۱ ۔۔۔ یعنی جو رات کی ظلمت پھاڑ کر صبح کی روشنی نمودار کرتا ہے۔
۲ ۔۔۔ یعنی ہر ایسی مخلوق جس میں کوئی بدی ہو اس کی بدی سے پناہ مانگتا ہوں ۔ آگے بمناسبتِ مقام چند مخصوص چیزوں کا نام لیا ہے۔
۳ ۔۔۔ یعنی رات کا اندھیرا کہ اس میں اکثر شرور خصوصاً سحر وغیرہ بکثرت واقع ہوتے ہیں ، یا چاند کا گہن یا آفتاب کا غروب مراد ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ " اس میں سب تاریکیاں آ گئیں ظاہر اور باطن کی اور تنگدستی اور پریشانی اور گمراہی۔"
۴ ۔۔۔ نفاثات فی العقد سے وہ عورتیں یا وہ جماعتیں یا وہ نفس مراد ہیں جو ساحرانہ عمل کرنے کے وقت کسی تانیت یا رسی یا بال وغیرہ میں کچھ پڑھ کر اور پھونک مار کر گرہ لگایا کرتے ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر جو سحر لید بن اعصم نے کیا تھا، لکھا ہے کہ بعض لڑکیاں بھی اس میں شریک تھیں واللہ اعلم۔
۵ ۔۔۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ " اس وقت اس کی ٹوک لگ جاتی ہے۔ بیشک ٹوک یا نظر لگ جانا ایک امر واقع ہے۔" لیکن اکثر مفسرین کے نزدیک " ومن شر حاسد اذا حسد" کا مطلب یہ ہے کہ حاسد جب اپنی قلبی کیفیت کو ضبط نہ کر سکے اور عملی طور پر حسد کا اظہار کرنے لگے، اس کی بدی سے پناہ مانگنا چاہئے۔ اگر ایک شخص کے دل میں بے اختیار حسد پیدا ہو مگر وہ اپنے نفس کو قابو میں رکھ کر محسود کے ساتھ کوئی ایسا برتاؤ نہ کرے وہ اس سے خارج ہے۔ نیز یاد رکھنا چاہیے کہ حسد کے معنی یہ ہیں کہ دوسرے سے اللہ کی دی ہوئی نعمت کے زوال کا متمنی ہو۔ باقی یہ آرزو کرنا کہ مجھے بھی ایسی نعمت یا اس سے زائد عطا ہو جو فلاں کو عطا ہوئی ہے۔ حسد میں داخل نہیں ۔ اس کو "غبطہ" کہتے ہیں ۔ بخاری کی حدیث "لا حسد الا فی اثنتین الخ " میں لفظ "حسد" سے یہی غبطہ مراد ہے۔