۲ ۔۔۔ ۱: ابن عباس رضی اللہ عنہ نے "حرج"کی تفسیر شک سے کی ہے گویا فَلاَ یَکُنْ فِی صَدْرِکَ حَرَجٌ فَلاَ تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ کے ہم معنی ہو گا۔ یعنی پیغمبر جس پر خدا نے اپنی کتاب نازل فرمائی اس کی شان یہ نہیں کہ ذرا سا بھی کھٹکا یا شک و شبہ کتاب کے احکام و اخبار کے متعلق اس کے دل میں راہ پائے۔ دوسرے مفسرین نے الفاظ کو ان کے ظاہر پر رکھا۔ جیسا کہ مترجم محقق نے اختیار فرمایا ہے۔ یعنی تمام خلائق میں سے چن کر جس پر خدا نے اپنی کتاب اتاری اسے لائق نہیں کہ احمقوں اور معاندین کے طعن و تشنیع یا بیہودہ سوالات سے متاثر ہو کر اس کتاب کے کسی حصہ کی تبلیغ سے منقبض اور تنگ دل ہو فَلَعَلَّکَ تَارِکٌ بَعَضَ مَایُوْحٰ اِلَیْکَ وَضَآئِقٌ بِہٖ صَدْرُکَ اَن یَّقُولوُا لَوْ لاَ اُنْزِلَ عَلَیْہِ کَنْزٌ اَوْجَاءَ مَعَہ مَلَکٌ (ہود، رکوع۳،آیت نمبر ۱۳) اگر بفرض محال خود پیغمبر کے دل میں کتاب اور اس کے مستقبل کی طرف سے نہایت کامل وثوق و انشراح حاصل نہ ہو، تو وہ اپنے فرض انذار و تذکیر کو کس طرح قوت و جرأت کے ساتھ ادا کر سکے گا۔
۲: یعنی کتاب کے اتارنے سے غرض یہ ہے کہ تم ساری دنیا کو اس کے مستقبل سے آگاہ کر دو اور بدی کے انجام سے ڈراؤ اور ایمان لانے والوں کے حق میں خاص طور پر یہ ایک مؤثر پیغام نصیحت ثابت ہو۔
۳ ۔۔۔ آدمی اگر حق تعالیٰ کی تربیت عظیم، اپنے آغاز و انجام اور طاعت و معصیت کے نتائج پر پوری طرح دھیان کرے تو اس کو کبھی جرأت نہ ہو کہ اپنے رب کریم کی اتاری ہوئی ہدایات کو چھوڑ کر شیاطین الانس و الجن کی رفاقت میں انہی کے پیچھے چلنا شروع کر دے۔ گذشتہ اقوام میں سے جنہوں نے خدا کی کتابوں اور پیغمبروں کے مقابلہ پر ایسا رویہ اختیار کیا، ان کو جو دنیاوی سزا ملی، وہ آگے مذکور ہے۔
۵ ۔۔۔ یعنی جب ان کے ظلم و عدوان اور کفر و عصیان کی حد ہو چکی، تو دنیا کی لذات و شہوات میں منہمک اور عذاب الٰہی سے بالکل بے فکر ہو کر خواب استراحت کے مزے لینے لگے کہ یکایک ہمارے عذاب نے آدبوچا۔ پھر ہلاکت آفرینیوں کے اس دہشت ناک منظر اور ہنگامہ دارو گیر میں ساری طمطراق بھول گئے چاروں طرف سے اِنَّا کُنَّا ظَالِمِیْنَ کی چیخ پکار کے سوا کچھ سنائی نہ دیتا تھا۔ گویا اس وقت انہیں واضح ہوا اور اقرار کرنا پڑا کہ خدا کسی پر ظلم نہیں کرتا ہم خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں (تنبیہ) فَجَاءَھَا بَاْسُنَا کی ائ" میں مفسرین کے کئی قول ہیں، غالباً مترجم محقق قدس سرہٗ نے اس کو اَھْلَکْنٰھَاکی تفسیر و تفصیل قرار دیا ہے جیسے کہا جائے توضّاً فغسلَ وَجْھَہٗ وذراعَیْہِ (فلاں شخص نے وضو کیا تو دھویا چہرہ اور ہاتھ وغیرہ) اس مثال میں منہ ہاتھ دھونا وضو کرنے ہی کی تفصیل و تفسیر ہے۔ اس طرح یہاں ہلاک کرنے کی تفسیر و تفصیل کیفیت عذاب کے بیان سے ہو گئی۔ واللہ اعلم۔
۶ ۔۔۔ جن امتوں کی طرف پیغمبر مبعوث ہوئے، ان سے سوال ہو گا مَاذَا اَجَبْتُمُ الْمُرْسَلِیْنَ (تم نے ہمارے پیغمبروں کی دعوت کو کہاں تک قبول کیا تھا؟) اور خود پیغمبروں سے پوچھیں گے مَاذَا اُجِبْتُمْ (تم کو امت کی طرف سے کیا جواب ملا تھا؟)
۷ ۔۔۔ یعنی تمہارا کوئی جلیل و حقیر اور قلیل و کثیر عمل یا ظاہری و باطنی حال ہمارے علم سے غائب نہیں۔ ہم بلا توسط غیرے ذرہ ذرہ سے خبردار ہیں۔ اپنے اس علم ازلی محیط کے موافق سب اگلے پچھلے احوال تمہارے سامنے کھول کر رکھ دیں گے۔ ملائیکۃ اللہ کے لکھے ہوئے اعمال نامے بھی علم الٰہی کے سرمو خلاف نہیں ہو سکتے ان کے ذریعہ سے اطلاع دینا محض ضابطہ کی مراعات اور نظام حکومت کا مظاہرہ ہے، ورنہ خدا اپنے علم میں ان ذرائع کا (معاذاللہ) محتاج نہیں ہو سکتا۔
۹ ۔۔۔ ۱: قیامت کے دن سب لوگوں کے اعمال کا وزن دیکھا جائے گا۔ جن کے اعمال قلبیہ و اعمال جوارح وزنی ہوں گے وہ کامیاب ہیں اور جن کا وزن ہلکا رہا وہ خسارہ میں رہے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ "شخص کے عمل وزن کے موافق لکھے جاتے ہیں۔ ایک ہی کام ہے، اگر اخلاص و محبت سے حکم شرعی کے موافق کیا۔ اور برمحل کیا، تو اس کا وزن بڑھ گیا اور دکھاوے کو یا ریس کو کیا یا موافق حکم نہ کیا یا ٹھکانے پر نہ کیا تو وزن گھٹ گیا۔ آخرت میں وہ کاغذ تلیں گے جس کے نیک کام بھاری ہوئے تو برائیوں سے درگزر ہوا اور ہلکے ہوئے تو پکڑا گیا" بعض علماء کا خیال ہے کہ اعمال جو اس وقت اعراض ہیں، وہاں اعیان کی صورت میں مجسد کر دیے جائیں گے۔ اور خود ان ہی اعمال کو تولا جائے گا۔ کہا جاتا ہے کہ ہمارے اعمال تو غیر قارالذات اعراض ہیں جن کا ہر جزء وقوع میں آنے کے ساتھ ہی ساتھ معدوم ہوتا رہتا ہے۔ پھر ان کا جمع ہونا تلنا کیا معنی رکھتا ہے؟ میں کہتا ہوں کہ گراموفون میں آجکل لمبی چوڑی تقریریں بند کی جاتی ہیں، کیا وہ تقریریں اعراض میں سے نہیں؟ جن کا ایک حرف ہماری زبان سے اس وقت ادا ہو سکتا ہے جب اس سے پہلا حرف نکل کر فنا ہو جائے پھر یہ تقریر کا سارا مجموعہ گراموفون میں کس طرح جمع ہو گیا؟ اسی سے سمجھ لو کہ جو خدا گراموفون کے موجد کا بھی موجد ہے اس کی قدرت سے کیا بعید ہے کہ ہمارے کل اعمال کے مکمل ریکارڈ تیار رکھے جس میں سے ایک شوشہ اور ذرہ بھی غائب نہ ہو۔ رہا ان کا وزن کیا جانا تو نصوص سے ہم کو اس قدر معلوم ہو چکا ہے کہ وزن ایسی میزان (ترازو) کے ذریعہ سے ہو گا جس میں کفتین اور لسان وغیرہ موجود ہیں لیکن وہ میزان اور اس کے دونوں پلے کس نوعیت و کیفیت کے ہوں گے اور اس سے وزن معلوم کرنے کا کیا طریقہ ہو گا؟ ان باتوں کا احاطہ کرنا ہماری عقول و افہام کی رسائی سے باہر ہے۔ اسی لئے ان کے جاننے کی ہمیں تکلیف نہیں دی گئی۔ بلکہ ایک میزان کیا اس عالم کی جتنی چیزیں ہیں بجز اس کے کہ ان کے نام ہم سن لیں اور ان کا کچھ اجمالی سا مفہوم جو قرآن و سنت نے بیان کر دیا ہو عقیدہ میں رکھیں، اس سے زائد تفصیلات پر مطلع ہونا ہماری حد پرواز سے خارج ہے۔ کیونکہ جن نوامیس و قوانین کے ما تحت اس عالم کا وجود اور نظم و نسق ہو گا، ان پر ہم اس عالم میں رہتے ہوئے کچھ دسترس نہیں پا سکتے۔ اسی دنیا کی میزانوں کو دیکھ لو کتنی قسم کی ہیں۔ ایک میزان وہ ہے جس سے سونا چاندی یا موتی تلتے ہیں۔ ایک میزان سے غلہ اور سوختہ وزن کیا جاتا ہے۔ ایک میزان عام ریلوے اسٹیشنوں پر ہوتی ہے جس سے مسافروں کا سامان تولتے ہیں۔ ان کے سوا "مقیاس الہوا" یا "مقیاس الحرارت" وغیرہ بھی ایک طرح کی میزانیں ہیں جن سے ہوا اور حرارت وغیرہ کے درجات معلوم ہوتے ہیں۔ تھرما میٹر ہمارے بدن کی اندرونی حرارت کو جو اعراض میں سے ہے تول کر بتلاتا ہے کہ اس وقت ہمارے جسم میں اتنے ڈگری حرارت پائی جاتی ہے۔ جب دنیا میں بیسیوں قسم کی جسمانی میزانیں ہم مشاہدہ کرتے ہیں جن سے اعیان و اعراض کے اوزان ودرجات کا تفاوت معلوم ہوتا ہے تو اس قادر مطلق کے لئے کیا مشکل ہے کہ ایک ایسی حسّی میزان قائم کر دے جس سے ہمارے اعمال کے اوزان و درجات کا تفاوت صورۃً و حسّاً ظاہر ہوتا ہو۔
۲: اور آیات کا انکار کرنا ہی ان کی حق تلفی ہے جسے یظلمون سے ادا فرمایا ہے۔
۱۰ ۔۔۔ یہاں سے بعض آیات آفاقیہ و انفسیہ کا بیان شروع کیا ہے جس سے ایک طرف حق تعالیٰ کے وجود پر کارخانہ عالم کے حکیمانہ نظم ونسق سے استدلال اور احسانات و انعامات الٰہیہ کا تذکرہ فرما کر اس کی شکر گذاری کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور دوسری طرف نبوت کی ضرورت انبیاء علیہم السلام کی آمد، ان کی سیرت، ان کے متبعین و مخالفین کا انجام جو اس سورت کا اصلی موضوع معلوم ہوتا ہے، اس کے بیان کے لئے یہ آیات بطور توطیہ و تمہید کے مقدم کی گئی ہیں۔
۱۳ ۔۔۔ ۱: یعنی تمہاری تخلیق سے پہلے رہنے سہنے اور کھانے پینے کا سامان کیا۔ پھر تمہارا مادہ پیدا فرمایا۔ پھر اس مادہ کو ایسا دلکش نقشہ اور حسین و جمیل صورت عطا کی جو کسی دوسری مخلوق کو عطا نہ کی گئی تھی۔ پھر اس تصویر خاکی کو وہ روح اور حقیقت مرحمت ہوئی جس کی بدولت تمہارے باپ آدم علیہ السلام جن کا وجود تمام افراد انسانی کے وجود پر اجمالاً مشتمل تھا۔ "خلیفتہ اللہ" و "مسجود ملائکہ" بنے۔ پھر جس نے اس وقت سجود تعظیمی سے سرتابی کی وہ مردود ازلی ٹھہرا کیونکہ وہ سجود خلافت الٰہیہ کے نشان کے طور پر تھا "ملائیکۃ اللہ" جو بحث و تمحیص اور صریح امتحان کے بعد آدم کی علمی فضیلت اور روحانی کمالات پر مطلع ہو چکے تھے حکم الٰہی سنتے ہی سجدہ میں گر پڑے اور اس طرح خلیفۃ اللہ کے روبرو اپنے پروردگار حقیقی کی کامِل وفا شعاری اور اطاعت پذیری کا ثبوت دیا اور ابلیس لعین جو ناری الاصل جنی مگر کثرت عبادت وغیرہ کی وجہ سے زمرہ ملائکہ میں شامل ہو گیا تھا، آخرکار اپنی اصل کی طرف لوٹا۔ اس کی نظر آدم کی مادی ساخت سے نفخت فیہ من روحی کے راز تک تجاوز نہ کر سکی۔ اسی لئے صریح حکم الٰہی کے مقابلہ پر انا خیر منہ خلقتنی من نار وخلقتہ من طین کا دعویٰ کرنے لگا۔ آخر اسی اباء و استکبار اور نص صریح قاطع کو محض رائے و ہوا سے رد کر دینے اور خدا سے بحث و مناظرہ ٹھان لینے کی پاداش میں ہمیشہ کے لئے مرتبہ قرب سے نیچے گرا دیا اور رحمت الٰہیہ سے بہت دور پھینک دیا گیا۔ فی الحقیقت جس چیز پر اسے بڑا فخر تھا کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے، وہ ہی اس کی ہلاکت ابدی کا سبب ہوئی۔ آگ کا خاصہ خفت و حدت، سرعت و طیش اور علو و افساد ہے بخلاف مٹی کے کہ اس میں مستقل مزاجی، متانت اور متواضعانہ حلم و تثبت پایا جاتا ہے۔ ابلیس جو ناری الاصل تھا سجدہ کا حکم سن کر آگ بگولا ہو گیا اور رائے قائم کرنے میں تیزی اور جلد بازی دکھلائی۔ چنانچہ ان کی استقامت و انابت نے ثُمَّ اجْتَبٰہُ رَبُّہٗ فَتَابَ عَلَیہ وَھَدیٰ کا نتیجہ پیدا کیا۔ اسی لئے کہا جا سکتا ہے کہ ابلیس لعین نے مادی و عنصری لحاظ سے بھی اپنی تفصیل کے دعوے میں ٹھوکر کھائی۔ چنانچہ حافظ شمس الدین ابن القیم نے بدائع لغوائد میں پندرہ وجوہ سے مٹی کا آگ سے افضل ہونا ثابت کیا ہے۔ من شآء فلیر جعہ۔
۲: یعنی جنت میں یا آسمانوں پر خدا کی مخلوق رہ سکتی ہے جو خدا کی پوری مطیع و فرمانبردار ہو، نا فرمان متکبروں کے لئے وہاں گنجائش نہیں، بہرحال ابلیس لعین عزت کے اس مقام سے جس پر کثرت عبادت وغیرہ کی وجہ سے اب تک فائز تھا، بڑا بول بولنے کی بدولت نیچے دھکیل دیا گیا (تنبیہ) ابلیس کے مدت دراز تک زُمرہ ملائکہ میں شامل رکھنے سے متنبہ کر دیا ہے کہ حق تعالیٰ نے مکلفین میں کسی کی فطرت حتیٰ کہ شیطان کی بھی ایسی نہیں بنائی کہ وہ صرف بدی کی طرف جانے کے لئے مجبور و مضطر ہو جائے بلکہ خبیث سے خبیث ہستی بھی اصل فطرت کے اعتبار سے اس کی صلاحیت رکھتی ہے کہ اپنے کسب و اختیار سے نیکی اور پرہیزگاری میں انتہائی ترقی کر کے زمرہ ملائکہ میں جا ملے۔
۱۵ ۔۔۔ یعنی جب تو نے یہ درخواست کی تو سمجھ لے کہ یہ پہلے سے علم الٰہی میں طے شدہ ہے کہ تجھ کو مہلت دی جائے۔ جب حکمت الٰہیہ مقتضی ہوئی کہ حق تعالیٰ اپنی صفات کمالیہ و شہنشاہانہ عظمت و جبروت کا مظاہرہ کرے تو اس نے عالم کو پیدا فرمایا۔ اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَھُنَّ یَتَنَزَّلُ اْلاَمْرُ بَیْنَھُنَّ لِتَعْلَمُوْآ اَنَّ اللّٰہَ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ وَّاَنَّ اللّٰہَ قَدْ اَحَاطَ بِکُلِّ شَیْءٍ عِلْمًا (الطلاق، رکوع۳،آیت نمبر ۱۳) یعنی زمین و آسمان کی تخلیق اور ان کے کل نظم و نسق سے مقصود یہ ہے کہ خدا کی قدرت کاملہ اور علم محیط وغیرہ صفات کی معرفت لوگوں کو حاصل ہو۔ اسی معرفت الٰہیہ کو آیت وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدْونِ میں بعض سلف کی تفسیر کے موافق عبادت سے تعبیر فرمایا ہے اور ظاہر ہے کہ تخلیق عالم سے یہ غرض بوجہ اتم جب ہی پوری ہو سکتی ہے کہ مخلوقات میں اس کی ہر قسم کی صفات و کمالات کا اظہار ہو، اور یہ جب ہی ہو سکتا ہے کہ عالم میں مطیع و وفادار اور باغی و مجرم ہر قسم کی مخلوق موجود ہو۔ نیز اعداء اللہ کو پوری زور آزمائی اور ان کے پیدائشی اختیار و قوت کے تمام وسائل استعمال کرنے کی آخری حد تک مہلت و آزادی دی جائے پھر انجام کار حکومت الٰہیہ کا لشکر غالب ہو، دشمن اپنے کیفر کردار کو پہنچیں اور بعد امتحان آخری کامیابی دوستوں کے ہاتھ رہے، اس کے بدون کل صفات کمالیہ کے ظاہر ہونے کی صورت نہیں۔ پس خیر و شر اور منبع خیر و شر کا پیدا کرنا، اسی حکمت سے ہے کہ جو غرض تخلیق عالم کی ہے یعنی "صفات کمالیہ کا مظاہرہ" وہ بغیر اس کے پوری نہ ہو سکتی تھی وَلَوْشَا رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّلاَ یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَ اِلاَّ مَنْ رَّحِمَ رَبُّکَ وَلِذٰلِکَ خَلَقَھُمْ (ہود، رکوع۱۰،آیت نمبر ۱۱۹،۱۱۸) اسی لئے ضروری ہوا کہ عدو اکبر ابلیس لعین کو جو منبع شر ہے پوری مہلت دی جائے کہ وہ تا قیام قیامت اپنے قویٰ و وسائل کو جی کھول کر استعمال کر لے لیکن یہ چیز ظاہر ہے کہ براہ راست اس محیط کل اور قادر مطلق کے مقابلہ پر ممکن نہ تھی، اس لئے ضروری ہوا کہ خدا کی طرف سے بطور نیابت و خلافت ایک ایسی مخلوق مقابلہ پر لائی جائے جس سے ابلیس لعین کو آزادی کے ساتھ جنگ آزمائی کا موقع مل سکے۔ وَاَجْلِبْ عَلَیْھِمْ بِخَیْلِکَ وَرَجِلِکَ وَشَارِکْھُمْ فِی اْلاَمْوَالِ وَالْاَوْلاَدِ وَعِدْھُمْ وَمَا یَعِدُھُمُ الشَّیْطٰانُ اِلاَّغُرُوْرًا (بنی اسرائیل، رکوع۷،آیت نمبر ۶۴) اور پھر جب تک وہ مخلوق حق نیابت اور وظیفہ خلافت ادا کرتی رہے، خاص شاہی فوج (ملائکہ) سے اس کو کمک پہنچائی جائے اور باوجود ضعف و قلت کے اپنے فضل رحمت سے انجام کار دشمنوں کے مقابلہ میں مظفر و منصور کیا جائے۔ پس خوب سمجھ لو کہ یہ زمین ابلیس اور آدم کا میدان جنگ ہے اور چونکہ پوری طرح جان توڑ مقابلہ اسی وقت ہو سکتا تھا کہ دونوں حریف ایک دوسرے سے خار کھائے ہوں اس لئے تکویناً دو صورتیں ایسی پیش آ گئیں جن سے ہر ایک کے دل میں دوسرے کی دشمنی جاگزیں ہو جائے۔ ابلیس آدم کو سجدہ نہ کرنے کی بناء پر نیچے گرایا گیا اور آدم کو ابلیس کی وسوسہ اندازی کی بدولت جنت سے علیحدہ ہونا پڑا۔ ان واقعات سے ہر ایک کے دل میں دوسرے کی عداوت کی جڑ قائم ہو کر معرکہ کار زار گرم ہو گیا۔ والحرب سجال وانما العبرۃ للخواتیم۔
۱۶ ۔۔۔ یعنی رہزنوں کی طرح ان کے ایمانوں پر ڈاکہ مارونگا جن کے سبب مجھے یہ روز بد دیکھنا پڑا۔
۱۷ ۔۔۔ ۱: یعنی ہر طرف سے ان پر حملہ آور ہونگا۔ جہات اربعہ کا ذکر تعمیم جہات کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ہے۔
۲: یہ ابلیس لعین کا تخمینہ تھا جو صحیح نکلا۔ وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَیْھِمْ اِبْلِیْسُ ظَنَّہٗ فَاتَّبَعُوْہُ اِلاَّ فَرِیْقًا مِّنَ اْلمُؤْمِنِیْنَ (سبا، رکوع۳،آیت نمبر ۳۰)
۱۸ ۔۔۔ یعنی اکثر آدمی ناشکرے ہوں گے تو ہمارا کیا بگاڑیں گے۔ انجام کار ان ہی تھوڑے وفاداروں کے لئے کامیابی اور فلاح ہو گی اور ناشکروں کی کثرت دوزخ کی نذر ہو جائے گی۔ گویا اس طرح واضح کر دیا جائے گا کہ جنود الشیطان کی اس قدر کثرت بھی "خلیفۃ اللہ "کے قلیل التعداد لشکر کو مغلوب و مقہور نہیں کر سکی۔
۱۹ ۔۔۔ آدم و حوا کو اجازت تھی کہ بلا روک ٹوک جو چاہیں کھائیں پئیں۔ بجز ایک معین درخت کے جس کا کھانا ان کی بہشتی زندگی اور استعداد کے مناسب نہ تھا، اسے فرما دیا کہ اس کے پاس نہ جاؤ ورنہ نقصان اٹھاؤ گے میرے نزدیک یہاں فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ کا ترجمہ اگر یوں کیا جاتا تو زیادہ موزوں ہوتا " پھر ہو جاؤ گے تم نقصان اٹھانے والوں میں سے۔" ظلم کے معنی نقصان اور کمی و کوتاہی کے آتے ہیں جیسا کہ وَلَمْ تَظْلِمْ مِّنْہُ شَیْئًا (کہف) میں۔
۲۲ ۔۔۔ ۱: آدم و حوا شیطان کی قسموں سے متاثر ہوئے کہ خدا کا نام لے کر کون جھوٹ بولنے کی جرأت کر سکتا ہے، شاید وہ یہ سمجھے کہ واقعی اس کے کھانے سے ہم فرشتے بن جائیں گے، یا پھر کبھی فنا نہ ہوں گے۔ اور حق تعالیٰ نے جونہی فرمائی تھی اس کی تعلیل یا تاویل کر لی ہو گی، لیکن غالباً فَتَکُوْنَا مِنَ الظَّالِمِیْنَ اور اِنَّ ھٰذَا عَدُوٌّلَّکَ وَلِزَوْجِکَ فَلاَ یُخْرِجَنَّکُمَا مِنَ الْجَنَّۃِ فَتَشْقیٰ وغیرہ سے نسیان ہوا، اور یہ بھی خیال نہ رہا کہ جب وہ مسجود ملائکہ بنائے جا چکے، پھر ملک بننے کی کیا ضرورت رہی۔ فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْلَہ عَزْمًا (طہٰ، رکوع۶،آیت ۱۱۵) واضح ہو کہ امر و نہی کبھی تو تشریعاً ہوتے ہیں اور کبھی شفقۃً۔ اس کو یوں سمجھو کہ مثلاً ایک تو ریل میں بدون ٹکٹ سفر کرنے کی ممانعت ہے یہ تو قانونی حیثیت رکھتی ہے جس کا اثر کمپنی کے حقوق پر پڑتا ہے اور ایک جو گاڑیوں میں لکھا ہوتا ہے کہ "مت تھوکو کہ اس سے بیماری پھیلتی ہے۔ "یہ نہی شفقۃً ہے جیسا کہ بیماری پھیلنے کی تعلیل سے ظاہر ہے۔ اسی طرح خدا کے اوامر و نواہی بعض تشریعی ہیں جن کی خلاف ورزی کرنے والا قانونی مجرم سمجھا جاتا ہے اور جن کا ارتکاب کرنا ان حقوق کے منافی ہے جن کی حفاظت کرنا تشریع کا منشا تھا۔ دوسرے وہ اوامر و نواہی ہیں جن کا منشا تشریع نہیں محض شفقت ہے جیسا کہ طب نبوی صلی اللہ علیہ و سلم وغیرہ کی بہت سی احادیث میں علماء نے تصریح کی ہے۔شاید آدم علیہ السلام نے اکل شجرہ کی ممانعت کو نہی شفقت سمجھا، اسی لئے شیطان کی وسوسہ اندازی کے بعد اس کی خلاف ورزی کرنے کو زیادہ بھاری خیال نہ کیا۔ مگر چونکہ انبیاء علیہم السلام کی چھوٹی سی لغزش بھی ان کے مرتبہ قرب کے لحاظ سے عظیم و ثقیل بن جاتی ہے اس لئے اپنی غلطی کا ظاہری نقصان اٹھانے کے علاوہ مدت دراز تک توبہ و استغفار میں مشغول گریہ و بکا رہے آخرکار ثُمَّ اجْتَبٰہُ رَبُّہٗ فَتَابَ عَلَیْہِ وَھَدیٰ کے نتیجہ پر پہنچ گئے
بود آدم دیدہ نور قدیم ۔۔۔۔ موئے دردیدہ بود کوہ عظیم۔
۲: یعنی عدول حکمی کرا کر لباس بہشتی ان پر سے اتروا دیا۔ کیونکہ جنتی لباس حقیقت میں لباس تقویٰ کی ایک محسوس صورت ہوتی ہے کسی ممنوع کے ارتکاب سے جس قدر لباس تقویٰ میں رخنہ پڑے گا اسی قدر جنتی لباس سے محرومی ہو گی۔ غرض شیطان نے کوشش کی عصیان کرا کر آدم کے بدن سے بطریق مجازات جنت کا خلعت فاخرہ اتروا دے۔ یہ میرا خیال ہے۔ لیکن حضرت شاہ صاحب نے نزع لباس کو اکل شجرہ کے ایک طبعی اثر کے طور پر لیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ "حاجت استنجا اور حاجت شہوت جنت میں نہ تھی ان کے بدن پر کپڑے تھے جو کبھی اترتے نہ تھے کیونکہ حاجت اتارنے کی نہ ہوتی تھی، آدم و حوا اپنے اعضاء سے واقف نہ تھے جب یہ گناہ ہوا تو لوازم بشری پیدا ہوئے اپنی حاجت سے خبردار ہوئے اور اپنے اعضاء دیکھے۔" گویا اس درخت کے کھانے سے جو پردہ انسانی کمزوریوں پر پڑا تھا وہ اٹھ گیا "سوأۃ" کے لغوی معنی میں بہت وسعت ہے قابیل ہابیل کے قصہ میں "سَوَئَۃَ اَخِیْہِرمایا اور حدیث میں ہے "اِحْدیٰ سَوْءَ تِکَ یَا مِقْدَادُ" اب تک آدم کی نظر میں صرف اپنی سادگی اور معصومیت اور ابلیس کی نظر میں صرف اس کی خلقی کمزوریاں تھیں لیکن اکل شجرہ کے بعد آدم کو اپنی کمزوریاں پیش نظر ہو گئیں اور جب اس غلطی کے بعد انہوں نے توبہ و انابت اختیار کی تو ابلیس لعین کو ان کے اعلیٰ کمال اور انتہائی نجابت اور شرافت کا مشاہدہ ہو گیا۔ اس نے سمجھ لیا کہ یہ مخلوق لغزش کھا کر بھی میری مار کھانے والی نہیں۔ اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْھِمْ سُلْطَانٌ شاید اسی لحاظ سے تورات میں ابن قتیبہ صاحب معارف کی نقل کے موافق اس درخت کو "شجرۃ علم الخیر و الشر"سے موسوم کیا گیا ہے۔ واللہ اعلم۔
۳: یعنی برہنہ ہو کر شرمائے اور پتوں سے بدن ڈھانپنے لگے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ آدمی پیدائش کے وقت ننگا ہوتا ہے مگر فطری حیا مانع ہے کہ ننگا رہے۔
۲۴ ۔۔۔ مفسرین کے نزدیک یہ خطاب آدم و حوا اور ابلیس لعین سب کو ہے کیونکہ اصل عداوت آدم اور ابلیس کی ہے اور اس عداوت کا دنگل ہماری زمین بنائی گئی جس کی خلافت آدم کو سپرد ہوئی تھی۔
۲۵ ۔۔۔ یعنی عموماً تمہارا مسکن اصلی و معتاد یہ ہی زمین ہے۔ اگر خرق عادت کے طور پر کوئی شخص کسی وقت ایک معین مدت کے لئے اس سے اوپر اٹھا لیا جائے مثلاً حضرت مسیح علیہ السلام، تو وہ اس آیت کے منافی نہیں۔ کیا جو شخص چند روز یا چند گھنٹے کے لئے زمین سے جدا ہو کر ہوائی جہاز میں مقیم ہو یا فرض کیجئے وہیں مر جائے وہ فِیْھَا تَحْیَوْنَ وَ فِیْھَا تَمُوْتُوْنَ کے خلاف ہو گا۔ کیونکہ وہ اس وقت زمین پر نہیں ہے۔ دوسری جگہ ارشاد ہے مِنْھَا خَلَقْنَاکُمْ وَ فِیْھَا نُعِیْدُکُمْ وَ مِنْھَا نُخْرِجُکُمْ جو اموات زمین میں مدفون نہ ہوں ان کو فیھا نعیدکم الخ میں کیسے داخل کیا جائے گا معلوم ہوا کہ اس قسم کے قضایا کلیہ کے رنگ میں استعمال نہیں ہوئے۔
۲۶ ۔۔۔ ۱: اتارنے سے مراد اس کا مادہ وغیرہ پیدا کرنا اور اس کے تیار کرنے کی تدبیر بتلانا ہے گو اتارنے کا لفظ اکثر اس موقع پر بولتے ہیں جہاں ایک چیز کو اوپر سے نیچے لایا جائے مگر بہت دفعہ اس سے مکانی فوق و تحت مراد نہیں ہوتا۔ بلکہ جو مرتبہ کے اعتبار سے اونچا ہو، اس کی طرف سے کوئی چیز نیچے والوں کو عطا کئے جانے پر بھی یہ لفظ اطلاق کیا جاتا ہے۔ جیسے فرمایا وَاَنْزَلَ لَکُمْ مِّنَ الْاَنْعَامِ ثَمَانِیَۃَ اَزْوَاجٍ یا وَاَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْہِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ۔
۲: یعنی اس ظاہری لباس کے علاوہ جس سے صرف بدن کا تستّر یا تزیّن ہوتا ہے ایک معنوی پوشاک بھی ہے جس سے انسان کی باطنی کمزوریاں جن کے ظاہر کرنے کی اس میں استعداد پائی جاتی تھی پردہ خفا میں رہتی ہیں، منصّہ ظہور و فعلیت پر نہیں آنے پاتیں اور یہ ہی معنوی پوشاک جسے قرآن نے لباس التقویٰ فرمایا، باطن کی زینت و آرائش کا ذریعہ بنتی ہے۔ بلکہ اگر غور کیا جائے تو ظاہری بدنی لباس بھی اسی باطنی لباس کو زیب تن کرنے کے لئے شرعاً مطلوب ہوا ہے۔ حضرت شاہ صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ دشمن نے جنت کے کپڑے تم سے اتروائے پھر ہم نے تم کو دنیا میں تدبیر لباس کی سکھا دی۔ اب وہ ہی لباس پہنو جس میں پرہیزگاری ہو، یعنی مرد لباس ریشمی نہ پہنے اور دامن دراز نہ رکھے اور جو منع ہوا ہے سو نہ کرے اور عورت بہت باریک نہ پہنے کہ لوگوں کو بدن نظر آوے اور اپنی زینت نہ دکھاوے۔
۳: یعنی ان نشانات میں غور کر کے حق تعالیٰ کے قادرانہ انعام و اکرام کے معترف اور شکر گزار ہوں۔
۲۷ ۔۔۔ ۱: اخراج و نزاع کی اضافت ان کے سبب کی طرف کی گئی یعنی آدم و حوا کو جنت سے علیحدہ کرنے اور کپڑے اتارے جانے کا سبب وہ ہوا۔ اب تم اس کے فریب میں مت آؤ اور اس کی مکاریوں سے ہوشیار رہو۔
۲: یعنی جو دشمن ہم کو اس طرح دیکھ رہا ہو کہ ہماری نظر اس پر نہ پڑے اس کا حملہ سخت خطرناک اور مدافعت سخت دشوار ہوتی ہے۔ اس لئے تم کو بہت مستعد و بیدار رہنا چاہئے۔ ایسے دشمن کا علاج یہ ہی ہے کہ ہم کسی ایسی ہستی کی پناہ میں آ جائیں جو اسے دیکھتی ہے پر وہ اسے نہیں دیکھتا۔ لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ وَھُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ وَ ھُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ۔ (تنبیہ) اِنَّہ یَرٰکُمْ ھُوَ وَ قَبِیْلُہ مِنْ حَیْثُ لَا تَرَوْنَھُمْ قضیہ مطلقہ ہے دائمہ نہیں یعنی بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ وہ ہم کو دیکھتے ہیں اور ہم ان کو نہیں دیکھتے۔ اس کہنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ کسی وقت بھی کوئی شخص کسی صورت میں ان کو نہ دیکھ سکے۔ پس آیت سے رویت جن کی بالکلیہ ہی نفی پر استدلال کرنا کوتاہ نظری ہے۔
۳: یعنی جب انہوں نے اپنی بے ایمانی سے خود شیاطین کی رفاقت کو اپنے لئے پسند کر لیا۔ جیسا کہ چند آیات کے بعد آرہا ہے۔ اَنَّھُمُ اتَّخَذُوا الشَّیٰطِیْنَ اَوْلِیَاءَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ مُّھْتَدُوْنَ تو ہم نے بھی اس انتخاب میں مزاحمت نہیں کی۔ جس کو انہوں نے اپنا رفیق بنانا چاہا اسی کو رفیق بنا دیا گیا۔
۲۸ ۔۔۔ یعنی برے اور بے حیائی کے کاموں مثلاً مرد و عورت کا برہنہ طواف کرنا، جو ان آیات کی شان نزول ہے جن سے عقل سلیم اور فطرت صحیحہ نفرت کرتی ہے۔ خدائے قدوس کی شان نہیں کہ ان کی تعلیم دے وہ تو پاکی اور حیا کا سرچشمہ ہے۔ گندے اور بے حیائی کے کاموں کا حکم کیسے دے سکتا ہے اصل میں بے حیائی اور برائی کی تعلیم دینے والے وہ شیاطین ہیں جن کو انہوں نے اپنا رفیق بنا رکھا ہے۔ دیکھو تمہارے سب سے پہلے ماں باپ کو شیطان نے فریب دیکر برہنہ کرایا۔ مگر وہ شرم و حیاء کے مارے درختوں کے پتے بدن پر لپیٹنے لگے معلوم ہوا کر برہنگی شیطان کی جانب سے اور ستر کی کوشش تمہارے باپ کی طرف سے ہوئی۔ پھر برہنہ طواف کرنے پر باپ دادوں کی سند لانا کیسے صحیح ہو سکتا ہے نیز بقول حضرت شاہ صاحب سن چکے کہ پہلے باپ نے شیطان کا فریب کھایا پھر باپ کی کیوں سند لاتے ہو یہ کس قدر بے حیائی کی بات ہے کہ جو کام شیطان کے حکم سے ہو رہا ہے اسے کہا جائے کہ ہم کو خدا نے یہ حکم دیا ہے۔ العیاذ باللہ۔
۲۹ ۔۔۔ ۱: روح المعانی میں ہے "اَلْقِسْطُ عَلیٰ مَا قَالَ غَیْرُ وَاحِدٍ اَلْعَدْلُ وَ ھُوَ الْوَسْطُ مِنْ کُلِّ شَیءٍ اَلْمُتَجَافِیْ عَنْ طَرَفَیِ الْاِفْرَاطِ وَ التَّفْرِیْطِ" آیت کا حاصل یہ ہوا کہ حق تعالیٰ نے ہر کام میں توسط و اعتدال پر رہنے اور افراط و تفریط سے بچنے کی ہدایت کی ہے پھر بھلا فواحش کا حکم کیسے دے سکتے ہیں۔
۲: مترجم محقق نے "مسجد" کو غالباً مصدر میمی بمعنی سجود لیکر تجوزاً نماز کا ترجمہ کیا ہے اور "وجوہ" کو اپنے ظاہر پر رکھا ہے یعنی نماز ادا کرنے کے وقت اپنا منہ سیدھا (کعبہ کی طرف) رکھو۔ مگر دوسرے بعض مفسرین اَقِیْمُوا وُجُوْھَکُمْ سے یہ مراد لیتے ہیں کہ خدا کی عبادت کی طرف ہمیشہ استقامت کے ساتھ دل سے متوجہ رہو۔ ابن کیثر کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی عبادت میں سیدھے رہو۔ جو راستہ پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہے اس سے ٹیڑھے ترچھے نہ چلو۔ عبادت کی مقبولیت دو ہی چیزوں پر موقوف تھی۔ خالص خدا کے لئے ہو۔ جس کو آگے فرمادیا۔ وَادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ اور اس مشروع طریق کے موافق ہو جو انبیاء مرسلین علیہم الصلوٰۃ والسلام نے تجویز فرمایا ہے۔ اس کو وَاَقِیْمُوا وُجُوھَکُمْ میں ادا کیا گیا۔ بہرحال اس آیت میں اوامر شرعیہ کی تمام انواع کی طرف اشارہ کر دیا ہے۔ جو بندوں کے معاملات سے متعلق ہیں وہ سب" قسط" میں آ گئے اور جن کا تعلق خدا سے ہے اگر قالبی ہیں تو "واقیموا وجوھکم" میں اور قلبی ہیں تو وادعوہ مخلصین لہ الدین میں مندرج ہو گئے۔
۳: یعنی انسان کو اعتدال، استقامت اور اخلاص کی راہوں پر چلنے کی اس لئے ضرورت ہے کہ موت کے بعد دوسری زندگی ملنے والی ہے جس میں موجودہ زندگی کے نتائج سامنے آئیں گے اس کی فکر ابھی سے ہونی چاہئے۔ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ۔
۳۰ ۔۔۔ یعنی جن پر گمراہی مقرر ہو چکی، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے خدا کو چھوڑ کر شیطانوں کو اپنا دوست اور رفیق ٹھہرا لیا ہے۔ اور تماشا یہ ہے کہ اس صریح گمراہی کے باوجود سمجھتے یہ ہیں کہ ہم خوب ٹھیک چل رہے ہیں اور مذہبی حیثیت سے جو روش اور طرز عمل ہم نے اختیار کر لیا ہے وہ ہی درست ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَھُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا (کہف، رکوع۱۳،آیت ۱۰۴) (تنبیہ) آیت کے عموم سے ظاہر ہوا کہ کافر معاند کی طرح کافر مخطی بھی جو واقعی اپنی غلط فہمی سے باطل کو حق سمجھ رہا ہو فَرِیْقًا حَقَّ عَلَیْھِمُ الضَّلَالَۃُ میں داخل ہے، خواہ یہ غلط فہمی پوری طرح غور و فکر نہ کرنے کی وجہ سے ہو، یا اس لئے کہ گو اس نے بظاہر پوری قوت غور فکر میں صرف کر دی، لیکن ایسے صریح اور واضح حقائق تک نہ پہنچنا خود بتلاتا ہے کہ فی الحقیقت اس سے قوت فکرو استدلال کے استعمال میں کوتاہی ہوئی ہے۔ گویا جن چیزوں پر ایمان لانا مدارنجات ہے وہ اس قدر روشن اور واضح ہیں کہ ان کے انکار کی بجز عناد یا قصور فکر و تامل کے اور کوئی صورت نہیں۔ بہرحال کفر شرعی ایک ایسا سنکھیا (زہر) ہے جو جان بوجھ کر یا غلط فہمی سے کسی طرح بھی کھایا جائے انسان کو ہلاک کرنے کے لئے کافی ہے۔"اہلسنت والجماعت" کا مذہب یہ ہی ہے اور "روح المعانی" میں جو بعض کا اختلاف اس مسئلہ میں نقل کیا ہے، اس بعض سے مراد جاحظ و عنبری ہیں جو اہل السنت و الجماعت میں داخل نہیں بلکہ باوجود "معتزلی" کہلائے جانے کے خود معتزلہ کو بھی ان کے اسلام میں کلام ہے۔ اسی لئے صاحب روح المعانی نے ان کا مذہب نقل کرنے کے بعد لکھ دیا "وللّٰہ تعالیٰ الحجۃ البالغۃ والتزام ان کل کافر معاند بعد البعثت و ظھور امر الحق کفار علی علٰم
۳۱ ۔۔۔ یہ آیات ان لوگوں کے رد میں نازل ہوئیں جو کعبہ کا طواف برہنہ ہو کر کرتے تھے اور اسے بڑی قربت اور پرہیزگاری سمجھتے تھے اور بعض اہل جاہلیت ایام حج میں سد رمق سے زائد کھانا اور گھی یا چکنائی وغیرہ کا استعمال چھوڑ دیتے تھے بعضوں نے بکری کے دودھ اور گوشت سے پرہیز کر رکھا تھا۔ ان سب کو بتلا دیا کہ یہ کوئی نیکی اور تقویٰ کی باتیں نہیں۔ خدا کی دی ہوئی پوشاک جس سے تمہارے بدن کا تستّر اور آرائش ہے اس کی عبادت کے وقت دوسرے اوقات سے بڑھ کر قابل استعمال ہے تاکہ بندہ اپنے پروردگار کے دربار میں اس کی نعمتوں کا اثر لے کر حاضر ہو، خدا نے جو کچھ پہننے اور کھانے پینے کو دیا ہے اس سے تمتّع کرو۔ بس شرط یہ ہے کہ اسراف نہ ہونے پائے۔ "اسراف" کے معنی ہیں "حد سے تجاوز کرنا" جس کی کئی صورتیں ہیں۔ مثلاً حلال کو حرام کر لے، یا حلال سے گزر کر حرام سے بھی متمتع ہونے لگے یا اناپ شناپ بے تمیزی اور حرص سے کھانے پر گر پڑے، یا بدون اشتہاء کے کھانے لگے، یا نا وقت کھائے یا اس قدر کم کھائے جو صحت جسمانی اور قوت عمل کے باقی رکھنے کے لئے کافی نہ ہو، یا مضر صحت چیزیں استعمال کرے و غیر ذٰلک، لفظ "اسراف" ان سب امور کو شامل ہو سکتا ہے۔ بے جا خرچ کرنا بھی اس کی ایک فرد ہے۔ اسی تعمیم کے لحاظ سے بعض سلف نے فرمایا کہ "جمع اللّٰہ الطب کلہ فی نصف ایٰۃ" (خدا نے ساری طب آدھی آیت میں اکٹھی کر دی)۔
۳۲ ۔۔۔ عالم کی تمام چیزیں اسی لئے پیدا کی گئی ہیں کہ آدمی ان سے مناسب طریقہ سے منتفع ہو کر خالق جلّ و علیٰ کی عبادت، وفاداری اور شکر گزاری میں مشغول ہو۔ اس اعتبار سے دنیا کی تمام نعمتیں اصل میں مومنین و مطیعین ہی کے لئے پیدا ہوئی ہیں البتہ کافروں کو بھی ان چیزوں سے روکا نہیں گیا وہ بھی اپنے اعمال و تدابیر سے دنیاوی مفاد حاصل کر لیتے ہیں۔ بلکہ جب اہل ایمان قوت ایمان و تقویٰ میں کمزور ہوں، تو یہ غاصبین اپنی عملی تگ و دو میں بظاہر زیادہ کامیاب معلوم ہوتے ہیں جسے کچھ تو کفار کے اعمال فانیہ کا ثمرہ سمجھنا چاہیے اور کچھ مومنین کے حق میں تنبیہ و توبیخ مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَھَا نُوَفِّ اِلَیْھِمْ اَعْمَالَھُمْ فِیْھَا وَھُمْ فِیْھَا لاَ یُبْخَسُوْنَ اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ اِلَّا النَّارَ وَحَبِطَ مَاصَنَعُوْا فِیْھَا وَ بٰطِلٌ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (ہود، رکوع۳،آیت ۱۵۔۱۶) رہی آخرت کی نعماء وہ خالص اہل ایمان کا حصہ ہے۔ بعض علماء نے خالصۃً یوم القیامہ کے معنی یہ لئے ہیں کہ دنیاوی نعمتیں خالص نہیں کیونکہ ان کے ساتھ بہت سے غم و فکر اور تکلیفیں برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ آخرت کی نعمتیں ہر قسم کی کدورات سے خالی ہوں گی اور ابن عباس سے "در منثور" میں آیت کے معنی یہ نقل کئے ہیں کہ دنیاوی نعمتیں اس شان سے کہ آخرت میں وبال نہ بنیں صرف مومنین کے لئے ہیں کفار کے حق میں یہاں کا تنعّم ان کے کفر و حق نا شناسی کی وجہ سے عذاب و وبال بن جائے گا۔
۳۳ ۔۔۔ "اثم" سے عام گناہ مراد ہیں اور بعض مخصوص گناہوں کو مناسبت مقام یا اہمیت کی وجہ سے بیان فرما دیا۔ "اثم" وہ گناہ ہے جس کا تعلق گناہ کرنے والے کے سوا دوسرے لوگوں سے نہ ہو۔ واللہ اعلم۔ جیسا کہ فحشاء کے متعلق کہتے تھے وَاللّٰہُ اَمَرنَا بِھَا۔
۳۴ ۔۔۔ بظاہر شبہ ہوتا ہے کہ جب وعدہ کا وقت آپہنچا اور بعض کے نزدیک تو تاخیر کا امکان عقلی تھا اس لئے اس کی نفی ضروری ہوئی مگر تقدیم تو عقلاً ممکن ہی نہیں۔ اس کی نفی سے کیا فائدہ ہے؟ اسی شبہ کی وجہ سے بعض مفسرین نے لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ کا عطف شرطیہ اِذَا جَاءَ اَجَلُھُمْ الخ پر مانا ہے اور بعض نے جَاءَ اَجَلُھُمْ سے قرب و دُنوُّ مراد لیا ہے۔ میرے نزدیک ان تکلفات کی حاجت نہیں۔ محاورات میں کسی ایسی چیز کو جس کے مقابل دو طرفیں ہوں زور اور تاکید سے ثابت کرنے کے لئے بسا اوقات ایک طرف کی جو محتمل الثبوت ہو نفی مقصوداً کی جاتی ہے اور دوسری طرف کی جو پہلے سے غیر محتمل ہے نفی کو محض مبالغہ تاکید اور تحسین کلام کے طور پر استطراداً ذکر کر دیتے ہیں۔ ایک خریدار دوکاندار سے کسی چیز کی قیمت معلوم کر کے کہتا ہے کہ کچھ "کم و بیش" دوکاندار بھی کہہ دیتا ہے کہ "کم و بیش نہیں ہو سکتا۔"دونوں جگہ "کم" کا ذکر مقصود ہے۔ اور "بیش" کا لفظ محض تعیین قیمت کی تاکید و مبالغہ کے لئے استطراداً ذکر کیا گیا ہے۔ یہاں بھی غرض اصلی کلام سے یہ ہے کہ خدا کا وعدہ جب آ پہنچے تو پھر اٹل ہے ایک منٹ کی تقدیم و تاخیر نہیں ہو سکتی۔ مقصود تاخیر کی نفی کرنا ہے۔ تقدیم جو پہلے سے ظاہر الانتفاء تھی اس کی نفی کرنا محض وعدہ کے اصل ہونے پر زور ڈالنے کا ایک پیرا یہ ہے یعنی خدا پر افترا کرنے والے اور اس کی طرف نسبت کر کے حرام کو حلال بنانے والے خدا کی ڈھیل پر مغرورو بے فکر نہ ہوں۔ ہر امت اور ہر فرد کی خدا کے یہاں ایک معین مدت ہے، جب سزا کی گھڑی آ جائے گی پھر ٹل نہ سکے گی۔
۳۶ ۔۔۔ ابن جریر نے ابو یسار سلمی سے نقل کیا ہے کہ یہ خطاب یَا بَنِیْ اٰدَمَ اِمَّایاِتِیَنَّکُمْ الخ کل اولاد آدم کو عالم ارواح میں ہوا تھا۔ جیسا کہ سورہ بقرہ کے سیاق سے ظاہر ہوتا ہے۔ قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْھَا جَمِیْعًا فَاِمَّا یَاتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی الخ اور بعض محققین کے نزدیک جو خطاب ہر زمانہ میں ہر قوم کو ہوتا رہا، یہ اس کی حکایت ہے میرے نزدیک دو رکوع پہلے سے جو مضمون چلا آرہا ہے اس کی ترتیب و تنسیق خود ظاہر کرتی ہے کہ جب آدم و حوا اپنے اصلی مسکن (جنت) سے جہاں ان کو آزادی و فراخی کے ساتھ بلا روک ٹوک زندگی بسر کرنے کا حکم دیا جا چکا تھا۔ عارضی طور پر محروم کر دیئے گئے تو ان کی مخلصانہ توبہ و انابت پر نظر کرتے ہوئے مناسب معلوم ہوا کہ اس حرمان کی تلافی اور تمام اولاد آدم کو اپنی آبائی میراث واپس دلانے کے لئے کچھ ہدایات کی جائیں۔ چنانچہ ہبوط آدم کا قصہ ختم کرنے کے بعد معًا یَا بَنِیْ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا الخ سے خطاب شروع فرما کر تین چار رکوع تک ان ہی ہدایات کا مسلسل بیان ہوا ہے۔ ان آیات میں کل اولاد آدم کو گویا بیک وقت موجود تسلیم کر کے عام خطاب کیا گیا ہے کہ جنت سے نکلنے کے بعد ہم نے بہشتی لباس و طعام کی جگہ تمہارے لئے زمینی لباس و طعام کی تدبیر فرما دی گو جنت کی خوشحالی اور بے فکری یہاں میسر نہیں تاہم ہر قسم کی راحت و آسائش کے سامان سے منتفع ہونے کا تم کو موقع دیا تاکہ تم یہاں رہ کر اطمینان سے اپنا مسکن اصلی اور آبائی ترکہ واپس لینے کی تدبیر کر سکو۔ چاہیے کہ شیطان لعین کے مکر و فریب سے ہشیار رہو، کہیں ہمیشہ کے لئے تم کو اس میراث سے محروم نہ کر دے۔ بے حیائی اور اثم و عدوان سے بچو۔ اخلاص و عبودیت کا راستہ اختیار کرو۔ خدا کی نعمتوں سے تمتع کرو مگر جو حدود و قیود مالک حقیقی نے عائد کر دی ہیں ان سے تجاوز نہ کرو۔ پھر دیکھو ہر قوم اپنی اپنی مدت موعودہ پوری کر کے کس طرح اپنے ٹھکانہ پر پہنچ جاتی ہے۔ اس اثناء میں اگر خدا کسی وقت تم ہی میں سے اپنے پیغمبر مبعوث فرمائے جو خدا کی آیات پڑھ کر سنائیں جن سے تم کو اپنے باپ کی اصلی میراث (جنت) حاصل کرنے کی ترغیب و تذکیر ہو اور مالک حقیقی کی خوشنودی کی راہیں معلوم ہوں، ان کی پیروی اور مدد کرو۔ خدا سے ڈر کر برے کاموں کو چھوڑ دو اور اعمال صالحہ اختیار کرو تو پھر تمہارا مستقبل بالکل بے خوف و خطر ہے۔ تم ایسے مقام پر پہنچ جاؤ گے جہاں سکھ اور امن و اطمینان کے سوا کوئی دوسری چیز نہیں، ہاں اگر ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور تکبر کر کے ان پر عمل کرنے سے کترائے تو مسکن اصلی اور آبائی میراث سے دائمی محرومی اور ابدی عذاب و ہلاکت کے سوا کچھ نہ ملے گا۔ بہرحال جو لوگ اس آیت سے ختم نبوت کی نصوص قطعیہ کے خلاف قیامت تک کے لئے انبیاء و رسل کی آمد کا دروازہ کھولنا چاہتے ہیں ان کے لئے اس جگہ کوئی موقع اپنی مطلب برآوری کا نہیں۔
۳۷ ۔۔۔ ۱: یعنی ان سچے پیغمبروں کی تصدیق کرنا ضروری ہے جو واقعی خدا کی آیات سناتے ہیں، باقی جو شخص پیغمبری کا جھوٹا دعویٰ کر کے اور جھوٹی آیات بنا کر خدا پر افتراء کرے یا کسی سچے پیغمبر کو اور اس کی لائی ہوئی آیات کو جھٹلائے ان دونوں سے زیادہ ظالم کوئی نہیں۔
۲: یعنی دنیا میں عمر و رزق وغیرہ جتنا مقدر ہے یا یہاں کی ذلت و رسوائی جو ان کے لئے لکھی ہے وہ پہنچے گی، پھر مرتے وقت اور مرنے کے بعد جو درگت بنے گی اس کا ذکر آگے آتا ہے۔ اور اگر نَصِیْبُھُم مِّنَ الْکِتَابِ سے دنیا کا نہیں عذاب اخروی کا حصہ مراد لیا جائے تو حتی اذا جأتھم سے اس پر تنبیہ ہو گی کہ اس عذاب کے مبادی کا سلسلہ اسی دنیاوی زندگی کے آخری لمحات میں شروع ہو جاتا ہے۔
۳: یعنی جب فرشتے نہایت سختی سے ان کی روح قبض کر کے برے حال سے لے جاتے ہیں تو ان سے کہتے ہیں کہ خدا کے سوا جن کو تم پکارا کرتے تھے وہ کہاں گئے جو اب تمہارے کام نہیں آتے، انہیں بلاؤ تاکہ اس مصیبت سے تمہیں چھڑائیں۔ اس وقت کفار کو اقرار کرنا پڑتا ہے کہ ہم سخت غلطی میں پڑے تھے کہ ایسی چیزوں کو معبود و مستعان بنا لیا جو اس کے مستحق نہ تھے۔ آج ہماری اس مصیبت میں ان کا کہیں پتا نہیں۔ لیکن یہ ناوقت کا اقرار و ندامت کیا نفع دے سکتی ہے حکم ہو گا اُدْخُلُوْ فِیْ اُمَمٍ الخ باقی بعض مواضع میں جو وارد ہوا ہے کہ وہ اپنے کفر و شرک سے انکار کریں گے، اس آیت کے منافی نہیں۔ کیونکہ قیامت میں مواقف اور احوال مختلف ہوں گے اور جماعتیں بھی بے شمار ہوں گی کہیں ایک موقف یا ایک جماعت کا ذکر ہے کہیں دوسری کا۔
۳۸ ۔۔۔ ۱: یعنی آگے پیچھے کفار کو دوزخ ہی میں داخل ہونا ہے۔
۲: یعنی اس مصیبت میں باہم ہمدردی تو کیا ہوتی، دوزخی ایک دوسرے پر لعن طعن کریں گے۔ شاید اتباع اپنے سرداروں سے کہیں کہ تم پر خدا کی لعنت ہو تم اپنے ساتھ ہمیں بھی لے ڈوبے اور سردار اتباع سے کہیں کہ ملعونو! اگر ہم گڑھے میں گر پڑے تھے تو تم کیوں اندھے بن گئے۔ و غیرذالک
۳: یعنی ایک حساب سے پہلوں کا گناہ دُگنا کہ خود گمراہ ہوئے اور دوسرے آنے والوں کے لئے راہ ڈالی۔ اور ایک طرح پچھلوں کا دُگنا کہ خود بہکے اور پہلوں کا حال دیکھ سن کر عبرت حاصل نہ کی۔ یا چونکہ ہر دوزخی کا عذاب اپنے اپنے درجہ کے موافق وقتاً فوقتاً بڑھتا رہے گا اس لئے فرمایا کہ ہر ایک کا عذاب دگنا ہوتا چلا جائے گا۔ ابھی آغاز تعذیب میں تمہیں انجام کی خبر نہیں یعنی پہلوں کا عذاب دگنا کر دینے سے تم پچھلوں کو کوئی شفاء اور راحت نصیب نہیں ہو گی۔ یہ تقریر اس صورت میں ہے کہ لِکُلِّ ضعفٌ سے دونوں فریق مراد لئے جائیں۔ لیکن ابن کثیر کے نزدیک اس آیت میں پچھلوں کو مطلع کیا گیا ہے کہ بیشک ہم نے پہلوں میں سے ہر ایک کے لئے اس کے درجہ کے موافق دگنا ہی عذاب رکھا ہے جیسا کہ دوسری جگہ خبر دی ہے اَلَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ زِدْنٰھُمْ عَذَاباً فَوْقَ الْعَذَابِ(نحل، رکوع۱۳،آیت ۸۸) وَلَیَحْمِلُنَّ اَثْقَالَھُمْ وَ اَثْقَالاً مَّعَ اَثْقَالِھِمْ(عنکبوت، رکوع۱،آیت ۱۳) وَمِنْ اَوْزَارِ الَّذِیْنَ یُضِلُّوْنَھُمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ(نحل، رکوع۳،آیت ۳۵)
۳۹ ۔۔۔ یعنی ہماری سزا میں اضافہ کی درخواست کر کے تمہیں کیا مل گیا؟ کیا تمہارے عذاب میں کچھ تخفیف ہو گئی؟ نہیں، تم کو بھی اپنی کرتوت کا مزہ چکھنا ہے۔
۴۰ ۔۔۔ یعنی نہ زندگی میں ان کے اعمال کے لئے آسمانی قبول و رفعت حاصل ہے۔ نہ موت کے بعد ان کی ارواح کو آسمان پر چڑھنے کی اجازت ہے۔ حدیث صحیح میں ہے کہ "بعد موت کافر کی روح کو آسمان کی جانب سے سجین کی طرف دھکے دئیے جاتے ہیں اور مومن کی روح ساتویں آسمان تک صعود کرتی ہے۔"مفصل احوال کتب احادیث میں ملاحظہ کرو۔
یہ تعلیق بالمحال کے طور پر فرمایا۔ ہر زبان کے محاورات میں ایسی امثال موجود ہے جن میں کسی چیز کے محال ہونے کو دوسری محال چیز پر معلق کر کے ظاہر کرتے ہیں۔ یعنی جس طرح یہ ناممکن ہے کہ اونٹ اپنی اسی کلانی اور جسامت پر رہے اور سوئی کا ناکہ ایسا ہی تنگ اور چھوٹا ہو۔ اس کے باوجود اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل ہو جائے۔ اسی طرح ان مکذبین و متکبرین کا جنت میں داخل ہونا محال ہے کیونکہ حق تعالیٰ جہنم میں ان کے "خلود" کی خبر دے چکا ہے اور علم الٰہی میں یہ ہی سزا ان کے لئے ٹھہر چکی ہے پھر خدا کے علم اور اخبار کے خلاف کیسے وقوع میں آ سکتا ہے۔
۴۱ ۔۔۔ یعنی ہر طرف سے آگ محیط ہو گی، کسی کروٹ چین نہ ملے گا۔
۴۲ ۔۔۔ لَا نُکَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا جملہ معترضہ ہے جس سے درمیان میں متنبہ فرما دیا کہ ایمان و عمل صالح جس پر اتنا عظیم الشان صلہ مرحمت ہوتا ہے کوئی ایسی مشکل چیز نہیں جو انسان کی طاقت سے باہر ہو۔ یا یہ مطلب ہے کہ ہر آدمی سے عمل صالح اس قدر مطلوب ہے جتنا اس کی مقدرت اور طاقت میں ہو اس سے زائد کا مطالبہ نہیں کیا جا رہا۔
۴۳ ۔۔۔ ۱: نَزَعَنَا مَافِیْ صُدُوْرِہِمْ مِّنْ غِلٍّ سے مراد یا تو یہ ہے کہ باہم جنتیوں میں نعمائے جنت کے متعلق کسی طرح کا حسد و رشک نہ ہو گا، ہر ایک اپنے کو اور دوسرے بھائی کو جس مقام میں ہے دیکھ کر خوش ہو گا۔ بخلاف دوزخیوں کے کہ وہ مصیبت کے وقت ایک دوسرے کو لعن طعن کریں گے۔ جیسا کہ پہلے گزرا۔ اور یا یہ مراد ہے کہ صالحین کے درمیان جو دنیا میں کسی بات پر خفگی ہو جاتی ہے اور ایک دوسرے کی طرف سے انقباض پیش آتا ہے وہ سب جنت میں داخل ہونے سے پیشتر دلوں سے نکال دیا جائے گا۔ وہاں سب ایک دوسرے سے سلیم الصدر ہوں گے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا۔"مجھے امید ہے کہ میں اور عثمان طلحہ زبیر رضی اللہ عنہم انہی لوگوں میں سے ہوں گے۔ مترجم محقق قدس اللہ روحہ، نے اسی دوسرے معنی کے اعتبار سے ترجمہ کیا ہے۔
۲: یعنی خدا کی توفیق و دستگیری اور رسولوں کی سچی راہنمائی سے اس اعلیٰ مقام پر پہنچنا نصیب ہوا، ورنہ ہم کہاں اور یہ مرتبہ کہاں۔
۳: یہ آواز دینے والا خدا کی طرف سے کوئی فرشتہ ہو گا یعنی آج ساری عملی جدوجہد ٹھکانے لگ گئی اور تم نے کوشش کر کے خدا کے فضل سے اپنے باپ آدم کی میراث ہمیشہ کے لئے حاصل کر لی۔ حدیث میں ہے کہ "کسی شخص کا عمل ہرگز اس کو جنت میں داخل نہیں کرے گا۔ "اس کا مطلب یہ ہے کہ عمل دخولِ جنت کا حقیقی سبب نہیں فقط ظاہری سبب ہے، دخول جنت کا حقیقی سبب خدا کی رحمت کاملہ ہے جیسا کہ اسی حدیث میں الا ان یتغمدنی اللّٰہ برحمتہ کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے ہاں بندہ پر رحمت الٰہیہ کا نزول اسی قدر ہوتا ہے جس قدر عمل کی روح اس میں موجود ہو۔ مترجم رحمۃ اللہ زبانی فرمایا کرتے تھے کہ گاڑی تو رحمت الٰہیہ کے زور سے چلتی ہے عمل وہ جھنڈی ہے جس کے اشارہ پر چلاتے اور روکتے ہیں۔
۴۵ ۔۔۔ ان آیات میں ان مخاطبات و مکالمات کا ذکر ہے جو جنتیوں یا دوزخیوں یا ان دونوں اور اصحاب اعراف میں ہوں گے۔ پہلی اور آخری گفتگو جو "اصحاب الجنۃ، ،اور "اصحاب النار"میں اِدھر سے یا اُدھر سے ہو گی صاف ظاہر کرتی ہے کہ یہ مخاطبات جنت یا دوزخ میں داخل ہونے کے بعد کے ہیں۔ اس لئے نظم کلام کا مقتضیٰ یہ ہے کہ اصحابِ اعراف کی درمیانی گفتگو کو بھی اس کے بعد ہی مانا جائے۔ بہرحال جنتی جنت میں پہنچ کر اپنے حال پر اظہارِ مسرت اور دوزخیوں کی تقریع و نکایت کے لئے کہیں گے کہ جو کچھ وعدے حق تعالیٰ نے پیغمبروں کی زبانی ہم سے فرمائے تھے کہ ایمان لانے والوں کو نعیم دائم ملے گی ہم تو انہیں سچا پا رہے ہیں اے اہل جہنم! تم بولو کہ تمہارے کفر و عصیان پر جو دھمکیاں دی گئی تھیں تم نے بھی ان کو سچا پایا؟ ظاہر ہے جواب میں بجز"نعم" کے اور کیا کہہ سکتے ہیں۔ اس وقت خدا کا ایک منادی دونوں کے درمیان کھڑے ہو کر پکارے گا کہ (یوں تو گنہگار بہت سے ہیں مگر) خدا کی بڑی پھٹکار ان ظالموں پر ہے جو خود گمراہ ہوئے اور آخرت کے انجام سے بالکل بے فکر ہو کر دوسروں کو بھی راہِ حق سے روکتے رہے اور اپنی کج بحثیوں سے رات دن اسی فکر میں تھے کہ صاف اور سیدھے راستہ کو ٹیڑھا ثابت کریں۔
۴۶ ۔۔۔ ۱: حجاب کے معنی پردہ اور آڑ کے ہیں۔ یہاں پردہ کی دیوار مراد ہے جس کی تصریح سورہ حدید میں کی گئی ہے فَضُرِبَ بَیْنَھُمْ بِسُوْرٍلَّہُ بَابٌ یہ دیوار جنت کی لذتوں کو دوزخ تک اور دوزخ کی کلفتوں کو جنت تک پہنچنے سے مانع ہو گی اس کی تفصیلی کیفیت کا ہم کو علم نہیں۔
۲: اسی درمیانی دیوار کی بلندی پر جو مقام ہو گا اس کو "اعراف "کہتے ہیں۔ اصحاب اعراف کون لوگ ہیں؟قرطبی نے اس میں بارے قول نقل کئے ہیں۔ ہمارے نزدیک ان میں راجح وہ ہی قول ہے جو حضرت حذیفہؓ ابن عباس، ابن مسعود رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابہ اور اکثر سلف و خلف سے منقول ہے۔ یعنی وزن اعمال کے بعد جن کے حسنات بھاری ہوں گے وہ جنتی ہیں اور جن کے سیأٓت غالب ہوئے وہ دوزخی۔ اور جن کے حسنات و سیأٓت بالکل مساوی ہوں گے وہ اصحاب اعراف ہیں۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ انجام کار اصحاب اعراف جنت میں چلے جائیں گے اور یہ ویسے بھی ظاہر ہے کہ جب عصاۃ مومنین جن کے سیأٓت غالب تھے جہنم سے نکل کر آخرکار جنت میں داخل ہوں گے، تو اصحاب اعراف جن کے حسنات اور سیأٓت برابر ہیں وہ ان سے پہلے داخل ہونے چاہئیں گویا اصحاب اعراف کو اصحاب الیمین کی ایک کمزور قسم سمجھنا چاہئے۔ جس طرح "سابقین مقربین ی الحقیقت اصحاب یمین کی ایک ایسی قسم ہے جو اپنی اولوالعزمیوں کی بدولت عام"اصحاب یمین" سے کچھ آگے نکل گئے ہیں، اس کے بالمقابل "اصحاب اعراف" گری ہوئی قسم ہے جو اپنے اعمال کی کثافت کی وجہ سے عام اصحاب یمین سے کچھ پیچھے رہ گئے ہیں یہ لوگ "اہل جہنم"اور "اہل جنت"کے درمیان میں ہونے کی وجہ سے دونوں طبقے کے لوگوں کو ان کی مخصوص نشانیوں سے پہچانتے ہوں گے، جنتیوں کو ان کے سفید اور نورانی چہروں سے اور دوزخیوں کو ان کی روسیاہی اور بد رونقی سے۔ بہرحال جنت والوں کو دیکھ کر سلام کریں جو بطور مبارکباد ہو گا اور چونکہ خود ابھی جنت میں داخل نہیں ہو سکے اس کی طمع اور آرزو کریں گے جو آخرکار پوری کر دی جائے گی۔
۴۷ ۔۔۔ جنت و دوزخ کے درمیان میں ہونے کی وجہ سے ان لوگوں کی حالت خوف و رجاء کے بیچ ہو گی اُدھر دیکھیں گے تو امید کریں گے اور ادھر نظر پڑے گی تو خدا سے ڈر کر پناہ مانگیں گے کہ ہم کو ان دوزخیوں کے زمرہ میں شامل نہ کیجئے۔
۴۸ ۔۔۔ ۱: یعنی علاوہ دوزخ میں معذب ہونے کے ان کے چہروں سے دوزخی ہونے کی علامات ہویدا ہوں گی۔ یا یہ مطلب ہے کہ وہ ایسے لوگ ہوں گے جن کو اصحاب اعراف نے دنیا میں دیکھا ہو گا۔ اس لئے وہاں صورت دیکھ کر پہچان لیں گے۔
۲: یعنی اس مصیبت کے وقت تمہاری وہ جماعتیں اور جتھے کہاں گئے اور دنیا میں جو بڑھ بڑھ کر شیخیاں مارتے تھے، وہ اب کیا ہوئیں۔
۴۹ ۔۔۔ یہ "اہل جنت" کی طرف اشارہ کر کے دوزخیوں سے کہیں گے کہ وہ ٹوٹے پھوٹے مساکین اور ضعیف الحال جن کو تم حقیر سمجھ کر کہا کرتے تھے کہ کیا خدا کی مہربانی سب کو چھوڑ کر ان جیسوں پر ہو سکتی ہے۔اَھٰوُلْاَ ءِ مَنَّ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِمّ بَیْنِنَا۔ ان کو تو آج کہہ دیا گیا کہ اُدْخُلُوا الْجَنَّۃَ لَا خَوْفٌ عَلَیْکُمْ الخ(چلے جاؤ جنت میں بے خوف و خطر) حالانکہ تم اس عذاب میں مبتلا ہو۔
۵۱ ۔۔۔ دوزخی بدحواس اور مضطرب ہو کر اہل جنت کے سامنے دست سوال دراز کریں گے کہ ہم جلے جاتے ہیں، تھوڑا سا پانی ہم پر بہاؤ یا جو نعمتیں تم کو خدا نے دے رکھی ہیں کچھ ان سے ہمیں بھی فائدہ پہنچاؤ۔ جواب ملے گا کہ کافروں کے لئے ان چیزوں کی بندش ہے، یہ کافر وہ ہی تو ہیں جو دین کو کھیل تماشہ بناتے تھے اور دنیا کے تُنّعم پر پھولے ہوئے تھے۔ سو جیسا ان کو دنیا کے مزوں میں پڑ کر کبھی آخرت کا خیال نہیں آیا آج ہم بھی ان کا کچھ خیال نہ کریں گے اور جس طرح انہوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا تھا آج ہم بھی ان کی درخواست منظور کرنے سے انکار کرتے ہیں۔
۵۲ ۔۔۔ قرآن جیسی کتاب کی موجودگی میں جس میں تمام ضروریات کی عالمانہ تفصیل موجود ہے اور ہر بات کو پوری آگاہی سے کھول کر بیان کر دیا گیا ہے چنانچہ ایمان لانے والے اس سے خوب منتفع ہو رہے ہیں، غضب ہے کہ ان متکبر معاندوں نے کچھ بھی اپنے انجام پر غور نہ کیا۔ پھر اب پچھتانے سے کیا حاصل۔
۵۳ ۔۔۔ کتاب اللہ میں جو دھمکیاں عذاب کی دی گئی ہیں کیا یہ اس کے منتظر ہیں کہ جب ان دھمکیوں کا مضمون (مصداق) سامنے آ جائے تب حق کو قبول کریں۔ حالانکہ وہ مضمون جب سامنے آ جائے گا یعنی عذاب الٰہی میں گرفتار ہوں گے تو اس وقت کا قبول کرنا کچھ کام نہ دے گا۔ اس وقت تو سفارشیوں کی تلاش ہو گی جو خدا کی سزا سفارش کر کے معاف کرا دیں اور چونکہ ایسا سفارشی کافروں کو کوئی نہ ملے گا یہ تمنا کریں گے کہ ہم کو دوبارہ دنیا میں بھیج کر امتحان کر لیا جائے کہ اس مرتبہ اپنے جرائم کے خلاف ہم کیسی نیکی اور پرہیزگاری کے کام کرتے ہیں۔ لیکن اب اس تمنا سے کیا حاصل؟ جبکہ پہلے خود اپنے ہاتھوں اپنے کو برباد کر چکے اور جو جھوٹے خیالات پکا رکھے تھے وہ سب رفو چکر ہو گئے۔
۵۴ ۔۔۔ ۱: گذشتہ آیت میں جو معاد کا ذکر تھا، اس رکوع میں مبدا کی معرفت کرائی گئی ہے۔ وَلَقَدْجَأت رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ سے بتلایا گیا تھا کہ جو لوگ دنیا میں انبیاء اور رسل سے منحرف رہتے تھے ان کو بھی قیامت کے دن پیغمبروں کی سچائی کی ناچار تصدیق کرنی پڑے گی۔ یہاں نہایت لطیف پیرایہ میں خدا کی حکومت یاد دلانے اور انبیاء و رُسل کی ضرورت کی طرف اشارہ کرنے کے بعد بعض مشہور پیغمبروں کے احوال و واقعات کا تذکرہ پیش کیا جا رہا ہے کہ ان کی تصدیق یا تکذیب کرنے والے کا آخرت سے پہلے دنیا ہی میں کیا انجام ہوا۔ گویا رکوع آنے والے کئی رکوعات کی تمہید ہے۔
۲: یعنی اتنے وقت میں جو چھ دن کے برابر تھا پیدا کیا۔ کیونکہ یہ متعارف دن اور رات تو آفتاب کے طلوع و غروب سے وابستہ ہیں جب اس وقت آفتاب ہی پیدا نہ ہوا تھا تو دن رات کہاں سے ہوتا۔ یا یہ کہا جائے کہ عالمِ شہادت کے دن رات مراد نہیں، عالمِ غیب کے دن رات مراد ہیں جیسے کسی عارف نے فرمایا ہے
۳: غیب را ابرے و آبے دیگر است آسمان و آفتابے دیگر است پہلی صورت میں پھر علماء کا اختلاف ہے کہ یہاں چھ دن سے ہمارے چھ دن کی مقدار مراد ہے۔ یا ہزار برس کا ایک ایک دن جسے فرمایا ہے وَاِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِمَّا تَعُدُّوْنَ میرے نزدیک یہ آخری قول راجح ہے۔ بہرحال مقصود یہ ہوا کہ آسمان و زمین دفعۃً بنا کر نہیں کھڑے کئے گئے۔ شاید اوّل ان کا مادہ پیدا فرمایا ہو پھر ا سکی استعداد کے موافق بتدریج مختلف اشکال و صورت میں منتقل کرتے رہے ہوں۔ حتی کے چھ دن (چھ ہزار سال) میں وہ بجمیع متعلقاتہما موجودہ مرتب شکل میں موجود ہوئے جیسا کہ آج بھی انسان اور کل حیوانات و نباتات وغیرہ کی تولید و تخلیق کا سلسلہ تدریجی طور پر جاری ہے اور یہ ا سکی شان "کُنْ فَیَکُوْنُ"کے منافی نہیں کیونکہ "کُنْ فَیَکُوْنُ"کا مطلب تو صرف اس قدر ہے کہ خدا جس چیز کو وجود کے جس درجہ میں لانا چاہے اس کا ارادہ ہوتے ہی وہ اس درجہ میں آ جاتی ہے یہ مطلب نہیں کہ خدا کسی چیز کو وجود کے مختلف مدارج سے گزارنے کا ارادہ نہیں کرتا بلکہ ہر شے کو بدون توسط اسباب و علل کے دفعۃً موجود کرتا ہے۔
۴: خدا تعالیٰ کی صفات و افعال کے متعلق یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ نصوص قرآن و حدیث میں جو الفاظ حق تعالیٰ کی صفات کے بیان کے لئے اختیار کئے جاتے ہیں۔ ان میں اکثر وہ ہیں جن کا مخلوق کی صفات پر بھی استعمال ہوا ہے مثلاً خدا کو"حی""سمیع""بصیر""متکلم"کہا گیا اور انسان پر بھی یہ الفاظ اطلاق کئے گئے، تو ان دونوں مواقع میں استعمال کی حیثیت بالکل جداگانہ ہے کسی مخلوق کو سمیع و بصیر کہنے کا یہ مطلب ہے کہ اس کے پاس دیکھنے والی آنکھ اور سننے والے کان موجود ہیں۔ اس میں دو چیزیں ہوئیں۔ ایک وہ آلہ جسے "آنکھ "کہتے ہیں اور جو دیکھنے کا مبدا اور ذریعہ بنتا ہے۔ دوسرا اس کا نتیجہ اور غرض و غایت (دیکھنا) یعنی وہ خاص علم جو رویت بصری سے حاصل ہوا۔ مخلوق کو جب" بصیر" کہا تو یہ مبدا اور غایت دونوں چیزیں معتبر ہوئیں۔ اور دونوں کی کیفیات ہم نے معلوم کر لیں۔ لیکن یہ ہی لفظ جب خدا کی نسبت استعمال کیا گیا تو یقیناً وہ مبادی اور کیفیات جسمانیہ مراد نہیں ہو سکتیں جو مخلوق کے خواص میں سے ہیں اور جس سے خداوند قدوس قطعاً منزہ ہے البتہ یہ اعتقاد رکھنا ہو گا کہ اِبصار (دیکھنے) کا مبدا ا سکی ذات اقدس میں موجود ہے اور اس کا نتیجہ یعنی وہ علم جو رویت بصری سے حاصل ہو سکتا ہے، اس کو بدرجہ کمال حاصل ہے۔ آگے یہ کہ وہ مبدا کیسا ہے اور دیکھنے کی کیا کیفیت ہے تو بجز اس بات کے کہ اس کا دیکھنا مخلوق کی طرح نہیں ہم اور کیا کہہ سکتے ہیں لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ وَّھُوَ ا لسَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ نہ صرف سمع و بصر بلکہ اس کی تمام صفات کو اسی طرح سمجھنا چاہیے کہ صفت باعتبار اپنے اصل مبدأ و غایت کے ثابت ہے مگر اس کی کوئی کیفیت بیان نہیں کی جا سکتی اور نہ شرائع سماویہ نے اس کا مکلّف بنایا ہے کہ آدمی اس طرح کی ماوراء عقل حقائق میں خوض کر کے پریشان ہو۔ اس کا کچھ خلاصہ ہم سورہ مائدہ میں زیر فائدہ وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ یَدُاللّٰہِ مَغْلُوْلَۃٌ بیان کر چکے ہیں۔"استواء علی العرش"کو بھی اسی قاعدہ سے سمجھ لو"عرش" کے معنی تخت اور بلند مقام کے ہیں۔"استواء"کا ترجمہ اکثر محققین نے "استقرار و تمکن" سے کیا ہے (جسے مترجم رحمۃ اللہ نے قرار پکڑنے سے تعبیر فرمایا) گویا یہ لفظ حکومت پر ایسی طرح قابض ہونے کو ظاہر کرتا ہے کہ اس کا کوئی حصہ اور گوشہ حیطہ نفوذ و اقتدار سے باہر نہ رہے اور نہ قبضہ و تسلط میں کسی قسم کی مزاحمت اور گڑ بڑ پائی جائے۔ سب کام اور انتظام برابر ہو۔ اب دنیا میں بادشاہوں کی تخت نشینی کا ایک تو مبدا اور ظاہری صورت ہوتی ہے اور ایک حقیقت یا غرض و غایت یعنی ملک پر پورا تسلط و اقتدار اور نفوذ و تصرف کی قدرت حاصل ہونا۔ حق تعالیٰ کے "استواء علی العرش"میں یہ حقیقت اور غرض و غایت بدرجہ کمال موجود ہے یعنی آسمان و زمین (کل علویات و سفلیات) کو پیدا کرنے کے بعد ان پر کامل قبضہ و اقتدار اور ہر قسم کے مالکانہ و شہنشاہانہ تصرفات کا حق بے روک ٹوک اسی کو حاصل ہے جیسا کہ دوسرے جگہ ثُمَّ اسْتَویٰ عَلَی الْعَرْشِ کے بعد یُدَبِّرُ الْاَمْرَ وغیرہ الفاظ اور یہاں یُغْشِی الَّیْلَ النَّھَارَ الخ سے اسی مضمون پر متنبہ فرمایا ہے۔ رہا "استواء علی العرش"کا مبدا اور ظاہری صورت، اس کے متعلق وہ ہی عقیدہ رکھنا چاہیے جو ہم "سمع و بصر"وغیرہ صفات کے متعلق لکھ چکے ہیں کہ اس کی کوئی ایسی صورت نہیں ہو سکتی جس میں صفاتِ مخلوقین اور سمات حدوث کا ذرا بھی شائبہ ہو۔ پھر کیسی ہے؟ اس کا جواب وہی ہے کہ
اے برتراز خیال و قیاس و گمان و وہم، وزہر چہ گفتہ اندشنید یم و خواندہ ایم
دفتر تمام گشت و بپایاں رسید عمر ، ما ہمچناں دراوّل وصفِ تو ماندہ ایم
۵: لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ وَّھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ۔ یعنی رات کے اندھیرے کو دن کے اجالے سے یا دن کے اجالے کو رات کے اندھیرے سے ڈھانپتا ہے۔ اس طرح کے ایک دوسرے کا تعاقب کرتا ہوا تیزی سے چلا آتا ہے۔ اِدھر رات ختم ہوئی اُدھر دن آموجود ہوا، یا دن تمام ہوا تو فوراً رات آ گئی۔ درمیان میں ایک منٹ کا وقفہ بھی نہیں ہوتا۔ شاید اس پر بھی تنبیہ فرما دی کہ اس طرح کفرو ضلالت اور ظلم و عدوان کی شبِ دیجور جب عالم پر محیط ہو جاتی ہے اس وقت خدا تعالیٰ ایمان و عرفان کے آفتاب سے ہر چہار طرف روشنی فرما دیتا ہے اور جب تک آفتاب عالمتاب کی روشنی نمودار نہ ہو تو نبوت کے چاند تارے رات کی تاریکی میں اجالا اور راہنمائی کرتے ہیں۔
۶: کوئی سیارہ اس کے حکم کے بدون حرکت نہیں کر سکتا۔
پیدا کرنا"خلق"ہے اور پیدا کرنے کے بعد تکوینی یا تشریعی احکام دینا یہ"امر"ہے اور دونوں اسی کے قبضہ اختیار میں ہیں۔ اس طرح وہ ہی ساری خوبیوں اور برکتوں کا سر چشمہ ہوا۔
۵۵ ۔۔۔ جب" عالم خلق و امر" کا مالک اور تمام برکات کا منبع وہ ہی ذات ہے تو دنیاوی و اخروی حوائج میں اسی کو پکارنا چاہئے۔ الحاح و اخلاص اور خشوع کے ساتھ بدون ریا کاری کے ساتھ آہستہ آہستہ۔ اس سے معلوم ہوا کہ دعا میں اصل اخفاء ہے اور یہی سلف کا معمول تھا، بعض مواقع میں جہر و اعلان کسی عارض کی وجہ سے ہو گا جس کی تفصیل روح المعانی وغیرہ میں ہے۔
۶: یعنی دعاء میں حد ادب سے نہ بڑھے۔ مثلاً جو چیزیں عادتاً یا شرعاً محال ہیں وہ مانگنے لگے یا معاصی اور لغو چیزوں کی طلب کرے، یا ایسا سوال کرے جو اس کی شان و حیثیت کے مناسب نہیں یہ سب "اعتداء فی الدعاء" میں داخل ہے۔
۵۶ ۔۔۔ پچھلی آیتوں میں ہر حاجت کے لئے خدا کو پکارنے کا طریقہ بتلایا گیا تھا۔ اس آیت میں مخلوق اور خالق دونوں کے حقوق کی رعایت سکھلائی۔ یعنی جب دنیا میں معاملات کی سطح درست ہو تو تم اس میں گڑ بڑ نہ ڈالو، اور خوف و رجاء کے ساتھ خدا کی عبادت میں مشغول رہو۔ نہ اس کی رحمت سے مایوس ہو اور نہ ا سکے عذاب سے مامون اور بے فکر ہو کر گناہوں پر دلیر بنو۔ میرے نزدیک یہ ہی راجح ہے کہ یہاں وادعوہ الخ میں دعاء سے عبادت مراد لی جائے جیسا کہ صلوٰۃ تہجد کے بارے میں فرمایا تَتَجَافیٰ جُنُوبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفاً وَّطَمَعاً۔
۵۸ ۔۔۔ پچھلی آیات میں "استواء علی العرش" کے ساتھ فلکیات (چاند، سورج وغیرہ) میں جو خدائی تصرفات ہیں، ان کا بیان تھا، درمیان میں بندوں کو کچھ مناسب ہدایات کی گئیں۔ اب سفلیات اور "کائنات الجو"کے متعلق اپنے بعض تصرفات کا ذکر فرماتے ہیں تاکہ لوگ معلوم کر لیں کہ آسمان زمین اور ان دونوں کے درمیانی حصہ کی کل حکومت صرف اسی رب العالمین کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ ہوائیں چلانا، مینہ برسانا، قسم قسم کے پھول پھل پیدا کرنا ہر زمین کی استعداد کے موافق کھیتی اور سبزہ اگانا، یہ سب اسی کی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کے نشان ہیں۔ اسی ذیل میں مُردوں کا موت کے بعد جی اٹھنا اور قبروں سے نکلنا بھی سمجھا دیا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ"ایک تو مردوں کا نکلنا قیامت میں ہے اور ایک دنیا میں یعنی جاہل ادنیٰ لوگوں میں (جو جہالت و ذلت کی موت سے مر چکے تھے) عظیم الشان نبی بھیجا اور انہیں علم دیا اور دنیا کا سردار کیا، پھر ستھری استعداد والے کمال کو پہنچے اور جن کی استعداد خراب تھی ان کو بھی فائدہ پہنچ رہا ناقص سا۔" گویا اس پورے رکوع میں بتلا دیا گیا کہ جب خدا اپنی رحمت و شفقت سے رات کی تاریکی میں ستارے چاند، سورج سے روشنی کرتا ہے اور خشکی کے وقت زمین کو سر سبز و شاداب کرنے اور انسان و حیوانات کی زندگی کا سامان مہیا فرمانے کے لئے اوپر سے بارش بھیجتا ہے، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایسا مہربان خدا اپنی مخلوق کو جہل و ظلم کی اندھیریوں سے نکالنے کے لئے کوئی چاند اور سورج پیدا نہ کرے اور بنی آدم کی روحانی غذا تیار کرنے اور قلوب کے کھیتوں کو سیراب کرنے کے لئے بارانِ رحمت نازل نہ فرمائے۔ بلاشبہ اس نے ہر زمانہ کی ضرورت اور اپنی حکمت کے موافق پیغمبروں کو بھیجا جن کے منور سینوں سے دنیا میں روحانی روشنی پھیلی اور وحی الٰہی کی لگاتار بارشیں ہوئیں۔ چنانچہ آئندہ کئی رکوع میں ان ہی پیغمبروں کے بھیجنے کا ذکر کیا گیا ہے اور جیسا کہ بارش اور زمین کی مثال میں اشارہ کیا گیا کہ مختلف زمینیں اپنی اپنی استعداد کے موافق بارش کا اثر قبول کرتی ہیں، اسی طرح سمجھ لو کہ انبیاء علیہم السلام جو خیرو برکت لے کر آتے ہیں، اس سے منتفع ہونا بھی حسنِ استعداد پر موقوف ہے جو لوگ ان سے انتفاع نہیں کرتے انہیں اپنی سوءِ استعداد پر رونا چاہیے
باراں کہ در لطافت طبعش خلاف نیست ، درباغ لالہ روید ودرشورہ بوم خس
۶۰ ۔۔۔ آدم علیہ السلام کا قصہ ابتدائے سورت میں گزر چکا۔ ان کے بعد نوح علیہ السلام پہلے اولوالعزم اور مشہور رسول ہیں جو زمین والوں کی طرف مشرکین کے مقابلے میں بھیجے گئے گو باعتبار اپنی خاص شریعت کے ان کی بعثت خاص اپنی قوم کی طرف مانی جائے تاہم ان اساسی اصولوں کے اعتبار سے جو تمام انبیاء علیہم السلام کی تعلیم میں مشترک ہیں کہا جا سکتا ہے کہ تمام انسان ہر نبی کے مخاطب ہوتے ہیں مثلاً توحید اور اقرارِ معاد کی تعلیم پر سارے پیغمبر متفق اللسان ہیں تو ایسی چیزوں کی تکذیب کرنا فی الحقیقت تمام انبیاء کی تکذیب کرنا ہے۔ بہرحال نوح علیہ السلام نے توحید وغیرہ کی عام دعوت دی۔ کہتے ہیں کہ آدم علیہ السلام کے بعد دس قرن ایسے گزرے کہ ساری اولاد آدم کلمہ توحید پر قائم تھی بت پرستی کی ابتداء ابن عباس کے بیان کے موافق یوں ہوئی کہ بعض صالحین کا انتقال ہو گیا جن کے نام وَد، سواع، یغوث، یعوق، نسر تھے، جو سورۃ نوح میں مذکور ہیں۔ لوگوں نے ان کی تصویریں بنا لیں تاکہ ان کے احوال و عبادات وغیرہ کی یاد تازہ رہے کچھ مدت کے بعد ان صورتوں کے موافق مجسمے تیار کر لئے حتی کہ کچھ دنوں کے بعد ان کی عبادت ہونے لگی اور یہ بت انہی بزرگوں کے نام سے موسوم کئے گئے۔ جب بت پرستی کی وباء پھیل گئی تو حق تعالیٰ نے نوح کو بھیجا۔ انہوں نے طوفان سے پہلے اپنی قوم کو ساڑھے نو سو برس تک توحید و تقویٰ کی طرف بلایا۔ اور دنیا و آخرت کے عذاب سے ڈرایا مگر لوگوں نے ان کی تضلیل و تجہیل کی اور کوئی بات نہ سنی آخر طوفان کے عذاب نے سب کو گھیر لیا اور جیسا کہ نوح نے دعاء کی تھی ربِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکَافِرِیْنَ دَیَّارًا۔ روئے زمین پر کوئی کافر عذاب الٰہی سے نہ بچا۔ بستانی نے "دائرۃ المعارف" میں یورپین محققین کے اقوال طوفان اور عموم طوفان کے متعلق نقل کئے ہیں۔
۶۲ ۔۔۔ یعنی میں تو ذرا بھی نہیں بہکا، ہاں تم بہک رہے ہو کہ خدا کے پیغامبر کو نہیں پہچانتے جو نہایت فصاحت سے خدائی پیغام تم کو پہنچا رہا ہے اور تمہاری بھلائی چاہتا ہے تم کو عمدہ نصیحتیں کرتا ہے۔ اور خدا کے پاس سے وہ علوم و ہدایت لے کر آیا ہے جن سے تم جاہل ہو۔
۶۳ ۔۔۔ یعنی اس میں تعجب کی کیا بات ہے کہ تم ہی میں سے خدا کسی ایک فرد کو اپنی پیغام رسانی کے لئے چن لے۔ آخر اس نے ساری مخلوق میں سے منصب خلافت کے لئے آدم علیہ السلام کو کسی مخصوص استعداد کی بنا پر چن لیا تو کیوں نہیں ہو سکتا کہ اولاد آدم میں سے بعض کامل الاستعداد لوگوں کو منصب نبوت و رسالت کے لئے انتخاب کر لیا جائے تاکہ وہ لوگ براہ راست خدا سے فیض پا کر دوسروں کو ان کے انجام سے آگاہ کریں اور یہ اس پر آگاہ ہو کر بدی سے بچ جائیں اور اس طرح خدا کے رحم و کرم کے موردِ بنیں۔
۶۴ ۔۔۔ یعنی حق و باطل اور نفع و نقصان کچھ نہ سوجھا۔ اندھے ہو کر برابر سرکشی اور تکذیب و بغاوت پر قائم رہے اور بت پرستی وغیرہ حرکات سے باز نہ آئے، تو ہم نے معدودے چند مومنین کو بچا کر جو نوح علیہ السلام کے ہمراہ کشتی پر سوار ہوئے تھے، باقی سب مکذبین کا بیڑا غرق کر دیا۔ اب جس قدر انسان دنیا میں موجود ہیں وہ ان ہی اہل سفینہ بلکہ صرف حضرت نوح کی ذرّیت ہیں۔
۶۵ ۔۔۔ ۱: "عاد" حضرت نوح کے پوتے اِرم کی اولاد میں ہیں۔ یہ قوم اسی کی طرف منسوب ہے ان کی سکونت"احقاف" (یمن) میں تھی۔ حضرت ہود علیہ السلام اسی قوم سے ہیں۔ اس لحاظ سے وہ ان کے قومی اور وطنی بھائی ہوئے۔
۲: ان لوگوں میں بت پرستی پھیل گئی تھی۔ روزی دینے، مینہ برسانے، تندرست کرنے اور مختلف مطالب و حاجات کے لئے الگ الگ دیوتا بنا رکھے تھے۔ جن کی پرستش ہوتی تھی۔ ہود علیہ السلام نے اس سے روکا اور اس جرم عظیم کی سزا سے ان کو ڈرایا۔
۶۶ ۔۔۔ یعنی معاذ اللہ! تم بے عقل ہو کہ باپ دادا کی روش چھوڑ کر ساری برادری سے الگ ہوتے ہو اور جھوٹے بھی ہو کہ اپنے اقوال کو خدا کی طرف منسوب کر کے خوامخواہ عذاب کا ڈراوا دیتے ہو۔
۶۸ ۔۔۔ یعنی میری کوئی بات بے عقلی کی نہیں، ہاں جو منصب رسالت مجھ کو خدا کی طرف سے تفویض ہوا ہے اس کا حق ادا کرتا ہوں۔ یہ تمہاری بے عقلی ہے کہ اپنے حقیقی خیر خواہوں کو جن کی امانت و دیانت پہلے سے لائقِ اطمینان ہے بے عقل کہہ کر خود اپنا نقصان کرتے ہو۔
۶۹ ۔۔۔ ۱: یعنی قوم نوح کے بعد دنیا میں تمہاری حکومتیں قائم کیں اور اس کی جگہ تم کو آباد کیا۔ شاید یہ احسان یاد دلا کر اس پر بھی متنبہ کرنا ہے کہ بت پرستی اور تکذیب رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی بدولت جو حشر ان کا ہوا وہ کہیں تمہارا نہ ہو۔
۲: جسمانی قوت اور ڈیل ڈول کے اعتبار سے یہ قوم مشہور تھی۔
۳: جو احسانات مذکور ہوئے وہ اور ان کے علاوہ خدا کے دوسرے بے شمار احسانات یاد کر کے اس کے شکر گذار اور فرمانبردار بننا چاہیے نہ یہ کہ منعم حقیقی سے بغاوت کرنے لگو۔
۷۰ ۔۔۔ یعنی جس عذاب کی ہم کو دھمکی دیتے ہیں، اگر آپ سچے ہیں تو وہ لے آئیے۔
۷۱ ۔۔۔ ۱: یعنی جب تمہاری سرکشی اور گستاخانہ بے حیائی اس حد تک پہنچ چکی تو سمجھ لو خدا کا عذاب اور غضب تم پر نازل ہی ہو چکا اس کے آنے میں اب کچھ دیر نہیں۔
۲: بتوں کو جو کہتے تھے کہ فلاں رزق دینے والا ہے اور فلاں مینہ برسانے والا اور فلاں بیٹا عطاء کرنے والا وعلیٰ ہذا القیاس، یہ محض نام ہی نام ہیں جن کے نیچے کوئی حقیقت اور واقعیت نہیں، خدائی صفات پتھروں میں کہاں سے آئیں۔ پھر ان نام کے معبودوں کے پیچھے جن کی معبودیت کی کوئی عقلی یا نقلی سند نہیں، بلکہ کل عقلی و نقلی دلائل جسے مردود ٹھہراتے ہیں، تم دعویٰ توحید میں مجھ سے جھگڑے اور بحثیں کرتے ہو۔ جب تمہارے جہل اور شقاوت و عناد کا پیمانہ اس قدر لبریز ہو چکا ہے تو انتظار کرو خدا ہمارے تمہارے ان جھگڑوں کا فیصلہ کر دے۔ میں بھی اسی فیصلہ کا منتظر ہوں۔
۷۲ ۔۔۔ یعنی ان پر سات رات اور آٹھ دن تک مسلسل آندھی کا طوفان آیا جس سے تمام کفار ٹکرا ٹکرا کر اور پٹک پٹک کر ہلاک کر دیئے گئے۔ یہ تو "عاد اولیٰ" کا انجام ہوا۔ اور اسی قوم کی دوسری شاخ (ثمود) جسے "عاد ثانیہ" کہتے ہیں، اس کا ذکر آگے آتا ہے۔
۷۳ ۔۔۔ ۱: یعنی جو دلیل تم مانگ رہے تھے وہ پہنچ گئی۔ صالح علیہ السلام کی قوم نے ان سے عہد و اقرار کیا تھا کہ آپ پتھر کی ایک ٹھوس چٹان میں سے حاملہ اونٹنی نکال دیں تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے خدا نے حضرت صالح علیہ السلام کی دعا سے ویسا ہی کر دیا۔ ان کو کہا جا رہا ہے کہ تمہارا فرمائشی معجزہ تو خدا نے دکھلا دیا۔ اب ایمان لانے میں کیا تأمل ہے۔
۲: یعنی یہ اونٹنی خدا کی قدرت اور میری صداقت کی نشانی ہے، جو میری دعا پر غیر معتاد طریقہ سے خدا نے پیدا کی، اس کے حقوق کی رعایت کرو۔ مثلاً خدا کی زمین میں مباح گھاس کھانے اور اس کی باری میں پانی پینے سے نہ روکو۔ غرض خدا کے اس نشان کے ساتھ جو تم نے خود مانگ کر حاصل کیا ہے، برائی سے پیش مت آؤ، ورنہ تمہاری بھی خیر نہیں۔
۷۴ ۔۔۔ یعنی احسان فراموشی اور شرک و کفر کر کے زمین میں خرابی مت پھیلاؤ۔
۷۶ ۔۔۔ قوم میں جو بڑے بڑے متکبر سردار اور معاندین تھے وہ غریب اور کمزور مسلمانوں سے استہزاءً کہتے تھے کہ (کیا بڑے آدمی تو آج تک نہ سمجھے؟ مگر تمہیں معلوم ہو گیا کہ صالح خدا کا بھیجا ہوا ہے؟ مسلمانوں نے جواب دیا کہ (معلوم ہونا کیا معنیٰ۔ معلوم تو تم کو بھی ہے) ہاں ہم دل سے قبول کر کے اس پر ایمان لا چکے ہیں۔ متکبرین اس حکیمانہ جواب سے کھسیانے ہو کر بولے کہ جس چیز کو تم نے مان لیا ہے ہم ابھی تک اسے نہیں مانتے۔ پھر بھلا تمہارے جیسے چند خستہ حال آدمیوں کا ایمان لے آنا کونسی بڑی کامیابی ہے۔
۷۷ ۔۔۔ ۱: کہتے ہیں کہ وہ اونٹنی اس قدر عظیم الجثہ اور ڈیل ڈول کی تھی کہ جس جنگل میں چرتی دوسرے مویشی ڈر کر بھاگ جاتے اور اپنی باری کے دن جس کنویں سے پانی پیتی کنواں خالی کر دیتی۔ گویا جیسے اس کی پیدائش غیر معمولی طریقہ سے ہوئی تو ازم وآثار حیات بھی غیر معمولی تھے۔ آخر لوگوں نے غیظ میں آ کر اس کے قتل پر اتفاق کر لیا۔ اور بدبخت "قدار " نے اس کی کونچیں کاٹ ڈالیں۔ بعدہٗ خود حضرت صالح کے قتل پر بھی تیار ہونے لگے اور اس طرح خدا کے احکام کو جو "صالح اور "ناقہ" کے متعلق تھے پس پشت ڈال دیا۔
۲: ایسے کلمات انسان کی زبان سے اس وقت نکلتے ہیں جب خدا کے قہر و غضب سے بالکل بے خوف ہو جاتا ہے۔ "عاد اولیٰ، کی طرح "ثمود" بھی اس مرتبہ پر پہنچ کر عذاب الٰہی کے مورد بنے جس کا ذکر آگے آتا ہے۔
۷۸ ۔۔۔ دوسری آیت میں ان کا "صیحہ" (چیخ) سے ہلاک ہونا بیان فرمایا ہے۔ شاید نیچے سے زلزلہ اور اوپر سے ہولناک آواز آئی ہو گی۔
۷۹ ۔۔۔ کہتے کہ حضرت صالح قوم کی ہلاکت کے بعد مکہ معظمہ یا ملک شام کی طرف چلے گئے اور جاتے ہوئے ان لاشوں کے انبار دیکھ کر یہ خطاب فرمایا، یا تو اسی طرح جیسے آنحضرت نے مقتولین بدر کو فرمایا تھا اور یا محض بطور تحسر فرضی خطاب تھا۔ جیسے شعراء دیار و اطلال (کھنڈرات) وغیرہ کو خطاب کرتے ہیں۔ اور بعض نے کہا کہ یہ خطاب ہلاکت سے پہلے تھا اس صورت میں بیان میں ترتیب واقعات مرعی نہ ہو گی۔ بہرحال اس خطاب میں دوسروں کو سنانا تھا کہ اپنے معتبر خیر خواہوں کی بات ماننی چاہیے۔ جب کوئی شخص خیر خواہوں کی قدر نہیں کرتا تو ایسا نتیجہ دیکھنا پڑتا ہے۔
۸۰ ۔۔۔ لوط حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے بھتیجے ہیں جو ان کے ساتھ عراق سے ہجرت کر کے ملک شام میں تشریف لائے اور خدا کی طرف سے سدوم اور ان کے گرد و نواح کی بستیوں کی طرف مبعوث ہوئے تاکہ ان کی اصلاح فرمائیں اور ان کے گندے خلاف فطرت اور بے حیائی کے کاموں سے باز رکھیں۔ جن میں وہاں کے لوگ مبتلا تھے۔ نہ صرف مبتلا بلکہ اس بے حیائی کے موجد تھے۔ ان سے پیشتر عالم میں اس بیماری سے کوئی واقف نہ تھا۔ اولاً یہ ملعون حرکت شیطان نے سدوم والوں کو سمجھائی اور وہیں سے دوسرے مقامات میں پھیلی۔ حضرت لوط نے اس ملعون و شنیع حرکت کے عواقب پر متنبہ کیا۔ اور گندگی کو دنیا سے مٹانا چاہا موجودہ بائبل کے جمع کرنے والوں کی شرمناک جسارت پر ماتم کرنا پڑتا ہے کہ ایسے پاکباز اور معصوم پیغمبر کی نسبت جو دنیا کو بیحیائی اور گندگی سے پاک کرنے کے لیے آیا تھا۔ ایسی سخت ناپاک حرکات منسوب کیں جن کے سننے سے حیادار آدمی کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کبرت کلمۃً تخرج من افواھم ان یقولون الا کذبا۔
۸۱ ۔۔۔ یعنی صرف یہ ہی نہیں کہ ایک گناہ کے تم مرتکب ہو رہے ہو بلکہ اس کے خلاف فطرت فعل کا ارتکاب اس کی دلیل ہے کہ تم انسانیت کی حدود سے بھی باہر نکل چکے ہو۔
۸۳ ۔۔۔ یعنی آخری بات انہوں نے یہ کہی کہ جب ہم سب کو یہ گندہ سمجھتے ہیں اور آپ پاک بننا چاہتے ہیں تو گندوں میں پاکوں کا کیا کام۔ لہٰذا انہیں اپنی بستی ہی سے نکال دینا چاہیے کہ یہ روز روز کی رکاوٹ ختم ہو۔ خیر وہ ملعون تو کیا نکالتے ہاں حق تعالیٰ نے لوط اور ان کے متعلقین کو عزت و عافیت کے ساتھ صحیح و سالم ان بستیوں سے نکال لیا اور ان بستیوں پر عذاب مسلط کر دیا۔ جس کا ذکر آگے آتا ہے۔ لوط کے متعلقین میں سے صرف ان کی بیوی آپ سے علیحدہ رہی اور معذبین کے ساتھ ہلاک ہوئی کیونکہ اس کا سازباز ان معذبین سے تھا۔ لوط کے یہاں جو مہمان وغیرہ آتے ان کی اطلاع یہ ہی کیا کرتی اور ان کو بدکاری کی ترغیب دیتی تھی۔ یا جیسا کہ بعض نے لکھا ہے مردوں کی طرح عورتوں میں بھی "،مساحقہ" کا رواج ہو گیا۔ یہ عورت اس میں مبتلا تھی۔ بہرحال عذاب ان سب پر آیا جو اس مہلک مرض میں مبتلا تھے اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ نبی کا مقابلہ اور تکذیب کرتے تھے یا جو کفر و فحش کے سسٹم میں ان کے معین و مددگار تھے۔
۸۴ ۔۔۔ ۱: دوسری جگہ مذکور ہے کہ بستیاں الٹ دی گئیں اور پتھروں کا مینہ برسایا گیا بعض ائمہ کے نزدیک آج بھی لوطی کی سزا یہ ہے کہ کسی پہاڑ وغیرہ بلند مقام سے اسے گرایا جائے اور اوپر سے پتھر مارے جائیں، اور سخت بدبو دار گندی جگہ میں مقید کیا جائے۔
۲: یعنی گناہ کرتے وقت اس کا بد انجام سامنے نہیں آتا۔ عاجل شہوت و لذت کے غلبہ میں وہ بات کر گزرتا ہے جو عقل و انسانیت کے خلاف ہے لیکن عقلمند کو چاہیے کہ دوسروں کے واقعات سن کر عبرت حاصل کرے اور بدی کے انجام کو ہمیشہ پیش نظر رکھے۔
۸۵ ۔۔۔ ۱: قرآن میں دوسری جگہ حضرت شعیب کا "اصحاب ایکہ" کی طرف مبعوث ہونا مذکور ہے اگر اہل مدین اور اصحاب ایکہ ایک ہی قوم ہے فبہا و نعمت۔ اور دو جداگانہ قومیں میں تو دونوں کی طرف مبعوث ہوئے ہوں گے اور دونوں میں کم تولنے ناپنے کا مرض مشترک ہو گا۔ بہرحال حضرت شعیب نے علاوہ توحید وغیرہ کی عام دعوت کے خاص معاشرتی معاملات کی اصلاح اور حقوق العباد کی حفاظت کی طرف بڑے زور سے توجہ دلائی جیسا کہ آئندہ آیات میں مذکور ہے حضرت شعیب کو کمال فصاحت کی وجہ سے "خطیب الانبیاء" کہا جاتا ہے۔
۲: یعنی میری صداقت کی دلیل ظاہر ہو چکی اب جو نصیحت کی بات تم سے کہوں اسے قبول کرو اور جن خطرناک عواقب پر متنبہ کروں، ان سے ہوشیار ہو جاؤ۔
۳: بندوں کے حقوق کی رعایت اور معاملات باہمی کی درستی جس کی طرف ہمارے زمانے کے پرہیز گاروں کو بھی بہت کم توجہ ہوتی ہے خدا کے نزدیک اس قدر اہم چیز ہے کہ اسے ایک جلیل القدر پیغمبر کا مخصوص وظیفہ قرار دیا گیا، جس کی مخالفت پر ایک قوم تباہ کی جا چکی ان آیات میں حضرت شعیب کی زبانی آگاہ فرما دیا کہ لوگوں کو ادنیٰ ترین مالی نقصان پہنچانا اور ملک میں اصلاحی حالت قائم ہو چکنے کے بعد خرابی اور فساد پھیلانا خواہ کفر شرک کر کے یا ناحق قتل و نہب وغیرہ سے۔ یہ کسی ایماندار کا کام نہیں ہو سکتا۔
۸۶ ۔۔۔ ۱: راستوں پر بیٹھنا دو وجہ سے تھا۔ راہ گیروں کو ڈرا دھمکا کر ظلماً مال وصول کریں اور مومنین کو شعیب کے پاس جانے اور خدا کا دین اختیار کرنے سے روکیں اور خدائی مذہب کے متعلق نکتہ چینی اور عیب جوئی کی فکر میں رہیں۔
۲: یعنی تعداد اور دولت دونوں میں کم تھے خدا نے دونوں طرف تم کو بڑھایا۔ مردم شماری بھی بڑھ گئی اور دولت مند بھی ہو گئے۔ خدا کے ان احسانات کا شکر ادا کرو۔ اور وہ جب ہی ادا ہو سکتا ہے کہ خدا کے اور بندوں کی حقوق پہچان کی عملی درستی اور اصلاح میں مشغول رہو اور ان نعمتوں پر مغرور نہ ہو بلکہ خرابی اور فساد مچانے والوں کا جو انجام پہلے ہوچکا ہے اسے پیش نظر رکھ کر خدائی گرفت سے ڈرتے رہو۔
۸۷ ۔۔۔ یعنی جو چیز میں لے کر آیا ہوں اگر تم متفقہ طور پر قبول نہیں کرتے بلکہ اختلاف ہی کی ٹھان رکھی ہے تو تھوڑا صبر کرو یہاں تک کہ آسمان ہی سے میرے تمہارے اختلافات کا فیصلہ ہو جائے۔
۸۸ ۔۔۔ ۱: "عود" کے معنی کسی چیز سے نکل کر اس کی طرف جانے کے ہیں۔ حضرت شعیب کے ساتھیوں کی نسبت تو یہ لفظ حقیقتہ صادق ہو سکتا ہے۔ کیونکہ وہ لوگ کفر سے نکل کر اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ باقی خود حضرت شعیب علیہ السلام کی نسبت تصور نہیں ہو سکتا کہ وہ پہلے (معاذ اللہ) ملت کفار میں داخل تھے پھر مسلمان ہوئے۔ لامحالہ یا تو ان کے اعتبار سے یہ خطاب تغلیبا ہو گا۔ یعنی عام کے حق میں جو الفاظ استعمال ہوئے اکثریت غالبہ کو مرجح سمجھ کر حضرت شعیب کے لیے علیحدہ الفاظ اختیار نہیں کیے۔ اور یا یہ لفظ ان کے حق میں کفار سے زعم کے موافق کہا گیا۔ کیونکہ بعثت سے پہلے جب تک حضرت شعیب نے دعوت و تبلیغ شروع نہ کی تھی اہل مدین کی کفریات کے متعلق ان کی خاموشی دیکھ کر شاید وہ یہ ہی گمان کرتے ہوں کہ یہ بھی ہمارے شامل حال اور ہمارے طور و طریق پر راضی ہیں۔ اور یا عود کو مجازاً بمعنی مطلق ضرورت کے لیا جائے۔ " کما قالہ بعض المفسرین
۲: یعنی دلائل و براہین کی روشنی میں تمہاری ان مُہلک کفریات سے خواہ ہم کتنے ہی بیزار اور کارِہ ہوں کیا تم پھر بھی یہ زہر کا پیالہ ہمیں زبردستی پلانا چاہتے ہو۔
۸۹ ۔۔۔ ۱: باطل اور جھوٹے مذہب کو سچا کہنا ہی خدا پر افتراء کرنا اور بہتان باندھنا ہے۔ پھر بھلا ایک جلیل القدر پیغمبر اور اس کے مخلص متبعین سے یہ کب ممکن ہے کہ وہ معاذ اللہ سچائی سے نکل کر جھوٹ کی طرف واپس جائیں اور جو سچے دعوے اپنی حقانیت یا مامور من اللہ ہونے کے کر رہے تھے ان سب کا بھی جھوٹ اور افتراء ہونا تسلیم کریں۔
۲: کسی کو تو ابتداء نجات دے چکا کہ اس میں داخل ہی نہ ہونے دیا۔ جیسے حضرت شعیب علیہ السلام اور بعضوں کو داخل ہونے کے بعد اس سے نکالا جیسے عامہ مومنین۔
۳: یعنی اپنے اختیار یا تمہارے اکراہ واجبار سے ممکن نہیں کہ ہم معاذ اللہ کفر کی طرف جائیں۔ ہاں اگر فرض کرو خدا ہی کی مشیت ہم میں سے کسی کی نسبت ایسی ہو جائے تو اس کے ارادہ کو کون روک سکتا ہے۔ اگر اس کی حکمت اسی کو مقتضی ہو تو وہاں کوئی نہیں بول سکتا کیونکہ اسی کا علم تمام مصالح اور حکمتوں پر محیط ہے۔ بہرحال تمہاری دھمکیوں سے ہم کو کوئی خوف نہیں کیونکہ ہمارا بالکلیہ اعتماد اور بھروسہ اپنے خدائے واحد پر ہے کسی کے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا جو ہو گا اسی کی مشیت اور علم محیط کے تحت میں ہو گا۔ اسی لیے ہم اپنے اور تمہارے فیصلے کے لیے بھی اس سے دعا کرتے ہیں کیونکہ ایسے قادر اور علیم و حکیم سے بہتر کسی کا فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ حضرت شعیب کے ان الفاظ سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ انبیاء کے قلوب حق تعالیٰ کی عظمت و جبروت اور اپنی عبودیت و افتقار کے کس قدر عظیم و عمیق احساس سے معمور ہوتے ہیں اور کس طرح ہر آن اور ہر حال میں ان کا توکل و اعتماد تمام وسائط سے منقطع ہو کر اسی وحدہٗ لاشریک لہٗ پر پہاڑ سے زیادہ مضبوط اور غیر متزلزل ہوتا ہے۔
۹۰ ۔۔۔ یعنی باپ دادا کا مذہب جھوٹا، یہ تو دین کی خرابی ہوئی اور تجارت میں ناپ تول ٹھیک رکھی، یہ دنیا کا نقصان ہوا۔
۹۱ ۔۔۔ متعدد آیات کے جمع کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان پر ظلّہ، صیحہ، رجفہ تین طرح کے عذاب آئے یعنی اول بادل نے سایہ کر لیا جس میں آگ کے شعلے اور چنگاریاں تھیں۔ پھر آسمان سے سخت ہولناک اور جگر پاس آواز ہوئی اور نیچے سے زلزلہ آیا (ابن کثیر)
۹۲ ۔۔۔ انہوں نے شعیب اور ان کے ہمراہیوں کو بستی سے نکالنے کی دھمکی دی تھی۔ سو وہ ہی نہ رہے نہ ان کی بستیاں رہیں، اور وہ جو کہتے تھے کہ شعب علیہ السلام کے اتباع کرنے والے خراب ہوں گے، سو خود ہی خراب اور خائب و خاسر ہو کر رہے۔
۹۳ ۔۔۔ یعنی اب ہلاک ہوئے پیچھے ایسی قوم پر افسوس کرنے سے کیا حاصل، جس کو ہر طرح سمجھایا جا چکا۔ موثر نصیحتیں کی گئیں، آنے والے عواقب و نتائج سے ڈرایا گیا۔ مگر انہوں نے کسی کی ایک نہ سنی بلکہ مخلص خیرخواہوں سے دست و گریباں ہی رہے۔
۹۵ ۔۔۔ پیغمبروں کی بعثت کے وقت جب عموماً لوگ تکذیب و مقابلہ سے پیش آتے ہیں تو خدا کی طرف سے ابتدائی تنبیہ کے طور پر بیماری، قحط اور مختلف قسم کی سختیاں اور تکلیفیں مسلط کی جاتی ہیں۔ تاکہ مکذبین تازیانے کھا کر شرارتوں سے باز آ جائیں اور بارگاہ الٰہی کی طرف جھکیں۔ جب ان تنبیہات کا اثر قبول نہیں کرتے تو سختیوں اور مصیبتوں کو ہٹا کر ان پر فراخی اور عیش و خوشحالی وغیرہ بھیجی جاتی ہے کہ یا احسانات سے متاثر ہو کر کچھ شرمائیں اور حضرت ربوبیت کی طرف متوجہ ہوں یا عیش و ثروت کے نشہ میں چور ہو کر بالکل ہی غافل و بدمست بن جائیں۔ گویا جہاں تک صحت، اولاد اور دولت و حکومت بڑھتی جائے اسی کے ساتھ ان کی نخوت و غفلت میں بھی ترقی ہو حتیٰ کہ پچھلی سختیوں کو یہ کہہ کر فراموش کر دیں کہ تکلیف و راحت کا سلسلہ تو پہلے ہی سے چلا آتا ہے۔ ہمارے کفر و تکذیب کو اس میں کچھ دخل نہیں۔ ورنہ اب خوشحالی کیوں حاصل ہوتی۔ یہ سب زمانہ کے اتفاقات ہیں جو ہمارے اسلاف کو بھی اسی طرح پیش آتے رہے ہیں۔ اس حد پر پہنچ کر ناگہاں خدا کا عذاب آ دباتا ہے جس کی اپنے عیش و آرام میں انہیں خبر بھی نہیں ہوتی۔ حضرت شاہ صاحب نے کیا خوب لکھا ہے کہ "بندہ کو دنیا میں گناہ کی سزا پہنچتی رہے تو امید ہے کہ توبہ کرے اور جب گناہ راست آ گیا تو یہ اللہ کا بہلاوا ہے۔ پھر ڈر ہے ہلاکت کا جیسے کسی نے زہر کھایا اگل دے تو امید ہے اور بچ گیا تو کام آخر ہوا۔
۹۶ ۔۔۔ یعنی ہم کو بندوں سے کوئی ضد نہیں جو لوگ عذابِ الٰہی میں گرفتار ہوتے ہیں یہ انہی کی کرتوتوں کا نتیجہ ہے۔ اگر یہ لوگ ہمارے پیغمبروں کو مانتے اور حق کے سامنے گردن جھکاتے اور کفر و تکذیب وغیرہ سے بچ کر تقویٰ کی راہ اختیار کرتے تو ہم ان کو آسمانی و زمینی برکات سے مالا مال کر دیتے۔ امام رازی رحمۃ اللہ نے فرمایا کہ برکت کا لفظ دو معنی میں استعمال ہوتا ہے کبھی تو خیر باقی و دائم کو برکت سے تعبیر کرتے ہیں اور کبھی کثرت آثار فاضلہ پر یہ لفظ اطلاق کیا جاتا ہے۔ لہٰذا آیت کی مراد یہ ہو گی کہ ایمان و تقویٰ اختیار کرنے پر ان آسمانی و زمینی نعمتوں کے دروازے کھول دئیے جاتے جو دائمی اور غیر منقطع ہوں یا جن کے آثار فاضلہ بہت کثرت سے ہوں۔ ایسی خوشحالی نہیں، جو مکذبین کو چند روز کے لیے بطور امہال و استدراج حاصل ہوتی ہے اور انجام کار دنیا میں ورنہ آخرت میں تو ضرور ہی وبال جان بنتی ہے۔
۹۸ ۔۔۔ یعنی جب عیش و آرام میں غافل پڑے سو رہے ہوں یا دنیا کے کاروبار اور لہو و لعب میں مشغول ہوں اس وقت خدا کا عذاب ان کو دفعتاً آ گھیرے۔ اس بات سے یہ لوگ کیوں نڈر اور بے فکر ہو رہے ہیں۔ حالانکہ جن اسباب کی بنا پر گزشتہ اقوام پر عذاب آئے ہیں، وہ ان میں بھی موجود ہیں۔ یعنی کفر و تکذیب اور سید الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ مقابلہ و محاربہ۔
۹۹ ۔۔۔ دنیاوی خوشحالی اور عیش کے بعد جو خدا کی ناگہانی پکڑ ہے، اسی کو " مگر اللہ" (خدا کا داؤ) فرمایا عیش و تنعم میں پڑ کر وہ ہی لوگ خدا کی ناگہانی گرفت سے بے فکر ہوتے ہیں جن کی شامت اعمال نے انہیں دھکا دے دیا ہو۔ مومن کی شان یہ ہے کہ وہ کسی حال میں خدا کو نہ بھولے
ظفر اس کو آدمی نہ جانئے گا، گو ہو کیسا ہی صاحب فہم و ذکا
جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی، جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا
۱۰۰ ۔۔۔ جیسے پہلوں کو پکڑ لیا، تمہیں بھی پکڑ سکتے ہیں۔
۱۰۱ ۔۔۔ یعنی جس چیز کا ایک دفعہ انکار کر بیٹھے، پھر کتنے ہی نشان دیکھیں، دنیا ادھر سے اُدھر ہو جائے ممکن نہیں کہ اس کا اقرار کر لیں۔ جب حق تعالیٰ کے مقابلہ میں کسی قوم کی ضد اور ہٹ دھرمی اس درجہ تک پہنچ جاتی ہے تب عادتاً اصلاحِ حال و قبولِ حق کا امکان باقی نہیں رہتا۔ یہ ہی صورت دلوں پر مہر لگ جانے کی ہوتی ہے۔ یہاں واضح فرمایا کہ اللہ کی طرف سے دلوں پر مہر لگا دینے کا کیا مطلب ہے (تنبیہ) " وَلَقَدْ جَأتہُمْ رُسُلُہُمْ بِالْبَیِّنَات"سے معلوم ہو گیا کہ جو انبیاء علیہم السلام قوم نوح، عاد،ثمود، قوم لوط، اہل مدین کی بستیوں کی طرف مبعوث ہوئے وہ سب بینات (واضح نشان) دے کر بھیجے گئے۔ پس ہود علیہ السلام کی قوم کا یہ کہنا " یَاہُوْدُ مَاجِئْتَنَا بِبَیِّنَۃٍ" الخ محض تعنت و عناد کی راہ سے تھا۔
۱۰۲ ۔۔۔ "عہد" سے ممکن ہے عام عہود مراد ہوں یا خاص "عہد الست" کا ارادہ کیا گیا ہو، یا وہ عہد جو مصائب اور سختیوں کے وقت کرتے تھے کہ فلاں سختی اٹھا لی جائے تو ہم ضرور ایمان لے آئیں گے جیسے فرعونیوں نے کہا تھا لَئِنْ کَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُوْمِنَنَّ لَکَ وَلَنُرْسِلَنَّ مَعَکَ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ فَلَمَّاکَشَفْنَاعَنْہُمُ الرِّجْزَ اِلیٰ اَجَلٍ ہُمْ بِالِغُوہُ اِذَا ھمْ یَنْکُثُوْنَ۔
۱۰۳ ۔۔۔ ۱: یعنی جن انبیاء کا پہلے ذکر ہوا (نوح، ہود، صالح، لوط، شعیب علیہم السلام) ان سب کے بعد تشریف لائے۔ ان پیغمبروں کا ذکر فرمانے کے بعد درمیان میں "سنت اللہ" بیان فرمائی تھی جو مکذبین کے متعلق جاری رہی ہے جس کے ضمن میں موجودہ جماعت کفار کو متنبہ فرما دیا گیا۔ اس درمیانی مضمون سے فارغ ہو کر پھر سلسلہ بعثتِ رُسل کی ایک عظیم الشان کڑی کا ذکر شروع کرتے ہیں۔
۲: اس سے زیادہ مفسد کون ہو گا جو خدا کے سفراء کو جھٹلائے۔ آیات اللہ کی تکذیب اور حق تلفی کرے۔ مخلوقِ خدا سے اپنی پرستش کرائے۔ آگے ضروری واقعات ذکر فرما کر اس انجام کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔
۱۰۵ ۔۔۔ ۱: اکثر مفسرین نے ،حقیق، کے معنی جدیر (لائق) کے لیے ہیں۔ اسی لیے " علیٰ"کو بمعنی " باء" لینا پڑا ہے یعنی میری شان کے یہ ہی لائق ہے کہ خدا کی طرف سے کوئی ناحق اور غلط بات نہ کہوں۔ بعض نے "حقیق" کو بمعنی "حریص" لیا ہے۔ لیکن مترجم محقق رحمۃ اللہ نے "حقیق" کو "قائم و ثابت" کے معنی میں لیا۔ جس کا مطلب یہ ہو گا کہ میں بدون ادنیٰ تزلزل اور تذبذَب کے پوری مضبوطی اور استقلال کے ساتھ اس پر قائم ہوں کہ سچ کے سوا کوئی چیز زبان سے نہ نکالوں، خدا کا پیام بلا کم و کاست تم کو پہنچا دوں اور تمہاری تکذیب و تخویف کی وجہ سے ذرا بھی نہ ڈگمگاؤں۔
۲: یوں تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو کئی طرح کی نصیحتیں کیں جیسا کہ دوسری آیات میں مذکور ہیں فَقُلْ ہَلْ لَّکَ اِلیٰ اَنْ تَزَکیٰ وَاَہْدِیَکَ اِلیٰ رَبِّکَ فَتَخْشیٰ مگر ایک بڑی مہم چیز یہ تھی کہ بنی اسرائیل کو جو انبیائے کرام کی اولاد میں سے تھے اور جنہیں فرعونیوں نے ذلیل جانوروں کی طرح غلام بنا رکھا تھا، مظالم و شدائد سے نجات دلائیں۔ اس موقع پر فرعون کو مخاطب کرتے ہوئے اسی چیز کی طرف توجہ دلائی ہے۔ یعنی بنی اسرائیل کو اپنی قیدو بیگار سے نجات دے تاکہ وہ آزادی کے ساتھ اپنے پروردگار کی عبادت میں مشغول ہوں اور میرے ساتھ اپنے وطن مالوف (ملک شام) میں چلے جائیں کیونکہ ان کے جد اعلیٰ حضرت ابراہیم خلیل اللہ نے عراق سے ہجرت کر کے شام ہی میں قیام فرمایا تھا۔ بعدہٗ حضرت یوسف علیہ السلام کی وجہ سے بنی اسرائیل مصر میں آباد ہوئے۔ اب چونکہ یہاں کی قوم قبطیوں نے ان پر طرح طرح کے مظالم کر رکھے ہیں، ضرورت ہے کہ ان کو قبطیوں کی ذلیل غلامی سے آزادی دلا کر آبائی وطن کی طرف واپس کیا جائے۔
۱۰۷ ۔۔۔ جس کے اژدھا ہونے میں کسی طرح کی شک و شبہ کی گنجائش نہ تھی کہتے ہیں کہ وہ اژدھا منہ کھول کر فرعون کی طرف لپکا آخر فرعون نے بدحواس ہو کر موسیٰ علیہ السلام سے اس کے پکڑنے کی درخواست کی۔ موسیٰ علیہ السلام کا ہاتھ لگانا تھا کہ پھر عصا بن گیا۔
۱۰۸ ۔۔۔ یعنی ہاتھ گریبان میں ڈال کر اور بغل میں دبا کر نکالا تو لوگوں نے کھلی آنکھوں دیکھ لیا کہ غیر معمولی طور پر سفید اور چمکدار تھا۔ یہ روشنی اور چمک کسی مرض برص وغیرہ کی وجہ سے نہ تھی، بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قلب منوّر کی روشنی بطریق اعجاز ہاتھ میں سرایت کر جاتی تھی۔
۱۰۹ ۔۔۔ معلوم ہوتا ہے کہ فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کے معجزات سے ہیبت زدہ ہو کر پبلک کو جمع کیا اور پہلے اس نے بذاتِ خود (کما فی الشعراء) پھر اس کی طرف سے بڑے بڑے لیڈروں نے اس رائے کا اظہار کیا کہ موسیٰ علیہ السلام (معاذ اللہ) کوئی بڑے ماہر جادوگر معلوم ہوتے ہیں۔ کیونکہ جو خوارق موسیٰ علیہ السلام سے ظاہر ہوئے ان کی حسیّات کے موافق جادو سے بہتر ان کی کوئی توجیہ نہ ہو سکتی تھی۔
۱۱۰ ۔۔۔ یعنی عجیب و غریب ساحرانہ کرشمے دکھلا کر مخلوق کو اپنی طرف مائل کرنے اور انجام کار ملک میں اثرو اقتدار پیدا کر کے اور بنی اسرائیل کی حمایت و آزادی کا نام لے کر قبطیوں کو جو یہاں کے اصل باشندے ہیں، ان کے ملک و وطن (مصر) سے بے دخل کر دے۔ ان حالات کو پیش نظر رکھ کر مشورہ دو کہ کیا ہونا چاہیے۔
۱۱۲ ۔۔۔ مشاورت باہمی کے بعد یہ پاس ہوا کہ فرعون سے درخواست کی جائے کہ وہ ان دونوں (موسیٰ و ہارون) کے معاملہ میں جلدی نہ کرے۔ ان کا بہترین توڑ اور موثر جواب یوں ہو سکتا ہے کہ چپڑاسی بھیج کر تمام قلمرو میں سے فنِ سحر کے جاننے والے جو ان سے بھی بڑھ کر اس فن کے ماہر (سحّار) ہوں جمع کر لیے جائیں، ان سے ان کا مقابلہ کرایا جائے۔ چنانچہ یوں ہی کیا گیا۔
۱۱۳ ۔۔۔ ساحرین فرعون نے اِنَّ لَنَا لَاَجْرًا کہہ کر پہلے ہی قدم پر جتلا دیا کہ انبیاء علیہم السلام جن کا پہلا لفظ مَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّاعَلَی اللّٰہِ ہوتا ہے، کوئی پیشہ ور لوگ نہیں ہوتے۔
۱۱۴ ۔۔۔ یعنی مزدوری کیا چیز ہے وہ تو ملے گی، اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ تم ہمارے مقربین بارگاہ اور مصاحبین خاص میں داخل کر لیے جاؤ گے۔
۱۱۵ ۔۔۔ یہ شاید اس بناء پر کہا کہ پیشتر حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کے روبرو عصا ڈال کر باذن اللہ اژدھا بنا چکے تھے۔
۱۱۶ ۔۔۔ ۱: یعنی جب تم کو یہ مقابلہ ہی منظور ہے اور اسی پر آخری فیصلہ کا انحصار کرتے ہو تو پہلے تم ہی ڈال کر پوری قوت آزمائی کر لو۔ کیونکہ باطل کی پوری نمائش اور زور آزمائی کے بعد جو حق کا غلبہ مشاہد ہو گا، وہ امید ہے کہ زیادہ موثر اور اوقع فی النفوس ہو تو فی الحقیقت یہ موسیٰ علیہ السلام کی طرف سے سحر کے ساتھ معجزہ کا مقابلہ کرنے کی اجازت نہ تھی بلکہ دو صورتوں میں سے ایک ایسی صورت کا انتخاب تھا جو باطل کے خمود اور حق کے غلبہ و وضوح کی موثر ترین صورت ہو سکتی تھی۔
۲: یعنی جادو کے زور سے نظر بندی کر کے مجمع پر چھا گئے اور لوگوں کو مرعوب کر لیا۔ دوسری آیت میں ہے کہ انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں زمین پر پھینک دیں جس سے زمین پر سانپ ہی سانپ دوڑتے معلوم ہونے لگے (یُخَیَّلُ اِلَیْہِ مِنْ سِحْرِھمْ اَنَّہَا تَسْعیٰ) ان آیات سے ظاہر ہوا کہ ساحرین فرعون نے اس وقت جو شعبدہ دکھلایا تھا، اس میں فی الواقع قلب ماہیت نہیں ہوا بلکہ وہ محض تخییل اور نظر بندی تھی۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ تمام اقسامِ سحر اسی میں منحصر ہوں، شاید انہوں نے یہ گمان کیا ہو کہ ہم اتنی ہی کارروائی سے موسیٰ علیہ السلام کو دبا لیں گے۔ اور کچھ گنجائش ملتی تو ممکن تھا کہ اس سحر عظیم سے بھی بڑا کوئی سحر اعظم دکھلاتے، مگر اعجازِ موسوی نے سحر کو پہلے ہی مورچہ پر مایوس کن شکست دے دی، آگے موقع ہی نہ رہا کہ مزید مقابلہ جاری رکھا جاتا۔
۱۲۰ ۔۔۔ یعنی عصائے موسیٰ سانپ بن کر ان کی تمام لاٹھیوں اور رسیوں کو نگل گیا اور سارا بنا بنایا کھیل ختم کر دیا۔ جس سے ساحرین کو تنبہ ہوئی کہ یہ سحر سے بالا تر کوئی اور حقیقت ہے۔ آخر فرعون کے لوگ بھرے مجمع میں شکست کھا کر اور ذلیل ہو کر میدان مقابلہ سے لوٹے، اور ساحرین خدائی نشانی دیکھ کر بے اختیار سجدہ میں گر پڑے۔ کہتے ہیں کہ موسیٰ و ہارون نے ظہورِ حق پر سجدہ شکر ادا کیا۔ اسی وقت ساحرین بھی سر بسجود ہو گئے۔ اُلْقِیَ السَّحَرَۃُ کا لفظ بتلاتا ہے کہ کوئی ایسا قوی حال ان پر طاری ہوا جس کے بعد بجز خضوع و استسلام کوئی چارہ نہیں رہا۔ رحمت الٰہیہ کا کیا کہنا کہ جو لوگ ابھی ابھی پیغمبر خدا سے نبرد آزمائی کر رہے تھے سجدہ سے سر اٹھاتے ہی اولیاء اللہ اور عارفِ کامل بن گئے۔
۱۲۲ ۔۔۔ چونکہ فرعون بھی اپنی نسبت اَنَارَبُّکُمُ الْاَعْلیٰ کہتا تھا، شاید اس لیے رَبُّ الْعَالَمِیْنَ کے ساتھ رَبِّ مُوْسیٰ وَھرُوْنَ کہنے کی ضرورت ہوئی۔ اس میں یہ بھی اشارہ ہو گیا کہ بیشک جہان کا پروردگار وہ ہی ہو سکتا ہے جس نے موسیٰ و ہارون کو اپنی خاص ربوبیت سے بدون توسط اسباب ظاہرہ دنیا کے متکبروں پر علیٰ رؤس الاشہاد اس طرح غالب کر کے دکھلا دیا۔
۱۲۳ ۔۔۔ یعنی یہ تم سب جادو گروں کی ملی بھگت ہے، غالباً موسیٰ تمہارا بڑا استاد ہو گا۔ اس کو آگے بھیج دیا پھر سب نے اپنی مغلوبیت کا اظہار کر دیا۔ تاکہ عام لوگ متاثر ہو جائیں۔ اس گہری سازش سے تمہارا مقصود یہ ہے کہ اس ملک کے اصلی باشندوں کو نکال باہر کرو اور خود مصر کی سلطنت پر قبضہ کر لو۔ یہ تقریر فرعون نے اپنی کھلی شکست پر پردہ ڈالنے اور لوگوں کو اُلُّو بنانے کی غرض سے کی تھی (فَاسْتَخَفَّ قَوْمَہ فَاَطَاعُوہُ) مگر جس چیز سے فرعون اور فرعونی ڈر رہے تھے، آخر تقدیر الٰہی سے وہ ہی پیش آئی وَنُرِیَ فِرْعَوْنَ وَھامَانَ وَجُنَوْدَہُمَا مِنْہُمْ مَّاکَانُوْا یَحْذَرُوْنَ(القصص، رکوع۱، آیت:۶)
۱۲۵ ۔۔۔ ساحرین توحید اور تمنائے لقاء اللہ کی شراب سے مخمور ہو چکے تھے، جنت و دوزخ گویا آنکھوں کے سامنے تھیں۔ بھلا وہ ان دھمکیوں کی کیا پرواہ کر سکتے تھے انہوں نے صاف کہہ دیا کہ کچھ مضائقہ نہیں جو کرنا ہو کر گزر پھر ہم کو اپنے خدا کے پاس جانا ہے تیرے سر ہو کر سہی۔ وہاں کے عذاب سے یہاں کی تکلیف آسان ہے اور اس کی رحمت و خوشنودی کے راستہ میں دنیا کی بڑی سے بڑی تکالیف و مصائب کا برداشت کر لینا بھی عاشقوں کے لیے سہل ہے۔
" ہنیئًا لارباب النعیم نعیمہم۔ وللعاشق المسکین مایتجرَّع"
۱۲۶ ۔۔۔ یعنی جب رب کی نشانیوں کو مان لینے سے ہم تیری نگاہ میں مجرم ٹھہرے ہیں، اسی رب سے ہماری دعا ہے کہ وہ تیری زیادتیوں اور سختیوں پر ہم کو صبر جمیل کی توفیق بخشے اور مرتے دم تک اسلام پر مستقیم رکھے ایسا نہ ہو کہ گھبرا کر کوئی بات تسلیم و رضاء کے خلاف کر گزریں۔
۱۲۷ ۔۔۔ ۱: جب حق کے نشان دیکھ کر ساحرین سجدہ میں گر پڑے اور بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام کا ساتھ دینا شروع کر دیا بلکہ بعض قبطیوں کا میلان بھی ان کی طرف ہونے لگا تو فرعونی لیڈر گھبرائے اور فرعون کو یہ کہہ کر تشدّد پر آمادہ کرنے لگے کہ موسیٰ اور اس کی قوم بنی اسرائیل کو یہ موقع نہ دینا چاہیے کہ وہ آزاد رہ کر ملک میں اودھم مچاتے پھریں اور عام لوگوں کو اپنی طرف مائل کر کے حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیں اور آئندہ تیری اور تیرے تجویز کئیے ہوئے معبودوں کی پرستش ملک سے موقوف کرا دیں۔
۲: فرعون اپنے کو "رب اعلیٰ" بڑا پروردگار کہتا تھا۔ غالبًا اسی "اعلیٰ" کو نباہ نے کے لیے کچھ ادنیٰ پروردگار بھی تجویز کیے ہوں گے۔ ان کو یہاں" اٰلِھَتکَ" کہا۔ بعض نے کہا کہ وہ گائے وغیرہ کی مجسم تصویریں تھیں، بعض نے سورج اور ستاروں کا ارادہ کیا ہے بعض کے نزدیک خود فرعون نے اپنی تصویر کے مجسمے پرستش کے لیے تقسیم کر دئیے تھے کچھ سہی بہرحال بڑا معبود اپنے ہی کو کہلواتا تھا۔ اور مَاعَلِمْتُ لَکُمْ مِنْ اِلٰہٍ غَیرِی کہہ کر خدا کے وجود کی نفی کرتا تھا۔ العیاذ باللہ۔
۳: موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے بھی فرعون نے بنی اسرائیل پر ظلم کر رکھا تھا کہ لڑکوں کو قتل کر دیتا۔ اس خوف سے کہ کہیں یہ وہ ہی اسرائیلی نہ ہو جس کے ہاتھ پر اس کی سلطنت کے زوال کی خبر منجمین نے دی تھی۔ اور لڑکیوں کو خدمت وغیرہ کے لیے زندہ رہنے دیتا۔ اب موسیٰ علیہ السلام کا اثر دیکھ کر اندیشہ ہوا کہ کہیں اس کی تربیت و اعانت سے بنی اسرائیل زور نہ پکڑ جائیں اس لیے انہیں خوفزدہ اور عاجز کرنے کے لیے اپنے زور و قوت کے نشہ میں پھر اسی پرانی اسکیم پر عمل کرنے کی ٹھہرائی۔ بنی اسرائیل اس سفاکانہ تجویز کو سن کر طبعی طور پر پریشان اور دہشت زدہ ہوئے ہوں گے۔ اس کا علاج موسیٰ علیہ السلام نے آئندہ آیت میں بتلایا۔
۱۲۸ ۔۔۔ یعنی گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ اللہ کے سامنے کسی کا زور نہیں چلتا، ملک اسی کا ہے جس کو مناسب جانے عطا فرمائے۔ لہٰذا ظالم کے مقابلہ میں اسی سے مدد مانگو۔ اسی پر نظر رکھو، اسی سے ڈرو، صبر و تقویٰ کی راہ اختیار کرو، اور یقین رکھو، کہ آخری کامیابی صرف متقین کے لیے ہے۔
۱۲۹ ۔۔۔ ۱: یعنی ہم تو ہمیشہ مصیبت ہی میں رہے۔ تمہاری تشریف آوری سے قبل ہم سے ذلیل بیگار لی جاتی تھی۔ اور ہمارے لڑکے قتل کیے جاتے تھے۔ تمہارے آنے کے بعد طرح طرح کی سختیاں کی جا رہی ہیں اور قتل ابناء کے مشورے ہو رہے ہیں۔ دیکھئے کب ہماری مصیبتوں کا خاتمہ ہو۔
۲: حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تسلی دی کہ زیادہ مت گھبراؤ۔ خدا کی مدد قریب آ گئی ہے۔ تم دیکھ لو گے کہ تمہارا دشمن ہلاک کر دیا جائے گا اور تم کو ان کے اموال کا مالک بنا دیا جائے گا تاکہ جس طرح آج سختی و غلامی میں تمہارا امتحان ہو رہا ہے، اس وقت خوشحالی اور آزادی دے کر آزمایا جائے کہ کہاں تک اس کی نعمتوں کی قدر اور احسانات کی شکر گزاری کرتے ہو۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ یہ کلام مسلمانوں کے سنانے کو نقل فرمایا، یہ سورت مکی ہے، اس وقت مسلمان بھی ایسے ہی مظلوم تھے "گفتہ آید در حدیثِ دیگراں" کے رنگ میں یہ بشارت ان کو پہنچائی
۱۳۱ ۔۔۔ گزشتہ آیت میں فرمایا تھا "قریب ہے کہ خدا تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے۔" یہاں سے اسی ہلاک موعود کے بعض مبادی کی تفصیل شروع کی گئی ہے۔ یعنی اسی سنت اللہ کے موافق جس کا بیان اسی پارہ کے شروع میں آیت وَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَۃٍ مِّنْ نَّبِیٍّ اِلَّااَخَذْنَآ اَہْلَہَا بِالْبَاسَآءِ وَالضَّرآءِ الخ کے تحت میں گزر چکا، خدا تعالیٰ نے فرعونیوں کو ابتدائی تنبیہ کے طور پر قحط، خشک سالی وغیرہ معمولی تکالیف اور سختیوں میں مبتلا کیا تاکہ وہ خواب غفلت سے چونکیں اور موسیٰ علیہ السلام کی پیغمبرانہ نصیحتوں کو قبول کر لیں۔ مگر وہ ایسے کا ہے کو تھے، انہوں نے ان تنبیہات کی کچھ پروا نہ کی بلکہ پہلے سے زیادہ ڈھیٹ اور گستاخ ہو گئے۔ چنانچہ ثُمَّ بَدَّلْنَا مَکَانَ السَّیِّئَۃِ الْحَسَنَۃِ کے قاعدہ سے جب قحط وغیرہ دور ہو کر ارزانی اور خوشحالی حاصل ہوتی تو کہنے لگتے کہ دیکھو ہماری خوش طالعی اور اقبال مندی کے لائق تو یہ حالات ہیں پھر اگر درمیان میں کبھی کسی ناخوشگوار اور بری حالت سے دوچار ہونا پڑ جاتا تو کہتے کہ یہ سب (معاذ اللہ) موسیٰ اور اس کے رفقاء کی شومیٔ تقید اور نحوست ہے۔ حق تعالیٰ نے اسی کا جواب دیا اَلَآ اِنَّمَا طَآئِرُھمْ عِنْدَاللّٰہِ الخ یعنی اپنی بدبختی اور نحوست کو مقبول بندوں کی طرف کیوں نسبت کرتے ہو۔ تمہاری اس نحوست کا واقعی سبب تو خدا کے علم میں ہے۔ اور وہ تمہارا ظلم و عدوان اور بغاوت و شرارت ہے۔ اسی سبب کی بناء پر خدا کے یہاں سے کچھ حصہ نحوست کا وقتی سزا اور تنبیہ کے طور پر تم کو پہنچ رہا ہے۔ باقی رہی تمہارے ظلم و کفر کی اصلی شومیٔ و نحوست یعنی پوری پوری سزا تو وہ ابھی اللہ کے پاس محفوظ ہے جو دنیا میں یا آخرت میں اپنے وقت پر تم کو پہنچ کر رہے گی۔ جس کی ابھی اکثر لوگوں کو خبر نہیں۔
۱۳۲ ۔۔۔ یہ موسیٰ علیہ السلام کے معجزات و نشانات دیکھ کر کہتے تھے کہ خواہ کیسا ہی جادو آپ ہم پر چلائیں اور اپنے خیال کے موافق کتنے ہی نشان دکھلائیں، ہم کسی طرح تمہاری بات ماننے والے نہیں۔ جب انہوں نے یہ آخری فیصلہ سنا دیا اور قبول حق کے سب دروازے اپنے اوپر بند کر لیے، تب خدا نے ان پر چند قسم کی عظیم الشان بلائیں یکے بعد دیگرے مسلط کر دیں۔ جن کی تفصیل اگلی آیت میں آتی ہے۔
۱۳۳ ۔۔۔ ۱: یعنی بارش اور سیلاب کا طوفان یا طاعون کی وجہ سے موت کا طوفان علیٰ اختلاف الاقوال۔
۲: "قمل" سے مراد چچڑیاں ہیں، جیسا کہ مترجم رحمۃ اللہ نے اختیار کیا۔ یا جوئیں یا گیہوں وغیرہ غلہ میں جو کیڑا لگ جاتا ہے جس سے غلہ خراب ہو جاتا ہے یعنی بدن اور کپڑوں میں چچڑیاں اور جوئیں پڑ گئیں۔ غلہ میں گھن لگ گیا۔
۳: یعنی تھوڑے تھوڑے وقفہ کے ساتھ یہ سب آیات دکھلائی گئیں مگر وہ کچھ ایسے متکبرانہ جرائم پیشہ اور پرانے گنہگار تھے کہ کسی طرح مان کر نہ دیا سعید بن جبیر سے منقول ہے کہ جب فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کے مطالبہ (بنی اسرائیل کی آزادی) کو تسلیم نہ کیا تو حق تعالیٰ نے بارش کا طوفان بھیجا، جس سے کھیتیوں وغیرہ کی تباہی کا اندیشہ پیدا ہو گیا۔ آخر گھبرا کر حضرت موسیٰ سے درخواست کی کہ تم اپنے خدا سے کہہ کر یہ بلائے طوفان دور کرا دو تو ہم بنی سرائیل کو آزادی دے کر تمہارے ساتھ روانہ کر دیں گے۔ موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے بارش بند ہو گئی اور بجائے نقصان کے پیداوار بہت کثرت سے ہوئی۔ فرعونی عذاب سے بے فکر ہو کر اپنے عہد پر قائم نہ رہے، تب اللہ تعالیٰ نے تیار کھیتیوں پر ٹڈی دل بھیج دیا جسے دیکھ کر پھر گھبرائے کہ یہ نئی آفت کہاں سے آ گئی پھر موسیٰ علیہ السلام سے دعاء کی درخواست کی اور پختہ وعدے کئے کہ اگر یہ عذاب ٹل گیا تو ہم ضرور بنی اسرائیل کو آزاد کر دیں گے۔ جب یہ عذاب بھی اٹھا لیا گیا تو پھر مطمئن ہو گئے اور سب وعدے فراموش کر دئیے۔ آخر جس وقت غلہ اٹھا کر مکانوں میں بھر لیا تو خدا کے حکم سے غلہ میں گھن لگ گیا۔ پھر موسیٰ سے دعاء کرائی اور بڑے پکے عہد و پیمان کیے۔ لیکن جہاں وہ حالت ختم ہوئی بدستور سابق سرکشی اور بدعہدی کرنے لگے تو خدا نے ان کا کھانا پینا بے لطف کر دیا مینڈک اس قدر کثرت سے پیدا کر دیئے گئے کہ ہر کھانے اور برتن میں مینڈک نظر آتا تھا۔ جب بولنے یا کھانے کے لیے منہ کھولتے مینڈک جست کر کے منہ میں پہنچتا تھا اور ویسے بھی اس جانور کی کثرت نے رہنا سہنا مشکل کر دیا۔ ادھر پینے کے لیے جو پانی لینا چاہتے تھے وہ خدا کے حکم سے برتنوں میں یا منہ میں پہنچ کر خون بن جاتا۔ غرض کھانے پینے تک سے عاجز ہو رہے تھے اس پر بھی شیخی اور اکڑفوں وہ ہی تھی۔
۱۳۴ ۔۔۔ یعنی اس نے دعاء کا جو موثر طریقہ تجھ کو بتلا رکھا ہے، اسی طرح دعاء کر دیجئے۔ یابِمَا عَہِدَ عِنْدَکَ کا مطلب یہ ہے کہ "نبی اللہ" ہونے کی حیثیت سے دعاء فرما دیجئے۔ گویا "عہد" کا اطلاق نبوت پر ہوا، کیونکہ خدا اور نبی کے درمیان ایک طرح کا معاہدہ ہوتا ہے کہ خدا نبی کو خلعت اکرام و اعانت سے سرفراز فرمائے گا اور نبی اس کی پیغام رسانی میں کوتاہی نہ کرے گا۔ اور ممکن ہے بِمَا عَہِدَ عِنْدَکَ سے وہ عہد مراد ہو جو بتوسط انبیاء علیہم السلام، اقوام سے کیا جاتا ہے کہ اگر تم کفر و تکذیب سے باز آ جاؤ گے تو عذابِ الٰہی اٹھا لیا جائے گا واللہ اعلم۔
۱۳۵ ۔۔۔ اس مدت سے یا تو موت اور غرق ہونے تک کی مدد مراد ہے۔ یا ممکن ہے ایک بلا کے بعد دوسری بلا کے آنے تک کا وقت مراد ہو۔
۱۳۶ ۔۔۔ "رجز" بعض مفسرین کے نزدیک طاعون مراد ہے جیسا کہ بعض احادیث میں یہ لفظ طاعون پر اطلاق کیا گیا ہے لیکن اکثر مفسرین ان آیات کو پچھلی آیات ہی کا بیان قرار دیتے ہیں موضح القرآن میں ہے کہ "یہ سب بلائیں ان پر آئیں ایک ہفتہ کے فرق سے۔ اول حضرت موسیٰ فرعون کو کہہ آتے کہ اللہ تم پر یہ بلا بھیجے گا، وہ ہی بلا آتی۔ پھر مضطر ہوتے، حضرت موسیٰ کی خوشامد کرتے، ان کی دعاء سے دفع ہوتی، پھر منکر ہو جاتے، آخر کو وبا پڑی۔ نصف شب کو سارے شہر میں ہر شخص کا پہلا بیٹا مر گیا، وہ لگے مردوں کے غم میں، حضرت موسیٰ اپنی قوم کو لے کر شہر سے نکل گئے پھر کئی روز کے بعد فرعون پیچھے لگا۔ دریائے قلزم پر جا پکڑا۔ وہاں یہ قوم سلامت گزر گئی اور فرعون ساری فوج سمیت غرق ہوا۔
۱۳۷ ۔۔۔ ۱: یعنی بنی اسرائیل کو۔
۲: اکثر مفسرین کے نزدیک اس زمین سے مراد ملک شام ہے جس میں حق تعالیٰ نے بہت سی ظاہری و باطنی برکات ودیعت کی ہیں۔ ظاہری تو یہ ہی کہ نہایت سرسبز و شاداب، سیر حاصل، خوش منظر اور زرخیز ملک ہے اور باطنی اس لیے کہ بہت سے انبیاء علیہم السلام کا مسکن و مدفن بنایا گیا ہے۔ بنی اسرائیل مصر سے نکل کر ایک عرصہ تک صحرائے تیہ میں سرگرداں پھرتے رہے۔ جیسا کہ پہلے گزر چکا، بعدہٗ حضرت یوشع کے ساتھ ہو کر "عمالقہ" سے جہاد کیا، اور اپنے آبائی وطن ملک شام کے وارث بنے۔ بعض مفسرین نے اس زمین سے مصر مراد لیا ہے۔ یعنی فرعونیوں کو غرق کر کے ہم نے بنی اسرائیل کو مصر کی دولت کا وارث بنا دیا کہ آزادی کے ساتھ اس سے متمتع ہوں کما قال تعالیٰ کَمْ تَرَکُوْا مِنْ جَنَّاتٍ وَّعُیُوْن وَّزُرُوْعٍ وَّمَقَامٍ کَرِیْمٍ وَنِعْمَۃٍکَانُوْا فِیْہَا فَاکِہِیْنَ کَذٰلِکَ وَاَوْرَثْنَاھا قَوْماً اٰخِرِیْنَ (دخان، رکوع ۱، آیت:۳۸) وَنُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَنَجْعَلَہُمْ اَئِمَّۃً وَّنَجْعَلَہُمُ الْوَارِثِیْنَ وَنُمَکِّنَ لَہُمْ فِی الْاَرْضِ وَنُرِیَ فِرْعَوْنَ وَھامَانَ وَجُنُودَہُمَا مِنْہُمْ مَّاکَانُوا یَحْذَرُوْنَ (القصص، رکوع۱، آیت :۵،۶) اس تقدیر پر مصر کی ظاہری برکات تو ظاہر ہیں، باطنی اس حیثیت سے ہوں گی کہ حضرت یوسف علیہ السلام وہیں مدفون ہوئے، حضرت یعقوب علیہ السلام وہاں تشریف لے گئے اور آخر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بچپن سے لے کر بڑی عمر تک طویل مدت اسی ملک میں گزاری۔ امام بغوی نے مفسرین کے دونوں قول جمع کر کے اس جگہ مصر و شام دونوں کا ارادہ کیا ہے۔ واللہ اعلم۔
۳: یعنی بنی اسرائیل نے جب فرعونیوں کے سخت تباہ کن شدائد پر صبر کیا، موسیٰ علیہ السلام کی ہدایت کے موافق خدا سے استعانت کی اور پیغمبر خدا کا ساتھ دیا خدا نے جو نیک وعدہ ان سے کیا تھا (عسیٰ رَبُّکُمْ اَنْ یُّہْلِکَ عَدُوَّکُمْ اور نُرِیْدُ اَنَّ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوا الخ) وہ پورا کر دکھایا۔ فرعون اور اس کی قوم نے اپنے اپنے کبرو نخوت کے اظہار کے لیے جو ڈھونگ بنا رکھا تھا وہ سب تباہ و برباد ہو گیا۔ اور ان کی اونچی اونچی عمارتیں تہہ و بالا کر دی گئیں۔ سچ ہے "اِنَّ الْمَلُوکَ اِذَادَخَلُوا قَرْیَۃً اَفْسَدُوْھا وَجَعَلُوا اَعِزَّۃَ اَہْلِہَآ اَذِلَّۃً"۔
۱۳۸ ۔۔۔ ۱: بعض نے کہا کہ یہ قبیلہ لخم کے لوگ تھے اور بعض نے کنعانی عمالقہ کو اس کا مصداق قرار دیا ہے کہتے ہیں کہ ان کے بت گائے کی شکل پر تھے۔ واللہ اعلم۔
۲: یعنی حق تعالیٰ کی عظمت و شان اور تنزیہ و تقدیس سے تم بالکل جاہل معلوم ہوتے ہو۔ واقعہ بنی اسرائیل کا میلان بار بار اس طرح کے افعال و رسوم شرکیہ کی طرف ہوتا تھا۔ یہ بیہودہ جاہلانہ درخواست بھی مصر کی آب و ہوا اور وہاں کے بت پرستوں کی صحبت کے تاثرات کو ظاہر کرتی ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ "جاہل آدمی نرے بے صورت معبود کی عبادت سے تسکین نہیں پاتا جب تک سامنے ایک صورت نہ ہو۔ وہ قوم دیکھی کہ گائے کی صورت پوجتی تھی ان کو بھی یہ ہوس آئی آخر سونے کا بچھڑا بنایا اور پوجا۔"
۱۳۹ ۔۔۔ یعنی ان کا بت پرستی کا مذہب میرے اور اہل حق کے ہاتھوں سے آئندہ تباہ ہونے والا ہے اور جو کچھ سوانگ یہ اب تک بناتے رہے ہیں وہ محض باطل، غلط، بیکار اور بے حقیقت ہے۔
۱۴۰ ۔۔۔یعنی خدا کے انعاماتِ عظیمہ کی شکر گزاری اور حق شناسی کیا یہ ہی ہو سکتی ہے کہ غیر اللہ کی پرستش کر کے اللہ سے بغاوت کی جائے۔ پھر بڑی شرم کا مقام ہے کہ جس مخلوق کو خدا نے سارے جہان پر فضیلت دی وہ اپنے ہاتھ سے بنائی ہوئی مورتیوں کے سامنے سر بسجود ہو جائے؟ کیا مفضول افضل کا معبود بن سکتا ہے؟
۱۴۱ ۔۔۔ اس کی تفسیر پارہ الم کے ربع کے بعد ملاحظہ کی جائے۔ یہ مضمون وہاں گزر چکا ہے۔ یعنی جس خدا نے ابھی ابھی تم پر ایسا عظیم الشان احسان فرمایا، کیا اسے چھوڑ کر لکڑیوں اور پتھروں کے سامنے جھکتے ہو؟
۱۴۲ ۔۔۔ ۱: جب بنی اسرائیل کو طرح طرح کی پریشانیوں سے اطمینان نصیب ہوا تو انہوں نے موسیٰ علیہ السلام سے درخواست کی کہ اب ہمارے لیے کوئی آسمانی شریعت لائیے جس پر ہم دلجمعی کے ساتھ عمل کر کے دکھلائیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے ان کا معروضہ بارگاہ الٰہی میں پیش کر دیا۔ خدا تعالیٰ نے ان سے کم از کم تین دن اور زائد از زائد چالیس دن کا وعدہ فرمایا کہ جب اتنی مدت تم پے بہ پے روزے رکھو گے اور کوہ طور پر معتکف رہو گے تو تم کو تورات شریف عنایت کی جائے گی، دو مدتیں (کم اور زیادہ) ٹھہرانے کا شاید یہ مطلب تھا کہ اگر اثنائے ریاضت میں وظائف عبودیت اور آداب تقرب ادا کرنے کے اعتبار سے کسی قسم کی کوتاہی اور تقصیر ظاہر نہ کی تو اقل مدت تیس دن کافی ہوں گے ورنہ اکثر الاجلین چالیس روزے پورے کرنے پڑیں گے۔ یا شروع سے تیس دن ضروری و لازمی میعاد کے طور پر ہوں اور چالیس دن پورے کرنا اختیاری و استحبابی حیثیت سے اصل میعاد کی تکمیل و تمیم کے طور پر رکھے گئے ہوں۔ جیسے شعیب علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام کو اپنی بیٹی دیتے وقت فرمایا تھا عَلیٰ اَنْ تَاْجُرَنِی ثَمَانِیَ حِجَجٍ فَاِنْ اَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِنْدِکَ وَمَا اُرِیْدُ اَنْ اَشُقَّ عَلَیْکَ (القصص، رکوع۳، آیت:۳۷) اور ہمارے زمانہ کے بعض مصنفین نے کہا ہے کہ اصل میعاد چالس ہی دن کی تھی جیسا کہ سورہ بقرہ میں مذکور ہے اور یہاں بھی فَتَمَّ مِیْقَاتُ رَبِّہٖ میں اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ اس چالیس دن کے بیان کا ایک پیرا یہ ہے کہ ہم نے تیس دن کا وعدہ کیا تھا جن کا تتمہ دس دن اور تھے۔ تاکہ اشارہ ہو جائے کہ ایک مہینہ سالم (ذیقعدہ) پورا کر کے دوسرے مہینہ (ذی الحجہ) میں سے دس دن اور بڑھائے گئے۔ اس طرح یکم ذی القعدہ سے شروع ہو کر ۱۰ ذی الحجہ کو چلہ پورا ہوا جیسا کہ اکثر سلف سے منقول ہے۔ واللہ اعلم۔ موضح القرآن میں ہے کہ "حق تعالیٰ نے وعدہ دیا حضرت موسیٰ کو کہ پہاڑ پر تیس رات خلوت کرو کہ تمہاری قوم کو "تورات" دوں۔ اس مدت میں انہوں نے ایک دن مسواک کی۔ فرشتوں کو ان کے منہ کی بو سے خوشی تھی وہ جاتی رہی اس کے بدلے دس رات اور بڑھا کر مدت پوری کی۔
۲: یعنی میری غیبت میں میرے حصہ کا کام بھی تم ہی کرو۔ گویا حکومت و ریاست کے جو اختیارات موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ مخصوص تھے، وہ ہارون علیہ السلام کو تفویض کر دیئے گئے اور چونکہ بنی اسرائیل کی تلون مزاجی اور سست اعتقادی کا پورا تجربہ رکھتے تھے، اس لیے بڑی تصریح و تاکید سے ہارون علیہ السلام کو متنبہ کر دیا کہ اگر میرے پیچھے یہ لوگ کچھ گڑ بڑ مچائیں تو تم اصلاح کرنا اور میرے طریق کار پر کار بند رہنا۔ مفسدہ پردازوں کی راہ پر مت چلنا۔ خدا کی مشیت کہ موسیٰ علیہ السلام یہ وصیت کر کے اُدھر گئے۔ ادھر بنی اسرائیل نے گوسالہ پرستی شروع کر دی مگر حضرت ہارون نے موجودہ بائبل نویسوں کے علی الرغم یَاقَوْمِ اِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِہٖ وَاِنَّ رَبَّکُمُ الرَّحْمٰنُ فَاتَّبِعُوْنِی وَاَطِیْعُوآ اَمْرِی کہہ کر ان کی گمراہی اور اپنی بیزاری کا صاف صاف اعلان کر دیا، اور وصیت موسوی کے موافق اصلاح حال کی امکانی کوشش کی۔
۱۴۳ ۔۔۔ ۱: چالیس دن کی میعاد پوری ہو چکنے پر حق تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو کسی مخصوص و ممتاز رنگ میں شرف مکالمہ بخشا۔ اس وقت حضرت موسیٰ کو بلاواسطہ کلام الٰہی سننے کی لذت بے پایاں حاصل ہوئی تو کمال اشتیاق سے متکلم کے دیدار کی آرزو کرنے لگے اور بے ساختہ درخواست کر دی۔ رَبِّ اَرِنِیْ اَنْظُرْ اِلَیْکَ اے پروردگار! میرے اور اپنے درمیان سے حجاب اور موانع اٹھا دیجئے اور وجہ انور بے حجاب سامنے کر دیجئے کہ ایک نظر دیکھ سکوں۔
۲: یعنی دنیا میں کسی مخلوق کا یہ فانی وجود اور فانی قویٰ اس ذوالجلال والاکرام لم یزل ولا یزال کے دیدار کا تحمل نہیں کر سکتے۔ اس سے ثابت ہوا کہ دنیا میں کسی کو موت سے پہلے دیدارِ خداوندی کا شرف حاصل ہونا شرعاً ممتنع ہے گو عقلاً ممکن ہو کیونکہ اگر امکان عقلی بھی نہ مانا جائے تو موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر کی نسبت یہ خیال نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ایک محال عقلی کی درخواست کرتے۔ اہل السنت والجماعت کا یہ ہی مذہب ہے کہ رویت باری دنیا میں عقلاً ممکن، شرعاً ممتنع الوقوع ہے اور آخرت میں اس کا وقوع نصوص قطعیہ سے ثابت ہے، رہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی رویت شب معراج میں، وہ اختلافی مسئلہ ہے جس کا ذکر انشاء اللہ "سورہ نجم" میں آئے گا۔
۳: یعنی تم پہاڑ کی طرف دیکھتے رہو، ہم اپنے جمال مبارک کی ایک ذرا سی جھلک اس پر ڈالتے ہیں۔ اگر پہاڑ جیسی سخت اور مضبوط چیز اس کو برداشت کر سکے تو ممکن ہے تم کو بھی اس کا تحمل کرا دیا جائے۔ ورنہ سمجھ لیجئے کہ جس چیز کا تحمل پہاڑ سے نہ ہو سکے، کسی انسان کی مادی ترکیب اور جسمانی آنکھیں اسے کیسے برداشت کر سکتی ہیں اگرچہ قلبی اور روحانی طاقت کے اعتبار سے زمین، آسمان، پہاڑ، سب چیزوں سے انسان فائق ہو۔ اور اسی لیے موسیٰ علیہ السلام جس وحی الٰہی کے حامل تھے، بلکہ دوسرے انسان بھی جس امانت عظیمہ کے حامل ہیں، پہاڑ وغیرہ اس کے اٹھانے پر قادر نہیں۔ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَہَا وَاشْفَقْنَ مِنْہَاوَحَمَلَہَا الْاِنْسَانُ (احزاب، رکوع۹، آیت۷۳) لَوْ اَنْزَلْنَاہٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلیٰ جَبَلٍ لَّرَاَیْتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعاً مِّنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ (الحشر، رکوع۳، آیت : ۳۱) تاہم جس چیز کا تعلق ظاہری آنکھوں یا بدن کی مادی قوت سے ہو، اس میں انسان دوسری عظیم الخلقت چیزوں سے بہت کمزور ہوا ہے لَخَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَکْبَرُمِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُونَ (المومن، رکوع۶، آیت: ۵۷) وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا (نساء، رکوع۵، آیت:۳۸) اس جگہ موسیٰ علیہ السلام کو انسانی وجود کی اسی کمزوری کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔
۴: حق تعالیٰ کی تجلیات بہت طرح کی ہیں اور یہ خدا کا ارادی فعل ہے کہ جس چیز پر جس طرح چاہے تجلی فرمائے۔ پہاڑ پر جو تجلی ہوئی اس نے معًا پہاڑ کے خاص حصہ کو ریزہ ریزہ کر ڈالا، اور موسیٰ علیہ السلام چونکہ محل تجلی سے قریب تھے، ان پر اس قرب محل اور پہاڑ کے ہیبت ناک منظر دیکھنے کا اثر ہوا کہ بیہوش ہو کر گر پڑے۔ بلا تشبیہ یوں سمجھ لیجئے کہ بجلی جس چیز پر گرتی ہے اسے جلا کر ایک آن میں کس طرح خاک سیاہ کر دیتی ہے اور جو لوگ اس مقام کے قریب ہوتے ہیں بسا اوقات انہیں بھی کم و بیش صدمہ پہنچ جاتا ہے۔
۵: یعنی پاک ہے اس سے کہ کسی مخلوق کے مشابہ ہو اور یہ فانی آنکھیں اس کے دیدار کا تحمل کر سکیں۔ تیری پاکی اور برتری کا اقتضاء یہ ہے کہ کسی چیز کی طلب تیری اجازت کے بدون نہ کی جائے، میں توبہ کرتا ہوں کہ فرط اشتیاق میں بدون اجازت کے ایک نازیبا درخواست کر گزرا۔ میں اپنے زمانہ کے سب لوگوں سے پہلے تیری عظمت و جلال کا یقین رکھتا ہوں اور پہلا وہ شخص ہوں جسے ذوق و عیانی طریق پر منکشف ہوا کہ خداوند قدوس کی رویت دنیا میں ان ظاہری آنکھوں سے واقع نہیں ہو سکتی۔
۱۴۴ ۔۔۔ یعنی دیدار نہ ہو سکا نہ سہی، یہ شرف و امتیاز کیا تھوڑا ہے کہ ہم نے تجھ کو پیغمبر بنایا اور تورات عطا کی اور بالواسطہ کلام فرمایا۔ سو جس قدر بخشش ہماری طرف سے ہوئی، اسے پلے باندھو اور ان بندوں میں شامل رہو، جنہیں خدا نے "شاکرین" کے امتیازی لقب سے ملقب فرمایا ہے۔
۱۴۵ ۔۔۔ ۱: بعض کہتے ہیں کہ تورات شریف ان تختیوں پر لکھی ہوئی تھی۔ اور بعض علماء کا خیال ہے کہ یہ تختیاں تورات کے علاوہ تھیں جو نزول تورات سے پہلے مرحمت ہوئیں۔ بہرحال دیدار نہ ہو سکنے سے جو شکستگی موسیٰ علیہ السلام کو ہوئی اس کی تلافی اور جبر مافات کے طور پر الواح عطا کی گئیں۔ جن میں ہر قسم کی نصیحتیں اور تمام ضروری احکام کی تفصیل تھی (ابن کثیر)
۲: یعنی خود بھی ان الواح کو مضبوطی اور احتیاط سے پکڑے رہو کہیں ہاتھ سے چھوٹ نہ جائیں اور اپنی قوم کو سمجھاؤ کہ وہ ان الواح کی بہترین ہدایات پر پختگی سے عمل کرتے رہیں اور ایسی اچھی چیز کو ہاتھ سے نہ دیں۔ (تنبیہ) لفظ "احسنہا" سے یا تو اس پر متنبہ فرمانا ہے کہ ان میں "احسن" کے سوا اور کچھ نہیں۔ یا یہ مطلب ہے کہ جو احکام دیئے گئے تھے یوں تو سب فی حد ذاتہ "حسن" ہیں۔ مگر بعض بعض سے احسن ہوتے ہیں مثلاً ظالم سے بدلہ لینا جائز اور حسن ہے۔ لیکن صبر کرنا اور معاف کر دینا حزیمت اور احسن ہے۔ گویا بنی اسرائیل کو اس پر آمادہ کرنا تھا کہ عزائم و مندوبات کے اکتساب میں سعی کریں اور خدا کے کامل فرمانبردار بنیں۔ اگر نا فرمانی کریں گے، تو انہیں نا فرمانوں کا گھر دکھلا دیا جائے گا۔ یعنی آخرت میں دوزخ اور دنیا میں تباہی و رسوائی۔ اعاذنا اللہ منہما (ابن کثیر و بغوی) اور بعض نے نا فرمانوں کے گھر سے شام یا مصر مراد لیا ہے۔ جو نا فرمان عمالقہ یا فرعونیوں کا ملک تھا۔ اس صورت میں یہ آیت بنی اسرائیل کے لیے بشارت ہو گی کہ اگر پوری طرح فرمانبرداری کرو گے تو نا فرمانوں کے ملک تم کو دے دیئے جائیں گے۔ والراجح ھوا لاول کمار جحہ ابن کثیر۔
۱۴۶ ۔۔۔ جو لوگ خدا اور پیغمبروں کے مقابلہ میں ناحق کا تکبر کرتے ہیں اور نخوت و غرور اجازت نہیں دیتا کہ احکام الٰہی کو قبول کریں، ہم بھی ان کے دل اپنی آیات کی طرف سے پھیر دیں گے کہ آئندہ ان سے منتفع ہونے کی توفیق نہ ہو گی۔ ایسے لوگوں کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ خواہ کتنے ہی نشانی دیکھیں اور کتنی ہی آیتیں سنیں ٹس سے مس نہ ہوں، ہدایت کی سڑک کیسی ہی صاف اور کشادہ ہو، اس پر نہ چلیں ہاں گمراہی کے راستہ پر نفسانی خواہشات کی پیروی میں دوڑے چلے جائیں۔ تکذیب کی عادت اور غفلت کی تمادی سے جب دل مسخ ہو جاتا ہے، اس وقت آدمی اس حالت کو پہنچتا ہے۔
۱۴۷ ۔۔۔ یعنی احکام الٰہی پر چلنے کی توفیق نہ ہو گی۔ اور جو کچھ کام اپنی عقل سے کریں گے وہ خدا کے یہاں قبول نہ ہو گا۔ جیسا کریں گے ویسا بھگتیں گے۔ باقی ان کی بے جان اور مردہ نیکیوں کا جو بدلہ ملنا ہو گا دنیا میں مل رہے گا۔
۱۴۸ ۔۔۔ ۱: یہ زیور جسے گلا کر اور ڈھال کر بچھڑا بنایا اصل میں فرعون کی قوم قبطیوں کا تھا۔ ان کے پاس سے بنی اسرائیل کے قبضے میں آیا۔ جیسا کہ سورہ "طہٰ" میں ہے حُمِّلْنَا اَوْزَارًا مِّنْ زِیْنَۃِ الْقَوْمِ۔
۲: سورہ "طہٰ" میں اس بچھڑے کا مفصل قصہ آئے گا، یہاں ان کی حماقت وسفاہت پر متنبہ فرمایا ہے کہ ایک خود ساختہ ڈھانچہ میں سے گائے کی آواز سن لینے پر مفتون ہو گئے اور بچھڑے کو خدا سمجھ بیٹھے۔ حالانکہ اس کی بے معنی آواز میں نہ کوئی کلام و خطاب تھا نہ دینی یا دنیاوی راہنمائی اس سے ہوتی تھی۔ اس طرح کی صورت محض تو کس چیز کو انسانیت کے درجہ تک بھی نہیں پہنچا سکتی، چہ جائیکہ خالق جل وعلا کے مرتبہ پر پہنچا دے۔ یہ کتنا بڑ اظلم اور بے موقع کام ہے کہ ایک معمولی جانور کی صورت کو خدا کہہ دیا جائے۔ بات یہ ہے کہ اس قوم کو پہلے ہی سے ایسی بے موقع باتیں کرنے کی عادت تھی چنانچہ پیشتر اِجْعَل لَّنَا اِلٰہاً کَمَالَہُمْ اٰلِہَۃً کی درخواست موسیٰ علیہ السلام سے کر چکے تھے۔
۱۴۹ ۔۔۔ اپنی بد عقلی اور کجروی سے انہوں نے ایسا بے ڈھنگا اور بھونڈا کام کیا تھا کہ موسیٰ علیہ السلام کی تنبیہ کے بعد جب باطل کا جوش ٹھنڈا ہوا اور عقل و ہوش کچھ ٹھکانے ہوئے تو خود بھی اپنی حرکت پر بہت شرمائے۔ گویا مارے ندامت کے ہاتھ کاٹنے لگے اور خوف و ہراس کی وجہ سے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ گھبرا کر کہنے لگے اب کیسے بنے گی۔ اگر خدا نے ہم پر رحم فرما کر توبہ اور مغفرت کی کوئی صورت نہ نکالی تو یقیناً ہم ابدی خسران اور دائمی ہلاکت میں جا پڑیں گے۔
۱۵۰ ۔۔۔ ۱: کیونکہ حق تعالیٰ نے طور ہی پر اطلاع دی تھی کہ سامری نے تیری قوم کو گمراہ کر دیا ہے۔ یہ سن کر موسیٰ علیہ السلام سخت متأسف اور غضبناک تھے۔
۲: یہ خطاب عباد عجل (گو سالہ پرستوں) کو تھا۔ یعنی میرے پیچھے تم نے خوب میری قائم مقامی کی۔ جس بات پر میں سب سے زیادہ زور دیتا تھا (خدا کی توحید و تفرید) اس کی جگہ تم نے بچھڑے کی پوجا یہ کہہ کر کھڑی کر دی کہ ہٰذَا اِلٰہُکُمْ وَاِلٰہُ مُوْسیٰ (فی الحقیقت یہ ہی تمہارا اور موسیٰ کا معبود ہے) اور ممکن ہے خطاب ہارون علیہ السلام کو بھی ہو کہ تم نے میری نیابت کا حق جو اُخْلُفْنِی فِی قَوْمِی کہہ کر سپرد کر گئے تھے، اچھی طرح ادا نہ کیا کہ ان کو روکتے اور مضبوطی سے اس فتنہ کا مقابلہ کرتے جیسا کہ سورہ "طہٰ" میں مفصل آئے گا۔
۳: یعنی میں پروردگار سے تمہارے لیے احکام ہی لینے تو گیا تھا اور چالیس روز کی میعاد بھی خدا نے مقرر کر دی تھی تم نے خدا کی مقرر کی ہوئی مدت پوری ہونے اور اس کے احکام لے آنے کا بھی انتظار نہ کیا۔ کچھ بہت زمانہ تو نہیں گزر گیا تھا جو تم نے گھبرا کر اس قدر جلد خدا کے قہر و غضب کو اپنی طرف آنے کی دعوت دی۔ اَفَطَالَ عَلَیْکُمُ الْعَہْدُ اَمْ اَرْدْتُّمْ اَنْ یَّحِلَّ عَلَیْکُمْ غَضَبٌ مِّن رَّبِّکُمْ فَاَخْلَفْتُمْ مَوْعِدِی (طہٰ، رکوع ۴، آیت:۸۶)
۴: حضرت موسیٰ علیہ السلام اس مشرکانہ ڈھونگ کو دیکھ کر اور ہارون علیہ السلام کی نرمی و تساہل کا گمان کر کے اس قدر افروختہ اور دینی حمیت وغیرت کے جوش سے اس قدر بے قابو ہو رہے تھے کہ ہارون علیہ السلام کی طرف لپکے اور حرارت ایمانی کے بے اندازہ جوش میں ان کی ڈاڑھی اور سر کے بال پکڑ لیے۔ معاذ اللہ ہارون کی اہانت کی نیت سے نہیں کیونکہ ہارون خود مستقل نبی اور عمر میں موسیٰ علیہ السلام سے تین سال بڑے تھے۔ پھر ایک اولوالعزم پیغمبر سے یہ کیسے ممکن تھا کہ دوسرے نبی کو جو اس کا بڑا بھائی بھی ہو ذرّہ برابر توہین کا ارادہ کرے۔ نہیں موسیٰ علیہ السلام کی طرف سے یہ معاملہ اس وقت ہوا جب کہ وہ قوم کی سخت بدعنوانی کی بنا پر بغض فی اللہ اور غصہ سے بے اختیار ہو رہے تھے حضرت ہارون کی نسبت یہ خیال گزر رہا تھا کہ شاید انہوں نے اصلاحِ حال کی پوری کوشش نہیں کی۔ حالانکہ ان کو اصلاح کی بھی تاکید کر گئے تھے۔ بیشک ہارون نبی اور عمر میں بڑے تھے، مگر رتبہ میں موسیٰ علیہ السلام ان سے بڑے تھے اور سیاسی و انتظامی حییثت سے ہارون کو ان کا وزیر اور تابع بنایا گیا تھا۔ اس موقع پر موسیٰ علیہ السلام کی شان سیادت و حکمت کا ظہور ہوا۔ گویا ان کی طرف سے یہ دارو گیر اور سخت باز پرس حضرت ہارون کی تقصیر مظنون پر ایک قسم کی فعلی ملامت تھی جس سے قوم کو بھی پوری طرح متنبہ کر دیا گیا کہ پیغمبر کا قلب نشہ توحید سے کس قدر سرشار اور دسیسہ شرک و کفر سے کس قدر نفور و بیزار ہوتا ہے کہ اس معاملہ میں ادنیٰ ترین تساہل یا خاموشی کو بھی برداشت نہیں کر سکتے حتیٰ کہ ایک نبی کی نسبت اگر ایسا وہم ہو جائے کہ اس نے شرک کے مقابلہ پر آواز بلند کرنے میں ذرا سی کوتاہی کی ہے تو اس کی بزرگی اور وجاہت عند اللہ بھی ایسی سخت باز پرس سے ان کو نہیں روک سکتی۔ بہرحال موسیٰ علیہ السلام اس حالت میں شرعاً معذور تھے۔ اسی فرطِ غضب اور ہنگامہ دارو گیر میں الواح (وہ تختیاں جو خدا کی طرف سے مرحمت ہوئی تھیں) ان کے ہاتھ سے چھوٹ گئیں جسے عدم تحفظ کی وجہ سے تغلیظاً "القاء" سے تعبیر فرمایا، کیونکہ بظاہر خذھا بقوۃٍ کا امتثال نہ کر سکے، یا جیسا کہ بعض مفسرین کا خیال ہے ہارون کی طرف بڑھتے وقت ہاتھ خالی کرنے کے لیے بہت تیزی اور عجلت کے ساتھ تختیاں ایک طرف رکھ دیں مگر چونکہ ان دونوں معاملات کی سطح جو ہارون یا الواح کے متعلق ظہور میں آئے صورۃً پسندیدہ نہ تھی، گو موسیٰ علیہ السلام نیۃً معذور تھے۔ اس لیے آئندہ رب اغفرلی کہہ کر حق تعالیٰ سے عفو کی درخواست کی۔ سبحانہٗ و تعالیٰ اعلم۔
۵: گو ہارون علیہ السلام حضرت موسیٰ کے عینی بھائی ہیں۔ مگر ماں کی طرف نسبت کرنے سے ان کو نرمی اور شفقت پر آمادہ کرنا تھا۔ اس آیت میں ہارون کی معذرت کا بیان ہے۔ حاصل یہ ہے کہ میں اپنے مقدور کے موافق ان کو سمجھا چکا۔ لیکن انہوں نے میری کچھ حقیقت نہ سمجھی۔ الٹے مجھے قتل کرنے پر آمادہ ہونے لگے۔ اب آپ ایسا معاملہ کر کے ان کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دیجئے اور عتاب و غصہ کا اظہار کرتے وقت مجھ کو ظالموں کے ذیل میں شامل نہ کیجئے۔
۱۵۱ ۔۔۔ یعنی شدتِ غضب میں جو بے اعتدالی یا اجتہادی غلطی مجھ سے ہوئی خواہ میں اس میں کتنا ہی نیک نیت ہوں، آپ معاف فرما دیجئے اور میرے بھائی ہارون سے اگر ان کے درجہ اور شان کو ملحوظ رکھتے ہوئے کسی طرح کی کوتاہی قوم کی اصلاح میں ہوئی، اس سے بھی درگزر فرمائیے۔
۱۵۲ ۔۔۔ یہ غضب وہی ہے جس کا ذکر سورہ بقرہ میں ربع پارہ آلم کے بعد گزر چکا۔ یعنی "گوسالہ پرستوں کو وہ لوگ قتل کریں جنہوں نے یہ حرکت نہیں کی اور دوسروں کو روکنے میں حصہ نہ لیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ مرتد کی سزا دنیا میں قتل ہے۔
۱۵۳ ۔۔۔ یعنی برا کام حتیٰ کہ شرک و کفر کر کے پھر توبہ کر لے اور ایمان لے آئے تو غفور رحیم" کے یہاں رحمت اور معافی کی کچھ کمی نہیں یہ معافی وغیرہ آخرت سے متعلق ہے۔ گویا اشارہ فرما دیا کہ گوسالہ پرستوں کو جو سزائے قتل دی گئی وہ ان کے حق میں شرطِ قبولِ توبہ سمجھی گئی تھی فَتُوْبُوآ اِلیٰ بَارِئِکُمْ فَاقْتُلُوا اَنْفُسَکُمْ (بقرہ) اب ان پر اُخروی مواخذہ باقی نہیں رہا۔ دنیاوی سزا کے بعد اُخروی حالت کا بیان اس جگہ ایسا ہی ہے جیسے دوسری جگہ وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوآ اَیْدِیَہُمَا الخ کے بعد فَمَنْ تَابَ مِنْ بَعْدِظُلْمِہٖ وَاَصْلَحَ فَاِنَّ اللّٰہَ یَتُوبُ عَلَیْہِ اِنَّ اللّٰہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ فرما دیا گیا۔
۱۵۵ ۔۔۔ راجح یہ ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ میقات اس میقات کے علاوہ ہے جو موسیٰ علیہ السلام کو "تورات" عطا فرمانے کے لیے مقرر ہوا تھا۔ نیز آیات حاضرہ کی ترتیب سے بظاہر مفہوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ گوسالہ پرستی اور سزایابی کے بعد پیش آیا۔ لیکن سورہ نساء کی آیت فَقَالُوْا اَرِنَا اللّٰہَ جَھْرَۃً فَاخَذَتْہُمُ الصَّاعِقَۃُ بِظُلْمِہِمْ ثُمَّ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ مِنْم بَعْدِ مَاجَاءَ تْہُمُ الْبَیِّنَاتُ الخ زیادہ صفائی سے بتلائی ہے کہ گوسالہ پرستی اس واقعہ کے بعد ہوئی۔ واللہ اعلم بالصواب۔ اس واقعہ کا خلاصہ سورہ بقرہ میں ربع پارہ "الم" کے بعد گزر چکا ہے بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا کہ تمہاری باتیں اس وقت تسلیم کر سکتے ہیں جب خدا تعالیٰ سے خود سن لیں۔ حضرت موسیٰ ان میں سے ستر آدمیوں کو جو سردار تھے منتخب کر کے طور پر لے گئے۔ آخر انہوں نے حق تعالیٰ کا کلام سن لیا کہنے لگے کہ جب تک ہم خدا کو اپنی آنکھوں سے بے حجاب دیکھ نہ لیں ہم کو یقین نہیں آ سکتا۔ اس گستاخی پر نیچے سے سخت بھونچال آیا اور اوپر سے بجلی کی کڑک ہوئی، آخر کانپ کر مر گئے، یا مردوں کی سی حالت کو پہنچ گئے۔ موسیٰ نے اپنے آپ کو ان کے ساتھ نتھی کر کے نہایت موثر انداز میں دعا کی جس کا حاصل یہ تھا کہ خداوند! اگر تو ہلاک کرنا ہی چاہتا تو ان سب کو بلکہ ان کے ساتھ مجھ کو بھی کہ میں ہی انہیں لے کر آیا یہاں بلانے اور کلام سنانے سے پہلے ہی ہلاک کر دیتا۔ کس کی مجال تھی کہ آپ کی مشیت کو روک سکتا؟ جب آپ نے ایسا نہیں چاہا، بلکہ مجھے لانے کی اور ان کو کلام الٰہی سننے کے لیے یہاں آنے کی اجازت دی، تو یہ کیسے گمان کیا جا سکتا ہے کہ اپنے یہاں بلا کر محض بعض بیوقوفوں کی حماقت کی سزا میں ہم سب کو ہلاک کر دینا چاہیں یقیناً یہ (رجفہ و صاعقہ کا) منظر سب آپ کی طرف سے ہماری آزمائش و امتحان ہے اور ایسے سخت امتحانات میں ثابت قدم رکھنا یا نہ رکھنا بھی آپ ہی کے قبضے میں ہے۔ اس قسم کے خطرناک اور مزلت الاقدام مواقع میں آپ ہی ہمارے تھامنے اور دستگیری کرنے والے ہیں اور صرف آپ ہی کی ذات منبع الخیرات سے یہ امید ہو سکتی ہے کہ ہم سب کی گزشتہ تقصیرات اور بے اعتدالیوں سے درگزر فرمائیں اور آئندہ اپنی رحمت سے ایسی خطاؤں اور غلطیوں کا شکار نہ ہونے دیں۔ حضرت موسیٰ کی اس دعاء پر وہ لوگ بخشے گئے اور خدا نے ان کو از سر نو زندگی مرحمت فرمائی۔ کما قال ثُمَّ بَعَثْنَا کُمْ مِّنْ م بَعْدِ مَوْتِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ۔
۱۵۶ ۔۔۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ "شاید حضرت موسیٰ نے اپنی اُمت کے حق میں دنیا اور آخرت کی بھلائی جو مانگی، مراد یہ تھی کہ سب اُمتوں پر مقدم اور فائق رہیں دنیا اور آخرت میں، جواباً خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ میرا عذاب اور رحمت کسی فرقہ پر مخصوص نہیں، سو عذاب تو اسی پر ہے جس کو اللہ چاہے اور رحمت عامہ سب مخلوق کو شامل ہے لیکن وہ رحمت خاص جو تم طلب کر رہے ہو، لکھی ہے ان کے نصیب میں جو اللہ کا ڈر رکھتے ہیں اور اموال میں زکوٰۃ ادا کرتے یا نفس کا تزکیہ کرتے ہیں اور خدا کی ساری باتوں پر یقین کامل رکھتے ہیں۔ یعنی آخری امت کہ سب کتابوں پر ایمان لاوے گی، سو حضرت موسیٰ کی امت میں سے جو کوئی آخری کتاب پر یقین لائے وہ پہنچے اس نعمت کو اور حضرت موسیٰ کی دعا ان کو لگی۔
۱۵۷ ۔۔۔ ۱: "اُمی" یا تو "اُم" (بمعنی والدہ) کی طرف منسوب ہے، جس طرح بچہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے اور کسی کا شاگرد نہیں ہوتا، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ساری عمر کسی مخلوق کے سامنے زانوئے تلمذ تہ نہیں کیا۔ اس پر کمال یہ ہے کہ جن علوم و معارف اور حقائق و اسرار کا آپ نے افاضہ فرمایا۔ کسی مخلوق کا حوصلہ نہیں کہ اس کا عشر عشیر پیش کر سکے۔ پس "نبی اُمی" کا لقب اس حیثیت سے آپ کے لیے مایہ صد افتخار ہے، اور یا "اُمی" کی نسبت "ام القریٰ" کی طرف ہو جو "مکہ معظمہ" کا لقب ہے جو آپ کا مولد شریف تھا۔
۲: یعنی آپ کی تشریف آوری کی بشارات اور نعوت و صفات کتب سماویہ سابقہ میں مذکور ہیں۔ حتیٰ کہ اس وقت سے لے کر آج تک ساڑھے تیرہ سو برس کی کاٹ چھانٹ کے بعد بھی موجودہ بائبل میں بہت سی بشارات و اشارات پائے جاتے ہیں۔ جن کو ہر زمانہ کے علماء بحوالہ کتب دکھلاتے چلے آئے ہیں۔ وللہ الحمد علی ذلک۔
۳: یعنی یہود پر جو سخت احکام تھے اور کھانے کی چیزوں میں ان کی شرارتوں کی وجہ سے تنگی تھی، فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِینَ ھادُوْا حَرَّمْنَا عَلَیْہِمْ طَیِّبَاتٍ اُحِلَّتْ لَہُمْ (النساء، آیت۱۶۰) اس دین میں وہ سب چیزیں آسان ہوئیں۔ اور جو ناپاک چیزیں مثلاً لحم خنزیر، یا گندی باتیں مثلاً سود خوری وغیرہ انہوں نے حلال کر رکھی تھیں، ان کی حرمت اس پیغمبر نے ظاہر فرمائی۔ غرض ان سے بہت سے بوجھ ہلکے کر دیئے اور بہت سی قیدیں اٹھا دی گئیں۔ جیسا کہ حدیث میں فرمایا۔ "بُعِثْتُ بِالْحَنِیْفِیَۃِ السَّمْحَۃ۔"
۴: "نور" سے مراد وحی ہے متلو ہو یا غیر متلو یعنی قرآن و سنت۔
۱۵۸ ۔۔۔ یعنی آپ کی بعثت تمام دنیا کے لوگوں کو عام ہے۔ عرب کے امیین یا یہود و نصاریٰ تک محدود نہیں۔ جس طرح خداوند تعالیٰ شہنشاہ مطلق ہے، آپ اس کے رسولِ مطلق ہیں۔ آپ ہدایت و کامیابی کی صورت بجز اس کے کچھ نہیں کہ اس جامع ترین عالمگیر صداقت کی پیروی کی جائے جو آپ لے کر آئے ہیں۔ یہ ہی پیغمبر ہیں، جن پر ایمان لانا تمام انبیاء و مرسلین اور تمام کتب سماویہ پر ایمان لانے کا مرادف ہے۔
۱۵۹ ۔۔۔ گو اکثر یہود سرکشی اور نا انصافی کی راہ اختیار کر رہے ہیں تاہم کچھ ایسی سعید روحیں بھی ہیں، جو دوسروں کو حق کی طرف دعوت دیتی ہیں اور بذاتِ خود حق و انصاف کے راستوں پر گامزن ہیں۔ مثلاً عبد اللہ بن سلام وغیرہ۔
۱۶۰ ۔۔۔ یعنی اصلاح و انتظام کے لیے ان کی بارہ جماعتیں جو بارہ دادوں کی اولاد تھی الگ الگ کر دی گئیں تھیں۔ پھر ہر ایک جماعت کا ایک نقیب مقرر فرما دیا جو اس کی نگرانی اور اصلاح کا خیال رکھے۔وَبَعَثْنَا مِنْہُمُ اثْنَیْ عَشَرَ نَقِیْبًا۔
۱۶۱ ۔۔۔ ۱: اس شہر سے مراد اکثر نے "ارِیحاء لیا ہے۔
۲: یعنی ابھی ایک شہر فتح ہوا۔ آگے سارا ملک ملے گا کذا فی الموضح۔ یا یہ مطلب ہے کہ خطا معاف کر کے نیکوکاروں کے اجر و ثواب بڑھائیں گے کذا فی عامۃ الکتب۔
۱۶۲ ۔۔۔ یہ واقعات "وادی تیہ" کے ہیں۔ جن کا بیان سورہ "بقرہ" ربع پارہ الم کے بعد گزر چکا، وہاں کے فوائد میں تفصیل ملاحظہ کی جائے۔
۱۶۳ ۔۔۔ ۱: یعنی اپنے زمانہ کے یہود سے بطور تنبیہ و توبیخ اس بستی میں رہنے والے یہود کا قصہ دریافت کیجئے جو داؤد علیہ السلام کے عہد میں پیش آیا۔ اکثر مفسرین کے نزدیک اس بستی سے شہر "اَیلَہ" مراد ہے جو بحر قلزم کے کنارے مدین اور طور کے درمیان واقع تھا وہاں کے لوگ دریا کے قرب کی وجہ سے مچھلی کے شکار کی عادت رکھتے تھے۔
۲: حق تعالیٰ نے یہود پر ہفتہ کے دن شکار کرنا حرام کیا تھا۔ باشندگانِ "ایلہ" کو عدول حکمی اور نا فرمانی کی عادت تھی۔ خدا کی طرف سے سخت آزمائش ہونے لگی کہ ہفتہ کے دن دریا میں مچھلیوں کی بیحد کثرت ہوتی۔ جو سطح دریا کے اوپر تیرتی تھیں۔ باقی دنوں میں غائب رہتیں۔ ان لوگوں سے صبر نہ ہو سکا صریح حکمِ الٰہی کے خلاف حیلے کرنے لگے۔ دریا کا پانی کاٹ لائے، جب ہفتہ کے دن مچھلیاں ان کے بنائے ہوئے حوض میں آ جاتیں تو نکلنے کا راستہ بند کر دیتے اور اگلے دن اتوار کو جا کر پکڑ لاتے تاکہ ہفتہ کے دن شکار کرنا صادق نہ آئے۔ گویا اس حرکت سے معاذ اللہ خدا کو دھوکا دینا چاہتے تھے۔ آخر دنیا ہی میں اس کی سزا بھگتی کہ مسخ کر کے ذلیل بندر بنا دیئے گئے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ حیلہ سازی اور مکاری خدا کے آگے پیش نہیں جاتی۔
۱۶۴ ۔۔۔ ۱: معلوم ہوتا ہے کہ جب انہوں نے حکم الٰہی کے خلاف حیلہ بازی شروع کی تو شہر کے باشندے کئی قسموں پر منقسم ہو گئے جیسا کہ عموماً ایسے حالات میں ہوا کرتا ہے۔ ایک وہ لوگ جنہوں نے اس حیلہ کی آڑ لے کر صریح حکم الٰہی کی خلاف ورزی کی۔ دوسرے نصیحت کرنے والے جو اخیر تک فہمائش اور امر بالمعروف میں مشغول رہے۔ تیسرے جنہوں نے ایک آدھ مرتبہ نصیحت کی پھر مایوس ہو کر اور ان کی سرکشی سے تھک کر چھوڑ دی۔ چوتھے وہ ہوں گے جو نہ اس عمل شنیع میں شریک ہوئے اور نہ منع کرنے کے لیے زبان کھولی، بالکل علیحدہ اور خاموش رہے۔ موخر الذکر دو جماعتوں نے انتھک نصیحت کرنے والوں سے کہا ہو گا کہ ان متمر دین کے ساتھ کیوں مغز زنی کر کے دماغ کھپاتے ہو جن سے کوئی توقع قبولِ حق کی نہیں۔ ان کی نسبت تو معلوم ہوتا ہے کہ دو باتوں سے ایک بات ضرور پیش آنے والی ہے۔ یا خدا ان کو بالکل تباہ و ہلاک کر دے اور یا کسی سخت ترین عذاب میں مبتلا کرے۔ کیونکہ یہ لوگ اب کسی نصیحت پر کان دھرنے والے نہیں۔
۲: یعنی شاید سمجھاتے رہنے سے کچھ ڈر جائیں اور اپنی حرکاتِ شنعیہ سے باز آ جائیں۔ ورنہ کم از کم ہم پروردگار کے سامنے عذر تو کر سکتے ہیں کہ خدایا ہم نے آخر دم نصیحت و فہمائش میں کوتاہی نہیں کی۔ یہ نہ مانے تو ہم پر اب کیا الزام ہے؟ گویا یہ ناصحین اول تو بالکلیہ مایوس نہ تھے، دوسرے "عزیمت" پر عمل کر رہے تھے کہ مایوسی کے باوجود بھی ان کا تعاقب نہیں چھوڑتے۔
۱۶۵ ۔۔۔ یعنی جب ان نالائقوں نے تمام نصیحتوں کو بالکل ایسا بھلا دیا گویا سنا ہی نہیں، تو ہم نے ناصحین کو بچا کر ظالمین کو سخت عذاب میں گرفتار کر دیا۔ اَلَّذِیْنَ یَنْہَوْنَ عَنِ السُّو ءِ کا عموم الفاظ دلالت کرتا ہے کہ جو نصیحت سے تھک کر لِمَ تَعِظُوْنَ قَوْماً الخ کہنے لگے اور جنہوں نے اخیر تک سلسلہ وعظ و نصیحت کا جاری رکھا۔ ان دونوں کو نجات ملی۔ صرف ظالم پکڑے گئے۔ یہ ہی عکرمہ سے منقول ہے اور ابن عباس نے ان کے فہم کی داد دی ہے۔ باقی جو لوگ اول سے آخر تک بالکل ساکت رہے، خدا نے بھی ان کے ذکر سے سکوت فرمایا۔ ابن کثیر نے خوب لکھا ہے۔فَنَصَّ عَلیٰ نجاۃ الناہین وَہَلَاکِ الظَّالِمِیْنَ وَسَکَت عن الساکتین لان الجزاء من جنس العمل فہم لا یستحقون مدحًا فیمدحوا ولا ارتکبوا عظیمًا فیذموا (ابن کثیر ۵۷۶) ورجع بعد ذلک قول عکرمۃ واللّٰہ اعلم۔
۱۶۶ ۔۔۔ شاید پہلے اور عذاب آیا ہو گا، جب بالکل حد سے گزر گئے تب ذلیل بندر بنائے گئے، یا فَلَمَّا عَتَوْا الخ کو گزشتہ آیت فَلَمَّا نَسُوا مَاذُکِّرُوا بِہٖکی تفسیر قرار دیا جائے یعنی وہ "عذاب بئیس" یہ ہی بندر بنا دینا تھا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ "منع کرنے والوں نے شکار والوں سے ملنا چھوڑ دیا اور بیچ میں دیوار اٹھائی، ایک دن صبح کو اٹھے تو دوسروں کی آواز نہ سنی، دیوار پر سے دیکھا، ہر گھر میں بندر تھے وہ آدمیوں کو پہچان کر اپنے قرابت والوں کے پاؤں پر سر رکھنے لگے اور رونے لگے۔ آخر برے حال سے تین دن میں مر گئے۔
۱۶۷ ۔۔۔ ۱: یعنی خدا کی طرف سے پختہ اعلان کر دیا گیا تھا کہ یہود اگر احکام تورات پر عمل کرنا چھوڑ دیں گے تو حق تعالیٰ قرب قیامت تک وقتاً فوقتاً ان پر ایسے لوگوں کو مسلط کرتا رہے گا جو ان کو برے عذاب میں مبتلا رکھیں گے۔ برا عذاب یہاں محکومانہ زندگی کو فرمایا۔ چنانچہ قوم یہود کبھی یونانی اور کلدانی بادشاہوں کے زیر حکومت رہی۔ کبھی "بخت نصر" وغیرہ کے شدائد کا تختہ مشق بنی۔ آخر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد مبارک تک مجوسیوں کی باجگذار رہی۔ پھر مسلمان حکمرانوں کو ان پر مسلط فرما دیا۔ غرض اس وقت سے آج تک ان کو من حیث القوم عزت و آزادی کی زندگی نصیب نہیں ہوئی۔ بلکہ جہاں کہیں رہے اکثر ملوک و حکام کی طرف سے سخت ذلت اور خطرناک تکلیفیں اٹھاتے رہے۔ ان کا مال و دولت وغیرہ کوئی چیز اس غلامی و محکومیت کی لعنت سے نجات نہ دے سکی اور نہ قیامت تک دے سکے گی۔ آخر میں جب یہ لوگ دجال کے مددگار ہو کر تیغ کیے جائیں گے۔ کما ورد فی الحدیث۔
۲: یعنی جو شرارت سے باز نہ آئے۔ بعض اوقات اس پر جلدی دنیا ہی میں عذاب بھیجنا شروع کر دیتا ہے اور کیسا ہی کٹر مجرم توبہ کر لے اور نادم ہو کر خدا کی طرف رجوع ہو تو اس کی بخشش و رحمت بھی بے پایاں ہے معاف کرتے ہوئے بھی دیر نہیں لگتی۔
۱۶۸ ۔۔۔ ۱: یہود کی دولت برہم ہوئی تو آپس کی مخالفت سے ہر طرف نکل گئے۔ کوئی اجتماعی قوت و شوکت نہ رہی اور مذہب مختلف پیدا ہوئے۔ یہ احوال اس امت کو عبرت کے لیے سنائے جا رہے ہیں۔
۲: یعنی کچھ افراد ان میں نیک بھی تھے۔ مگر اکثریت کافروں اور فاسقوں کی تھی۔ ان اکثروں کے لیے بھی ہم رجوع و انابت الی اللہ کے موافق بہم پہنچاتے رہے۔ کبھی ان کو عیش و تنعم میں رکھا، کبھی سختی اور تکلیف میں مبتلا کیا کہ ممکن ہے احسان مان کر یا سختیوں سے ڈر کر توبہ کریں اور خدا کی طرف رجوع ہوں۔
۱۶۹ ۔۔۔ ۱: یعنی اگلوں میں تو کچھ صالحین بھی تھے پچھلے ایسے ناخلف ہوئے کہ جس کتاب (تورات شریف) کے وارث و حامل بنے تھے، دنیا کا تھوڑا سامان لے کر اس کی آیات میں تحریف و کتمان کرنے لگے اور رشوتیں لے کر احکام تورات کے خلاف فیصلے دینے لگے۔ پھر اس پر ستم ظریفی دیکھئے کہ ایسے نالائق اور پاجیانہ حرکات کا ارتکاب کرتے ہوئے یہ عقیدہ اور دعویٰ رکھتے ہیں کہ ان باتوں سے ہم کو مضرت کا کچھ اندیشہ نہیں۔ ہم تو خدا کی اولاد اور اس کے محبوب ہیں۔ کچھ بھی کریں وہ ہماری بے اعتدالیوں سے ضرور درگزر کرے گا۔ اسی عقیدہ کی بناء پر تیار رہتے ہیں کہ آئندہ جب موقع ہو پھر رشوت لے کر اسی طرح کی بے ایمانی کا اعادہ کریں۔ گویا بجائے اس کے کہ گزشتہ حرکات پر نادم ہوتے اور آئندہ کے لیے عزم رکھتے کہ ایسی حرکات کا اعادہ نہ کریں گے۔ مگر اللہ سے مامون ہو کر ان ہی شرارتوں اور بے ایمانیوں کے اعادہ کا عزم رکھتے ہیں، اس سے زیادہ حماقت اور بے حیائی کیا ہو گی؟
۲: یعنی تورات میں جو عہد لیا گیا تھا کہ "خدا کی طرف سچ کے سوا کسی چیز کی نسبت نہ کریں۔" کیا وہ انہیں معلوم نہیں جو اس کی کتاب اور احکام میں قطع و برید کر کے اس پر افتراء کرنے لگے، حالانکہ "کتاب اللہ" (تورات) کو یہ لوگ پڑھتے پڑھاتے ہیں۔ پھر کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اس کا مضمون انہیں معلوم نہیں یا یاد نہیں رہا۔ حقیقت وہی ہے کہ دنیا کی فانی متاع کے عوض انہوں نے دین و ایمان بیچ ڈالا اور آخرت کی تکلیف و راحت سے آنکھیں بند کر لیں۔ اتنا نہ سمجھے کہ جو لوگ خدا سے ڈرتے اور تقویٰ کی راہ اختیار کرتے ہیں ان کے لیے آخرت کا گھر اور وہاں کا عیش و تنعم دنیا کی خوشحالی سے کہیں بہتر اور فائق ہے۔ کاش کہ اب بھی انہیں عقل آ جائے۔
۱۷۰ ۔۔۔یعنی توبہ اور اصلاحِ حال کا دروازہ اب بھی کھلا ہے جو لوگ شریروں کی راہ چھوڑ کر تورات کی اصلی ہدایات کو تھامے رہیں اور اسی کی ہدایت و پیشین گوئی کے موافق اس وقت قرآنِ کریم کا دامن مضبوط پکڑے رہیں اور خدا کی بندگی (نماز وغیرہ) کا حق ٹھیک ٹھیک ادا کریں۔ غرض اپنی اور دوسروں کی اصلاح پر متوجہ ہوں۔ خدا ان کی محنت ضائع نہ کرے گا وہ بلاشبہ اپنی محنت کا میٹھا پھل چکھیں گے۔
۱۷۱ ۔۔۔ یعنی جو "میثاق الکتاب" (عہد و اقرار) انہیں یاد دلایا جا رہا ہے، وہ ایسے اہتمام سے لیا گیا تھا کہ پہاڑ اٹھا کر ان کے سروں پر لٹکا دیا گیا اور کہا گیا کہ جو کچھ تم کو دیا جا رہے ہے (تورات وغیرہ) اُسے پوری مضبوطی اور عزم سے تھامو اور جو نصیحتیں کی گئیں انہیں ہمیشہ یاد رکھو۔ ورنہ بصورت انکار سمجھ لو کہ خدا تم پر یہ پہاڑ گرا کر ہلاک کر سکتا ہے۔ اس قدر اہتمام اور تخویف و تاکید سے جو قول و قرار لیا گیا تھا، افسوس ہے وہ بالکل فراموش کر دیا گیا۔ یہ "رفع جبل" کا قصہ سورہ بقرہ میں ربع پارہ الم کے بعد گزر چکا ہے، ملاحظہ فرما لیا جائے۔
۱۷۳ ۔۔۔ "میثاقِ خاص" کے بعد یہاں سے "میثاقِ عام" کا ذکر کرتے ہیں۔ تمام عقائد حقہ اور ادیان سماویہ کا بنیادی پتھر یہ ہے کہ انسان خدا کی ہستی اور ربوبیت عامہ پر اعتقاد رکھے۔ مذہب کی ساری عمارت اسی سنگ بنیاد پر کھڑی ہوتی ہے۔ جب تک یہ اعتقاد نہ ہو، مذہبی میدان میں عقل و فکر کی راہنمائی اور انبیاء و مرسلین کی ہدایات کچھ نفع نہیں پہنچا سکتیں۔ اگر پورے غورو تامل سے دیکھا جائے تو آسمانی مذہب کے تمام اصول و فروع بالآخر خدا کی "ربوبیت عامہ" کے اسی عقیدہ پر منتہی ہوتے بلکہ اسی کی تہ میں لپٹے ہوئے ہیں۔ عقل سلیم اور وحی و الہام اسی اجمال کی شرح کرتے ہیں پس ضروری تھا کہ یہ تخم ہدایت جسے کل آسمانی تعلیمات کا مبداء و منتہی اور تمام ہدایات ربانیہ کا وجودِ مجمل کہنا چاہیے، عام فیاضی کے ساتھ نوع انسانی کے تمام افراد میں بکھیر دیا جائے تاکہ ہر آدمی عقل و فہم اور وحی والہام کی آبیاری سے اس تخم کو شجرِ ایمان و توحید کے درجہ تک پہنچا سکے۔ اگر قدرت کی طرف سے قلوبِ بنی آدم میں ابتداء یہ تخم ریزی نہ ہوتی اور اس کی سب سے زیادہ اساسی وجوہری عقدہ کا حل ناخن عقل و فکر کے سپرد کر دیا جاتا، تو یقیناً یہ مسئلہ بھی منطقی استدلال کی بھول بھلیاں میں پھنس کر ایک نظری مسئلہ بن کر رہ جاتا، جس پر سب تو کیا اکثر آدمی بھی متفق نہ ہو سکتے جیسا کہ تجربہ بتلاتا ہے کہ فکر و استدلال کی ہنگامہ آرائیاں اکثر اتفاق سے زیادہ اختلافِ آراء پر منتج ہوتی ہیں۔ اس لیے قدرت نے جہاں غور و فکر کی قوت اور نورِ وحی و الہام کے قبول کرنے کی استعداد بنی آدم میں ودیعت فرمائی، وہیں اس اساسی عقیدہ کی تعلیم سے ان کو فطرۃً بہرہ ور کیا جس کے اجمال میں کل آسمانی ہدایات کی تفصیل منطوی و مندمج تھی اور جس کے بدوں مذہب کی عمارت کا کوئی ستون کھڑا نہیں رہ سکتا۔ یہ اسی ازلی اور خدائی تعلیم کا اثر ہے کہ آدم کی اولاد ہر قرن اور ہر گوشہ میں حق تعالیٰ کی ربوبیت عامہ کے عقیدہ پر کسی نہ کسی حد تک متفق رہی ہے۔ اور جن معدود افراد نے کسی عقل و روحی بیماری کی وجہ سے اس عام فطری احساس کے خلاف آواز بلند کی ہے وہ انجام کار دنیا کے سامنے بلکہ خود اپنی نظر میں بھی اسی طرح جھوٹے ثابت ہوئے جیسے ایک بخار وغیرہ کا مریض لذیذ اور خوشگوار غذاؤں کو تلخ اور بدمزہ بتلانے میں جھوٹا ثابت ہوتا ہے۔ بہرحال ابتدائے افرینش سے آج تک ہر درجہ اور طبقہ کے انسانوں کا خدا کی ربوبیت کبریٰ پر عام اتفاق و اجماع اس کی زبردست دلیل ہے کہ یہ عقیدہ عقول و افکار کی دوا دوش سے پہلے ہی فاطرِ حقیقی کی طرف سے اولاد آدم کو بلاواسطہ تلقین فرما دیا گیا ورنہ فکر و استدلال کے راستہ سے ایسا اتفاق پیدا ہو جانا تقریباً ناممکن تھا۔ قرآن کریم کی یہ امتیازی خصوصیت ہے کہ اس نے آیاتِ حاضرہ میں عقیدہ کی اس فطری یکسانیت کے اصلی راز پر روشنی ڈالی۔ بلاشبہ ہم کو یاد نہیں کہ اس بنیادی عقیدہ کی تعلیم کب اور کہاں اور کس ماحول میں دی گئی۔ تاہم جس طرح ایک لیکچرار اور انشاء پرداز کو یقین ہے کہ ضرور اس کو ابتدائے عمر میں کسی نے الفاظ بولنے سکھلائے، جس سے ترقی کر کے آج اس رتبہ کو پہنچا۔ گو پہلا لفظ سکھلانے والا اور سکھلانے کے وقت، مکان اور دیگر خصوصیات مقامی بلکہ نفس سکھلانا بھی یاد نہیں۔ تاہم اس کے موجودہ آثار سے یقین ہے کہ ایسا واقعہ ضرور ہوا ہے۔ اسی طرح بنی نوع انسان کا علیٰ اختلاف الاقوام والاجیال "عقیدہ ربوبیت الٰہی" پر متفق ہونا اس کی کھلی شہادت ہے کہ یہ چیز بدء فطرت میں کسی معلم کے ذریعہ سے ان تک پہنچی ہے۔ باقی تعلیمی خصوصیات و احوال کا محفوظ نہ رہ سکنا اس کی تسلیم میں خلل انداز نہیں ہو سکتا۔ اسی ازلی و فطری تعلیم نے جس کا نمایاں اثر آج تک انسانی سرشت میں موجود چلا آتا ہے، ہر انسان کو خدا کی حجت کے سامنے ملزم کر دیا ہے۔ جو شخص اپنے الحاد و شرک کو حق بجانب قرار دینے کے لیے غفلت، بے خبری یا آباؤ اجداد کی کورانہ تقلید کا عذر کرتا ہے، اس کے مقابلہ پر خدا کی یہی حجت قاطعہ جس میں اصل فطرتِ انسانی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، بطور فیصلہ کن جواب کے پیش کی جا سکتی ہے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ "اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کی پشت سے ان کی اولاد اور ان سے ان کی اولاد نکالی، سب سے اقرار کروایا اپنی خدائی کا۔ پھر پشت میں داخل کیا۔ اس سے مدعا یہ ہے کہ خدا کے رب مطلق ماننے میں ہر کوئی آپ کفایت کرتا ہے، باپ کی تقلید نہ چاہیے۔ اگر باپ شرک کرے بیٹے کو چاہیے ایمان لاوے۔ اگر کسی کو شبہ ہو کہ وہ عہد تو یاد نہیں رہا پھر کیا حاصل؟ تو یوں سمجھے کہ اس کا نشان ہر کسی کے دل میں ہے اور ہر زبان پر مشہور ہو رہا ہے کہ سب کا خالق اللہ ہے سارا جہان قائل ہے اور جو کوئی منکر ہے یا شرک کرتا ہے سو اپنی عقل ناقص کے دخل سے، پھر آپ ہی جھوٹا ہوتا ہے۔"
۱۷۴ ۔۔۔ موضح القرآن میں ہے کہ "یہ قصہ یہود کو سنایا کہ وہ بھی عہد سے پھرے ہیں جیسے مشرک پھرتے ہیں۔"
۱۷۶ ۔۔۔ اکثر مفسرین کے نزدیک یہ آیات بلعم بن باعوراء کے حق میں نازل ہوئیں جو ایک عالم اور صاحب تصرف درویش تھا۔ بعدہٗ اللہ کی آیات اور ہدایات کو چھوڑ کر عورت کے اغواء اور دولت کے لالچ سے حضرت موسیٰ کے مقابلہ میں اپنے تصرفات چلانے اور ناپاک تدبیریں بتلانے کے لیے تیار ہو گیا۔ آخر موسیٰ علیہ السلام کا تو کچھ نہ بگاڑ سکا خود مردود ابدی بنا۔ آیات اللہ کا جو علم بلعم کو دیا گیا تھا، اگر خدا چاہتا تو اس کے ذریعہ سے بہت بلند مراتب پر اس کو فائز کر دیتا۔ اور یہ جب ہی ہو سکتا تھا کہ اُسے اپنے علم پر چلنے اور آیات اللہ کا اتباع کرنے کی توفیق ہوتی۔ لیکن ایسا نہ ہوا کیونکہ وہ خود آسمانی برکات و آیات سے منہ موڑ کر زمینی شہوات و لذات کی طرف جھک پڑا۔ وہ نفسانی خواہشات کے پیچھے چل رہا تھا اور شیطان اس کا پیچھا (تعاقب) کرتا جا رہا تھا۔ حتیٰ کہ پکے کجروؤں اور گمراہوں کی قطار میں جا داخل ہوا۔ اس وقت اس کا حال کتے کی طرح ہو گیا جس کی زبان باہر لٹکی ہو اور برابر ہانپ رہا ہو اگر فرض کرو اس پر بوجھ لادیں یا ڈانٹ بتلائیں یا کچھ نہ کہیں آزاد چھوڑ دیں، بہر صورت ہانپتا اور زبان لٹکائے رہتا ہے۔ کیونکہ طبعی طور پر دل کی کمزوری کی وجہ سے گرم ہوا کے باہر پھینکنے اور سرد و تازہ ہوا کے اندر کھینچنے پر بسہولت قادر نہیں ہے۔ اسی طرح سفلی خواہشات میں منہ مارنے والے کتے کا حال ہوا کہ اخلاقی کمزوری کی وجہ سے "آیات اللہ" کا دیا جانا اور نہ دیا جانا یا تنبیہ کرنا اور نہ کرنا دونوں حالتیں اس کے حق میں برابر ہو گئیں۔ سَوَاءٌ عَلَیْہِمْ ءَ اَنْذَرْتَہُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْہُمْ لَایُؤْمِنُوْنَ حرصِ دنیا سے اس کی زبان باہر لٹک پڑی اور ترک آیات کی نحوست سے بدحواسی اور پریشانی خاطر کا نقشہ برابر ہانپتے رہنے کی مثال میں ظاہر ہوا۔ ممکن ہے کہ بلعم کی باطنی و معنوی کیفیت ظاہر کرنے کے لیے صرف ایک مثال کے طور پر یہ مضمون (اِنْ تَحْمِلْ عَلَیْہِ یَلْہَثْ اَوْتَتْرُکْہُ یَلْہَثْ) ذکر کیا گیا ہو اور ہو سکتا ہے کہ دنیا یا آخرت میں اس کے لیے یہ سزا تجویز کی گئی ہو کہ ظاہری و حسی طور پر کتے کی طرح زبان باہر نکل پڑے اور ہمیشہ پریشان و بدحواس اور خوف زدہ آدمی کی طرح ہانپتا رہے۔ العیاذ باللہ۔ آیات کی شان نزول کچھ ہو، بہرحال ایسے ہوا پرستوں کا انجام بتلایا گیا ہے جو حق کے قبول کرنے یا پوری طرح سمجھ لینے کے بعد محض دنیاوی طمع اور سفلی خواہشات کی پیروی میں احکام الٰہیہ کو چھوڑ کر شیطان کے اشاروں پر چلنے لگیں۔ اور خدا کے عہد و میثاق کی کچھ پروا نہ کریں۔گویا یہود کو بھی متنبہ فرما دیا کہ صرف کتاب کا علم کچھ نافع نہیں ہو سکتا جب تک صحیح معنی میں اس کا اتباع نہ ہو مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوا التّٰورَاۃَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوھا کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًا (الجمعہ رکوع۱، آیت:۵) علمائے سوء کے لیے ان آیات میں بڑا عبرتناک سبق ہے اگر دھیان کریں۔
۱۷۷ ۔۔۔ مشرکین وغیرہم کے رد میں جابجا قرآن نے عنکبوت، ذباب، مکڑی، مکھی وغیرہ کی مثالیں بیان فرمائی ہیں مگر ان لوگوں کی مثال ایسی بری ہے کہ کوئی غیرت مند آدمی حتی المقدور اس کو اپنے پر چسپاں نہیں ہونے دے گا۔ اور جو بے حیا غدار اپنے احوال پر چسپاں ہونے دیتا ہے وہ صرف اپنا ہی نقصان کرتا ہے۔
۱۷۸ ۔۔۔ علم و فضل بھی انسان کو جب ہی کام دیتا ہے کہ خدا کی ہدایت و دستگیری سے علم صحیح کے موافق چلنے کی توفیق ہو، جسے وہ سیدھے راستہ پر چلنے کے لیے موافق نہ کرے تو کتنی ہی بڑی علمی فضیلت و قابلیت رکھتا ہو سمجھ لو کہ ٹوٹے اور خسارے کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ اس لیے انسان اپنے علم و فضل پر مغرور نہ ہو بلکہ دائما خدا سے ہدایت و توفیق کا طلبگار رہے۔
۱۷۹ ۔۔۔ ۱: یہ آیت بظاہر آیہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ کے معارض معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے بعض مفسرین نے وہاں لیعبدون میں لام غایت اور یہاں لجہنم میں لا عاقبت مراد لیا ہے یعنی سب کے پیدا کرنے سے مطلوب اصلی تو عبادت ہے لیکن بہت سے جن وانس چونکہ اس مطلب کو پورا نہ کریں گے اور انجام کار دوزخ میں بھیجے جائیں گے۔ اس انجام کے لحاظ سے کہہ سکتے ہیں کہ گویا وہ دوزخ ہی کے لیے پیدا ہوئے۔ کما فی قولہ تعالیٰ فَالْتَقَطَہ اٰلُ فِرْعَوْنَ لِیَکُوْنَ لَہُمْ عَدُوًّا وَّحَزَنًا۔ باقی محققین کے نزدیک اس تکلف کی حاجت نہیں۔ وہ دونوں جگہ "لام غایت" ہی کا ارادہ کرتے ہیں۔ مگر "لِیَعْبُدُوْنَ" میں "غایت تشریعی" اور یہاں لِجَہَنَّمَ میں "غایت تکوینی" بیان کی گئی ہے۔
۲: یعنی دل، کان، آنکھ سب کچھ موجود ہیں لیکن نہ دل سے "آیات اللہ" میں غور کرتے ہیں نہ قدرت کے نشانات کا بنظر تعمق و اعتبار مطالعہ کرتے ہیں۔ اور نہ خدائی باتوں کو بسمع قبول سنتے ہیں۔ جس طرح چوپائے جانوروں کے تمام ادراکات صرف کھانے پینے اور بہیمی جذبات کے دائرہ میں محدود رہتے ہیں۔ یہ ہی حال ان کا ہے کہ دل و دماغ، ہاتھ پاؤں، کان آنکھ غرض خدا کی دی ہوئی سب قوتیں محض دنیاوی لذائذ اور مادی خواہشات کی تحصیل و تکمیل کے لیے وقف ہیں۔ انسانی کمالات اور ملکوتی خصائل کے اکتساب سے کوئی سروکار نہیں بلکہ غور کیا جائے تو ان کا حال ایک طرح چوپائے جانوروں سے بھی بدتر ہے۔ جانور مالک کے بلانے پر چلا آتا ہے، اس کے ڈانٹنے سے رک جاتا ہے۔ یہ کبھی مالکِ حقیقی کی آواز پر کان نہیں دھرتے، پھر جانور اپنے فطری قویٰ سے وہ ہی کام لیتے ہیں جو قدرت نے ان کے لیے مقرر کر دیا ہے۔ زیادہ کی ان میں استعداد ہی نہیں۔ لیکن ان لوگوں میں روحانی و عرفانی ترقیات کی جو فطری قوت و استعداد ودیعت کی گئی تھی، اسے مہلک غفلت اور بے راہ روی سے خود اپنے ہاتھوں ضائع معطل کر دیا گیا۔
۱۸۰ ۔۔۔ غافلین کا حال ذکر کر کے مومنین کو متنبہ فرمایا ہے کہ تم غفلت اختیار نہ کرنا۔ غفلت دور کرنے والی چیز خدا کی یاد ہے، سو تم ہمیشہ اس کو اچھے ناموں سے پکارو اور اچھی صفات سے یاد کرو، جو لوگ اس کے اسماء و صفات کے بارے میں کج روش اختیار کرتے ہیں انہیں چھوڑ دو وہ جیسا کریں گے ویسا بھگتیں گے۔ خدا کے ناموں اور صفتوں کے متعلق کجروی یہ ہے کہ خدا پر ایسے نام یا صفت کا اطلاق کرے جس کی شریعت نے اجازت نہیں دی۔ اور جو حق تعالیٰ کی تعظیم و جلال کے لائق نہیں یا اس کے مخصوص نام اور صفت کا اطلاق غیر اللہ پر کرے، یا ان کے معانی بیان کرنے میں بے اصول تاویل اور کھینچ تان کرے یا ان کو معصیت (مثلاً سحر وغیرہ) کے مواقع میں استعمال کرنے لگے۔ یہ سب کجروی ہے۔
۱۸۱ ۔۔۔ یہ جماعت امت محمدیہ مرحومہ ہے علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والتسلیم جس نے ہر قسم کی افراط اور تفریط اور کجروی سے علیحدہ ہو کر سچائی اور انصاف و اعتدال کا طریقہ اختیار کیا۔ اور اسی کی طرف دوسروں کو دعوت دیتی ہے۔ آگے اس امت کے مخالفین اور حق کی تکذیب کرنے والوں کا ذکر ہے۔
۱۸۳ ۔۔۔جھٹلانے والے مجرموں کو بسا اوقات فوراً سزا نہیں ملتی بلکہ دنیاوی عیش اور فراخی کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ خدائی سزا سے بے فکر ہو کر ارتکابِ جرائم پر اور زیادہ دلیر بن جاتے ہیں۔ اس طرح جو انتہائی سزا ان پر جاری کرنی ہے رفتہ رفتہ اپنے کو اعلانیہ اور کامل طور پر اس کا مستحق ثابت کر دیتے ہیں۔ یہ ہی خدا کی ڈھیل اور استدراج ہے۔ وہ حماقت اور بے حیائی سے سمجھتے ہیں کہ ہم پر مہربانی ہو رہی ہے اور حقیقت میں انتہائی عذاب کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ خدا کا "کید" (داؤ یا خفیہ تدبیر) اسی کو کہا کہ ایسی کارروائی کی جائے جس کا ظاہر رحمت اور باطن قہر و عذاب ہو۔ بیشک خدا کی تدبیر بڑی مضبوط اور پختہ ہے جس کی کسی حیلہ اور تدبیر سے مدافعت نہیں ہو سکتی۔
۱۸۵ ۔۔۔ ۱: یعنی آخر آیات اللہ کو جھٹلانے اور اس کے بدانجام سے غافل ہو جانے کا سبب ہے۔ ان آیات کا لانے والا معاذ اللہ کوئی بے عقل و مجنون نہیں۔ وہ ساری عمر تمہارے پاس رہا، اس کے ہر چھوٹے بڑے حال سے تم واقف ہو۔ اس کی عقل و دانش اور امانت و دیانت پہلے سے مسلم و معروف ہے، جس کے پاس سے لایا وہ تمام جہان کا مالک، شہنشاہِ مطلق اور ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے۔اُس کے نہایت ہی محکم و مضبوط نظامِ سلطنت بلکہ ہر چھوٹی بڑی چیز میں جو اس نے پیدا کی ہے غور کرو تو یہ "آیاتِ تکوینیہ"، "آیاتِ تنزیلیہ" کی تصدیق کریں گی پھر آیات اللہ کی تسلیم میں کیا عذر باقی ہے۔ انہیں سمجھنا چاہیے کہ شاید ان کی موت و ہلاکت کا وقت قریب آ لگا ہو۔ لہٰذا بعد الموت کے لیے جو تیاری کرنی ہے جلد کرنا چاہیے۔
۲: یعنی اگر آیاتِ قرآنیہ پر ایمان نہ لائے تو دنیا میں اور کون سی بات اور کون سا کلام ہے جس پر ایمان لانے کی امید کی جا سکتی ہے سمجھ لو کہ ان بدبختوں کے لیے دولت ایمان مقدر ہی نہیں۔
۱۸۶ ۔۔۔ ہدایت و ضلالت، ہر چیز خدا کے قبضہ میں ہے۔ وہ نہ چاہے تو سارے سامان ہدایت کے رکھے رہ جائیں۔ آدمی کہیں سے بھی منتفع نہ ہو ہاں عادۃً وہ جب ہی ہدایت کی توفیق دیتا ہے جب بندہ خود اپنے کسب و اختیار سے اس راستہ پر چلنا چاہے۔ باقی جو دیدہ و دانستہ بدی اور شرارت ہی کی ٹھان لے تو خدا بھی راستہ دکھلانے کے بعد اسی حال میں اسے چھوڑ دیتا ہے۔
۱۸۷ ۔۔۔ ۱: پہلے عَسیٰ اَنْ یَّکُوْنَ قَدِ اقْتَرَبَ اَجَلُھُمْ میں خاص اس قوم کی اجل (موت) کا ذکر تھا کہ انہیں کچھ معلوم نہیں کہ کب آ جائے۔ یہاں تمام دنیا کی اجل (قیامت) کے متعلق متنبہ فرما دیا کہ جب کسی کو خاص اپنی موت کا علم نہیں کب آئے، پھر کل دنیا کی موت کو کون بتلا سکتا ہے کہ فلاں تاریخ اور فلاں سنہ میں آئے گی۔ اس کی تعیین کا علم بجز خدائے علام الغیوب کسی کے پاس نہیں۔ وہ ہی وقت معین و مقدر پر اسے واقع کر کے ظاہر کر دے گا کہ خدا کے علم میں اس کا یہ وقت تھا۔ آسمان و زمین میں وہ بڑا بھاری واقعہ ہو گا اور اس کا علم بھی بہت بھاری ہے جو خدا کے سوا کسی کو حاصل نہیں۔ گو اس واقعہ کی امارات (بہت سی نشانیاں) انبیاء علیہم السلام خصوصاً ہمارے پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ و سلم نے بیان فرمائی ہیں۔ تاہم ان سب علامات کے ظہور کے بعد بھی جب قیامت کا وقوع ہو گا تو بالکل بے خبری میں اچانک اور دفعتاً ہو گا جیسا کہ بخاری وغیرہ کی احادیث میں تفصیلاً مذکور ہے۔
۲: ان لوگوں کے طرزِ سوال سے ظاہر ہوتا ہے کہ گویا وہ آپ کی نسبت یوں سمجھتے ہیں کہ آپ بھی اسی مسئلہ کی تحقیق و تفتیش اور کھوج لگانے میں مشغول رہے ہیں اور تلاش کے بعد اس کے علم تک رسائی حاصل کر چکے ہیں حالانکہ یہ علم حق تعالیٰ شانہٗ کے ساتھ مخصوص ہے انبیاء علیہم السلام اس چیز کے پیچھے نہیں پڑا کرتے جس سے خدا نے اپنی مصلحت کی بناء پر روک دیا ہو۔ نہ ان کے اختیار میں ہے کہ جو چاہیں کوشش کر کے ضرور ہی معلوم کر لیا کریں۔ ان کا منصب یہ ہے کہ جن بے شمار علوم و کمالات کا خدا کی طرف سے افاضہ ہو، نہایت شکر گزاری اور قدر شناسی کے ساتھ قبول کرتے رہیں۔ مگر ان باتوں کو اکثر عوام کالانعام کیا سمجھیں۔
۱۸۸ ۔۔۔ اس آیت میں بتلایا گیا ہے کہ کوئی بندہ خواہ کتنا ہی بڑا ہو، نہ اپنے اندر "اختیارِ مستقل" رکھتا ہے نہ "علم محیط۔" سید الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم جو علوم اولین و آخرین کے حامل اور خزائن ارضی کی کنجیوں کے امین بنائے گئے تھے، ان کو یہ اعلان کرنے کا حکم ہے کہ میں دوسروں کو کیا خود اپنی جان کو بھی کوئی نفع نہیں پہنچا سکتا، نہ کسی نقصان سے بچا سکتا ہوں۔ مگر جس قدر اللہ چاہے اتنے ہی پر میرا قابو ہے اور اگر میں غیب کی ہر بات جان لیا کرتا تو بہت سی وہ بھلائیاں اور کامیابیاں بھی حاصل کر لیتا جو علم غیب نہ ہونے کی وجہ سے کسی وقت فوت ہو جاتی ہیں۔ نیز کبھی کوئی ناخوشگوار حالت مجھ کو پیش نہ آیا کرتی۔ مثلاً "افک" کے واقعہ میں کتنے دنوں تک حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو وحی نہ آنے کی وجہ سے اضطراب و قلق رہا۔ حجۃ الوداع میں تو صاف ہی فرما دیا "لواستقبلت من امری ما استدبرت لما سقت الہدی" (اگر میں پہلے سے اس چیز کو جانتا جو بعد میں پیش آئی تو ہرگز ہدی کا جانور اپنے ساتھ نہ لاتا) اسی قسم کے بیسیوں واقعات ہیں جن کی روک تھام "علم محیط" رکھنے کی صورت میں نہایت آسانی سے ممکن تھی۔ ان سب سے بڑھ کر عجیب تر واقعہ یہ ہے کہ "حدیث جبرائیل" کی بعض روایات میں آپ نے تصریحاً فرمایا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ میں نے جبرائیل کو واپسی کے وقت تک نہیں پہچانا۔ جب وہ اٹھ کر چلے گئے تب علم ہوا کہ جبرائیل تھے۔ یہ واقعہ بتصریح محدثین بالکل آخر عمر کا ہے۔ اس میں قیامت کے سوال پر "ما المسؤل عنہا باعلم من السائل "ارشاد فرمایا۔ گویا بتلا دیا گیا کہ "علم محیط" خدا کے سوا کسی کو حاصل نہیں۔ اور "علم غیب" تو درکنار، محسوسات و مبصرات کا پورا علم بھی خدا ہی کے عطا کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ وہ کسی وقت نہ چاہے تو ہم محسوسات کا بھی ادراک نہیں کر سکتے۔ بہرحال اس آیت میں کھول کر بتلا دیا گیا کہ "اختیارِ مستقل" یا "علم محیط" نبوت کے لوازم میں سے نہیں۔ جیسا کہ بعض جہلاء سمجھتے تھے۔ ہاں شرعیات کا علم جو انبیاء علیہم السلام کے منصب سے متعلق ہے کامل ہونا چاہیے، اور تکوینیات کا علم خدا تعالیٰ جس کو جس قدر مناسب جانے عطا فرماتا ہے۔ اس نوع میں ہمارے حضور صلی اللہ علیہ و سلم تمام اولین و آخرین سے فائق ہیں۔ آپ کو اتنے بے شمار علوم و معارف حق تعالیٰ نے مرحمت فرمائے ہیں۔ جن کا احصاء کسی مخلوق کی طاقت میں نہیں۔
۱۹۰ ۔۔۔ خدا نے سب انسانوں کو آدم سے پیدا کیا۔ آدم کے انس اور سکون و قرار حاصل کرنے کے لیے اسی کے اندر اس کا جوڑا (حواء) بنایا۔ پھر دونوں سے نسل چلی۔ جب مرد نے عورت سے فطری خواہش پوری کی تو عورت حاملہ ہوئی، حمل کی ابتدائی حالت میں کوئی گرانی نہ تھی۔ عورت حسب معمول چلتی پھرتی اور اٹھتی بیٹھتی رہی۔ جب پیٹ بڑھ گیا، اور یہ کون جان سکتا تھا کہ اس کے اندر کیا چیز پوشیدہ ہے، تب مرد وعورت دونوں نے حق تعالیٰ کی جناب میں عرض کیا کہ اگر آپ اپنے فضل سے بھلا چنگا کار آمد بچہ عنایت فرمائیں گے تو ہم دونوں (بلکہ ہماری نسل بھی) تیرا شکر ادا کرتی رہے گی۔ خدا نے جب ان کی یہ تمنا پوری کر دی تو ہماری دی ہوئی چیز میں اوروں کے حصے لگانے شروع کر دیئے مثلاً کسی نے عقیدہ جما لیا کہ یہ اولاد فلاں زندہ یا مردہ مخلوق نے ہم کو دی ہے، کسی نے اس عقیدہ سے نہیں تو عملاً اس کی نذر و نیاز شروع کر دی، یا بچہ کی پیشانی اس کے سامنے ٹیک دی یا بچہ کا نام ایسا رکھا جس سے شرک کا اظہار ہوتا ہے۔ مثلاً عبدالعزیٰ یا عبدالشمس وغیرہ،غرض جو حق منعم حقیقی کا تھا وہ اعتقاداً یا فعلاً یا قولاً دوسروں کو دے دیا گیا۔ خوب سمجھ لو کہ حق تعالیٰ تمام انواع و مراتب شرک سے بالا و برتر ہے۔ ان آیات میں حسن بصری وغیرہ کی رائے کے موافق خاص آدم و حوا کا نہیں بلکہ عام انسانوں کی حالت کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ بیشک ابتداء ھوَالَّذِی خَلَقَکُمْ من نفس واحدہ وجعل منہا زَوْجَہَا میں بطور تمہید آدم و حوا کا ذکر تھا، مگر اس کے بعد مطلق مرد و عورت کے ذکر کی طرف منتقل ہو گئے اور ایسا بہت جگہ ہوتا ہے کہ شخص کے ذکر سے جنس کے ذکر کی طرف منتقل ہو جاتے ہیں جیسے وَلَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ وَجَعَلْنَاھارُجُوْمًا لِّلشَّیَاطِیْنِ جن سیاروں کو "مصابیحرمایا ہے وہ ٹوٹنے والے ستارے نہیں۔ جن سے "رجم شیاطین" ہوتا ہے۔ مگر شخص "مصابیح" سے جنس "مصابیح" کی طرف کلام کو منتقل کر دیا گیا۔ اس تفسیر کے موافق "جَعَلَالَہٗ شُرَکَاء" میں کچھ اشکال نہیں۔ مگر اکثر سلف سے یہی منقول ہے کہ ان آیات میں صرف آدم و حوا کا قصہ بیان فرمایا ہے۔ کہتے ہیں کہ ابلیس ایک نیک مخلوق کی صورت میں حوا کے پاس آیا اور فریب دے کر ان سے وعدہ لے لیا کہ اگر لڑکا پیدا ہو تو اس کا نام عبدالحارث رکھیں ہوا نے آدم کو بھی راضی کر لیا۔ اور جب بچہ پیدا ہوا تو دونوں نے عبدالحارث نام رکھا (حارث ابلیس کا نام تھا جس سے وہ گروہِ ملائکہ میں پکارا جاتا تھا) ظاہر ہے کہ اسمائے اعلام میں لغوی معنی معتبر نہیں ہوتے اور ہوں بھی تو "عبد" کی اضافت "حارث" کی طرف اس کو مستلزم نہیں کہ "حارث" کو معاذ اللہ معبود سمجھ لیا جائے۔ ایک مہمان نواز آدمی کو عرب "عبدالضیف" کہہ دیتے ہیں۔ (یعنی مہمان کا غلام) اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ گویا میزبان مہمان کی پوجا کرتا ہے۔ پس اگر "عبدالحارث" نام رکھنے کا یہ واقعہ صحیح ہے تو نہیں کہا جا سکتا کہ آدم علیہ السلام نے معاذ اللہ حقیقۃً شرک کا ارتکاب کیا جو انبیاء کی شان عصمت کے منافی ہے۔ ہاں بچہ کا ایسا غیر موزوں نام رکھنا جس سے بظاہر شرک کی بو آتی ہو نبی معصوم کی شان رفیع اور جذبہ توحید کے مناسب نہ تھا۔ قرآن کریم کی عادت ہے کہ انبیائے مقربین کی چھوٹی سی لغزش اور ادنیٰ ترین ذلّت کو "حسناتُ الابرار سیٔات المقربین" کے قاعدوں کے مطابق اکثر سخت عنوان سے تعبیر کرتا ہے جیسے یونس علیہ السلام کے قصہ میں فرمایا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَعَلَیْہِ یا فرمایا حَتّیٰ اِذَا اسْتَیْئَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا اَنَّہُمْ قَدْ کُذِبُوْا، علیٰ توجیہ بعض المفسرین اسی طرح یہاں بھی آدم علیہ السلام کے رتبہ کے لحاظ سے اس موہم شرک تسمیہ کو تغلیظاً ان الفاظ میں ادا فرمایا۔ جعلا لہ شرکاءَ فیما اٰتاہما (خدا کی دی ہوئی چیز میں حصہ دار بنانے لگے) یعنی ان کی شان کے لائق نہ تھا کہ ایسا نام رکھیں جس کی سطح سے شرک کا وہم ہوتا ہے۔ گو حقیقۃً شرک نہیں۔ شاید اسی لیے فقد اشرکا وغیرہ مختصر عبارت چھوڑ کر یہ طویل عنوان "جَعَلَا لَہٗ شُرَکَآءَ فِیْمَا اٰتَاہُمَا" اختیار فرمایا واللہ اعلم۔ (تنبیہ) حافظ عماد الدین ابن کثیر نے بتلایا ہے کہ عبدالحارث نام رکھنے کی حدیث مرفوع جو ترمذی میں ہے، وہ تین وجہ سے معلول ہے۔ رہے آثار، وہ غالباً اہل کتاب کی روایت سے ماخوذ ہیں واللہ اعلم۔
۱۹۱ ۔۔۔ پہلے ایک طرح کے شرک کا ذکر تھا اس کی مناسبت سے ان آیات میں بت پرستی کا رد فرماتے ہیں۔ یعنی جو کسی کو پیدا نہ کر سکے بلکہ خود تمہارا بنایا ہوا ہو وہ تمہارا خدایا معبود کیسے بن سکتا ہے۔
۱۹۵ ۔۔۔ جن بتوں کو تم نے معبود ٹھہرایا ہے اور خدائی کا حق دیا ہے، وہ تمہارے کام تو کیا آتے، خود اپنی حفاظت پر بھی قادر نہیں اور باوجود مخلوق ہونے کے ان کمالات سے محروم ہیں جن سے کسی مخلوق کو دوسری پر تفوق و امتیاز حاصل ہو سکتا ہے۔ گو ان کے ظاہری ہاتھ پاؤں، آنکھ، کان سب کچھ تم بناتے ہو، لیکن ان اعضاء میں وہ قوتیں نہیں جن سے انہیں اعضاء کہا جا سکے۔ نہ تمہارے پکارنے پر مصنوعی پاؤں سے چل کر آ سکتے ہیں، نہ ہاتھوں سے کوئی چیز پکڑ سکتے ہیں، نہ آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں، نہ کانوں سے کوئی بات سنتے ہیں۔ اگر پکارتے پکارتے تمہارا گلا پھٹ جائے گا تب بھی وہ تمہاری آواز سننے والے اور اس پر چلنے والے یا اس کا جواب دینے والے نہیں۔ تم ان کے سامنے چلاؤ یا خاموش رہو، دونوں حالتیں یکساں ہیں۔ نہ اس سے فائدہ نہ اس سے نفع، تعجب ہے کہ جو چیزیں مملوک و مخلوق ہونے میں تم ہی جیسی عاجز و درماندہ بلکہ وجود و کمالاتِ وجود میں تم سے بھی گئی گزری ہوں انہیں خدا بنا لیا جائے اور جو اس کا رد کرے اسے نقصان پہنچانے کی دھمکیاں دی جائیں۔ چنانچہ مشرکین مکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو کہتے تھے کہ آپ ہمارے بتوں کی بے ادبی کرنا چھوڑ دیں ورنہ نہ معلوم وہ کیا آفت تم پر نازل کر دیں۔" "وَیُخَوِّفُوْنَکَ بِالَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِہٖ" (زمر، رکوع ۴، آیت:۳۶) اسی کا جواب قُلِ ادْعُوْا شُرَکَآءَ کُمْ الخ سے دیا۔ یعنی تم اپنے سب شرکاء کو پکارو اور میرے خلاف اپنے سب منصوبے اور تدبیریں پوری کر لو، پھر مجھ کو ایک منٹ کی مہلت بھی نہ دو۔ دیکھوں تم میرا کیا بگاڑ سکو گے۔
۱۹۶ ۔۔۔ یعنی جس نے مجھ پر کتاب نازل کی اور منصب رسالت پر فائز کیا وہ ہی ساری دنیا کے مقابلہ میں میری حمایت و حفاظت کرے گا۔ کیونکہ اپنے نیک بندوں کی حفاظت و اعانت وہ ہی کرتا ہے۔
۱۹۸ ۔۔۔ یعنی بظاہر آنکھیں بنی ہوئی ہیں، پر ان میں بینائی کہاں؟
۲۰۰ ۔۔۔ خُذِ الْعَفْوَ، کے معنی کئے گئے ہیں۔ اکثر کا حاصل یہ ہے کہ سخت گیری اور تندخوئی سے پرہیز کیا جائے اسی کو مترجم محقق نے "درگزر کی عادت" سے تعبیر فرمایا ہے۔ گزشتہ آیات میں بت پرستوں کی جو تحمیق و تجہیل کی گئی تھی بہت ممکن تھا کہ جاہل مشرکین اس پر برہم ہو کر ناشائستہ حرکت کرتے یا برا لفظ زبان سے نکالتے، اس لیے ہدایت فرما دی کہ عفو و درگزر کی عادت رکھو، نصیحت کرنے سے مت رکو، معقول بات کہتے رہو اور جاہلوں سے کنارہ کرو یعنی ان کی جہالت آمیز حرکتوں پر روز روز سے الجھنے کی ضرورت نہیں۔ جب وقت آئے گا ذرا سی دیر میں ان کا سب حساب بے باق ہو جائے گا۔ اور اگر کسی وقت بمقتضائے بشریت ان کی کسی نالائق حرکت پر غصہ آ جائے اور شیطان لعین چاہے کہ دور سے چھیڑ چھاڑ کر کے آپ کو ایسے معاملہ پر آمادہ کر دے جو خلاف مصلحت ہو یا آپ کے "خلقِ عظیم" اور حلم و متانت کے شایاں نہ ہو، تو آپ فوراً اللہ سے پناہ طلب کیجئے آپ کی عصمت و وجاہت کے سامنے اس کا کوئی کید نہیں چل سکے گا۔ کیونکہ خداوند قدیر جو ہر مستعیذ کی بات سننے والا اور ہر حالت کا جاننے والا ہے، اسی نے آپ کی صیانت کا تکفل فرمایا ہے۔
۲۰۲ ۔۔۔ پہلے تو تنہا حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو خطاب تھا گو حکم استعاذہ میں سب شامل تھے اب عام متقین (خدا ترس پرہیزگاروں) کا حال بیان فرماتے ہیں یعنی عام متقین کے حق میں یہ محال نہیں کہ شیطان کا گزر ان کی طرف ہو، اور کوئی چرکہ لگا جائے۔ البتہ متقین کی شان یہ ہوتی ہے کہ شیطان کے اغواء سے ممتد غفلت میں نہیں پڑتے بلکہ ذرا غفلت ہوئی اور خدا کو یاد کر کے چونک پڑے ٹھوکر لگی اور معًا سنبھل گئے، سنبھلتے ہی آنکھیں کھل گئیں، غفلت کا پردہ اٹھ گیا۔ نیکی، بدی کا انجام سامنے نظر آنے لگا اور بہت جلد نازیبا کام سے رک گئے۔ باقی غیر متقین (جن کے دل میں خدا کا ڈر نہ ہو، اور جنہیں شیطان کی برادری کہنا چاہیے) ان کا حال یہ ہے کہ شیاطین ہمیشہ انہیں گمراہی میں کھینچتے چلے جاتے ہیں اور رگیدنے میں ذرا کمی نہیں کرتے۔ اِدھر یہ لوگ ان کی اقتداء و پیروی میں کوتاہی نہیں کرتے۔ اور اس طرح ان شیاطین کے غرور و سرکشی کو اور زیادہ بڑھاتے رہتے ہیں۔ بہرحال متقی کی شان یہ ہے کہ جب شیطان دق کرے، فوراً خدا سے پناہ مانگے دیر نہ کرے۔ ورنہ غفلت میں تمادی ہو کر رجوع الی اللہ کی توفیق بھی نہ رہے گی۔
۲۰۳ ۔۔۔ جب کبھی وحی کے آنے میں تاخیر ہوتی، تو کفار از راہِ تمسخر کہتے تھے کہ اب کوئی آیت کیوں گھڑ کر نہیں لے آتے۔ آخر سارا قرآن تم نے بنایا ہی ہے (العیاذ باللہ)۔ اسی طرح کبھی دق کرنے کے لیے بعض ایسے نشان (معجزات) طلب کرتے جن کے دکھلانے کو خدا کی حکمت مقتضی نہ تھی۔ جب آپ دکھلانے سے انکار کرتے تو کہتے۔" لَوْلَا اجْتَبَیْتَہَا" یعنی اپنے خدا سے کہہ کر ہمارا مانگا ہوا نشان کیوں چھانٹ کر نہ لے آئے دونوں باتوں کے جواب میں فرمایا۔ "قُلْ اِنَّمَا اَتَّبِعُ مَایُوْحیٰ اِلَیَّ مِن رَّبِّیْ" یعنی ان سے کہہ دو کہ (نبی کا یہ کام نہیں کہ اپنی طرف سے خدا پر افتراء کرے، یا لوگوں کے کہنے سننے پر اقدام کر کے خدا سے وہ چیز مانگے جس کا دینا اس کی حکمت کے منافی ہے یا جس کے طلب کرنے کی اجازت نہیں ہے) اس کا وظیفہ صرف یہ ہے کہ جو کچھ خدا وحی بھیجے، قبول کرے، اس پر عمل پیرا ہو اور دوسروں کو عمل پیرا ہونے کی دعوت دے۔ باقی آیات تنزیلیہ یا تکوینیہ جو مجھ سے طلب کرتے ہو، تو قرآن سے بڑھ کر کون سی آیات ہوں گی اور اس سے زیادہ عظیم الشان معجزہ کون سا ہو گا جو سارے جہان کے لیے بصیرت افروز حقائق و مواعظ کا خزانہ اور ایمان لانے والوں کے لیے خاص قسم کی ہدایت و رحمت کا ذخیرہ اپنے اندر رکھتا ہے۔ اسی کو تم کب ماننے کے لیے تیار ہوئے، جو فرمائشی آیات کو تسلیم کرو گے۔
۲۰۴ ۔۔۔ جب قرآن ایسی دولت بے بہا اور علم و ہدایت کی کان ہے تو اس کی قرأت کا حق سامعین پر یہ ہے کہ پوری فکر و توجہ سے اُدھر کان لگائیں، اس کی ہدایات کو سمعِ قبول سے سنیں اور ہر قسم کی بات چیت، شور وشغب اور ذکر و فکر چھوڑ کر ادب کے ساتھ خاموش رہیں تاکہ خدا کی رحمت اور مہربانی کے مستحق ہوں۔ اگر کافر اس طرح قرآن سنے تو کیا بعید ہے کہ خدا کی رحمت سے مشرف بایمان ہو جائے۔ اور پہلے سے مسلمان ہے تو ولی بن جائے یا کم از کم اس فعل کے اجر و ثواب سے نوازا جائے۔ اس آیت سے بہت سے علماء نے یہ مسئلہ بھی نکالا ہے کہ نماز میں جب امام قرأت کرے تو مقتدی کو سننا اور خاموش رہنا چاہیے جیسا کہ ابو موسیٰ اور ابوہریرہ کی حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا "واذاقرأ فانصتوا" (جب نماز میں امام قرأت کرے تو چپ رہو) یہاں اس مسئلہ کی تفصیل کا مواقع نہیں۔ صحیح مسلم کی شرح میں ہم نے نہایت شرح و بسط سے اس کے مالہٗ وماعلیہ پر بحث کی ہے۔
۲۰۵ ۔۔۔ بڑا ذکر تو قرآن کریم ہے، اس کا ادب بیان ہو چکا ہے۔ اب عام "ذکر اللہ" کے سوا کچھ آداب بیان فرماتے ہیں۔ یعنی "ذکر اللہ" کی اصلی روح یہ ہے کہ جو زبان سے کہے دل سے اس کی طرف دھیان رکھے تاکہ ذکر کا پورا نفع ظاہر ہو اور زبان و دل دونوں عضو خدا کی یاد میں مشغول ہوں۔ ذکر کرتے وقت دل میں رقت ہونی چاہیے۔ سچی رغبت ورہبت سے خدا کو پکارے۔ جیسے کوئی خوشامد کرنے والا ڈرا ہوا آدمی کسی کو پکارتا ہے۔ ذاکر کے لہجہ میں، آواز میں ہئیت میں تضرع و خوف کا رنگ محسوس ہونا چاہیے۔ ذکر و مذکور کی عظمت و جلال سے آواز کا پست ہونا قدرتی چیز ہے وَخَشَعَتِ الْاَصْوَاتُ لِلرَّحْمٰنِ فَلَا تَسْمَعُ اِلَّاھمْسًا۔ اسی لیے زیادہ چلانے کی ممانعت آئی ہے۔ دھیمی آواز سے سراً یا جہراً خدا کا ذکر کرے تو خدا اس کا ذکر کرے گا۔ پھر اس سے زیادہ عاشق کی خوش بختی اور کیا ہو سکتی ہے۔
۲۰۶ ۔۔۔ یعنی رات دن خصوصاً صبح و شام کے اوقات میں اس کی یاد سے غافل مت رہ۔ جب مقرب فرشتوں کو اس کی بندگی سے عار نہیں، بلکہ ہمہ وقت اسی کی یاد میں لگے رہتے ہیں، اسی کو سجدہ کرتے ہیں، تو انسان کو اور بھی زیادہ ضروری ہے کہ اس کے ذکر و عبادت و سجود سے غافل نہ رہے۔ چنانچہ اس آیت پر بھی سجدہ کرنا چاہیے۔