یہ سورت مکی ہے صرف چند آیات کو بعض علماء نے مستثنیٰ کیا ہے روایات میں ہے کہ پوری سورت بیک وقت بے شمار فرشتوں کے جلو میں نازل ہوئی مگر ابن صلاح نے اپنے فتاویٰ میں ان روایات کی صحت سے انکار کیا ہے جو پوری سورت کے دفعۃً نزول پر دال ہیں۔ واللہ اعلم۔ ابو اسحاق اسفرائنی کہتے ہیں کہ توحید کے تمام اصول و قواعد پر یہ سورت مشتمل ہے۔
۱ ۔۔۔ "مجوس" دنیا کے لئے دو خالق مانتے ہیں "یزدان" جو خالق خیر ہے اور "اہرمن" جو خالق شر ہے۔ اور دونوں کو نور و ظلمت سے ملقب کرتے ہیں۔ ہندوستان کے مشرک تینتیس کروڑ دیوتاؤں کے قائل ہیں۔ آریہ سماج باوجود ادعائے توحید "مادہ" اور "روح" کو خدا کی طرح غیر مخلوق اور انادی کہتے اور خدا کو اپنی صفت تکوین و تخلیق وغیرہ میں ان دونوں کا محتاج بتلاتے ہیں۔ عیسائیوں کو باپ بیٹے کا توازن و تناسب قائم رکھنے کے لئے آخر تین ایک اور ایک تین کا مشہور عقیدہ اختیار کرنا پڑا ہے۔ یہودیوں نے خدا تعالیٰ کے لئے وہ صفات تجویز کیں کہ ایک معمولی انسان بھی نہ صرف اس کا ہمسر بلکہ اس سے برتر ہو سکتا ہے۔ عرب کے مشرکین نے تو خدائی کی تقسیم میں یہاں تک سخاوت دکھلائی کہ شاید ان کے نزدیک پہاڑ کا ہر پتھر نوعِ انسانی کا معبود بننے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ غرض آگ، پانی، سورج، ستارے، درخت، پتھر، حیوان کوئی چیز لوگوں نے نہ چھوڑی جسے خدائی کا کچھ حصہ نہ دیا اور عبادت و استعانت وغیرہ کے وقت اسے خدا کی برابر نہ بٹھایا ہو۔ حالانکہ وہ ذات پاک جو تمام صفات و کمال کی جامع اور ہر قسم کی خوبیوں کا منبع ہونے کی وجہ سے سب تعریفوں اور ہر طرح کی حمد و ثناء کی بلا شرکت غیر مستحق ہے۔ جس نے آسمان و زمین یعنی کل علویات و سفلیات کو پیدا کیا اور رات دن اندھیرا اجالا علم و جہل ہدایت و ضلالت موت و حیات غرض متقابل کیفیات اور متضاد احوال ظاہر فرمائے۔ اسے اپنے افعال میں نہ کسی حصہ دار یا مددگار کی ضرورت ہو سکتی ہے نہ بیوی اور اولاد کی نہ اس کی معبودیت اور الوہیت میں کوئی شریک ہو سکتا ہے اور نہ ربوبیت میں نہ اس کے ارادہ پر کوئی غالب آ سکتا ہے اور نہ اس پر کسی کا دباؤ اور زور چل سکتا ہے پھر تعجب ہے ان حقائق کو سمجھنے کے بعد بھی کس طرح لوگ کسی چیز کو خدائی کا مرتبہ دے دیتے ہیں۔
۲ ۔۔۔ اوپر "عالم کبیر"کی پیدائش کا ذکر تھا یہاں "عالم صغیر"(انسان) کی خلقت کو بیان فرماتے ہیں کہ دیکھو شروع میں بے جان مٹی سے آدم علیہ السلام کا پتلا تیار کر کے کس طرح حیات اور کمالات انسانی فائض کئے اور آج بھی مٹی سے غذائیں نکلتی ہیں، غذاؤں سے نطفہ اور نطفہ سے انسان بنتے رہتے ہیں۔ غرض اس طرح تم کو عدم سے وجود میں لائے۔ پھر ہر شخص کی موت کا ایک وقت مقرر کر دیا جبکہ آدمی دوبارہ اس مٹی میں جا ملتا ہے جس سے پیدا کیا گیا تھا۔ اسی پر قیاس کر سکتے ہو کہ "عالم کبیر"کی فنا کا بھی ایک وقت مقرر ہے جسے "قیامت کُبریٰ "کہتے ہیں۔ " قیامت صغریٰ "یعنی شخصی موتیں چونکہ ہمیں پیش آتی رہتی ہیں ان کا علم بھی لوگوں کو ہوتا رہتا ہے لیکن "قیامت کبریٰ" کی ٹھیک مدت کا علم صرف اللہ ہی کے پاس ہے۔ تعجب ہے کہ " عالم صغیر " یعنی انسانوں میں زندگی اور فنا کا سلسلہ دیکھتے ہوئے بھی " عالم کبیر "کی فنا میں کوئی آدمی تردُّد کرتا ہے۔
۳ ۔۔۔ ۱: یعنی تمام آسمانوں اور زمینوں میں تنہا وہ ہی معبود، مالک، بادشاہ، متصرِّف اور مدبرِّ ہے اور یہ نام مبارک (اللہ) بھی صرف اسی کی ذات متعالی الصفات کیلئے مخصوص رہا ہے۔ پھر اوروں کیلئے استحقاقِ معبودیت کہاں سے آیا۔
۲: جب تمام زمین و آسمان میں اسی کی حکومت ہے اور وہ بلا واسطہ ہر کھلی چھپی چیز اور انسان کے ظاہر و باطن اور چھوٹے بڑے عمل پر مطلع ہے تو عابد کو اپنی عبادت و استعانت وغیرہ میں کسی غیر اللہ کو شریک ٹھہرانے کی ضرورت نہیں رہتی۔ مشرکین جو " مَا نَعْبَدُ ھُمْ اِلاَّ لِیُقَرِّ بُوْ نَآ اِلَی اللّٰہِ زُلْفیٰ" کہا کرتے تھے۔ یہ ان کا اور انکے ہم نواؤں کا جواب ہوا۔ اور پہلے وَاَجَلٌ مُّسَمًّی عِنْدَہٗ سے جو قیامت کی طرف اشارہ کیا تھا۔ یہاں سلسلہ مجازات پر متنبہ فرما دیا کہ زمین و آسمان میں حکومت ہماری ہے اور تمہارے سب کھلے چھپے نیک و بد اعمال بھی ہمارے علم میں موجود ہیں۔ پھر کوئی وجہ نہیں کہ تم یونہی مہمل چھوڑ دیئے جاؤ۔
۴ ۔۔۔ "آیات " میں احتمال ہے کہ تکوینی آیات مراد ہوں یا تنزیلی۔
۵ ۔۔۔ حق سے مراد غالباً قرآن کریم ہے جو نشانہائے قدرت سے تغافل برتنے والوں کی بد انجامی اور دنیاوی و اُخروی سزا کو بیان کرتا ہے اسے سن کر منکرین تکذیب و استہزاء کرتے تھے انھیں جتلا دیا کہ جس بات پر تم ہنستے اور آوازیں کستے ہو وہ حقیقت ثابتہ بن کر عنقریب تمہارے سامنے آ جائے گی۔ آگے ان اقوام کا حوالہ دیا ہے جو آیات اللہ کی تکذیب و استہزاء اور بد اعمالیوں کی بدولت ہلاک کی گئیں۔
۶ ۔۔۔ یعنی عاد و ثمود وغیرہ جن کو تم سے بڑھ کر طاقت اور سازو سامان دیا گیا تھا۔ بارشوں اور نہروں کی وجہ سے ان کے باغ اور کھیت شاداب تھے، عیش و خوشحالی کا دور دورہ تھا۔ جب انھوں نے بغاوت اور تکذیب پر کمر باندھی اور نشانہائے قدرت کی ہنسی اڑانے لگے۔ تو ہم نے ان کے جرموں کی پاداش میں ایسا پکڑا کہ نام و نشان بھی باقی نہ چھوڑا۔ پھر انکے بعد دوسری امتیں پیدا کیں اور منکرین و مکَذِّبین کے ساتھ یہ ہی سلسلہ جاری رہا کیا۔ مجرمین تباہ ہوتے رہے اور دنیا کی آبادی میں کچھ خلل نہیں پڑا۔
۷ ۔۔۔ بعض مشرکین مکہ نے کہا تھا کہ اگر آپ آسمان سے ایک لکھی لکھائی کتاب لے آئیں اور ا سکے ساتھ چار فرشتے بھی ہوں جو ہمارے سامنے ہو کر گواہی دیں کہ بیشک یہ کتاب خدا کی بھیجی ہوئی ہے تو ہم ایمان لے آئیں گے۔ اس کا جواب دیا کہ جو لوگ بحالت موجودہ قرآن کو جادو اور ا سکے لانے والے کو جادوگر بتلاتے ہیں اگر واقعی ہم ان پر کاغذ میں لکھی ہوئی کتاب بھی آسمان سے اتار دیں جسے یہ ہاتھوں سے چھو کر معلوم کر لیں کہ کوئی تخیل یا نظر بندی نہیں ہے۔ تب بھی یہ ہی کہیں گے کہ یہ تو صریح جادو ہے جس بدبخت کے حصہ میں ہدایت نہیں ہوتی اس کا شبہ کبھی نہیں مٹتا
۸ ۔۔۔ ۱: یعنی جو ہمارے روبرو ہو کر ان کے صدق کی گواہی دیتا
۲: اگر فرشتہ اپنی اصلی صورت میں آئے تو یہ لوگ ایک منٹ کیلئے بھی اس کا تحمل نہ کر سکیں اس کے رعب و ہیبت سے دم نکل جائے۔ یہ صرف انبیاء علیہم السلام ہی کا ظرف ہوتا ہے جو اصلی صورت میں فرشتہ کی رویت کا تحمل کر سکتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے عمر بھر میں دو مرتبہ حضرت جبرائیل کو اپنی اصلی صورت میں دیکھا ہے۔ اور کسی نبی کی نسبت ایک مرتبہ بھی ثابت نہیں۔ دوسرے اگر ان لوگوں کی ایسی عظیم الشان خارق عادت فرمائش پوری کر دی جائے اور اس پر بھی نہ مانے جیسا کہ ان کے معاندانہ احوال و اطوار سے ظاہر ہے تو سنت اللہ کے موافق پھر قطعاً مہلت نہ دی جائے گی اور ایسا عذاب آئے گا جو فرمائش کرنے والوں کو بالکل نیست و نابود کر دے گا۔ اس لحاظ سے اس طرح کی فرمائشوں کا پورا نہ کرنا بھی عین رحمت سمجھنا چاہئے۔
۹ ۔۔۔ چونکہ فرشتہ کو اصلی صورت میں بھیجنے کی نفی تو پہلی آیت میں ہو چکی ہے اب دوسرے احتمال کا جواب دیتے ہیں وہ یہ کہ فرشتہ آدمی کی صورت میں بھیجا جائے، کیونکہ اسی صورت میں مجانست صوری کی بناء پر لوگ اس کے نمونہ اور تعلیم سے منتفع ہو سکتے ہیں لیکن اس تقدیر پر منکرین کے شبہات کا ازالہ نہیں ہو سکتا۔ جو شکوک و شبہات رسول کے بشر ہونے پر کرتے تھے وہ ملک کے بصورت بشر آنے پر بھی بدستور کرتے رہیں گے۔
۱۰ ۔۔۔ معاندین کی فرمائشوں کا جواب دینے کے بعد حضور کی تسلی کی جاتی ہے کہ آپ ان کے استہزاء اور تمسخر سے دل گیر نہ ہوں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں انبیاء سابقین کو بھی ان ہی حالات سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ پھر جو ان کے مکذبین اور دشمنوں کا حشر ہوا سب کے سامنے ہے۔ ان کو بھی خدا اسی طرح سزا دے سکتا ہے جو اگلے مجرموں کو دی گئی۔
۱۱ ۔۔۔ یعنی ملک کی سیر و سیاحت اور تباہ شدہ اقوام کے آثار کا ملاحظہ کرنے کے بعد اگر نظر عبرت سے واقعات ماضیہ کو دیکھو گے تو انبیاء کی تکذیب کرنے والی قوموں کا جو انجام دنیا میں ہوا وہ صاف نظر آ جائے گا۔ اسی سے قیاس کر لو کہ جب تکذیب کرنے والوں کا یہ حشر ہوا تو استہزاء کرنے والوں کا کیا حشر ہو گا۔
۱۲ ۔۔۔ جب تمام آسمان و زمین میں اسی خدا کی حکومت ہے جیسا کہ مشرکین کو بھی اقرار تھا تو مکذبین و مستہزئین کو فوری سزا سے کہاں پناہ مل سکتی ہے؟ یہ صرف اس کی رحمت عامہ ہے کہ جرائم کو دیکھ کر فوری سزا جاری نہیں کرتا اور قیامت کے دن بھی جو بلاشبہ آنے والا ہے محض ان ہی بدبختوں کو بے ایمانی کی سزا دے گا جو باختیار خود جان بوجھ کر اپنے کو نقصان و ہلاکت کے گڑھے میں ڈال چکے ہیں۔
۱۴ ۔۔۔ ۱: قُلْ لِّمَنْ مَّا فِی السَّمٰوٰ تِ وَالْاَرْضِ میں مکان کی تعمیم تھی وَلَہٗ مَا سَکَنَ فِی الَّیْلِ وَالنَّھَارِ میں زمانہ کے اعتبار سے تعمیم ہے یعنی ہر جگہ اور ہر وقت اسی کی حکومت اور قبضہ و اقتدار ہے۔ ہر وہ چیز جو رات میں یا دن میں آرام سے زندگی بسر کرتی اور کتنے معلوم و نامعلوم دشمنوں سے مامون و محفوظ رہتی ہے۔ یہ اسی کی رحمت کاملہ کے آثار میں سے ہے قُلْ مَنْ یَّکْلَؤُکُمْ بِالَّیْلِ وَالنَّھَارِ مِنَ الرَّحْمٰنِ (انبیاء آیت نمبر ۴۳) وہ ہی ہے جو دن کے شورو غل اور رات کے اندھیرے اور سناٹے میں ہر ایک کی پکار سنتا ہے اور سب کی حوائج و ضروریات کو بخوبی جانتا ہے۔ پھر تم ہی بتاؤ کہ ایسے پروردگار کو چھوڑ کر کسی اور سے مدد طلب کرنا کہاں تک موزوں ہو گا۔
۲: کھلانا اشارہ ہے سامان بقاء کی طرف یعنی ایجاد و بقاء دونوں میں اسی کے سب محتاج ہیں۔ اس کو کسی ادنیٰ سے ادنیٰ چیز میں بھی ہماری احتیاج نہیں پھر اس سے علیحدہ ہو کر کسی کو مددگار بنانا انتہائی حماقت نہیں تو اور کیا ہے۔
ایسے پروردگار کے احکام کے سامنے جس کی صفات اوپر مذکور ہوئیں پہلے اس اکمل ترین بندہ کو انتہائی انقیاد و تسلیم کا حکم ہے جو تمام دنیا کیلئے نمونہ طاعت و عبودیت بنا کر بھیجا گیا تھا۔ (صلی اللہ علیہ و سلم)
۱۵ ۔۔۔ یہ آپ پر رکھ کر اوروں کو سنایا گیا ہے یعنی بفرض محال اگر خدا کے معصوم و برگزیدہ ترین بندے سے بھی کسی طرح کا عصیان سرزد ہو تو عذاب الٰہی کا اندیشہ ہوتا ہے پھر کسی دوسرے کو کب لائق ہے کہ باوجود شرک و کفر اور تکذیب انبیاء وغیرہ ہزاروں طرح کے جرائم میں مبتلاء ہونے کے عذاب الٰہی سے بے فکر اور مامون ہو کر بیٹھ رہیں۔
۱۶ ۔۔۔ جنّت اور رضائے الٰہی کے اعلیٰ مدارج کا حاصل کرنا تو بہت اونچا مقام ہے۔ اگر آدمی سے قیامت کے دن کا عذاب ٹل جائے تو یہ ہی بہت بڑی کامیابی سمجھو۔ کما قال عمر رضی اللہ عنہ کفافاً لالی ولاعلی۔
۱۸ ۔۔۔ دنیا یا آخرت میں جو تکلیف یا راحت خدا کسی کو پہنچانا چاہے نہ کوئی مقابلہ کر کے روک سکتا ہے اور نہ اس کے غلبہ و اقتدار کے نیچے سے نکل کر بھاگ سکتا ہے۔ وہ پوری طرح خبردار ہے کہ کس بندے کے کیا حالات ہیں اور ان حالات کے مناسب کس قسم کی کارروائی قرین حکمت ہو گی۔
۱۹ ۔۔۔ ۱: جب یہ فرمایا کہ خدا ہی سب نفع و ضرر کا مالک، تمام بندوں پر غالب و قاہر اور رتی رتی سے خبردار ہے تو اس کی شہادت سے زبردست اور بے لوث شہادت کس کی ہو سکتی ہے، پس میں بھی اپنے تمہارے درمیان اسی کو گواہ ٹھہراتا ہوں۔ کیونکہ میں نے دعویٰ رسالت کر کے جو کچھ اس کے پیغامات تم کو پہنچائے اور جو کچھ تم نے اس کے جواب میں میرے ساتھ اور خود پیغام ربانی کے ساتھ برتاؤ کیا وہ سب اس کی آنکھ کے سامنے ہے۔ وہ خود اپنے علم محیط کے موافق میرا اور تمہارا فیصلہ کر دے گا۔
۲: یعنی اگر سمجھو تو میرے صدق پر خدا کی یقینی اور کھلی ہوئی شہادت یہ قرآن موجود ہے جو اپنے کلام الٰہی ہونے پر خود ہی اپنی دلیل ہے۔
۳: میرا کام یہ ہے کہ تم کو اور ہر اس شخص کو جسے یہ کلام پہنچے خدائی پیغام سے خبردار کر دوں جس میں توحید و معاد وغیرہ تمام اصول دین کی ہدایت کی گئی ہے کیا اس قدر اتمام حجت ہو چکنے اور ایسا قطعی اور صریح پیغام توحید سننے کے بعد بھی تم یہ ہی کہتے رہو گے کہ خدا کے سوا اور بھی معبود ہیں۔ تم کو اختیار ہے جو چاہو کہو۔ میں تو کبھی ایسا حرف زبان پر نہیں لا سکتا بلکہ صاف صاف بیان کرتا ہوں کہ لائق عبادت صرف وہ ہی ایک خدا ہے۔ باقی جو کچھ تم شرک کرتے ہو میں اس سے قطعاً بیزاری اور نفرت کا اظہار کرتا ہوں (تنبیہ) " ومن بلغ"نے بتلا دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت تمام جن و انس اور مشرق و مغرب کے لئے ہے۔
۲۰ ۔۔۔ یعنی اس کے علاوہ کہ میری صداقت کا خدا گواہ ہے اور قرآن کریم ا سکی ناطق اور ناقابل تردید شہادت دے رہا ہے۔ وہ اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) بھی جن کی طرف کتب سماویہ کا عالم سمجھ کر تم میرے معاملہ میں رجوع کرتے ہو، اپنے دلوں میں پورا یقین رکھتے ہیں کہ بلاشبہ میں ہی وہ " نبی آخرالزماں " ہوں جس کی بشارت انبیائے سابقین دیتے چلے آئے ہیں۔ ان کو جس طرح بہت سے بچوں میں سے اپنی اولاد کے شناخت کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی، ایسے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور قرآن کریم کی صداقت کے معلوم کرنے میں بھی کوئی شبہ اور دھوکہ نہیں ہے۔ البتہ حسد، کبر، تقلید آباء، اور حب جاہ و مال وغیرہ اجازت نہیں دیتے کہ مشرف بایمان ہو کر اپنی جانوں کو نقصان دائمی اور ہلاکت ابدی سے بچائیں۔
۲۱ ۔۔۔ یعنی نبی نہ ہو اور خدا پر افتراء کر کے دعویٰ نبوت کر بیٹھے یا سچے نبی سے جس کی صداقت کے دلائل واضحہ موجود ہوں خدائی پیام سن کر تکذیب پر کمر بستہ ہو جائے۔ ان دونوں سے بڑھ کر ظالم کوئی نہیں ہو سکتا اور سنت اللہ یہ ہے کہ ظالم کو انجام کار کامیابی اور بھلائی نصیب نہیں ہوتی۔ پس اگر فرض کرو معاذاللہ میں مفتری ہوں تو ہرگز کامیاب نہ ہوں گا اور تم مکذب ہو جیسا کہ دلائل سے ظاہر ہے تو تمہاری خیریت نہیں۔ لہٰذا حالات میں غور کر کے اور انجام سوچ کر عاقبت کی فکر کرو۔ اور اس دن سے ڈرو جس کا ذکر آگے آتا ہے۔ ابن کثیر نے آیت کے یہی معنی لئے ہیں اور بعض مفسرین نے اِفتِراءً عَلیَ اﷲ سے مشرکین کا شرک مراد لیا جیسا کہ آگے "وَضَلَّ عَنْھُمْ مَّاکَانُوْا یَفْتَرُوْنَ " میں اشارہ ہے۔ واللہ اعلم
۲۲ ۔۔۔ جن کی نسبت تم کو دعویٰ تھا کہ وہ خدائی کے حصہ دار اور شدائد میں تمہارے شفیع و مددگار ہیں، آج ایسی سختی اور مصیبت کے وقت کہاں چلے گئے کہ تمہارے کچھ بھی کام نہیں آتے۔
۲۳ ۔۔۔ یعنی بجز انکار واقعات کے کچھ کرتے دھرتے نہ بن پڑے گی۔ باطل معبودین کی جس عقیدت و محبت میں مفتون ہو رہے تھے، اس کی حقیقت صرف اتنی رہ جائے گی کہ ساری عمر کے عقیدے اور تعلق سے بھی انکار کر بیٹھیں گے۔
۲۴ ۔۔۔ یعنی اس صریح جھوٹ سے مشرکین کی انتہائی بد حواسی اور شرکاء کی غایت بے چارگی اور درماندگی کا اظہار ہو گا۔ کاش مشرکین اس رسوا کن انجام کو دنیا ہی میں سمجھ لیں۔
۲۵ ۔۔۔ یہ ان لوگوں کا ذکر ہے جو بغرض اعتراض و عیب جوئی قرآن کریم اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی باتوں کی طرف کان لگاتے تھے ہدایت سے منتفع ہونا اور حق کو قبول کرنا مقصود نہ تھا۔ نصیحت و ہدایت سے ممتد اعراض و کانشنس کی مسلسل تعطیل کا قدرتی نتیجہ یہ ہوا کہ قبول حق کے وسائل و قوی انجام کار ماؤف ہو کر رہ گئے، حق کے سمجھنے سے ان کے دل محروم کر دیئے گئے۔ پیغام ہدایت کا سننا کانوں کو بھاری معلوم ہونے لگا، آنکھیں نظر عبرت سے ایسی خالی ہو گئیں کہ ہر قسم کے نشانات دیکھ کر بھی ایمان لانے کی توفیق نہیں ہوتی۔ اور لطف یہ ہے کہ اس حالت موت پر قانع و مسرور بھی ہیں بلکہ فخر کے لہجہ میں اس کا اعلان کرتے ہیں۔ سورہ حم السَّجْدَۃ میں ہے اَعْرَضَ اَکْثَرُ ھُمْ فَھُمْ لاَ یَسْمَعُوْنَ وَقَالُوْ ا قُلُوْبُنَافِیئ اَکِنَّۃٍ مِّمَّا تَدْعُوْنَآ اِلَیْہِ وَ فِیْ اٰذَانَنٍا وَقْرٌ وَّ مِنْم بَیْنَنٍا وَبَیْنِکَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ اِنَّنَا عٰمِلُوْنَ) پ۳۴ حم السجدہ آیت نمبر ۴،۵ (اس آیت سے معلوم ہوا کہ سماع آیات سے منتفع نہ ہونا اور دلوں پر پردہ پڑ جانا خود ان کے اعراض کا نتیجہ تھا اور یہ اعراض ہی اس کیفیت کے حدوث کا سبب ہوا ہے۔ وَاِذَا تُتْلیٰ عَلَیْہِ ایٰاتُنَا وَلّیٰ مُسْتَکْبِرًا کَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْھَا کَاَنَّ فِیئ اُذَنَیْۃِ وَقْرَا "(لقمان،آیت ۷ (اسباب پر مسببات کا مرتب کرنا چونکہ خالق جل و علا کے سوا کسی کا کام نہیں ہو سکتا اسی لئے آیت حاضرہ " وَ جَعَلْنَا عَلیٰ قُلُوبِھِمْ اَکَّنِۃً اَنْ یَفْقَھُوہُ وَ فِیْ اٰذَانِھمْ وَقْرًاط) بنی اسرائیل آیت نمبر۴۶ (" میں پردے وغیرہ ڈالنے کی نسبت حق تعالیٰ کی طرف کر دی گئی۔
۲۶ ۔۔۔ یعنی ان میں نہ فہم رہا ہے نہ انصاف ایمان لانا اور ہدایت ربانی سے منتفع ہونا تو کجا، ان کی غرض تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آنے سے صرف مجادلہ (جھگڑنا) اور پھبتیاں اُڑانا ہے۔ چنانچہ قرآنی حقائق و بیانات کو معاذاللہ اساطیر الاولین کہتے ہیں۔ پھر اس تکذیب اور جدل و تمسخر پر اکتفا نہیں، کوشش یہ ہے کہ دوسروں کی طرف بھی اپنی بیماری کا تعدیہ کریں، چنانچہ لوگوں کو حق سے روکتے ہیں اور خود بھی اس سے دور بھاگتے ہیں تاکہ انھیں دیکھ کر دوسرے قبول حق سے نفور و بیزار ہو جائیں۔ مگر ان تمام ناپاک کوششوں سے نہ بحمد اللہ دین حق کو کوئی نقصان پہنچ سکتا ہے وہ تو غالب ہو کر رہے گا اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو، کہ ان کی عصمت و رفعت کا تکفل حق تعالیٰ فرما چکا ہے۔ ہاں یہ احمق خود اپنے لئے ہلاکت کا سامان فراہم کر رہے ہیں۔ اور سمجھتے بھی نہیں کہ ہم اپنے ہاتھ سے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار رہے ہیں۔
۲۷ ۔۔۔ یعنی آیات اللہ کی تکذیب و استہزاء وغیرہ ساری فوں فاں اس وقت تک ہے جب تک خدائی سزا کا ہولناک و ہوشربا منظر سامنے نہیں۔ جس وقت دوزخ کی ذرا سی ہوا بھی لگ جائے گی تو ساری شیخی کر کری ہو کر رہ جائے گی اور بہزار تمنا یہ درخواست کریں گے کہ ہم کو دنیا میں دوبارہ بھیج دیا جائے تاکہ آئندہ کبھی اپنے رب کی آیتوں کو نہ جھٹلائیں اور پکے ایماندار بن کر رہیں۔ " الان قد ندمت وما ینفع الندم
۲۸ ۔۔۔ ۱: یعنی اب بھی دنیا میں واپس جانے کی تمنا عزمِ صحیح اور ایمانی رغبت و شوق سے نہیں بلکہ جب مجازات و مکافات عمل کا وہ منظر سامنے آ گیا جسے باوجود وضوح ادلہ انکار کے پردہ میں چھپایا کرتے تھے، عذاب الٰہی کو آنکھوں سے دیکھ لیا، تمام اعمال شنیعہ کا جو چھپ چھپ کر کئے جاتے تھے راز فاش ہو گیا، ابھی ابھی جو وَاللّٰہِ رَبِّنَا مَاکُنَّا مُشْرِکِیْنَ کہ چکے تھے اس جھوٹ کی بھی قلعی کھل گئی غرضیکہ بدی کے جو اثرات مخفی اور غیر مرئی طور پر اندر ہی اندر ان نالائقوں کے دلوں میں پرورش پا رہے تھے وہ دردناک عذاب کی صورت میں ممثل ہو کر سامنے آ گئے، تو محض جان بچانے کیلئے دوبارہ دنیا میں جانے کی تمنا کرنے لگے
۲: یعنی اب بھی جھوٹ کہتے ہیں کہ ہم دنیا میں واپس ہو کر پکے ایماندار بن جائیں گے اور ہرگز آیات اللہ کی تکذیب نہ کریں گے یہ اشقیاء اگر دنیا میں واپس کر دیئے جائیں تو بدی اور شرارت کی جو قوتیں ان میں رکھی ہیں پھر انھی کو کام میں لائیں گے اور جس مصیبت سے گھبرا کر جانے کی تمنا کر رہے ہیں اسے خواب و خیال کی طرح فراموش کر دیں گے جیسا کہ بسا اوقات دنیاوی مصائب و مہالک میں پھنس کر آدمی انابت و توبہ اختیار کر لیتا ہے پھر جہاں چند روز گزرے کچھ بھی یاد نہیں رکھتا کہ اس وقت کیا عہد و پیمان کئے تھے۔ کَاَنْ لَّمْ یَدْ عُنَا اِلیٰ ضُرِّ مَّسَّہٗ۔
۲۹ ۔۔۔ یعنی خوب مزے اڑا لو۔ دنیاوی عیش کو خواہ مخواہ فکرِ آخرت سے منغص مت کرو۔ یہ ہی حال آج کل یورپ کے مادہ پرستوں کا ہے۔
۳۰ ۔۔۔ یعنی جب حقیقت آنکھوں کے سامنے آ جائے گی اور "بعث بعد الموت " وغیرہ کے اقرار سے چارہ نہ رہے گا، تب کہا جائے گا کہ انکار حقیقت اور "کفر با المعاد " کا مزہ چکھو۔
۳۱ ۔۔۔ انسان کی بڑی شقاوت اور بدبختی یہ ہے کہ "لقاء اللہ " سے انکار کرے اور زندگی کے اس بلند ترین مقصد کو جھوٹ سمجھے۔ یہاں تک کہ جب موت یا قیامت سر پر آ کھڑی ہو تب بے فائدہ کف افسوس ملتا رہ جائے کہ ہائے میں نے اپنی دنیاوی زندگی میں یا یوم قیامت کیلئے تیاری کرنے میں کیسی ناقابل تلافی کوتاہی کی اس وقت اس افسوس و حسرت سے کچھ نہ ہو گا۔ جرموں اور شرارتوں کے بار گراں کو جس سے اس کی پشت خمیدہ ہو گی، یہ نا وقت کا تاسف و تحسر ذرا بھی ہلکا نہ کر سکے گا۔
۳۲ ۔۔۔ کفار تو یہ کہتے تھے کہ دنیاوی زندگی کے سوا کوئی زندگی ہی نہیں، لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ فانی اور مکدر زندگانی حیات اخروی کے مقابلہ میں محض ہیچ اور بے حقیقت ہے۔ یہاں کی زندگی کے صرف انہی لمحات کو زندگی کہا جا سکتا ہے جو آخرت کی درستی میں خرچ کئے جائیں۔ بقیہ تمام اوقات جو آخرت کی فکر و تیاری سے خالی ہوں ایک عاقبت اندیش کے نزدیک لہو و لعب سے زائد وقعت نہیں رکھتے۔ پرہیزگار اور سمجھدار لوگ جانتے ہیں کہ انکا اصلی گھر آخرت کا گھر اور انکی حقیقی زندگی آخرت کی زندگی ہے۔
۳۴ ۔۔۔ خلائق کے حال پر شفقت و ہمدردی سارے جہان سے زیادہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے دل میں ڈالی گئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان بدبختوں کی تکذیب و اعراض، مستقبل کی تباہی اور مشرکانہ وملحدانہ کلمات سے سخت رنج اور صدمہ محسوس فرماتے تھے۔ ان آیات میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو تسلی اور ان اشقیاء کو دھمکی دی گئی ہے کہ آپ ان کے اعراض وتکذیب سے اس قدر دلگیر اور بے چین نہ ہوں، یہ لوگ جو تکذیب کر رہے ہیں فی الحقیقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو نہیں جھٹلاتے کیونکہ آپ کو تو پہلے سے بالاتفاق صادق وامین سمجھتے تھے، بلکہ خدا کی آیات و نشانات کا جو پیغمبر علیہ السلام کی تصدیق و تبلیغ کیلئے بھیجی گئی ہیں، جان بوجھ کر از راہ ظلم وعناد انکار کر رہے ہیں تو آپ بھی ان ظالموں کا معاملہ خدا کے سپرد کر کے مطمئن ہو جائیے۔ وہ خود ان کے ظلم اور آپ کے صبر کا پھل دینے والا ہے۔ انبیاء سابقین کے ساتھ بھی جن کے کچھ حالات آپ کو سنائے جا چکے ہیں ان کی قوموں نے تکذیب و ایذاء رسانی کا برتاؤ کیا جس پر خدا کے معصوم پیغمبر نہایت اولوالعزمی سے صبر کرتے رہے حتی کہ حسب وعدہ خدا کی مدد پہنچی اور بڑے زبردست متکبرین کے مقابلہ میں ان کو مظفر و منصور کیا گیا۔ آپ سے جو نصر و ظفر کے وعدے کیے گئے ہیں ایک ایک کر کے پورے ہوں گے۔ پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائیں مگر خدا کا وعدہ نہیں ٹل سکتا۔ کس کی طاقت جو خدا کی باتوں کو بدل ڈالے یعنی جو اس نے کہا ہے اسے واقع نہ ہونے دے۔ مکذبین کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان کی جنگ حقیقۃً محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کی ذات سے نہیں بلکہ رب محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے جس نے ان کو اپنا سفیر اعظم اور معتمد بنا کر کھلے نشانات کے ساتھ بھیجا ہے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی تکذیب ان خدائی نشانات کی تکذیب ہے۔
۳۵ ۔۔۔ کفار کا مطالبہ یہ تھا کہ یہ نبی ہیں تو انکے ساتھ ہمیشہ ایسا نشان رہنا چاہیے جسے ہر کوئی دیکھ کر یقین کر لے اور ایمان لانے پر مجبور ہو جایا کرے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم چونکہ تمام دنیا کی ہدایت پر حریص تھے شاید آپ کے دل نے چاہا ہو گا کہ ان کا یہ مطالبہ پورا کر دیا جائے۔ اس لئے حق تعالیٰ نے یہ تربیت فرمائی کہ تکوینیات میں مشیت الٰہی کے تابع رہو۔ تکوینی مصالح اس کو مقتضی نہیں کہ ساری دنیا کو ایمان لانے پر مجبور کر دیا جائے ورنہ خدا تو اس پر بھی قادر تھا کہ بدون توسط پیغمبروں اور نشانوں کے شروع ہی سے سب کو سیدھی راہ پر جمع کر دیتا۔ جب خدا کی حکمت ایسے مجبور کن معجزات اور فرمائشی نشانات دکھلانے کو مقتضی نہیں تو مشیت الٰہی کے خلاف کسی کو یہ طاقت کہاں ہے کہ وہ زمین یا آسمان میں سے سرنگ یا سیڑھی لگا کر ایسا فرمائشی اور مجبور کن معجزہ نکال کر دکھلا دے۔ خدا کے قوانین حکمت و تدبیر کے خلاف کسی چیز کے وقوع کی امید رکھنا نادانوں کا کام ہے۔
۳۶ ۔۔۔ یعنی سب سے توقع نہ رکھو کہ مانیں گے، جن کے دل کے کان بہرے ہو گئے وہ سنتے ہی نہیں، پھر مانیں کس طرح؟ہاں یہ کافر جو قلبی و روحانی حیثیت سے مردوں کی طرح ہیں قیامت میں دیکھ کر یقین کریں گے اور ان چیزوں کو مانیں گے جن کا انکار کرتے تھے۔
۳۷ ۔۔۔ ۱: یعنی ان نشانیوں میں سے کوئی نشانی کیوں نہ اتری جن کی وہ فرمائش کرتے تھے کما فی قولہ تعالیٰ وَقَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَکَ حَتَّی تَفْجُرَلَنَا مِنَ الْاَرْضِ یَنُبْوم عًا اَوْتَکُوْنَ لَکَ جَنَّۃٌ مِنْ نَّخِیْلٍ وَّعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْاَنْھَارَ خِلَالَھَا تَفْجِیْرًا اَؤتُسْقِطَ السَّمَآءَ کَمَازعَمْتَ عَلَیْنَا کِسَفًا اَوْتَاْتِیَ بِاللّٰہِ وَالْمَلٰئِکَۃٍ قَبِیْلاً اَوْ یَکُوْنَ لَکَ بَیْتٌ مِّنْ زُخْرُفٍ اَوْتَرْقیٰ فِی السَّمَآءِ وَلَنْ نُّؤْمِنَ لِرُقِیِّکَ حَتّیٰ تُنَزِّلَ عَلَیْنَا کِتَابًا نَّقْرَؤُہٗ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ ھَلْ کُنْتُ اِلاَّ بَشَرًا رَّسُوْلًا (بنی اسرائیل، آیت نمبر ۹۰،۹۱،۹۳،۹۳ ،رکوع ۱۰) ورنہ آپ پر بے شمار علمی و عملی معجزات و نشانات بارش کی طرح اترتے رہتے تھے۔
۲: یعنی خدا فرمائشی معجزات دکھلانے سے عاجز نہیں۔ لیکن جن قوانین حکمت و رحمت پر نظام تکوین کی بنیاد ہے تم میں کے اکثر ان کے سمجھنے سے قاصر ہیں ان قوانین کا اقتضا یہ ہی ہے کہ تمام فرمائشی معجزات نہ دکھلائے جائیں۔
۳۸ ۔۔۔ ان آیات میں بعض حکمتوں پر متنبہ کیا گیا ہے جو فرمائشی نشانات نہ دکھلائے جانے میں مرعی ہیں۔ یعنی تمام حیوانات خواہ زمین پر رینگتے ہوں یا ہوا میں اڑتے ہوں، وہ بھی انسانوں کی طرح ایک امت ہیں۔ ان میں سے ہر نوع کو حق تعالیٰ نے ایک خاص وضع اور فطرت پر پیدا کیا جو ان کے معین خواص و افعال کے دائرہ میں کام کرتی ہے۔ کوئی جانور اپنے افعال و حرکات کے محدود حلقہ سے جو قدرت نے باعتبار ا سکی فطرت و استعداد کے مشخص کر دئیے ہیں، ایک قدم باہر نہیں نکال سکتا۔ چنانچہ ابتدائے آفرینش سے آج تک کسی حیوان نے اپنی نوع کے محدود دائرہ عمل میں کسی طرح کی ترقی نہیں کی۔ اسی طرح ہر چیز کی استعداد و فطرت کو خیال کر لیجئے۔ حق تعالیٰ کے علم قدیم اور لوح محفوظ میں تمام انواع و اجناس کی تدبیر و تربیت کے اصول و فروغ منضبط ہیں۔ کوئی چیز نہ اس زندگی میں اور نہ مرنے کے بعد اس مکمل انضباط و انتظام سے باہر جا سکتی ہے۔ انسان جنس حیوان میں "با اختیار اور ترقی کن" حیوان ہے اسی کسب و اختیار اور ترقی کن عقل و تمیز کی موجودگی نے ا سکے "نظام تکوینی اور قانون حیات " کو دوسرے تمام حیوانات سے ایسا اعلیٰ اور ممتاز بنا دیا ہے کہ اب اسے حیوان کہتے بھی شرم آتی ہے۔ وہ برخلاف باقی حیوانات کے دیکھنے، سننے اور پوچھنے سے نئی نئی معلومات حاصل کرتا اور قوۃ فکریہ سے ان کو ترتیب دیکر "حیات جدید" کی طرف ترقی کرتا رہتا ہے وہ نیک و بد میں تمیز کرنے ،نافع و ضار کے پہچاننے، آغاز و انجام سمجھنے پر قادر، اور کسی عمل کے کرنے یا چھوڑنے میں فی الجملہ آزاد ہے، اسی لئے اس کو خدا کی جانب سے ایسے نشانات دکھلائے جاتے ہیں جن میں غور و فکر کرنے کا موقع مل سکے اور فکر و کسب کی فطری آزادی کو سلب کرنے والے نہ ہوں۔ اور اگر وہ خدا کے دئیے ہوئے قوائے عقلیہ سے ٹھیک طور پر ان میں غور کرے تو اسے حق و باطل اور نیک و بد کی تمیز کرنے میں کچھ دقت نہ ہو۔ پس ایسے فرمائشی نشانات و معجزات کی درخواست کرنا جو بہمہ وجوہ ایمان لانے پر مجبور کر دیں، انسان کی فطری آزادی اور ا سکے نظام ترکیبی کو تباہ کرنے، بلکہ انسان کو عام حیوانات کی صف میں اتار لانے کا مرادف ہے۔ اور اگر فرمائشی نشان بہمہ وجوہ مجبور کن نہ ہوں تو انکا دکھلانا بیکار ہے کیونکہ ان میں بھی وہی غیر ناشی عن الدلیل شکوک و شبہات پیدا کر لئے جائیں گے جو ہزاروں غیر فرمائشی نشانات میں کئے جا چکے۔
۳۹ ۔۔۔ نہ کہنے والے کی سنتے ہیں نہ خود دوسرے سے پوچھتے ہیں اور نہ اندھیرے میں کچھ دیکھ سکتے ہیں۔ جب سب قویٰ اپنی بے اعتدالیوں سے بے کار کر لئے تو حق کی تصدیق و قبول کا کیا ذریعہ ہو؟ف گمراہ کرنا اسی کو چاہتا ہے جو خود ذرائع ہدایت کو اپنے اوپر مسدود کر لیتے ہیں وَلَوْشِئنَا لَرَفَعْنٰہ بِھَا وَلٰکِنَّہ اَخْلَدَ اِلَی الْاَرْضِ وَاتَّبَعَ ھَوَاہُ (اعراف، آیت نمبر ۷۶ ۱)
۴۱ ۔۔۔ جب اندھے بہرے گونگے ہو کر آیات اللہ کو جھٹلایا اور گمراہی کے عمیق غار میں جا پڑے۔ اس پر اگر دنیا میں یا قیامت میں خدا کا سخت عذاب نازل ہو تو سچ سچ بتلاؤ کہ خدا کے سوا اس وقت کسے پکارو گے۔ دنیا کی چھوٹی چھوٹی مصیبتوں میں بھی جب گھر جاتے ہو تو مجبور ہو کر اسی خدائے واحد کو پکارتے ہو اور سب شرکاء کو بھول جاتے ہو فَاِذَا رَکِبُوْا فِیْ الْفُلْکِ دَعَوُا اللَّہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدَّیْنَ) العنکبوت آیت نمبر ۶۵(جس پر اگر خدا چاہتا ہے تو اس مصیبت کو دور بھی کر دیتا ہے اسی سے اندازہ کر لو کہ نزول عذاب یا ہول قیامت سے بچانے والا بجز خدا کے اور کون ہو سکتا ہے پھر یہ کس قدر حماقت اور اندھا پن ہے کہ اس خدا کی عظمت و جلال کو فراموش کر کے اس کی نازل کی ہوئی آیات کی تکذیب اور فرمائشی آیات کا مطالبہ کرتے ہو۔
۴۴ ۔۔۔ گزشتہ آیت میں عذاب آنے کا احتمال ہوا تھا۔ اب واقعات کا حوالہ دیتے ہیں کہ پہلے زمانے میں اس طرح کے عذاب آ چکے ہیں۔ نیز متنبہ فرما دیا کہ جب مجرم کو ابتدا ہلکی تنبیہ کی جائے تو اس کو معاً خدا کی طرف رجوع ہونا چاہیے۔ سخت دلی اور اغوائے شیطانی سے اسے ہلکا نہ سمجھے۔ موضح القرآن میں ہے کہ گنہگار کو اللہ تعالیٰ تھوڑا سا پکڑتا ہے، اگر وہ گڑگڑایا توبہ کی تو بچ گیا اور اگر اتنی پکڑ نہ مانی تو پھر بھلاوا دیا اور وسعت عیش کے دروازے کھولے۔ جب نعمتوں کی شکر گزاری اور انعام و احسان سے متأثر ہونے کے بجائے خوب گناہ میں غرق ہوا تو دفعۃً بے خبر پکڑا گیا۔ یہ ارشاد ہے کہ آدمی کو گناہ پر تنبیہ پہنچے تو شتاب توبہ کرے۔ یہ راہ نہ دیکھے کہ اس سے زیادہ پہنچے تو یقین کروں۔
۴۵ ۔۔۔ ظالموں کا استیصال بھی ا سکی ربوبیت عامہ کا اثر اور مجموعہ عالم کے لئے رحمت عظیم ہے اسی لئے یہاں حمد و شکر کا اظہار فرمایا۔
۴۶ ۔۔۔ ۱: کہ نہ تم سن سکو نہ دیکھ سکو نہ دل سے سمجھ سکو۔
۲: حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں " یعنی توبہ میں دیر نہ کرے جو کان اور آنکھ اور دل اس وقت ہے شاید پھر نہ ملے اور اس لئے توبہ و استغفار کی توفیق نہ ہو سکے۔
۴۷ ۔۔۔ ۱: "اچانک "یعنی وہ عذاب جس کی کچھ علامات پہلے سے ظاہر نہ ہوں۔ لہٰذا "جھرۃً" سے مراد وہ عذاب ہو گا جس کے آنے سے قبل علامات ظاہر ہونے لگیں۔
۲: یعنی توبہ میں دیر نہ کرنا چاہیے شاید اس دیر میں عذاب پہنچ جائے جس کا خمیازہ صرف ظالموں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اگر پہلے ہی ظلم وعدوان سے توبہ کر چکا ہو گا تو اس عذاب سے بچ رہے گا۔
۴۹ ۔۔۔ یعنی تم جو عذاب الٰہی سے نہ ڈر اور بے فکر ہو کر بیہودہ فرمائشیں اور دو راز کار سوالات کر کے پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کو دق کرتے اور انکی تصدیق کے لئے خود ساختہ معیار تراشتے ہو، خوب سمجھ لو کہ پیغمبر دنیا میں اس لئے نہیں بھیجے گئے کہ تمہاری ایسی واہی تباہی فرمائشیں پوری کرتے رہا کریں۔ انکی بعثت کی غرض صرف " تبشیر و انذار " اور "تبلیغ وارشاد " ہے۔ وہ خدا کی طرف سے اس لئے بھیجے جاتے ہیں کہ فرما نبرداروں کو بشارات سنائیں اور نا فرمانوں کو ان کے انجام بد پر متنبہ کر دیں، آگے ہر شخص کی کمائی اس کے ساتھ ہے۔ جس نے انبیاء علیہم السلام کی باتوں پر یقین کیا اور اعتقادا وعملا اپنی حالت درست کر لی، حقیقی امن اور چین اس کو نصیب ہوا۔ اور جس نے خدا کی آیات کو جھٹلا کر ہدایت الٰہی سے روگردانی کی وہ نا فرمانی اور بغاوت کیوجہ سے سخت تباہی اور عذاب عظیم کے نیچے آگیا۔ العیاذ باللہ
۵۰ ۔۔۔ ۱: اس آیت میں منصب رسالت پر روشنی ڈالی گئی ہے یعنی کوئی شخص جو مدعی نبوت ہو، اس کا دعویٰ یہ نہیں ہوتا کہ تمام مقدورات الٰہیہ کے خزانے اس کے قبضہ میں ہیں کہ اس سے کسی امر کی فرمائش کی جائے وہ ضرور ہی کر دکھلائے یا تمام معلومات غیبیہ و شہادیہ پر خواہ ان کا تعلق فرائض رسالت سے ہو یا نہ ہو، اس کو مطلع کر دیا گیا ہے کہ جو کچھ تم پوچھو، وہ فوراً ابتلا دیا کرے یا نوع بشر کے علاوہ وہ کوئی اور نوع ہے جو لوازم و خواص بشریہ سے اپنی برأت و نزہت کا ثبوت پیش کرے۔ جب ان باتوں میں سے وہ کسی چیز کا مدعی نہیں تو فرمائشی معجزات اس سے طلب کرنا یا از راہ تعنت و عناد اس قسم کا سوال کرنا کہ"قیامت کب آئے گی"یا یہ کہنا کہ"یہ رسول کیسے ہیں جو کھانا کھاتے اور بازاروں میں خرید و فروخت کیلئے جاتے ہیں "اور انہی امور کو معیار تصدیق و تکذیب ٹھہرانا کہاں تک صحیح ہو سکتا ہے۔۔
۲: یعنی اگرچہ پیغمبر نوع بشر سے علیحدہ کوئی دوسری نوع نہیں۔ لیکن اس کے اور باقی انسانوں کے درمیان زمین آسمان کا فرق ہے۔ انسانی قوتیں دو قسم کی ہیں علمی و عملی۔ قوت علمیہ کے اعتبار سے نبی کے دل کی آنکھیں ہر وقت مرضیات الٰہی اور تجلّیات ربانی کے دیکھنے کیلئے کھلی رہتی ہیں، جسکے بلاواسطہ مشاہدہ سے دوسرے انسان محروم ہیں اور قوت عملیہ کا حال یہ ہوتا ہے کہ پیغمبر اپنے قول و فعل اور ہر ایک حرکت و سکون میں رضائے الٰہی اور حکم خداوندی کے تابع و منقاد ہوتے ہیں، وحی سماوی اور احکام الٰہیہ کے خلاف نہ کبھی ان کا قدم اٹھ سکتا ہے نہ زبان حرکت کر سکتی ہے۔ ان کی مقدس ہستی اخلاق و اعمال اور کل واقعات زندگی میں تعلیمات ربانی اور مرضیات الٰہی کی روشن تصویر ہوتی ہے جسے دیکھ کر غور و فکر کرنے والوں کو انکی صداقت اور مامور من اللہ ہونے میں ذرا بھی شبہ نہیں رہ سکتا۔
۵۱ ۔۔۔ ۱: یعنی جو لوگ فرمائشی معجزات دکھلائے جانے پر اپنے ایمان کو موقوف رکھتے اور از راہ تعنت و عناد آیات اللہ کی تکذیب پر تلے ہوئے ہیں، ان سے قطع نظر کیجئے۔ کیونکہ ایسے ہی لوگوں سے امید ہو سکتی ہے کہ نصیحت سے متأثر اور ہدایت قرآنی سے منتفع ہوں۔
۲: یعنی یہ سن کر گناہ سے بچتے رہیں۔
۵۲ ۔۔۔ ۱: یعنی رات دن ا سکی عبادت میں حسن نیت اور اخلاص کے ساتھ مشغول رہتے ہیں۔
۲: یعنی جب ان کا ظاہر حال یہ بتلا رہا ہے کہ شب و روز خدا کی عبادت اور رضا جوئی میں مشغول رہتے ہیں تو اسی کے مناسب ان سے معاملہ کیجئے ان کا باطنی حال کیا ہے یا آخری انجام کیا ہو گا، ا سکی تفتیش و محاسبہ پر معاملات موقوف نہیں ہو سکتے۔ یہ حساب نہ آپ کا ان کے ذمے ہے نہ انکا آپ کے۔ لہٰذا اگر بالفرض آپ دولتمندوں کی ہدایت کی طمع میں ان غریب مخلصین کو اپنے پاس سے ہٹانے لگیں تو یہ بات بے انصافی کی ہو گی۔ موضح القران میں ہے " کافروں میں بعض سرداروں نے حضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا کہ تمہاری بات سننے کو ہمارا دل چاہتا ہے لیکن تمہارے پاس بیٹھتے ہیں رذیل لوگ ہم ان کے برابر نہیں بیٹھ سکتے اس پر یہ آیت اتری۔ یعنی خدا کے طالب اگرچہ غریب ہیں، ان ہی کی خاطر مقدم ہے۔
۵۳ ۔۔۔ یعنی دولتمندوں کو غریبوں سے آزمایا ہے کہ ان کو ذلیل دیکھتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں کہ یہ کیا لائق ہیں اللہ ان کے دل دیکھتا ہے کہ اللہ کا حق مانتے ہیں۔
۵۵ ۔۔۔ پہلے فرمایا تھا کہ پیغمبر تبشیر و انذار کے لئے آتے ہیں، چنانچہ اس رکوع کے شروع میں وانذربہ الذین یخافون الخ سے شان انذار کا استعمال تھا۔ اب مومنین کے حق میں شان تبشیر کا اظہار ہے یعنی مومنین کو کامل سلامتی اور رحمت و مغفرت کی بشارت سنا دیجئے تاکہ ان غریبوں کا دل بڑھے اور دولت مند متکبرین کے طعن و تشنیع اور تحقیر آمیز برتاؤ سے شکستہ خاطر نہ رہیں۔ اسی لئے ہم احکام و آیات تفصیل سے بیان کرتے ہیں نیز اس لئے کہ مومنین کے مقابلہ میں مجرمین کا طریقہ بھی واضح ہو جائے (تنبیہ) یہ جو فرمایا کہ "جو کوئی کرے تم میں سے برائی ناواقفیت سے "اس سے شاید یہ غرض ہو کہ مومن جو برائی یا معصیت کرتا ہے خواہ نادانستہ ہو یا جان بوجھ کر، وہ فی الحقیقت اس برائی اور گناہ کے انجام بد سے ایک حد تک ناواقف اور بے خبر ہی ہو کر کرتا ہے اگر گناہ کے تباہ کن نتائج کا پوری طرح اندازہ اور استحضار ہو تو کون شخص ہے جو اس اقدام کی جرأت کرے گا۔
۵۶ ۔۔۔ گزشتہ آیت میں وہ چیزیں بیان ہوئیں جو مومنین سے کہنے کے لائق ہیں۔ اس رکوع میں ان امور کا تذکرہ ہے جو مجرمین و مکذبین کے حق میں قابل خطاب ہیں۔ یعنی آپ فرما دیجئے کہ میرا ضمیر، میری فطر ت، میری عقل، میرا نور و شہود اور وحی الٰہی جو مجھ پر اترتی ہے، یہ سب مجھ کو اس سے روکتے ہیں کہ میں توحید کامل کے جادہ سے ذرا بھی قدم ہٹاؤں۔ خواہ تم کتنے ہی حیلے اور تدبیریں کرو میں کبھی تمہاری خوشی اور خواہش کی پیروی نہیں کر سکتا۔ بفرض محال اگر پیغمبر کسی معاملہ میں وحی الٰہی کو چھوڑ کر عوام کی خواہشات کا اتباع کرنے لگیں تو خدا نے جنہیں ہادی بنا کر بھیجا تھا معاذاللہ وہ ہی خود بہک گئے، پھر ہدایت کا بیج دنیا میں کہاں رہ سکتا ہے۔
۵۷ ۔۔۔ ۱: یعنی میرے پاس خدا کی صاف و صریح شہادت اور واضح دلائل پہنچ چکیں، جن کے قبول سے سر مو انحراف نہیں کر سکتا۔ تم اس کو جھٹلاتے ہو تو اس کا انجام سوچ لو۔
۲: یعنی عذاب الٰہی کفار کہتے تھے، "اَللّٰھُمَّ اِنْ کَانَ ھَذَا ھُوَالْحَقُّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ") سورۃ الانفال آیت نمبر ۳۳(اگر یہ حق ہے جس کی ہم تکذیب کر رہے ہیں تو آپ آسمان سے ہم پر پتھروں کی بارش کر دیجئے یا ہم پر اور کوئی سخت عذاب بھیج دیجئے)
۵۸ ۔۔۔ یعنی جس پر چاہے جب چاہے اور جس قسم کا چاہے عذاب بھیجے یا نہ بھیجے ویسے ہی توبہ کی توفیق مرحمت فرما دے، یہ سب اللہ کے قبضہ میں ہے۔ کسی کا حکم اور زور اس کے سوا نہیں چلتا۔ وہ دلائل و براہین کے ساتھ حق کو بیان کر دیتا ہے۔ پھر جو نہ مانیں ان کے متعلق بہترین فیصلہ کرنے والا بھی وہ ہی ہے۔ اگر ان کا فیصلہ کرنا یا سزا دینا میرے قبضہ اختیار میں ہوتا اور یہ نزول عذاب میں جلدی چاہنے والے مجھ سے عذاب کا مطالبہ کرتے تو اب تک کبھی کا جھگڑا ختم ہو چکا ہوتا۔ یہ تو خدا ہی کے علم محیط، حلم عظیم، حکمت بالغہ اور قدرت کاملہ کا پر تو ہے کہ بے شمار مصالح و حکم کی رعایت کرتے ہوئے باوجود پوری طرح جاننے اور قدرت رکھنے کے ظالموں پر فوراً عذاب نازل نہیں کرتا۔ آئندہ آیات میں اس کے علم محیط اور قدرت کاملہ کا ذکر ہے تاکہ ثابت ہو کہ تاخیر عذاب جہل یا عجز کی بناء پر نہیں۔
۵۹ ۔۔۔ یعنی لوح محفوظ میں ہے۔ لوح محفوظ میں جو چیز ہو گی وہ علم الٰہی میں پہلے ہو گی۔ اس اعتبار سے مضمون آیت کا حاصل یہ ہوا کہ عالم غیب و شہادت کی کوئی خشک و تر اور چھوٹی بڑی چیز حق تعالیٰ کے علم ازلی محیط سے خارج نہیں ہو سکتی۔ بناء علیہ ان ظالموں کے ظاہری و باطنی احوال اور انکی سزا دہی کے مناسب وقت و محل کا پورا پورا علم اسی کو ہے (تنبیہ) "مفاتیح"کو جن علماء نے مَفتح بفتح المیم کی جمع قرار دیا ہے انھوں نے "مفاتیح الغیب " کا ترجمہ " غیب کے خزانوں " سے کیا اور جن کے نزدیک مفتح بکسر المیم کی جمع ہے وہ "مفاتیح الغیب" کا ترجمہ مترجم رحمۃ اللہ کے موافق کرتے ہیں، یعنی "غیب کی کنجیاں " مطلب یہ ہے کہ غیب کے خزانے اور ان کی کنجیاں صرف خدا کے ہاتھ میں ہیں۔ وہی ان میں سے جس خزانہ کو جس وقت اور جس قدر چاہے کسی پر کھول سکتا ہے کسی کو یہ قدرت نہیں کہ اپنے حواس و عقل وغیرہ آلات ادراک کے ذریعہ سے علوم غیبیہ تک رسائی پا سکے یا جتنے غیوب اس پر منکشف کر دئیے گئے ہیں ان میں از خود اضافہ کر لے کیونکہ علوم غیبیہ کی کنجیاں اس کے ہاتھ میں نہیں دی گئیں۔ خواہ لاکھوں کروڑوں جزئیات واقعات غیبیہ پر کسی بندے کو مطلع کر دیا گیا ہو۔ تاہم غیب کے اصول و کلیات کا علم جن کو "مفاتیح غیب " کہنا چاہئے، حق تعالیٰ نے اپنے ہی لئے مخصوص رکھا ہے۔
۶۰ ۔۔۔ ۱: یعنی شب میں سوتے وقت ظاہری احساس و شعور باقی نہیں رہتا اور آدمی اپنے گرد و پیش بلکہ اپنے جسم کے احوال تک سے بھی بے خبر ہو جاتا ہے گویا اس وقت یہ قوتیں اس سے لے لی گئیں
۲: یعنی دن میں جو کچھ چلنا پھرنا، نقل و حرکت اور کسب و اکتساب واقع ہوتا ہے وہ سب کامل تفصیل کے ساتھ خدا کے علم میں موجود ہے۔
۳: یعنی اگر وہ چاہتا تو تم سوتے کے سوتے رہ جاتے لیکن موت کا وعدہ پورا ہونے تک ہر نیند کے بعد تم کو بیدار کرتا رہتا ہے۔
۴: دن میں کاروبار کر کے رات کو سونا، پھر سو کر اٹھنا یہ روز مرہ کا سلسلہ ایک چھوٹا سا نمونہ ہے، دنیا کی زندگی پھر موت پھر دوبارہ زندہ کئے جانے کا۔ اسی لئے نیند اور بیداری کے تذکرہ کے ساتھ "مسئلہ معاد " پر متنبہ کر دیا گیا۔
۶۱ ۔۔۔ یعنی وہ فرشتے جو تمہاری اور تمہارے اعمال کی نگہداشت کرتے ہیں۔
یعنی جو فرشتے روح قبض کرنے کیلئے بھیجے جاتے ہیں۔
یعنی جس وقت اور جس طرح جان نکالنے کا حکم ہوتا ہے اس میں وہ کسی طرح کی رعایت یا کوتاہی نہیں کرتے۔
۶۲ ۔۔۔ یعنی ایک لحظہ میں آدمی کی عمر بھر کی بھلائی برائی واضح کر دے۔
۶۴ ۔۔۔ یعنی حق تعالیٰ باوجود علم محیط اور قدرت کاملہ کے جس کا بیان اوپر ہوا، تمہاری بد اعمالیوں اور شرارتوں کی سزا فورا نہیں دیتا۔ بلکہ جب مصائب و شدائد کی اندھیریوں میں پھنس کر تم اس کو عاجزی سے پکارتے ہو اور پختہ وعدے کرتے ہو کہ اس مصیبت سے نکلنے کے بعد کبھی شرارت نہ کریں گے اور ہمیشہ احسان کو یا رکھیں گے، تو بسا اوقات تمہاری دستگیری کر کے ان مہالک اور ہر قسم کی سختیوں سے نجات دے دیتا ہے لیکن تم پھر بھی اپنے وعدہ پر قائم نہیں رہتے اور مصیبت سے آزاد ہوتے ہی بغاوت شروع کر دیتے ہو۔
۶۵ ۔۔۔ ۱: یعنی خدا کے امہال و درگزر کو دیکھ کر مامون اور بے فکر نہ ہونا چاہئے۔ جس طرح وہ شدائد و مصائب سے نجات دے سکتا ہے۔ اسے یہ بھی قدرت ہے کہ کسی قسم کا عذاب تم پر مسلط کر دے۔
۲: اس میں عذاب کی تین قسمیں بیان فرمائیں (۱) جو اوپر سے آئے، جیسے پتھر برسنا یا طوفانی ہوا اور بارش (۳) جو پاؤں کے نیچے سے آئے، جیسے زلزلہ یا سیلاب وغیرہ یہ دونوں خارجی اور بیرونی عذاب ہیں۔ جو اگلی قوموں پر مسلط کئے گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی دعا سے اس امت کو اس قسم کے عام عذاب سے محفوط کر دیا گیا ہے یعنی اس قسم کا عام عذاب جو گزشتہ اقوام کی طرح اس امت کا استیصال کر دے نازل نہ ہو گا۔ جزئی اور خصوصی واقعات اگر پیش آئیں تو اس کی نفی نہیں۔ ہاں تیسری قسم عذاب کی جسے اندرونی اور داخلی عذاب کہنا چاہیے اس امت کے حق میں باقی رہی ہے اور وہ پارٹی بندی، باہمی جنگ وجدل اور آپس کی خونریزی کا عذاب ہے۔ موضح القرآن میں ہے کہ قرآن شریف میں اکثر کافروں کو عذاب کا وعدہ دیا۔ یہاں کھول دیا کہ عذاب وہ بھی ہے جو اگلی امتوں پر آیا آسمان سے یا زمین سے اور یہ بھی ہے کہ آدمیوں کو آپس میں لڑا دے اور انکو قتل یا قید یا ذلیل کرے، حضرت نے سمجھ لیا کہ اس امت پر یہ ہی عذاب ہو گا، اکثر "عذاب الیم" اور " عذاب مہین " اور "عذاب شدید " اور " عذاب عظیم " ان ہی باتوں کو فرمایا ہے آخرت کا عذاب بھی ہے ان پر جو کافر ہی مرے۔
۳: یعنی قرآن کو یا عذاب کے آنے کو۔ کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ سب جھوٹی دھمکیاں ہیں، عذاب وغیرہ کچھ نہیں آتا۔
۶۷ ۔۔۔ یعنی میرا یہ منصب نہیں کہ تمہاری تکذیب پر وہ عذاب نازل کر دوں یا اس کے وقت اور نوعیت وغیرہ کی تفصیل بتلاؤں میرا کام صرف باخبر اور متنبہ کر دینا ہے۔ آگے ہر چیز کے وقوع کا علم الٰہی میں ایک وقت مقرر ہے۔ جب وقت آ جائے گا تم خود جان لو گے کہ میں جس چیز سے ڈراتا تھا وہ کہاں تک سچ ہے۔
۶۸ ۔۔۔ یعنی جو لوگ آیات اللہ پر طعن و استہزاء اور ناحق کی نکتہ چینی میں مشغول ہو کر اپنے کو مستحق عذاب بنا رہے ہیں تم ان سے خط ملط نہ رکھو کہیں تم بھی ان کے زمرے میں داخل ہو کر مورد عذاب نہ بن جاؤ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا ہے اِنَّکُمْ اِذًا مِّثْلُھُمْ ایک مومن کی غیرت کا تقاضا یہ ہونا چاہیے کہ ایسی مجلس سے بیزار ہو کر کنارہ کرے اور کبھی بھول کر شریک ہو گیا تو یاد آنے کے بعد فوراً وہاں سے اُٹھ جائے اس میں اپنی عاقبت کی درستی ، دین کی سلامتی اور طعن و استہزاء کرنے والوں کے لئے عملی نصیحت اور تنبیہ ہے۔
۶۹ ۔۔۔ اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں یعنی اگر پرہیزگار لوگ جھگڑنے اور طعن کرنے والوں کی مجلس سے اُٹھ کر چلے آئے تو طاعنین کے گمراہی میں پڑے رہنے کا کوئی مواخذہ اور ضرر ان متقین پر عائد نہیں ہو سکتا۔ ہاں ان کے ذمے بقدر استطاعت اور حسب موقع نصیحت کرتے رہنا ہے۔ شائد وہ بدبخت نصیحت سن کر اپنے انجام سے ڈر جائیں ، یا یہ مطلب ہے کہ پرہیزگار اور محتاط لوگوں کو اگر کسی واقعی معتدبہ دینی یا دنیاوی ضرورت سے ایسی مجلس میں جانے کا اتفاق ہو جائے تو ان کے حق میں طاعنین کے گناہ اور باز پرس کا کوئی اثر نہیں پہنچتا۔ ہاں ان کے ذمہ بشرت قدرت نصیحت کر دینا ہے۔ ممکن ہے کسی وقت ان پر بھی نصیحت کا اثر پڑ جائے۔
۷۰ ۔۔۔ ۱: یعنی اپنے اس دین کو جس کا قبول کرنا اس کے ذمہ فرض تھا، اور وہ مذہب اسلام ہے۔
۲: دنیا کی لذتوں میں مست ہو کر عاقبت کو بھلا بیٹھے۔
۳: یعنی ایسے لوگوں کو جو تکذیب و استہزاء کی کرتوت میں پکڑے گئے ہوں نہ کوئی حمایتی ملے گا جو مدد کر کے زبردستی عذاب الٰہی سے چھڑا لے اور نہ کوئی سفارش کرنے والا ہو گا جو سعی اور سفارش سے کام نکال دے اور نہ کسی قسم کا فدیہ اور معاوضہ قبول کیا جائے گا اگر بالفرض ایک مجرم دنیا بھر کے معاوضے دے کر چھوٹنا چاہے تو نہ چھوٹ سکے گا۔
۴: گزشتہ آیت میں خاص اس مجلس سے کنارہ کشی کا حکم تھا جہاں آیات اللہ کے متعلق طعن و استہزاء اور ناحق کے جھگڑے کئے جا رہے ہوں اس آیت میں ایسے لوگوں کی عام مجالست و صحبت ترک کر دینے کا ارشاد ہے مگر ساتھ ہی حکم ہے کہ ان کو نصیحت کر دیا کرو تاکہ وہ اپنے کئے کے انجام سے آگاہ ہو جائیں
۷۱ ۔۔۔ یعنی مسلمانوں کی شان یہ ہے کہ گمراہوں کو نصیحت کر کے سیدھی راہ پر لائے اور جو خدا سے بھاگ کر غیر اللہ کی چوکھٹ پر سر رکھے ہوئے ہیں ان کو خدائے واحد کے سامنے سر بسجود کرنے کی فکر کرے۔ اس سے یہ توقع رکھنا فضول ہے کہ وہ خدا کے سوا کسی ایسی ہستی کے آگے سر جھکائے گا جس کے قبضے میں نہ نفع ہے نہ نقصان۔ یا اہل باطل کی صحبت میں رہ کر توحید و ایمان کی صاف سڑک چھوڑ دے گا اور شرک کی بھول بھلیوں کی طرف الٹے پاؤں پھرے گا۔ اگر معاذ اللہ ایسا ہو تو اس کی مثال اس مسافر کی سی ہو گی جو اپنے راہ جاننے والے رفقاء کے ساتھ جنگل میں سفر کر رہا تھا کہ ناگاہ غول بیابانی) خبیث جنات (نے اسے بہکا کر راستے سے الگ کر دیا وہ چاروں طرف بھٹکتا پھرتا ہے اور ا سکے رفقاء از راہ خیر خواہی اسے آوازیں دے رہے ہیں کہ ادھر آؤ راستہ اس طرف ہے مگر وہ حیران و مخبوط و الحواس ہو کر نہ کچھ سمجھتا ہے اور نہ ادھر آتا ہے اسی طرح سمجھ لو کہ مسافر آخرت کے لئے سیدھی راہ اسلام و توحید کی ہے اور جن کی رفاقت اور معیت میں یہ سفر طے ہوتا ہے وہ پیغمبر اور اس کے متبعین ہیں۔ جب یہ بدبخت شیاطین و مضلین کے پنجے میں پھنس کر صحرائے ضلالت میں بھٹکتا پھرتا ہے اس کے ہادی اور رفقاء از راہ ہمدردی جادہ حق کی طرف بلا رہے ہیں مگر یہ نہ کچھ سنتا ہے نہ سمجھتا ہے۔ تو اے گروہ اشرار کیا تمہاری یہ غرض ہے کہ ہم اپنی ایسی مثالیں بنا لیں۔ یہ آیت ان مشرکین کے جواب میں اتری ہے جنہوں نے مسلمانوں سے ترک اسلام کی درخواست کی تھی۔؟
ہم سے یہ امید مت رکھو کہ اسے چھوڑ کر ہم شیطان کی بتلائی ہوئی راہوں پر چلیں گے۔
۲: یعنی اس روز ظاہری اور مجازی طور پر بھی خدا کے سوا کسی کی سلطنت نہ رہے گی۔ لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ لِلّٰہِ الْوَاحِدِ القَھَّار (المومن آیت۱۶)۔
۳: جو خدا یہ صفات رکھتا ہے جن کا ذکر ان دو تین آیات میں ہوا ، وہ ہی اسی لائق ہے کہ ہم اس کے تابع فرمان ہوں، اس کے سامنے انتہائی عبودیت اختیار کریں اور ہر آن اس سے ڈرتے رہیں۔ اسی کا ہم کو حکم ہوا ہے جس سے ہم کسی حال منہ نہیں موڑ سکتے۔
۷۴ ۔۔۔ ۱: گزشتہ آیات میں جو توحید کا اثبات ، شرک کی نفی اور مسلمانوں کے ارتداد سے مایوس کیا گیا تھا۔ یہاں مؤحد اعظم حضرت ابراہیم کے واقعہ سے اسی کی تاکید مقصود ہے اور ضمناً مسلمانوں کو یہ بھی سمجھانا ہے کہ مکذبین و معاندین کو کس طرح نصیحت و فرمائش کی جائے۔ کس طرح ان سے علیحدگی اور بیزاری کا اظہار ہونا چاہیے اور کس طرح ایک مومن قانت کو خدا پر اور صرف خدا پر بھروسہ رکھنا ،اسی سے ڈرنا اور اسی کا تابع فرمان ہونا چاہیے۔
۲: علمائے انساب نے حضرت ابراہیم کے باپ کا نام "تارخ" رکھا ہے ممکن ہے "تارخ" نام اور " آزر " لقب ہو ابن کثیر نے مجاہد وغیرہ سے نقل کیا ہے کہ "آزر" بت کا نام تھا ، شاید اس بت کی خدمت میں زیادہ رہنے سے خود ان کا لقب آزر پڑ گیا ہو۔ وﷲ اعلم
۳: اس سے زیادہ صریح وصاف گمراہی کیا ہو گی کہ اکرم المخلوقات"انسان" اپنے ہاتھ سے تراشے پتھروں کو خدائی کا درجہ دے کر ان کے سامنے سربسجود ہو جائے اور انھی سے مرادیں مانگنے لگے۔
۷۵ ۔۔۔ یعنی جس طرح بت پرستی کی شناعت و قبح ہم نے ابراہیم پر ظاہر کر کے اس کی قوم کو قائل کیا اسی طرح علویات و سفلیات کے نہایت محکم اور عجیب و غریب نظام ترکیبی کی گہرائیوں پر بھی اس کو مطلع کر دیا تاکہ اسے دیکھ کر اللہ تعالیٰ کے وجود و وحدانیت وغیرہ پر اور تمام مخلوقات سماوی و ارضی کے محکومانہ عجزو بیچارگی پر استدلال اور اپنی قوم کے عقیدے کواکب پرستی و ہیاکل سازی کو علیٰ وجہ البصیرت رد کر سکے اور خود بھی حق الیقین کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہو بلاشبہ عالم کا یہ اکمل و احکم اور بہترین نظم و نسق ہی ایسی چیز ہے جسے دیکھ کر بالبداہت اقرار کرنا پڑتا ہے کہ اس عظیم الشان مشین کا بنانے اور چلانے والا ، اس کے پرزوں کو نہایت مضبوط ترتیب و سلیقہ سے جوڑنے والا اور ہزاروں لاکھوں برس سے ایک ہی انداز پر اس کی حفاظت کرنے والا ، بڑا زبردست حکیم و قدیر صانع ہے جس کے حکیمانہ تصرف اور نفوذ واقتدار سے مشین کا کوئی چھوٹا بڑا پرزہ باہر نہیں جا سکتا۔ یہ کام یونہی بخت و اتفاق یا بےشعور طبیعت یا اندھے بہرے مادہ سے نہیں ہو سکتا۔ یورپ کا مشہورو معروف حکیم نیوٹن کہتا ہے کہ کواکب کی حرکات حالیہ ممکن نہیں کہ محض عام قوت جاذبہ کے فعل کا نتیجہ ہوں یہ قوت جاذبہ تو کواکب کو شمس کی طرف دھکیلتی ہے۔ اس لئے کواکب کو سورج کے گرد حرکت دینے والا ضروری ہے کہ خدائی ہاتھ ہو۔ جو باوجود قوت جاذبہ کی عام کشش کے ان کو اپنے مدارت پر قائم رکھ سکے۔ کوئی سبب طبعی ایسا نہیں بتلایا جا سکتا جس نے تمام کواکب کو کھلی فضا میں جکڑ بند کر دیا ہے کہ وہ سب سورج کے گرد چکر لگاتے وقت ہمیشہ معین مدارت پر اور ایک خاص جہت ہی میں حرکت کریں جس میں کبھی تخلف نہ ہو۔ پھر کواکب کی حرکات اور درجات سرعت میں ان کی اور سورج کی درمیانی مسافت کو ملحوظ رکھتے ہوئے جو دقیق تناسب اور عمیق توازن قائم رکھا گیا ہے کوئی سبب طبعی نہیں جس سے ہم ان منظم و محفوظ نوامیس کو وابستہ کر سکیں۔ ناچار اقرار کرنا پڑتا ہے کہ یہ سارا نظام کسی ایسے زبردست حکیم و علیم کے ماتحت ہے جو ان تمام اجرام سماویہ کے مواد اور ان کی کمیات سے پورا پورا واقف ہے وہ جانتا ہے کہ کس مادہ کی کس قدر مقدار سے کتنی قوت جاذبہ صادر ہو گی۔ اسی نے اپنے زبردست اندازے سے کواکب اور شمس کے درمیان مختلف مسافتیں اور حرکت کے مختلف مدارج مقرر کئے ہیں کہ ایک کا دوسرے سے تصادم و تزاحم نہ ہو اور عالم ٹکرا کر تباہ نہ ہو جائے۔ ہر چھوٹا بڑا سیارہ نہایت مضبوط نظام کے ماتحت معین وقت پر طلوع و غروب ہوتا ہے جب کوئی سیارہ غروب ہو کر دنیا کو اپنے اس فیض و تاثیر سے محروم کر دے جو طلوع کے وقت حاصل تھا تو نہ اس ستارہ کی اور نہ کسی مخلوق کی قدرت میں ہے کہ ایک منٹ کے لئے اسے واپس لے آئے یا غروب سے روک دے یہ رب العالمین ہی کی شان ہے کہ کسی وقت بھی کسی قسم کے افاضہ سے عاجز نہیں وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّ لَّھَاذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِالْعَلِیْمِ وَالْقَمَرَقَدَّرْنٰہُ مَنَازِلَ حَتّیٰ عَادَ کَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِیْمِ لَا الشَّمْسُ یَنبَغِیْ لَھَااَنْ تُدْرِکَ الْقَمَرَوَلَا الَّیْلُ سَابِقُ النَّھَارِ وَکُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ) ،یٰس، رکوع ۳(یہ علویات کا حال ہے تو سفلیات کا اسی سے اندازہ کر لو یہ ہی تکوینی عجائب اور ملکوت السمٰوٰات و الارض ہیں جن کے دیکھنے سے ابراہیم کی زبان پر لَااُحِبُّ الْاَفِلِیْن اور اِنِّی وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ الخ بے ساختہ جاری ہو گیا جو اگلی آیات میں مذکور ہے) کما تدل علی الفاء فی قول تعالیٰ فلما جن الخ)۔
۷۶ ۔۔۔ کہ انھیں اپنا رب بنا لوں۔ کیا ایک مجبور قیدی اور بیگاری کو شہنشاہی کے تخت پر بٹھلانا کوئی پسند کر سکتا ہے باقی ابراہیم کا ھٰذا ربی کہنا یا تو استفہام انکاری کے لہجے میں ہے یعنی کیا یہ ہے راب میرا اور یا بطریق تہکم و تبکیت ہے۔ یعنی یہ ہے رب میرا تمہارے عقیدہ اور گمان کے موافق جیسے موسیٰ نے فرمایا وَانْظُرْاِلیٰ اِلٰھِکَ الَّذِیْ ظَلْتَ عَلَیْہٖ عَاکِفًااِیْ فِیْ زَعْمِکَ اس کے سوا مفسرین کے اور اقوال بھی ہیں۔ مگر ہمارے خیال میں یہ ہی راجح ہے وﷲ اعلم۔
۷۷ ۔۔۔چاند چونکہ بہت حسین اور چمکدار سیارہ ہے اگر خدا دستگیری نہ فرمائے تو بیشک انسان اس کی چمک دمک پر مفتون ہو کر رہ جائے۔
۷۸ ۔۔۔ ۱: یعنی نظام فلکی میں سب سے بڑا اور سب سے زیادہ فیض رساں سیارہ ہے شائد عالم مادی کی کوئی چیز اس کے بلاواسطہ یا بالواسطہ فیض تأثر سے مستغنی ہو۔
۲: یہ تو سب خدا کے مزدور ہیں جو وقت معین پر آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں ایک منٹ کی تقدیم و تاخیر پر قادر نہیں پھر ان کو خدائی کے حقوق میں شریک کرنا کس قدر گستاخی اور قابل نفرت فعل ہے۔
۷۹ ۔۔۔ یعنی ساری مخلوق سے یک سو ہو کر صرف خالق جل و علیٰ کا دروازہ پکڑ لیا ہے جس کے قبضہ اقتدار میں سب علویات و سفلیات ہیں۔
۸۰ ۔۔۔ ۱: یعنی جس کو خدا سمجھا چکا اور ملکوت السّمٰوٰت والارض کی علیٰ وجہ البصیرت سیر کرا چکا کیا اس سے یہ امید رکھتے ہو کہ وہ تمہارے جھگڑنے اور بیہودہ جدل و بحث کرنے سے بہک جائے گا۔ کبھی نہیں۔
۲: حضرت ابراہیم کی قوم کہتی تھی کہ تم جو ہمارے معبودوں کی توہین کرتے ہو۔ ڈرتے رہو کہیں ا سکے وبال میں تم معاذ اللہ مجنون اور پاگل نہ بن جاؤ یا کسی اور مصیبت میں گرفتار ہو جاؤ۔ اس کا جواب دیا کہ میں ان سے کیا ڈروں گا جن کے ہاتھ میں نفع و نقصان اور تکلیف و راحت کچھ بھی نہیں۔ ہاں میرا پروردگار کوئی تکلیف پہنچانا چاہے تو اس سے دنیا میں کون مستثنیٰ ہے وہ ہی اپنے علم محیط سے جانتا ہے کہ کس شخص کو کن حالات میں رکھنا مناسب ہو گا۔
۸۱ ۔۔۔ یعنی میں تمہارے معبودوں سے کیوں ڈروں حالانکہ نہ ان کے قبضہ میں نفع و ضرر ہے اور نہ توحید کو اختیار کرنا کوئی جرم ہے۔ جس سے اندیشہ ہو ہاں تم خدا کے باغی اور مجرم بھی ہو اور خدا مالک نفع ضرر بھی ہے لہٰذا تم کو اپنے جرائم کی سزا سے ڈرنا چاہیے
۸۲ ۔۔۔ احادیث صحیحہ میں منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہاں ظلم کی تفسیر شرک سے فرمائی جیسا کہ سورہ لقمان میں ہے اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ گویا ظلم کی تنوین تعظیم کے لئے ہوئی تو حاصل مضمون یہ ہو گا کہ مامون و مہتدی صرف وہ ہی لوگ ہو سکتے ہیں جو یقین لائے اس طرح کہ اس میں شرک کی ملاوٹ بالکل نہ ہو ، اگر خدا پر یقین رکھنے کے باوجود شرک کو نہ چھوڑا تو وہ نہ ایمان شرعی ہے نہ اس کے ذریعہ سے امن و ہدایت نصیب ہو سکتی ہے۔ وَہُوَکَمَا قَالَ وَمَا یُوْمِنٌ اَکْثَرَ ھُمْ بِاﷲ اِلَّاوَھُمْ مُشْرِکُوْنَ ") یوسف، ،آیت۱۰۶، (چونکہ ایمان شرک کا جمع ہونا بظاہر مستعبد تھا اس لئے مترجم محقق قدس سرہ نے بغرض تسہیل و تفہیم ایمان کا ترجمہ یقین سے اور ظلم کا نقصان سے کیا جو لغت عرب کے عین مطابق ہے۔ کما قولہ تعالیٰ لَمْ تَظْلِمْ مِنْہَ شَیئَاً" اور اس نقصان سے مراد شرک ہی لیا جائے گا جیسا کہ احادیث میں تصریح ہو چکی اور خود نظم کلام میں لفظ لبس اس کا قرینہ ہے اس کی مفصل تحقیق خود مترجم رحمۃ اللہ مقدمہ میں فرما چکے ہیں وہاں دیکھ لیا جائے۔
۸۳ ۔۔۔ یعنی ابراہیم کو ایسی دلائل قاہرہ دیکر ان کی قوم پر غالب فرمانا اور دنیا و آخرت میں سر بلند کرنا اسی علیم و حکیم کا کام ہو سکتا ہے جو ہر شخص کی استعداد و قابلیت کو جانتا ہے اور اپنی حکمت سے ہر چیز کو اس کے مناسب موقع و مقام پر رکھتا ہے۔
۸۴ ۔۔۔ ۱: یعنی نہ صرف یہ کہ ہم نے ابراہیم کو ذاتی علم و فضل سے سرفراز کیا بلکہ بڑھاپے میں اسحاق جیسا بیٹا اور یعقوب جیسا پوتا عطا فرمایا۔ یعقوب وہ ہی اسرائیل ہیں جن کی طرف دنیا کی ایک عظیم الشان قوم بنی اسرائیل منسوب ہے جن میں سے ہزاروں نبی اٹھائے گئے بلکہ جیسا کہ قران میں دوسری جگہ مذکور ہے ، ابراہیم کے بعد حق تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے ان ہی کی نسل میں نبوت اور پیغمبری رکھ دی۔
۲: پہلے ابراہیم کے بعض فروع کا ذکر تھا اب بعض اصول کو ذکر فرمایا۔ کیونکہ نوح حضرت ابراہیم کے اجداد میں سے ہیں اور جس طرح حضرت ابراہیم کے بعد نبوت کتاب کا انحصار صرف ان کی ذریت میں کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح نوع کے بعد نوح انسانی کا انحصار نوح کی نسل میں ہو گیا گویا طوفان کے بعد وہ دنیا کے لئے آدم ثانی ہوئے وَجَعَلْنَا ذُرِّیَّتَہ ھُمُ الْبَاقِیْنَ
۳: ظاہری ملک و سلطنت کے اعتبار سے انبیاء میں داؤد اور سلیمان ہم رنگ ہیں مصائب و شدائد پر صبر کرنے کے لحاظ سے ایوب و یوسف میں خاص مشابہت ہے۔ باقی موسیٰ اور ہارون کے قریبی تعلقات کی نسبت تو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ خود حضرت موسیٰ نے ہارون کو بطور اپنے وزیر کے حق تعالیٰ سے طلب کیا تھا۔ مترجم محقق قدس اللہ روحہ نے ان میں سے ہر دو ناموں کے بعد لفظ "کو" لا کر شائد اسی قسم کے لطائف پر متنبہ فرمایا ہے۔ وﷲاعلم
۸۶ ۔۔۔ یعنی اپنے اپنے زمانہ کے جہان والوں پر۔
۸۸ ۔۔۔ ۱: یعنی خالص توحید اور معرفت و اطاعت خداوندی کا راستہ ہی وہ ہے۔ جس پر حق تعالیٰ اپنے فضل و توفیق سے مقبول بندوں کو چلاتا ہے پھر اس کے صلہ میں حسب استعداد درجات بلند کرتا ہے۔
۲: یہ ہم کو سنایا گیا کہ شرک انسان کے تمام اعمال کو حبط کر دیتا ہے اور کسی کی تو حقیقت کیا ہے اگر بفضل محال انبیاء و مقربین سے معاذ اللہ ایسی حرکت سرزد ہو تو سارا کیا دھرا اکارت ہو جائے۔
۸۹ ۔۔۔ اگر مکہ کے کافر یا دوسرے منکرین ان باتوں ( کتاب، شریعت اور نبوت) سے انکار کریں تو خدا کا دین ان پر موقوف نہیں۔ ہم نے دوسری قوم یعنی مہاجرین اور انصار اور ان کے اتباع کو ان چیزوں کی تسلیم و قبول اور حفاظت و ترویج کے لئے مسلط فرما دیا ہے۔ جو ہماری کسی بات سے بھی منہ موڑنے والے نہیں۔
۹۰ ۔۔۔ ۱: تمام انبیاء عقائد ، اصول دین اور مقاصد کلیہ میں متحد ہیں۔ سب کا دستور اساسی ایک ہے ہر نبی کو اس پر چلنے کا حکم ہے آپ بھی اس طریق مستقیم پر چلتے رہنے کے مامور ہیں۔ گویا اس آیت میں متنبہ کر دیا کہ اصولی طور پر آپ کا راستہ انبیائے سابقین کے راستے سے جدا نہیں۔ رہا فروع کا اختلاف وہ ہر زمانہ کی مناسبت و استعداد کے اعتبار سے پہلے بھی واقع ہوتا رہا ہے اور اب بھی واقع ہو تو مضائقہ نہیں۔
۲: فائدہ علمائے اصول نے اس آیت کے عموم سے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کسی معاملہ میں شرائع سابقہ کا ذکر فرمائیں تو اس امت کے حق میں بھی سند ہے بشرطیکہ شارع نے اس پر کلی یا جزوی طور پر انکار نہ فرمایا ہو۔
۳: یعنی اگر تم نہیں مانتے تو میرا کوئی نفع فوت نہیں ہوتا کیونکہ میں تم سے کسی طرح کے اجر کا طالب نہیں۔ میرا اجر تو خدا کے یہاں ثابت ہے۔ ہاں تم نصیحت سے انحراف کر کے خود اپنا نقصان کرو گے سارے جہان میں سے ایک نہیں تو دوسرا نصیحت کو قبول کرے گا، جو انکار کرے گا اسے اپنی محرومی اور بدبختی کا ماتم کرنا چاہئے۔
۹۱ ۔۔۔ ۱: پچھلے رکوع میں منصب نبوت اور بہت سے انبیاء کا نام بنام تذکرہ تھا اور یہ کہ نبی عربی صلی اللہ علیہ و سلم بھی توحید و معرفت کی اسی صراط مستقیم پر چلتے رہنے کے مامور ہیں جس پر انبیائے سابقین کو چلایا گیا تھا۔ پیغمبروں کا ہدایت خلق اللہ کے لئے بھیجنا حق تعالیٰ کی قدیم عادت رہی ہے آیات حاضرہ میں ان جاہلوں اور معاندوں کا رد کیا گیا ہے جو بد فہمی، جہل و غباوت یا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی عداوت کے جوش اور غصہ میں بے قابو ہو کر حق تعالیٰ کی اس صفت کا ہی انکار کرنے لگے کہ وہ کسی انسان کو اپنی وحی و مکالمہ خاص سے مشرف فرمائے۔ گویا انزال کتب و ارسال رسل کے سلسلہ ہی کی سرے سے نفی کر دی گئی۔
۲: یعنی اگر واقعی خدا نے کسی انسان پر کوئی چیز نہیں اتاری تو "تورات مقدس" جیسی عظیم الشان کتاب جو احکام و مرضیات الہیہ پر بندوں کو مطلع کرتی اور رشد ہدایت کی عجیب و غریب روشنی اپنے اندر رکھتی اور ان چیزوں کا علم تم کو عطا کرتی تھی جنہیں تم اور تمہارے باپ دادا بلکہ کل بنی آدم بھی بدون اعلام الٰہی محض اپنی عقل و حواس سے دریافت نہیں کر سکتے تھے۔ وہ کہاں سے آ گئی اور کس نے موسیٰ پر اتاری۔ مانا کہ آج تم اسے ورق ورق اور ٹکڑے ٹکڑے کر کے لوگوں کو اپنی خواہش کے موافق دکھلاتے اور اس کے بہت سے اخبار و احکام کو چھپائے بیٹھے ہو۔ اور اس طرح اس کی اصل روشنی تم نے باقی نہیں چھوڑی۔ تاہم جو حصہ آج باقی رہ گیا ہے وہ ہی پتہ دے رہا ہے کہ جس محل کے کھنڈرات یہ ہیں وہ اپنی زمانہ عروج میں کیسا عظیم الشان ہو گا۔
۳: یعنی ایسا نور و ہدایت بجز خدا کے اور کس خزانہ سے آ سکتا ہے؟ اگر ایسی صاف اور بدیہی چیز کو بھی لوگ نہیں مانتے تو آپ تبلیغ و تنبیہ کر کے سبکدوش ہو جائیے اور ان کو چھوڑ دیجئے کہ یہ اپنی خرافات اور لہو و لعب میں مشغول رہیں اور جب وقت آئے گا خدا خود انکو بتلا دے گا
۹۲ ۔۔۔ ۱: یعنی اگر خدا نے کوئی چیز نہیں اتاری تو یہ مبارک کتاب کہاں سے آئی جس کا نام قرآن ہے اور جو تمام پچھلی کتابوں کے مضامین کی تصدیق کرنے والی ہے۔ اگر یہ آسمانی کتاب نہیں تو بتلاؤ کس کی تصنیف ہے جس کا مثل لانے پر جن و انس قادر نہ ہوں کیا اسے ایک امی کی تصنیف کہہ سکتے ہیں۔
۲: "اُم القریٰ" بستیوں کی اصل اور جڑ کو کہتے ہیں مکہ معظمہ تمام عرب کا دینی اور دنیاوی مرجع تھا اور جغرافیائی حیثیت میں بھی قدیم دنیا کے وسط میں مرکز کی طرف واقع ہے اور جدید دنیا (امریکہ) اس کے نیچے ہے اور روایات حدیثیہ کے موافق پانی سے زمین بنائی گئی تو اول یہی جگہ کھلی تھی۔ ان وجوہ سے مکہ کو "ام القریٰرمایا اور آس پاس سے مراد یا عرب ہے کیونکہ دنیا میں قرآن کے اول مخاطب وہی تھے۔ ان کے ذریعہ سے باقی دنیا کو خطاب ہوا اور یا سارا جہان مراد ہو جیسے فرمایا لَیَکُونَ لِلْعَالَمِیْنَ نَذِیْراً۔
۳: جسے آخرت کی زندگی پر یقین اور بعد الموت کا خیال ہو گا، اسی کو ہدایت اور طریق نجات کی تلاش ہو گی وہی پیغام الٰہی کو قبول اور نماز وغیرہ عبادات کی حفاظت کرے گا۔
۹۳ ۔۔۔ ۱: خدا پر بہتان باندھنے سے شائد یہ مراد ہے کہ خدا کی طرف ان باتوں کی نسبت کرے جو اس کی شان رفیع کے لائق نہیں مثلاً کسی کو اس کا شریک ٹھہرائے یا بیوی بچے تجویز کرے یا یوں کہے مَآاَنْزَلَ اﷲ عَلیٰ بَشَرٍمِّنْ شَیْءٍ یعنی اس نے بندوں کی ہدایت کا کوئی سامان نہیں کیا۔ ایسا کہنے والا سخت ظالم ہے اسی طرح جو شخص نبوت و پیغمبری کا جھوٹا دعویٰ کرے یا یہ ڈینگ مارے کہ خدا کے جیسا کلام تو میں لا سکتا ہوں جیسے بعض مشرکین کہتے تھے لَوْ نَشَآءُ لَقُلْنَا مِثْلَ ھٰذا یہ سب باتیں انتہائی ظلم اور دیدہ دلیری کی ہیں جس کی سزا کا تھوڑا سا حال آگے مذکور ہے۔
۲: یعنی موت کی باطنی اور روحانی سختیوں میں۔
۳: یعنی روح قبض کرنے اور سزا دینے کو ہاتھ بڑھا رہے ہیں اور مزید تشدید اور اظہار غیظ کے لئے کہتے جاتے ہیں کہ نکالو اپنی جانیں ( جنہیں بہت دنوں سے بانواع حیل بچاتے پھرتے تھے)
۴: یعنی سخت تکلیف کے ساتھ ذلت و رسوائی بھی ہو گی۔
۵: یعنی از راہ تکبر آیات اللہ کو جھٹلاتے تھے۔
۹۴ ۔۔۔ ۱: یعنی نہ سر پہ ٹوپی نہ پاؤں میں جوتی تہی دست چلے آ رہے ہو اور جس سازو سامان پر فخر و ناز تھا اسے ہمراہ نہیں لائے کہیں پیچھے چھوڑ آئے ہو۔
۲: یعنی جن کو تم سمجھتے تھے کہ آڑے وقت میں ہمارا ہاتھ بٹائیں گے اور مصیبت میں ساتھ ہوں گے ، وہ کہاں چلے گئے آج ہم ان کو تمہاری سفارش اور حمایت پر نہیں دیکھتے۔ حمایت و نصرت کے وہ علاقے آج ٹوٹ گئے اور جو لمبے چوڑے دعوے تم کیا کرتے تھے سب رفوچکر ہوئے۔
۹۵ ۔۔۔ یعنی زمین میں دبائے جانے کے بعد گٹھلی اور دانہ کو پھاڑ کر سبز پودہ اگانا یا جاندار کو بے جان اور بے جان کو جاندار سے نکالنا (،مثلاً آدمی کو نطفہ سے نطفہ سے آدمی کو پیدا کرنا) اسی خدا کا کام ہے۔ پھر اسے چھوڑ کر تم کدھر بہکے جا رہے ہو؟ کیا اور کوئی ہستی تمہیں ایسی مل سکتی ہے جو ان کاموں کو انجام دے سکے
۹۶ ۔۔۔ ۱: یعنی رات کی تاریکی میں سے جو پیلی پھٹ کر صبح صادق نمودار ہوتی ہے اس کا نکالنے والا بھی وہی ہے۔
۲: رات دن اور چاند سورج کا جو حکیمانہ نظام اور ان کی رفتار کا جو حساب مقرر فرما دیا اس میں ذرا بھی تخلف یا کم و بیش نہیں ہوتا۔
۹۷ ۔۔۔ یعنی بلاواسطہ ان سے راستہ معلوم کرو یا بالواسطہ مثلاً قطب نما کے ذریعہ سے۔
۹۸ ۔۔۔ ۱: یعنی حضرت آدم علیہ السلام سے۔
۲: "مستقر" ٹھرنے کی جگہ جسے ٹھکانہ کہا۔ اور "مستودع" سپرد کئے جانے اور امانت رکھے جانے کی جگہ کو کہتے ہیں۔ یہ تو لغوی معنی ہوئے۔ آگے دونوں کے مصداق کی تعیین میں مفسرین کا اختلاف ہے حضرت شاہ صاحب نے موضح القران میں جو کچھ لکھا ہے وہ ہم کو پسند ہے۔ "یعنی اول سپرد ہوتا ہے ماں کے پیٹ میں کہ آہستہ آہستہ دنیا کے اثر پیدا کرے پھر آ کر ٹھرتا ہے دنیا میں۔ پھر سپرد ہو گا قبر میں کہ آہستہ آہستہ اثر آخرت کے پیدا کرے پھر جا ٹھہرے گا جنت میں یا دوزخ میں۔
۹۹ ۔۔۔ ۱: یعنی آسمان کی طرف سے بادل برسایا جو سبب ہے نباتات کے اگانے کا۔
۲: یعنی بسبب بوجھل ہونے کے نیچے کو جھکے۔ ۔
۳: یعنی صورت شکل ، مقدار ، رنگ بُو اور مزے کے اعتبار سے بعضے پھل ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اور بعضے نہیں۔
۴: یعنی ابتداً جب پھل آتا ہے تو کچا، بدمزہ اور ناقابل انتفاع ہوتا ہے۔ پھر پکنے کے بعد کیسا لذیذ ، خوش ذائقہ اور کار آمد بن جاتا ہے یہ سب خدا کی قدرت کا ظہور ہے۔
۵: اس رکوع میں حق تعالیٰ کے جن افعال و صفات اور مظاہر قدرت کا بیان ہوا ، ان سے خدا کے وجود ، وحدانیت اور کامل الصفات ہونے پر استدلال تو واضح ہے لیکن غور کیا جائے تو وحی و نبوت کا مسئلہ بھی بڑی حد تک حل ہو جاتا ہے۔ کیونکہ جب حق تعالیٰ نے اپنے فضل و رحمت سے ہماری دنیاوی زندگی اور مادی حوائج کے انتظام و انصرام کے لئے اس قدر اسباب ارضی و سماوی مہیا فرمائے ہیں ، تو یہ کہنا کس قدر لغو اور غلط ہو گا کہ ہماری حیات اخروی اور روحانی ضروریات کے انجام پانے کا اس نے کوئی سامان نہیں کیا یقیناً جس رب کریم نے ہماری جسمانی غذاؤں کی نشو نما کیلئے آسمان سے پانی اتارا ہے ہمارے روحانی تغذیہ کے لئے بھی اسی نے سحابہائے نبوت سے وحی الہام کی بارش نازل فرمائی۔ جب وہ برو بحر کی اندھیریوں میں ستاروں کے ذریعہ سے ظاہری راہنمائی کرتا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ باطنی راہنمائی کے لئے اس نے ایک ستارہ بھی آسمان روحانیت پر روشن نہ کیا ہو۔ رات کی تاریکی کے بعد اس نے صبح صادق کا اجالا کیا اور مخلوق کو موقع دیا کہ وہ اپنے دنیاوی کاروبار میں چاند اور سورج کی روشنی سے ایک معین حساب کے ماتحت منتفع و مستفید ہوتی رہے پھر کیسے کہا جا سکتا ہے کہ کفر و شرک ، ظلم و عدوان اور فسق و فجور کی شب دیجور میں ا سکی طرف سے کوئی چاند نہ چمکا ، نہ صبح صادق کا نور پھیلا ، نہ رات ختم ہو کر کوئی آفتاب طلوع ہوا۔ خدا کی ساری مخلوق ابدالآباد کے لئے جہل ضلالت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں پڑی چھوڑ دی گئی۔ کیا گیہوں کے دانے اور کھجور کی گٹھلی کو پھاڑ کر خدائے کریم سر سبز درخت اگاتا ہے پر انسان کے قلب میں معرفت ربانی کا استعداد کا جو بیج فطرۃً بکھیرا گیا ہو وہ یوں ہی بیکار ضائع کر دیا گیا کہ نہ ابھرا، نہ پھیلا ، نہ پکا ، نہ تیار ہوا جب جسمانی حیثیت سے دنیا میں حی و میت کا سلسلہ قائم ہے۔ خدا زندہ سے مردہ کو مردہ سے زندہ کو نکالتا رہتا ہے تو روحانی نظام میں خدا کی اس عادت کا کیوں انکار کیا جائے بیشک وہ روحانی طور پر بھی وہ بہت دفعہ ایک زندہ قوم سے مردہ اور مردہ قوم سے زندہ افراد پیدا کرتا ہے۔ اور جس طرح اس نے ہماری دنیاوی زندگی کے مستقر و مستودع کا حکیمانہ بندوبست کیا ہے حیات اخروی کے مستقر و مستودع کے سامان اس سے کہیں بڑھ کر مہیا فرمائے۔ فللہ الحمد والمنہ وبہ الثقۃ والعصمۃ یہیں سے یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ جس طرح ہم خدا تعالیٰ کو ا سکے کاموں سے پہچانتے ہیں یعنی جو کام وہ اپنی قدرت کاملہ سے کرتا ہے کسی مخلوق کی طاقت نہیں کہ ویسا کام کر سکے۔ ٹھیک اسی طرح ا سکے کلام کو بھی ہم اسی معیار پر جانچ سکتے ہیں کہ خدا کا کلام وہی ہو سکتا ہے کہ اس جیسا کلام ساری مخلوق مل کر بھی نہ بنا سکے پھر "سانزل مثل مآ انزل اللہ "کا ادعاء کہاں تک صحیح ہو سکتا ہے گویا اس رکوع میں حق تعالیٰ کی صفات و افعال بیان کر کے ان تمام مسائل کی حقیقت پر متنبہ کر دیا گیا جن کی تغلیط گزشتہ رکوع میں کی گئی تھی۔
۱۰۰ ۔۔۔ ۱: یا تو "جن" سے مراد یہاں "شیاطین" ہیں چونکہ کفر و شرک کا ارتکاب شیطان کے اغوا سے ہوتا ہے اس لئے اس کے اغواؤ اضلال سے غیر اللہ کی عبادت کرنا گویا اسی کی عبادت ہوئی۔ ابراہیم نے بت پرستی کا رد کرتے ہوئے فرمایا یا ابت "لاَ تَعْبُدُ الشَّیْطٰن" دوسری جگہ ارشاد ہے " اَلَمْ اَعْھَدْ اِلَیْکُمْ یَا بَنِی اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُو ا الشَّیْطٰن (یٰس آیت ۶۶) " ملائکہ قیامت میں فرمائیں گے " سبحانک انت ولینا من دونھم بل کانو یعبدون الجن اکثر ھم بھم مومنون " اور یا " جن "سے مراد قوم جن لی جائے جن کے بعض سرداروں سے اہل جاہلیت استعانت و تعوذ کیا کرتے تھے وَ اَنَّہُ کَانَ رِجَالٌ مِنَ الْاِنْسِ یَعُوذُونَ بِرَجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوھُمْ رَھَقاً) جن، رکوع ۱، آیت۶(بہرحال وہ خود ہماری طرح خدا کی عاجز مخلوق ہے۔ پھر مخلوق ہو کر خالق کا شریک کیسے ہو سکتا ہے۔
۲: نصاریٰ حضرت مسیح کو بعض یہود حضرت عزیر کو خدا کا بیٹا اور مشرکین ملائکہ اللہ کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے۔
۳: یعنی پاک ہے شرکت سے ا سکی شان بہت بلند ہے ترکیب و تحلیل سے پھر باپ بیٹے کا تصور وہاں کیسے ہو سکتا ہے۔
۱۰۱ ۔۔۔ جس نے تنہا تمام آسمان و زمین بدوں کسی نمونہ اور توسط آلات وغیرہ کے ایسے انوکھے طرز پر پیدا کر دیئے۔ آج اس کو شرکاء کی امداد اور بیٹے پوتے کا سہارا ڈھونڈھنے کی کیا ضرورت ہے۔
تعجب ہے کہ جب کسی مخلوق کو تم حقیقۃً خدا کی اولاد قرار دیتے ہو تو ان بچوں کی ماں کسے تجویز کرو گے اور اس ماں کا تعلق خدا کے ساتھ کس قسم کا مانو گے۔ عیسائی حضرت مسیح کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں لیکن یہ جسارت وہ بھی نہیں کر سکے اور کہ مریم صدیقہ کو ( العیاذ باﷲ) خدا کی بیوی قرار دیکر زنا شوئ کے قائل ہو جائیں۔ جب ایسا نہیں تو مریم کے بطن سے پیدا ہونے والا خدا کا بیٹا کیونکر بن گیا۔ دنیا کے دوسرے بچوں کو بھی خدا تعالیٰ ماؤں کے پیٹ سے پیدا کرتا ہے اور وہ معاذﷲ خدا کی نسلی اولاد نہیں کہلاتے۔ یہ فرق کہ کوئی بچہ محض نفخہء جبریلیہ سے بدوں توسط اسباب عادیہ کے پیدا کر دیا جائے اور دوسروں کو عام اسباب کے سلسلہ میں پیدا فرمائیں ، ابوت و نبوت کے مسئلہ پر کچھ اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ اسباب و مسببات ہوں یا خوارع عادات سب کو خدا ہی نے پیدا کیا ہے اور وہ ہی جانتا ہے کہ کس چیز کو کس وقت پیدا کرنا مصلحت و حکمت ہے۔
۱۰۲ ۔۔۔ اس کی عبادت اس لئے کرنی چاہیے کہ مذکورہ بالا صفات کی وجہ سے وہ ذاتی طور پر استحقاق معبود بننے کا رکھتا ہے اور اس لئے بھی کہ تمام مخلوق کی کارسازی اسی کے ہاتھ میں ہے۔
۱۰۳ ۔۔۔ حضرت شاہ صاحب نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ آنکھ میں یہ قوت نہیں کہ اس کو دیکھ لے ہاں وہ خود از راہ لطف کرم اپنے کو دکھانا چاہے تو آنکھوں میں ویسی قوت بھی فرما دے گا۔ مثلاً آخرت میں مومنین کو حسب مراتب رویت ہو گی جیسا کہ نصوص کتاب و سنت سے ثابت ہے یا بعض روایات کے موافق نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو لیلتہ الاسراء میں رویت ہوئی علی اختلاف الاقوال۔ باقی مواضع میں چونکہ کوئی نص موجود نہیں لہٰذا عام قاعدہ کی بناء پر نفی رویت ہی کا اعتقاد رکھا جائے گا۔ مفسرین سلف میں سے بعض نے ادراک کو احاطہ کے معانی میں لیا ہے یعنی نگاہیں کبھی اس کا احاطہ نہیں کر سکتیں۔ آخرت میں بھی رویت ہو گی احاطہ نہ ہو گا۔ ہاں ا سکی شان یہ ہے کہ وہ تمام ابصار و مبصرات کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ اس وقت "لطیف" کا تعلق "لا تدرکہ"سے اور "خیبر کا " " وہو یدرک" سے ہو گا۔
۱۰۴ ۔۔۔ یعنی اگرچہ خدا ہمیں دکھائی نہیں دیتا مگر اس کے بصیرت افروز نشانات و دلائل ہمارے سامنے ہیں۔ جو آنکھ کھول کر دیکھے گا خدا کو پا لے گا۔ اور جو اندھا بن گیا اس نے اپنا نقصان کیا میرے ذمے یہ نہیں کہ کسی کو دیکھنے پر مجبور کر دوں۔
۱۰۶ ۔۔۔ یعنی اپنی آیتوں کو مختلف پہلوؤں اور عجیب و غریب انداز سے اس لئے سمجھاتے ہیں کہ آپ سب لوگوں کو پہنچا دیں۔ اور ان میں استعداد و احوال کے اختلاف سے دو فریق ہو جائیں۔ ضدی اور بد فہم تو یہ کہیں کہ ایسے علوم و معارف اور موثر مضامین ایک اُمّی سے کیسے بن پڑتے تو ضرور مختلف اوقات میں کسی سے سیکھتے رہے ہوں گے۔ پھر پڑھ پڑھا کر ہمارے سامنے پیش کر دئیے۔ لیکن سمجھ دار اور انصاف پسند لوگوں پر حق واضح ہو جائے گا۔ اور شیطانی شکوک و شبہات زائل ہو جائیں گے۔
آپ خدائے واحد پر بھروسہ کر کے ا سکے حکم پر چلتے رہیں اور مشرکین کے جہل و عناد کی طرف خیال نہ فرمائیں کہ ایسے روشن دلائل و بیانات سننے کے بعد بھی راہ راست پر نہ آئے۔
۱۰۷ ۔۔۔ ۱: یعنی حق تعالیٰ کی تکوینی حکمت اس کو متقضی نہیں ہوئی کہ وہ ساری دنیا کو زبردستی مومن بنا دے بیشک وہ چاہتا تو روئے زمین پر ایک مشرک کو باقی نہ چھوڑتا۔ لیکن شروع سے اس نے انسانی فطرت کا نظام ہی ایسا رکھا ہے کہ آدمی کوشش کرے تو یقیناً ہدایت قبول کر سکے تاہم قبول کرنے میں بالکل مجبور و مضطر نہ ہو پہلے اس مسئلہ کی تقریر گزر چکی۔
۲: آپ کا فرض تبلیغ احکام الٰہی کا اتباع ہے ان کے اعمال کے ذمہ دار اور جوابدہ آپ نہیں ہیں۔
۱۰۸ ۔۔۔ ۱: یعنی تم تبلیغ و نصیحت کر کے اپنے فرض سے سبکدوش ہو چکے اب جو جو کفر و شرک یہ لوگ کریں اس کے ذمہ دار خود ہیں تم پر اس کی کچھ ذمہ داری نہیں۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ تم اپنی جانب سے بلا ضرورت ان کے مزید کفر و تعنت کا سبب نہ بنو۔ مثلاً فرض کیجیے ان کے مذہب کی تردید یا بحث و مناظرہ کے سلسلہ میں تم غصہ ہو کر ان کے معبودوں اور مقتداؤں کو سب و شتم کرنے لگو۔ جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ جواب میں تمہارے معبود برحق اور محترم بزرگوں کی بے ادبی کریں گے۔ اور جہالت سے انھیں گالیاں دیں گے اس صورت میں اپنے واجب التعظیم معبود اور قابل احترام بزرگوں کی اہانت کا سبب تم بنے لہٰذا اس سے ہمیشہ احتراز کرنا چاہیے۔ کسی مذہب کے اصول و فروع کی معقول طریقے سے غلطیاں ظاہر کرنا یا ا سکی کمزوری اور رکاکت پر تحقیقی و الزامی طریقوں سے متنبہ کرنا جداگانہ چیز ہے لیکن کسی قوم کے پیشواؤں اور معبودوں کی نسبت بغرض تحقیر و توہین دلخراش الفاظ نکالنا قران نے کسی وقت بھی جائز نہیں رکھا۔
۲: یعنی دنیا چونکہ دار امتحان ہے۔ اس کا نظام ہم نے ایسا رکھا ہے اور ایسے اسباب جمع کر دئیے ہیں کہ یہاں ہر قوم اپنے اعمال اور طور و طریق پر نازاں رہتی ہے، انسانی دماغ کی ساخت ایسی نہیں بنائی کہ وہ صرف سچائی کے قبول اور پسند کرنے پر مجبور ہو غلطی کی طرف جانے کی گنجائش ہی نہ رکھے ہاں خدا یہاں جا کر جب تمام حقائق سامنے ہوں گے، پتہ چل جائے گا کہ جو کام دنیا میں کرتے تھے وہ کیسے تھے۔
۱۰۹ ۔۔۔ ۱: یعنی بعض فرمائشی نشانیاں مثلاً کوہ صفا خالص سونے کا بن جائے۔
۲: بعض مسلمانوں کو یہ خیال ہوا کہ اچھا ہو اگر ان کی یہ حجت بھی پوری کر دی جائے اس پر فرما دیا کہ تمہیں کیا خبر ہے کہ یہ سرکش ضدی لوگ فرمائشی نشان دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائیں گے پھر سنت اللہ کے موافق اس کے مستحق ہوں گے کہ فورا تباہ کر دیئے جائیں۔ جیسا کہ اسی سورت کے شروع میں ہم مفصل لکھ چکے ہیں۔
۱۱۰ ۔۔۔ یعنی جب کفر و سرکشی میں تمادی ہو گی تو نتیجہ یہ ہو گا کہ ہم ان کے دل اور آنکھیں الٹ دیں گے۔ پھر حق کے سمجھنے اور دیکھنے کی توفیق نہ ملے گی۔ موضح القرآن میں ہے کہ "اللہ جن کو ہدایت دیتا ہے اوّل ہی حق سن کر انصاف سے قبول کر تے ہیں اور جس نے پہلے ہی ضد کی اگر نشانیاں بھی دیکھ لے تو کچھ حیلہ بنا لے۔
۱۱۱ ۔۔۔ یعنی اگر ان کی فرمائش کے موافق بلکہ اس سے بھی بڑھ کر فرض کیجئے آسمان سے فرشتے اتر کر آپ کی تصدیق کریں اور مردے قبروں سے اٹھ کر ان سے باتیں کرنے لگیں اور تمام امتیں جو گزر چکی ہیں دوبارہ زندہ کر کے ان کے سامنے لا کھڑی کی جائیں تب بھی سوء استعداد اور تعنت و عناد کی وجہ سے یہ لوگ حق کو ماننے والے نہیں۔ بیشک اگر خدا چاہے تو زبردستی منوا سکتا ہے لیکن ایسا چاہنا اس کی حکمت اور تکوینی نظام کے خلاف ہے۔ جس کو ان میں کے اکثر لوگ اپنے جہل کی وجہ سے نہیں سمجھتے۔ اس کی تشریح پچھلے فوائد میں گزر چکی۔
۱۱۲ ۔۔۔ ۱: یعنی پیدا کر دیا ہم نے۔؟
۲: چونکہ خدا کی حکمت بالغہ تکویناً اسی کو مقتضی ہے کہ نظام عالم کو جب تک قائم رکھنا منظور ہے خیر و شر کی قوتوں میں سے کوئی قوت بھی بالکل مجبور اور نیست و نابود نہ ہو۔ اس لئے نیکی و بدی اور ہدایت و ضلالت کی حریفانہ جنگ ہمیشہ سے قائم رہی ہے۔ جس طرح آج یہ مشرکین و معاندین آپ کو بیہودہ فرمائشوں سے دق کرتے اور بانواع حیل لوگوں کو جادہ حق سے ڈگمگانا چاہتے ہیں اسی طرح ہر پیغمبر کے مقابل شیطانی قوتیں کام کرتی رہی ہیں کہ پیغمبروں کو ان کے پاک مقصد (ہدایت خلق اللہ) میں کامیاب نہ ہونے دیں۔ اسی غرض فاسد کے لئے شیاطین الجن اور شیاطین الانس باہم تعاون کرتے، اور ایک دوسرے کو فریب دہی اور ملمع سازی کی چکنی چپڑی باتیں سکھاتے ہیں اور ان کی یہ عارضی آزادی اسی عام حکمت اور نظام تکوینی کے ماتحت ہے جو تخلیق عالم میں حق تعالیٰ نے مرعی رکھی ہے۔ اس لئے آپ اعداء اللہ کی فتنہ پردازی اور مغویانہ فریب دہی سے زیادہ فکر و غم میں نہ پڑیں۔ ان سے اور ان کے کذب و افتراء سے قطع نظر کر کے معاملہ خدا کے سپرد کیجئے۔
۱۱۳ ۔۔۔ یعنی شیاطین ایک دوسرے کو ملمع کی ہوئی فریب کی باتیں اس لئے سکھلاتے ہیں کہ انھیں سن کر جو لوگ دنیا کی زندگی میں غرق ہیں اور دوسری زندگی کا یقین نہیں رکھتے ان ابلہ فریب باتوں کی طرف مائل ہو جائیں۔ اور ان کو دل سے پسند کرنے لگیں۔ اور پھر کبھی برے کاموں اور کفر و فسق کی دلدل سے نکلنے نہ پائیں۔
۱۱۵ ۔۔۔ یعنی "شیاطین الانس و الجن" کی تلبیس و تلمیع پر بد عقیدہ اور جاہل ہی کان دھر سکتے ہیں۔ ایک پیغمبر یا اس کے متبعین جو ہر مسئلہ اور ہر معاملہ میں خدائے واحد ہی کو اپنا منصف اور حکم مان چکے ہیں کیا ان سے یہ ممکن ہے کہ وہ خدا کو چھوڑ کر کسی دوسرے کی چکنی چپڑی باتوں کی طرف کان لگائیں۔ یا معاذاللہ غیر اللہ کے فیصلہ کے آگے گردن جھکا دیں، حالانکہ ان کے پاس خدا کی طرف سے ایسی معجز اور کامل کتاب آ چکی جس میں تمام اصولی چیزوں کی ضروری توضیح و تفصیل موجود ہے۔ جس کی نسبت علمائے اہل کتاب بھی کتب سابقہ کی بشارات کی بناء پر خوب جانتے ہیں کہ یقیناً یہ آسمانی کتاب ہے جس کی تمام خبریں سچی اور تمام احکام معتدل اور منصفانہ ہیں جن میں کسی کی طاقت نہیں کہ موجودگی میں کیسے کوئی مسلمان وساوس و اوہام یا محض عقلی قیاسات اور مغویانہ مغالطات کا شکار ہو سکتا ہے جبکہ وہ جانتا ہے کہ خدا تعالیٰ جس کو ہم نے اپنا حکم اور جس کی کتاب مبین کو دستور العمل تسلیم کیا ہے وہ ہماری ہر بات کو سننے والا اور ہر قسم کے مواقع و احوال اور ان کے مناسب احکام و نتائج کی موزونیت کو پوری طرح جاننے والا ہے۔
۱۱۶ ۔۔۔ مشاہدہ اور تاریخ بتلاتے ہیں کہ دنیا میں ہمیشہ فہیم، محقق اور با اصول آدمی تھوڑے رہے ہیں۔ اکثریت ان ہی لوگوں کی ہوتی ہے جو محض خیالی، بے اصول اور اٹکل پچو باتوں کی پیروی کرنے والے ہوں۔ اگر تم اسی اکثریت کا کہنا ماننے لگو اور بے اصول باتوں پر چلنا شروع کر دو تو خدا کی بتلائی ہوئی سیدھی راہ سے یقیناً بہک جاؤ گے۔ یہ آپ پر رکھ کر دوسروں کو سنایا۔ جاہل عوام کی ان ہی بے اصول اور اٹکل پچو باتوں میں سے ایک وہ تھی جو انہوں نے ذبیحہ کے مسئلہ پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو جانور طبعی موت سے مر جائے (یعنی میتہ) اسے مسلمان حرام کہتے ہیں حالانکہ وہ خدا کا مارا ہوا ہے اور جو خود ان کے ہاتھ کا مارا ہوا ہو اسے حلال سمجھتے ہیں۔ یہ عجیب بات ہے، اس کا جواب اگلی آیتوں میں کُلُوا مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللّٰہِ" سے دیا گیا۔ حضرت شاہ صاحب موضح القرآن میں فرماتے ہیں کہ "یہ کئی آیتیں اس پر اتریں کہ کافر کہنے لگے مسلمان اپنا مارا کھاتے ہیں اور اللہ کا مارا نہیں کھاتے، فرمایا کہ ایسی ملمع فریب کی باتیں انسانوں کو شبہ میں ڈالنے کے لئے شیطان سکھاتے ہیں۔ خوب سمجھ لو حلال و حرام وغیرہ میں حکم اللہ کا چلتا ہے۔ محض عقلی ڈھکوسلوں کا اعتبار نہیں۔ آگے کھول کر سمجھا دیا کہ مارنے والا سب کا اللہ ہے لیکن اس کے نام کو برکت ہے جو اس کے نام پر ذبح ہوا سو حلال ہے جو بغیر اس کے مر گیا سو مردار"۔ بتغیر یسیر۔
۱۱۸ ۔۔۔ جب دلائل صحیحہ کی بنا پر تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت اور قرآن کریم کی حقانیت کو تسلیم کر لیا اور کلی طور پر اس کے احکام پر ایمان لا چکے تو اب فروع و جزئیات کی صحت کو تسلیم کرنا ناگزیر ہے۔ اگر ہر اصل و فرع اور کلی و جزئی کا قبول کرنا ہمارے عقلی قیاسات پر موقوف ہو تو وحی اور نبوت کی ضرورت ہی نہ رہے۔
۱۱۹ ۔۔۔ ۱: یعنی اضطرار اور مجبوری کی حالت کو مستثنیٰ کر کے جو چیزیں حرام ہیں ان کی تفصیل کی جا چکی۔ ان میں وہ حلال جانور داخل نہیں جو اللہ کے نام پر ذبح کیا جائے پھر اس کے نہ کھانے کی کیا وجہ؟
۲: مسلمان کا عقیدہ یہ ہے کہ ہر چیز کو بالواسطہ یا بلا واسطہ خدا ہی پیدا کرتا اور خدا ہی مارتا ہے۔ پھر جس طرح اس کی پیدا کی ہوئی چیزوں میں بعض کا کھانا ہم کو مرغوب اور مفید ہے جیسے سیب انگور وغیرہ اور بعض چیزوں سے ہم نفرت کرتے ہیں یا مضر سمجھتے ہیں جیسے ناپاک گندی چیزیں اور سنکھیا وغیرہ۔ اسی طرح اس کی ماری ہوئی چیزیں بھی دو قسم کی ہیں ایک وہ جن سے فطرت سلیمہ نفرت کرے یا ان کا کھانا ہماری بدنی یا روحی صحت کیلئے خدا کے نزدیک مضر ہو۔ مثلاً وہ حیوان دموی جو اپنی طبعی موت سے مرے اور اس کا خون وغیرہ گوشت میں جذب ہو کر رہ جائے۔ دوسرے وہ حلال و طیب جانور جو باقاعدہ خدا کے نام پر ذبح ہو یہ بھی خدا ہی کا مارا ہوا ہے، جس پر مسلمان کی چھری کے توسط سے اس نے موت طاری کی۔ مگر عمل ذبح اور خدا کے نام کی برکت سے اس کا گوشت پاک و صاف ہو گیا۔ پس جو شخص دونوں قسموں کو ایک کرنا چاہے وہ معتدی (حد سے بڑھنے والا) ہو گا۔
۱۲۰ ۔۔۔ یعنی کافروں کے بہکانے پر نہ ظاہر میں عمل کرو نہ دل میں شبہ رکھو۔ کذافی موضح القرآن۔
۱۲۱ ۔۔۔ ۱: یعنی نہ حقیقۃً نہ حکماً۔ حنفیہ متروک التسمیہ عمداً کے مسئلہ میں ذکر حکمی کا دعویٰ کرتے ہیں۔
۲: یعنی شرک فقط یہ ہی نہیں کہ کسی کو سوائے خدا کے پوجے بلکہ شرک کے حکم میں یہ بھی ہے کہ کسی چیز کی تحلیل و تحریم میں مستند شرعی کو چھوڑ کر محض آراء و اہوا کا تابع ہو جائے۔ جیسا کہ "اِتَّخَذُوا اَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ اَرْبَاباًمِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ کی تفسیر میں مرفوعاً منقول ہے کہ اہل کتاب نے وحی الٰہی کو چھوڑ کر صرف احبار و رہبان ہی پر تحلیل و تحریم کا مدار رکھ چھوڑا تھا۔
۱۲۲ ۔۔۔ پہلے فرمایا کہ شیاطین اپنے رفقاء کے دل میں ڈالتے ہیں کہ وہ مسلمانوں سے جھگڑا کریں یعنی بحث و جدل، تلبیس و تلمیع اور وسوسہ اندازی کر کے ان کو طریق حق سے ہٹا دیں۔ لیکن ان کو یہ ہوس خام اپنے دلوں سے نکال دینا چاہئے۔ وہ گروہ یا وہ شخص جو جہل و ضلال کی موت سے مرچکا تھا۔ پھر اس کو حق تعالیٰ نے ایمان و عرفان کی روح سے زندہ کیا اور قرآن کی روشنی عطا فرمائی جسے لے کر وہ لوگوں کے ہجوم میں بے تکلف راہ راست پر چل رہا ہے کیا اس کا حال اغواء شیطانی کے قبول کرنے میں ان "اولیاء الشیطان" جیسا ہو سکتا ہے جو جہالت و ضلالت کی اندھیروں میں پڑے ٹھوکریں کھا رہے ہیں جس سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں پاتے کیونکہ اسی ظلمت کو نور اور برائی کو بھلائی سمجھتے ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔
۱۲۳ ۔۔۔ یعنی کچھ آج رؤسائے مکہ ہی نہیں ہمیشہ کافروں کے سردار حیلے نکالتے رہے ہیں تاکہ عوام الناس پیغمبروں کے مطیع نہ ہو جائیں جیسے فرعون نے معجزہ دیکھا تو حیلہ نکالا کہ سحر کے زور سے سلطنت لیا چاہتا ہے لیکن ان کے یہ حیلے اور داؤ پیچ بحمدﷲ پکے ایمانداروں پر نہیں چلتے۔ حیلہ کرنے والے اپنی عاقبت خراب کر کے خود اپنا ہی نقصان کرتے ہیں جس کا احساس انھیں اس وقت نہیں ہوتا۔
۱۲۴ ۔۔۔ ان کی مکاری اور متکبرانہ حیلہ جوئی کی ایک مثال یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے صدق کا جب کوئی نشان دیکھتے تو کہتے کہ ہم ان دلائل و نشانات کو نہیں جانتے۔ ہم تو اس وقت یقین کر سکتے ہیں جب ہمارے اوپر فرشتے نازل ہوں اور پیغمبروں کی طرح ہم کو بھی خدا کا پیغام سنائیں یا خود حق تعالیٰ ہی ہمارے سامنے آ جائیں۔ "وَقَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُونَ لَقَاءَنَا لَوْلاَ اُنْزَلَ عَلَیْنَا الْمَلٰئِکَۃُ اَوْ نَریٰ رَبَّنَا لَقَدِ اسْتَکْبَرُوْا فِی اَنْفُسِھِمْ وَعَتَوْعُتُوًّا کَبِیْرًا" (فرقان، رکوع۳،آیت نمبر ۳۱) خیر یہ تو خدا ہی جانتا ہے کہ کون شخص اس کا اہل ہے کہ منصب پیغامبری پر سرفراز کیا جائے اور اس عظیم الشان امانت الٰہیہ کا حامل بن سکے۔ یہ نہ کوئی کسبی چیز ہے کہ دعاء یا ریاضت یا دنیاوی جاہ و دولت وغیرہ سے حاصل ہو سکے اور نہ ہر کس و ناکس کو ایسی جلیل القدر اور نازک ذمہ داری پر فائز کیا جا سکتا ہے۔ ہاں ایسے گستاخ، متکبر، حیلہ جو مکاروں کو آگاہ رہنا چاہیے کہ عنقریب اس معزز منصب کی طلب کا جواب ان کو سخت ذلت اور عذاب شدید کی صورت میں دیا جائے گا۔
۱۲۵ ۔۔۔ یعنی زور سے آسمان پر چڑھنا چاہتا ہے مگر چڑھ نہیں سکتا، اس لئے سخت تنگ دل ہوتا ہے۔
۱۲۶ ۔۔۔ جو لوگ ایمان لانے کا ارادہ نہیں رکھتے ان پر اسی طرح عذاب اور تباہی ڈالی جاتی ہے کہ رفتہ رفتہ ان کا سینہ اس قدر تنگ کر دیا جاتا ہے کہ اس میں حق کے گھسنے کی قطعاً گنجائش نہیں رہتی۔ پھر یہ ہی ضیق صدر عذاب ہے جو قیامت میں بشکل محسوس سامنے آ جائے گا۔ مترجم محقق قدس اللہ روحہ نے "رجس" کا ترجمہ جو عذاب سے کیا ہے اس کے موافق یہ تقریر ہے۔ عبدالرحمن بن زید بن اسلم نے "رجس" کے معنی عذاب ہی کے لئے ہیں۔ مگر ابن عباس نے یہاں "رجس" سے مراد شیطان لیا ہے۔ شاید اس لئے کہ "رجس" ناپاک کو کہتے ہیں اور شیطان سے بڑھ کر کون ناپاک ہو گا۔ بہرحال اس تفسیر پر آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ جس طرح ان پر بے ایمانیوں کی وجہ سے شیطان مسلط کر دیا جاتا ہے کہ کبھی رجوع الی الحق کی توفیق نہیں ہوتی۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ "اول فرماتا تھا کہ کافر قسمیں کھاتے ہیں کہ آیت دیکھیں تو البتہ یقین لاویں اور اب فرمایا کہ ہم نہ دیں گے ایمان تو کیونکر لاویں گے۔ بیچ میں مردہ حلال کرنے کے حیلے نقل کئے، اب اس بات کا جواب فرمایا کہ جس کی عقل اس طرف چلے کہ اپنی بات نہ چھوڑے، جو دلیل دیکھے کچھ حیلہ بنا لے، وہ نشان ہے گمراہی کا اور جس کی عقل چلے انصاف پر اور حکم برداری پر، وہ نشان ہدایت ہے۔ ان لوگوں میں نشان ہیں گمراہی کے ان پر کوئی آیت اثر نہ کرے گی۔ "باقی اللہ تعالیٰ کی طرف ارادہ ہدایت و اضلال کی نسبت کرنا، اس کے متعلق متعدد مواضع میں ہم کلام کر چکے ہیں اور آئندہ بھی حسب موقع لکھا جائے گا۔ مگر یہ مسئلہ طویل الذیل اور معرکۃ الآراء ہے اس لئے ہمارا ارادہ ہے کہ اس پر ایک مستقل مضمون لکھ کر فوائد کے ساتھ ملحق کر دیا جائے۔ وباللّٰہ التوفیق۔
۱۲۷ ۔۔۔ یعنی جو اسلام و فرمانبرداری کے سیدھے راستہ پر چلے گا وہ ہی سلامتی کے گھر پہنچے گا اور خدا اس کا ولی و مددگار ہو گا۔ یہ حال تو ان کا ہوا جن کا ولی خدا ہے (یعنی اولیاء الرحمن)۔ آگے اولیاء الشیطان کا حال بیان کیا جاتا ہے۔
۱۲۸ ۔۔۔ ۱: یعنی اے شیاطین الجن تم نے بہت سے بدبخت انسانوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا اور اپنی راہ پر لگا لیا۔
۲: دنیا میں جو انسان بت وغیرہ پوجتے ہیں وہ فی الحقیقت خبیث جن (شیاطین) کی پوجا ہے۔ اس خیال پر کہ وہ ہمارے کام نکالیں گے ان کو نیازیں چڑھاتے ہیں اور ویسے بہت سے اہل جاہلیت تشویش و اضطراب کے وقت جنوں سے استعانت کرتے تھے۔ جیسا کہ سورہ جن"میں اشارہ کیا گیا ہے اور ابن کثیر وغیرہ نے روایات نقل کی ہیں۔ جب آخرت میں وہ شیاطین الجن اور انسان برابر پکڑے جائیں گے اور حقائق کا انکشاف ہو گا تب مشرک لوگ یوں عذر کریں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہم نے پوجا نہیں کی لیکن آپس میں وقتی کارروائی کر لی تھی اور موت کا وعدہ آنے سے پہلے پہلے دنیاوی کاروبار میں ہم ایک دوسرے سے کام نکالنے کی کچھ ترکیب کر لیا کرتے تھے ان کی عبادت مقصود نہ تھی۔
۳: یہ جو فرمایا" مگر جب چاہے اللہ" اس واسطے کہ دوزخ کا عذاب دائم ہے تو اس کے چاہنے سے ہے وہ جب چاہے موقوف کرنے پر قادر ہے، لیکن ایک چیز چاہ چکا اور اس کی خبر پیغمبروں کی زبانی دی جا چکی وہ اب ٹل نہیں سکتی۔
۴: یعنی مجرموں کے جرائم سے پوری طرح خبردار ہے اور حکمت بالغہ سے ہر جرم کی برمحل اور مناسب سزا دیتا ہے۔
۱۲۹ ۔۔۔ جیسے تم نے "شیاطین الجن" اور ان کے اولیاء انسی کا حال سنا۔ اسی طرح تمام ظالموں اور گنہگاروں کو ان کے ظلم اور سیہ کاریوں کے تناسب سے دوزخ میں ہم ایک دوسرے کے قریب کر دیں گے اور جو جس درجہ کا ظالم و گنہگار ہو گا اس کو اسی کے طبقہ عصاۃ میں ملا دیں گے۔
۱۳۰ ۔۔۔ ۱: اوپر جن و انس کی شرارت اور سزا کا بیان تھا اور "اولیاء الجن" کی زبانی فی الجملہ معذرت بھی نقل کی گئی تھی، اب بتلایا جاتا ہے کہ ان کا کوئی عذر معقول اور قابل سماعت نہیں، دنیا میں خدا کی حجت تمام ہو چکی تھی جس کا خود انہیں بھی اقرار کرنا پڑے گا۔ یہ خطاب "یَامَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ"کا قیامت کے دن ہو گا اور مخاطب جن وانس کا یعنی کل مکلفین کا مجموعہ ہے، ہر جماعت الگ الگ مخاطب نہیں جو یہ اعتراض ہو کہ رسول تو ہمیشہ انسانوں میں سے آئے قوم جن میں سے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا گیا۔ پھر "رُسُلٌ مِّنْکُمْ" (رسول تم ہی میں کے) کہنا کیسے صحیح ہو گا۔ اصل یہ ہے کہ مجموعہ مخاطبین میں سے اگر کسی نوع میں بھی اتیان رسل متحقق ہو جائے جس کی غرض تمام مخاطبین کو بلا تخصیص فائدہ پہنچانا ہو تو مجموعہ کو خطاب کرنے میں کوئی اشکال نہیں رہتا۔ مثلاً کوئی یہ کہے"اے عرب و عجم کے باشندو! اور پورب پچھم کے رہنے والو! کیا تم ہی میں سے خدا نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم جیسے کامل انسان کو پیدا نہیں کیا "اس عبارت کا مطلب کسی کے نزدیک یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک محمد صلی اللہ علیہ و سلم تو عرب میں پیدا کئے گئے اور دوسرے عجم میں ہونے چاہئیں، اسی طرح پورب کے علیحدہ اور پچھم کے علیحدہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہوں، تب یہ عبارت صحیح ہو گی، علیٰ ہذا القیاس یہاں سمجھ لیجئے کہ یَا مَعْشَرَالْجِنِّ وَالْاِنْسِ اَلَمْ یَاْتِکُمْ کا مدلول صرف اس قدر ہے کہ جن وانس کے مجموعہ سے پیغمبر بھیجے گئے۔ باقی یہ تحقیق کہ ہر نوع میں سے الگ الگ پیغمبر آئے یا ہر ایک پیغمبر کل افراد جن و انس کی طرف مبعوث ہوا، یہ آیت اس کے بیان سے ساکت ہے۔ دوسری نصوص سے جمہور علماء نے یہ ہی قرار دیا ہے کہ نہ ہر ایک پیغمبر کی بعثت عام ہے اور نہ کسی جن کو اللہ نے مستقل رسول بنا کر بھیجا۔ اکثر معاشی و معادی معاملات میں ان کو حق تعالیٰ نے انسانوں کے تابع بنا کر رکھا ہے جیسا کہ سورہ جن کی آیات اور نصوص حدیثیہ وغیرہ اس پر دلالت کرتی ہیں۔ یہ کوئی ضابطہ نہیں کہ مخلوق کی ہر نوع کے لئے اسی نوع کا کوئی شخص رسول ہوا کرے۔ باقی انسانوں کی طرف فرشتہ کو رسول بنا کر بھیجنے سے جو قرآن کے متعدد مواضع میں انکار کیا گیا ہے، اس کا اصلی منشاء یہ ہے کہ عام انسان بہیئۃ الاصلیہ اس کی رویت کا تحمل نہیں کر سکتے اور بے اندازہ خوف و ہیبت کی وجہ سے مستفید نہیں ہو سکتے اور بصورت انسان آئیں تو بے ضرورت التباس رہتا ہے۔ اسی پر قیاس کر لو کہ اگر قوم جن میں منصب نبوت کی اہلیت ہوتی تو وہ بھی انسانوں کے لئے مبعوث نہیں کئے جا سکتے تھے کیونکہ وہاں بھی یہ ہی اشکال تھا۔ ہاں رسول انسی کا جن کی طرف مبعوث ہونا اس لئے نہیں کہ جنوں کے حق میں انسان کی رؤیت نہ تو ناقابل تحمل ہے اور نہ انسان کا صوری خوف و رعب استفادہ سے مانع ہو سکتا ہے۔ ادھر پیغمبر کو حق تعالیٰ وہ قوت قلبی عطا فرما دیتا ہے کہ اس پر جن جیسی ہیبت ناک مخلوق کا کوئی رعب نہیں پڑتا۔
۲: یعنی دنیا کی لذات و شہوات نے انہیں آخرت سے غافل بنا دیا۔ کبھی خیال بھی نہ آیا کہ اس احکم الحاکمین کے سامنے جانا ہے جو ذرہ ذرہ کا حساب لے گا۔
۳: اس سورت میں اوپر مذکور ہوا کہ اول کافر اپنے کفر کا انکار کریں گے۔ پھر حق تعالیٰ تدبیر سے ان کو قائل کرے گا۔
۱۳۲ ۔۔۔ یعنی خدا کی یہ عادت نہیں کہ بدون آگاہ اور خبردار کئے کسی کو اس کے ظلم و عصیان پر دنیا یا آخرت میں پکڑ کر ہلاک کر دے۔ اسی لئے رسول اور نذیر بھیجے کہ وہ خوب کھول کر تمام جن و انس کو ان کے بھلے برے اور آغاز و انجام سے خبردار کریں۔ پھر جس درجہ کا کسی کا عمل ہو گا حق تعالیٰ اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرے گا۔
۱۳۴ ۔۔۔ خدا نے رسول بھیج کر اپنی حجت تمام کر دی۔ اب اگر تم نہ مانو اور سیدھے راستہ پر نہ چلو تو وہ غنی ہے اسے تمہاری کچھ پرواہ نہیں۔ وہ چاہے تو تم کو ایک دم میں لے جائے اور اپنی رحمت سے دوسری قوم کو تمہاری جگہ کھڑا کر دے جو خدا کی مطیع و وفادار ہو اور تم کو لے جا کر دوسری قوم کا لے آنا خدا کے لئے کیا مشکل ہے۔ آج تم اپنے جن آباء و اجداد کے جانشین بنے بیٹھے ہو، آخر ان کو اٹھا کر تم کو دنیا میں اسی خدا نے جگہ دی ہے۔ بہرحال خدا کا کام رک نہیں سکتا۔ تم نہ کرو گے دوسرے کھڑے کئے جائیں گے۔ ہاں یہ سوچ رکھو کہ یہ ہی بغاوت و شرارت رہی تو خدا کا عذاب اٹل ہے۔ تم اگر سمجھو کہ بھاگ کر یا کسی کی پناہ لے کر سزا سے بچ جاؤ گے تو یہ محض حماقت ہے۔ ساری مخلوق مل کر بھی خدا کو اس کی مشیت کے نفاذ سے عاجز نہیں کر سکتی۔
۱۳۵ ۔۔۔ یعنی ہم سب نیک و بد اور نفع و ضرر سے آگاہ کر چکے۔ اس پر بھی اگر تم اپنی جانوں پر ظلم کرنے سے باز نہیں آئے تو تم جانو۔ تم اپنا کام کئے جاؤ میں اپنا فرض ادا کرتا ہوں۔ عنقریب کھل جائے گا کہ اس دنیا کا آخری انجام کس کے ہاتھ رہتا ہے۔ بلاشبہ ظالموں کا انجام بھلا نہیں ہو سکتا۔ آگے ان کے چند اعتقادی اور عملی ظلم بیان کئے جاتے ہیں جو ان میں رائج تھے اور سب سے بڑا ظلم وہ ہی ہے جسے فرمایا اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ۔
۱۳۶ ۔۔۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ "کافر اپنی کھیتی میں سے اور مواشی کے بچوں میں سے اللہ کی نیاز نکالتے اور بتوں کی بھی نیاز نکالتے۔ پھر بعضا جانور اللہ کے نام کا بہتر دیکھا تو بتوں کی طرف بدل دیا۔ مگر بتوں کی طرف کا اللہ کی طرف نہ کرتے، ان سے زیادہ ڈرتے"۔ اسی طرح غلہ وغیرہ میں سے اگر بتوں کے نام کا اتفاقاً اللہ کے حصّہ میں مل گیا تو پھر جدا کر کے بتوں کی طرف لوٹا دیتے اور اللہ نام کا بتوں کے حصہ میں جا پڑا تو اسے نہ لوٹاتے۔ بہانہ یہ کرتے تھے کہ اللہ تو غنی ہے اس کا کم ہو جائے تو کیا پروا ہے بخلاف بتوں کے کہ وہ ایسے نہیں۔ تماشہ یہ ہے کہ یہ کہہ کر بھی شرماتے نہ تھے کہ جو ایسے محتاج ہوں ان کو معبود و مستعان ٹھہرانا کہاں کی عقلمندی ہے۔ بہرحال ان آیات میں سَآءَ مَا یَحْکُمُوْنَ سے مشرکین کی اس تقسیم کا رد کیا گیا ہے۔ یعنی خدا کی پیدا کی ہوئی کھیتی اور مواشی وغیرہ میں سے اول تو اس کے مقابل غیر اللہ کا حصہ لگانا، پھر بری اور ناقص چیز خدا کی طرف رکھنا کس قدر ظلم اور بے انصافی ہے۔
۱۳۷ ۔۔۔ ۱: یہاں"شرکاء" کی تفسیر مجاہد نے "شیاطین" سے کی ہے۔ مشرکین کی انتہائی جہالت اور سنگدلی کا ایک نمونہ یہ تھا کہ بعض اپنی بیٹیوں کو سسر بننے کے خوف سے اور بعض اس اندیشہ پر کہ کہاں سے کھلائیں گے حقیقی اولاد کو قتل کر دیتے تھے اور بعض اوقات منت مانتے تھے کہ اگر اتنے بیٹے ہو جائیں گے یا فلاں مراد پوری ہو گی تو ایک بیٹا فلاں بت کے نام پر ذبح کریں گے۔ پھر اس ظلم و بے رحمی کو بڑی عبادت اور قربت سمجھتے تھے۔ شاید یہ رسم شیطان نے سنت خلیل اللہ ہی کے جواب میں سُجھائی ہو گی۔ یہود میں بھی مدت تک قتل اولاد کی رسم بطور ایک عبادت و قربت کے جاری رہی ہے جس کا انبیائے بنی اسرائیل نے بڑی شد و مد سے رد کیا۔ بہرحال اس آیت میں قتل اولاد کی ان تمام صورتوں کی شناعت بیان فرمائی ہے جو جاہلیت میں رائج تھیں۔ یعنی شیاطین قتل اولاد کی تلقین و تزیین اس لئے کرتے ہیں کہ اس طرح لوگوں کو دنیا و آخرت دونوں جگہ تباہ و برباد کر کے چھوڑیں اور ان کے دین میں گڑ بڑی ڈال دیں کہ جو کام ملت ابراہیمی و اسماعیلی کے بالکل متضاد و منافی ہے، اسے ایک دینی کام اور قربت و عبادت باور کرائیں۔ والعیاذ باللہ! کجا سنت ابراہیمی اور کجا یہ حماقت و جہالت؟
۲: اسی طرح کی آیت "وَلَوْ اَنَّنَا" کے شروع میں گزر چکی۔ وہاں جو کچھ ہم نے لکھا ہے نیز اسی مضمون کی دوسری آیات کے تحت میں لکھا گیا۔ اسے ملاحظہ کر لیا جائے۔
۱۳۸ ۔۔۔ مثلاً مرد کھائیں عورتیں نہ کھائیں یا صرف مہنت کھا سکیں جو بت خانوں کے مجاور تھے۔ یہ قیود اپنے خیال میں بعض مواشی اور کھیتوں کے متعلق عائد کر رکھی تھیں جو بتوں کے نام پر وقف کئے جاتے تھے، اسی طرح بعض جانوروں کی پیٹھ پر سواری اور بار برداری کو حرام سمجھتے تھے۔ بعض جانوروں کی نسبت یہ اقرار دیا تھا کہ ذبح کرنے یا سواری لینے یا دودھ نکالنے کے وقت ان پر خدا کا نام نہ لیا جائے کہیں بتوں کی چیز میں خدا کی شرکت نہ ہو جائے۔ پھر غضب یہ تھا کہ ان خرافات اور جہالتوں کو خدا کی طرف نسبت کرتے تھے۔ گویا اس نے معاذ اللہ یہ احکام دیے ہیں اور ان ہی طریقوں سے اس کی خوشنودی حاصل کی جا سکتی ہے۔ ایسی بد عنوانیوں کے ساتھ یہ افتراء و بہتان۔ عنقریب ان گستاخیوں کی سزا سے ان کو دو چار ہونا پڑے گا۔
۱۳۹ ۔۔۔ ایک مسئلہ یہ بنا رکھا تھا کہ بحیرہ اور سائبہ کہ اگر ذبح کیا اور اس کے پیٹ میں سے زندہ بچہ نکلا تو اسے مرد کھائیں اور عورتیں نہ کھائیں اور مردہ نکلے تو سب کھا سکتے ہیں۔ اس طرح کے بے سند مسئلے گھڑنے والوں کے جرائم سے خدا بے خبر نہیں۔ ہاں وہ اپنی حکمت کے موافق مناسب وقت میں ان کو مناسب سزا دے گا۔
۱۴۰ ۔۔۔ اس سے بڑی خرابی، گمراہی اور نقصان و خسران کیا ہو گا کہ بیٹھے بٹھائے بلاوجہ دنیا میں اپنی اولاد و اموال سے محروم اور سنگدلی، بد اخلاقی و جہل میں مشہور ہوئے اور آخرت کا دردناک عذاب سر پر رکھا، نہ عقل سے کام لیا نہ شرع کو پہچانا، پھر سیدھی راہ پر آتے تو کیسے آتے۔
۱۴۱ ۔۔۔ ۱: جو ٹٹیوں پر چڑھائے جاتے ہیں۔ مثلاً انگور وغیرہ اور جو ایسے نہیں مثلاً کھجور، آم وغیرہ تنہ دار درخت یا خربوزہ تربوز وغیرہ جن کی بیل بدون کسی سہارے کے زمین پر پھیلتی ہے۔
۲: یعنی صورت شکل میں ملتے جلتے، مزہ میں جدا جدا۔
۳: یعنی جو غلے اور پھل حق تعالیٰ نے پیدا فرمائے ہیں ان کے کھانے سے بدون سند کے مت رکو ہاں دو باتوں کا خیال رکھو، ایک یہ کہ کاٹنے اور اتارنے کے ساتھ ہی جو اللہ کا حق اس میں ہے وہ ادا کر دو۔ دوسرے فضول اور بے موقع خرچ مت کرو۔ اللہ کے حق سے یہاں کیا مراد ہے اس میں علماء کے مختلف اقوال ہیں، ابن کثیر کی رائے یہ معلوم ہوتی ہے کہ ابتداء مکہ معظمہ میں کھیتی اور باغ کی پیداوار میں سے کچھ حصہ نکالنا واجب تھا جو مساکین و فقراء پر صرف کیا جائے۔ مدینہ طیبہ پہنچ کر ۳ھجری میں اس کی مقدار وغیرہ کی تعیین و تفصیل کر دی گئی۔ یعنی بارانی زمین کی پیداوار میں (بشرطیکہ خراجی نہ ہو) دسواں حصہ اور جس میں پانی دیا جائے بیسواں حصہ واجب ہے۔
۱۴۲ ۔۔۔ ۱: بوجھ اٹھانے والے جیسے اونٹ وغیرہ اور زمین سے لگے ہوئے چھوٹے قدو قامت کے جانور جیسے بھیڑ بکری۔
۲: اللہ کی دی ہوئی نعمتوں سے منتفع ہونا چاہئے۔ شیطان کے قدموں پر چلنا یہ ہے کہ ان کو خواہی نخواہی بدون حجت شرعی کے حرام کر لیا جائے یا شرک و بت پرستی کا ذریعہ بنا لیا جائے۔ شیطان کی اس سے زیادہ کھلی ہوئی دشمنی کیا ہو گی کہ ان نعمتوں سے تم کو دنیا میں محروم رکھا اور آخرت کا عذاب رہا سو الگ۔
۱۴۳ ۔۔۔ یعنی ایک نر ایک مادہ اس طرح ہر نوع میں دو دو زوج ہوئے اور مجموعہ آٹھ ہو گیا۔۔
یعنی کسی چیز کو حلال و حرام کہنا صرف اللہ کے حکم سے ہو سکتا ہے پھر ان میں سے نر کو یا مادہ کو یا بچہ کہ جو مادہ کے پیٹ میں ہے اگر تم سب آدمیوں کے یا بعض کے حق میں حرام کہتے ہو جیسا کہ پچھلی آیات میں گزرا، اس کی سند تمہارے پاس کیا ہے۔ جب خدائی حکم ہونے کی کوئی سند نہیں رکھتے تو محض آراء و ہواء سے خدا کی پیدا کی ہوئی چیزوں کو حلال یا حرام کہنا اس کا مترادف ہے کہ خدائی کا منصب معاذ اللہ تم اپنے لئے تجویز کرتے ہو یا خدا پر جان بوجھ کر افتراء کر رہے ہو۔ دونوں صورتیں تباہ کن اور مہلک ہیں۔
۱۴۴ ۔۔۔ اشیاء کی تحلیل و تحریم محض خدا کے حکم سے ہو سکتی ہے، اور خدا کا حکم یا بواسطہ انبیاء پہنچے گا یا بلاواسطہ حق تعالیٰ کسی کو مخاطب فرمائے تو اسے معلوم ہو۔ یہاں دونوں صورتیں منفی ہیں۔ پہلی شق کے انتفاء پر نَبِّئُونِیْ بِعِلْمٍ الخ میں اور دوسری کی نفی پر اَمْ کُنْتُمْ شُھَدَآءَ اِذْ وَصّٰکُمُ اللّٰہُ میں متنبہ فرمایا ہے۔ پھر مشرکین کے دعاوی میں افتراء و اضلال کے سوا اور کیا چیز باقی رہ گئی۔ بلاشبہ اس سے زیادہ ظالم کوئی نہیں ہو سکتا جو خدا پر بہتان باندھے اور علم و تحقیق سے تہی دست ہونے کے باوجود لوگوں کو باطل اور غلط مسائل بیان کر کے گمراہ کرتا پھرے۔ جس شخص نے اس قدر ڈھٹائی اختیار کر لی اور ایسے ظلم عظیم پر کمر باندھ لی اس کے ہدایت پانے کی توقع رکھنا فضول ہے۔
۱۴۵ ۔۔۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں "یعنی جن جانوروں کا کھانا دستور ہے ان میں سے یہ ہی حرام ہے۔" اس آیت میں کفار کو یہ بتلانا ہے کہ جو چیزیں اوپر مذکور ہوئیں حلال تھیں جن کو تم نے حرام بنا لیا۔ اب وہ چیزیں بتلائی جاتی ہیں جو واقعی حرام ہیں اور تم ان کو حلال سمجھتے ہو۔ باقی مضمون آیت کی تفسیر و توضیح "سورہ مائدہ کے شروع میں حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِیْرِ الخ کے نیچے گزر چکی ہے وہاں ملاحظہ کر لی جائے۔
۱۴۶ ۔۔۔ یعنی اصلی حرمت تو ان چیزوں میں ہے جو اوپر مذکور ہوئیں، البتہ وقتی مصلحت سے بعض چیزیں عارضی طور پر بعض اقوام پر پہلے حرام کی جا چکی ہیں۔ مثلاً یہود پر ان کی شرارتوں کی سزا میں ہر ناخن (کھر) والا جانور جس کی انگلیاں پھٹی نہ ہوں جیسے اونٹ، شتر مرغ، بطخ وغیرہ حرام کیا گیا تھا۔ نیز گائے بکری کی جو چربی پشت یا انتڑیوں پر لگی ہوئی ہو یا ہڈی کے ساتھ نہ ملی ہو ان پر حرام کر دی گئی تھی جیسے گردہ کی چربی۔ بنی اسرائیل کا دعویٰ غلط ہے کہ یہ چیزیں ابراہیم نوح کے زمانہ ہی سے مستمر طور پر حرام چلی آتی ہیں سچی بات یہ کہ ان میں سے کوئی چیز عہد ابراہیمی میں حرام نہ تھی یہود کی نا فرمانیوں اور شرارتوں کی وجہ سے یہ سب چیزیں حرام ہوئیں جو کوئی اس کے خلاف دعویٰ کرے جھوٹا ہے، جیسے پارہ "لَنْ تَنَالُوْا" کے شروع میں قُلْ فَاْتُوْا بِالتَّو ٰرۃِ فَاتْلُوْ ھَا اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ سے ان دعویٰ کرنے والوں کو چیلنج دیا گیا ہے۔
۱۴۷ ۔۔۔ یعنی رحمت کی سمائی سے تم اب تک بچے ہو۔ نہ جانو کہ عذاب مل گیا۔ کذافی موضح القرآن۔
۱۴۹ ۔۔۔ گذشتہ رکوع میں مشرکین سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ جن حلال و طیب چیزوں کو تم نے حرام ٹھہرا لیا ہے اور اس تحریم کو خدا کی طرف نسبت کرتے ہو، اس کی سند اور دلیل لاؤ۔ یہاں ان کی دلیل بیان کی گئی ہے جو وہ پیش کرنے والے تھے یعنی اگر اللہ چاہتا تو اس کو قدرت تھی کہ ہم کو اور ہمارے اسلاف کو اس تحریم سے بلکہ تمام مشرکانہ افعال و اقوال سے روک دیتا۔ جب نہ روکا اور یوں ہی ہوتا چلا آیا تو ثابت ہوا کہ اس کے نزدیک ہماری یہ کارروائیاں پسندیدہ ہیں۔ ناپسند ہوتیں تو ان کے کرنے میں ہم کو اب تک کیوں آزاد چھوڑتا۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ایک نیک نام اور مدبرّ گورنمنٹ کسی باغیانہ تحریک میں حصہ لینے والے کو باوجود یقینی اطلاع اور کافی قدرت کے پہلے ہی دن پکڑ کر پھانسی نہیں دے دیتی۔ وہ اس کی حرکات کی نگرانی رکھتی ہے، کبھی رویہ درست رکھنے کی ہدایت کرتی ہے اور موقع دیتی ہے کہ آدمی ایسی حرکات کا انجام سوچ کر خود سنبھل جائے، کبھی اصلاح سے مایوس ہو کر ڈھیل چھوڑتی ہے کہ اس کی بغاوت کا ایسا باضابطہ اور مکمل مواد فراہم ہو جائے جس کے بعد اس کی انتہائی مجرمانہ غداری قانونی حیثیت سے علیٰ رؤس الاشہاد ثابت کی جا سکے۔ ان تمام صورتوں میں مجرم کی باگ ڈھیلی چھوڑ دینے اور فوراً سزا نہ دینے سے کیا ثابت ہو گا کہ گورنمنٹ کی نظر میں وہ کارروائی جرم و بغاوت نہیں ہے۔ گورنمنٹ کی نگاہ میں ان افعال کا جرم ہونا مہلت پوری ہونے پر عدالت کے کٹہرے میں لایا جائے گا اور باضابطہ اثبات و اظہار جرم کے بعد پھانسی یاحبس دوام کی سزا بھگتے گا، تب برأی العین مشاہدہ ہو جائے گا کہ گورنمنٹ کی نظر میں یہ کتنا بڑا جرم ہے۔ بہرحال گورنمنٹ کا کسی جرم پر باوجود علم و قدرت رکھنے کے کسی مصلحت سے فوری سزا جاری نہ کرنا اس کی دلیل نہیں کہ وہ جرم کو جرم نہیں سمجھتی۔ اسی پر قیاس کر لیجئے کہ وہ احکم الحاکمین ابتدائے آفرینش سے آج تک بتوسط اپنے صادق القول اور پاکباز نائبین کے ہر قسم کے قوانین و احکام سے بندوں کو مطلع فرماتا رہا اور کھول کھول کر بتلا دیا کہ کونسی بات اس کے یہاں پسندیدہ اور کون سی ناپسند ہے کبھی پے درپے اور کبھی تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد ان احکام و ہدایات کی یاد دہانی بھی ہوتی رہی۔ اس دوران میں خلاف ورزی کرنے والوں سے مسامحت کی حد تک مسامحت کی گئی۔ معمولی تنبیہات کی ضرورت ہوئی تو وقتاً فوقتاً انہیں بھی کام میں لایا گیا۔ اور جن کی شقاوت کا پیمانہ لبریز ہونے والا تھا انہیں ڈھیل دی گئی کہ وہ صاف اور اعلانیہ طور پر اپنے کو خدا کی انتہائی سزا کا مستحق ٹھہرا کر کیفر کردار کو پہنچیں۔ چنانچہ بہت سی قومیں اپنے جرائم کی پاداش کا دنیا میں تھوڑا تھوڑا مزا چکھ چکی ہیں۔ پھر ان حالات کی موجودگی میں کسی قوم کے چند روز جرائم میں مبتلا رہنے اور فوراً نہ پکڑے جانے سے کیسے استدلال کیا جا سکتا ہے کہ وہ جرائم (معاذاللہ) خدا کے نزدیک پسندیدہ ہیں ورنہ خدا انہیں ایک گھنٹہ کی بھی مہلت نہ دیتا۔ رہا یہ سوال کہ خدا نے انسان کی ساخت ہی ابتداء سے ایسی کیوں نہ بنا دی کہ وہ برائی کی طرف قطعاً نہ جا سکتا اور اس طرح فطرۃً اسے ایسی کیوں نہ بنا دی کہ وہ برائی کی طرف قطعاً نہ جا سکتا اور اس طرح فطرۃً اسے مجبور کر دیا جاتا کہ نیکی اور بھلائی کے سوا کوئی چیز اختیار نہ کر سکے۔ اگر غور کیا جائے تو اس سوال کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو ایسا کیوں نہ پیدا کر دیا گیا کہ وہ انسان ہی نہ رہتا۔ یا تو اینٹ پتھر بن جاتا جو ادراک و شعور اور کسب و اختیار سے یکسرخالی ہو یا گدھے گھوڑے وغیرہ جانوروں کی طرح جزئی احساس و ارادہ رکھنے والا حیوان ہوتا جو ازل سے ابد تک اپنے مخصوص و متشابہ افعال و احوال کے محدود دائرہ میں چکر لگاتا رہے اور یا بہت عزت دی جاتی تو فرشتوں کی صفوں میں بٹھلا دیا جاتا جو محض طاعت و عبادت کے اختیار کرنے پر مجبول و مفطور ہیں۔ الحاصل یہ کلی ادراکات اور عظیم الشان کسبی تصرفات رکھنے والی ترقی کن نوع ہی صفحہ ہستی پر نہ لائی جاتی۔ میں سمجھتا ہوں کہ کوئی انسان اپنے شرف و کرامت کا بلند بانگ دعویٰ رکھتے ہوئے ایسی جرأت نہ کرے گا کہ سرے سے اپنی نوع کے وجود ہی کا مخالف ہو جائے۔ پھر اگر نوع انسانی کا مع اس کی عقلی و عملی قوتوں اور کسب و اختیار کی موجودہ آزادی کے پیدا کرنا نظام عالم کی تکمیل کے لئے ضروری تھا تو اس نظام تکوینی کے آثار و نتائج کا قبول کرنا بھی ضروری ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مادی اور معاشی زندگی کے شعبوں میں تو انسانوں کی عقلی و کسبی آزادی کی بدولت بے شمار انواع و اقسام کے مختلف مظاہر سامنے آئیں۔ لیکن معادی و روحانی میدانوں میں وہ ہی دل و دماغ اور کسب و اختیار کی قوتیں رکھنے والے انسان سب کے سب ایک ہی پگڈنڈی پر چلنے کے لئے مجبور ہو جائیں اور کوئی ایک قدم ادھر ادھر ہٹانے کی قدرت نہ رکھے۔ پس اگر نوع انسان کا بحقیقۃ الموجودہ مجموعہ عالم میں پایا جانا ضروری ہے تو نیک و بد کا اختلاف بھی لا بُدی ہو گا اور یہ ہی اختلاف کا وجود بڑی دلیل اس کی ہے کہ ہر وہ فعل جو وقوع میں آئے ضروری نہیں کہ خدا کے نزدیک پسندیدہ ہو ورنہ مختلف و متضاد افعال کی موجودگی میں ماننا پڑے گا کہ مثلاً خوش اخلاقی بھی خدا کو پسند ہو اور بد اخلاقی بھی، ایمان لانا بھی پسند ہو اور نہ لانا بھی، جو صریحاً باطل ہے۔ بیشک خدا اگر چاہتا تو انسان کی ساخت ایسی بنا سکتا تھا کہ سب ایک ہی راستہ پر چلنے کے لیے مجبور ہو جاتے، لیکن جب ایسا واقعہ نہیں ہوا تو یہ ہی حجت بالغہ اور پورا الزام ان لوگوں پر ہے جو لَوْشَاءَ اللّٰہُ مَا اَشْرَکْنَا کہہ کر مشیت و رضائے الٰہی میں تلازم ثابت کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اس قدر شدید اختلافات کی موجودگی میں ان کے اصول کے موافق کہنا پڑے گا کہ مثلاً توحید خالص بھی اللہ کے نزدیک صحیح اور مرضی ہو اور اس کی نقیض شرک جلی بھی، وقس علیٰ ہذا۔ ان دلائل سے ثابت ہوا کہ مشرکین کا یہ استدلال لو شاء اللّٰہ ما اشرکنا الخ محض لغو اور پادر ہوا ہے، کوئی علمی اصول ان کے پاس نہیں جسے عقلمندوں کے سامنے پیش کر سکیں۔ محض اٹکل کے تیر اور تخمینی باتیں ہیں جن کو خدا کی حجت بالغہ بکلّی رد کرتی ہے۔ جس کی طرف فَلَوْشَاءَ لَھَدَاکُمْ اَجْمَعِیْنَ میں اشارہ فرمایا ہے۔ یعنی انسان کی فطرت ایسی نہیں بنائی گئی کہ سب کے سب راہ ہدایت پر چل پڑیں۔ اس کو کسب و اختیار کی وہ آزادی حق جل و علا نے عطا فرمائی ہے جس کا عطا کیا جانا کسی مخلوق کے لئے ممکن تھا۔ اس لئے لازم ہے کہ اس آزادی کے استعمال کے وقت راہیں مختلف ہو جائیں کوئی نیکی کو اختیار کر لے کوئی بدی کو، کوئی حق تعالیٰ کی رضاء و رحمت کا مظہر بن جائے کوئی غضب کا۔ اس طرح وہ آخری مقصد جو خالق کائنات نے آفرینش عالم سے ارادہ کیا ہے یعنی اپنی صفات جمال و جلال کا اظہار علی الوجہ الاتم پورا ہو۔ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا اور نہ اگر تمام عالم ایک ہی حال پر فرض کر لیا جائے تو بعض صفات الٰہیہ کا ظہور ممکن ہو گا، اور دوسری بعض کے ظہور کے لئے کوئی محل نہ ملے گا۔ یہاں تک کہ جو کچھ ہم نے کہا وہ اس تقدیر پر تھا کہ مشرکین کے قول لوشاء اللّٰہ ما اشرکنا سے یہ غرض ہو کہ وہ اپنے خرافات و کفریات کا استحسان ثابت کرنا چاہتے تھے جیسا کہ ان کے احوال سے ظاہر ہے اور اگر کلام مذکور سے ان کی غرض صرف معذرت ہو کہ جو کچھ خدا چاہتا ہے وہ ہم سے کراتا ہے، اچھا ہو یا برا، بہرحال اس کی مشیت سے ہے۔ پھر مشیت الٰہی کے مقابلہ میں انبیاء و رسل ہم سے کیوں مزاحمت کرتے ہیں اور عذاب الٰہی کا ڈراوا کیوں سناتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ جس خدا کی مشیت سے تم ان افعال شنیعہ کا کسب کرتے ہو، اسی کی مشیت سے انبیاء و رسل تمہاری مزاحمت کرتے ہیں اور وہ ہی مشیت تمہارے کسب پر مناسب عذاب بھیجتی ہے۔ جس طرح قدرت نے سانپ کو پیدا کیا اور وہ ہی مار گزیدہ کے حق میں ہلاکت کا اثر مرتب کرتی ہے خواہ سانپ کے کاٹنے میں مارگزیدہ کے فعل و اختیار کو کچھ دخل ہو یا نہ ہو۔ اسی طرح تمہارے شرک و کفر میں ہلاکت دائمی کی، اور ایمان و عمل صالح میں نجات ابدی کی تاثیرات رکھ دینا بھی اسی قدرت و مشیت ایزدی کا کام ہے جس سے تمام سلسلہ اسباب و مسببات کی تخلیق ہوئی ہے۔ پس اگر تم اپنے مشرکانہ اطوار سے باز نہ آنے میں مشیت کے عموم سے احتجاج کر سکتے ہو تو ارسال رسل اور انزال عذاب وغیرہ امور کو بھی اسی مشیت کی کارفرمائی کا نتیجہ سمجھ کر خدا کی حجت بالغہ کو تمام سمجھو۔ بیشک خدا چاہتا تو تم سب کو راہ راست پر لگا دیتا لیکن اس نے تمہاری سوء استعداد کی وجہ سے ایسا نہیں چاہا۔ آخر تمہارے سوء اختیار سے جو افعال صادر ہوئے ان کا طبعی اثر عذاب کی صورت میں مرتب ہو کر رہا۔ والعیاذ باللہ۔
۱۵۰ ۔۔۔ یعنی دلیل عقلی کا حال تو اوپر معلوم ہو چکا۔ اب اگر اس من گھڑت تحریم پر کوئی نقلی دلیل رکھتے ہو تو وہ لاؤ۔ کیا تمہارے پاس ایسے گواہ موجود ہیں جو یہ بیان کریں کہ ہاں ان کے روبرو اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کو حرام ٹھہرایا تھا؟ظاہر ہے کہ ایسے واقعی گواہ کہاں دستیاب ہو سکتے ہیں۔ اگر دو چار گستاخ جھوٹے بے حیا یہ ہی گواہی دینے کو کھڑے ہو جائیں تو ایسوں کی بات پر تم کان نہ دھرو اور نہ ان کی خواہشات کی پروا کرو۔ یہاں تک ان چیزوں کا بیان تھا جنہیں مشرکین نے محض اپنی رائے و ہوا سے حرام ٹھہرا رکھا تھا، پھر اس تحریم کے لئے حیلے اور باطل عذر پیش کرتے تھے۔ آگے وہ چیزیں بیان کی جاتی ہیں جنہیں خدا نے حرام کیا اور ہمیشہ سے حرام رہی ہیں لیکن یہ مشرکین ان میں مبتلا ہیں۔
۱۵۱ ۔۔۔ ۱: عرب مفلسی کی وجہ سے بعض اوقات اولاد کو قتل کر دیتے تھے کہ خود ہی کھانے کو نہیں اولاد کو کہاں سے کھلائیں۔ اسی لئے فرمایا کہ رزق دینے والا تو خدا ہے تم کو بھی اور تمہاری اولاد کو بھی۔ دوسری جگہ بجائے "مِنْ اِمْلاَقٍ" خَشْیَۃَ اِمْلَاقٍ فرمایا ہے یعنی مفلسی کے ڈر سے قتل کر ڈالتے تھے۔ یہ ان کا ذکر ہو گا جو فی الحال مفلس نہیں مگر ڈرتے ہیں کہ جب عیال زیادہ ہوں گے تو کہاں سے کھلائیں گے چونکہ پہلے طبقہ کو عیال سے پہلے اپنی روٹی کی فکر ستا رہی تھی اور دوسرے کو زیادہ عیال کی فکر نے پریشان کر رکھا تھا، شاید اسی لئے یہاں من املاق کے ساتھ نَرْزُقُکُمْ وَاِیَّاھُمْ اور اس آیت میں خَشْیَۃَ اِمْلَاقٍ کے ساتھ نَرْزُقُھُمْ وَاِیَّا کُمْ ارشاد فرمایا۔ واللہ اعلم۔ "پاس نہ جاؤ" سے شاید یہ مراد ہو کہ ایسے کاموں کے مبادی و وسائل سے بھی بچنا چاہئے، مثلاً زنا کی طرح نظر بد سے بھی اجتناب لازم ہے۔
۲: اِلَّا بِالْحَقِّ کا استثناء ضروری تھا۔ جس میں قاتل عمد، زانی محصن اور مرتد عن الاسلام کا قتل داخل ہے جیسا کہ احادیث صحیحہ میں اس کی تصریح وارد ہو چکی اور ائمہء مجتہدین اس پر اجماع کر چکے ہیں۔
۳: اس آیت سے ان چیزوں کا حرام ہونا ثابت ہوا (۱) شرک باللہ (۳) والدین کے ساتھ بد سلوکی (۳) قتل اولاد (۴) سب بے حیائی کے کام مثلاً زنا وغیرہ (۵) کسی شخص کو ناحق قتل کرنا۔
۱۵۲ ۔۔۔ ۱: یتیم کے مال میں بیجا تصرف کرنا حرام ہے۔ ہاں بہتر و مشروع طریقہ سے احتیاط کے ساتھ اس میں ولی یتیم تصرف کر سکتا ہے۔ جب یتیم جوان ہو جائے اور اپنے فرائض کو سنبھال سکے تو اس کے حوالہ کر دیا جائے۔
۲: یعنی اپنی طاقت کے موافق ان احکام کی بجا آوری میں کوشش کرو اسی کے تم مکلف ہو۔ خدا کسی کو اس کی قدرت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔
۳: یعنی حق و انصاف کی بات کہنے میں کسی کی قرابت و محبت مانع نہ ہونی چاہئے۔
۴: اس کے اوامر و نواہی پر پابندی سے عمل کرو۔ خدا کے لئے جو نذر مانو یا قسم کھاؤ بشرطیکہ غیر مشروع بات کی نہ ہو اسے پورا کرنا چاہئے۔
۱۵۳ ۔۔۔ یعنی احکام مذکورہ بالا کی پابندی اور خدا کے عہد کو اعتقاداً پورا کرنا یہ ہی صراط مستقیم (سیدھی راہ) ہے جس کی طلب سورہ فاتحہ میں تلقین کی گئی تھی۔ یہ راہ تم کو دکھلا دی گئی اب چلنا تمہارا کام ہے۔ جو کوئی اس کے سوا دوسرے راستہ پر چلا وہ خدا کے راستہ سے بھٹکا۔
۱۵۴ ۔۔۔ معلوم ہوتا ہے کہ جو احکام اوپر قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ سے پڑھ کر سنائے گئے، یہ ہمیشہ سے جاری تھے۔ تمام انبیاء اور شرائع کا ان پر اتفاق رہا کیا۔ بعدہٗ حق تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر تورات اتاری جس میں احکام شرع کی مذید تفصیل درج تھی۔ تورات عطا فرما کر اس زمانہ کے نیک کام کرنے والوں پر خدا نے اپنی نعمت پوری کر دی۔ ہر ضروری چیز کو شرح و بسط سے بیان فرما دیا اور ہدایت و رحمت کے ابواب مفتوح کر دیے تاکہ اسے سمجھ کر لوگ اپنے پروردگار سے ملنے کا کامل یقین حاصل کریں۔
۱۵۵ ۔۔۔ یعنی تورات تو تھی ہی جیسی کچھ تھی، لیکن ایک یہ کتاب ہے (قرآن کریم) جو اپنے درخشاں اور ظاہر و باہر حسن و جمال کے ساتھ تمہارے سامنے ہے اس کی خوبصورتی اور کمال کا کیا کہنا۔ آفتاب آمد دلیل آفتاب۔ اس کی ظاہری و باطنی برکات اور صوری و معنی کمالات کو دیکھ کر بے اختیار کہنا پڑتا ہے۔ بہار عالم حسنش دل و جاں تازہ میدارد برنگ اصحاب صورت رابہ بوار باب معنی را اب دائیں بائیں دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ اگر خدا کی رحمت سے حظ وافر لینا چاہتے ہو تو اس آخری اور مکمل کتاب پر چل پڑو اور خدا سے ڈرتے رہو کہ اس کتاب کے کسی حصہ کی خلاف ورزی ہونے نہ پائے۔
۱۵۶ ۔۔۔ یعنی اس مبارک کتاب (قرآن کریم) کے نزول کے بعد عرب کے امین کے لئے یہ کہنے کا بھی موقع نہیں چھوڑا گیا کہ پیشتر جو آسمانی کتابیں شرائع الٰہیہ کو لے کر اتریں وہ تو ہمارے علم کے موافق انہی دو فرقوں (یہود و نصاریٰ) پر اتریں بیشک وہ لوگ آپس میں اسے پڑھتے پڑھاتے تھے اور بعضے اس کا ترجمہ بھی عربی میں کرتے تھے مثلاً ورقہ بن نوفل وغیرہ اور بہت سے مدت تک اس دھن میں لگے رہے کہ عرب کو یہودی یا نصرانی بنا لیں لیکن ہمیں ان کی تعلیم و تدریس سے کوئی سروکار نہیں رہا۔ اس سے بحث نہیں کہ یہود نصاریٰ جو کچھ پڑھتے پڑھاتے تھے وہ چیز کہاں تک اپنی اصلی سماوی صورت میں محفوظ تھی۔ مطلب صرف اس قدر ہے کہ ان شرائع و کتب کی اصلی مخاطب فقط قوم بنی اسرائیل تھی۔ خواہ اس تعلیم کے بعض اجزاء مثلاً توحید اور اصول دینیہ کی دعوت کو وسعت دے کر بنی اسرائیل کے سوا دوسری اقوام کے حق میں بھی عام کر دیا گیا ہوتا ہم جو شریعت اور کتاب سماوی بہیئات مجموعی کسی خاص قوم پر اسی کے مخصوص فائدہ کے لئے اتری ہو اس کے درس و تدریس سے اگر دوسری اقوام خصوصاً عرب جیسی غیور و خوددار قوم کو دلچسپی اور لگاؤ نہ ہو تو کچھ مستبعد نہیں، بنا بریں وہ کہہ سکتے تھے کہ کوئی آسمانی کتاب و شریعت ہماری طرف نہیں آئی اور جو کسی مخصوص قوم کے لئے آئی اس سے ہم نے چنداں واسطہ نہیں رکھا پھر ہم ترک شرائع پر کیوں ماخوذ ہوں گے۔ مگر آج ان کے لئے اس طرح کے حیلے حوالوں کا موقع نہیں رہا۔ خدا کی حجت اس کی روشن کتاب اور ہدایت و رحمت عامہ کی بارش خاص ان کے گھر میں اتاری گئی۔ تاکہ وہ اولاً اس سے مستفید ہوں، پھر اس امانت الٰہیہ کو تمام احمرو اسود اور مشرق و مغرب کے باشندوں تک حفاظت و احتیاط کے ساتھ پہنچا دیں۔ کیونکہ یہ کتاب کسی خاص قوم و ملک کے لئے نہیں اتاری گئی۔ اس کا مخاطب تو سارا جہان ہے۔ چنانچہ خدا کے فضل و توفیق سے عرب کے ذریعہ سے خدا کا یہ عام اور آخری پیغام آج دنیا کے گوشہ گوشہ میں پہنچ گیا۔ والحمد للّٰہ علیٰ ذٰلک۔
۱۵۷ ۔۔۔ ۱: یعنی پہلی امتوں کا حال سن کر شاید تم کو ہوس ہوتی اور دل میں ولولہ اٹھتا کہ ہمارے پاس خدا کی کتاب آتی تو ہم دوسروں سے بڑھ کر عمل کر کے دکھلاتے۔ سو تم کو ان سے بہتر کتاب دے دی گئی۔ اب دیکھیں کون کیا کام کر کے دکھلاتا ہے۔
۲: اب ایسی بے مثال روشن کتاب آنے کے بعد اگر اس کی آیتوں کو کوئی جھٹلائے اور اس کے احکام قبول کرنے سے کترائے یا دوسروں کو روکے، اس سے بڑا ظالم کون ہو گا (تنبیہ) صَدَفَ عَنْھَا کے دونوں معنی سلف سے منقول ہیں "روکنا" اور "اعراض کرنا"۔ مترجم علاّم نے دوسرے معنی لے کر "کترائے" ترجمہ کیا ہے۔
۱۵۸ ۔۔۔ یعنی اللہ کی طرف سے ہدایت کی جو حد تھی وہ پوری ہو چکی، انبیاء تشریف لائے، شریعتیں اتریں کتابیں آئیں حتیٰ کہ اللہ کی آخری کتاب بھی آ چکی، تب بھی نہیں مانتے تو شاید اب اس کے منتظر ہیں کہ اللہ آپ آئے یا فرشتے آئیں یا قدرت کا کوئی بڑا نشان (مثلاً قیامت کی کوئی بڑی علامت) ظاہر ہو تو یاد رہے کہ قیامت کے نشانوں میں سے ایک نشان وہ بھی ہے جس کے ظاہر ہونے کے بعد نہ کافر کا ایمان لانا معتبر ہو گا نہ عاصی کی توبہ۔ صحیحین کی احادیث بتلاتی ہیں کہ یہ نشان آفتاب کا مغرب سے طلوع کرنا ہے۔ یعنی جب خدا کا ارادہ ہو گا کہ دنیا کو ختم کرے اور عالم کا موجودہ نظام درہم برہم کر دیا جائے تو موجودہ قوانین طبیعیہ کے خلاف بہت سے عظیم الشان خوارق وقوع میں آئیں گے ان میں سے ایک یہ ہے کہ آفتاب مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہو گا۔ غالباً اس حرکت مقلوبی اور رجت قہقری سے اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہو کہ جو قوانین قدرت اور نوامیس طبیعیہ دنیا کے موجودہ نظم و نسق میں کار فرما تھے، ان کی میعاد ختم ہونے اور نظام شمسی کے الٹ پلٹ ہو جانے کا وقت آپہنچا ہے۔ گویا اس وقت سے عالم کبیر کے نزع اور جانکنی کے وقت کا ایمان اور توبہ مقبول نہیں کیونکہ وہ حقیقت میں اختیاری نہیں ہوتا، اسی طرح طلوع الشمس من المغرب کے بعد مجموعہ عالم کے حق میں یہ ہی حکم ہو گا کہ کسی کا ایمان و توبہ معتبر نہ ہو۔ بعض روایات میں طلوع الشمس من مغربھا کے ساتھ چند دوسرے نشانات بھی بیان ہوئے ہیں مثلاً خروج دجال، خروج دابہ وغیرہ۔ ان روایات کی مراد یہ معلوم ہوتی ہے کہ جب ان سب نشانات کا مجموعہ متحقق ہو گا اور وہ جب ہی ہو سکتا ہے کہ طلوع الشمس من المغرب بھی متحقق ہو تو دروازہ توبہ کا بند کر دیا جائے گا الگ الگ ہر نشان پر یہ حکم متفرع نہیں۔ ہمارے زمانہ کے بعض ملحدین جو ہر غیر معمولی واقعہ کو استعارہ کا رنگ دینے کے خوگر ہیں وہ طلوع الشمس من المغرب کو بھی استعارہ بنانے کی فکر میں ہیں۔ غالباً ان کے نزدیک قیامت کا آنا بھی ایک طرح کا استعارہ ہی ہو گا۔ (تنبیہ) یہ جو کہا کہ "آئیں فرشتے یا آئے تیرا رب " اس کی تفسیر "سیقول" کے نصف پر آیت ھَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا اَنْ یَّاْتِیَھُمُ اللّٰہُ فِی ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ کے تحت میں گزر چکی وہاں دیکھ لیا جائے اور جملہ اور کَسَبَتْ فِی اِیْمَانِھَا خَیْراً کا عطف اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ پر ہے اور تقدیر عبارت کی ابن المنیر وغیرہ محققین کے نزدیک یوں ہے لَا یَنْفَعُ نَفْسًا اِیْمَانُھَا اوکسبھا خیرا لم تکن امنت من قبل او لم تکن کسبت فی ایمانھا خیرا یعنی جو پہلے سے ایمان نہیں لایا اس وقت اس کا ایمان نافع نہ ہو گا اور جس نے پہلے سے کسب خیر نہ کیا اس کا کسب خیر نافع نہ ہو گا۔ (یعنی توبہ قبول نہ ہو گی)۔
۱۵۹ ۔۔۔ پچھلے رکوع میں قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَاحَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ الخ سے بہت سے احکام بیان فرما کر ارشاد ہوا تھا وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیمًا فَاتَّبِعُوہُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ یعنی صراط مستقیم (دین کی سیدھی راہ) ہمیشہ سے ایک رہی ہے۔ اس سے ہٹ کر گمراہی کے راستے بہت ہیں۔ تمام انبیاء و مرسلین اصولی حیثیت سے اسی ایک راہ پر چلے اور لوگوں کو بلاتے رہے شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَاوَصّیٰ بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِیْ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ وَمَاوَصَّیْنَا بِہٖ اِبْرَاھِیْمَ وَمُوْسیٰ وَعِیْسیٰ اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَاتَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ (شوریٰ، رکوع۳،آیت نمبر ۱۳) اول دین میں ان کے باہم کوئی تفریق نہیں۔ زمان و مکان اور خارجی احوال کے اختلاف سے فروع شرعیہ میں جو تفاوت ہوا، وہ تفرق نہیں بلکہ ہر وقت کے مناسب رنگ میں ایک ہی مشترک مقصد کے ذرائع حصول کا تنوع ہے جو دین انبیائے سابقین لے کر آئے۔ موسیٰ علیہ السلام کی کتاب بھی اس کی مخالفت کے لئے نہیں بلکہ اس کی تکمیل و تفصیل کی غرض سے اتاری گئی۔ سب کے آخر میں قرآن آیا جو تمام کتب سابقہ کی تتمیم وتصدیق اور ان کے علوم و معارف کی حفاظت کرنے والا ہے۔ درمیان میں ان کتب و شرائع سے اعراض کرنے والوں کا حال بیان کر کے اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوا دِیْنَھُمْ سے پھر اصل مطلب کی طرف عود کیا گیا۔ یعنی دین الٰہی کا راستہ (صراط مستقیم) ایک ہے۔ جو لوگ اصل دین میں پھوٹ ڈال کر جدا جدا راہیں نکالتے اور فرقہ بندی کی لعنت میں گرفتار ہوتے ہیں خواہ وہ یہود ہوں یا نصاریٰ یا وہ مدعیان اسلام جو مستقبل میں عقائد دینیہ کی چادر کو پھاڑ کر پارہ پارہ کرنے والے تھے، ان لوگوں سے آپ کو کچھ واسطہ اور سروکار نہیں۔ یہ سب فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ میں داخل ہیں۔ آپ ان سے بیزاری اور برأت کا اظہار کر کے خدا کے اسی ایک راستہ (صراط مستقیم) پر جمے رہیے اور ان کا انجام اللہ کے حوالہ کیجئے۔ وہ ان کو دنیا اور آخرت میں جتلا دے گا جو کچھ دین میں گڑ بڑی کرتے تھے۔ حضرت شاہ صاحب فرقوا دینھم کی توضیح کرتے ہوئے فرماتے ہیں "جو باتیں یقین لانے کی ہیں (اصول دین) ان میں فرق نہ چاہیے اور جو کرنے کی ہیں (فروع دین) ان کے طریقے کئی ہوں تو برا نہیں۔
۱۶۰ ۔۔۔ ثُمَّ یُنَبِّئُھُمْ بِمَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ میں ان کے افعال شنیعہ کی مجازات پر متنبہ کیا گیا تھا، ساتھ ہی ہر نیک و بد کی مجازات کا عام قانون بتلا دیا کہ بھلائی کا بدلہ کم از کم دس گنا ہے اور برائی کا زائد از زائد اس کے برابر یعنی جس نے ایک نیکی کمائی تو کم از کم ویسی دس نیکیوں کا ثواب ملے گا زائد کی حد نہیں وَاللّٰہُ یُضَاعِفُ لِمَن یَّشَآءُ اور جو ایک بدی کا مرتکب ہوا تو ویسی ایک بدی کی جس قدر سزا مقرر ہے اس سے آگے نہ بڑھیں گے، تخفیف کر دیں یا بالکل معاف فرما دیں، یہ اختیار ہے۔ پھر جہاں وفور رحمت کی یہ کیفیت ہو وہاں ظلم کا کیا امکان ہے۔
۱۶۱ ۔۔۔ ۱: یعنی ایک خدا ہی کا ہو رہا تھا۔
۲: یعنی تم دین میں جتنی چاہو راہیں نکالو اور جس قدر معبود چاہو ٹھہرا لو۔ مجھ کو تو میرا پروردگار صراط مستقیم بتلا چکا اور وہ ہی خالص توحید اور کامل تفویض و توکل کا راستہ ہے، جس پر موحد اعظم ابوالانبیاء ابراہیم خلیل اللہ بڑے زور شور سے چلے جن کا نام آج بھی تمام عرب اور کل ادیان سماویہ غایت عظمت و احترام سے لیتے ہیں۔
۱۶۳ ۔۔۔ ۱: اس آیت میں توحید و تفویض کے سب سے اونچے مقام کا پتہ دیا گیا ہے جس پر ہمارے سید و آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فائز ہوئے۔ نماز اور قربانی کا خصوصیت سے ذکر کرنے میں مشرکین پر جو بدنی عبادت اور قربانی غیر اللہ کے لئے کرتے تھے، تصریحاً رد ہو گیا۔
۲: عموماً مفسرین "وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ" کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ اس امت محمدیہ کے اعتبار سے آپ اول المسلمین ہیں لیکن جامع ترمذی کی حدیث کنت نبیاً و اٰدم بین الروح والجسد کے موافق آپ اول الانبیاء ہیں تو اول المسلمین ہونے میں کیا شبہ ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ممکن ہے کہ یہاں اولیت زمانی مراد نہ ہو بلکہ تقدم رتبی مراد ہو۔ یعنی میں سارے جہان کے فرمانبرداروں کی صف میں نمبر اول اور سب سے آگے ہوں۔شاید مترجم محقق قدس سرہٗ نے ترجمہ میں "سب سے پہلا فرمانبردار ہوں" کی جگہ "سب سے پہلے فرمانبردار ہوں"کہہ کر اسی طرف اشارہ کیا ہو۔ کیونکہ محاورات کے اعتبار سے یہ تعبیر اولیت رتبی کے ادا کرنے میں زیادہ واضح ہے۔ واللہ اعلم۔
۱۶۴ ۔۔۔ ۱: پہلے توحید فی الالوہیت کا ذکر تھا اب توحید فی الربوبیت کی تصریح فرمائی۔ یعنی جس طرح معبود اس کے سوا کوئی نہیں، مستعان بھی کوئی نہیں ہو سکتا، کیونکہ استعانت ربوبیت عامہ پر متفرع ہے۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
۲: کفار مسلمانوں سے توحید وغیرہ میں جھگڑتے اور کہتے تھے کہ تم توحید کی راہ چھوڑ کر ہمارے راستہ پر آ جاؤ۔ اگر اس میں کوئی گناہ ہو تو وہ ہمارے سر وَقاَلَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّبِعُوا سَبِیْلَنَا وَلْنَحْمِلْ خَطَایَاکُمْ (العنکبوت، رکوع۱،آیت نمبر ۱۳) یہاں اس کا جواب دے دیا کہ ہر ایک کا گناہ اسی کے سر ہے، کوئی شخص دوسرے کے گناہوں کا بار نہیں اٹھا سکتا۔ باقی تمہارے جھگڑے اور اختلافات خدا کے یہاں جا کر سب طے ہو جائیں گے۔ یہ دنیا فیصلہ کی جگہ نہیں، امتحان و آزمائش کا گھر ہے جیسا کہ اگلی آیت میں آگاہ فرمایا۔
۱۶۵ ۔۔۔ ۱: یعنی خدا نے زمین میں تم کو اپنا نائب بنایا کہ تم اس کے دیے ہوئے اختیارات سے کام لے کر کیسے کیسے حاکمانہ تصرفات کرتے ہو، یا تم کو باہم ایک دوسرے کا نائب بنایا کہ ایک قوم جاتی ہے، تو دوسری قوم اس کی جانشین ہوتی ہے۔
۲: یعنی تمہارے آپس میں بیحد فرق مدارج رکھا۔ چنانچہ شکل و صورت، رنگت، لہجہ، اخلاق و ملکات، محاسن و مساوی، رزق، دولت، عزت و جاہ وغیرہ میں افراد انسانی کے بے شمار درجات ہیں۔
۳: یعنی ظاہر ہو جائے کہ ان حالات میں کون شخص کہاں تک خدا کا حکم مانتا ہے۔ ابن کثیر نے فِی مَا اٰتَاکُمْ سے وہ مختلف احوال و درجات مراد لئے ہیں جن میں حسب استعداد و لیاقت ان کو رکھا گیا ہے۔ اس تقدیر پر آزمایش کا حاصل یہ ہو گا کہ مثلاً غنی حالت غناء میں رہ کر کہاں تک شکر کرتا ہے اور فقیر حالت فقر میں کس حد تک صبر کا ثبوت دیتا ہے و قس علیٰ ہذا۔ بہرحال اس آزمائش میں جو بالکل نالائق ثابت ہوا۔ حق تعالیٰ اس کے حق میں سریع العقاب اور جس سے قدرے کوتاہی رہ گئی اس کے حق میں غفور اور جو پورا اترا اس کے لئے رحیم ہے۔