۳ ۔۔۔ یعنی وہ قیامت کی گھڑی جس کا آنا ازل سے علم الٰہی میں ثابت اور مقرر ہو چکا ہے جبکہ حق باطل سے بالکل واشگاف طور پر بدون کسی طرح کے اشتباہ و التباس کے جدا ہو جائے گا اور تمام حقائق اپنے پورے کمال و سبوغ کے ساتھ نمایاں ہوں گی۔ اور اس کے وجود میں جھگڑا کرنے والے سب اس وقت مغلوب و مقہور ہو کر رہیں گے۔ جانتے ہو وہ گھڑی کیا چیز ہے؟ اور کس قسم کے احوال و کیفیات اپنے اندر رکھتی ہے۔
۴ ۔۔۔ یعنی قوم "ثمود" و "عاد" نے اس آنے والی گھڑی کو جھٹلایا تھا جو تمام زمین، آسمان، چاند سورج، پہاڑوں اور انسانوں کو کوٹ کر رکھ دے گی۔ اور سخت سے سخت مخلوق کو ریزہ ریزہ کر ڈالے گی۔ پھر دیکھ لو! دونوں کا انجام کیا ہوا۔
۵ ۔۔۔ یعنی سخت بھونچال سے جو ایک نہایت ہی سخت آواز کے ساتھ آیا، سب تہ و بالا کر دیے گئے۔
۶ ۔۔۔ یعنی وہ ہوا اس قدر تیز و تند تھی جس پر کسی مخلوق کا قابو نہ چلتا تھا حتیٰ کہ فرشتے جو ہوا کے انتظام پر مسلط ہیں ان کے ہاتھوں سے نکلی جاتی تھی۔
۷ ۔۔۔ یعنی جو قوم لنگوٹ کس کر اکھاڑے میں یہ کہتی ہوئی اتری تھی۔ "مَنْ اَشَدَّ مِنَّا قُوَّۃً" (ہم سے زیادہ طاقتور کون ہے) وہ ہماری ہوا کا مقابلہ نہ کر سکی۔ اور ایسے گرانڈیل پہلوان ہوا کے تھپیڑوں سے اس طرح پچھاڑ کھا کر گرے گویا کھجور کے کھوکھلے اور بے جان تنے ہیں جن کا سر اوپر سے کٹ گیا ہو۔
۸ ۔۔۔ یعنی ان قوموں کا بیج بھی باقی رہا؟ اس طرح صفحہ ہستی سے نیست و نابود کر دی گئیں ۔
۱۰ ۔۔۔ یعنی "عاد" و "ثمود" کے بعد فرعون بہت بڑھ چڑھ کر باتیں کرتا ہوا آیا اور اس سے پہلے اور کئی قومیں گناہ سمیٹتی ہوئی آئیں (مثلاً قومِ نوح، قوم شعیب، اور قوم لوط، جن کی بستیاں الٹ دی گئی تھیں ) ان سبھوں نے اپنے اپنے پیغمبر کی نافرمانی کی، اور خدا سے مقابلے باندھے۔ آخر سب کو خدا نے بڑی سخت پکڑ سے پکڑا، اس کے آگے کسی کی کچھ بھی پیش نہ چلی۔
۱۲ ۔۔۔ یعنی نوح کے زمانہ میں جب پانی کا طوفان آیا تو بظاہر اسباب تم انسانوں میں سے کوئی بھی نہ بچ سکتا تھا۔ یہ ہماری قدرت و حکمت اور انعام و احسان تھا کہ سب منکروں کو غرق کر کے نوح کو مع اس کے ساتھیوں کے بچا لیا۔ بھلا ایسے عظیم الشان طوفان میں ایک کشتی کے سلامت رہنے کی کیا توقع ہو سکتی تھی۔ لیکن ہم نے اپنے قدرت و حکمت کا کرشمہ دکھلایا۔ تاکہ لوگ رہتی دنیا تک اس واقعہ کو یاد رکھیں اور جو کان کوئی معقول بات سن کر سمجھتے اور محفوظ رکھتے ہیں وہ کبھی نہ بھولیں کہ اللہ کا ہم پر ایک زمانہ میں یہ احسان ہوا ہے اور سمجھیں کہ جس طرح دنیا کے ہنگامہ داروگیر میں فرمانبرداروں کو نافرمان مجرموں سے علیحدہ رکھا جاتا ہے، یہ ہی حال قیامت کے ہولناک حاقہ میں ہو گا۔ آگے اسی کی طرف کلام منتقل کرتے ہیں ۔
۱۵ ۔۔۔ یعنی صور پھنکنے کے ساتھ زمین اور پہاڑ اپنے حِیّز کو چھوڑ دیں گے اور سب کو کوٹ پیٹ کر ایک دم ریزہ ریزہ کر دیا جائے گا۔ بس وہ ہی وقت ہے قیامت کے ہو پڑنے کا۔
۱۷ ۔۔۔ ۱: یعنی آج جو آسمان اس قدر مضبوط و محکم ہے کہ لاکھوں سال گزرنے پر بھی کہیں ذرا سا شگاف نہیں پڑا اس روز پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔ اور جس وقت درمیان سے پھٹنا شروع ہو گا تو فرشتے اس کے کناروں پر چلے جائیں گے۔
۲: اب عرش عظیم کو چار فرشتے اٹھا رہے ہیں جن کی بزرگی اور کلانی کا علم اللہ ہی کو ہے۔ اس دن ان چار کے ساتھ چار اور لگیں گے۔ تفسیر عزیزی میں اس عدد کی حکمتوں اور ان فرشتوں کے حقائق پر بہت دقیق و بسیط بحث کی گئی ہے۔ جس کو شوق ہو وہاں دیکھ لے۔
۱۸ ۔۔۔ یعنی اس دن اللہ کی عدالت میں حاضر کیے جاؤ گے اور کسی کی کوئی نیکی یا بدی مخفی نہ رہے گی۔ سب منظر عام پر آ جائے گی۔
۱۹ ۔۔۔ یعنی اس دن جس کا اعمال نامہ داہنے ہاتھ میں دیا گیا جو ناجی و مقبول ہونے کی علامت ہے وہ خوشی کے مارے ہر کسی کو دکھاتا پھرتا ہے کہ لو آؤ! یہ میرا اعمالنامہ پڑھو۔
۲۰ ۔۔۔ یعنی میں نے دنیا میں خیال رکھا تھا کہ ایک دن ضرور میرا حساب کتاب ہونا ہے اس خیال سے میں ڈرتا رہا اور اپنے نفس کا محاسبہ کرتا رہا آج اس کا دل خوش کن نتیجہ دیکھ رہا ہوں کہ خدا کے فضل سے میرا حساب بالکل صاف ہے۔
۲۳ ۔۔۔ جو کھڑے بیٹھے، لیٹے، ہر حالت میں نہایت سہولت سے چنے جا سکتے ہیں ۔
۲ ۴ ۔۔۔ یعنی دنیا میں تم نے اللہ کے واسطے اپنے نفس کی خواہشوں کو روکا تھا اور بھوک پیاس وغیرہ کی تکلیفیں اٹھائی تھیں ، آج کوئی روک ٹوک نہیں ، خوب رچ پچ کر کھاؤ پیو، نہ طبیعت منغّض ہو گی نہ بدہضمی نہ بیماری نہ زوال کا کھٹکا۔
۲۹ ۔۔۔ یعنی پیٹھ کی طرف سے بائیں ہاتھ میں جس کا اعمالنامہ دیا جائے گا، سمجھ لے گا کہ کم بختی آئی، اس وقت نہایت حسرت سے تمنا کرے گا کہ کاش میرے ہاتھ میں اعمالنامہ نہ دیا جاتا اور مجھے کچھ خبر نہ ہوتی کہ حساب کتاب کیا چیز ہے کاش موت میرا قصہ ہمیشہ کے لیے تمام کر دیتی۔ مرنے کے بعد پھر اٹھنا نصیب نہ ہوتا۔ یا اٹھا تو اب موت آ کر میرا لقمہ کر لیتی۔ افسوس وہ مال دولت اور جاہ و حکومت کچھ کام نہ آئی۔ آج ان میں سے کسی چیز کا پتہ نہیں ۔ نہ میری کوئی حجت اور دلیل چلتی ہے نہ معذرت کی گنجائش ہے۔
۳۲ ۔۔۔ فرشتوں کو حکم ہو گا کہ اسے پکڑو، طوق گلے میں ڈالو، پھر دوزخ کی آگ میں غوطہ دو اور اس زنجیر میں جس کا طول ستر گز ہے اس کو جکڑ دو، تاکہ جلنے کی حالت میں ذرا بھی حرکت نہ کر سکے، کہ ادھر ادھر حرکت کرنے سے بھی جلنے والا قدرے تخفیف محسوس کیا کرتا ہے (تنبیہ) گز سے وہاں کا گز مراد ہے جس کی مقدار اللہ ہی جانے۔
۳ ۴ ۔۔۔ یعنی اس نے دنیا میں رہ کر نہ اللہ کو جانا نہ بندوں کے حقوق پہچانے، فقیر محتاج کی خود تو کیا خدمت کرتا دوسروں کو بھی ادھر ترغیب نہ دی۔ پھر جب اللہ پر جس طرح چاہیے ایمان نہ لایا تو نجات کہاں ؟ اور جب کوئی بھلائی کا چھوٹا بڑا کام بن نہ پڑا تو عذاب میں تخفیف کی بھی کوئی صورت نہیں ۔
۳۵ ۔۔۔ یعنی جب اللہ کو دوست نہ بنایا تو آج اس کا دوست کون بن سکتا ہے جو حمایت کر کے عذاب سے بچا دے یا مصیبت کے وقت کچھ تسلی کی بات کرے۔
۳۷ ۔۔۔ کھانے سے بھی انسان کو قوت پہنچتی ہے مگر دوزخیوں کو کوئی ایسا مرغوب کھانا نہ ملے گا جو راحت و قوت کا سبب ہو ہاں دوزخیوں کے زخموں کی پیپ دی جائے گی جسے ان گنہگاروں کے سوا کوئی نہیں کھا سکتا اور وہ بھی بھوک پیاس کی شدت میں غلطی سے یہ سمجھ کر کھائیں گے کہ اس سے کچھ کام چلے گا۔ بعد کو ظاہر ہو گا کہ اس کا کھانا بھوک کے عذاب سے بڑا عذاب ہے (اعاذنا اللہ من سائر انواع العذاب فی الدنیا والاخرۃ)
۴۰ ۔۔۔ یعنی جو کچھ جنت و دوزخ وغیرہ کا بیان ہوا، یہ کوئی شاعری نہیں نہ کاہنوں کی اٹکل پچو باتیں ہیں ، بلکہ یہ قرآن ہے اللہ کا کلام جس کو آسمان سے ایک بزرگ فرشتہ لے کر ایک بزرگ ترین پیغمبر پر اترا، جو آسمان سے لایا وہ، اور جس نے زمین والوں کو پہنچایا، دونوں رسول کریم ہیں ایک کا کریم ہونا تو تم آنکھوں سے دیکھتے ہو۔ اور دوسرے کی کرامت و بزرگی پہلے کریم کے بیان سے ثابت ہے۔ (تنبیہ) عالم میں دو قسم کی چیزیں ہیں ۔ ایک جس کو آدمی آنکھوں سے دیکھتا ہے دوسری جو آنکھوں سے نظر نہیں آتی، عقل وغیرہ کے ذریعہ سے ان کے تسلیم کرنے پر مجبور ہے۔ مثلاً ہم کتنا ہی آنکھیں پھاڑ کر زمین کو دیکھیں ، وہ چلتی ہوئی نظر نہ آئے گی لیکن حکماء کے دلائل و براہین سے عاجز ہو کر ہم اپنی آنکھ کو غلطی پر سمجھتے ہیں اور اپنی عقل کے یا دوسرے عقلاء کی عقل کے ذریعہ سے جو اس کی ان غلطیوں کی تصحیح و اصلاح کر لیتے ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ ہم میں سے کسی کی عقل بھی غلطیوں اور کوتاہیوں سے محفوظ نہیں ۔ آخر اس کی غلطیوں کی اصلاح اور کوتاہیوں کی تلافی کس سے ہو۔ بس تمام عالم میں ایک وحی الٰہی کی قوت ہے جو خود غلطی سے محفوظ و معصوم رہتے ہوئے تمام عقلی قوتوں کی اصلاح و تکمیل کر سکتی ہے جس طرح حواس جہاں پہنچ کر عاجز ہوتے ہیں وہاں عقل کام دیتی ہے، ایسے ہی جس میدان میں عقل مجرد کام نہیں دیتی یا ٹھوکریں کھاتی ہے اس جگہ وحی الٰہی اس کی دستگیری کر کے ان بلند حقائق سے روشناس کرتی ہے۔ شاید اسی لیے یہاں "بِمَا تُبْصِرُوْنَ وَمَا لَاتُبْصِرُوْنَ" کی قسم کھائی۔ یعنی جو حقائق جنت و دوزخ وغیرہ کی پہلی آیات میں بیان ہوئی ہیں ، اگر دائرہ محسوسات سے بلند تر ہونے کی وجہ سے تمہاری سمجھ میں نہ آئیں تو اشیاء میں مبصرات وغیرہ مبصرات یا بالفاظ دیگر محسوسات وغیرہ محسوسات کی تقسیم سے سمجھ لو کہ یہ رسول کریم کا کلام ہے جو بذریعہ وحی الٰہی دائرہ حس و عقل سے بالا تر حقائق کی خبر دیتا ہے۔ جب ہم بہت سی غیر محسوس بلکہ مخالف حس چیزوں کو اپنی عقل یا دوسروں کی تقلید سے مان لیتے ہیں تو بعض بہت اونچی چیزوں کو رسول کریم کے کہنے سے ماننے میں کیا اشکال ہے۔
۴۱ ۔۔۔ یعنی قرآن کے کلام اللہ ہونے کی نسبت کبھی کبھی یقین کی کچھ جھلک تمہارے دلوں میں آتی ہے، مگر بہت کم جو نجات کے لیے کافی نہیں ۔ آخر اس کو شاعری وغیرہ کہہ کر اڑا دیتے ہو۔ کیا واقعی انصاف سے کہہ سکتے ہو کہ یہ کسی شاعر کا کلام ہو سکتا ہے اور شعر کی قسم سے ہے۔ شعر میں وزن و بحر وغیرہ ہونا لازم ہے۔ قرآن میں اس کا پتہ نہیں ۔ شاعروں کا کلام اکثر بے اصل ہوتا ہے اور اس کے اکثر مضامین محض وہمی اور خیالی ہوتے ہیں ، حالانکہ قرآن کریم میں تمام تر حقائق ثابتہ اور اصولِ محکمہ کو قطعی دلیلوں اور یقینی حجتوں کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
۴۲ ۔۔۔ یعنی پوری طرح دھیان کرو تو معلوم ہو جائے کہ یہ کسی کاہن کا کلام نہیں ۔ کاہن عرب میں وہ لوگ تھے جو بھوت پریت، جنوں اور چڑیلوں سے تعلق یا مناسب رکھتے تھے۔ وہ ان کو غیب کی بعض جزئی باتیں ایک مقضی و مسجع کلام کے ذریعہ سے بتلاتے تھے۔ لیکن جنوں کا کلام معجز نہیں ہوتا کہ ویسا دوسرا نہ کر سکے، بلکہ ایک جن کسی کاہن کو ایک بات سکھلاتا ہے دوسرا جن بھی ویسی بات دوسرے کاہن کو سکھلا سکتا ہے اور یہ کلام یعنی قرآن ایسا معجز ہے کہ سب جن و انس مل کر بھی اس کے مشابہ کلام نہیں بنا سکتے۔ دوسرے کاہنوں کے کلام میں محض قافیہ اور سجع کی رعایت کے لیے بہت الفاظ بھرتی کے بالکل بیکار اور بے فائدہ ہوتے ہیں ، اور اس کلام معجز نظام میں ایک حرف یا ایک شوشہ بھی بیکار و بے فائدہ نہیں ۔ پھر کاہنوں کی باتیں چند مبہم، جزئی اور معمولی خبروں پر مشتمل ہوتی ہیں ۔ لیکن علوم و حقائق پر مطلع ہونا اور ادیان و شرائع کے اصول و قوانین اور معاش معاد کے دستور و آئین کا معلوم کر لینا اور فرشتوں کے اور آسمانوں کے چھپے ہوئے بھیدوں پر سے آگاہی پانا ان سے نہیں ہو سکتا۔ بخلاف قرآن کریم کے وہ ان ہی مضامین سے پر ہے۔
۴۳ ۔۔۔ اسی لیے سارے جہان کی تربیت کے اعلیٰ اور محکم ترین اصول اس میں بیان ہوئے ہیں ۔
۴۷ ۔۔۔ حضرت شاہ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں "یعنی اگر جھوٹ بناتا اللہ پر تو اول اس کا دشمن اللہ ہوتا اور ہاتھ پکڑتا یہ دستور ہے گردن مارنے کا کہ جلاد اس کا داہنا ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر پکڑ رکھتا ہے تاکہ سرک نہ جائے حضرت شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ فرماتے ہیں " کہ "تقول" کی ضمیر رسول کی طرف لوٹتی ہے یعنی اگر رسول بالفرض کوئی حرف اللہ کی طرف منسوب کر دے یا اس کے کلام میں اپنی طرف سے ملا دے جو اللہ نے نہ کہا ہو تو اسی وقت اس پر یہ عذاب کیا جائے (العیاذ باللہ) کیونکہ اس کی تصدیق اور سچائی آیات بینات اور دلائل و براہین کے ذریعہ سے ظاہر کی جا چکی ہے۔ اب اگر اس قسم کی بات پر فوراً عذاب اور سزا نہ کی جائے تو وحی الٰہی سے امن اٹھ جائے گا اور ایسا التباس و اشتباہ پڑ جائے گا جس کی اصلاح ناممکن ہو جائے گی۔ جو حکمت تشریع کے منافی ہے۔ بخلاف اس شخص کے جس کا رسول ہونا آیات و براہین سے ثابت نہیں ہوا، بلکہ کھلے ہوئے قرائن و دلائل اعلانیہ اس کی رسالت کی نفی کر چکے ہیں تو اس کی بات بھی بیہودہ اور خرافات ہے کوئی عاقل اس کو درخورِ اعتناء نہ سمجھے گا اور نہ بحمد اللہ دین الٰہی میں کوئی التباس و اشتباء واقع ہو گا۔ ہاں ایسے شخص کی معجزات وغیرہ سے تصدیق ہونا محال ہے، ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو جھوٹا ثابت کرنے اور رسوا کرنے کے لیے ایسے امور بروئے کار لائے جو اس کے دعوائے رسالت کے مخالف ہوں ۔ اس کی مثال یوں سمجھو کہ جس طرح بادشاہ ایک شخص کو کسی منصب پر مامور کر کے اور سند و فرمان وغیرہ دے کر کسی طرف روانہ کرتے ہیں ۔ اب اگر اس شخص سے اس خدمت میں کچھ خیانت ہوئی یا بادشاہ پر کچھ جھوٹ باندھنا اس سے ثابت ہوا تو اسی وقت بلا توقف اس کا تدارک کرتے ہیں ۔ لیکن اگر سڑک کوٹنے والا مزدور یا جھاڑو دینے والا بھنگی بکتا پھرے کہ گورنمنٹ کا میرے لیے یہ فرمان ہے یا میرے ذریعہ سے یہ احکام دیے گئے ہیں تو کون اس کی بات پر کان دھرتا ہے اور کون اس کے دعووں سے تعرض کرتا ہے۔ بہرحال آیت ہذا میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت پر استدلال نہیں کیا گیا۔ بلکہ یہ بتلایا گیا ہے کہ قرآن کریم خالص اللہ کا کلام ہے جس میں ایک حرف یا ایک شوشہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم بھی اپنی طرف سے شامل نہیں کر سکتے۔ اور نہ باوجود پیغمبر ہونے کے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ شان ہے کہ کوئی بات اللہ کی طرف منسوب کر دیں جو اس نے نہ کہی ہو۔ تورات سفر استثناء کے اٹھارویں باب میں بیسواں فقرہ یہ ہے "لیکن وہ نبی ایسی گستاخی کرے کہ کوئی بات میرے نام سے کہے جسکے کہنے کا میں نے اُسے حکم نہیں دیا اور معبودوں کے نام سے کہے تو وہ نبی قتل کیا جائے۔" خلاصہ یہ ہے کہ جو نبی ہو گا اس سے ایسا ممکن نہیں "وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ اَہْوَاءَ ہُمْ بَعْدَالَّذِیْ جَاءَ کَ مِنَ الْعِلْمِ مَالَکَ مِنَ اللّٰہِ مِنْ وَلِیٍّ وَّلَا نَصِیْرٍ۔"
۵۰ ۔۔۔ یعنی خدا سے ڈرنے والے اس کلام کو سن کر نصیحت حاصل کریں گے اور جن کے دل میں ڈر نہیں وہ جھٹلائیں گے لیکن ایک وقت آنے والا ہے کہ یہ ہی کلام اور ان کا یہ جھٹلانا سخت حسرت و پیشمانی کا موجب ہو گا۔ اس وقت پچھتائیں گے کہ افسوس کیوں ہم نے اس سچی بات کو جھٹلایا تھا جو آج یہ آفت دیکھنی پڑی۔
۵۲ ۔۔۔ یعنی یہ کتاب تو ایسی چیز ہے جس پر یقین سے بھی بڑھ کر یقین رکھا جائے کیونکہ اس کے مضامین سرتاپا سچ اور ہر طرح کے شک و شبہ سے بالاتر ہیں ۔ لازم ہے کہ آدمی اس پر ایمان لا کر اپنے رب کی تسبیح و تحمید میں مشغول ہو۔