خزائن العرفان

سُوۡرَةُ التّحْریم

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا(ف ۱)

۱                 سورۂ تحریم مدنیّہ ہے، اس میں دو۲ رکوع، بارہ۱۲ آیتیں، دو سو سینتالیس۲۴۷ کلمے، ایک ہزار ساٹھ ۱۰۶۰ حرف ہیں۔

(۱) اے  غیب بتا نے   والے   ( نبی  )  تم اپنے   اوپر  کیوں  حرام کئے   لیتے  ہو  وه چیز  جو اللہ نے  تمھارے  لئے   حلال کی  (ف ۲) اپنی  بیبیوں کی مرضی  چاہتے   ہو  اور اللہ بخشنے  والا  ٴ مہربان ہے۔

۲                 شانِ نزول: سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم حضرت اُمّ المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے محل میں رونق ا فروز ہوئے، وہ حضور کی اجازت سے اپنے والد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عیادت کے لئے تشریف لے گئیں، حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے حضرت ماریہ قبطیہ کو سرفرازِ خدمت کیا، یہ حضرت حفصہ پر گراں گزرا، حضور نے ان کی دلجوئی کے لئے فرمایا کہ میں نے ماریہ کو اپنے اوپر حرام کیا اور میں تمہیں خوش خبری دیتا ہوں کہ میرے بعد امورِ امّت کے مالک ابوبکر و عمر (رضی اللہ تعالیٰ عنہما) ہونگے، وہ اس سے خوش ہو گئیں اور نہایت خوشی میں انہوں نے یہ تمام گفتگو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو سنائی۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور ارشاد فرمایا گیا کہ جو چیز اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے حلال کی یعنی ماریہ قبطیہ آپ انہیں اپنے لئے کیوں حرام کئے لیتے ہیں، اپنی بیبیوں حفصہ و عائشہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہما) کی رضا جوئی کے لئے، اور ایک قول اس آیت کی شانِ نزول میں یہ بھی ہے کہ اُمّ المومنین زینب بنتِ حجش کے یہاں جب حضور تشریف لے جاتے تو وہ شہد پیش کرتیں، اس ذریعہ سے ان کے یہاں کچھ زیادہ دیر تشریف فرما رہتے۔ یہ بات حضرت عائشہ و حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما وغیرہما کو ناگوار گزری اور انہیں رشک ہوا، انہوں نے باہم مشورہ کیا کہ جب حضور تشریف فرما ہوں تو عرض کیا جائے کہ دہنِ مبارک سے مغافیر کی بُو آتی ہے اور مغافیر کی بُو حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو ناپسند تھی، چنانچہ ایسا کیا گیا، حضور کو ان کا منشاء معلوم تھا، فرمایا مغافیر تو میرے قریب نہیں آیا، زینب کے یہاں شہد میں نے پیا ہے، اس کو میں اپنے اوپر حرام کرتا ہوں۔ مقصود یہ کہ حضرت زینب کے یہاں شہد کا شغل ہونے سے تمہاری دل شکنی ہوتی ہے تو ہم شہد ہی ترک فرمائے دیتے ہیں۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔

(۲) بیشک اللہ نے  تمہارے  لیے  تمہاری قسموں کا اتار مقرر فرما دیا (ف ۳) اور اللہ تمہارا  مولیٰ ہے،  اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔

۳                 یعنی کَفّارہ تو ماریہ کو خدمت سے سرفراز فرمائیے یا شہد نوش فرمائیے یا قَسم کے اوتار سے یہ مراد ہے کہ قَسم کے بعد انشاء اللہ کہا جائے تاکہ اس کے خلاف کرنے سے حِنْث (قسم شکنی) نہ ہو۔ مقاتل سے مروی ہے کہ سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے حضرت ماریہ کی تحریم کے کَفّارہ میں ایک غلام آزاد کیا اور حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے کفّارہ نہیں دیا کیونکہ آپ مغفور ہیں، کفّارہ کا حکم تعلیمِ امّت کے لئے ہے۔

مسئلہ : اس آیت سے ثابت ہوا کہ حلال کو اپنے اوپر حرام کر لینا یمین یعنی قَسم ہے۔

(۳) اور جب نبی نے  اپنی ایک  بی بی (ف ۴) سے  ایک راز کی بات فرمائی (ف ۵) پھر جب وہ (ف ۶) اس کا ذکر کر بیٹھی اور اللہ نے  اسے  نبی پر ظاہر کر دیا تو نبی نے  اسے  کچھ جتایا  اور  کچھ سے   چشم پوشی فرمائی (ف ۷) پھر جب نبی نے  اسے  اس کی خبر دی بولی (ف ۸) حضور کو کس نے  بتایا، فرمایا مجھے  علم والے  خبردار نے  بتایا (ف ۹)

۴                 یعنی حضرت حفصہ۔

۵                 ماریہ کو اپنے اوپر حرام کر لینے کی اور اس کے ساتھ یہ فرمایا کہ اس کا کسی پر اظہار نہ کرنا۔

۶                 یعنی حضرت حفصہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے۔

۷                 یعنی تحریمِ ماریہ اور خلافتِ شیخین کے متعلق جو دو باتیں فرمائی تھیں، ان میں سے ایک بات کا ذکر فرمایا کہ تم نے یہ بات ظاہر کر دی اور دوسری بات کا ذکر نہ فرمایا۔ یہ شانِ کریمی تھی کہ گرفت فرمانے میں بعض سے چشم پوشی فرمائی۔

۸                 حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔

۹                 جس سے کچھ بھی چھُپا نہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ حضرت عائشہ و حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو خطاب فرماتا ہے۔

(۴) نبی کی دونوں بیبیو! اگر اللہ کی طرف تم رجوع کرو تو (ف ۱۰) ضرور تمہارے  دل راہ سے  کچھ ہٹ گئے  ہیں (ف ۱۱) اور اگر ان پر زور باندھو (ف ۱۲) تو بیشک اللہ ان کا مددگار ہے  اور جبریل اور نیک ایمان والے، اور اس کے  بعد فرشتے  مدد پر ہیں۔

۱۰               یہ تم پر واجب ہے۔

۱۱               کہ تمہیں وہ بات پسند آئی جو سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو گراں ہے یعنی تحریمِ ماریہ۔

۱۲               اور باہم مل کر ایسا طریقہ اختیار کرو جو سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو ناگوار ہو۔

(۵) ان کا رب قریب ہے  اگر وہ تمہیں طلاق دے  دیں کہ انہیں تم سے  بہتر بیبیاں بدل دے  اطاعت والیاں ، ایمان والیاں ، ادب والیاں ، (ف ۱۳) توبہ والیاں ، بندگی والیاں ، (ف ۱۴) روزہ داریں بیاہیاں اور کنواریاں (ف ۱۵)

۱۳               جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم اللہ کی فرمانبردار اور ان کی رضا جو ہوں۔

۱۴               یعنی کثیر العبادت۔

۱۵               یہ تخویف ہے ازواجِ مطہرات کو کہ اگر انہوں نے سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو آزردہ کیا اور حضور ِ انور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے انہیں طلاق دی تو حضور ِ انور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم سے اور بہتر بیبیاں عطا فرمائے گا۔ اس تخویف سے ازواجِ مطہرات متاثر ہوئیں اور انہوں نے سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے شرفِ خدمت کو ہر نعمت سے زیادہ سمجھا اور حضور کی دلجوئی اور رضا طلبی مقدّم جانی، لہذا آپ نے انہیں طلاق نہ دی۔

(۶) اے  ایمان والو! اپنی جانوں اور اپنے  گھر والوں کو آگ سے  بچاؤ (ف ۱۶) جس کے  ایندھن آدمی (ف ۱۷) اور پتھر ہیں (ف ۱۸) اس پر سخت کرّے  (طاقتور) فرشتے  مقرر  ہیں (ف ۱۹) جو اللہ کا حکم نہیں ٹالتے  اور جو انہیں حکم ہو وہی کرتے  ہیں (ف ۲۰)

۱۶               اللہ تعالیٰ اور ا س کے رسول کی فرمانبرداری اختیار کر کے، عبادتیں بجا لا کر، گناہوں سے باز رہ کر اور گھر والوں کو نیکی کی ہدایت اور بدی سے ممانعت کر کے،اور انہیں علم و ادب سکھا کر۔

۱۷               یعنی کافر۔

۱۸               یعنی بت وغیرہ، مراد یہ ہے کہ جہنّم کی آگ بہت ہی شدیدُ الحرارت ہے اور جس طرح دنیا کی آگ لکڑی وغیرہ سے جلتی ہے جہنّم کی آگ ان چیزوں سے جلتی ہے جن کا ذکر کیا گیا ہے۔

۱۹               جو نہایت قوی اور زور آور ہیں اور ان کی طبیعتوں میں رحم نہیں۔

۲۰               کافروں سے وقتِ دخولِ دوزخ کہا جائے گا جب کہ وہ آتشِ دوزخ کی شدّت اور اس کا عذاب دیکھیں گے۔

(۷) اے  کافرو!  آج بہانے  نہ بناؤ (ف ۲۱) تمہیں  وہی بدلہ ملے  گا جو تم کرتے  تھے۔

۲۱               کیونکہ اب تمہارے لئے کوئی جائے عذر باقی نہیں رہی، نہ آج کوئی عذر قبول کیا جائے۔

(۸) اے  ایمان  والو! اللہ کی طرف ایسی توبہ کرو جو آگے   کو نصیحت ہو جائے   (ف ۲۲) قریب ہے  تمہارا رب (ف ۲۳)  تمہاری برائیاں تم سے  اتار  دے  اور تمہیں باغوں میں لے  جائے  جن کے  نیچے  نہریں  بہیں جس دن اللہ  رسوا  نہ کرے  گا نبی اور ان کے  ساتھ کے  ایمان والوں کو (ف ۲۴) ان کا نور دوڑتا  ہو گا ان کے  آگے  اور ان کے  دہنے  (ف ۲۵) عرض کریں گے، اے  ہمارے  رب! ہمارے  لیے  ہمارا نور پورا کر دے  (ف ۲۶) اور ہمیں بخش دے، بیشک تجھے  ہر چیز پر قدرت ہے۔

۲۲               یعنی توبۂ صادقہ جس کا اثر توبہ کرنے والے کے اعمال میں ظاہر ہو اور اس کی زندگی طاعتوں اور عبادتوں سے معمور ہو جائے اور وہ گناہوں سے مجتنب رہے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک اور دوسرے اصحاب نے فرمایا تو بۂ نصوح وہ ہے کہ توبہ کے بعد آدمی پھر گناہ کی طرف نہ لوٹے جیسا کہ نکلا ہوا دودھ پھر تھن میں واپس نہیں ہوتا۔

۲۳               توبہ قبول فرمانے کے بعد۔

۲۴               اس میں کفّار پر تعریض ہے کہ وہ دن ان کی رسوائی کا ہو گا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم اور حضور کے ساتھ والوں کی عزّت کا۔

۲۵               صراط پر۔ اور جب مومن دیکھیں گے کہ منافقوں کا نور بجھ گیا۔

۲۶               یعنی اس کو باقی رکھ کر دخولِ جنّت تک باقی رہے۔

(۹)  اے  غیب بتانے  والے !  (نبی) (ف ۲۷) کافروں پر اور منافقوں پر (ف ۲۸) جہاد کرو اور ان پر سختی فرماؤ،  اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے، اور کیا ہی برا  انجام۔

۲۷               تلوار سے۔

۲۸               قولِ غلیظ اور وعظِ بلیغ اور حجّتِ قوی سے۔

(۱۰) اللہ کافروں کی  مثال دیتا  ہے  (ف ۲۹) نوح کی عورت اور لوط کی عورت، وہ ہمارے  بندوں میں دو  سزا وارِ  (لائق) قرب بندوں کے  نکاح میں تمہیں پھر انہوں نے  ان سے  دغا کی (ف ۳۰) تو وہ اللہ کے  سامنے  انہیں  کچھ کام نہ  آئے   اور  فرما دیا  گیا  (ف ۳۱)  کے  تم دونوں  عورتیں  جہنم  میں جاؤ  جانے   والوں  کے  ساتھ  (ف ۳۲) 

۲۹               اس بات میں کہ انہیں ان کے کفر اور مومنین کی عداوت پر عذاب کیا جائے گا اور اس کفر و عداوت کے ہوتے ہوئے ان کا نسب اور مومنین و مقرّبین کے ساتھ انکی قرابت و رشتہ داری انہیں کچھ نفع نہ دے گی۔

۳۰               دِین میں کہ کفر اختیار کیا، حضرت نوح کی عورت واہلہ اپنی قوم سے حضرت نوح علیہ السلام کی نسبت کہتی تھی کہ وہ مجنون ہیں اور حضرت لوط علیہ السلام کی عورت و اعلہ اپنا نفاق چھُپاتی تھی اور جو مہمان آپ کے یہاں آتے تھے آگ جلا کر اپنی قوم کو ان کے آنے سے خبردار کرتی تھی۔

۳۱               ان سے وقتِ موت یا روزِ قیامت (اور تعبیر صیغۂ ماضی سے) بلحاظِ تحقّقِ وقوع کے ہے۔

۳۲               یعنی اپنی قوموں کے کفّار کے ساتھ کیونکہ تمہارے اور ان انبیاء کے درمیان تمہارے کفر کے باعث علاقہ باقی نہ رہا۔

(۱۱) اور اللہ مسلمانو ں کی مثال بیان فر ماتا ہے   (ف ۳۳) فرعون کی بی بی (ف ۳۴) جب اس نے  عرض کی، اے  میرے  رب! میرے  لیے  اپنے  پاس جنت میں گھر بنا (ف ۳۵) اور مجھے  فرعون اور اس کے  کام سے  نجات دے  (ف ۳۶) اور  مجھے  ظالم لوگوں سے  نجات بخش (ف ۳۷)

۳۳               کہ انہیں دوسرے کی معصیّت ضرر نہیں دیتی۔

۳۴               جن کا نام آسیہ بنتِ مزاحم ہے۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جادو گروں کو مغلوب کیا تو یہ آسیہ آپ پر ایمان لے آئیں، فرعون کو خبر ہوئی تو اس نے ان پر سخت عذاب کئے انہیں چو میخا کیا، اور بھاری چکّی سینہ پر رکھی اور دھوپ میں ڈال دیا، جب فرعونی ان کے پاس سے ہٹتے تو فرشتہ ان پر سایہ کرتے۔

۳۵               اللہ تعالیٰ نے انکا مکان جو جنّت میں ہے ان پر ظاہر فرمایا اور اس کی مسرت میں فرعون کی سختیوں کی شدّت ان پر سہل ہو گئی۔

۳۶               فرعون کے کام سے یا اس کا شرک و کفر و ظلم مراد ہے یا اس کا قرب۔

(۱۲) اور عمران کی بیٹی مریم جس نے  اپنی پارسائی کی حفاظت کی تو ہم نے  اس میں اپنی طرف کی روح پھونکی اور اس نے  اپنے  رب کی باتوں (ف ۳۸) اور اس کی کتابوں (ف ۳۹) کی تصدیق کی اور فرمانبرداروں میں ہوئی۔

۳۷               یعنی فرعون کے دِین والوں سے، چنانچہ یہ دعا ان کی قبول ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی روح قبض فرمائی اور ابنِ کیسان نے کہا کہ وہ زندہ اٹھا کر جنّت میں داخل کی گئیں۔

۳۸               رب کی باتوں سے شرائع و احکام مراد ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے مقرّر فرمائے۔

۳۹               کتابوں سے وہ کتابیں مراد ہیں جو انبیاء علیہم السلام پر نازل ہوئی تھیں۔