۱ ۔۔۔ انجیر اور زیتون دونوں چیزیں نہایت کثیر المنافع اور جامع الفوائد ہونے کی وجہ سے انسان کی حقیقت جامعہ کے ساتھ خصوصی مشابہت رکھتے ہیں ۔ اسی لئے "لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم" کے مضمون کو ان دونوں کی قسم سے شروع کیا۔ اور بعض محققین کہتے ہیں کہ یہاں "التین"اور "الزیتون" سے دو پہاڑوں کی طرف اشارہ ہے جن کے قریب بیت المقدس واقع ہے۔ گویا ان درختوں کی قسم مقصود نہیں بلکہ اس مقام مقدس کی قسم کھائی ہے جہاں یہ درخت بکثرت پائے جاتے ہیں اور وہی مولد و مبعث حضرت مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہے۔
۳ ۔۔۔ "طور سینین" یا "طور سینا" وہ پہاڑ ہے جس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے شرفِ ہم کلامی بخشا۔ اور "امن والا شہر" مکہ معظمہ ہے جہاں سارے عرب عالم کے سردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم مبعوث ہوئے اور اللہ کی سب سے بڑی اور آخری امانت (قرآن کریم) اول اسی شہر میں اتاری گئی۔ تورات کے آخر میں ہے "اللہ طور سینا سے آیا اور ساعیر سے چمکا (جو بیت المقدس کا پہاڑ ہے) اور فاران سے بلند ہو کر پھیلا۔" (فاران مکہ کے پہاڑ ہیں )۔
۴ ۔۔۔ یعنی یہ سب مقامات متبرکہ جہاں سے ایسے ایسے اولوالعزم پیغمبر اٹھے گواہ ہیں کہ ہم نے انسان کو کیسے اچھے سانچے میں ڈھالا، اور کیسی کچھ قوتیں اور ظاہری و باطنی خوبیاں اس کے وجود میں جمع کی ہیں ۔ اگر یہ اپنی صحیح فطرت پر ترفی کرے تو فرشتوں سے گوئے سبقت لے جائے۔ بلکہ مسجودِ ملائکہ بنے۔
۵ ۔۔۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ "اس کو لائق بنایا فرشتوں کے مقام کا۔ پھر جب منکر ہوا تو جانوروں سے بدتر ہے۔"
۶ ۔۔۔ جو کبھی کم یا ختم نہ ہو گا۔
۷ ۔۔۔ یعنی اور آدمی! ان دلائل کے بعد کیا سبب ہے جس کی بناء پر سلسلہ جزاء و سزا کا انکار کیا جا سکتا ہے؟ یا یہ خطاب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو ہو گا۔ یعنی ایسے صاف بیانات کے بعد کیا چیز ہے جو منکرین کو جزاء کے معاملہ میں تمہاری تکذیب پر آمادہ کرتی ہے خیال کرو! انسان کو اللہ نے پیدا کیا اور بہترین شکل و صورت میں پیدا کیا۔ اس کا قوام ایسی ترکیب سے بنایا کہ اگر چاہے تو نیکی اور بھلائی میں ترقی کر کے فرشتوں سے آگے نکل جائے، کوئی مخلوق اس کی ہمسری نہ کر سکے۔ چنانچہ اس کے کامل نمونے دنیا نے شام، بیت المقدس، کوہ طور اور مکہ معظمہ میں اپنے اپنے وقت پر دیکھ لئے جن کے نقشِ قدم پر اگر آدمی چلیں تو انسانی کمالات اور دارین کی کامیابی کے اعلیٰ ترین مقامات پر پہنچ جائیں ۔ لیکن انسان خود اپنی بدتمیزی اور بد عملی سے ذلت و ہلاکت کے گڑھے میں گرتا اور اپنی پیدائشی بزرگی کو گنوا دیتا ہے۔ کسی ایماندار اور نیکوکار انسان کو اللہ تعالیٰ خواہ مخواہ نیچے نہیں گراتا بلکہ اس کے تھوڑے عمل کا بے اندازہ صلہ مرحمت فرماتا ہے۔ کیا ان حالات کے سننے کے بعد بھی کسی کا منہ ہے و دینِ فطرت کے اصول اور جزاء و سزا کے ایسے معقول قاعدوں کو جھٹلا سکے؟ ہاں ایک ہی صورت تکذیب و انکار کی ہو سکتی ہے کہ دنیا کو یونہی ایک بے سرا کارخانہ فرض کر لیا جائے۔ جس پر نہ کسی کی حکومت ہو نہ یہاں کوئی آئین و قانون جاری ہو، نہ کسی بھلے مرے پر کوئی گرفت کر سکے، اس کا جواب آگے دیتے ہیں "الیس اللّٰہ باحکم الحکمین۔"
۸ ۔۔۔ یعنی اس کی شہنشاہی کے سامنے دنیا کی سب حکومتیں ہیچ ہیں ۔ جب یہاں کی چھوٹی چھوٹی حکومتیں اپنے وفاداروں کو انعام اور مجرموں کو سزا دیتی ہیں تو اس احکم الحاکمین کی سرکار سے یہ توقع کیوں نہ رکھی جائے۔