۱۔۔۔ ۱: جیسا کہ رؤسائے کفار کی عادت تھی کہ جان، مال اور ہر طرح سے اس میں کوشش کرتے تھے۔
۲: یعنی جن اعمال کو وہ نیک سمجھ رہے ہیں بوجہ عدم ایمان کے وہ مقبول نہیں۔ بلکہ ان میں سے بعض کام اور الٹے موجب عتاب ہوتے ہیں۔ جیسے لوگوں کو اسلام سے روکنے میں پیسہ خرچ کرنا۔
۲۔۔۔ یعنی برائیوں کی عادت چھڑا کر اللہ تعالیٰ ان کا حال سنوار دیتا ہے کہ یوماً فیوماً نیکی میں ترقی کرتے رہتے ہیں۔ اور آخرت میں ان کی کوتاہیوں سے درگزر فرما کر اچھے حال میں رکھتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ "پہلے زمانہ میں ساری مخلوق ایک شریعت کی مکلف نہ تھی۔ اس وقت سب جہان کو ایک حکم ہے، اب سچا دین یہی ہے اور برے بھلے کام مسلمان بھی کرتے ہیں اور کافر بھی، لیکن سچا دین ماننے کو یہ قبولیت ہے کہ نیکی ثابت اور برائی معاف، اور نہ ماننے کی یہ سزا ہے کہ نیکی برباد گناہ لازم۔
۳۔۔۔ یعنی اس طرح کھول کھول کر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے بھلے برے احوال پر متنبہ کرتا ہے۔ تاکہ باطل پرستی کی نحوست و شامت اور حق پرستی کی برکت ان کو پوری طرح ذہن نشین ہو جائے۔
۴۔۔۔ ۱: یعنی حق اور باطل کا مقابلہ تو رہتا ہی ہے جس وقت مسلمانوں اور کافروں میں جنگ ہو جائے تو مسلمانوں کو پوری مضبوطی اور بہادری سے کام لینا چاہیے۔ باطل کا زور جب ہی ٹوٹے گا کہ بڑے بڑے شریر مارے جائیں اور ان کے جتھے توڑ دیئے جائیں۔ اس لیے ہنگامہ کارزار میں کسل، سستی، بزدلی اور توقف و تردد کو راہ نہ دو۔ اور دشمنانِ خدا کی گردنیں مارنے میں کچھ باک نہ کرو۔ کافی خون ریزی کے بعد جب تمہاری دھاک بیٹھ جائے اور ان کا زور ٹوٹ جائے اس وقت قید کرنا بھی کفایت کرتا ہے۔ قال تعالیٰ "مَاکَانَ لِنَبِّیٍ اَنْ یَّکُونَ لہ اسری حتی یثخن فی الارض ۔" (انفال، رکوع۹' آیت ۶۷) یہ قید و بند ممکن ہے ان کے لیے تازیانہ عبرت کا کام دے۔ اور مسلمانوں کے پاس رہ کر ان کو اپنی اور تمہاری حالت کے جانچنے اور اسلامی تعلیمات میں غرور کرنے کا موقع بہم پہنچائے۔ شدہ شدہ وہ لوگ حق و صداقت کا راستہ اختیار کر لیں یا مصلحت سمجھو تو بدون کسی معاوضہ کے ان پر احسان کر کے قید سے رہا کر دو۔ اس صورت میں بہت سے افراد ممکن ہے تمہارے احسان اور خوبی اخلاق سے متاثر ہو کر تمہاری طرف راغب ہوں اور تمہارے دین سے محبت کرنے لگیں۔ اور یہ بھی کر سکتے ہو کہ زرِ فدیہ لے کر یا مسلمان قیدیوں کے مبادلہ میں ان قیدیوں کو چھوڑ دو۔ اس میں کئی طرح کے فائدے ہیں۔ بہرحال اگر ان اسیرانِ جنگ کو ان کے وطن کی طرف واپس کرو تو دو ہی صورتیں ہیں۔ معاوضہ میں چھوڑنا یا بلا معاوضہ رہا کرنا۔ ان میں جو صورت امام کے نزدیک اصلح ہو اختیار کر سکتا ہے۔ حنفیہ کے ہاں بھی فتح القدیر اور شامی وغیرہ میں اس طرح کی روایات موجود ہیں۔ ہاں اگر قیدیوں کو ان کے وطن کی طرف واپس کرنا مصلحت نہ ہو، تو پھر تین صورتیں ہیں۔ ذمی بنا کر بطور رعیت کے رکھنا۔ یا غلام بنا لینا، یا قتل کر دینا، احادیث سے قیدی کو قتل کرنے کا ثبوت صرف خاص خاص حالات میں ملتا ہے۔ جب کہ وہ کسی ایسے سنگین جرم کا مرتکب ہوا ہو جس کی سزا قتل سے کم نہیں ہو سکتی تھی۔ البتہ غلام یا رعیت بنا کر رکھنے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔
۲: یعنی یہ حرب و ضرب اور قید و بند کا سلسلہ برابر جاری رہے گا۔ تاآنکہ لڑائی اپنے ہتھیار اتار کر رکھ دے اور جنگ موقوف ہو جائے۔
۳: یعنی خدا کو قدرت ہے کہ ان کافروں کو کوئی آسمانی عذاب بھیج کر "عاد" و "ثمود" وغیرہ کی طرح ہلاک کر ڈالے۔ لیکن جہاد و قتال مشروع کر کے اسے بندوں کا امتحان کرنا تھا۔ وہ دیکھتا ہے کہ کتنے مسلمان اللہ کے نام پر جان و مال نثار کرنے کے لیے تیار ہیں اور کفار میں سے کتنے ان تنبیہی کارروائیوں سے بیدار ہوتے اور اس مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہیں جو اللہ نے دے رکھی ہے کہ پہلی قوموں کی طرح ایک دم پکڑ کر استیصال نہیں کر دیتا۔
۵۔۔۔ یعنی جو لوگ اللہ کے راستہ میں شہید ہوئے خواہ بظاہر یہاں کامیاب نظر نہ آتے ہوں۔ لیکن حقیقتہً وہ کامیاب ہیں۔ اللہ ان کے کام ضائع نہ کرے گا۔ بلکہ انجام کار ان کی محنت ٹھکانے لگائے گا۔ ان کو جنت کی طرف راہ دے گا۔ اور آخرت کے تمام منازل و مواقف میں ان کا حال درست رکھے گا۔
۶۔۔۔ یعنی جس جنت کا حال ان کو انبیاء علیہم السلام کی زبان اور اپنے وجدانِ صحیح سے معلوم ہو چکا تھا اس میں داخل کیے جائیں گے اور وہاں پہنچ کر ہر جنتی اپنے ٹھکانے کو خود بخود پہچان لے گا اس کے دل کی کشش ادھر ہی ہو گی جہاں اس کو رہنا ہے (تنبیہ) ابن عباس رضی اللہ نے "عَرَّفَہَالَہُمْ" کے معنی "طَیَّبَہَالَہُمْ" کے لیے ہیں۔ یعنی جنت ان کے لیے خوشبوؤں سے مہکا دی گئی ہے۔
۷۔۔۔ ۱: یعنی اللہ کے دین کی اور اس کی پیغمبر کی۔
۲: یعنی جہاد میں اللہ کی مدد سے تمہارے قدم نہیں ڈگمگائیں گے اور اسلام و طاعت پر ثابت قدم رہو گے جس کے نتیجہ میں "صراط" پر ثابت قدمی نصیب ہو گی۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ "اللہ چاہے تو خود ہی کافروں کو مسلمان کر ڈالے پر یہ بھی منظور نہیں کہ "جانچنا منظور ہے۔ سو بندہ کی طرف سے کمر باندھنا اور اللہ کی طرف سے کام بنانا"۔
۸۔۔۔ یعنی جس طرح مومنین کے قدم جما دیے جاتے ہیں اس کے برعکس منکروں کو منہ کے بل گرا دیا جاتا ہے۔ اور جیسے خدا کی طرف سے مومنین کی مدد کی جاتی ہے، اس کے خلاف کافروں کے کام برباد کر دیے جاتے ہیں۔
۹۔۔۔ یعنی جب انہوں نے اللہ کی باتوں کو ناپسند کیا تو اللہ ان کے کام کیوں پسند کرے گا۔ اور جو چیز خدا کو ناپسند ہو وہ محض اکارت ہے۔
۱۰۔۔۔ یعنی دنیا ہی میں دیکھ لو منکروں کی کیسی گت بنی اور کس طرح ان کے منصوبے خاک میں ملا دیے گئے۔ کیا آجکل کے منکروں کو ایسی سزائیں نہیں مل سکتیں۔
۱۱۔۔۔ یعنی اللہ مومنین صالحین کا رفیق ہے جو وقت پر ان کی مدد کرتا ہے۔ کافروں کا ایسا رفیق کون ہے۔ جو اللہ کے مقابلہ میں کام آ سکے "غزوہ احد" میں ابو سفیان نے پکارا تھا۔ لَنَا الْعُزّیٰ وَلَا عُزّیٰ لَکُمْ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا پکارو "اللّٰہُ مَوْلَانَا وَلاَ مَوْلیٰ لَکُمْ۔
۱۲۔۔۔ یعنی دنیا کا سامان عبرت رہے اور مارے حرص کے بہائم کی طرح اناپ شناپ کھاتے چلے جاتے ہیں۔ نتیجہ کی خبر نہیں کہ کل یہ کھایا پیا کس طرح نکلے گا۔ اچھا چند روز مزے اڑالیں آگے ان کے لیے آگ کا گھر تیار ہے۔
۱۳۔۔۔ یعنی دوسری قوموں کو جو زور و طاقت میں مکہ والوں سے کہیں بڑھ کر تھیں ہم نے تباہ کر چھوڑا اور کوئی ان کی مدد کو نہ پہنچا۔ پھر یہ کس بات پر اتراتے ہیں۔ (تنبیہ) "قَرْیَتِکَ الَّتِی اَخْرَجَتْکَ" سے مراد مکہ معظمہ ہے۔ وہاں کے لوگوں نے ایسی حرکات کیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو وطن مالوف و محبوب چھوڑنا پڑا۔ حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے رخصت ہوتے وقت مکہ معظمہ کو خطاب کر کے فرمایا کہ خدا کی قسم تو تمام شہروں میں اللہ کے نزدیک اور میرے نزدیک محبوب ترین شہر ہے۔ اور اگر میری قوم مجھ کو تیرے اندر سے نہ نکالتی میں تجھ کو نہ چھوڑتا۔
۱۴۔۔۔ یعنی ایک شخص نہایت شرح صدر اور فہم و بصیرت کے ساتھ سچائی کی صاف اور کشادہ سڑک پر بے کھٹکے چلا جا رہا ہے، اور دوسرا اندھیرے میں پڑا ٹھوکریں کھاتا ہے، جس کو سیاہ و سفید یا نیک و بد کی کچھ تمیز نہیں، حتیٰ کہ اپنی بد تمیزی سے برائی کو بھلائی سمجھتا ہے اور خواہشات کی پیروی میں اندھا ہو رہا ہے، کیا ان دونوں کا مرتبہ اور انجام برابر ہو جائے گا؟ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ حق تعالیٰ کی شان حکومت و عدل کے منافی ہے۔
۱۵۔۔۔ ۱: یعنی طول مکث یا کسی چیز کے اختلاط سے اس کی بو نہیں بدلی۔ شہد سے زیادہ شیریں اور دودھ سے زیادہ سفید ہے۔ کسی طرح کے تغیر کو اس کی طرف راہ نہیں۔
۲: یعنی دنیا کے دودھ پر قیاس نہ کرو۔ اتنی مدت گزرنے پر بھی اس کے مزے میں فرق نہیں آیا۔
۳: یعنی وہاں کی شراب میں خالص لذت اور مزہ ہی ہے۔ نہ نشہ ہے نہ شکستگی نہ تلخی نہ سرگرانی نہ کوئی اور عیب و نقصان۔
۴: یعنی صاف و شفاف شہد جس میں تکدر تو کہاں ہوتا جھاگ تک نہیں۔ (تنبیہ) یہاں چار قسم کی نہروں کا ذکر ہوا جن میں پانی تو ایسی چیز ہے کہ انسان کی زندگی اس سے ہے اور دودھ غذائے لطیف کا کام دیتا ہے اور شراب سرور و نشاط کی چیز ہے۔ اور شہد کو "شفاء للناس" فرمایا گیا ہے۔
۵: مشروبات کے بعد یہ ماکولات کا ذکر فرما دیا۔
۶: یعنی سب خطائیں معاف کر کے جنت میں داخل کریں گے وہاں پہنچ کر کبھی خطاؤں کا ذکر بھی نہ آئے گا جو ان کی کلفت کا سبب بنے۔ اور نہ آئندہ کسی بات پر گرفت ہو گی۔
۷: یعنی کھولتا ہوا پانی جب دوزخیوں کو پلائیں گے تو آنتیں کٹ کر باہر آپڑیں گی۔ (اعاذنا اللہ منہ)
۱۶۔۔۔ ۱: اوپر مومنوں اور کافروں کا حال مذکور تھا۔ ایک قسم کافروں کی وہ ہے جسے منافق کہتے ہیں۔ یعنی ظاہر میں اسلام کا دعویٰ اور باطن میں اس سے انحراف۔ اس آیت میں اس کا ذکر ہے۔ یعنی یہ لوگ بظاہر پیغمبر کی بات سننے کے لیے کان رکھتے ہیں۔ مگر نہ دلی توجہ ہے نہ سمجھ، نہ یاد، جب مجلس سے اٹھ کر جاتے ہیں تو اہل علم سے کہتے ہیں کہ اس شخص (یعنی پیغمبر علیہ السلام) نے ابھی ابھی کیا بیان کیا تھا۔ شاید اس دریافت کرنے سے مقصود ادھر تعریض کرنا ہو گا کہ ان کی بات کو لائق اعتناء نہیں سمجھتے نہ توجہ سے سنتے ہیں۔
۲: یعنی ایسی نالائق حرکتوں کا اثر یہ ہوتا ہے کہ اللہ ان کے دلوں پر مہر کر دیتا ہے۔ پھر نیکی کی توفیق قطعاً نہیں ہوتی۔ محض خواہشات کی پیروی رہ جاتی ہے۔
۱۷۔۔۔ یعنی سچائی کے راستہ پر چلنے کا اثر یہ ہوتا ہے کہ آدمی روز بروز ہدایت میں ترقی کرتا چلا جاتا ہے اور اس کی سوجھ بوجھ اور پرہیزگاری بڑھتی جاتی ہے۔
۱۸۔۔۔ یعنی قرآن کی نصیحتیں، گذشتہ اقوام کی عبرتناک مثالیں اور جنت و دوزخ کے وعدہ و وعید سب سن چکے اب ماننے کے لیے کس وقت کا انتظار ہے۔ یہ ہی کہ قیامت کی گھڑی ان کے سر پر اچانک آ کھڑی ہو۔ سو قیامت کی کئی نشانیاں تو آ چکیں، اور جب خود قیامت آ کھڑی ہو گی، اس وقت ان کے لیے سمجھ حاصل کرنے اور ماننے کا موقع کہاں باقی رہے گا۔ یعنی وہ سمجھنا اور ماننا بے کار ہے کیونکہ اس پر نجات نہیں ہو سکتی۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "بڑی نشانی قیامت کی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا پیدا ہونا ہے۔ سب نبی خاتم النبیین کی راہ دیکھتے تھے۔ جب وہ آ چکے (مقصود تخلیق عالم کا حاصل ہو چکا) اب قیامت ہی باقی ہے۔" حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے شہادت کی انگلی اور بیچ کی انگلی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا "اَنَا وَالسَّاعَۃُ کَہَاتَیْنِ" (میں اور قیامت اس طرح ہیں) گویا میں قیامت سے اتنا آگے نکل آیا ہوں جتنا بیچ کی انگلی شہادت کی انگلی سے آگے نکلی ہوئی ہے۔ شرح صحیح مسلم میں ہم نے اس کی مفصل تقریر کی ہے۔ یہاں گنجائش نہیں۔
۱۹۔۔۔ ۱: ہر ایک کا ذنب (گناہ) اس کے مرتبہ کے موافق ہوتا ہے۔ کسی کام کا بہت اچھا پہلو چھوڑ کر کم اچھا پہلو اختیار کرنا گو وہ حدودِ جواز و استحسان میں ہو، بعض اوقات مقربین کے حق میں ذنب (گناہ) سمجھا جاتا ہے۔ "حسنات الابرار سیأت المقربین" کے یہ ہی معنی ہے۔ حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم دن میں سو بار استغفار فرماتے تھے (تنبیہ) "فاعلم انہ لآالہ الا اللہ" الخ کا خطاب ہر ایک مخاطب کو ہے۔ اور اگر خاص نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا مخاطب ہوں تو مطلب یہ ہے کہ اس علم پر برابر جمے رہیے اور استغفار کرتے رہیے۔ اور "فاعلم" کی تفریع ماقبل پر اس طرح ہے کہ قیامت آنے کے بعد کسی کو ایمان و توبہ وغیرہ نافع نہیں، تو آدمی کو چاہیے کہ اس کے آنے سے قبل صحیح معرفت حاصل کرے۔ اور ایمان و استغفار کے طریق پر مستقیم رہے۔
۲: یعنی جتنے پردوں میں پھرو گے پھر بہشت یا دوزخ میں پہنچو گے جو تمہارا اصلی گھر ہے۔
۲۰۔۔۔ ۱: یعنی ایسی سورت جس میں جہاد کی اجازت ہو۔
۲: یعنی جچے تلے احکام پر مشتمل ہے جو غیر منسوخ ہیں اور ٹھیک اپنے وقت پر اترتے ہیں۔
۳: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "مسلمان سورت مانگتے تھے یعنی کافروں کی ایذاء سے عاجز ہو کر آرزو کرتے کہ اللہ جہاد کا حکم دے تو جو ہم سے ہو سکے کر گزریں۔ جب جہاد کا حکم آیا تو منافق اور کچے لوگوں پر بھاری ہوا، خوفزدہ اور بے رونق آنکھوں سے پیغمبر کی طرف دیکھنے لگے کہ کاش ہم کو اس حکم سے معاف رکھیں۔ بیحد خوف میں بھی آنکھ کی رونق نہیں رہتی۔ جیسے مرتے وقت آنکھوں کا نور جاتا رہتا ہے۔
۲۱۔۔۔ یعنی ظاہر میں یہ لوگ فرمانبرداری کا اظہار اور زبان سے اسلام و احکام اسلام کا اقرار کرتے ہیں۔ مگر کام کی بات یہ ہے کہ عملاً خدا و رسول کا حکم مانیں اور بات اچھی اور معقول کہیں، پھر جب جہاد وغیرہ میں کام کی تاکید اور زور آ پڑے اس وقت اللہ کے سامنے سچے ثابت ہوں تو یہ صورت ان کی بہتری اور بھلائی کی ہو گی۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "یعنی حکم شرع کو نہ ماننے سے کافر ہو جاتا ہے۔ اللہ کا حکم ہر طرح ماننا ہی چاہیے۔ پھر رسول بھی جانتا ہے کہ نا مردوں کو کیوں لڑوائے، ہاں جب بہت ہی تاکید آ پڑے اسی وقت لڑنا ضروری ہو گا۔ نہیں تو لڑنے والے بہت ہیں۔
۲۲۔۔۔ یعنی حکومت و اقتدار کے نشہ میں لوگ عموماً اعتدال و انصاف پر قائم نہیں رہا کرتے۔ دنیا کی حرص اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ پھر جاہ و مال کی کشمکش اور غرض پرستی میں جھگڑے کھڑے ہوتے ہیں۔ جن کا آخری نتیجہ ہوتا ہے عام فتنہ و فساد اور ایک دوسرے سے قطع تعلق۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "یعنی جان سے تنگ ہو کر جہاد کی آرزو کرتے ہو اور اگر اللہ تم ہی کو غالب کر دے تو فساد نہ کرنا۔" (تنبیہ) مترجم محقق قدس اللہ روحہٗ نے "تولیتم" کا ترجمہ حکومت مل جانے سے کیا ہے جیسا کہ بہت سے مفسرین کی رائے ہے۔ دوسرے علماء "تولی" کو بمعنی اعراض لے کر یوں مطلب لیتے ہیں کہ اگر تم اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے اعراض کرو گے تو ظاہر ہے دنیا میں امن و انصاف قائم نہیں ہو سکتا۔ اور جب دنیا میں امن و انصاف نہ رہے گا تو ظاہر ہے فساد، بدامنی اور حق ناشناسی کا دور دورہ ہو گا۔ اور بعض نے اس طرح تفسیر کی ہے کہ اگر تم ایمان لانے سے اعراض کرو گے تو زمانہ جاہلیت کی کیفیت عود کر آئے گی جو خرابیاں اور فساد اس وقت تھے اور ادنیٰ بات پر رشتے ناتے قطع ہو جاتے تھے، وہ ہی سب نقشہ پھر قائم ہو جائے گا۔ اور اگر آیت میں خاص منافقین سے خطاب مانا جائے تو ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر جہاد سے اعراض کرو گے تو تم سے یہ ہی توقع کی جا سکتی ہے کہ اپنی منافقانہ شرارتوں سے ملک میں خرابی مچاؤ گے اور جن مسلمانوں سے تمہاری قرابتیں ہیں ان کی مطلق پروا نہ کرتے ہوئے کھلے کافروں کے مددگار بنو گے۔
۲۳۔۔۔ یعنی حکومت کے غرور میں اندھے بہرے ہو کر ظلم کرنے لگے۔ پھر کسی کا سمجھایا نہ سمجھے۔ خدا کی پھٹکار نے بالکل ہی سنگدل بنا دیا۔ اور یہ سب کچھ ان ہی کے سوء اختیار اور قصور استعداد سے ہوا۔
۲۴۔۔۔ یعنی منافق قرآن میں غور نہیں کرتے یا ان کی شرارتوں کی بدولت دلوں پر قفل پڑ گئے ہیں کہ نصیحت کے اندر جانے کا راستہ ہی نہیں رہا۔ اگر قرآن کے سمجھنے کی توفیق ملتی تو باآسانی سمجھ لیتے کہ جہاد میں کس قدر دنیاوی و اخروی فوائد ہیں۔
۲۵۔۔۔ یعنی منافقین اسلام کا اقرار کرنے اور اس کی سچائی ظاہر ہو چکنے کے بعد وقت آنے پر اپنے قول و قرار سے پھرے جاتے ہیں۔ اور جہاد میں شرکت نہیں کرتے۔ شیطان نے ان کو یہ بات سجھا دی ہے کہ لڑائی میں نہ جائیں گے تو دیر تک زندہ رہیں گے۔ خواہ مخواہ جا کر مرنے سے کیا فائدہ۔ اور نہ معلوم کیا کچھ سجھاتا اور دور دراز کے لمبے چوڑے وعدے دیتا ہے۔ "وما یعدہم الشیطان الاغرورًا۔
۲۶۔۔۔ منافقوں نے یہود وغیرہ سے کہا کہ گو ہم ظاہر میں مسلمان ہو گئے ہیں۔ لیکن مسلمانوں کے ساتھ ہرگز تم سے نہ لڑیں گے بلکہ موقع ملا تو تم کو مدد دیں گے اور اس قسم کے کاموں میں تمہاری بات مانیں گے۔
۲۷۔۔۔ یعنی اس وقت موت سے کیونکر بچیں گے۔ بیشک اس وقت نفاق کا مزہ چکھیں گے۔
۲۸۔۔۔ یعنی اللہ کی خوشنودی کا راستہ پسند نہ کیا۔ اسی راہ چلے جس سے وہ ناراض ہوتا تھا۔ اس لیے موت کے وقت ہی بھیانک سماں دیکھنا پڑا۔ اور اللہ نے ان کے کفرو طغیان کی بدولت سب عمل بیکار کر دیے۔ کسی عمل نے ان کو دوسری زندگی میں فائدہ نہ پہنچایا۔
۲۹۔۔۔ یعنی منافقین اپنے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے جو حاسدانہ عداوتیں اور کینے رکھتے ہیں، کیا یہ خیال ہے کہ وہ دلوں میں پنہاں ہی رہیں گے؟ اللہ ان کو طشت از بام نہ کرے گا؟ اور مسلمان ان کے مکر و فریب پر مطلع نہ ہوں گے؟ ہرگز نہیں۔ ان کا خبث باطن ضرور ظاہر ہو کر رہے گا اور ایسے امتحان کی بھٹی میں ڈالے جائیں گے جہاں کھوٹا کھرا بالکل الگ ہو جائے گا۔
۳۰۔۔۔ ۱: یعنی اللہ چاہے تو تمام منافقین کو بٰاشخاصہم معین کر کے آپ کو دکھلا دے اور نام بنام مطلع کر دے کہ مجمع میں فلاں فلاں آدمی منافق ہیں مگر اس کی حکمت بالفعل اس دو ٹوک اظہار کو مقتضی نہیں۔ ویسے اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اعلیٰ درجہ کا نورِ فراست دیا ہے کہ ان کے چہرے بشرے سے آپ پہچان لیتے ہیں۔ اور آگے چل کر ان لوگوں کے طرز گفتگو سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو مزید شناخت ہو جائے گی۔ کیونکہ منافق اور مخلص کی بات کا ڈھنگ الگ الگ ہوتا ہے، جو زور، شوکت، پختگی اور خلوص کا رنگ مخلص کی باتوں میں جھلکتا ہے، منافق کتنی ہی کوشش کرے اپنے کلام میں پیدا نہیں کر سکتا (تنبیہ) مترجم محقق قدس اللہ روحہٗ نے "فَلَعَرَفْتَہُمْ" کو "لَوْنَشَآء" کے نیچے نہیں رکھا عامہ مفسرین اس کو "لَوْنَشَاء" کے تحت میں رکھ کر "لَاَرْیَنَاکَہُمْ" پر متفرع کرتے ہیں۔ یعنی اگر ہم چاہیں تو تجھ کو دکھلا دیں وہ لوگ، پھر تو ان کو پہچان جائے صورت دیکھ کر۔ احقر کے خیال میں مترجم رحمہ اللہ کی تفسیر زیادہ لطیف ہے۔ واللہ اعلم۔ بعض احادیث سے ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے بہت سے منافقین کو نام بنام پکارا اور اپنی مجلس سے اٹھا دیا۔ ممکن ہے وہ شناخت "لَحْنِ الْقَوْلِ" اور "سِیْمَا" وغیرہ سے حاصل ہوئی ہو۔ یا آیہ ہذا کے بعد حق تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بعض منافقین کے اسماء پر تفصیل و تعیین کے ساتھ مطلع فرما دیا ہو۔ واللہ اعلم۔
۲: یعنی بندوں سے کوئی بات چھپی رہے، ممکن ہے مگر اللہ کے علم میں تمہارے سب کام ہیں خواہ کھل کر کرو یا چھپا کر۔
۳۱۔۔۔ ۱: یعنی جہاد وغیرہ کے احکام سے آزمائش مقصود ہے۔ اسی سخت آزمائش میں کھلتا ہے کہ کون لوگ اللہ کے راستہ میں لڑنے والے اور شدید ترین امتحانات میں ثابت قدم رہنے والے ہیں اور کون ایسے نہیں۔
۲: یعنی ہر ایک کے ایمان اور اطاعت و انقیاد کا وزن معلوم ہو جائے اور سب کے اندرونی احوال کی خبریں عملاً محقق ہو جائیں۔ (تنبیہ) "حی نعلم الخ" سے جو شبہ حدوثِ علم کا ہوتا ہے اس کا مفصل جواب "پارہ سیقول" کے شروع "اِلَّالِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعَ اَلرَّسُوْلَ " کے حواشی میں ملاحظہ کیا جائے۔
۳۲۔۔۔ یعنی اپنا ہی نقصان کرتے ہیں، اللہ کا کیا نقصان ہے۔ نہ اس کے دین اور پیغمبر کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں۔ وہ قدرت والا ان کے سارے منصوبے غلط اور تمام کام اکارت کر دے گا اور سب کوششیں خاک میں ملا دے گا۔
۳۳۔۔۔ یعنی جہاد، یا اللہ کی راہ میں اور کوئی محنت و ریاضت کرنا اس وقت مقبول ہے جب اللہ و رسول کے حکم کے موافق ہو۔ محض اپنی طبیعت کے شوق یا نفس کی خواہش پر کام نہ کرو۔ ورنہ ایسا عمل یوں ہی بیکار ضائع جائے گا۔ مسلمان کا کام نہیں کہ جو نیک کام کر چکا یا کر رہا ہے اس کو کسی صورت سے ضائع ہونے دے۔ نیک کام کو نہ بیچ میں چھوڑو، نہ ریاء و نمود اور اعجاب و غرور وغیرہ سے ان کو برباد کرو۔ بھلا ارتداد کا تو ذکر کیا ہے جو ایک دم تمام اعمال کو حبط کر دیتا ہے۔ العیاذ باللہ
۳۴۔۔۔ یعنی کسی کافر کی اللہ کے ہاں بخشش نہیں۔ خصوصاً ان کافروں کی جو دوسروں کو خدا کے راستہ سے روکنے میں لگے ہوئے ہیں۔
۳۵۔۔۔ ۱: یعنی مسلمانوں کو چاہیے کہ کفار کے مقابلہ میں سست اور کم ہمت نہ بنیں اور جنگ کی سخیتوں سے گھبرا کر صلح کی طرف نہ دوڑیں۔ ورنہ دشمن شیر ہو کر دباتے چلے جائیں گے اور جماعت اسلام کو مغلوب و رسوا ہونا پڑے گا۔ ہاں کسی وقت اسلام کی مصلحت اور اہل اسلام کی بھلائی صلح میں نظر آئے تو اس وقت صلح کر لینے میں مضائقہ نہیں جیسا کہ آگے سورہ "فتح" میں آتا ہے۔ بہرحال صلح کی بناء پر اپنی کم بختی اور نامردی پر نہ ہونی چاہیے۔
۲: یعنی گھبرانے کی کچھ بات نہیں، اگر صبر و استقلال دکھاؤ گے اور خدا کے احکام پر ثابت قدم رہو گے تو خدا تمہارے ساتھ ہے وہ تم کو آخرکار غالب کرے گا اور کسی حالت میں بھی تم کو نقصان اور گھاٹے میں نہ رہنے دے گا۔
۳۶۔۔۔ یعنی آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی حقیقت ایک کھیل تماشا جیسی ہے۔ اگر تم ایمان و تقویٰ اختیار کرو گے اور اس کھیل تماشہ سے ذرا بچ کر چلو گے تو اللہ تم کو اس کا پورا بدلہ دے گا اور تمہارا مال بھی تم سے طلب نہیں کرے گا۔ اسے کیا حاجت ہے۔ وہ تو خود دینے والا ہے کما قال 'مَااُرِیْدُ مِنْہُمْ مِنْ رِّزْقٍ وَّمَآ اُرِیْدُ اَنْ یُّطْعِمُونِ اِنَّ اللّٰہَ ہُوَّ الرَّزَّاقُ ذُوْ الْقُوَّۃِ الْمَتِیّْنُ" (ذاریات، رکوع۳'آیت ۵۷'۵۸) اگر طلب بھی کرے تو مالک حقیقی وہ ہے تمام مال اس کا ہے۔ مگر اس کے باوجود دین کے معاملہ میں جب خرچ کرنے کو کہتا ہے تو سارے مال کا مطالبہ نہیں کرتا بلکہ ایک تھوڑا سا حصہ طلب کیا جاتا ہے۔ وہ بھی اپنے لیے نہیں بلکہ تمہارے فائدہ کو۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "حق تعالیٰ نے ملک فتح کرا دیے مسلمانوں کو تھوڑے ہی دن (اپنی گرہ سے) پیسہ خرچ کرنا پڑا۔ پھر جتنا خرچ کیا تھا اس سے سو گنا ہاتھ لگا۔ اس مطلب سے (قرآن کریم میں کئی جگہ) فرمایا ہے کہ اللہ کو قرض دو۔
۳۷۔۔۔ یعنی اگر اللہ تعالیٰ سختی کے ساتھ کل مال طلب کرنے لگے جو تم کو دے رکھا ہے تو کتنے مردان خدا ہیں جو کشادہ دلی اور خندہ پیشانی سے اس حکم پر لبیک کہیں گے۔ اکثر تو وہی ہوں گے جو بخل اور تنگدلی کا ثبوت دیں گے مال خرچ کرنے کے وقت ان کے دل کی خفگی باہر ظاہر ہو جائے گی۔
۳۸۔۔۔ ۱: یعنی ایک حصہ خدا کے دیے ہوئے مال کا اس کے راستہ میں اپنے نفع کی خاطر۔
۲: یعنی تمہارا دینا خود اپنے فائدہ کے لیے ہے۔ نہ دو گے تو اپنا ہی نقصان کرو گے۔ اللہ کو تمہارے دینے نہ دینے کی کیا پروا۔
۳: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ یعنی "مال خرچ کرنے کی جو تاکید سنتے ہو یہ نہ سمجھو کہ اللہ یا اس کا رسول مانگتا ہے۔ نہیں یہ تمہارے بھلے کو فرماتا ہے۔ پھر ایک کے ہزار ہزا ر پاؤ گے۔ ورنہ اللہ کو اور اس کے رسول کو کیا پروا ہے۔
۴: یعنی اللہ تعالیٰ جس حکمت و مصلحت سے بندوں کو خرچ کرنے کا حکم دیتا ہے اس کا حاصل ہونا کچھ تم پر منحصر نہیں۔ فرض کیجیے تم اگر بخل کرو اور اس کے حکم سے روگردانی کرو گے وہ تمہاری جگہ کوئی دوسری قوم کھڑی کر دے گا۔ جو تمہاری طرح بخیل نہ ہو گی بلکہ نہایت فراخ دلی سے اللہ کے حکم کی تعمیل اور اس کی راہ میں خرچ کرے گی۔ بہرکیف اللہ کی حکمت و مصلحت تو پوری ہو کر رہے گی۔ ہاں تم اس سعادت سے محروم ہو جاؤ گے۔ حدیث میں ہے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! وہ دوسری قوم کون ہے جس کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت سلیمان فارسی رضی اللہ عنہ پرہاتھ رکھ کر فرمایا "اس کی قوم "اور فرمایا" خدا کی قسم اگر ایمان ثریا پر جا پہنچے تو فارس کے لوگ وہاں سے بھی اس کو اتار لائیں گے۔ "الحمد للہ صحابہ رضوان اللہ عنہم نے اس بینظیر ایثار اور جوش ایمانی کا ثبوت دیا کہ ان کی جگہ دوسری قوم کو لانے کی نوبت نہ آئی۔ تاہم فارس والوں نے اسلام میں داخل ہو کر علم اور ایمان کا وہ شاندار مظاہرہ کیا اور ایسی زبردست دینی خدمات انجام دیں جنہیں دیکھ کر ہر شخص کو ناچار اقرار کرنا پڑتا ہے کہ بیشک حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی پیشین گوئی کے موافق یہ ہی قوم تھی جو بوقت ضرورت عرب کی جگہ پر کر سکتی تھی۔ ہزارہا علماء و آئمہ سے قطع نظر کر کے تنہا امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا وجود ہی اس پیشین گوئی کے صدق پر کافی شہادت ہے۔ بلکہ اس بشارت عظمیٰ کا کامل اور اولین مصداق امام صاحب ہی ہیں۔ رضی اللہ عنہ وارضاء۔ تم سورۃ "محمد صلی اللّٰہ علیہ و سلم بتوفیقہ واعانتہ فللّٰہ الحمد والمنۃ۔