خزائن العرفان

سُوۡرَةُ هُود

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا (ف ۱)

۱                 سورۂ ہود مکیّہ ہے۔ حسن و عِکرمہ وغیرہم مفسِّرین نے فرمایا کہ آیت  وَاَقِمِ الصّٰلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّھَارِ کے سوا باقی تمام سورت مکیّہ ہے۔ مقاتل نے کہا کہ آیت  فَلَعَلَّکَ تَارِکٌ  اور  اُولٰۤئِکَ یُؤْمِنُوْنَ بِہٖ اور  اِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذھُبْنَ السَّیِّاٰتِ کے علاوہ تمام سورت مکّی ہے۔ اس میں دس رکوع اور ایک سو تئیس۱۲۳ آیتیں اور ایک ہزار چھ سو کلمے اور نو ہزار پانچ سو سرسٹھ حرف ہیں۔ حدیث شریف میں ہے صحابہ نے عرض کیا یا رسولَ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیک و سلم حضور پر پِیری کے آثار نمودار ہو گئے، فرمایا مجھے سورۂ ہود، سورۂ واقعہ، سور ۂ عَمَّ یَتَسَاءَلُونَ اور سورۂ اِذَالشَّمسُ کُوِّرَتْ نے بوڑھا کر دیا۔ (ترمذی) غالباً یہ اس وجہ سے فرمایا کہ ان سورتوں میں قیامت و بَعث و حساب و جنّت و دوزخ کا ذکر ہے۔

(۱) یہ ایک کتاب ہے  جس کی آیتیں حکمت بھری ہیں (ف ۲) پھر تفصیل کی گئیں (ف ۳) حکمت والے  خبردار کی طرف سے ۔

۲                 جیسا کہ دوسری آیت میں ارشاد ہوا  تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْحَکِیْمِ۔ بعض مفسِّرین نے فرمایا کہ اُحکِمَتْ کے معنی یہ ہیں کہ ان کی نظم مُحکَم و استوار کی گئی اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ اس میں نَقص و خلل راہ نہیں پا سکتا وہ بِنائے مُحکَم ہے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما نے فرمایا کہ کوئی کتاب ان کی ناسخ نہیں جیسا کہ یہ دوسری کتابوں اور شریعتوں کی ناسخ ہیں۔

۳                 اور سورت سورت اور آیت آیت جدا جدا ذکر کی گئیں یا علیٰحدہ علیٰحدہ نازِل ہوئیں یا عقائد و احکام و مواعظ و قَصَص اور غیبی خبریں ان میں بہ تفصیل بیان فرمائی گئیں۔

(۲) کہ  بندگی نہ کرو مگر اللہ کی بیشک میں تمہارے  لیے  اس کی طرف سے  ڈر اور خوشی سنانے  والا ہوں

(۳)  اور یہ کہ اپنے  رب سے  معافی مانگو پھر اس کی طرف توبہ کرو تمہیں بہت اچھا برتنا (فائدہ اٹھانا) دے  گا (ف ۴) ایک ٹھہرائے  وعدہ تک اور ہر فضیلت والے  (ف ۵) کو اس کا فضل پہنچائے  گا (ف ۶) اور اگر منہ پھیرو تو میں تم پر بڑے  دن (ف ۷) کے  عذاب کا خوف کرتا ہوں۔

۴                 عمرِ دراز اور عیشِ وسیع و رزقِ کثیر۔ فائدہ : اس سے معلوم ہوا کہ اخلاص کے ساتھ توبہ و استِغفار کرنا درازیِ عمر و کشائشِ رزق کے لئے بہتر عمل ہے۔

۵                 جس نے دنیا میں اعمالِ فاضلہ کئے ہوں اور اس کے طاعات و حسنات زیادہ ہوں۔

۶                 اس کو جنّت میں بقدرِ اعمال درجات عطا فرمائے گا۔ بعض مفسِّرین نے فرمایا آیت کے معنی یہ ہیں کہ جس نے اللّٰہ کے لئے عمل کیا اللّٰہ تعالیٰ آئندہ کے لئے اسے عملِ نیک و طاعت کی توفیق دیتا ہے۔

۷                 یعنی روزِ قیامت۔

(۴)  تمہیں اللہ ہی کی طرف پھرنا ہے  (ف ۸) اور وہ ہر شے  پر قادر (ف ۹)

۸                 آخرت میں وہاں نیکیوں اور بدیوں کی جزا و سزا ملے گی۔

۹                 دنیا میں روزی دینے پر بھی، موت دینے پر بھی، موت کے بعد زندہ کرنے اور ثواب و عذاب پر بھی۔

(۵)  سنو  وہ اپنے  سینے  دوہرے  کرتے  (منہ چھپاتے ) ہیں کہ اللہ سے  پردہ کریں (ف ۱۰) سنو جس وقت  وہ اپنے  کپڑوں سے  سارا بدن ڈھانپ لیتے  ہیں اس وقت بھی اللہ ان کا چھپا اور ظاہر سب کچھ جانتا ہے  بیشک وہ دلوں کی بات جاننے  والا ہے۔

۱۰               شانِ نُزول : ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما نے فرمایا یہ آیت اخنس بن شریق کے حق میں نازِل ہوئی۔ یہ بہت شیریں گفتار شخص تھا، رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے آتا تو بہت خوشامد کی باتیں کرتا اور دل میں بغض و عداوت چھپائے رکھتا۔ اس پر یہ آیت نازِل ہوئی معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے سینوں میں عداوت چھپائے رکھتے ہیں جیسے کپڑے کی تہ میں کوئی چیز چھپائی جاتی ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ بعضے منافقین کی عادت تھی کہ جب رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کا سامنا ہوتا تو سینہ اور پیٹھ جھکاتے اور سر نیچا کرتے چہرہ چھپا لیتے تاکہ انہیں رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم دیکھ نہ پائیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ بخاری نے افراد میں ایک حدیث روایت کی کہ مسلمان بول وبراز و مجامَعت کے وقت اپنے بدن کھولنے سے شرماتے تھے ان کے حق میں یہ آیت نازِل ہوئی کہ اللّٰہ سے بندے کا کوئی حال چھپا ہی نہیں ہے لہٰذا چاہیئے کہ وہ شریعت کی اجازتوں پر عامل رہے۔

(۶) اور زمین پر چلنے  والا کوئی (ف ۱۱) ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے  ذمہٴ کرم پر نہ ہو (ف ۱۲) اور جانتا ہے  کہ کہاں ٹھہرے  گا (ف ۱۳) اور کہاں سپرد ہو گا (ف ۱۴) سب کچھ ایک صاف بیان کرنے  وا لی کتاب (ف ۱۵) میں ہے۔

۱۱               جاندار ہو۔

۱۲               یعنی وہ اپنے فضل سے ہر جاندار کے رزق کا کفیل ہے۔

۱۳               یعنی اس کے جائے سکونت کو جانتا ہے۔

۱۴               سپرد ہونے کی جگہ سے یا مدفن مراد ہے یا مکان یا موت یا قبر۔

۱۵               یعنی لوحِ محفوظ۔

(۷)  اور وہی ہے  جس نے  آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں بنایا اور اس کا عرش پانی پر تھا  (ف ۱۶) کہ تمہیں  آزمائے (ف ۱۷) تم میں کس کا کام اچھا ہے، اور اگر تم فرماؤ کہ بیشک تم مرنے  کے  بعد اٹھائے  جاؤ گے  تو کافر ضرور کہیں گے  کہ یہ (ف ۱۸) تو نہیں مگر کھلا جادو (ف ۱۹)

۱۶               یعنی عرش کے نیچے پانی کے سوا اور کوئی مخلوق نہ تھی۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عرش اور پانی آسمانوں اور زمینوں کی پیدائش سے قبل پیدا فرمائے گئے۔

۱۷               یعنی آسمان و زمین اور ان کی درمیانی کائنات کو پیدا کیا جس میں تمہارے مَنافع و مَصالِح ہیں تاکہ تمہیں آزمائش میں ڈالے اور ظاہر ہو کہ کون شکر گزار، متقی، فرمانبردار ہے اور۔

۱۸               یعنی قرآن شریف جس میں مرنے کے بعد اٹھائے جانے کا بیان ہے یہ۔

۱۹               یعنی باطل اور دھوکا۔

(۸)  اور اگر ہم ان سے  عذاب (ف ۲۰) کچھ گنتی کی مدت تک ہٹا دیں تو ضرور کہیں گے  کس چیز نے  روکا ہے  (ف ۲۱) سن لو جس دن ان پر آئے  گا ان سے  پھیرا نہ جائے  گا، اور انہیں گھیرے  گا وہی عذاب جس کی ہنسی اڑاتے  تھے

۲۰               جس کا وعدہ کیا ہے۔

۲۱               وہ عذاب کیوں نازِل نہیں ہوتا کیا دیر ہے ؟ کُفّار کا یہ جلدی کرنا براہِ تکذیب و استہزاء ہے۔

(۹)  اور اگر ہم آدمی کو اپنی کسی رحمت کا مزہ دیں (ف ۲۲) پھر اسے  اس سے  چھین لیں ضرور وہ بڑا  ناامید ناشکرا ہے  (ف ۲۳)

۲۲               صحت و امن کا یا وسعتِ رزق دولت کا۔

۲۳               کہ دوبارہ اس نعمت کے پانے سے مایوس ہو جاتا ہے اور اللّٰہ کے فضل سے اپنی امید قطع کر لیتا ہے اور صبر و رضا پر ثابت نہیں رہتا اور گزشتہ نعمت کی ناشکری کرتا ہے۔

(۱۰) اور اگر ہم اسے  نعمت کا مزہ دیں اس مصیبت کے  بعد جس اسے  پہنچی تو ضرور کہے  گا کہ برائیاں مجھ سے  دور ہوئیں بیشک وہ خوش ہونے  والا بڑائی مارنے  والا ہے  (ف ۲۴)

۲۴               بجائے شکر گزار ہونے اور حقِ نعمت ادا کرنے کے۔

(۱۱) مگر جنہوں نے  صبر کیا اور اچھے  کام کیے  (ف ۲۵) ان کے  لیے  بخشش اور بڑا ثواب ہے۔

۲۵               مصیبت پر صابر اور نعمت پر شاکر رہے۔

(۱۲)  تو کیا جو وحی تمہاری طرف ہوتی ہے  اس میں سے  کچھ تم چھوڑ دو گے  اور اس پر دل تنگ ہو گے  (ف ۲۶) اس بناء پر کہ وہ کہتے  ہیں ان کے  ساتھ کوئی خزانہ کیوں نہ اترا ان کے  ساتھ کوئی فرشتہ آتا، تم تو ڈر سنانے  والے  ہو (ف ۲۷) اور اللہ ہر چیز پر محافظ ہے۔

۲۶               ترمذی نے کہا کہ استِفہام نہی کے معنی میں ہے یعنی آپ کی طرف جو وحی ہوتی ہے وہ سب آپ انہیں پہنچائیں اور دل تنگ نہ ہوں، یہ تبلیغِ رسالت کی تاکید ہے باوجود یکہ اللّٰہ تعالیٰ جانتا ہے کہ اس کے رسول صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم ادائے رسالت میں کمی کرنے والے نہیں اور اس نے ان کو اس سے معصوم فرمایا ہے۔ اس تاکید میں نبی صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی تسکینِ خاطر بھی ہے اور کُفّار کی مایوسی بھی کہ ان کا استہزاء تبلیغ کے کام میں مُخِل نہیں ہو سکتا۔ شان نُزول : عبداللّٰہ بن اُمیہ مخزومی نے رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا تھا کہ اگر آپ سچّے رسول ہیں اور آپ کا خدا ہر چیز پر قادِر ہے تو اس نے آپ پر خزانہ کیوں نہیں اتارا یا آپ کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیجا جو آپ کی رسالت کی گواہی دیتا۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی۔

۲۷               تمہیں کیا پروا اگر کُفّار نہ مانیں یا تَمسخُر کریں۔

(۱۳) کیا (ف ۲۸) یہ کہتے  ہیں کہ انھوں نے  اسے  جی سے  بنا لیا، تم فرماؤ کہ تم ایسی بنائی ہوئی دس سورتیں لے  آؤ (ف ۲۹) اور اللہ کے  سوا جو مل سکیں (ف ۳۰) سب کو بلا لو اگر تم سچے  ہو (ف ۳۱)

۲۸               کُفّارِ مکّہ قرآنِ کریم کی نسبت۔

۲۹               کیونکہ انسان اگر ایسا کلام بنا سکتا ہے تو اس کے مثل بنانا تمہارے مقدور سے باہر نہ ہو گا تم بھی عرب ہو، فصیح و بلیغ ہو کوشش کرو۔

۳۰               اپنی مدد کے لئے۔

۳۱               اس میں کہ یہ کلام انسان کا بنایا ہوا ہے۔

(۱۴) تو اے  مسلمانو  اگر وہ تمہاری اس بات کا جواب نہ دے  سکیں تو سمجھ لو کہ وہ اللہ کے  علم ہی سے  اترا ہے  اور  یہ کہ اس کے  سوا کوئی سچا معبود نہیں تو کیا اب تم مانو گے  (ف ۳۲)

۳۲               اور یقین رکھو گے کہ یہ اللّٰہ کی طرف سے ہے یعنی اعجازِ قرآن دیکھ لینے کے بعد ایمان و اسلام پر ثابت رہو۔

(۱۵)  جو دنیا کی زندگی اور آرائش چاہتا ہو (ف ۳۳) ہم اس میں ان کا پورا پھل دے  دیں گے  (ف ۳۴) اور اس میں کمی نہ دیں گے۔

۳۳               اور اپنی دُون ہمّتی سے آخرت پر نظر نہ رکھتا ہو۔

۳۴               اور جو اعمال انہوں نے طلبِ دنیا کے لئے کئے ہیں اس کا اجر، صحت و دولت، وسعتِ رزق، کثرتِ اولاد وغیرہ سے دنیا ہی میں پورا کر دیں گے۔

(۱۶) یہ ہیں وہ جن کے  لیے  آخرت میں کچھ نہیں مگر آگ اور اکارت گیا جو کچھ وہاں کرتے  تھے  اور نابود ہوئے  جو ان کے  عمل تھے  (ف ۳۵)

۳۵               شانِ نُزول : ضحاک نے کہا کہ یہ آیت مشرکین کے حق میں ہے کہ وہ اگر صِلۂ رحمی کریں یا محتاجوں کو دیں یا کسی پریشان حال کی مدد کریں یا اسطرح کہ کوئی اور نیکی کریں تو اللّٰہ تعالیٰ وسعتِ رزق وغیرہ سے انکے عمل کی جزاء دنیا ہی میں دے دیتا ہے اور آخرت میں ان کے لئے کوئی حصہ نہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت منافقین کے حق میں نازِل ہوئی جو ثوابِ آخرت کے تو معتقد نہ تھے اور جہادوں میں مالِ غنیمت حاصل کرنے کے لئے شامل ہوتے تھے۔

(۱۷)  تو کیا وہ جو اپنے  رب کی طرف سے  روشن دلیل پر ہو (ف ۳۶) اور اس پر اللہ کی طرف سے  گواہ  آئے   (ف ۳۷) اور اس سے  پہلے  موسیٰ کی کتاب (ف ۳۸) پیشوا  اور  رحمت وہ اس پر (ف ۳۹) ایمان لاتے  ہیں، اور جو اس کا منکر ہو سارے  گروہوں میں (ف ۴۰)  تو آگ اس کا وعدہ ہے  تو  اے  سننے  والے ! تجھے  کچھ اس میں شک نہ ہو، بیشک وہ حق ہے  تیرے  رب کی طرف سے  لیکن بہت آدمی ایمان نہیں رکھتے۔

۳۶               وہ اس کی مثل ہو سکتا ہے جو دنیا کی زندگی اور اس کی آرائش چاہتا ہو ایسا نہیں، ان دونوں میں عظیم فرق ہے۔ روشن دلیل سے وہ دلیلِ عقلی مراد ہے جو اسلام کی حقانیت پر دلالت کرے اور اس شخص سے جو اپنے ربّ کی طرف سے روشن دلیل پر ہو وہ یہود مراد ہیں جو اسلام سے مشرف ہوئے جیسے کہ حضرت عبداللّٰہ بن سلام۔

۳۷               اور اس کی صحت کی گواہی دے یہ گواہ قرآنِ مجید ہے۔

۳۸               یعنی توریت۔

۳۹               یعنی قرآن پر۔

۴۰               خواہ کوئی بھی ہو ں۔ حدیث شریف میں ہے سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کی قسم جس کے دستِ قدرت میں محمّد (صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم) کی جان ہے اس اُمّت میں جو کوئی بھی ہے یہودی ہو یا نصرانی جس کو بھی میری خبر پہنچے اور وہ میرے دین پر ایمان لائے بغیر مر جائے وہ ضرور جہنّمی ہے۔

(۱۸)  اور اس سے  بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ باندھے  (ف ۴۱) اور اپنے  رب کے  حضور پیش کیے  جائیں گے  (ف ۴۲) اور گواہ کہیں گے  یہ ہیں جنہوں نے  اپنے  رب پر جھوٹ بولا تھا، ارے  ظالموں پر خدا کی لعنت (ف ۴۳)

۴۱               اور اس کے لئے شریک و اولاد بتائے۔ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنا بدترین ظلم ہے۔

۴۲               روزِ قیامت اور ان سے ان کے اعمال دریافت کئے جائیں گے اور انبیاء و ملائکہ ان پر گواہی دیں گے۔

۴۳               بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ روزِ قیامت کُفّار اور منافقین کو تمام خَلق کے سامنے کہا جائے گا کہ یہ وہ ہیں جنہوں نے اپنے ربّ پر جھوٹ بولا، ظالموں پر خدا کی لعنت اس طرح وہ تمام خَلق کے سامنے رسوا کئے جائیں گے۔

(۱۹)  جو اللہ کی راہ سے  روکتے  ہیں اور اس میں کجی چاہتے  ہیں، اور وہی آخرت کے  منکر ہیں۔

(۲۰)  وہ تھکانے  والے  نہیں زمین میں (ف ۴۴) اور نہ اللہ سے  جدا  ان کے  کوئی حمایتی (ف ۴۵) انہیں عذاب پر عذاب ہو گا (ف ۴۶) وہ نہ سن سکتے  تھے  اور نہ دیکھتے  (ف ۴۷)

۴۴               اللّٰہ کو، اگر وہ ان پر عذاب کرنا چاہے کیونکہ وہ اس کے قبضہ اور اس کی مِلک میں ہیں نہ اس سے بھاگ سکتے ہیں نہ بچ سکتے ہیں۔

۴۵               کہ ان کی مدد کریں اور انہیں اس کے عذاب سے بچائیں۔

۴۶               کیونکہ انہوں نے لوگوں کو راہِ خدا سے روکا اور مرنے کے بعد اٹھنے کا انکار کیا۔

۴۷               قتادہ نے کہا کہ وہ حق سننے سے بہرے ہو گئے تو کوئی خیر کی بات سن کر نفع نہیں اٹھاتے اور نہ وہ آیاتِ قدرت کو دیکھ کر فائدہ اٹھاتے ہیں۔

(۲۱) وہی ہیں جنہوں نے  اپنی جانیں گھاٹے  میں ڈا لیں اور ان سے  کھوئی گئیں جو باتیں جوڑتے  تھے  خواہ نخواہ۔

(۲۲) (ضرور)  وہی آخرت میں سب سے  زیادہ نقصان میں ہیں (ف ۴۸)

۴۸               کہ انہوں نے بجائے جنّت کے جہنّم کو اختیار کیا۔

(۲۳)  بیشک جو ایمان لائے  اور اچھے  کام کیے  اور اپنے  رب کی طرف رجوع لائے  وہ  جنت والے  ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

(۲۴)  دونوں فریق (ف ۴۹) کا حال ایسا ہے  جیسے  ایک اندھا اور بہرا اور دوسرا دیکھتا اور سنتا (ف ۵۰)کیا ان دونوں حال کا ایک سا ہے  (ف ۵۱) تو کیا تم دھیان نہیں کرتے۔

۴۹               یعنی کافِر اور مومن۔

۵۰               کافِر اس کی مثل ہے جو نہ دیکھے نہ سنے یہ ناقِص ہے اور مومن اس کی مثل ہے جو دیکھتا بھی ہے اور سنتا بھی ہے وہ کامل ہے حق و باطل میں امتیاز رکھتا ہے۔

۵۱               ہرگز نہیں۔

(۲۵) اور بے  شک ہم نے  نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا  (ف ۵۲) کہ میں تمہارے  لیے  صریح ڈر سنانے  والا ہوں۔

۵۲               انہوں نے قوم سے فرمایا۔

(۲۶) کہ اللہ کے  سوا کسی کو نہ پوجو، بیشک میں تم پر ایک مصیبت والے  دن کے  عذاب سے  ڈرتا ہوں (ف ۵۳)

۵۳               حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ حضرت نوح علیہ السلام چالیس سال کے بعد مبعوث ہوئے اور نو سو پچاس سال اپنی قوم کو دعوت فرماتے رہے اور طوفان کے بعد ساٹھ برس دنیا میں رہے تو آپ کی عمر ایک ہزار پچاس سال کی ہوئی، اس کے علاوہ عمر شریف کے متعلق اور بھی قول ہیں۔ (خازن)۔

(۲۷)  تو اس کی قوم کے  سردار جو کافر ہوئے  تھے  بولے  ہم تو تمہیں اپنے  ہی جیسا آدمی دیکھتے  ہیں (ف ۵۴) اور ہم نہیں دیکھتے  کہ تمہاری پیروی کسی نے  کی ہو مگر ہمارے  کمینوں نے  (ف ۵۵) سرسری نظر سے  (ف ۵۶) اور ہم تم میں اپنے  اوپر کوئی بڑائی نہیں پاتے  (ف ۵۷) بلکہ ہم تمہیں (ف ۵۸) جھوٹا خیال کرتے  ہیں۔

۵۴               اس گمراہی میں بہت سی اُمّتیں مبتلا ہو کر اسلام سے محروم رہیں، قرآنِ پاک میں جا بجا ان کے تذکرے ہیں۔ اس اُمّت میں بھی بہت سے بد نصیب سیدِ انبیاء صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کو بشر کہتے اور ہمسری کا خیالِ فاسد رکھتے ہیں اللّٰہ تعالیٰ انہیں گمراہی سے بچائے۔

۵۵               کمینوں سے مراد ان کی وہ لوگ تھے جو ان کی نظر میں خسیس پیشے رکھتے تھے اور حقیقت یہ ہے کہ ان کا یہ قول جہلِ خالص تھا کیونکہ انسان کا مرتبہ دین کے اِتّباع اور رسول کی فرمانبرداری سے ہے، مال و منصب و پیشے کو اس میں دخل نہیں۔ دیندار، نیک سیرت پیشہ ور کو نظرِ حقارت سے دیکھنا اور حقیر جاننا جاہلانہ فعل ہے۔

۵۶               یعنی بغیر غور و فکر کے۔

۵۷               مال اور ریاست میں۔ ان کا یہ قول بھی جہل تھا کیونکہ اللّٰہ کے نزدیک بندے کے لئے ایمان و طاعت سببِ فضیلت ہے نہ کہ مال و ریاست۔

۵۸               نبوّت کے دعویٰ میں اور تمہارے مُتّبِعین کو اس کی تصدیق میں۔

(۲۸) بولا اے  میری قوم! بھلا بتاؤ تو اگر میں اپنے  رب کی طرف سے  دلیل پر ہوں (ف ۵۹) اور اس نے  مجھے  اپنے  پاس سے  رحمت بخشی (ف ۶۰) تو تم اس سے  اندھے  رہے، کیا ہم اسے  تمہارے  گلے  چپیٹ (چپکا) دیں اور تم بیزار ہو (ف ۶۱)

۵۹               جو میرے دعویٰ کے صدق پر گواہ ہو۔

۶۰               یعنی نبوّت عطا کی۔

۶۱               اور اس حُجّت کو ناپسند رکھتے ہو۔

(۲۹) اور اے  قوم! میں تم سے  کچھ اس پر (ف ۶۲) مال نہیں مانگتا (ف ۶۳) میرا اجر تو اللہ ہی پر ہے  اور میں مسلمانوں کو دور کرنے  والا نہیں (ف ۶۴) بیشک وہ اپنے  رب سے  ملنے  والے  ہیں (ف ۶۵) لیکن میں تم کو نرے  جاہل لوگ پا تا ہوں (ف ۶۶)

۶۲               یعنی تبلیغِ رسالت پر۔

۶۳               کہ تم پر اس کا ادا کرنا گِراں ہو۔

۶۴               یہ حضرت نوح علیہ السلام نے ان کی اس بات کے جواب میں فرمایا تھا جو وہ لوگ کہتے تھے کہ اے نوح رذیل لوگوں کو اپنی مجلس سے نکال دیجئے تاکہ ہمیں آپ کی مجلس میں بیٹھنے سے شرم نہ آئے۔

۶۵               اور اس کے قرب سے فائز ہوں گے تو میں انہیں کیسے نکال دوں۔

۶۶               ایمانداروں کو رذیل کہتے ہو اور ان کی قدر نہیں کرتے اور نہیں جانتے کہ وہ تم سے بہتر ہیں۔

(۳۰) اور اے  قوم مجھے  اللہ سے  کون بچا لے  گا اگر میں انہیں دور کروں گا، تو کیا تمہیں دھیان نہیں۔

(۳۱) اور میں تم سے  نہیں کہتا کہ میرے  پاس اللہ کے  خزانے  ہیں اور نہ یہ کہ میں غیب جان جانتا ہوں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں (ف ۶۷) اور میں انہیں نہیں کہتا جن کو تمہاری نگاہیں حقیر سمجھتی ہیں کہ ہرگز انہیں اللہ کوئی بھلائی نہ دے  گا، اللہ خوب جانتا ہے  جو ان کے  دلوں میں ہے  (ف ۶۸) ایسا کروں (ف ۶۹) تو ضرور میں ظالموں میں سے  ہوں (ف ۷۰)

۶۷               حضرت نوح علیہ الصلوٰۃ و التسلیمات کی قوم نے آپ کی نبوّت میں تین شبہے کئے تھے۔ ایک شبہہ تو یہ ہے کہ  مَانَریٰ لَکُمْ عَلَیْنَا مِنْ فَضْلٍ کہ ہم تم میں اپنے اوپر کوئی بڑائی نہیں پاتے یعنی تم مال و دولت میں ہم سے زیادہ نہیں ہو، اس کے جواب میں حضرت نوح علیہ الصلوٰۃ و التسلیمات نے فرمایا  لَآ اقُوْلَ لَکُمْ عِنْدِیْ خَزَآئِنُ اللّٰہ  یعنی میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللّٰہ کے خزانے ہیں تو تمہارا یہ اعتراض بالکل بے محل ہے، میں نے کبھی مال کی فضیلت نہیں جتائی اور دنیوی دولت کا تم کو متوقِّع نہیں کیا اور اپنی دعوت کو مال کے ساتھ وابستہ نہیں کیا پھر تم یہ کہنے کے کیسے مستحق ہو کہ ہم تم میں کوئی مالی فضیلت نہیں پاتے اور تمہارا یہ اعتراض مَحض بے ہودہ ہے۔ دوسرا شبہہ قومِ نوح نے یہ کیا تھا۔  مَانَرٰکَ اتَّبَعَکَ اِلَّا الَّذِیْنَ ھُمْ اَرَاذِلُنَا بَادِیَ الرَّاْیِ  یعنی ہم نہیں دیکھتے کہ تمہاری کسی نے پیروی کی ہو مگر ہمارے کمینوں نے۔ سرسری نظر سے مطلب یہ تھا کہ وہ بھی صرف ظاہر میں مومن ہیں باطن میں نہیں، اس کے جواب میں حضرت نوح علیہ السلام نے یہ فرمایا کہ میں نہیں کہتا کہ میں غیب جانتا ہوں تو میرے احکام غیب پر مبنی ہیں تاکہ تمہیں یہ اعتراض کرنے کا موقع ہوتا جب میں نے یہ کہا ہی نہیں تو اعتراض بے محل ہے اور شرع میں ظاہر ہی کا اعتبار ہے لہٰذا تمہارا اعتراض بالکل بے جا ہے نیز  لَااَعْلَمُ الْغَیْبَ فرمانے میں قوم پر ایک لطیف تعریض بھی ہے کہ کسی کے باطن پر حکم کرنا اس کا کام ہے جو غیب کا علم رکھتا ہو میں نے تو اس کا دعویٰ نہیں کیا باوجودیکہ نبی ہوں تم کس طرح کہتے ہو کہ وہ دل سے ایمان نہیں لائے۔ تیسرا شبہہ اس قوم کا یہ تھا کہ  مَانَرٰکَ اِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا یعنی ہم تمہیں اپنے ہی جیسا آدمی دیکھتے ہیں، اس کے جواب میں فرمایا کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میں فرشتہ ہوں یعنی میں نے اپنی دعوت کو اپنے فرشتہ ہونے پر موقوف نہیں کیا تھا کہ تمہیں یہ اعتراض کا موقع ملتا کہ جتاتے تو تھے وہ اپنے آپ کو فرشتہ اور تھے بشر لہٰذا تمہارا یہ اعتراض بھی باطل ہے۔

۶۸               نیکی یا بدی اخلاص یا نفاق۔

۶۹               یعنی اگر میں ان کے ایمانِ ظاہر کو جھٹلا کر ان کے باطن پر الزام لگاؤں اور انہیں نکال دوں۔

۷۰               اور بحمدِ للہ میں ظالموں میں سے ہر گز نہیں ہوں تو ایسا کبھی نہ کروں گا۔

(۳۲) بولے  اے  نوح تم ہم سے  جھگڑے  اور بہت ہی جھگڑے  تو لے  آ ؤ جس (ف ۷۱) کا ہمیں وعدے  دے  رہے  ہو اگر تم سچے  ہو۔

۷۱               عذاب۔

 (۳۳) بولا وہ تو اللہ تم پر لائے  گا اگر چاہے  اور تم تھکا نہ سکو گے  (ف ۷۲)

۷۲               اس کو عذاب کرنے سے یعنی نہ اس عذاب کو روک سکو گے نہ اس سے بچ سکو گے۔

(۳۴) اور تمہیں میری نصیحت نفع نہ دے  گی اگر میں تمہارا بھلا چاہوں جبکہ اللہ تمہاری گمراہی چاہے، وہ تمہارا رب ہے، اور اسی کی طرف پھرو گے  (ف ۷۳)

۷۳               آخرت میں وہی تمہارے اعمال کا بدلہ دے گا۔

(۳۵)  کیا یہ کہتے  ہیں کہ انہوں نے  اپنے  جی سے  بنا لیا (ف ۷۴) تم فرماؤ اگر میں نے  بنا لیا ہو گا تو میرا گناہ مجھ پر ہے  (ف ۷۵) اور میں تمہارے  گناہ سے  الگ ہوں۔

۷۴               اور اس طرح خدا کے کلام اور اس کے احکام ماننے سے گریز کرتے ہیں اور اس کے رسول پر بہتان اٹھاتے ہیں اور ان کی طرف افتراء کی نسبت کرتے ہیں جن کا صدق براہینِ بیِّنہ اور حُجّتِ قویّہ سے ثابت ہو چکا ہے لہٰذا اب ان سے۔

۷۵               ضرور اس کا وبال آئے گا لیکن بحمدِ اللّٰہ میں صادق ہوں تو تم سمجھ لو کہ تمہاری تکذیب کا وبال تم پر پڑے گا۔

(۳۶) اور نوح کو وحی ہوئی تمہاری قوم سے  مسلمان نہ ہوں گے  مگر جتنے  ایمان لا چکے  تو غم نہ کھا اس پر جو وہ کرتے  ہیں (ف ۷۶)

۷۶               یعنی کُفر اور آپ کی تکذیب اور آپ کی ایذا کیونکہ اب آپ کے اَعداء سے انتقام لینے کا وقت آ گیا۔

(۳۷)  اور کشتی بناؤ ہمارے  سامنے  (ف ۷۷) اور ہمارے  حکم سے  اور ظالموں کے  بارے  میں مجھ سے  بات نہ کرنا (ف ۷۸) وہ ضرور ڈبوئے  جائیں گے  (ف ۷۹)

۷۷               ہماری حفاظت میں ہماری تعلیم سے۔

۷۸               یعنی ان کی شفاعت اور دفعِ عذاب کی دعا نہ کرنا کیونکہ ان کا غرق مقدر ہو چکا ہے۔

۷۹               حدیث شریف میں ہے کہ حضرت نوح علیہ الصلوٰۃ و السلام نے بحکمِ الٰہی سال کے درخت بوئے، بیس سال میں یہ درخت تیار ہوئے، اس عرصہ میں مطلقاً کوئی بچہ پیدا نہ ہوا، اس سے پہلے جو بچّے پیدا ہو چکے تھے وہ بالغ ہو گئے اور انہوں نے بھی حضرت نوح علیہ الصلوٰۃ و السلام کی دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیا اور نوح علیہ الصلوٰۃ و السلام کشتی بنانے میں مشغول ہوئے۔

(۳۸) اور نوح کشتی بناتا ہے  اور جب اس کی قوم کے  سردار اس پر گزرتے  اس پر ہنستے  (ف ۸۰) بولا اگر تم ہم پر ہنستے  ہو تو ایک وقت ہم تم پر ہنسیں گے  (ف ۸۱) جیسا تم ہنستے  ہو (ف ۸۲)

۸۰               اور کہتے اے نوح کیا کرتے ہو، آپ فرماتے ایسا مکان بناتا ہوں جو پانی پر چلے یہ سن کر ہنستے کیونکہ آپ کشتی جنگل میں بناتے تھے جہاں دور دور تک پانی نہ تھا اور وہ لوگ تَمسخُر سے یہ بھی کہتے تھے کہ پہلے تو آپ نبی تھے اب بڑھئی ہو گئے۔

۸۱               تمہیں ہلاک ہوتا دیکھ کر۔

۸۲               کشتی دیکھ کر۔ مروی ہے کہ یہ کشتی دو سال میں تیار ہوئی، اس کی لمبائی تین سو گز، چوڑائی پچاس گز، اُونچائی تیس گز تھی (اس میں اور بھی اقوال ہیں) اس کشتی میں تین درجہ بنائے گئے تھے۔ طبقۂ زیریں میں وحوش اور درندے اور ہَوَامّ اور درمیانی طبقے میں چوپائے وغیرہ اور طبقۂ اعلیٰ میں خود حضرت نوح علیہ السلام اور آپ کے ساتھی اور حضرت آدم علیہ السلام کا جسدِ مبارک جو عورتوں اور مردوں کے درمیان حائل تھا اور کھانے وغیرہ کا سامان تھا، پرندے بھی اوپر ہی کے طبقہ میں تھے۔ (خازن ومدارک وغیرہ)۔

(۳۹)  تو اب جان جاؤ گے  کس پر آتا ہے  وہ عذاب کہ اسے  رسوا کرے  (ف ۸۳) اور اترتا ہے  وہ عذاب جو ہمیشہ رہے  (ف ۸۴)

۸۳               دنیا میں اور وہ عذابِ غرق ہے۔

۸۴               یعنی عذابِ آخرت۔

(۴۰) یہاں تک کہ کہ جب ہمارا حکم آیا (ف ۸۵) اور تنور اُبلا (ف ۸۶) ہم نے  فرمایا کشتی میں سوار کر لے  ہر جنس میں سے  ایک جوڑا نر و مادہ اور جن پر بات پڑ چکی ہے  (ف ۸۷) ان کے  سوا اپنے  گھر والوں اور باقی مسلمانوں کو اور  اس کے  ساتھ مسلمان نہ تھے  مگر تھوڑے  (ف ۸۸)

۸۵               عذاب و ہلاک کا۔

۸۶               اور پانی نے اس میں سے جوش مارا۔ تنور سے یا روئے زمین مراد ہے یا یہی تنور جس میں روٹی پکائی جاتی ہے۔ اس میں بھی چند قول ہیں ایک قول یہ ہے کہ وہ تنور پتّھر کا تھا حضرت حوّا کا جو آپ کو ترکہ میں پہنچا تھا اور وہ یا شام میں تھا یا ہند میں اور تنور کا جوش مارنا عذاب آنے کی علامت تھی۔

۸۷               یعنی ان کے ہلاک کا حکم ہو چکا ہے اور ان سے مراد آپ کی بی بی واعلہ جو ایمان نہ لائی تھی اور آپ کا بیٹا کنعان ہے چنانچہ حضرت نوح علیہ الصلوٰۃ و السلام نے ان سب کو سوار کیا، جانور آپ کے پاس آتے تھے اور آپ کا داہنا ہاتھ نر پر اور بایاں مادہ پر پڑتا تھا اور آپ سوار کرتے جاتے تھے۔

۸۹               مقاتل نے کہا کہ کل مرد و عورت بہتر ۷۲ تھے اور اس میں اور اقوال بھی ہیں۔ صحیح تعداد اللّٰہ جانتا ہے، ان کی تعداد کسی صحیح حدیث میں وارِد نہیں ہے۔

۸۹               یہ کہتے ہوئے کہ۔

۹۰               اس میں تعلیم ہے کہ بندے کو چاہیئے جب کوئی کام کرنا چاہے تو اس کو بسم اللّٰہ پڑھ کر شروع کرے تاکہ اس کام میں برکت ہو اور وہ سببِ فلاح ہو۔ ضحاک نے کہا کہ جب حضرت نوح علیہ السلام چاہتے تھے کہ کشتی چلے تو بسم اللّٰہ فرماتے تھے، کشتی چلنے لگتی تھی اور جب چاہتے تھے کہ ٹھہر جائے بسم اللّٰہ فرماتے تھے ٹھہر جاتی تھی۔

۹۱               چالیس شب و روز آسمان سے مِینہ برستا رہا اور زمین سے پانی ابلتا رہا یہاں تک کہ تمام پہاڑ غرق ہو گئے۔

۹۲               یعنی حضرت نوح علیہ السلام سے جدا تھا آپ کے ساتھ سوار نہ ہوا تھا۔

۹۳               کہ ہلاک ہو جائے گا۔ یہ لڑکا منافق تھا، اپنے والد پر اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتا تھا اور باطن میں کافِروں کے ساتھ متفق تھا۔ (حسینی)۔

۹۴               جب طوفان اپنی نہایت پر پہنچا اور کُفّار غرق ہو چکے تو حکمِ الٰہی آیا۔

۹۵               چھ مہینے تمام زمین کا طواف کر کے۔

۹۶               جو موصل یا شام کے حدود میں واقع ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کشتی میں دسویں رَجَب کو بیٹھے اور دسویں مُحرّم کو کشتی کوہِ جودی پر ٹھہری تو آپ نے اس کے شکر کا روزہ رکھا اور اپنے تمام ساتھیوں کو بھی روزے کا حکم فرمایا۔

۹۷               اور تو نے مجھ سے میرے اور میرے گھر والوں کی نجات کا وعدہ فرمایا ہے۔

۹تو اس میں کیا حکمت ہے۔ شیخ ابو منصور ماتریدی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا کہ حضرت نوح علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بیٹا کنعان منافق تھا اور آپ کے سامنے اپنے آپ کو مؤمن ظاہر کرتا تھا اگر وہ اپنا کُفر ظاہر کر دیتا تو آپ اللّٰہ تعالیٰ سے اس کے نجات کی دعا نہ کرتے۔ (مدارک)۔

۹۹               اس سے ثابت ہوا کہ نسبی قرابت سے دینی قرابت زیادہ قوی ہے۔

۱۰۰             کہ وہ مانگنے کے قابل ہے یا نہیں۔

۱۰۱             ان برکتوں سے آپ کی ذُرِّیّت اور آپ کے مُتّبِعین کی کثرت مراد ہے کہ بکثرت انبیاء اور ائمۂ دین آپ کی نسلِ پاک سے ہوئے ان کی نسبت فرمایا کہ یہ برکات۔

۱۰۲             محمد بن کعب قُرظی نے کہا کہ ان گروہوں میں قیامت تک ہونے والا ہر ایک مومن داخل ہے۔

۱۰۳             اس سے حضرت نوح علیہ الصلوٰۃ و السلام کے بعد پیدا ہونے والے کافِر گروہ مراد ہیں جنہیں اللّٰہ تعالیٰ ان کی میعادوں تک فراخیِ عیش اور وسعتِ رزق عطا فرمائے گا۔

۱۰۴             آخرت میں۔

۱۰۵             یہ خِطاب سیدِعالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کو فرمایا۔

۱۰۶             خبر دینے۔

۱۰۷             اپنی قوم کی ایذاؤں پر جیسا کہ نوح علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی قوم کی ایذاؤں پر صبر کیا۔

۱۰کہ دنیا میں مظفر و منصور اور آخرت میں مُثاب و ماجور۔

۱۰۹             نبی بنا کر بھیجا۔ حضرت ہو د علیہ السلام کو  اخ  باعتبارِ نسب فرمایا گیا اسی لئے حضرت مُترجِم قُدِّسَ سِرُّہ نے اس لفظ کا ترجمہ ہم قوم کیا۔ اَعْلَی اللّٰہ مُقَامَہ۔

۱۱۰             اس کی توحید کے معتقِد رہو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔

۱جوبُتوں کو خدا کا شریک بناتے ہو۔

۱۱۲             جتنے رسول تشریف لائے سب نے اپنی قوموں سے یہی فرمایا اور نصیحتِ خالصہ وہی ہے جو کسی طمع سے نہ ہو۔

۱۱۳             اتنا سمجھ سکو کہ جو مَحض بے غرض نصیحت کرتا ہے وہ یقیناً خیر خواہ اور سچا ہے۔ باطل کار جو کسی کو گمراہ کرتا ہے ضرور کسی نہ کسی غرض اور کسی نہ کسی مقصد سے کرتا ہے۔ اس سے حق و باطل میں بہ آسانی تمیز کی جا سکتی ہے۔

۱۱۴             ایمان لا کر جب قومِ عاد نے حضرت ہود علیہ السلام کی دعوت قبول نہ کی تو اللّٰہ تعالیٰ نے ان کے کُفر کے سبب تین سال تک بارش موقوف کر دی اور نہایت شدید قحط نمودار ہوا اور ان کی عورتوں کوبانجھ کر دیا جب یہ لوگ بہت پریشان ہوئے تو حضرت ہود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے وعدہ فرمایا کہ اگر وہ اللّٰہ پر ایمان لائیں اور اس کے رسول کی تصدیق کریں اور اس کے حضور توبہ و استِغفار کریں تو اللّٰہ تعالیٰ بارش بھیجے گا اور ان کی زمینوں کو سرسبز و شاداب کر کے تازہ زندگی عطا فرمائے گا اور قوّت و اولاد دے گا۔ حضرت امام حسن رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ایک مرتبہ امیرِ معاویہ کے پاس تشریف لے گئے تو آپ سے امیرِ معاویہ کے ایک ملازم نے کہا کہ میں مالدار آدمی ہوں مگر میرے کوئی اولاد نہیں مجھے کوئی ایسی چیز بتائیے جس سے اللّٰہ مجھے اولاد دے۔ آپ نے فرمایا استِغفار پڑھا کرو، اس نے استغفار کی یہاں تک کثرت کی کہ روزانہ سا ت سو مرتبہ استِغفار پڑھنے لگا اس کی برکت سے اس شخص کے دس بیٹے ہوئے۔ یہ خبر حضرت معاویہ کو ہوئی تو انہوں نے اس شخص سے فرمایا کہ تو نے حضرت امام سے یہ کیوں نہ دریافت کیا کہ یہ عمل حضور نے کہاں سے فرمایا۔ دوسری مرتبہ جب اس شخص کو امام سے نیاز حاصل ہوا تو اس نے یہ دریافت کیا، امام نے فرمایا کہ تو نے حضرت ہود کا قول نہیں سنا جو انہوں نے فرمایا  یَزِدْکُمْ قُوَّۃً اِلیٰ قُوَّتِکُمْ اور حضرت نوح علیہ السلام کا یہ ارشاد  یُمْدِدْکُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ فائدہ : کثرتِ رزق اور حصولِ اولاد کے لئے استِغفار کا بکثرت پڑھنا قرآنی عمل ہے۔

۱۱۵             مال و اولاد کے ساتھ۔

۱۱۶             میری د عوت سے۔

۱۱۷             جو تمہارے دعوے کے صحت پر دلالت کرتی اور یہ بات انہوں نے بالکل غلط اور جھوٹ کہی تھی۔ حضرت ہود علیہ السلام نے انہیں جو معجزات دکھائے تھے ان سب سے مکر گئے۔

۱۱یعنی تم جو بُتوں کو برا کہتے ہو اس لئے انہوں نے تمہیں دیوانہ کر دیا۔ مراد یہ ہے کہ اب جو کچھ کہتے ہو یہ دیوانگی کی باتیں ہیں۔ ( معاذ اللّٰہ )۔

۱۱۹             یعنی تم اور وہ جنہیں تم مبعود سمجھتے ہو سب مل کر مجھے ضرَر پہنچانے کی کوشش کرو۔

۱۲۰             مجھے تمہاری اور تمہارے معبودوں کی اور تمہاری مکاریوں کی کچھ پروا نہیں اور مجھے تمہاری شوکت و قوّت سے کچھ اندیشہ نہیں، جن کو تم معبود کہتے ہو وہ جماد و بے جان ہیں نہ کسی کو نفع پہنچا سکتے ہیں نہ ضرَر، ان کی کیا حقیقت کہ وہ مجھے دیوانہ کر سکتے۔ یہ حضرت ہود علیہ السلام کا معجزہ ہے کہ آپ نے ایک زبردست جبّار، صاحبِ قوت و شوکت قوم سے جو آ پ کے خون کی پیاسی اور جان کی دشمن تھی اس طرح کے کلمات فرمائے اور اصلًا خوف نہ کیا اور وہ قوم باوجود انتہائی عداوت اور دشمنی کے آپ کو ضرَر پہنچانے سے عاجز رہی۔

۱۲۱             اسی میں بنی آدم اور حیوان سب آ گئے۔

۱۲۲             یعنی وہ سب کا مالک ہے اور سب پر غالب اور قادِر و متصرِّف ہے۔

۱۲۳             اور حُجّت ثابت ہو چکی۔

۱۲۴             یعنی اگر تم نے ایمان سے اعراض کیا اور جو احکام میں تمہاری طرف لایا ہوں انہیں قبول نہ کیا تو اللّٰہ تمہیں ہلاک کرے گا اور بجائے تمہارے ایک دوسری قوم کو تمہارے دِیار و اَموال کا والی بنائے گا جو اس کی توحید کے معتقِد ہوں اور اس کی عبادت کریں۔

۱۲۵             کیونکہ وہ اس سے پاک ہے کہ اسے کوئی ضرَر پہنچ سکے لہٰذا تمہارے اِعراض کا جو ضرَر ہے وہ تمہیں کو پہنچے گا۔

۱۲۶             اور کسی کا قول فعل اس سے مخفی نہیں۔ جب قومِ ہود نصیحت پذیر نہ ہوئی تو بارگاہِ قدیرِ برحق سے ان کے عذاب کا حکم نافذ ہوا۔

۱۲۷             جن کی تعداد چار ہزار تھی۔

۱۲اور قومِ عاد کو ہوا کے عذاب سے ہلاک کر دیا۔

۱۲۹             یعنی جیسے مسلمانوں کو عذابِ دنیا سے بچایا ایسے ہی آخرت کے۔

۱۳۰             یہ خِطاب ہے سیدِعالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی اُمّت کو اور  تِلْکَ اشارہ ہے قومِ عاد کی قُبور و آثار کی طرف۔ مقصد یہ ہے کہ زمین میں چلو، انہیں دیکھو اور عبرت حاصل کرو۔

۱۳۱             بھیجا تو حضرت صالح علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان سے۔

۱۳۲             اور اس کی وحدانیت مانو۔

۱۳۳             صرف وہی مستحقِ عبادت ہے کیونکہ۔

۱۳۴             تمہارے جد حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس سے پیدا کر کے اور تمہاری نسل کی اصل نُطفوں کے مادوں کو اس سے بنا کر۔

۱۳۵             اور زمین کو تم سے آباد کیا۔ ضحاک نے  اِسْتَعْمَرَکُمْ کے معنی یہ بیان کئے ہیں کہ تمہیں طویل عمریں دیں حتی کہ ان کی عمریں تین سو برس سے لے کر ہزار برس تک ہوئیں۔

۱۳۶             اور ہم امید کرتے تھے کہ تم ہمارے سردار بنو گے کیونکہ آپ کمزوروں کی مدد کرتے تھے، فقیروں پر سخاوت فرماتے تھے جب آپ نے توحید کی دعوت دی اور بُتوں کی برائیاں بیان کیں تو قوم کی امیدیں آپ سے منقطع ہو گئیں اور کہنے لگے۔

۱۳۷             حکمت و نبوّت عطا کی۔

۱۳رسالت کی تبلیغ اور بُت پرستی سے روکنے میں۔

۱۳۹             یعنی مجھے تمہارے خسارے کا تجرِبہ اور زیادہ ہو گا۔

۱۴۰             قومِ ثمود نے حضرت صالح علیہ الصلوٰۃ والسلام سے معجِزہ طلب کیا تھا ( جس کا بیان سورۂ اعراف میں ہوچکا ہے) آپ نے اللّٰہ تعالیٰ سے دعا کی تو پتھر سے بحکمِ الٰہی ناقہ (اونٹنی) پیدا ہوا۔ یہ ناقہ ان کے لئے آیت و معجِزہ تھا۔ اس آیت میں اس ناقہ کے متعلق احکام ارشاد فرمائے گئے کہ اسے زمین میں چرنے دو اور کوئی آزار نہ پہنچاؤ ورنہ دنیا ہی میں گرفتارِ عذاب ہو گے اور مہلت نہ پاؤ گے۔

۱۴۱             حکمِ الٰہی کی مخالفت کی اور چہار شنبہ کو۔

۱۴۲             یعنی جمعہ تک جو کچھ دنیا کا عیش کرنا ہے کر لو، شنبہ کو تم پر عذاب آئے گا۔ پہلے روز تمہارے چہرے زرد ہو جائیں گے دوسرے روز سرخ اور تیسرے روز یعنی جمعہ کو سیاہ اور شنبہ کو عذاب نازِل ہو گا۔

۱۴۳             چنانچہ ایسا ہی ہوا۔

۱۴۴             ان بلاؤں سے۔

۱۴۵             یعنی ہولناک آواز نے جس کی ہیبت سے ان کے دل پھٹ گئے اور وہ سب کے سب مر گئے۔

۱۴۶             سادہ رو نوجوانوں کی حسین شکلوں میں حضرت اسحٰق، حضرت یعقوب علیہما السلام کی پیدائش کا۔

۱۴۷             حضرت ابراہیم علیہ السلام نے۔

۱۴"مفسِّرین نے کہا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ و التسلیمات بہت ہی مہمان نواز تھے بغیر مہمان کے کھانا تناول نہ فرماتے۔ اس وقت ایسا اتفاق ہوا کہ پندرہ روز سے کوئی مہمان نہ آیا تھا آپ اس غم میں تھے، ان مہمانوں کو دیکھتے ہی آ پ نے ان کے لئے کھانا لانے میں جلدی فرمائی چونکہ آ پ کے یہاں گائے بکثرت تھیں اس لئے بچھڑے کا بھنا ہوا گوشت سامنے لایا گیا۔ فائدہ : اس سے معلوم ہوا کہ گائے کا گوشت حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ و التسلیمات کے دستر خوان پر زیادہ آتا تھا اور آپ اس کو پسند فرماتے تھے، گائے کا گوشت کھانے والے اگر سنّتِ ابراہیم ادا کرنے کی نیت کریں تو مزید ثواب پائیں۔

۱۴۹             عذاب کرنے کے لئے۔

۱۵۰             حضرت سارہ پسِ پردہ۔

۱۵۱             اس کے فرزند۔

۱۵۲             حضرت اسحٰق کے فرزند۔

۱۵۳             حضرت سارہ کو خوشخبری دینے کی وجہ یہ تھی کہ اولاد کی خوشی عورتوں کو مردوں سے زیادہ ہوتی ہے اور نیز یہ بھی سبب تھا کہ حضرت سارہ کے کوئی اولاد نہ تھی اور حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ و السلام کے فرزند حضرت اسمٰعیل علیہ الصلوٰۃ و السلام موجود تھے۔ اس بشارت کے ضمن میں ایک بشارت یہ بھی تھی کہ حضرت سارہ کی عمر اتنی دراز ہو گی کہ وہ پوتے کو بھی دیکھیں گی۔

۱۵۴             میری عمر نوّے سے متجاوز ہو چکی ہے۔

۱۵۵             جن کی عمر ایک سو بیس سال کی ہو گئی ہے۔

۱۵۶             فرشتوں کے کلام کے معنی یہ ہیں کہ تمہارے لئے کیا جائے تعجب ہے، تم اس گھر میں ہو جو معجزات اور خوارقِ عادات اور اللّٰہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کا مورَد بنا ہوا ہے۔ مسئلہ : اس آیت سے ثابت ہوا کہ بیبیاں اہلِ بیت میں داخل ہیں۔

۱۵۷             یعنی کلام و سوال کرنے لگا اور حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ و السلام کا مجادَلہ یہ تھا کہ آپ نے فرشتوں سے فرمایا کہ قومِ لوط کی بستیوں میں اگر پچاس ایماندار ہوں تو بھی انہیں ہلاک کرو گے، فرشتوں نے کہا نہیں فرمایا اگر چالیس ہوں انہوں نے کہا جب بھی نہیں، آپ نے فرمایا اگر تیس ہوں انہوں نے کہا جب بھی نہیں، آپ اس طرح فرماتے رہے یہاں تک کہ آپ نے فرمایا اگر ایک مرد مسلمان موجود ہو تب ہلاک کر دو گے انہوں نے کہا نہیں تو آپ نے فرمایا اس میں لوط علیہ السلام ہیں اس پر فرشتوں نے کہا ہمیں معلوم ہے جو وہاں ہیں، ہم لوط علیہ السلام اور ان کے گھر والوں کو بچائیں گے سوائے ان کی عورت کے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مقصد یہ تھا کہ آپ عذاب میں تاخیر چاہتے تھے تاکہ اس بستی والوں کو کُفر و معاصی سے باز آنے کے لئے ایک فرصت اور مل جائے چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صفت میں ارشاد ہوتا ہے۔

۱۵۸             ان صفات سے آپ کی رقّتِ قلب اور آپ کی رافت و رحمت معلوم ہوتی ہے جو اس مباحثہ کا سبب ہوئی، فرشتوں نے کہا۔

۱۵۹             حسین صورتوں میں اور حضرت لوط علیہ السلام نے ان کی ہیئت اور جمال کو دیکھا تو قوم کی خباثت و بد عملی کا خیال کر کے۔

۱۶۰             مروی ہے کہ ملائکہ کو حکمِ الٰہی یہ تھا کہ وہ قومِ لوط کو اس وقت تک ہلاک نہ کریں جب تک کہ حضرت لوط علیہ السلام خود اس قوم کی بدعملی پر چار مرتبہ گواہی نہ دیں چنانچہ جب یہ فرشتے حضرت لوط علیہ السلام سے ملے تو آپ نے ان سے فرمایا کہ کیا تمہیں اس بستی والوں کا حال معلوم نہ تھا، فرشتوں نے کہا ان کا کیا حال ہے آپ نے فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ عمل کے اعتبار سے روئے زمین پر یہ بدترین بستی ہے اور یہ بات آپ نے چار مرتبہ فرمائی۔ حضرت لوط علیہ السلام کی عورت جو کافِرہ تھی نکلی اور اس نے اپنی قوم کو جا کر خبر دی کہ حضرت لوط علیہ السلام کے یہاں ایسے خوبرو اور حسین مہمان آئے ہیں جن کی مثل اب تک کوئی شخص نظر نہیں آیا۔

۱۶۱             اور کچھ شرم و حیا باقی نہ رہی تھی۔ حضرت لوط علیہ السلام نے۔

۱۶۲             اور اپنی بیبیوں سے تمتُّع کرو کہ یہ تمہارے لئے حلال ہے۔ حضرت لوط علیہ الصلوٰۃ و السلام نے ان کی عورتوں کو جو قوم کی بیٹیاں تھیں بزرگانہ شفقت سے اپنی بیٹیاں فرمایا تاکہ اس حسنِ اخلاق سے وہ فائدہ اٹھائیں اور حمیّت سیکھیں۔

۱۶۳             یعنی ہمیں ان کی طرف رغبت نہیں۔

۱۶۴             یعنی مجھے اگر تمہارے مقابلے کی طاقت ہوتی یا ایسا قبیلہ رکھتا جو میری مدد کرتا تو تم سے مقابلہ و مقاتلہ کرتا۔ حضرت لوط علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے مکان کا دروازہ بند کر لیا تھا اور اندر سے یہ گفتگو فرمارہے تھے، قوم نے چاہا کہ دیوار توڑے فرشتوں نے آپ کا رنج و اضطراب دیکھا تو۔

۱۶۵             تمہارا پایہ مضبوط ہے، ہم ان لوگوں کو عذاب کرنے کے لئے آئے ہیں تم دروازہ کھول دو اور ہمیں اور انہیں چھوڑ دو۔

۱۶۶             اور تمہیں کچھ ضرَر نہیں پہنچا سکتے۔ حضرت نے دروازہ کھول دیا، قوم کے لوگ مکان میں گھس آئے۔ حضرت جبریل نے بحکمِ الٰہی اپنا بازو ان کے مُنھ پر مارا، سب اندھے ہو گئے اور حضرت لوط علیہ الصلوٰۃ و السلام کے مکان سے نکل کر بھاگے، انہیں راستہ نظر نہیں آتا تھا اور یہ کہتے جاتے تھے ہائے ہائے لوط کے گھر میں بڑے جادوگر ہیں، انہوں نے ہمیں جادو کر دیا۔ فرشتوں نے حضرت لوط علیہ الصلوٰۃ و السلام سے کہا۔

۱۶۷             اس طرح آپ کے گھر کے تمام لوگ چلے جائیں۔

۱۶"حضرت لوط علیہ الصلوٰۃ و السلام نے کہا یہ عذاب کب ہو گا، حضرت جبریل نے کہا۔

۱۶۹             حضرت لوط علیہ الصلٰو ۃ و السلام نے کہا کہ میں تو اس سے جلدی چاہتا ہوں، حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا۔

۱۷۰             یعنی اُلٹ دیا اس طرح کہ حضرت جبریل علیہ السلام نے قومِ لوط کے شہر جس طبقہ زمین میں تھے اس کے نیچے اپنا بازو ڈالا اور ان پانچوں شہروں کو جن میں سب سے بڑا سد وم تھا اور ان میں چار لاکھ آدمی بستے تھے اتنا اونچا اٹھایا کہ وہاں کے کتّوں اور مرغوں کی آوازیں آسمان پر پہنچنے لگیں اور اس آہستگی سے اٹھایا کہ کسی برتن کا پانی نہ گرا اور کوئی سونے والا بیدار نہ ہوا پھر اس بلندی سے اس کو اوندھا کر کے پلٹا۔

۱۷۱             ان پتھروں پر ایسا نشان تھا جس سے وہ دوسروں سے ممتاز تھے۔ قتادہ نے کہا کہ ان پر سُرخ خطوط تھے۔ حسن و سدی کا قول ہے کہ ان پر مُہریں لگی ہوئی تھیں اور ایک قول یہ ہے کہ جس پتھر سے جس شخص کی ہلاکت منظور تھی اس کا نام اس پتھر پر لکھا تھا۔

۱۷۲             یعنی اہلِ مکّہ سے۔

۱۷۳             ہم نے بھیجاباشندگانِ شہر۔

۱۷۴             آپ نے اپنی قوم سے۔

۱۷۵             پہلے تو آپ نے توحید و عبادت کی ہدایت فرمائی کہ وہ تمام اُمور میں سب سے اہم ہے اس کے بعد جن عاداتِ قبیحہ میں وہ مبتلا تھے اس سے منع فرمایا اور ارشاد کیا۔

۱۷۶             ایسے حال میں آدمی کو چاہیئے کہ نعمت کی شکر گزاری کرے اور دوسروں کو اپنے مال سے فائدہ پہنچائے نہ کہ ان کے حقوق میں کمی کرے۔ ایسی حالت میں اس خیانت کی عادت سے اندیشہ ہے کہ کہیں اس عادت سے محروم نہ کر دیئے جاؤ۔

۱۷۷             کہ جس سے کسی کو رہائی مُیسَّر نہ ہو اور سب کے سب ہلاک ہو جائیں، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس دن کے عذاب سے عذابِ آخرت مراد ہو۔

۱۷یعنی مالِ حرام ترک کرنے کے بعد حلال جس قدر بھی بچے وہی تمہارے لئے بہتر ہے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما نے فرمایا کہ پورا تولنے اور ناپنے کے بعد جو بچے وہ بہتر ہے۔

۱۷۹             کہ تمہارے افعال پر دارو گیر کروں۔ عُلَماء نے فرمایا ہے کہ بعض انبیاء کو حرب کی اجازت تھی جیسے حضرت موسیٰ، حضرت داؤد، حضرت سلیمان علیہم السلام و غیرہم۔ بعض وہ تھے جنہیں حرب کا حکم نہ تھا حضرت شعیب علیہ السلام انہیں میں سے ہیں، تمام دن وعظ فرماتے اور شب تمام نماز میں گزارتے، قوم آپ سے کہتی کہ اس نماز سے آپ کو کیا فائدہ ؟ آپ فرماتے نماز خوبیوں کا حکم دیتی ہے برائیوں سے منع کرتی ہے تو اس پر وہ تَمسخُر سے یہ کہتے جو اگلی آیت میں مذکور ہے۔

۱۸۰             بُت پرستی نہ کریں۔

۱۸۱             مطلب یہ تھا کہ ہم اپنے مال کے مختار ہیں چاہے کم ناپیں چاہے کم تولیں۔

۱۸۲             بصیر ت و ہدایت پر۔

۱۸۳             یعنی نبوّت و رسالت یا مالِ حلال اور ہدایت و معرفت۔ تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں تمہیں بُت پرستی اور گناہوں سے منع نہ کروں کیونکہ انبیاء اسی لئے بھیجے جاتے ہیں۔

۱۸۴             امام فخر الدین رازی علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ قوم نے حضرت شعیب علیہ السلام کے حلیم و رشید ہونے کا اعتراف کیا تھا اور ان کا یہ کلام استہزاء نہ تھا بلکہ مُدّعا یہ تھا آپ باوجودِ حلم و کمالِ عقل کے ہم کو اپنے مال میں اپنے حسبِ مرضی تصرُّف کرنے سے کیوں منع فرماتے ہیں ؟ اس کا جواب جو حضرت شعیب علیہ السلام نے فرمایا اس کا حاصل یہ ہے کہ جب تم میرے کمالِ عقل کے معترِف ہو تو تمہیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ میں نے اپنے لئے جو بات پسند کی ہے وہ وہی ہو گی جو س۰ب سے بہتر ہو اور وہ خدا کی توحید اور ناپ تول میں ترکِ خیانت ہے، میں اس کا پابندی سے عامل ہوں تو تمہیں سمجھ لینا چاہیئے کہ یہی طریقہ بہتر ہے۔

۱۸۵             انہیں کچھ زیادہ زمانہ نہیں گزرا ہے نہ وہ کچھ دور کے رہنے والے تھے تو ان کے حال سے عبرت حاصل کرو۔

۱۸۶             کہ اگر ہم آپ کے ساتھ کچھ زیادتی کریں تو آپ میں مدافعت کی طاقت نہیں۔

۱۸۷             جو دین میں ہمارا موافق ہے اور جس کو ہم عزیز رکھتے ہیں۔

۱۸کہ اللّٰہ کے لئے تو تم میرے قتل سے باز نہ رہے اور میرے کُنبہ کی وجہ سے باز رہے اور تم نے اللّٰہ کے نبی کا تو احترام نہ کیا اور کُنبے کا احترام کیا۔

۱۸۹             اور اس کے حکم کی کچھ پروا نہ کی۔

۱۹۰             اپنے دعاویٰ میں یعنی تمہیں جلد معلوم ہو جائے گا کہ میں حق پر ہوں یا تم اور عذابِ الَہی سے شقی کی شقاوت ظاہر ہو جائے گی۔

۱۹۱             عاقبتِ امر اور انجامِ کار کا۔

۱۹۲             ان کے عذاب اور ہلاک کے لئے۔

۱۹۳             حضرت جبریل علیہ السلام نے ہیبت ناک آواز سے کہا  مُوْتُوْا جَمِیْعاً  سب مر جاؤ، اس آواز سے دہشت سے ان کے دم نکل گئے اور سب مرگئے۔

۱۹۴             اللّٰہ کی رحمت سے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما نے فرمایا کہ کبھی دو اُمّتیں ایک ہی عذاب میں مبتلا نہیں کی گئیں بجُز حضرت شعیب و صالح علیہما السلام کی اُمّتوں کے لیکن قومِ صالح کو ان کے نیچے سے ہولناک آواز نے ہلاک کیا اور قومِ شعیب کو اوپر سے۔

۱۹۵             یعنی معجزات۔

۱۹۶             اور کُفر میں مبتلا ہوئے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان نہ لائے۔

۱۹۷             وہ کھلی گمراہی میں تھا کیونکہ باوجود بشر ہونے کے خدائی کا دعویٰ کرتا تھا اور علانیہ ایسے ظلم اور ایسی ستم گاریاں کرتا تھا جس کا شیطانی کام ہونا ظاہر اور یقینی ہے۔ وہ کہاں اور خدائی کہاں اور حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ساتھ رشد و حقانیت تھی، آپ کی سچائی کی دلیلیں آیاتِ ظاہرہ و معجزاتِ باہرہ وہ لوگ معائنہ کر چکے تھے پھر بھی انہوں نے آپ کی اِتّباع سے مُنہ پھیرا اور ایسے گمراہ کی اطاعت کی تو جب وہ دنیا میں کُفر و ضلال میں اپنی قوم کا پیشوا تھا ایسے ہی جہنّم میں ان کا امام ہو گا اور۔

۱۹جیسا کہ انہیں دریائے نیل میں لا ڈالا تھا۔

۱۹۹             یعنی دنیا میں بھی ملعون اور آخرت میں بھی ملعون۔

۲۰۰             یعنی گزری ہوئی اُمّتوں۔

۲۰۱             کہ تم اپنی اُمّت کو ان کی خبریں دو تاکہ وہ ان سے عبرت حاصل کریں، ان بستیوں کی حالت کھیتیوں کی طرح ہے کہ۔

۲۰۲             اس کے مکانوں کی دیواریں موجود ہیں، کھنڈر پائے جاتے ہیں، نشان باقی ہیں جیسے کہ عاد و ثمود کے دیار۔

۲۰۳             یعنی کٹی ہوئی کھیتی کی طرح بالکل بے نام و نشان ہو گئی اور اس کا کوئی اثر باقی نہ رہا جیسے کہ قومِ نوح علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دیار۔

۲۰۴             کُفر و معاصی کا ارتکاب کر کے۔

۲۰۵             جہل و گمراہی سے۔

۲۰۶             اور ایک شمّہ عذاب دفع نہ کر سکے۔

۲۰۷             بُتوں اور جھوٹے معبودوں۔

۲۰تو ہر ظالم کو چاہئے کہ ان واقعات سے عبرت پکڑے اور توبہ میں جلدی کرے۔

۲۰۹             عبرت و نصیحت۔

۲۱۰             اگلے پچھلے حساب کے لئے۔

۲جس میں آسمان والے اور زمین والے سب حاضر ہوں گے۔

۲۱۲             یعنی روزِ قیامت کو۔

۲۱۳             یعنی جو مدّت ہم نے بقائے دنیا کے لئے مقرر فرمائی ہے اس کے تمام ہونے تک۔

۲۱۴             تمام خَلق ساکت ہو گی۔ قیامت کا دن بہت طویل ہو گا اس میں احوال مختلف ہوں گے بعض احوال میں تو شدتِ ہیبت سے کسی کو بے اذنِ الٰہی بات زبان پر لانے کی قدرت نہ ہو گی اور بعض احوال میں اذن دیا جائے گا کہ لوگ اذن سے کلام کریں گے اور بعض احوال میں ہول و دہشت کم ہو گی، اس و قت لوگ اپنے معاملات میں جھگڑیں گے اور اپنے مقدمات پیش کریں گے۔

۲۱۵             شقیق بلخی قُدِّسَ سِرّہ نے فرمایا سعادت کی پانچ علامتیں ہیں (۱) دل کی نرمی (۲) کثرتِ گریہ (۳) دنیا سے نفرت (۴) امیدوں کا کوتاہ ہونا (۵) حیا۔ اور بدبختی کی علامت بھی پانچ چیزیں ہیں۔ (۱) دل کی سختی (۲) آنکھ کی خشکی یعنی عدمِ گریہ (۳) دنیا کی رغبت (۴) دراز امیدیں (۵) بے حیائی۔

۲۱۶             اتنا اور زیادہ رہیں گے اور اس زیادتی کی کوئی انتہا نہیں تو معنی یہ ہوئے کہ ہمیشہ رہیں گے کبھی اس سے رہائی نہ پائیں گے۔ (جلالین)۔

۲۱۷             اتنا اور زیادہ رہیں گے۔ اس زیادتی کی کچھ انتہا نہیں اس سے ہمیشگی مراد ہے چنانچہ ارشاد فرماتا ہے۔

۲۱بے شک یہ اس بُت پرستی پر عذاب دیئے جائیں گے جیسے کہ پہلی اُمّتیں مبتلائے عذاب ہوئیں۔

۲۱۹             اور تمہیں معلوم ہو چکا کہ ان کا کیا انجام ہو گا۔

۲۲۰             یعنی توریت۔

۲۲۱             بعضے اس پر ایمان لائے اور بعض نے کُفر کیا۔

۲۲۲             کہ ان کے حساب میں جلدی نہ فرمائے گا، مخلوق کے حساب و جزا کا دن روزِ قیامت ہے۔

۲۲۳             اور دنیا ہی میں گرفتارِ عذاب کئے جاتے۔

۲۲۴             یعنی آپ کی اُمّت کے کُفّار قرآنِ کریم کی طرف سے۔

۲۲۵             جس نے ان کی عقلوں کو حیران کر دیا ہے۔

۲۲۶             تمام خَلق تصدیق کرنے والے ہوں یا تکذیب کرنے والے روزِ قیامت۔

۲۲۷             اس پر کچھ مخفی نہیں، اس میں نیکیوں اور تصدیق کرنے والوں کے لئے تو بشارت ہے کہ وہ نیکی کی جزا پائیں گے اور کافِروں اور تکذیب کرنے والوں کے لئے وعید ہے کہ وہ اپنے عمل کی سزا میں گرفتار ہوں گے۔

۲۲اپنے ربّ کے حکم اور اس کے دین کی دعو ت پر۔

۲۲۹             اور اس نے تمہارا دین قبول کیا ہے، وہ دین و طاعت پر قائم رہے۔ مسلم شریف کی حدیث میں ہے سفیان بن عبداللّٰہ ثقفی نے رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا کہ مجھے دین میں ایک ایسی بات بتا دیجئے کہ پھر کسی سے دریافت کرنے کی حاجت نہ رہے فرمایا  اٰمَنْتُ بِاللّٰہِ  کہہ اور قائم رہ۔

۲۳۰             کسی کی طرف جھکنا اس کے ساتھ میل مَحبت رکھنے کو کہتے ہیں۔ ابوالعالیہ نے کہا کہ معنی یہ ہیں کہ ظالموں کے اعمال سے راضی نہ ہو۔ سدی نے کہا اس کے ساتھ مُداہنَت نہ کرو۔ قتادہ نے کہا مشرکین سے نہ ملو۔ مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ خدا کے نافرمانوں کے ساتھ یعنی کافِروں اور بے دینوں اور گمراہوں کے ساتھ میل جول، رسم و راہ، مَوَدّت و مَحبت، ان کی ہاں میں ہاں ملانا، ان کی خوشامد میں رہنا ممنوع ہے۔

۲۳۱             کہ تمہیں اس کے عذاب سے بچا سکے۔ یہ حال تو ان کا ہے جو ظالموں سے رسم و راہ، میل و مَحبت رکھیں اور اسی سے ان کا حال قیاس کرنا چاہیئے جو خود ظالم ہیں۔

۲۳۲             دن کے دو کناروں سے صبح و شام مراد ہیں۔ زوال سے قبل کا وقت صبح میں اور بعد کا شام میں داخل ہے صبح کی نماز فجر اور شام کی نماز ظہر و عصر ہیں۔

۲۳۳             اور رات کے حصوں کی نمازیں مغرب و عشاء ہیں۔

۲۳۴             نیکیوں سے مراد یا یہی پنج گانہ نمازیں ہیں جو آیت میں ذکر ہوئیں یا مطلق طاعتیں یا  سُبحْانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلہِ وَ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللہُ اَکْبَرْ  پڑھنا۔ مسئلہ : آیت سے معلوم ہوا کہ نیکیاں صغیرہ گناہوں کے لئے کَفّارہ ہوتی ہیں خواہ وہ نیکیاں نماز ہوں یا صدقہ یا ذکر و استِغفار یا اور کچھ۔ مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ پانچوں نمازیں اور جمعہ دوسرے جمعہ تک اور ایک روایت میں ہے کہ رمضان دوسرے رمضان تک یہ سب کَفّارہ ہیں ان گناہوں کے لئے جو ان کے درمیان واقع ہوں جب کہ آدمی کبیرہ گناہوں سے بچے۔ شانِ نُزول : ایک شخص نے کسی عورت کو دیکھا اور اس سے کوئی خفیف سی حرکت بے حجابی کی سرزد ہوئی اس پر وہ نادم ہوا اور رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنا حال عرض کیا اس پر یہ آیت نازِل ہوئی۔ اس شخص نے عرض کیا کہ صغیرہ گناہوں کے لئے نیکیوں کا کَفّارہ ہونا کیا خاص میرے لئے ہے فرمایا نہیں سب کے لئے۔

۲۳۵             یعنی پہلی امّتوں میں جو ہلاک کی گئیں۔

۲۳۶             معنی یہ ہیں کہ ان امّتوں میں ایسے اہل خیر نہیں ہوئے جو لوگوں کو زمین میں فساد کرنے سے روکتے اور گناہوں سے منع کرتے اسی لئے ہم نے انہیں ہلاک کر دیا۔

۲۳۷             وہ انبیاء پر ایمان لائے، ان کے احکام پر فرمانبردار ہے اور لوگوں کو فساد سے روکتے رہے۔

۲۳اور تنَعُّم وتلَذُّذ اور خواہشات و شہوات کے عادی ہو گئے اور کُفر و مَعاصی میں ڈوبے رہے۔

۲۳۹             تو سب ایک دین پر ہوتے۔

۲۴۰             کوئی کسی دین پر کوئی کسی پر۔

۲۴۱             وہ دینِ حق پر متفق رہیں گے اور اس میں اختلاف نہ کریں گے۔

۲۴۲             یعنی اختلاف والے اختلاف کے لئے اور رحمت والے اتفاق کے لئے۔

۲۴۳             کیونکہ اس کو علم ہے کہ باطل کے اختیار کرنے والے بہت ہوں گے۔

۲۴۴             اور انبیاء کے حال اور ان کی اُمّتوں کے سلوک دیکھ کر آپ کو اپنی قوم کی ایذا کا برداشت کرنا اور اس پر صبر فرمانا آسان ہو۔

۲۴۵             اور انبیاء اور ان کی اُمّتوں کے تذکرے واقع کے مطابق بیان ہوئے جو دوسری کتابوں اور دوسرے لوگوں کو حاصل نہیں یعنی جو واقعات بیان فرمائے گئے وہ حق بھی ہیں۔

۲۴۶             بھی کہ گزری ہوئی اُمّتوں کے حالات اور ان کے انجام سے عبرت حاصل کریں۔

۲۴۷             عنقریب اس کا نتیجہ پا لو گے۔

۲۴جس کا ہمیں ہمارے ربّ نے حکم دیا۔

۲۴۹             تمہارے انجام کار کی۔

۲۵۰             اس سے کچھ چھپ نہیں سکتا۔