دعوۃ القرآن

سُوۡرَةُ الانفِطار

تعارف

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

نام

 

 پہلی ہی آیت میں آسمان کے انفطار (پھٹ جانے ) کی خبر دی گئی ہے۔  اسی مناسبت سے اس سورہ کا نام الانفطار ہے۔ 

 

زمانۂ نزول

 

سورہ بالاتفاق مکی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا اور سورہ تکویر کا زمانہ نزول قریب قریب ایک ہی رھا ہو گا یعنی مکہ کا ابتدائی دور۔

 

مرکزی مضمون

 

 اس سورہ کا بھی مرکزی مضمون جزائے عمل ہی ہے لیکن استدلال ایک دوسرے پہلو سے کیا گیا ہے اور اس اہتمام سے بھی آگاہ کر دیا گیا ہے جو ہر شخص کی عملی زندگی کو ریکارڈ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے کر رکھا ہے۔

 

نظم کلام

 

آیت ؀ ۱   تا   ؀ ۵   میں قیامت کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ جب یہ حادثہ عظیم رونما ہو گا تو انسان کا کیا دھرا سب اس کے سامنے آ جائے گا۔

 

آیت ؀ ۶    تا  ؀  ۸  میں انسان کو احساس دلایا گیا ہے کہ جس خدا نے انسان کو بہترین قالب میں ڈھالا اور اعلٰی صلاحیتوں سے نوازا اسے کیا من مانی کرنے کے لئے یونہی چھوڑ دیا جائے گا ؟  اس کی اپنے خدا کے ساتھ وفاداری اور غیر وفاداری کا امتحان نہیں ہو گا ؟  اور کیا وہ اس کے حضور اپنے طرز عمل کے لئے جوابدہ نہیں قرار پائے گا ؟

 

آیت ؀  ۹   تا ؀  ۱۲  میں اس اہتمام کا ذکر ہے جو اللہ نے ہر شخص کے اعمال کو ضبط تحریر میں لانے کے لئے کر رکھا ہے۔

 

آیت ؀  ۱۳  تا ؀  ۱۹  میں مختصر الفاظ میں نیکو کاروں اور بدکاروں کا انجام سامنے لایا گیا ہے اور متنبہ کیا گیا ہے کہ پیشی کے دن کسی کے بس میں کچھ نہ ہو گا اور سارے اختیارات اللہ ہی کے ہاتھ میں ہوں گے۔  

ترجمہ

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے۔

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ جب آسمان پھٹ جائے گا ۱*۔

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جب تارے بکھر جائیں گے ۲*۔

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اور جب سمندر بہا دئے جائیں گے ۳*۔

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اور جب قبریں اکھیڑ دی جائیں گی ۴*۔

 

۵۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔اس وقت ہر شخص کو معلوم ہو جائے گا کہ اس نے آگے کیا بھیجا ہے ؟ 

 

اور پیچھے کیا چھوڑا ہے ؟ ۵*

 

۶۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔اے انسان ! تجھے کس چیز نے  اپنے ربِ کریم کے بارے میں دھوکے میں ڈال رکھا ہے ؟ ۶*

 

۷۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔جس نے تجھے بنایا، اور ٹھیک ٹھیک  انسان * بنایا اور تیری بناوٹ میں اعتدال رکھا ۔

 

۸۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔او ر جس صورت میں چاہا تجھے ترکیب دیا ۷*۔

 

۹۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں ۸*  مگر تم جزا و سزا کو جھٹلاتے ہو ۹*۔

 

۱۰۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔حالانکہ تم پر نگراں مقرر ہیں ۱۰*۔

 

۱۱۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔گرامی قدر کاتب ۱۱*۔

 

۱۲۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔جو تمہارے ہر فعل کو جانتے ہیں ۱۲*۔

 

۱۳۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔یقیناً نیکو کار ۱۳* عیش و نشاط میں ہوں گے۔

 

۱۴۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔اور بدکار ۱۴* جہنّم میں۔

 

۱۵۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اس میں جزا کے دن داخل ہوں گے۔

 

۱۶۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس سے غائب نہ ہو سکیں گے ۱۵*۔

 

۱۷۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔اور تمھیں کیا معلوم کہ جزا کا دن کیا ہے ؟

 

۱۸۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔پھر (سن لو !) تمھیں کیا خبر کہ جزا کا دن کیا ہے ؟ ۱۶*

 

۱۹۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ دن جب کوئی شخص کسی کے لئے کچھ نہ کر سکے گا اور معاملات صرف اللہ ہی کے اختیار میں ہونگے ۱۷*۔

تفسیر

۱۔۔۔۔۔۔۔۔  اس مادی دنیا کو دیکھ کر انسان ماضی میں یہ خیال کرتا رہا ہے کہ اس کے لیل و نہار ہمیشہ یہی رہیں گے اور وہ کبھی کسی حادثہ سے دوچار ہونے والی نہیں۔  اور جہاں تک موجودہ سائنس کا تعلق ہے اس کی ترقی نے انسان کو یہ اعتراف کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ سورج کی طاقت بھی زائل ہو سکتی ہے اور یہ کائنات عظیم حادثہ سے دوچار ہو سکتی ہے البتہ سائنس دانوں کے اندازہ کے مطابق یہ صورت اربوں سال بعد پیش آئے گی۔

 

لیکن قرآن جو کلام الٰہی ہے صرف امکان ہی کی بات نہیں کرتا بلکہ مثبت طور پر اور واشگاف الفاظ میں یہ خبر دیتا ہے کہ عنقریب یہ کائنات عظیم حادثہ سے دوچار ہو گی اور زمین تو زمین آسمان کا نطام بھی درہم برہم ہو جائے گا  تاکہ ایک نئی دنیا ایک نئے نظام کے ساتھ وجود میں لائی جائے ظاہر ہے نئی تعمیر کے لئے تخریب ضروری ہوتی ہے اس لئے جہان نو کی تعمیر کے لئے اس دنیا کی شکست و ریخت کچھ بھی تعجب خیز نہیں۔

 

قیامت کے دن آسمان و زمین کے درہم برہم ہو جانے کے ذکر سے بائبل بھی خالی نہیں ہے۔

 

        "  اس دن آسمان بڑے شور و غل کے ساتھ برباد ہو جائیں گے اور اجرام فلک حرارت کی شدت سے پگھل جائیں گے اور زمین اور اس پر کے کام جل جائیں گے۔ " (۲۔ پطرس ۳ :  ۱۰)

 

یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن جس حادثہ عظیم کی خبر دے رہا ہے وہ کوئی نئی خبر نہیں ہے جو قرآن نے پہلی مرتبہ دی ہو ، بلکہ نوع انسانی کو وحی الٰہی کے ذریعہ برابر آگاہ کیا جاتا رہا ہے البتہ قرآن جتنے موثر پیرایہ میں اور جس تفصیل کے ساتھ قیامت کی تصویر کشی کر رہا ہے اس کی نظیر ان تحریف شدہ آسمانی کتابوں میں سے کسی کتاب میں بھی ملنا مشکل ہے۔ اور یہ واقعہ ہے کہ قرآن کے اس بیان سے قیامت کے بارے میں زبردست یقین پیدا ہو جاتا ہے اور دل و دماغ کو ایسا جھٹکا لگتا ہے کہ دنیا کے بارے میں انسان کے زاویہ نظر میں عظیم تبدیلی رونما ہو جاتی ہے۔

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔  ستارے بزم جہاں کی رونق ہیں لیکن جب یہ بزم ہی ختم کر دی جائے گی تو ان قمقموں کے باقی رہنے کا کیا سوال ؟  جس قانون کشش نے ان کو خلا میں منظّم کر رکھا ہے اس میں ذرا سا اختلال ان کو منتشر کرنے کے لئے کا فی ہے۔ 

 

ستاروں  کے گرنے کا ذکر انجیل میں بھی موجود ہے

 

        "سورج تاریک ہو جائے گا اور چاند اپنی روشنی نہ دے گا اور ستارے آسمان سے گریں گے اور آسمانوں کی قوتیں ہلائی جائینگی۔ " ( متی ۲۴  :  ۲۹  )

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی سمندر جوش میں آ کر اپنے حدود کو توڑ کر بہہ پڑیں گے اور ساتھ ہی۔  جیسا کہ سورہ تکویر میں بیان ہوا ۔ بھڑک اُٹھیں گے۔

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔  قبروں کے اکھیڑ دئے جانے کا مطلب یہ ہے کہ جوں ہی قیامت کا دوسرا صور پھونک دیا جائے گا زمین کے اندر سے مردے اس طرح باہر نکل پڑیں گے جیسے قبریں اکھیڑ کر مردوں کو باہر نکالا گیا ہو۔  قیامت تک جتنے انسان بھی پیدا ہوئے اور مر گئے ان سب کو زمین اُگل دے گی خواہ کوئی قبر میں دفن ہوا ہو یا سمندر میں غرق ہوا ہو اور خواہ کسی کی لاش جلا دی گئی ہو یا خلا میں اس کے اجزاء منتشر ہو گئے ہوں۔ 

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔  آگے بھیجنے ( مَا قَدَّمَتْ) سے مراد آدمی کا اچھا یا برا عمل ہے۔  جو اس نے اخروی زندگی کے لئے کیا۔ گویا انسان روزانہ اپنے اعمال کا پارسل نئی دنیا کو بھیجتا ہے جہاں قیامت کے دن وہ پہنچنے والا ہے۔  یہ اور بات ہے کہ کوئی شخص صدا بہار پھولوں کا پارسل بھیجتا ہے تاکہ اس کے لئے جنت کی بہار بن جائیں۔  اور کوئی شخص آتشگیر مادہ کا پارسل بھیجتا ہے تاکہ اس کو جلانے کے لئے ایندھن کا کام دے۔

 

پیچھے چھوڑنے ( مَا اَخَّرَتْ ) سے مراد تقویٰ اور نیکی کے وہ کام ہیں جو انسان کے کرنے کے تھے لیکن اس نے نہیں کئے اس طرح قیامت کے دن ہر شخص کو اس کی کار کر دگی اور اس کی کوتاہیاں  Commission & Omission         اچھی طرح معلوم ہو جائیں گی۔

 

 ۶۔۔۔۔۔۔۔۔  یہاں خدا کی صفت کریمی کا حوالہ دینے سے مقصود اس کے محسن ہونے کا احساس دلانا ہے تاکہ آدمی کے اندر احساس ذمہ داری ابھرے۔  خدا کے محسن اور مہربان ہونے کا تقاضا یہ تھا کہ آدمی اس کی طرف لپکتا اور اس کا شکر گزار اور وفادار بندہ بن کر رہتا ، لیکن وہ اس سے بے نیازی اختیار کرتا ہے اور اس کے حضور اپنے کو جوابدہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔  یہ سراسر دھوکا ہے جو میں انسان مبتلا رہتا ہے۔ لیکن اس دھوکہ میں پڑنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے بلکہ یہ صرف خواہش پرستی ہے جو اسے اپنے مہربان رب سے بغاوت پر آمادہ کرتی ہے۔

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔  انسان دنیا کی ممتاز ترین مخلوق ہے اور اس کی تخلیق میں خالق کی صناعی پوری طرح نمایاں ہے انسان کا پہلے ہیولٰی ( لوتھڑا۔۔۔۔۔۔۔۔ تیار ہوتا ہے اس کے بعد اسے اس طرح درست کیا جاتا ہے کہ وہ متناسب اعضاء کی شکل میں مشکّل  ہو جاتا ہے۔  پھر اس کے قویٰ میں ایسا توازن رکھا جاتا ہے کہ اس کا وجود دنیا کی سب سے معتدل مخلوق ہونے کی گواہی دیتا ہے۔  مزید یہ کہ نوعِ انسانی کا ہر فرد شکل و صورت میں دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔  دنیا میں اربوں انسان پیدا ہوتے ہیں اور ان سب کا موڈل ایک نہیں ہوتا بلکہ ہر ایک کا موڈل الگ ہو تا ہے تاکہ اس کی انفرادیت اور اس کا تشخص برقرار رہے۔  غرض یہ کہ انسان کی ساخت اور اس کی شکل و صورت کے مشاہدہ سے اس کے خالق کے کمال قدرت اور حیرت انگیز صناعی کا اندازہ ہو جاتا ہے اور یہ احساس بھی پیدا ہو جاتا ہے کہ انسان کے  حق میں وہ کتنا بڑا محسن ہے جس نے اس کو دنیا کی بہترین مخلوق بنا کر اُٹھایا !

 

۸۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی تمہارا یہ گمان صحیح نہیں کہ دنیا یونہی چلتی رہے گی نہ قیامت آئے گی اور نہ خدا کے حضور تمہاری پیشی ہو گی۔ 

 

۹۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی قیامت کی آمد کی جو خبر قرآن دے رہا ہے اس کو جھٹلانے کی اصل وجہ یہ ہے کہ تم جزا و سزا کی حقیقت کو تسلیم کرنا نہیں چاہتے کیونکہ اس کو تسلیم کرنے کے بعد انسان کو خواہشات نفسانی کے علی الرغم ایک ذمہ دارانہ زندگی گزارنی پرتی ہے۔ 

 

آج بھی انسان نے جزا و سزا کے مذہبی تصوّر سے بچنے کے لئے کائنات کی ایسی " سائنٹیفک "  توجیہ کی ہے کہ ذہن نہ خدا کی طرف منتقل ہوتا ہے اور نہ قیامت کی طرف۔ 

 

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی تم جزا و سزا کو جھٹلانا چاہو تو جھٹلاؤ  اس سے حقیقت نہیں بدلتی۔  حقیقت یہ ہے کہ جزا و سزا کا معاملہ لازماً پیش آنا ہے اور اس کے لئے اللہ نے یہ اہتمام کیا ہے کہ تمہارے اعمال کو ریکارڈ کیا جائے۔

 

نگراں سے مراد وہ فرشتے ہیں جو انسان کے قول و فعل کو ریکارڈ کرنے کے لئے اللہ کی طرف سے مقرر  ہیں ہر انسان کے ساتھ دو فرشتے لگے ہوتے ہیں ، ایک  دائیں جانب اور دوسرا بائیں جانب۔

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔  مراد قول و عمل کو ریکارڈ کرنے والے فرشتے ہیں۔  ان کی صفت " کراماً "  (گرامی قدر ، معزز)بیان کی گئی ہے جس سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ یہ انتہائی ذمہ داری کے ساتھ اپنی ڈیوٹی انجام دیتے ہیں۔  ان کے بارے میں نہ یہ احتمال ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص نیکی کرے اور یہ لکھیں نہیں اور نہ یہ اندیشہ ہو سکتا ہے کہ ایک  کی بدی دوسرے کے کھاتہ میں جمع کر دیں۔  یہ خفیہ طریقہ پر مگر با وقار انداز میں نہایت ایمانداری کے ساتھ اپنا فرض انجام دیتے رہتے ہیں لہذا ان کو دنیوی حکومتوں کی سی ، آئی ، ڈی  پر قیاس کرنا صحیح نہ ہو گا جس کے علم کا دائرہ بھی محدود ہوتا ہے۔  اور جو نا فرض شناسی کا ثبوت دیتے ہوئے الٹی سیدھی رپورٹ پیش کرتی رہتی ہے۔  البتہ یہ حقیقت ہے کہ اس خفیَہ پولس پر بھی اللہ کی  " خفیہ پولس "  مقرر ہے  جو ان کی ساری حرکتوں کو ضبط تحریر میں لا رہی ہے۔ 

 

فرشتوں کی کتابت کی نوعیت تو اللہ ہی کو معلوم ہے البتہ موجودہ سائنس اور ٹیکنولوجی کے دور میں یہ سمجھنا ہمارے لئے کچھ مشکل نہیں رہا کہ انسان کی تمام حرکات و سکنات کو اور اس کی زبان سے نکلے ہوئے ایک ایک لفظ کو محفوظ کیا جا سکتا ہے۔  فلم ، ریڈیو ، فوٹو ، ٹیلیویژن اور ٹیپ رکارڈنگ اس کی نمایاں مثالیں ہیں اور اب تو یہ بھی ممکن ہوا ہے کہ زمین پر بیٹھ کر ہم لاکھوں اور کروڑوں میل دور چاند ، مریخ ، اور زحل جیسے سیاروں کی تصویریں منگائیں ،۔  اصل میں موجودہ سائنس نے دو اہم قوانین قدرت کا انکشاف کیا ہے جس میں سمجھنے والوں کے لئے بہت کچھ رہنمائی کا سامان موجود ہے۔  ایک یہ کہ ہماری تصویر ہر لمحہ فضا میں بنتی رہتی ہے۔  اسی تصویر کو محفوظ کرنے کی تکنیک  (Technique )   سائنس نے اختیار کی ہے۔

 

اسی طرح ہماری آواز ہوا میں لہریں پیدا کرتی ہے۔  ان لہروں کو کیسیٹ میں محفوظ کر کے اسی آواز کو پھر سنا جا سکتا ہے۔  یہ سب کچھ جب انسان کے لئے ممکن ہوا ہے اور ممکن بھی ایسا کہ اسی پر موجودہ تمدن کی عمارت کھڑی ہوئی ہے تو پھر انسان کے لئے یہ باور کرنا کیا مشکل ہے کہ جس خدا نے یہ قانون قدرت بنایا ہے اس نے اس بات کا بھی اہتمام کیا ہے کہ ہر شخص کی پوری زندگی کو فلمایا جائے اور قیامت کے دن ہماری بولتی فلم ہمارے سامنے پیش کر دی جائے۔  اس وقت اپنی بولتی فلم کو دیکھ کر انسان کے ہوش ٹھکانے نہیں رہیں گے۔  مگر انسان آج ہی یہ یقین کر لے کہ اس کی پوری زندگی کو فلمایا جا رہا ہے اور اس کی بولتی فلم اسے دکھائی جانے والی ہے تو انسان اپنے رویّہ میں بڑا محتاط اور ذمہ دار ہو گا۔  اور کبھی ایسا کام کرنے یا ایسی بات زبان سے نکالنے کے لئے آمادہ نہیں ہو گا جو کل آخرت کے ٹیلیویژن پر وہ دیکھنا اور سننا پسند نہیں کرے گا۔

 

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔  یہاں افعال کا ذکر ہے اور سورہ ق میں صراحت ہے کہ جو لفظ بھی انسان اپنی زبان سے نکالتا ہے اس کو نوٹ کرنے کے لئے ایک فرشتہ موجود ہوتا ہے اور یہ وضاحت بھی ہے کہ یہ فرشتے دو ہوتے ہیں جو دائیں اور بائیں جانب بیٹھے نگرانی کر رہے ہوتے ہیں۔

 

اِذْ یَتَلَقَّی الْمُتَلَقِّیٰنِ عَنِ الْیَمِیْنِ وَ عَنِ الشِّمَاْلِ قَعِیْدُ۔  مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلِ إلّا لَدَیْہِ رَقِیْبُ عَتِیْدُ ( ق ۱۷۔ ۱۸)

 

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔‏  سورہ کا مضمون اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ نیکو کار وہ لوگ ہیں جن کا بنیادی وصف رب کریم کے حضور جوابدہی کا احساس ہے۔

 

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔  جو لوگ رب کریم کے حضور جوابدہی کے قائل نہ ہوں اور آخرت کی جزا و سزا کو جھٹلائیں وہ قرآن کی اصطلاح میں فاجر ( بدکار )ہیں کیونکہ جہاں خدا کے حضور پیشی کا تصور نہ ہو وہاں پوری زندگی غلط ہو کر رہ جاتی ہے۔

 

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی وہ جہنم میں لازماً داخل ہوں گے اور داخل ہونے کے بعد اس سے نکل بھاگنے کی کوئی صورت ممکن نہ ہو گی۔  وہ ہمیشہ کے لئے اسی میں پڑے رہیں گے۔

 

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔  سوال کو اس لئے دہرایا گیا ہے تا کہ جزا کے دن کی اہمیت واضح ہو جائے اور عدالت خداوندی میں حاضری کے تصور سے انسان لرز اٹھے۔

 

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی دنیا میں انسان جو با اختیار نظر آتا ہے قیامت کے دن بالکل بے اختیار ہو گا خواہ دنیا میں وہ شاہ رہ چکا ہو یا گدا۔  اس روز انسان کی بے بسی کا یہ حال ہو گا کہ وہ اپنے ہی لئے کچھ کر نہ سکے گا کُجا یہ کہ دوسروں کے لئے کرے۔  اختیار اور اقتدار سب کچھ اللہ ہی کے ہاتھ میں ہو گا اور معاملات کے فیصلے وہ خود فرمائے  گا۔

 

یہ ہے  عدالتِ خداوندی میں پیشی کا وہ تصور جو قرآن پیش کرتا ہے اور جو عقیدہ آخرت کا لازمی جزء ہے بخلاف اس کے عقیدہ تناسخ ایک چکّر ہے جس میں عدالت خداوندی میں پیشی کا کوئی مرحلہ پیش آنے والا ہی نہیں ہے۔  اس سے اسلام کے عقیدہ آخرت اور مشرکین کے عقیدہ تناسخ کے بنیادی فرق کو اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔ 

٭٭٭٭٭