تفسیر مدنی

سورة محَمَّد

(سورۃ محمد ۔ سورہ نمبر ۴۷ ۔ تعداد آیات ۳۸)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     جن لوگوں نے کفر کیا اور روکا (دوسروں کو) اللہ کی راہ سے اللہ نے اکارت کر دیا ان کے اعمال کو

۲۔۔۔     اور اس کے برعکس جو لوگ (صدقِ دل) سے ایمان لائے اور (اس کے مطابق) انہوں نے کام بھی نیک کئے اور (خاص طور پر) وہ ایمان لائے اس (دین حق) پر جسے اتارا گیا ہے محمد پر اور وہی حق ہے ان کے رب کی جانب سے تو اللہ نے مٹا دیں ان سے ان کی برائیاں اور اس نے درست کر دیا ان کے حال کو

۳۔۔۔     یہ سب اس لئے کہ جن لوگوں نے کفر کیا انہوں نے (حق کی بجائے) باطل کی پیروی کی اور جو ایمان لائے انہوں نے پیروی کی اس حق کی جو (ان کے پاس) ان کے رب کی جانب سے آیا اللہ اسی طرح (کھول کر) بیان کرتا ہے لوگوں کے لئے ان کی مثالیں

۴۔۔۔     پس جب کفار سے تمہارا مقابلہ ہو تو تم ان کی گردنیں مارو یہاں تک کہ جب تم ان کو کچل کر رکھ دو تو پھر مضبوط باندھ لو (قیدیوں کو) پھر اس کے بعد (تمہاری مرضی) یا تو تم احسان کر کے ان کو یونہی چھوڑ دو یا فدیہ لے لو یہاں تک کہ لڑائی ڈال دے اپنے ہتھیار یہ ہے تمہارے کرنے کا کام اور اگر اللہ چاہتا تو ان سے خود ہی نبٹ لیتا مگر (اس نے جہاد فرض کیا) تاکہ وہ تم لوگوں کو آزمائے ایک دوسرے کے ذریعے اور جو لوگ مارے گئے اللہ کی راہ میں تو اللہ کبھی ضائع نہیں فرمائے گا ان کے اعمال کو

۵۔۔۔     وہ جلد ہی پہنچا دے گا ان کو (ان کے مقصود تک) اور درست فرما دے گا ان کی حالت کو

۶۔۔۔     اور وہ ان کو داخل فرما دے گا (اپنے کرم سے) اس جنت میں جس کی پہچان وہ انہیں کرا چکا ہے

۷۔۔۔     اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو اگر تم مدد کرو گے اللہ کی تو وہ (قادر مطلق) تمہاری مدد فرمائے گا اور وہ جما دے گا تمہارے قدموں کو

۸۔۔۔     اور جو لوگ اڑے رہے اپنے کفر (و باطل) پر تو ان کے لئے بڑی تباہی ہے اور اللہ نے اکارت کر دیا ان کے اعمال کو

۹۔۔۔     یہ اس لئے کہ انہوں نے ناپسند کیا اس (دین حق) کو جس کو نازل فرمایا اللہ نے (خود ان کی بہتری و بھلائی کے لئے) اس کے نتیجے میں اللہ نے اکارت فرما دیا ان کے اعمال کو

۱۰۔۔۔     تو کیا ان لوگوں نے خود چل پھر کر دیکھا نہیں (اللہ کی عبرتوں بھری) اس زمین میں کہ کیسا ہوا (مآل و) انجام ان لوگوں کا جو گزر چکے ہیں ان سے پہلے اللہ نے ڈال دیا ان پر (ان کے کئے کرائے کی بناء پر) تباہی کو اور کافروں کے لئے ایسے ہی عذاب (و نتائج) مقرر ہیں

۱۱۔۔۔     یہ اس لئے کہ اللہ حامی ہے ان لوگوں کا جو ایمان لائے اور جو کافر ہیں ان کا کوئی بھی حامی نہیں

۱۲۔۔۔     بے شک اللہ داخل فرمائے گا (اپنے کرم سے) ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور انہوں نے کام بھی نیک کئے ایسی عظیم الشان جنتوں میں جن کے نیچے بہہ رہی ہوں گی طرح طرح کی عظیم الشان نہریں اور جو لوگ اڑے ہوئے ہیں اپنے کفر (و باطل) پر وہ عیش کر رہے ہیں (اس دنیا میں) اور کھاتے ہیں جیسے چوپائے کھاتے ہیں مگر (واضح رہے کہ) ان کا آخری ٹھکانہ (دوزخ کی دہکتی بھڑکتی) وہ ہولناک آگ ہے

۱۳۔۔۔     اور کتنی ہی بستیاں ایسی ہوئی ہیں جو قوت میں کہیں بڑھ کر سخت (اور زیادہ) تھیں آپ کی اس بستی سے جس (کے باشندوں) نے نکال دیا آپ کو اپنے یہاں سے ہم نے ان کو ہلاک کر دیا (سو ایسی افتاد پڑنے پر) ان کے لئے کوئی بھی مددگار نہ تھا

۱۴۔۔۔     تو کیا وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے ایک کھلی نشانی پر ہو ان لوگوں کی طرح ہو سکتا ہے جن کے لئے خوشنما بنا دیا گیا ہو ان کے برے عمل کو اور (اس کے نتیجے میں) وہ (مست اور بے فکر ہو کر) چلے جا رہے ہوں اپنی خواہشات کے پیچھے

۱۵۔۔۔     شان اس جنت کی جس کا وعدہ پرہیزگار لوگوں سے کیا گیا ہے یہ ہے کہ اس میں نہریں ہوں گی ایسے پانی کی جو کبھی خراب نہ ہو اور نہریں ہوں گی ایسے دودھ کی جس کا مزہ کبھی تبدیل نہ ہو اور نہریں ہوں گی ایسی شراب کی جو سراسر لذت ہو گی پینے والوں کے لئے اور نہریں ہوں گی ایسے شہد کی جس کو صاف کر دیا گیا ہو گا (ہر طرح کی آلائش سے) اور ان کے لئے وہاں ہر طرح کے پھل ہوں گے اور ان کے رب کی طرف سے عظیم الشان بخشش بھی کیا ایسے لوگ ان جیسے ہو سکتے ہیں جن کو ہمیشہ رہنا ہو گا (دوزخ کی دہکتی بھڑکتی) اس ہولناک آگ میں اور ان کو پلایا جائے گا ایسا کھولتا ہوا پانی جو کاٹ کاٹ کر رکھ دے گا ان کی انتڑیوں کو؟

۱۶۔۔۔     اور ان لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں جو کان لگا کر سنتے ہیں آپ کی بات کو یہاں تک کہ جب وہ آپ کے پاس سے نکل کر جاتے ہیں تو ان لوگوں سے جنہیں علم دیا گیا ہے پوچھتے ہیں کہ ان صاحب نے ابھی کیا کہا؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر ٹھپہ لگا دیا اللہ نے (ان کی اپنی بدنیتی کی وجہ سے) اور یہ پیچھے لگ گئے اپنی خواہشات کے

۱۷۔۔۔     اور جو لوگ سرفراز ہو گئے (نور حق) و ہدایت سے اللہ ان کو نوازے گا مزید (نور حق و) ہدایت سے اور اللہ ان کو عطا فرمائے گا ان (کے درجے) کا تقویٰ (و پرہیزگاری)

۱۸۔۔۔     تو کیا اب یہ لوگ (قیامت کی) اس ہولناک گھڑی ہی کے منتظر ہیں کہ وہ ان پر اچانک ٹوٹ پڑے ؟ سو اس کی نشانیاں تو آ ہی چکی ہیں پھر جب وہ خود آ پہنچے گی تو پھر ان کو کیا فائدہ اس وقت کے ان کے سمجھنے کا؟

۱۹۔۔۔     پس آپ یقین جان رکھو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور معافی مانگو اپنے گناہ کے لئے اور ایماندار مردوں اور عورتوں کے لئے بھی اللہ جانتا ہے تم لوگوں کے چلنے پھرنے کو بھی اور تمہارے رہنے سہنے کو بھی

۲۰۔۔۔     اور کہتے وہ لوگ جو ایمان لائے کہ کیوں نہیں اتاری جاتی کوئی سورت؟ پھر پر جب اتاری جاتی ہے کوئی ایسی محکم سورت جس میں ذکر ہوتا ہے (جہاد و) قتال کا تو آپ دیکھیں گے ان لوگوں کو جن کے دلوں میں بیماری ہوتی ہے کہ وہ آپ کی طرف ایسے دیکھتے ہیں جیسے کسی پر چھا رہی ہو بے ہوشی موت کی سو بڑی خرابی (اور ہلاکت) ہے ایسے لوگوں کے لئے

۲۱۔۔۔     فرمانبرداری اور بھلی بات کرنا (خود انہی کے لئے بہتر ہے) پھر جب معاملہ طے پا گیا تو اگر یہ لوگ سچے ہوتے اللہ کے ساتھ تو یہ خود انہی کے لئے بہتر ہوتا

۲۲۔۔۔     پھر کیا تم لوگوں سے اس کے سوا کوئی اور توقع کی جا سکتی ہے کہ اگر تم پھر گئے (راہ حق و صواب سے) تو تم (خرابی اور) فساد مچاؤ (ہماری) اس زمین میں اور کاٹ ڈالو آپس کے رشتوں (ناطوں) کو

۲۳۔۔۔     یہ وہ لوگ ہیں جن پر لعنت (و پھٹکار) کر دی اللہ نے سو اس نے بہرہ کر دیا ان کے کانوں کو اور اندھا کر دیا ان کی آنکھوں کو

۲۴۔۔۔     کیا یہ لوگ غور نہیں کرتے اس قرآن (عظیم) میں ؟ یا (ان کے) دلوں پر ان کے تا لے پڑے ہوئے ہیں

۲۵۔۔۔     بے شک جو لوگ پھر گئے (راہِ حق و ہدایت سے) پیٹھ دے کر اس کے بعد کہ پوری طرح واضح ہو گئی تھی ان کے لئے (راہ حق و) ہدایت تو یقیناً ان کو فریب میں مبتلا کر دیا شیطان نے اور اس نے پھانس دیا ان کو امیدوں کے ایک جال میں

۲۶۔۔۔     یہ اس وجہ سے ہوا کہ انہوں نے کہا ان لوگوں سے جو کہ ناپسند کرتے ہیں اس (حق و ہدایت) کو جس کو اللہ نے نازل فرمایا ہے کہ ہم تمہاری بات بخوشی مان لیں گے بعض معاملات میں اور اللہ خوب جانتا ہے ان کی ان راز داریوں (اور خفیہ باتوں) کو

۲۷۔۔۔     پھر کیا حال ہو گا ان کا اس وقت جبکہ فرشتے ان کی جان قبض کریں گے اور وہ مار رہے ہوں گے ان کے مونہوں اور ان کی پیٹھوں پر؟

۲۸۔۔۔     یہ اس وجہ سے ہوا کہ انہوں نے پیروی کی اس طریقے کی جو اللہ کی ناراضگی کا باعث تھا اور انہوں نے پسند نہ کیا اس کی رضا (کے راستے) کو جس کے باعث اس نے اکارت کر دیا ان کے سب اعمال کو

۲۹۔۔۔     کیا ان لوگوں نے جن کے دلوں میں روگ ہے (نفاق کا) یہ سمجھ رکھا ہے کہ اللہ ظاہر نہیں کرے گا ان کے دلوں کے کھوٹ؟

۳۰۔۔۔     حالانکہ ہم اگر چاہیں تو یہ لوگ آپ کو اس طرح دکھا دیں کہ آپ ان کو ان کی صورت سے ہی پوری طرح پہچان لیں اور ان کے طرزِ کلام سے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کو اب بھی ضرور (اور بخوبی) پہچان لیں گے اور اللہ خوب جانتا ہے تم سب لوگوں کے تمام اعمال کو

۳۱۔۔۔     اور ہم ضرور بالضرور آزمائش کریں گے تم سب کی تاکہ ہم دیکھ لیں تم میں سے جہاد کرنے والوں کو بھی اور ان کو بھی جو ثابت قدم رہنے والے ہیں اور تاکہ ہم آزمائش کریں تمہاری خبروں (اور حالتوں) کی

۳۲۔۔۔     بے شک جن لوگوں نے کفر کیا اور (دوسروں کو) روکا اللہ کی راہ سے اور انہوں نے مخالفت کی اللہ کے رسول کی اس کے بعد کہ راہ (حق و) ہدایت ان کے لئے پوری طرح واضح ہو چکی تو وہ یقیناً اللہ کا کچھ بھی نقصان نہیں کریں گے اور اللہ اکارت کر دے گا ان کے سب اعمال کو

۳۳۔۔۔     اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو حکم مانو تم اللہ کا اور حکم مانو اس کے رسول کا اور مت برباد کرو اپنے اعمال کو

۳۴۔۔۔     بے شک جن لوگوں نے کفر کیا اور انہوں نے روکا (دوسروں کو) اللہ کی راہ سے پھر (وہ اپنے کفر ہی پر اڑے رہے یہاں تک کہ) وہ مرے بھی کفر ہی کی حالت میں تو یقیناً اللہ ان کی کبھی بھی بخشش نہیں فرمائے گا

۳۵۔۔۔     پس (اے مسلمانو !) نہ تو تم سستی دکھاؤ اور نہ ہی صلح کی درخواست کرو کیونکہ غالب بہر حال تم ہی ہو اور اللہ تمہارے ساتھ ہے اور وہ تمہارے اعمال (کے ثواب) میں ہرگز کوئی کمی نہیں فرمائے گا

۳۶۔۔۔     دنیا کی زندگی تو اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل اور تماشا ہے اور اگر تم لوگ قائم رہے اپنے ایمان (و یقین) پر اور تم نے اپنائے رکھا تقوی (و پرہیزگاری) کو تو اللہ تم کو تمہارے اجر (پورے پورے) عطا فرمائے گا اور تم سے تمہارے مال نہیں مانگے گا

۳۷۔۔۔     اگر وہ تم سے کہیں تمہارے مال مانگ لیتا اور سب کے سب تم سے طلب کر لیتا تو تم بخل کرے لگتے اور اس طرح وہ نکال باہر کرتا تمہارے (دلوں کے کھوٹ اور) ناگواریوں کو

۳۸۔۔۔     ہاں تو تم وہی ہو کہ تمہیں دعوت دی جا رہی ہے کہ تم خرچ کرو اللہ کی راہ میں (تاکہ خود تمہارا بھلا ہو) تو تم میں سے کچھ بخل سے کام لیتے ہیں حالانکہ جو کوئی بخل کرتا ہے وہ دراصل اپنے آپ ہی سے بخل کرتا ہے کیونکہ اللہ بے نیاز ہے (ہر کسی سے اور ہر اعتبار سے) اور تم ہی سب اس کے محتاج ہو اور اگر تم منہ موڑو گے تو وہ تمہاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا پھر وہ تم جیسے نہ ہوں گے

تفسیر

 

a۔۔  یعنی ان کے ان اعمال کو جن کو یہ لوگ نیکی اور خیر کے کام سمجھ کر کرتے تھے جیسے بیت اللہ کی خدمت و مجاورت، حاجیوں کو پانی پلانا، مہمانوں کی مہمان نوازی کرنا، رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کا برتاؤ کرنا، اور غریبوں اور محتاجوں کی مدد کرنا وغیرہ۔ جن کو عرب مکارمِ اخلاق میں شمار کرتے تھے، سو ان میں سے کسی بھی عمل کا کوئی اجر ثواب ان کو نہیں ملے گا، کیونکہ کفر و انکار اور اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکنے کا جرم اتنا سنگین اور اس قدر ہولناک جرم ہے اس کے بعد اس طرح کے کسی بھی عمل کا اللہ تعالیٰ کے یہاں کوئی وزن نہیں، اسی لئے ان کے اعمال کے بارے میں دوسرے مقام پر تصریح فرمائی گئی کہ قیامت کے یوم حساب میں ان کے ایسے اعمال کو تتر بتر کر دیا جائے گا۔ چنانچہ ارشاد فرمایا گیا وَقَدِمْنَا اِلَی مَاعَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاہُ ھبَاء مّنْثُوْرًا (الفرقان۔۲۳) اسی طرح اس ارشاد میں یہ بھی داخل ہے کہ یہ لوگ دین حق کا راستہ روکنے کے لئے جو طرح طرح کی سازشیں اور کوششیں کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی اکارت اور بیکار کر دیا، بس ان کی یہ کوششیں اس حق مبین کا راستہ روکنے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکیں گی، کہ یہ اللہ کا اتارا ہوا حق ہے، اسی طرح ان کے اعمال کے اکارت کر دینے میں یہ بھی داخل اور شامل ہے کہ اس نے ان لوگوں کے اس جرم یعنی کفر باللہ اور صد عن سبیل اللہ کے نتیجے میں ان کو اعمال خیر کی توفیق سے محروم کر دیا، جس کے باعث نہ ان کوششیں اور محنتیں صحیح راستے میں صرف ہو سکیں گی، اور نہ ہی ان کو صحیح مقاصد اور صحیح راستوں کو اپنانے کی توفیق ملے گی۔ بلکہ ان کی تمام دوڑ دھوپ غلط راستوں اور غلط مقاصد ہی کے لئے ہو گی اور ان کی ساری کارگزاری خیر و ہدایت کے بجائے ضلالت و گمراہی ہی کے لئے ہو گی پس اَضَلَّ اَعْمَالَہُمْ کے عموم میں یہ تینوں صورتیں داخل ہیں سو کفر و انکار اور صد عن سبیل اللہ محرومیوں کی محرومی اور باعث ہلاکت و تباہی ہے۔ والعیاذُباللہ العظیم۔

۲۔۔  سو اس سے ناکام و نامراد لوگوں کے مقابلے میں فائز المرام اور نیک بخت لوگوں کی تعیین بھی فرما دی گئی، اور ان کے مآل و انجام کو بھی واضح فرما دیا گیا۔ سو اس بارے ارشاد فرمایا یا کہ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام بھی کئے۔ اور خاص کر یہ کہ وہ اس دین پر ایمان لائے ہوں جس کو محمد پر اتارا گیا ہے، کہ وہی حق ہے ان کے رب کی طرف سے تو اللہ تعالیٰ ان سے، ان کی برائیوں کو بھی مٹا دے گا، اور ان کے حال کو بھی درست فرما دے گا۔ سو فائز المرام اور سعادت مند لوگوں کی تعیین و نشاندہی کے سلسلے میں واضح فرما دیا گیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے، اور انہوں نے اپنے اس ایمان کے مطابق نیک کام بھی کئے۔ اور اس ضمن میں خاص کر اس بات کی تصریح فرمائی گئی کہ وہ اس کتاب ہدایت اور دین حق پر ایمان لائے ہوں جس کو اتارا گیا محمد پر، اور یہ اس لئے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت و تشریف آوری کے بعد خدا و آخرت اور گزشتہ انبیاء و رسل اور ان کی کتابوں پر ایمان لانا اس وقت تک کافی نہیں جب تک کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان نہ لایا جائے، کیونکہ اب حق وہی اور صرف وہی ہے جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے دنیا کے سامنے پیش فرمایا ہے اور یہ ایک ایسی اہم اور بنیادی حقیقت ہے جس کو دوسری مختلف نصوص میں طرح طرح سے واضح فرمایا گیا ہے، پس ایسے لوگوں سے اللہ تعالیٰ ان کی ان برائیوں کو بھی مٹا دے گا جو ان سے بتقاضائے بشریت سرزد ہو گئی ہوں گی، اور ان کی ان خرابیوں کو بھی دور فرما دے گا جو ان کے عقائد و اخلاق اور اعمال و کردار میں سرایت کر گئی ہوں گی۔ اور ان کی حالت کو بھی درست کر دے گا۔ سو وہ ان کی پچھلی حالت بدل کر ان کو صحیح راستے پر ڈال دے گا۔ جس سے ان کی زندگیاں سنور جائیں گی۔ اور وہ ان کے برے حالات کو اچھے حالات سے بدل دے گا۔ سو ایمان و یقین اصلاح احوال کی اساس و بنیاد، اور سعادت دارین سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے۔ وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلی ما یحب و یرید، بکل حالٍ من الاحوال،

۱۰۔۔  سو اس سے کفار و مشرکین کے دلوں پر دستک دی گئی ہے کہ کیا ان لوگوں نے اللہ کی اس عبرتوں بھری زمین میں چل پھر کر دیکھا نہیں، اور انہوں نے اس سے کوئی سبق نہیں لیا، کہ کیا اور کیسا انجام ہوا ان منکرین و مشرکین کا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں؟ کہ انکو ان کے کفر و انکار اور تکذیب حق کے نتیجے میں آخرکار ہلاک اور تباہ و برباد کر کے رکھ دیا گیا، سو اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ کفر و انکار اور تکذیب حق کا نتیجہ و انجام بہر حال ہلاکت و تباہی ہے، سو ایسوں کو مہلت اور ڈھیل جتنی بھی ملے وہ بہر حال ایک مہلت اور ڈھیل ہی ہے جس نے اپنے وقت مقرر پر بہر حال ختم ہو کر رہنا ہے، اور وَلِلْکَافِرِیْنَ اَمْثَالُہَا سے واضح فرما دیا گیا کہ دور حاضر کے منکرین و مکذبین کے لئے بھی ایسے ہی نتائج مقرر ہیں اگر انہوں نے اپنی روش نہ بدلی۔ اور یہ کفر و انکار اور تکذیب حق سے باز نہ آئے کہ اللہ تعالیٰ کا قانون بے لاگ اور سب کے لئے یکساں اور ایک برابر ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ

۱۱۔۔  سو اس سے منکرین و مکذبین کی ہلاکت و تباہی اور ان کے ہولناک انجام کے سبب اور باعث کو واضح فرما دیا گیا۔ وہ یہ کہ اس کائنات کا کارساز اللہ وحدہٗ لاشریک ہی ہے، اور اس کی حمایت و کارسازی کے اہل اور حق دار وہ لوگ ہیں جو اس پر ایمان رکھتے ہیں، رہ گئے کافرو مشرک لوگ اور منکرین و مکذبین تو انہوں نے چونکہ اس سے تعلق کاٹا ہوا ہے، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ اس کے باغی و سرکش بنے ہوئے ہیں، اس لئے ان کو اس کی کارسازی نصیب نہیں ہو سکتی اور جن کو انہوں نے از خود اپنے طور پر اور اپنے مفروضوں اور ڈھکوسلوں کی بناء پر اپنا کارساز بنا رکھا ہے ان کی کوئی اصل اور حقیقت ہے ہی نہیں اس لئے ان کا کوئی کارساز نہیں، والعیاذُ باللہ،

۱۲۔۔  سو اس سے اہل ایمان اور اہل کفر و باطل کے مآل و انجام کو واضح فرما دیا گیا، کہ اہل ایمان کے اعمال مثمر بار آور اور ان کو ان عظیم الشان جنتوں سے سرفراز کرنے والے ہوں گے جن کے نیچے سے طرح طرح کی عظیم الشان نہریں بہہ رہی ہوں گی، یہ وہاں کی ان سدا بہار نعمتوں سے ہمیشہ ہمیشہ مستفید و فیضیاب ہوں گے، اور یہی ہے کہ اصل اور حقیقی کامیابی، جس جیسی دوسری کوئی کامیابی ہو سکتی ہی نہیں، اہل ایمان نے چونکہ اپنی دنیاوی زندگی میں آخرت کی اسی کامیابی کو اپنا اصل مقصد اور حقیقی نصب العین بنائے رکھا تھا، اور وہ زندگی بھر اسی کے لئے عمل اور محنت کرتے رہے تھے، اس لئے ان کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمتوں و عنایتوں اور اپنے فضل و کرم سے اس سے سرفراز فرمائے گا، جبکہ اہل کفر و باطل نے اپنا اصل مقصد اور نصب العین دنیاوی زندگی ہی کو بنا رکھا تھا، اور وہ حلال و حرام اور جائز و ناجائز کی سب حدود کو بھول کر حیوانوں کی طرح کھاتے اور اپنے پیٹ بھرنے کا سامان کرتے تھے، اس لئے ان کا ٹھکانا دوزخ کی دہکتی بھڑکتی آگ ہی ہو گی، جس میں ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہنا ہو گا، والعیاذ باللہ العظیم، سو اس سے ایک مرتبہ پھر یہ اہم اور بنیادی حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ انسان کی اصلاح و فلاح اور اس کے بناؤ بگاڑ کا اصل تعلق اور اس کا مدار و انحصار اس کے اپنے قلب و باطن اور اس کی ارادہ و نیت پر ہے، جو دینا چاہے گا اس کو اسی میں سے جو کچھ ملنا ہو گا، ملے گا، مگر آخرت میں اس کو کوئی حصہ نہیں ہو گا، اور اس کے برعکس جو آخرت چاہے گا اس کی آخرت بھی بنے گی جو کہ اس کا اصل مقصد تھی، اور دنیا میں سے بھی اس کو وہ کچھ ملے گا جو اللہ تعالیٰ کو منظور ہو گا، اور اس مضمون کو قرآن حکیم کے مختلف مقامات میں ذکر و بیان فرمایا گیا ہے، وباللہ التوفیق لمایُحِبُّ و یرید، وفی کل موطنٍ مِّن المواطن فی الحیاۃ،

۱۴۔۔  سو اس سے منکرین و مکذبین کے دلوں پر دستک دی گئی ہے کہ تمہارے سامنے دو نمونے ہیں، ایک نمونہ اس شخص کا ہے جو اپنے رب کی طرف سے کھلی نشانی پر ہے۔ بینہ یعنی کھلی نشانی سے مراد وہ نور فطرت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت و عنایت اور اپنی قدرت و حکمت سے ہر انسان کی فطرت کے اندر ودیعت فرمایا ہے، پھر اس کی تائید مزید کے لئے اس نے اس کو نور وحی و ہدایت سے بھی نوازا ہے اور ان دونوں کے ملنے سے ایسا خوش نصیب انسان نورٌ  علیٰ نور کا مصداق بن جاتا ہے۔ اور اس کا ظاہر و باطن سب منور ہو جاتا ہے، جبکہ دوسرا نمونہ اس بدبخت انسان کا ہے جو نور وحی و ہدایت سے منہ موڑ کر کفر و انکار اور ہویٰ و ہوس کی پیروی کی راہ کو اپناتا ہے جس سے اس کا نور فطرت بھی بجھ جاتا ہے، اور وہ اندھیرا در اندھیرا میں ڈوب کر اور فِیْ ظُلُمٰتٍ بَعْضُہَا فَوْقَ بَعضٍ کا مصداق بن کر رہ جاتا ہے۔ اب تم ہی لوگ بتاؤ کہ کیا یہ دونوں قسم کے لوگ باہم ایک برابر ہو سکتے ہیں؟ کہ ان کا جینا اور مرنا ایک ہی جیسا ہو جائے (سَوَائً مَحْیَاہُمْ وَمَمَاتُہُمْ) جب نہیں اور یقیناً نہیں، کہ ایسا ہونا عقل و نقل دونوں کے تقاضوں کے خلاف ہے، تو پھر لازماً ایک ایسا دن آئے گا جس میں ان دونوں کا انجام نتیجے کے اعتبار سے الگ اور واضح ہو جائے۔ سو وہی دن قیامت کا یوم حساب ہے جس میں ان دونوں گروہوں کے درمیان آخری اور عملی فیصلہ کر دیا جائے گا، ایمان و عمل صلح والے خوش نصیبوں کو ابدی آرام و راحت اور دائمی انعام سے نوازا جائے گا۔ اور انکار و تکذیب کے مرتکب بدبختوں کو ان کے اس ہولناک انجام کے حوالے کیا جائے گا جس کے وہ اپنے کفر و انکار کے نتیجے میں مستحق ہوں گے۔ جس کی تفصیل اگلی آیت کریمہ میں فرما دی گئی۔ وباللہ التوفیق لما یحب و یرید وعلی ما یحب و یرید، بکل حالٍ من الاحوال

۱۶۔۔  اس سے ان منافق لوگوں کا نمونہ پیش فرمایا گیا ہے جو ظاہر میں مسلمانوں کے ساتھ ہوتے ہیں انہی کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے، اور انہی کی ہمدردی کے زبانی کلامی دعوے کرتے ہیں، لیکن اندر سے ان کا تعلق اہل کفر و باطل ہی کے ساتھ ہوتا ہے اور ان کی سب ہمدردیاں ان ہی کے لئے ہوتی ہیں۔ اس لئے یہاں پر پیغمبر کو خطاب کر کے یہ ارشاد فرمایا گیا اور آپ کو ان سے متعلق آگہی بخشی گئی ہے تاکہ آپ خود اور دوسرے تمام اہل ایمان آستین کے ان سانپوں اور ان کے طرز عمل سے محفوظ رہیں، سو انکے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو سننے کو تو آپ کی بات کان لگا کر سنتے ہیں، لیکن اپنے خبث باطن اور سُوئے نیت کی بناء پر وہ سمجھتے جانتے کچھ بھی نہیں۔ اسی لئے یہ لوگ جب آپ کی مجلس سے نکلتے ہیں تو علم والوں سے پوچھتے ہیں کہ ابھی انہوں نے کیا کہا؟ اور ان کے اس پوچھنے میں بھی ان اشرار کے شر کے دو پہلو مضمر ہے ایک تو اس طرح یہ لوگ اہل ایمان کے سامنے اپنے شوق عمل کو ظاہر کرتے کہ عمل کرنے کو تو ہم دل و جان سے حاضر ہیں لیکن ابھی بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی کہ آنجناب فرمانا کیا چاہتے ہیں؟ سو اس طرح یہ لوگ اپنی منافقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے۔ اور دوسری طرف یہ لوگ اپنے اس طرز عمل سے سچے اور مخلص اہل ایمان پر درپردہ یہ طنز کرتے کہ ہم ان کی طرح نہیں کہ یونہی بے سوچے سمجھے ہر بات پر اٰمَنَّا وَصَدَّقْنَا کہہ دیں بلکہ ہم لوگ تو بات کو اچھی طرح سمجھ اور سوچ کر اپنانے والے لوگ ہیں سو اس طرح نور ایمان سے محروم اور کفر و نفاق کے یہ روگی ایک طرف تو اپنی منافقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے۔ اور دوسری طرف یہ مخلص اہل ایمان پر طنز کر کے اپنے باطن کی تسکین کا سامان کرتے اور ظاہر ہے کہ اس طرح وہ لوگوں کو تو دھوکہ دے سکتے تھے، اور دے لیتے تھے، لیکن حضرت عَلَّامُ الْغُیوب جَلَّ جلالُہٗ۔ سے ان کی یہ منافقت اور بد باطنی آخر کس طرح چھپ سکتی تھی، اس لئے اس نے انکے باطن کے ان خیایا  و نوایا کو اس طرح واضح کر دیا۔ اور اپنی اس کتاب حکیم میں جو کہ قیامت تک پڑھی جاتی رہے گی اور ان کی منافقت کے یہ رنگ دنیا کے سامنے آتے رہیں گے اور اس طرح ان کی وہ چالاکی جس پر ان کو بڑا ناز تھا وہ خود ان کی اپنی ہی ہلاکت و تباہی اور دائمی تذلیل کا باعث بن گئی۔ چنانچہ ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ نے مہر لگا دی ان کے دلوں پر، یعنی ان کے اپنے اسی خبث باطن کی بناء پر، اور یہ پیچھے لگ گئے اپنی خواہشات کے۔ اور راہ حق سے ہٹ کر اپنی خواہشات کے پیچھے لگ جانا ہلاکتوں کی ہلاکت اور محرومیوں کی محرومی ہے۔ اور منافق لوگ اپنی منافقت کے نتیجے میں نہایت ہولناک خسارے میں پڑ جاتے ہیں، مگر ان کو اس کا احساس و شعور ہی نہیں والعیاذُ باللہ العظیم۔

۱۸۔۔  یعنی یہ لوگ اگر حق بات سننے اور ماننے کو تیار نہیں ہوتے، اور یہ اسی بات کے منتظر ہیں کہ جب قیامت اچانک ان پر ٹوٹ پڑے تو یہ تب مانیں گے، تو ان کے لئے واضح رہنا چاہئیے کہ قیامت کی نشانیاں تو ان کے پاس پہنچ چکی ہیں، یعنی وہ علامات اور نشانیاں جن سے واضح ہو جاتا ہے کہ اس کی آمد کا وقت اب قریب ہی آ لگا ہے، جن میں سے سب سے بڑی اور اہم نشانی خود حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت و تشریف آوری ہے۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت و تشریف آوری کے بعد اب قیامت تک کوئی نبی و رسول آنے والا نہیں۔ چنانچہ صحیح بخاری و مسلم وغیرہ میں حضرت انس، حضرت سہل بن سعد الساعدی اور حضرت بریدہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی انگشت شہادت اور بیچ والی انگلی کو ملا کر کھڑا کیا۔ پھر آپ نے ان دونوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا بُعِثَتُ اَنَا وَالسَّاعَۃُ کَہَاتَیْنِ یعنی میری بعثت اور قیامت اس طرح ہے جس طرح یہ دو انگلیاں، یعنی جس طرح ان دو انگلیوں کے درمیان کسی تیسری انگلی کا کوئی فاصلہ نہیں۔ اسی طرح اب میرے اور قیامت کے درمیان کسی پیغمبر کا کوئی فاصلہ نہیں ہو گا، پس اب میرے بعد کوئی اور نبی و رسول مبعوث ہونے والا نہیں۔ بلکہ اب میرے بعد قیامت ہی آنے والی ہے سو اس کا تقاضا یہ ہے کہ اب یہ لوگ ایمان لے آئیں، ورنہ قیامت کے آ جانے کے بعد ان کو ایمان کا کوئی موقع نصیب نہ ہو گا۔

۱۹۔۔  یعنی جب قیامت کی وہ گھڑی قریب آ لگی ہے تو تم اس بات کو اچھی طرح جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، پس تم لوگ اسی کی عبادت و بندگی، اور اس کی رضا و خوشنودی کے حصول کو اپنا اصل مقصد بناؤ، کہ یہی چیز قیامت کے اس روز حساب میں کام آنے والی ہے، اور اپنی کوتاہیوں اور اہل ایمان کی کوتاہیوں کے لئے اپنے رب سے معافی مانگو، اور اللہ جانتا ہے تم لوگوں کے چلتے پھرنے کو بھی، اور تمہارے ٹھکانے کو بھی، اس لئے اس سے کسی بھی شخص کی کوئی حالت مخفی و مستور نہیں رہ سکتی، اور ہر ایک نے بالآخر اور بہرکیف اسی وحدہٗ لاشریک کے حضور حاضر ہونا اور اپنے کئے کرائے کا حساب دینا اور اس کا پھل پانا ہے، اس لئے عقل و نقل سب کا تقاضا یہی ہے، کہ ہمیشہ اور ہر حال میں اسی وحدہٗ لاشریک کے ساتھ معاملہ صحیح اور صاف رکھنے کی فکر و کوشش کی جائے، پس تم لوگ ہمیشہ اس سے اپنا معاملہ صحیح رکھو۔ وباللہ التوفیق، لما یحب و یرید، وعلیٰ ما یحب و یرید، بکل حالٍ من الاحوال،

۲۵۔۔  سو اس سے اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ منافقین کی یہ روش دراصل ارتداد کی روش ہے ان پر یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہو چکی ہے کہ راہِ حق و صواب وہی ہے جس کی طرف اللہ کے پیغمبر بلا رہے ہیں۔ چنانچہ ان لوگوں نے آگے بڑھ کر اس کو قبول بھی  کر لیا۔ لیکن جب آزمائشوں سے سابقہ پڑا، اور شیطان نے ان کو فریب دیا، تو یہ اس کے فریب میں مبتلا ہو گئے، اور خداوند قدوس نے بھی ان کو ڈھیل دے دی، کہ وہ کسی کو اس کے جرم و قصور پر فوراً پکڑتا بھی نہیں، اور جو لوگ جان بوجھ کر محض اپنی خواہشات کی پیروی میں راہ حق سے انحراف اختیار کرتے ہیں ان کو وہ اسی طرح ڈھیل دے دیتا ہے، تاکہ وہ اپنی خواہش اور مرضی کے مطابق جس وادی میں چاہیں بھٹکتے پھریں۔ سو قلب و باطن کا فساد انسان کو اسی طرح ہلاکت کی راہ پر ڈال دیتا ہے، جس کے نتیجے میں آخرکار وہ ہولناک خسارے میں مبتلاء ہو کر رہتا ہے والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے زیغ و ضلال سے ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین

۲۷۔۔  سو یہ لوگ تو اپنی اس منافقانہ روش پر خوش ہوتے ہیں، اور اس کو اپنی چالاکی سمجھ رہے ہیں، لیکن یہ نہیں جانتے کہ اس کا نتیجہ اور انجام ان کے حق میں کتنا برا ہو گا۔ والعیاذُ باللہ۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ایسے لوگوں کی روحیں قبض کرنے کے لئے جب فرشتے ان کے پاس پہنچتے ہیں تو وہ مار رہے ہوتے ہیں ان کے مونہوں اور ان کی پیٹھوں پر، سو ایسے لوگ ذرہ سوچ لیں کہ اس وقت ان کا کیا حال ہو گا سو وہ بڑا ہی ہولناک منظر ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کے وہ سخت گیر فرشتے ان کی روحیں قبض کرنے کے اس موقع پر ان کے مونہوں اور ان کی پیٹھوں پر اسطرح مار رہے ہوں گے مگر کوئی نہیں ہو گا جو ان کو ان کی مار سے چھڑا سکے یا ان کے کچھ بھی کام آ سکے۔ سو جس کفر و نفاق کے اختیار کو آج یہ لوگ اپنی چالاکی اور ہوشیاری سمجھتے ہیں، اس کا نتیجہ و انجام یہ ہو گا، کہ ان کا عذاب ان کی موت کے وقت ہی شروع ہو جائے گا۔ سو یہ چالاکی نہیں ہے کہ انسان طرح طرح کے حیلوں بہانوں سے راہ حق و صواب سے گریز و فرار اختیار کرے، بلکہ یہ پرلے درجے کی حماقت اور محرومی ہے، کہ اس کا انجام نہایت ہولناک ہے، والعیاذُ باللہ، پس عقلمندی اور ہوشیاری دراصل یہ ہے کہ انسان پیغام حق و ہدایت کو صدق دل سے اپنائے۔ کہ دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا راستہ اور واحد راستہ یہی ہے جیسا کہ صحیح حدیث میں ارشاد فرمایا گیا اَلْکَیَسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہٗ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ، یعنی عقلمند اور سمجھ دار انسان وہ ہے جو اپنے نفس کو قابو میں کر کے اس کو حق کے آگے جھکا دے، اور موت کے بعد آنے والی زندگی کے لئے کام کرے، کہ ایمان اور عمل صالح سے سرفرازی اور حیات اُخروی کے لئے کمائی کی فرصت اور اس کا موقع یہی دنیاوی زندگی ہے اور بس، اس کے بعد اس کا کوئی موقع نہیں ہو گا۔ یہ آیت کریمہ منجملہ ان آیات کریمات کے ہے جن میں عذاب برزخ یعنی عذاب قبر کی تصریح فرمائی گئی ہے۔ کیونکہ اس میں اس بات کی تصریح فرما دی گئی کہ کفار و منافقین پر عذاب ان کی موت کے وقت ہی شروع ہو جاتا ہے، اور یہ عذاب ان کے اس عذاب سے مختلف ہو گا جو قیامت میں ان کے مقدمے کا فیصلہ ہونے کے بعد دیا جائے گا، والعیاذُ باللہ العظیم، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں ہی پر چلنا نصیب فرمائے ہمیشہ اور ہر حال میں اپنا ہی بنائے رکھے ارادہ و نیت کے لحاظ سے بھی، اور عمل و کردار کے اعتبار سے بھی، اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین، یا ربَّ العالمین

۳۳۔۔  اس آیت کریمہ میں اہل ایمان کو خطاب کر کے اس بارے میں تنبیہ بھی فرما دی گئی کہ اپنے اعمال کی پونجی کو ضائع نہیں کرنا۔ سو ایمان کے تقاضے کے طور پر ان کو حکم و ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو اس کے رسول کی۔ یعنی ان کے ہر حکم و ارشاد کو صدق دل سے بجا لاؤ، کہ یہ ان کا تم پر حق بھی ہے اور اسی میں خود تمہارا بھلا بھی ہے دنیا کی اس عارضی اور فانی زندگی میں بھی، اور آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہاں میں بھی، جو کہ اس دنیا کے بعد آنے والا ہے، اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت و فرمانبرداری غیر مشروط ہے، کیونکہ ان کا ہر حکم و ارشاد سراسر حق و صدق اور خود تمہارے ہی بھلے اور فائدے کے لئے ہے، اور ان کے کسی بھی حکم ارشاد میں کسی خطاء و تقصیر کا کوئی خدشہ و امکان نہیں۔ اس لئے ان کے ہر حکم و ارشاد کو صدق و اخلاص کے ساتھ اور دل و جان سے دیا کرو، نیز ہدایت فرمائی گئی کہ اپنے اعمال کو ضائع نہیں کرنا، اور اعمال کو ضائع کرنے والے بنیادی طور پر دو بڑے سبب ہیں ایک شرک، جس کے بارے میں دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا، اور صاف و صریح طور پر، اور ادوات تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا، لَئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ(الزمر۔ ۶۵) اور دوسری چیز جو اعمال کو ضائع کرنے والی ہے وہ ہے ریاکاری اور دکھلاوا۔ کیونکہ یہ چیز بھی شرک ہی ہے جیسا کہ حدیث نبوی میں ارشاد فرمایا گیا اور صاف و صریح طور پر ارشاد فرمایا گیا مَنْ صَلَّی یُرَائِیْ فَقَدْ اشْرَکَ وَمَنْ صَامُ یُرَائِیْ فقد اشرک، وَمَنْ تصدَّق یُرائی فقد اشرک، یعنی جس نے دکھلاوے کی نماز پڑھی اس نے شرک کیا، جس نے دکھلاوے کا روزہ رکھا اس نے شرک کیا۔ اور جس نے دکھلاوے کا صدقہ کیا اس نے شرک کیا۔ والعیاذ باللہ۔ اللہ تعالیٰ کی ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے آمین ثم آمین

۳۶۔۔  سو جس طرح چھوٹے بچے مختلف کھیل کھیلتے ہیں اسی طرح یہ پوری دنیا بھی ایک کھیل اور تماشہ ہے، جس میں تمام دنیا مشغول اور منہمک ہے، اور جس طرح بچے کھیل تماشے میں لگ کر اپنے اصل مقصد سے غافل ہو جاتے ہیں، اسی طرح ابناء دنیا بھی اس میں مشغول و منہمک ہو کر اپنے انجام سے غافل ہو جاتے ہیں۔ پس دنیا کی محبت میں محو و مشغول ہو کر اپنی آخرت اور انجام سے غافل ہو جانا، خساروں کا خسارہ ہے، والعیاذُ باللہ، پس دنیا کی کوئی قدر و قیمت اگر ہے تو صرف اسی صورت میں کہ اس کو رب کی رضا و خوشنودی کے حصول اور آخرت کی کمائی کا ذریعہ بنایا جائے۔ سو اگر کسی نے اس کو اس کے صحیح مصرف میں صرف نہیں کیا۔ اور اس کو اپنے رب کی رضا اور آخرت کی کمائی کا ذریعہ نہیں بنایا، تو وہ سراسر خسارے میں رہا، والعیاذُ باللہ اور جو کچھ تم لوگ اللہ کی راہ میں اور اس کی رضا کے لئے کرو گے وہ کبھی ضائع نہیں جائے گا۔ بلکہ اگر تم لوگ ایمان اور تقویٰ کی زندگی گزارو گے۔ اور اپنے مال اللہ کی راہ میں اور اس کی رضا کے لئے خرچ کرو گے تو وہ تم کو ہر عمل کے بھرپور صلہ و بدلہ سے نوازے گا۔ اور تم دنیا کے ان خزف ریزوں کے عوض آخرت میں ابدی بادشاہی اور اس کے تخت وتاج سے سرفراز ہوؤ گے۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلیٰ ما یحب و یرید، بکل حالٍ مِّن الاحوال، وفی کل موطنٍ مّن المواطن فی الحیاۃ،

۳۸۔۔    پس اللہ کا دین تمہارا یا کسی اور قوم قبیلے کا محتاج نہیں۔ اگر تم لوگوں کو اس کی خدمت کی توفیق و سعادت نصیب ہوتی ہے تو اس کو غنیمت جانو اور اپنی سعادت مندی سمجھو۔ ورنہ تم لوگ اگر اس سے پھر گئے۔ والعیاذُ باللہ، تو وہ تمہاری جگہ دوسرے ایسے لوگوں کو لے آئے گا جو تم جیسے نہیں ہوں گے۔ بلکہ وہ دل و جان سے اس کی خدمت کریں گے ولنعم ماقال العارف الشیرازی  منت منہہ کہ خدمت سلطان میکنی۔ منت از و شناس کہ بخدمت گزاشتت، یعنی تم بادشاہ پر احسان مت جتلاؤ کہ اس کی خدمت کر رہے ہو۔ بلکہ احسان اس کا سمجھو کہ اس نے تم کو خدمت کے لئے رکھا ہے، وبہذا قدم تم التفسیر المختصر لسورۃ محمد بتوفیق اللہ تعالیٰ وعنایتہ، ولہ الحمد قبل کل شیئ وبعد کل شی