۱۔۔۔ ۱: "فرقان" (فیصلہ کی کتاب) قرآن کریم کو فرمایا جو حق و باطل کا آخری فیصلہ اور حرام و حلال کو کھلے طور پر ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے۔ یہ ہی کتاب ہے جس نے اپنے اتارنے والے کی عظمت شان علو صفات اور اعلیٰ درجہ کی حکمت ورافت کو انتہائی مشکل میں پیش کیا اور تمام جہان کی ہدایت و اصلاح کا تکفل اور ان کو خیر کثیر اور غیر منقطع برکت عطا کرنے کا سامان بہم پہنچایا۔
۲: یعنی اپنے اس کامل و اکمل بندہ (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم) پر جن کا ممتاز لقب ہی کمالِ عبودیت کی وجہ سے "عبد اللہ " ہو گیا۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ۔
۳: یعنی قرآن کریم سارے جہان کو کفر و عصیان کے انجام بد سے آگاہ کرنے والا ہے۔ چونکہ سورتِ ہذا میں مکذبین و معاندین کا ذکر بکثرت ہوا ہے، شاید اسی لیے یہاں صفت "نذیر" کو بیان فرمایا۔ "بشیر" کا ذکر نہیں کیا۔ اور "للعالمین" کے لفظ سے بتلا دیا کہ یہ قرآن صرف عرب کے امیوں کے لیے نہیں اترا بلکہ تمام جن و انس کی ہدایت و اصلاح کے واسطے آیا ہے۔
۲۔۔۔ یعنی ہر چیز کو ایک خاص اندازہ میں رکھا کہ اس سے وہی خواص و افعال ظاہر ہوتے ہیں جن کے لیے پیدا کی گئی ہے اپنے دائرہ سے باہر قدم نہیں نکال سکتی نہ اپنی حدود میں عمل و تصرف کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ غرض ہر چیز کو ایسا ناپ تول کر پیدا فرمایا کہ اس کی فطری موزونیت کے لحاظ سے ذرا کمی بیشی یا انگلی رکھنے کی گنجائش نہیں چھوڑی۔ بڑے بڑے سائنس داں حکمت کے دریا میں غوطہ لگاتے ہیں اور آخرکار ان کو یہ ہی کہنا پڑتا ہے۔ "صُنْعَ اللّٰہِ الَّذِی اَتْقَنَ کُلَّ شَیْ ئٍ" اور "فَتَبَارَکَ اللّٰہ اَحْسَنَ الْخَالِقِیْنَ
۳۔۔۔ یعنی کس قدر ظلم اور تعجب و حیرت کا مقام ہے کہ ایسے قادر مطلق، مالک الکل، حکیم علی الاطلاق کی زبردست ہستی کو کافی نہ سمجھ کر دوسرے معبود اور حاکم تجویز کر لیے گئے جو گویا خدا کی حکومت میں حصہ دار ہیں۔ حالانکہ ان بیچاروں کا خود اپنا وجود بھی اپنے گھر کا نہیں۔ نہ وہ ایک ذرہ کے پیدا کرنے کا اختیار رکھتے ہیں، نہ مارنا جلانا ان کے قبضہ میں ہے، نہ اپنے مستقل اختیار سے کسی کو ادنیٰ ترین نفع نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ بلکہ خود اپنی ذات کے لیے بھی ذرہ برابر فائدہ حاصل کرنے یا نقصان سے محفوظ رہنے کی قدرت نہیں رکھتے ایسی عاجز و مجبور ہستیوں کو خدا کا شریک ٹھہرانا کس قدر سفاہت اور بے حیائی ہے۔ (ربط) یہ تو قرآن نازل کرنے والے کی صفات و شؤن کا ذکر تھا اور اس کے متعلق مشرکین جو بے تمیزی کر رہے تھے اس کی تردید تھی۔ آگے خود قرآن اور حامل قرآن کی نسبت سفیہانہ نکتہ چینیوں کا جواب ہے۔
۴۔۔۔ ۱: یعنی یہ سب کہنے کی باتیں ہیں کہ قرآن اللہ کی کتاب ہے۔ معاذ اللہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے چند یہودیوں کی مدد سے ایک کلام تیار کر لیا اور اس کو جھوٹ طوفان خدا کی طرف منسوب کر دیا۔ پھر ان کے ساتھی لگے اس کی اشاعت کرنے، بس کل حقیقت اتنی ہے۔
۲: یعنی اس سے بڑھ کر ظلم اور جھوٹ کیا ہو گا کہ ایسے کلام معجز اور کتاب حکیم کو جس کی عظمت و صداقت آفتاب سے زیادہ روشن ہے، کذب و افتراء کہا جائے۔ کیا چند یہودی غلاموں کی مدد سے ایسا کلام بنایا جا سکتا ہے جس کے مقابلہ میں تمام دنیا کے فصیح و بلیغ عالم و حکیم بلکہ جن و انس ہمیشہ کے لیے عاجز رہ جائیں۔ اور جس کے علوم و معارف کی تھوڑی سی جھلک بڑے بڑے عالی دماغ عقلاء و حکماء کی آنکھوں کو خیرہ کر دے۔
۵۔۔۔ یعنی محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے اہل کتاب سے کچھ قصے کہانیاں سن کر نوٹ کر لی ہیں۔ یا کسی سے نوٹ کرا لی ہیں۔ وہ ہی شب و روز ان کے سامنے پڑھی اور رٹی جاتی ہیں۔ نئے نئے اسلوب سے ان ہی کا الٹ پھیر رہتا ہے اور کچھ بھی نہیں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ اول نماز کے دو وقت مقرر تھے صبح اور شام۔ مسلمان حضرت کے پاس جمع ہوتے جو نیا قرآن اترا ہوتا لکھ لیتے یاد کرنے کو۔ اس کو کافر یوں کہنے لگے۔
۶۔۔۔ ۱: یعنی کتاب خود بتلا رہی ہے کہ وہ کسی ایک انسان یا کمیٹی کی بنائی ہوئی نہیں، بلکہ اس خدا کی اتاری ہوئی ہے جس کے احاطہ علمی سے زمین و آسمان کی کوئی چیز باہر نہیں ہو سکتی۔ اس کلام کی معجزانہ فصاحت و بلاغت، علوم و معارف، اخبار غیبیہ، احکام و قوانین اور وہ اسرار مکنونہ جن کی تہ تک بدون توفیق الٰہی کے عقول و افہام کی رسائی نہیں ہو سکتی صاف ظاہر کرتے ہیں کہ یہ کسی محدود علم والے آدمی یا سازشی جماعت کا کلام نہیں۔
۲: یعنی اپنی بخشش اور مہر سے ہی قرآن اتارا (موضح القرآن) پھر جو لوگ ایسی روشن حقیقت کے منکر ہیں باوجود ان کے جرائم کا تفصیلی علم رکھنے کے فوراً سزا نہیں دیتا۔ یہ بھی اس کی بخشش اور مہر ہی کا پرتو ہے۔
۳: یعنی جب ہماری طرح کھانا کھائے اور ہماری طرح خرید و فروخت کے لیے بازاروں میں جائے تو ہم میں اس میں فرق کیا رہا۔ اگر واقعی رسول تھا تو چاہیے تھا کہ فرشتوں کی طرح کھانے پینے اور طلب معاش کے بکھیڑوں سے فارغ ہوتا۔
۸۔۔۔ ۱: یعنی اگر فرشتوں کی فوج نہیں تو کم از کم خدا کا ایک آدھ فرشتہ ان کو سچا ثابت کرنے اور رعب جمانے کے لیے ساتھ رہتا جسے دیکھ کر خواہ مخواہ لوگوں کو جھکنا پڑتا۔ یہ کیا کہ کس مپرسی کی حالت میں اکیلے دعویٰ کرتے پھر رہے ہیں۔ یا اگر فرشتے بھی ہمراہ نہ ہوں تو کم از کم آسمان سے سونے چاندی کا کوئی غیبی خزانہ مل جاتا کہ لوگوں کو بے دریغ مال خرچ کر کے ہی اپنی طرف کھینچ لیا کرتے۔ اور خیر یہ بھی نہ سہی معمولی رئیسوں اور زمینداروں کی طرح انگور کھجور وغیرہ کا ایک باغ تو ان کی ملک میں ہوتا جس سے دوسروں کو نہ دیتے تو کم از کم خود بے فکری سے کھایا پیا کرتے جب اتنا بھی نہیں تو کس طرح یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ نے رسالت کے عہدہ جلیلہ پہ معاذ اللہ ایسی معمولی حیثیت کے آدمی کو مامور کیا ہے۔
۲: یعنی میاں کی یہ پوزیشن اور اتنے اونچے دعوے؟ بجز اس کے کیا کہا جائے کہ عقل کھوئی گئی ہے یا کسی نے جادو کے زور سے دماغ مختل کر دیا ہے جو ایسی بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں۔ (العیاذ باللہ)
۹۔۔۔ یعنی کبھی کہتے ہیں کہ ان کی باتیں محض مفتریات ہیں۔ کبھی دعوے کرتے ہیں کہ نہیں دوسروں سے سیکھ کر اپنے سانچے میں ڈھال لی ہیں کبھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو مسحور بتلاتے ہیں کبھی ساحر، کبھی کاہن، کبھی شاعر، کبھی مجنوں، یہ اضطراب خود بتلاتا ہے کہ ان میں سے کوئی چیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر منطبق نہیں ہوتی۔ اسی لیے کسی ایک بات پر قرار نہیں۔ اور الزام لگانے کا کوئی راستہ ہاتھ نہیں آتا۔ جو لوگ انبیاء کی جناب میں اس طرح کی گستاخیاں کر کے گمراہ ہوتے ہیں ان کے راہِ راست پر آنے کی کوئی توقع نہیں۔
۱۰۔۔۔ یعنی اللہ کے خزانہ میں کیا کمی ہے، وہ چاہے تو ایک باغ کیا، بہت سے باغ اس سے بہتر عنایت فرما دے جس کا یہ لوگ مطالبہ کرتے ہیں۔ بلکہ اس کو قدرت ہے کہ آخرت میں جو باغ اور نہریں اور حورو قصور ملنے والے ہیں وہ سب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ابھی دنیا میں عطا کر دے۔ لیکن حکمت الٰہی بالفعل اس کو مقتضی نہیں۔ اور معاندین کے سارے مطالبات اور فرمائشیں بھی اگر پوری کر دی جائیں تب بھی یہ حق و صداقت کو قبول کرنے والے نہیں ہیں۔ باقی پیغمبر علیہ السلام کی صداقت ثابت کرنے کے لیے جو دلائل و معجزات پیش کیے جا چکے وہ کافی سے زیادہ ہیں۔
۱۱۔۔۔ یعنی یہ لوگ جن چیزوں کا مطالبہ کر رہے ہیں، فی الحقیقت طلب حق کی نیت نہیں۔ محض شرارت اور تنگ کرنے کے لیے ہے۔ اور شرارت کا سبب یہ ہے کہ انہیں ابھی تک قیامت اور سزا و جزاء پر یقین نہیں آیا۔ سو یاد رکھنا چاہیے کہ ان کے جھٹلانے سے کچھ نہیں بنتا، قیامت آ کر رہے گی اور ان مکذبین کے لیے آگ کا جو جیل خانہ تیار کیا گیا ہے اس میں ضرور رہنا پڑے گا۔
۱۲۔۔۔ یعنی دوزخ کی آگ محشر میں جہنمیوں کو دور سے دیکھ کر جوش میں بھر جائے گی اور اس کی غضبناک آوازوں اور خوفناک پھنکاروں سے بڑے بڑے دلیروں کے پتے پانی ہو جائیں گے۔
۱۳۔۔۔ یعنی دوزخ میں ہر مجرم کے لیے خاص جگہ ہو گی جہاں سے ہل نہ سکے گا۔ اور ایک نوعیت کے کئی کئی مجرم ایک ساتھ زنجیروں میں جکڑے ہوں گے۔ اس وقت مصیبت سے گھبرا کرموت کو پکاریں گے کہ کاش موت آ کر ہماری ان دردناک مصائب کا خاتمہ کر دے۔
۱۴۔۔۔ یعنی ایک بار مریں تو چھوٹ جائیں۔ دن میں ہزار بار مرنے سے بدترحال ہوتا ہے۔ (موضح القرآن)
۱ ۵۔۔۔ یعنی مکذبین کا انجام سن لیا۔ اب خود فیصلہ کر لو کہ یہ پسند ہے یا وہ جس کا وعدہ مومنین متقین سے کیا گیا۔
۱۶۔۔۔ ۱: اور چاہیں گے وہی جو ان کے مرتبہ کے مناسب ہو گا۔
۲: "وَعْدًا مَّسْئُولاً" سے مراد حتمی وعدہ ہے جو خدا تعالیٰ نے محض فضل وعنایت سے اپنے ذمہ لازم کر لیا۔ یا یہ مطلب کہ اس وعدہ کے افاء کا متقین سوال کریں گے۔ جو یقیناً پورا کیا جائے گا جیسا کہ دعا میں ہے۔"رَبَّنَا وَاَتِنَا مَاوَعَدْتَّنَا عَلیٰ رُسُلِکَ۔
۳: یعنی عابدین کو سنا کر معبودوں سے دریافت کیا جائے گا کہ کیا تم نے ان کو شرک کی اور اپنی پرستش کرانے کی ترغیب دی تھی یا یہ خود اپنی حماقت و جہالت اور غفلت و بے توجہی سے گمراہ ہوئے۔
۱۸۔۔۔ ۱: یعنی ہماری کیا مجال تھی کہ تجھ سے ہٹ کر کسی دوسرے کو اپنا رفیق و مددگار سمجھتے۔ پھر جب ہم اپنے نفس کے لیے تیرے سوا کوئی سہارا نہیں رکھتے تو دوسروں کو کیسے حکم دیتے کہ ہم کو اپنا معبود اور حاجت روا سمجھیں۔
۲: یعنی اصل یہ ہے کہ یہ بدبخت اپنی سوءِ استعداد سے خود ہی تباہ ہونے کو پھر رہے تھے ہلاکت ان کے لیے مقدر ہو چکی تھی، ظاہری سبب اس کا یہ ہوا کہ عیش و آرام میں پڑ کر اور غفلت کے نشہ میں چور ہو کر آپ کی یاد کو بھلا بیٹھے، کسی نصیحت پر کان نہ دھرا، پیغمبروں کی ہدایت و ارشاد کی طرف سے بالکل آنکھیں بند کر لیں اور دنیاوی تمتع پر مغرور ہو گئے۔ آپ نے اپنی نوازش سے جس قدر ان کو اور ان کے باپ دادوں کو دنیا کے فائدے پہنچائے، یہ اسی قدر غفلت و نسیان میں ترقی کرتے گئے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ انعامات الٰہیہ کو دیکھ کر منعم حقیقی کی بندگی اور شکر گزاری اختیار کرتے، الٹے مغرور و مفتون ہو کر فکر و عصیان پر تل گئے۔ گویا جو امرت تھا، بدبختی سے ان کے حق میں زہر بن گیا۔
۱۹۔۔۔ ۱: یہ حق تعالیٰ کی طرف سے ارشاد ہو گا کہ لو! جن کی اعانت پر تم کو بڑا بھروسہ تھا وہ خود تمہارے دعاوی کو جھٹلا رہے اور تمہاری حرکات سے اعلانیہ بیزاری کا اظہار کر رہے ہیں۔
۲: یعنی اب نہ عذابِ الٰہی کو پھیر سکتے ہو نہ بات کو پلٹ سکتے ہو نہ ایک دوسرے کی مدد کر سکتے ہو، جس کو جو سزا ملنے والی ہے اس کا پڑے مزہ چکھتے رہو۔
۳: شاید ظلم سے مراد یہاں شرک ہو، اور ممکن ہے ہر قسم کا ظلم و گناہ مراد لیا جائے۔
۲۰۔۔۔ ۱: یہ جواب ہوا۔ "مَالِہٰذَا الرَّسُولِ یَاکُلُ الطَّعَامِ" الخ کا۔ یعنی آپ سے پہلے جتنے پیغمبر دنیا میں آئے سب آدمی تھی۔ آدمیوں کی طرح کھاتے پیتے اور معاشی ضروریات کے لیے بازار بھی جاتے تھے۔ ان کو فرشتہ بنا کر نہیں بھیجا جو کھانے پینے اور حوائج بشریہ سے مستغنی ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ضرورت کے لیے بازاروں میں پھرنا شانِ تقدس اور بزرگی کے منافی نہیں۔ بلکہ اگر بازار نہ جانے کا منشاء کبر و خود بینی ہو تو یہ بزرگی کے خلاف ہے۔
۲: یعنی پیغمبر ہیں کافروں کا ایمان جانچنے کو۔ اور کافر ہیں پیغمبروں کا صبر جانچنے کو۔ اب دیکھیں کافروں کے سفیہانہ طعن و تشنیع اور لغو اعتراضات سن کر تم کس حد تک صبر و استقلال دکھاتے ہو۔
۳: یعنی کافروں کو کفر و ایذاء دہی اور صابروں کا صبر و تحمل سب اس کی نظر میں ہے۔ ہر ایک کو اس کے کیے کا پھل دے کر رہے گا۔
۲۱۔۔۔ ۱: یعنی جن کو یہ امید نہیں کہ ایک روز ہمارے روبرو حاضر ہو کر حساب و کتاب دینا ہے وہ سزا کے خوف سے بالکل بے فکر ہو کر معاندانہ اور گستاخانہ کلمات زبان سے بکتے ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی طرح ہم پر فرشتے وحی لے کر کیوں نہ اترے۔ یا خدا تعالیٰ سامنے آ کر ہم سے ہمکلام کیوں نہیں ہو گیا۔ کم از کم فرشتے تمہاری تصدیق ہی کے لیے آ جاتے یا خود خداوند رب العزت کو ہم دیکھتے کہ سامنے ہو کر تمہارے دعوے کی تائید و تصدیق کر رہا ہے کما فی موضوع آخر۔ "قَالُوا لَنْ نُؤْمِنَ حَتّیٰ نُؤْتیٰ مِثْلَ مَآاُوْتِیَ رُسُلُ اللّٰہِ" (انعام، رکوع۱۵'آیت ۱۲۴) وفی سورۃ الاسراء۔ "اَوْتَاْتِیَ بِاللّٰہِ وَالْمَلَائِکَۃِ قَبِیْلاً " (اسرائ، رکوع۱۰'آیت ۹۲)
۲: یعنی انہوں نے اپنے دل میں اپنے کو بہت بڑا سمجھ رکھا ہے جو وحی اور فرشتوں کے آنے کی تمنا رکھتے ہیں شرارت و سرکشی کی حد ہو گئی کہ باوجود ایسی سیاہ کاریوں کے دنیا میں ان آنکھوں سے خداوند قدوس کو دیکھنے اور شرفِ ہم کلامی سے مشرف ہونے کا مطالبہ کریں۔
۲۲۔۔۔ یعنی گھبراؤ نہیں، ایک دن آنے والا ہے جب فرشتے تم کو نظر پڑیں گے، لیکن ان کے دیکھنے سے تم جیسے مجرموں کو کچھ خوشی حاصل نہ ہو گی، بلکہ سخت ہولناک مصائب کا سامنا ہو گا۔ حتی کہ جو لوگ اس وقت فرشتوں کے نزول کا مطالبہ کرنے والے ہیں اس وقت "حِجْرًا مَحْجُورًا" کہہ کر پناہ طلب کریں گے، اور چاہیں گے کہ ان کے اور فرشتوں کے درمیان کوئی سخت روک قائم ہو جائے کہ وہ ان تک نہ پہنچ سکیں لیکن خدا کا فیصلہ کب رک سکتا ہے۔ فرشتے بھی حِجْرًا مَحْجُوْراً کہہ کر بتلا دیں گے کہ آج مسرت و کامیابی ہمیشہ کے لیے تم سے روک دی گئی ہے۔ (تنبیہ) ممکن ہے یہ تذکرہ احتضار (موت) کے وقت کا ہو۔ کماقال تعالیٰ "وَلَوْتَرٰ ی اذْ یَتَوَفَّی الَّذِیْنَ کَفَرُوا الْمَلآَئِکَۃُ یَضْرِبُوْن وُجُوْہَہُمْ وَاَدْبَارَہُمْ " (انفال، رکوع۷'آیت ۵۰) وقال تعالیٰ " وَلَوْتَریٰ اِذِالظَّالِمُونَ فِیْ غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلآَئِکَۃِ بَاسِطُوْا اَیْدِیْہِمْ اَخْرِجُوْا اَنْفُسَکُمْ اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْہُوْنِ۔" (انعام، رکوع۱۱'آیت ۹۳) گویا یہ کیفیت اس کے بالمقابل ہو گی۔ جو دوسری جگہ مومنین کی بیان ہوئی ہے۔ "اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلائِکَۃُ اَنْ لاَّ تَخَافُوا وَلاَ تَحْزَنُوا وَاَبْشِرُوا بِالْجِنَّۃِ الَّتِی کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۔" الخ (حم السجدہ، رکوع۴'آیت ۳۰) اور ممکن ہے یہاں قیامت کے دن کا ذکر ہو۔ واللّٰہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔
۲۳۔۔۔ یعنی وہ ہم کو بلاتے تھے تو ہم بھی آ پہنچے، مگر ان کی عزت بڑھانے کو نہیں، بلکہ اس لیے کہ انہوں نے اپنے زعم باطل کے موافق جو بھلے کام کیے تھے جن پر بڑا بھروسہ تھا انہیں ہم قطعاً ملیامیٹ کر دیں اور اس طرح بے حقیقت کر کے اڑا دیں جیسے خاک کے حقیر ذرات ہوا میں ادھر ادھر اڑ جایا کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ اعمال روح اخلاص و ایمان سے یکسر خالی یا طریق حق کے بالکل متضاد واقع ہوئے ہیں۔ قال تعالیٰ "مَثَلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوا بِرَبِّہِمْ اَعْمَالُہُمْ کَرَمَادِ اْشتَدَّتْ بِہِ الرِّیْحُ فِی یَوْمٍ عَاصِفٍ۔" (ابراہیم، رکوع۳'آیت ۱۸) وغیرہ ذلک من الآیات۔
۲۴۔۔۔ یعنی یہ لوگ تو اس روز اس مصیبت میں گرفتار ہوں گے اور جن کی ہنسی اڑایا کرتے تھے وہ جنت میں خوب عیش و آرام کے مزے لوٹیں گے۔
۲ ۵۔۔۔ قیامت کے دن آسمانوں کے پھٹنے کے بعد اوپر سے بادل کی طرح کی ایک چیز اترتی نظر آئے گی جس میں حق تعالیٰ کی ایک خاص تجلی ہو گی۔ اسے ہم چھتر شاہی سے تعبیر کیے لیتے ہیں۔ شاید یہ وہی چیز ہو جسے ابورزین کی حدیث میں "عَمَاء" سے اور نسائی کی ایک روایت میں جو معراج سے متعلق ہے "غَیَابَہُ" سے تعبیر کیا ہے۔ واللہ اعلم۔ اس کے ساتھ بیشمار فرشتوں کا ہجوم ہو گا اور آسمانوں کے فرشتے اس روز لگاتار مقام محشر کی طرف نزول فرمائیں گے۔ دوسرے پارہ کے نصف کے قریب آیت "ہَلْ یَنْظُرَوْنَ اِلَّا اَنْ یَّاتِیَہُمُ اللّٰہُ فِی ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلاَئِکَۃُ " الخ میں بھی اسی طرح کا مضمون گزر چکا ہے۔
۲۶۔۔۔ ۱:یعنی ظاہراً و باطناً، صورۃً معنی، من کل الوجوہ اکیلے رحمان کی بادشاہت ہو گی اور صرف اسی کا حکم چلے گا۔ "لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَھَّارِ۔" (مومن، رکوع۲'آیت ۱۶) پھر جب رحمان کی حکومت ہوئی تو جو مستحق رحمت ہیں ان کے لیے رحمت کی کیا کمی، بے حساب رحمتوں سے نوازے جائیں گے مگر باوجود ایسی لامحدود رحمت کے کافروں کے لیے وہ دن بڑی سخت مشکل اور مصیبت کا ہو گا۔
۲: یعنی مارے حسرت و ندامت کے اپنے ہاتھ کاٹے گا اور افسوس کرے گا کہ میں نے کیوں دنیا میں رسولِ خدا کا راستہ اختیار نہ کیا اور کیوں شیاطین الانس والجن کے بہکائے میں آگیا جو آج یہ روز بد دیکھنا پڑا۔
۲۸۔۔۔ یعنی جن کی دوستی اور اغواء سے گمراہ ہوا تھا یا گمراہی میں ترقی کی تھی، اس وقت پچھتائے گا کہ افسوس ایسوں کو میں نے اپنا دوست کیوں سمجھا۔ کاش میرے اور ان کے درمیان کبھی دوستی اور رفاقت نہ ہوئی ہوتی۔ (تنبیہ) مفسرین نے یہاں عقبہ بن ابی معیط اور ابی بن خلف کا جو واقعہ نقل کیا ہے، کچھ ضرورت نہیں کہ آیت کے مدلول کو اس پر مقصود کیا جائے۔ ہاں جو تقریر ہم نے کی ہے اس میں وہ بھی داخل ہے۔
۲۹۔۔۔ یعنی پیغمبر کی نصیحت مجھ کو نہیں پہنچ چکی تھی جو ہدایت کے لیے کافی تھی، اور امکان تھا کہ میرے دل میں گھر کر لے۔ مگر اس کم بخت کی دوستی نے تباہ کیا اور دل کو ادھر متوجہ نہ ہونے دیا۔ بیشک شیطان بڑا دغا باز ہے آدمی کو عین وقت پر دھوکا دیتا اور بری طرح رسوا کرتا ہے۔
۳۰۔۔۔ یعنی پیغمبر کی نصیحت مجھ کو نہیں پہنچ چکی تھی جو ہدایت کے لیے کافی تھی، اور امکان تھا کہ میرے دل میں گھر کر لے۔ مگر اس کم بخت کی دوستی نے تباہ کیا اور دل کو ادھر متوجہ نہ ہونے دیا۔ بیشک شیطان بڑا دغا باز ہے آدمی کو عین وقت پر دھوکا دیتا اور بری طرح رسوا کرتا ہے۔
۳۱۔۔۔ ۱: جو نبی کی بات ماننے میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں اور لوگوں کو قبول حق سے روکتے ہیں۔
۲: یعنی کافر پڑے بہکایا کریں، جس کو اللہ چاہے گا راہ پر لے آئے گا یا یہ مطلب ہے کہ اللہ جس کو چاہے گا ہدایت کر دے گا اور جن کو ہدایت نصیب نہ ہو گی ان کے سب کے مقابلہ میں تیری مدد کرے گا۔ یا یہ کہ حق تعالیٰ تیری مدد کر کے مقام مطلوب تک پہنچا دے گا۔ کوئی رکاوٹ مانع نہ ہو سکے گی۔
۳۲۔۔۔ ۱: یعنی نبی کے دشمن لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے ایسے ایسے اعتراض چھانٹتے ہیں کہ صاحب! دوسری کتابوں کی طرح پورا قرآن ایک ہی دفعہ کیوں نہ اتارا گیا، برسوں میں جو تھوڑا تھوڑا کر کے اتارا، کیا اللہ میاں کو کچھ سوچنا پڑتا تھا، اس سے تو شبہ ہوتا ہے کہ خود محمد صلی اللہ علیہ و سلم سوچ سوچ کر بناتے ہیں۔ پھر موقع مناسب دیکھ کر تھوڑا تھوڑا سناتے رہتے ہیں۔
۲: یعنی یہ کیا ضروری ہے کہ تھوڑا تھوڑا کر کے اتارنا اس سبب سے ہو جو تم نے سمجھا۔ اگر غور کرو گے تو اس طرح نازل کرنے میں بہت سے فوائد ہیں جو دفعتاً نازل کرنے کی صورت میں پوری طرح حاصل نہ ہوتے۔ مثلاً اس صورت میں قرآن کا حفظ کرنا زیادہ آسان ہوا، سمجھنے میں سہولت رہی، کلام پوری طرح منضبط ہوتا رہا اور جن مصالح و حکم کی رعایت اس میں کی گئی تھی، لوگ موقع بہ موقع ان کی تفاصیل پر مطلع ہوتے رہے۔ ہر آیت کی جداگانہ شان نزول کو دیکھ کر اس کا صحیح مطلب متعین کرنے میں مدد ملی۔ ہر ضرورت کے وقت ہر بات کا بروقت جواب ملتے رہنے سے پیغمبر اور مسلمانوں کے قلوب تسکین پاتے رہے اور ہر آیت کے نزول پر گویا دعویٰ اعجاز کی تجدید ہوتی رہی۔ اس سلسلہ میں جبرائیل کا بار بار آنا جانا ہوا جو ایک مستقل برکت تھی، وغیر ذلک من الفوائد۔ ان ہی میں سے بعض فوائد کی طرف یہاں اشارہ فرمایا۔
۳۳۔۔۔ ۱: یعنی کفر جب کوئی اعتراض قرآن پر یا کوئی مثال آپ پر چسپاں کرتے ہیں تو قرآن اس کے جواب میں ٹھیک ٹھیک بات بتلا دیتا ہے جس میں کسی قسم کا ہیر پھیر نہیں ہوتا۔ بلکہ صاف واضح، معتدل اور بے غل و غش بات ہوتی ہے ہاں جن کی عقل اوندھی ہو گئی ہو وہ سیدھی اور صاف بات کو بھی ٹیڑھی سمجھیں، یہ الگ چیز ہے، ایسوں کا انجام اگلی آیت میں بیان فرمایا۔
۲: یہ وہی لوگ ہیں جن کی عقل اوندھی ہو گئی اور علویات کو چھوڑ کر سفلی خواہشات پر جھک پڑے۔ آگے ایسی چند اقوام کا جو حشر ہوا عبرت کے لیے اس کو بیان فرماتے ہیں۔
۳۶۔۔۔ ۱: یعنی آیات تکوینیہ کو جو اللہ کی توحید وغیرہ پر دال ہیں اور انبیائے سابقین کے متفقہ بیانات کو جن کا تھوڑا بہت چرچا پہلے سے چلا آتا تھا، جھٹلا کر خدائی کے دعوے کرنے لگے تھے۔
۲: ایک پیغمبر کا جھٹلانا سب کا جھٹلانا ہے۔ کیونکہ اصول دین میں سب انبیاء متحد ہیں۔
۳۸۔۔۔ "اصحاب الرس" (کنوئیں والے) کون تھے؟ اس میں سخت اختلاف ہوا ہے۔ "روح المعانی" میں بہت سے اقوال نقل کر کے لکھا ہے۔ "وَمُلَخِّصُ الْاَقْوَال اِنَّہُمْ قَوْمٌ اَہْلَکَہُمُ اللّٰہُ بِتَکْذِیْب مَنْ اُرْسِلَ اِلَیْہِمْ " (یعنی خلاصہ یہ ہے کہ وہ کوئی قوم تھی جو اپنے پیغمبر کی تکذیب کی پاداش میں ہلاک ہوئی) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "ایک امت نے اپنے رسول کو کنوئیں میں بند کیا پھر ان پر عذاب آیا تب وہ رسول خلاص ہوا۔
۳۹۔۔۔ یعنی پہلے سب کو اچھی طرح سمجھایا۔ جب کسی طرح نہ مانا تو تختہ الٹ دیا۔
۴۰۔۔۔ ۱: یعنی قوم لوط کی بستیاں جن کے کھنڈرات پر سے مکہ والے "شام" کے سفر میں گزرتے تھے۔
۲ : یعنی کیا ان کے کھنڈرات کو عبرت کی نگاہ سے نہ دیکھا۔
۳: یعنی عبرت کہاں سے ہوتی جب ان کے نزدیک یہ احتمال ہی نہیں کہ مرنے کے بعد پھر جی اٹھنا اور خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے۔ عبرت تو وہ ہی حاصل کرتا ہے جس کے دل میں تھوڑا بہت ڈر ہو اور انجام کی طرف سے بالکل بے فکر نہ ہو۔
۴۲۔۔۔ ۱: یعنی بجائے عبرت حاصل کرنے کے ان کا مشغلہ تو یہ ہے کہ پیغمبر سے ٹھٹھا کیا کریں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھ کر استہزاءً کہتے ہیں کہ کیا یہ بزرگ ہیں جن کو اللہ نے رسول بنا کر بھیجا؟ بھلا یہ حیثیت اور منصب رسالت؟ کیا ساری خدائی میں سے یہ ہی اکیلے رسول بننے کے لیے رہ گئے تھے؟ آخر کوئی بات تو ہو۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ان کی تقریر جادو کا اثر رکھتی ہے۔ قوت فصاحت اور زور تقریر سے رنگ تو ایسا جمایا تھا کہ بڑے بڑوں کے قدم پھسل گئے ہوتے۔ قریب تھا کہ اس کی باتیں ہم کو ہمارے معبودوں سے برگشتہ کر دیتیں۔ وہ تو ہم پکے ہی ایسے تھے کہ برابر جمے رہے ان کی کسی بات کا اثر قبول نہ کیا۔ ورنہ یہ ہم سب کو کبھی کا گمراہ کر کے چھوڑتے (العیاذ باللہ)
۲: یعنی عذابِ الٰہی کو آنکھوں سے دیکھیں گے تب ان کو پتہ لگے گا کہ واقع میں کون گمراہی پر تھا۔
۴۳۔۔۔ یعنی آپ ایسے ہوا پرستوں کو راہ ہدایت پر لے آنے کی کیا ذمہ داری کر سکتے ہیں جن کا معبود ہی محض خواہش ہو کہ جدھر خواہش لے گئی ادھر ہی جھک پڑے جو بات خواہش کے موافق ہوئی قبول کر لی، جو مخالف ہوئی رد کر دی۔ آج ایک پتھر اچھا معلوم ہوا اسے پوجنے لگے کل دوسرا اس سے خوبصورت مل گیا پہلے کو چھوڑ کر اس کے آگے سر جھکا دیا۔
۴۴۔۔۔ یعنی کیسی ہی نصیحتیں سنائیے، یہ تو چوپائے جانور ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر، انہیں سننے یا سمجھنے سے کیا واسطہ چوپائے تو بہرحال اپنے پرورش کرنے والے مالک کے سامنے گردن جھکا دیتے ہیں۔ اپنے محسن کو پہچانتے ہیں، نافع و مضر کی کچھ شناخت رکھتے ہیں۔ کھلا چھوڑ دو تو اپنی چراگاہ اور پانی پینے کی جگہ پہنچ جاتے ہیں، لیکن ان بدبختوں کا حال یہ ہے کہ نہ اپنے خالق و رازق کا حق پہچانا، نہ اس کے احسانات کو سمجھا۔ نہ بھلے برے کی تمیز کی، نہ دوست دشمن میں فرق کیا، نہ غذائے روحانی اور چشمہ ہدایت کی طرف قدم اٹھایا۔ بلکہ اس سے کوسوں دور بھاگے اور جو قوتیں خدا تعالیٰ نے عطا کی تھیں ان کو معطل کیے رکھا بلکہ بے موقع صرف کیا۔ اگر ذرا بھی عقل و فہم سے کام لیتے تو اس کارخانہ قدرت میں بیشمار نشانیاں موجود تھیں جو نہایت واضح طور پر اللہ تعالیٰ کی توحید و تنزیہ اور اصول دین کی صداقت و حقانیت کی طرف رہبری کر رہی ہیں جن میں سے بعض نشانیوں کا ذکر آئندہ آیات میں کیا گیا ہے۔
۴۶۔۔۔ صبح سے طلوع شمس تک سب جگہ سایہ رہتا ہے اگر حق تعالیٰ سورج کو طلوع نہ ہونے دیتا تو یہ ہی سایہ قائم رہتا، مگر اس نے اپنی قدرت سے سورج نکالا جس سے دھوپ پھیلنی شروع ہوئی اور سایہ بتدریج ایک طرف کو سمٹنے لگا۔ اگر دھوپ نہ آتی تو سایہ کو ہم سمجھ بھی نہ سکتے۔ کیونکہ ایک ضد کے آنے سے ہی دوسری ضد پہچانی جاتی ہے۔ "قُلْ اَرَاَیْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ الَّیْلَ سَرْمَدًا اِلیٰ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ مِنْ اِلٰہٌ غَیْرُ اللّٰہِ یَاْتِیْکُمْ بِضِیآء"' الخ (قصص، رکوع۷'آیت ۷۱) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ"اول ہر چیز کا سایہ لمبا پڑتا ہے۔ پھر جس طرف سورج چلتا ہے اس کے مقابل سایہ ہٹا جاتا ہے جب تک کہ جڑ میں آ لگے۔" اپنی طرف کھینچ لیا کا یہ مطلب ہے کہ اپنی اصل کو جا لگتا ہے۔ سب کی اصل اللہ ہے۔" (موضح القرآن) پھر زوال کے بعد سے ایک طرف سے دھوپ سمٹنا شروع ہوتی ہے اور دوسری طرف سایہ لمبا ہونے لگتا ہے حتی کہ آخر نہار میں دھوپ غائب ہو جاتی ہے۔ یہ ہی مثال دنیا کی ہستی کی سمجھو۔ اول عدم تھا، پھر نور وجود آیا، پھر آخرکار کتم عدم میں چلی جائے گی۔ اور اسی جسمانی نور و ظل کے سلسلہ پر روحانی نور و ظلمت کو قیاس کر لو۔ اگر کفر و عصیان اور جہل و طغیان کی ظلمات میں آفتاب نبوت کی روشنی اللہ تعالیٰ نہ بھیجتا تو کسی کو معرفت صحیحہ کا راستہ ہاتھ نہ آتا۔
۴۷۔۔۔ یعنی رات کی تاریکی چادر کی طرح سب پر محیط ہو جاتی ہے جس میں لوگ کاروبار چھوڑ کر آرام کرتے ہیں، پھر دن کا اجالا ہوتا ہے تو نیند سے اٹھ کر ادھر ادھر چلنے پھرنے لگ جاتے ہیں۔ اسی طرح موت کی نیند کے بعد قیامت کی صبح آئے گی جس میں سارا جہان دوبارہ اٹھ کھڑا ہو گا اور یہ حالت اس وقت پیش آتی ہے جب انبیاء علیہم السلام وحی و الہام کی روشنی سے دنیا میں اجالا کرتے ہیں، تو جہل و غفلت کی نیند سے سوئی ہوئی مخلوق ایک دم آنکھیں مل کر اٹھ بیٹھتی ہے۔
۴۹۔۔۔ یعنی اول برساتی ہوائیں بارش کی خوشخبری لاتی ہیں، پھر آسمان کی طرف سے پانی برستا ہے جو خود پاک اور دوسروں کو پاک کرنے والا ہے۔ پانی پڑتے ہی مردہ زمینوں میں جان پڑ جاتی ہے، کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں جہاں خاک اڑ رہی تھی وہاں سبزہ زار بن جاتا ہے۔ اور کتنے جانور اور آدمی بارش کا پانی پی کر سیراب ہوتے ہیں۔ اسی طرح قیامت کے دن ایک غیبی بارش کے ذریعہ مردہ جسموں کو جو خاک میں مل چکے تھے زندہ کر دیا جائے گا اور دنیا میں بھی اسی طرح جو دل جہل و عصیان کی موت سے مر چکے تھے، وحی الٰہی کی آسمانی بارش ان کو زندہ کر دیتی ہے جو روحیں پلیدی میں پھنس گئی تھیں۔ روحانی بارش کے پانی سے دھل کر پاک و صاف ہو جاتی ہیں اور معرفت و وصول الی اللہ کی پیاس رکھنے والے اس کو پی کر سیراب ہوتے ہیں۔
۵۰۔۔۔ یعنی بارش کا پانی تمام زمینوں اور آدمیوں کو یکساں نہیں پہنچتا بلکہ کہیں کم کہیں زیادہ، کہیں جلد کہیں بدیر، جس طرح اللہ کی حکمت مقتضی ہو پہنچتا رہتا ہے۔ تاکہ لوگ سمجھیں کہ اس کی تقسیم کسی قادر مختار و حکیم کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن بہت لوگ پھر بھی نہیں سمجھتے اور نعمت الٰہی کا شکر ادا نہیں کرتے۔ الٹے کفر اور ناشکری پر اتر آتے ہیں۔ یہی حال روحانی بارش کا ہے کہ جس کو اپنے استعداد اور ظرف کے موافق جتنا حصہ ملنا تھا مل گیا اور بہت سے اس نعمت عظمیٰ کا کفران ہی کرتے رہے۔
۵۲۔۔۔ یعنی نبی کا آنا تعجب کی چیز نہیں۔ اللہ چاہے تو اب بھی نبیوں کی کثرت کر دے کہ ہر بستی میں علیحدہ نبی ہو۔ مگر اس کو منظور ہی یہ ہوا کہ اب آخر میں سارے جہان کے لیے اکیلے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو نبی بنا کر بھیجے۔ سو آپ کافروں کے احمقانہ طعن و تشنیع اور سفیہانہ نکتہ چینیوں کی طرف التفات نہ فرمائیں۔ اپنا کام پوری قوت اور جوش سے انجام دیتے رہیں اور قرآن ہاتھ میں لے کر ان منکرین کا مقابلہ زور و شور کے ساتھ کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو کامیاب کرنے والا ہے۔
۵۳۔۔۔ بیان القرآن میں دو معتبر بنگالی علماء کی شہادت نقل کی ہے کہ "ارکان" سے "چاٹگام" تک دریا کی شان یہ ہے کہ اس کی دو جانبیں بالکل الگ الگ نوعیت کے دو دریا نظر آتے ہیں، ایک کا پانی سفید ہے، ایک کا سیاہ، سیاہ میں سمندر کی طرح طوفانی تلاطم اور تموج ہوتا ہے اور سفید بالکل ساکن رہتا ہے کشتی سفید میں چلتی ہے اور دونوں کے بیچ میں ایک دھاری سی برابر چلی گئی ہے جو دونوں کا ملتقی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ سفید پانی میٹھا ہے اور سیاہ کڑوا۔ اور مجھ سے "باریسال" کے بعض طلبہ نے بیان کیا کہ ضلع"باریسال" میں دو ندیاں ہیں جو ایک ہی دریا سے نکلی ہیں۔ ایک کا پانی کھاری بالکل کڑوا، اور ایک کا نہایت شیریں اور لذیذ ہے۔ یہاں گجرات میں راقم الحروف جس جگہ آجکل مقیم ہے (ڈابھیل سملک ضلع سورت) سمندر تقریباً دس بارہ میل کے فاصلہ پر ہے ادھر کی ندیوں میں برابر مدوجزر (جوار بھاٹا) ہوتا رہتا ہے۔ بکثرت ثقات نے بیان کیا کہ مد کے وقت جب سمندر کا پانی ندی میں آ جاتا ہے تو میٹھے پانی کی سطح پر کھاری پانی بہت زور سے چڑھ جاتا ہے لیکن اس وقت بھی دونوں پانی مختلط نہیں ہوتے۔ اوپر کھاری رہتا ہے، نیچے میٹھا، جزر کے وقت اوپر سے کھاری اتر جاتا اور میٹھا جوں کا توں باقی رہ جاتا ہے واللہ اعلم۔ ان شواہد کو دیکھتے ہوئے آیت کا مطلب بالکل واضح ہے۔ یعنی خدا کی قدرت دیکھو کہ کھاری اور میٹھے دونوں دریاؤں کے پانی کہیں نہ کہیں مل جانے کے باوجود بھی کس طرح ایک دوسرے سے ممتاز رہتے ہیں۔ یا یہ مطلب ہو کہ اللہ تعالیٰ نے دونوں دریا الگ الگ اپنے اپنے مجریٰ میں چلائے اور دونوں کے بیچ میں بہت جگہ زمین حائل کر دی، اس طرح آزاد نہ چھوڑا کہ دونوں زور لگا کر درمیان سے زمین کو ہٹا دیتے اور اس کی ہستی کو تباہ کر دیتے، پھر دونوں میں ہر ایک کا جو مزہ ہے وہ اسی کے لیے لازم ہے۔ یہ نہیں کہ میٹھا دریا کھاری، یا کھاری میٹھا بن جائے۔ گویا باعتبارِ اوصاف کے ہر ایک دوسرے سے بالکل الگ رہنا چاہتا ہے۔ وقیل غیر ذالک والراجح عندی ہوالاول۔ واللہ اعلم۔
۵ ۵۔۔۔ دیکھ لو! کس طرح اپنی قدرتِ کاملہ سے ایک قطرہ آب کو عاقل و کامل آدمی بنا دیا۔ پھر آگے اس سے نسلیں چلائیں اور دامادی اور سسرال کے تعلقات قائم کیے۔ ایک ناچیز قطرہ کو کیا سے کیا کر دیا اور کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ لیکن یہ حضرت تھوڑی ہی دیر میں اپنی اصل کو بھول گئے اور رب قدیر کو چھوڑ کر عاجز مخلوق کو خدا کہنے لگے۔ اپنے پروردگار کا حق تو کیا پہچانتے اس سے منہ موڑ کر اور پیٹھ پھیر کر شیطان کی فوج میں جا شامل ہوئے۔ تاکہ اغواء و اضلال کے مشن میں اس کی مدد کریں اور مخلوق کو گمراہ کرنے میں اس کا ہاتھ بٹائیں۔ نَعُوذُ بِاللّٰہ مِنْ شُرُور اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئَاتِ اَعْمَالِنَا۔
۵۷۔۔۔ یعنی آپ کا کام خدا تعالیٰ کی وفاداری پر بشارات سنانا اور غداروں کو خراب نتائج و عواقب سے آگاہ کر دینا ہے۔ آگے کوئی مانے یا نہ مانے، آپ کو کچھ نقصان نہیں۔ آپ ان سے کچھ فیس یا مزدوری تھوڑی طلب کر رہے تھے کہ ان کے نہ ماننے سے اس کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو۔ آپ تو ان سے صرف اتنا ہی چاہتے ہیں کہ جو کوئی چاہے خدا کی توفیق پا کر اپنے رب کا راستہ پکڑ لے۔ اسی کو چاہو فیس کہہ لو یا مزدوری۔
۵۸۔۔۔ ۱: یعنی آپ تنہا خدا پر بھروسہ کر کے اپنا فرض (تبلیغ و دعوت وغیرہ) ادا کیے جائیے۔ کسی کی مخالفت یا موافقت کی پروا نہ کریں۔ فانی چیزوں کا کیا سہارا۔ سہارا تو اسی کا ہے جو ہمیشہ زندہ رہے کبھی نہ مرے۔
۲: یعنی اسی پر توکل رکھیے اور اسی کی عبادت اور حمدو ثنا کرتے رہیے۔ ان مجرموں سے وہ خود نبٹ لے گا۔
۵۹۔۔۔ ۱: اس کا بیان سورہ اعراف میں گزر چکا ہے۔
۲: یعنی اللہ تعالیٰ کی شانوں اور رحمتوں کو کسی جاننے والے سے پوچھو۔ یہ جاہل مشرک اسے کیا جانیں۔ "وَمَاقَدَرُوا اللّٰہ حَقَّ قَدْرِہٖ" اپنی شؤن و کمالات کا پوری طرح جاننے والا تو خدا ہی ہے۔"اَنْتَ کَمَآ اَثْنَیْتَ عَلیٰ نَفْسِکَ" لیکن مخلوق میں سب سے بڑے جاننے والے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہیں جن کی ذاتِ گرامی میں حق تعالیٰ نے اولین و آخرین کے تمام علوم جمع کر دیئے، خدا تعالیٰ کی شانوں کو کوئی ان سے پوچھے۔
۶۰۔۔۔ یعنی یہ جاہل مشرک رحمان کی عظمت شان کو کیا سمجھ سکتے ہیں جن کو اس نام سے بھی چڑ ہے۔ جب یہ نام سنتے ہیں تو انتہائی جہل یا بے حیائی اور تعنت سے ناواقف بن کر کہتے ہیں کہ رحمان کون ہے جس کو ہم سے سجدہ کراتا ہے کیا محض تیرے کہہ دینے سے ایسی بات مان لیں؟ بس تم نے ایک نام لے دیا اور ہم سجدہ میں گر پڑے۔ غرض جس قدر انہیں رحمان کی اطاعت و انقیاد کی طرف توجہ دلائے اسی قدر زیادہ بدکتے اور بھاگتے ہیں۔
۶۱۔۔۔ ۱: یعنی بڑے بڑے ستارے، یا آسمانی قلعے جن میں فرشتے پہرہ دیتے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ آسمان کے بارہ حصے، ان کا نام برج، ہر ایک پر ستاروں کا پتہ، یہ حدیں رکھی ہیں حساب کو۔ (موضح)
۲: یعنی سورج، شاید نور و حرارت کے جمع ہونے اور صفت احراق رکھنے کی وجہ سے اس کو چراغ فرمایا۔ "وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِیْہِنَّ نُوْرًا وَّجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا" (نوح، رکوع۱'آیت ۱۶)
۶۲۔۔۔ ۱: گھٹنے بڑھنے یا آنے جانے کو بدلنا سدلنا فرمایا، یا یہ مطلب ہے کہ ایک کو دوسرے کا بدل بنایا ہے۔ مثلاً دن کا کام رہ گیا، رات کو کر لیا، رات کا وظیفہ رہ گیا، دن میں پورا کر دیا۔ کما ورد فی الحدیث۔
۲: یعنی چاند سورج وغیرہ کا الٹ پھیر اور رات دن کا ادل بدل اس لیے ہے کہ اس میں دھیان کر کے لوگ خداوند قدیر کی معرفت کا سراغ لگائیں کہ یہ سب تصرفات و تقلبات عظیمہ اسی کے دست قدرت کی کارسازیاں ہیں۔ اور رات دن کے فوائد و انعامات کو دیکھ کر اس کی شکر گزاری کی طرف متوجہ ہوں۔ چنانچہ رحمان کے مخلص بندے جن کا ذکر آگے آتا ہے، ایسا ہی کرتے ہیں۔
۶۳۔۔۔ ۱: یعنی مشرکین کی طرح رحمان کا نام سن کر ناک بھویں نہیں چڑھاتے بلکہ ہر فعل و قول سے بندگی کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کی چال ڈھال سے تواضع، متانت، خاکساری اور بے تکلفی ٹپکتی ہے۔ متکبروں کی طرح زمین پر اکڑ کر نہیں چلتے۔ یہ مطلب نہیں کہ ریاء و تصنع سے بیماروں کی طرح قدم اٹھاتے ہیں۔ کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی جو رفتار احادیث میں منقول ہے، اس کی تائید نہیں کرتی۔
۲: یعنی کم عقل اور بے ادب لوگوں کی بات کا جواب عفو و صفح سے دیتے ہیں۔ جب کوئی جہالت کی گفتگو کرے تو ملائم بات اور صاحب سلامت کہہ کر الگ ہو جاتے ہیں۔ ایسوں سے منہ نہیں لگتے۔ نہ ان میں شامل ہوں نہ ان سے لڑیں۔ ان کا شیوہ وہ نہیں جو جاہلیت میں کسی نے کہا تھا۔
اَلاَ لاَ یَجْہَلَنَ اَحَدَعَلَیْ نَا فَنَجْہَلْ فَوْقَ جَہْلِ الْجَاھلِیْنَا
یہ تو رحمان کے ان مخلص بندوں کا دن تھا، آگے رات کی کیفیت بیان فرماتے ہیں۔
۶۴۔۔۔ یعنی رات کو جب غافل بندے نیند اور آرام کے مزے لوٹتے ہیں، یہ خدا کے آگے کھڑے اور سجدہ میں پڑے ہوئے گذارتے ہیں۔ رکوع چونکہ قیام و سجود کے درمیان واقع ہے، شاید اسی لیے اس کو علیحدہ ذکر نہیں کیا۔ گویا ان ہی دونوں کے بیچ میں آگیا۔
۶۶۔۔۔ یعنی اتنی عبادت پر اتنا خوف بھی ہے۔ یہ نہیں کہ تہجد کی آٹھ رکعت پڑھ کر خدا کے عذاب و قہر سے بے فکر ہو گئے۔
۶۷۔۔۔ یعنی موقع دیکھ بھال کر میانہ روی کے ساتھ خرچ کرتے ہیں۔ نہ مال کی محبت نہ اس کی اضاعت۔ کما قال تعالیٰ۔ "وَلاَ تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُولَۃً اِلیٰ عُنُقِکَ وَلاَ تَبْسُطْہَا کُلَ الْبَسْطِ۔" (بنی اسرائیل، رکوع۳'آیت ۲۹)
۶۸۔۔۔ ۱: مثلاً قتل عمد کے بدلہ قتل کرنا، یا بدکاری کی سزا میں زانی محصن کو سنگسار کرنا، یا جو شخص دین چھوڑ کر جماعت سے علیحدہ ہو جائے اس کو مار ڈالنا، یہ سب صورتیں "الا بالحق"میں شامل ہیں۔ کما ورد فی الحدیث۔
۲: یعنی بڑا سخت گناہ کیا جس کی سزا مل کر رہے گی۔ بعض روایات میں آیا کہ "آثام" جہنم کی ایک وادی کا نام ہے جس میں بہت ہی ہولناک عذاب بیان کیے گئے ہیں۔ اعاذنا اللہ منہا۔
۶۹۔۔۔ یعنی اور گناہوں سے یہ گناہ بڑے ہیں۔ عذاب بھی ان پر بڑا ہو گا اور دم بدم بڑھتا رہے گا۔
۷۰۔۔۔ یعنی گناہوں کی جگہ نیکیوں کی توفیق دے گا اور کفر کے گناہ معاف کرے گا۔ یا یہ کہ بدیوں کو مٹا کر توبہ اور عمل صالح کی برکت سے ان کی تعداد کے مناسب نیکیاں ثبت فرمائے گا۔ کما یظہر من بعض الاحادیث۔
۷۱۔۔۔ پہلے ذکر تھا کافر کے گناہوں کا جو پیچھے ایمان لے آیا۔ یہ ذکر ہے اسلام میں گناہ کرنے کا۔ وہ بھی جب توبہ کرے یعنی پھر برے کام سے تو اللہ کے یہاں جگہ پائے۔ معلوم ہوا کہ سورہ نسآء میں جو فرمایا "وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَہَنَّمُ خَالِدًا فِیْہَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَلَعْنَہٗ وَاَعَدَّلَہٗ عَذَاباً عَظِیمًا۔" (نسا، رکوع۱۳'آیت ۹۳) وہ غیر تائب کے حق میں ہے۔ واللہ اعلم۔
۷۲۔۔۔ ۱: یعنی نہ جھوٹ بولیں نہ جھوٹی شہادت دیں۔ نہ باطل کاموں اور گناہ کی مجلسوں میں حاضر ہوں۔
۲: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "یعنی گناہ میں شامل نہیں، اور کھیل کی باتوں کی طرف دھیان نہیں کرتے نہ اس میں شامل نہ ان سے لڑیں۔
۳: بلکہ نہایت فکرو تدبر اور دھیان سے سنیں اور سن کر متاثر ہوں مشرکین کی طرح پتھر کی مورتیں نہ بن جائیں۔
۷۴۔۔۔ ۱: یعنی بیوی بچے ایسے عنایت فرما جنہیں دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی اور قلب مسرور ہو۔ اور ظاہر ہے مومن کامل کا دل اسی وقت ٹھنڈا ہو گا۔ جب اپنے اہل و عیال کو طاعت الٰہی کے راستہ پر گامزن اور علم نافع کی تحصیل میں مشغول پائے۔ دنیا کی سب نعمتیں اور مسرتیں اس کے بعد ہیں۔
۲: یعنی ایسا بنا دے کہ لوگ ہماری اقتداء کر کے متقی بن جایا کریں۔ حاصل یہ کہ ہم نہ صرف بذاتِ خود مہتدی، بلکہ دوسروں کے لیے ہادی ہوں۔ اور ہمارا خاندان تقویٰ و طہارت میں ہماری پیروی کرے۔
۷ ۵۔۔۔ ۱ یعنی جنت میں اوپر کے درجے ملیں گے اور فرشتے دعا و سلام کہتے ہوئے ان کا استقبال کریں گے اور آپس کی ملا قاتوں میں یہ ہی کلمات سلام و دعا ان کی تکریم و عزت افزائی کے لیے استعمال ہوں گے۔
۷۶۔۔۔ یعنی ایسی جگہ تھوڑی دیر ٹھہرنا ملے تو بھی غنیمت ہے ان کا تو وہ گھر ہو گا۔
۷۷۔۔۔ ۱: یعنی تمہارے نفع نقصان کی باتیں سجھا دیں۔ بندہ کو چاہیے مغرور اور بیباک نہ ہو، خدا کو اس کی کیا پروا، ہاں اس کی التجاء پر رحم کرتا ہے، نہ التجا کرو گے اور بڑے بنے رہو گے تو مڈ بھیڑ کے لیے تیار ہو جاؤ جو عنقریب ہونے والی ہے۔
۲: یعنی کافر جو حق کو جھٹلا چکے۔ یہ تکذیب عنقریب ان کے گلے کا ہار بنے گی۔ اس کی سزا سے کسی طرح چھٹکارا نہ ہو گا۔ آخرت کی ابدی ہلاکت تو ہے ہی، دنیا میں بھی اب جلدی مڈ بھیڑ ہونے والی ہے۔ یعنی لڑائی جہاد۔ چنانچہ غزوہ "بدر" میں اس مٹھ بھیڑ کا نتیجہ دیکھ لیا۔ تم سورۃ الفرقان وللہ الحمد والمنہ۔