خزائن العرفان

سُوۡرَةُ المُمتَحنَة

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا(ف ۱)

۱                 سورۂ ممتحنہ مدنیّہ ہے، اس میں دو۲ رکوع، تیرہ ۱۳ آیتیں، تین سو اڑتالیس ۳۴۸کلمے، ایک ہزار پانچ سو دس۱۵۱۰ حرف ہیں۔

(۱) اے  ایمان والو میرے  اور اپنے  دشمنوں کو دوست نہ بناؤ (ف ۲) تم انہیں خبریں پہنچاتے  ہو دوستی سے  حالانکہ وہ منکر ہیں اس حق کے  جو تمہارے  پاس آیا (ف ۳) گھر سے  جدا کرتے  ہیں (ف ۴) رسول  کو اور تمہیں اس پر کہ تم اپنے  رب پر ایمان لائے، اگر تم نکلے  ہو میری راہ میں جہاد کرنے  اور میری رضا چاہنے  کو تو ان سے  دوستی نہ کرو تم انہیں خفیہ پیامِ محبت بھیجتے  ہو، اور میں خوب جانتا ہوں جو تم چھپاؤ اور جو ظاہر کرو، اور تم میں جو ایسا کرے  بیشک وہ سیدھی راہ سے  بہکا۔

۲                 یعنی کفّار کو۔

 شانِ نزول : بنی ہاشم کے خاندان کی ایک باندی سارہ مدینہ طیّبہ میں سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے حضور میں حاضر ہوئی جب کہ حضور فتحِ مکّہ کا سامان فرما رہے تھے حضور نے اس سے فرمایا کیا تو مسلمان ہو کر آئی ؟ اس نے کہا نہیں، فرمایا کیا ہجرت کر کے آئی ؟ عرض کیا نہیں فرمایا پھر کیوں آئی ؟ اس نے کہا محتاجی سے تنگ ہو کر، بنی عبدالمطّلب نے اس کی امداد کی، کپڑے بنائے، سامان دیا۔ حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس سے ملے انہوں نے اس کو دس دینار دیئے ایک چادر دی اور ایک خط اہلِ مکّہ کے پاس اس کی معرفت بھیجا جس کا مضمون یہ تھا کہ سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم تم پر حملہ کا ارادہ رکھتے ہیں تم سے اپنے بچاؤ کی جو تدبیر ہو سکے کرو، سارہ یہ خط لے کر روانہ ہو گئی اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کو اس کی خبر دی حضور نے اپنے چند اصحاب کو جن میں حضرت علیِ مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے گھوڑوں پر روانہ کیا اور فرمایا مقامِ روضہ خاخ پر تمہیں ایک مسافر عورت ملے گی اس کے پاس حاطب بن ابی بلتعہ کا خط ہے جو اہلِ مکّہ کے نام لکھا گیا ہے وہ خط اس سے لے لو اور اس کو چھوڑ دو اگر انکار کرے تو اس کی گردن مار دو یہ حضرات روانہ ہوئے اور عورت کو ٹھیک اسی مقام پر پایا جہاں حضور سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا تھا اس سے خط مانگا وہ انکار کر گئی اور قَسم کھا گئی صحابہ نے واپسی کا قصد کیا حضرت علیِ مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بقَسم فرمایا کہ سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی خبر خلاف ہوہی نہیں سکتی اور تلوار کھینچ کر عورت سے فرمایا یا خط نکال یا گردن رکھ جب اس نے دیکھا کہ حضرت بالکل آمادۂ قتل ہیں تو اپنے جوڑے میں سے خط نکالا حضور سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے حضرت حاطب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بُلا کر فرمایا کہ اے حاطب اس کا کیا باعث ؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم میں جب سے اسلام لایا کبھی میں نے کفر نہیں کیا اور جب سے حضور کی نیاز مندی میسّر آئی کبھی حضور کی خیانت نہ کی اور جب سے اہلِ مکّہ کو چھوڑا کبھی ان کی محبّت نہ آئی لیکن واقعہ یہ ہے کہ میں قریش میں رہتا تھا اور انکی قوم سے نہ تھا میرے سوائے اور جو مہاجرین ہیں ان کے مکّہ مکرّمہ میں رشتہ دار ہیں جو ان کے گھر بار کی نگرانی کرتے ہیں مجھے اپنے گھر والوں کا اندیشہ تھا اسلئے میں نے یہ چاہا کہ میں اہلِ مکّہ پر کچھ احسان رکھ دوں تاکہ وہ میرے گھر والوں کو نہ ستائیں اور یہ میں یقین سے جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اہلِ مکّہ پر عذاب نازل فرمانے والا ہے میرا خط انہیں بچا نہ سکے گا سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے ان کا یہ عذر قبول فرمایا اور ان کی تصدیق کی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم مجھے اجازت دیجئے اس منافق کی گردن ماردوں حضور نے فرمایا اے عمر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اللہ تعالیٰ خبردار ہے جب ہی اس نے اہلِ بدر کے حق میں فرمایا کہ جو چاہو کرو میں نے تمہیں بخش دیا یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آنسو جاری ہو گئے اور یہ آیات نازل ہوئیں۔

۳                 یعنی اسلام اور قرآن۔

۴                 یعنی مکّہ مکرّمہ سے۔

(۲) اگر تمہیں پائیں (ف ۵) تو تمہارے  دشمن ہوں گے  اور تمہاری طرف اپنے  ہاتھ (ف ۶) اور اپنی زبانیں (ف ۷) برائی کے  ساتھ دراز کریں گے  اور ان کی تمنا ہے  کہ کسی طرح تم کافر ہو جاؤ (ف ۸)

۵                 یعنی اگر کفّار تم پر موقع پا جائیں۔

۶                 ضرب و قتل کے ساتھ۔

۷                 سبّ و شتم اور۔

۸                 تو ایسے لوگوں کو دوست بنانا اور ان سے بھلائی کی امید رکھنا اور انکی عداوت سے غافل رہنا ہر گز نہ چاہئے۔

(۳) ہرگز کام نہ آئیں گے  تمہیں تمہارے  رشتے   اور نہ تمہاری اولاد (ف ۹) قیامت کے  دن، تمہیں ان سے  الگ کر دے  گا (ف ۱۰) اور اللہ تمہارے  کام دیکھ رہا ہے۔

۹                 جن کی وجہ سے تم کفّار سے دوستی و موالات کرتے ہو۔

۱۰               کہ فرمانبردار جنّت میں ہوں گے اور کافر نافرمان جہنّم میں۔

(۴) بیشک تمہارے  لیے  اچھی پیروی تھی (ف ۱۱) ابراہیم اور اس کے  ساتھ والوں میں (ف ۱۲) جب انہوں نے  اپنی قوم سے  کہا (ف ۱۳) بیشک ہم بیزار ہیں تم سے  اور ان سے  جنہیں اللہ کے  سوا پوجتے   ہو، ہم تمہارے  منکر ہوئے  (ف ۱۴) اور ہم میں اور تم میں دشمنی اور عداوت ظاہر ہو گئی ہمیشہ کے  لیے  جب تک تم ایک اللہ پر ایمان نہ  لاؤ مگر ابراہیم کا اپنے  باپ سے  کہنا کہ میں ضرور تیری مغفرت چاہوں گا (ف ۱۵) اور میں اللہ کے  سامنے   تیرے   کسی نفع کا مالک نہیں (ف ۱۶) اے  ہمارے  رب  ہم نے  تجھی پر بھروسہ کیا اور تیری ہی طرف رجوع لائے  اور تیری ہی طرف پھرنا ہے  (ف ۱۷)

۱۱               حضرت حاطب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دوسرے مومنین کو خطاب ہے اور سب کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اقتداء کرنے کا حکم ہے کہ دِین کے معاملہ میں اہلِ قرابت کے ساتھ انکا طریقہ اختیار کریں۔

۱۲               ساتھ والوں سے اہلِ ایمان مراد ہیں۔

۱۳               جو مشرک تھی۔

۱۴               اور ہم نے تمہارے دِین کی مخالفت اختیار کی۔

۱۵               یہ قابلِ اتباع نہیں ہے کیونکہ وہ ایک وعدے کی بناء پر تھا اور جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ظاہر ہو گیا کہ وہ کفر پر مستقل ہے تو آپ نے اس سے بیزاری کی، لہٰذا یہ کسی کے لئے جائز نہیں کہ اپنے بے ایمان رشتہ دار کے لئے دعائے مغفرت کرے۔

۱۶               اگر تو اس کی نافرمانی کرے اور شرک پر قائم رہے۔ ( خازن)

۱۷               یہ بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اور ان مومنین کی دعا ہے جو آپ کے ساتھ تھے اور ما قبل استثناء کے ساتھ متصل ہے لہذا مومنین کو اس دعا میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اتباع کرنا چاہئے۔

(۵) اے  ہمارے  رب  ہمیں کافروں کی آزمائش میں نہ ڈال (ف ۱۸) اور ہمیں بخش دے، اے  ہمارے  رب  بیشک تو ہی عزت و حکمت والا ہے۔

۱۸               انہیں ہم پر غلبہ نہ دے کہ وہ اپنے آپ کو حق پر گمان کرنے لگیں۔

(۶) بیشک تمہارے  لیے  (ف ۱۹) ان میں اچھی پیروی تھی (ف ۲۰) اسے  جو اللہ اور پچھلے  دن کا امیدوار ہو (ف ۲۱) اور جو منہ پھیرے  (ف ۲۲) تو بیشک اللہ ہی بے  نیاز ہے  سب خوبیوں سراہا۔

۱۹               اے امّتِ حبیبِ خدا محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم۔

۲۰               یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ساتھ والوں میں۔

۲۱               اللہ تعالیٰ کی رحمت و ثواب اور راحتِ آخرت کا طالب ہو اور عذابِ الٰہی سے ڈرے۔

۲۲               ایمان سے اور کفّار سے دوستی کرے۔

(۷) قریب ہے  کہ اللہ تم میں اور  ان میں جو ان میں سے  (ف ۲۳) تمہارے  دشمن ہیں دوستی کر دے  (ف ۲۴) اور اللہ قادر ہے  (ف ۲۵) اور  بخشنے  والا مہربان ہے۔

۲۳               یعنی کفّارِ مکّہ میں سے۔

۲۴               اس طرح کہ انہیں ایمان کی توفیق دے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایسا کیا اور بعدِ فتحِ مکّہ ان میں سے کثیر التعداد لوگ ایمان لے آئے اور مومنین کے دوست اور بھائی بن گئے اور باہمی محبّتیں بڑھیں۔ شانِ نزول : جب اوپر کی آیات نازل ہوئیں تو مومنین نے اپنے اہلِ قرابت کی عداوت میں تشدّد کیا، ان سے بیزار ہو گئے اور اس معاملہ میں بہت سخت ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر انہیں امید دلائی کہ ان کفّار کا حال بدلنے والا ہے اور یہ آیت نازل ہوئی۔

۲۵               دل بدلنے اور حال تبدیل کرنے پر۔

(۸) اللہ تمہیں ان سے  (ف ۲۶) منع نہیں کرتا جو تم سے  دین میں نہ لڑے  اور تمہیں تمہارے  گھروں سے  نہ نکالا کہ ان کے  ساتھ احسان کرو اور ان سے  انصاف کا برتاؤ برتو، بیشک انصاف والے  اللہ کو محبوب ہیں۔

۲۶               یعنی ان کافروں سے۔

 شانِ نزول : حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ یہ آیت خزاعہ کے حق میں نازل ہوئی۔ جنہوں نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے اس شرط پر صلح کی تھی کہ نہ آپ سے قتال کریں گے نہ آپ کے مخالف کو مدد دیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے ساتھ سلو ک کرنے کی اجازت دی۔ حضرت عبداللہ بن زبیر نے فرمایا کہ یہ آیت ان کی والدہ اسماء بنتِ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں نازل ہوئی ان کی والدہ مدینہ طیّبہ میں ان کے لئے تحفے لے کر آئی تھیں اور تھیں مشرکہ، تو حضرت اسماء نے ان کے ہدایا قبول نہ کئے اور انہیں اپنے گھر میں آنے کی اجازت نہ دی اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے دریافت کیا کہ کیا حکم ہے؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے اجازت دی کہ انہیں گھر میں بلائیں ان کے ہدایا قبول کریں ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔

(۹) اللہ تمہیں انہی سے  منع کرتا ہے  جو تم سے  دین میں لڑے  یا تمہیں تمہارے  گھروں سے  نکالا یا تمہارے  نکالنے  پر مدد کی کہ ان سے  دوستی کرو (ف ۲۷) اور جو ان سے  دوستی کرے  تو وہی ستمگار ہیں۔

۲۷               یعنی ایسے کافروں سے دوستی ممنوع ہے۔

(۱۰) اے  ایمان والو جب تمہارے  پاس مسلمان عورتیں کفرستان سے  اپنے  گھر چھوڑ کر آئیں تو ان کا امتحان کرو (ف ۲۸) اللہ ان کے  ایمان کا حال بہتر جانتا ہے، پھر اگر تمہیں ایمان والیاں ف معلوم ہوں تو انہیں کافروں کو واپس نہ دو، نہ یہ (ف ۲۹) انہیں حلال (ف ۳۰) نہ وہ انہیں حلال (ف ۳۱) اور ان کے  کافر شوہروں کو دے  دو جو ان کا خرچ ہوا (ف ۳۲) اور تم پر کچھ گناہ نہیں کہ ان سے  نکاح کر لو (ف ۳۳) جب ان کے  مہر انہیں دو (ف ۳۴) اور کافرنیوں کے  نکاح پر جمے  نہ رہو (ف ۳۵) اور مانگ لو جو تمہارا  خرچ ہوا (ف ۳۶) اور کافر مانگ لیں جو انہوں نے  خرچ کیا (ف ۳۷) یہ اللہ کا حکم ہے، وہ تم میں فیصلہ فرماتا ہے، اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔

۲۸               کہ ان کی ہجرت خالص دِین کے لئے ہے ایسا تو نہیں ہے کہ انہوں نے شوہروں کی عداوت میں گھر چھوڑا ہو۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ ان عورتوں کو قَسم دی جائے کہ وہ نہ شوہروں کی عداوت میں نکلی ہیں اور نہ کسی دنیوی وجہ سے انہوں نے صرف اپنے دِین و ایمان کے لئے ہجرت کی ہے۔

۲۹               مسلمان عورتیں۔

۳۰               یعنی کافروں کو۔

۳۱               یعنی نہ کافر مرد مسلمان عورتوں کو حلال۔ مسئلہ :عورت مسلمان ہو کر کافر مرد کی زوجیّت سے خالی ہو گئی۔

۳۲               یعنی جو مَہر انہوں نے ان عورتوں کو دیئے تھے وہ انہیں واپس کر دو یہ حکم اہلِ ذمّہ کے لئے ہے جن کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی لیکن حربی عورتوں کے مَہر واپس کرنا نہ واجب، نہ سنت وَاِنْ کَانَ الاَمْرُ بِاِیۡتَآئی مَااَنْفَقُوْا لِلْوُجُوْبِ فَھُمْ مَنْسُوْخ وَاِنْ کَانَ لِنُدب کَمَا ھُوَ قَوْلُ الشَّافِعی فَلَا۔

مسئلہ : اور یہ مَہر دینا اس صورت میں ہے جب کہ عورت کا کافر شوہر اس کو طلب کرے اور اگر نہ طلب کرے تو اس کو کچھ نہ دیا جائے گا۔ مسئلہ : اسی طرح اگر کافر نے اس مہاجرہ کو مَہر نہیں دیا تھا تو بھی وہ کچھ نہ پائے گا۔ شانِ نزول : یہ آیت صلحِ حدیبیہ کے بعد نازل ہوئی صلح میں یہ شرط تھی کہ مکّہ والوں میں سے جو شخص ایمان لا کر سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو اس کو اہلِ مکّہ واپس لے سکتے ہیں اس آیت میں یہ بیان فرما دیا گیا کہ یہ شرط صرف مَردوں کے لئے ہے عورتوں کی تصریح عہد نامہ میں نہیں نہ عورتیں اس قرارداد میں داخل ہو سکتی ہیں کیونکہ مسلمان عورت کافر کے لئے حلال نہیں۔ بعض مفسّرین نے فرمایا کہ یہ آیت حکمِ اوّل کی ناسخ ہے یہ اس تقدیر پر ہے کہ عورتیں عہدِ صلح میں داخل ہوں مگر عورتوں کا اس عہد میں داخل ہونا صحیح نہیں کیونکہ حضرت علیِ مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عہد نامہ کے یہ الفاظ مروی ہیں۔ لَایَاتِیْکَ مِنَّا رَجُل وَاِنْ کَانَ عَلیٰ دِیْنِکَ اِلَّا رَدَدْتَہ یعنی ہم سے جو مرد آپ کے پاس پہنچے خواہ وہ آپ کے دِین ہی پر ہو آپ اس کو واپس دیں گے۔

۳۳               یعنی مہاجرہ عورتوں سے، اگرچہ دار الحرب میں ان کے شوہر ہوں کیونکہ اسلام لانے سے وہ ان شوہروں پر حرام ہو گئیں۔ اور ان کی زوجیّت میں نہ رہیں۔

مسئلہ : وَاحْتَجَّ بِہٖ اَ بُوْ حَنِیفَۃَ عَلیٰ اَنْ لَاعِدَّۃَ عَلَی المُہَاجِرَ ۃِ فَیَجُوۡزلَہَا التَّزَوُّجُ مِنۡ غَیۡرِ عِدَّۃٍ خِلَافاً لَہُمَا۔

۳۴               مَہر دینے سے مراد اس کو اپنے ذمّہ لازم کر لینا ہے اگرچہ بالفعل نہ دیا جائے۔ مسئلہ : اس سے یہ ثابت ہوا کہ ان عورتوں سے نکاح کرنے پر نیا مَہر واجب ہو گا ان کے شوہروں کو جو ادا کر دیا گیا وہ اس میں مجرا و محسوب نہ ہو گا۔

۳۵               یعنی جو عورتیں دار الحرب میں رہ گئیں یا مرتدّہ ہو کر دار الحرب میں چلی گئیں ان سے زوجیّت کا علاقہ نہ رکھو چنانچہ یہ آیت نازل ہونے کے بعد اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے ان کافرہ عورتوں کو طلاق دے دی جو مکّہ مکرّمہ میں تھیں۔ مسئلہ : اگر مسلمان کی عورت (معاذ اللہ) مرتد ہو جائے تو اس کے قیدِ نکاح سے باہر نہ ہو گی۔ عَلَیْہِ الْفَتْویٰ زَجْراً وَّ تَیَسُّراً

۳۶               یعنی ان عورتوں کو تم نے جو مَہر دیئے تھے وہ ان کافروں سے وصول کرلو جنہوں نے ان سے نکاح کیا۔

۳۷               اپنی عورتوں پر جو ہجرت کر کے دار الاسلام میں چلی آئیں ان کے مسلمان شوہروں سے جنہوں نے ان سے نکاح کیا۔

(۱۱) اور اگر مسلمانوں کے  ہاتھ سے  کچھ عورتیں کافروں کی طرف نکل جائیں (ف ۳۸) پھر تم کافروں کو سزا  دو (ف ۳۹) تو جن کی عورتیں جاتی رہی تھیں (ف ۴۰) غنیمت میں سے  انہیں اتنا دے دو جو  ان کا خرچ ہوا تھا (ف ۴۱) اور اللہ سے  ڈرو جس پر تمہیں ایمان ہے۔

۳۸               شانِ نزول : اس آیت کے نازل ہونے کے بعد مسلمانوں نے تو مہاجرہ عورتوں کے مَہر ان کے کافر شوہروں کو ادا کر دیئے اور کافروں نے مرتدّات کے مَہر مسلمانوں کو ادا کرنے سے انکار کیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

۳۹               جہاد میں اور ان سے غنیمت پاؤ۔

۴۰               یعنی مرتدّہ ہو کر دار الحرب میں چلی گئیں تھیں۔

(۱۲) اے  نبی  جب تمہارے  حضور مسلمان عورتیں حاضر ہوں اس پر بیعت کرنے  کو کہ اللہ کا کچھ شریک نہ ٹھہرائیں گی اور نہ چوری کریں گی اور نہ بدکاری اور نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی (ف ۴۲) اور نہ وہ بہتان لائیں گی جسے  اپنے  ہاتھوں اور پاؤں کے  درمیان یعنی موضع ولادت میں اٹھائیں (ف ۴۳) اور کسی  نیک بات میں تمہاری نا فرمانی نہ کریں گی (ف ۴۴) تو ان سے  بیعت لو اور اللہ سے  ان کی مغفرت چاہو  (ف ۴۵) بیشک اللہ بخشنے  والا مہربان ہے، (۱۳) اے  ایمان والو ان لوگوں سے  دوستی نہ کرو جن پر اللہ کا غضب ہے  (ف ۴۶) وہ آخرت سے  آس توڑ بیٹھے  ہیں (ف ۴۷) جیسے  کافر آس توڑ بیٹھے  قبر والوں سے  (ف ۴۸)

۴۱               ان عورتوں کے مَہر دینے میں حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ مومنین مہاجرین کی عورتوں میں سے چھ عورتیں ایسی تھیں جنہوں نے دار الحرب کو اختیار کیا اور مشرکین کے ساتھ لاحق ہوئیں اور مرتد ہو گئیں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے ان کے شوہروں کو مالِ غنیمت سے ان کے مَہر عطا فرمائے۔ فائدہ : ان آیتوں میں مہاجرات کے امتحان اور کفّار نے جو اپنی بیبیوں پر خرچ کیا ہو وہ بعدِ ہجرت انہیں دینا اور مسلمانوں نے جو اپنی بیبیوں پر خرچ کیا ہو وہ ان کے مرتد ہو کر کافروں سے مل جانے کے بعد ان سے مانگنا اور جن کی بیبیاں مرتد ہو کر چلی گئی ہوں انہوں نے جو ان پر خرچ کیا تھا وہ انہیں مالِ غنیمت میں سے دینا یہ تمام احکام منسوخ ہو گئے آیتِ سیف یا آیتِ غنیمت یا سنّت سے کیونکہ یہ احکام جبھی تک باقی رہے جب تک یہ عہد رہا اور جب وہ عہد اٹھ گیا تو احکام بھی نہ رہے۔

۴۲               جیسا کہ زمانۂ جاہلیّت میں دستور تھا کہ لڑکیوں کو بخیالِ عار و باندیشۂ ناداری زندہ دفن کر دیتے تھے اس سے اور ہر قتلِ ناحق سے باز رہنا اس عہد میں شامل ہے۔

۴۳               یعنی پرایا بچّہ لے کر شوہر کو دھوکہ دیں اور اس کے پیٹ سے جنا ہوا بتائیں۔ جیسا کہ جاہلیّت کے زمانہ میں دستور تھا۔

۴۴               نیک بات اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری ہے۔

۴۵               مروی ہے کہ جب سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم روزِ فتحِ مکّہ مَردوں کی بیعت لے کر فارغ ہوئے تو کوہِ صفاء پر عورتوں سے بیعت لینا شروع کیا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نیچے کھڑے ہوئے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا کلامِ مبارک عورتوں کو سناتے جاتے تھے، ہند بنتِ عتبہ ابوسفیان کی بیوی خوف زدہ برقع پہن کر اس طرح حاضر ہوئی کہ پہچانی نہ جائے، سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا کہ میں تم سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کر و، ہند نے سر اٹھا کر کہا آپ ہم سے وہ عہد لیتے ہیں جو ہم نے آپ کو مَردوں سے لیتے نہیں دیکھا اور اس روز مَردوں سے صرف اسلام و جہاد پر بیعت لی گئی تھی۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا اور چوری نہ کریں گی، تو ہند نے عرض کیا کہ ابوسفیان بخیل آدمی ہیں اور میں نے ان کا مال ضرور لیا ہے میں نہیں سمجھتی مجھے حلال ہوا یا نہیں، ابوسفیان حاضر تھے انہوں نے کہا جو تو نے پہلے لیا اور جو آئندہ لے سب حلال، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے تبسّم فرمایا اور ارشاد کیا تو ہند بنتِ عتبہ ہے ؟ عرض کیا جی ہاں جو کچھ مجھ سے قصور ہوئے ہیں معاف فرمائیے، پھر حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا اور نہ بدکاری کریں گی، تو ہند نے کہا کیا کوئی آزاد عورت بدکاری کرتی ہے ؟ پھر فرمایا نہ اپنی اولاد کو قتل کریں، ہند نے کہا ہم نے چھوٹے چھوٹے پالے جب بڑے ہو گئے تم نے انہیں قتل کر دیا تو تم جانو اور وہ جانیں اس کا لڑکا حنظلہ بن ابی سفیان بدر میں قتل کر دیا گیا تھا۔ ہند کی یہ گفتگو سن کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بہت ہنسی آئی۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا کہ اپنے ہاتھ پاؤں کے درمیان کوئی بہتان نہ گھڑیں گی، ہند نے کہا بخدا بہتان بہت بُری چیز ہے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم ہم کو نیک باتوں اور برتر خصلتوں کا حکم دیتے ہیں، پھر حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا کہ کسی نیک بات میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی نافرمانی نہ کریں گی، اس پر ہند نے کہا اس مجلس میں ہم اس لئے حاضر ہی نہیں ہوئے کہ اپنے دل میں آپ کی نافرمانی کا خیال آنے دیں، عورتوں نے ان تمام امور کا اقرار کیا اور چار سو ستاون عورتوں نے بیعت کی اس بیعت میں سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے مصافحہ نہ فرمایا اور عورتوں کو دستِ مبارک چھونے نہ دیا۔ بیعت کی کیفیّت میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ ایک قدح پانی میں سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے اپنا دستِ مبارک ڈالا پھر اسی میں عورتوں نے اپنے ہاتھ ڈالے، اور یہ بھی کہا گیا ہے بیعت کپڑے کے واسطے سے لی گئی اور بعید نہیں ہے کہ دونوں صورتیں عمل میں آئی ہوں۔ مسائل : بیعت کے وقت مقراض کا استعمال مشائخ کا طریقہ ہے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ حضرت علیِ مرتضیٰ رضی اللہ تعالی عنہ کی سنّت ہے خلافت کے ساتھ ٹوپی دینا مشائخ کا معمول ہے، اور کہا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے منقول ہے عورتوں کی بیعت میں اجنبیہ کا ہاتھ چھونا حرام ہے یا بیعت زبان سے ہو یا کپڑے وغیرہ کے واسطہ سے۔

۴۶               ان لوگوں سے مراد یہود ہیں۔

۴۷               کیونکہ انہیں کُتُبِ سابقہ سے معلوم ہو چکا تھا اور وہ بیقین جانتے تھے کہ سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور یہود نے اس کی تکذیب کی ہے اس لئے انہیں اپنی مغفرت کی امید نہیں۔

۴۸               پھر دنیا میں واپس آنے کی یا یہ معنیٰ ہیں کہ یہود ثوابِ آخرت سے ایسے ناامید ہوئے جیسے کہ مرے ہوئے کافر اپنی قبروں میں اپنے حال کو جان کر ثوابِ آخرت سے بالکل مایوس ہیں۔