تفسیر مدنی

سُوۡرَةُ هُود

(سورۃ ھود ۔ سورہ نمبر ۱۱ ۔ تعداد آیات ۱۲۳)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     الر۔ یہ ایک ایسی (عظیم الشان) کتاب ہے جس کی آیتوں کو محکم کیا گیا پھر ان کی تفصیل کر دی گئی، ایک نہایت ہی حکمت والی اور بڑی ہی باخبر ذات کی طرف سے

۲۔۔۔      (اس بنیادی اور مرکزی مضمون کے ساتھ) کہ تم لوگ بندگی نہ کرو مگر ایک اللہ کی،  بے شک میں تمہارے لئے (اے لوگو!) اس کی طرف سے خبردار کرنے والا اور خوشخبری سنانے والا ہوں ،

۳۔۔۔      اور یہ کہ تم لوگ معافی مانگو اپنے رب سے (اپنے گناہوں کی)، پھر لوٹ آؤ تم اس کی طرف (سچی توبہ کے ذریعے) تو وہ نوازے گا تم لوگوں کو اچھے سامانِ زندگی سے ، ایک مدت مقررہ تک، اور وہ عطا فرمائے گا ہر فضل والے کو اس کا فضل  اور اگر تم لوگ پھر گئے (اس راہِ حق و ہدایت سے) تو مجھے سخت اندیشہ ہے تمہارے بارے میں ایک بڑے ہی ہولناک دن کے عذاب کا،

۴۔۔۔      اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے تم سب کو، اور وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے

۵۔۔۔      دیکھو! (حق اور داعی حق کی عداوت میں کس طرح) پھیرتے ہیں یہ لوگ اپنے سینوں کو، تاکہ یہ چھپ سکیں اس سے ، آگاہ رہو کہ (یہ سراسر ان کی حماقت اور بھول ہے ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ) جب یہ لوگ لپیٹے ہوئے ہوتے ہیں (اپنے اوپر) اپنے کپڑے ، اللہ ایک برابر جانتا ہے وہ سب کچھ جو کہ یہ لوگ چھپاتے ہیں ، اور جس کو یہ ظاہر کرتے ہیں ، بے شک وہ پوری طرح جانتا ہے سینوں کے بھیدوں کو

۶۔۔۔     اور زمین پر چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں جس کی روزی اللہ کے ذمے نہ ہو، اور وہ جانتا ہے اس کی جائے سکونت کو بھی، اور جائے سپردگی کو بھی، یہ سب کچھ (موجود و مسطور) ہے ایک کھلی کتاب میں ،

۷۔۔۔     اور وہ (اللہ) وہی ہے جس نے پیدا فرمایا آسمانوں اور زمین (کی اس عظیم الشان کائنات) کو چھ دنوں میں ، اور (اس سے پہلے) اس کا عرش پانی پر تھا،  (اور اس نے یہ سب کچھ پیدا اس لئے فرمایا کہ) تاکہ وہ تمہاری آزمائش کرے ، کہ تم میں کس کا کام سب سے اچھا ہے ،  اور اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم (اے پیغمبر! ان لوگوں سے) کہیں کہ تم سب یقیناً دوبارہ اٹھائے جاؤ گے اپنے مرنے کے بعد، تو فوراً بول اٹھتے ہیں یہ کافر لوگ کہ یہ (قرآن) تو محض ایک جادو ہے کھلم کھلا،

۸۔۔۔     اور اگر ہم ٹال دیں ان سے اس عذاب کو (جس کے یہ حق دار ہیں) ایک گنی چنی مدت (یعنی دنیاوی زندگی) تک کے لئے ، تو یہ لوگ (بڑے بے باکانہ اور مزاحیہ انداز میں) کہنے لگتے ہیں کہ آخر کس چیز نے روک رکھا ہے اس کو؟ (وہ آتا کیوں نہیں ؟) سو آگاہ رہو کہ جس دن وہ ان پر آن پہنچے گا تو اس کو ان سے پھیرا نہ جائے گا، اور اپنے گھیرے میں لے کر رہے گا ان کو وہی کچھ جس کا یہ مذاق اڑایا کرتے تھے

۹۔۔۔     اور انسان (کی تنگ ظرفی کا عالم یہ ہے کہ اس) کو اگر ہم چکھا دیں اپنی طرف سے کوئی رحمت، پھر ہم اس کو چھین لیں اس سے ، تو یہ بالکل مایوس (و نا امید اور) سخت ناشکر ہو جاتا ہے ،

۱۰۔۔۔     اور اگر (اس کے برعکس) ہم اس کو چکھا دیں کوئی نعمت کسی ایسی تکلیف کے بعد جو اس کو پہنچ چکی ہو، تو یہ (پھول کر) کہنے لگتا ہے کہ دور ہو گئیں مجھ سے سب برائیاں ، بے شک یہ بڑا ہی اترانے والا اور شیخی باز ہے ،

۱۱۔۔۔     بجز ان لوگوں کے جو کام لیتے ہیں صبر (و استقامت) سے ، اور وہ کام بھی نیک کرتے ہیں سو ایسوں کے لئے ایک عظیم الشان بخشش بھی ہے ، اور بہت بڑا اجر بھی،

۱۲۔۔۔     تو کیا آپ چھوڑ دیں گے کچھ حصہ اس وحی کا جو کچھ بھیجی جاتی ہے آپ کی طرف (اے پیغمبر!) اور تنگ ہوتا ہے اس کی بناء پر آپ کا سینہ، کہ (حق و ہدایت کا انکار کرنے والے) یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ کیوں نہیں اتار دیا گیا ان پر (آسمان سے) کوئی خزانہ، یا کیوں نہیں آگیا ان کے ساتھ (ان کی اردل میں رہنے والا) کوئی فرشتہ (سو ایسی باتوں سے آپ دل گیر نہ ہوں کہ آپ کا کام تو صرف خبردار کر دینا ہے اور بس، اور ہر چیز پر پورا اختیار رکھنا تو اللہ ہی کی شان ہے ،

۱۳۔۔۔     کیا یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ پیغمبر نے اس (کتاب حق) کو خود گھڑ لیا ہے ؟ تو (ان سے) کہو کہ اچھا تو پھر تم لوگ بھی بنا لاؤ اس جیسی دس ہی سورتیں من گھڑت، اور بلا لو تم (اپنی مدد کے لئے) جس کو بھی بلا سکتے ہو اللہ کے سوا، اگر تم لوگ سچے ہو (اپنے اعتراض و الزام میں)

۱۴۔۔۔     سو اگر پھر بھی یہ لوگ پورا نہ کر سکیں تمہارے اس چیلنج کو، تو (ان سے کہو کہ اب تو تم) یقین جان لو کہ اس (کتاب حکیم) کو اللہ ہی کے علم سے اتارا گیا ہے ، اور یہ بھی (یقین کر لو) کہ کوئی معبود نہیں سوائے ایک اللہ کے ، تو کیا اب تم لوگ سر تسلیم خم کرتے ہو؟

۱۵۔۔۔     جو کوئی (اپنے اعمال سے دنیا کی زندگی اور اس کی آرائش ہی چاہتا ہے ، تو ایسے لوگوں کو ہم ان کے اعمال کا پورا بدلہ اسی (دنیا) میں دے دیتے ہیں ، اور اس میں ان سے کوئی کمی نہیں کی جاتی،

۱۶۔۔۔     مگر آخرت میں ایسے لوگوں کے لئے آگ کے سوا کچھ نہیں ہو گا، برباد ہو گیا وہ سب کچھ جو انہوں نے دنیا میں بنایا تھا، اور نابود ہو گیا وہ سب کچھ جو یہ لوگ کرتے رہے تھے ،

۱۷۔۔۔     تو کیا وہ شخص جو قائم ہو ایک روشن دلیل پر اپنے رب کی طرف سے ، اس کے بعد (اس کی تائید و تصدیق میں) ایک گواہ بھی اس کے پاس آگیا ہو اس کے رب کی طرف سے ، اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب بھی موجود ہے راہنما اور رحمت کے طور پر، (تو کیا ایسا شخص ان لوگوں کی طرح ہو سکتا ہے جو انکار کرتے ہیں حق کا؟) ایسے لوگ تو اس پر ایمان ہی لائیں گے ، اور ان سب گروہوں میں سے جو بھی کوئی اس (قرآن) کا انکار کرے گا، تو دوزخ ہی (اس کا ٹھکانا اور) اس کے وعدے کی جگہ ہے ، پس تم نے کسی شک میں نہیں پڑنا اس (کتاب) کے بارے میں ، بے شک یہ قطعی طور پر حق ہے تمہارے رب کی جانب سے ، لیکن اکثر لوگ مانتے نہیں ،

۱۸۔۔۔     اور اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے ؟ ایسے لوگوں کو (کل قیامت کے دن) پیش کیا جائے گا ان کے رب کے حضور، اور گواہ کہیں گے کہ یہی ہیں وہ لوگ جنہوں نے جھوٹ گھڑا تھا اپنے رب پر آگاہ رہو کہ اللہ کی لعنت (اور پھٹکار) ہے ایسے ظالموں پر،

۱۹۔۔۔     جو کہ روکتے ہیں اللہ کی راہ سے ، اور اس کی کجی تلاش کرتے ہیں اور وہ آخرت کے منکر ہیں

۲۰۔۔۔     یہ لوگ ایسے نہیں کہ عاجز کر دیں (اللہ کو کہیں بھاگ کر) زمین میں ، اور نہ ہی ان کا کوئی حمایتی (اور مددگار) ہو سکتا ہے اللہ کے سوا، ان کو دوہرا عذاب دیا جائے (ان کے کئے کا) یہ لوگ (شدت عناد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے) نہ تو سن سکتے تھے (پیغام حق و ہدایت کو) اور نہ ہی ان کو خود کچھ سوجھتا (دکھتا) تھا،

۲۱۔۔۔     یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے خود خسارے میں ڈال دیا اپنے آپ کو، اور کھو گیا ان سے وہ سب کچھ جو یہ (زندگی بھر) گھڑتے رہے تھے (مختلف ناموں سے)

۲۲۔۔۔     لازمی (اور یقینی) بات ہے کہ یہ لوگ آخرت (کے اس حقیقی اور ابدی جہاں) میں سب سے زیادہ خسارے (اور گھاٹے) میں ہوں گے ،

۲۳۔۔۔     اس کے برعکس جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے کام بھی نیک کئے ، اور وہ (زندگی بھر دل و جان سے) جھکے رہے اپنے رب کی طرف یہی لوگ ہیں جنتی، جہاں ان (خوش نصیبوں) کو ہمیشہ رہنا نصیب ہو گا

۲۴۔۔۔     مثال ان دونوں فریقوں کی ایسے ہے ، جیسے ایک آدمی اندھا بہرہ ہو، اور دوسرا دیکھنے سننے والا، کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ کیا پھر بھی تم لوگ سبق نہیں لیتے ؟

۲۵۔۔۔     اور بلاشبہ ہم ہی نے بھیجا نوح کو (رسول بنا کر) ان کی قوم کی طرف، (تو انہوں نے ان سے کہا کہ) بے شک میں تم لوگوں کے لئے خبردار کرنے والا ہوں کھول کر (حق اور حقیقت کو)

۲۶۔۔۔     کہ تم لوگ بندگی مت کرو مگر صرف ایک اللہ کی مجھے سخت اندیشہ ہے تمہارے بارے میں ایک بڑے ہی دردناک دن کے عذاب کا،

۲۷۔۔۔     اس کے جواب میں آپ کی قوم کے کافر سرداروں نے کہا کہ ہم تو تم کو اپنے ہی جیسا ایک بشیر (اور انسان) دیکھتے ہیں ، اور ہمیں تمہاری پیروی کرنے والے بھی بس وہی لوگ نظر آ رہے ہیں ، جو کہ ہم میں سب سے گھٹیا ہیں ، وہ بھی محض سرسری نظر سے ، اور ہمیں اپنے مقابلے میں تمہاری لئے کوئی بڑائی نظر نہیں آتی، بلکہ ہم تو تمہیں جھوٹا سمجھتے ہیں ،

۲۸۔۔۔     نوح نے کہا کہ اے میری قوم، ذرا سوچو تو سہی، کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک کھلی دلیل پر قائم ہوں ، اور اس نے مجھے اپنے یہاں سے ایک خاص رحمت بھی عنایت فرما رکھی ہو، مگر وہ تم کو نظر نہ آتی ہو، تو (اس میں میرا کیا قصور؟) کیا ہم اسے تم پر چپکا دیں گے ؟ جب کہ تم لوگ اس سے برابر نفرت ہی کئے جاؤ؟

۲۹۔۔۔     اور اے میری قوم، میں تم سے اس کام پر کوئی مال نہیں مانگتا، میرا اجر تو اللہ ہی کے ذمے ہے ، اور میں ان لوگوں کو دور کرنے سے بھی رہا جو ایمان لا چکے ہیں ، انہوں نے یقیناً اپنے رب سے ملنا ہے ، لیکن میں تمہیں ایسا دیکھتا ہوں کہ تم لوگ قطعی طور پر جہالت برت رہے ہو،

۳۰۔۔۔     اور اے میری قوم، کون میری مدد کرے گا اللہ کے مقابلے میں ، اگر میں ان کو دور کر دوں ؟ کیا تم لوگ اتنا بھی نہیں سمجھتے ،

۳۱۔۔۔     اور میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں ، اور نہ ہی میں غیب جانتا ہوں ، اور نہ ہی میرا یہ دعویٰ ہے کہ میں کوئی فرشتہ ہوں ،  اور نہ ہی میں ان لوگوں کے بارے میں جن کو تمہاری نگاہیں حقارت سے دیکھتی ہیں ، یہ کہہ سکتا ہوں کہ اللہ ان کو کوئی بھلائی نہیں دے گا، اللہ خوب جانتا ہے اس چیز کو جو کہ ان لوگوں کے دلوں میں ہے ، بے شک ایسی صورت میں ، میں قطعی طور پر ظالموں میں سے ہو جاؤں گا،

۳۲۔۔۔     اس کے جواب میں ان لوگوں نے کہا کہ اے نوح تم نے ہم سے جھگڑا کر لیا، پس اب تم لے آؤ ہم پر وہ عذاب جس کی دھمکی تم ہمیں دے رہے ہو اگر تم سچوں میں سے ہو

۳۳۔۔۔     تو اس پر نوح نے فرمایا کہ اس کو اللہ ہی لائے گا اگر (اور جب) اس نے چاہا، اور تم ایسے نہیں ہو کہ (اس کو) عاجز کر دو،

۳۴۔۔۔     اور (تمہارے اس تکبر و عناد کی وجہ سے اب) میری نصیحت تمہیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتی، خواہ میں تم کو کتنی ہی نصیحت کرنا چاہوں ، جب کہ اللہ کو تمہارا گمراہ کرنا ہی منظور ہو، وہی رب ہے تم سب کا، اور اسی کی طرف (بہرحال) لوٹ کر جانا ہے تم سب کو،

۳۵۔۔۔     کیا یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ اس شخص نے اس (قرآن) کو خود ہی گھڑ لیا ہے ، تو (ان سے) کہو کہ اگر میں نے اس کو خود گھڑ لیا ہے تو میرے جرم کی ذمہ داری مجھ پر ہے اور میں اس جرم سے بری ہوں جو تم لوگ کر رہے ہو،

۳۶۔۔۔     اور وحی کر دی گئی نوح کی طرف اس بات کی کہ اب کوئی ایمان نہیں لائے گا آپ کی قوم میں سے مگر وہی جو ایمان لا چکے (اس سے پہلے) پس اب تم غم نہیں کھانا ان کے ان کرتوتوں پر جو یہ لوگ کرتے چلے آ رہے ہیں

۳۷۔۔۔     اور تم بناؤ ایک (عظیم الشان) کشتی ہماری نگرانی میں ، اور ہماری وحی کے مطابق، اور ان لوگوں کے بارے میں مجھ سے کوئی بات نہ کرنا جو اڑے رہے اپنے ظلم (اور کفر و انکار) پر، کہ انہوں نے بہرحال غرق ہو کر رہنا ہے

۳۸۔۔۔     اور (حسب ارشاد خداوندی) نوح اس کشتی کے بنانے میں لگ گئے ، تو ان کی قوم کے سرداروں میں سے کوئی ان کے پاس سے گزرتا تو ان کا مذاق اڑاتا، نوح کہتے کہ اگر (آج) تم ہمارا مذاق اڑاتے ہو تو (کوئی بات نہیں ، کہ کل) ہم بھی اسی طرح تمہارا مذاق اڑائیں گے جس طرح کہ تم ہمارا مذاق اڑا رہے ہو

۳۹۔۔۔     سو اس وقت تمہیں خود معلوم ہو جائے گا کہ کس پر آتا ہے وہ عذاب جو رسوا کر دے گا اس کو، اور کس پر اترتا ہے وہ عذاب جو ہمیشہ مسلط رہے گا اس کے سر پر،

۴۰۔۔۔      (یہ معاملہ اسی طرح چلتا رہا) یہاں تک کہ جب آ پہنچا ہمارا حکم اور ابل پڑا وہ تنور، تو ہم نے (نوح سے) کہا کہ رکھ دو اس (کشتی) میں ہر قسم کے جانوروں میں سے ایک ایک جوڑا، اور اپنے گھر والوں کو بھی، سوائے اس کے جن کے متعلق فیصلہ ہو چکا ہے ، اور ان سب لوگوں کو بھی (اس میں سوار کر دو) جو ایمان لا چکے ہیں ، اور ان پر ایمان بھی تھوڑے سے لوگ ہی لائے تھے ،

۴۱۔۔۔     اور کہا نوح نے (اپنے پیروکاروں سے) کہ سوار ہو جاؤ تم سب اس کشتی میں ، اللہ ہی کے نام سے ہے اس کا چلنا بھی، اور اس کا ٹھہرنا بھی بلاشبہ میرا رب بڑا ہی بخشنے والا، نہایت ہی مہربان ہے

۴۲۔۔۔     اور وہ (کشتی) چلی جا رہی تھی ان سب کو لے کر پہاڑوں جیسی موجوں کے درمیان، اور نوح نے اپنے بیٹے کو پکار کر کہا جب کہ وہ دور ایک فاصلے پر تھا کہ اے میرے بیٹے سوار ہو جا تو ہمارے ساتھ (اس کشتی میں) اور مت ساتھ رہ تو ان کافروں کے (جنہوں نے غرق ہونا ہے)

۴۳۔۔۔     تو اس نے جواب میں کہا کہ میں ابھی کسی ایسے پہاڑ کی پناہ لے لیتا ہوں ، جو مجھے بچا لے گا اس پانی سے نوح نے فرمایا آج کوئی بھی چیز اللہ کے حکم سے نہیں بچا سکے گی، مگر جس پر وہ خود ہی رحم فرما دے ، اتنے میں حائل ہو گئی ان دونوں کے درمیان ایک موج، جس سے وہ ہو گیا غرق ہونے والوں میں سے ،

۴۴۔۔۔     اور (ان سب کفار کی غرقابی کے بعد) حکم ہوا کہ اے زمین تو نگل لے اپنا پانی اور اے آسمان تو تھم جا، چنانچہ خشک کر دیا گیا وہ پانی، اور چکا دیا گیا معاملہ، اور ٹک گئی وہ کشتی کوہ جودی پر، اور کہہ دیا گیا کہ بڑی دوری (اور پھٹکار) ہے ظالم لوگوں کے لئے ،

۴۵۔۔۔     اور (بیٹے کی غرقابی سے قبل) نوح نے اپنے رب کو پکار کر، عرض کیا کہ اے میرے رب میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے اور یقیناً تیرا وعدہ بھی سچا ہے ، اور تو ہی ہے سب حاکموں سے بڑا حاکم،

۴۶۔۔۔     جواب میں ارشاد ہوا کہ اے نوح، وہ تمہارے گھر والوں میں سے نہیں ہے ، کیونکہ اس کے عمل اچھے نہیں ہیں ، پس تم مجھ سے اس بات کی درخواست نہ کرو جس کی حقیقت کا تمہیں علم نہیں ، میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ مبادا کہیں تم جاہلوں میں سے ہو جاؤ،

۴۷۔۔۔     عرض کیا، اے میرے رب، میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں تجھ سے وہ چیز مانگوں جس کا مجھے کوئی علم نہ ہو، اور اگر تو نے میری بخشش نہ فرمائی (اے میرے رب!) اور مجھ پر رحم نہ فرمایا، تو میں ہو جاؤں گا خسارہ (نقصان) اٹھانے والوں میں سے ،

۴۸۔۔۔     ارشاد ہوا، اے نوح، اتر جاؤ، تم اس حال میں کہ ہماری طرف سے سلامتی اور برکتیں ہوں تم پر بھی، اور ان سب گروہوں پر بھی جو تمہارے ساتھ ہیں ، اور تمہارے بعد والوں میں کچھ گروہ ایسے بھی ہوں گے کہ انہیں ہم کچھ مدت تک تو سامان زندگی برابر بخشتے رہیں گے ، مگر پھر (ان کے کفر و عناد کے سبب) ان کو پہنچ کر رہے گا ہماری طرف سے ایک بڑا ہی دردناک عذاب،

۴۹۔۔۔     یہ (قصہ) غیب کی ان خبروں میں سے ہے جن کی ہم وحی کرتے ہیں آپ کی طرف (اے پیغمبر! ورنہ) اس سے پہلے نہ تو آپ ان کو جانتے تھے اور نہ ہی آپ کی قوم، پس آپ صبر ہی سے کام لیتے رہیں کہ انجام کار (کامیابی) بہرحال پرہیزگاروں ہی کے لئے ہے ،

۵۰۔۔۔     اور عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو بھی، (ہم نے رسول بنا کر بھیجا) انہوں نے بھی یہی کہا کہ اے میری قوم، اللہ ہی کی بندگی کرو تم سب، کہ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ، (اور غیر اللہ کی بندگی میں تو) تم لوگ محض جھوٹ گھڑنے والے ہو،

۵۱۔۔۔     اے میری قوم! میں (تبلیغ کے) اس کام پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا، میرا اجر تو بس اسی ذات (اقدس) کے ذمے ہے جس نے مجھے پیدا فرمایا ہے ، کیا پھر بھی تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے ؟

۵۲۔۔۔     اور اے میری قوم کے لوگو! تم سب بخشش مانگو اپنے رب سے ، پھر (سچے دل سے) اس کی طرف رجوع کرو، وہ تم پر آسمان کے دھانے کھول دے گا (موسلا دھار بارش کے لئے) اور تمہاری موجودہ قوت میں مزید قوت کا اضافہ فرمائے گا، اور مت پھرو تم لوگ (اس پیغام حق سے) مجرم بن کر

۵۳۔۔۔     ان لوگوں نے جواب دیا اے ھود، تم ہمارے پاس کوئی معجزہ لے کر نہیں آئے اور ہم محض تمہارے کہنے پر چھوڑنے والے نہیں ہیں اپنے معبودوں کو، اور نہ ہی ہم تمہاری بات ماننے والے ہیں

۵۴۔۔۔     ہم تو یہی کہتے ہیں کہ تم پر مار پڑ گئی ہے ہمارے معبودوں میں سے کسی کی، ہود نے فرمایا میں اللہ کو گواہ بناتا ہوں اور خود تم سب بھی گواہ رہو کہ میں ان تمام چیزوں سے قطعی طور پر بری اور بیزار ہوں جن کو تم لوگ شریک ٹھہراتے ہو (اس وحدہٗ لاشریک کا)

۵۵۔۔۔     اس کے سوا، پس تم سب ملک کر مجھ پر اپنا داؤ چلا لو، اور مجھے ذرہ بھی مہلت مت دو،

۵۶۔۔۔     میں نے تو اس اللہ پر بھروسہ کر رکھا ہے جو رب ہے میرا بھی اور تمہارا بھی کوئی جاندار ایسا نہیں جس کی چوٹی اس کے ہاتھ میں نہ ہو ابے شک میرا رب سیدھے راستے پر (چلنے سے ہی مل سکتا) ہے

۵۷۔۔۔     پھر بھی اگر تم لوگوں نے منہ پھیرے ہی رکھا تو (میں بری ہوں ، کیونکہ) میں نے پوری طرح پہنچا دیا تم لوگوں کو وہ پیغام جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا ہے تمہاری طرف، اور میرا رب لا بسائے گا تمہاری جگہ کسی اور قوم کو، اور تم لوگ اس کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکو گے ، بلاشبہ میرا رب ہر چیز پر نگہبان ہے ،

۵۸۔۔۔     اور (آخر کار) جب آ پہنچا ہمارا حکم تو ہم نے بچا لیا ہود کو، اور ان سب لوگوں کو جو ایمان لائے تھے ، آپ کے ساتھ اپنی خاص رحمت سے ، اور بچا لیا ہم نے ان سب کو ایک بڑے ہی سخت عذاب سے

۵۹۔۔۔     اور یہ عاد ہیں جنہوں نے کفر کیا اپنے رب کے ساتھ، اور انہوں نے نافرمانی کی اس کے رسولوں کی اور پیچھے لگے رہے وہ ہر بڑے ظالم ہٹ دھرم کے ،

۶۰۔۔۔     اور (اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ) ان کے پیچھے لگا دی گئی لعنت اس دنیا میں بھی، اور قیامت کے روز بھی سن لو! عاد نے کفر کیا اپنے رب کے ساتھ، پھر سن لو! کہ عاد کو جو کہ ہود کی قوم تھی بہت دور پھینک دیا گیا اللہ تعالیٰ کی رحمت سے

۶۱۔۔۔     اور (اسی طرح ہم نے بھیجا قوم ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو، سو انہوں نے بھی یہی کیا کہ اے میری قوم کے لوگو! تم بندگی کرو اللہ ہی کی، کہ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ، اسی نے پیدا فرمایا تم سب کو زمین سے اور تم کو بسایا اس میں ، پس تم بخشش مانگو اس سے (اپنے کفر و شرک وغیرہ کی) اور لوٹ آؤ تم اس طرف (صدق دل سے ایمان لا کر) بے شک میرا رب بڑا قریب بھی ہے ، اور قبول کرنے والا بھی،

۶۲۔۔۔     اس کے جواب میں ان لوگوں نے کہا اے صالح، تو تو اس سے پہلے ہمارے درمیان امیدوں کا مرکز تھا، کیا تم ہمیں ان چیزوں کی پوجا (و پرستش) سے روکتے ہو جن کی پوجا (و پرستش) ہمارے باپ دادا کرتے آئے ہیں ؟ بے شک ہم اس دین کے بارے میں ایک بڑے خلجان انگیز شک میں مبتلا ہیں ، جس کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہو

۶۳۔۔۔     صالح نے ان سے فرمایا اے میری قوم کے لوگو، ذرا سوچو تو سہی کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل پر قائم ہو ں ، اور (مزید یہ کہ) اس نے مجھے اپنی ایک خاص رحمت سے بھی نوازا ہو تو پھر (تم ہی بتاؤ کہ) مجھے کون بچا سکے گا اللہ (کی گرفت و پکڑ) سے اگر میں اس کی نافرمانی کروں ؟ پس تم لوگ تو میرے لئے خسارے (اور نقصان) کے سوا کسی چیز کا اضافہ نہیں کرتے

۶۴۔۔۔     اور ہاں اے میری قوم! یہ اللہ کی اونٹنی ہے تمہارے لئے ایک بڑی نشانی کے طور پر، پس تم اسے چھوڑ دینا کہ یہ (آزادانہ) کھاتی (اور چرتی پھرتی) رہے اللہ کی زمین میں ، اور اسے کوئی تکلیف نہ پہنچانا کہ پھر تمہیں آ پکڑے قریب ہی کا ایک بڑا عذاب،

۶۵۔۔۔     مگر انہوں نے پھر بھی اس کے پاؤں کاٹ ڈالے ، اس پر صالح نے ان سے کہا کہ تم لوگ رہ بس لو اپنے گھروں میں تین دن (اور بس)، یہ ایک ایسا وعدہ ہے جس میں جھوٹ کا کوئی شائبہ نہیں ،

۶۶۔۔۔     پھر جب آ پہنچا ہمارا حکم، تو ہم نے بچا لیا صالح کو، اور ان سب کو جو ایمان لائے تھے ان کے ساتھ، اپنی خاص رحمت سے اور (محفوظ رکھا ان کو اس عذاب اور) اس دن کی رسوائی سے ، بے شک تمہارا رب ہی ہے قوت والا، سب پر غالب

۶۷۔۔۔     اور دھر لیا ان سب لوگوں کو جو اڑے ہوئے تھے اپنے ظلم پر ایک ایسی ہولناک آواز نے جس سے وہ سب اپنے گھروں میں (ایسے بے حس و حرکت) اوندھے پڑے رہ گئے تھے

۶۸۔۔۔     جیسے وہ کبھی ان میں رہے بسے ہی نہ تھے ، آگاہ رہو کہ ثمود نے کفر کیا اپنے رب سے ، آگاہ ہو کہ بڑی دوری (اور پھٹکار) ہے ثمود کے لئے ،

۶۹۔۔۔     اور بلاشبہ آ گئے ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس (بچے کی) وہ عظیم الشان خوشخبری لے کر، اور انہوں نے سلام کیا، ابراہیم نے جواب میں کہا کہ تم پر بھی سلام ہو، پھر کچھ دیر نہ گزری تھی کہ آپ لے آئے ایک بھنا ہوا بچھڑا (ان کی ضیافت کے لئے)

۷۰۔۔۔     مگر جب آپ نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں بڑھ رہے ، تو آپ نے ان کو اجنبی سمجھ کر اپنے دل میں ایک خوف سا محسوس کیا، تب انہوں نے کہا ڈرو نہیں ، ہمیں تو دراصل (آپ کی طرف نہیں ، بلکہ) قوم لوط کی طرف (ان کو عذاب دینے کے لئے) بھیجا گیا ہے

۷۱۔۔۔     اور ابراہیم کی بیوی بھی جو (پاس ہی کہیں) کھڑی تھیں اس پر ہنس پڑیں ، تو ہم نے انہیں خوشخبری دی اسحاق کی، اور اسحاق کے بعد یعقوب کی،

۷۲۔۔۔     اس پر وہ (تعجب سے) بول اٹھیں ہائے میری کم بختی! کیا میں بوڑھی ہو کر بچہ جنوں گی؟ جب کہ میرے میاں بھی اتنے بوڑھے ہو چکے ہیں ، یہ تو واقعی ایک بڑی ہی عجیب سی بات ہے ،

۷۳۔۔۔     فرشتوں نے کہا کیا تم تعجب کرتی ہو اللہ کے حکم سے ؟ حالانکہ اللہ کی رحمت اور اس کی (طرح طرح کی) برکتیں تم پر، اے نبی کے گھر والو، (برابر برستی) رہتی ہیں ، بلاشبہ وہ تعریف کے لائق اور بڑی ہی اونچی شان والا ہے ،

۷۴۔۔۔     پھر جب جاتی رہی ابراہیم سے وہ گھبراہٹ، اور پہنچ گئی ان کے پاس یہ خوشخبری، تو انہوں نے ہم سے جھگڑنا شروع کر دیا قوم لوط کے بارے میں ،

۷۵۔۔۔     واقعی ابراہیم بڑے ہی بردبار، نرم دل، اور ہماری طرف رجوع رہنے والے تھے ،

۷۶۔۔۔      (فرشتوں نے ان سے کہا) اے ابراہیم، اب جانے دو اس قصے کو، کہ اب بہرحال آ کر رہنا ہے ان لوگوں پر ایک ایسے ہولناک عذاب نے جس کے ٹلنے کی اب کوئی صورت نہیں ،

۷۷۔۔۔     اور جب پہنچ گئے ہمارے فرشتے لوط کے پاس (اپنی اصل مہم کی انجام دہی کے لئے) تو وہ بہت غمگین ہوئے ان کی (آمد کی) بناء پر، اور ان کا دل سخت تنگ ہو گیا ان کی وجہ سے ، اور انہوں نے کہا کہ یہ بڑا ہی سخت دن ہے

۷۸۔۔۔     اور آ پہنچے ان کی قوم کے (بد اطوار) لوگ دوڑتے ہوئے رسیاں توڑ کر، اور وہ پہلے سے ہی ارتکاب کرتے تھے ایسی برائیوں کا، تو لوط نے (ان سے) کہا اے میری قوم (کے لوگو!) یہ میری بیٹیاں موجود ہیں ، جو تمہارے لئے ہر لحاظ سے پاکیزہ ہیں پس تم ڈرو اللہ سے ، اور مجھے رسوا مت کرو میرے مہمانوں کے بارے میں ، کیا تم میں کوئی بھی بھلا آدمی نہیں ؟

۷۹۔۔۔     ان لوگوں نے اس کے جواب میں کہا، آپ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ہمیں آپ کی بیٹیوں سے کوئی غرض نہیں ، اور آپ یہ بھی خوب جانتے ہیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں ؟

۸۰۔۔۔     اس پر لوط نے کہا، کاش کہ میرے پاس تمہارے مقابلے کی طاقت ہوتی یا ایسا کوئی مضبوط سہارا ہوتا، جس کی پناہ لے لیتا

۸۱۔۔۔     تب فرشتوں نے (اپنی حقیقت ظاہر کرتے ہوئے) کہا کہ اے لوط ہم تو تیرے رب کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں ، یہ لوگ (ہمارا کیا بگاڑتے یہ تو) آپ تک بھی پہنچنے نہیں پائیں گے ، پس آپ رات کا کچھ حصہ رہتے اپنے لوگوں کو لے کر (یہاں سے اس طرح) نکل جائیں ، کہ تم میں سے کوئی پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھے ، سوائے تمہاری بیوی کے ، کہ اس پر بھی وہی بلا آنے والی ہے جو کہ ان لوگوں پر آنے والی ہے ، ان کی تباہی کا وقت صبح ہے ، کیا صبح کا وقت نزدیک نہیں ہے ؟

۸۲۔۔۔     پھر جب (حسب وعدہ) آ پہنچا ہمارا حکم تو ہم نے پلٹ کر کے رکھ دیا اس بستی کو، اور تابڑ توڑ برسا دئے اس پر ایسے پتھر کھنگر کے

۸۳۔۔۔     جن پر خاص نشان لگے ہوئے تھے تمہارے رب کے یہاں سے ، اور وہ بستیاں (دور حاضر کے) ان ظالموں سے کچھ زیادہ دور نہیں ہیں ،

۸۴۔۔۔     اور مدین والوں کی طرف ان کے بھائی شعیب کو (بھی ہم نے رسول بنا کر بھیجا)، انہوں نے بھی یہی کہا کہ اے میری قوم، اللہ کی بندگی کرو کہ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ، اور یہ کہ تم لوگ کمی نہ کرو ناپ اور تول میں ، بے شک میں تم کو بڑے اچھے حال میں دیکھ رہا ہوں (پھر اس دھوکہ بازی کی تمہیں کیا ضرورت؟) مجھے تمہارے بارے میں ایک ایسے دن کے عذاب کا ڈر ہے ، جو (تمہیں ہر طرف سے) گھیر لے گا،

۸۵۔۔۔     اور اے میری قوم کے لوگوں ! پورا کرو تم ناپ اور تول کو انصاف کے ساتھ، اور کم کر کے مت دو تم لوگوں کو ان کی چیزیں ، اور مت پھرو تم لوگ (اللہ کی) زمین میں فساد مچاتے ہوئے ،

۸۶۔۔۔     اللہ کی دی ہوئی بچت تمہارے لئے بہرحال بہتر ہے ، اگر تم ایماندار ہو، اور میں تم پر کوئی نگران کار نہیں ہوں ،

۸۷۔۔۔     ان لوگوں نے اس کے جواب میں کہا، اے شعیب کیا تمہاری نماز تمہیں یہی کچھ سکھاتی ہے کہ ہم چھوڑ دیں ان چیزوں کو جن کی پوجا (و پرستش) کرتے چلے آئے ہیں ہمارے باپ، دادا؟ یا یہ کہ ہم اپنے مالوں میں اپنی منشا کے مطابق تصرف نہ کریں ؟ (بلکہ ان پر تمہاری ہی بات چلے کہ) بس تم ہی تم ہو ایک بڑے عالی ظرف اور راستباز انسان (اور بس؟)

۸۸۔۔۔     شعیب نے فرمایا، بھائیو، ذرا غور تو کرو کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک کھلی شہادت پر قائم ہوں ، اور اس نے اپنے یہاں سے مجھے ایک عمدہ دولت سے بھی نواز رکھا ہو، (تو پھر میں کیسے حق نہ کہوں ؟)  اور میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ تمہارے برخلاف خود وہ کام کرنے لگوں جن سے تم کو روکتا ہوں ، میں تو بس اصلاح کرنا چاہتا ہوں جہاں تک مجھ سے ہو سکے ، اور مجھے (اس کام کی) توفیق بھی اللہ ہی کی مدد سے ہوتی ہے ، میں نے اسی پر بھروسہ کر رکھا ہے ، اور میں اپنے ہر کام میں رجوع بھی اسی کی طرف کرتا ہوں

۸۹۔۔۔     اور اے برادران قوم کہیں میر ضدی تمہیں اس حد تک نہ پہنچا دے ، کہ تم پر بھی وہی عذاب آ کر رہے جو (اس سے پہلے) قوم نوح، قوم ہود اور قوم صالح پر آ چکا ہے ، اور قوم لوط تو تم سے کچھ زیادہ دور بھی نہیں ،

۹۰۔۔۔     اور معافی مانگو تم سب اپنے رب سے (اپنے گزشتہ کئے کرائے کی) پھر اسی کی طرف رجوع کرو (اپنے آئندہ کے لئے) بے شک میرا رب بڑا ہی مہربان نہایت ہی محبت رکھنے والا ہے (اپنی مخلوق سے ،)

۹۱۔۔۔     انہوں نے جواب دیا اے شعیب، تمہاری بہت سی باتیں تو ہماری سمجھ میں ہی نہیں آتیں ، اور ہم تجھے اپنے درمیان بالکل ہی کمزور پاتے ہیں اور اگر تیرے خاندان کا پاس نہ ہوتا تو ہم نے تجھے کبھی کا سنگسار کر (کے ختم کر) دیا ہوتا، کہ تم تو ہمارے اوپر کچھ بھاری نہیں ہو

۹۲۔۔۔     شعیب نے فرمایا اے میری قوم! کیا میرا خاندان تم لوگوں پر اللہ سے بھی زیادہ بھاری ہے ؟ (کہ اس کا تو تمہیں خوف ہے مگر میرے) اللہ کو تم نے بالکل پس پشت ڈال دیا ہے ؟ یقین رکھو کہ میرا رب ان سب کاموں کو پوری طرح قابو میں رکھے ہوئے ہے جو تم لوگ کر رہے ہو

۹۳۔۔۔     اور اے میری قوم (اب آخری بات یہ ہے کہ) تم اپنے طریقے سے کام کئے جاؤ میں اپنے طریقے پر کر رہا ہوں ، جلد ہی تمہیں خود معلوم ہو جائے گا کہ کس پر آتا ہے وہ عذاب جو اس کو رسوا کر کے رکھ دے ، اور کون ہے وہ جو جھوٹا ہے ، تم بھی انتظار کرو اور میں بھی تمہارے ساتھ چشم براہ ہوں

۹۴۔۔۔     اور (آخر کار) جب آ پہنچا ہمارا حکم تو ہم نے بچا لیا شعیب کو اور ان سب کو جو ایمان لائے تھے ان کے ساتھ اپنی خاص رحمت سے ، اور آ پکڑا ان لوگوں کو جو اڑے ہوئے تھے اپنے ظلم پر، ایک ایسی ہولناک آواز نے جس سے وہ اوندھے پڑے رہ گئے اپنے گھروں میں (اور ان کا ایسا صفایا ہو گیا)

۹۵۔۔۔     گویا کہ وہ ان میں کبھی رہے بسے ہی نہیں تھے ، سن لو! دوری (اور پھٹکار) ہوئی مدین والوں کے لئے جیسا کہ دوری (اور پھٹکار) ہوئی تھی ثمود کے لئے ،

۹۶۔۔۔     اور بلاشبہ ہم ہی نے بھیجا موسیٰ کو اپنی نشانیوں اور کھلی سند کے ساتھ،

۹۷۔۔۔     فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف، مگر ان لوگوں نے (اس کے باوجود) فرعون ہی کے حکم کی پیروی کی، حالانکہ فرعون کا حکم راستی کا نہ تھا،

۹۸۔۔۔     قیامت کے روز وہ آگے آگے ہو گا اپنی قوم کے ، یہاں تک کہ وہ ان کو اتار کر چھوڑے گا دوزخ میں ، بڑا ہی برا ہے وہ گھاٹ جس پر اتارا گیا ہو گا ان لوگوں کو

۹۹۔۔۔     اور پیچھے لگا دی گئی ان کے لعنت اس (دنیاوی زندگی) میں بھی، اور قیامت کے دن بھی، بڑا ہی برا ہے وہ انعام جو دیا گیا ان (بد بختوں) کو

۱۰۰۔۔۔     یہ کچھ حالات ہیں ان ان بستیوں کے جو ہم سناتے ہیں آپ کو (اے پیغمبر!) ان میں سے کچھ تو اب تک کھڑی ہیں ، اور کچھ کی فصل کٹ چکی ہے ،

۱۰۱۔۔۔     اور ہم نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا تھا مگر وہ لوگ خود ہی ظلم کر رہے تھے اپنی جانوں پر، سو ان کے کچھ بھی کام نہ آ سکے ان کے وہ (خود ساختہ اور من گھڑت) معبود، جن کو یہ لوگ (پوجا اور) پکارا کرتے تھے اللہ کے سوا، جب کہ آ پہنچا حکم تمہارے رب کا، اور انہوں نے ان کے لئے کچھ اضافہ نہ کیا سوائے ہلاکت و بربادی کے ،

۱۰۲۔۔۔     اور ایسی ہی ہوتی ہے پکڑ تمہارے رب کی جب کہ وہ پکڑتا ہے بستیوں کو، ان کے ظلم پر یقیناً اس کی پکڑ بڑی ہی دردناک نہایت ہی سخت ہوتی ہے ،

۱۰۳۔۔۔     بلا شبہ اس میں بڑی بھاری نشانی ہے ہر اس شخص کے لئے جو ڈرتا ہے آخرت کے عذاب سے ، یہ وہ ہولناک دن ہو گا، جس میں جمع کیا جائے گا سب لوگوں کو اور یہ وہ دن ہو گا جس میں پیشی ہو گی ہر کسی کی،

۱۰۴۔۔۔     اور اس کو ہم مؤخر نہیں کر رہے مگر ایک گنی چنی مدت کے لئے ،

۱۰۵۔۔۔     جس دن وہ آ پہنچے تو کوئی بات بھی نہیں کر سکے گا، مگر اس کے اذن سے ، پھر کچھ لوگ بد بخت ہوں گے ، اور کچھ نیک بخت ہوں گے

۱۰۶۔۔۔     سو جو بد بخت ہوں گے وہ دوزخ میں پڑے چلاتے اور دھاڑیں مار رہے ہوں گے ،

۱۰۷۔۔۔     ان کو اس میں ہمیشہ رہنا ہو گا جب تک کہ آسمان و زمین قائم ہیں مگر یہ کہ تمہارا رب ہی کچھ اور چاہے ، بے شک تمہارا رب جو چاہے کر ڈالنے والا ہے ،

۱۰۸۔۔۔     رہے وہ لوگ جو نیک بخت نکلیں گے تو وہ (خوش نصیب) جنت میں ہوں گے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے جب تک کہ زمین اور آسمان قائم ہیں مگر یہ کہ تمہارا رب ہی کچھ اور چاہے (کہ اسے ہر چیز کا پورا اختیار ہے) ایک ایسی عظیم الشان بخشش کے طور پر، جو کبھی ختم نہ ہو گی

۱۰۹۔۔۔     پس تم کسی شک میں نہیں رہنا ان چیزوں کے بارے میں جن کی پوجا یہ لوگ کر رہے ہیں ، یہ تو بس (لکیر کے فقیر بنے) ویسے ہی ان کی پوجا پاٹ کئے جار ہے ہیں جس طرح کہ ان کے باپ دادا کرتے چلے آئے ہیں اس سے پہلے ، اور یقیناً ہم ان کو پورا پورا دیں گے ان کا حصہ بغیر کسی کاٹ کسر کے

۱۱۰۔۔۔     اور بلاشبہ ہم (اسی طرح اس سے پہلے) موسیٰ کو بھی دے چکے ہیں وہ کتاب سو اس میں بھی اختلاف کیا گیا، اور اگر پہلے سے طے نہ ہو چکی ہوتی ایک بات تمہارے رب کی طرف سے تو یقیناً ان کے درمیان فیصلہ کبھی کا چکا دیا گیا ہوتا اور بے شک یہ لوگ اس (کتاب مبین کے انکار کی وجہ) سے ایک بڑے ہی خلجان انگیز شک میں پڑے ہیں ،

۱۱۱۔۔۔     اور اس (حقیقت) میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ جتنے بھی ہیں تمہارا رب ان میں سے ایک ایک کو ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے کر رہے گا کہ وہ یقینی طور پر ان کی ان تمام حرکتوں سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں پوری طرح باخبر ہے ،

۱۱۲۔۔۔     پس آپ ثابت قدم رہیں جس طرح کہ آپ کو حکم ہوا ہے (آپ بھی) اور آپ کے وہ سب ساتھی بھی جو پلٹ آئے ہیں (کفر و بغاوت سے ایمان و اطاعت کی طرف) اور تم لوگ حد سے نہ بڑھنا کہ جو بھی کچھ تم کر رہے ہو (اے لوگو!) بے شک وہ اس پر پوری طرح نگاہ رکھے ہوئے ہے

۱۱۳۔۔۔     اور کبھی جھکنا نہیں تم (اے ایمان والو!) ان لوگوں کی طرف جو اڑے ہوئے ہیں اپنے (کفر و باطل اور) ظلم پر، کہ پھر آ پکڑے تم کو دوزخ کی آگ اور اس وقت اللہ کے سوا تمہارا کوئی حمایتی ہو گا اور نہ ہی تمہیں کہیں سے کوئی مدد پہنچ سکے گی،

۱۱۴۔۔۔     اور قائم رکھو تم نماز کو، دن کے دونوں سروں پر بھی، اور رات کے کچھ حصوں میں بھی، بے شک نیکیاں لے جاتی ہیں برائیوں کو، یہ ایک بڑی نصیحت ہے ماننے والوں کے لئے،

۱۱۵۔۔۔     پر آپ صبر ہی سے کام لیتے رہو، بے شک اللہ کبھی ضائع نہیں کرتا اجر نیکوکاروں کا،

۱۱۶۔۔۔     پھر کیوں نہ ہوئے ان قوموں میں جو گزر چکی ہیں تم سے پہلے ایسے اہل خیر، جو روکتے (لوگوں کو) فساد پھیلانے سے زمین میں ، بجز ان تھوڑے سے لوگوں کے ان میں سے جن کو ہم نے بچا لیا (عذاب سے) اور وہ لوگ ظلم پر کمر بستہ تھے وہ پیچھے لگ رہے اپنی انہی عیش پرستیوں کے جن کا سامان ان کو فراوانی کے ساتھ دیا گیا تھا، اور وہ جرائم پیشہ ہی رہے

۱۱۷۔۔۔     اور تمہارا رب ہرگز ایسا نہیں کہ یونہی تباہ کر دے بستیوں کو ناحق طور پر، جب کہ ان کے باشندے اصلاح میں لگے ہوں ،

۱۱۸۔۔۔     اور اگر تمہارا رب چاہتا تو (جبرا) سب لوگوں کو ایک ہی امت بنا دیتا (مگر اس نے بتقاضائے حکمت و ابتلاء ایسا نہیں کیا) اور اب یہ ہمیشہ اختلاف ہی میں رہیں گے

۱۱۹۔۔۔     مگر جن پر رحم فرما دے تمہارا رب (کہ وہی بے راہ روی سے بچ سکیں گے) اور اللہ نے تو ان کو پیدا ہی اسی (آزادی انتخاب و اختیار) کے لئے کیا ہے ، اور پوری ہو گئی ہو گی تمہارے رب کی یہ بات کہ میں ضرور بالضرور بھر کے رہوں گا دوزخ کو جنوں اور انسانوں سب سے ،

۱۲۰۔۔۔     اور یہ جو بھی قصے ہم آپ کو سناتے ہیں (اے پیغمبر!) رسولوں کے حالات میں سے ، یہ وہ کچھ ہے جس سے ہم مضبوط کرتے ہیں آپ کے دل کو، اور آگیا آپ کے پاس ان کے ضمن میں حق (اور حقیقت کا علم) اور ایک عظیم الشان نصیحت اور یاد دہانی ایمانداروں کے لئے ،

۱۲۱۔۔۔     اور کہہ دو ان لوگوں سے جو ایمان نہیں لاتے (اس سب کے باوجود) کہ تم لوگ کام کرتے رہو اپنے طریقے پر، ہم کام کئے جا رہے ہیں اپنے طریقے پر،

۱۲۲۔۔۔     اور تم بھی انتظار کرو (نتیجہ و انجام کا) ہم بھی منتظر ہیں ،

۱۲۳۔۔۔     اور اللہ ہی کے لئے ہیں سب غیب آسمانوں کے بھی اور زمین کے بھی، اور اسی کی طرف لوٹایا جاتا ہے معاملہ سب کا سب، پس تم بندگی بھی اسی کی کرو، اور بھروسہ بھی اسی پر رکھو، اور تمہارا رب کچھ بے خبر نہیں ان کاموں سے جو تم لوگ کر رہے ہو،

تفسیر

 

۲۔۔۔     سو یہ اس کتاب حکیم کا بنیادی پیغام اور مرکزی مضمون ہے کہ عبادت و بندگی اللہ وحدہٗ لاشریک ہی کی بجا لائی جائے کہ معبودِ برحق بہرحال وہی اور صرف وہی ہے۔ اور ہر قسم کی عبادت و بندگی اسی کا اور صرف اسی کا حق ہے۔ ہر پیغمبر نے ہمیشہ اسی کی تعلیم و تلقین فرمائی ہے، اور ان کو اسی پیغام کے ساتھ بشیر و نذیر بنا کر بھیجا گیا یعنی جو اس پیغام حق و ہدایت کو قبول کریں گے ان کے لئے اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و کرم اور رحمت و عنایت کی بشارت ہے، اور جو اس سے اعراض و روگردانی کریں گے ان کے لئے بڑا ہی دردناک عذاب ہے سو ہر پیغمبر کو انذار و تبشیر کے اسی فریضہ کی ادائے گی کا حکم و ارشاد فرمایا گیا ہے۔

۳۔۔۔     ۱: سو اس سے بشارت کے پہلو کو واضح فرمایا گیا ہے یعنی یہ کہ تم لوگ استغفار اور توبہ کے طریقے کو اپناؤ تو اللہ تعالیٰ تم کو ایک معین مدت تک اس دنیا میں بھی اپنی نعمتوں سے نوازے گا، اور ہر مستحق فضل کو اس کا فضل بھی عطا فرمائے گا۔ سو اس ارشاد سے توبہ کی حقیقت کو بھی ظاہر اور واضح فرما دیا گیا، کہ اس کے دو اہم رکن ہیں ایک استغفار یعنی اپنے گزشتہ جرم و قصور کی بخشش مانگنا۔ اور آئندہ اس سے باز رہنے کا عزم کرنا۔ اور دوسرا رکن توبہ کا یہ ہے کہ بندہ صدق دل سے اللہ کی طرف رجوع کرے، اور ہمیشہ اور ہر حال میں اسی کی طرف رجوع رہے، اور اس سیدھی اور صحیح راہ کو اپنائے جس کی ہدایت اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے۔ سو جب یہ دونوں باتیں پائی جائیں گی تو توبہ صحیح معنوں میں توبہ ہو گی ورنہ محض زبانی کلامی طور پر توبہ توبہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، والعیاذُ باللہ جل وعلا

۲: سو اس سے انذار کے پہلو کو واضح فرمایا گیا ہے۔ یعنی یہ کہ اگر تم لوگوں نے اعراض و روگردانی سے کام لیا تو مجھے تمہارے بارے میں ایک بڑے ہی ہولناک دن کے عذاب کا خوف و اندیشہ ہے، پس تم لوگ اگر باز نہ آئے تو اس ہولناک عذاب کے لئے تیار رہو، کہ وہ تمہارے اس کفر و انکار کا لازمی نتیجہ اور طبعی تقاضا ہے، والعیاذ باللہ العظیم

۴۔۔۔     سو اس ارشاد سے، کہ تم سب کو بہرحال اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ کئی اہم اور بنیادی حقائق واضح ہو جاتے ہیں مثلاً یہ کہ سب کا رجوع بہرحال اللہ ہی کی طرف ہے۔ پس جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم مر مٹ کر یونہی ختم ہو جائیں گے، جیسا کہ کیڑے مکوڑے ختم ہو جاتے ہیں، وہ سراسر غلط کہتے ہیں۔ اسی طرح جو کہتے ہیں کہ ہم مر کر کسی دوسرے جون میں آ جائیں گے وہ بھی بالکل غلط کہتے ہیں، نیز جو اس غلط فہمی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ہمارا معاملہ ہمارے من گھڑت شریکوں اور سفارشیوں کے حوالے ہے وہ بھی غلط کہتے ہیں، والعیاذُ باللہ، پس سب کو بہرحال لوٹ کر اللہ ہی کی طرف جانا ہے۔ اور ایسا کرنا اس کے لئے کچھ بھی مشکل نہیں کہ وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ پس وہ جو چاہے۔ اور جیسا چاہے کرے۔ سبحانہ و تعالیٰ

۶۔۔۔      پس نہ کوئی چیز اس میں درج ہونے سے رہ سکتی ہے اور نہ ہی کوئی چیز اس کے علم سے باہر ہو سکتی ہے۔ اور نہ ہی اس کو کسی چیز کے تلاش کرنے کے لئے کوئی زحمت اٹھانی پڑتی ہے، مستقر یعنی جائے قرار سے مراد وہ ٹھکانا ہے جہاں انسان زندگی گزارتا ہے۔ اور مستودع یعنی جائے سپردگی سے مراد زمین کی وہ جگہ ہے جہاں اس کو مرنے کے بعد سپرد خاک کیا جاتا ہے۔ سو اللہ ان سب جگہوں کو جانتا ہے، کوئی اس کے علم سے چھپ نہیں سکتا، اس لئے وہ ہر کسی کو ہر حال میں روزی دے رہا ہے۔ خواہ وہ کہیں بھی ہو۔ اور کسی بھی حال میں ہو، پس وہ خواہ پہاڑوں کی چوٹیوں میں ہو۔ یا سمندروں کی تہوں میں، خواہ گھنے جنگلوں میں ہو، یا کھلے میدانوں میں اس کا رزق مقدر اس کو ہر جگہ ملتا ہے۔ تو پھر اس سے کسی کا غائب ہونا آخر کیسے اور کیونکر ممکن ہو سکتا ہے؟ یہاں پر انسان کے مدفن کو مستودع کے لفظ سے تعبیر کرنے میں یہ تذکیر اور یاد دہانی بھی ہے کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ جو مر گیا وہ فنا ہو گیا۔ سو وہ فنا نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کو زمین کی امانت اور اس کی تحویل و سپردگی میں دے دیا جاتا ہے، اور وقت آنے پر زمین اس امانت کو پوری طرح اس کے رب کے حوالے کر دے گی، اور اس کو ضرور ایسا کرنا ہو گا۔ کسی کی جان نہیں کہ وہ اس میں رکاوٹ بن سکے۔

۷۔۔۔      ۱: یعنی کرہ ارضی کی خشکی نمودار ہونے سے پہلے یہ سارا کرہ، کرہ مائی تھا۔ اور اس پر اللہ تعالیٰ ہی کی حکومت و فرمانروائی تھی پھر پانی سے خشکی نمودار ہوئی۔ اور موجودات کی یہ مختلف انواع ظہور میں آئیں اور درجہ بدرجہ پوری کائنات آباد ہوئی۔ اور یہ سب کچھ اسی قادر مطلق وحدہٗ لاشریک کے حکم و ارشاد سے، اور اسی کی قدرت و حکمت سے ظہور پذیر ہوا۔ سبحانہ و تعالیٰ

۲: سو حکمتوں بھری اس کائنات کا وجود، اس کی یہ بوقلمونی، اور اس میں پایا جانے والا یہ عظیم الشان اور پُر حکمت اہتمام و انتظام وغیرہ سب کچھ اپنی زبان حال سے پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ اس کائنات کے خالق و مالک نے یہ سب کچھ بے مقصد اور عبث و بیکار نہیں پیدا فرمایا۔ بلکہ اس کا تقاضا ہے کہ انسان اس میں صحیح طور پر غور و فکر سے کام لیکر اپنے خالق و مالک کی معرفت حاصل کرے۔ اور شکر و نعمت کے طور پر دل و جان سے اس کے آگے جھک جائے۔ اسی کی عبادت و بندگی سے سرشار و سرفراز ہو۔ اور عبادت و بندگی کی ہر قسم اسی وحدہٗ لاشریک کے لئے بجا لائے۔ کہ یہ سب اسی کا حق ہے کہ معبود برحق بہرحال وہی اور صرف وہی وحدہٗ لاشریک ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ، نیز یہ کائنات اپنی زبان بے زبانی سے پکار پکار کر کہہ رہی ہے، کہ اس سارے اہتمام و انتظام کا تقاضا یہ ہے کہ ایک ایسا یوم عدل و حساب قائم ہو۔ جس میں انسان سے اس کے کئے کرائے کے بارے میں پوچھ ہو۔ تاکہ شکر گزاروں اور اچھا عمل کرنے والوں کو ان کے حسن عمل کا صلہ و بدلہ ملے۔ اور ناشکروں اور بدکاروں کو ان کی ناشکری اور بدکاری کی سزا وجزا ملے۔ تاکہ اسطرح عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔ اور بدرجہ تمام و کمال پورے ہوں، پس وہی دن قیامت کا یوم عظیم ہے۔ سو قیام قیامت اور یوم جزاء و سزا کا وقوع عقل و نقل، اور اس کائنات کی خلقت و فطرت، سب کا تقاضا ہے، لیکن تعجب اور افسوس کا مقام ہے کہ یہی بات جب تم ان لوگوں سے کہتے ہو تو یہ اس کو ماننے اور تسلیم کرنے کے بجائے اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ تو ایک کھلا ہوا جادو ہے۔ سو کتنے اندھے اور کس قدر اوندھے ہو گئے یہ لوگ اور کس طرح مت مار کر رکھ دی گئی ان کی؟والعیاذُ باللہ العظیم

۱۱۔۔۔   سو اس سے ان لوگوں کا ذکر فرمایا گیا ہے جو مذکورہ بالا کلیے سے مستثنیٰ ہیں، سو اس سے واضح فرمایا گیا کہ ایسے لوگ جب کسی آزمائش اور مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں، تو مایوس اور دل برداشتہ ہونے کے بجائے اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت کی امید پر صابر و مطمئن رہتے ہیں، اور جب ان کو اس کے فضل و کرم اور اس کی کسی نعمت و عنایت سے نوازا جاتا ہے، تو اس پر ایسے لوگ اکڑنے اور مغرور ہونے کے بجائے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہیں، سو اس طرح نعمت سے انکی صفت شکر اجاگر ہوتی ہے، اور اس کے نتیجے میں ان کے لئے اعمال صالحہ کی راہیں کھلتی ہیں۔ اور مصیبت و مشکل سے ان کی صفت صبر مستحکم ہوتی ہے۔ سو ایسے ہی لوگ انسانیت کے گل سرسبز ہوتے ہیں اور انہی کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عظیم الشان بخشش، اور بہت بڑے اجر کی خوشخبری ہے۔ سو اس سے یہ اہم اور بنیادی حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ ایمان و یقین کی دولت ایسی عظیم الشان اور بے مثال دولت ہے جو انسان کو دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز اور مالا مال کرتی ہے۔ جبکہ اس سے محرومی والعیاذ باللہ، ہر خیر سے محرومی ہے۔ اور اسی حقیقت کو حضرت نبی معصوم علیہ الصلوٰۃ والسلام، نے اپنی ایک عظیم الشان حدیث میں اس طرح بیان فرمایا ہے کہ مومن کی شان بھی بڑی عجیب ہے اور یہ شان مومن کے سوا اور کسی کو نصیب نہیں ہو سکتی، اور یہ اس لئے کہ اس کو اگر کوئی نعمت ملتی ہے تو یہ اس پر اللہ تعالیٰ شکر ادا کرتا ہے، جس سے وہ اس کے لئے خیر بن جاتی ہے۔ اور اگر اس کے برعکس اس کو کوئی تکلیف اور مصیبت پہنچتی ہے، تو یہ اس پر صبر و برداشت سے کام لیتا ہے، جس سے وہ بھی اس کے لئے خیر بن جاتی ہے۔ سو مومن کی نعمت اور اس کی مصیبت میں سے ہر ایک اس کے لئے خیر بن جاتی ہے۔ جبکہ ایمان سے محروم لوگوں کے لئے نعمت بھی عذاب بن جاتی ہے اور تکلیف بھی، نعمت ملنے پر ایسے لوگ تکبر اور سرکشی پر اتر آتے ہیں، اور طرح طرح کی خرمستیاں کرنے لگتے ہیں۔ اور مصیبت پیش آنے پر وہ جزع و فزع اور یہاں تک کہ خود کشی کا ارتکاب کرتے ہیں والعیاذ باللہ العظیم۔ سو اصل چیز ایمان و یقین ہے۔ جس کے بعد اور اس کے نتیجے میں عسر ویسر، اور تنگی و فراخی کی ہر حالت خیر بن جاتی ہے۔

۱۴۔۔۔   استفہام ظاہر ہے کہ یہاں پر تحریض و ترغیب کے لئے ہے۔ یعنی اس کے بعد تم لوگوں کو حق کے آگے سر تسلیم خم کر لینا چاہیے اور تمہیں اس حقیقت کو مان لینا چاہیے کہ قرآن حکیم نہ کسی بشر کا کلام ہے نہ ہو سکتا ہے، کہ جب تم لوگ باینہمہ فصاحت و بلاغت اور پوری سعی و کوشش اور باہم مل کر بھی اس کی ایک چھوٹی سے چھوٹی سو ان کے مقابلے سے بھی عاجز و قاصر ہو تو پھر یہ کس طرح ممکن ہو سکتا کہ بنی امی جنہوں نے دنیا میں کسی انسان سے ایک حرف بھی نہیں کبھی نہیں پڑھا وہ از خود تن تنہا اس پوری کتاب حکیم کو تصنیف کر لائیں؟ پس تم لوگ یقین جان لو کہ یہ نہ انسانی کلام ہے نہ ہو سکتا ہے بلکہ یہ کلام، کلام الٰہی ہے، جس کو اللہ پاک نے اپنے علم سے نازل فرمایا ہے۔ پس تم اس کی عظمت کے آگے جھک جاؤ۔ اور اس کی صداقت و حقانیت پر ایمان لا کر اپنے لئے سعادت دارین سے سرفرازی کا سامان کرو۔ ورنہ تمہارے لیے ہمیشہ ہمیشہ کا خسارہ ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم، سو تحدی اور چیلنج کی یہ عظیم الشان اور بے مثال خصوصیت قرآن حکیم کی ایک ایسی عظیم الشان اور منفرد خصوصیت بھی جو اس کتاب مجید کے سوا اور کسی کتاب کو نہ کبھی نصیب ہوئی ہے نہ ہو سکتی ہے۔ اور یہ اس کی صداقت و حقانیت کے لئے ایک بے مثال اور فیصلہ کن دلیل ہے۔ والحمد للہ جل وعلا

۱۷۔۔۔   بَیِّنۃ کے معنی روشن دلیل اور واضح حجت کے ہوتے ہیں۔ یہاں پر اس سے مراد وہ نور فطرت ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے حق و باطل اور خیر و شر کے درمیان فرق و تمیز کے لئے انسان کی فطرت میں ودیعت فرمایا ہوتا ہے، جن لوگوں کی فطرت خارجی اثرات سے محفوظ ہوتی ہے، ان کے اندر یہ نور فطرت محفوظ اور صحیح و سالم ہوتا ہے، اور ایسے لوگوں کو جب نور وحی کی روشنی نصیب ہوتی ہے تو وہ ان کو اپنی فطرت کی آواز معلوم ہوتی ہے اور اس سے ان کے اس فطری نور کو اور جلا ملتی ہے۔ اور وہ نور علی نور کا مصداق بن جاتے ہیں، جس کی سب سے بڑی اور سب سے واضح مثال حضرات انبیاء کرام کی ہوتی ہے، علیہم الصلوٰۃ والسلام، پھر جو جتنے ان کے قریب اور ان کے نقش قدم پر ہوتے ہیں، وہ بھی اپنے مراتب و درجات کے فرق کے ساتھ اسی طرح ہوتے ہیں جس کا نور فطرت جتنا قوی اور سالم ہوتا ہے وہ اتنا ہی جلدی انکی طرف سبقت کرتا ہے اور اس کے برعکس جو اپنی شامت اعمال سے اپنے اس نور فطرت کو بجھا دیتے ہیں، وہ اندھیروں میں ڈوب جاتے ہیں، اور اس طرح وہ فِیْ ظُلُمٰتٍ بَعَضُہَا فَوْقَ بَعْضٍ کا مصداق بن کر رہ جاتے ہیں۔ والعیاذُ باللہ، سو اس ارشاد میں پیغمبر کے لئے تسکین و تسلیہ کا سامان ہے کہ جو لوگ قرآن سے گریز و فرار کے لئے طرح طرح کے بہانے تراشتے ہیں، ان کی اصل بیماری، اور ان کی محرومی کا اصل سبب یہ ہے کہ ان کا نور فطرت بجھ چکا ہے، اس لئے وہ نور ایمان کی دولت سے محروم ہیں، اور اس نور حق و ہدایت سے سرفرازی انہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے، اور ہو سکتی ہے، جن کا نور فطرت محفوظ اور سلامت ہوتا ہے۔ سو ان کو جب اپنے نور فطرت کی دلیل اور حجت کے ساتھ ساتھ قرآن حکیم کی شہادت بھی مل جاتی ہے تو اس سے ان کی وہ فطری حجت اور قوی ہو جاتی ہے اور قرآن کی دعوت ان کو اپنے دل کی آواز، اور فطرت کی پکار محسوس ہونے لگتی ہے اور آسمانی شاہد ان کی فطری آواز کی قوت کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اس استفہامی جملے کا مقابل یہاں پر محذوف ہے جو کہ بلاغت کلام کا ایک اہم اور معروف اسلوب ہے۔ ہم نے اپنے ترجمے میں بین القوسین کی عبادت سے اسی کی طرف اشارہ کیا ہے، والحمد للہ، لیکن اس حذف کو اگر پوری طرح کھولا جائے تو بات اس طرح بنے گی، کہ ایک طرف تو ایسے لوگ ہیں جن کے اندر یہ سب روشنیاں موجود ہیں، جن سے راہ حق پوری طرح روشن اور واضح ہو جاتی ہے، اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو ان سب سے محروم ہیں، اور ان کی یہ تمام روشنیاں بجھ چکی ہیں۔ تو کیا راہ حق کی یافت و ادراک اور قرآن حکیم پر ایمان لانے کے سلسلہ میں یہ دونوں قسم کے لوگ باہم برابر ہو سکتے ہیں؟ اور جب نہیں اور یقیناً نہیں، تو پھر ایسے لوگوں کے اعراض و انکار اور ان کی عداوت و تکذیب پر تعجب و اچنبھے کی کیا ضرورت؟ یہ محروم اور بدبخت لوگ ہیں جنہوں نے اپنی آنکھوں کو خود پھوڑ دیا ہے، اور اپنی فطرت کے نور حق و ہدایت کو انہوں نے اپنے سوء اختیار، اور خبث باطن کی بناء پر خود بجھا دیا ہے، والعیاذ باللہ العظیم، سو قرآن حکیم پر ایمان وہی لوگ لائیں گے جن کا نور فطرت محفوظ وسلامت ہے۔ اور وہ اس امر سے بھی آشنا ہیں کہ اس سے پہلے ایسی ہی ایک کتاب ہدایت و رحمت بن کر حضرت موسیٰ پر اتر چکی ہے۔ سو ایسے لوگوں کے لئے قرآن حکیم بلاشبہ ایک مانوس چیز بلکہ ان کے دلوں کی صدا و پکار ہے۔ وہ جب اس کو سنتے ہیں تو وہ محسوس کرتے ہیں کہ جو کچھ وہ اپنے صحیفہ فطرت میں پا رہے ہیں اسی کی دعوت قرآن دے رہا ہے۔ سو ایسے ہی لوگ اس پر ایمان لائے، اور ایسے ہی لوگ اس پر ایمان لائیں گے، وباللہ التوفیق، لمایُحِبُّ ویرید، وعلیٰ مایُحِبُّ ویرید،

۲۲۔۔۔    سو نور حق و ہدایت سے اعراض و انکار کرنے والے سب سے بڑے خسارے والے ہیں، کہ انہوں نے راہ حق و ہدایت سے منہ موڑ کر اپنے آپ کو کفر و انکار کے اندھیروں کے حوالے کیا، اور حضرت حق جَلَّ مَجْدہٗ کی دی بخشی قوتوں اور صلاحیتوں کو انہوں نے ضائع کیا۔ اور ان کو حق کے لئے استعمال کرنے کے بجائے الٹا انہوں نے انکو حق کے خلاف استعمال کیا، اور اس طرح انہوں نے اپنے آپ کو اس دائمی اور ہولناک خسارے کے حوالے کیا جس سے نکلنا اور چھٹکارا پانا پھر ان کے لئے کسی بھی طرح ممکن نہیں ہو گا، اور جن خود ساختہ اور من گھڑت سہاروں کو انہوں نے از خود اپنا حاجت روا اور مشکل کشا بنا رکھا تھا، ان میں سے کوئی بھی ان کے کچھ کام نہ آ سکا۔ کہ ان کی کوئی اصل اور حقیقت تو سرے سے تھی ہی نہیں، سو ایسے ہی لوگوں کے بارے میں یہاں پر ارشاد فرمایا گیا۔ اور حَصْر و قَصْر کے انداز و اسلوب میں ارشاد فرمایا گیا کہ یہی ہیں وہ لوگ جو آخرت میں سب سے بڑے اور انتہائی ہولناک خسارے والے ہونگے۔ والعیاذُ باللہ العظیم۔

۲۳۔۔۔   سو اس سے اصل اور حقیقی کامیابی سے سرفراز ہونے والے خوش نصیبوں کی تعیین اور انکی نشاندہی فرما دی گئی، اور ان کی اس سعادت و سرفرازی کے اسباب کو بھی بیان فرما دیا گیا۔ چنانچہ اس سے واضح فرما دیا گیا کہ یہ خوش نصیب وہ لوگ ہونگے جن کے اندر یہ تین صفات پائی جاتی ہونگی۔ خواہ وہ کوئی بھی ہوں اور کہیں کے بھی ہوں۔ وہ کسی بھی رنگ و نسل کے ہوں۔ اور ان کا تعلق کسی بھی قوم قبیلے سے ہو، اور وہ تین صفات ہیں۔ ایمان، عمل صالح، اور اپنے رب کی طرف اخبات، یعنی وہ ہر طرف سے کٹ کر اپنے رب کی طرف جھکنے والے۔ اور دل و جان سے اسی کی طرف رجوع کرنے والے ہوں۔ سو ایسوں کو جنت اور اس کی سدا بہار نعمتوں سے سرفرازی نصیب ہو گی۔ جہاں ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہنا نصیب ہو گا۔ اور یہی ہے وہ اصل اور حقیقی کامیابی جس کے سامنے دنیا کی بڑی سے بڑی کامیابی بھی ہیچ اور صفر ہے اور عقل سلیم اور فطرت مستقیم کا تقاضا ہے کہ اسی کو اپنا اصل مقصد اور حقیقی نصب العین بنایا جائے۔ اللہ تعالیٰ نصیب فرمائے اور محض اپنے فضل و کرم سے نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین۔

۲۷۔۔۔   سو حضرت نوح کے بارے میں آنجناب کی قوم کے ان منکروں اور سرداروں کا یہ پہلا اعتراض تھا جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بشریت طاہرہ کی بناء پر تھا، کہ چونکہ آپ ہم ہی جیسے بشر ہیں۔ اس لئے ہم آپ کو اللہ کا رسول ماننے کے لئے تیار نہیں۔ سو حضرات انبیاء و رسل کی بشریت طاہرہ کی بناء پر یہ اعتراض و اشتباہ لوگوں کو ہمیشہ رہا پہلے بھی تھا، اور آج بھی ہے، اور بنیاد اس اعتراض کی یہ تھی اور یہ ہے کہ ایسے لوگ بشریت اور رسالت کے دونوں وصفوں کے درمیان منافات سمجھتے ہیں یعنی یہ دونوں وصف یکجا نہیں ہو سکتے۔ فرق اتنا ہے کہ کل کے ان منکروں نے ان حضرات کی بشریت کو دیکھتے ہوئے انکی نبوت و رسالت کا انکار کر دیا۔ اور کہا کہ چونکہ یہ بشر ہیں لہٰذا ہم ان کو نبی اور رسول ماننے کے لئے تیار نہیں، جبکہ آج کے اعجوبہ پرستوں کا کہنا ہے کہ چونکہ ہم ان کو نبی و رسول مانتے ہیں لہٰذا ہم ان کو بشر اور انسان ماننے کے لئے تیار نہیں، غلط فہمی دونوں کی ایک ہی ہے، یعنی یہ کہ نبوت و بشریت کے درمیان تضاد اور منافات ہے، حالانکہ یہ بات قطعی طور پر غلط اور نصوص قطعیہ کے خلاف اور ان سے معارض و متصادم ہے، کیونکہ اصل حقیقت جو عقل و نقل دونوں کے مطابق ہے وہ یہ ہے کہ پیغمبر بیک وقت بشر بھی ہوتا ہے اور نبی و رسول بھی۔ اور عَبْدہٗ وَرَسُوْلُہ، میں ان دونوں کو جمع فرمایا گیا ہے اور دونوں کو یکجا ماننے کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے، اور یہی تقاضا ہے عقل و نقل اور فطرت مستقیم سب کا، والحمد للہ جل و علا، بکل حالٍ من الاحوال وفی کل موطنٍ من المواطن فی الحیاۃ

۲۸۔۔۔    سو اس سے حضرت نوح کے اپنی قوم کے اعتراض کا جواب ذکر فرمایا گیا کہ آنجناب نے ان لوگوں سے فرمایا کہ میری دعوت دو باتوں بلکہ دو نوروں پر قائم و استوار ہے، ایک اس بینہ یعنی نور فطرت پر جو کہ قدرت نے پہلے سے ہی میری فطرت کے اندر ودیعت فرما رکھا تھا اور جس کو اس نے اپنی فیاضیوں سے ہر انسان کی فطرت میں ودیعت فرمایا ہے اور دوسرے اس نور وحی و رسالت پر جس سے قدرت نے مجھے اب نوازا ہے سو میری دعوت اور میرا یہ پیغام نور علی نور کا مصداق ہے، اگر تم لوگوں کے اندر فطرت کا وہ نور باقی اور محفوظ ہوتا جو قدرت نے اپنی رحمت و عنایت سے تمہارے اندر ودیعت فرمایا تھا، تو تم کو میری یہ دعوت اپنی فطرت کی پکار اور اپنے دلوں کی آواز معلوم ہوتی، مگر تم نے تو اپنی بد عملیوں اور بے اعتدالیوں سے اپنی فطرت کے اس نور کو بجھا دیا تو ایسے میں آخر میں کس طرح اس کو تم لوگوں پر چپکا سکتا ہوں جبکہ تم اس کو ناپسند اور ناگوار سمجھتے ہو؟ یعنی تم لوگ محروم ہو گئے ہو۔ اور اپنی اس محرومی کے باعث اور ذمہ دار تم خود ہو، والعیاذ باللہ العظیم

۳۱۔۔۔   ۱:  سو اس ارشاد سے منکرین کے مختلف اعتراضات کے یکجا جوابات دیئے گئے ہیں جن کا حاصل اور خلاصہ یہ ہے کہ میں نے کبھی کسی خدائی صفت کا کوئی دعوی نہیں کیا تو پھر تم لوگ آخر مجھ سے اس طرح کی باتوں کی توقع کیوں رکھتے ہو جن کا تعلق خدائی صفات و اختیارات سے ہے؟ میں نے کبھی کسی خدائی صفت یا مافوق البشریت بات کا کوئی دعوی نہیں کیا میرے پاس نہ اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں، نہ میں غیب جانتا ہوں۔ اور نہ ہی میں یہ کہتا ہوں کہ میں کوئی فرشتہ ہوں۔ میں نے تو ان میں سے کسی بھی بات کا کبھی دعویٰ نہیں کیا۔ میرا کہنا تو صرف اس قدر ہے کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ اور جس پیغام کے ساتھ مجھے اس کی طرف سے تمہاری طرف بھیجا گیا ہے وہ میں تم لوگوں کو سناتا ہوں اور بس، سو اس سے اہل بدعت کے اختیار کلی علم غیب کلی اور نور محض جیسے تمام من گھڑت اور شرکیہ عقائد کی ایسی صاف اور صریح تردید فرما دی گئی، جس سے ان کی جڑ نکل جاتی ہے۔ والحمد للہ جل وعلا

۲: ابناء دنیا کی نگاہوں میں اصل قدر و قیمت چونکہ دنیاوی مال و دولت اور جاہ و منصب ہی کی ہوتی ہے اس لئے وہ ان مخلص اہل ایمان کو حقیر جانتے ہیں جو ان دنیاوی اور مادی چیزوں سے عاری ہوتے ہیں، کل بھی یہی تھا اور آج بھی یہی ہے، اس لئے قوم نوح کے ان متکبر سرداروں نے حضرت نوح کے ان مخلص ساتھیوں کو اراذل یعنی سب سے گھٹیا قرار دیا۔ سو ان منکر متکبروں کے جواب میں حضرت نوح نے ان سے فرمایا کہ تم لوگ اپنے اس خود ساختہ معیار اور جھوٹے گھمنڈ کی بناء پر یہ سمجھتے ہو کہ اللہ ان لوگوں کو کسی فضل اور خیر سے نہیں نوازے گا۔ لیکن ان کے قلوب و بواطن میں صدق و اخلاص کی جو دولت موجود ہے اللہ تعالیٰ اس کو پوری طرح جانتا ہے۔ اس لئے اس نے ان کو دین و ایمان کی اس دولت سے نوازا ہے۔ جو کہ اصل اور حقیقت دولت ہے، جبکہ دنیاوی مال و دولت ہر اہل و نا اہل کو مل جاتا ہے۔ اس لئے میں تم لوگوں کے گھمنڈ کی تائید کسی بھی طرح نہیں کر سکتا۔ ورنہ میں ظالموں میں سے ہو جاؤں گا۔ کیونکہ دنیاوی مال و دولت کی بناء پر صدق و اخلاص کی دولت رکھنے والوں سے منہ موڑنا، ان کو نظر انداز کرنا، اور ان سے اعراض و بے رخی برتنا ظلم ہے۔ جس کے روا دار ہم کبھی اور کسی بھی طور پر نہیں ہو سکتے۔ والعیاذُ باللہ العظیم،

۳۳۔۔۔   سو قوم نوح کے ان بدبختوں نے جب حضرت نوح کی اس دعوت کے جواب میں ایمان لانے کے بجائے الٹا ان سے عذاب لانے کا مطالبہ کیا، اور ان سے صاف طور پر کِہ دیا کہ لے آؤ تم ہم پر وہ عذاب جس کی دھمکی تم ہمیں دے رہے ہو۔ تو اس پر حضرت نوح نے ان سے فرمایا کہ عذاب لانا میرا کام نہیں، بلکہ اللہ ہی کا کام ہے۔ وہی جب چاہے گا اس کو تم پر واقع کر دے گا۔ لیکن اتنی بات یاد رکھو کہ جب وہ آ جائے گا تو تم لوگ جو آج اس طنطنے سے اس کا مطالبہ کر رہے ہو اس وقت تم اس کا راستہ نہیں روک سکو گے۔ اور تم اس بل بوتے کے نہیں ہو کہ اس قادر مطلق کے قابو سے کہیں نکل کر بھاگ سکو۔ تب تم لوگوں کو اپنے کئے کرائے کا بھگتان بہرحال بھگتنا ہو گا، اور بڑے ہی ہولناک انداز میں بھگتنا ہو گا۔ والعیاذ باللہ العظیم

۳۴۔۔۔   یعنی جب تم لوگ جو اپنے عناد اور ہٹ دھرمی پر اڑے ہوئے ہو۔ اور تم دعوت حق کو ماننے اور قبول کرنے کے لئے آمادہ ہی نہیں ہو رہے، تو تم خداوند قدوس کے قانون کی زد میں آ چکے ہو۔ جس کا تقاضا ہے کہ اب اللہ تعالیٰ تم لوگوں کو تمہاری اختیار کردہ گمراہی کے راستے پر چلنے کے لئے چھوڑ دے۔ تاکہ اس کے نتیجے میں تم لوگ اپنے اس انجام محتوم اور مصیر موعود تک پہنچ کر رہو۔ جس کا حقدار تم نے اپنے آپ کو خود بنا لیا ہے۔ اب میری پند و نصیحت سے تم لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ اب میں تم لوگوں کو جتنی بھی پند و نصیحت کروں اس کا تم کو کوئی فائدہ پہنچنے والا نہیں، پس اب تمہارا معاملہ اللہ تعالیٰ ہی کے حوالے ہے۔ وہ تم لوگوں کے بارے میں جو چاہے فیصلہ فرمائے۔ وہی تمہارا رب ہے، اور اسی کے حضور تم سب نے بہرحال لوٹ کر جانا ہے، سو عناد و ہٹ دھرمی محرومیوں کی محرومی اور اس کا نتیجہ و انجام ہولناک تباہی ہے والعیاذُ باللہ العظیم

۳۷۔۔۔   سو اس سے حضرت نوح کو ان کی اس منکر اور باغی قوم کے مال و انجام کے بارے میں آگہی بخش دی گئی اور آپ کو بذریعہ وحی بتا دیا گیا کہ ان میں سے جنہوں نے ایمان لانا تھا وہ لا چکے۔ اب ان میں کوئی بھی ایمان لانے والا باقی نہیں، اس دودھ میں جتنا مکھن تھا وہ نکالا جا چکا، باقی جو بچ رہا ہے وہ محض چھاچھ ہے جس کی کوئی قدر و قیمت نہیں، پس اب تک یہ لوگ جو کچھ کرتے رہے اس کے بارہ میں آپ آزردہ خاطر نہیں ہونا اب سنت الٰہی کے مطابق ان لوگوں کے حق میں ظہور عدالت کا وقت آ چکا ہے۔ اور ان کے حق میں فیصلہ الٰہی یہ ہے کہ ان سب نے اب غرق ہونا ہے لہٰذا آپ اپنے اور اپنے اہل ایمان ساتھیوں کے بچاؤ کے لئے ایک کشتی بناؤ اور یہ کشتی ہماری نگرانی میں اور ہماری ہدایات کے تحت بناؤ۔ کہ بچانے والے ہم ہی ہیں اور ہم ہی جانتے ہیں کہ تمہارے بچاؤ اور نجات کی صورت کیا ہو سکتی ہے۔ اور ان بدبختوں کے بارے میں ہم سے کوئی بات بھی مت کرنا کہ انہوں نے اب بہرحال غرق ہو کر رہنا ہے، والعیاذ باللہ العظیم،

۳۹۔۔۔   سو اس سے اس بدبخت اور منحوس قوم کی نحوست اور بدبختی کا ایک اور نمونہ اور مظہر سامنے آتا ہے کہ حضرت نوح جب اللہ تعالیٰ کے حکم و ارشاد کے مطابق کشتی بنانے لگے تو یہ لوگ بجائے اس کے کہ اس سے کوئی سبق لیتے۔ اور اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوتے، انہوں نے الٹا آنجناب کا مذاق اڑانا شروع کر دیا۔ کہ کیوں صاحب کیا خشکی میں کشتی چلاؤ گے؟ آخر یہاں کشتی بنانے کی کیا تک؟ اور اس کا کیا جوڑ؟ وغیرہ وغیرہ اور یہی حال ہوتا ہے ان کا جن کے مقدر پھوٹ جاتے ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو حضرت نوح نے ان سے فرمایا کہ آج تو تم لوگ ہمارا مذاق اڑاتے ہو۔ لیکن کل جب اصل حقیقت سامنے آئے گی تو اس وقت ہم تمہارا مذاق اڑائیں گے، یعنی تم لوگوں کو خود پتہ چل جائے گا۔ کہ تم لوگ اپنے کفر و انکار، تمرد و سرکشی، اور حق اور اہل حق کے خلاف مذاق و استہزاء کا ارتکاب کر کے اپنے لئے کس قدر ہولناک، اور تباہ کن انجام کا سامان کر رہے تھے۔ مگر اس وقت کے اس افسوس کا تم لوگوں کو کوئی فائدہ بہرحال نہیں ہو گا۔ سوائے اس کے کہ تمہاری آتش یاس وحسرت میں اور اضافہ ہو۔ والعیاذُ باللہ العظیم

۴۰۔۔۔   اور وہی تھوڑے لوگ جو ایمان لائے تھے نجات سے سرفراز و فائز المرام ہو سکے۔ سو اس سے ایک بات تو یہ واضح ہو جاتی ہے کہ ایمان و یقین ہی ذریعہ نجات اور وسیلہ فوز و فلاح ہے، اور دوسری بات یہ کہ ایمان لانے والوں اور نجات پانے والوں کی تعداد تھوڑی ہی ہوتی ہے، اکثریت بے ایمانوں اور ہالکین ہی کی رہی ہے۔ پہلے بھی یہی تھا اور آج بھی یہی ہے۔ پس محض عوام کی اکثریت کو کسی بات کے لئے حجت قرار نہیں دیا جا سکتا ، جس طرح کہ مغربی جمہوریت کے پجاریوں کا کہنا ماننا ہے اور جس طرح کہ ہمارے یہاں کے اہل بدعت کا کہنا ہوتا ہے، کہ فلاں فلاں بدعات چونکہ عوام کی اکثریت میں پائی جاتی ہیں۔ لہٰذا یہ سب درست ہیں سو اس طرح کی سب باتیں غلط اور بے بنیاد ہیں۔ ان کا نہ کوئی اعتبار ہے نہ ہو سکتا ہے۔ اور یہ اس لئے کہ عوام کی اکثریت ہمیشہ غلط کاروں اور بے ایمانوں ہی کی رہی ہے، پہلے بھی یہی تھا اور آج بھی یہی ہے، بہر کیف اس ارشاد سے واضح فرمایا گیا کہ جب ہمارا حکم آگیا۔ یعنی وہ عذاب جو ہمارے حکم و ارشاد کے نتیجے میں ان لوگوں پر آنے والا تھا۔ اس کا آغاز ہو گیا۔ اور تنور ابل پڑا۔ تنور کے ابلنے سے مراد بعض حضرات اہل علم کے نزدیک کوئی خاص تنور تھا جس کو اس کام کے لئے بطور نشانی مقرر فرمایا گیا تھا، کہ جب وہ ابلنے لگے تو یہ اس بات کی علامت ہو گی کہ اب طوفان کا آغاز ہو گیا ہے، لہٰذا اب تم اے نوح ! اپنے متعلقین سمیت اس کشتی میں سوار ہو جاؤ، اور بعض حضرات نے کہا کہ اس سے دراصل بطور استعارہ سائیکلونی طوفان کو تعبیر فرمایا گیا ہے۔ یعنی جب وہ طوفان شروع ہو گیا۔ بہر کیف ارشاد فرمایا گیا کہ جب اس کی نوبت آ گئی تو ہم نے نوح سے کہا کہ آپ ہر قسم کے جانوروں میں سے نر اور مادہ کے ایک ایک جوڑے کو لے کر اس کشتی میں سوار ہو جاؤ اور اپنے گھر والوں کو بھی اپنے ساتھ لے لو، سوائے ان کے جن کی غرقابی کے بارے میں ہمارا فیصلہ ہو چکا ہو۔ اور ایمان لانے والوں کو بھی اپنے ساتھ اس میں سوار کر لو۔

۴۳۔۔۔   سو حضرت نوح کی اس دعا سے یہ عظیم الشان درس دیا گیا کہ اصل چیز اسباب و وسائل نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت ہے۔ اس لئے مومن کا اصل بھروسہ و اعتماد اسباب و وسائل پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت ہی پر ہوتا ہے اور اسی پر ہونا چاہئے۔ اس کی رحمت و عنایت اگر شامل حال ہو تو متلاطم و مواج سمندر کے اندر لکڑی کا ایک ٹوٹا ہوا پھٹہ بھی انسان کے لئے سہارا بن سکتا ہے۔ ورنہ دور حاضر کے جدید ترین ٹکنیک کے حامل بڑے بڑے بحری جہاز بھی سمندری موجوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ ابھی کچھ ہی عرصہ قبل روس کی ایک جدید ترین دیو ہیکل ایٹمی آبدوز اپنے ایک سو اٹھارہ سائنسدانوں سمیت سمندر کی تہ میں جا بیٹھی۔ اور اس طور پر کہ روسی حکومت کی بھرپور کوششوں کے باوجود، اور دنیا بھر کے ترقی یافتہ ملکوں اور سائنسدانوں سے مدد و امداد کی بھیک مانگنے کے با وصف، اپنے دور کی یہ بڑی متکبر اور شیطانی سپر پاور کے لئے بھی، اس آبدوز میں گھرے اور پھنسے ہوئے اپنے ان مایہ ناز سائنسدانوں کو بچانا، اور نکالنا بھی ان کے لئے ممکن نہ رہا، اور انکے اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی ان کی وہ مایہ ناز اور دیو پیکر ایٹمی آبدوز، اپنے اندر نصب اربوں کھربوں کے ایٹمی آلات اور ان کے ایک سو اٹھارہ ممتاز و مایہ ناز سائنسدانوں سمیت ہمیشہ کے لئے غرقاب ہو گئی۔ سو اسباب و وسائل کی عظمت و اہمیت اپنی جگہ مسلم، لیکن مومن صادق کا اصل سہارا و اعتماد ان اسباب و وسائل پر نہیں۔ بلکہ ان کے خالق و مالک اور مسبب الاسباب ہی پر ہوتا ہے۔ کہ سب کچھ اسی وحدہٗ لاشریک کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے سبحانہ و تعالیٰ

۴۵۔۔۔   سو اپنے بیٹے کو غرق ہوتا دیکھ کر شفقت پدری کی بناء پر حضرت نوح نے اپنے رب کے حضور عرض کیا کہ اے میرے رب! میرا بیٹا میرے اہل میں سے ہے جس کی حفاظت کا تو نے مجھ سے وعدہ فرما رکھا ہے، اور تیرا وعدہ بہرحال سچا ہے۔ اور تو سب حاکموں سے بڑا حاکم ہے۔ یعنی ایسی صورت حال میں میرا بیٹا کیوں ہلاک ہو۔ پس تو اس کو بھی اس طوفان کی ہلاکت و بلا خیزیوں سے بچا لے، اور اس کو اپنی حفاظت و پناہ میں لے لے، العیاذُ باللہ العظیم

۴۶۔۔۔   سو حضرت نوح کے اس سوال اور درخواست کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ان سے ارشاد فرمایا کہ تمہارا بیٹا تمہارے ان اہل میں سے نہیں ہے جن کے لئے نجات کا وعدہ تھا۔ کیونکہ نجات کا وعدہ صرف اہل ایمان سے تھا، اور تمہارا یہ بیٹا اہل ایمان میں سے نہیں۔ اس لئے یہ نجات کا حقدار نہیں نجات کے اس وعدے میں وہی لوگ شامل تھے اور شامل ہیں، جو ایمانی رشتے کے اعتبار سے تمہارے ساتھ وابستہ تھے اور وابستہ ہیں جبکہ یہ شخص بالکل نا اہل اور ناہنجار ہے نبی کا تعلق اور ان کا گھرانا صرف نسب سے نہیں بنتا۔ بلکہ وہ ایمان و عمل صالح سے بنتا ہے اور یہ شخص ان لوگوں میں سے تھا جن کے بارے میں ہمارا فیصلہ صادر ہو چکا ہے کہ ایسے تمام لوگوں کو جہنم میں بھر دیا جائے گا۔ پس آپ ہم سے کسی ایسی بات کا سوال نہیں کرنا جس کے بارے میں آپ کو کوئی علم نہ ہو، ورنہ کہیں آپ ان لوگوں میں سے نہ ہو جائیں، جو جذبات سے مغلوب ہو کر نادانی کا ارتکاب کر لیتے ہیں، سو اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ پیغمبر مختار کل نہیں ہوتے کہ جو چاہیں اور جیسا چاہیں کریں۔ جیسا کہ اہل بدعت کا کہنا ہے۔ کیونکہ اگر ایسے ہوتا تو نہ حضرت نوح کو اپنے بیٹے کی نجات کے لئے اسطرح دعا و درخواست پیش کرنے کی ضرورت پیش آتی۔ اور نہ ہی ان کو حضرت حق جَلَّ مَجْدہٗ کی طرف سے اسطرح کا جواب دیا جاتا۔ سو اختیار کلی اللہ تعالیٰ ہی صفت اور اسی کی شان ہے۔ اس میں اس کا نہ کوئی شریک ہے، نہ ہو سکتا ہے۔ کہ وہ ہر قسم کے شرک سے پاک، اور اپنی ہر صفت اور شان کے اعتبار سے یکتا، اور وحدہٗ لاشریک ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ

۴۹۔۔۔   سو اس سے پیغمبر کی صداقت و حقانیت کو واضح فرما دیا گیا، چنانچہ ارشاد فرمایا گیا کہ یہ غیب کی کچھ خبریں ہیں جو اس سے پہلے نہ آپ جانتے تھے اور نہ ہی آپ کی قوم، تو پھر آپ نے ان کو اس قدر تفصیل اور باریکی کے ساتھ آخر کس طرح بیان کیا؟ جبکہ ظاہری اسباب کے درجے میں ان کے جاننے کا دوسرا کوئی ذریعہ و وسیلہ بھی آپ کے پاس موجود نہیں تھا۔ پس آپ نے یہ سب کچھ وحی کے ذریعے ہی بیان کیا۔ جو اس بات کا قطعی اور واضح ثبوت ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور آپ کے پاس اللہ کی وحی آتی ہے، پس آپ قطعی طور پر حق پر ہیں، اس لئے آپ صبر و استقامت ہی سے کام لیں۔ اور یقین رکھیں کہ انجام کار کامیابی پرہیزگاروں ہی کے لئے ہے۔ سو تقویٰ و پرہیزگاری دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ ہے،

۵۰۔۔۔    سو اس سے تصریح فرمائی گئی کہ حضرت ہود قوم عاد کے بھائی تھے یعنی قومی اور نسلی اعتبار سے، سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ پیغمبر اپنی قوم کا نسلی اور نسبی اعتبار سے بھائی اور ان کا ہم قوم ہوتا ہے۔ اب اس کے بعد اگر وہ لوگ ایمان لے آئیں گے، تو وہ دینی اور ایمانی اعتبار سے بھی ان کے بھائی ہو جائیں گے، ورنہ وہی قومی اور نسبی اخوت رہے گی۔ سو اس طرح قرآن و سنت کی مختلف نصوص سے اس حقیقت کی تصریح فرما دی گئی کہ نبی اپنی قوم کا بھائی ہوتا ہے۔ اور یہی تقاضا ہے عقل سلیم اور فطرت مستقیم کا، مگر اہل بدعت پھر بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں، بلکہ انہوں نے الٹا اسی بناء پر بعض اکابر اہل حق کے خلاف ایک طوفان بدتمیزی بپا کیا۔ جو انکی جہالت ہٹ دھرمی اور مت ماری کا ایک کھلا ثبوت ہے۔ والعیاذُ باللہ العظیم

۵۱۔۔۔    سو اس سے پیغمبر کی لِلّٰہیّت بے لوثی، اور خیر خواہی کی شان واضح ہو جاتی ہے۔ یعنی میں جو تم لوگوں کو اس طرح بار بار اور طرح طرح سے سمجھا رہا ہوں تو اس سے میرا کوئی دنیاوی مفاد وابستہ نہیں۔ میں نہ تو تم لوگوں سے کسی طرح کا کوئی اجر و صلہ چاہتا ہوں۔ اور نہ ہی میرا تم سے کسی طرح کا کوئی اور مفاد وابستہ ہے، میں تو صرف تم لوگوں کے لئے بھلائی و خیر خواہی اور تمہاری صلاح و فلاح چاہتا ہوں۔ میرا اجر و صلہ تو اسی ذات پر، اور اسی کے ذمے ہے جس نے مجھے پیدا فرمایا اور وجود بخشا ہے اور دنیا والوں کے پاس ہے ہی کیا کہ وہ اس کو دولت حق و ہدایت کے مقابلے اور اس کے بدلے میں پیش کر سکیں؟ اس کا اجر و ثواب تو وہ اللہ وحدہٗ لاشریک ہی دے سکتا ہے، جو کہ دنیا و آخرت کے دونوں جہانوں کی جملہ خیرات و برکات اور ان کی تمام نعمتوں اور رحمتوں کا خالق و مالک ہے۔ سو میں تم لوگوں سے کچھ لینے کا خواہشمند نہیں، بلکہ تم کو دینا ہی چاہتا ہوں، تو کیا تم لوگ اتنا بھی نہیں سمجھتے؟ یعنی تم لوگوں کو اتنی موٹی بات اور اسقدر واضح حقیقت کو سمجھ کر اس کے تقاضوں کو پورا کرنا چاہیے۔ سو اسطرح حضرت ہود نے ان لوگوں کے دلوں پر ایک زور دار دستک دی۔ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام

۵۲۔۔۔    سو اس سے حضرت ہود نے اپنی قوم کو حق و ہدایت کی اس راہ صدق و صواب کی تعلیم و تلقین فرمائی جو انسان کو دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز و بہرہ مند کرتی ہے۔ اور وہ راہ ہے توبہ واستغفار کی راہ اس سے دراصل اس حقیقت کو واضح فرمایا گیا کہ توبہ اور رجوع الی اللہ کے دو رکن اور پہلو ہیں، ایک منفی اور دوسرا مثبت منفی یہ کہ انسان نے جو غلط عقائد و اعمال اختیار کر رکھے ہوں ان کو وہ ترک کر دے، اور ان سے دست بردار اور کنارہ کش ہو جائے، اور مثبت یہ کہ ان کی جگہ وہ صحیح عقائد و اعمال کو اپنائے، اور اختیار کرے، سو ان دونوں میں سے پہلے رکن اور پہلو کے اعتبار سے یہاں پر استغفار کا لفظ استعمال فرمایا گیا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ بندہ اپنے رب سے اپنے گزشتہ گناہوں کی معافی مانگے، اور ان کے لئے عفو و درگزر کی درخواست کرے۔ اور دوسرے رکن اور پہلو کے لئے توبہ کا لفظ استعمال فرمایا گیا ہے، جس کا حاصل اور مطلب یہ ہے کہ بندہ اس راہ حق و ہدایت کو اختیار کرے جو اس کے رب نے اس کو بتائی ہے، کہ اس کی بتائی ہوئی وہی راہ ہے جو اس کو اپنے رب سے ملا سکتی ہے، اور اس تک پہنچا سکتی ہے۔ سو ان دونوں میں سے پہلے رکن کی اساس و بنیاد خوف و خشیت خداوندی پر ہے، جبکہ دوسرے رکن کی اساس و بنیاد محبت و اطاعت خداوندی پر، اور ایسی سچی اور حقیقی توبہ کا صلہ و ثمرہ یہ بیان فرمایا گیا کہ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے لئے آسمانوں اور زمین دونوں کی برکتیں کھول دے گا، سو وہ ان کے لئے آسمان سے بارش کے دھانے کھول دے گا۔ اور بارش کی کثرت و فراوانی ہر قسم کے رزق روزی اور طرح طرح کی خیرات و برکات کی اصل و اساس، اور اس سے سرفرازی کی تعبیر ہے، نیز اس طرح کی سچی توبہ کے نتیجے میں پہلے سے حاصل و میسر قوتوں میں مزید اضافہ، اور ان میں برکت و بڑھوتری ہو گی۔ پس اس راہ حق و صواب سے اعراض و روگردانی اور اس سے منہ موڑنا سنگین جرم، اور دارین کی محرومی کا باعث ہے۔ اسی لئے حضرت ہود نے اپنی قوم کو اس راہ حق و ہدایت کی تعلیم و تلقین کے بعد ان سے فرمایا کہ تم لوگ مجرم بن کر نہ پھرو۔ بلکہ استغفار و توبہ کی جو دعوت تم لوگوں کو اللہ کا پیغمبر دے رہا ہے، اس کو فرمانبردارانہ طور پر قبول کرو۔ کہ یہی چیز دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ وسیلہ ہے، جبکہ اس سے اعراض و روگردانی باعث ہلاکت و محرومی ہے، والعیاذ باللہ جَلَّ وَعَلَا

۶۰۔۔۔   سو اس ارشاد سے کئی اہم اور بنیادی حقائق واضح ہو جاتے ہیں، مثلاً یہ کہ قوم عاد کے اس ہولناک انجام سے واضح ہو جاتا ہے کہ کفر و انکار، اور تکذیب حق کا آخری انجام بہرحال ہلاکت و تباہی ہے منکرین و مکذبین کو مہلت اور ڈھیل جتنی بھی ملے۔ وہ بہرحال ایک مہلت اور ڈھیل ہی ہوتی ہے، جس نے بہرحال آخرکار ختم ہو جانا ہوتا ہے۔ اور ایسے لوگوں نے اپنے ہولناک انجام سے دوچار ہو کر رہنا ہوتا ہے، جبکہ دوسری اہم حقیقت اس سے یہ واضح ہو جاتی ہے کہ ایسے لوگوں پر عذاب بھیجنے کے لئے اللہ تعالیٰ کو کسی تیاری کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بلکہ اس کے لئے اس کا محض ایک حکم و اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ اسی لئے ان لوگوں پر بھیجے جانے والے عذاب کو یہاں پر اَمر کے لفظ سے تعبیر فرمایا گیا ہے، یعنی وہ محض اللہ تعالیٰ کے ایک حکم و اشارہ کا نتیجہ تھا۔ اور تیسری اہم حقیقت اس سے یہ واضح ہو جاتی ہے کہ نجات دہندہ اور حاجت روا و مشکل کشا سب کا اللہ وحدہٗ لاشریک ہی ہے حضرات انبیاء و رسل بھی اسی کے در کے سوالی، اور اسی کے محتاج ہیں، حضرت ہود اور ان کے ایماندار ساتھیوں کو بھی اسی نے نجات دی۔ پس غلط کہتے اور شرک کا ارتکاب کرتے ہیں وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی عاجز مخلوق میں سے کچھ کو حاجت روا و مشکل کشا قرار دے کر پوجتے پکارتے ہیں اور چوتھی اہم حقیقت اس سے یہ واضح فرما دی گئی کہ ان لوگوں پر آنے والا وہ عذاب کوئی معمولی عذاب نہیں تھا۔ بلکہ وہ بڑا ہی سخت اور انتہائی ہولناک عذاب تھا۔ جس سے اللہ تعالیٰ نے حضرت ہود اور ان کے ساتھیوں کو بچا لیا، اور محض اپنے فضل و کرم سے بچا لیا، سبحانہ و تعالیٰ، اسی لئے اس کو یہاں پر عذاب غلیظ کے الفاظ سے تعبیر فرمایا گیا۔

۶۱۔۔۔   یہاں پر حضرت حق جَلَّ مَجْدہٗ کے لئے قریب اور مجیب کی دو صفتوں کے ذکر و بیان سے ایک مشہور مشرکانہ عقیدے، اور فلسفے کی جڑ نکال دی گئی۔ جس کی بناء پر بہت دنیا گمراہی کے ہولناک گڑھے میں گری، اور تباہی کے گھاٹ پر اتری جو پہلے بھی چلتا رہا۔ اور آج بھی مختلف اوساط میں جوں کا توں موجود ہے۔ اور جس کو کتنے ہی کلمہ گو مشرکوں نے بھی اختیار کر رکھا ہے۔ اور اس مشرکانہ فلسفے کی اساس و بنیاد یہ ہے کہ مشرک لوگ حضرت حق جَلَّ مَجْدہٗ کو دنیاوی بادشاہوں اور حکمرانوں پر قیاس کر کے اس کے لئے طرح طرح کے من گھڑت شرکیہ وسیلے اور واسطے اپناتے ہیں سو ایسے مشرک لوگوں کا کہنا ہے کہ جس طرح دنیاوی بادشاہوں اور حکمرانوں کے پاس ایک عام آدمی براہ راست خود نہیں پہنچ سکتا اور اگر پہنچ بھی جائے تو وہاں اس کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ اسی طرح خداوند قدوس کی بارگاہ اقدس و اعلیٰ میں بھی ہم براہ راست خود نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اس کے لئے ان کے ان خود ساختہ اور من گھڑت وسیلوں اور واسطوں کو نہ اپنایا جائے سو اس ارشاد ربانی میں قریب اور مجیب کی ان دونوں صفتوں کے ذکر سے اس مشرکانہ فلسفے کی جڑ نکال دی گئی۔ کیونکہ اس سے واضح فرما دیا گیا کہ ہمارا رب کہیں دور نہیں کہ اس تک ہماری رسائی مشکل ہو۔ بلکہ وہ قریب اور نہایت قریب ہے، سو وہ انسان سے اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ (ق۔۱۶) نیز وہ مجیب ہے جو ہر کسی کی دعا و پکار کو سنتا اور قبول فرماتا ہے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ الایۃ (البقرۃ۔۱٨۶) پس اپنے رب تک رسائی۔ اور اس کے حضور اپنی عرض پیش کرنے کے لئے اسطرح کے کسی خود ساختہ وسیلے اور واسطے کی ضرورت نہیں۔ سبحانہ و تعالیٰ

۶۲۔۔۔   سو حضرت صالح نے اپنی قوم کو پیغام حق سنایا تو ان لوگوں نے اس کے جواب میں ایک بات تو یہ کہی کہ صالح! تم تو بہت خوبیوں اور صلاحیتوں کے مالک تھے۔ اور ہماری تم سے بڑی امیدیں اور توقعات وابستہ تھیں، کہ تم بڑے ہو کر ہماری قوم کا نام روشن کرو گے۔ مگر تم نے یہ کیا کر دیا کہ تم ایک نیا دین لے کر آ گئے ہو، اور اپنے باپ دادا کو جھٹلا دیا۔ سو حضرات انبیاء کرام صلی اللہ علیہ و سلم چونکہ نخل فطرت کے بہترین ثمر اور سب سے عمدہ پھل ہوتے ہیں۔ اس لئے وہ اپنی قوم کی امیدوں کا مرکز ہوتے ہیں لیکن دین و ایمان کی روشنی سے محروم لوگوں کے لئے چونکہ سب کچھ یہ دنیا ہی دنیا ہوتی ہے، اس لئے وہ اسی کے اعتبار سے دیکھتے اور اسی پیمانے سے ناپتے اور تولتے ہیں اسی لئے جب حضرات انبیاء کرام ان کے سامنے دعوت حق پیش کرتے ہیں تو وہ لوگ آگے بڑھ کر اس کو ماننے اور قبول کرنے کے بجائے الٹا ان کے مخالف اور دشمن بن جاتے ہیں، اور ان کو ساحر و کذاب تک کہنے لگتے ہیں، اور مادہ پرستوں کا یہی حال کل تھا اور یہی آج ہے آج بھی ایسے لوگوں کے جو اچھے اور ہونہار بچے ہوتے ہیں، ان کو یہ لوگ سکولوں اور کالجوں وغیرہ میں بھیجتے ہیں تاکہ وہاں پر یہ ڈاکٹر اور انجینئر وغیرہ بن کر دنیا کما سکیں، اور جو کوئی ناکارہ اور معذور بچہ ہو گا اس کو کسی دینی مدرسے میں داخل کرا دیں گے، الا ماشاء اللہ، راقم! اثم کے پاس اس سلسلہ میں کئی عبرت انگیز اور سبق آموز واقعات ہیں، جن کو راقم عبرت پذیری کے لئے حسب موقع احباب و رفقاء کی مجالس میں سناتا رہتا ہے، اور ان میں سے ایک خاص واقعہ خود راقم! اثم کے اپنے زمانہ طالب علمی کا بھی ہے جس کو راقم نے اپنی بڑی تفسیر عمدۃ البیان المعروف تفسیر المدنی الکبیر میں اس موقع پر درج بھی کیا ہے، جو دیکھنا چاہے وہاں دیکھ لے، کہ اس میں بڑا سامان عبرت و بصیرت ہے اور دوسری بات ان لوگوں نے حضرت صالح سے یہ کہی کہ تم ہمیں ان چیزوں کی پوجا پاٹ سے روکتے اور منع کرتے ہو، جن کی پوجا ہمارے باپ دادا کرتے آئے ہیں، یعنی یہ ایک انہونی اور غلط بات ہے جس لوگ کو ہم ماننے کے لئے تیار نہیں، اور یہی منطق آج کا جاہل مسلمان بگھارتا ہے، کہ ہم چونکہ لکیر کے فقیر ہیں۔ لہٰذا ہم تو اپنے باپ دادا کے طریقے ہی پر چلتے رہیں گے خواہ اس کے خلاف اور اس کے مقابلے میں کتنے ہی دلائل کیوں نہ موجود ہوں۔ والعیاذ باللہ اور تیسری بات ان لوگوں نے حضرت صالح سے یہ کہی کہ ہم لوگ اس دعوت کے بارے میں یقینی طور پر ایک خلجان آمیز اور اضطراب انگیز شک میں پڑے ہوئے ہیں، جو تم ہمیں دے رہو۔ سو یہ دعوت حق کے اثر اور اس کی قوت کا نتیجہ ہے کہ اس سے منکرین ایک قلق و اضطراب میں مبتلا ہو جاتے ہیں، ایک طرف ان کے موروثی اور آبائی طور طریقے ہوتے ہیں، اور دوسری طرف دعوت حق اور اس کی اثر آفرینی، جس سے منکرین نہ ادھر کے رہتے ہیں نہ ادھر کے اور اس طرح ان کو انکار حق کی ایک نقد سزا ہمیں، اور برابر ملتی رہتی ہے۔ والعیاذُ باللہ العظیم

۶۶۔۔۔    سو جب تمہارا رب بڑا ہی قوی یعنی نہایت قوت والا ہے، وہ جو چاہے اور جیسا چاہے کرے، اس کے لئے نہ کچھ مشکل ہو سکتا ہے نہ بعید اور جب وہ عزیز اور غالب بھی ہے تو نہ کوئی اس کے عقاب سے نکل اور بھاگ سکتا ہے، اور نہ کوئی اس کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے، سو آخرکار اس نے قوم صالح کے ان منکروں پر عذاب کا وہ کوڑا برسا دیا جس کے وہ لوگ اپنے کفر و انکار کی پاداش میں مستحق ہو گئے تھے۔ اور نجات انہی کو ملی جو حضرت صالح کے ساتھ ایمان لائے تھے سو نجات کا ذریعہ صرف ایمان و یقین ہے۔ اور کفر و تکذیب کا نتیجہ و انجام بہرحال ہلاکت و تباہی ہے۔ والعیاذُ باللہ، نیز اس سے یہ بھی واضح فرما دیا گیا کہ حضرت صالح اور ان کے ساتھیوں کا نجات دھندہ اور حاجت روا مشکل بھی اللہ وحدہٗ لاشریک ہی ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ،

۶۹۔۔۔    سو اس سے حضرت ابراہیم کی شان کرم و ضیافت اور آنجناب کی مہمانداری اور مسافر نوازی کا اندازہ ہوتا ہے، کہ چند ایسے اوپرے، چوپرے آدمی دروازے پر آتے ہیں، جن سے نہ کوئی جان نہ پہچان، اور نہ کوئی تعارف و ملاقات، اور نہ ہی اس سے پہلے ان سے کسی طرح کی کوئی علیک سلیک۔ اور نہ کوئی دید و شنید، مگر آنجناب اس سب کے باوجود فوراً ایک بچھڑا ذبح کرا کر اور بھون کر ان کے سامنے رکھ دیتے ہیں کیا آج کے دور میں بھی جس کو دنیا بڑا ترقی یافتہ دور کہتی اور مانتی ہے، کیا اس میں بھی کسی بڑے سے بڑے فیاض شخص کے یہاں بھی اس کی کوئی نظیر و مثال مل سکتی ہے؟ کہ وہ اس طرح کے اجنبی اور ناواقف مہمانوں کے لئے فوری طور پر ایک عمدہ بچھڑا ذبح کرا کر۔ اور بھون کر لا کر ان کے سامنے رکھ دے؟ سو حضرات انبیاء کرام کی ہر شان عالی و نرالی اور انکی ہر صفت اور خوبی بے مثال ہوتی ہے علی نبینا وعلیہم الصلوٰۃ والسلام

۷۰۔۔۔    یعنی جب حضرت ابراہیم نے دیکھا کہ یہ مہمان کھانا نہیں کھا رہے اور ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں بڑھ رہے تو اس سے آپ کو اپنے دل میں ایک قسم کا خوف محسوس ہوا کہ ایسے کیوں ہے؟ کہیں یہ لوگ کسی اور ارادے سے نہ آئے ہوں۔ تو اس پر فرشتوں نے آنجناب کی تسلی کیلئے۔ اور ان کو اطمینان دلاتے ہوئے اصل حقیقت کو ان کے سامنے واضح فرما دیا۔ کہ آپ ڈریں نہیں، ہم کوئی انسان نہیں، بلکہ فرشتے ہیں، جو انسانی شکل میں آپ کے پاس آئے ہیں۔ اور ہمارا اصل کام قوم لوط کا بیڑا غرق کرنا ہے۔ سو اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ پیغمبر نہ عالم غیب ہوتے ہیں اور نہ مختار کل جیسا کہ ہمارے یہاں کے اہل بدعت کا کہنا اور ماننا ہے کیونکہ اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو نہ حضرت ابراہیم ان فرشتوں کو حقیقی طور پر انسان سمجھ کر ان کے لئے کھانے کا انتظام کرتے، اور نہ ان کی مہمان نوازی کے لئے اس طرح ایک موٹا تازہ بچھڑا بھون کر لا کر ان کے سامنے رکھتے، اور نہ ہی آپ ان کے نہ کھانے سے کسی طرح کا کوئی خوف و خطرہ محسوس کرتے۔ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام،

۷۱۔۔۔    سو فرشتوں کی طرف سے سنائی جانے والی یہ خوشخبری دراصل کئی خوشخبریوں پر مشتمل تھی۔ مثلاً یہ کہ حضرت ابراہیم کے یہاں اسحاق نام کا ایک عظیم الشان اور جلیل القدر بیٹا پیدا ہو گا، جو نہ صرف یہ کہ زندہ رہے گا بلکہ پل بڑھ کر جواں ہو گا اور آگے اس عمر کو پہنچے گا کہ اس کے یہاں یعقوب نام کا ایک عظیم الشان بیٹا پیدا ہو گا، اور اسطرح یہ نسل خیر و برکت آگے بڑھے گی۔ اور کائنات میں خیر و برکت کے اضافے اور پھیلاؤ کا ذریعہ و وسیلہ بنے گی۔ اس لئے اس عظیم الشان بشارت پر حضرت ابراہیم کی زوجہ محترمہ حضرت سارہ جو کہ قریب ہی کہیں دروازے سے لگی کھڑی تھیں، سن کر ہنس پڑیں۔ اور ظاہر ہے کہ ان کی یہ ہنسی حیرت تعجب اور مسرت کے کئی طرح کے عظیم الشان جذبات کی عکاس و مظہر تھی۔

۷۲۔۔۔    حضرت سارہ کو اس عظیم الشان خوشخبری سے جو باطنی مسرت ہوئی اس کا اظہار ان کے ان الفاظ سے ہو رہا ہے جن کا ذکر اوپر ہوا۔ لیکن ساتھ ہی انہوں نے اس بارہ میں ان ظاہری رکاوٹوں کا بھی ذکر فرما دیا جو اس بشارت کے ظہور کی راہ میں رکاوٹ تھیں۔ تاکہ وہ ان کے بارہ میں بھی یہ اطمینان کر لیں کہ یہ بشارت اس کے باوجود پوری ہو کر رہے گی اور کوئی رکاوٹ اس میں حائل نہ ہو گی۔

۷۳۔۔۔    سو فرشتوں نے حضرت سارہ کے اس اظہار تعجب کے جواب میں بڑے ادب کے ساتھ ان کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ پیغمبر کے اہل بیت ہونے کے شرف سے مشرف ہونے کے باوجود اس طرح کا تعجب کیسے کر سکتی ہیں؟ جبکہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور اس کی برکتوں کا سلسلہ آپ لوگوں پر دن رات جاری رہتا ہے؟ یعنی آپ کو اس پر کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ بڑی ہی عظمتوں اور عنایتوں والا ہے۔ اور اس کی رحمتوں اور برکتوں کے نزول سے آپ لوگ کوئی ناواقف اور بے خبر نہیں، کیونکہ ان کا سلسلہ آپ لوگوں پر دن رات جاری وساری رہتا ہے۔ سو اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ پیغمبر کے اہل بیت اصل میں ان کی بیوی ہی ہوتی ہے۔ باقی سب متعلقین اور اہل خانہ ان کے تابع ہوتے ہیں۔

۷۶۔۔۔   سو حضرت ابراہیم نے قوم لوط کے بارے میں فرشتوں سے جو جھگڑا کیا کہ ان کو ابھی مزید مہلت دی جائے، تو اس کے بارے میں حضرت ابراہیم کی درد مندی ہمدردی، اور دلسوزی، کی تعریف تو کی گئی لیکن اس کے ساتھ ہی آنجناب کو اس حقیقت سے بھی آگاہ فرما دیا گیا۔ کہ اب اس دعا و التجاء کا کوئی فائدہ نہیں، کہ اس کا وقت گزر چکا ہے اب تو آپ کے رب کا حکم یعنی عذاب ان لوگوں پر آ چکا ہے۔ جو اب وہ ٹلنے والا نہیں، کیونکہ یہ عذاب کوئی تنبیہی نوعیت کا نہیں، بلکہ آخری اور فیصلہ کن عذاب ہے جو کبھی اور کسی طرح ٹلا نہیں کرتا۔ اس لئے یہ اب نہ کسی کے ٹالے عمل سکتا ہے اور نہ ہی کسی میں اس کے مقابلے کی کوئی طاقت ہو سکتی ہے۔ لہٰذا اس سلسلے میں ایسی دعا و درخواست بےسود و لا حاصل ہے۔

۷۷۔۔۔   یعنی اللہ کے بھیجے ہوئے وہ فرشتے حضرت ابراہیم کو بیٹے کی خوشخبری دینے اور ان کو قوم لوط کے انجام کے بارے میں باخبر کرنے کے بعد اپنی اصل مہم کی انجام دہی کے سلسلہ میں حضرت لوط کے پاس پہنچے تو آنجناب ان کی بناء پر سخت غمگین اور بہت تنگ دل ہوئے۔ کیونکہ یہ فرشتے چند خوبرو نوجوانوں کی شکل میں آنجناب کے گھر پہنچے تھے۔ اور آپ کی قوم پوری کی پوری جس ہولناک اخلاقی گراوٹ کا شکار تھی اس کے پیش نظر آنجناب کا یہ انقباض اور پریشانی ایک طبعی چیز تھی۔ کیونکہ ایسے میں ایسے خوبرو و نوجوانوں کا گھر میں آ جانا، پوری قوم سے لڑنے اور تمام غنڈوں کو پل بڑنے کی دعوت دینے کے مترادف تھا، سو حضرت لوط کی اس دل تنگی اور پریشانی سے یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ پیغمبر نہ عالم غیب ہوتے ہیں، اور نہ ہی مختار کل جیسا کہ اہل بدعت کا کہنا ہے، ورنہ حضرت لوط اس موقع پر اس قدر پریشان کبھی نہ ہوتے۔ سو علم غیب، کلی، اور اختیار کلی، اللہ تعالیٰ ہی کی صفت اور اسی کی شان ہے۔ اس کی اس خاص صفت و شان میں کوئی نہ اس کا شریک وسہیم ہے اور نہ کس طرح ہو سکتا ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ

۷۸۔۔۔   یعنی کوئی ایسا بھلے مانس انسان جس پر میری اس درد مندانہ اور پرسوز عرض و اپیل کا کوئی اثر ہو۔ سو اس جملے سے حضرت لوط نے ان لوگوں پر حجت تمام کر دی۔ کیونکہ ان میں سے کسی کے اندر اگر ذرہ برابر بھی حمیت و حمایت حق کا کوئی احساس موجود ہوتا تو وہ ضرور حرکت میں آ جاتا۔ لیکن اس کے بعد بھی جب کسی کا ضمیر بیدار نہ ہوا، تو اس سے یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ ان لوگوں کے اندر انسانیت اور شرافت کی کوئی حس سرے سے باقی نہیں رہ گئی تھی۔ اور اب ان کا وجود اللہ کی زمین پر ایک ایسا ناروا بوجھ بن گیا تھا جس کا خاتمہ ضروری ہو گیا تھا، بَنَاتِیْ سے حقیقی بیٹیاں بھی مراد ہو سکتی ہیں، اور قوم کی بیٹیاں بھی، لفظ بنات کے اندر دونوں کے احتمال کی گنجائش موجود ہے۔ حضرات مفسرین کرام سے یہ دونوں ہی قول مروی و منقول ہیں۔ اور ان دونوں ہی صورتوں میں حضرت لوط کی انتہائی بے بسی اور درد مندی ظاہر ہو رہی ہے۔

۸۱۔۔۔   ۱:  سو جب حضرت لوط کی پریشانی اور آنجناب کی بے بسی اس حد تک پہنچ گئی تو اس موقع پر فرشتوں نے اپنی اصل حقیقت کو ان پر واضح کر دیا۔ اور ان کو بتا دیا کہ ہم کوئی انسان نہیں، جیسا کہ ان بدبختوں نے سمجھ رکھا ہے بلکہ ہم اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں۔ جو ان کو ان کے آخری انجام تک پہنچانے کے لئے آئے ہیں لہٰذا آپ اپنے متعلقین سمیت یہاں سے نکل جائیں۔ اور آپ لوگوں میں سے کوئی بھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے سوائے آپ کی بیوی کے، کہ اس کو بھی وہی عذاب پہنچ کر رہے گا، جو ان لوگوں کو پہنچنے والا ہے۔ پھر انہوں نے ان کی ہلاکت کے وقت سے بھی ان کو آگہی بخش دی کہ وہ صبح کا وقت ہے، سو اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ پیغمبر مختار کل نہیں ہوتے۔ ورنہ حضرت لوط کی بیوی اس ہولناک انجام سے دو چار نہیں ہوتی۔

۲: استفہام یہاں پر ظاہر ہے تقریری ہے، یعنی ہاں صبح قریب ہی ہے۔ اس میں اب کچھ زیادہ دیر نہیں۔ لہٰذا ان لوگوں کے بارے میں زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں یہ بدبخت اب اپنے آخری انجام کو پہنچنے ہی والے ہیں۔ سو تکذیب و انکار حق کا نتیجہ و انجام بہرحال ہلاکت و تباہی ہے ایسے لوگوں کو ڈھیل جتنی بھی ملے وہ بہرحال ایک ڈھیل ہی ہوتی ہے جس نے انجام کار اپنے وقت پر بہرحال ختم ہو کر رہنا ہوتا ہے۔

۸۲۔۔۔   سجیل دراصل سنگ گل کا معرب ہے جس کا معنی ہے مٹی کے پتھر، یعنی مٹی کے وہ پتھر جو پک کر اور جل کر کھنگر بن جاتے ہیں، سو اس بدبخت قوم نے جس خلاف وضع فطرت عمل کو اپنا رکھا تھا اس کی پاداش میں ان کو عذاب بھی وہ دیا گیا جس نے اس کی بستیوں کو تہ و بالا کر دیا۔ اور اوپر سے ان پر کھنگر کے پتھروں کی تابڑ توڑ بارش برسائی گئی۔ اور اس طرح وہ ہمیشہ کے لئے مٹ مٹا کر قصہ پارینہ بن کر رہ گئے، والعیاذُ باللہ العظیم، من کل زیغ و ضلال، وسوء و انحراف، بکل حالٍ من الاحوال، وفی کل موطنٍ من المواطن فی الحیاۃ

یعنی وہ پتھر جو ان لوگوں پر برسائے گئے ان پر تمہارے رب کے یہاں سے خاص نشان لگا دیئے گئے تھے۔ اور خداوند قدوس کے علم اور اس کی قدرت میں وہ ان بدبختوں کے لئے پہلے سے ہی مقرر اور طے شدہ تھے۔ کہ ان کو ان بدبختوں اور سرکشوں پر برسایا جاتا ہے اور وہ پتھر ان کے سے کچھ دور بھی نہ تھے کہ ان کو وہاں سے اٹھا کر لانا کچھ مشکل ہوتا۔ بلکہ وہیں پڑے تھے۔ اور ان کو وہیں سے اٹھا کر ان پر برسا دیا گیا۔ یہ اس جملے کا ایک مطلب اور اس سے متعلق ایک احتمال ہے۔ یعنی یہ کہ ہِیَ کا مرجع حجارۃ کو قرار دیا جائے۔ جبکہ دوسرا قول و احتمال اس میں یہ ہے کہ اس میں ہِیَ کی ضمیر کا مرجع وہ تباہ شدہ بستیاں ہوں اور ظالمین سے مراد قریش کے منکرین، جو انکار حق سے خود اپنی جانوں ہی پر ظلم ڈھا رہے تھے۔ ترجمہ اسی کے مطابق کیا گیا ہے، سو اس میں ہر دور کے منکرین کے لئے بڑا سامان عبرت و بصیرت ہے۔ پس ہر دور کے ظالموں کو چاہیے کہ وہ کل کے ان ظالموں کے ہولناک انجام سے درس عبرت لیں۔ لیکن غفلت کی ماری دنیا میں سب سے نادر و نایاب چیز نگاہ عبرت و بصیرت ہی رہی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم

۸۳۔۔۔   یہاں بھی اسی حقیقت کا اعادہ و تکرار فرمایا گیا کہ پیغمبر اپنی قوم کا بھائی ہوتا ہے۔ اور یہ ان لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا مستقل احسان ہوتا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا گیا کہ ہم نے مدین والوں کی طرف ان کے بھائی شعیب کو رسول بنا کر بھیجا۔ یعنی وہ ان کے قومی اور نسلی اعتبار سے بھائی تھے۔ سو پیغمبر اپنی قوم کے بھائی ہی ہوتے ہیں، وہ نہ کوئی اجنبی مخلوق ہوتے ہیں۔ اور نہ ہی کوئی مافوق الفطرت ہستیاں، پھر انکی دعوت کے بعد جو لوگ ان پر ایمان لے آتے ہیں۔ تو ان سے انکی دینی اور ایمانی اخوت بھی قائم ہو جاتی ہے، لیکن اس کے باوجود اہل بدعت اس حقیقت کو ماننے کے لئے تیار نہیں۔

۸۴۔۔۔    قوم مدین میں کفر و شرک کے عمومی روگ کے علاوہ ایک خاص قومی بیماری یہ بھی تھی کہ یہ لوگ ناپ تول میں کمی کے جرم میں بھی مبتلا تھے۔ اور پوری قوم مجموعی طور پر اس جرم کا ارتکاب کر رہی تھی۔ اس لئے حضرت شعیب نے دعوت توحید کے بعد ان کو اسی قومی روگ پر تنبیہ و تذکیر فرمائی۔ اور ان سے کہا کہ تم لوگ ناپ تول میں کمی نہ کرو۔ میں تم لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ تم اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اچھی حالت میں ہو تو پھر تم کو ڈنڈی مارنے کی اور دوسروں کے حقوق غصب کرنے کی آخر کیا ضرورت ہے؟ اور تم لوگ اگر اپنی اس روش سے باز نہ آئے اور تم نے اپنی حالت کی اصلاح نہ کی تو مجھے تم لوگوں کے بارے میں ایک ایسے ہولناک دن کے عذاب کا خدشہ ہے جو تمہیں ہر طرف سے گھیر لے گا۔ اور اسطرح گھیر لے گا کہ تمہارے لئے اس سے نکلنے اور بھاگنے کی کوئی صورت ممکن نہ ہو گی۔ والعیاذُ باللہ العظیم، سو اس سے بچنے کی فکر و کوشش کرو،

۸۸۔۔۔   ۱: یہاں پر بَیِّنۃسے مراد وہ نور فطرت ہے جو قدرت نے اپنی فیاضیوں سے ہر انسان کی فطرت میں ودیعت فرمایا ہے اور جو انسان کی صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ اگر انسان نے اپنی بے اعتدالیوں، اور غلط ماحول کے اثرات کی بناء پر اس کو ضائع نہ کر دیا ہو۔ جیسا کہ مشہور حدیث میں ارشاد فرمایا گیا کہ ہر بچے کی پیدائش فطرت سلیمہ یعنی اسلام ہی پر ہوتی ہے۔ پھر آگے اس کے ماں باپ خواہ اس کو یہودی بنائیں، یا نصرانی بنائیں، یا مجوسی، پھر اس کی تائید و تصدیق کے طور پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سورہ روم کی یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی۔ فِطْرَۃَ اللّٰہِ الِّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا الایۃ (الروم۔۳٠) اور رزق حسن سے مراد وحی خداوندی ہے۔ جس کو اوپر آیت نمبر۶۳ میں رحمۃ کے لفظ سے تعبیر فرمایا گیا تھا۔ اور وحی کو رزق حسن کے لفظ سے تعبیر کرنے میں یہ درس عظیم ہے کہ جس طرح مادی رزق انسان کی مادی زندگی، اور مادی جسم کی بقاء کے لئے ضروری ہے۔ اسی طرح اس کی روحانی زندگی کی بقاء کے لئے وحی الٰہی کے رزق حسن کی ضرورت ہے۔ اور اسی حقیقت کو حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس طرح تعبیر فرمایا ہے کہ انسان صرف روٹی سے نہیں جیتا، بلکہ وہ اس کلمے سے جیتا ہے، جو خداوند تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے۔ سو حضرت شعیب نے اپنی قوم کے ان بگڑے ہوئے لوگوں کے قلوب و ضمائر پر دستک دیتے ہوئے ان سے فرمایا کہ ذرا تم لوگ سوچو کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے بخشی ہوئی روشن دلیل پر قائم ہوں۔ اور پھر اس نے اپنی مزید عنایت سے مجھے وحی الٰہی کے رزق حسن سے بھی نواز دیا ہو۔ تو پھر میں اس کی بخشی ہوئی راہ حق و ہدایت سے کیسے ہٹ کر چل سکتا ہوں؟ اور ایسے میں مجھے اس کے غضب سے کون چھڑا اور بچا سکے گا؟ ۔

۲: یعنی ایسا نہیں کہ میں جن چیزوں سے تم لوگوں کو روکتا ہوں خود اس کی خلاف ورزی کرتا ہوں، اور صرف تم لوگوں کو وعظ سناتا ہوں، نہیں ایسا نہیں بلکہ میں خود بھی ان کا پابند ہوں۔ اور پیغمبر تو اپنی دعوت کے عملی نمونہ ہوتے ہیں۔ نیز فرمایا کہ میرا کام تو اصلاح کرنا ہے جس قدر مجھ سے ہو سکے۔ اور اس جدوجہد میں جتنی بھی توفیق و راہنمائی ہو سکے گی وہ سب اللہ تعالیٰ ہی توفیق و عنایت سے ہو گی۔ میں نے اسی پر بھروسہ کر رکھا ہے۔ اور میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ سو آنجناب کے ان ارشادات سے داعیئ حق کے لئے راہ حق کے سلسلہ میں اہم خدوخال واضح ہو جاتے ہیں کہ وہ دعوت حق کے سلسلہ میں اپنے عمل سے عمدہ نمونہ پیش کرے۔ جتنا ہو سکے اصلاح احوال کی کوشش کرے۔ بھروسہ ہمیشہ اللہ ہی پر کرے اور اسی کی طرف رجوع ہے۔

۹۰۔۔۔    سو اس ارشاد سے ایک تو توبہ کے دو اہم اور بنیادی رکنوں کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی یعنی یہ کہ تم لوگ اپنے رب سے مغفرت و بخشش کی دعا و درخواست کرو۔ یعنی اپنے گزشتہ گناہوں اور جرائم کی اس سے معافی مانگو۔ اور آئندہ کے لئے اپنے رویے کی عملی طور پر اصلاح بھی کرو۔ اور صدق دل سے اپنے خالق و مالک کی طرف رجوع کرو۔ اور ہمیشہ اسی کی طرف رجوع رہو۔ ان دو بنیادوں کے بغیر اللہ تعالیٰ کے یہاں کسی توبہ کا کوئی وزن اور اعتبار نہیں۔ اور اگر تم لوگ سچی توبہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ تم کو اپنی خاص رحمتوں اور عنایتوں سے نوازے گا کہ وہ بڑا ہی مہربان، اور اپنے بندوں سے محبت کرنے والا ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ، پس بندوں کو ہمیشہ اور ہر حال میں اسی کی طرف رجوع رہنا چاہیے،

۹۳۔۔۔   سو یہ پیغمبر کی طرف سے آخری اعلان اور ان لوگوں سے اظہار بیزاری ہے۔ کہ آنجناب نے ان منکر ہٹ دھرموں کو خطاب کر کے ان سے اظہار بیزاری اور آخری خطاب کے طور پر فرمایا کہ اگر تم لوگوں پر میری کسی بات کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اور تم میری کسی بات پر کان دھرنے اور اس کو سننے اور ماننے کے لئے تیار نہیں ہو، تو اب تم اپنی جگہ اور اپنے طور پر کام کرتے رہو۔ میں اپنی جگہ اور اپنے طور پر کام کئے جا رہا ہوں۔ عنقریب ہی وہ وقت آ جائے گا جب حقیقت حال تم لوگوں کے سامنے پوری طرح واضح ہو جائے گی۔ اور تمہیں خود معلوم ہو جائے گا کہ کس کا انجام کیا اور کیسا ہوتا ہے؟ اور تم لوگ خود دیکھ لو گے کہ رسوا کن عذاب کس پر آتا ہے، اور جھوٹا کون ہے، پس اب تم لوگ بھی اس وقت کا انتظار کرو، میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں نتیجہ و انجام خود سب کے سامنے آ جائے گا۔ یعنی غیب کا علم میرے پاس نہیں کہ میں تم لوگوں کو تعیین وقت کے ساتھ بتا سکوں کہ تم پر وہ عذاب کس وقت اور کس شکل میں آئے گا۔ لیکن اتنی بات واضح ہے کہ مستحق عذاب ہونے کی سب علامتیں تم لوگوں کے اندر پوری طرح پائی جا چکی ہیں۔ اس لئے اب میں اس کے ناگہانی ظہور کا منتظر ہوں۔ والعیاذُ باللہ جل وعلا۔

۹۵۔۔۔   سو ان دونوں آیات کریمات میں ان اہم بنیادی حقائق کا اعادہ و تکرار فرما دیا گیا جس کا ذکر اس سے پہلے کے قصوں میں ہو چکا ہے۔ یعنی یہ کہ اس میں بھی ان لوگوں پر آنے والے عذاب کو امر کے لفظ سے تعبیر فرمایا گیا ہے جس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے عذاب کے لئے کسی طرح کی تیاری کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بلکہ وہاں پر محض اس کے حکم و ارشاد اور ارادہ و اشارہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسری حقیقت جو نَجَّیْنَا کے لفظ سے ظاہر فرمائی گئی یہ ہے کہ نجات دھندہ اور حاجت روا و مشکل کشا سب کا اللہ وحدہٗ لاشریک ہی ہے۔ حضرت شعیب اور ان کے ایماندار ساتھی بھی اسی کی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے محتاج ہیں۔ اور تیسری حقیقت یہ واضح فرمائی گئی کہ وہ لوگ جو اپنے کبر و غرور میں مست و مگن تھے۔ وہ سب ایک ہی ہولناک آواز سے ڈھیر ہو گئے۔ اور اپنے آخری اور ہولناک انجام کو پہنچ کر رہے۔ سو اللہ تعالیٰ کے عذاب کا نہ کوئی مقابلہ کر سکتا ہے۔ اور نہ ہی اس سے بچنا اور بھاگ نکلنا کسی کے لئے ممکن نہیں ہو سکتا ہے، والعیاذُ باللہ العظیم، اسی طرح ان آیات کریمات میں اس حقیقت سے بھی آگاہ فرما دیا گیا اور اَلاَ کے حرف تنبیہ کے ساتھ آگاہ فرما دیا گیا کہ جن لوگوں کا خاتمہ کفر و انکار ہی پر ہوا۔ ان کے لئے ہمیشہ کی محرومی اور لعنت و پھٹکار ہے۔ سو مدین والوں پر بھی اسی طرح پھٹکار ہوئی جس طرح کہ ثمود پر ہو چکی ہے پس تکذیب حق اور کفر و انکار کا نتیجہ و انجام بہرحال باعث ہلاکت و تباہی اور موجب لعنت و پھٹکار ہے والعیاذُ باللہ جل وعلا، اللہ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے، آمین

۹۶۔۔۔   آیات سے وہ عام نشانیاں مراد ہیں جو راہ حق و ہدایت میں حضرت موسیٰ کے ہاتھوں قدم قدم پر ظاہر ہوئیں اور سلطان مبین سے مراد وہ خاص نشانی ہے جس سے حضرت موسیٰ کو فرعون اور اس کے درباریوں اور اس کے ماہر جادوگروں پر کھلا غلبہ حاصل ہوا۔ یعنی معجزہ عصا، سو اس سے عام کے بعد خاص کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ اور اس کو سلطان مبین کے لفظ سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی حیثیت ایک حجت قاہرہ کی تھی جس کے بعد فرعون اور اس کے درباریوں کی ساکھ خود انکے لوگوں کی نگاہوں میں اکھڑ گئی تھی اور غلبہ حق پوری طرح واضح ہو گیا تھا۔ بہرکیف اس آیت کریمہ میں اَدَواب تاکید کے ساتھ اس حقیقت کو واضح فرمایا گیا کہ حضرت موسیٰ کو عام اور خاص دونوں کے معجزات کے ساتھ مسلح کر کے فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف بھیجا گیا تھا۔ علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام،

۱۰۱۔۔۔          سو دین حق سے منہ موڑنا اور اس سے اعراض و روگردانی برتنا خود اپنی جانوں پر ظلم کرنا ہے، کہ اس سے انسان راہ حق و ہدایت سے محروم ہو کر بے راہ روی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اور وہ حضرت حق جَلَّ مَجْدہٗ کی دی بخشی قوتوں اور صلاحیتوں کو تعمیر کے بجائے تخریب میں صرف کرنے لگتا ہے۔ اور اپنے خالق و مالک کی ہدایات و تعلیمات اور اس کے بھیجے ہوئے رسول کے اوامر و ارشادات سے منہ موڑ کر، اور ان کی نافرمانی اختیار کر کے وہ خود اپنی ہی تباہی کے اسباب فراہم کرنے لگتا ہے، اور اس طور پر کہ اس کو اس کا احساس و شعور بھی نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ وہ اپنے آخری انجام کو پہنچ کر رہتا ہے۔ اور جن خود ساختہ اور من گھڑت معبودوں، اور حاجت رواؤں اور مشکل کشاؤں پر اس نے تکیہ کر رکھا ہوتا ہے، وہ اس وقت اس کے کچھ بھی کام نہیں آ سکتے، اور وہ اپنے کئے کرائے کے انجام کو پہنچ کر رہتا ہے سو اس کے جھوٹے سہارے اس کے لئے ہلاکت اور بربادی ہی میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ کیونکہ پیاسا اگر سراب کو حقیقت سمجھ کر اس کی طرف دوڑے گا تو حقیقت کے واضح ہونے پر اس کو مایوسی اور موت کے سوا کچھ نہ ملے گا۔ اس موقع پر اس کے لئے زندگی کی تمام راہیں مسدود ہو چکی ہونگی۔ حالانکہ اگر وہ اس مغالطے میں مبتلا نہ ہوا ہوتا تو ممکن تھا کہ اس کے لئے زندگی بچانے کی کوئی راہ نکل آتی۔ مگر اب کہاں اور کیسے؟ والعیاذ باللہ العظیم۔

۱۰۲۔۔۔           یعنی خداوند قدوس جب قوموں اور بستیوں کو آخرکار ان کے ظلم و عدوان اور تمردو سرکشی کی بناء پر پکڑتا ہے تو اسی طرح پکڑتا ہے جس طرح کہ ان قوموں کی سرگزشت میں بیان ہوا جن کا ذکر اوپر فرمایا گیا۔ اور جب وہ ان کو پکڑتا ہے تو اس کی پکڑ بڑی ہی سخت اور دردناک ہوتی ہے صحیح حدیث میں وارد ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل دیتا جاتا ہے۔ یہانتک کہ جب وہ اس کو پکڑتا ہے تو ایسا پکڑتا ہے کہ پھر وہ اس سے چھوٹ نہیں سکتا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسی آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی، علیہ الصلوٰۃ والسلام

۱۰۳۔۔۔          سو قوموں کی ان سرگزشتوں سے جو اوپر بیان ہوئیں حضرت خالق جَلَّ مَجْدہٗ کی شان عدل و انصاف کا پتہ چلتا ہے۔ اور اسی سے واضح ہو جاتا ہے کہ اس کی شان عدل و انصاف اور حکمت و رحمت کا تقاضا ہے کہ وہ ایک ایسا یوم عدل و انصاف قائم کرے جس میں بحیثیت مجموعی اس کے سب ہی بندوں سے عدل و انصاف کا معاملہ ہو۔ اور بدرجہ تمام و کمال ہو۔ سو وہی دن قیامت کا دن ہو گا۔ جس میں سب لوگوں نے اکٹھا ہونا ہے۔ اور جس میں ہر کسی کی اس کی بارگاہ عدل و انصاف میں پیشی ہو گی، اور جس میں ہر کوئی اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا بھرپور صلہ و بدلہ پائے گا۔ نیکوں کو ان کی نیکیوں کا صلہ ملے گا اور بروں کا انکی برائیوں کا،

۱۰۵۔۔۔          سو ان دونوں آیتوں میں چند اہم حقائق کو واضح فرما دیا گیا ہے جن میں سے پہلی اہم حقیقت یہ ہے کہ اس یوم حساب کی تاخیر کوئی لامحدود مدت کے لئے نہیں، بلکہ ایک گنی چنی اور محدود مدت تک کے لئے ہے، اور اس میں کوئی مبالغہ نہیں بلکہ یہ حقیقت نفس الامری کا اظہار و بیان ہے۔ کیونکہ ہر انسان کی قیامت اس کی اپنی موت ہے جیسا کہ حدیث میں فرمایا گیا۔ مَنْ مَاتَ فَقَدْ قَامَتْ قِیَامَتُہ، یعنی جو مرگیا اس کی قیامت قائم ہو گئی، اور یہ اس لئے کہ مرنے کے بعد اس نے بہرحال اس دنیا میں کبھی واپس نہیں آنا۔ اور دوسری حقیقت اس میں یہ بیان فرمائی گئی کہ اس یوم حساب میں کوئی اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر بات بھی نہیں کر سکے گا۔ لہٰذا مشرکانہ عقیدہ شفاعت وہاں کچھ کام نہیں آ سکے گا بلکہ ہر ایک کو اپنے عمل کا بھگتان بھگتنا ہو گا۔ والعیاذ باللہ جل وعلابکل حالٍ من الاحوال

۱۰۸۔۔۔          سو سعید اور نیک بخت لوگ جنت میں ہمیشہ کے لئے رہیں گے اور وہاں کی ان سدا بہار نعمتوں سے ان خوش نصیبوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محظوظ و لطف اندوز ہونانصیب ہو گا، ان کے احوال میں جو تبدیلیاں ہونگی وہ خوب سے خوب تر کی نوعیت کی ہونگی۔ اور وہ چونکہ ان کو خدائے رحمان و رحیم کی طرف سے عظیم الشان عطیہ اور انعام کے طور پر ملیں گی، اس لئے یہ ہمیشہ رہنے والی عنایت ہو گی جس میں کبھی کوئی انقطاع نہیں ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نصیب فرمائے، اور محض اپنے فضل و کرم سے ہمیں بھی اس سے سرفراز فرمائے، آمین ثم آمین یا رب العالمین

۱۰۹۔۔۔          ایسے مواقع پر خطاب اگرچہ بظاہر پیغمبر سے ہوتا ہے۔ علیہ الصلوٰۃ والسلام۔ کہ وحی خداوندی کے اصل اور اولین مخاطب تو بہرحال آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہی ہیں، لیکن اس میں جو عتاب ہوتا ہے اس کا رخ مخالفین ہی کی طرف ہوتا ہے۔ اور اس میں بلاغت کلام کا یہ اسلوب کارفرما ہوتا ہے کہ یہ منکر اور مخالف لوگ اس قابل نہیں کہ ان سے براہ راست خطاب کیا جائے، سو اس ارشاد خداوندی کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے کفر و شرک پر جس طرح جمے ہوئے ہیں اس سے کہیں تم کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ ان کے پاس اس کے لئے کوئی دلیل موجود ہے، یہ لوگ تو اسی طرح ان بے حقیقت چیزوں کی پوجا پاٹ میں لگے ہوئے ہیں جس طرح کہ ان کے بڑے لگے رہے، سو دنیا کے اس دارالامتحان میں یہ لوگ اپنے جن اوہام و خرافات میں مبتلا ہیں۔ اور ان کی بناء پر ایسے لوگ جس جنت الحمقاء میں رہ رہے ہیں اسی میں رہتے رہیں۔ اس میں ہم ان کا حصہ ان کو پورے کا پورا بغیر کسی کاٹ کسر کر کے دیدیں گے۔

۱۱۱۔۔۔          سو منکرین و مخالفین حق اور اہل حق کے خلاف جتنا زور لگاتے ہیں لگاتے رہیں، تمہارا رب ان کو ان کے اعمال کا بھرپور بدلہ بہرحال دے گا وہ یقیناً ان کے تمام اعمال سے بہرحال اور پوری طرح باخبر ہے۔

۱۱۲۔۔۔          سو اس ارشاد میں پیغمبر کو اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لانے والوں کو جادہ حق پر استوار و ثابت قدم رہنے کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے، کہ آپ لوگ مخالفین کی مخالفتوں اور ان کی فتنہ سامانیوں کے باوجود اس راہ حق پر مستقیم و ثابت قدم رہو۔ جو تمہارے رب نے تمہارے لئے کھولی ہے، کہ حق و ہدایت اور دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز کرنے والی راہ بہرحال وہی اور صرف وہی ہے، پس آپ لوگ حالات کی فتنہ پردازیوں، یا ترغیبات، کی بناء پر اس راہ میں کبھی ذرہ برابر کسی کج روی کو اختیار نہیں کرنا۔ وہ تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے۔ وہی تمہاری مدد کرے گا۔ اور وہی ہر حال میں تمہارا سہارا ہے، اور سب کچھ بہر طور اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے،

۱۱۳۔۔۔          سو اس سے اہل ایمان کو اہل کفر و باطل کی طرف جھکنے کی ممانعت بھی فرمائی گئی ہے۔ اور اس کے ان ہولناک عواقب و نتائج سے بھی خبردار فرمایا گیا ہے جو اس پر دنیا و آخرت میں مرتب ہوتے ہیں سو ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ کبھی ظالموں کی طرف جھکنا بھی نہیں، ورنہ تم لوگوں کو بھی دوزخ کی وہ آگ اپنی گرفت میں لے لے گی جو ان کے لئے مقدر ہے اور اس وقت خداوند قدوس کے مقابلے میں تمہارا کوئی یارو مددگار نہ ہو گا۔ اور تم لوگوں سے اس دنیا میں بھی جس نصرت و امداد خداوندی کا وعدہ فرمایا گیا ہے اس سے بھی تم محروم ہو جاؤ گے کیونکہ اس کا وہ وعدہ استقامت کی شرط کے ساتھ مشروط ہے پس ظالموں کی طرف رکون و میلان اور ان کی طرف جھکاؤ محرومئ دارین اور ہولناک خسارے کا باعث ہے، والعیاذُ باللہ العظیم، اللہ ہمیشہ اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر مستقیم و ثابت قدم رکھے۔ آمین ثم آمین

۱۱۵۔۔۔           سو اس ارشاد سے صبر کی تعلیم و تلقین بھی فرمائی گئی ہے، اور صبر مطلوب و محمود کی طرف اشارہ بھی فرما دیا گیا۔ کیونکہ اس میں یوں نہیں فرمایا گیا کہ تم صبر کرو اللہ صبر کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں فرماتا۔ بلکہ یوں فرمایا گیا کہ تم صبر کرو بیشک اللہ نیکوکاروں کے اجر کو ضائع نہیں فرماتا۔ سو اس سے اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں وہی صبر مطلوب اور محمود ہے جو صفت احسان کے ساتھ ہو، یعنی ان لوگوں کا صبر جو اس طرح صبر کریں جس طرح صبر کرنے کا حق ہوتا ہے۔ رونے دھونے، اور جزع و فزع، اور گلے و شکوے کرنے، کے بعد کا صبر نیکوکاروں کا صبر نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ تو مجبوری کا اور برائے نام صبر ہوتا ہے۔ اسی لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی ایک مشہور حدیث میں ارشاد فرمایا اِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَۃِ الْاُوْلیٰ۔ یعنی صبر اصل میں وہی معتبر ہوتا ہے جو کہ مصیبت اور صدمہ کے شروع میں کیا جائے۔ اور رو پیٹ کر اور جزع و فزع کر لینے کے بعد کا صبر اصل صبر نہیں ہوتا، اس لئے وہ کسی اجر و ثواب کا مستحق نہیں رہتا، اس کے برعکس نیکوکاروں کے صبر کی شان یہ ہوتی ہے کہ سروں پر آرے چل جائیں تو بھی نہ ماتھے پر شکن آنے پائے اور نہ دل میں کوئی گلہ و شکوہ پیدا ہو۔ سو جو لوگ اس شان و وقار کے حامل ہوتے ہیں انہی کا صبر اصل صبر ہوتا ہے۔ وہی نیکوکاروں کا صبر ہوتا ہے۔ اور انہی کے لئے اجر بے حساب کی بشارت ہے اور وہی خوش نصیب ہیں جن کے بارے میں اس آیت کریمہ میں ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ ایسے نیکوکاروں کے اجر کو کبھی ضائع نہیں فرماتا، سبحانہ و تعالیٰ۔

۱۱۷۔۔۔           سو اس ارشاد ربانی سے قوموں کی ہلاکت کے سلسلہ میں سنت الٰہی اور دستور خداوندی کو واضح فرمایا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ کا طریقہ یہ نہیں کہ وہ کسی بستی کو ان کے کسی ظلم کی پاداش میں یونہی پکڑ لے۔ جبکہ اس کے باشندے بحیثیت مجموعی اصلاح کرنے والے ہوں، سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ کسی بستی پر اللہ تعالیٰ کا عذاب اس وقت آتا ہے جبکہ قوم کا مزاج بحیثیت مجموعی بگڑ جاتا ہے، اصلاح کرنے والے یا تو اس میں ہوتے ہی نہیں یا اتنی قلیل تعداد میں ہوتے ہیں جو معاشرتی بگاڑ کی اصلاح کے لئے کافی نہیں ہوتے۔ سو قوموں پر عذاب الٰہی انفرادی خرابیوں کی بناء پر نہیں آتا بلکہ وہ اس وقت آتا ہے جبکہ ان کا مجموعی مزاج بگڑ جاتا ہے والعیاذ باللہ۔

۱۱۹۔۔۔          سو اللہ تعالیٰ اگر سب لوگوں کو ایک ہی امت بنا دینا چاہتا تو یہ نہ اس کے لئے کچھ مشکل تھا۔ اور نہ اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیش آ سکتی تھی۔ اس کے لئے تو اس وحدہٗ لاشریک کا محض ارادہ اور ایک اشارہ ہی کافی تھا۔ جس کے نتیجے میں روئے زمین کے تمام ہی لوگ ایمان لے آتے۔ لیکن ایسا جبری ایمان نہ مقید ہے اور نہ ہی مطلوب، کیونکہ مفید و مطلوب وہی ایمان ہے جو اپنے ارادہ و اختیار سے، اور اپنی خواہش و چاہت کی بناء پر ہو، اسی پر انسان اجر و ثواب کا مستحق ٹھہرتا ہے، اور اسی سے وہ دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز ہو سکتا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے اسی لئے انسان کو ارادہ و اختیار کی آزادی کے ساتھ پیدا فرمایا ہے۔ جو لوگ اپنے ارادہ و اختیار سے ایمان کے بجائے کفر و باطل کی راہ کو اپنائیں گے ان کے لئے جہنم ہے جن کو بہرحال اس میں داخل ہونا ہو گا، والعیاذ باللہ العظیم۔ سو اس میں ایک طرف تو اہل حق کے لئے تسکین وتسلیہ کا سامان ہے، کہ آپ لوگ اہل باطل کی ان شر انگیزیوں سے پریشان نہ ہوں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی گرفت و پکڑ سے کوئی باہر نہیں۔ اور دوسری طرف اس میں اہل باطل کے لئے تنبیہ و تذکیر بھی ہے کہ اگر یہ لوگ اپنی روش سے باز نہ آئے تو ان کا انجام یہ ہونے والا ہے۔

۱۲۲۔۔۔           سو اس سے منکرین و مخالفین کے لئے آخری جواب، اور ان سے اعلان برأت اور اظہار بیزاری کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے، کہ اس سب کے باوجود اگر تم لوگ حق سننے اور ماننے کو تیار نہیں ہوتے تو تم لوگ اپنی جگہ اور اپنے طریقے پر کام کرتے رہو، ہم اپنی جگہ اور اپنے طریقے پر کام کر تے رہیں گے۔ اس کے بعد نتیجہ و انجام کیا برآمد ہوتا ہے تم بھی اس کی انتظار کرو ہم بھی اسی کے منتظر ہیں۔ مستحق عذاب ہونے کی سب علامتیں تم لوگوں کے اندر ظاہر اور واضح ہو چکی ہیں پس اب معاملہ اللہ تعالیٰ ہی کے ہی حوالے ہے اور اسی کے سپرد، سبحانہ و تعالیٰ

۱۲۳۔۔۔          سورہ کریمہ کی اس آخری آیت کریمہ میں چند اہم اور بنیادی باتوں کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے، جن میں سب سے پہلی اہم اور بنیادی بات یہ ارشاد فرمائی گئی ہے کہ آسمانوں اور زمین کی اس پوری کائنات کے سب غیب اللہ ہی کے لئے ہیں، پس وہی جانتا ہے کہ کس کا انجام کیا اور کیسا ہونے والا ہے اور جن لوگوں پر عذاب آنے والا ہے وہ کب اور کس شکل میں آئے گا، دوسری اہم حقیقت یہ کہ سارے معاملات اسی وحدہٗ لاشریک کے حضور پیش کئے جاتے ہیں، اور سب کا فیصلہ اسی کی عدالت سے ہوتا ہے پس بندے کا کام یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اسی معبود برحق کی عبادت و بندگی میں لگا رہے، اور بھروسہ و اعتماد ہمیشہ اسی پر کرے، اور تیسری اہم اور بنیادی حقیقت یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے اعمال و کردار سے غافل و بے خبر نہیں، پس ہر کسی نے اس کے یہاں اپنے کئے کرائے کا صلہ و بدلہ بہرحال پا کر رہنا ہے۔ پس ہر کوئی اس بنیادی حقیقت کو ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھے، کہ اس کے یہاں میرا معاملہ کیسا رہے گا۔ اور وہ اسی کی رضا و خوشنودی اور اس کے تقاضوں کو ہمیشہ مقدم رکھے وباللہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلیٰ ما یُحِبُّ ویرید وبہٰذا قد تم التفسیر المختصر لسورۃ ہود، والحمدللہ جل وعلا