تفسیر مدنی

سُوۡرَةُ الانفِطار

(سورۃ الإنفطار ۔ سورہ نمبر ۸۲ ۔ تعداد آیات ۱۹)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     جب آسمان پھٹ پڑے گا

۲۔۔۔     اور جب ستارے بکھر جائیں گے

۳۔۔۔     اور جب سمندر بہا دئیے جائیں گے

۴۔۔۔     اور جب (لوگوں کو از سر نو زندہ کرنے کے لیے ) قبروں کو اکھاڑ دیا جائے گا

۵۔۔۔     تو اس وقت ہر شخص جان لے گا وہ سب کچھ جو کہ اس نے آگے بھیجا اور جو پیچھے چھوڑا

۶۔۔۔     اے انسان تجھے کس چیز نے دھوکے میں ڈال دیا اپنے اس رب کریم کے بارے میں

۷۔۔۔     جس نے تجھے پیدا کیا پھر تجھے ٹھیک کیا پھر تجھے برابر کیا

۸۔۔۔     اور جس صورت میں چاہا اس نے تجھے جوڑ کر تیار کر دیا

۹۔۔۔     ہرگز نہیں بلکہ (اصل بات یہ ہے کہ) تم لوگ جھٹلاتے ہو سزا و جزا کو

۱۰۔۔۔     حالانکہ تم پر تو سخت قسم کے نگراں مقرر ہیں

۱۱۔۔۔     یعنی کچھ ایسے معزز لکھنے والے

۱۲۔۔۔     جو جانتے ہیں وہ سب کچھ جو تم لوگ کرتے ہو

۱۳۔۔۔     بلاشبہ نیک لوگ بڑی ہی عظیم الشان نعمتوں میں ہوں گے

۱۴۔۔۔     اور یقیناً بدکار لوگ دوزخ میں ہوں گے

۱۵۔۔۔     ان کو اس میں داخل ہونا ہو گا بدلے کے اس دن

۱۶۔۔۔     اور وہ اس سے کہیں جانے نہ پائیں گے

۱۷۔۔۔     اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ بدلے کا دن؟

۱۸۔۔۔     ہاں تم کیا جانو کہ کیا ہے بدلے کا وہ دن؟

۱۹۔۔۔     یہ وہ دن ہو گا جس میں کسی بھی شخص کے بس میں نہیں ہو گا کہ وہ کسی کے کام آ سکے کچھ بھی اور معاملہ اس دن اللہ ہی کے اختیار میں ہو گا (سب کا سب)

تفسیر

 

۵۔۔۔     سو اس سے اس اصل حقیقت کو بیان فرما دیا گیا جو قیامت کے اس یوم عظیم میں سب کے سامنے آ جائے گی یعنی جب اس یوم عظیم کی ہلچل بپا ہو گی، اور اس نظام کے درہم برہم ہو جانے کے سلسلے میں یہ آثار ظاہر ہو جائیں گے تو اس وقت ہر انسان کو معلوم ہو جائے گا کہ اس نے آگے کیا بھیجا اور پیچھے کیا چھوڑا اور آگے بھیجنے اور پیچھے چھوڑنے یعنی مَاقَدَّمَتْ اور مَااَخَّرَتْ کے عموم میں کئی مفہوم شامل و داخل ہیں۔ اور وہ سب ہی اپنے طور پر صحیح اور یہاں پر مقصود و مراد ہیں، مثلاً یہ کہ جو کچھ اس نے پہلے کیا وہ مَا قَدَّمَتْ ہے۔ اور جو بعد میں کیا وہ مَا اَخَّرَتْ، یعنی اس کا سب کچھ کیا کرایا ترتیب وار اور تاریخ وار اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا، جیسا کہ حدیث میں وارد ہے کہ اس روز زمین اس سے کہے گی اَنْ فَعَلْتَ کَذَا،وَکَذا فِیْ یَوْمٍ کَذَا، یعنی تو نے اے انسان میری پیٹھ پر فلاں فلاں کام فلاں فلاں دن کئے تھے جبکہ دوسرا مفہوم ان الفاظ کا یہ ہے کہ جو کچھ اس نے کیا وہ مَا قَدَّمَتْ ہے، خواہ وہ اچھا ہو یا برا، اور جس کے کرنے سے وہ باز رہا۔ وہ مَا اَخَّرَتْ ہے۔ جبکہ تیسرا مفہوم ان الفاظ کا یہ ہے کہ جو اچھے یا برے اعمال انسان نے اپنی زندگی میں کئے وہ سب مَا قَدَّمَتْ ہیں، اور اپنے اعمال کے جو آثار و نتائج وہ اپنے پیچھے چھوڑ گیا وہ سب مَا اَخَّرَتْ ہیں، سو اس سے غافل ولا پرواہ دنیا کو جھنجھوڑا گیا ہے کہ قیامت کے جس یوم عظیم کے تقاضوں سے یہ لوگ نچنت اور بے فکر ہیں، اس میں ان کو اس صورت حال سے واسطہ و سابقہ پیش آئے گا۔

۱۹۔۔۔  سو جن لوگوں نے طرح طرح کے شفعاء و شرکاء گھڑ رکھے تھے، اور وہ ان پر تکیہ و آسرا کئے بیٹھے تھے۔ اور اس خام خیالی میں مبتلا تھے کہ یہ اس یوم حساب میں ہمارا سب کام کرا دیں گے، ہماری ان کے آگے اور ان کی اس کے آگے، وغیرہ تو اس دن ان کے سامنے واضح ہو جائے گا کہ یہ سب کچھ اوہام و خرافات کا پلندہ تھا جس کی کوئی حقیقت نہیں، اس دن کوئی کسی کے کچھ بھی کام نہیں آ سکے گا۔ اور معاملہ سب کا سب اللہ وحدہٗ لاشریک ہی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہو گا سبحانہ و تعالیٰ۔