس کو بجا نہیں لایا (تنبیہ) ابن کثیر نے "کلا لما یقض ما امرہ " کو" ثم اذا شاء انشرہ" سے متعلق رکھا ہے یعنی جب چاہے گا زندہ کر کے اٹھائے گا۔ ابھی ایسا نہیں کیا جا سکتا کیونکہ دنیا کی آبادی کے متعلق اس کا جو حکم کونی و قدری ہے وہ ابھی تک اس نے ختم نہیں کیا۔
۲ ۴ ۔۔۔ پہلے انسان کے پیدا کرنے اور مارنے کا ذکر تھا۔ اب اس کی زندگی اور بقاء کے سامان یاد دلاتے ہیں ۔
۲۶ ۔۔۔ یعنی ایک گھاس کے تنکے کی کیا طاقت تھی کہ زمین کو چیر پھاڑ کر باہر نکل آتا، یہ قدرت کا ہاتھ ہے جو زمین کو پھاڑ کر اس سے طرح طرح کے غلے، پھل اور سبزے، ترکاریاں وغیرہ باہر نکالتا ہے۔
۳۲ ۔۔۔ یعنی بعض چیزیں تمہارے کام آتی ہیں اور بعض تمہارے جانوروں کے۔
۳۳ ۔۔۔ یعنی ایسی سخت آواز جس سے کان بہرے ہو جائیں ۔ اس سے مراد نفخہ صور کی آواز ہے۔
۳۷ ۔۔۔ یعنی اس وقت ہر ایک کو اپنی فکر پڑی ہو گی احباب و اقارب ایک دوسرے کو نہ پوچھیں گے بلکہ اس خیال سے کہ کوئی میری نیکیوں میں سے نہ مانگنے لگے یا اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے لگے ایک دوسرے سے بھاگے گا۔
۳۹ ۔۔۔ یعنی مومنین کے چہرے نور ایمان سے روشن اور غایت مسرت سے خنداں و فرحاں ہوں گے۔
۴۱ ۔۔۔ یعنی کافروں کے چہروں پر کفر کی کدورت چھائی ہو گی اور اوپر سے فسق و فجور کی ظلمت اور زیادہ تیرہ تاریک کر دے گی۔
۴۲ ۔۔۔ یعنی کافر بے حیا کو کتنا ہی سمجھاؤ ذرا نہ پسیجیں ۔ نہ خدا سے ڈریں ، نہ مخلوق سے شرمائیں ۔