خزائن العرفان

سورة عَبَسَ

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا(ف ۱)

۱                 سورۂ عبس مکّیہ ہے، اس میں ایک ۱رکوع، بیالیس ۴۲ آیتیں، ایک سو تیس۱۳۰ کلمے، پانچ سو تینتیس۵۳۳ حرف ہیں۔

(۱) تیوری چڑھائی  اور منہ پھیرا  (ف ۲)

۲                 نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے۔

(۲) اس پر کہ اس کے  پاس وہ نابینا  حاضر ہوا  (ف ۳)

۳                 یعنی عبداللہ بن اُمِّ مکتوم۔ شانِ نزول : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم عتبہ بن ربیعہ ابوجہل بن ہشام اور عبا س بن عبدالمطلب اور اُ بَی بن خلف اور اُمیّہ بن خلف اشرافِ قریش کو اسلام کی دعوت فرما رہے تھے۔ اس درمیان میں عبداللہ ابنِ اُمِّ مکتوم نابینا حاضر ہوئے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو بار بار ندا کر کے عرض کیا کہ جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو سکھایا ہے مجھے تعلیم فرمائیے، ابنِ اُمِّ مکتوم نے یہ نہ سمجھا کہ حضور دوسروں سے گفتگو فرما رہے ہیں اس سے قطعِ کلام ہو گا یہ بات حضور ِ اقدس صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو گراں گزری اور آثارِ ناگواری چہرۂ اقدس پر نمایاں ہوئے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم اپنی دولت سرائے اقدس کی طرف واپس ہوئے اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ اور نابینا فرمانے میں عبداللہ بن اُمِّ مکتوم کی معذوری کی طرف اشارہ ہے کہ قطعِ کلام ان سے اس وجہ سے واقع ہوا، اس آیت کے نزول کے بعد سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم عبداللہ بن اُمِّ مکتوم کا اکرام فرماتے تھے۔

(۳)  اور تمہیں کیا معلوم شاید وہ ستھرا ہو (ف ۴)

۴                 گناہوں سے آپ کا ارشاد سن کر۔

(۴) یا نصیحت لے  تو اسے  نصیحت فائدہ دے۔

(۵) وہ جو بے  پرواہ بنتا ہے  (ف ۵)

۵                 اللہ تعالیٰ سے اور ایمان لانے سے بسبب اپنے مال کے۔

(۶)  تم اس کے  تو پیچھے  پڑتے  ہو (ف ۶)

۶                 اور اس کے ایمان لانے کی طمع میں اس کے درپے ہوتے ہو۔

(۷)  اور تمہارا کچھ زیاں نہیں اس میں کہ وہ ستھرا نہ ہو (ف ۷)

۷                 ایمان لا کر اور ہدایت پا کر کیونکہ آپ کے ذمّہ دعوت دینا اور پیامِ الٰہی پہنچا دینا ہے۔

(۸) اور وہ جو تمہارے  حضور ملکتا (ناز سے  دوڑتا ہوا)  آتا (ف ۸)

۸                 یعنی ابنِ اُمِّ مکتوم۔

(۹) اور وہ  ڈر رہا ہے  (ف ۹)

۹                 اللہ عزَّوجلَّ سے۔

(۱۰) تو اسے  چھوڑ کر اور طرف مشغول ہوتے  ہو۔

(۱۱) یوں نہیں (ف ۱۰) یہ تو سمجھانا ہے  (ف ۱۱)

۱۰               ایسا نہ کیجئے۔

۱۱               یعنی آیاتِ قرآن مخلوق کے لئے نصیحت ہیں۔

(۱۲) تو جو چاہے  اسے  یا د کرے  (ف ۱۲)

۱۲               اور اس سے پند پذیر ہو۔

(۱۳) ان صحیفوں میں کہ عزت والے  ہیں (ف ۱۳)

۱۳               اللہ تعالیٰ کے نزدیک۔

(۱۴) بلندی والے  (ف ۱۴) پاکی والے  (ف ۱۵)

۱۴               رفیعُ القدر۔

(۱۵)  ایسوں کے  ہاتھ لکھے  ہوئے۔

(۱۶) جو کرم والے  نکوئی والے  (ف ۱۶)

۱۵               کہ انہیں پاکوں کے سوا کوئی نہ چھوئے۔

۱۶               اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار، اور وہ فرشتے ہیں جو اس کو لوحِ محفوظ سے نقل کرتے ہیں۔

(۱۷)  آدمی مارا  جائیو کیا ناشکر ہے  (ف ۱۷)

۱۷               کہ اللہ تعالیٰ کی کثیر نعمتوں اور بے نہایت احسانوں کے باوجود کفر کرتا ہے۔

(۱۸) اسے  کاہے  سے  بنایا۔

(۱۹)  پانی کی بوند سے  اسے  پیدا فرمایا، پھر اسے  طرح طرح کے  اندازوں پر رکھا (ف ۱۸)

۱۸               کبھی نطفہ کی شکل میں، کبھی علقہ کی صورت میں، کبھی مضغہ کی شان میں، تکمیلِ آفرینش تک۔

(۲۰) پھر اسے  راستہ آسان کیا (ف ۱۹)

۱۹               ماں کے پیٹ سے برآمد ہونے کا۔

(۲۱) پھر اسے  موت دی پھر قبر میں رکھوایا (ف ۲۰)

۲۰               کہ بعدِ موت بے عزّت نہ ہو۔

(۲۲) پھر جب چاہا اسے  باہر نکالا (ف ۲۱)

۲۱               یعنی بعدِ موت حساب و جزا کے لئے پھر اس کے واسطے زندگانی مقرّر کی۔

(۲۳) کوئی نہیں،  اس نے  اب تک پورا  نہ کیا جو اسے  حکم ہوا تھا (ف ۲۲) 

۲۲               اس کے رب کا یعنی کافر ایمان لا کر حکمِ الٰہی کو بجا نہ لایا۔

(۲۴)  تو آدمی کو چاہیے  اپنے  کھانوں کو دیکھے  (ف ۲۳) 

۲۳               جنہیں کھاتا ہے اور جو اسکی حیات کا سبب ہیں کہ ان میں اس کے رب کی قدرت ظاہر ہے کس طرح جزوِ بدن ہوتے ہیں اور کس نظامِ عجیب سے کام میں آتے ہیں اور کس طرح رب عزَّوجلَّ عطا فرماتا ہے ان حکمتوں کا بیان فرمایا جاتا ہے۔

(۲۵) کہ ہم نے  اچھی طرح پانی ڈالا (ف ۲۴)

۲۴               بادل سے۔

(۲۶) پھر زمین کو خوب چیرا۔

(۲۷) تو اس میں اُگایا اناج۔

(۲۸) اور انگور اور چارہ۔

(۲۹) اور زیتون اور کھجور۔

(۳۰) اور گھنے  باغیچے۔

(۳۱) اور میوے  اور  دُوب  ( گھاس) 

(۳۲) تمہارے  فائدے  کو اور تمہارے  چوپایوں کے۔

(۳۳)  پھر جب آئے  گی وہ کان پھاڑنے  وا لی چنگھاڑ (ف ۲۵)

۲۵               یعنی قیامت کے نفخۂ ثانیہ کی ہولناک آواز جو مخلوق کو بہرا کر دے گی۔

(۳۴) اس دن  آدمی بھاگے  گا اپنے  بھائی۔

(۳۵) اور ماں اور باپ۔

(۳۶)  اور جُورو اور  بیٹوں  سے  (ف ۲۶)

۲۶               ان میں سے کسی کی طرف ملتفت نہ ہو گا، اپنی ہی پڑی ہو گی۔

(۳۷) ان میں سے  ہر ایک کو اس دن ایک فکر ہے  کہ وہی اسے  بس ہے  (ف ۲۷)

۲۷               قیامت کا حال اور اس کے اہوال بیان فرمانے کے بعد مکلّفین کا ذکر فرمایا جاتا ہے کہ وہ دو قِسم ہیں سعید اور شقی، جو سعید ہیں ان کا حال ارشاد ہوتا ہے۔

(۳۸)  کتنے  منہ اس دن روشن ہوں گے  (ف ۲۸)

۲۸               نورِ ایمان سے یا شب کی عبادتوں سے یا وضو کے آثارسے۔

(۳۹) ہنستے  خوشیاں مناتے  (ف ۲۹)

۲۹               اللہ تعالیٰ کے نعمت و کرم اور اس کی رضا پر۔ اس کے بعد اشقیا کا حال بیان فرمایا جاتا ہے۔

(۴۰)  اور کتنے  مونہوں پر اس دن گرد پڑی ہو گی۔

(۴۱) ان پر سیاہی چڑھ رہی ہے  (ف ۳۰)

(۴۲) یہ وہی ہیں کافر بدکار۔

۳۰               ذلیل حال، وحشت زدہ صورت۔