۱ ۔۔۔ جس کا من عند اللہ ہونا بالکل واضح ہے اور جن احکام و شرائع یا مواعظ و نصائح پر وہ مشتمل ہے نہایت روشن اور صاف ہیں۔
۲ ۔۔۔ یعنی عربی زبان جو تمام زبانوں میں زیادہ فصیح و وسیع اور منضبط و پر شوکت زبان ہے، نزول قرآن کے لیے منتخب کی گئی۔ جب خود پیغمبر عربی ہیں تو ظاہر ہے کہ دنیا میں اس کے اولین مخاطب عرب ہوں گے۔ پھر عرب کے ذریعہ سے چاروں طرف یہ روشنی پھیلے گی۔ اسی کی طرف "لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ" میں اشارہ فرمایا کہ تمہاری زبان میں اتارنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ تم جو پیغمبر علیہ السلام کی قوم ہو اول اس کے علوم و معارف کا مزہ چکھو پھر دوسروں کو چکھاؤ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ابن کثیر لکھتے ہیں۔ "اُنْزِلَ اَشْرَفُ الْکُتُبِ بِاَشْرَفِ اللُّغَاتِ عَلیٰ اَشْرَفِ الرُّسُلِ بِسَفَارَۃِ اَشْرَفِ الْمَلَائِکَۃِ وَکَانَ ذٰلِکَ فِیْ اَشْرَفِ بِقَاعِ الْاَرْضِ وَاِبْتَدَاءُ اِنْزَالِہِ فِیْ اَشْرَفِ شُھُور السَّنَۃِ وَہُوَ رَمَضَانُ فَکُمِلَ مِنْ کُلِّ الْوُجُوْہِ۔
۳ ۔۔۔ یعنی اس وحی کے ذریعہ سے جو قرآن کی صورت میں ہم پر نازل ہوتی ہے۔ ہم ایک نہایت اچھا بیان نہایت حسین طرز میں تم کو سناتے ہیں۔ جس سے اب تک اپنی قوم کی طرح تم بھی بے خبر تھے۔ گو یہ واقعہ کتب تاریخ اور بائبل میں پہلے سے مذکور تھا مگر محض ایک افسانہ کی صورت میں تھا۔ قرآن کریم نے اس کے ضروری اور مفید اجزاء کو ایسی عجیب ترتیب اور بلیغ و موثر انداز میں بیان فرمایا۔ جس نے نہ صرف پہلے تذکرہ نویسوں کی کوتاہیوں پر مطلع کیا بلکہ موقع بہ موقع نہایت ہی اعلیٰ نتائج کی طرف راہنمائی کی اور قصہ کے ضمن میں علوم و ہدایات کے ابواب مفتوح کر دیئے۔ یہ بات کہ خداوند قدوس کی تقدیر کو کوئی چیز نہیں روک سکتی، اور خدا جب کسی پر فضل کرنا چاہے تو سارا جہان مل کر بھی اپنی ساری امکانی تدابیر سے اسے محروم نہیں کر سکتا، صبر و استقامت دنیاوی و اخروی کامیابی کی کلید ہے، حسد و عداوت کا انجام حذلان و نقصان کے سوا کچھ نہیں، عقل انسانی بڑا شریف جوہر ہے جس کی بدولت آدمی بہت سی مشکلات پر غالب آتا اور اپنی زندگی کو کامیاب بنا لیتا ہے، اخلاقی شرافت اور پاکدامنی انسان کو دشمنوں اور حاسدوں کی نظر میں بھی آخرکار معزز بنا دیتی ہے۔ یہ اور اس قسم کے بے شمار حقائق ہیں جن پر اس احسن القصص کے ضمن میں متنبہ فرمایا ہے۔ مفسرین نے اس سورت کے شان نزول میں کئی روایتیں نقل کی ہیں۔ سب کو ملانے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہود نے مشرکین مکہ کے ذریعہ سے امتحاناً یہ سوال کیا کہ حضرت ابراہیم اور ان کی اولاد تو شام میں رہتی تھی پھر "بنی اسرائیل" مصر میں کیسے پہنچ گئے جو موسیٰ علیہ السلام کو فرعون سے مقابلہ کی نوبت آئی۔ شاید مسلمانوں کو بھی ایک مفصل تاریخی واقعہ جو بصائر و عبر سے مملو ہو سننے کا اشتیاق ہوا ہو گا۔ ادھر اس قصہ کے ضمن میں جن احوال و حوادث کا تذکرہ ہونے والا تھا وہ کئی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کی قوم کے حالات سے مشابہت رکھتے تھے۔ اور ان کا ذکر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے حق میں موجب تسکین خاطر اور آپ کی قوم کے حق میں موجب عبرت تھا۔ ان وجوہ سے یہ پورا واقعہ کافی بسط و تفصیل سے قرآن کریم میں بیان فرمایا۔ تاکہ پوچھنے والوں کو معلوم ہو جائے کہ اسرائیل (یعنی حضرت یعقوب علیہ السلام) اور ان کی اولاد کے شام سے مصر آنے کا سبب حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ ہوا ہے۔ پھر وہیں ان کی نسل پھیلی اور بڑھتی رہی تا آنکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آخر فرعون اور قبطیوں کی غلامی سے انہیں نجات دلائی۔
۴ ۔۔۔ یعنی گیارہ ستارے اور چاند سورج میرے آگے جھک رہے اور پست ہو رہے ہیں۔ یہ خواب لڑکپن میں دیکھا تھا۔ سچ ہے "ہونہار بروے کے چکنے چکنے پات۔
۵ ۔۔۔ یعنی شیطان ہر وقت انسان کی گھات میں لگا ہے۔ وسوسہ اندازی کر کے بھائیوں کو تیرے خلاف اکسا دے گا۔ کیونکہ خواب کی تعبیر بہت ظاہر تھی، اور یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کو جو بہرحال خاندان نبوت میں سے تھے، ایسے واضح خواب کا سمجھ لینا کچھ مشکل نہ تھا کہ گیارہ ستارے گیارہ بھائی ہیں اور چاند سورج ماں باپ ہیں گویا یہ سب کسی وقت یوسف علیہ السلام کی عظمت شان کے سامنے سر جھکائیں گے چنانچہ آخر سورت میں "یَااَبَتِ ہٰذَا تَاْوِیْلُ رُؤْیَایَ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَعَلَہَا رَبِّی حَقًّا۔" کہہ کر اسی طرف اشارہ کیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام خواب سے پیشتر ہی یہ محسوس کرتے تھے کہ یوسف کے ساتھ باپ کی خصوصی محبت کو دیکھ کر اس کے علاتی بھائی دل ہی دل میں کڑھتے ہیں۔ اب انہوں نے خیال کیا کہ اگر کہیں یہ خواب سن پائے تو شیطان حسد کی آگ ان کے دلوں میں بھڑکا دے گا اور جوش حسد میں آنکھیں بند کر کے ممکن ہے وہ کوئی ایسی حرکت کر گزریں جو یوسف کی اذیت اور خود ان کی رسوائی اور بد انجامی کا موجب ہو۔ اس لیے آپ نے یوسف علیہ السلام کو منع فرما دیا کہ اپنا خواب بھائیوں کے روبرو ظاہر نہ کریں۔ یوسف کا ایک حقیقی بھائی "بنیامین" تھا، اس کے سامنے ذکر کرنے کی بھی اجازت نہیں دی، گو اس سے برائی کا کچھ اندیشہ نہ تھا، لیکن یہ ممکن تھا کہ وہ سن کر بے احتیاطی سے دوسروں کے سامنے تذکرہ کر دے۔ اور اس طرح یہ خبر لوگوں میں شائع ہو جائے (تنبیہ) حافظ ابن تیمیہ نے ایک مستقل رسالہ میں لکھا ہے کہ قرآن، لغت اور عقلی اعتبارات میں سے کوئی چیز اس خیال کی تائید نہیں کرتی کہ برادران یوسف انبیاء تھے، نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی خبر دی نہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں کوئی اس کا قائل تھا۔ بھلا حقوق والدین، قطع رحم، مسلمان بھائی کے قتل پر اقدام کرنا، اس کو غلام بنا کر بیچ ڈالنا اور بلاد کفر کی طرف بھیج دینا، پھر صریح جھوٹ اور حیلے بنانا وغیرہ ایسی حرکات شنیعہ کیا کسی نبی کی طرف (خواہ قبل از بعثت ہی سہی) منسوب کی جا سکتی ہیں (العیاذ باللہ)۔ جن لوگوں نے برادران یوسف کی نبوت کا خیال ظاہر کیا ہے، ان کے پاس لفظ "اسباط" کے سوا کوئی دلیل نہیں حالانکہ "اسباط" خاص صلبی اولاد کو نہیں بلکہ اقوام و امم کو کہتے ہیں۔ اور"بنی اسرائیل" کی اسباط پر تقسیم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عہد میں ہوئی ہے۔
۶ ۔۔۔ ۱: یعنی جس طرح ایسا اچھا خواب دکھلایا، اسی طرح محض جاذبہ رحمت سے اپنی بارگاہ قرب میں تجھ کو خصوصی مقام عطا فرمائے گا۔ چنانچہ نبوت عطاء فرمائی اور طرح طرح کی ظاہری و باطنی نوازشیں کیں۔
۲: مثلاً تعبیر رؤیا، یعنی خواب سن کر اس کے اجزاء کو ذہانت و فراست سے ٹھکانے پر لگا دینا۔ یا ہر بات کے موقع و محل کو سمجھنا، اور معاملات کے عواقب و نتائج کو فورا پرکھ لینا۔ یا خدا اور پیغمبروں کے ارشادات اقوام و امم کے قصص اور کتب منزلہ کے مضامین کی تہہ تک پہنچ جانا، یہ سب چیزیں "تاویل الاحادیث" کے تحت میں مندرج ہو سکتی ہیں۔
۳: یعنی اخروی نعمتوں کے ساتھ دنیاوی نعمتیں عطا فرمائے گا۔ نبوت کے ساتھ بادشاہت میں حصہ دے گا اور شدائد و محن سے نجات دے کر خوشحالی و فراغ بالی کی زندگی نصیب کرے گا۔ یعقوب کے گھرانے کو دنیاوی مکروہات اور مادی تکلیفوں سے رہائی دے گا اور آئندہ ان کی نسل سے بڑے بڑے پیغمبر اور بادشاہ پیدا کرے گا۔
۴: حضرت یعقوب نے تواضعاً اپنا نام نہیں لیا۔ اپنے والد حضرت اسحاق اور ان کے والد حضرت ابراہیم کا ذکر فرمایا۔ حضرت ابراہیم کو خدا نے اپنا خلیل اور نبی بنایا ان کے دشمن نمرود کو ہلاک کیا، آگ کے شعلوں کو ان کے لیے گلزار بنا دیا، اسحاق کو نبوت عطا کی۔ پھر ان کے صلب سے حضرت یعقوب جیسا نبی پیدا کیا۔ جس سے تمام انبیائے بنی اسرائیل کا سلسلہ چلا۔ حدیث صحیح میں ہے۔ الکریم ابن الکریم ابن الکریم ابن الکریم یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم۔ (تنبیہ) حضرت یعقوب علیہ السلام نے جو پیشین گوئی کی اس کا کچھ حصہ تو غالباً حضرت یوسف کے خواب سے سمجھے اور اس سے کہ اتنی چھوٹی عمر میں ایسا موزوں و مبارک خواب دیکھا اور کچھ حضرت یوسف کے خصائل و شمائل سے یا وحی الٰہی کے ذریعہ سے مطلع ہوئے ہوں گے۔
۵: یعنی وہ ہر ایک کی مناسبت واستعداد سے باخبر ہے۔ اپنی حکمت سے اسی کے مناسب فیض پہنچاتا ہے۔
۷ ۔۔۔ یعنی جو لوگ اس طرح کے واقعات دریافت کر کے کسی نتیجہ پر پہنچنا چاہتے ہیں ان کے لیے یوسف اور ان کے بھائیوں کی سرگزشت میں ہدایت و عبرت کی بہت سی نشانیاں موجود ہیں۔ اس قصہ کو سن کر قلوب میں حق تعالیٰ کی عظیم قدرت و حکمت کا نقش جم جاتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی صداقت کا بین ثبوت ملتا ہے کہ آپ باوجود امی ہونے اور کسی کتاب یا معلم سے استفادہ نہ کرنے کے ایسے منقح و منضبط تاریخی حقائق کا انکشاف فرما رہے ہیں۔ جن کے بیان کی بجز اعلام ربانی کے کوئی توجیہ نہیں ہو سکتی۔ خصوصا قریش مکہ کے لیے (جو یہود کے اکسانے سے اس قصہ کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کر رہے تھے) اس واقعہ میں بڑا عبرت آموز سبق ہے کہ جس طرح حضرت یوسف کو بھائیوں نے گھر سے نکالا۔ از راہ حسد قتل یا جلا وطن کرنے کے مشورے کیے۔ طرح طرح سے ایذائیں پہنچائیں۔ اہانت و استخفاف میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا۔ آخر ایک دن آیا کہ یوسف کی طرف نادم محتاج ہو کر آئے۔ یوسف علیہ السلام کو خدا نے دین و دنیا کے اعلیٰ مناصب پر فائز کیا اور انہوں نے اپنے عروج و اقتدار کے وقت بھائیوں کے جرائم سے چشم پوشی کی اور نہایت دریا دلی سے سب کے قصور معاف کر دیے۔ ٹھیک اسی طرح حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی برادری نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق ناپاک منصوبے باندھے، دکھ پہنچائے، عزت و آبرو پر حملے کیے، حتی کہ وطن چھوڑنے پر مجبور کیا۔ لیکن جلد وہ دن آنے والا تھا جب وطن سے علیحدہ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی کامیابی اور رفعت شان کا آفتاب چمکا، اور چند سال کے بعد فتح مکہ کا وہ تاریخ دن آپہنچا جبکہ آپ نے اپنے قومی اور وطنی بھائیوں کی گزشتہ تقصیرات پر بعینہ حضرت یوسف والے کلمات "لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ" فرما کر قلم عفو کھینچ دیا۔
۸ ۔۔۔ حضرت یعقوب علیہ السلام یوسف اور ان کے عینی بھائی بنیامین سے بہت زیادہ محب کرتے تھے کیونکہ یہ دونوں اپنے علاتی بھائیوں سے چھوٹے تھے، والدہ کا انتقال ہو چکا تھا اور خاص حضرت یوسف کی نسبت اپنے نور فراست یا الہام ربانی سے سمجھ چکے تھے کہ ان کا مستقبل نہایت درخشاں ہے اور نبوت کا خاندانی سلسلہ ان کی ذات سے وابستہ ہونے والا ہے۔ خود یوسف علیہ السلام کا حسن صورت و سیرت اور کمال ظاہری و باطنی پدر بزرگوار کی محبت خصوصی کو اپنی طرف جذب کرتا تھا۔ دوسرے بھائیوں کو یہ چیز ناگوار تھی۔ وہ کہتے تھے کہ وقت پر کام آنے والے تو ہم ہیں۔ ہمارا ایک طاقتور جتھا ہے جو باپ کی ضعیفی میں کام آ سکتا ہے۔ ان چھوٹے لڑکوں سے کیا امید ہو سکتی ہے؟ ان ہی خیالات کے ماتحت اپنے والد بزرگوار کی نسبت کہتے تھے کہ وہ اس معاملہ میں سخت غلطی اور صریح خطا پر ہیں۔ اپنے نفع و نقصان کا صحیح موازنہ نہیں کرتے۔
۹ ۔۔۔ ۱: یعنی رشک و حسد کی آگ اندر ہی اندر سلگتی رہی۔ آخر آپس میں مشورہ کیا کہ یوسف کی موجودگی میں ممکن نہیں کہ والد بزرگوار کی خصوصی محبت و توجہ کو ہم اپنی طرف کھینچ سکیں، اس لیے یوسف کا قصد ہی یہاں سے ختم کر دینا چاہیے خواہ قتل کر دو یا کسی دور دراز ملک کی طرف پھینک دو جہاں سے واپس نہ آ سکے۔ جب وہ نہ رہیں گے تو باپ کی ساری توجہات اور مہربانیوں کے ہم ہی تنہا حق دار رہ جائیں گے۔ بنیامین کے معاملہ کو غالباً ان کے یہاں کوئی اہمیت نہیں تھی۔ گویا اس کی محبت کو یوسف کی محبت کا ضمیمہ سمجھتے تھے۔
٢: یعنی ایک مرتبہ قتل وغیرہ کا گناہ کرنا پڑے گا۔ اس سے فارغ ہو کر توبہ کر لیں گے اور خوب نیک بن جائیں گے، گویا رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی۔ بعض مفسرین نے "وَتَکُوْنُوا مِنْم بَعْدِہٖ قَوْماً صَالِحِیْنَ۔" کے معنی یہ لیے ہیں کہ یوسف کے بعد ہمارے سب کام ٹھیک اور درست ہو جائیں گے کیونکہ پدر بزرگوار کا دست شفقت یوسف سے مایوس ہو کر صرف ہمارے ہی سروں پر رہا کرے گا۔
۱۰ ۔۔۔ یہ کہنے والا "یہودا" تھا یعنی قتل کرنا بہت سخت بات ہے اور ہمارا مقصد بدون اس کے بھی حاصل ہو سکتا ہے۔ اگر تم یوسف کو یہاں سے علیٰحدہ کرنا چاہتے ہو تو آسان صورت یہ ہے کہ اس کو بستی سے دور کسی گم نام کنوئیں میں ڈال دو۔ ابو حیان نے بعض اہل لغت سے نقل کیا ہے کہ "غیابت الجب" اس طاقچہ وغیرہ کو کہتے ہیں جو کنوئیں (باؤلی) میں پانی سے ذرا اوپر بنا ہوا ہو۔ غرض یہ تھی کہ ہم خواہی نہ خواہی عمداً ہلاک کرنے کا گناہ اپنے سر نہ لیں۔ ایسے کنوئیں میں ڈال دینے کے بعد بہت ممکن ہے کوئی مسافر ادھر سے گزرے اور خبر پا کر کنوئیں سے نکال لے جائے۔ اس صورت میں ہمارا مقصد حاصل ہو جائے گا اور خون ناحق میں ہاتھ رنگین نہ کرنے پڑیں گے گویا سانپ مر جائے گا اور لاٹھی نہ ٹوٹے گی۔
۱۱ ۔۔۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے بھی باپ سے اس قسم کی درخواست کر چکے تھے مگر ان کا دل ان کے ساتھ بھیجنے پر مطمئن نہ ہوا۔
۱۲ ۔۔۔ ایسے خوبصورت بچے کے قوی گھر میں خالی پڑے رہنے سے بیکار ہو جاتے ہیں۔ مناسب ہے کہ ہمارے ساتھ اس کو بکریاں چرانے کے لیے جنگل بھیج دیجئے۔ وہاں جنگل کے پھل میوے خوب کھائے گا اور کھیل کود سے جسمانی ورزش بھی ہو جائے گی۔ کہتے ہیں ان کا کھیل بھاگ دوڑ اور تیر اندازی تھی۔ اور ویسے بھی بچوں کے لیے مناسب حد تک کھیلنا جیسا کہ ابو حیان نے کہا ہے نشاط و شگفتگی کا موجب ہے، غرض یعقوب علیہ السلام سے یوسف کو ساتھ لے جانے کی پرزور درخواست کی اور نہایت مؤکد طریقہ سے اطمینان دلایا کہ ہم برابر اس کی حفاظت کریں گے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ خود یوسف کو بھی جدا گانہ طور پر ساتھ چلنے اور باپ سے اجازت لینے کی ترغیب دی۔
۱۳ ۔۔۔ یعنی یوسف کی جدائی اور تمہارے ساتھ جانے کا تصور ہی مجھے غمگین بنائے دیتا ہے اس پر یہ خوف مزید رہا کہ بچہ ہے۔ تمہاری بے خبری اور غفلت میں بھیڑیا وغیرہ کوئی درندہ نہ پھاڑ کھائے۔ لکھا ہے کہ اس جنگل میں بھیڑیے کثرت سے تھے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ "ان کو آگے چل کر بھیڑیے کا بہانہ کرنا تھا وہ ہی ان کے دل میں خوف آیا۔ بعض محققین کا خیال یہ ہے کہ "اَخَافُ اَنْ یَّاْکُلَہُ الذِّئبُ" فرمایا حضرت یعقوب جیسے پیغمبر کے درجہ توکل و تفویض سے ذرا نازل بات تھی۔ اس کا جواب یہ ملا کہ لڑکوں نے گویا ان کے منہ میں سے بات پکڑ لی۔ جو اندیشہ ظاہر کیا تھا وہ ہی واقعہ بنا کر آئے۔
۱۴ ۔۔۔ یعنی اگر ہماری جیسی طاقتور جماعت کی موجودگی میں چھوٹے بھائی کو بھیڑیا کھا جائے تو سمجھو کہ ہم بالکل ہی گئے گزرے ہیں۔ اس سے بڑھ کر کیا خسارہ ہو گا کہ دس گیارہ تنو مند بھائیوں کی آنکھوں کے سامنے سے ایک کمزور بچہ بھیڑیے کے منہ میں پہنچ جائے۔ ایسا ہو تو کہنا چاہیے کہ ہم نے اپنا سب کچھ گنوا دیا۔
۱۵ ۔۔۔ مفسرین نے بہت سے درمیانی قصے نہایت درد انگیز اور رقت خیز پیرایہ میں نقل کیے ہیں جنہیں سن کر پتھر کا کلیجہ موم ہو جائے۔ خدا جانے وہ کہاں تک صحیح ہیں۔ قرآن کریم اپنے خاص نصب العین کے اعتبار سے اس قسم کی تفاصیل کو زیادہ در خور اعتناء اور لائق ذکر نہیں سمجھتا کیونکہ ان اجزاء سے کوئی مہم مقصد متعلق نہیں ہے۔ قرآن کریم اپنے سامعین کے دلوں میں وہ رقت پیدا کرنا چاہتا ہے جس کا منشاء خاص ایمان و عرفان ہو۔ عام رقت جو ہر کافر و مومن بلکہ حیوانات تک میں طبعا مشترک ہے اس پر عام خطباء کی طرح زور ڈالنا قرآن کی عادت نہیں۔ یہاں بھی اس نے درمیانی واقعات حذف کر کے آخری بات بتلا دی کہ برادران یوسف یوسف کو بلطائف الحیل باپ کے پاس سے لے گئے اور ٹھہری ہوئی قرار داد کے موافق کنوئیں میں ڈالنے کا تہیہ کر لیا۔ اس وقت ہم نے یوسف کو اشارہ کیا جس کی دوسروں کو مطلق خبر نہیں ہوئی کہ گھبراؤ نہیں، ایک وقت آیا چاہتا ہے کہ یہ سب کارروائیاں تم ان کو یاد دلاؤ گے اور اس وقت تم ایسے بلند مقام اور اعلیٰ مرتبہ پر ہو گے کہ یہ تم کو پہچان نہ سکیں گے یا طول عہد کی وجہ سے تم کو شناخت نہ کر سکیں گے۔ یہ خدائی اشارہ خواب میں ہوا یا بیداری میں، بطریق الہام ہوا یا فرشتہ کے ذریعہ سے، اس کی تفصیل قرآن میں نہیں۔ البتہ ظاہر الفاظ کو دیکھ کر کہا گیا ہے کہ وحی کا آنا چالیس برس کی عمر پر موقوف نہیں ہے کیونکہ حضرت یوسف اس وقت بہت کم عمر تھے۔ واللہ اعلم۔
۱۶ ۔۔۔ یا تو گھر پہنچتے پہنچتے اندھیرا ہو گیا یا جان بوجھ کر اندھیرے سے آئے کہ دن کے اجالے میں باپ کو منہ دکھانا زیادہ مشکل تھا اور رات کی سیاہ چادر بے حیائی، سنگدلی اور جھوٹی آہو بکاء کی کسی حد تک پردہ داری کر سکتی تھی۔ اعمش نے خوب فرمایا کہ برادران یوسف کا گریہ و بکاء سننے کے بعد ہم کسی شخص کو محض چشم اشکبار سے سچا نہیں سمجھ سکتے۔
۱۷ ۔۔۔ ۱:یعنی ہم نے حفاظت میں کچھ کوتاہی نہیں کی، ہمارے کپڑے جوتے وغیرہ قابل حفاظت چیزیں جہاں رکھی تھیں وہیں یوسف کو بٹھلایا اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کو بھاگ دوڑ شروع کی۔ بس ذرا آنکھ سے اوجھل ہونا تھا کہ بھیڑیے نے یوسف کو آ دبوچا۔ اس موقع پر اتنی ذرا سی دیر میں احتمال بھی نہ تھا کہ بھیڑیا پہنچ کر فورا یوسف کو شکار کر لے گا۔
۲: یعنی یوسف کے معاملہ میں پہلے ہی سے آپ کو ہماری طرف بدگمانی ہے۔ اگر آپ کے نزدیک ہم بالکل سچے ہوں تب بھی اس معاملہ خاص میں کسی طرح ہماری بات کا یقین نہیں کر سکتے۔
۱۸ ۔۔۔ ۱: ایک بکری یا ہرن وغیرہ ذبح کر کے اس کا خون یوسف کی قمیص پر چھڑک لائے تھے وہ جھوٹا خون پیش کر کے باپ کو یقین دلانے لگے، کہ بھیڑیے کے زخمی کرنے سے یہ کرتہ خون آلود ہو گیا۔
۲: بھلا جس کو شام میں بیٹھ کر مصر سے یوسف کے کرتہ کی خوشبو آتی تھی وہ بکری کے خون پر یوسف کے خون کا گمان کب کر سکتا تھا۔ انہوں نے سنتے ہی جھٹلا دیا۔ اور جیسا کہ بعض تفاسیر میں ہے کہنے لگے کہ وہ بھیڑیا واقعی بڑا حلیم و متین ہو گا جو یوسف کو لے گیا اور خون آلود کرتہ کو نہایت احتیاط سے صحیح و سالم اتار کر رکھ گیا۔ سچ ہے۔ "دروغ گو را حافظہ نہ باشد" خون کے چھینٹے تو دیے مگر یہ خیال نہ رہا کہ قمیض کو بے ترتیبی سے نوچ کر اور پھاڑ کر پیش کرتے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے صاف طور پر فرما دیا کہ یہ سب تمہاری سازش اور اپنے دلوں سے تراشی ہوئی باتیں ہیں۔ بہرحال میں صبر جمیل اختیار کرتا ہوں جس میں نہ کسی غیر کے سامنے شکوہ ہو گا نہ تم سے انتقام کی کوشش۔ صرف اپنے خدا سے دعا کرتا ہوں کہ اس صبر میں میری مدد فرمائے اور اپنی اعانت غیبی سے جو باتیں تم ظاہر کر رہے ہو، ان کی حقیقت اس طرح آشکارا کر دے کہ سلامتی کے ساتھ یوسف سے دوبارہ ملنا نصیب ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ یعقوب علیہ السلام کو مطلع کر دیا گیا تھا کہ جس امتحان میں وہ مبتلا کیے گئے ہیں وہ پورا ہو کر رہے گا اور ایک مدت معین کے بعد اس مصیبت سے نجات ملے گی۔ فی الحال ڈھونڈنے یا انتقامی تدابیر اختیار کرنے سے کوئی فائدہ نہیں یوسف ابھی ملیں گے نہیں ہاں دوسرے بیٹے ساری دنیا میں رسوا ہو جائیں گے اور ممکن ہے کہ طیش میں آ کر خود یعقوب علیہ السلام کو ایذاء پہنچانے کی کوشش کریں۔ کذا قال الامام الرازی فی الکبیر۔ واللہ اعلم۔
۱۹ ۔۔۔ ۱:کہتے ہیں تین روز تک یوسف علیہ السلام کنوئیں میں رہے۔ قدرت الٰہی نے حفاظت کی۔ ایک بھائی یہودا کے دل میں ڈال دیا کہ وہ ہر روز کنوئیں میں کھانا پہنچا آتا تھا۔ ویسے بھی سب بھائی خبر رکھتے تھے کہ مرے نہیں۔ کسی دوسرے ملک کا مسافر نکال لے جائے تو ہمارے درمیان سے یہ کانٹا نکل جائے۔ سچ ہے
عل است سعدی و درچشم دشمناں خار است
آخر مدین سے مصر کو جانے والا ایک قافلہ ادھر سے گزرا، انہوں نے کنواں دیکھ کر اپنا آدمی پانی بھرنے کو بھیجا اس نے ڈول پھانسا تو حضرت یوسف چھوٹے تو تھے ہی ڈول میں ہو بیٹھے اور رسی ہاتھ سے پکڑ لی کھینچنے والے نے ان کا حسن و جمال دیکھ کر بے ساختہ خوشی سے پکارا کہ یہ تو عجیب لڑکا ہے بڑی قیمت کو بکے گا۔
۲: یعنی کھینچنے والے نے اس واقعہ کو دوسرے ہمراہیوں سے چھپانا چاہا کہ اوروں کو خبر ہو گی تو سب شریک ہو جائیں گے۔ شاید یہ ظاہر کیا کہ یہ غلام اس کے مالکوں نے مجھ کو دیا ہے تاکہ مصر کے بازار میں فروخت کروں۔
۳: یعنی بھائی بے وطن کرنا چاہتے تھے اور قافلہ والے بیچ کر دام وصول کرنے کا ارادہ کر رہے تھے اور خدا تعالیٰ خزائن مصر کا مالک بنانا چاہتا تھا۔ وہ اگر چاہتا تو ان کارروائیوں کو ایک سیکنڈ میں روک دیتا، لیکن اس کی مصلحت تاخیر میں تھی، اس لیے سب چیزوں کو جانتے اور دیکھتے ہوئے انہیں ڈھیل دی گئی۔
۲۰ ۔۔۔ ۱: بھائیوں کو خبر ہوئی کہ قافلہ والے نکال لے گئے۔ وہاں پہنچے اور ظاہر کیا کہ یہ ہمارا غلام بھاگ آیا ہے چونکہ اسے بھاگنے کی عادت ہے اس لیے ہم رکھنا نہیں چاہتے، تم خرید و تو خرید سکتے ہو۔ مگر بہت سخت نگرانی رکھنا کہیں بھاگ نہ جائے کہتے ہیں اٹھارہ درہم یا کم و بیش میں بیچ ڈالا۔ اور نو بھائیوں نے دو دو درہم (تقریباً آٹھ آٹھ آنے) بانٹ لیے۔ ایک بھائی یہودا نے حصہ نہیں لیا۔
۲: یعنی اس قدر ارزاں بیچنے سے تعجب مت کرو۔ وہ اتنے بیزار تھے کہ مفت ہی دے ڈالتے تو مستبعد نہ تھا۔ جو پیسے مل گئے غنیمت سمجھا۔ بعض مفسرین کہتے ہیں آیت میں اس بیع کا ذکر ہے جو قافلہ والوں نے مصر پہنچ کر کی۔ اگر ایسا ہو تو کہا جائے گا کہ پڑی ہوئی چیز کی قدر نہ کی اور یہ اندیشہ رہا کہ پھر کوئی آ کر دعویٰ نہ کر بیٹھے۔ نیز آبق (بھگوڑا) ہونے کا عیب سن چکے تھے، اس لیے سستے داموں بیچ ڈالا۔ والظاہر ہوالاول۔ واللہ اعلم۔
۲۱ ۔۔۔ ۱: کہتے ہیں مصر پہنچ کر نیلام ہوا۔ عزیز مصر جو وہاں کا مدارالمہام تھا، اس کی بولی پر معاملہ ختم ہوا۔ اس نے اپنی عورت (زلیخا یا راعیل) سے کہا کہ نہایت پیارا، قبول صورت، اور ہونہار لڑکا معلوم ہوتا ہے۔ اس کو پوری عزت و آبرو سے رکھو۔ غلاموں کا معاملہ مت کرو۔ شاید بڑا ہو کر ہمارے کام آئے۔ ہم اپنا کاروبار اس کے سپرد کر دیں۔ یا جب اولاد نہیں ہے تو بیٹا بنا لیں۔
۲: یعنی ہم نے اپنی قدرت کاملہ اور تدبیر لطیف سے یوسف کو بھائیوں کی حاسدانہ سختیوں اور کنوئیں کی قید سے نکال کر عزیز مصر کے یہاں پہنچا دیا۔ پھر اس کے دل میں یوسف کی محبت و وقعت القاء فرمائی اس طرح ہم نے ان کو مصر میں ایک معزز جگہ دی اور اہل مصر کی نظروں میں ان کو وجیہ و محبوب بنا دیا۔ تاکہ یہ چیز آئندہ ترقیات اور سر بلندیوں کا پیش خیمہ ہو۔ اور بنی اسرائیل کو مصر میں بسانے کا ذریعہ بنے۔ ساتھ ہی یہ بھی منظور تھا کہ عزیز مصر کے یہاں رہ کر بڑے سرداروں کی صحبت دیکھیں تاکہ سلطنت کے رموز و اشارات سمجھنے اور تمام باتوں کو ان کے ٹھکانے پر بٹھانے کا کامل سلیقہ اور تجربہ حاصل ہو (تنبیہ) اسی سورت کے پہلے رکوع میں "تاویل الاحادیث" کا لفظ گزر چکا ہے۔ اس کی تفسیر وہاں ملاحظہ کر لی جائے۔
۳: یعنی بھائیوں نے یوسف کو گرانا چاہا، خدا نے ان کو آسمان رفعت پر پہنچا دیا۔ اکثر لوگ کوتاہ نظری سے دیکھتے نہیں کہ انسانی تدبیروں کے مقابلہ میں کس طرح خدا کا بندوبست غالب آتا ہے۔
۲۲ ۔۔۔ ۱: یعنی جب یوسف کے تمام قوی حد کمال کو پہنچ گئے تو خدا کے یہاں سے عظیم الشان علم و حکمت کا فیض پہنچا۔ نہایت مشکل عقدے اپنی فہم رسا سے حل کرتے، بڑی خوبی اور دانائی سے لوگوں کے نزاعات چکاتے، دین کی باریکیاں سمجھتے، جو زبان سے کہتے وہ کر کے دکھاتے۔ سفیہانہ اخلاق سے قطعاً پاک و صاف اور علم شرائع کے پورے ماہر تھے۔ تعبیر رؤیا کا علم تو ان کا مخصوص حصہ تھا۔
۲: جو لوگ فطرت کی راہنمائی یا تقلید صالحین اور توفیق ازلی سے نوائب و حوادث پر صابر رہ کر عمدہ اخلاق اور نیک چال چلن اختیار کرتے ہیں، حق تعالیٰ ان پر ایسے ہی انعام فرماتا ہے۔
۲۳ ۔۔۔ ۱: ادھر تو الطاف غیبیہ حضرت یوسف کی عجیب و غریب طریقہ سے تربیت فرما رہے تھے۔ ادھر عزیز کی بیوی (زلیخا) نے ان کے سامنے ایک نہایت ہی مزلۃ الاقدام موقع امتحان کھڑا کر دیا۔ یعنی حضرت یوسف کے حسن و جمال پر زلیخا مفتون ہو گئی اور دلکشی و ہوشربائی کے سارے سامان جمع کر کے چاہا کہ یوسف کے دل کو ان کے قابو سے باہر کر دے۔ ایک طرف عیش و نشاط کے سامان، نفسانی جذبات پورے کرنے کے لیے ہر قسم کی سہولیتں، یوسف علیہ السلام کا ہر وقت زلیخا کے گھر میں موجود رہنا، اس کا نہایت محبت اور پیار سے رکھنا، تنہائی کے وقت خود عورت کی طرف سے ایک خواہش کا بیتابانہ اظہار کسی غیر کے آنے جانے کے سب دروازے بند، دوسری طرف جوانی کی عمر، قوت کا زمانہ، مزاج کا اعتدال، تجرد کی زندگی، یہ سب دواعی واسباب ایسے تھے جن سے ٹکرا کر بڑے سے بڑے زاہد کا تقوی بھی پاش پاش ہو جاتا۔ مگر خدا نے جس کو محسن قرار دے کر علم و حکمت کے رنگ میں رنگین کیا اور پیغمبرانہ عصمت کے بلند مقام پر پہنچایا، اس پر کیا مجال تھی کہ شیطان کا قابو چل جاتا۔ اس نے ایک لفظ کہا "معاذ اللہ" (خدا کی پناہ) اور شیطانی جال کے سارے حلقے توڑ ڈالے۔ کیونکہ جس نے خدا کی پناہ لی اس پر کس کا وار چل سکتا ہے۔
۲: یعنی خدا کی پناہ میں ایسی قبیح حرکت کیسے کر سکتا ہوں؟ علاوہ بریں "عزیز" میرا مربی ہے جس نے مجھے ایسے عزت و راحت سے رکھا، کیا میں اپنے محسن کے ناموس پر حملہ کروں؟ ایسی محسن کشی اور بے انصافی کرنے والے کبھی بھلائی اور کامیابی کا منہ نہیں دیکھ سکتے نیز جب ظاہری مربی کا ہم کو اس قدر پاس ہے تو سمجھ لو کہ اس پروردگار حقیقی سے ہمیں کس قدر شرمانا اور حیا کرنا چاہیے جس نے محض اپنے فضل سے ہماری تربیت فرمائی اور اپنے بندوں کو ہماری خدمت و راحت رسانی کے لیے کھڑا کر دیا۔ (تنبیہ) بعض مفسرین نے "انہ ربی" کی ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف راجع کی ہے۔
۲۴ ۔۔۔ ۱: یعنی عورت نے پھانسنے کی فکر کی اور اس نے فکر کی کہ عورت کا داؤ چلنے نہ پائے اگر اپنے رب کی حجت و قدرت کا معائنہ نہ کرتا تو ثابت قدم رہنا مشکل تھا۔ بعض مفسرین نے "وَہَمَّ بِہَا" کو "وَلَقَدْ ہَمَّتْ بِہٖ"سے علیٰحدہ کر کے " لَوْ لَا اَن رَّاٰ بُرْہَانَ رَبِّہٖ" سے متعلق کیا ہے۔ جیسے "اِنْ کَادَتْ لَتُبْدِیْ بِہٖ لَوْلَا اَن رَّبَطْنَا عَلیٰ قَلْبِہَا" کی ترکیب ہے۔ اس وقت مقصود یوسف کے حق میں "ہم" کا ثابت کرنا نہیں، بلکہ نفی کرنا ہے۔ ترجمہ یوں ہو گا کہ عورت نے یوسف کا ارادہ کیا اور یوسف بھی عورت کا ارادہ کرتا اگر اپنے پروردگار کی قدرت و حجت نہ دیکھ لیتا۔ بعض نے "وہم بہا" میں لفظ "ہم" کو بمعنی میلان و رغبت کے لیا ہے۔ یعنی یوسف کے دل میں کچھ رغبت و میلان بے اختیار پیدا ہوا۔ جیسے روزہ دار کو گرمی میں ٹھنڈے پانی کی طرف طبعا رغبت ہوتی ہے لیکن نہ وہ پینے کا ارادہ کرتا ہے نہ یہ بے اختیاری رغبت کچھ مضر ہے۔ بلکہ باوجود رغبت طبعی کے اس سے قطعاً محترز رہنا مزید اجر و ثواب کا موجب ہے اسی طرح سمجھ لو کہ ایسے اسباب و دواعی قویہ کی موجودگی سے طبع بشری کے موافق بلا اختیار و ارادہ یوسف علیہ السلام کے دل میں کسی قسم کی رغبت و میلان کا پایا جانا نہ عصمت کے منافی ہے نہ ان کے مرتبہ کو گھٹاتا ہے۔ بلکہ صحیح مسلم میں ابوہریرہ کی حدیث ہے کہ اگر بندہ کا میلان کسی برائی کی طرف ہوا لیکن اس پر عمل نہ کیا تو اس کے فردحسنات میں ایک نیکی لکھی جاتی ہے۔ خدا فرماتا ہے کہ اس نے (باوجود رغبت میلان) میرے خوف سے اس برائی کو ہاتھ نہ لگایا۔ بہرحال باوجود اشتراک لفظی کے زلیخا کے "ہم" اور یوسف کے "ہم" میں زمین و آسمان کا تفاوت ہے۔ اس لیے قرآن کریم نے "ہم" کو ایک ہی لفظ میں جمع نہیں کیا اور نہ زلیخا کے "ہم" پر "لام" اور "قد" داخل کیا گیا۔ بلکہ سیاق ولحاق میں بہت سے دلائل یوسف علیہ السلام کی طہارت و نزاہت پر قائم فرمائیں جو غور کرنے والوں پر پوشیدہ نہیں۔ تفصیل "روح المعانی" اور "کبیر" وغیرہ میں موجود ہے۔
۲: "برہان" دلیل و حجت کو کہتے ہیں یعنی اگر یوسف علیہ السلام اپنے رب کی دلیل نہ دیکھتے تو قلبی میلان پر چل پڑتے۔ دلیل کیا تھی؟ زنا کی حرمت و شناعت کا وہ عین الیقین جو حق تعالیٰ نے ان کو عطا فرمایا۔ یا وہ ہی دلیل جو خود انہوں نے زلیخا کے مقابلہ میں "اِنَّہ، رَبِّی اَحْسَنَ مَثْوَایَ اِنَّہ، لَا یُفْلِحُ الظَّالِمُونَ" کہہ کر پیش کی۔ بعض کہتے ہیں کہ خدا کی قدرت سے اس وقت حضرت یعقوب علیہ السلام نظر آئے کہ انگلی دانتوں میں دبائے سامنے کھڑے ہیں۔ بعض نے کہا کہ کوئی غیبی تحریر نظر پڑی جس میں اس فعل سے روکا گیا۔ واللہ اعلم۔
۳: یعنی یہ برہان دکھانا اور ایسی طرح ثابت قدم رکھنا اس لیے تھا کہ یوسف ہمارے برگزیدہ بندوں میں ہیں۔ لہٰذا کوئی چھوٹی بڑی برائی خواہ ارادہ کے درجہ میں ہو یا عمل کے، ان تک نہ پہنچ سکے۔
۲۵ ۔۔۔ ۱: آگے یوسف تھے کہ جلدی دروازہ کھول کر نکل جائیں۔ اور پیچھے زلیخا انہیں روکنے کے لیے تعاقب کر رہی تھیں۔ اتفاقا یوسف کے قمیص کا پچھلا حصہ زلیخا کے ہاتھ میں آگیا۔ اس نے پکڑ کر کھینچنا چاہا۔ کھینچا تانی میں کرتہ پھٹ گیا۔ مگر یوسف جوں توں کر کے مکان سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ ادھر یہ دونوں آگے پیچھے دروازہ پر پہنچے، ادھر عورت کا خاوند عزیز مصر بھی پہنچ گیا۔ عورت نے فورا بات بنانی شروع کی۔
۲: عورت نے الزام یوسف پر رکھا کہ اس نے مجھ سے برا ارادہ کیا۔ ایسے شخص کی سزا یہ ہونی چاہیے کہ جیل خانہ بھیجا جائے یا کوئی اور سخت مار پڑے۔
۲۶ ۔۔۔ اب یوسف کو واقعہ ظاہر کرنا پڑا کہ عورت نے میرے نفس کو بے قابو کرنا چاہا۔ میں نے بھاگ کر جان بچائی۔ یہ جھگڑا بھی چل رہا تھا کہ خود عورت کے خاندان کا ایک گواہ عجیب طریقہ سے یوسف کے حق میں گواہی دینے لگا۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شیر خوار بچہ تھا، جو خدا کی قدرت سے حضرت یوسف کی برأت و وجاہت عند اللہ ظاہر کرنے کو بول پڑا۔ اور بعض علماء کہتے ہیں کہ بچہ نہیں کوئی مردِ دانا تھا جس نے ایسی پتہ کی بات کہی۔ واللہ اعلم۔
۲۹ ۔۔۔ اگر گواہ شیر خوار بچہ تھا جیسا کہ بعض معتبر روایات میں ہے تب تو اس کا بولنا اور ایسی گواہی دینا جو انجام کار یوسف کے حق میں مفید ہو، خود مستقل دلیل یوسف کی سچائی کی تھی۔ کرتہ کا آگے یا پیچھے سے پھٹا ہونا شہادت سے زائد بطور ایک علامت اور قرینہ کے سمجھنا چاہیے۔ اور اگر گواہ کوئی مرد دانا تھا تو بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ خارجی طریقہ سے حقیقت حال پر مطلع ہو چکا تھا مگر اس نے نہایت دانائی سے ایسے پیرایہ میں شہادت دی جو دفعتاً کسی کی جانبداری پر بھی محمول نہ ہو اور آخرکار یوسف کی برأت ثابت کر دے۔ جو پیرایہ اظہار واقعہ کا اس نے اختیار کیا وہ غیر جانبداروں کے نزدیک نہایت معقول تھا۔ کیونکہ اگر عورت کے دعوے کے موافق یوسف نے (معاذ اللہ) اس کی طرف اقدام کیا تو ان کا چہرہ عورت کی طرف ہو گا تو ظاہر ہے کہ کشمکش میں کرتہ بھی سامنے سے پھٹے اور اگر یوسف کا کہنا صحیح ہے کہ عورت مجھ کو اپنی طرف بلاتی تھی میں دروازہ کی طرف بھاگا، اس نے پکڑنے کے لیے میرا تعاقب کیا تو کھلی ہوئی بات ہے کہ کرتہ پیچھے سے پھٹا ہو گا کیونکہ اس صورت میں یوسف اس کی طرف متوجہ نہیں تھے بلکہ ادھر سے پیٹھ پھیر کر بھاگ رہے تھے۔ بہرحال جب دیکھا گیا کہ کرتہ آگے سے نہیں پیچھے سے پھٹا ہے۔ تو عزیز نے سمجھ لیا کہ یہ سب عورت کا مکروفریب ہے، یوسف قصور وار نہیں۔ چنانچہ اس نے صاف کہہ دیا کہ زلیخا کی پر فریب کارروائی اسی قسم کی ہے جو عموماً عورتیں کیا کرتی ہیں۔ اس نے یوسف سے استدعا کی کہ جو ہونا تھا ہو چکا آئندہ اس کا ذکر مت کرو کہ سخت رسوائی اور بدنامی کا موجب ہے۔ اور عورت کو کہا کہ یوسف سے یا خدا سے اپنے قصور کی معافی مانگ، یقیناً قصور تیرا ہی تھا۔
۳۰ ۔۔۔ یعنی شدہ شدہ شہر کی عورتوں نے کہنا شروع کیا کہ عزیز کی عورت اپنے نوجوان غلام پر مفتون ہو گئی۔ چاہتی ہے کہ اس کے نفس کو بے قابو کر دے۔ غلام کی محبت اس کے دل کی تہ میں پیوست ہو چکی ہے۔ حالانکہ ایسے معزز عہدہ دار کی بیوی کے لیے یہ سخت شرمناک کی بات ہے کہ وہ ایسے غلام پر گرنے لگے۔ ہمارے نزدیک اس معاملہ میں وہ اعلانیہ غلطی پر ہے۔
۳۱ ۔۔۔ ۱: عورتوں کی گفتگو کو مکر و (فریب) اس لیے کہا کہ مکاروں کی طرح چھپ چھپ کر یہ باتیں کرتی تھیں۔ اور زلیخا پر طعن کر کے گویا اپنی پارسائی کا اظہار مقصود تھا۔ حالانکہ یوسف کے بے مثال حسن و جمال کا شہرہ جس عورت کے کان میں پڑتا تھا، اس کی دید کا اشتیاق دل میں چٹکیاں لینے لگتا تھا۔ کچھ بعید نہیں کہ زلیخا پر طعن و تشنیع اور نکتہ چینی کرنے والیوں کے دلوں میں یہ ہی غرض پوشیدہ ہو کہ زلیخا کو غصہ دلا کر کسی ایسی حرکت پر آمادہ کر دیں جو یوسف کے دیدار کا سبب بن جائے۔ یا زلیخا کے دل میں اس کی نفرت بٹھا کر اپنی طرف مائل کرنے کا موقع نکالیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ زلیخا نے بعض عورتوں کو اس معاملہ میں اپنا راز دار بنایا ہو۔ اس نے راز داری کی جگہ پردہ داری اور خوردہ گیری شروع کر دی بہرحال ان کی گفتگو کو لفظ "مکر" سے ادا کرنے میں یہ سب احتمالات ہیں۔
۲: یعنی دعوت کر کے ان عورتوں کو بلوا بھیجا اور کھانے پینے کی ایک مجلس ترتیب دی جس میں بعض چیزیں چاقو سے تراش کر کھانے اور میوے وغیرہ کے سامنے چن کر ہر ایک عورت کے ہاتھ میں ایک چاقو دے دیا۔ تاکہ تراشنے کے قابل چیزوں کے کھانے میں کسی کو کلفت انتظار اٹھانا نہ پڑے۔ یہ سب سامان درست کر کے اس نے حضرت یوسف علیہ السلام کو جو کہیں قریب ہی موجود تھے آواز دی کہ ادھر نکل آئے۔ نکلنا تھا کہ بجلی سی کوند گئی، تمام عورتیں یوسف کے حسن و جمال کا دفعتاً مشاہدہ کرنے سے ہوش و حواس کھو بیٹھیں۔ اور مدہوشی کے عالم میں چھریوں سے پھلوں کی جگہ ہاتھ کاٹ لیے۔ گویا قدرت نے یہ ایک مستقل دلیل یوسف علیہ السلام کی نزاہت و صداقت پر قائم فرما دی کہ جس کے جمال بے مثال کی ذرا سی جھلک نے دیکھنے والی عورتوں کے حواس گم کر دیے۔ بحالیکہ یوسف نے آنکھ اٹھا کر بھی ان کے حسن و خوبی کی طرف نہ دیکھا تو یقیناً واقعہ یوں ہی ہوا ہو گا کہ زلیخا اس کے جمال ہوشربا کو دیکھ کر ہوش و خرد کھو بیٹھی۔ اور وہ معصوم فرشتہ اس کی طرح اپنا دامن عفت بچاتا ہوا صاف نکل گیا۔
۳: یعنی حسن و جمال اور نورانی صورت کے اعتبار سے فرشتہ معلوم ہوتا ہے کسی نے خوب کہا ہے
قَوْمٌ اِذَا قُوبِلُوا کَانُوا مَلاَئِکَۃً
حُسْنًا وَاِنْ قُوتِلُوا کَانُوا عَفَارِیَتًا
یا حیاء و عفت اور پاکدامنی جو چہرہ اور چال ڈھال سے ٹپک رہی تھی اسے دیکھ کر کہا کہ یہ آدمی نہیں کوئی معصوم فرشتہ معلوم ہوتا ہے۔
۳۲ ۔۔۔ اب زلیخا کو موقع ملا کہ عورتوں کے طعن و تشنیع کا تیر ان ہی کی طرف لوٹا دے۔ گویا اس وقت ذٰلِکُنّ الَّذِی لُمْتُنَّنِی فِیہِ" کہہ کر وہ اس شعر کا خلاصہ ادا کر رہی تھی۔
این است کہ خوں خوردہ و دل بردہ بسے را
بسم اللہ اگر تابِ ظر ہست کسے را
مجمع کا رنگ دیکھ کر زلیخا بالکل ہی کھلی پڑی اور واقعہ کا صاف صاف اظہار کر دیا کہ بیشک میں نے ان کا دل لینا چاہا تھا، مگر اس بندہ خدا نے ایسا مضبوط تھامے رکھا کہ کسی طرح نہ دیا۔ یہ خدا تعالیٰ نے شہر کی عورتوں کے مجمع میں حضرت یوسف علیہ السلام کی کمال عصمت و عفت اور غایت نزاہت و طہارت کا اقبالی ثبوت پیش کر دیا۔ زلیخا کا حال اس وقت وہ ہی تھا جو کسی نے کہا ہے۔
لَاتَخَفْ مَاصَنَعَتْ بِکَ الْاَشْوَاقُ،
وَاشْرَحْ ہَوَاکَ فَکُلُّنَا عُشَّاق،
زلیخا کی اس گفتگو میں کچھ تو عورتوں پر اپنی معذوری اور نامرادی کا اظہار تھا، تاکہ ان کی ہمدردی حاصل کر سکے۔ اور کچھ یوسف علیہ السلام کو تحکمانہ دھمکیوں سے مرعوب کرنا تھا کہ وہ خوفزدہ ہو کر آئندہ اس کی مطلب برآری پر آمادہ ہو جائیں۔ حالانکہ
عنقا شکار کس نہ شود دام باز چیں
۳۳ ۔۔۔ معلوم ہوتا ہے کہ زلیخا کا مایوسانہ غصہ اور مظلومانہ انداز بیان اس کی ہم جنسوں پر اثر کر گیا۔ یا پہلے ہی سے کچھ ملی بھگت ہو گی، بہرحال لکھا ہے کہ اب عورتوں نے یوسف کو سمجھانا شروع کیا کہ تم کو اپنی محسنہ اور سیدہ کا کہنا ماننا چاہیے۔ آخر اس غریب پر اتنا ظلم کیوں کرتے ہو، پھر یہ بھی سوچ لو کہ نافرمانی کا نتیجہ کیا ہو گا۔ خواہ مخواہ مصیبت سر پر لینے سے کیا فائدہ۔ کہتے ہیں کہ بظاہر زبان سے وہ زلیخا کی سفارش کر رہی تھیں مگر دل ہر ایک کا یوسف کو اپنی طرف کھینچنا چاہتا تھا۔ یوسف نے جب دیکھا کہ یہ عورت بری طرح پیچھے پڑی ہے اور شیطان ہر طرف اپنا جال بچھانے لگا ہے تو نہایت عزم و استقلال اور پیغمبرانہ استقامت سے بارگاہ احدیت میں درخواست کی کہ مجھے ان کے مکر و فریب سے بچائیے۔ اگر اس سلسلہ میں قید ہونا پڑے تو میں قید کو ارتکاب معصیت پر ترجیح دیتا ہوں۔ اگر آپ میری دستگیری نہ فرمائیں گے تو ڈر ہے کہ بے عقل ہو کر ان کی ابلہ فریبیوں کی طرف نہ جھک پڑوں۔ یہاں یوسف علیہ السلام کی زبانی یہ جتلا دیا کہ انبیاء کی عصمت بھی حق تعالیٰ کی دستگیری سے ہے اور یہ کہ وہ اپنی عصمت پر مغرور نہیں ہوتے بلکہ عصمت کا جو منشاء ہے (حفاظت و صیانت الٰہی) اسی پر نظر رکھتے ہیں۔
۳۴ ۔۔۔ ۱: یعنی ان کو عصمت و عفت پر پوری طرح ثابت قدم رکھا کسی کا فریب چلنے نہ دیا۔
۲: یعنی سب کی دعائیں سنتا ہے اور خبر رکھتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اپنے مانگے سے قید میں پڑے لیکن اللہ تعالیٰ نے اتنا ہی قبول فرمایا کہ ان کا فریب دفع کر دیا، باقی قید ہونا قسمت میں۔ آدمی کو چاہیے کہ گھبرا کر اپنے حق میں برائی نہ مانگے، پوری بھلائی مانگے گو ہو گا وہی جو قسمت میں ہے۔ "ترمذی میں ہے کہ ایک شخص کو حضور صلی اللہ علیہ و سلم) نے یہ دعا مانگتے سنا۔"اَللَّہُمَّ اِنِّی اَسْاَلُکَ الصَّبْرَ۔" (اے اللہ میں تجھ سے صبر مانگتا ہوں) آپ نے فرمایا "سألت اللّٰہ البلاء فاسئلہ العافیۃ" (تو نے اللہ سے بلا طلب کی کیونکہ صبر تو بلاء پر ہو گا۔ اب تو اس سے عافیت مانگ)
۳۵ ۔۔۔ یعنی باوجودیکہ حضرت یوسف کی برأت نزاہت کے بہت سے نشان دیکھ چکے تھے۔ پھر بھی ان کی مصلحت یہ ہوئی کہ یوسف کو ایک مدت تک قید میں رکھا جائے۔ تاکہ عام لوگ سمجھیں کہ قصور یوسف ہی کا تھا، عورت بیچاری مفت میں بدنام ہوئی۔ گویا عورت نے قید کی جو دھمکی دی تھی اسے پورا کرا کے چھوڑا۔ ان لوگوں کی غرض تو یہ ہوئی کہ عورت سے یہ بدنامی زائل ہو، یعنی ایک مدت تک یوسف اس کی نظر سے دور رہیں، اور عورت کا مطلب یہ ہو گا کہ شاید قید کی سختیاں اٹھا کر یوسف کچھ نرم پڑ جائیں۔ اس طرح اپنا مطلب نکال سکوں۔
۳۶ ۔۔۔ یعنی اسی زمانہ میں دو جوان قیدی جیل خانہ میں لائے گئے۔ جن میں ایک بادشاہ مصر (ریان بن الولید) کا نانبائی اور دوسرا ساقی (شراب پلانے والا تھا)۔ دونوں بادشاہ کو زہر دینے کے الزام میں ماخوذ تھے۔ قید خانہ میں یوسف علیہ السلام کی مروت و امانت، راست گوئی، حسن اخلاق، کثرت عبادت، معرفت تعبیر اور ہمدردی خلائق کا چرچا تھا۔ یہ دونوں قیدی حضرت یوسف سے بہت مانوس ہو گئے اور بڑی محبت کا اظہار کرنے لگے۔ ایک روز دونوں نے اپنا اپنا خواب بیان کیا۔ ساقی نے کہا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ بادشاہ کو شراب پلا رہا ہوں۔ نانبائی نے کہا کہ میرے سر پر کئی ٹوکرے ہیں جس میں سے پرندے نوچ کر کھا رہے ہیں۔ یوسف علیہ السلام کو بزرگ دیکھ کر تعبیر مانگی۔
۳۷ ۔۔۔ یوسف علیہ السلام نے اول ان کو تسلی دی کہ بیشک خوابوں کی تعبیر تمہیں بہت جلد معلوم ہوا چاہتی ہے روز مرہ جو کھانا تم کو ملتا ہے اس کے آنے سے پیشتر میں تعبیر بتلا کر فارغ ہو جاؤں گا۔ لیکن تعبیر خواب سے زیادہ ضروری اور مفید ایک چیز پہلے تم کو سناتا ہوں۔ وہ یہ کہ تعبیر وغیرہ کا یہ علم مجھ کو کہاں سے حاصل ہوا۔ سو یاد رکھو کہ میں کوئی پیشہ ور کاہن یا منجم نہیں بلکہ میرے علم کا سرچشمہ وحی اور الہام ربانی ہے جو مجھ کو حق تعالیٰ نے اس کی بدولت عطا فرمایا کہ میں نے ہمیشہ سے کافروں اور باطل پرستوں کے دین و ملت کو چھوڑے رکھا اور اپنے مقدس آباؤ اجداد (حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق، حضرت یعقوب) جیسے انبیاء و مرسلین کے دین توحید پر چلا اور ان کا اسوہ حسنہ اختیار کیا۔ ہمارا سب سے بڑا اور مقدم مطمح نظر یہ ہی رہا کہ دنیا کی کسی چیز کو کسی درجہ میں بھی خدا کا شریک نہ بنائیں نہ ذات میں، نہ صفات میں، نہ افعال میں، نہ ربوبیت و معبودیت میں۔صرف اسی کے آگے جھکیں، اسی سے محبت کریں، اسی پر بھروسہ رکھیں ۔ اور اپنا جینا مرنا سب اسی ایک پروردگار کے حوالہ کر دیں۔ بہرحال یوسف علیہ السلام نے موقع مناسب دیکھ کر نہایت موثر طرز میں ان قیدیوں کو ایمان و توحید کی طرف آنے کی ترغیب دی۔ پیغمبروں کا کام یہ ہی ہوتا ہے کہ دعوت و تبلیغ حق کا کوئی مناسب موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ یوسف علیہ السلام نے دیکھا کہ ان قیدیوں کے دل میری طرف متوجہ اور مجھ سے مانوس ہیں۔ قید کی مصیبت میں گرفتار ہو کر شاید کچھ نرم بھی ہوئے ہوں گے۔ لاؤ ان حالات سے فرض تبلیغ کے ادا کرنے میں فائدہ اٹھائیں۔ اول ان کو دین کی باتیں سکھلائیں۔ پھر تعبیر بھی بتلا دیں گے۔ یہ تسلی پہلے کر دی کہ کھانے کے وقت تک تعبیر معلوم ہو جائے گی تاکہ وہ نصیحت سے اکتائیں نہیں۔ (تنبیہ) بہت سے مفسرین نے "لَایَاتِیْکُمَا طَعَامٌ تُرْزَقَانِہٖ" الخ کے معنی یہ لیے ہیں کہ کبھی کھانا تمہارے پاس نہیں آتا ہے مگر میں آنے سے پہلے اس کی حقیقت پر تم کو مطلع کر دیا کرتا ہوں۔ یعنی آج کیا کھانا آئے گا، کس قسم کا ہو گا، پھر تعبیر بتلانا کیا مشکل ہے۔ گویا اول حضرت یوسف نے معجزہ کی طرف توجہ دلا کر انہیں اپنی نبوت کا یقین دلانا چاہا، تاکہ آئندہ جو نصیحت کریں زیادہ موثر واقع فی النفس ہو۔ اس تقدیر پر یوسف کا یہ معجزہ ایسا ہی ہو گا جیسے حضرت مسیح نے فرمایا تھا "وَاُنَبِّئُکُمْ بِمَاتَاْکُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِی بُیُوتِکُمْ۔" مگر مترجم محقق نے پہلی تفسیر اختیار کی ہے واللہ اعلم۔ حضرت شاہ عبدالقادر صاحب لکھتے ہیں "حق تعالیٰ نے قید میں یہ حکمت رکھی کہ ان کا دل کافروں کی محبت سے (یعنی کافر جو ان کی محبت و مدارت کرتے تھے، اس سے) ٹوٹا تو دل پر اللہ کا علم روشن ہوا۔ چاہا کہ اول ان کی دین کی بات سنا دیں پیچھے تعبیر خواب کہیں۔ اس واسطے تسلی کر دی، تاکہ نہ گھبرائیں۔ کہا کہ کھانے کے وقت تک وہ بھی بتا دوں گا۔
۳۸ ۔۔۔ یعنی ہمارا خالص توحید اور ملت ابراہیمی پر قائم رہنا نہ صرف ہمارے حق میں بلکہ سارے جہان کے حق میں رحمت و فضل ہے، کیونکہ خاندان ابراہیمی ہی کی شمع سے سب لوگ اپنے دلوں کے چراغ روشن کر سکتے ہیں لیکن افسوس ہے کہ بہت سے لوگ خدا کی اس نعمت عظیمہ کی قدر نہیں کرتے۔ چاہیے یہ تھا کہ اس کا احسان مان کر راہ توحید پر چلتے وہ الٹی ناشکری کر کے شرک و عصیان کی راہ اختیار کر رہے ہیں۔
۳۹ ۔۔۔ یعنی مختلف انواع و اشکال کے چھوٹے بڑے دیوتا جن پر تم نے خدائی اختیارات تقسیم کر رکھے ہیں ان سے لو لگانا بہتر ہے یا اس اکیلے زبردست خدا سے جس کو ساری مخلوق پر کلی اختیار اور کامل تصرف و قبضہ حاصل ہے اور جس کے آگے نہ کسی کا حکم چل سکتا ہے نہ اختیار، نہ اسے کوئی بھاگ کر ہرا سکتا ہے نہ مقابلہ کر کے مغلوب کر سکتا ہے۔ خود سوچو کہ سر عبودیت ان میں سے کس کے سامنے جھکایا جائے۔
۴۰ ۔۔۔ یعنی یوں ہی بے سند اور بے ٹھکانے کچھ نام رکھ چھوڑے ہیں جن کے نیچے حقیقت ذرہ برابر نہیں۔ ان ہی نام کے خداؤں کی پوجا کر رہے ہو۔ ایسے جہل پر انسان کو شرمانا چاہیے۔
۲: یعنی قدیم سے اللہ انبیاء علیہم السلام کی زبانی یہ ہی حکم بھیجتا رہا کہ خدا کی عبادت میں کسی کو شریک مت کرو۔ "وَسْئَلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِن رُّسُلِنَا اَجَعَلْنَا مِنْ دُونِ الرَّحْمٰنِ اٰلِہَۃً یَّعْبُدُونَ۔"(زخرف، رکوع ۴،آیت ۵۴)
۳: یعنی توحید خالص کے راستہ میں ایچ پیچ کچھ نہیں۔ سیدھی اور صاف سڑک ہے جس پر چل کر آدمی بے کھٹکے خدا تک پہنچتا ہے۔ لیکن بہت لوگ حماقت یا تعصب سے ایسی سیدھی بات کو بھی نہیں سمجھتے۔
۴۱ ۔۔۔ فرض تبلیغ ادا کرنے کے بعد یوسف علیہ السلام نے ان کے خوابوں کی تعبیر بیان فرمائی، کہ جس نے خواب میں شراب پلاتے دیکھا اس کی تعبیر یہ ہے کہ وہ بیداری میں بادشاہ کو شراب پلائے گا۔ اور جس نے سر پر سے جانوروں کو روٹیاں کھاتے دیکھا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سولی دیا جائے گا۔ پھر جانور اس کے سر سے نوچ نوچ کر کھائیں گے۔ قضا و قدر کا فیصلہ یہ ہی ہے جو کسی کے ٹالے ٹل نہیں سکتا۔ جو بات تم پوچھتے تھے وہ میں نے بتلا دی۔ یہ بالکل طے شدہ امر ہے۔ جس میں تخلف نہیں ہو سکتا چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ساقی زہر خورانی کی تہمت سے بری ہو گیا، اور خباز (نانبائی) کو جرم ثابت ہونے کی وجہ سے سزائے موت دی گئی۔
۴۲ ۔۔۔ ۱: یہاں ظن یقین کے معنی میں سے ہے جیسے "اَلَّذِیْنَ یَظُنُّونَ اَنَّہُم مُّلَاقُوا رَبِّہِمْ" میں یعنی یوسف علیہ السلام کو دونوں میں سے جس شخص کی بابت یقین تھا کہ بری ہو جائے گا جب وہ قید خانہ سے نکلا تو فرمایا اپنے بادشاہ کی خدمت میں میرا بھی ذکر کرنا کہ ایک ایسا شخص بے قصور قید خانہ میں برسوں سے پڑا ہے۔ مبالغہ کی ضرورت نہیں۔ میری جو حالت تو نے مشاہدہ کی ہے بلاکم و کاست کہہ دینا۔
۲: یعنی شیطان نے چھوٹنے والے قیدی کے دل میں مختلف خیالات و وساوس ڈال کر ایسا غافل کیا کہ اسے بادشاہ کے سامنے اپنے محسن بزرگ (یوسف علیہ السلام) کا تذکرہ کرنا یا دہی نہ رہا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یوسف کو کئی سال اور قید میں رہنا پڑا۔ مدت دراز کے بعد جب بادشاہ نے ایک خواب دیکھا اور اس کی تعبیر کسی کی سمجھ میں نہ آئی تب اس شخص کو یوسف علیہ السلام یاد آئے جیسا کہ آگے آتا ہے "وَقَالَ الَّذِی نَجَامِنْہُمَا وَادَّکَرَ بَعْدَ اُمَّۃٍ" بھلانے کی نسبت شیطان کی طرف اس لیے کی گئی کہ وہ القائے وساوس وغیرہ کا ذریعہ ہے جو سبب بنتا ہے نسیان کا۔ حضرت موسیٰ کے رفیق سفر نے کہا تھا "وَمَا اَنْسَانِیہُ اِلاَّ الشَّیْطَانُ اَنْ اَذْکُرَہ،" (کہف، رکوع ۹،آیت ۶۳) لیکن ہر ایک شر میں حق تعالیٰ کوئی خیر کا پہلو رکھ دیتا ہے۔ یہاں بھی گو اس نسیان کا نتیجہ تطویل قید کی صورت میں ظاہر ہوا۔ تاہم حضرت شاہ صاحب کی نکتہ آفرینی کے موافق اس میں یہ تنبیہ ہو گئی کہ ایک پیغمبر کا دل ظاہری اسباب پر نہیں ٹھہرنا چاہیے۔ بلکہ ابن جریر اور بغوی وغیرہ نے بعض سلف سے نقل کیا ہے کہ وہ فَاَنْسَاہُ الشَّیْطَانُ ذِکْرَ رَبِّہٖ کی ضمیر یوسف علیہ السلام کی طرف راجع کرتے ہیں۔ گویا "اُذْکُرْنِی عِنْدَ رَبِّکَ" کہنا ایک طرح کی غفلت تھی جو یوسف علیہ السلام کو عارض ہوئی۔ انہوں نے قیدی کو کہا کہ اپنے رب سے میرا ذکر کرنا حالانکہ چاہیے تھا کہ سب ظاہری سہارے چھوڑ کر وہ خود اپنے رب سے فریاد کرتے۔ بیشک کشف شدائد کے وقت مخلوق سے ظاہری استعانت اور اسباب کی مباشرت مطلقا حرام نہیں ہے۔ لیکن ابرار کی حسنات مقربین کی سیأت بن جاتی ہیں۔ جو بات عامۃ الناس بے کھٹکے کر سکتے ہیں انبیاء علیہم السلام کے منصب عالی کے اعتبار سے وہ ہی بات ایک قسم کی تقصیر بن جاتی ہے۔ امتحان و ابتلاء کے موقع پر انبیاء کی شان رفیع اسی کو مقتضی ہے کہ رخصت پر نظر نہ کریں، انتہائی عزیمت کی راہ چلیں۔ چونکہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا "اذکرنی عندربک" کہنا عزیمت کے خلاف تھا، اس لیے عتاب آمیز تنبیہ ہوئی کہ کئی سال تک مزید قید اٹھانی پڑی اور اسی لیے "انساء" کی نسبت شیطان کی طرف کی گئی۔ واللہ اعلم بالصواب۔ زیادہ تفصیل روح المعانی میں ہے۔
۴۳ ۔۔۔ ۱: وہ سوکھی بالیں ہری بالوں پر لپٹتی ہیں اور انہیں خشک کر دیتی ہیں۔ یہ خواب بادشاہ مصر "ریان بن الولید" نے دیکھا۔ جو آخرکار حضرت یوسف علیہ السلام کی رہائی کا اور ظاہری عروج کا سبب بنا۔ یوسف علیہ السلام کے قصہ میں جا بجا اس پر متنبہ فرمایا ہے کہ خدا جب کوئی بات چاہتا ہے غیر متوقع طریقہ سے اس کے ایسے اسباب فراہم کر دیتا ہے جن کی طرف آدمی کا خیال نہیں جاتا۔
۲: یعنی اگر اس فن میں کچھ مہارت رکھتے ہو تو میرے خواب کی تعبیر بتلاؤ۔
۴۴ ۔۔۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ اس فن سے جاہل تھے۔ اپنے جہل کا صاف لفظوں میں اقرار کرنے سے شرمائے تو یوں بات بنا دی کہ یہ کوئی خواب نہیں، محض پریشان خیالات ہیں، بسا اوقات انسان کو نیند میں ایسی صورتیں مخیل ہو جاتی ہیں جو لائق اعتناء نہیں، نہ ہم ایسے خوابوں کی تعبیر کا علم رکھتے ہیں۔ کیونکہ وہ علم تعبیر رؤیا کے اصول کے ماتحت نہیں ہوتے۔
۴۵ ۔۔۔ اب خواب کے سلسلہ میں ساقی کو جو قید سے چھوٹ کر آیا تھا مدت کے بعد حضرت یوسف یاد آئے اس نے بادشاہ اور اہل دربار سے کہا کہ اگر مجھے ذرا جانے کی اجازت دو تو میں اس خواب کی تعبیر لا سکتا ہوں۔ قید خانہ میں ایک مقدس بزرگ فرشتہ صورت موجود ہے جو فن تعبیر کا ماہر ہے (ممکن ہے اس نے اپنے خواب کا قصہ بھی ذکر کیا ہو) میں تعبیر لینے کے لیے اس کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں چنانچہ اجازت دی گئی۔ اس نے یوسف علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر وہ عرض کیا جو آگے آتا ہے۔
۴۶ ۔۔۔ ۱: "اَیُّہَا الصِّدِّیْقُ" کہنے سے یہ غرض تھی کہ آپ مجسم سچ ہیں۔ جو بات کبھی آپ کی زبان سے نکلی سچ ہو کر رہی امید ہے جو تعبیر اس خواب کر دیں گے ہو بہو پوری ہو کر رہے گی۔ یہ لفظ بتلا رہا ہے کہ انبیاء علیہم اسلام کے صدق و دیانت کا نقش کس طرح عام و خاص کے قلوب پر بیٹھ جاتا ہے۔
۲: یعنی خواب کی تعبیر اور اس کے ذریعہ سے آپ کی قدرو منزلت معلوم ہو۔
۴۹ ۔۔۔ یوسف علیہ السلام نے تعبیر بتلانے میں دیر نہ کی نہ کوئی شرط لگائی، نہ اس شخص کو شرمندہ کیا کہ تجھ کو اتنی مدت کے بعد اب میرا خیال آیا۔ اس سے انبیاء علیہم السلام کے اخلاق و مروت کا اندازہ ہوتا ہے۔ پھر وہ صرف خواب کی تعبیر مانگتا تھا۔ آپ نے تین چیزیں عطا فرمائیں۔ تعبیر، تدبیر، تبشیر، آپ کے کلام کا حاصل یہ تھا کہ سات موٹی گائیں اور سات ہری بالیں سات برس ہیں، جن میں متواتر خوشحالی رہے گی، کھیتوں میں خوب پیداوار ہو گی، حیوانات و نباتات خوب بڑھیں گے، اس کے بعد سات سال قحط ہو گا جس میں سارا پچھلا اندوختہ کھا کر ختم کر ڈالو گے۔ صرف آئندہ تخم ریزی کے لیے کچھ تھوڑا سا باقی رہ جائے گا۔ یہ سات سال دبلی گائیں اور سوکھی بالیں ہیں جو موٹی گایوں اور ہری بالوں کو ختم کر دیں گی۔ تعبیر بتلانے کے دوران میں حضرت یوسف نے از راہ شفقت و ہمدردی خلائق ایک تدبیر بھی تلقین فرما دی کہ اول سات سال میں جو پیداوار ہو اسے بڑی حفاظت سے رکھو اور کفایت شعاری سے اٹھاؤ۔ کھانے کے لیے جس قدر غلہ کی ضرورت ہو اسے الگ کر لو اور تھوڑا تھوڑا احتیاط سے کھاؤ۔ باقی غلہ بالوں میں رہنے دو تاکہ اس طرح کیڑے وغیرہ سے محفوظ رہ سکے۔ اور سات سال کی پیداوار چودہ سال تک کام آئے۔ ایسا نہ کرو گے تو قحط کا مقابلہ کرنا دشوار ہو گا۔ یہ تعبیر و تدبیر بتلانے کے بعد انہیں بشارت سنائی جو غالباً آپ کو وحی سے معلوم ہوئی ہو گی یعنی سات سال قحط رہنے کے بعد جو سال آئے گا اس میں حق تعالیٰ کی طرف سے فریاد رسی ہو گی اور خوب مینہ برسے گا۔ کھیتی باڑی، پھل میوے نہایت افراط سے پیدا ہوں گے، جانوروں کے تھن دودھ سے بھر جائیں گے۔ انگور وغیرہ نچوڑنے کے قابل چیزوں سے لوگ شراب کشید کریں گے۔ یہ آخری بات سائل کے حسب حال فرمائی۔ کیونکہ وہ یہ ہی کام کرتا تھا۔
۵۰ ۔۔۔ بادشاہ کچھ تو پہلے ہی ساقی کے تذکرے سے حضرت یوسف کا معتقد ہو گیا تھا۔ اب جو ایسی موزوں و دل نشین تعبیر اور رعایا کی ہمدردی کی تدبیر سنی تو ان کے علم و فضل، عقل و دانش اور حسن اخلاق کا سکہ اس کے دل پر بیٹھ گیا۔ فورا حکم دیا کہ ایسے شخص کو میرے پاس لاؤ، تاکہ اس کی زیارت سے بہرہ اندوز ہوں اور اس کے مرتبہ اور قابلیت کے موافق عزت کروں۔ قاصد پیام شاہی لے کر حضرت یوسف علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ مگر یوسف کی نظر میں اپنی دینی و اخلاقی پوزیشن کی برتری اور صفائی اعلیٰ سے اعلیٰ دنیاوی عزت و وجاہت سے زیادہ مہم تھی۔ آپ جانتے تھے کہ پیغمبر خدا کی نسبت لوگوں کی ادنیٰ بدگمانی بھی ہدایت و ارشاد کے کام میں بڑی بھاری رکاوٹ ہے۔ اگر آج میں بادشاہی فرمان کے موافق چپ چپاتے قید خانہ سے نکل گیا اور جس جھوٹی تہمت کے سلسلہ میں سالہا سال قید و بند کی مصائب اٹھائیں اس کا قطعی طور پر استیصال نہ ہوا تو بہت ممکن ہے کہ بہت سے ناواقف لوگ میری عصمت کے متعلق تردد اور شبہ میں پڑے رہ جائیں اور حاسدین کچھ زمانہ کے بعد ان ہی بے اصل اثرات سے فائدہ اٹھا کر کوئی اور منصوبہ میرے خلاف کھڑا کر دیں۔ ان مصالح پر نظر کرتے ہوئے آپ نے حکم شاہی کے امتثال میں جلدی نہ کی بلکہ نہایت صبر و استقلال کا مظاہرہ کرتے ہوئے قاصد کو کہا کہ تو اپنے مالک (بادشاہ) سے واپس جا کر دریافت کر کہ تجھ کو ان عورتوں کے قصہ کی کچھ حقیقت معلوم ہے جنہوں نے دعوت کے موقع پر اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے۔ حضرت یوسف کو ان عورتوں کے ناموں کی تفصیل کہاں معلوم ہو گی۔ یہ خیال کیا ہو گا کہ ایسا واقعہ ضرور عام شہرت حاصل کر چکا ہے۔ اس لیے واقعہ کے ایک ممتاز جزء (ہاتھ کاٹنے) کو ظاہر کر کے بادشاہ کو توجہ دلائی کہ اس مشہور و معروف قصہ کی تفتیش و تحقیق کرے۔ غالباً اب وہ عورتیں بتلا دیں گی کہ تقصیر کس کی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے صحیحین کی حدیث میں حضرت یوسف کے کمال صبر و تحمل کی اس طرح داد دی ہے۔ "لَوْلَبِثْتُ فِی السِّجْنِ مَالَبِثَ یُوسُف ُ لَاَ جَبْتُ الدَّاعِیَ" (اگر میں اتنی مدت قید میں رہتا جتنا یوسف رہا تو بلانے والے کی اجابت کرتا یعنی فورا ساتھ ہو لیتا) محققین کہتے ہیں کہ اس میں حضرت یوسف کے صبر و تحمل کی تعریف اور لطیف رنگ میں اپنی عبودیت کاملہ کا اظہار ہے۔ ہم نے اس مضمون کی تفصیل شرح صحیح مسلم میں کی ہے۔ یہاں اختصار کی وجہ سے زیادہ نہیں لکھ سکتے۔حضرت یوسف نے "سب کا فریب" فرمایا، اس واسطے کہ ایک کا فریب تھا اور سب اس کی مددگار تھیں اور اصل فریب والی کا نام شاید حق پرورش کی وجہ سے نہیں لیا۔ حیاء کی وجہ سے گول مول فرمایا۔ کیونکہ جانتے تھے کہ اصل حقیقت آخر کھل کر رہے گی۔ کذا فی الموضح۔
۵۱ ۔۔۔ ۱: بادشاہ نے دریافت کرنے کا ایسا عنوان اختیار کیا گویا وہ پہلے سے خبر رکھتا ہے تایہ دیکھ کر انہیں جھوٹ بولنے کی ہمت نہ ہو۔ نیز یوسف علیہ السلام کی استقامت و صبر کا اثر پڑا ہو گا کہ بدون اظہار برأت کے جیل سے نکلنا گوارا نہیں کرتے اور "اِنَّ رَبِّی بِکَیْدِ ہِنَّ عَلِیْمٌ" کہہ کر ان کے "کید" کا اظہار فرما رہے ہیں۔ ادھر ساقی وغیرہ نے واقعات سنائے ہوں گے ان سے بھی یوسف کی نزاہت اور عورتوں کے مکائد کی تائید ملی ہو گی۔
۲: سب عورتوں کی متفقہ شہادت کے بعد خود زلیخا نے بھی صاف اقرار کر لیا کہ قصور میرا ہے۔ یوسف بالکل سچے ہیں۔ بیشک میں نے ان کو اپنی جانب مائل کرنا چاہا تھا۔ لیکن وہ ایسے کاہے کو تھے کہ میرے داؤ میں آ جاتے۔
۵۲ ۔۔۔یعنی اتنی تحقیق و تفتیش اس لیے کرائی کہ پیغمبرانہ عصمت و دیانت بالکل آشکارا ہو جائے اور لوگ معلوم کر لیں کہ خائنوں اور دغا بازوں کا فریب اللہ چلنے نہیں دیتا۔ چنانچہ عورتوں کا فریب نہ چلا۔ آخر حق حق ہو کر رہا۔
۵۳ ۔۔۔ چونکہ حضرت یوسف نے اپنی براءت پر بہت زیادہ زور دیا۔ ممکن تھا کوئی سطحی آدمی اس سے فخر اور غرور و اعجاب کا شبہ کرنے لگتا اس لیے اپنی نزاہت کی حقیقت کھول دی کہ میں کوئی شیخی نہیں مارتا نہ پاک صاف رہنے میں اپنے نفس پر بھروسہ کر سکتا ہوں۔ محض خدا کی رحمت و اعانت ہے جو کسی نفس کو برائی سے روکتی ہے۔ یہ ہی رحمت خصوصی عصمت انبیاء علیہم السلام کی کفیل و ضامن ہے ورنہ نفس انسانی کا کام عموماً برائی کی ترغیب دینا تھا۔ خدا تعالیٰ کی خصوصی توفیق و دستگیری نہ ہوتی تو میرا نفس بھی دوسرے نفوس بشریہ کی طرح ہوتا۔ "اِنَّ رَبِّیْ غَفُوْرُ رَّحِیْمٌ" سے اشارہ کر دیا، کہ نفس امارہ جب توبہ کر کے "لوامہ" بن جائے تو خدا اس کی پچھلی تقصیرات معاف فرما دیتا ہے۔ بلکہ رفتہ رفتہ مہربانی سے "نفس مطمئنہ" کے درجہ تک پہنچا دیتا ہے (تنبیہ) حافظ ابن تیمیہ اور ابن کثیر وغیرہ نے "ذٰلِکَ لِیَعْلَمَ اَنِّیْ لَمْ اَخُنْہُ" سے "غَفُوْرّ ٌرَّحِیْمٌ" تک زلیخا کا مقولہ قرار دیا ہے یعنی زلیخا نے "اَنَا رَاوَدتُّہُ عَنْ نَفْسِہٖ" کا اقرار کر کے کہا کہ اس قرار و اعتراف سے عزیز کو یہ معلوم کرانا ہے کہ میں نے اس کی پیٹھ پیچھے کوئی بڑی خیانت نہیں کی۔ بیشک یوسف کو پھسلانا چاہا تھا مگر میری مراودت ان پر کارگر نہیں ہوئی۔ اگر میں نے مزید خیانت کی ہوتی تو ضرور اس کا پردہ فاش ہو کر رہتا۔ کیونکہ خدا خائنوں کے مکر و فریب کو چلنے نہیں دیتا۔ ہاں میں اپنے نفس کو بری نہیں کرتی، جتنی غلطی مجھ سے ہوئی اس کا اقرار کر رہی ہوں۔ دوسرے آدمیوں کی طرح نفس کی شرارتوں سے میں بھی پاک نہیں۔ ان سے تو یوسف جیسا پاکباز انسان ہی محفوظ رہ سکتا ہے۔ جس پر خدا کی خاص مہربانی اور رحمت ہے۔ ابو حیان نے بھی اس کو زلیخا کا مقولہ قرار دیا ہے۔ لیکن لِیَعْلَمَ" اور "لَمْ اُخُنْہُ" کی ضمیریں بجائے عزیز کے یوسف کی طرف راجع کی ہیں۔ یعنی اپنی خطا کا صاف اقرار اس لیے کرتی ہوں کہ یوسف کو معلوم ہو جائے کہ میں نے اس کی عدم موجودگی میں کوئی غلط بات نہیں کہی نہ اپنے جرم کو ان کی طرف منسوب کیا۔ واللہ اعلم۔
۵۴ ۔۔۔ ۱: یعنی میرا مشیر خاص رہے گا۔
۲: کچھ پہلے سے معتقد ہو چکا تھا۔ بالمشافہ باتیں سن کر بالکل ہی گرویدہ ہو گیا اور حکم دے دیا کہ آج سے آپ ہمارے پاس نہایت معزز و معتبر ہو کر رہیں گے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ " اب عزیز کا علاقہ موقوف کیا اپنی صحبت میں رکھا۔"
۵۵ ۔۔۔یعنی دولت کی حفاظت بھی پوری کروں گا اور اس کی آمد و خرچ کے ذرائع اور حساب و کتاب سے خوب واقف ہوں۔ یوسف نے خود درخواست کر کے مالیات کا کام اپنے سر لیا۔ تاکہ اس ذریعہ سے عامہ خلائق کو پورا نفع پہنچا سکیں۔ خصوصاً آنے والے خوفناک قحط میں نہایت خوش انتظامی سے مخلوق کی خبر گیری اور حکومت کی مالی حالت کو مضبوط رکھ سکیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام دنیا کی عقل بھی کامل رکھتے ہیں۔ اور یہ کہ ہمدردی خلائق کے لیے مالیات کے قصوں میں پڑنا شانِ نبوت یا بزرگی کے خلاف نہیں سمجھتے نیز ایک آدمی اگر نیک نیتی سے یہ سمجھے کہ فلاں منصب کا میں اہل ہوں اور دوسروں سے یہ کام اچھی طرح بن نہ پڑے گا تو مسلمانوں کی خیر طلبی اور نفع رسانی کی غرض سے اس کی خواہش یا درخواست کر سکتا ہے۔ اگر حسب ضرورت اپنے بعض خصال حسنہ اور اوصاف حمیدہ کا تذکرہ کرنا پڑے تو یہ ناجائز مدح سرائی میں داخل نہیں۔ عبدالرحمن بن سمرہ کی ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص از خود امارت طلب کرے تو اس کا بار اسی کے کندھوں پر ڈال دیا جاتا ہے (غیبی اعانت مددگار نہیں ہوتی) یہ اس وقت ہے جب طلب کرنا محض نفس پروری اور جاہ پسندی وغیرہ اغراض کی بناء پر ہو۔ واللہ اعلم۔
۵۶ ۔۔۔ جہاں چاہتے اترتے اور جو چاہتے تصرف کرتے۔ گویا ریان بن الولید برائے نام بادشاہ تھا۔ حقیقت میں یوسف بادشاہی کر رہے تھے۔ اور "عزیز" کہہ کر پکارے جاتے تھے۔ جیسا کہ آگے آئے گا۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ بادشاہ آپ کے ہاتھ پر مسلمان ہو گیا۔ نیز اسی زمانہ میں عزیز مصر کا انتقال ہوا تو اس کی عورت زلیخا نے آپ سے شادی کر لی۔ واللہ اعلم۔ محدثین اس پر اعتماد نہیں کرتے۔
۵۷ ۔۔۔ جو بھلائی اور نیکی کا راستہ اختیار کرے خدا اس کو دنیا میں بھی میٹھا پھل دیتا ہے۔ خواہ ثروت و حکومت یا لذتِ عیش، حیاتِ طیبہ، اور غنائے قلبی۔ حضرت یوسف کو یہ سب چیزیں عنایت فرمائیں۔ رہا آخرت کا اجر، سو وہ ایک ایماندار و پرہیزگار کے لیے دنیا کے اجر سے کہیں بہتر ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "یہ جواب ہوا ان کے سوال کا کہ اولادِ ابراہیم اس طرح "شام" سے مصر میں آئی اور بیان ہوا کہ بھائیوں نے حضرت یوسف کو گھر سے دور پھینکا تاکہ ذلیل ہو۔ اللہ نے عزت دی اور ملک پر اختیار دیا۔ ایسا ہی ہوا ہمارے حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو۔
۵۸ ۔۔۔ موضح القرآن میں ہے "جب حضرت یوسف ملک "مصر" پر مختار ہوئے خواب کے موافق سات برس خوب آبادی کی اور ملک کا اناج بھرتے گئے۔ پھر سات برس کے قحط میں ایک بھاؤ میانہ باندھ کر بکوایا اپنے ملک والوں کو اور پردیسیوں کو سب کو برابر مگر پردیسی کو ایک اونٹ سے زیادہ نہ دیتے تھے۔ اس میں خلق بچی قحط سے اور خزانہ بادشاہ کا بھر گیا۔ ہر طرف خبر تھی کہ مصر میں اناج سستا ہے ان کے بھائی خریدنے کی غرض سے آئے۔ "ان کے تن و توش، ہیأت، وضع قطع میں چنداں تغیر نہ ہوا تھا۔ ادھر حضرت یوسف برابر اپنے باپ بھائیوں کا تفقد کرتے رہے ہوں گے اور وہاں پہنچنے پر ان کا نام و نشان بھی دریافت کر لیا ہو گا جیسا کہ سلاطین و اعیان سے ملاقات کرنے میں عموماً ہوا کرتا ہے۔ چنانچہ بعض تفاسیر میں ہے کہ انہوں نے یوسف علیہ السلام سے اپنا نام و نسب وغیرہ بیان کیا۔ ہاں یوسف علیہ السلام جدائی کے وقت چونکہ بہت چھوٹے تھے اور بھائیوں کو پہلے سے ادھر خیال بھی نہ تھا، بادشاہوں کے یہاں عام آدمیوں کی یہ جرأت ہو سکتی ہے کہ ان کا نام و نسب وغیرہ دریافت کریں۔ اس لیے وہ یوسف کو نہ پہچان سکے۔
۵۹ ۔۔۔ حضرت یوسف نے اپنے بھائیوں کی خوب مدارات اور مہمانداری کی۔ ایک ایک اونٹ فی کس غلہ دیا۔ یہ خاص مہربانی اور اخلاق دیکھ کر کہتے ہیں انہوں نے درخواست کی کہ ہمارے ایک علاتی بھائی (بنیامین) کو بوڑھے غمزدہ باپ نے تسکین خاطر کے لیے اپنے پاس روک لیا ہے کیونکہ اس کا دوسرا عینی بھائی (یوسف) جو باپ کو بیحد محبوب تھا مدت ہوئی کہیں جنگل میں ہلاک ہو چکا ہے۔ اگر بنیامین کے حصہ کا غلہ بھی ہم کو مرحمت فرمائیں تو بڑی نوازش ہو گی۔ یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ اس طرح غائب کا حصہ دینا خلاف قاعدہ ہے تم پھر آؤ تو بنیامین کو ساتھ لاؤ تب اس کا حصہ پا سکو گے۔ میرے اخلاق اور مہمان نوازی کو تم خود مشاہدہ کر چکے ہو، کیا اس کے بعد تمہیں اپنے چھوٹے بھائی کے لانے میں کچھ تردد ہو سکتا ہے؟
۶۰ ۔۔۔ یعنی نہ لائے تو سمجھا جائے گا کہ تم جھوٹ بول کر اور دھوکہ دے کر خلاف قاعدہ ایک اونٹ زیادہ لینا چاہتے تھے اس کی سزا یہ ہو گی کہ آئندہ خود تمہارا حصہ بھی سوخت ہو جائے گا بلکہ میرے پاس یا میرے قلمرو میں آنے کی بھی اجازت نہ ہو گی۔
۶۱ ۔۔۔یعنی گو باپ سے اس کا جدا کرنا سخت مشکل ہے تاہم ہماری یہ کوشش ہو گی کہ باپ کو کسی تدبیر سے راضی کر لیں۔ امید ہے کہ کسی نہ کسی طرح ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہو کر رہیں گے۔
۶۲ ۔۔۔ یعنی جو پونجی دے کر غلہ خریدا تھا، حکم دیا کہ وہ بھی خفیہ طور پر ان کے اسباب میں رکھ دو تاکہ گھر پہنچ کر جب اسباب کھولیں اور دیکھیں کہ غلہ کے ساتھ قیمت بھی واپس دے دی گئی تو دوبارہ ادھر آنے کی ترغیب مزید ہو کہ ایسے کریم بادشاہ کہاں ملتے ہیں۔ اور ممکن ہے قیمت نہ موجود ہونے کی بناء پر دوبارہ آنے سے مجبور رہیں اس لیے قیمت واپس کر دی۔ بعض نے کہا کہ یوسف علیہ السلام نے بھائیوں سے قیمت لینا مروت و کرم کے خلاف سمجھا۔
۶۳ ۔۔۔یعنی یوسف کی طرح اس کے متعلق کچھ تردد نہ کیجئے۔ اب ہم چوکنے ہو گئے ہیں پوری طرح حفاظت کریں گے۔
۶۴ ۔۔۔ یعنی یہ ہی الفاظ "وَاِنَّا لَہُ لَحَافِظُوْنَ" تم نے یوسف کو ساتھ لے جاتے وقت کہے تھے۔ پھر تمہارے وعدہ پر کیا اعتبار ہو۔ ہاں اس وقت ضرورت شدید ہے۔ جس سے اغماض نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے تمہارے ساتھ بھیجنا ناگزیر معلوم ہوتا ہے۔ سو میں اس کو خدا کی حفاظت میں دیتا ہوں۔ وہ ہی اپنی مہربانی سے اس کی حفاظت کرے گا۔ اور مجھ کو یوسف کی جدائی کے بعد دوسری مصیبت سے بچائے گا۔
۶۵ ۔۔۔ ۱: یعنی بنیامین کا حصہ۔
۲: یعنی ایسی آسان بھرتی کو چھوڑنا نہیں چاہیے۔ جس طرح ہو بنیامین کو ہمارے ساتھ بھیج دیجئے۔ بعض نے "ذٰلِکَ کَیْلٌ یَّسِیْرٌ" کا اشارہ پہلے جو غلہ لائے تھے اس کی طرف کیا ہے اور "یسیر" کو بمعنی قلیل لیا ہے۔ یعنی جو پہلے لائے ہیں وہ حاجت کے اعتبار سے تھوڑا ہے۔ قحط کے زمانہ میں کہاں تک کام دے گا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ جس طرح بن پڑے ہم دوبارہ جائیں اور سب کا حصہ لے کر آئیں۔
۶۶ ۔۔۔ یعنی اگر تقدیر الٰہی سے کوئی ایسا حادثہ پیش آ جائے جس میں تم سب گھر جاؤ اور نکلنے کی کوئی سبیل نہ رہے تب تو میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ ہاں اپنے مقدور اور زندگی بھر بنیامین کی حفاظت میں کوتاہی نہ کرو گے۔ یہ پختہ عہد و پیمان اور قسمیں لے کر زیادہ تاکید و اہتمام کے طور پر فرمایا "وَاللّٰہُ عَلیٰ مَانَقُوْلُ وَکِیْلٌ"یعنی جو کچھ عہد و پیمان ہم اس وقت کر رہے ہیں وہ سب خدا کے سپرد ہیں۔ اگر کسی نے خیانت اور بدعہدی کی وہ ہی سزا دے گا، یا یہ کہ قول و قرار تو اپنے مقدور کے موافق پختہ کر رہے ہیں لیکن ان باتوں سے جو مقصد اصلی ہے وہ خدا کی حفاظت و نگہبانی سے ہی پورا ہو سکتا ہے۔ خدا نہ چاہے تو سارے اسباب و تدابیر رکھی رہ جائیں، کچھ نہ ہو۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "ظاہری اسباب بھی پختہ کر لیے اور بھروسہ اللہ پر رکھا۔ یہی حکم ہے ہر کسی کو۔
۶۷ ۔۔۔ برادران یوسف پہلی مرتبہ جو مصر گئے تھے عام مسافروں کی طرح بلا امتیاز شہر میں داخل ہو گئے تھے لیکن یوسف علیہ السلام کی خاص توجہات و الطاف کو دیکھ کر یقیناً وہاں کے لوگوں کی نظریں ان کی طرف اٹھنے لگی ہوں گی۔ اب دوبارہ جانا خاص شان و اہتمام سے بلکہ کہنا چاہیے کہ ایک طرح کی یوسف کی دعوت پر تھا۔ بنیامین جس کی حفاظت و محبت یعقوب علیہ السلام یوسف کے بعد بہت کرتے تھے۔ بھائیوں کے ہمراہ تھے یعقوب علیہ السلام کو خیال گزرا کہ ایک باپ کے گیارہ وجیہ خوش رو بیٹوں کا خاص شان سے بہیئات اجتماعی شہر میں داخل ہونا خصوصاً اس برتاؤ کے بعد جو عزیز مصر (یوسف) کی طرف سے لوگ پہلے مشاہدہ کر چکے تھے، ایسی چیز ہے جس کی طرف عام نگاہیں ضرور اٹھیں گی۔ "العین حق" نظر لگ جانا ایک حقیقت ہے (اور آجکل مسمریزم کے عجائبات تو عموماً اسی قوتِ نگاہ کے کرشمے ہیں) یعقوب علیہ السلام نے بیٹوں کو نظر بد اور حسد وغیرہ مکروہات سے بچانے کے لیے یہ ظاہری تدبیر تلقین فرمائی کہ متفرق ہو کر معمولی حیثیت سے شہر کے مختلف دروازوں سے داخل ہوں، تاکہ خواہی نہ خواہی پبلک کی نظریں ان کی طرف نہ اٹھیں ساتھ ہی یہ بھی ظاہر کر دیا کہ میں کوئی تدبیر کر کے قضاء و قدر کے فیصلوں کو نہیں روک سکتا۔ تمام کائنات میں حکم صرف خدا کا چلتا ہے۔ ہمارے سب انتظامات حکم الٰہی کے مقابلہ میں بیکار ہیں۔ ہاں تدبیر کرنا بھی اسی نے سمجھایا ہے اور جائز رکھا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ بچاؤ کی تدبیر کر لے مگر بھروسہ خدا پر رکھے گویا لڑکوں کو سنایا کہ میری طرح تم بھی تہ دل سے خدا کی حفاظت پر بھروسہ رکھو۔ تدابیر پر مغرور نہ بنو۔
۶۸ ۔۔۔ ۱: یعنی مختلف دروازوں سے علیٰحدہ علیٰحدہ۔
۲: یعنی جس طرح کہا تھا داخل ہوئے تو اگرچہ نظر یا ٹوک نہ لگی۔ لیکن تقدیر اور طرف سے آئی (بنیامین کو الزام سرقہ کے سلسلہ میں روک لیا گیا) تقدیر دفع نہیں ہوتی۔ سو جن کو علم ہے ان کو تقدیر کا یقین اور اسباب کا بچاؤ دونوں حاصل ہو سکتے ہیں۔ لیکن بے علم سے ایک ہو تو دوسرا نہ ہو، یا ہمہ تن اسباب پر اتکاء کر کے تقدیر کا انکار کر بیٹھتا ہے یا تقدیر پر یقین رکھنے کے یہ معنی سمجھ لیتا ہے کہ اسباب کو معطل کر دیا جائے، البتہ عارف اور باخبر لوگ تقدیر و تدبیر کو جمع کرتے اور ہر ایک کو اس کے درجہ میں رکھتے ہیں۔
۶۹ ۔۔۔ حضرت یوسف نے بنیامین کے ساتھ ممتاز معاملہ کیا۔ اور خلوت میں آہستہ سے آگاہ کر دیا کہ میں تیرا حقیقی بھائی (یوسف) ہوں۔ جو مظالم ان علاتی بھائیوں نے ہم پر کیے کہ مجھے باپ سے جدا کر کے کنویں میں ڈالا۔ غلام بنا کر بیچا۔ اور ہمارے باپ بھائی وغیرہ کو فراق کے صدمہ میں مبتلا کیا یا اب یہاں آتے ہوئے تمہارے ساتھ کوئی سختی کی، ان باتوں سے غمگین مت ہو۔ وقت آگیا ہے کہ ہمارے سب غم غلط ہو جائیں اور سختیوں کے بعد حق تعالیٰ راحت و عزت نصیب فرمائے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "اس بھائی کو جو یوسف نے آرزو سے بلایا اوروں کو حسد ہوا۔ اس سفر میں اس کو بات بات پر جھڑکتے اور طعنے دیتے۔ اب حضرت یوسف نے تسلی کر دی۔
۷۰ ۔۔۔ یعنی جب یوسف علیہ السلام کے حکم سے ان کا غلہ لدوایا اور سامان سفر تیار کیا گیا تو ایک چاندی کا پیالہ اپنے بھائی بنیامین کے اسباب میں بلا اطلاع رکھ دیا۔ جس وقت قافلہ روانہ ہونے لگا، محافظین کو پیالہ کی تلاش ہوئی۔ آخر ان کا شبہ اسی قافلہ پر گیا۔ قافلہ تھوڑی دور نکلا تھا کہ محافظین میں سے کسی نے آواز دی کہ ٹھرو۔ تم لوگ یقیناً چور معلوم ہوتے ہو (تنبیہ) اگر یہ لفظ یوسف کے حکم سے کہے گئے تو یہ مطلب ہو گا کہ کوئی مال چراتا ہے، تم وہ ہو جنہوں نے باپ کی چوری سے بھائی کو بیچ ڈالا۔
۷۱ ۔۔۔ یعنی ہم کو خواہ مخواہ چور کیوں بناتے ہو۔ اگر تمہاری کوئی چیز گم ہوئی ہے وہ بتلاؤ ہم ابھی کہیں گئے نہیں ہمارے اسباب میں تلاش کر لو۔
۷۲ ۔۔۔ محافظین نے کہا، بادشاہ کے پانی پینے کا پیالہ یا غلہ ناپنے کا پیمانہ گم ہو گیا ہے۔ اگر بدون حیل و حجت کے کوئی شخص حاضر کر دے گا تو غلہ کا ایک اونٹ انعام پائے گا۔ میں اس کا ذمہ دار ہوں۔
۷۳ ۔۔۔ یعنی مصر میں ہمارا چال چلن عام طور پر معلوم ہے کیا کوئی بتلا سکتا ہے کہ ہم نے یہاں کبھی کچھ شرارت کی؟ نہ ہم شرارتوں کے لیے یہاں آئے۔ اور نہ چوروں کے خاندان سے ہیں۔
۷۴ ۔۔۔ محافظین نے کہا کہ تم فضول حجتیں کر رہے ہو۔ اگر مال مسروقہ تمہارے پاس سے برآمد ہو گیا تو کیا کرو گے۔
۷۵ ۔۔۔یہ شریعت ابراہیمی میں چور کی سزا تھی۔ یعنی جس کے پاس سے چوری نکلے وہ ایک سال تک غلام ہو کر رہے۔ برادران یوسف نے اپنے قانون شرعی کے موافق بے تامل سزا کا ذکر کر دیا۔ کیونکہ انہیں پورا یقین تھا کہ ہم چور نہیں۔ نہ چوری کا مال ہمارے پاس سے برآمد ہو سکتا ہے۔ اس طرح اپنے اقرار سے خود پکڑے گئے۔
۷۶ ۔۔۔ ۱: یعنی اس گفتگو کے بعد محافظین ان کو "عزیز مصر" (یوسف علیہ السلام) کے پاس لے گئے اور سب ماجرا کہہ سنایا۔ انہوں نے تفتیش کا حکم دیا۔ پہلے دوسرے بھائیوں کی خرجیاں (زنبیلیں اور بیگ وغیرہ) دیکھے گئے، پیالہ برآمد نہ ہوا۔ اخیر میں بنیامین کے اسباب کی تلاشی ہوئی، چنانچہ پیالہ اس میں سے نکل آیا۔
۲: یا یوں تدبیر کی ہم نے یوسف کے لیے۔
۳: یعنی بھائیوں کی زبان سے آپ ہی نکلا کہ جس کے پاس مال نکلے غلام بنا لو۔ اس پر پکڑے گئے ورنہ حکومت مصر کا قانون یہ نہ تھا۔ اگر ایسی تدبیر نہ کی جاتی کہ وہ خود اپنے اقرار میں بندھ جائیں تو ملکی قانون کے موافق کوئی صورت بنیامین کو روک لینے کی نہ تھی۔
۴: یعنی جسے چاہیں حکمت و تدبیر سکھلائیں۔ یا اپنی تدبیر لطیف سے سربلند کریں۔ دیکھو وہ ہی لوگ جنہوں نے باپ کی چوری سے یوسف کو چند درہم میں بیچ ڈالا تھا۔ آج یوسف کے سامنے چوروں کی حیثیت میں کھڑے ہیں۔ شاید اس طرح ان کی پچھلی غلطیوں کا کفارہ کرنا ہو گا ۔
۵: یعنی دنیا میں ایک آدمی سے زیادہ دوسرا، دوسرے سے زیادہ تیسرا جاننے والا ہے مگر سب جاننے والوں کے اوپر ایک جاننے والا اور ہے جسے "عالم الغیب والشہادۃ" کہتے ہیں۔ (تنبیہ) واضح ہو کہ اس تمام واقعہ میں حضرت یوسف علیہ السلام کی زبان سے کوئی لفظ خلاف واقعہ نہیں نکلا۔ نہ کوئی حرکت خلاف شرع ہوئی۔ زیادہ سے زیادہ انہوں نے "توریہ" کیا "توریہ" کا مطلب ہے ایسی بات کہنا یا کرنا جس سے دیکھنے سننے والے کے ذہن میں ایک ظاہری اور قریبی مطلب آئے لیکن متکلم کی مراد دوسری ہو جو ظاہری مطلب سے بعید ہے۔ اگر یہ "توریہ" کسی نیک اور محمود مقصد کے لیے کیا جائے تو اس کے جائز بلکہ محمود ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ اور کسی مذموم و قبیح غرض کے لیے ہو تو وہ "توریہ "نہیں دھوکہ اور فریب ہے۔ یہاں حق تعالیٰ کو منظور تھا کہ یعقوب علیہ السلام کے ابتلاء و امتحان کی تکمیل کر دی جائے۔ یوسف کے بعد بنیامین بھی ان سے جدا ہوں۔ ادھر مدت کے بچھڑے ہوئے دو عینی بھائی آپس میں مل کر رہیں۔ یوسف کو امتحان کی گھاٹیوں سے نکالنے کے بعد اول علاتی بھائیوں پھر عینی بھائی والد بزرگوار اور سب کنبہ سے بتدریج ملائیں۔ دوسری طرف برادرانِ یوسف سے جو غلطیاں ہوئی تھیں کچھ ٹھوکریں کھا کر وہ بھی عفو و رحم کے دروازہ پر پہنچ جائیں۔ اور نہ معلوم کیا کیا حکمتیں ہوں گی جن کی وجہ سے یوسف علیہ السلام کو تھوڑا سا "توریہ" کرنے کی ہدایت ہوئی۔ انہوں نے پیالہ اپنے بھائی کے اسباب میں رکھا۔ پھر نہ کسی پر اس کی چوری کا الزام لگایا نہ یہ کہا کہ ہم فلاں کو چوری کی سزا میں پکڑتے ہیں۔ صورتیں ایسی پیدا ہوتی چلی گئیں جن سے آخر میں بنیامین کے لیے اپنے بھائی کے پاس عزت و راحت کے ساتھ رہنے کی سبیل نکل آئی۔ مصلحتہً بعض ایسے الفاظ بیشک استعمال کیے جن کے معنی متبادر مراد نہ تھے یا بعض چیزوں پر سکوت کیا جن کی نسبت اگر کچھ بولتے تو راز فاش ہو کر اصل مقصد فوت ہو جاتا۔ واللہ اعلم۔
۷۷ ۔۔۔ ۱: یہ اشارہ یوسف علیہ السلام کی طرف تھا۔ اپنی پاکبازی جتانے کے لیے محض ناحق کوشی اور عناد سے بنیامین کے جرم کو پختہ کر دیا اور اتنی مدت کے بعد بھی یوسف معصوم پر جھوٹی تہمت لگانے سے نہ شرمائے مفسرین نے اس موقع پر کئی قصے بیان کئے ہیں جن کی طرف برادرانِ یوسف نے چوری کے لفظ میں اشارہ کیا تھا۔ ان کے نقل کی یہاں حاجت نہیں۔
۲: یعنی ایسا سخت لفظ سن کر بھی یوسف بے قابو نہیں ہوئے، کیونکہ مصلحت خداوندی افشائے راز کو مقتضی نہ تھی۔ یوسف نے بات کو دل میں رکھا۔ جواب دے کر ان کے اتہام کی حقیقت نہ کھولی۔ اپنے جی میں کہا "اَنْتُمْ شَرٌّ مَّکَانًا وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَاتَصِفُونَ"یعنی الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے، مجھے چور بناتے ہو؟ حالانکہ تم نے ایسی چوری کی کہ بھائی کو باپ سے چرا کر بیچ ڈالا۔ باقی میری چوری کا حال اللہ کو معلوم ہے۔ بعض مفسرین نے قال اَنْتُمْ شَرٌّ مَّکَاناً الخ کا مطلب یہ لیا ہے کہ یوسف نے ان کو خطاب کر کے کہا کہ تم بڑے ہی بدترین لوگ ہو۔ ابھی تو کہہ رہے تھے "وَمَا کُنَّا سَارِقِیْنَ"ہم چوروں میں کے نہیں۔ جب ایک بھائی کے اسباب میں سے مال برآمد ہوا تو اس کے ساتھ دوسرے غیر حاضر بھائی کو بھی ملوث کرنے لگے گویا چوری کرنا تمہارا خاندانی پیشہ ہے (العیاذ باللہ) خدا خوب جانتا ہے کہ تم اپنے بیان میں کہاں تک سچے ہو۔ وہ ہی تم کو غلط بیانیوں کی سزا دے گا۔
۷۸ ۔۔۔ یعنی بوڑھے باپ کو بڑا صدمہ پہنچے گا، وہ ہم سب سے زیادہ اس کو اور اس کے بھائی یوسف کو چاہتے تھے۔ یوسف کے بعد اب اسی سے اپنے دل کو تسلی دیتے ہیں۔ آپ اگر اس کی جگہ ہم میں سے کسی ایک کو رکھ لیں تو بڑی مہربانی ہو گی۔ آپ ہمیشہ مخلوق پر احسانات کرتے ہیں اور ہم پر خصوصی احسان فرماتے رہے ہیں۔ امید ہے ہم کو اپنے کرم سے مایوس نہ فرمائیں گے۔
۷۹ ۔۔۔ ۱: یعنی خدا پناہ میں رکھے، کہ ہم کسی کو بے سبب دوسرے کے بدلے میں پکڑنے لگیں۔ ہم تو صرف اسی شخص کو روکیں گے جس کے پاس سے اپنی چیز ملی ہے۔ (وہ بنیامین ہے جو عینی بھائی ہونے کی حیثیت سے ہمارے پاس رہے گا) یہاں بھی "اِلَّامَنَ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَہٗ" کی جگہ "اِلَّا مَنْ سَرقَ" نہیں فرمایا جو مختصر تھا۔ کیونکہ واقعہ کے خلاف ہوتا۔
۲: یعنی مجرم کے بدلہ میں بے قصور کو پکڑیں تو تمہارے خیال اور قانون کے موافق ہم بے انصاف ٹھریں گے۔
۸۰ ۔۔۔ جب حضرت یوسف کا جواب سن کر مایوس ہو گئے تو مجمع سے ہٹ کر آپس میں مشورہ کرنے لگے۔ اکثروں کی رائے ہوئی کہ وطن واپس جانا چاہیے۔ ان میں جو عمر یا عقل وغیرہ کے اعتبار سے بڑا تھا اس نے کہا کہ باپ کے سامنے کیا منہ لے کر جائیں گے، جو عہد ہم سے لیا تھا اس کا کیا جواب دیں گے۔ ایک تقصیر تو پہلے یوسف کے معاملہ میں کر چکے ہیں جس کا اثر آج تک موجود ہے۔ اب بنیامین کو چھوڑ کر سب کا چلا جانا سخت بے حمیتی ہو گی۔ سو واضح رہے کہ بندہ تو کسی حال یہاں سے ٹلنے والا نہیں۔ اِلاّ یہ کہ خود والد بزرگوار مجھ کو یہاں سے چلے جانے کا حکم دیں یا اس درمیان میں قدرت کی طرف سے کوئی فیصلہ ہو جائے۔ مثلاً تقدیر سے میں یہیں مر جاؤں یا کسی تدبیر سے بنیامین کو چھڑا لوں۔ (تنبیہ) یہ کہنے والا غالباً وہ ہی بھائی تھا جس نے یوسف علیہ السلام کے معاملہ میں بھی نرم مشورہ دیا تھا۔"لَاتَقْتُلُوْا یُوْسُفَ۔
۸۱ ۔۔۔ یعنی مجھے چھوڑ دو اور تم سب جا کر باپ سے عرض کرو کہ ایسا واقعہ پیش آیا، جس کی کوئی توقع نہ تھی۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "یعنی تم کو قول دیا تھا کہ اپنی دانست پر۔ یہ کیا خبر تھی کہ بنیامین چوری کر کے پکڑا جائے گا۔ یا ہم نے چور کو پکڑ رکھنا بتایا اپنے دین کے موافق۔ یہ نہ معلوم تھا کہ" بھائی چور ہے۔
۸۲ ۔۔۔یعنی آپ معتبر آدمی بھیج کر اس بستی والوں سے تحقیق کر لیں جہاں یہ واقعہ پیش آیا۔ نیز دوسرے قافلہ والوں سے دریافت فرما لیں جو ہمارے ساتھ رہے اور واپس آئے ہیں۔ آپ کو ثابت ہو جائے گا کہ ہم اپنے بیان میں بالکل سچے ہیں۔
۸۳ ۔۔۔ پہلی بار کی بے اعتباری سے اس مرتبہ بھی حضرت یعقوب نے بیٹوں کا اعتبار نہ کیا۔ لیکن نبی کا کلام جھوٹ نہیں۔ بیٹوں کی بنائی بات تھی۔ حضرت یوسف بھی بیٹے تھے۔ "کذا فی الموضح" گویا "لَکُمْ" کا خطاب جنس ابناء کی طرف ہوا۔ واللہ اعلم۔ بعض مفسرین نے یہ مطلب لیا ہے کہ تم یہاں سے حفاظت کے کیسے وعدے کر کے اصرار کے ساتھ لے گئے وہاں پہنچ کر اتنا بھی نہ کہا کہ اس کے اسباب میں سے پیالہ برآمد ہونے سے چوری کیسے ثابت ہو گئی، شاید کسی نے چھپا دیا ہو۔ مدافعت تو کیا کرتے یہ کہہ کر کہ پہلے اس کے بھائی نے بھی چوری کی تھی اس کے جرم کو پختہ کر دیا۔ تمہارے دل میں کھوٹ نہ ہو تو یہ طرز عمل اختیار نہ کرتے۔ اب باتیں بنانے کے لیے آئے ہو۔ بہرحال میں تو اس پر بھی صبر ہی کروں گا کوئی حرف شکایت زبان پر نہ لاؤں گا۔ خدا کی قدرت و رحمت سے کیا بعید ہے کہ یوسف، بنیامین، اور وہ بھائی جو بنیامین کی وجہ سے رہ گیا ہے سب کو میرے پاس جمع کر دے۔ وہ سب کے احوال سے خبردار ہے اور ہر ایک کے ساتھ اپنی حکمت کے موافق معاملہ کرتا ہے۔ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ ہر قسم کے یاس انگیز احوال اور مرور دھور کے بعد بھی انبیاء کے قلوب مایوس نہیں ہو سکتے۔ وہ ہمیشہ خدا کی رحمت واسعہ پر اعتماد کرتے اور الطاف و منن کے امیدوار رہتے ہیں۔
۸۴ ۔۔۔ ۱: نیا زخم کھا کر پرانا زخم ہرا ہو گیا۔ بے اختیار پکار اٹھے "یٰا اَسَفیٰ عَلیٰ یُوْسُف"(ہائے افسوس یوسف)
۲: یعنی بے رونق یا بے نور ہو گئیں۔ علی اختلاف القولین۔
۳: حدیث میں ہے "نَحْنُ مَعَاشِرَ الْاَنْبِیَآءِ اَشَدُّ بَلائً ثُمَّ الْاَمْثَلُ فَالْاَمَثْلُ " یعنی انبیاء کی جماعت حق تعالیٰ کی طرف سے سخت ترین امتحانوں میں مبتلاء کی جاتی ہے۔ پھر امتحان کی اقسام ہیں۔ ہر نبی کو حق تعالیٰ اپنی حکمت اور اس کی استعداد کے موافق جس قسم کے امتحان میں چاہے مبتلا کرتا ہے۔ یعقوب علیہ السلام کے قلب میں یوسف کی فوق العادت محبت ڈال دی پھر ایسے محبوب اور ہونہار بیٹے کو جو خاندانِ ابراہیمی کا چشم و چراغ تھا، ایسے دردناک طریقے سے جدا کیا گیا۔ غمزدہ اور زخم خوردہ یعقوب کے جگر کو اس روح فرسا صدمہ نے کھا لیا تھا۔ وہ کسی مخلوق کے سامنے نہ حرف شکایت زبان پر لاتے تھے نہ کسی سے انتقام لیتے، نہ غصہ نکالتے۔غم کی بات منہ سے نہ نکلتی۔ ہاں جب اپنے کو بہت گھونٹتے تو دل کا بخار آنکھوں کی راہ سے ٹپک پڑتا۔ بیسیویں برس تک چشم گریاں اور سینہ بریاں کے باوجود ادائے فرائض و حقوق میں کوئی خلل نہ پڑنے دیا۔ ان کا دل جتنا یوسف کے فراق میں روتا تھا، اتنا ہی خدا کے حضور میں زیادہ گڑ گڑاتا تھا۔ درد و غم کی شدت اور اشکباری کی کثرت جس قدر ان کی بصارت کو ضعیف کرتی اسی قدر نورِ بصیرت کو بڑھا رہی تھی۔ بے تابی و اضطراب کا کیسا ہی طوفان اٹھتا، دل پکڑ کر اور کلیجہ مسوس کر رہ جاتے زبان سے اف نہ نکالتے، بنیامین کی جدائی سے جب پرانے زخم میں نیا چرکا لگا تو اس وقت بے اختیار "یا اسفی علی یوسف" صرف اتنا لفظ زبان سے نکلا۔ بقول حضرت شاہ صاحب "ایسا درد اتنی مدت دبا رکھنا پیغمبر کے سوا کس کا کام ہو سکتا ہے۔
۸۶ ۔۔۔ موضح القرآن میں ہے۔ یعنی کیا تم مجھ کو صبر سکھاؤ گے؟ بے صبر وہ ہے جو مخلوق کے آگے خالق کے بھیجے ہوئے درد کی شکایت کرے۔ میں تو اسی سے کہتا ہوں جس نے درد دیا اور یہ بھی جانتا ہوں کہ (یوسف زندہ ہے ضرور ملے گا اور اس کا خواب پورا ہو کر رہے گا) یہ مجھ پر آزمائش ہے دیکھوں کس حد پر پہنچ کر بس ہو۔
۸۷ ۔۔۔یعنی حق تعالیٰ کی مہربانی اور فیض سے نا امید ہونا کافروں کا شیوہ ہے۔ جنہیں اس کی رحمت واسعہ اور قدرتِ کاملہ کی صحیح معرفت نہیں ہوتی۔ ایک مسلمان کا کام یہ ہے کہ اگر پہاڑ کی چٹانوں اور سمندر کی موجوں کے برابر مایوس کن حالات پیش آئیں تب بھی خدا کی رحمت کا امیدوار رہے اور امکانی کوشش میں پست ہمتی نہ دکھلائے۔ جاؤ کوشش کر کے یوسف کا کھوج لگاؤ اور اس کے بھائی بنیامین کے چھڑانے کا کوئی ذریعہ تلاش کرو۔ کچھ بعید نہیں کہ حق تعالیٰ ہم سب کو پھر جمع کر دے۔ تیسرے بھائی کا ذکر شاید اس لیے نہیں کیا کہ وہ باختیار خود محض بنیامین کی وجہ سے رکا ہے۔ بنیامین چھوٹ جائے تو وہ کیوں پڑا رہے گا۔
۸۸ ۔۔۔ باپ کے فرمانے پر مصر کو پھر روانہ ہوئے۔ کیونکہ یوسف کا پتہ معلوم نہ تھا۔ یہ خیال کیا ہو گا کہ جس کا پتہ معلوم ہے (بنیامین) پہلے اس کی فکر کریں اور قحط کی وجہ سے غلہ کی ضرورت سے، عزیز کو ادھر بھی توجہ دلائیں۔ اگر دینے لینے کے معاملہ میں کچھ نرم پایا تو بنیامین کے متعلق گفت و شنید کریں گے۔ چنانچہ پہلی بات انہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام سے یہ ہی کہی کہ اے عزیز مصر! آجکل قحط و ناداری کی وجہ سے ہم پر اور ہمارے گھر پر بڑی سختی گزر رہی ہے۔ سب اسباب گھر کا بک گیا۔ کچھ نکمی اور حقیر سے پونجی رہ گئی ہے وہ غلہ خریدنے کے لیے ساتھ لائے ہیں آپ کے مکارم اخلاق اور گزشتہ مہربانیوں سے امید ہے کہ ہماری ناقص چیزوں کا خیال نہ فرمائیں گے اور تھوڑی قیمت میں غلہ کی مقدار گزشتہ کی طرح پوری دلوا دیں گے۔ یہ رعایت حقیقت میں ایک طرح کی خیرات ہو گی جو آپ ہم پر کریں گے یا اس کے علاوہ ہم کو بطور خیرات ہی کچھ دے دیجئے خدا آپ کا بھلا کرے گا۔ حضرت یوسف علیہ السلام یہ حال سن کر رو پڑے، شفقت و رحم دلی کا چشمہ دل میں جوش مار کر آنکھوں سے ابل پڑا۔ اس وقت حق تعالیٰ کے حکم سے اپنے تئیں ظاہر کیا کہ میں کون ہوں اور تم نے میرے ساتھ جو معاملہ کیا تھا، اس کے بعد میں کس مرتبہ پر پہنچا ہوں، اگلی آیت میں اسی اظہار کی تمہید ہے (تنبیہ) بعض نے تصدق کے معنی مطلق احسان کرنے کے لیے ہیں۔ جیسے "قصر صلوٰۃ" کی حدیث میں "صَدَقَۃٌ تَصَدَّقَ اللّٰہُ بِہَا عَلَیْکُمْ۔
۸۹ ۔۔۔ ۱: یعنی دونوں میں جدائی ڈالی اور دونوں سے بیر رکھا۔
۲: اللہ اکبر۔ صبر اور مروت و اخلاق کی حد ہو گئی کہ تمام عمر بھائیوں کی شکایت کا ایک حرف زبان پر نہ لائے۔ اتنا سوال بھی اس لیے کیا کہ وہ لوگ اپنے ذہنوں میں بیسیوں برس پہلے کے حالات کو ایک مرتبہ مستحضر کر لیں تاکہ ماضی و حال کے موازنہ سے خدا تعالیٰ کے احسانات کی حقیقت روشن ہو، جو یوسف پر ان مصائب و حوادث کے بعد ہوئے جن کی طرف آگے "قَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَیْنَا" میں اشارہ ہے۔ پھر سوال کا پیرایہ ایسا نرم اختیار کیا۔ جس میں ان کے جرم سے زیادہ معذرت کا پہلو نمایاں ہے یعنی جو حرکت اس وقت تم سے صادر ہوئی ناسمجھی اور بیوقوفی سے ہو گئی۔ تمہیں کیا معلوم تھا کہ یوسف کا خواب پورا ہو کر اور ہلال ایک روز بدر بن کر رہے گا۔
۹۰ ۔۔۔ ۱: ممکن ہے اس سوال سے گھبرائے ہوں کہ اتنی مدت کے بعد یہ کون گھر کا بھیدی نکل آیا۔ پھر عزیز مصر کو یوسف کے قصہ سے کیا مطلب۔ غیر معمولی مہربانیاں اور بنیامین کے ساتھ خصوصی برتاؤ پہلے سے دیکھ ہی رہے تھے۔ اس سوال نے دفعتاً ان کا ذہن ادھر منتقل کر دیا ہو کہ کہیں یوسف جسے ہم نے مصری قافلہ کے ہاتھ بیچ ڈالا تھا یہ ہی تو نہیں ہے۔ جب ادھر توجہ ہوئی تو بغور دیکھا ہو گا اور ممکن ہے یوسف نے خود بھی اپنے کو اس دفعہ زیادہ واضح طور پر پیش کیا ہو، یا تصریحاً کہہ دیا ہو کہ میں یوسف ہوں۔ غرض وہ سخت متعجب و حیرت زدہ ہو کر بول اٹھے۔ "اِنَّکَ لَاَ نْتَ یُوْسُفٌ" (سچ بتاؤ کیا تم ہی یوسف ہو؟)
۲: جدائی کو ملاپ سے، ذلت کو عزت سے، تکلیف کو راحت سے، تنگی کو عیش سے بدل دیا۔ جو غلام بنا کر چند دراہم میں فروخت کیا گیا تھا، آج خدا نے اسے ملک مصر کی حکومت بخشی۔
۳: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "جس پر تکلیف پڑے اور وہ شرع سے باہر نہ ہو اور گھبرائے نہیں تو آخر بلاء سے زیادہ عطاء ہو۔
۹۱ ۔۔۔ یعنی تجھ کو ہر حیثیت سے ہم پر فضیلت دی اور تو اسی لائق تھا، ہماری غلطی اور بھول تھی کہ تیری قدر نہ پہچانی، آخر تیرا خواب سچا اور ہمارا حسد بیکار ثابت ہوا۔
۹۲ ۔۔۔ ۱: یوسف علیہ السلام بھائیوں سے اتنا بھی سننا نہیں چاہتے تھے فرمایا، یہ تذکرہ مت کرو آج میں تمہیں کوئی الزام نہیں دیتا۔ تمہاری سب غلطیاں معاف کر چکا ہوں۔ جو لفظ میں نے کہے محض حق تعالیٰ کا احسان اور صبر و تقویٰ کا نتیجہ ظاہر کرنے کی نیت سے کہے آج کے بعد تمہاری تقصیر کا ذکر بھی نہ ہو گا۔ میں دعا کرتا ہوں کہ تم نے جو خطائیں خدا تعالیٰ کی کی ہیں، وہ بھی معاف کر دے۔
۲: میری مہربانی بھی اس کی مہربانی کا ایک پر تو ہے۔
۹۳ ۔۔۔ یعنی میں بحالت موجودہ شام کا سفر نہیں کر سکتا۔ تم جاؤ والدین اور اپنے سب متعلقین کو یہاں لے آؤ۔ چونکہ والد بزرگوار کی نسبت وحی سے یا بھائیوں کی زبانی معلوم ہوا ہو گا کہ بینائی نہیں رہی یا نگاہ میں فرق آگیا ہے، اس لیے اپنا قمیص دے کر فرمایا کہ یہ ان کی آنکھوں کو لگا دینا بینائی بحال ہو جائے گی۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "ہر مرض کی اللہ کے ہاں دوا ہے۔ آنکھیں گئی تھیں ایک شخص کے فراق میں، اسی کے بدن کی چیز ملنے سے چنگی ہوئیں۔ یہ کرامت تھی حضرت یوسف علیہ السلام کی۔" اور کرامت نہ کہیں تب بھی آجکل واقعات و مشاہدات کی بنا پر یہ بات مان لی گئی ہے کہ کسی سخت صدمہ یا غیر معمولی خوشی کے اثر سے بعض نابینا دفعتاً بینا ہو گئے ہیں۔
۹۴ ۔۔۔ ۱: خدا کی قدرت یوسف مصر میں موجود ہیں کبھی نہ کہا کہ یوسف کی خوشبو آتی ہے۔ کیونکہ خدا کو امتحان پورا کرنا تھا۔ اب بلانے کی ٹھری تو ادھر قافلہ یوسف کا قمیص لے کر مصر سے نکلا ادھر پیراہن یوسفی کی خوشبو یعقوب کے مشام جان کو معطر کرنے لگی۔ ایک یہ کیا، پورا واقعہ ہی عجائب قدرت کا ایک مرقع ہے یعقوب جیسے مشہور و معروف پیغمبر شام میں رہیں اور یوسف جیسی جلیل القدر شخصیت مصر میں بادشاہت کرے۔ یوسف کے بھائی کئی مرتبہ مصر آئیں، خود یوسف کے مہمان بنیں اس کے باوجود خداوند قدوس کی حکمت غامضہ اور مشیت قاہرہ کا ہاتھ باپ کو بیٹے سے بیسیوں برس تک علیٰحدہ رکھے اور خون کے آنسو رلا کر امتحان کی تکمیل کرائے، "جَلَّتْ قُدْرَتُہ، وَعَزَّ سُلْطَانَہ،
۲: یعنی یہ بات کہتے ہوئے جھجکتا ہوں۔ کیونکہ تمہاری سمجھ میں نہیں آئے گی کہہ دو گے، بڈھا سٹھیا گیا ہے۔
۹۵ ۔۔۔یعنی یوسف کی محبت اس کے زندہ ہونے اور دوبارہ ملنے کا یقین تیرے دل میں جاگزیں ہے۔ وہ ہی پرانے خیالات ہیں جو یوسف کی خوشبو بن کر دماغ میں آتے ہیں۔
۹۶ ۔۔۔ ۱: یعنی بینائی واپس آ گئی، دوبارہ حسب سابق نظر آنے لگا۔
۲: یعنی میں نے کہا تھا یوسف کی خوشبو آ رہی ہے۔ آخر سچ ہوا۔ یا بیٹوں کو کہا تھا کہ یوسف کو تلاش کرو۔ اللہ کی رحمت سے کیا بعید ہے کہ ہم سب کو پھر اکٹھا کر دے۔ دیکھ لو وہ ہی صورت ہوئی۔
۹۷ ۔۔۔یعنی توجہ اور دعا کر کے خدا سے ہمارے گناہ معاف کرائیے ہم سے بڑی بھاری خطائیں ہوئی ہیں۔ مطلب یہ تھا کہ پہلے آپ معاف کر دیں۔ پھر صاف دل ہو کر بارگاہ رب العزت سے معافی دلوائیں کیونکہ جو خود نہ بخشے وہ خدا سے کہاں بخشوائے گا۔
۹۸ ۔۔۔ یعنی قبول کی گھڑی آنے دو ، اس وقت اپنے مہربان خدا کے آگے تمہارے لئے ہاتھ اٹھاؤں گا ،کہتے ہیں جمعہ کی شب یا تہجد کے وقت کا انتظار تھا۔
۹۹ ۔۔۔ شہر سے باہر استقبال کو نکلے۔ ماں باپ کو اپنے قریب جگہ دی (اس میں مفسرین کا اختلاف ہے بعض کا قول ہے کہ حضرت یوسف کی والدہ پیشتر وفات پا چکی تھیں۔ جیسا کہ سابق فوائد میں گزر چکا یہاں خالہ کا ذکر ہے اور بعض کہتے ہیں کہ والدہ حیات تھیں۔ اور حضرت یعقوب علیہ السلام کے ساتھ مصر تشریف لائی تھیں) سب کو فرمایا شہر میں چلو، قحط وغیرہ کا اب کچھ اندیشہ مت کرو۔ انشاء اللہ بالکل دل جمعی اور راحت و اطمینان سے رہو گے بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ الفاظ شہر میں پہنچ کر کہے۔ گویا"اُدْخُلُوْا مِصْرَ" الخ کے معنی ہوئے مصر میں قیام کرو بے کھٹکے۔
۱۰۰ ۔۔۔ ۱: یوسف نے اپنی طرف سے والدین کی تعظیم کی، تخت پر بٹھلایا لیکن خدا کو یوسف کی جو تعظیم کرانی تھی اسے یوسف کب روک سکتے تھے۔ اس وقت کے دستور کے موافق ماں باپ اور سب بھائی یوسف علیہ السلام کے آگے سجدہ میں گر پڑے۔ یہ سجدہ تعظیمی تھا، جو بقول حافظ عماد الدین ابن کثیر آدم کے زمانہ سے مسیح علیہ السلام کے عہد تک جائز رہا۔ البتہ شریعت محمدیہ نے ممنوع و حرام قرار دیا۔ جیسا کہ احادیث کثیرہ اس پر شاہد ہیں بلکہ حضرت شاہ عبدالقادر رحمۃ اللہ نے وَاَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلّٰہِ الخ سے حرمت کا اشارہ نکالا ہے۔ بعض مفسرین نے اس جگہ سجدہ کے معنی متبادر مراد نہیں لیے۔ محض جھک جانے کے معنی لیے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ سجدہ یوسف کو نہ تھا بلکہ یوسف کی عزت و عظمت دیکھ کر سب نے خدا کے سامنے سجدہ شکر ادا کیا۔ اس تقدیر پر وَخَرُّوْالَہ، میں لام سببیہ ہو گا۔ یعنی یوسف کے عروج و اقتدار کے سبب سے خدا کے آگے سجدہ میں گر پڑے (تنبیہ) تعظیم اور عبادت دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ غیر اللہ کی تعظیم کلیۃً ممنوع نہیں، البتہ غیر اللہ کی عبادت شرک جلی ہے۔ جس کی اجازت ایک لمحہ کے لیے کبھی نہیں ہوئی، نہ ہو سکتی ہے "سجود عبادت" یعنی غیر اللہ کو کسی درجہ میں نفع و ضرر کا مستقل مالک سمجھ کر سجدہ کرنا شرک جلی ہے جس کی اجازت کبھی کسی ملت سماوی میں نہیں ہوئی۔ ہاں "سجود تعظیم" یعنی عقیدہ مذکورہ بالا سے خالی ہو کر محض تعظیم و تکریم کے طور پر سربسجود ہونا شرائع سابقہ میں جائز تھا۔ شریعت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والتسلیم نے اس کی بھی جڑ کاٹ دی۔ حضرت شاہ ولی اللہ نے حجۃ اللہ البالغہ" میں اقسام شرک پر جو دقیق بحث کی ہے اسے دیکھنا چاہیے۔
۲: یعنی میرا اس میں کچھ دخل نہیں۔ خواب کی تعبیر پوری ہوئی تھی وہ خدا نے پوری کر دکھائی۔
۳: خدا تعالیٰ کے احسانات ذکر فرمائے اور اس کی تدبیر لطیف کی طرف توجہ دلائی کہ کس طرح مجھ کو قید سے نکال کر ملک کا حاکم مختار بنا دیا اور اس جھگڑے کے بعد جو شیطان نے ہم بھائیوں میں ڈال دیا تھا جب کہ کوئی امید دوبارہ ملنے کی نہ رہی، کیسے اسباب ہمارے ملاپ کے فراہم کر دیے اس موقع پر اپنی مصائب وتکالیف کا کچھ ذکر نہ کیا، نہ کوئی حرف شکایت زبان پر لائے، بلکہ بھائیوں کے واقعہ کی طرف بھی ایسے عنوان سے اشارہ کیا کہ کسی فریق کی زیادتی یا تقصیر ظاہر نہ ہونے پائے۔ مبادا بھائی سن کر محجوب ہوں۔ اللہ اکبر، یہ اخلاق پیغمبروں کے سوا کس میں ہوتے ہیں۔
۱۰۱ ۔۔۔ ۱: اسی سورت کے پہلے رکوع میں "تَاْوِیْلَ الْاَحَادِیْثِ" کی تفسیر گزر چکی ہے۔
۲: یا تو لقاء اللہ کے شوق میں فی الحال موت کی تمنا کی یا یہ مطلب ہے کہ جب کبھی موت آئے اسلام (یعنی کامل تسلیم و رضاء) پر آئے۔ (تنبیہ) حدیث میں آیا ہے کہ کوئی شخص کسی مصیبت اور تکلیف سے گھبرا کر موت کی تمنا نہ کرے۔ اس سے مفہوم ہوتا ہے کہ جب لقاء اللہ یا اور کسی غرض صالح کی وجہ سے موت کی تمنا کر سکتا ہے جیسے ساحرین فرعون نے دعا کی تھی "رَبَّنَا اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبَرًا وَّتَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَ" یا حضرت مریم نے کہا تھا "یَالَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ ہَذَا وَکُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا" اور معاذ کی حدیث میں ہے "وَاِذَا اَرَدَّتَّ بِقَوْمٍ فِتْنَۃً فَاَقْبِضِیْ اِلَیْکِ غَیرَ مَفْتُوْنٍ" اور مسند احمد میں حدیث ہے یِکْرَہُ الْمَوْتَ وَالْمَوْتُ خَیْرٌ لِّلْمُؤْمِنِ مِنَ الْفِتَنِ حضرت علی نے ہجوم فتن کے وقت دعاء کی "اَللّٰہُمَّ خُذْنِیْ اِلَیْکَ فَقَدْ سَمِتَہُمْ وَسَئِمُوْنِیْ" امام بخاری کو جب امیر خراسان کے ساتھ جھگڑا پیش آیا تو یہ دعا کرنی پڑی۔ "اَللّٰہُمَّ تَوَفَّنِیْ اِلَیْکَ" حدیث میں ہے کہ خروج دجال کے وقت ایک شخص کسی قبر پر گزرے گا اور فتن زلازل کو دیکھ کر کہے گا۔ "یَا لَیْتَنِیْ مَکَانَکَ" کاش کہ میں تیری جگہ ہوتا۔
۳: یہ لفظ ایسے ہیں جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم مرض الموت میں فرماتے تھے "اَللّٰہُمَّ فِیْ الرَّفِیْقِ الْاَعْلیٰ" حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں" علم کامل پایا، دولت کامل پائی، اب شوق ہوا اپنے باپ دادا کے مراتب کا"۔ گویا اَلْحِقْنِیْ بِالصَّالِحِیْنَ سے یہ غرض ہوئی کہ میرا مرتبہ اسحاق و ابراہیم کے مراتب سے ملا دے۔ حضرت یعقوب کی زندگی تک ملکی انتظامات میں رہے۔ ان کی وفات کے بعد اپنے اختیار سے چھوڑ دیا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ حضرت یعقوب نے وصیت فرمائی تھی کہ میری لاش "شام" لے جا کر دفن کرنا۔ چنانچہ جنازہ وہیں لے گئے۔ حضرت یوسف نے فرمایا تھا کہ ایک زمانہ آئے گا جب "بنی اسرائیل" مصر سے نکلیں گے۔ اس وقت میری لاش بھی اپنے ہمراہ لے جائیں۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے نکلے، حضرت یوسف کا تابوت بھی ساتھ لے گئے۔ واللہ اعلم۔
۱۰۲ ۔۔۔ یعنی برادران یوسف جب ان کو باپ سے جدا کرنے اور کنوئیں میں ڈالنے کے مشورے اور تدبیریں کر رہے تھے آپ ان کے پاس نہیں کھڑے تھے کہ ان کی باتیں سنتے اور حالات کا معائنہ کرتے۔ پھر ایسے صحیح واقعات بجز وحی الٰہی کے آپ کو کس نے بتائے۔ آپ رسمی طور پر پڑھے لکھے نہیں، کسی ظاہری معلم سے استفادہ کی نوبت نہیں آئی پھر یہ حقائق جن کی اس قدر تفصیل بائبل میں بھی نہیں، آپ کو خدا کے سوا کس نے معلوم کرائیں۔
۱۰۳ ۔۔۔ باوجودیکہ آپ کی صداقت پر ایسی واضح دلائل موجود ہیں، پھر بھی اکثر لوگ وہ ہیں جو کسی طرح ایمان لانے والے نہیں۔
۱۰۴ ۔۔۔ یعنی نہیں مانتے نہ مانیں آپ کا کیا نقصان ہے کچھ تبلیغ کی تنخواہ تو آپ ان سے مانگتے نہ تھے کہ وہ بند کر لیں گے نصیحت اور فہمائش تھی سو ہو گئی اور ہو رہی ہے۔
۱۰۵ ۔۔۔ یعنی جس طرح آیات تنزیلیہ سن کر آپ پر ایمان نہیں لاتے۔ ایسے ہی آیات تکوینیہ دیکھ کر خدا کی توحید کا سبق حاصل نہیں کرتے اصل یہ ہے کہ ان کا سننا اور دیکھنا محض سرسری ہے۔ آیات اللہ میں غور و فکر کرتے تو کچھ فائدہ پہنچتا۔ جب دھیان نہیں تو ایمان کہاں سے ہو۔
۱۰۶ ۔۔۔ یعنی زبان سے سب کہتے ہیں کہ خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہے مگر اس کے باوجود کوئی بتوں کو خدائی کا حصہ دار بنا رہا ہے چنانچہ مشرکین عرب "تلبیہ" میں یہ لفظ کہتے تھے "لَبَّیْکَ اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ اِلَّا شَرِیْکًا ہُوَلَکَ تَمْلِکُہٗ وَمَا مَلَکَ" کوئی اس کے لیے بیٹے بیٹیاں تجویز کرتا ہے۔ کوئی اسے روح و مادہ کا محتاج بتاتا ہے کسی نے احبارو رہبان کو خدائی کے اختیارات دے دیے ہیں بہت سے تعزیہ پرستی، قبر پرستی پیر پرستی کے خس و خاشاک سے توحید کے صاف چشمہ کو مکدر کر رہے ہیں۔ ریا اور ہوا پرستی سے تو کتنے موحدین ہیں جو پاک ہوں گے۔ غرض ایمان کا زبانی دعویٰ کر کے بہت کم ہیں جو عقیدہ یا عمل کے درجہ میں شرک جلی یا خفی کا ارتکاب نہیں کرتے (اعاذنا اللہ من سائر انواع الشرک)
۱۰۷ ۔۔۔ یعنی ایسے بے فکر و بے خوف کیوں ہو رہے ہیں۔ کیا انہوں نے عذاب الٰہی یا قیامت کے ہولناک حوادث سے محفوظ رہنے کا کچھ انتطام کر لیا ہے؟
۱۰۸ ۔۔۔ یعنی میرا راستہ یہ ہی خالص توحید کا راستہ ہے میں تمام دنیا کو دعوت دیتا ہوں کہ سب خیالات و اوہام کو چھوڑ کر ایک خدا کی طرف آئیں، اس کی توحید، اس کی صفات و کمالات اور اس کے احکام وغیرہ کی صحیح معرفت صحیح راستہ سے حاصل کریں۔ میں اور میرے ساتھی اس سیدھے راستہ پر، حجت و برہان اور بصیرت و وجدان کی روشنی میں چل رہے ہیں۔ خدا نے مجھ کو ایک نور دیا جس سے سب ہمراہیوں کے دماغ روشن ہو گئے۔ یہاں کسی کی اندھی تقلید نہیں۔ خالص توحید کا راہرو ہر قدم پر اپنے باطن میں معرفت و بصیرت کی خاص روشنی اور عبودیت محضہ کی خاص لذت محسوس کر کے بے ساختہ پکار اٹھتا ہے۔ "سُبْحَانَ اللّٰہِ وَمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنُ۔
۱۰۹ ۔۔۔یعنی پہلے بھی ہم نے آسمان کے فرشتوں کو نبی بنا کر نہیں بھیجا انبیائے سابقین ان ہی انسانی بستیوں کے رہنے والے مرد تھے۔ پھر دیکھ لو ان کے جھٹلانے والوں کا دنیا میں کیا حشر ہوا۔ حالانکہ دنیا میں کافروں کو بھی بسا اوقات عیش نصیب ہو جاتا ہے اور آخرت کی بہتری تو خالص ان کے لیے ہے جو شرک و کفر سے پرہیز کرتے ہیں۔ یہ تنبیہ ہے کفار مکہ کو کہ اگلوں کے احوال سے عبرت حاصل کریں۔ (تنبیہ) اس آیت سے نکلتا ہے کہ کوئی عورت نبی نہیں بنائی گئی۔ حضرت مریم کو بھی قرآن نے صدیقہ کا مرتبہ دیا ہے۔ نیز آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اہل بوادی (جنگلی گنواروں) میں سے کوئی نبی مبعوث نہیں ہوا۔
۱۱۰ ۔۔۔ یعنی تاخیر عذاب سے دھوکہ مت کھاؤ۔ پہلی قوموں کو بھی لمبی مہلتیں دی گئیں۔ اور عذاب آنے میں اتنی دیر ہوئی کہ منکرین بالکل بے فکر ہو کر بیش ازبیش شرارتیں کرنے لگے۔ یہ حالات دیکھ کر پیغمبروں کو ان کے ایمان لانے کی کوئی امید نہ رہی، ادھر خدا کی طرف سے ان کو ڈھیل اس قدر دی گئی کہ مدت دراز تک عذاب کے کچھ آثار نظر نہ آتے تھے۔ غرض دونوں طرف کے حالات و آثار پیغمبروں کے لیے یاس انگیز تھے۔ یہ منظر دیکھ کر کفار نے یقینی طور پر خیال کر لیا کہ انبیاء سے جو وعدے ان کی نصرت اور ہماری ہلاکت کے کیے گئے تھے سب جھوٹی باتیں ہیں۔ عذاب وغیرہ کا ڈھکوسلہ صرف ڈرانے کے واسطے تھا۔ کچھ بعید نہیں کہ ایسی مایوس کن اور اضطراب انگیز حالت میں انبیاء کے قلوب میں بھی یہ خیالات آنے لگے ہوں کہ وعدہ عذاب کو جس رنگ میں ہم نے سمجھا تھا وہ صحیح نہ تھا۔ یا وساوس و خطرات کے درجہ میں بے اختیار یہ وہم گزرنے لگے ہوں کہ ہماری نصرت اور منکرین کی ہلاکت کے جو وعدے کیے گئے تھے کیا وہ پورے نہ کیے جائیں گے؟ جیسے دوسری جگہ فرمایا "وَزُلْزِلُوْا حَتّیٰ یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہ، مَتیٰ نَصْرُ اللّٰہِ۔" (بقرہ، رکوع ٢۶،آیت ٢۱۴) جب مجرمین کی بے خوفی اور انبیاء کی تشویش اس حد تک پہنچ گئی اس وقت ناگہاں آسمانی مدد آئی۔ پھر جس کو خدا نے چاہا (یعنی فرمانبردار مومنین کو) محفوظ و مصون رکھا۔ اور مجرموں کی جڑ کاٹ دی۔ (تنبیہ ۱؎) اللہ تعالیٰ کی غیر محدود رحمت و مہربانی سے نا امیدی کفر ہے لیکن ظاہری حالات و اسباب کے اعتبار سے نا امیدی کفر نہیں۔ یعنی یوں کہہ سکتے ہیں کہ فلاں چیز کی طرف سے جہاں تک اسباب ظاہری کا تعلق ہے مایوسی ہے لیکن حق تعالیٰ کی رحمت کاملہ سے مایوسی نہیں۔ آیت "حَتّیٰ اِذَا اِسْتَیْأَسَ الرُّسُلُ" میں یہ ہی مایوسی مراد ہے جو ظاہری حالات و آثار کے اعتبار سے ہو ورنہ پیغمبر خدا کی رحمت سے کب مایوس ہو سکتے ہیں۔ (تنبیہ ٢؎) کفر کا وسوسہ کفر نہیں نہ کسی درجہ میں ایمان یا عصمت کے منافی ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ہم اپنے دلوں میں ایسی چیزیں (بے اختیار) پاتے ہیں جن کے زبان پر لانے سے ہم بہتر سمجھتے ہیں کہ جل کر کوئلہ ہو جائیں۔ آپ نے فرمایا کیا ایسا پاتے ہو؟ عرض کیا ہاں رمایا"، "ذَاکَ صَرِیْحُ الْاِیْمَانِ" یہ تو کھلا ہوا ایمان ہے۔
۱۱۱ ۔۔۔ ۱: یعنی یہ کوئی افسانہ یا ناول نہیں۔ تاریخی حقائق ہیں۔ جن سے عقل مندوں کو سبق لینا چاہیے۔
۲: یعنی قرآنِ کریم جس میں یہ قصص بیان ہوئے کوئی جھوٹی بنائی ہوئی بات نہیں بلکہ تمام پہلی سچائیوں کی تصدیق کرنے والا اور ہر ضروری چیز کو کھول کر بیان کرنے والا ہے۔ چونکہ ایماندار اس سے نفع اٹھاتے ہیں اس لحاظ سے ان کے حق میں خاص طور پر ذریعہ ہدایت و رحمت ہے۔ نَفَعَنَا اللّٰہ بِعُلُوْمِہٖ وَرَزَقَنَا تَلَاوَتَہٗ اٰنَآءَ اللَّیْلِ وَاٰنَآءَ النَّہَارِ وَجْعَلْہُ حُجَّۃً لَّنَا لَاعَلَیْنَا آمِیْن۔ تَمَّ سُوْرَۃَ یُوْسُفَ عَلَیْہِ السَّلَام بِعَوْنِ اللّٰہِ تَعَالیٰ۔