تفسیر مدنی

سُوۡرَةُ الشُّعَرَاء

(سورۃ الشعراء ۔ سورہ نمبر ۲۶ ۔ تعداد آیات ۲۲۷)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     طسم۔

۲۔۔۔     یہ آیتیں ہیں کھول کر بیان کرنے والی اس عظیم الشان کتاب کی

۳۔۔۔     شاید آپ اپنی جان ہی گنوا بیٹھیں گے اس غم و اندوہ میں کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے

۴۔۔۔     اگر ہم چاہتے تو اتار دیتے ان پر آسمان سے کوئی ایسی عظیم الشان نشانی کہ فورا جھک جاتیں اس کے آگے ان کی اکڑی ہوئی گردنیں

۵۔۔۔     اور نہیں آتی ان کے پاس خدائے کی طرف سے کوئی نئی نصیحت مگر ان کا وطیرہ یہی ہوتا ہے کہ یہ اس سے منہ موڑ لیتے ہیں

۶۔۔۔     سو یہ تو قطعی طور پر جھٹلا چکے اب ان کے سامنے آپ ہی کھل کر آ جائے گی حقیقت اس چیز کی جس کا یہ مذاق اڑایا کرتے تھے

۷۔۔۔     کیا یہ لوگ اپنی پیش پا افتادہ اس زمین کو ہی نہیں دیکھتے کہ ہم نے اس میں کتنی ہی وافر مقدار میں ہر طرح کی عمدہ چیزیں اگائی ہیں ۔

۸۔۔۔     بلاشبہ اس میں بڑی بڑی نشانی ہے مگر ان میں سے اکثر پھر بھی ماننے والے نہیں

۹۔۔۔     اور اس کے باوجود ان کو یہ چھوٹ؟ واقعی تمہارا رب بڑا ہی زبردست ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی مہربان بھی ہے

۱۰۔۔۔     اور ان کو وہ داستان عبرت بھی سناؤ کہ جب تمہارے رب نے موسیٰ کو پکار کر فرمایا کہ جاؤ تم ان ظالم لوگوں کے پاس

۱۱۔۔۔     یعنی فرعون کی قوم کے پاس کیا یہ لوگ ڈرتے نہیں ؟

۱۲۔۔۔     موسی نے عرض کیا اے میرے رب مجھے اس بات کا سخت اندیشہ ہے کہ وہ لوگ میری بات سننے سے پہلے ہی مجھے جھٹلا دیں گے

۱۳۔۔۔     میرا سینہ گھٹتا ہے اور میری زبان بھی اچھی طرح چلتی نہیں سو آپ اے میرے مالک ہارون کی طرف بھی وحی بھیج دیجئے

۱۴۔۔۔     اور میرے ذمے ان لوگوں کا ایک گناہ بھی ہے جس کے باعث میں ڈرتا ہوں کہ کہیں تبلیغ رسالت سے قبل ہی وہ مجھے قتل نہ کر دیں

۱۵۔۔۔     فرمایا ہرگز نہیں پس جاؤ تم دونوں میری آیتوں کے ساتھ بے شک ہم خود تمہارے ساتھ سب ماجرا دیکھتے سنتے رہیں گے

۱۶۔۔۔     پس تم دونوں فرعون کے پاس جا کر اس سے کہو کہ ہم یقینی طور پر فرستادہ ہیں پروردگار عالم کے

۱۷۔۔۔     اور دعوت حق کے ساتھ ان کو یہ پیغام بھی دو کہ تو چھوڑ دے بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے کے لیے

۱۸۔۔۔     یہ سنتے ہی فرعون بولا کیا ہم نے تمہیں بچپن میں اپنے یہاں پالا پوسا نہیں اور تم نے اپنی عمر کے کئی برس ہمارے درمیان نہیں گزارے ؟

۱۹۔۔۔     اور تم نے اپان وہ کرتوت بھی کیا جو کہ تم نے کیا اور تم بڑے ناشکرے ہو

۲۰۔۔۔     موسی نے جواب دیا وہ کام میں نے اس وقت کیا جب کہ میں بے خبر تھا

۲۱۔۔۔     پھر جب مجھے تم سے تمہاری پکڑ دھکڑ کا اندیشہ ہوا تو میں تم سے بھاگ گیا اس کے بعد میرے رب نے مجھے حکم بھی عطا فرمایا اور مجھے رسولوں میں شامل فرما دیا

۲۲۔۔۔     اور یہ کوئی احسان ہے جو تو مجھ پر جتلا رہا ہے کہ تو نے ہی تو اپنے ظلم و جبر سے جکڑ رکھا تھا بنی اسرائیل کو اپنی غلامی کے پھندے میں

۲۳۔۔۔     فرعون نے پینترا بدل کر کہا اور یہ رب العالمین جس کا تم نے ذکر کیا ہے کیا ہوتا ہے ؟

۲۴۔۔۔     موسی نے جواب دیا وہ رب ہے آسمانوں اور زمین کا اور اس ساری مخلوق کا جو کہ آسمان اور زمین کے درمیان میں ہے اگر تم لوگ یقین لانے والے ہو

۲۵۔۔۔     فرعون نے اپنے گردہ پیش والوں سے کہا کیا تم سنتے نہیں ہو کیا کہہ رہا ہے یہ شخص؟

۲۶۔۔۔     موسی نے مزید کہا وہ جو رب ہے تمہارا بھی اور تمہارے ان آباؤ اجداد کا بھی جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں

۲۷۔۔۔     اس پر فرعون نے حاضرین سے کہا کہ بے شک تمہارے یہ پیغمبر صاحب جو تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں بالکل دیوانے ہیں

۲۸۔۔۔     موسی نے مزید فرمایا کہ وہ جو رب ہے مشرق و مغرب کا اور ان سب چیزوں کا جو ان دونوں کے درمیان ہیں اگر تم لوگ عقل رکھتے ہو

۲۹۔۔۔     آخرکار فرعون نے موسیٰ کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اگر تم نے میرے سوا کوئی اور معبود بنایا تو یاد رکھو کہ میں تمہیں ان لوگوں میں شامل کر کے رہوں گا جو جیلوں میں پڑے سڑ رہے ہیں

۳۰۔۔۔     موسیٰ نے فرمایا اگرچہ میں لے آؤں تیرے سامنے کوئی روشن چیز بھی؟

۳۱۔۔۔     فرعون نے کہا اچھا تو تو لے آ اسے اگر تو سچا ہے

۳۲۔۔۔     اس پر موسیٰ نے ڈال دیا اپنے عصا کو زمین پر تو یکایک وہ ایک کھلم کھلا اژدہا بن گیا

۳۳۔۔۔     نیز آپ نے اپنا ہاتھ اپنے گریبان یا بغل میں ڈال کر کہا باہر نکالا تو یکایک وہ چمک رہا تھا دیکھنے والوں کے سامنے

۳۴۔۔۔     اس پر فرعون بوکھلا کر اپنے گرد و پیش کے سرداروں سے کہنے لگا کہ یہ شخص تو یقینی طور پر ایک ماہر جادوگر ہے

۳۵۔۔۔     جس کا مقصد یہ ہے کہ نکال باہر کرے تم سب کو تمہاری اپنی سرزمین سے اپنے جادو کے زور سے سو اب تم لوگ کیا حکم دیتے ہو؟

۳۶۔۔۔     انہوں نے کہا کہ مہلت دو اس کو بھی اور اس کے بھائی کو بھی اور دوسری طرف یہ کہ بھیج دو ہرکارے سب بڑے بڑے شہروں میں

۳۷۔۔۔     تاکہ وہ لے آئیں آپ کے پاس ہر بڑے ماہر جادوگر کو

۳۸۔۔۔     چنانچہ ملک کے طول و عرض سے جمع کر دیا گیا ایسے جادوگروں کو ایک مقرر دن کے وقت پر

۳۹۔۔۔     اور فرعون کی طرف سے عام لوگوں کو بھی کہہ دیا گیا کہ کیا تم لوگ اکٹھے ہوتے ہو؟

۴۰۔۔۔     شاید کہ ہم سب جادوگروں ہی کی پیروی کریں اگر وہ غالب رہیں

۴۱۔۔۔     پھر جب آ پہنچے وہ جادوگر تو انہوں نے چھوٹتے ہی فرعون سے کہا کہ اچھا صاحب کیا ہمارے لیے کوئی اجر و صلہ بھی ہو گا اگر ہم غالب رہے ؟

۴۲۔۔۔     فرعون نے کہا جی ہاں (کیوں نہیں مالی انعام کے علاوہ) یہ بھی کہ اس صورت میں تم لوگ یقیناً شامل ہو جاؤ گے مقرب لوگوں میں

۴۳۔۔۔     پھر عین مقابلہ کے موقع پر جادوگروں کے سوال پر موسیٰ نے ان سے کہا کہ ڈالو جو کچھ کہ تمہیں ڈالنا ہے

۴۴۔۔۔     اس پر انہوں نے پھینک دیں اپنی رسیاں اور لاٹھیاں اور بولے فرعون کے اقبال کی قسم ہم ہی نے بہر حال غالب آ کر رہنا ہے

۴۵۔۔۔     پھر موسیٰ نے بھی ڈال دیا اپنی لاٹھی کو تو اس نے یکایک نگلنا شروع کر دیا اس سارے سوانگ کو جو ان لوگوں نے بڑے طمطراق سے رچایا تھا

۴۶۔۔۔     اس پر وہ سب جادوگر بے ساختہ اپنے رب کے حضور سجدے میں گر پڑے

۴۷۔۔۔     اور پکار اٹھے کہ ہم سب ایمان لے آئے پروردگار عالم پر

۴۸۔۔۔     یعنی موسیٰ اور ہارون کے رب پر

۴۹۔۔۔     فرعون سیخ پا ہو کر بولا کیا تم لوگ اس شخص کے کہنے پر ایمان لے آئے قبل اس سے کہ میں تم کو اس کی اجازت دیتا؟ یقیناً یہ تمہارا استاد ہے جس نے تم کو جادوگری کا یہ کاروبار سکھایا ہے سو تمہیں اپنے کیے کا انجام ابھی معلوم ہو جاتا میں ضرور بالضرور کٹوا کر رہوں گا تمہارے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمتوں سے اور میں ضرور بالضرور پھانسی پر لٹکا کر چھوڑوں گا تم سب کو ایک ساتھ ہے

۵۰۔۔۔     مگر ایمان و یقین کی دولت سے مشرف ہو جانے والے ان جادوگروں نے بڑے اطمینان کے ساتھ جواب دیا کہ کوئی پرواہ نہیں ہمیں تو بہر حال اپنے رب ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے

۵۱۔۔۔     ہم تو اس امید سے پوری طرح سرشار ہیں کہ ہمارا رب بخش دے گا اپنے رحم و کرم سے ہماری خطاؤں کو کہ اس بھرے مجمع میں سب سے پہلے ایمان لانے کی سعادت ہم ہی کو نصیب ہوئی ہے ۔

۵۲۔۔۔     اور ادھر جب فرعون بنی اسرائیل کی آزادی پر آمادہ نہ ہوا تو ہم نے وحی بھیجی موسیٰ کو کہ راتوں رات نکل جاؤ میرے بندوں کو لے کر، بے شک تمہارا پوری طرح پیچھا کیا جائے گا

۵۳۔۔۔     چنانچہ فرعون نے غیظ و غضب کے عالم میں بھیج دیے ہر کارے سب بڑے بڑے شہروں میں

۵۴۔۔۔     کہ یہ لوگ ایک چھوٹی سی جماعت ہیں تھوڑے سے لوگوں

۵۵۔۔۔     اور انہوں نے سخت غصہ دلایا ہے مابدولت کو

۵۶۔۔۔     اور بلاشبہ ہماری بھاری جمعیت کو بہر حال چوکنا رہنا ہے

۵۷۔۔۔     سو وہ سب اپنے لاؤ لشکر سمیت بنی اسرائیل کے تعاقب میں نکل پڑے اس طرح ہم نے ان کو نکال باہر کیا باغوں اور چشموں سے

۵۸۔۔۔     اور خزانوں و عمدہ مکانوں سے یونہی کیا

۵۹۔۔۔     اور ہم نے وارث بنا دیا ایسی چیزوں کا بنی اسرائیل جیسی لٹی پٹی قوم کو

۶۰۔۔۔     بہرکیف فرعونی لوگ آ پہنچے ان کے پیچھے سورج نکلے کے وقت

۶۱۔۔۔     پھر جب آمنا سامنا ہوا ان دونوں گروہوں کا تو چیخ اٹھے موسیٰ کے ساتھی کہ ہم تو بالکل پکڑے ہی گئے

۶۲۔۔۔     موسی نے فرمایا ہرگز نہیں ، بے شک میرے ساتھ میرا رب ہے وہ ضرور میرے لیے نجات کی کوئی راہ نکالے گا

۶۳۔۔۔     چنانچہ ہم نے موسیٰ کو وحی کی کہ مار دو اپنا عصا سمندر پر پس عصا کا مارنا تھا کہ پھٹ پڑا سمندر اور ہو گیا اس کا ہر ٹکڑا ایک عظیم الشان پہاڑ کی طرح

۶۴۔۔۔     اور قریب لے آئے ہم اسی جگہ دوسرے گروہ کو

۶۵۔۔۔     اور بچا لیا ہم نے اپنی قدرت و عنایت سے موسیٰ کو اور ان سب کو جو ان کے ساتھ تھے

۶۶۔۔۔     پھر وہیں غرق کر دیا ہم نے دوسروں کو

۶۷۔۔۔     بے شک اس میں بڑی بھاری نشانی ہے مگر اکثر لوگ پھر بھی ماننے والے نہیں

۶۸۔۔۔     اس کے باوجود ان لوگوں کو یہ مہلت؟ واقعی تمہارا رب بڑا ہی زبردست ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی مہربان بھی ہے

۶۹۔۔۔     اور ان کو ابراہیم کا حکمتوں و عبرتوں بھرا قصہ بھی سنا دو

۷۰۔۔۔     خاص کر اس وقت کہ جب انہوں نے کہا اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے کہ کیا ہیں یہ چیزیں جن کی پوجا تم لوگ کر رہے ہو؟

۷۱۔۔۔     کہنے لگے ہم پوجا کرتے ہیں اپنی پسند کے کچھ بتوں کی پھر ہم انہی کے مجاور بنے رہتے ہیں

۷۲۔۔۔     ابراہیم نے ان سے پوچھا کہ کیا یہ تمہاری پکار کو سن سکتے ہیں جب تم ان کو پکارو؟

۷۳۔۔۔     یا یہ تمہیں کوئی نفع یا نقصان پہنچا سکتے ہیں ؟

۷۴۔۔۔     انہوں نے جواب دیا نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں بلکہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسے ہی کرتے ہوئے پیا تو ہم بھی اسی راہ پر چل پڑے

۷۵۔۔۔     اس پر ابراہیم نے فرمایا کیا تم لوگوں نے کبھی آنکھیں کھول کر ان چیزوں کو دیکھا بھی جن کی پوجا تم لوگ کیے جا رہے ہو؟

۷۶۔۔۔     تم بھی اور تمہارے اگلے باپ دادا بھی؟

۷۷۔۔۔     سو یہ سب قطعی طور پر دشمن ہیں میرے سوائے اس رب العالمین کے

۷۸۔۔۔     جس نے مجھے پیدا کیا پھر وہی میری راہنمائی فرماتا ہے

۷۹۔۔۔     جو مجھے کھلاتا ہے اور پلاتا ہے

۸۰۔۔۔     اور جب میں بیمار ہو جاتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے ۔

۸۱۔۔۔     جو مجھے موت دے گا پھر وہی مجھے زندہ کرے گا

۸۲۔۔۔     اور جس سے میں یہ امید رکھتا ہوں کہ وہ معاف فرما دے گا میری خطاؤں کو بدلے کے دن،

۸۳۔۔۔     پھر حضرت ابراہیم غلبہ حضور میں اس طرح دعا میں لگ گئے کہ میرے رب مجھے حکم عطا فرما اور مجھے ملا دے اپنے قرب خاص کے سزاواروں کے ساتھ،

۸۴۔۔۔     اور نواز دے مجھے سچی ناموری سے پچھلوں میں ،

۸۵۔۔۔     اور شامل فرما دے مجھے اس نعمتوں بھری جنت کے وارثوں میں ۔

۸۶۔۔۔     اور بخشش فرما دے میرے باپ کی، کہ بے شک وہ بڑے بھٹکے ہوئے اور گمراہ لوگوں میں سے تھا

۸۷۔۔۔     اور مجھے رسوا نہیں کرنا اس دن جس دن کہ لوگوں کو زندہ کر کے اٹھایا جائے گا،

۸۸۔۔۔     جس دن نہ کوئی مال کام آئے گا نہ اولاد،

۸۹۔۔۔     سوائے اس کے جو حاضر ہو اللہ کی بارگاہ اقدس میں سلامتی والے دل کے ساتھ

۹۰۔۔۔     اور قریب کر دیا جائے گا اس روز جنت کو پرہیزگاروں کے لیے

۹۱۔۔۔     اور ظاہر کر دیا جائے گا دوزخ کو بھٹکے ہوئے لوگوں کے لیے

۹۲۔۔۔     اور کہا جائے گا اس روز ان سے ان کی حسرت کی آگ کو اور بھڑکانے کے لیے کہ کہاں ہیں تمہارے وہ معبود جن کی پوجا تم لوگ دنیا میں کیا کرتے تھے ؟

۹۳۔۔۔     اللہ کے سوا کیا وہ تمہاری کچھ مدد کر سکتے ہیں ؟ یا اپنا ہی کوئی بچاؤ کر سکتے ہیں ؟

۹۴۔۔۔     پھر ڈال دیا جائے گا اس دوزخ میں اوندھے منہ ان معبودان باطلہ کو بھی اور ان گمراہوں کو بھی

۹۵۔۔۔     اور ابلیس کے لشکروں کو سب کو یکجا کر کے

۹۶۔۔۔     وہاں یہ سب آپس میں جھگڑتے ہوئے حسرت و یاس کے علام میں کہہ رہے ہوں گے

۹۷۔۔۔     اللہ کی قسم ہم سب قطعی طور پر کھلی گمراہی میں پڑے تھے

۹۸۔۔۔     جب کہ ہم تمہیں برابر ٹھہراتے تھے رب العالمین کے ساتھ

۹۹۔۔۔     اور ہمیں گمراہی کے اس گڑھے میں نہیں ڈالا مگر ان بڑے مجرموں نے ،

۱۰۰۔۔۔     سو اب نہ تو کوئی ہمارا سفارشی ہے کہ ہمیں چھڑا سکے

۱۰۱۔۔۔     اور نہ ہی کوئی مخلص دوست جو کہ خالی اظہار ہمدردی ہی کر دے

۱۰۲۔۔۔     اب اگر ہمیں ایک مرتبہ پھر دنیا میں لوٹ جانے کا موقع مل جائے تو ہم ضرور شامل ہو جائیں ایمانداروں میں

۱۰۳۔۔۔     واقعی اس میں بڑی بھاری نشانی ہے مگر اکثر لوگ پھر بھی ایمان نہیں لاتے ،

۱۰۴۔۔۔     بلاشبہ تمہارا رب ہی ہے جو بڑا زبردست ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی مہربان بھی ہے

۱۰۵۔۔۔     نوح کی قوم نے بھی جھٹلایا رسولوں کو

۱۰۶۔۔۔     جب کہ ان سے ان کے بھائی نوح نے ان کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا کہ کیا تم لوگ ڈرتے نہیں ہو؟

۱۰۷۔۔۔     بلاشبہ میں تمہارے لیے  اﷲ کا رسول ہوں امانت دار

۱۰۸۔۔۔     پس تم لوگ ڈرو اللہ سے اور میرا کہا مانو

۱۰۹۔۔۔     اور میں تبلیغ حق کے اس کام پر تم سے کوئی صلہ و بدلہ نہیں مانگتا، میرا صلہ و بدلہ تو بس رب العالمین ہی کے ذمے ہے

۱۱۰۔۔۔     پس تم لوگ ڈرو اللہ سے اور میرا کہا مانو

۱۱۱۔۔۔     حضرت نوح کی اس حکمت بھری اور پر سوز تقریر کے جواب میں ان لوگوں نے کہا کہ کیا ہم تجھ پر ایمان لے آئیں جبکہ تیری پیروی ان ہی لوگوں نے اختیار کر رکھی ہے جو کہ سب سے گھٹیا ہیں ؟

۱۱۲۔۔۔     نوح نے فرمایا مجھے کیا لگے کہ ذاتی طور پر یہ لوگ کیا کام کرتے ہیں

۱۱۳۔۔۔     ان کا حساب تو میرے رب کے ذمے ہے کاش کہ تم لوگ سمجھتے ،

۱۱۴۔۔۔     اور میں بہر حال اپنے سے دور نہیں کر سکتا ایسے سچے ایمانداروں کو

۱۱۵۔۔۔     میں تو صاف طور پر خبردار کرنے والا ہوں اور بس

۱۱۶۔۔۔     آخر اس پر وہ لوگ دھمکی پر اتر آئے اور کہنے لگے کہ اے نوح، اگر تم باز نہ آئے تو تم ضرور بالضرور سنگسار کر دئیے جاؤ گے ،

۱۱۷۔۔۔     آخرکار نوح نے دعا کی کہ اے میرے رب میری قوم نے مجھے قطعی طور پر جھٹلا دیا

۱۱۸۔۔۔     پس اب تو فیصلہ فرما دے میرے اور ان لوگوں کے درمیان کھلا فیصلہ اور نجات دے دے مجھے بھی اور ان ایمان والوں کو بھی جو میرے ساتھ ہیں ،

۱۱۹۔۔۔     سو ہم نے ان کی دعا کو قبول کرتے ہوئے نجات دے دی ان کو بھی اور ان سب لوگوں کو بھی جو ان کے ساتھ تھے اس بھری کشتی میں ،

۱۲۰۔۔۔     پھر اس کے بعد ہم نے غرق کر دیا سب باقی رہنے والوں کو،

۱۲۱۔۔۔     بلاشبہ اس میں بڑی بھاری نشانی ہے مگر اکثر لوگ پھر بھی ایمان والے نہیں

۱۲۲۔۔۔     اور بلاشبہ تمہارا رب بڑا ہی زبردست انتہائی مہربان ہے ۔

۱۲۳۔۔۔     قوم عاد نے بھی جھٹلایا رسولوں کو

۱۲۴۔۔۔     جب کہ کہا ان سے ان کے بھائی ہود نے ان کو جھنجھوڑتے ہوئے کہ کیا تم لوگ ڈرتے نہیں ہو؟

۱۲۵۔۔۔     بلاشبہ میں تمہارے لیے رسول ہوں اﷲ کا امانت دار

۱۲۶۔۔۔     پس تم ڈرو اللہ سے اور میرا کہا مانو

۱۲۷۔۔۔     اور میں تبلیغ حق کے اس کام پر تم لوگوں سے کوئی مزدوری نہیں مانگتا، میری مزدوری تو بس میرے رب العالمین کے ذمے ہے ،

۱۲۸۔۔۔     کیا تم لوگ محض اپنی دولت و شوکت کی نمود کے لیے ہر اونچی جگہ پر ایک یادگار بنا ڈالتے ہو

۱۲۹۔۔۔     بغیر کسی ضرورت و مقصد کے اور طرح طرح کے محل بناتے چلے جاتے ہو گویا تم نے اس دنیا میں ہمیشہ کے لیے رہنا ہے

۱۳۰۔۔۔     اور سختی و بے رحمی کا یہ عالم ہے کہ جب تم گرفت کرتے ہو تو بڑے سنگ دل و بے رحم بن کر گرفت کرتے ہو،

۱۳۱۔۔۔     پس ڈرو تم لوگ اللہ سے اور میرا کہنا مانو

۱۳۲۔۔۔     اور تم ڈرو اس ذات اقدس و اعلیٰ سے جس نے نوازا ہے تم کو طرح طرح کی ان نعمتوں سے جن کو تم خود جانتے ہو،

۱۳۳۔۔۔     یعنی طرح طرح کے چوپایوں اور بیٹوں سے ،

۱۳۴۔۔۔     اور قسما قسم کے باغوں اور چشموں سے ،

۱۳۵۔۔۔     مجھے سخت ڈر ہے تمہارے بارے میں ایک بڑے ہی ہولناک دن کے عذاب کا

۱۳۶۔۔۔     ان لوگوں نے اس کے جواب میں کہا کہ ہمارے لیے سب یکساں ہے خواہ تم نصیحت کرو یا تم واعظ نہ بنو،

۱۳۷۔۔۔     یہ تو محض گھسی پٹی کہانیاں ہیں پہلے لوگوں کی

۱۳۸۔۔۔     اور ہمیں بہر حال کوئی عذاب نہیں ہونا،

۱۳۹۔۔۔     سو جب انہوں نے پیغمبر کی تکذیب ہی پر کمر باندھ لی تو آخرکار ہم نے ہلاک کر دیا ان سب کو بلاشبہ اس میں بڑی بھاری نشانی ہے مگر اکثر لوگ پھر بھی ماننے والے نہیں ۔

۱۴۰۔۔۔     اور بے شک تمہارا رب بڑا ہی زبردست نہایت ہی مہربان ہے ۔

۱۴۱۔۔۔     قوم ثمود نے بھی جھٹلایا رسولوں کو

۱۴۲۔۔۔     جب کہ ان کے بھائی صالح نے ان سے کہا کہ کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟

۱۴۳۔۔۔     بلاشبہ میں تمہارے لیے رسول ہوں تمہارے رب کی طرف سے امانت دار

۱۴۴۔۔۔     پس تم لوگ ڈرو اللہ سے اور میرا کہا مانو

۱۴۵۔۔۔      اور میں اس کام پر تم سے کوئی مزدوری نہیں مانگتا میری مزدوری تو بس رب العالمین ہی کے ذمے ہے ،

۱۴۶۔۔۔     کیا تم لوگوں کو یونہی چھوڑ دیا جائے گا ان نعمتوں میں جو تم کو یہاں میسر ہیں امن و چین کے ساتھ؟

۱۴۷۔۔۔     یعنی طرح طرح کے باغوں اور چشموں میں

۱۴۸۔۔۔     قسما قسم کی کھیتیوں اور ایسے نخلستانوں میں جن کے خوشے گندھے ہوئے اور رس بھرے ہیں

۱۴۹۔۔۔     اور کیا تم یونہی پہاروں کو تراش تراش کر فخریہ طور پر عمارتیں بناتے رہو گے ؟

۱۵۰۔۔۔     پس ڈرو تم لوگ اﷲ سے اور میرا کہا مانو،

۱۵۱۔۔۔     اور حد سے نکلنے والے ان لوگوں کا کہا نہ مانو

۱۵۲۔۔۔     جو فساد مچاتے ہیں اﷲ کی زمین میں اور وہ اصلاح نہیں کرتے

۱۵۳۔۔۔     مگر اس ساری تقریر کے جواب میں ان لوگوں نے پوری ڈھٹائی سے کہا کہ تم پر تو کسی نے بڑا بھاری جادو کر دیا ہے

۱۵۴۔۔۔     تم تو ہم ہی جیسے ایک بشر اور انسان ہو پس لاؤ کوئی نشانی اگر تم سچے ہو۔

۱۵۵۔۔۔     صالح نے فرمایا یہ ایک اونٹنی ہے جس کے لیے ایک مقرر دن میں پانی پینے کی باری ہے اور ایک دن تمہارے لیے مقرر ہے

۱۵۶۔۔۔     اور اس کو کسی برے ارا دے سے ہاتھ بھی نہ لگانا کہ اس کے نتیجے میں آ پکڑے تم کو عذاب ایک بڑے ہولناک دن کا

۱۵۷۔۔۔     مگر ان لوگوں نے اس سب کے باوجود کاٹ ڈالیں اس کی کونچیں جس سے ہو ہو گئے ہمیشہ کی ندامت اٹھانے والے

۱۵۸۔۔۔     چنانچہ آ پکڑا ان کو اس عذاب نے جس سے ان کو خبردار کیا گیا تھا۔ بے شک اس میں بڑی بھاری نشانی ہے مگر اکثر لوگ پھر بھی ماننے والے نہیں ،

۱۵۹۔۔۔     اور بے شک تمہارا رب بڑا ہی زبردست نہایت ہی مہربان ہے ،

۱۶۰۔۔۔     قوم لوط نے بھی جھٹلایا رسولوں کو

۱۶۱۔۔۔     جب کہ کہا ان سے ان کے بھائی لوط نے ان کو جھنجھوڑتے ہوئے کہ کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟

۱۶۲۔۔۔     بلاشبہ میں تمہارے لیے اللہ کا رسول ہوں امانت دار

۱۶۳۔۔۔     پس تم لوگ ڈرو اللہ سے اور میرا کہا مانو

۱۶۴۔۔۔     اور میں تبلیغ حق کے اس کام پر تم سے کوئی مزدوری نہیں مانگتا، میری مزدوری تو بس رب العالمین کے ذمے ہے ۔

۱۶۵۔۔۔     کیا تم لوگ مردوں کے پاس آتے ہو اپنی شہوت رانی کے لیے سب جہاں میں سے ،

۱۶۶۔۔۔     اور چھوڑتے ہو تم اپنی ان پاکیزہ اور حلال بیویوں کو جن کو پیدا فرمایا ہے تمہارے لیے تمہارے رب نے اپنی عنایت و رحمت بے نہایت سے ، دراصل تم ہی حد سے بڑھنے والے لوگ ہو

۱۶۷۔۔۔     ان لوگوں نے دھمکی دیتے ہوئے کہا لوط اگر تم باز نہ آئے تو یقیناً تم ان لوگوں میں شامل ہو کر رہو گے جن کو نکال باہر کیا گیا ہماری بستیوں سے ،

۱۶۸۔۔۔     لوط نے کہا بے شک میں ان لوگوں میں سے ہوں جو کہ کڑھ رہے ہیں تمہارے کرتوتوں کی وجہ سے

۱۶۹۔۔۔     پھر لوط نے اپنے رب کے حضور عرض کیا اے میرے رب بچا دے مجھے بھی اور میرے گھر والوں کو بھی ان کاموں کے وبال سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں ۔

۱۷۰۔۔۔     سو عذاب آنے پر ہم نے بچا دیا ان کو بھی اور ان کے گھر والوں کو بھی سب کو

۱۷۱۔۔۔     سوائے ایک بڑھیا کے جو پیچھے رہ گئی تھی

۱۷۲۔۔۔     پھر تہس نہس کر ڈالا ہم نے دوسروں کو

۱۷۳۔۔۔     اور برسا دی ہم نے ان پر ایک بڑی ہی ہولناک بارش سو بڑی ہی بری بارش تھی ان لوگوں کی جن کو خبردار کر دیا گیا تھا

۱۷۴۔۔۔      بلاشبہ اس میں بڑی بھاری نشانی ہے مگر اکثر لوگ پھر بھی ماننے والے نہیں ،

۱۷۵۔۔۔     بے شک تمہارا رب بڑا ہی زبردست، انتہائی مہربان ہے ،

۱۷۶۔۔۔     بن والوں نے بھی جھٹلایا اللہ کے رسولوں کو

۱۷۷۔۔۔     جب کہ کہا ان سے شعیب نے کہ کیا تم لوگ ڈرتے نہیں ہو؟

۱۷۸۔۔۔     بلاشبہ میں تمہارے لیے رسولاللہ کا امانت دار

۱۷۹۔۔۔     پس تم لوگ ڈرو اللہ سے اور میرا کہا مانو

۱۸۰۔۔۔     اور میں تبلیغ حق کے اس کام پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا۔ میرا اجر تو بس رب العالمین کے ذمے ہے ،

۱۸۱۔۔۔     جب تمہیں ناپنا ہو تو پورا ناپو اور مت بنو خسارہ دینے والوں میں سے

۱۸۲۔۔۔     اور جب تم تولو تو تولو صحیح اور سیدھے ترازو کے ساتھ

۱۸۳۔۔۔     اور مت دو تم لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے اور مت پھرو تم اللہ کی زمین میں فساد مچاتے ہوئے

۱۸۴۔۔۔     اور ڈرو تم لوگ اس اللہ سے جس نے پیدا کیا تم کو بھی اور اگلی تمام مخلوق کو بھی،

۱۸۵۔۔۔     ان لوگوں نے بھی جواب میں یہی کہا کہ سوائے اس کے اور کوئی بات نہیں کہ تم پر بھی کوئی بھاری جادو کر دیا گیا ہے

۱۸۶۔۔۔     اور تم بھی تو ہم ہی جیسے ایک بشر اور انسان ہو پھر تم نبی کیونکر؟ اور ہم تو تمہیں بالکل جھوٹا سمجھتے ہیں ،

۱۸۷۔۔۔      پس تم گرا دو ہم پر کوئی ٹکڑا آسمان کا اگر تم سچے ہو اپنے دعوے میں ،

۱۸۸۔۔۔     شعیب نے کہا میرا رب خوب جانتا ہے وہ سب کچھ جو تم لوگ کر رہے ہو۔

۱۸۹۔۔۔      پس جب وہ لوگ شعیب کی تکذیب ہی کرتے گئے تو آخرکار آ پکڑا ان کو سائبان والے دن کے عذاب نے ، بے شک وہ عذاب تھا ایک بڑے ہی ہولناک دن کا

۱۹۰۔۔۔      بلاشبہ اس میں بڑی بھاری نشانی ہے ، مگر لوگوں کی اکثریت پھر بھی ایمان لانے والی نہیں

۱۹۱۔۔۔      اور بے شک تمہارا رب بڑا ہی زبردست انتہائی مہربان ہے ،

۱۹۲۔۔۔     اور بلاشبہ یہ قرآن اتارا ہوا ہے رب العالمین کا

۱۹۳۔۔۔     اس کو روح الامین جیسا عظیم الشان فرشتہ لے کر اترا ہے ،

۱۹۴۔۔۔     آپ کے دل پر اے پیغمبر تاکہ آپ ہو جائیں خبردار کرنے والوں میں سے

۱۹۵۔۔۔     فصاحت و بلاغت سے لبریز ایک واضح اور روشن عربی زبان میں

۱۹۶۔۔۔     اور بلاشبہ یہ قرآن پہلی کتابوں میں بھی ہے

۱۹۷۔۔۔     کیا ان لوگوں کے لیے یہ کوئی نشانی نہیں ہے کہ اس کو بنی اسرائیل کے علماء بھی جانتے ہیں ؟

۱۹۸۔۔۔     اور ان لوگوں کی ہٹ دھرمی کا یہ عالم ہے کہ اگر ہم اتار دیتے اس قرآن کو کسی عجمی پر

۱۹۹۔۔۔     پھر وہ اسے ان کے سامنے پڑھ کر سنا بھی دیتا تب بھی انہوں نے اس پر ایمان نہیں لانا تھا،

۲۰۰۔۔۔     اسی طرح ہم نے ڈال دیا اس کو مجرم لوگوں کے دلوں میں ،

۲۰۱۔۔۔     یہ اس پر ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ یہ خود دیکھ لیں اس دردناک عذاب کو،

۲۰۲۔۔۔     سو وہ ان پر ایسے اچانک آ پڑے گا کہ ان کو خبر بھی نہ ہو گی،

۲۰۳۔۔۔     اس وقت یہ کہیں گے کہ کیا ہمیں کچھ مہلت مل سکتی ہے ؟

۲۰۴۔۔۔     کیا یہ لوگ ہمارے عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں ؟

۲۰۵۔۔۔     بھلا تم دیکھو تو اور غور تو کرو اگر ہم انہیں برسوں عیش کرنے کی مہلت بھی دے دیں

۲۰۶۔۔۔     پھر آ پہنچے ان پر وہ عذاب جس سے انہیں ڈرایا جاتا ہے

۲۰۷۔۔۔     تو ان کے کس کام آ سکتا ہے وہ سامان عیش جو ان کو دیا جاتا رہا ہے

۲۰۸۔۔۔     اور ہمارا دستور عام یہ ہے کہ اس سے پہلے ہم نے کسی بھی بستی کو ہلاک نہیں کیا مگر اس حال میں کہ اس کے لیے خبردار کرنے والے رہے ہوں ،

۲۰۹۔۔۔     نصیحت کرنے کے لیے اور ہم ظالم نہیں ہیں

۲۱۰۔۔۔     اور اس قرآن کو شیاطین لے کر نہیں اترتے ،

۲۱۱۔۔۔      نہ تو وہ اس کام کے لائق ہیں اور نہ ہی وہ ایسا کر سکتے ہیں ،

۲۱۲۔۔۔     ان کو تو اس کے سننے سے بھی قطعی طور پر دور کر دیا گیا ہے ،

۲۱۳۔۔۔     پس کبھی پوجنا پکارنا نہیں اﷲ وحدہٗ لاشریک کے ساتھ کسی بھی اور من گھڑت معبود کو کہ اس کے نتیجے میں تم شامل ہو جاؤ ان لوگوں میں جن کو عذاب ہوتا ہے

۲۱۴۔۔۔     اور خبردار کرو سب سے پہلے اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو اے پیغمبر

۲۱۵۔۔۔     اور جھکائے رکھو اپنا بازوئے شفقت و فروتنی ان ایمانداروں کے لیے جو آپ کی پیروی کرتے ہیں

۲۱۶۔۔۔     پھر اگر یہ لوگ نافرمانی ہی کیے جائیں تو ان سے صاف طور پر کہہ دو کہ بے شک میں قطعی طور پر بری اور بے زار ہوں ان تمام کاموں سے جو تم لوگ کرتے ہو

۲۱۷۔۔۔     اور بھروسہ ہمیشہ اسی ذات واحد پر رکھو جو انتہائی زبردست نہایت مہربان ہے

۲۱۸۔۔۔     جو دیکھتی ہے آپ کو اس وقت بھی کہ جب آپ کھڑے ہوتے ہیں اور جو نگاہ رکھے ہوئے ہے

۲۱۹۔۔۔     آپ کی نقل و حرکت پر سجدہ ریزوں میں

۲۲۰۔۔۔     بلاشبہ وہی ہے ہر کسی کی سنتا سب کچھ جانتا

۲۲۱۔۔۔     لوگو! کیا میں تم کو یہ بات نہ بتا دوں کہ شیطان کس پر اترا کرتے ہیں ؟

۲۲۲۔۔۔     وہ اترا کرتے ہیں ہر بہتان باز اور جعل ساز و بدکردار پر

۲۲۳۔۔۔     وہ سنی سنائی باتیں ان کے کانوں میں پھونکتے ہیں اور ان میں سے اکثر جھوٹے ہوتے ہیں ۔

۲۲۴۔۔۔     رہے شاعر تو ان کے پیچھے تو گمراہ لوگ ہی چلا کرتے ہیں ۔

۲۲۵۔۔۔     کیا تم دیکھتے نہیں کہ وہ کس طرح بھٹکتے پھرتے ہیں ہر وادی میں

۲۲۶۔۔۔     اور وہ کہتے وہ کچھ ہیں جو خود کرتے نہیں ۔

۲۲۷۔۔۔     بجز ان کے جو ایمان و یقین کی دولت سے مالا مال ہوں اور وہ کام بھی نیک کریں اور وہ یاد کریں اللہ کو بہت اور وہ بدلہ لیں اس کے بعد کہ ان پر ظلم کیا جائے کہ ان کا معاملہ دوسرا ہے اور عنقریب خود ہی جان لیں گے وہ لوگ جو ظلم کرتے رہے کہ کس انجام سے دوچار ہونا ہے ان کو۔

تفسیر

 

۲.        سو یہ کتاب عظیم کھول کر بیان کرتی ہے حق اور حقیقت کو صحیح اور غلط کو جائز اور ناجائز کو حقوق اللہ اور حقوق العباد کو حضرت خالق جل مجدہ، اور اس کی مخلوق کے حقوق کے درمیان فرق و تمیز اور ان کی حدود کو اور اس طور پر کہ کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ اور اس طور پر کہ اس جیسی دوسری کوئی کتاب نہ آج تک کبھی ہوئی ہے، اور نہ قیامت تک کبھی ممکن ہے، سو اب قیامت تک حق و ہدایت کی روشنی اس کے سوا اور کہیں سے ممکن ہی نہیں پس اس میں ایک طرف تو پیغمبر کے لئے تسکین و تسلیہ کا سامان ہے کہ جب حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، نے اپنے فضل و کرم سے آپ کو اس کتاب عظیم کی نعمت عظمیٰ سے نواز دیا ہے جو اپنی صحت و صفائی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی صداقت و حقانیت کی کھلی اور واضح دلیل و برہان ہے، تو پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ان لوگوں کے اعراض و انکار سے اس طرح فکر مند اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، آپ کے ذمے تو اس پیغام حق و ہدایت کو بلا کم و کاست جوں کا توں پہنچا دینا ہے اور بس اس کے بعد ان کا حساب لینا ہمارا کام ہے، اِنْ عَلَیْکَ اِلاَّ الْبَلَاغُ وَعَلَیْنَا الْحِسَابُ۔ اور دوسری طرف اس میں منکرین و مکذبین کے لئے تنبیہ و تذکیر بھی ہے، کہ اس کتاب مبین اور نعمت عظمیٰ کی تکذیب و انکار اور اس سے اعراض و روگردانی کا ارتکاب کر کے تم لوگ اپنے لئے جس ہولناک انجام کا سامان کر رہے ہو اس کا بھگتان تم کو بہر حال بھگتنا ہو گا، اور نہایت ہی ہولناک صورت میں بگھتنا ہو گا، والعیاذُ باللہ العظیم،

۱۰.    حضرات انبیاء و رسل اور ان کی قوموں کے احوال کی تذکیر کے سلسلے میں یہاں پر سب سے حضرت موسیٰ کی دعوت حق کا ذکر فرمایا گیا کہ اس میں بڑے عظیم الشان درسہائے عبرت و بصیرت پائے جاتے ہیں اور یہاں سے حضرت موسیٰ کی سرگزشت کے اس حصے کی طرف اشارہ فرمایا جا رہا ہے جبکہ آنجناب کو مدین سے واپسی کے سفر کے دوران وادی مقدس طوی میں اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی اور شرف نبوت سے سرفرازی کا شرف حاصل ہوا تھا۔ اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو منصب رسالت سے سرفراز فرما کر فرعون اور اس کی قوم کے پاس تبلیغ حق کے لئے جانے کی ہدایت فرمائی تھی۔

۱۱.      سو اس ارشاد ربانی سے قوم فرعون کے فساد اور ان کی بگاڑ کی انتہاء کو بھی واضح فرما دیا گیا۔ کہ اوّلاً ان کا ذکر ظالمین کے وصف کے ساتھ فرمایا گیا اور پھر اس کی توضیح وتشریح قوم فرعون کے لفظ سے فرمائی گئی یعنی ان لوگوں کا اصل ٹائٹل اور عنوان ظالم ہی تھا اس لئے پہلے ان کا ذکر ظالمین کے وصف کے ساتھ فرمانے کے بعد ان کے نام کے ذکر سے اس کی توضیح فرمائی گئی اور ظاہر ہے کہ جو اپنے خالق و مالک کے حق بندگی کو فراموش کر کے خود اپنی خدائی کا دعویدار بن جائے اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو سکتا ہے؟ اور اپنی خدائی کا یہ کافرانہ اور ظالمانہ دعوی اگرچہ فرعون ہی نے کیا تھا۔ لیکن اس کی قوم نے بھی پوری طرح اس کی اطاعت کو اپنا لیا تھا اس لئے وہ سب بھی اس کے اس جرم میں شریک ہو گئے تھے جیسا کہ دوسرے مقام پر اس کی اس طرح تصریح فرمائی گئی فَاسْتَخَفَّ قَوْمَہ فَاَطَاعُوْہُ اِنَّہُمْ کَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَ (الزخرف۔ ۵۴) اور ان کے اس فساد و بگاڑ کی اصلاح کے لئے ان کو خوف خداوندی کی تذکیر و یاد دہانی فرمائی گئی۔ اور ان کے لئے بطور تحریض و ترغیب ارشاد فرمایا گیا اَلَا یَتَّقُوْنَ یعنی کیا یہ لوگ ڈرتے اور بچتے نہیں، یعنی کیا یہ بچتے نہیں اپنے رب کی گرفت و پکڑ اور اس کے عذاب سے؟ یعنی ان کو اپنے ظلم و فساد کے نتیجہ و انجام اور خداوند قدوس کے قہر و غضب سے بچنے کی فکر کرنی چاہیے سو تقویٰ و پرہیزگاری اور خوف خداوندی اصلاح احوال کی اساس و بنیاد ہے اس لئے ہر پیغمبر نے اپنی قوم کو سب سے پہلے اسی کی دعوت دی۔

۱۵.      سو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کے اس خوف و خدشہ کا پورے زور اور شدت کے ساتھ ازالہ فرمایا کہ وہ لوگ ان کو قتل کر دیں گے چنانچہ اول تو کلا کے حرف تاکید واَدْع کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ نہیں ایسے ہرگز نہیں ہو گا۔ اور دوسرے اِنَّا مَعَکُمْ مُّسْتَمِعُوْنَ کے تاکیدی جملے کے ساتھ اس کو مؤکد فرمایا کہ یقیناً ہم تمہارے ساتھ ہیں سننے دیکھنے کو جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ اِنَّنِیْ مَعَکُمَا اَسْمَعُ وَاَریٰ (طٰہٰ۔۴۶) یعنی میں تمہارے ساتھ ہوں سنتا دیکھتا اور جب اللہ تعالیٰ کی معیت نصیب ہو جائے تو پھر اور کیا چاہیے چنانچہ یہ اسی معیت خداوندی کا نتیجہ تھا کہ فرعون اپنی پوری فرعونی قوت و طاقت کے باوجود آنجناب پر کبھی دست درازی نہیں کر سکا۔ اور نہ ہی اس کی قبطی قوم کبھی آپ پر کسی طرح کی دست درازی کر سکی۔ حالانکہ وہ پوری قوم تھی اور قوم بھی فرعونی دماغ والی قوم جبکہ ان کے مقابلے میں حضرت موسیٰ ایک فرد فرید تھے جو ان کے منہ پر اور ان کی فرعونیت کے علی الرغم کلمہ حق بلند کر رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ آپ کے بھائی ہارون کے سوا اور کوئی نہ تھا۔ سو حفاظت اللہ ہی کی حفاظت اور معیت اسی کی معیت ہے سبحانہ و تعالیٰ اَلَلّٰہُمَّ فَکُنْ لَنَا بِکُلِّ حَالٍ مِّنَ الْاحوال، وَفِیْ کُلِّ موطنٍ مّن المواطن فی الحیاۃ۔ یا من بیدہ ملکوتُ کل شیئ وھو یُجِیْرُ وَلَا یُجَارُ عَلَیْہِ۔

۲۴.      یعنی رب العالمین جل جلالہ، کی معرفت اور اس کی پہچان کے لئے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں، بلکہ زمین و آسمان اور ان دونوں کے درمیان کی اس عظیم الشان اور گوناگوں مخلوق میں نگاہ ڈال کر اور نظر دوڑا کر دیکھ لو۔ تمہیں اس وحدہٗ لاشریک کے وجود باجود، اس کی حکمت بے نہایت، اور رحمت و عنایت بے غایت پر دلالت کرنے والی نشانیاں ہر طرف پھیلی بکھری نظر آئیں گی، جو اپنی زبان حال سے پکار پکار کر اس کی عظمت شان اور جلالت قدر کو بیان کر رہی ہیں۔ اور اس طور پر کہ کسی طرح کے شک و انکار کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ سکتی۔ آخر تم ہی لوگ بتاؤ اور اپنی عقل و ضمیر سے پوچھ کر بتاؤ کہ آخر وہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمین کی اس عظیم الشان اور حکمتوں بھری کائنات اور ان دونوں کے درمیان کی بیحد وحساب مخلوقات کو وجود بخشا؟ اور اس نے اس سب کو اس قدر پابندی اور حکمت کے ساتھ تمہارے کام میں لگا دیا؟ اور جو اس سارے نظام کو تھامے ہوئے ہے؟ سو وہی ہے اللہ جَلَّ جَلَالُہ، جو کہ رب العالمین ہے۔ جو کہ خالق و مالک حقیقی اور معبود برحق ہے اس کے سوا باقی سب اوہام و خرافات ہیں، فَذَالِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمُ الْحَقُّ فَمَا ذَا بعْدَ الْحَقِّ اِلاَّ الضَّلَالُ فَاَنّیٰ تُصْرَفُوْنَ وَاَنّیٰ تُسْحَرُوْنَ؟ تم لوگوں کی مت آخر کہاں اور کیوں کہاں ماری جاتی ہے؟ اور تم پر کہاں سے جادو کیا جاتا ہے؟ سو اگر تم لوگ واقعی ایمان لانا اور یقین سے سرفراز ہونا چاہتے ہو تو یہ ساری کائنات حق کی داعی اور اس کی عظمت شان کی مظہر اتم ہے۔ لیکن عناد اور ہٹ دھرمی کا کوئی علاج نہیں؟ والعیاذ باللہ العظیم

۲۹.    سو یہی حال ہوتا ہے اہل کفر و باطل کا کہ وہ جب دلیل و منطق اور حجت و برہان کے میدان میں عاجز آ جاتے ہیں، تو دھمکیوں کی زبان پر اتر آتے ہیں اور ظلم و عدوان کی منطق کے ذریعے حق کی آواز کو دبانے اور اس کو خاموش کرنے کی روش کو اپنا لیتے ہیں فرعون دماغوں اور فرعونیت کی منطق کا یہی حال کل تھا۔ اور یہی آج ہے کہ وہ اہل حق کو دھمکیوں سے مرعوب کر کے خاموش کرنا چاہتے ہیں، والعیاذُ باللہ جَلَّ وَعَلَا

۳۰.    سو فرعون نے تو اپنے طور پر یہ سمجھا ہو گا کہ حضرت موسیٰ اس طرح کی خوفناک دھمکی سے مرعوب ہو کر اپنی اس دعوت سے باز آ جائیں گے، یا اپنے مؤقف میں کوئی لچک پیدا کر دیں گے لیکن حضرت موسیٰ نے پوری متانت و سنجیدگی اور نہایت وقار و استقامت کے ساتھ اس سے کہا کہ کیا تو ایسے کرے گا اگرچہ میں تیرے سامنے کوئی کھلی اور واضح نشانی لے آؤں؟ جو میرے دعوے کی صداقت کو پوری طرح نکھار دے؟ یعنی حق اور حقیقت کے مقابلے میں ایسی دھمکیوں کا معاملہ عقل و فطرت کے تقاضوں کا خون کرتا ہے، والعیاذ باللہ

۳۳.    یعنی حضرت موسیٰ کے ارشاد کے جواب میں جب فرعون نے ان سے کہا کہ لاؤ تم اپنی وہ نشانی اگر واقعی تم اس دعوے میں سچے ہو، اور اس طرح کی کوئی نشانی اپنے پاس رکھتے ہو۔ یعنی فرعون نے جب حضرت موسیٰ کی اس دعوت حق و ہدایت پر کان نہ دھرا جو عقل و فطرت اور آفاق وانفس کے کھلے اور واضح دلائل پر مبنی تھی، اور وہ اس کو ماننے اور قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوا۔ اور حضرت موسیٰ سے نشانی دکھانے کا مطالبہ کیا تو آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم و ارشاد کے مطابق اپنی لاٹھی کو زمین پر ڈالا تو وہ یکایک ایک کھلم کھلا اژدہا بن گئی اور اپنے ہاتھ کو اپنے گریبان میں ڈال کر باہر نکالا تو وہ یکایک چمک رہا تھا، بغیر کسی بیماری کے، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا مِنْ غَیْرِ سُوْءٍ ایَٰۃً اُخْریٰ۔ سو حضرت موسیٰ کی ان دو نشانیوں سے فرعون اندر سے ہل کر رہ گیا، مگر اس نے حق کو تسلیم کرنے، اور اس کو ماننے کے بجائے کہا کہ یہ تو ایک بڑا ماہر جادوگر ہے۔

۳۹.    یعنی جب درباریوں کے مشورے کے مطابق حضرت موسیٰ سے مقابلے کے لئے ملک بھر کے ماہر جادوگروں کو اکٹھا کر دیا گیا، اور اس کے لئے ایک خاص دن اور خاص وقت بھی مقرر کر دیا گیا، جس کے بارے میں دوسرے مقام پر تصریح فرمائی گئی کہ وہ دن یَوْمُ الزِّیْنَۃً یعنی ان کے ایک خاص میلے کا دن ہو گا۔ اور یہ سب اس لئے کیا گیا کہ جب ایسے خاص اجتماع اور خاص وقت میں اور کھلے میدان کے اندر لوگ بڑی بھاری تعداد میں جمع ہونگے اور تنہا موسیٰ کے مقابلے میں ماہر جادوگروں کی اتنی بڑی فوج میدان میں اترے گی۔ اور اپنے جادو کے کرتب دکھائے گی۔ تو ہماری فتح و جیت کی عظمت شان کے ترانے یکایک پورے ملک میں بجنے شروع ہو جائیں گے، بھلا ملک بھر کے ماہر جادوگروں کی اتنی بڑی فوج کا مقابلہ اکیلے موسیٰ کس طرح کر سکیں گے۔ اس لئے فرعون نے اپنے لوگوں سے تحریض و تشویق اور ترغیب و تحضیض کے طور پر استفہامیہ اسلوب میں کہا ہَلْ اَنْتُمْ مُّجْتَمِعُوْنَ (کیا تم لوگ اکٹھے ہوتے ہو؟) یعنی تم کو ضرور اکٹھا ہونا چاہیے اور جو لوگ ایمان و یقین کی دولت سے محروم ہوتے ہیں وہ قدرت الٰہی اور غیبی طاقت کی قوت کے اندازے سے اسی طرح محروم ہوتے ہیں فرعون کو اس کا کوئی پتہ اور اندازہ نہیں تھا کہ اس کی یہ سب چالیں اور کوششیں خود اسی کے خلاف پڑنے والی ہیں۔

۴۷.    سو انہوں نے رب العالمین پر اپنے ایمان و یقین کے اعلان کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی توضیح و تصریح کر دی کہ ہم اس رب العالمین پر ایمان لے آئے جو کہ حضرت موسیٰ اور ہارون کا رب ہے، اور یہ اس لئے کہ تاکہ اس کے بعد کسی کے لئے کسی ادنیٰ اشتباہ کی گنجائش بھی باقی نہ رہ سکے۔ کہ رب وہی وحدہٗ لاشریک ہے، اور فرعون جو اپنے آپ کو رب کہتا اور کہلواتا ہے، وہ اس میں بالکل جھوٹا ہے، یہاں پر ان جادوگروں کے بارے میں اُلْقِیَ کا لفظ استعمال فرمایا گیا ہے۔ جس کا معنی و مطلب ہے کہ ان کو سجدے میں ڈال دیا گیا۔ یعنی ان کے اندر سے ایک ایسی ہوک اٹھی اور ایک ایسی زوردار، اور غیر اختیاری تحریک پیدا ہوئی کہ وہ سب کے سب بے ساختہ سجدے میں گر گئے۔ اور یہی حال ہوتا ہے انسان کا اس وقت جب اس کا ضمیر جاگتا ہے اور اس کا باطن روشن ہوتا ہے جس سے اس کے اندر ایک ایسا عظیم الشان انقلاب بپا ہو جاتا ہے جس سے وہ کہیں سے کہیں جا پہنچتا ہے۔

۵۰.    سو اس سے دولت ایمان و یقین کی انقلاب آفرینی اور اس کی عظمت شان کا اندازہ کیا جا سکتا ہے، کہ کہاں یہی جادوگر تھے جو حضرت موسیٰ کے مقابلے میں میدان میں آنے سے پہلے فرعون سے خاص انعام کا مطالبہ کر رہے تھے اور اس سے زور دے کر اور صاف طور پر کہہ رہے تھے اَئِنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنَّ کُنَّا نَحْنُ الْغَالِبِیْنَ یعنی اگر ہم اس مقابلے میں غالب آ گئے تو ہمیں کیا اجر اور بدلہ ملے گا۔ اور کہاں اب چند ہی لمحوں کے بعد لذت ایمان سے سرشاری کے نتیجے میں وہ فرعون کی اتنی بڑی خوفناک دھمکی کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ اور اپنے دین و ایمان کی خاطر اور اپنے رب کی رضا کے حصول کے لئے اپنی جان عزیز کا نذرانہ پیش کرنے کے لئے اس طرح تیار ہو جاتے ہیں۔ سو ایمان و یقین کی دولت ایسی عظیم الشان، بے مثال، اور انقلاب آفریں دولت ہے کہ اس سے سرفرازی کے بعد بندہ مومن کے سامنے دنیا ساری کی حیثیت پر کے برابر بھی نہیں رہ جاتی، والحمد للہ رب العالمین،

۵۱.    سو ان بندگان صدق و صفا کو ایمان کی ایک ہی جھلک نے جس مقام بلند پر پہنچا دیا تھا اس کے بعد فرعون اور اس کی ساری سلطنت کی حیثیت ان کے سامنے مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں رہ گئی تھی، چنانچہ انہوں نے فرعون کی اس خوفناک دھمکی کی کوئی پرواہ نہ کرتے ہوئے۔ اس کے جواب میں اس سے کہا اور پوری بیباکی سے کہا کہ تو جو مرضی کر لے، ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ ہم نے بہر حال اپنے رب ہی کے حضور لوٹ کر جانا ہے اور ہم اس بات کی طمع رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہماری خطاؤں کو معاف فرما دے۔ اس بناء پر کہ ہم سب سے پہلے ایمان لائے، سبحان اللہ، کیسی بڑی قوت، اور کس قدر عظیم الشان روشنی ہے یہ ایمان کی قوت اور روشنی کہ اس کی ایک ہی جھلک سے انسان کے اندر ایسا محیر العقول انقلاب بپا ہو جاتا ہے اور اس کی فکر و سوچ اس حد تک سدھر اور بدل جاتی ہے۔ اور وہ ایک ہی جست میں کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے، فالحمدُ لِلّٰہِ الذی شَرَّفَنَا بِنِعْمَۃِ الایمان والیقین۔ اَللّٰہُمَّ فَزِدْنَا مِنْہُ وَثَبِتْنَا عَلَیْہِ، یا ذالجلال والاکرام

۵۷.    یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی تدبیر کا کرشمہ تھا کہ وہ لوگ اس طرح اپنے باغوں، چشموں، خزانوں، دولت کدوں، سے نکل کر غرقابی کے گھاٹ پر خود جا پہنچے۔ دنیا کی ظالم حکومتوں کا طریقہ و وطیرہ تو ہمیشہ یہی رہا کہ وہ اپنے مخالفوں کو کچلنے کے لئے اپنی وحشیانہ بمباری کے ذریعے شہروں کے شہروں اور بستیوں کی بستیوں کو تباہ و برباد کر کے اور اجاڑ کر رکھ دیتے ہیں جس کے نتیجے میں ایسے مظالم کا شکار زیادہ تر وہ لوگ ہوتے ہیں جو بالکل بے گناہ اور بے قصور ہوتے ہیں، لیکن ظالم بستیوں سے صرف ظالموں کو نکال باہر کرنا، تاکہ وہ اپنے کئے کرائے کے انجام کو بھگتیں اور کسی بستی کو کوئی گزند اور نقصان نہ پہنچے، سو یہ خداوند قدوس ہی کی قدرت اور اس کی تدبیر کا نتیجہ ہو سکتا ہے، کہ فرعون اپنے شرکائے ظلم کے ساتھ اسطرح خود نکل کر غرقاب ہونے کے لئے پہنچ گیا۔

۵۹.    یعنی اَوْرَثْنٰـہَا کی ضمیر مفعول سے بعینہ وہی چیزیں مراد نہیں ہیں جن سے قبطیوں کو نکال باہر کیا گیا تھا، کیونکہ مصر سے نکلنے کے بعد ان لوگوں کا واپس مصر میں آکر آباد ہونا تاریخ سے ثابت نہیں۔ بلکہ اس سے مراد اسی نوع کی نعمتیں ہیں جن سے بنی اسرائیل کو مصر سے نکلنے کے بعد فلسطین کی ارض مقدس میں سرفراز کیا گیا تھا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر اس کی اس طرح تصریح فرمائی گئی ہے وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ کَاَنُوْا یُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَہَا الَّتِیْ بٰرَکْنَا فِیْہَا الایٰۃ (الاعراف۔ ۱۳۷) یعنی ہم نے ان لوگوں کو کہ جن کو دبا کر رکھا گیا تھا اس سرزمین کی مشرقوں اور مغربوں کا وارث بنا دیا۔ جس کو ہم نے طرح طرح کی برکتوں سے نوازا تھا۔ اور ارض مبارک اور ارض مقدس سے مراد ارض فلسطین ہی ہے جیسا کہ قرآن حکیم کی دوسری مختلف آیات کریمات میں ارشاد فرمایا گیا ہے، اور ان لوگوں کے مصر سے نکلنے اور صحرا گروی کا دور ختم ہونے کے بعد یہی وہ سرزمین تھی جو بنی اسرائیل کے قبضے میں آئی ارض مصر کی طرف واپسی، اور حکومت مصر پر ان کے قبضے کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ملتا۔ سو اَوْرَثْنٰہَا کی ضمیر مفعول سے مراد بعینہ وہی نعمتیں نہیں بلکہ اسی طرح کی نعمتیں ہیں۔ ہم نے اپنے ترجمے کے اندر اس کی طرف اشارہ کر دیا ہے والحمد للہ جل وعلا، بہرکیف یہ قدرت کی پُر حکمت کارستانی ہی کا ایک نتیجہ و ثمرہ تھا کہ صدیوں سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی قوم کو آزادی، اور ایسی دوسری نعمتوں سے سرفرازی نصیب ہوئی، فالحمد للہ جَلَّ وَعَلَا

۷۰.    حضرت ابراہیم کے قصے کا ذکر و آغاز بھی ان کی دعوت و تبلیغ کے مرحلے ہی سے فرمایا گیا ہے نہ کہ ان کی میلاد و پیدائش کے ذکر سے، کیونکہ حضرات انبیاء ورسل کی پاکیزہ زندگیوں میں اصل اور قابل ذکر مرحلہ وہی ہوتا ہے جب وہ دنیا کو حق کی دعوت دیتے ہیں۔ اس لئے قرآن حکیم میں کسی بھی پیغمبر کی ولادت اور ان کی میلاد کا ذکر نہیں فرمایا گیا، سوائے ان کے جن کی پیدائش خرق عادت اور معجزانہ طور پر ہوئی تھی جیسے حضرت عیسیٰ اور یحییٰ علیہما الصلوٰۃ والسلام یا پھر حضرت آدم جو بغیر ماں اور باپ کے توسط کے محض قدرت الٰہی سے پیدا ہوئے، ان کے سوا باقی تمام حضرات کا ذکر ان کے دعوت و تبلیغ کے مرحلے ہی سے ہوتا ہے۔ کہ اصل چیز ان مقدس ہستیوں کی زندگیوں میں یہی ہوتی ہے اور یہی ذمہ داری ان کی امتوں اور ان کے نام لیواؤں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ ان کے پیغام کو آگے پہنچائیں تاکہ دنیا حق و ہدایت کے نور سے منور، اور مستفید و فیضیاب ہو سکے۔ اسی لئے حضرت امام الانبیاء محمد رسول اللہ علیہ و سلم نے اپنی امت کو بطور خاص ہدایت فرمائی کہ تَرَکْتُ فِیْکُمْ مَا اِنَّ تَمَسَّکُمْ بِہٖ لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدِیْ کِتَابُ اللّٰہِ وَسُنَّتِیْ فَعَضُّوْا عَلَیْہِمَا بِاالنَّوَاجِذُ۔ یعنی میں اپنے بعد تمہارے درمیان دو ایسی چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر تم نے ان کو مضبوطی سے پکڑے رکھا تو تم کبھی گمراہ نہیں ہوؤ گے۔ یعنی اللہ کی کتاب اور میری سنت، پس تم لوگ ان دونوں کو ڈاڑھوں سے پکڑے رکھنا۔ مگر اس سب کے باوجود امت مسلمہ کا حال آج یہ ہے کہ وہ مولد اور میلاد کے نام سے طرح طرح کی خرافات کا ارتکاب کرتی ہے یہاں تک کہ انہوں نے عید میلاد کے نام سے ایک مستقل اور تیسری عید بھی بنا لی ہے۔ جبکہ حدیث و فقہ کی تمام کتابوں میں آج تک کتاب العیدین کے عنوان سے دو ہی عیدوں کا ذکر آتا ہے۔ یعنی عیدالفطر اور عید الاضحی جن کا تعلق دو عظیم الشان عبادتوں سے ہے۔ یعنی صیام رمضان اور حج و قربانی سے۔ سو امت مسلمہ نے اس طرح کی اختراعات سے کئی بدعات کا اضافہ تو کر دیا ہے۔ مگر قرآن و سنت کی تعلیمات مقدسہ سے ان کو کوئی آگہی نہیں الا ماشاء اللہ شاعر مشرق نے خوب کہا کہ حقیقت روایات میں کھو گئی اور یہ امت خرافات میں کھو گئی فالی اللہ المشتکی وہو المستعان۔

۷۱.    سو حضرت ابراہیم نے حضرت حق جل مجدہ، کی ان صفات کے ذکر سے جو کہ فطری اور بدیہی ہیں عقیدہ توحید کو بھی پوری طرح نکھار دیا۔ اور اس کے ساتھ ہی ساتھ شرک کی بھی ٹھوس دلائل سے بیخ کنی فرما دی یعنی ایک طرف تو تم لوگوں کے وہ خود ساختہ اور من گھڑت معبود ہیں جو نہ تمہاری آواز و پکار کو سن سکتے ہیں اور نہ تمہارے لئے کسی طرح کے نفع و نقصان کا کوئی اختیار رکھتے ہیں اور دوسری طرف وہ اللہ ہے جو ساری کائنات کا خالق و مالک اور ان کا رب اور پالنہار ہے جس کی رحمتیں اور عنایتیں ہر چیز پر چھائی ہوئی ہیں اسی نے مجھے پیدا فرمایا اور وجود بخشا وہی ہدایت دیتا اور میری راہنمائی فرماتا ہے وہی مجھے کھلاتا پلاتا ہے اور جب میں بیمار ہو جاؤں تو وہی مجھے شفاء دیتا ہے اسی کے ہاتھ میں زندگی و موت کا اختیار ہے اور وہی ہے جس سے میں طمع اور امید رکھتا ہوں کہ وہ قیامت کے روز میری خطاؤں کو معاف فرمائے گا تو اس کو چھوڑ کر تم لوگوں کا ان من گھڑت خداؤں کی پوجا کرنا کس قدر حماقت اور کتنا بڑا ظلم ہے، والعیاذُ باللہ جَلَّ وَعَلَا

۷۹.    یعنی ایسے دل کے ساتھ جو کفر و شرک اور شقاق و نفاق کے ہر جملہ شوائب سے پاک اور محفوظ ہو، جو سارے کا سارا اللہ ہی کے لئے ہو، کیونکہ جس دل میں کفر و شرک کی میل یا کسی اور کی حصہ داری یا نفاق و شقاق کی بیماری ہو۔ والعیاذ باللہ اس کی اللہ تعالیٰ کے یہاں کوئی قدر و قیمت نہیں۔ سو اس یوم جزاء میں فائز المرام اور بازیاب وہی لوگ ہونگے جو حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کے حضور ایسے قلب سلیم کے ساتھ حاضر ہونگے۔ ورنہ مال و اولاد میں سے کوئی بھی چیز کام نہیں آ سکے گی۔ اگر مال کام آتا تو قارون و فرعون جیسے لوگ دوزخ کا ایندھن نہ بنتے جو دنیا میں زمین کے خزانوں اور اقتدار کے مالک تھے۔ اور اگر اولاد کام آتی تو حضرت ابراہیم کے باپ آزر سے بڑھ کر خوش نصیب اور کون ہو سکتا تھا؟ جس کو حضرت ابراہیم جیسا عظیم الشان اور جلیل القدر فرزند ملا، مگر وہ بھی اس کے کفر و انکار کے باعث اس کے کچھ کام نہ آ سکے، تو پھر اور کسی کے کہنے ہی کیا؟ سو اس سے یہ اہم اور بنیادی حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ انسان کے بناؤ بگاڑ، اور صحت و فساد، کا اصل اور بنیادی تعلق اس کے اپنے قلب و باطن سے ہے وباللّٰہ التوفیق لما یُحِبُّ ویُرید، وعلیٰ ما یُحِبُّ ویُرید، بِکُلِّ حَالٍ مِّنَ الْاحوال، وفِیْ کُلِّ مَوْطِنٍ مِّنَ المواطن فی الحیاۃ

۹۵.      کیونکہ دنیا میں یہ سب باہم شریک جرم تھے، اس لئے یوم جزاء میں ان کا حشر و انجام بھی ایک ہی ہو گا۔ اور سب کو اُوندھے منہ یکجا دوزخ میں دھکیل دیا جائے گا۔ والعیاذ باللہ۔ کَبَّ کے معنی منہ کے بل گرانے اور پچھاڑنے کے آتے ہیں، اسی سے کَبْکَبَ بنایا گیا، جس سے اس کے اندر حروف کی زیادتی کی بناء پر مبالغے کا مفہوم پیدا ہو گیا۔ سو ان بدبختوں کو ایک کے بعد ایک کر کے، اور ایک دوسرے پر دوزخ میں دھکیلا جائے گا۔ اور اس طرح یہ قعر جہنم تک لڑھکتے چلے جائیں گے، والعیاذُ باللہ، دنیا میں یہ چونکہ کفر و انکار اور تکذیب و عداوت حق میں ایک دوسرے کے معاون اور مددگار بنے ہوئے تھے، اس لئے وہاں پر یہ ایک دوسرے کے لئے آتش دوزخ کو بھڑکانے کا ذریعہ بنیں گے، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ وَیَجْعَلَ الْخَبِیْثَ بَعْضَہ، عَلیٰ بَعْضٍ فَیَرْکُمَہ، جَمِیْعًا فَیَجْعَلَہ، فِیْ جَہَنَّمَ اُولئِکَ ہُمُ الْخَاسِرُوْنَ(الانفال۔۳۷) اور یہی تقاضا ہے الجزاءُ منِ جِنْسِ العمل کے ضابطے کا۔ یعنی عمل کی جزا اسی کی جنس سے ہو گی، والعیاذُ باللہ العظیم،

۹۹.    سو اپنا وہ ہولناک انجام دیکھنے کے بعد وہ پیرو اور معتقد جو دنیا میں اپنے بڑوں اور پیشواؤں کے دم چھلے بنے ہوئے تھے، جو ان کے ہاتھ پاؤں چومتے چاٹتے۔ اور ان کی بات کو سند مانتے تھے۔ اور اس طور پر کہ ان کے مقابلے میں اہل حق کی بات کو سننے ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے تھے۔ اس روز یہ اپنے بڑوں، گروؤں اور پیشواؤں سے ان کے روبرو اس طرح مخاطب ہونگے، اور ان سے صاف طور پر کہیں گے کہ تم ہی لوگوں نے ہمیں یہاں پہنچایا۔ اور اس ہولناک انجام سے دوچار کیا۔ اللہ کی قسم ہم لوگ کھلی گمراہی میں پڑے تھے کہ تم کو رب العالمین کے برابر کے قرار دے کر پُوجتے پکارتے تھے۔ تم کو حاجت روا اور مشکل سمجھ کر تمہارے نام کی نذر میں مانتے، نیازیں دیتے، چڑھاوے چڑھاتے اور طواف کرتے تھے۔ سو اس دن پیرو اور معتقد اپنے ان بڑوں اور پیشواؤں کو مجرم قرار دے کر ان پر لعنتیں برسائیں گے، قرآن حکیم میں اس منظر کو کئی جگہ پیش فرمایا گیا ہے، جیسے سورہ اعراف آیت نمبر ۳٨ احزاب ۶۷۔۶٨ اور حٰم السجدۃ نمبر۲٩ وغیرہ وغیرہ، والعیاذُ باللہ العظیم

۱۰۷.  پس میں جو کچھ کہتا ہوں اپنی طرف سے نہیں بلکہ اس اللہ کی طرف سے کہتا ہوں جس کا میں بھیجا ہوا اور اس کا رسول ہوں۔ اور اس کی طرف سے جو پیغام مجھے ملتا ہے میں اس کو پوری دیانت و امانت کے ساتھ جوں کا توں تم لوگوں تک پہنچا دیتا ہوں، اور اس میں اپنی طرف سے کسی طرح کی کوئی کمی پیشی نہیں کرتا پس میری بات کو ماننا دراصل خدا کی بات کو ماننا ہے اور اس سے اعراض و رُوگردانی برتنا دراصل خدا کی بات سے اعراض و رُوگردانی برتنا ہے جس کا نتیجہ و انجام بہت بُرا۔ اور ہولناک ہے پس تم لوگ اپنے معاملے میں خود سوچ لو اور اپنے نفع و نقصان کو خود دیکھ لو۔

۱۰۷.  سو تقویٰ و پرہیزگاری، یعنی خداوند قدوس کی گرفت و پکڑ سے ڈرنا، اور اس کی معصیت و نافرمانی سے بچنا اور اللہ کے رسول کی اطاعت و فرمانبرداری سارے دین کا خلاصہ اور نجات و فلاح کی اصل ہے، کہ خوف و تقویٰ خداوندی کے بغیر اللہ تعالیٰ کے یہاں کسی عمل کا نہ کوئی اثر ہو سکتا ہے اور نہ کوئی وزن و اعتبار اور تقویٰ و پرہیزگاری کا طریقہ و وسیلہ اور اس کا لازمی تقاضا اطاعت رسول ہے کہ رسول کی اطاعت و فرمانبرداری کے بغیر نہ تقویٰ کے تقاضے پورے ہو سکتے ہیں اور نہ اس کا کوئی اثر و نتیجہ ظاہر ہو سکتا ہے پس تقویٰ و اطاعت رسول نجات و فلاح کی اصل اور بنیاد ہیں۔ اس لئے حضرت نوح نے اور اسی طرح دوسرے انبیائے کرام اپنی اپنی قوموں کو انہی دو بنیادوں کی تعلیم و تلقین فرمائی۔ جیسا کہ جملہ انبیاء ورسل کے قصوں سے واضح ہے۔

۱۱۱.  سو یہ نتیجہ و اثر تھا ان لوگوں کے کبر و غرور کا جس کے باعث وہ حضرت نوح کے ان جانثاروں کو حقیر جانتے اور ان کو ارذل یعنی سب سے گھٹیا قرار دے رہے تھے جو دنیاوی مال و دولت تو نہیں رکھتے تھے لیکن ایمان و یقین کی اس اصل اور حقیقی دولت سے سرشار و مالا مال تھے، جو کہ دنیاوی مال و دولت سے کہیں بڑھ کر اعلیٰ و افضل اور دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز و مالا مال کرنے والی عظیم الشان اور بے مثال دولت ہے، سو دنیاوی مال و دولت کا یہ پہلو بڑا خطرناک اور باعث ہلاکت و محرومی ہے، کہ اس کی بناء پر ابنائے دنیا کبر و غرور میں مبتلا ہو کر حق اور اہل حق کو حقیر جاننے لگتے ہیں، اور اس کے نتیجے میں وہ نور حق و ہدایت سے اور دور اور محروم ہوتے چلے جاتے ہیں، یہاں تک کہ وہ ہلاکت و تباہی کے دائمی گڑھے میں جا گرتے ہیں، والعیاذُ باللہ۔

۱۱۷.  یعنی حضرت نوح کی ساڑھے نو سو سال کی طویل دعوت و تبلیغ کے بعد بھی جب وہ بدبخت قوم نہ سدھری، اور ایمان لانے اور حق کے آگے جھکنے کو تیار نہ ہوئی، تو اس وقت حضرت نوح نے اپنے رب کے حضور یہ دعا کی، کیونکہ ان کے سامنے یہ حقیقت پوری طرح عیاں اور واضح ہو گئی تھی، کہ اب ان کے اندر خیر و صلاح کی کوئی رمق باقی نہیں۔ بلکہ اب ان کا وجود اللہ کی دھرتی پر ایک ناروا بوجھ بن کر رہ گیا ہے، جس کو ختم کرنا اور دھرتی کو ان کی نجاست سے پاک کرنا ضروری ہو گیا ہے کیونکہ اس کے بعد انکے وجود اور انکی بقاء سے کفر و شرک کی نجاست ہی میں اضافہ ہو گا، جس طرح کہ سورہ نوح کے آخر میں حضرت نوح کی دعا کے اندر اس کی تصریح موجود ہے، ہم نے اپنے ترجمے کے اندر بین القوسین میں آخرکار کے لفظ کے اضافے سے اسی تفصیل کی طرف اشارہ کرنے کی کوشش کی ہے، والحمد للہ، یہاں سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے، کہ حضرت نوح جیسے عظیم الشان اور جلیل القدر پیغمبر بھی اللہ تعالیٰ ہی کی حاجت روائی و مشکل کشائی کے محتاج تھے اور وہ بھی اسی کے حضور دست دعا و سوال دراز کرتے ہیں اور جب وہ بھی بایں ہمہ عظمت شان و جلالت قدر حاجت روا و مشکل کشا نہیں تھے، تو پھر اور کون ہو سکتا ہے جس کو حاجت روا و مشکل کشا مانا جا سکتے؟ والعیاذ باللہ العظیم۔ پس حاجت روا و مشکل کشا سب کا اللہ وحدہٗ لاشریک ہے، سبحانہ و تعالیٰ،

۱۲۳.  یہاں پر قوم عاد کے بارے میں بھی وہی بات کہی گئی جو اوپر قوم نوح کے بارے میں کہی گئی تھی، کہ انہوں نے رسولوں کو جھٹلایا حالانکہ انکی طرف ایک ہی رسول کی بعثت و تشریف ہوئی تھی۔ اور انہوں نے براہ راست انہی کو جھٹلایا تھا۔ لیکن حضرات انبیاء ورسل کی دعوت چونکہ ایک ہی رہی ہے، اور سب نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا کو ایک ہی اور مشترک پیغام دیا ہے یعنی حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کی وحدانیت و یکتائی، اسی کی عبادت و بندگی، اور آخرت کی تذکیر و یاد دہانی کا پیغام اس لئے ان میں سے کسی ایک کی تکذیب و انکار دراصل سب کی تکذیب و انکار ہے، والعیاذُ باللہ العظیم۔

۱۲۴.    یہاں پر حضرت ہود کے لئے صاف اور صریح طور پر اَخُوْہُمْ فرمایا گیا ہے۔ یعنی ان کے بھائی اور یہی بات اوپر حضرت نوح کے لئے اور آگے حضرت صالح اور حضرت لوط وغیرہ کے بارے میں بھی فرمائی گئی ہے، سو اس طرح ہر پیغمبر کے بارے میں اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ وہ اپنی قوم کا بھائی ہوتا ہے۔ یعنی قومی اور نسلی اعتبار سے ان کا بھائی، اور یہی تقاضائے عقل و نقل ہے، کہ تاکہ اس طرح پیغمبر ان کو انکی زبان ہی میں حق و ہدایت کا پیغام پہنچائے۔ اور اسی حقیقت کو حضرت امام الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں مِنْہُمْ مِنْکُمْ اور مِنْ اَنْفُسِہِمْ وغیرہ جیسے الفاظ سے بیان فرمایا گیا ہے، سو پیغمبر اپنی قوم کے قومی اور نسلی اعتبار سے بھائی ہوتے ہیں اس کے بعد اگر وہ لوگ ایمان لے آئیں گے تو وہ ان کے دینی و ایمانی بھائی بھی بن جائیں گے۔ اور اسی حقیقت کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی احادیث کریمہ میں مختلف طریقوں سے واضح فرمایا ہے مگر اہل بدعت ہیں کہ اس سب کے باوجود وہ اس حقیقت کو ماننے اور تسلیم کرنے کو تیار نہیں، اور انہوں نے اسی بناء پر بعض اکابر اہل حق کے خلاف ایک طوفان بدتمیزی بپا کیا۔ حالانکہ انہوں نے ایک حدیث نبوی کا ترجمہ اور اس کی تشریح پیش کی تھی، اور بس، مگر عناد و ہٹ دھرمی اور جاہلانہ تعصب کا بُرا ہو کہ ان لوگوں نے محض اس بناء پر اور بالکل ناحق طور پر انکے خلاف ایسا طوفان بدتمیزی بپا کیا۔ فَاِلَی اللّٰہِ المشتکیٰ وہو المستعان، فی کل حینٍ واٰن۔

۱۳۹.  سو اس سے ایک تو اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ وہ لوگ حق اور پیغمبر حق کو جھٹلاتے ہی گئے جس کے نتیجے میں آخرکار ان کو ہلاک کر دیا گیا، جس سے یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ تکذیب حق کا نتیجہ و انجام بہر حال ہلاکت و تباہی ہے۔ ایسے لوگوں کو ڈھیل اور مہلت جتنی بھی ملے وہ بہر حال ایک مہلت اور ڈھیل ہی ہوتی ہے، جس نے بالآخر اپنے وقت پر ختم ہو جانا ہوتا ہے، اور اس کے بعد ایسے لوگ اپنے ہولناک انجام کو پہنچ کر رہتے ہیں۔ اسی لئے ارشاد فرمایا گیا اور حرف تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ بلاشبہ اس میں بڑی بھاری نشانی ہے یعنی ایسی عبرت انگیز نشانی جو لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے ان لوگوں کے لئے جو غور کرنا اور عبرت لینا چاہیں۔ لیکن مشکل اور مشکلوں کی مشکل یہی ہے کہ صحیح غور و فکر اور عبرت پذیری کا وصف ہی دنیا میں سب سے زیادہ نایاب و عنقاء ہے، الا ماشاء اللہ سبحانہ و تعالیٰ، اور دوسری اہم حقیقت اس سے یہ واضح فرما دی گئی کہ ان کی اکثریت ایمان لانے والوں کی نہیں تھی، سو اکثریت ہمیشہ بے ایمانوں ہی کی رہی ہے، کل بھی یہی تھا، اور آج بھی یہی ہے، پس حق و باطل کے بارے میں فیصلے، اور ان دونوں کے درمیان فرق و تمیز کے لئے عوام کی اکثریت کی رائے کا کوئی اعتبار نہیں، جس طرح کہ مغربی جمہوریت کے پجاریوں کا کہنا ماننا ہے۔ اور جس طرح کہ ہمارے یہاں کے اہل بدعت کا کہنا ہے۔ بلکہ حق وہ ہے جو اللہ اور رسول کے ارشاد کے مطابق ہو، اور باطل وہ ہے جو ان کے نزدیک باطل ہو، والعیاذ باللہ،

۱۴۴.  یعنی حضرت صالح نے بھی اپنی قوم سے بعینہ وہی باتیں کہیں جو حضرت نوح اور حضرت ہود وغیرہ دوسرے انبیاء ورسل نے اپنی اپنی قوموں سے کہی تھیں۔ جس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ ان تمام حضرات کی دعوت اور ان سب کا پیغام ایک ہی رہا ہے، جس کا خلاصہ ہے تقویٰ و خوف خداوندی اور اللہ کے بھیجے ہوئے رسولوں کی اطاعت و فرمانبرداری کہ تقویٰ و پرہیزگاری اور اطاعت و فرمانبرداری ہی سارے دین کا خلاصہ اور نجات و فلاح کی اصل اور اساس ہے سو حضرت صالح نے بھی اپنی قوم سے خطاب کر کے اور ان کے ضمیروں کو جھنجھوڑتے ہوئے ان سے فرمایا کہ کیا تم لوگ ڈرتے نہیں ہو؟ یعنی تم ڈرتے نہیں ہو اللہ کی گرفت و پکڑ سے اور تم بچتے نہیں ہو اس کی معصیت و نافرمانی اور کفر و شرک کے ہولناک جرم سے؟ پس تم لوگ اللہ سے ڈرو، اور میری اطاعت و فرمانبرداری کرو۔ کہ میں اس کا بھیجا ہوا اور امانتدار رسول ہوں۔ اس لئے تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو کہ یہی حق ہے تم پر تمہارے خالق و مالک کا اور اسی میں تم لوگوں کا بھلا ہے دنیا و آخرت دونوں کے جہانوں میں،

۱۴۹.    یعنی کیا تم لوگ طرح طرح کی ان عظیم الشان نعمتوں میں ہمیشہ رہو گے؟ اور تم اسی طرح عیش کرتے رہو گے؟ کیا تم نے کبھی ان کو چھوڑنا اور یہاں سے کوچ نہیں کرنا؟ اور تمہیں ان کے بارے میں کوئی جوابدہی نہیں کرنی؟ یعنی تم لوگوں نے ان نعمتوں کو بہر حال چھوڑنا اور یہاں سے کوچ کرنا، اور آگے اپنے خالق و مالک کے حضور حاضر ہو کر ان کے بارے میں جوابدہی کرنی۔ اور اپنے کئے کرائے کا پھل پانا ہے پس تم اپنے مآل و انجام کے بارے میں سوچو اور غور کرو۔ اور وہاں کی جوابدہی اور کامیابی کے لئے فکر و کوشش کرو، کہ اصل اور حقیقی کامیابی وہیں کی کامیابی ہے یہ دنیا اور اس کی ہر چیز فانی ہے اور آخرت کی اس کامیابی سے سرفرازی کا ذریعہ تقویٰ و پرہیزگاری، اور اطاعت ہے پس تم لوگ اللہ سے ڈرو۔ اور میری اطاعت کرو۔ کہ یہی سلامتی کی راہ ہے۔

۱۵۴.  یعنی وہی قدیمی اور مشترکہ غلط فہمی جو اس طرح کے سب ہی اصحاب زیغ و ضلال اور ٹیڑھے دماغ کے لوگوں کو ہمیشہ لاحق رہی ہے۔ یعنی یہ کہ جب تم ہم ہی جیسے بشر اور انسان ہو، تو پھر تم خدا کے رسول اور اس کے نمائندہ کس طرح ہو سکتے ہو؟ اور ایسے میں ہم تمہاری اطاعت کس طرح قبول کر لیں؟ یعنی وہی بات جس کو ہم نے کئی جگہ واضح کیا ہے کہ ایسے لوگوں کے نزدیک بشریت اور نبوت کے درمیان منافات ہے، پس جو بشر ہو گا وہ نبی اور رسول نہیں ہو سکتا۔ اور جو نبی و رسول ہو گا وہ بشر اور انسان نہیں ہو سکتا۔ اسی لئے کل کے ان ٹیڑھے دماغوں نے حضرات انبیاء ورسل کی بشریت طاہرہ کو دیکھتے ہوئے انکی نبوت ورسالت کا انکار کیا۔ اور اس کے برعکس آج کے کچھ ٹیڑھے دماغ ایسے ہیں جو انکی نبوت و رسالت کے ماننے کے دعوے کی بناء پر ان کی بشریت کا انکار کرتے ہیں۔ غلط فہمی دونوں کو بہر حال ایک ہی ہے جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا، یعنی یہ کہ بشریت اور نبوت ورسالت باہم جمع نہیں ہو سکتیں، حالانکہ حق اور حقیقت بہر حال یہی ہے کہ حضرات انبیاء ورسل بیک وقت انسان اور بشر بھی ہوتے ہیں اور نبی و رسول بھی بشریت پہلے ہوتی ہے اور اس کے بعد ان کو شرف نبوت ورسالت سے نوازا جاتا ہے، اور یہی تقاضا ہے عقل و نقل دونوں کا اور اسی کا اظہار اقرار ہر مسلمان اپنے کلمہ شہادت میں وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہ وَرَسُوْلُہ، سے کرتا ہے۔

۱۵۷.    سو اس میں نشانی ہے اس بات کی کہ کفر وانکار اور تکذیب حق کا نتیجہ و انجام بہر حال ہلاکت و تباہی ہے۔ ایسے لوگوں کو ڈھیل اور مہلت جتنی بھی ملے، وہ بہر حال ڈھیل اور مہلت ہی ہوتی ہے۔ جس نے اپنے وقت پر بہر حال ختم ہو جانا ہوتا ہے۔ اور اس کے بعد ایسے لوگ اپنے ہولناک انجام کو پہنچ کر رہتے ہیں۔ نیز یہ نشانی ہے اس بات کی محض مادی ترقی اور دنیاوی خوشحالی کسی انسان یا قوم کو اس کے ہولناک انجام سے نہیں بچا سکتی، بلکہ اصل چیز ہے باطنی اور روحانی ترقی جو عبارت ہے، ایمان و اخلاص، خوف و خشیت خداوندی اور اطاعت خدا و رسول سے، یہی چیز انسان کو عذاب سے بچا سکتی ہے، سو اللہ پاک سبحانہ و تعالیٰ کی رحمت و عنایت کا یہ بھی ایک عظیم الشان مظہر اور نمونہ ہے کہ وہ مختلف قوموں پر اس طرح کے عذاب بھیجتا ہے، تاکہ وہ سنبھلیں، ہوش کے ناخن لیں، اور اپنی روش کی اصلاح کریں بلاشبہ ایسے واقعات میں بڑے درسہائے عبرت و بصیرت ہیں مگر ان لوگوں کے لئے جو غور و فکر سے کام لیتے ہیں، اور درس عبرت لینا چاہتے ہیں۔ اِنَّ فِیْ ذَالِکَ لَذِکْریٰ لِمَنْ کَانَ لَہ قَلْبُ اَوْ اَلْقَی السَّمْعَ وَہُوَ شَہِیْدٌ (ق۔ ۳۷) لیکن مشکل اور مشکلوں کی مشکل یہ ہے کہ وہ نگاہ عبرت ہی مفقود اور عنقاء ہے غفلت کی ماری دنیا ادھر توجہ ہی نہیں کرتی۔ الا ماشاء اللہ، ورنہ ایسے عبرت انگیز واقعات قدرت کی طرف سے ہمیشہ جگہ جگہ اور طرح طرح سے رونما ہوتے رہتے ہیں، تاکہ غفلت کی ماری دنیا چونک سکے۔ اور خواب غفلت سے بیدار ہو سکے، چنانچہ ابھی چند ہی روز قبل جبکہ راقم اٰثم یہ سطور کر رہا ہے یعنی ۲۶ دسمبر ۲٠٠۴ء کو بحر ہند میں ایک ایسا ہولناک زلزلہ اور طوفان آیا کہ انڈونیشیا، سری لنکا، مالدیپ، جنوبی ہندوستان وغیرہ سمیت سات ملک اس کی لپیٹ میں آ گئے۔ اور ایسے اور اس طور پر کہ دو لاکھ سے بھی زیادہ لوگ لقمہ اجل بن گئے کئی شہر صفحہ ہستی سے مٹ گئے، لاکھوں لوگ لاپتہ اور لاکھوں بے گھر ہو گئے، اس طوفان کو سونامی کا نام دیا گیا ہے اور کہتے ہیں کہ صدیوں میں اس کی کوئی نظیر و مثال نہیں ملتی۔ زلزلے سے سمندر کی تہ پھٹی، تو اس کے نتیجے میں اخباری اطلاعات کے مطابق سو سو فٹ بلند ایسی خوفناک لہریں اٹھیں جنہوں نے ہزاروں میل لمبی فصیل بنا دی۔ اور بپھری ہوئی یہ لہریں مختلف شہروں، قصبوں، اور دیہاتوں میں داخل ہو گئیں، اور ہزاروں لاکھوں، انسانوں، جانوروں، اور بلڈنگوں اور عمارتوں کو کوڑے کرکٹ کی طرح اپنے ساتھ بہا لے گئیں، اور ایسی ہولناک تباہی مچائی کہ پوری دنیا ہفتہ عشرہ گزر جانے کے باوجود اس کی تباہ کاریوں کا اندازہ نہیں لگا سکی۔ اور نہ ہی کبھی لگا سکے گی۔ لیکن کون ہے جو اس سے عبرت پکڑے؟ اور سبق لے، الا ماشاء اللہ، وقت کے تمام نہاد دانشور اور بزرجمہر اس کے لئے مادی اسباب ڈھونڈنے کی کوشش میں لگے ہیں، اور ان میں سے کتنے ہی ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ اس طرح کے نرم و گرم حالات تو آتے ہی رہتے ہیں والعیاذ باللہ العظیم کل حالٍ

۱۷۳.  سو وہ بارش جو اس بدبخت قوم پر برسائی گئی اور کسی قوم پر نہیں برسائی گئی کہ وہ کھنگر کے پتھروں کی بارش تھی جو تابڑ توڑ ان پر برسائی گئی جیسا کہ دوسرے مقام پر اس سے متعلق ارشاد فرمایا گیا فَلَمَّا جَاءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَہَا سَافِلَہَا وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْہَا حِجَارَۃً مِّنْ سِجِّیْلِ مَّنضُوْد (ہود۔٨۲) اور مزید فرمایا گیا کہ ان پر تمہارے رب کے یہاں سے خاص نشانات لگے ہوئے تھے یعنی ایسے نشانات کہ کونسا پتھر کس بدبخت کو لگنا ہے ارشاد ہوتا ہے مُسَوَّمَۃً عِنْدَ رَبِّکَ وَمَاہِیَ مِنَ الظَّالِمِیْنَ بِبَعِیْدٍ (ہود۔٨۳) والعیاذُ باللہ جل وعلا

۱۷۴. 

۱۷۵.  حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کی ان دونوں صفتوں یعنی عزیز اور رحیم کا جو آلہ گذشتہ آیات ترجیع کی طرح یہاں بھی دیا گیا، سو ان دونوں صفات کریمہ کے اعادہ و تکرار سے اس حقیقت کو مؤکد فرما دیا گیا کہ وہ بڑا ہی زبردست ہے ایسا زبردست کہ جو چاہے اور جیسا چاہے کر سکتا ہے، اس کے لئے نہ کوئی مشکل ہے اور نہ کسی طرح کی کوئی رکاوٹ، جب وہ کسی قوم کو پکڑنا چاہے تو کوئی اس کی راہ میں مزاحم نہیں ہو سکتا۔ لیکن وہ اس کے ساتھ رحیم یعنی بڑا مہربان بھی ہے، اور یہ اسی وحدہٗ لاشریک کی شان ہے کہ وہ انتہائی عزیز وزبردست ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی مہربان بھی ہے اس کے سوا دوسری کوئی ایسی ہستی نہ ہے نہ ہو سکتی ہے جو ان دونوں صفتوں کی حامل ہو، اور یہ اس کی رحمت بے پایاں ہی کا نتیجہ ہے کہ وہ انتہائی زبردست ہونے کے باوجود ظالموں کو فورا نہیں پکڑتا، بلکہ ان کو ڈھیل پر ڈھیل دیتا ہے، اور سچی توبہ پر ان کے تمام جرائم کو یکسر معاف فرما دیتا ہے سبحانہ و تعالیٰ اَللّٰہُمَّ فَخُذْنَا بِنَواصِیْنَا اِلیٰ مَا فِیْہِ حُبُّکَ والرّضا بِکُلِّ حَالٍ مِّنَ الاحوال، وفی کل مَوْطِنٍ مِّنَ المواطن فی الحیاۃ، یا عزیز، یارحمن، یا مَنْ بِیَدِہٖ مَلَکُوْتُ کل شیئ۔

۱۷۳.  حضرت شعیب کی قوم ایک تجارت پیشہ قوم تھی اور ان کا محل وقوع بھی ایسا تھا کہ یہ لوگ اپنے دور کی بڑی تجارتی شاہراہوں کے سنگم پر مقیم و آباد تھے اس لئے یہ خوب خوب نفع کماتے تھے اور اسی بناء پر یہ لوگ ہوس زر میں ایسے مبتلا ہو گئے تھے، جس کے نتیجے میں انہوں نے ناپ تول میں کمی کرنا اور ڈنڈی مارنا شروع کر دی۔ اور اس میں یہ لوگ اتنے آگے بڑھ گئے تھے کہ یہ چیز ان کے اندر قومی روگ کی حیثیت اختیار کر گئی تھی اس لئے حضرت شعیب نے دعوت توحید کے بعد ان کے اسی قومی روگ پر ضرب لگائی۔ اور ان سے فرمایا کہ تم لوگ ڈنڈی مار کر۔ اور ناپ تول میں کمی کر کے لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے مت دو۔ اور اللہ کی زمین میں فساد مچاتے مت پھرو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اس حکمتوں اور نعمتوں بھری زمین کو نہایت عمدگی خوبصورتی اور اپنی تمام مخلوق کی ساری ضرورتوں کے ساتھ معمور کر کے پیدا فرمایا ہے۔ اس کے اندر فساد اور بگاڑ پیدا کرنا اس کو بہت ناگوار و ناپسند ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْفَسَادَ (یقیناً اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا) اور زمین کی صلاحیت اور اس کی بہتری اور آبادی کا مدار و انحصار توحید خداوندی پر ہے۔ اور اس کے بعد حضرت حق جل مجدہ، کی تعلیمات مقدسہ اور ہدایات عالیہ کے مطابق اس کے بندوں اور دوسری تمام مخلوق کے حقوق کی ادائیگی اہم مطلوب اور اجل مقاصد میں سے ہے، سو زمین کی اصلاح حقوق اللہ اور حقوق العباد کی معرفت اور انکی ادائیگی سے وابستہ اور انہی دو اہم بنیادوں پر استوار و قائم ہے، اور تم لوگ ان ہی دو بنیادوں کو ڈھا کر۔ اور ان کے تقاضوں کی خلاف ورزی کر کے اللہ کی زمین میں فساد پھیلا رہے ہو۔ جس کا نتیجہ و انجام بہت برا ہے۔ پس تم اس سے باز آ جاؤ۔ افسوس کہ آج بھی دنیا کا یہی حال ہے کہ توحید خداوندی، اور ادائیگی حقوق کی انہی دو بنیادوں کی نہ صرف یہ کہ خلاف ورزی کی جا رہی ہے بلکہ جو لوگ ان کی پابندی اور پاسداری کی تعلیم و تلقین کرتے، اور ان کا درس دیتے ہیں ان پر ان کا عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے، جس کا نتیجہ ہے کہ دنیا ظلم و زیادتی کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے، فالی اللہ المشتکیٰ وہو المستعان،

۱۹۰.  سو اس سے اسی اہم اور بنیادی حقیقت کا اعادہ و تکرار فرمایا گیا ہے جس کا ذکر اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ فرمایا جا چکا ہے۔ یعنی یہ کہ لوگوں کی اکثریت ایمان لانے والی نہیں۔ سو اس سے ایک تو یہ اہم اور بنیادی حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ عناد وہٹ دھرمی اور غفلت و لاپرواہی بیماریوں کی بیماری اور محرومیوں کی محرومی ہے۔ کہ اس کی بناء پر انسان قبول حق و ہدایت سے محروم ہو جاتا ہے، اور کوئی بات اس کے اندر اثر نہیں کرتی۔ چنانچہ ان لوگوں نے اپنے پیغمبر کی دعوت حق ان کی مقدس و پاکیزہ باتوں اور ٹھوس دلائل اور واضح حقائق میں سے کسی پر کان نہ دھرا۔ اور وہ پیغام حق و ہدایت کو اپنانے اور اختیار کرنے کے لئے تیار نہ ہوئے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے آخری اور انتہائی ہولناک انجام کو پہنچ کر رہے اور دوسری اہم بات اس سے یہ واضح ہو جاتی ہے کہ حق کے انکار اور اس کی تکذیب کا آخری اور لازمی نتیجہ بہر حال ہلاکت و تباہی، اور دائمی خسارہ ہے، والعیاذُ باللہ، اور تیسری بات اس سے یہ واضح ہو جاتی ہے کہ عوام کی اکثریت کی رائے حق و ہدایت اور صحت و صواب کا معیار کبھی نہیں ہو سکتی۔ جس طرح کہ مغربی جمہوریت کے پرستاروں کا کہنا ماننا ہے، اور جس طرح کہ ہمارے یہاں کے اہل بدعت کا کہنا ہے، کہ فلاں فلاں بدعات اور شرکیات چونکہ عوام کی اکثریت میں رائج ہیں، لہٰذا یہ درست ہیں سو ایسا نہیں اور ہرگز نہیں، اور عوام کالانعام کی اکثریت کی رائے حق و ہدایت اور صحت و صواب کے لئے کبھی معیار نہیں بن سکتی۔ کہ ان کی اکثریت بے ایمانوں اور فاسقوں فاجروں ہی کی ہوتی ہے۔اِلاّ ماشاء اللہ، پس تو پھر ان کی رائے کے معیار حق ہونے کا سوال ہی کیا؟حق کا معیار و مدار ماقال اللہ و قال الرسول کے ضابطہ و اصول پر ہے۔ نہ کہ عوام کالانعام کی اکثریت کی رائے پر۔

۱۹۷.  ان آیات کریمات سے قرآن حکیم کی عظمت شان اور اس کی صداقت و حقانیت کے کئی اہم پہلوؤں کو واضح فرما دیا گیا، مثلاً یہ کہ یہ سراسر اتاری ہوئی کتاب ہے جس میں کسی انسانی فکر و کاوش کا کوئی شائبہ نہیں کیونکہ اس کے لئے نازل یا مُنَزَّل جیسا کوئی مشتق استعمال نہیں فرمایا گیا، بلکہ تنزیل مصدر کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ یعنی یہ خالص اتاری ہوئی کتاب ہے، جس میں تدریج اور اہتمام کا مفہوم پایا جاتا ہے سو اس کتاب حکیم قرآن مجید کو حضرت حق جل مجدہ، نے خاص اہتمام کے ساتھ نازل فرمایا ہے اور پھر اس کو اتارا بھی روح الامین کے ذریعے جو کہ فرشتوں کے سردار ہیں۔ سو اشرف الکتب کو اشرف الملائک کے ذریعے اشرف الرسل پر اتارا گیا، اور ظاہر ہے کہ ان خصائص و مزایا کی حامل دوسری کوئی کتاب قرآن حکیم کے سوا نہ کبھی ہوئی ہے، اور نہ قیامت تک کبھی ہونا ممکن ہے، اور پھر جبرائیل امین کی صفت بھی یہاں پر الامین ذکر فرمائی گئی ہے جس سے واضح فرما دیا گیا کہ انہوں نے وحی الٰہی کی امانت کو پوری حفاظت کے ساتھ جوں کا توں آگے پہنچایا ہے پس اس سے متعلق کسی وسوسہ نفسانی یا دغدغہ شیطانی کا کوئی شک و شبہ ممکن نہیں، پھر اس کو اتارا بھی گیا براہ راست پیغمبر کے قلب منور وطاہر پر، فصیح و بلیغ اور واضح و روشن عربی زبان میں، اور مزید یہ ارشاد فرمایا گیا کہ اس سے متعلق گذشتہ آسمانی صحیفوں اور ان کے علماء کی تصدیق بھی موجود ہے۔ سو اس سے قرآن حکیم کی عظمت شان کے کئی اہم پہلو اجاگر اور واضح ہو جاتے ہیں، والحمدللہ جَلَّ وَعَلَا،

۲۰۹.  سو اس ارشاد سے اللہ تعالیٰ کی ایک سنت و دستور اور اس کے تقاضائے عدل کو ذکر و بیان فرمایا گیا ہے، جس کو اس نے ہر قوم کے لئے اختیار فرمایا، وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو اس کے انذار اور اتمام حجت سے پہلے کبھی ہلاک نہیں کرتا، کہ یہ اس کے تقاضائے رحمت اور عدل کے خلاف ہے بلکہ وہ ان کی تذکیر و یاد دہانی کے لئے پہلے ان کے اندر اپنے رسول بھیجتا ہے اس کے بعد بھی جب وہ لوگ ظلم و عدوان اور کفر و انکار ہی پر اڑے رہتے ہیں، تو پھر ان کو آخرکار ہلاک کر دیا جاتا ہے اور یہ بھی اس کے عدل اور اس کی رحمت ہی کا ایک تقاضا ہے تاکہ اس کی پیدا کردہ دھرتی ایسے خبیث ونجس عناصر سے پاک اور صاف ہو جائے۔ لیکن انذار اور اتمام حجت سے پہلے وہ کسی قوم کو ہلاک نہیں کرتا کہ ایسا کرنا ظلم ہے۔ اور وہ ظلم اور اس کے ہر شائبہ سے پاک اور بری ہے، سبحانہ و تعالیٰ

۲۱۵.    یعنی اپنے بازوئے شفقت ان کے لئے جھکائے رکھو ان کے ایمان و اخلاص اور ان کی اطاعت و اتباع کی بناء پر۔ تاکہ ان میں سے کوئی اس عذاب کی زد میں نہ آ جائے جس کی خبر دی جا رہی ہے پس جس طرح مرغی کسی خطرے کو محسوس کر کے اپنے بچوں کو اپنے پروں کے نیچے لے لیتی ہے۔ اسی طرح آپ بھی اے پیغمبر! ان کو اپنی رحمت و عنایت کے بازوؤں کے نتیجے چھپائے رکھیں۔ سو ایمان و اتباع ذریعہ نجات و فلاح ہے، وباللّٰہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلی ما یُحِبُّ ویرید، بِکُلِّ حَالٍ مِّن الاحوال۔

۲۱۷.  پس جو ذات اقدس و اعلیٰ عزیز یعنی نہایت زبردست اور سب پر غالب بھی ہے، اور اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ نہایت مہربان بھی ہے بھروسے کے لائق وہی اور صرف وہی ہے وہی اپنے بندوں کی مدد فرماتا ہے ہر مشکل اور خطرے کے موقع پر وہی انکی مشکل کشائی فرماتا ہے، اور فرما سکتا ہے۔ کہ وہ جو چاہے اور جیسا چاہے کرے اور وہی مہربان مطلق ہے جو اپنے بندوں کو اپنی خاص رحمتوں اور عنایتوں سے نوازتا ہے، اس کے سوا باقی سب اوہام ہیں والعیاذ باللہ جل وعلا،

۲۲۶.  ان آیات کریمات میں شعراء کی تین ایسی اہم خصوصیات کو ذکر فرمایا گیا ہے جن سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ قرآن حکیم اور کلام شعراء کے درمیان بعد المشرقین ہے، پہلی خصوصیت شعراء کی یہ بیان فرمائی گئی کہ شعراء کی پیروی گمراہ بھٹکے ہوئے اور اوباش و عیاش قسم کے لوگ کرتے ہیں، عربوں کے سب سے بڑے شاعر امرء القیس نے جس فحاشی اور بے حیائی کا ذکر اور اس کی اشاعت و تبلیغ اپنے شعروں سے کی ہے، اس کی مثال نہیں مل سکتی۔ یہاں تک کہ اہل عرب بھی اس کو اپنا سب سے بڑا شاعر ماننے کے باوجود اس کو اَلْمَلِکُ الضّلِّیْل (رندبادشاہ) کہتے تھے دوسری خصوصیت شعراء کی یہاں پر یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں، جب کبھی کوئی خیال آیا اس کو اچھوتے انداز میں شعر کے قالب میں ڈھال دیں گے، اس سے کوئی اور غرض نہیں کہ وہ رحمانی ہے یا شیطانی روحانی ہے بانفسانی اس سے خیر کی تحریک ہو گی یا شر کی، کبھی کسی کی تعریف کر کے اس کو آسمان پر چڑھا دیا اور کبھی کسی کی ہجو اور مذمت کر کے اس کو آسمان سے زمین پر پٹخ دیا ایک شعر سے معلوم ہو گا کہ وہ ولی ہے جبکہ اس کے دوسرے شعر سے پتہ چلے گا وہ شیطان ہے ایک ہی سانس میں وہ نیکی اور بدی دونوں کی باتیں بے تکلف کہہ دے گا۔ لیکن کہے گا ایسے مؤثر اور دلکش انداز میں کہ سننے والے ان دونوں سے متاثر ہو جائیں گے لیکن نفس انسانی کو چونکہ نیکی کے بجائے بدی کی باتیں ہی عموماً زیادہ مرغوب ہوتی ہیں اس لئے شاعر کے چھوڑے ہوئے بدی والے اثرات و نقوش تو قائم رہتے ہیں مگر نیکی کے اثرات غائب ہو جاتے ہیں اور اس طرح ان کا کلام وَاِثَّمُہُمَا اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِہَمَا کا مصداق بن کر رہ جاتا ہے والعیاذ باللہ اور تیسری خصوصیت یہاں پر ان لوگوں کی یہ بیان فرمائی گئی کہ ان کا کہنا کچھ ہوتا ہے، اور کرنا کچھ یہ گفتار کے غازی ہوتے ہیں کردار کے نہیں لاف زنی تو ان میں بہت ہوتی ہے لیکن عمل و کردار کے اعتبار سے یہ بالکل صفر ہوتے ہیں یہ لوگ خیالی دنیا میں رہتے ہیں اور ان کے یہاں رزم و بزم کے سب تذکرے محض خیالی ہوتے ہیں، سو یہ حال ہوتا ہے شعراء کا جبکہ قرآن حکیم کا معاملہ ان میں سے ہر اعتبار سے اس سے یکسر مختلف اور ان سے کہیں اعلیٰ و بالا ہوتا ہے تو ایسے میں شعرآء کے کلام اور قرآن مجید کے درمیان کسی مشابہت کا سوال ہی کیا پیدا ہو سکتا ہے؟ چہ نسیت خاک راہ بمالم پاک؟

۲۲۷.  سو اس سے شعرائے حق کا استثناء بھی فرما دیا گیا، اور انکی امتیازی صفات و خصوصیات کو بھی بیان فرما دیا گیا کہ یہ لوگ ایمان کی دولت سے مالا مال اور نور حق و ہدایت سے بہرہ مند و سرفراز ہوتے ہیں ان کے ایمان و یقین نے انکی شاعری کا ہدف متعین فرما دیا ہوتا ہے، پس ایسوں کا ہر شعر کلمہ حق کی حمایت اور ذکر الٰہی کی رفعت و سربلندی کے لئے ہوتا ہے اور یہ صرف گفتار کے غازی نہیں ہوتے بلکہ تقویٰ و پرہیزگاری اور عمل صالح کی دولت سے بھی مالا مال ہوتے ہیں، اور ان کے کلام میں عشق و ہوس، اور مفاخر و مطاعن کے بجائے ذکر اللہ کی کثرت اور اعلاء کلمۃ الحق کا تذکرہ ہوتا ہے اور ان کے کلام میں ہجو و تحقیر کے بجائے حق کی حمایت و مدافعت کا درس ہوتا ہے، کیونکہ مظلوم کو ظلم کی مدافعت کا حق ہوتا ہے، اور ظالموں کا اصل حساب تو آگے ہونے والا ہے، سو وہ عنقریب خود ہی جان اور دیکھ لیں گے کہ وہ کس انجام سے دو چار ہوتے ہیں، والعیاذُ باللہ، وبہذا قد تَمَّ التفسیر المختصر لسورۃ الشعراء والحمد للہ جَلَّ وَعَلَی