۱ ۔۔۔ یعنی سمجھتا ہے کہ انصاف نہ ہو گا اور اللہ کی طرف سے نیک و بد کا کبھی بدلہ نہ ملے گا۔ اور بعض نے دین کے معنی " ملت " کے لئے ہیں ۔ یعنی ملتِ اسلام اور مذہبِ حق کو جھٹلاتا ہے۔ گویا مذہب و ملت اس کے نزدیک کوئی چیز ہی نہیں ۔
۲ ۔۔۔ یعنی یتیم کی ہمدردی اور غمخواری تو درکنار اس کے ساتھ نہایت سنگدلی اور بد اخلاقی سے پیش آتا ہے۔
۳ ۔۔۔ یعنی غریب کی نہ خود خبر لے نہ دوسروں کو ترغیب دے۔ ظاہر ہے کہ یتیموں اور محتاجوں کی خبر لینا اور ان کے حال پر رحم کھانا دنیا کے ہر مذہب و ملت کی تعلیم میں شامل ہے اور ان کا مکارمِ اخلاق میں سے ہے جن کی خوبی پر تمام عقلاء اتفاق رکھتے ہیں ۔ پھر جو شخص ان ابتدائی اخلاق سے بھی عاری ہو، سمجھو کہ آدمی نہیں ، جانور ہے۔ بھلا ایسے کو دین سے کیا واسطہ، اور اللہ سے کیا لگاؤ ہو گا۔
۵ ۔۔۔ یعنی نہیں جانتے کہ نماز کس کی مناجات ہے اور مقصود اس سے کیا ہے اور کس قدر اہتمام کے لائق ہے یہ کیا نماز ہوئی کہ کبھی پڑھی کبھی نہ پڑھی، وقت بے وقت کھڑے ہو گئے، باتوں میں دنیا کے دھندوں میں جان بوجھ کر وقت تنگ کر دیا، پھر پڑھی بھی تو چار ٹکریں لگا لیں ۔ کچھ خبر نہیں کس کے رو برو کھڑے ہیں ، اور احکم الحاکمین کے دربار میں کس شان سے حاضری دے رہے ہیں ۔ کیا خدا صرف ہمارے اٹھنے بیٹھنے، جھک جانے اور سیدھے ہونے کو دیکھتا ہے؟ ہمارے دلوں پر نظر نہیں رکھتا؟ کہ ان میں کہاں تک اخلاص اور خشوع کا رنگ موجود ہے۔ یاد رکھو یہ سب صورتیں "عن صلاتھم ساھون" میں درجہ بدرجہ داخل ہیں ۔ کما صرح بہ بعض السلف۔
۶ ۔۔۔ یعنی ایک نماز کیا، ان کے دوسرے اعمال بھی ریاکاری اور نمود و نمائش سے خالی نہیں گویا ان کا مقصد خالق سے قطعِ نظر کر کے صرف مخلوق کو خوش کرنا ہے۔
۷ ۔۔۔ یعنی زکوٰۃ و صدقات وغیرہ تو کیا ادا کرتے معمولی برتنے کی چیزیں بھی مثلاً (ڈول، رسی، ہنڈیا، دیگچی، کلہاڑی، سوئی دھاگا وغیرہ) کسی کو مانگے نہیں دیتے جن کے دے دینے کا دنیا میں عام رواج ہے۔ بخل اور فسق کا جب یہ حال ہو تو ریا کاری کی نماز سے ہی کیا فائدہ ہو گا۔ اگر ایک آدمی اپنے کو مسلمان نمازی کہتا اور کہلاتا ہے مگر اللہ کے ساتھ اخلاص اور مخلوق کے ساتھ ہمدردی نہیں رکھتا، اس کا اسلام لفظِ بے معنی، اور اس کی نماز حقیقت سے بہت دور ہے۔ یہ ریا کاری اور بد اخلاقی تو ان بدبختوں کا شیوہ ہونا چاہیے جو اللہ کے دین اور روزِ جزا پر کوئی اعتقاد نہیں رکھتے۔