تفسیر مدنی

سورة عَبَسَ

(سورۃ عبس ۔ سورہ نمبر ۸۰ ۔ تعداد آیات ۴۲)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     تیوری چڑھائی اور بے رخی برتی اس نے

۲۔۔۔     اس بات پر کہ ان کے پاس آگیا وہ نابینا

۳۔۔۔     اور آپ کو کیا خبر کہ وہ پوری طرح سنور جائے

۴۔۔۔     یا (کم از کم) وہ نصیحت پر کان دھرے (دل و جان سے ) تو نصیحت کرنا اسے فائدہ پہنچائے

۵۔۔۔     تو جو شخص بے پرواہی برتتا ہے

۶۔۔۔     اس کے تو آپ پیچھے پڑتے ہیں

۷۔۔۔     حالانکہ آپ پر اس کی سرے سے کوئی ذمہ داری ہی نہیں کہ وہ نہیں سدھرتا

۸۔۔۔     اور جو (طلب حق میں ) آپ کے پاس آئے دوڑتا ہوا

۹۔۔۔     جب کہ وہ ڈر رہا ہوتا ہے

۱۰۔۔۔     تو آپ اس سے بے رخی برتتے ہیں

۱۱۔۔۔     (ایسا) ہرگز نہیں بلاشبہ یہ (قرآن) ایک عظیم الشان نصیحت ہے

۱۲۔۔۔     اب جس کا جی چاہے اس نصیحت کو قبول کرے

۱۳۔۔۔     (جو ثبت ہے ) ایسے عظیم الشان صحیفوں میں جو بڑے ہی (معززو) مکرم ہیں

۱۴۔۔۔     جو بڑے ہی بلند مرتبہ انتہائی پاکیزہ ہیں

۱۵۔۔۔     ایسے عظیم الشان لکھنے والوں کے ہاتھوں میں

۱۶۔۔۔     جو بڑے ہی عزت والے اور نیکوکار ہیں

۱۷۔۔۔     خدا کی مار( اور پھٹکار ہو) اس انسان پر کیسا ناشکرا ( اور کس قدر بے انصاف) ہے یہ؟

۱۸۔۔۔     کس چیز سے پیدا کیا اس کو اس (قادر مطلق) نے ؟

۱۹۔۔۔     ایک (حقیر سی) بوند سے پیدا کیا اس کو پھر اس کو (نہایت ہی حکمتوں بھرے) انداز پر رکھا

۲۰۔۔۔     پھر اس نے آسان فرما دیا اس کے لیے (زندگی کا) راستہ

۲۱۔۔۔     پھر وہی اس کو موت کے گھاٹ اتار کر قبر میں پہنچا دیتا ہے

۲۲۔۔۔     پھر وہی جب چاہے گا اسے دوبارہ اٹھا کھڑا کرے گا

۲۳۔۔۔     ہرگز نہیں اس نے تو ابھی تک وہ فرض پورا نہیں کیا جس کا اللہ نے اس کو حکم دیا تھا

۲۴۔۔۔     پھر یہ (حضرت) انسان ذرا اپنی خوراک (کے نظام) ہی میں غور کر لے

۲۵۔۔۔     کہ ہم نے (اس کی ضرورتوں کے لیے کیسے طرح طرح سے ) پانی لنڈھایا

۲۶۔۔۔     پھر ہم نے کس عجیب و غریب طریقے سے پھاڑا زمین کو

۲۷۔۔۔     پھر ہم ہی نے اگائے اس میں (اپنی قدرتِ کاملہ اور عنایتِ شاملہ سے ) طرح طرح کے غلے

۲۸۔۔۔     اور انگور اور ترکاریاں

۲۹۔۔۔     اور زیتون اور کھجوریں

۳۰۔۔۔     اور قسما قسم کے گھنے (اور خوشنما) باغ

۳۱۔۔۔     اور طرح طرح کے (لذیذ) پھل اور چارے

۳۲۔۔۔     (اور یہ سب کچھ) فائدہ پہنچانے کے لیے تمہیں اور تمہارے مویشیوں کو

۳۳۔۔۔     پھر جب آ پہنچے گی کانوں کو بہرا کر دینے والی وہ سب سے بڑی (ہولناک) آواز

۳۴۔۔۔     تو اس روز آدمی بھاگے گا اپنے بھائی سے

۳۵۔۔۔     اپنی ماں اور باپ سے

۳۶۔۔۔     اور اپنی بیوی اور بیٹوں سے

۳۷۔۔۔     ان میں سے ہر ایک پر اس روز ایک ایسی حالت طاری ہو گی جو اسے کسی اور کا ہوش نہ رہنے دے گی

۳۸۔۔۔     کچھ چہرے تو اس روز چمک رہے ہوں گے

۳۹۔۔۔     وہ ہنستے ہوں گے اور ان پر خوشیاں کھیلتی ہوں گی

۴۰۔۔۔     جب کہ کچھ چہروں پر اس روز خاک اڑ رہی ہو گی

۴۱۔۔۔     ان پر چھا رہی ہو گی ایک ہولناک سیاہی

۴۲۔۔۔     یہی ہوں گے کافر اور فاجر لوگ

تفسیر

 

۴۔۔۔    یہاں پر طالب صادق کی دو صفتیں بیان فرمائی گئی ہیں۔ اور یہ دونوں ہی بڑی اہم اور مفید مطلب صفتیں ہیں۔ جو علم اور فیض نبوت سے سرفراز کرنے والی صفتیں ہیں ان میں سے پہلی یہ کہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہونے والا شخص اپنے تزکیے کا طالب و خواہش مند ہو۔ اور دوسری یہ کہ وہ نصیحت اور یاد دہانی سے فائدہ اٹھانے والا ہو۔ اس سے درحقیقت تربیت گاہ نبوی کے مخلص اور سچے شرکاء کے اوصاف بیان فرمائے گئے ہیں۔ کہ وہاں پر حاضری دینے والے لوگ بالعموم دو ہی قسم کے ہوا کرتے تھے۔ ایک وہ حق کے سامنے اپنی اصلاح و تربیت سے متعلق کوئی سوال ہوتا تو وہ اس کے بارے میں راہنمائی حاصل کرنے کے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ اور اپنا سوال آنجناب کی خدمت میں پیش کرتے، اور اس کے جواب سے آگاہ و مطمئن ہو کر اپنی اصلاح کا سامان کرتے۔ اور دوسری قسم کے لوگ وہ ہوئے تھے جن کے سامنے اس طرح کا کوئی خاص سوال تو نہیں ہوتا تھا۔ لیکن وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں اس لئے حاضر ہوتے کہ آپ بطور خود یا کسی دوسرے سائل کے سوال کے جواب میں کچھ ارشاد فرمائیں تو یہ اس سے بہرہ مند ہو جائیں، ان دونوں ہی صورتوں میں چونکہ طلب صادق کا عنصر پایا جاتا ہے جو کہ اصلاح احوال اور افادہ و استفادہ کی اصل بنیاد ہے اس لئے یہ دونوں ہی صورتیں مفید اور مطلوب ہیں، یہاں پر لَعَلَّہ، یَزکّیٰ کے کلمات کریمہ سے پہلی قسم کے لوگوں کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے اور اَوْیَذَّکَرُ فَتَنْفَعَہُ الذِّکْریٰ سے دوسری قسم کے لوگوں کی طرف، سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ پیغمبر کی مجلس میں جس کو آنا ہو وہ انہی میں سے کسی ایک مقصد کو سامنے رکھ کر آئے، تاکہ اسطرح وہ وہاں سے مستفید و فیضیاب ہو کر لوٹے۔ کہ ایسے ہی لوگ پیغمبر کی التفات و توجہ کے اہل اور مستحق ہیں۔ اور یہی وہاں سے مستفید و فیضیاب ہو سکتے ہیں۔ رہ گئے وہ لوگ جو اپنی ناز برداری کے متمنی و خواہشمند ہوں، تو ان کے لئے وہاں پر محرومی ہی ہے پس وہ اپنے گھروں ہی میں بیٹھے اپنے انجام کا انتظار کریں۔ سو عجز و انکسار، اور طلب صادق وسیلہ سرفرازی ہے، اور کبر و غرور باعث محرومی، والعیاذ باللہ العظیم

۲۲۔۔۔  ان آیات کریمات میں چھوٹے چھوٹے جملوں کے ذریعے انسان کی اول سے لے کر آخر تک اس کے آغاز و پیدائش سے لیکر اس کی موت و قبر، اور حشر و نشر تک کی تمام باتوں اور جملہ مراحل کی طرف اشارہ فرما دیا گیا، اور انسان کو اس کی خلقت، مادہ خلقت، مراحل خلقت، اور اسباب معیشت وغیرہ سب کے بارے میں غور و فکر کی دعوت دی گئی۔ سو انسان اگر خود اپنے وجود اور اس کے مختلف مراحل اور دوسرے ضروری متعلقات ہی کے بارے میں صحیح طور پر غور و فکر سے کام لے تو اس کا سارا معاملہ درست ہو سکتا ہے اور اس کو راہ حق و ہدایت نصیب ہو سکتی ہے کہ اس کے اپنے وجود کا یہ چلتا پھرتا مدرسہ بھی ایک بڑا عظیم الشان مدرسہ ہے جس میں علم و حکمت اور راہ حق کی ہدایت و راہنمائی کے لئے عظیم الشان درسہائے عبرت و بصیرت موجود ہیں۔ ایسے عظیم الشان جو اس کی آنکھوں کو کھولنے۔ اور اس کے دل کو روشن و منور کرنے کے لئے کافی ہیں۔ سو انسان ذرہ اپنے مادہ تخلیق کو دیکھے کہ اس کو پانی کے ایک حقیر سے قطرے سے پیدا فرمایا گیا ہے جو حقیر و مہین اور نجس ناپاک ہے سو انسان سوچے کہ یہ کس قادر مطلق کی قدرت و حکمت کا نتیجہ اور اس کی رحمت و عنایت کا ثمرہ ہے جس نے اس قطرہ آب کو عقل و فکر رکھنے والی اس عظیم الشان مخلوق کے درجے تک پہنچا دیا جس کو انسان کہا جاتا ہے اور جو اس پوری کائنات کا مخدوم و مطاع اور اس کا گل سرسبد ہے۔ سو اپنی بڑائی کا زعم رکھنے والا بت پندار کا پجاری یہ انسان ذرہ سوچے کہ اس خالق و مالک کا مجھ پر کیا حق ہے جس نے ایسی قدرت و حکمت اور اس قدر لطف و عنایت سے مجھے وجود بخشا پروان چڑھایا۔ اور اپنی گوناگوں رحمتوں اور عنایتوں کی آغوش میں رکھا۔ پھر دوسرا پہلو اس کی اس تخلیق و تکوین کا یہ بھی ہے کہ جس کی تخلیق کا آغاز ایسے حقیر اور مَہین مادہ سے ہو۔ اس کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ اکڑے اور تکبر کرے؟ اس میں اگر کوئی خوبی اور کمال ہے تو وہ اس کا اپنا نہیں، بلکہ اس کے اسی خالق کی رحمت و عنایت کا نتیجہ و ثمرہ ہے جس نے اس کو وجود بخشا، پس اس پر اکڑنے اور اترانے کے بجائے اس کا تقاضا یہ ہے کہ انسان دل وجان سے اسی واہب مطلق جَلَّ جَلَالُہ، کے آگے جھک جائے۔ اور اسی کا شکر بجا لائے۔ اور پھر اس کے اسی مادہ تخلیق اور اس کے انہی مراحل تخلیق و تکوین کے اعتبار سے اس کے وجود کے اندر یہ درس عظیم بھی پایا جاتا ہے کہ جس خالق و مالک نے اس قدر اہتمام و انتظام کے ساتھ اس کو وجود بخشا، نیست سے ہست کیا، کس طرح ممکن ہو سکتا ہے کہ وہ اس کو یونہی مہمل و بیکار، اور غیر مسؤل چھوڑ دے؟ اور اس سے اس کے زندگی بھر کے کئے کرائے کے بارے میں کبھی پوچھے نہ اور اس کے خیر و شر سے کوئی سروکار نہ رکھے؟ ایسا کرنا تو تقاضائے عقل و نقل کے خلاف ہے سو لازماً وہ ایک ایسا یوم حساب بپا کرے گا جس میں وہ انسان سے اس کے زندگی بھر کے کئے کرائے کا حساب لے گا، اور ہر کسی کو اس کے اسی صلہ و بدلہ سے نوازے گا جس کا وہ اپنے عمل و کردار کے اعتبار سے مستحق قرار پائے گا سو وہی دن قیامت کا یوم عظیم ہے، جس نے اپنے وقت پر بہر حال واقع ہو کر رہنا ہے۔ اور پھر چوتھا پہلو انسان کی تخلیق اور اس کے مادہ تخلیق سے متعلق یہ بھی ہے کہ جس خالق حکیم و قدیر نے انسان کو اس کے اس حقیر مادہ تخلیق سے بنا کھڑا کیا، اس کے لئے آخر اس کو دوبارہ پیدا کرنا کیوں اور کیا مشکل ہو سکتا ہے؟ سبحانہ و تعالیٰ سو انسان کے خود اپنے وجود کے اندر ایسے عظیم الشان درسہائے عبرت و بصیرت موجود ہیں جن سے حضرت خالق حکیم جَلَّ جَلَالُہ، کے وجود باجود اس کی وحدانیت و یکتائی، اس کی قدرت و حکمت، اس کی رحمت و عنایت، قیامت و آخرت اور بعث بعدالموت وغیرہ تمام بنیا دی عقائد واضح اور مبرہن ہو جاتے ہیں، لیکن مشکل، اور مشکلوں کی مشکل یہ ہے کہ انسان اس بارے صحیح طریقے سے غور و فکر سے کام لیتا ہی نہیں، الا ماشاء اللہ