تفسیر مدنی

سُوۡرَةُ الاٴعرَاف

(سورۃ الاعراف ۔ سورہ نمبر ۷ ۔ تعداد آیات ۲۰۶)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     ا۔ ل۔ مّ۔ص

۲۔۔۔     یہ ایک (عظیم الشان) کتاب ہے جو اتاری گئی ہے آپ کی طرف (اے پیغمبر!) پس آپ کے دل میں اس کی وجہ سے کوئی تنگی نہیں ہونی چاہیے (اور اتاری اس لئے گئی کہ) تاکہ آپ خبردار کریں اس کے ذریعے اور تاکہ یہ ایک عظیم الشان نصیحت ہو ایمان والوں کے لئے

۳۔۔۔      پیروی کرو تم (اے لوگو!) اس کتاب کی جو اتاری گئی تمہاری طرف، تمہارے رب کی جانب سے ، اور مت پیچھے چلو تم لوگ اس کے سوا اور دوستوں کے ، کم ہی نصیحت مانتے ہو تم لوگ

۴۔۔۔      اور کتنی ہی بستیاں ایسی تھیں جن کو ہم نے ہلاک کر دیا، پس آ گیا ان پر ہمارا عذاب راتوں رات، یا جب کہ وہ لوگ محو تھے دوپہر کے آرام میں

۵۔۔۔      پھر کچھ نہیں تھی ان کی (دعا و) پکار جب کہ آ پہنچا ان پر ہمارا عذاب، سوائے اس کے کہ انہوں نے کہا کہ واقعی ہم لوگ بڑے ظالم تھے

۶۔۔۔      پھر (قیامت کے دن) ہم نے ضرور پوچھنا ہے ان لوگوں سے جن کی طرف رسول بھیجے گئے تھے ، اور ہم ضرور پوچھنا ہے رسولوں سے بھی

۷۔۔۔      پھر ہم خود ہی سب کچھ ان کو سنا دیں گے پورے علم کے ساتھ، اور ہم کوئی دور نہیں تھے

۸۔۔۔     اور وزن اس روز حق ہو گا پھر جن کے پلڑے بھاری ہوں گے (نیکیوں کے ) تو وہی ہوں گے فلاح (عینی حقیقی کامیابی) پانے والے

۹۔۔۔      اور جن کے پلڑے ہلکے ہوئے تو وہی لوگ ہوں گے جنہوں نے خود خسارے میں ڈالا ہو گا اپنے آپ کو، اس وجہ سے کہ وہ ہماری آیتوں کے ساتھ ظلم کرتے رہے تھے

۱۰۔۔۔      اور بلاشبہ ہم ہی نے تم کو ٹھکانا دیا زمین میں (اے لوگو)، اور رکھ دیئے ہم نے اس میں تمہارے لئے طرح طرح کے سامان ہائے زیست (مگر) تم لوگ کم ہی شکر کرتے ہو

۱۱۔۔۔      اور بلاشبہ ہم نے ہی پیدا کیا تم سب کو، پھر ہم ہی نے صورت گری کی تم سب کی، پھر ہم نے حکم دیا فرشتوں کو کہ تم سجدہ ریز ہو جاؤ آدم کے آگے ، تو وہ سب سجدے میں گر پڑے بجز ابلیس کے ، کہ وہ نہ ہوا سجدہ کرنے والوں میں سے

۱۲۔۔۔      پوچھا تجھے کس چیز نے سجدہ کرنے سے روکا جب کہ میں نے تجھے حکم دیا تھا؟ تو اس نے کہا میں اس سے بہتر ہوں کہ تو نے مجھے پیدا کیا آگ سے ، اور اس کو پیدا کیا مٹی سے

۱۳۔۔۔      فرمایا اچھا تو اتر جا تو یہاں سے ، تجھے حق نہیں کہ تو یہاں اپنی بڑائی کا گھمنڈ کرے ، نکل جا کہ بلاشبہ تو ذلیلوں میں سے ہے

۱۴۔۔۔      اس نے کہا مجھے مہلت دے دے ، اس دن تک کہ جب ان کو دوبارہ اٹھایا جائے گا،

۱۵۔۔۔      فرمایا کہ بے شک تو مہلت دئیے ہوؤں میں سے ہے ،

۱۶۔۔۔      کہا اچھا تو جس طرح تو نے مجھے گمراہی میں مبتلا کیا ہے ، میں بھی ضرور ان کے لئے گھات میں بیٹھ جاؤں گا تیری سیدھی راہ پر،

۱۷۔۔۔      پھر میں پوری قوت سے ان پر حملے کروں گا، ان کے آگے سے بھی، اور انکے پیچھے سے بھی، ان کی دائیں جانب سے بھی، اور انکی بائیں طرف سے بھی، اور تو ان میں سے اکثر شکر گزار نہ پائے گا،

۱۸۔۔۔      فرمایا جا نکل جا تو یہاں سے ذلیل اور خوار ہو کر، (اور یاد رکھ کہ) یہ قطعی بات ہے کہ ان میں سے جو بھی کوئی تیرے کہنے پر چلا، تو میں ضرور بھر دوں گا جہنم کو تم سب سے

۱۹۔۔۔      اور اے آدم رہو تم بھی، اور تمہاری بیوی بھی، اس جنت میں ، اور کھاؤ (پیو) تم اس میں جہاں سے تم چاہو، پر قریب نہیں جانا اس (خاص) درخت کے ، کہ پھر ہو جاؤ تم ظالموں میں سے

۲۰۔۔۔      پھر ورغلانے لگا شیطان ان دونوں کو اپنے وسوسوں کے ذریعے ، تاکہ وہ ظاہر کر دے ان کے سامنے ان کی ان شرم گاہوں کو جو کہ چھپائی گئی تھیں ان دونوں سے ، اور کہا کہ تم کو نہیں روکا تمہارے رب نے اس درخت سے مگر اس بناء پر، کہ کہیں تم فرشتے بن جاؤ یا تم ہو جاؤ ہمیشہ رہنے والوں میں سے ،

۲۱۔۔۔      اور اس نے ان دونوں سے قسمیں کھا کھا کر کہا کہ میں تمہارا سچا خیر خواہ ہوں ،

۲۲۔۔۔      آخرکار اس نے نیچے اتار لیا ان دونوں کو دھوکے (اور فریب) سے پھر جب چکھ لیا ان دونوں نے اس درخت کو تو کھل گئے ان کے سامنے ان کے ننگے ، اور وہ چپکانے لگے اپنے اوپر جنت کے پتے ، اور ان دونوں کو پکار کر فرمایا ان کے رب نے ، کہ کیا میں نے تم کو روکا نہیں تھا اس درخت سے ، اور تم سے یہ نہ کہا تھا کہ یقینی طور پر شیطان دشمن ہے تم دونوں کا کھلم کھلا،

۲۳۔۔۔      تو اس پر ان دونوں نے عرض کیا کہ اے ہمارے رب، ہم نے ظلم کر لیا خود اپنی جانوں پر، پس اگر تو نے ہمیں نہ بخشا، اور ہم پر رحم نہ فرمایا، تو یقیناً ہم ہو جائیں گے سخت خسارہ اٹھانے والوں میں سے ،

۲۴۔۔۔      فرمایا اتر جاؤ، تم یہاں سے اس حال میں کہ تم ایک دوسرے کے دشمن رہو گے اور تمہارے لئے زمین میں ٹھکانا ہو گا اور سامان زیست اور ایک مدت (مقررہ) تک،

۲۵۔۔۔      نیز فرمایا کہ وہیں تم نے جینا ہے اور وہیں تم نے مرنا ہے ، اور اسی میں سے تمہیں (قیامت کے روز) نکالا جائے گا

۲۶۔۔۔      اے اولاد آدم، ہم نے اتارا تم پر ایسا لباس، جو چھپائے تمہارے شرم (اور پردے ) کے حصول کو، اور تاکہ تمہارے لئے آرائش بھی ہو اور تقویٰ کا (معنوی) لباس تو سب سے بڑھ کر ہے یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے ، تاکہ لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں ،

۲۷۔۔۔      اے اولاد آدم (خیال رکھنا کہ) کہیں شیطان تمہیں بہکا نہ دے ، جس طرح کہ وہ نکلوا چکا ہے تمہارے ماں باپ کو جنت سے ، اور وہ ان سے اتروا چکا ہے ان کے لباس، تاکہ دکھا دے ان کو ایک دوسرے کی شرمگاہیں ، (اور اس لئے بھی چوکنا رہنا کہ) یقیناً وہ اور اس کا ٹولہ تمہیں وہاں سے دیکھتا ہے ، جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے ، ہم نے شیطانوں کو ان ہی لوگوں کا دوست بنایا ہے جو ایمان نہیں رکھتے ۔

۲۸۔۔۔      اور یہ لوگ جب کوئی برائی کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طرح کرتے پایا، اور اللہ نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے (ان سے ) کہو کہ اللہ کبھی بے حیائی کا حکم نہیں دیتا، کیا تم لوگ اللہ کے ذمے وہ باتیں لگاتے ہو، جن کا تمہیں علم نہیں ،

۲۹۔۔۔      کہو کہ میرے رب نے تو انصاف ہی کا حکم دیا ہے ، اور یہ کہ تم لوگ ٹھیک رکھو اپنا رخ ہر عبادت کے وقت، اور اسی کو پکارو، تم لوگ خالص کرتے ہوئے اس کے لئے دین کو، جیسے اس نے تم کو پہلے پیدا کیا ایسے ہی تم دوبارہ پیدا ہوؤ گے

۳۰۔۔۔     کچھ لوگ خالص کرتے ہوئے اس کے لئے دین کو، جیسے اس نے تم کو پہلے پیدا کیا ایسے ہی تم دوبارہ پیدا ہوؤ گے ، کچھ لوگوں کو اس نے ہدایت بخشی اور کچھ پر گمراہی چسپاں ہو کر رہ گئی، کہ انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو دوست بنا لیا، اور وہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ ہدایت پر ہیں

۳۱۔۔۔      اے آدم کی اولاد، تم لے لیا کرو اپنی زینت ہر مسجد کے پاس اور کھاؤ، پیو، پر حد سے نہیں بڑھنا، کہ بے شک وہ (وحدہٗ لاشریک) پسند نہیں کرتا حد سے بڑھنے والوں کو،

۳۲۔۔۔      (ان سے ) کہو کہ کس نے حرام کیا اللہ کی اس زینت کو جس کو اس نے نکالا (پردہ عدم سے ) اپنے بندوں کے لئے ؟ اور کھانے پینے کی ان پاکیزہ چیزوں کو (جن کو اس نے پیدا فرمایا اپنے کرم سے) کہو کہ یہ چیزیں دنیا کی زندگی میں بھی اصل میں اہل ایمان ہی کے لئے ہیں ، اور قیامت کے دن تو یہ خالص انہی کے لئے ہوں گی، اسی طرح کھول کر بیان کرتے ہیں ہم اپنی آیتوں کو ان لوگوں کے لئے جو علم رکھتے ہیں ،

۳۳۔۔۔      کہو، میرے رب نے تو صرف بے حیائی کی باتوں کو حرام کیا ہے ، خواہ وہ اعلانیہ ہوں یا پوشیدہ، اور گناہ اور ناحق زیادتی کو، اور یہ کہ تم لوگ شریف ٹھہراؤ اللہ کے ساتھ کسی ایسی چیز کو جس کی اس نے کوئی سند نہیں اتاری، اور یہ کہ تم لوگ اللہ پر وہ کچھ کہو جو تم جانتے نہیں ہو،

۳۴۔۔۔      اور ہر امت کے لئے ایک مدت مقرر ہے ، پھر جب ان کی مدت آن پوری ہوتی ہے ، تو وہ پل بھر (اس سے ) نہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں ، نہ آگے بڑھ سکتے ہیں ،

۳۵۔۔۔      اے آدم کی اولاد اگر تمہارے پاس ایسے رسول آئیں جو خود تم ہی میں سے ہوں ، وہ سنائیں تمہیں میری آیتیں ، تو جس نے تقویٰ اختیار کیا، اور اصلاح کر لی، تو ایسوں پر نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے ،

۳۶۔۔۔      اور جنہوں نے جھٹلایا ہماری آیتوں کو، اور انہوں نے منہ موڑا ان سے اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا ہو کر، تو وہ یار ہوں گے (دوزخ کی) اس آگے کے ، جس میں انہیں ہمیشہ رہنا ہو گا،

۳۷۔۔۔      پھر اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو سکتا ہے ؟ جو جھوٹ موٹ کا بہتان باندھے اللہ پر، یا وہ جھٹلائے اس کی آیتوں کو، ایسے لوگوں کو پہنچتا رہے گا ان کا حصہ نوشتہ تقدیر کے مطابق، یہاں تک کہ جب آ پہنچیں گے ان کے پاس ہمارے فرشتے ان کی جان لینے کیلئے ، تو وہ ان سے کہیں گے ، کہ کہاں ہیں وہ جن کو تم لوگ پکارا کرتے تھے اللہ کے سوا؟ تو یہ کہیں گے کہ وہ سب گم ہو گئے ہم سے ، اور اس وقت وہ اپنے خلاف خود گواہی دیں گے کہ وہ پکے کافر تھے ،

۳۸۔۔۔      اس پر اللہ ان سے فرمائے گا کہ اب داخل ہو جاؤ تم بھی دوزخ میں جنوں اور انسانو کے ان گروہوں میں شامل ہو کر جو گزر چکے ہیں تم سے پہلے ، (اور حالت وہاں پر انکی یہ ہو گی کہ) جب بھی داخل ہو گا کوئی گروہ دوزخ میں ، تو وہ لعنت کرے گا اپنے جیسے دوسرے گروہ پر، یہاں تک کہ جب وہ سب گر جائیں گے اس میں ، تو ان کے پچھلے اگلوں کے لئے کہیں گے کہ اے ہمارے رب یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا، پس تو انہیں دوہرا عذاب دے آگے کا، وہ فرمائے گا کہ ہر ایک کے لئے دو گنا عذاب ہے ، لیکن تم لوگ جانتے نہیں ہو،

۳۹۔۔۔      اور ان میں کی پہلی جماعت اپنی پچھلی جماعت سے کہے گی کہ پھر تم کو بھی ہم پر کوئی فوقیت نہ ہوئی، لہذا تم بھی عذاب کا مزہ چکھو اپنے ان اعمال کے بدلے میں جو تم کماتے رہے تھے ،

۴۰۔۔۔      جن لوگوں نے جھٹلایا ہماری آیتوں کو، اور انہوں نے اپنی برائی کے گھمنڈ میں ان سے منہ موڑا تو یہ بات قطعی ہے کہ ان کے لئے نہ تو آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے ، اور نہ ہی وہ جنت میں داخل ہو سکیں گے ، یہاں تک کہ گھس جائے اونٹ سوئی کے ناکے میں ، اور اسی طرح ہم بدلہ دیتے ہیں مجرموں کو،

۴۱۔۔۔      ان کے لئے آتش دوزخ کا بچھونا ہو گا، اور اوپر سے اسی کا اورھان، اور اسی طرح ہم بدلہ دیتے ہیں ظالموں کو،

۴۲۔۔۔      اور (اس کے برعکس) جو لوگ ایمان لائے ہوں گے (صدق دل سے ) انہوں نے کام بھی نیک کئے ہوں گے ، اور ہم کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے ، تو ایسے لوگ جنتی ہوں گے ، جہاں انہیں ہمیشہ رہنا نصیب ہو گا

۴۳۔۔۔     اور نکال باہر کر دیں گے ہم جو بھی کوئی کدورت رہی ہو گی ان کے سینوں میں ، بہہ رہی ہوں گی ان کے نیچے سے طرح طرح کی عظیم الشان ٹھہریں ، اور وہ کہیں گے کہ تعریف (و شکر) اس اللہ کے لئے ہے جس نے ہمیں یہاں تک پہنچایا، ورنہ ہم خود یہاں پہنچنے کے نہیں تھے اگر اللہ ہماری راہنمائی نہ فرماتا، بے شک آئے تھے ہمارے رب کے رسول حق کے ساتھ، اور ان کو پکارا جائے گا (اس صدائے دلنواز کے ساتھ) کہ وارث بنا دیا گیا تم لوگوں کو اس جنت کا، تمہارے ان اعمال کے بدلے میں جو تم لوگ کرتے رہے تھے (اپنی زندگی میں )

۴۴۔۔۔     اور جنت والے دوزخ والوں کو پکار کر کہیں گے کہ بے شک ہم نے تو وہ سب کچھ حق (اور سچ) پایا جس کا وعدہ فرمایا تھا ہم سے ہمارے رب نے ، تو کیا تم لوگوں نے بھی وہ سب کچھ (حق و سچ) پا لیا جس کا وعدہ تم سے تمہارے رب نے کیا تھا؟ وہ جواب دیں گے کہ ہاں ، پھر ایک پکارنے والا ان کے درمیان پکار کر کہے گا کہ لعنت ہو اللہ کی ان ظالموں پر۔

۴۵۔۔۔      جو روکتے تھے اللہ کے راستے سے ، اور اس میں کجی تلاش کرتے تھے ، اور وہ آخرت کے منکر تھے

۴۶۔۔۔      اور ان دونوں کے درمیان ایک عظیم الشان آڑ ہو گی، اور اعراف پر کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو ان میں سے ہر ایک کو پہچانتے ہوں گے ان کے چہروں کے نشانات سے اور وہ جنت والوں کو پکار کر کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو، وہ ابھی جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے ، پر وہ اس کی امید رکھتے ہوں گے

۴۷۔۔۔      اور جب پھیری جائیں گی ان کی نگاہیں دوزخ والوں کی طرف، تو یہ (سراسر عجز و نیاز بن کر) عرض کریں گے کہ اے ہمارے رب ہمیں شامل نہ کیجئے گا، ان ظالم لوگوں کے ساتھ

۴۸۔۔۔      اور اعراف والے (دوزخ کی (کچھ ایسی بڑی بڑی شخصیتوں کو جنہیں وہ پہچانتے ہوں گے ، ان کی نشانیوں سے ، پکار کر کہیں گے کہ (صاحب! یہ کیا ہوا؟ کہ) نہ تو تمہیں تمہارا جتھا کچھ کام آ سکا، اور نہ ہی وہ کچھ جس کی بناء پر تم اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا تھے ،

۴۹۔۔۔      کیا یہ (اہل جنت) وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں تم لوگ قسمیں کھا کھا کر کہا کرتے تھے کہ انہیں اللہ کی کوئی رحمت نہیں ملے گی؟ (آج تو انہی سے کہا گیا ہے کہ) داخل ہو جاؤ تم جنت میں ، نہ تم پر کوئی خوف ہو گا اور نہ ہی تم غمگین ہو گے ،

۵۰۔۔۔      اور دوزخ والے (بھوک، پیاس اور گرمی، سے بدحواس ہو کر) جنت والوں کو پکار کر کہیں گے ، کہ کچھ تھوڑا سا پانی ہم پر بھی ڈال دو، یا اس رزق میں سے ہی کچھ ہماری طرف پھینک دو، جو اللہ نے تمہیں بخشا ہے ، وہ جواب دیں گے کہ اللہ نے ان دونوں چیزوں کو حرام فرما دیا ہے کافروں پر

۵۱۔۔۔     جنہوں نے کھیل تماشہ بنا رکھا تھا اپنے دین کو، ان کو دھوکے میں ڈالا ہوا تھا دنیا کی زندگی (اور اس کی چمک دمک) نے ، سو آج ہم بھی انہیں (اسی طرح) بھلا دیں گے جس طرح کہ انہوں نے بھلا رکھا تھا اپنے اس دن کی پیشی کو، اور جس طرح وہ ہماری آیتوں کا انکار کیا کرتے تھے ،

۵۲۔۔۔      اور بلاشبہ ہم ان کے پاس لے آئے ہیں ایک ایسی عظیم الشان کتاب، جس کی تفصیل ہم نے خود کی ہے علم کی بنیاد پر، عین ہدایت اور رحمت بنا کر، ان لوگوں کے لئے جو ایمان رکھتے ہیں

۵۳۔۔۔      تو کیا یہ لوگ اس (قرآن) کے بتائے ہوئے انجام ہی کا انتظار کر رہے ہیں ، پر جس دن اس کا (بیتا ہوا) وہ انجام سامنے آ جائے ، تو اس وقت وہی لوگ جو اس کو بھولے ہوئے تھے اس سے پہلے ، (چلا چلا کر) کہیں گے کہ بے شک حق لے کر آئے تھے ہمارے رب کے رسول، تو کیا اب ہو سکتے ہیں ہمارے لئے ایسے کوئی سفارشی جو ہماری سفارش کریں ؟ یا ایسے ہو سکتا ہے کہ ہمیں لوٹا دیا جائے دنیا میں ) تو ہم عمل کریں اس کے خلاف جو کہ ہم اس سے پہلے کرتے رہے تھے ؟ بلاشبہ خسارے میں ڈال دیا ان لوگوں نے اپنی جانوں کو، اور کھو گیا ان سے وہ سب کچھ جو یہ لوگ کھڑا کرتے تھے ،

۵۴۔۔۔      بے شک تمہارا رب وہی اللہ ہے جس نے پیدا فرمایا آسمانوں اور زمین (کی اس عظیم الشان کائنات) کو چھ دنوں میں ، پھر وہ جلوہ فرما ہوا عرش پر، وہ ڈھانک دیتا ہے رات کو دن پر، پھر دن رات کے پیچھے آتا دوڑتا ہوا اور اسی نے پیدا فرمایا سورج چاند اور ستاروں کو، اس حال میں کہ یہ سب تابع ہیں اس کے فرمان کے ، آگاہ رہو کہ اسی کے لیے ہے خلق بھی اور امر بھی (سو) بڑا ہی برکت والا ہے اللہ جو پروردگار ہے سارے جہانوں کا،

۵۵۔۔۔      پکارو تم لوگ (اپنی ہر ضرورت کے لئے ، اور ہر حال میں ) اپنے رب ہی کو، عاجزی کے ساتھ اور پوشیدہ طور پر، بے شک وہ پسند نہیں کرتا حد سے بڑھنے والوں ،

۵۶۔۔۔      اور زمین میں فساد مت پھیلاؤ تم لوگ اس کی درستی کے بعد، اور اسی (وحدہٗ لاشریک کو پکارو خوف اور امید سے ، بے شک اللہ کی رحمت قریب ہے نیکوکاروں کے ،

۵۷۔۔۔      اور وہ (اللہ) وہی تو ہے جو ہوائیں بھیجتا ہے خوشخبری دینے کو اپنی (باران) رحمت سے پہلے ، یہاں تک کہ جب وہ اٹھا لیتی ہیں (پانی سے لدے ہوئے ) بھاری بھرکم بادلوں کو، تو ہم اس بادل کو ہانک دیتے ہیں کسی مردہ زمین کی طرف، جہاں اس سے ہم بارش برساتے ہیں ، پھر اس کے ذریعے ہم نکالتے ہیں طرح طرح کی پیداواریں ، اسی طرح ہم نکالیں گے مردوں کو، (سو تمہیں یہ سب کچھ ہم دکھاتے ہیں ) تاکہ تم سبق لو،

۵۸۔۔۔      اور عمدہ زمین سے خوب پیدا وار نکلتی ہے اس کے رب کے حکم سے ، اور جو زمین خراب ہوتی ہے ، اس سے ناقص پیداوار کے سوا کچھ نہیں نکلتا، اسی طرح پھیر پھر کر بیان کرتے ہیں ہم اپنی آیتوں کو، ان لوگوں کے لئے جو شکر ادا کرتے ہیں ،

۵۹۔۔۔      بلاشبہ ہم نے بھیجا نوح کو ان کی قوم کی طرف (رسول بنا کر) تو آپ نے (ان سے ) کہا کہ اے میری قوم کے لوگو، تم بندگی کرو اللہ ہی کی، کہ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ، بے شک میں ڈرتا ہوں تمہارے بارے میں ایک بڑے ہی ہولناک دن کے عذاب سے ،

۶۰۔۔۔      اس پر آپ کی قوم کے سرداروں نے کہا کہ ہم تو یقیناً دیکھتے ہیں تم کو پڑا ہوا کھلی گمراہی میں ،

۶۱۔۔۔      آپ نے فرمایا اے میری قوم! مجھ میں (کسی طرح کی) کوئی گمراہی نہیں ، بلکہ میں تو پیغمبر ہوں اس ذات (اقدس) کی طرف سے ، جو پروردگار رہے سب جہانوں کی،

۶۲۔۔۔     تمہیں پیغامات پہنچاتا ہوں اپنے رب کے ، اور خیر خواہی کرتا ہوں تم سب کی، اور میں اللہ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ،

۶۳۔۔۔      کیا تم لوگوں کو اس پر تعجب ہو رہا ہے کہ تمہارے پاس ایک عظیم الشان نصیحت آ گئی تمہارے رب کی جانب سے ، خود تم ہی میں سے ایک شخص کے ذریعے ؟ تاکہ وہ تمہیں خبردار کرے ، (تمہارے انجام سے ) اور تاکہ تم پرہیزگار بن سکو، اور تاکہ تم پر رحم کیا جائے ،

۶۴۔۔۔      مگر انہوں نے پھر بھی اس کی تکذیب ہی کی، آخرکار ہم نے بچا لیا نوح کو بھی، اور ان سب کو بھی جو کہ آپ کے ساتھ تھے ، اس (عظیم الشان) کشتی میں ، اور غرق کر دیا ہم نے ان سب کو جو جھٹلاتے تھے ہماری آیتوں کو، کہ وہ لوگ قطعی طور پر پر اندھے بن گئے تھے ،

۶۵۔۔۔      اور عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو بھی (ہم نے رسول بنا کر بھیجا) تو اس نے بھی یہی کہا کہ اے میری قوم تم بندگی کرو اللہ کی، کہ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ، تو کیا تم لوگ ڈرتے نہیں ؟

۶۶۔۔۔      ان کی قوم کے کافر سرداروں نے کہا کہ ہم تو تمہیں نری بے عقلی میں مبتلا دیکھتے ہیں ، اور ہم یقیناً تمہیں جھوٹوں میں سے سمجھتے ہیں ،

۶۷۔۔۔      انہوں نے کہا، اے میری قوم مجھ میں بے وقوفی کی کوئی بات نہیں ، بلکہ میں تو یقینی طور پر پیغمبر ہوں اس ذات (اقدس) کی طرف سے جو پروردگار ہے سب جہانوں کی،

۶۸۔۔۔      میں تمہیں پیغامات پہنچاتا ہوں اپنے رب کے ، اور میں تمہارا قابل اعتماد خیر خواہ ہوں

۶۹۔۔۔     تو کہا تمہیں اس پر تعجب ہو رہا ہے کہ تمہارے پاس ایک عظیم الشان نصیحت آ گئی تمہارے رب کی جانب سے خود تم ہی میں سے ایک آدمی کے ذریعے ؟ تاکہ وہ تم کو خبردار کرے (تمہارے انجام سے ) اور یاد کرو کہ جب تمہارے رب نے تم کو جانشین بنایا قوم نوح کے بعد، اور اس نے تمہیں خوب پھیلاؤ دیا تمہارے ڈیل ڈول میں ، پس تم لوگ یاد کرو اللہ کی (ان عظیم الشان) نعمتوں کو، تاکہ تم فلاح پا سکو،

۷۰۔۔۔      انہوں نے کہا کیا تم ہمارے پاس اسی لئے آئے ہو کہ ہم صرف ایک اللہ کی بندگی کریں ، اور ان سب کو چھوڑ دیں جن کو پوجتے چلے آئے ہیں ، ہمارے باپ دادا؟ پس لے آؤ تم ہم پر وہ عذاب جس کی دھمکی تم ہمیں دے رہے ہو، اگر تم سچے ہو،

۷۱۔۔۔      کہا بے شک واقع ہو چکا ہے تم پر تمہارے رب کی طرف سے ایک سخت عذاب اور بڑا غضب، کیا تم لوگ مجھ سے جھگڑتے ہو ان (بے حقیقت) ناموں کے بارے میں ، جن کو گھڑا ہے خود تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے ؟ نہیں اتاری اللہ نے ان کے بارے میں کوئی سند، پس تم انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار میں ہوں ،

۷۲۔۔۔      آخرکار (عذاب آنے پر) ہم نے بچا لیا، ہود کو بھی، اور ان سب کو بھی جو ان کے ساتھ تھے ، اپنی رحمت سے ، اور جڑ کاٹ کر رکھ دی ہم نے ان سب کی جو جھٹلاتے تھے ہماری آیتوں کو، اور وہ ایمان لانے والے نہیں تھے ،

۷۳۔۔۔      اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھی (ہم نے پیغمبر بنا کر بھیجا) انہوں نے بھی یہی کہا کہ اے میری قوم، اللہ کی بندگی کرو تم سب، کہ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ، بلاشبہ آ چکی تمہارے پاس روشن دلیل تمہارے رب کی جانب سے ، یہ اللہ کی اونٹنی تمہارے لئے ایک عظیم نشانی کے طور پر (تمہارے سامنے موجود ہے ) پس تم اسے کھلا چھوڑ دو کہ یہ کھاتی (چرتی) رہے ، اللہ کی زمین میں ، اور اس کو چھونا بھی نہیں کسی برے ارا دے سے ، کہ اس کے نتیجے میں آ پکڑے تم کو ایک دردناک عذاب،

۷۴۔۔۔      اور یاد کرو جب اللہ نے تمہیں جانشین بنایا قوم عاد کے بعد، اور تمہیں زمین میں اس شان سے بسایا کہ تم اس کے ہموار میدانوں میں عالی شان حل تعمیر کرتے ہو، اور اس کے پہاڑوں کو تراش تراش کر تم مضبوط مکان بناتے ہو، پس یاد کرو تم لوگ اللہ کی نعمتوں کو، اور مت پھرو تم اس کی زمین میں فساد مچاتے ہوئے ،

۷۵۔۔۔      (مگر اس کے باوجود) آپ کی قوم کے ان سرداروں نے جو اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا تھے ، ان میں کے کمزور سمجھے جانے والے ان لوگوں سے جو کہ ایمان لا چکے تھے کہا کیا واقعی تم لوگ یقین رکھتے ہو کہ صالح کو بھیجا گیا ہے ان کے رب کی طرف سے ؟ انہوں نے جواب میں کہا کہ بے شک ہم ایمان رکھتے ہیں اس پر جس کے ساتھ ان کو بھیجا گیا ہے ،

۷۶۔۔۔      اس پر اپنی بڑائی کا گھمنڈ رکھنے والے ان لوگوں نے کہا کہ ہم تو قطعی طور پر منکر ہیں اس کے جس پر تم لوگ ایمان رکھتے ہو،

۷۷۔۔۔      پھر (اپنی اصلاح کرنے کی بجائے ) انہوں نے ہلاک کر ڈالا اس اونٹنی کو، اور سرکشی کی انہوں نے اپنے رب کے حکم سے ، اور وہ (نہایت بے باکی سے ) کہنے لگے کہ اے صالح! لے آؤ تم ہم پر وہ عذاب جس کی دھمکی تم ہمیں دے رہے ہو، اگر تم واقعی رسولوں میں سے ہو،

۷۸۔۔۔     آخرکار آ پکڑا ان لوگوں کو اس (ہولناک) زلزلے نے جس سے یہ لوگ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے

۷۹۔۔۔     پھر صالح ان سے منہ موڑ کر چلے گئے اور کہا اے میری قوم میں نے تو پہنچا دیا تھا تم کو پیغام اپنے رب کا، اور پوری خیر خواہی کی تھی تمہارے لئے ، مگر تم لوگ ہو کہ تم پسند ہی نہیں کرتے اپنے خیر خواہوں کو،

۸۰۔۔۔      اور لوط کو بھی (ہم نے بھیجا، چنانچہ یاد کرو کہ) جب انہوں نے کہا اپنی قوم سے ، کہ کیا تم لوگ ارتکاب کرتے ہو ایسی بے حیائی کہ جس کا ارتکاب تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا،

۸۱۔۔۔     تم لوگ مردوں سے شہوت رانی کرتے ہو، عورتوں کو چھوڑ کر؟ (اور یہ کسی دھوکہ یا مغالطہ سے نہیں ) بلکہ تم تو ہو ہی حد سے گزرنے والے لوگ، 

۸۲۔۔۔     اور آپ کی قوم کا جواب بھی اس کے سوا کچھ نہ تھا، کہ انہوں نے چھوٹتے ہی کہا کہ نکال باہر کرو ان کو اپنی بستی سے ، کہ بڑے پاکباز بنتے ہیں یہ لوگ،

۸۳۔۔۔      پھر (عذاب آنے پر) ہم نے بچا لیا لوط کو اور ان کے اہل کو، سوائے ان کی بیوی کے کہ وہ پیچھے رہنے والوں میں سے ہو گئی

۸۴۔۔۔     اور برسائی ہم نے ان پر ایک بڑی ہولناک بارش، پس تم دیکھو کہ کیسا ہوا انجام مجرموں کا؟

۸۵۔۔۔      اور مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا، انہوں نے بھی یہی دعوت دی کہ اے میری قوم! تم اللہ ہی کی بندگی کرو کہ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ، بلاشبہ آ چکی تمہارے پاس، ایک روشن دلیل، تمہارے رب کی جانب سے ، پس تم پورا کرو ناپ اور تول کو، اور کم کر کے نہ دو لوگوں کو ان کی چیزیں ، اور فساد مت پھیلاؤ تم لوگ (اللہ کی) زمین میں ، اس کی اصلاح کے بعد، یہی (جو کچھ میں کہہ رہا ہوں ) بہتر ہے تمہارے لئے اگر تم لوگ ایماندار ہو،

۸۶۔۔۔      اور مت بیٹھو تم لوگ راستوں پر ڈرانے کو، اور اللہ کی راہ سے روکتے ہوئے ، ان لوگوں کو جو اس پر ایمان لائے ہیں ، اور اس میں کجی تلاش کرتے ہوئے ، اور یاد کرو کہ جب تم تھوڑے سے تھے ، پھر اللہ نے تمہیں زیادہ کر دیا اور (آنکھیں کھول کر) دیکھو کہ کیسا ہوا انجام فساد کرنے والوں کا؟

۸۷۔۔۔      اور اگر تم میں سے ایک گروہ ایمان لے آیا اس (پیغام) پر جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا ہے ، اور دوسرا گروہ ایمان نہیں لایا، تو تم لوگ صبر کرو، یہاں تک کہ اللہ فیصلہ فرما دے ہمارے درمیان، کہ وہی ہے سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والا۔

۸۸۔۔۔     آپ کی قوم کے ان سرداروں نے جو کہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا تھے ، جواب میں کہا اے شعیب ہم نکال باہر کریں گے اپنی بستی سے تم کو بھی، اور ان سب کو بھی جو ایمان لے آئے تمہارے ساتھ، الآیہ کہ تم لوگ لوٹ آؤ ہمارے دین میں ، شعیب نے فرمایا اگرچہ ہم اس کو ناپسند کرتے ہوں ؟

۸۹۔۔۔     ہم نے یقیناً اللہ پر بہت بڑا جھوٹ باندھ لیا، اگر ہم (خدانخواستہ) پلٹ آئے تمہارے مذہب میں ، اس کے بعد کہ اللہ نے ہمیں اس سے نجات دے دی، اور ہمارے لئے تو اب کوئی گنجائش نہیں کہ ہم اس میں واپس آ جائیں ، الآیہ کہ اللہ چاہے ، جو کہ رب ہے ہم سب کا، گھیرے میں لیا ہوا ہے ہمارے رب نے ہر چیز کو اپنے علم کے اعتبار سے ، ہم نے بہرحال اللہ ہی پر بھروسہ کر رکھا ہے ، اے ہمارے رب! تو فیصلہ فرما دے ، ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے ساتھ، کہ تو ہی ہے سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا،

۹۰۔۔۔     اور (دوسری طرف) آپ کی قوم کے ان سرداروں نے جو کہ اڑے ہوئے تھے اپنے کفر پر (آپس میں ) کہا کہ اگر تم لوگوں نے پیروی کر لی شعیب کی، تو یقیناً تم سخت خسارے میں پڑ جاؤ گے ،

۹۱۔۔۔     آخر کار آ پکڑا ان کو اس زلزلے نے (جس کے وہ مستحق ہو گئے تھے ) جس سے وہ اوندھے پڑے رہ گئے اپنے گھروں میں ،

۹۲۔۔۔     جن لوگوں نے شعیب کو جھٹلایا تھا وہ (ایسے ہو گئے کہ) گویا کہ وہ وہاں کبھی رہے بسے ہی نہیں تھے ، جنہوں نے شعیب کو جھٹلایا تھا وہی تھے خسارے والے ،

۹۳۔۔۔     پھر شعیب ان سے منہ موڑ کر چل دیئے اور (حسرت بھرے انداز میں ) کہا کہ اے میری قوم، بے شک میں نے پہنچا دیئے تم کو پیغامات اپنے رب کے ، اور پوری طرح خیرخواہی کی تمہارے لئے ، اب میں کیسے غم کروں ایسے لوگوں پر جو اڑے رہے تھے اپنے کفر پر،

۹۴۔۔۔     اور ہم نے جس کسی بستی میں بھی کوئی پیغمبر بھیجا اس کے باشندوں کو ہم نے پکڑا سختی اور تنگی میں ، تاکہ یہ لوگ دب جائیں ،

۹۵۔۔۔     پھر ہم نے ان پر بدحالی کی جگہ خوشحالی کا دور دورہ کر دیا، یہاں تک کہ وہ خوب پھل پھول گئے ، اور کہنے لگے کہ یہ اچھے برے دن تو ہمارے باپ دادا پر بھی آتے رہے ہیں تب ہم نے ان کو ایسے اچانک پکڑا کہ ان کو اس کا کوئی شعور تک نہ تھا،

۹۶۔۔۔     اور اگر ان بستیوں والے ایمان لے آتے ، اور تقوی اختیار کرتے تو ہم ضرور ان پر دروازے کھو دیتے طرح طرح کی برکتوں کے آسمان و زمین سے ، مگر وہ تو تکذیب ہی پر کمر بستہ رہے ، آخرکار ہم نے آ پکڑا، ان کو ان کے اعمال کی بناء پر جنہیں وہ خود کماتے رہے تھے ،

۹۷۔۔۔     تو کیا بے خوف ہو گئے بستیوں والے اس بات سے کہ آ پہنچے ان پر ہمارا عذاب رات کو جب کہ یہ سوئے پڑے ہوں ،

۹۸۔۔۔     کیا ان بستیوں والے نڈر ہو گئے اس سے کہ ان پر ہمارا عذاب دن چڑھے عین اس وقت آ پہنچے ، جب کہ یہ کھیل کود میں لگے ہوں ،

۹۹۔۔۔     تو کیا یہ لوگ بے خوف گئے اللہ کی چال (اور اس کی پکڑ) سے ؟ سو اللہ کی چال (اور اس کی پکڑ) سے بے خوف نہیں ہوتے ، مگر وہی لوگ جو خسارہ اٹھانے والے ہیں ،

۱۰۰۔۔۔     تو کیا ان لوگوں کے لئے جو آج وارث بنے ہوئے ہیں اس زمین کے ، اس کے باشندوں (کی ہلاکت) کے بعد، یہ بات ظاہر نہیں ہوئی کہ اگر ہم چاہیں تو ان کو بھی دھڑکیں ، ان کے گناہوں کے سبب، اور ہم مہر لگا دیتے ہیں ایسے لوگوں کے دلوں پر، جس سے وہ سنتے ہی نہیں ،

۱۰۱۔۔۔     یہ ان بستیوں کے کچھ حالات ہیں جو ہم (عبرت اور نمونہ کے طور پر) آپ کو سنا رہے ہیں ، بلاشبہ آئے ان کے پاس ان کے رسول کھلے دلائل لے کر، پھر بھی انہوں نے ایمان لا کے نہ دیا اس پر، جس کو وہ جھٹلا چکے تھے اس سے پہلے ، اسی طرح اللہ مہر کر دیتا ہے کافروں کے دلوں پر،

۱۰۲۔۔۔     اور ہم نے ان میں سے اکثر میں عہد کا کوئی نباہ نہ پایا، اور ہم نے ان کی اکثریت کو سخت بدکار پایا،

۱۰۳۔۔۔     پھر ان (ذکر شدہ انبیاء) کے بعد ہم نے موسیٰ کو بھیجا ان اپنی نشانیوں کے ساتھ، فرعون، اور ان کے (سرکش) سرداروں کی طرف، مگر انہوں نے بھی ان کے ساتھ ظلم (و زیادتی) ہی کا ارتکاب کیا، پھر دیکھ لو کہ کیسا انجام ہوا ان مفسدوں کا،

۱۰۴۔۔۔     اور موسیٰ نے کہا اے فرعون بے شک میں پیغمبر ہوں ، اس ذات کی طرف سے جو پروردگار ہے سب جہانوں کی،

۱۰۵۔۔۔     میرا منصب ہی یہ ہے کہ میں سچ کے سوا کوئی بات اللہ کی طرف منسوب نہ کروں ، میں یقینی طور پر تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل لے کر آیا ہوں (اپنی صداقت و حقانیت کی) پس تو بھیج دے میرے ساتھ بنی اسرائیل کو،

۱۰۶۔۔۔     فرعون نے کہا کہ اگر تم کوئی نشانی لے کر آئے ہو تو لاؤ پیش کرو اس کو، اگر تم سچوں میں سے ہو،

۱۰۷۔۔۔     اس پر موسیٰ نے ڈال دیا اپنے عصا کو، تو یکایک وہ ایک کھلا ہوا اژدھا بن گیا،

۱۰۸۔۔۔     اور اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال کر نکالا تو یکایک وہ چمک رہا تھا دیکھنے والوں کے لئے ،

۱۰۹۔۔۔     فرعون کی قوم کے سرداروں نے کہا یقیناً یہ ایک بڑا جادوگر ہے ،

۱۱۰۔۔۔     جو چاہتا ہے کہ نکال باہر کرے تم لوگوں کو تمہاری سرزمین سے ، تو پھر تم لوگ کیا حکم دیتے ہو؟

۱۱۱۔۔۔     انہوں نے کہا کہ (سر دست تو) مہلت دے دو اس کو بھی، اور اس کے بھائی کو بھی اور بھیج دو شہروں میں ہرکارے ،

۱۱۲۔۔۔     جو لے آئیں آپ کے پاس ہر ماہر جادوگر کو،

۱۱۳۔۔۔     (چنانچہ ایسا ہی کیا گیا) اور آ پہنچے وہ جادوگر فرعون کے پاس، اور وہ (چھوٹتے ہی) بولے کہ کیا ہمیں کوئی اجر بھی ملے گا اگر ہم غالب آ گئے ؟

۱۱۴۔۔۔     فرعون نے جواب دیا ہاں ، اور (اس سے بڑھ کر یہ کہ) اس صورت میں تم ہمارے مقربین میں شامل ہو جاؤ گے ،

۱۱۵۔۔۔     پھر انہوں نے کہا، اے موسیٰ (بتاؤ پہلے ) تم ڈالتے ہو یا ہم ڈالیں ؟

۱۱۶۔۔۔     تو موسیٰ نے (کمال اطمینان سے ) جواب دیا کہ تم ہی ڈال لو، پھر جب انہوں نے ڈال دیا (جو کچھ کہ ان کو ڈالنا تھا) تو انہوں نے مسحور کر دیا لوگوں کی نگاہوں کو، اور خوفزدہ کر دیا ان (کے دلوں ) کو، اور (واقعتاً) وہ لوگ ایک بڑا (ہی ہولناک) جادو لائے تھے ،

۱۱۷۔۔۔     ہم نے موسیٰ کو وحی کی کہ ڈال دو تم اپنا عصا، پس اس کا ڈالنا تھا کہ اس نے نگلنا شروع کر دیا اس پورے سوانگ کو جو انہوں نے رچایا تھا،

۱۱۸۔۔۔     سو اس طرح غالب آ کر رہا حق، اور مٹ کر رہا وہ سب کچھ جو انہوں نے بنا رکھا تھا،

۱۱۹۔۔۔     سو مغلوب ہو گئے اس موقع پر وہ سب، اور لوٹے ذلیل (و خوار) ہو کر،

۱۲۰۔۔۔     اور بے ساختہ سجدے میں گر پڑے وہ (تمام ماہر) جادوگر،

۱۲۱۔۔۔     اور وہ پکار اٹھے کہ ہم ایمان لے آئے پروردگار عالم پر،

۱۲۲۔۔۔      جو کہ رب ہے موسیٰ اور ہارون کا،

۱۲۳۔۔۔     فرعون نے جھنجھلا کر) کہا کہ کیا تم لوگ اس پر ایمان لے آئے ہو، قبل اس کے کہ میں تم کو اجازت دیتا؟ یقیناً ایک بڑی سازش ہے ، جو تم سب نے مل کر پکائی ہے اس شہر کے اندر، تاکہ تم نکال باہر کرو اس سے اس کے اصل باشندوں کو، سو ابھی معلوم ہوا چاہتا ہے

۱۲۴۔۔۔      (انجام اپنے کئے کا) میں یقیناً کٹوا کر رہوں گا ہاتھ پاؤں تم سب کے مخالف جانب سے ، پھر سولی پر لٹکا دوں گا تم سب کو،

۱۲۵۔۔۔     انہوں نے (اطمینان سے ) جواب دیا کہ (پرواہ نہیں کہ) ہمیں تو بہرحال اپنے رب ہی کے پاس لوٹ کر جانا ہے ،

۱۲۶۔۔۔     اور تو ہم سے انتقام نہیں لیتا مگر اس بات کا، کہ ہم ایمان لے آئے اپنے رب کی آیتوں پر، جب کہ وہ آ پہنچیں ہمارے پاس، اے ہمارے رب! فیضان فرما دے ، ہم پر صبر (و برداشت) کا، اور ہمیں اس دنیا سے اس حال میں اٹھانا کہ ہم فرمانبردار ہوں (تیرے )،

۱۲۷۔۔۔     اور فرعون کی قوم کے سرداروں نے کہا کہ کیا آپ موسیٰ اور اس کی قوم کو یونہی چھوڑ دیں گے ؟ کہ وہ فساد مچاتے پھریں اس ملک میں ، اور چھوڑ دیں آپ کو اور آپ کے معبودوں کو؟ تو فرعون نے جواب دیا کہ ہم چن چن کر قتل کروا دیں گے ان کے بیٹوں کو، اور زندہ رکھ چھوڑیں گے ان کی عورتوں کو، اور یقیناً ہم ان پر پوری طرح قابو رکھتے ہیں ،

۱۲۸۔۔۔     موسی نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم لوگ مدد مانگو اللہ سے ، اور کام لو تم صبر (و استقامت) سے ، بے شک یہ زمین اللہ کی ہے ، وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے ، اور وہ انجام (اور آخری کامیابی) بہرحال پرہیزگاروں ہی کے لئے ہے ،

۱۲۹۔۔۔     انہوں نے (شکایت کرتے ہوئے ) کہ کہا کہ (موسی) ہمیں تمہارے آنے سے پہلے بھی ستایا جاتا رہا، اور تمہارے آنے کے بعد بھی ہمارا یہی حال ہے ، موسیٰ نے جواب میں فرمایا، امید ہے کہ تمہارا رب جلد ہی ہلاک کر دے گا، تمہارے دشمن کو، اور جانشین بنا دے گا تم لوگوں کو اس ملک کا، پھر وہ دیکھے گا کہ تم کیسے کام کرتے ہو،

۱۳۰۔۔۔     اور بلاشبہ ہم نے پکڑا فرعوں والوں کو (کئی سالوں کے ) قحط، اور پیداوار کی کمی کے ساتھ، تاکہ وہ لوگ (ہوش میں آئیں اور) سبق لیں ،

۱۳۱۔۔۔     مگر جب ان پر خوشحالی آتی تو وہ کہتے کہ یہ تو ہمارے ہی لئے بہتر ہے ، اور اگر ان کو کوئی بدحالی پیش آتی تو اس کو وہ نحوست قرار دیتے موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کی، یاد رکھو ان کی نحوست کا سبب تو اللہ ہی کے پاس ہے ، لیکن ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ،

۱۳۲۔۔۔     اور انہوں نے کہا (موسی سے ) کہ تم جو بھی کوئی نشانی لے آؤ ہمیں مسحور کرنے کے لئے تو (یاد رکھو کہ) ہم تمہاری بات ماننے والے نہیں ،

۱۳۳۔۔۔     آخر کار ہم نے بھیج دیا ان پر طوفان، اور چھوڑ دیئے ان پر ٹڈی دل اور پھیلا دیں ان پر (جوئیں اور) سرسریاں ، نکال دیئے مینڈک، اور برسا دیا ان پر خون الگ الگ (اور عبرت انگیز) نشانیوں کے طور پر پھر بھی وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں ہی پڑے رہے ، اور وہ تھے ہی مجرم لوگ

۱۳۴۔۔۔     اور جب ان پر ایسا کوئی عذاب آ پڑتا تو وہ کہتے ہیں اے موسیٰ ہمارے لئے دعا کرو اپنے رب سے اس عہد کی بناء پر جو اس نے آپ سے کر رکھا ہے (اور) اگر آپ نے ہم سے یہ عذاب دور کرا دیا تو ہم ضرور بالضرور تمہاری بات مان لیں گے ، اور بھیج دیں گے تمہارے ساتھ بنی اسرائیل کو،

۱۳۵۔۔۔     مگر جب ہم ان سے وہ عذاب دور کر لیتے ایک ایسی مدت تک جس کو انہیں پہنچنا ہوتا تو وہ (یک لخت) توڑ دیتے اپنے عہد کو

۱۳۶۔۔۔     آخر کار ہم نے ان سے انتقام لیا، اور غرق کر دیا ان کو سمندر میں ، اس بناء پر کہ انہوں نے جھٹلایا تھا ہماری آیتوں کو، اور وہ ان سے غفلت (و لاپرواہی) برت رہے تھے ،

۱۳۷۔۔۔     اور ہم نے وارث بنا دیا ان لوگوں کو جنہیں دبا کر رکھا گیا تھا، اس زمین کے مشرق و مغرب کا جس کو ہم نے مالا مال کر رکھا تھا طرح طرح کی برکتوں سے ، اور (اس طرح) پورا ہو کر رہا تمہارے رب کا وہ عمدہ وعدہ جو بنی اسرائیل کے حق میں تھا، اس بناء پر کہ انہوں نے صبر (و استقامت) سے کام لیا تھا، اور تہس نہس کر کے رکھ دیا، ہم نے اس سب کو جو بناتا تھا فرعون اور اس کی قوم، اور ملیامیٹ کر دیا ہم نے ان اونچی عمارتوں کو جو تعمیر کرتے رہے تھے وہ لوگ،

۱۳۸۔۔۔     اور ہم نے پار کیا بنی اسرائیل کو سمندر سے ، اور ان کا گزر کچھ ایسے لوگوں پر ہوا جو چمٹے بیٹھے تھے اپنے بتوں سے ، تو انہوں نے (ان کو دیکھتے ہی) کہا، اے موسیٰ ہمارے لئے بھی کوئی ایسا معبود بنا دو، جیسا کہ ان لوگوں کے معبود ہیں ، موسیٰ نے فرمایا واقعی تم لوگ بڑی جہالت میں ہو،

۱۳۹۔۔۔     بے شک تباہ و برباد ہو کر رہنے والا ہے وہ سب کچھ، جس میں یہ لوگ محو ہیں اور باطل وہ سب کچھ جو یہ کر رہے ہیں ،

۱۴۰۔۔۔     نیز فرمایا کہ میں اللہ کے سوا تمہارے لئے کوئی معبود تلاش کروں ، حالانکہ اسی وحدہٗ لاشریک نے تم کو فضیلت بخشی ہے سب جہان والوں پر،

۱۴۱۔۔۔     اور (وہ بھی یاد کرو کہ) جب ہم نے نجات دی تم کو فرعون والوں سے ، جو چکھاتے تھے تم لوگوں کو برا عذاب، تمہارے بیٹوں کو وہ لوگ چن چن کر قتل کرتے ، اور تمہاری عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتے ، اور بے شک اس میں بڑی بھاری آزمائش تھی تمہارے رب کی جانب سے ،

۱۴۲۔۔۔     اور وعدہ کیا ہم نے موسیٰ سے تیس راتوں کا، پھر ان میں ہم نے دس راتوں کا اور اضافہ کر دیا، اس طرح پوری ہو گئی اس کے رب کی مقرر کردہ مدت چالیس راتیں ، اور (چلتے وقت) موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا کہ میرے پیچھے میری جانشینی کرنا، میری قوم میں ، اور اصلاح کرتے رہنا، اور پیروی نہیں کرنا بگاڑ پیدا کرنے والوں کے راستے کی،

۱۴۳۔۔۔     اور جب آ پہنچے موسیٰ ہمارے مقرر کردہ وقت پر، اور کلام فرمایا ان سے ان کے رب نے ، تو انہوں نے التجا کی، کہ اے میرے رب! مجھے اپنا دیدار کرا دیجئے کہ میں آپ کو دیکھ سکوں ، فرمایا کہ (ان کی دنیاوی آنکھوں سے ) تم مجھے کبھی نہیں دیکھ سکتے ، لیکن (اپنی تسلی کے لئے ) تم اس پہاڑ پر نظر رکھو، اگر تو وہ (ہماری ایک جھلک پڑنے سے ) اپنی جگہ برقرار رہ گیا تو پھر تم بھی مجھے دیکھ سکو گے ، مگر جب اس کے رب نے تجلی فرمائی اس پہاڑ پر تو ریزہ ریزہ کر دیا اس کو، اور گر پڑے موسیٰ بے ہوش ہو کر، پھر جب ہوش میں آئے تو عرض کیا، پاک ہے وہ ذات، میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں ، اور میں سب سے پہلا یقین لانے والا ہوں (اے میرے رب)،

۱۴۴۔۔۔     (موسی کے رب نے ) فرمایا، اے موسیٰ بے شک میں نے چن لیا ہے تم کو، دوسرے لوگوں کے مقابلے میں ، اپنی پیغمبری اور ہم کلامی کے ذریعے ، پس تم لے لو جو کچھ کہ میں تم کو عطا کروں ، اور ہو جاؤ تم شکر کرنے والوں میں سے ،

۱۴۵۔۔۔     اور لکھ دی تھی ہم نے ان کے لئے ان تختیوں میں ہر طرح کی نصیحت، اور تفصیل ہر چیز کی، سو (کہا ان سے ) لے لو تم کو اس کو مضبوطی سے ، اور حکم کرو اپنی قوم کو کہ وہ اپنا لیں ان کو، ان کے بہترین مفہوم کے ساتھ، میں عنقریب ہی دکھا دوں گا تم لوگوں کو گھر فاسقوں کا،

۱۴۶۔۔۔     میں پھیر دوں گا، اپنی آیتوں سے ان لوگوں کو جو تکبر کرتے ہیں زمین میں ناحق طور پر، اور (ان کی ہٹ دھرمی کا عالم یہ ہے کہ) اگر یہ (حق کو واضح کرنے والی) ہر نشانی کو بھی دیکھ لیں تو بھی یہ اس پر ایمان لانے کے نہیں ، اگر یہ ہدایت کا راستہ دیکھیں تو اسے راستہ نہیں بنا دے اور اگر گمراہی کا راستہ دیکھیں تو اسے (فورا) اپنا راستہ بنا لیتے ہیں ، یہ اس لئے کہ انہوں نے جھٹلایا ہماری آیتوں کو، اور یہ ان سے غفلت (اور لاپرواہی) برتنے والے تھے ،

۱۴۷۔۔۔     اور جن لوگوں نے جھٹلایا ہماری آیتوں کو، اور آخرت کی پیشی کو، اکارت چلے گئے ان کے سب عمل، ان کو بدلہ نہیں دیا جائے گا مگر ان اپنے انہی کاموں کا جو وہ خود کرتے رہے تھے ،

۱۴۸۔۔۔     اور بنا لیا موسیٰ کی قوم نے ان کے پیچھے اپنے زیوروں سے ایک بچھڑا، یعنی ایک پتلا جس میں گائے کی سی ایک آواز تھی (اور بس) کیا انہوں نے اتنا بھی نہ دیکھا کہ وہ نہ ان سے بول سکتا ہے ، اور نہ انہیں کوئی راہ دکھا سکتا ہے ، انہوں اس کو (معبود) بنا لیا اور وہ تھے ہی ظالم لوگ

۱۴۹۔۔۔     اور جب وہ (اپنے کئے پر) پشیمان ہو گئے ، اور دیکھا کہ وہ یقیناً بھٹک چکے ہیں ، تو (ندامت سے ) کہنے لگے کہ اگر رحم نہ فرمایا ہم پر ہمارے رب نے ، اور بخشش نہ فرمائی ہماری، تو یقیناً ہم تباہ و برباد ہو جائیں گے ،

۱۵۰۔۔۔     اور جب واپس لوٹے موسیٰ اپنی قوم کی طرف غصے اور رنج میں بھرے ہوئے ، تو کہا بڑی بری ہے وہ جانشینی، جو تم لوگوں نے میرے بعد اختیار کی، کیا تم نے جلد بازی برتی اپنے رب کے حکم سے اور پھینک دیا آپ نے ان تختیوں کو، اور اپنے بھائی کا سر پکڑ کر اس کو اپنی طرف کھینچنے لگے ، انہوں نے کہا میری ماں کے بیٹے ! (ذرا میری بھی سنئے ) ان لوگوں نے مجھے دبا لیا تھا، اور قریب تھا کہ یہ مجھے قتل کر دیں ، پس آپ دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دیں اور مجھے شامل نہ کریں ظالم لوگوں کے ساتھ،

۱۵۱۔۔۔     تب موسیٰ نے کہا اے میرے رب! معاف فرما دے مجھے بھی اور میرے بھائی کو بھی، اور داخل فرما دے ہمیں اپنی رحمت میں ، اور تو ہی سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا،

۱۵۲۔۔۔     بے شک جن لوگوں نے معبود ٹھہرایا بچھڑے کو، ان کو ضرور پہنچ کر رہے گا ایک ہولناک غضب ان کے رب کی جانب سے ، اور سخت ذلت اس دنیا کی زندگی میں ، اور ہم اسی طرح بدلے دیتے ہیں افتراء کرنے والوں کو،

۱۵۳۔۔۔     اور جن لوگوں نے برائیوں کا ارتکاب کیا، پھر انہوں نے اس کے بعد توبہ کر لی، اور وہ ایمان لے آئے ، تو بے شک تمہارا رب اس کے بعد بڑا ہی بخشنے والا، نہایت ہی مہربان ہے،

۱۵۴۔۔۔     اور جب ٹھنڈا ہو گیا غصہ (حضرت) موسیٰ کا، تو انہوں نے اٹھا لیا ان تختیوں کو، اور ان کی تحریر میں نری ہدایت اور عین رحمت تھی، ان لوگوں کے لئے جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں ،

۱۵۵۔۔۔     اور چن لیا موسیٰ نے اپنی قوم کے ستر آدمیوں کو ہمارے وعدہ کے وقت پر (ہمارے حضور) لانے کو، پھر جب ان کو آ پکڑا ایک سخت زلزلے نے (ان کے ایک ایک بے ہودہ مطالبہ پر) تو موسیٰ نے عرض کیا کہ اے میرے رب! اگر آپ چاہتے تو پہلے ہی ہلاک کر دیتے ان کو بھی اور مجھے بھی، کیا آپ اس قصور پر ہم سب کو ہلاک کر دیں گے جو کہ ہم میں سے کچھ بیوقوفوں نے کیا؟ یہ تو محض آپ کی ایک آزمائش ہے جس کے ذریعے آپ جسے چاہیں گمراہ کر دیں اور جسے چاہیں ہدایت بخش دیں ، آپ ہی ہیں ہمارے لئے کارساز، پس بخشش فرما دے ہماری، اور رحم فرما دے ہم پر، اور آپ ہی (اے ہمارے رب!) سب سے بڑھ کر بخشش فرمانے والے ہیں ،

۱۵۶۔۔۔     اور لکھ دیجئے ہمارے لئے بھلائی اس دنیا میں بھی، اور آخرت میں بھی، بے شک ہم نے رجوع کر لیا آپ کی طرف، ارشاد فرمایا کہ اپنا عذاب تو میں جسے چاہتا ہوں دیتا ہوں ، مگر میری رحمت چھائی ہوئی ہے ہر چیز پر، سو میں اس کو لکھ دوں گا (اس کے درجہ کمال میں میں ) ان لوگوں کے لئے جو ڈرتے ہیں ، اور وہ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں ، اور جو (صدق دل سے ) میری آیتوں پر ایمان (ویقین) رکھتے ہیں ،

۱۵۷۔۔۔     وہ جو پیروی کریں گے اس رسول کی جو نبی امی (ہونے کی شان رکھتے ) ہیں ، جن کو یہ لوگ لکھا ہوا پاتے ہیں اپنے یہاں تورات اور انجیل میں (ان کی خصوصیات و امتیازات کے ساتھ)، جو ان کو حکم دے گا نیکی کا، اور روکے گا ان کو برائی سے ، اور حلال بتلائے گا وہ ان کے لئے پاکیزہ چیزوں کو، اور حرام بتلائے گا ان پر ناپاک چیزوں کو، اور وہ اتار دے گا ان (کی گردنوں ) سے ان کے وہ بوجھ جو (لدے ہوئے ) تھے ان پر، اور (وہ دور کر دے گا ان سے ) وہ طوق (جن میں جکڑے ہوئے تھے ) یہ لوگ اس سے پہلے ، پس لوگ جو (صدق دل سے ) ایمان لائیں گے اس (نبیء امی) پر اور وہ تعظیم و مدد کریں گے اس کی، اور پیروی کریں گے ان نور (مبین) کی جو اتارا گیا ہو گا ان کے ساتھ، تو ایسے ہی لوگ ہوں گے فلاح پانے والے

۱۵۸۔۔۔     کہو، اے (دنیا جہاں کے ) لوگو! بے شک میں رسول ہوں ، اس اللہ کا تم سب کی طرف جس کے لئے بادشاہی ہے آسمانوں اور زمین (کی اس ساری کائنات) کی، کوئی معبود نہیں سوائے اس کے ، وہی زندگی بخشتا اور موت دیتا ہے ، پس تم لوگ ایمان لے آؤ اللہ پر، اور اس کے بھیجے ہوئے اس نبی امی پر، جو ایمان رکھتا ہے اللہ پر اور اس کی باتوں پر اور تم لوگ پیروی کرو اس کی تاکہ تم سرفراز ہو سکو راہ راست سے

۱۵۹۔۔۔      اور موسیٰ کی قوم میں ایک گروہ ایسا بھی تھا جو حق کے مطابق ہدایت کرتا، اور اسی کے مطابق وہ لوگ انصاف کرتے تھے

۱۶۰۔۔۔     اور ہم نے ان کو بارہ خاندانوں میں بانٹ کر مستقل گروہوں کی شکل دے دی تھی، اور حکم بھیجا ہم نے موسیٰ کی طرف جب کہ پانی مانگا ان سے ان کی قوم نے کہ اپنی لاٹھی مارو فلاں پتھر پر، پس (لاٹھی کا مارنا تھا کہ) پھوٹ نکلے اس سے بارہ چشمے ، (اور اس طور پر) کہ اچھی طرح پہچان لیا ان میں کے ہر گروہ نے اپنے گھاٹ کو، اور ہم نے ان پر سایہ کر دیا بادل کا، اور اتار دیا ان پر ہم نے (اپنے خزانہ غیب سے ) من وسلوی، (اور ان سے کہا) کہ تم لوگ کھاؤ ان پاکیزہ چیزوں میں سے جو ہم نے بخشی ہیں تم کو، اور انہوں نے (اپنے کرتوتوں سے ) ہمارا کچھ نہیں بگاڑا، بلکہ وہ اپنی ہی جانوں پر ظلم کرتے رہے تھے

۱۶۱۔۔۔     اور جب ان سے کہا گیا کہ تم لوگ جا کر رہو اس بستی میں ، اور وہاں پر جہاں سے تم چاہو کھاؤ (اور پیو) اور (زبان سے ) یہ کہتے جانا کہ ہماری توبہ، اور شہر کے دروازے سے داخل ہونا (عاجزی کے ساتھ) جھکے جھکے ، ہم بخش دیں گے تمہاری خطاؤں کو، اور مزید فضل سے نوازیں گے ہم نیکوکاروں کو،

۱۶۲۔۔۔     مگر بدل دیا ان میں کے ظالم لوگوں نے (اس کو) ایک اور ہی بات سے ، اس کے سوا جو ان سے کہی گئی تھی، جس کے نتیجے میں ہم نے بھیج دیا ان پر ایک ہولناک عذاب آسمان سے ، اس بناء پر کہ وہ ظلم کرتے تھے ،

۱۶۳۔۔۔     اور پوچھو ذرا ان سے ، اس بستی کے بارہ میں جو کہ واقع تھی سمندر کے کنارے پر، جب کہ حد سے بڑھ رہے تھے اس کے باشندے ہفتہ کے دن کے معاملے میں ، جب کہ (ان کی آزمائش کے لئے ) ان کی مچھلیاں ہفتے کے دن تو ابھر ابھر کر ان کے سامنے آتی تھیں ، مگر جب ہفتے کا دن نہیں ہوتا تو وہ ان کے سامنے نہ آتیں ، اسی طرح ہم آزمائش میں ڈالتے رہے ان کو، ان کی نافرمانیوں کی بناء پر، جن کا ارتکاب وہ لوگ کرتے رہے تھے

۱۶۴۔۔۔     اور وہ بھی یاد کرنے کے لائق ہے کہ) جب ان میں سے ایک گروہ نے (دوسرے سے ) کہا کہ تم کیوں نصیحت کرتے ہو ایک ایسی (ناہنجار) قوم کو، جس کو اللہ نے ہلاک کرنا ہے ، یا اس کو مبتلا کرنا ہے کسی سخت عذاب میں ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ تمہارے رب کے حضور معذرت پیش کرنے کے لئے ، اور اس امید پر کہ شاید یہ لوگ بچ جائیں ،

۱۶۵۔۔۔     مگر جب انہوں نے بالکل فراموش کر دیا ان نصیحتوں کو جو انہی کی گئی تھیں ، تو ہم نے بچا لیا ان لوگوں کو جو روکتے تھے برائی سے ، اور پکڑ لیا ان کو جو اڑے ہوئے تھے اپنے ظلم پر، ایک بڑے ہی سخت عذاب میں ان کی نافرمانیوں کی پاداش میں جن کا ارتکاب وہ کرتے چلے آ رہے تھے

۱۶۶۔۔۔     سو جب وہ اپنی سرکشی سے ان کاموں میں بڑھتے ہی چلے گئے جن سے ان کو روکا گیا تھا تو ہم نے ان سے کہا کہ ہو جاؤ تم بندر ذلیل،

۱۶۷۔۔۔     اور (وہ بھی یاد کرنے کے لائق ہے کہ) جب اعلان فرما دیا تمہارے رب نے کہ وہ ضرور بالضرور مسلط رکھے گا، ان پر قیامت تک کسی نہ کسی ایسے شخص کو جو چکھاتا رہے گا ان کو برا عذاب، بے شک تمہارا رب عذاب دینے میں بھی بڑا ہی تیز دست ہے ، اور بلاشبہ وہ بڑا ہی بخشنے والا نہایت مہربان بھی ہے ،

۱۶۸۔۔۔     اور ہم نے ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے زمین میں پھیلا دیا مختلف گروہوں کی شکل میں ، ان میں سے کچھ نیک تھے اور کچھ اور طرح کے ، اور ہم نے ان کو آزمایا اچھے حالات سے بھی، اور برے حالات سے بھی، تاکہ یہ باز آ جائیں ،

۱۶۹۔۔۔     پھر ان کی اگلی نسلوں کے بعد ایسے نا خلف ان کے جانشین ہوئے جو وارث بن گئے کتاب الہی کے ، وہ (احکام کتاب کے عوض) اسی دنیائے دوں کا مال سمیٹنے لگے ، اور کہتے کہ ہماری تو ضرور بخشش کر دی جائے گی، اور اگر ان کے پاس اس طرح کا کوئی مال (ایسی دین فروشی کے عوض پھر) آ جاتا تو اس کو بھی یہ لوگ (پوری ڈھٹائی اور بے باکی سے لے کر) لے لیتے ، کیا ان لوگوں سے کتاب کے اس مضمون کا پختہ عہد نہیں لیا گیا کہ یہ لوگ اللہ کے نام پر کوئی بات نہیں کہیں گے مگر وہی جو کہ حق ہو، اور انہوں نے اس سب کو پڑھ بھی لیا، جو کہ اس میں لکھا ہے ، اور آخرت کا گھر تو یقیناً کہیں بہتر ہے ان لوگوں کے لئے جو ڈرتے رہتے ہیں ، کیا تم لوگ پھر بھی عقل سے کام نہیں لیتے ؟

۱۷۰۔۔۔     اور (ان میں سے ) جو لوگ مضبوطی سے تھامتے ہیں کتاب کو اور انہوں نے قائم رکھا نماز کو، (تو وہ فائز المرام ہو گئے کہ) بے شک ہم ضائع نہیں کرتے اجر ایسے اصلاح کرنے والوں کا،

۱۷۱۔۔۔     اور (وہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ) جب ہم نے اٹھا لیا ان پر پہاڑ کو، گویا کہ وہ ایک سائبان ہے ، اور ان کو یقین ہو گیا تھا کہ وہ آ پڑنے والا ہے ان پر، (تو ہم نے ان سے کہا کہ) مضبوطی سے لے لو تم لوگ اس کتاب کو جو ہم نے تمہیں دی ہے اور یاد کرو اس کو جو کچھ کہ اس کے اندر ہے ، تاکہ تم بچ سکو

۱۷۲۔۔۔     اور (وہ بھی یاد کراؤ ان لوگوں کو اے پیغمبر! کہ) جب نکالا تمہارے رب نے (اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے ) بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو، اور ان کو خود اپنے اوپر گواہ بنا کر (ان سے پوچھا) کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ تو سب نے جواب دیا کہ (ہاں ) کیوں نہیں ، ہم سب گواہی دیتے ہیں ، ( اور ہم نے اس لئے کیا کہ) کہیں تم لوگ کل قیامت کے روز یوں (نہ) کہنے لگو کہ ہم تو اس سے بالکل بے خبر تھے ،

۱۷۳۔۔۔     یا تم یوں کہنے لگو کہ شرک (کے آغاز) کا ارتکاب تو ہمارے باپ داد نے ہم سے پہلے کیا تھا، اور ہم بعد میں ان کی نسل سے پیدا ہوئے ، تو کیا آپ ہمیں اس قصور پر ہلاکت میں ڈال دیں گے جو (ہم سے پہلے کے ) ان باطل پرستوں نے کیا تھا؟

۱۷۴۔۔۔     اور اسی طرح کھول کھول کر بیان کرتے ہیں ہم اپنی آیتوں کو (تاکہ یہ لوگ کسی طرح سمجھ جائیں ) اور تاکہ یہ باز آ جائیں ،

۱۷۵۔۔۔     اور ان کے سامنے بیان کرو حال اس شخص کا جس کو نوازا تھا ہم نے اپنی آیتوں (کے علم) سے ، مگر وہ نکل بھاگا ان (کی پابندی) سے ، پھر پیچھے لگ گیا اس کے شیطان، جس سے وہ ہو گیا گمراہوں میں سے ،

۱۷۶۔۔۔     اور اگر ہم چاہتے تو اس کو بلند مرتبہ سے نواز دیتے اپنی ان آیتوں کے ذریعے ، مگر وہ خود ہی جھک گیا زمین کی طرف، اور پیچھے چل پڑا اپنی خواہشوں کے ، جس سے اس کی حالت کتے کی سی ہو گئی کہ اگر تم اس پر حملہ کرو تو وہ بھی ہانپے اور اگر اسے چھوڑ دو تو بھی وہ ہانپے ، یہی مثال ہے ان لوگوں کی جو جھٹلاتے ہیں ہماری آیتوں کو، سو سناتے رہو تم (ان کو) ایسے احوال تاکہ یہ لوگ (عبرت پکڑیں ، اور) غور و فکر سے کام لیں ،

۱۷۷۔۔۔     بڑی ہی بری ہے مثال ان لوگوں کی جنہوں نے جھٹلایا ہماری آیتوں کو، اور (اس طرح حقیقت میں ) وہ خود اپنی ہی جانوں پر ظلم کرتے رہے تھے ،

۱۷۸۔۔۔     جسے اللہ ہدایت کی توفیق بخشے وہی راہ پا سکتا ہے اور جسے وہ ڈال دے گمراہی کے گڑھے میں تو ایسے لوگ ہیں (حقیقی اور ابدی) خسارے والے )

۱۷۹۔۔۔     اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے بہت سے جنوں اور انسانوں کو جہنم ہی کے لئے پیدا کیا ہے ، ان کے دل تو ہیں پر وہ ان سے سوچتے نہیں ، اور ان کے پاس آنکھیں بھی ہیں ، مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں ، اور ان کے پاس کان بھی ہیں ، مگر وہ ان سے سنتے نہیں ، ایسے لوگ جانوروں جیسے بلکہ ان سے بھی کہیں بڑھ گمراہ ہیں ، اور یہی لوگ ہیں غافل (و بے خبر اپنے انجام سے )

۱۸۰۔۔۔     اور اللہ ہی کے لیے سب سے اچھے نام، پس تم لوگ اس کو پکارو اس کے انہی ناموں کے ذریعے ، اور چھوڑ دو تم ان لوگوں کو جو کج روی برتتے ہیں اس کے ناموں میں ، وہ عنقریب ہی (بھرپور) بدلہ پا کر رہیں گے اپنے ان کاموں کا جو وہ کرتے رہے تھے ،

۱۸۱۔۔۔     اور ہماری مخلوق میں سے ایک جماعت ایسے لوگوں کی بھی ہے جو راہنمائی کرتے ہیں (لوگوں کی) حق کے ساتھ، اور اسی کے مطابق وہ انصاف کرتے ہیں ،

۱۸۲۔۔۔     اور وہ جن لوگوں نے جھٹلایا ہماری آیتوں کو، ہم ان کو آہستہ آہستہ ایسے طریقے سے پکڑے جا رہے ہیں کہ انہیں خبر بھی نہیں ہوتی،

۱۸۳۔۔۔     اور میں انہیں ڈھیل دیئے جا رہا ہوں ، بے شک میری تدبیر بڑی ہی مضبوط ہے ،

۱۸۴۔۔۔     کیا ان لوگوں نے کبھی غور نہیں کیا کہ ان کے ساتھی میں جنون کی آخر کون سی بات ہے ؟ وہ تو محض ایک خبردار کرنے والا ہے کھول کر،

۱۸۵۔۔۔     کیا انہوں نے کبھی غور نہیں کیا آسمانوں اور زمین کے (اس حکمتوں بھرے ) نظام میں ؟ اور (کیا انہوں نے کبھی آنکھیں کھول کر دیکھا نہیں ) اللہ کی پیدا کردہ کسی چیز کو؟ اور کیا انہوں نے کبھی یہ بھی نہیں سوچا کہ کہیں قریب آ لگی ہو ان کی اجل؟ پھر آخر کس بات پر ایمان لائیں گے یہ لوگ اس (کلام معجز نظام) کے بعد؟

۱۸۶۔۔۔     (پس اصل بات یہی ہے کہ) جس کو اللہ ڈال دے گمراہی (کے گڑھے ) میں اس کو کوئی راہ پر نہیں لا سکتا، اور اللہ چھوٹ دے رہا ہے ان کو، یہ اپنی سرکشی میں پڑے بھٹک رہے ہیں،

۱۸۷۔۔۔     پوچھتے ہیں آپ سے (قیامت کی) اس (ہولناک) گھڑی کے بارے میں کہ آخر کب آئے گی وہ؟ (ان سے ) کہو کہ اس کا علم تو میرے رب ہی کے پاس ہے ، اس کو اپنے وقت پر کوئی ظاہر نہیں کرے گا مگر وہی، وہ بڑی ہی بھاری بات ہے آسمانوں اور زمین میں ، وہ تم پر بالکل اچانک آن پڑے گی، آپ سے اس طرح پوچھتے ہیں جیسا کہ آپ اس کا کھوج لگا چکے ہوں (ان سے ) کہو کہ اس کا علم تو اللہ ہی کے پاس ہے ، لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں (حق اور حقیقت کو)

۱۸۸۔۔۔     کہو کہ میں تو خود اپنی ذات کے لئے بھی اختیار نہیں رکھتا نہ کسی نفع (کو حاصل کرنے ) کا، اور نہ کسی نقصان (کو ٹالنے ) کا، مگر جو اللہ چاہے ، اور اگر میں غیب جانتا ہوتا تو میں اپنے لئے بہت کچھ بھلائیاں جمع کر لیتا، اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی، میرا کام تو بس خبردار کر دینا ہے (لوگوں کو ان کے انجام سے ) اور خوشخبری سنانا ہے ایسے لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں ،

۱۸۹۔۔۔     وہ (اللہ) تو وہی ہے جس نے پیدا فرمایا تم سب کو ایک ہی جان سے ، اور پھر اسی سے اس نے اس کا جوڑا بنایا تاکہ سکون حاصل کرے اس کے پاس، پھر (آگے چل کر ان کی اولاد میں بعض کی حالت یہ ہوئی کہ) جب مرد نے عورت سے ہمبستری کی، تو اس کو ہلکا سا حمل ہو گیا، جسے وہ لئے پھرتی رہی، پھر جب وہ بوجھل ہو گئی تو ان دونوں (میاں بیوی) نے مل کر دعا کی اللہ سے جو کہ رب ہے ان دونوں کا، کہ (اے ہمارے مالک) اگر تو نے ہمیں اچھا سا بچہ دے دیا تو ہم تیرے بڑے ہی شکر گزار ہوں گے ،

۱۹۰۔۔۔     مگر جب اللہ نے ان کو صحیح سالم بچہ دے دیا تو انہوں نے اس کے شریک بنا دیئے اس (نعمت) میں جو اسی نے ان کو بخشی تھی، سو بالا و برتر ہے اللہ اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں ،

۱۹۱۔۔۔     تو کیا یہ ایسوں کو اس کا شریک ٹھہراتے ہیں جو کچھ بھی پیدا نہیں کر سکتے ، اور وہ خود پیدا کئے جاتے ہیں ؟

۱۹۲۔۔۔     اور وہ نہ ان کی کسی قسم کی کوئی مدد کر سکتے ہیں اور نہ وہ خود اپنی ہی کوئی مدد کر سکتے ہیں ،

۱۹۳۔۔۔     اور اگر تم انہیں سیدھی راہ کی طرف بلاؤ تو وہ تمہارے کہنے پر نہ چلیں ، برابر ہے تمہارے حق میں کہ خواہ تم انہیں پکارو یا تم خاموش ہو (وہ بہرحال سننے ماننے کے نہیں )

۱۹۴۔۔۔     بے شک جن کو تم لوگ پکارتے ہو اللہ کے سوا، وہ بندے ہیں تم ہی جیسے ، پس تم لوگ انہیں پکار کر دیکھو، پھر ان کو چاہیے کہ وہ قبول کریں تمہاری (دعا) و پکار کو، اگر تم لوگ سچے ہو (اپنے دعووں میں )

۱۹۵۔۔۔     کیا ان کے کوئی پاؤں ہیں جن سے وہ چلیں ، یا ان کے کوئی ہاتھ ہیں جن سے وہ پکڑیں ، یا ان کی کوئی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھیں ، یا ان کے کوئی کان ہیں جن سے وہ سنیں ، (ان سے ) کہو کہ اچھا تم بلا لو اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو، پھر تم سب مل کر چلاؤ میرے خلاف اپنی چا لیں ، اور مجھے مت دو کوئی مہلت،

۱۹۶۔۔۔     بے شک میرا کارساز (و مددگار) وہ اللہ ہے جس نے (اپنے کرم سے مجھ پر) نازل فرمائی یہ (مبارک و مسعود) کتاب، اور وہی مدد (و کارسازی) فرماتا ہے اپنے نیک بندوں کی،

۱۹۷۔۔۔     اس کے برعکس جن کو تم لوگ (پوجتے ) پکارتے ہو، اس (وحدہٗ لا شریک) کے سوا، وہ نہ تمہاری کسی طرح کی کوئی مدد کر سکتے ہیں اور نہ ہی خود اپنی ہی کوئی مدد کر سکتے ہیں

۱۹۸۔۔۔     اور (ان کا حال یہ ہے کہ) اگر تم ان کو بلاؤ سیدھی راہ کی طرف تو یہ نہیں سنتے ، اور تم ان کو دیکھو گے تو تمہیں یوں ملے گا جیسے وہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہوں ، حالانکہ وہ کچھ بھی نہیں دیکھ سکتے ،

۱۹۹۔۔۔     عفو (و درگزر) ہی کو اپنائے رکھو، آپ (اے پیغمبر!) نیکی کی تلقین کرتے رہو، اور کنارہ کش رہو جاہلوں (کے الجھاؤ) سے ،

۲۰۰۔۔۔     اور اگر کبھی پہنچے شیطان کی طرف سے کوئی اکساہٹ تو (فورا) پناہ مانگا کرو اللہ کی، بے شک وہ بڑا ہی سننے والا، خوب جاننے والا ہے ،

۲۰۱۔۔۔     بے شک جو لوگ ڈرتے (اور بچتے ) رہتے ہیں اپنے رب کی نافرمانی سے ) جب ان کو چھو جاتا ہے کوئی خیال شیطان کی طرف سے تو وہ فورا چونک جاتے ہیں ، پھر یکایک کھل جاتی ہیں ان کی آنکھیں ،

۲۰۲۔۔۔     رہ گئے شیطانوں کے بھائی بند، تو ان کو یہ کھینچے چلے جاتے ہیں ان کی گمراہی میں ، اور وہ اس میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے ،

۲۰۳۔۔۔     اور جب آپ ان کے پاس نہیں لاتے کوئی نشانی، تو یہ کہتے ہیں کہ کیوں نہیں چھانٹ لیا آپ نے اس کو، (ان سے ) کہو کہ میرا کام تو بس پیروی کرنا ہے اس وحی کی جو بھیجی جاتی ہے میری طرف میرے رب کی جانب سے ، یہ (قرآن بجائے خود ) مجموعہ ہے ، آنکھیں کھولنے والی نشانیوں کا تمہارے رب کی طرف سے ، اور سراسر ہدایت اور عین رحمت، ان لوگوں کے لئے جو ایمان رکھتے ہیں ،

۲۰۴۔۔۔     اور جب قرآن پڑھا جائے تو تم کان لگا کر سنا کرو، اور خاموش رہا کرو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے ،

۲۰۵۔۔۔     اور یاد کرتے رہا کرو اپنے رب کو اپنے دل میں عاجزی کے ساتھ، اور ڈرتے ہوئے ، آواز بلند کئے بغیر، صبح و شام (یعنی ہمیشہ) اور نہ ہو جانا تم غافل لوگوں میں سے ، (کہ غفلت جڑ بنیاد ہے خسارے کے)

۲۰۶۔۔۔     بے شک جو تمہارے رب کے پاس (ہیں اور وہ اس کے حضور شرف قرب رکھے ) ہیں وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا ہو کر اس کی عبادت سے منہ موڑتے اور وہ اسی کی تسبیح کرتے اور اسی کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں ،

تفسیر

 

۲.      سو اس ارشاد سے اس کتاب حکیم کے بارے میں پیغمبر کی ذمہ داری کی حد کو واضح فرما دیا گیا۔ کہ آپ کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ آپ اس کے ذریعے لوگوں کو ان کے انجام سے آگاہ اور خبردار کر دیں اور بس آگے یہ لوگ مانتے ہیں یا نہیں مانتے اس کی ذمہ داری آپ پر نہیں آپ کا کام اور آپ کی اصل ذمہ داری انذار و تبلیغ ہے اور بس۔ وَذِکْریٰ لِلْمُؤْمِنِیْنَ کا عطف معنی لِتُنْذِرَ ہی پر ہے۔ لیکن اس کو فعل کے بجائے اسم کی شکل میں لانے میں اس امر واقعہ کا اظہار مقصود ہے کہ جہاں تک انذار کا تعلق ہے وہ تو آپ سب کو کر دیں، لیکن اس سے تذکیر و یاد دہانی کا فائدہ اہل ایمان ہی اٹھائیں گے، جیسا کہ دوسرے مختلف مقامات پر اس بات کو طرح طرح سے بیان فرمایا گیا ہے۔

۳.      سو اس ارشاد سے اس کتاب حکیم کے اصل اور مرکزی مضمون کی توضیح فرمائی گئی ہے۔ کہ تم لوگ پیروی کرو اس وحی کی جو تمہاری طرف اتاری گئی ہے تمہارے رب کی جانب سے کہ اسی میں تمہارا بھلا اور فائدہ ہے دنیا کی اس عارضی زندگی میں بھی اور آخرت کے اس حقیقی اور اَبَدی جہاں میں بھی جو کہ اس دنیا کے بعد آنے والا ہے۔ اور رب کی وحی اور اس کا کلام و ارشاد ہی ایسی چیز ہے جس میں کسی خطاء و تقصیر کا کوئی خدشہ و اندیشہ اور کوئی تصور و امکان نہیں اور جو ہر پہلو اور ہر اعتبار سے بندوں کے لئے خیر ہی خیر اور ذریعہ فلاح و نجات ہے اور بس، اس لئے اس کو چھوڑ کر دوسرے دوستوں اور سرپرستوں کی پیروی کرنا باعث خسارہ و نقصان ہے۔ مگر افسوس کہ تم لوگ کم ہی دھیان کرتے اور نصیحت کو مانتے ہو۔ والعیاذُ باللہ العظیم۔

۵.      سو اس سے درس عبرت لینے کے لئے تاریخ کا حوالہ دیا گیا ہے کہ اس سے پہلے کتنی ہی بستیاں ایسی ہوئی ہیں جو اپنے عیش و عشرت میں مگن اور اپنے ظلم وعدوں پر اڑی ہوئی تھیں، قدرت کے قانون امہال کے مطابق ان کو جتنی مہلت ملنا تھی وہ ملی، مگر آخرکار ان کو عذاب خداوندی نے آ پکڑا، اور ایسے طور پر کہ ان کو اس کا وہم و گمان بھی نہ تھا، سو اس وقت ان کی سب اکڑ فوں نکل گئی۔ ان کا کبر و غرور سب کا سب ہرن ہو گیا، اور اس وقت ان کی چیخ و پکار اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ واقعی ہم لوگ ظالم تھے، مگر بے وقت کے اس اس اقرار و اعتراف کا ان کو کوئی فائدہ بہرحال نہ ہوا۔ اور ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نیست و نابود کر دیا گیا۔ اور قصہ پارینہ، اور داستان عبرت بن کر رہ گئے۔ اور یہی نتیجہ انجام ہوتا ہے منکرین حق کا۔ والعیاذ باللہ سو اس میں سرکشوں کے لئے بڑا سامان عبرت و بصیرت ہے۔ کہ تاکہ وہ اپنی سرکشی کی رَوَش سے باز آ جائیں۔

۸.      یعنی وزن ضرور ہو گا۔ تاکہ اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں، اور بدرجہ تمام و کمال پورے ہو سکیں، اور ہر کسی کو اس کے کئے کرائے کا بھرپور صلہ و بدلہ ملے۔ سو یہ اس جملے کا ایک اور ظاہر و متبادر مفہوم و مطلب ہے، جبکہ دوسرا مطلب اس کا یہ بھی ہے کہ اس روز وزن حق ہی کا ہو گا یعنی باطل کا سرے سے کوئی وزن ہو گا ہی نہیں۔ اور باطل پرستوں نے اپنے طور پر اور اپنے ظن و گمان کے مطابق جو کچھ کیا کرایا ہو گا وہ سب اکارت اور ہَبَاءً مَّنْثُوْرَا ہو کر رہ جائے گا۔ اس لئے باطل پرستوں کے لئے اس روز کوئی حساب قائم ہی نہیں ہو گا، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا فَحَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فَلَا نُقِیْمُ لَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَزْنًا (الکہف۔۱٠۵) یعنی اکارت چلے گئے ان لوگوں کے سب اعمال پس ہم قیامت کے روز ان کے لئے کوئی وزن قائم کریں گے ہی نہیں۔ والعیاذُ باللہ العظیم

۹.      یعنی حق سے منہ موڑ کر۔ اور اس سے اعراض و انکار کر کے سو پیغام حق و ہدایت سے اعراض و روگردانی سراسر ظلم ہے سو یہ ظلم ہے اللہ کے حق میں جو کہ سب کا خالق و مالک ہے کہ یہ ظلم ہے اس کے حق عبودیت و بندگی میں اور یہ ظلم ہے رسول کے حق میں ان کے حق اطاعت واتباع سے موڑ کر نیز یہ ظلم ہے انسان کی خود اپنی ذات کے حق میں کہ انکار حق کے نتیجے میں اس کو دارین کی سعادت و سرخروئی سے محروم کر کے دائمی ہلاکت و تباہی کے گڑھے میں ڈالا۔ پس حق کا انکار اور اس سے اعراض و روگردانی ہر اعتبار سے ظلم اور ہر خیر سے محرومی ہے۔ والعیاذُ باللہ العظیم من کل شائیۃ من شوائب الظلم والاعراض والانکار۔

۱۰.    سو تمہارے لئے ہم نے طرح طرح کے اور اَنْ گنت و بے حساب یہ سامانہائے زیست اپنی قدرت کاملہ اور رحمت شاملہ سے پیدا فرمائے ہیں اور تمہاری طرف سے کسی طرح کی اپیل و درخواست کے بغیر محض اپنے تقاضائے کرم کی بناء پر پیدا فرمائے ہیں اور پھر ان کو ہم نے نہایت ہی حکمت اور عنایت سے اس کائنات میں پھیلا اور بکھیر دیا۔ تاکہ ہر ملک و مقام پر رہنے والے ان سے مستفید و فیضیاب ہو سکیں۔ اور ان سے تم لوگ زندگی کے ہر موڑ پر اور طرح طرح سے اور مسلسل و لگاتار، اور بلا توقف و انقطاع مستفید و فیضیاب ہوتے ہو سو یہ سب کچھ اس قدر حکمت و رحمت کے ساتھ تمہارے لئے پیدا کیا تاکہ تم اس کی قدر پہچانو، اور اپنے خالق و مالک کا شکر بجا لاؤ، جو کہ عقل و نقل کا تقاضا بھی ہے اور اس میں خود تمہارا ہی بھلا اور فائدہ بھی ہے مگر تم لوگ کم ہی شکر بجا لاتے ہو۔

۱۳.    سو اس سے ایک تو اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ جنت میں منکروں اور متکبروں کی کوئی جگہ نہیں وہ کبھی اس میں داخل نہیں ہو سکیں گے، جیسا کہ آگے اسی سورہ کریمہ کی آیت نمبر۴٠ میں اس کی صاف طور پر تصریح فرمائی گئی ہے چنانچہ وہاں پر ارشاد فرمایا گیا کہ بیشک جن لوگوں نے ہماری آیتوں کی تکذیب کی۔ اور انہوں نے ہی بڑائی کے گھمنڈ میں ان سے روگردانی برتی، ان کے لئے نہ تو آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے، اور نہ ہی وہ کبھی جنت میں داخل ہو سکیں گے۔ یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے کے اندر داخل ہو جائے اور بعینہٖ یہی بات حضرت عیسیٰ نے اس طرح ارشاد فرمائی کہ جس طرح اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل نہیں ہو سکتا اسی طرح دولتمند بہشت میں داخل نہیں ہو سکتا۔ ان دونوں تعبیروں میں فرق اگر ہے تو اس بات کا ہے کہ قرآن حکیم میں تو اصل جرم یعنی استکبار کا ذکر فرمایا گیا ہے، اور حضرت مسیح کی اس تمثیل میں اس جرم استکبار کی علت یعنی دولت کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ کہ یہی چیز ہے جو بالعموم استکبار کا سبب اور اس کا باعث بن جاتی ہے، والعیاذُ باللہ۔ اور دوسری حقیقت اس ارشاد سے یہ واضح فرمائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم و ارشاد سے سرتابی باعث ذلت و رسوائی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے حکم و ارشاد کے آگے جھکنا اور سر تسلیم خم کر دینا ہی اس کے بندوں کے لئے باعث عزت و عظمت ہے، اور تیسری یہ کہ متکبرین شیطان کے ساتھی ہوں گے، جو کہ حق سے اعراض و انکار کا طبعی انجام اور منطقی نتیجہ ہے، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضُ لَہ، شَیْطَانًا فَہُوَلَہ قَرِیْنٌ، والعیاذُ باللہ العظیم، اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہرحال میں اور ہر اعتبار سے اپنا ہی بنائے رکھے اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے ہمیشہ اپنی حفاظت وپناہ میں رکھے، آمین ثم آمین، یا رب العالمین

۱۸.    سو شیطان کو اللہ تعالیٰ نے مہلت تو دیدی جو اس نے اس سے مانگی تھی، مگر ساتھ ہی اس کو یہ حکم بھی دے دیا کہ تو ذلیل و خوار ہو کر جنت سے نکل جا کہ متمردوں اور سرکشوں کے لئے اس میں کوئی جگہ نہیں اور اس کے علاوہ اس کو اس کے خود اپنے اور اس کے ان پیروکاروں کے انجام سے بھی آگاہ کر دیا جو انسانوں اور جنوں میں سے اس کے پیچھے چلیں گے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ میں تیرے سمیت ان سب کو جہنم میں بھر دوں گا۔ اور آیت کریمہ کے الفاظ میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان نے جس زور سے انسانوں کو گمراہ کرنے کے عزم کا اعلان و اظہار کیا تھا، اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں اپنی پوری شان بے نیازی اور اپنے جبروت کا اظہار فرمایا۔ جس سے واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ دو ٹوک ہے۔ اس میں کسی رو رعایت یا تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں، سبحانہ و تعالیٰ۔

۱۹.    کہ اپنے خالق و مالک کے حکم کو توڑنا اور اس کی خلاف ورزی کرنا ظلم ہے جس کی سزا لازمی ہے سو اگر تم نے ایسا کر لیا تو تم جنت سے محروم ہو جاؤ گے پس یہ حضرت آدم کے لئے ایک آزمائش تھی۔ اس لئے شیطان نے یہیں سے آدم پر حملہ کرنے کی راہ نکال لی۔ اور اس نے طرح طرح سے ان کو ورغلانے پھسلانے کی کوشش کی اور اللہ کی قسمیں کھا کھا کر ان کو اپنے خیر خواہ ہونے کا یقین دلایا کیونکہ حضرت آدم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ کوئی اللہ تعالیٰ کے نام پاک کی قسمیں کھا کر بھی جھوٹ بول سکتا ہے اور کسی کو دھوکہ دے سکتا ہے سو اس طرح وہ لعین حضرت آدم کو دھوکہ دینے اور ان کو پھسلانے میں کامیاب ہو گیا اور اسی درخت کی بناء پر اس نے آدم و حوا کو پھسلا دیا۔ اور ان کو جنت سے نکلوا دیا۔ کہ ان کے تصور میں بھی نہیں تھا کہ کوئی اللہ کے نام کی قسمیں کھا کر بھی دھوکہ دے سکتا ہے۔ والعیاذُ باللہ العظیم

۲۲.    سو اس شجرہ ممنوعہ سے کھا لینے کے نتیجے میں آدم و حوا حُلّہ جنت سے محروم ہو گئے۔ سو حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کی معصیت و نافرمانی باعث محرومی وبال ہے، والعیاذُ باللہ جل وعلا، اور حُلَّہ جنت سے محرومی کے بعد آدم و حوا دونوں اپنے اوپر جنت کے پتے چپکانے لگے جس سے ایک طرف تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ شرم و حیاء انسانی فطرت کا تقاضا ہے اسی لئے حضرت آدم وحوا حُلَّہ جنت سے محروم ہوتے ہی اپنی ستر پوشی کے لئے ادھر اُدھر ہاتھ مارنے لگے اور جب کچھ نہ ملا تو جنت کے پتے ہی اپنے اوپر چپکانے لگے جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ ننگا پن تقاضائے فطرت کے خلاف ہے پس جو لوگ عریانی اور ننگے پن کے دلدادہ اور اس کے متوالے ہیں وہ دراصل ممسوخ الفطرت لوگ ہیں اس لئے وہ فطرت کے تقاضوں کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں۔ والعیاذُ باللہ العظیم۔ اور دوسری طرف اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ حُلَّہ جنت سے محرومی کے بعد اور آدم و حوا کے عمل سے یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آتی ہے کہ اب ان کو اپنی ضروریات اپنی سعی و محنت سے خود فراہم کرنا ہونگی۔ اس سے پہلے ہر چیز کی فراہمی کے لئے ان کے لئے جو خدائی انتظام موجود تھا، اس نافرمانی کے بعد وہ ختم ہو گیا، سو معاصی و ذنوب باعث محرومی ہیں والعیاذُ باللہ العظیم۔ اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی راہ ہی سلامتی کی راہ، اور سعادت دارین سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے، اللہ ہمیشہ اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر ہی گامزن رہنے کی توفیق بخشے۔ اور نفس و شیطان کہ ہر مکر و فریب سے ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ اٰمین ثم اٰمین،

۲۳.    سو اس سے حضرت آدم کی انابت و توبہ اور رجوع الی اللہ کی شان واضح ہوتی ہے۔ اور اس کا نمونہ سامنے آتا ہے کہ حق تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ کے بعد آنجناب نے فوراً اپنی غلطی و تقصیر کا اقرار و اعتراف کر لیا۔ اور اپنے خالق و مالک کے حضور اپنی مغفرت و بخشش کی دعاء و درخواست پیش کر دی۔ جس سے اللہ تعالیٰ نے ان کو پھر اپنی رحمت کی آغوش میں لے لیا۔ اور اس طرح حضرت آدم نے ہاری ہوئی بازی پھر سے جیت لی۔ اور وہ دوبارہ اپنے رب کی عنایات و توجہات کے مورد و مستحق بن گئے۔ سو اس طرح حضرت آدم نے اپنے عمل سے اپنی ذُرّیت کی اصلاح و تعلیم کے لئے انابت و رجوع الی اللہ کی یہ عظیم الشان مثال قائم فرما دی کے لئے اور ان کے لئے یہ واضح اور تابندہ نمونہ چھوڑ دیا کہ اگر کبھی انسان کو اغوائے شیطانی سے کوئی ٹھوکر لگ جائے تو وہ فوراً توبہ و استغفار کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے۔ اور سچے دل سے اس سے عفو و درگزر کی دعاء و درخواست کرے کہ وہ بڑا ہی تَوَّاب و رحیم ہے، سبحانہ و تعالیٰ اس کے برعکس ابلیس لعین نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ پر، اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے اور معافی مانگنے کے بجائے الٹا اپنے کبر و غرور کی بناء پر اس کے آگے اکڑنے اور اپنے جرم پر اصرار کرنے کی راہ کو اپنایا۔ اور اس کے نتیجے میں وہ ہمیشہ کے لئے مردود، اور راندہ درگاہ ہو گیا۔ والعیاذُ باللہ العظیم۔

۲۶.    اس ارشاد سے لباس کے دو اہم اور بنیادی مقاصد کو واضح فرما دیا گیا اول اور سب سے اہم مقصد لباس کی ستر پوشی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی واضح فرما دیا گیا کہ زیب و زینت بھی مقصود اور مقاصد لباس میں داخل و شامل ہے، ستر پوشی کے لئے تو ایک لنگوٹی یا معمولی سا ٹکڑا بھی کافی تھا۔ لیکن اتمام نعمت کے طور پر ہمارے لئے ایسے لباس کا انتظام فرمایا گیا جو ستر پوشی اور سردی و گرمی سے حفاظت کے علاوہ وہ ہماری شخصیت و وقار، حسن و جمال، اور شان و شوکت میں اضافے کا بھی باعث ہو۔ کہ انسان کی اولین پہچان، اور اس کی شخصیت کی ظاہری شناخت اس کے لباس ہی کے ذریعے ہوتی ہے۔ اور ہو سکتی ہے، اسی لئے کہا جاتا ہے النَّاسُ باللِّباس۔ کہ لوگوں کی پہچان اور ان کی شخصیت کا اعتبار ان کے لباس ہی سے ہوتا ہے، پس شخصیت کے نکھار و وقار سے تعلق والے ان مقاصد میں سے کوئی بھی مقصد بجائے خود معیوب نہیں۔ البتہ افراط و تفریط سے جس طرح ہر چیز میں خرابی پیدا ہو جاتی ہے، اسی طرح اس میں بھی خرابی آ جاتی ہے، قرآن حکیم نے زیب و زینت کو مقاصد لباس میں داخل کر کے اس جوگیانہ تصور اور رہبانی ذہنیت کی نفی کر دی ہے جو عریانیت یا نیم عریانیت کو مذہبی تقدس کا درجہ دیتے ہیں، جس کے طرح طرح کے مظاہر اور نمونے بھی موجود تھے، اور آج بھی جگہ جگہ موجود ہیں، یہاں تک کہ ہمارے معاشرے میں آج بھی کتنے ہی ایسے لوگ موجود ہیں جو ننگ دھڑنگ ملنگوں کو پیر اور ولی مانتے ہیں، اور ننگا پیر اور ناگا پیر کے نام سے ایک مستقل عریانیت پائی جاتی ہے، حالانکہ شریعت مقدسہ کی رو سے دوسروں کے سامنے ننگا ہونا حرام ہے، والعیاذ باللہ العظیم

۲َاور تقویٰ کا یہ باطنی اور معنوی لباس اہل ایمان کا ایک ممتاز و منفرد لباس ہے جو ان کے سوا اور کسی کو نصیب ہی نہیں ہو سکتا۔ اور یہ اس ظاہری اور حسی لباس سے کہیں بڑھ کر اور اس سے کہیں بہتر ہے، اسی کی بناء پر انسان وہ ظاہری اور حسی لباس اختیار کرتا ہے۔ جو اس کی عزت و عظمت، اور اس کی ستر پوشی، اور اس کی طہارت و پاکیزگی، کا عکاس و آئینہ دار ہوتا ہے۔ اور اسی سے اس کے اس ظاہری اور حسی لباس کی عظمت و افادیت ظاہر ہوتی ہے۔ اگر تقوی کا یہ باطنی لباس موجود نہ ہو تو انسان لباس پہن کر بھی ننگا ہی رہتا ہے۔ والعیاذُ باللہ العظیم

۲۹.    سو اس ارشاد سے ایک تو اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرمایا گیا ہے کہ میرے رب نے قسط و انصاف ہی کا حکم فرمایا ہے کہ عدل و قسط دین فطرت کا ایک عظیم الشان مطلب، اور جلیل القدر مقصد ہے، اور اس کا تعلق زندگی کے ہر پہلو سے ہے۔ عقائد و اعمال میں بھی اور عبادات و اخلاق میں بھی، معیشت و معاشرت میں بھی، اور قانون و سیاست میں بھی، غرضیکہ عدل و قسط کی رعایت زندگی کے ہر شعبہ میں مطلوب و مامور ہے۔ اسی لئے حکم فرمایا گیا کہ تم لوگ ہر عبادت کے وقت اپنا رُخ درست رکھو، کیونکہ جب خالق و مالک اللہ وحدہٗ لاشریک ہی ہے تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ عبادت و بندگی اسی کی اور صرف اسی وحدہٗ لاشریک کی، ہو کیونکہ یہ بات عدل و قسط کے خلاف ہے کہ بندے کی پیشانی اس وحدہٗ لاشریک کے سوا کسی اور کے آگے سجدہ سے آلودہ ہو، اسی طرح حیات بعد الموت بھی اسی عدل و قسط کا تقاضا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی نے سب کو پیدا فرمایا ان کو پرورش کے اسباب و وسائل سے نوازا، خیر و شر کا امتیاز بخشا۔ تو عدل و قسط کا تقاضا ہے کہ اس سب کا حساب و کتاب بھی ہو، اور ہر کسی کو اس کے کئے کرائے کا صلہ و بدلہ بھی ملے۔ کیونکہ اگر ایسے نہ ہو تو یہ عدل و قسط نہیں، ظلم و جور ہو گا۔ والعیاذُ باللہ العظیم۔ سو اس سے عدل و قسط کی اہمیت اور اس کی عظمت شان واضح ہو جاتی ہے۔

۳۰.    سو ایسے لوگوں نے دین حنیف کی ان تعلیمات مقدسہ سے منہ موڑا، جو عدل و انصاف کے اصولوں پر مبنی اور اسی کی تعلیم دیتی ہیں اور ان سے منہ موڑ کر انہوں نے اللہ کے سوا شیطانوں کو اپنا دوست بنا لیا، اور اس طرح یہ لوگ راہ حق و صواب سے محروم ہو گئے مگر اس ہولناک محرومی کے باوجود ایسے لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ راہ راست پر ہیں، اور جب کوئی کھلی گمراہی پر ہونے کے باوجود اپنے آپ کو راہِ حق پر سمجھے تو پھر اس کے راہ راست پر آنے کی کوئی صورت آخر کس طرح ممکن ہو سکتی ہے؟ پس ایسے لوگ اگر اپنی اس جہالت و غوایت سے باز نہ آئے تو ان کو یقیناً اور لازماً اپنے اس ہولناک انجام سے دوچار ہونا پڑے گا جس کا مستحق انہوں نے اپنے آپ کو خود بنا دیا۔ والعیاذ باللہ العظیم

۳۲.    ۱: استفہام اس ارشاد میں انکار کے لئے ہے، یعنی جب انسان کی زینت بننے والے لباس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے نکالا، اور پاکیزہ چیزوں کو اسی نے ان کے لئے پیدا فرمایا۔ تو پھر کون ایسا ہو سکتا ہے جو ان چیزوں کو حرام قرار دے؟ اور کسی کو یہ اختیار کس طرح مل سکتا ہے کہ وہ اللہ کی پیدا کردہ چیزوں کو از خود حرام قرار دے؟پس جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ ان پاکیزہ چیزوں میں سے کچھ کو مختلف ناموں سے، اور طرح طرح کے اوہام و خرافات کی بناء، پر حرام قرار دیا، انہوں نے بڑے ہی سنگین جرم کا ارتکاب کیا۔ والعیاذُ باللہ العظیم

۲:  سو اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ اور اس کی عطاء فرمودہ یہ نعمتیں اس دنیا میں بھی اصل میں اللہ کے ایماندار بندوں ہی کے لئے ہیں، اور انہی کا یہ حق ہے کہ وہ ان سے فائدہ اٹھائیں لیکن دنیا کے اس دارالامتحان میں ابتلاء و آزمائش کے تقاضوں کی بناء پر کافروں کو بھی اس سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا جا رہا ہے لیکن آخرت چونکہ دارالامتحان نہیں، بلکہ دارالجزاء اور انعام و اکرام کا کا گھر ہو گا، اس لئے وہاں یہ تمام نعمتیں صرف اہل ایمان ہی کا حق اور انہی کے لئے خاص ہونگی، کافروں کے لئے وہاں پر ان میں کوئی حق اور حصہ نہیں ہو گا، البتہ دنیا میں جو انہوں نے ان سے استفادہ کیا تھا اس کی جواب دہی ان کو وہاں پر بہرحال کرنا ہو گی کیونکہ ان کا ان کو کھانا برتنا مجرموں کا کھانا برتنا تھا۔ والعیاذُ باللہ جل وعلا

۳۳.    سو اپنے جی سے حلال و حرام ٹھہرانا، اپنی خواہشات کی پیروی میں طرح طرح کے من گھڑت اور خود ساختہ طریقے ایجاد کرنا، اور من مانے طور پر خود شریعت وضع کرنا، اور پھر ان تمام چیزوں کو خدا کی طرف منسوب کرنا کہ اس نے ان کا حکم دیا ہے ممنوع و حرام اور جرم عظیم ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم یہ سو اس ارشاد سے نبوت کی ضرورت کو بھی واضح فرما دیا گیا ہے کہ جب خدا کی طرف کوئی بے سند بات منسوب کرنا ناجائز اور حرام ہے تو پھر لازم ہے کہ اس کی طرف سے اس کے رسول آئیں۔ جو اس کی سَنَد و منظوری کے ساتھ آئیں۔ تاکہ وہ دنیا کو خدا کی مرضیات سے آگاہ کریں اور اسطرح دنیا کو راہ حق و ہدایت نصیب ہو سکے۔ اور وہ اپنے خالق و مالک کی ہدایات اور اس کی طرف سے ملنے والی تعلیمات مقدسہ سے سرشار ہو سکیں۔ اور ان کی اتباع و پیروی کر کے اپنے لئے دارین کی سعادت وسرخروئی سے سرفرازی کا سامان کر سکیں۔

۳۴.    سو منکروں باغیوں اور سرکشوں کو جو مہلت اور ڈھیل دی جاتی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا، اور نہیں ہو سکتا کہ ان کی کوئی پکڑ نہیں ہو گی، اور وہ ایسے چھوٹے پھریں گے، نہیں اور ہرگز نہیں بلکہ اس کا اصل سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کے لئے ایک مدت مقرر فرما رکھی ہے اس تک وہ ان کو ڈھیل دیتا ہے جب وہ مدت مقررہ پوری ہو جاتی ہے تو پھر وہ لوگ پل بھر نہ اس سے پیچھے رہ سکتے ہیں، اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیں، والعیاذ باللہ۔ یہاں پر یہ اہم اور بنیادی بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ یہ مدت مہلت جو قدرت کی طرف سے مقرر فرمائی جاتی ہے۔ اس کے پیمانے افراد اور اقوام کے اعتبار سے الگ الگ ہوتے ہیں۔ افراد کے لحاظ سے تو اس کے پیمانے سالوں، مہینوں، دنوں اور گھنٹوں منٹوں کے اعتبار سے مقرر ہوتے ہیں۔ اس اعتبار سے جب وہ مہلت ختم ہوتی ہے تو فرد کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ لیکن قوموں کے اعتبار سے اس کا حساب دراصل ان کے ایمانی اور اخلاقی زوال کے اعتبار سے ہونا ہے، سو جب کوئی قوم ایمانی اور اخلاقی اعتبار سے گرتے گرتے اس حد کو پہنچ جاتی ہے، تو اس کا بیڑا غرق کر دیا جاتا ہے۔ اور جس طرح افراد کی موت کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں۔ اسی طرح قوموں اور ملتوں کے فناء و زوال کا صحیح علم بھی اس وحدہٗ لاشریک کے سوا کسی کو نہیں ہو سکتا۔ سبحانہ و تعالیٰ

۳۶.    سو اس سے اللہ تعالیٰ کے اس عہد اور وعدے کی تذکیر و یاددہانی فرمائی گئی ہے، جو اللہ تعالیٰ نے آدم اور اولاد آدم سے اس وقت فرمایا تھا جبکہ حضرت آدم کے جنت سے نکالے جانے کا واقعہ پیش آیا تھا، سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ جو لوگ اللہ کے نبیوں کی تعلیمات کی پیروی کریں گے اور اس کے مطابق وہ تقوی و پرہیزگاری اور اصلاح احوال کی راہ کو اپنائیں گے وہ ایسی حقیقی اور سدا بہار کامیابی سے سرفراز ہوں گے کہ نہ ان کو ماضی کا کوئی غم ہو گا۔ اور نہ مستقبل کا کوئی خوف اس کے برعکس جو اللہ کی آیتوں کو جھٹلائیں گے اور اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں ان سے اعراض و روگردانی برتیں گے، وہ دوزخ کی آگ کے ساتھی اور اس کے یار ہوں گے، اور ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اسی میں رہنا ہو گا، جو کہ لازمی تقاضا ہو گا انکے کفر و انکار کا، والعیاذ باللہ

۳۷.    سو منکرین و مکذبین کو نوشتہ تقدیر کے مطابق ان کا حصہ دنیا میں ملتا رہے گا لیکن جب ان کا اس دنیا سے کوچ کا وقت آئے گا تو اس وقت فرشتے ان کی تذلیل و توبیخ کے لئے ان سے کہیں گے کہ کہاں ہیں آج تمہارے وہ خود ساختہ معبود و شرکاء جن کو تم لوگ اپنی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لئے پکارا کرتے تھے تو وہ کہیں گے کہ وہ سب کھو گئے ہم سے اور اس وقت یہ لوگ خود اپنے بارے میں گواہی دیں گے کہ یہ پکے کافر تھے۔ مگر اس وقت کے انکے اس اعتراف و اقرار سے ان کو کوئی فائدہ بہرحال نہیں ہو گا۔ سوائے انکی آتش یاس و حسرت میں اضافے۔ والعیاذُ باللہ العظیم

۳۸.    ۱: یعنی وہاں پر تابعین اپنے متبوعین سے، یعنی پیر اپنے بڑوں اور گرؤوں سے کہیں گے کہ تم پر پھٹکار ہو کہ تم ہی لوگوں نے ہمارا بیڑا غرق کیا اور ہمیں اس ہولناک انجام تک پہنچایا اگر تم لوگ نہ ہوتے اور تم ہمیں غلط راہ پر نہ ڈالتے، تو ہم اس انجام سے دوچار نہ ہوتے۔ اس پر ان کے وہ متبوعین اپنے ان گروؤں سے کہیں گے، کہ نہیں بلکہ تم لوگ خود ہی شامت زدہ اور بدبخت تھے، کہ تم خود ہمارے پیچھے چلے، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ہمارے دماغ خراب کرنے میں بھی تم لوگوں کا بڑا حصہ اور عمل دخل تھا۔ سو دنیا میں تو یہ سب ایک دوسرے کے ساتھی اور مددگار بنے ہوئے تھے۔ ایک دوسرے کے گن گاتے، اور ان کے جھنڈے اٹھائے پھرتے تھے۔ سلامیاں پیش کرتے۔ اور اہل حق کی بات کو سنتے اور ماننے کے لئے تیار نہ ہوتے تھے لیکن اس روز آمنے سامنے ہوتے ہی یہ ایک دوسرے پر لعنت اور پھٹکار کے ڈونگرے برسانے لگیں گے اور اپنے اس ہولناک انجام کا ذمہ دار ایک دوسروں کو ٹھہرائیں گے، والعیاذُ باللہ جل وعلا۔

۲ : سو اس ابتدائی لعنت ملامت کے بعد جس کا ذکر ابھی اوپر کے حاشیے میں ہُوا ان میں پچھلے یعنی پیر اپنے اگلوں یعنی اپنے بڑوں اور گروؤں کے بارے میں خداوند قدوس کے حضور اپنا استغاثہ پیش کریں گے، کہ خداوند! یہی ہیں وہ لوگ جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا، اور اس ہولناک انجام تک پہنچایا، پس تو ان کو دوہرا عذاب دے، یعنی ضلال کا بھی اور اضلال کا بھی کہ یہ خود بھی جہنم میں واصل ہوئے، اور ہمیں بھی اس میں پہنچایا۔ سو ہماری ہلاکت و تباہی کے ذمہ دار یہی لوگ ہیں۔

۳ : یعنی تم میں سے اگلوں پچھلوں سب ہی کے لئے دوگنا عذاب ہے لیکن تم لوگ جانتے نہیں، اور یہ اس لئے کہ نیکی ہو یا بدی ان میں سے ہر ایک اپنی فطرت کے اعتبار سے متعدی چیز ہے۔ جو اپنے کرنے والے کی ذات ہی تک محدود نہیں رہتی۔ بلکہ اس کے اثرات آگے پھیلتے بڑھتے، اور دوسروں تک منتقل ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ نسل در نسل اور وراثت در وراثت آگے بڑھ کر نیکی کا ایک ذرہ احد پہاڑ کے برابر ہو جاتا ہے۔ اور برائی کا یک تخم فساد آگے پھیلتے پھیلتے ایک لق و دق جنگل کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ جیسا کہ قرآن و سنت کی مختلف نصوص کریمہ میں اس کو طرح طرح سے واضح فرمایا گیا ہے۔ سو اسی بناء پر اپنے گروؤں کے خلاف مذکورہ بالا استغاثہ کرنے والوں سے کہا جائے گا کہ تم میں سے ہر ایک کے لئے دوگنا عذاب ہے، کہ گرو اور چیلے دونوں ہی اس جرم میں شریک ہیں، اگر اگلوں نے تم کو گمراہ کیا تھا تو تم نے آخر اپنے پچھلوں کے لئے کونسا کوئی عمدہ نمونہ چھوڑا تھا؟ اگلوں نے تمہارے لئے بری مثال قائم کی۔ تو تم نے اپنے پچھلوں کے لئے بُری مثال قائم کی۔ سو جو جرم ان کا ہے وہی تمہارا ہے۔ اور جو پیمانہ ان کے لئے ہے وہی تمہارے لئے ہے اگر تمہیں ان کی روش کے ساتھ ساتھ اپنی روش بد کا علم و اندازہ بھی ہوتا اور تم جانتے کہ تم دونوں ہی مجرم ہو، اور تب تم ایسا سوال اور مطالبہ نہ کرتے۔ تم لوگوں کو اپنے بوئے ہوئے تخم فساد کی بس بھری فصل کی ہولناکیوں کا علم و اندازہ نہیں تھا، سو وہ اب تمہارے سامنے موجود ہے۔ پس اب تم لوگ اپنے کئے کرائے کا بھگتان بھگتو۔ اور بھگتتے ہی رہو۔ کہ حیات دنیا کی فرصت عمل تو اب بہرحال تمہارے ہاتھ سے نکل گئی جس کے تلافی و تدارک کی اب کوئی صورت ممکن نہیں والعیاذ باللہ العظیم،

۴۲.    سو اس سے اس اصولی تعلیم کو واضح فرما دیا گیا کہ انسان کی ہلاکت وتباہی اور اس کی نجات و فلاح کا اصل دارو مدار اس کے اپنے ایمان و عقیدہ عمل و کردار، اور نیت و اختیار پر ہے۔ پس جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی آیتوں کی تکذیب کر کے ان سے اِعْراض و رُوگردانی کی راہ کو اپنایا ہو گا۔ والعیاذُ باللہ۔ تو ان ٹھکانا ان کے اپنے اس رویے اور اختیار کی بناء پر، اور اس کے نتیجے میں دوزخ ہو گا، جہاں ان کو ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہو گا۔ اور اس کے برعکس جنہوں نے ایمان اور عمل صالح کی راہ کو اپنایا ہو گا اور انہوں نے اپنی زندگی اسی کے مطابق گزاری ہو گی ان کو جنت اور اس کی سدا بہار نعمتوں سے سرفرازی نصیب ہو گی۔ جہاں ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہنا نصیب ہو گا، اور یہی ہے اصل کامیابی، و باللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، بِکُلِّ حال من الاحوال وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ،

۴۳.    یہ وہ شکر ہے جو کسی طویل اور پُر صعوبت سفر کے خاتمے پر تھکا ماندہ مسافر اپنی منزل مقصود پر پہنچ کر، اور ٹھنڈی سانس لیکر دل کی گہرائیوں سے اداء کرتا ہے، سو اہل جنت جب زندگی بھر کی طویل کٹھن اور ابتلاء و آزمائش سے بھرپور مسافت کو طے کر کے جنت میں پہنچیں گے، اور اس کی سدا بہار جنتوں سے سرشار ہوں گے۔ تو سراپا سپاس بن کر حضرت واہب مطلق جَلَّ جَلَالُہ، کا شکر ادا کریں گے کہ یہ اسی وحدہٗ لاشریک کی توفیق اور اس کی عنایت و مہربانی ہی کا نتیجہ و ثمرہ ہے، کہ ہم اس طویل اور کٹھن سفر کی صعوبتوں اور مشکلات کے باوجود اپنی اس منزل مقصود پر پہنچ گئے۔ ورنہ ہم ایسے نہیں تھے کہ از خود یہاں پہنچ جاتے۔   

 سو یہ اہل جنت کے لئے وہ عظیم الشان اور بے مثال خوشخبری ہو گی جس کی دوسری کوئی نظیر و مثال ممکن نہیں۔ اور اہل جنت جیسا کہ اوپر ذکر ہوا جنت سے سرفرازی کو اپنی سعی و عمل کے بجائے خداوند قدوس کے فضل و کرم اور اس کے انعام احسان کا ہی ثمرہ و نتیجہ سمجھیں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ اس کو ان کی سعی و عمل کا ثمرہ قرار دے گا۔ سو یہ تکمیل نعمت کی وہ معراج ہو گی جس سے اہل جنت کو وہاں پر نوازا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے کرم بے پایاں سے اپنے بندوں کے اعمال کا درجہ اتنا اونچا کر دے گا کہ اس سے زیادہ اونچے درجے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اصل بات تو یہی ہے کہ ہم اس دنیا میں بھی جو کچھ پاتے ہیں خداوند قدوس کے فضل و کرم ہی سے پاتے ہیں، اور آخرت کے اس حقیقی اور اَبَدی جہاں میں بھی جو کچھ پائیں گے، وہ بھی خداوند قدوس کے فضل و کرم ہی سے پائیں گے کہ دینے اور بخشنے والا سب کو وہی، اور صرف وہی وحدہٗ لاشریک ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ۔ دنیا کی اس فانی زندگی میں بھی، اور آخرت کے اس حقیقی اور اَبَدی جہاں میں بھی جو اس کے بعد آنے والا ہے۔ لیکن دونوں کے درمیان یہ بنیادی فرق ہے کہ اس دنیا میں انسان کو جو کچھ ملتا ہے وہ اسباب و وسائل کے پردوں میں ملتا ہے۔ مگر وہاں پر اس کو جو کچھ ملے گا وہ سب براہ راست حضرت واہب مطلق سے ملے گا۔ جس کے نتیجے میں بندے فوری اور بے ساختہ اس کی حمد وثنا سے رطلب اللسان ہو جائیں گے۔ سو کون اندازہ کر سکتا ہے اس اَبَدی بادشاہی کی عظمت شان کا جس کے متعلق ہر شخص کا احساس و شعور یہ ہو گا کہ اس نے یہ جنت کچھ اپنی کوششوں سے بنائی ہے اور یہ دولت لازوال اس کی اپنی ملکیت اور میراث ہے۔ اللہ اس سے سرفرازی نصیب فرمائے اور محض اپنے فضل و کرم اور اپنی شان رحیمی و کریمی سے نصیب فرمائے۔ اٰمین ثم اٰمین یارب العالمین۔ ویا ارحم الراحمین، واکرم الاکرمین، اللہ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی رضا کی راہوں پر گامزن رہنے کی توفیق بخشے، آمین ثم آمین

۴۶.    اصحابِ اعراف کی تعیین و تشخیص کے بارے میں مشہور قول تو یہی ہے کہ یہ وہ لوگ ہوں گے جن کی نیکیاں اور بدیاں برابر ہونگی۔ اس لئے ان کے بارے میں ابھی یہ فیصلہ نہیں ہوا ہو گا، کہ ان کو جنت میں بھیجا جائے یا دوزخ میں، جبکہ ان کے بارے میں دوسرا قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد علماء و فقہاء ہیں، یہ قول امام التفسیر حضرت مجاہد سے مروی ہے۔ اور قرآن حکیم کے اشارات سے یہی قول راحج معلوم ہوتا ہے، ایک تو اس لئے کہ اعراف جمع ہے عُرْف کی، جس کا اطلاق اصل لغت کے اعتبار سے گھوڑے کی پیشانی کی چوٹی، اور مرغ کی کلغی کے لئے ہوتا ہے۔ اور یہیں سے یہ لفظ اس مینارہ یا برجی یا دیدیاں کے لئے بولا جاتا ہے، جو کسی اُونچی دیوار یا پہاڑی پر بنایا جائے، تاکہ وہاں سے ہو کر تمام اطراف و جوانب کا بیک نظر مشاہدہ و نظارہ کیا جاس کے اور کسی خاص مقصد کی حفاظت و نگرانی بھی، سو قرآن حکیم کے اسلوب بیان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جنت اور دوزخ کے درمیان جو عظیم الشان اور بے مثال دیوار کھڑی کی جائے گی، جس کا ذکر سورہ حدید کی آیت نمبر۱۴ میں فرمایا گیا ہے یہ اعراف یعنی مینارے اور برجیاں اسی دیوار پر بنائی جائیں گی جہاں سے جنت اور دوزخ دونوں کے تمام مناظر کا مشاہدہ ہو سکے گا اور ظاہر ہے کہ ان عظیم الشان میناروں اور برجیوں سے نظارہ کرنے کا موقع انہی خاص لوگوں اور نمایاں اشخاص و افراد ہی کو دیا جائے گا جو قرآن حکیم کی تعبیر کے مطابق رجَالٌ کا مصداق قرار پا سکیں۔ یعنی عظیم الشان لوگ، نہ کہ وہ لوگ جن کو ابھی تک اپنے مستقبل کے بارے میں بھی کچھ اتہ پتہ نہ ہو، کہ ان کا آگے کیا بننے والا ہے۔ دوسرے اس لئے کہ جن لوگوں کی نیکیاں اور بدیاں برابر ہونگی ضروری نہیں کہ وہ سب کے سب صرف مرد ہی ہوں بلکہ ان میں عورتیں بھی ہو سکتی ہیں تو ایسے میں ان کے لئے رجال کے لفظ کی تخصیص کیونکر، اور کس بناء پر کی جا سکتی ہے؟ اس کے لئے تو طائفہ یا امت یا اس طرح کا کوئی اور عام لفظ استعمال ہونا چاہیے تھا اور تیسرے اس لئے کہ اعراف کے یہ لوگ جس طرح اہل جنت اور اہل دوزخ سے خطاب کریں گے، اور جو جو باتیں ان دونوں فریقوں سے کہیں گے وہ اس امر کے خلاف ہیں کہ یہ کسی اسے گروہ کا ذکر ہو جس کی اپنی نجات کا معاملہ بھی ابھی تک معلق ہو۔ کیونکہ قرآن حکیم کے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ یہ لوگ اہل جنت کو ان کی بے مثال کامیابی پر مبارکباد دیں گے، اور اہل دوزخ کے لیڈروں کی ملامت و سرزنش کریں گے، کہ تم لوگ دنیا میں اپنے جس ساز و سامان پر اترایا کرتے تھے۔ اور اپنی جن جمعیتوں اور جتھوں کا تم لوگ زعم اور گھمنڈ رکھتے تھے۔ آج ان میں سے کوئی بھی چیز تم کو کام نہیں آ سکی۔ اور جن اہل ایمان کو تم لوگ دنیا میں کچھ نہیں سمجھتے تھے۔ اور قسمیں کھا کھا کر کہا کرتے تھے، کہ ان کو اللہ کی کوئی رحمت نصیب نہیں ہو گی، آج انہی سے بڑے اعزاز و اکرام کے ساتھ کہہ دیا گیا کہ تم جنت میں داخل ہو جاؤ۔ نہ تم پر کوئی خوف ہو گا۔ اور نہ کسی طرح کا کوئی غم سو یہ سب باتیں اس امر کو ظاہر اور واضح کرتی ہیں کہ یہ ایسے لوگوں کی زبانوں سے نکلی ہوئی باتیں نہیں ہو سکتیں جن کو اپنی نجات کے بارے میں فکر پڑی ہو کہ معلوم نہیں کہ اس کے بارے میں مشیئت خداوندی کی طرف سے کیا فیصلہ ہونے والا ہے سو ان وجوہ کی بناء پر حضرت مجاہد کا یہ قول ہی راجح معلوم ہوتا ہے کہ اصحاب اعراف سے مراد وہ علماء و صلحاء ہیں جو دنیا میں حق و باطل کی کشمکش میں حق کے علمبردار اور خیر کے داعی رہے جنہوں نے حق کی حمایت میں اہل باطل کے چرکے سہے اور جو مظلوموں کی حمایت میں سینہ سپر رہے۔ سو ایسے علماء و صلحاء یا بالفاظ دیگر رجال امت بلاشبہ قیامت کے روز اس اعزاز کے مستحق اور سزاوار ٹھہریں گے کہ اللہ تعالیٰ ان کو اعراف کی بلندیوں سے جنت اور دوزخ دونوں کا مشاہدہ کرائے۔ تاکہ وہ اہل حق اور اہل باطل دونوں کا آخری انجام اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں۔ اور اپنی زبانوں سے رفقاء حق کو مبارکباد دیں۔ اور دشمنان حق کی سرزنش کریں، تاکہ اس طرح اہل حق کے اعزاز و اکرام میں بھی اضافہ ہو، اور اہل کفر و باطل کی تذلیل و تخجیل میں بھی۔ والحمدللہ جل وعلا

۵۴.    حثِیْثُ اور حثوث کے معنی سرگرم اور تیز گام کے ہیں سو اس سے اس حقیقت کا اظہار فرمایا گیا کہ اللہ پاک کی اس کائنات کی ہر چیز پورے جوش و خروش، اور سرگرمی، سے اپنے منقوضہ فرائض انجام دے رہی ہے، کسی چیز سے نیم دلی یا سرد مہری کا اظہار نہیں ہوتا۔ چنانچہ ہر کوئی دیکھتا ہے اور اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھتا ہے کہ زمین و آسمان کا یہ پورا نظام کس قدر پابندی، اور کتنی چستی اور پھرتی سے چل رہا ہے۔ اور گھنٹوں منٹوں، بلکہ لمحوں اور سیکنڈوں کے حساب سے پابندی کے ساتھ چل رہا ہے۔ اور یہ سب کچھ حضرت خالق حکیم جَلَّ جَلَالُہ، کی قدرت و حکمت، اس کی رحمت و عنایت، اور اس کے حکم و تصرف ہی کا نتیجہ و ثمرہ ہے، کہ یہ پُر حکمت نظام اس قدر پابندی اور استحکام کے ساتھ چل رہا ہے وہی وحدہٗ لاشریک رات کو دن پر ڈھانکتا ہے۔ اور اسی کے حکم و ارشاد سے وہ اس کا تعاقب کرتی ہے۔ سورج چاند، اور دوسرے مختلف ستارے سیارے، اور کواکب و نجوم اسی کی مخلوق، اور اس کے حکم و ارشاد کے پابند ہیں، اور وہ اپنے اپنے معینہٖ فرائض انہی حدود و قیود کی پابندی کے ساتھ ادا کرتے ہیں جو ان کے خالق و مالک نے ان کے لئے مقرر فرمائی ہیں۔ اور وہ کُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ کے ارشاد و اصول کے مطابق اپنے فرائض اور اپنی ذمہ داریاں اپنے مخصوص دائرے کے اندر ہی ادا کرتے ہیں۔ اور پوری سرگرمی کے ساتھ شب و روز اپنی ڈیوٹی کی انجام دہی میں مصروف رہتے ہیں، کسی کی مجال نہیں کہ وہ ذرہ برابر اپنی مقررہ حدود سے باہر نکل جائے، یا پل بھر کے لئے اپنی ڈیوٹی سے غافل ہو جائے، سو اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کس قدر عظمت شان کی مالک ہے حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کی قدرت و حکمت اور اس کی رحمت و عنایت۔ جس کے آثار اس پوری کائنات اور اس کی ایک ایک چیز سے ظاہر ہو رہے ہیں، پس اسی کا حق ہے کہ بندہ صدق دل سے اور اپنے ظاہر و باطن دونوں کے اعتبار سے، اس کے آگے جھک جھک جائے۔ اور ہمیشہ اور ہر حال میں اس کے آگے جھکا جھکا ہی رہے۔ سبحانہ و تعالی

۲ :  سو جب اس کائنات کا خالق و مالک وہی وحدہٗ لاشریک ہے۔ تو اسی کا حق ہے کہ اس کی اس کائنات میں اور اس کے ہر ہر گوشے میں اسی کا حکم و ارشاد چلے، اور دائرہ تکوین میں تو کائنات کا ہر ذرہ شب و روز اسی کے احکام کی تعمیل میں مصروف عمل ہے۔ کُلٌّ لَّہ قَانِتُوْنَ، سو اس میں انسان کے لئے یہ درس ہے کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں بھی اسی کا مطیع فرمان رہے۔ کہ جب خالق وہی وحدہٗ لاشریک ہے۔ تو اس میں حکم و ارشاد بھی اسی کا چلنا چاہئے۔ سبحانہ و تعالیٰ، اور جب کائنات کی ہر چیز اسی کے آگے سرنگوں ہے تو ہمیں بھی اسی کے حضور سرنگوں رہنا چاہیئے۔

۵۵.    سو اس ارشاد ربانی میں دعاء سے متعلق دو اہم آداب کی تعلیم فرمائی گئی ہے ایک یہ کہ وہ عاجزی اور تضرع و زاری کے ساتھ ہو۔ اور دوسرے یہ کہ وہ چپکے اور آہستے سے ہو۔ تضرع اور زاری اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حصول کا ذریعہ ہے۔ اور خفیہ یعنی چپکے چپکے کا ادب ریاء و سمعہ اور سُوئے ادب سے بچنے کے لئے ہے، پس اس سے اس جہر کی نفی نہیں ہوتی جو اجتماعی دعاؤں میں اختیار کیا جاتا ہے، یا قلبی کیفیت کی بناء پر بعض اوقات انسان اپنی انفرادی مناجاتوں میں اختیار کرتا ہے، سواس ارشاد سے اصل مقصد مطلق جہر کی نفی نہیں۔ بلکہ اس سے مقصود توسط و اعتدال کی تاکید فرمانا ہے۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی مایحب ویرید، بکل حالٍ من الاحوال، وفی کل موطنٍ من المواطن فی الحیاۃ،

۵۶.    یعنی کفر و شرک اختیار کر کے کہ کفر و شرک اس کائنات کی ہلاکت و تباہی کا باعث ہے، کیونکہ کائنات کے وجود اور اس کے قیام و بقاء کی بنیاد ہی توحید خداوندی پر ہے، اور قرآن حکیم نے اس حقیقت کو مختلف پہلوؤں سے واضح فرمایا ہے، اور اس کی صاف طور پر تصریح فرمائی ہے۔ کہ اگر آسمان و زمین کی اس کائنات میں اللہ وحدہٗ لا شریک کے سوا کچھ اور معبود بھی ہوتے، تو یہ کبھی کی درہم برہم ہو گئی ہوتی۔ سو اس کے قیام و بقاء کی اساس و بنیاد ہی یہ چیز ہے کہ اس میں اللہ وحدہٗ لاشریک کے سوا اور کسی ارادے کی کارفرمائی نہیں۔ پس دائرہ تکوین کی اس توحید کا تقاضا یہ ہے کہ بندے اپنے دائرہ اختیار میں بھی عقیدہ توحید ہی پر قائم ہوں اور قائم رہیں۔ اور ہر قسم کی اطاعت اور عبادت و بندگی اسی وحدہٗ لاشریک کے لئے بجا لائیں، اور اس میں اور کسی کو بھی کسی بھی درجے میں اس کا شریک نہ بنائیں۔ ورنہ زمین کا سارا نظام عدل و شریعت درہم برہم ہو کر رہ جائے گا، سو جس طرح اس کائنات کے قیام و بقاء کے لئے توحید تکوینی ناگزیر ہے۔ اسی طرح اس زمین کے نظام امن و عدل کے لئے خداوند قدوس کی تشریعی توحید بھی لازمی ہے، خداوند قدوس کے مُلک و بادشاہی اور اس کی کائنات میں اس کے سوا کسی اور کو الٰہ اور معبود بنانا۔ اس کے ملک اور اس کی کائنات میں فساد اور بغاوت برپا کرنا ہے۔ جس سے بڑھ کر کوئی اور جرم نہیں ہو سکتا۔ کہ اس وحدہٗ لاشریک کا کسی بھی اعتبار سے نہ کوئی شریک ہے نہ ہو سکتا ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ

۵۷.    سو کائنات کی اس حکمتوں بھری کتاب میں سے اگر تم لوگ صرف اسی ایک پہلو یعنی ہواؤں، اور بارشوں کے نظام ہی میں صحیح طور پر غور و فکر سے کام لے لو تو تمہارے سامنے وہ تمام عظیم الشان حقائق پوری طرح واضح ہو جائیں جن کی دعوت تم کو قرآن حکیم کی یہ کتاب عظیم دے رہی ہے۔ سو تم دیکھو کہ جب بارش کی بندش اور قحط سالی کی بناء پر ہر طرف مایوسی پھیلی ہوتی ہے، تو اللہ پاک اپنے بندوں کو اپنی باران رحمت سے نوازنے سے قبل خوشخبری دینے والی ہواؤں کو نہایت پُر حکمت طریقے سے بھیجتا ہے، یہاں تک کہ وہ سمندروں سے ہزاروں لاکھوں ٹن پانی کو اپنے کندھوں پر اٹھائے ہلکے پھلکے انداز میں فضاؤں کے اندر رواں دواں ہو جاتی ہیں۔ اور اپنے خالق و مالک کے حکم و ارشاد کے مطابق کسی مردہ زمین میں پہنچ کر اس کو دوبارہ زندہ کر دیتی ہیں جس سے آگے تم لوگوں کے بھلے کے لئے قسما قسم کے غلے، پھل پھول، اور باغات اُگ آتے ہیں، اور مایوسی کے اس دور کے بعد سرسبزی و شادابی اور خوشیوں اور مسرتوں کا ایک پُر کیف سماں بندھ جاتا ہے۔ سو اس سے تم لوگ اپنے اس رب کریم کی قدرت بے پایاں، اس کی رحمت بے نہایت، اور اس کی عنایت بے غایت کا کسی قدر اندازہ کر سکتے ہو، اور جب اس کی اس رحمت و عنایت میں کوئی اس کا شریک و سہیم نہیں تو پھر اس کی عبادت و بندگی میں کوئی اس کا شریک و سہیم کس طرح ہو سکتا ہے؟ اور جب وہ لوگوں کو مردہ زمین میں زندگی کے یہ حکمتوں بھرے مظاہر دکھاتا ہے اور بار بار دکھاتا ہے تو پھر وہ تم لوگوں کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیوں نہیں کرے گا؟ نیز جب اس نے تمہاری جسمانی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے اس قدر پُر حکمت انتظام فرمایا ہے تو کس طرح ممکن ہو سکتا ہے کہ وہ تمہاری روحانی زندگی میں ضرورتوں کی تکمیل کا سامان نہ کرے؟ سو ہواؤں اور بارشوں کے اس پُر حکمت نظام کے اندر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت و یکتائی۔ بعثت انبیاء و رسل کی ضرورت اور معاد و آخرت سب ہی کے دلائل موجود ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ ان لوگوں کے لئے ہے جو ان چیزوں کے اندر صحیح طریقے سے غور و فکر سے کام لیتے ہیں۔ وباللہ التوفیق لمایحب ویرید،

۶۱.    سو اس سے پیغمبر کی عظمت شان اور انکی اوللہیت اور بے نفسی کا یہ پہلو بھی ملاحظہ ہو کہ آنجناب اپنی اس بدبخت قوم کی ایسی دل آزاری، اور اس قدر یادہ گوئی کے جواب میں ذرہ برابر کسی طرح کے اشتعال یا غصے کا کوئی اظہار نہیں فرماتے، بلکہ بالکل واضح اور صاف و سیدھے الفاظ، اور مختصر و درد بھرے انداز میں ان بدبختوں سے فرماتے ہیں۔ کہ اے میری قوم! مجھ میں کسی طرح کی کوئی گمراہی نہیں، بلکہ میں تو رب العالمین کا بھیجا ہوا رسول ہوں اور بس، اس لئے میں اپنے رب کے پیغام کو تم لوگوں تک پہنچاتا ہوں۔ تاکہ خود تمہارا بھلا ہو سکے۔ اور تمہاری بگڑی بن سکے۔ سو یہ کتنی واضح، کتنی مختصر، اور کس قدر جامع بات ہے۔ مگر جن لوگوں کے عناد اور انکی ہٹ دھرمی کی بناء پر ان کی مت مار دی جاتی ہے۔ ان کو ایسے واضح اور ٹھوس حقائق بھی سمجھ نہیں آ سکتے۔ والعیاذُ باللہ العظیم۔

۶۳.    سو یہ چیزیں تعجب و انکار کا باعث نہیں بلکہ عقلوں کو اپیل کرنے والی، اور دلوں کی دنیا کو مطمئن کرنے والی، اور ان کو حق کی طرف کھینچنے والی ہیں، کہ تمہارے پاس تمہارے رب کی نصیحت خود تم ہی لوگوں کے اندر کے ایک شخص کے ذریعے آئی ہے۔ تاکہ وہ تمہیں تمہارے انجام سے خبردار کرے اور تم لوگ اپنے رب کی نافرمانی سے بچ کر اس کی رحمتوں سے سرفراز ہو سکو۔ تاکہ اس طرح تمہاری دنیا بھی بنے اور آخرت بھی، مگر تم لوگ ہو کہ الٹا اسی کو حق سے اِعراض و رُوگردانی کا سبب گردانتے ہو۔ آخر تمہاری عقلوں کو ہو کیا گیا، اور تم لوگوں کو ایسے صاف اور واضح حقائق بھی سمجھ کیوں نہیں آتے؟

۶۴.    سو اس ارشاد سے ایک تو اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ نجات دھندہ اور مشکل کشا و حاجت روا سب کا اللہ وحدہٗ لاشریک ہی ہے۔ اور یہ اس لئے کہ حضرت نوح جیسے عظیم الشان اور جلیل القدر پیغمبر اور ان کے ساتھی بھی اسی وحدہٗ لاشریک کی حاجت روائی و مشکل کشائی کے محتاج، اور اسی کے دست نگر ہیں۔ سبحانہ و تعالیٰ، تو پھر مخلوق میں سے اور کوئی بھی ہستی حاجت روا و مشکل کشا آخر کس طرح، اور کیونکر ہو سکتی ہے اور دوسری اہم حقیقت اس سے یہ واضح فرمائی گئی ہے کہ انکار و تکذیب حق کا نتیجہ و انجام بہرحال ہلاکت و تباہی ہے۔ ایسے لوگوں کو ڈھیل خواہ جتنی بھی ملے ان کا آخری انجام بہرحال نہایت ہی ہولناک ہے۔ قوم نوح اس کی ایک نہایت واضح مثال ہے کہ صدیوں کی ڈھیل کے بعد آخرکار ان لوگوں کو اس انتہائی ہولناک انجام سے دوچار ہونا پڑا۔ جو پوری تاریخ انسانیت میں ان کے سوا اور کسی کو بھی پیش نہیں آیا، والعیاذ باللہ جل وعلا، اور تیسری اہم حقیقت یہ کہ آنکھوں کے اندھوں کا علاج تو ہو سکتا ہے، لیکن جو لوگ دل کے اندھے بن جائیں ان کا پھر کوئی علاج نہیں عمین اور عمون عمی کی جمع ہے۔ یہ لفظ آنکھوں کے اندھوں کے لئے بھی آتا ہے، اور عقل و دل کے اندھوں کے لئے بھی، یہاں پر یہ عقل و دل کے اندھوں ہی کے لئے آیا ہے، سو عقل و دل کا اندھاپا بڑا ہی ہولناک اور تباہ کن ہوتا ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا۔ فَاِنَّہَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلٰکِنْ تَعْمَی القُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ(الحج۔۴۶) والعیاذ باللہ العظیم۔

۶۵.    سو اس سے تصریح فرما دی گئی کہ حضرت ہود قوم عاد کے بھائی تھے یعنی ان کے قومی، نسلی اور نسبی اعتبار سے بھائی تھے۔ اور پیغمبر اپنی قوم کا بھائی ہی ہوتا ہے یعنی وہ قومی اور نسبی اعتبار سے ان کا بھائی ہوتا ہے، اس کے بعد اگر وہ لوگ ایمان لائیں گے تو پھر دینی اور ایمانی بھائی بھی ہو جائیں گے، ورنہ صرف نسلی اور قومی اخوت ہی رہے گی، اور یہ ایک نہایت ہی واضح حقیقت ہے جو عقل و فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے، اور جس کو قرآن و سنت کی نصوص کریمہ میں جا بجا اور طرح طرح سے واضح فرمایا گیا ہے، لیکن برصغیر کے اہل بدعت ہیں کہ انہوں نے اسی حقیقت کے اظہار و بیان پر اہلِ حق کے بعض اکابر کے خلاف ایک طوفان بدتمیزی بپا کر دیا۔ جو ان کی جہالت اور مت کا ثبوت ہے۔ والعیاذُ باللہ العظیم

۶۸.    سو قوم ہود نے اپنی دنیاوی اور مادی ترقی کے گھمنڈ میں حضرت ہود کی دعوت حق کے جواب میں یہ کافرانہ اور متکبرانہ جواب دیا کہ تم جو ہمیں قہر اور عذاب سے ڈراتے ہو یہ محض تمہاری حماقت اور خرد باختگی ہے۔ ذرہ بتاؤ کہ ہماری یہ ترقیاں جو ہمیں حاصل ہیں، جن کے نتیجے میں ہم اسطرح عیش و عشرت کی زندگی گزارتے ہیں۔ کیا یہ سب کچھ ہمارے مستحق عذاب ہونے کی علامت ہے؟ یا ہمارے منظور نظر اور صراط مستقیم پر گامزن ہونے کی؟ پس تم جو خدا کے رسول ہونے کا دعوی کرتے ہو، تو ہم اس میں تم کو محض جھوٹا سمجھتے ہیں۔ والعیاذُ باللہ۔ سو قوم کی ان انتہائی دلآزار اور نہایت گستاخانہ اور باغیانہ باتوں کے جواب میں حضرت ہود نے پیغمبرانہ متانت و سنجیدگی کے ساتھ ان لوگوں کو جواب دیا کہ مجھ میں سفاہت اور کم عقلی کی کوئی بات نہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ اس کے پیغامات کو بلا کم و کاست تم لوگوں تک پہنچا رہا ہوں۔ تاکہ خود تمہارا بھلا ہو، اور میں تمہارا قابل اعتماد خیر خواہ ہوں۔ پس تم لوگ میری اطاعت و پیروی کرو، اس میں خود تم ہی لوگوں کا بھلا اور فائدہ ہے دنیا کی اس عارضی اور فانی زندگی میں بھی، اور آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہان میں بھی جو اس کے بعد آنے والا ہے۔

۶۹.    بَصْطۃ کے معنی کشادگی پھیلاؤ اور وسعت کے ہیں، سو حضرتِ ہود نے اس ارشاد میں اللہ تعالیٰ کی بعض بڑی اور عظیم الشان نعمتوں کی تذکیر و یاد دہانی کراتے ہوئے ان لوگوں کو شکر نعمت کی تعلیم و تلقین فرمائی تاکہ اس طرح وہ فوز و فلاح سے ہمکنار و سرفراز ہو سکیں۔ سو آپ نے ان سے فرمایا کہ تم لوگوں کو اس بات پر تعجب اور اچنبھا ہو رہا ہے کہ تمہارے پاس تمہارے رب کی نصیحت تم ہی میں سے ایک شخص کے ذریعے آ گئی۔ حالانکہ یہ کسی تعجب کی چیز نہیں۔ بلکہ یہ تو تم لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا ایک عظیم الشان اور مستقل انعام و احسان ہے۔ کہ تاکہ وہ تم لوگوں کو تمہاری ہی زبان میں سمجھائے، اور اسی میں تم لوگوں کے لئے اتمام حجت کا پہلو بھی ہے۔ پھر اس واہب مطلق نے تم لوگوں پر یہ عظیم الشان انعام و احسان بھی فرمایا کہ اس نے قوم نوح کے بعد تم لوگوں کو اس تمکن اور اقتدار سے نوازا جس سے اس نے ان لوگوں کو نوازا تھا۔ مگر ان کے کفر و انکار کے نتیجے میں جو حشر و انجام ان کا ہُوا، وہ تمہارے سامنے ہے جس میں تم لوگوں کے لئے تنبیہ و تذکیر کا بڑا سامان ہے۔ اگر تم لوگوں نے اس سے کوئی سبق نہ لیا تو جو حشر و انجام ان کا ہوا وہ تمہارا بھی ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کا قانون عام اور سب کے لئے یکساں و بے لاگ ہے، اور پھر اس نے تم لوگوں کو ظاہری اور باطنی اور عقلی اور جسمانی دونوں اعتبار سے بڑی برتری اور وسعت و کشادگی سے نوازا، سو ان سب باتوں کا تقاضا یہ تھا۔ اور یہ ہے کہ تم لوگ صدق دل سے اس کی ان نعمتوں کا شکر بجا لاؤ۔ تاکہ خود تمہارا بھلا ہو اور تم فوز و فلاح سے ہمکنار ہو سکو۔

۷۱.    سو اس بدبخت قوم کے عناد اور اس کی ہٹ دھرمی کی بناء پر حضرت ہود نے ان سے فرمایا کہ کفر و شرک کی جس گندگی کو تم لوگوں نے اپنے اوپر لاد رکھا ہے اس کے باعث اللہ کا غضب اور اس کا عذاب اب تم پر آیا ہی چاہتا ہے، سو یہ تم لوگوں کی کیسی بدبختی ہے کہ تم ان بے حقیقت اور من گھڑت ناموں کے بارے میں مجھ سے جھگڑتے ہو جن کے بارے میں اللہ نے کوئی سَنَد نہیں اتاری، سو اب آخری بات کے طور پر میں تم سے کہتا ہوں کہ تم لوگ انتظار کرو اپنے انجام کی، میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں۔ تب سب کچھ تمہارے سامنے خود ہی واضح ہو جائے گا۔

۷۲.    سو اس سے حضرت ہود کی اس بدبخت قوم یعنی عاد کے آخری انجام کو بھی واضح فرما دیا گیا، اور اس کے اس ہولناک انجام کے سبب کو بھی بیان فرما دیا گیا جس کے نتیجے میں ان کو اس انتہائی ہولناک انجام سے دوچار ہونا پڑا۔ اور چند اہم اور چشم کشا درس بھی دے دیئے گئے، تاکہ لوگ اس سے درس عبرت و بصیرت لے سکیں۔ اور راہ حق و ہدایت کو اپنا سکیں، پھر اس سے ایک تو اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ حضرات انبیاء و رسل اور ان کے ساتھیوں کے حاجت روا و مشکل کشا بھی اللہ وحدہٗ لاشریک ہی ہیں، اور حضرت ہود جیسے عظیم الشان اور جلیل القدر رسول اور ان کے ساتھی بھی اللہ تعالیٰ ہی کی حاجت روائی و مشکل کشائی کے محتاج ہیں، اور جب حضرات انبیاء و رسل بھی اسی کی مشکل کشائی کے محتاج اور دست نگر ہیں تو پھر اور کوئی کس طرح مافوق الاسباب طور پر کسی کا حاجت روا و مشکل کشا ہو سکتا ہے؟ پس غلط کہتے نصوص قرآن و سنت کی خلاف ورزی کرتے اور شرک کا ارتکاب کرتے ہیں وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی عاجز و فانی اور بے بس مخلوق میں سے کچھ کو مافوق الاسباب طور پر حاجت اور  مشکل کشا قرار دے کر ان کو پوجتے پکارتے ہیں اور جو خود موت کا شکار ہو کر قبر میں چلا جائے بھلا وہ دوسروں کا حاجت روا مشکل کشا آخر کس طرح ہو سکتا ہے؟ اور دوسری اہم حقیقت اس سے یہ واضح فرما دی گئی کہ کفر و انکار اور تکذیب حق کا نتیجہ و انجام بہر کیف ہلاکت و تباہی ہے۔ ایسے لوگوں کو قدرت کی طرف سے ڈھیل جتنی بھی ملے، ان کا آخری انجام بہرکیف یہی ہے جس نے اپنے وقت مقرر اور موقع محدّد پر بہرحال واقع ہو کر رہنا ہے اسی لئے اس آیت کریمہ کے آخر میں تصریح فرما دی گئی کہ ہم نے جڑ کاٹ کر رکھ دی ان لوگوں کی جو جھٹلاتے تھے ہماری آیتوں کو اور وہ ایمان لانے والے نہیں تھے ہمارے بھیجے ہوئے رسول، اور ہمارے اتارے ہوئے پیغام حق و ہدایت پر۔ والعیاذ باللہ جل وعلا

۷۳.    سو قوم ہود نے جب اپنے پیغمبر کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اور ان سے نشانی پیش کرنے کا مطالبہ کیا تو آپ نے ان سے فرمایا کہ یہ اللہ کی اونٹنی ہے جو تم لوگوں کے لئے عذاب الٰہی کی نشانی ہے۔ اگر تم نے اس کو کوئی گزند پہنچائی، تو سمجھو کہ اس کا عذاب تم لوگوں پر آگیا۔ پس اس کو تم لوگ عذاب کے بند کی دیوار سمجھو۔ اگر تم نے اس دیوار کو توڑا تو تم کو قہر الٰہی کے سیلاب سے کوئی چیز نہیں بچا سکے گا، سو اس اونٹنی کو نَاقَۃُ اللّٰہِ یعنی اللہ کی اونٹنی کہنے کا مطلب یہ تھا کہ یہ اللہ کی نذر اور اس کے لئے نامزد ہے۔ پس یہ تخصیص اور نامزدگی اسی طرح کی تھی جس طرح کہ ہمارے یہاں ہُدی اور قلائد کے جانوروں کی نامزدگی ہوتی ہے، پس جس طرح اسلام میں ہدی اور قلائد پر حملہ کرنا ایک عظیم جرم ہے، اسی طرح ناقہ صالح کو چھیڑنا بھی ایک سنگین جرم قرار دیا گیا، کیونکہ وہ ان لوگوں کے لئے امان کی دیوار کی حیثیت رکھتی تھی، قرآن حکیم سے یا کسی صحیح حدیث سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ وہ کسی پہاڑی سے نکلی تھی جس طرح کہ بعض تفسیری روایات میں پایا جاتا ہے، اس لئے ان کی کوئی استنادی حیثیت نہیں۔ قرآن حکیم سے صرف اس قدر واضح ہوتا ہے کہ وہ گزند پہنچائے جانے کے اعتبار سے قدرت کی ایک نشانی تھی۔ اس لئے اس کا احترام لازمی تھا۔ اور اس کی بے حرمتی عذاب الٰہی کا باعث تھی، والعیاذ باللہ جل وعلا بکل حالٍ من الاحوال

۷۵.    سو اس سے قوم صالح کے ان بندگان صدق و صفا کی قوت ایمان کا اندازہ کیا سکتا ہے کہ قوم کے متکبروں نے جب ان سے یہ کہا کہ کیا تم لوگ اس بات کو جانتے ہو کہ واقعی صالح کو ان کے رب کی طرف سے رسول بنا کر بھیجا گیا ہے؟ تو انہوں نے اس کے جواب میں پوری قوت کے ساتھ کہا اور صاف و صریح طور پر، اور ایک قدم آگے بڑھ کر کہا کہ صرف جاننے کی بات نہیں، بلکہ ہم تو اس پیغام حق و ہدایت پر ایمان رکھتے ہیں، جس کے ساتھ ان کو بھیجا گیا ہے۔ اور ہم لوگ یہ یقین رکھتے ہیں کہ حق و ہدایت کی راہ وہی اور صرف وہی ہے جو اللہ کے پیغمبر کے ذریعے اللہ کے بندوں کو بتائی گئی ہے۔

۷۷.    سو حضرت صالح کی ان تنبیہات کے باوجود ان بدبختوں نے اس ناقہ خداوندی کو ہلاک کر دیا، جو ان کے لئے عذاب الٰہی کے آگے ایک بند کی حیثیت رکھتی تھی، اور اس طرح انہوں نے عذاب الٰہی کو اپنے عمل سے دعوت دے دی، اور آخرکار وہ اس کے شکنجے میں آ کر رہے، اور اس ہولناک عذاب میں مبتلا ہو کر وہ ہمیشہ کے لئے مٹ مٹا گئے، اور دنیا کے اس عذاب کے متصل بعد وہ اُخروی عذاب کا لقمہ بن گئے۔ اور اس طرح وہ ہمیشہ ہمیشہ کے عذاب میں مبتلا ہو گئے۔ سو یہی نتیجہ و انجام ہونا ہے حق کے انکار اور اس سے اِعْراض و رُوگردانی کا والعیاذُ باللہ جَلَّ وعَلَا۔

۷۸.    یہاں پر ان کے عذاب کو رَجْفَۃ کے لفظ سے تعبیر فرمایا گیا ہے جس کے معنی تھرتھراہٹ کپکپی اور شدت کی حرکت کے آتے ہیں لیکن دوسرے مقام پر اس کو صیحہ کے لفظ سے تعبیر فرمایا گیا ہے جس کے معنی چیخ اور سخت ڈانٹ کے آتے ہیں اور ایک اور جگہ اس کو صاعقہ بھی فرمایا گیا ہے، جس کے معنی بجلی کی کڑک کے آتے ہیں اور سورہ الحاقہ میں اس کو لفظ طاغیہ سے تعبیر فرمایا گیا ہے جس کے معنی حد سے بڑھ جانے والی آفت کے آتے ہیں سو اس سے لگتا ہے کہ اس بدبخت قوم کے عذاب میں یہ سب ہی سختیاں جمع ہو گئی تھیں۔ والعیاذُ باللہ العظیم۔

۷۹.    سو ناصحین اور مخلص خیر خواہوں کی ہدایات اور مخلصانہ تعلیمات سے اعراض و رُوگردانی کا نتیجہ بالآخر ہولناک تباہی کی صورت میں ہی نکلتا ہے، اس ذیل میں ایسے سرکش لوگوں کو ملنے والی مہلت اور ڈھیل سے کبھی دھوکے میں نہیں پڑنا چاہیے کہ وہ بہرحال ایک مہلت اور ڈھیل ہی ہوتی ہے جس نے بالآخر اور بہر طور اپنے وقت مقرر پر ختم ہو کر ہی رہنا ہوتا ہے۔

۸۰.    ۵ ف اس کا یہ مطلب نہیں کہ قوم لوط سے پہلے اس بے حیائی کا ارتکاب کسی فرد نے بھی نہیں کیا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مِنْ حَیْثُ المجموع اور بحیثیت قوم کسی سوسائٹی نے اس طرح اس برائی کا ارتکاب نہیں کیا اور یہ اس لئے کہ اَحَدُ کا لفظ جمع کے مفہوم میں بھی آتا ہے جیسے لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُسُلِہٖ وغیرہ جیسے اطلاقات میں پایا جاتا ہے، والعیاذ باللہ العظیم

۸۱.    ۶ ف سو تم لوگ فطرت کی حدود کو پھلانگتے ہو، اور قلب ماہیت اور خلاف وضع فطرت عمل کے مرتکب ہو رہے ہو۔ جس کا نتیجہ معاشرتی نظام کی تباہی اور فطرت سے جنگ ہے اور فطرت سے جنگ کا نتیجہ بڑا ہی ہولناک اور تباہ کن ہوتا ہے، اور اس فساد طبع کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تخلیقی قوت بالکل غلط ہدف پر برباد ہوتی ہے بنجر سیراب ہوتے ہیں اور کھیتیاں خشک ہو جاتی ہیں، جس کا نتیجہ حرث ونسل کی تباہی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے، اور فطرت سے بغاوت و جنگ کا نتیجہ بڑا ہی بھیانک ہوتا ہے والعیاذُ باللہ العظیم، یہاں پر الرجال کے لفظ کے استعمال سے ان لوگوں کے مسح فطرت کی شدت کو اور بھی واضح فرما دیا گیا۔ کیونکہ رجال پختہ سن و سال کے لوگوں کو کہا جاتا ہے سو اس سے ایک طرف تو اس فعل کے گھنونے پن کا اظہار ہوتا ہے اور دوسری طرف اس دیُّوثیّت کا بھی جو ایسی بدبخت قوم اور برے معاشرے کے اندر سرائت کر جاتی ہے اور جس کے نتیجے میں انکے اندر سے سن و سال تک کی تمیز بھی اٹھ جاتی ہے والعیاذ باللہ العظیم

۸۴.    سو اس سے بھی اس حقیقت کی تصدیق ہو گئی کہ تکذیب و انکارِ حق کا نتیجہ و انجام بہرحال ہلاکت و تباہی ہے ایسے لوگوں کو ڈھیل جتنی بھی ملے وہ بہرحال ایک ڈھیل ہی ہوتی ہے جس نے بالآخر ختم ہو جانا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تکذیب و انکار اور شر و فساد کی ہر قسم و شکل اور ان کے جملہ شوائب و علائق سے ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین۔ اور قوم لوط کا جرم چونکہ قلب ماہیت کی نوعیت کا تھا اس لئے ان کو سزا بھی وہ ملی جو کسی اور قوم کو نہیں ملی، کہ ان پر پتھروں کی بارش برسائی گئی اور ان کی بستیوں کو الٹ کر تہ و بالا کر دیا گیا جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا فَلَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَہَا سَافِلَہَا وَاَمْطَرْنَا عَلَیْہَا حِجَارَۃً مِّنْ سِجِّیْلٍ مَّنْصُوْرِ (ہود۔ ٨۲) یعنی جب ہمارا حکم آگیا تو ہم نے ان بستیوں کو تہ و بالا کر کے رکھ دیا۔ اور ان پر کھنگر کے ایسے پتھر برسائے جو تہ بہ تہ ان پر گرتے جا رہے تھے۔ والعیاذ باللہ جل وعلا اسی طرح اس ارشاد سے اس حقیقت کو بھی واضح فرما دیا گیا کہ نجات دھندہ اور حاجت روا و مشکل کشا سب کا اللہ تعالیٰ ہی ہے حضرت لوط جیسے پیغمبر بھی اس کی حاجت روائی و مشکل کشائی کے محتاج ہیں چنانچہ ان کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا فَاَنْجَیْنَاہُ وَاَہْلَہ،۔ یعنی ہم ہی نے نجات دی ان کو بھی اور ان کے متعلقین کو بھی اور تیسری حقیقت اس ارشاد سے یہ واضح فرما دی گئی کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں نجات کی اساس و بنیاد انسان کا اپنا ایمان و عقیدہ اور عمل و کردار ہے، نہ کہ کسی قوم قبیلہ سے تعلق و انتساب ورنہ بڑے سے بے بڑا رشتہ اور پیغمبر سے رشتہ اور وہ بھی زوجیت جیسا رشتہ بھی کچھ کام نہیں آ سکتا، نیز اس سے اس اہم حقیقت کو بھی واضح فرما دیا گیا کہ پیغمبر مختار کل نہیں ہوتے کہ جو چاہیں کریں۔ جس طرح کہ ہمارے یہاں کے اہل بدعت کا کہنا اور ماننا ہے ورنہ حضرت لوط کی بیوی اس ہولناک انجام سے دو چار نہ ہوتی پس اختیار کلی اللہ تعالیٰ ہی کی صفت اور اسی کی شان ہے۔ وہ اپنی حکمت و مشئیت کے مطابق جو چاہے اور جیسا چاہے کرے سبحانہ و تعالیٰ۔

۸۵.    ۱:یہاں پر پھر اس حقیقت کا اعادہ فرما دیا گیا کہ پیغمبر اپنی قوم کا بھائی ہوتا ہے یعنی نسلی قومی اور نسبی اعتبار سے پھر جو ایمان لے آئیں وہ اس کے ایمانی اور دینی بھائی بھی بن جائیں گے، ورنہ صرف نسلی اور نسبی اخوت ہی رہے گی۔ مگر قرآن حکیم کی ایسی تصریحات کے باوجود ہمارے یہاں کے اہل بدعت کو اس حقیقت کا انکار ہے والعیاذُ باللہ۔ اللہ تعالیٰ اور ہر طرح کے زیغ و ضلال، اور ان کے جملہ شوائب و علائق سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین

۲: سو اس سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ ناپ تول کو پورا کرنا، اور لوگوں کو ان کے حقوق اور انکی اشیاء پوری پوری دینا، تقاضاء ایمان و یقین ہے، ایک تو اس لئے کہ پیغمبر کی ہر بات کو ماننا اور اس کو صدق دل سے اپنانا یوں بھی تقاضائے ایمان ہے، اور پھر اس لئے کہ ناپ تول میں کمی کوئی معمولی اور منفرد نوعیت کی برائی نہیں۔ بلکہ یہ کسی قوم کے اندر بہت سی تمدنی اور معاشرتی برائیوں کے جمع ہو جانے کی علامت ہوتی ہے، جس سے معاشرے کا نظام عدل و قسط درہم برہم ہو کر رہ جاتا ہے اور خداوند قدوس نے اس پوری کائنات کو نظام عدل و قسط ہی پر پیدا فرمایا ہے، اس لئے اس نے آسمان و زمین کے اس نظام کو اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے ایک ایسی عظیم الشان میزان پر قائم فرمایا ہے کہ اگر یہ میزان پل بھر کے لئے بھی مختلف ہو جائے، تو آسمان و زمین کا یہ سارا پُر حکمت نظام درہم برہم ہو جائے، سو اس میں بندوں کے لئے یہ درس عظیم ہے کہ وہ بھی اپنے دائرہ اختیار میں ملک اور معاشرت کے نظام کو عدل و انصاف ہی پر قائم رکھیں۔ ورنہ پورے نظام کی ایک ایک چول ہل جائے گی۔ والعیاذُ با اللہ العظیم

۸۸.    ہمارے دین میں لوٹ آنے کا مطلب یہ نہیں کہ حضرت شعیب اس سے پہلے کہیں ان کے دین کفر و شرک پر تھے، والعیاذُ باللہ حضرت انبیائے کرام اللہ تعالیٰ کی توفیق و عنایت اور اس کی خاص حفاظت و رعایت کی بناء پر نبوت ملنے سے پہلے بھی کفر و شرک کے ہر شائبے سے پاک اور اس سے بری و بیزار ہوتے ہیں لیکن چونکہ نبوت سے سرفرازی سے پہلے وہ ایک قسم کی خاموش زندگی گزارتے ہیں، اور اس دوران انکی طرف سے حق کی کوئی دعوت و تبلیغ نہیں ہوتی۔ اس لئے ان کی اس خاموشی کی بناء پر منکرین و مشرکین اپنے طور پر یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ یہ حضرات بھی انہی کے دین کفر و شرک اور انہی کی ملت پر ہیں۔ لیکن جب نبوت سے سرفرازی کے بعد یہ حضرات کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام، ان لوگوں کو حق و ہدایت کی دعوت دیتے ہیں، تو اس وقت وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ ہمارے دین و ملت سے الگ ہو گئے ہیں سو اسی بناء پر ان لوگوں نے حضرت شعیب سے کہا کہ ہم تمہیں بھی اور تمہارے ایمان دار ساتھیوں کو بھی اپنی بستی سے نکال باہر کریں گے اِلاَّ یہ کہ تم لوٹ آؤ ہمارے دین میں، سو اس سے منکرین و متکبرین کی متکبرانہ ظالمانہ اور فرعونیت بھری ذہنیت کا وہ نمونہ بھی سامنے آتا ہے، جو جب سے اب تک بدستور موجود و برقرار ہے، زمانہ قدیم سے لیکر آج تک کے تمام فرعون اسی لے میں بولتے ہیں اور اہل حق سے اسی انداز میں خطاب کرتے ہیں۔ چنانچہ آج بھی جبکہ راقم الحروف اس تفسیر کی یہ سطور تحریر کر رہا ہے ہمارے ملک پر مسلط ایک فوجی ڈکٹیٹر علمائے حق اور دینی مدارس کے خلاف اسی زبان میں بولتا ہے۔ اور اپنے غیر ملکی آقاؤں کے اشاروں پر اور ان کو راضی کرنے کے لئے اسی طرح کی فرعونی منطق بگھارتا ہے، اور دن رات بگھارتا ہے، اور اس کے اعوان و انصار حق اور اہل حق کے خلاف سازشوں اور فرعونی کارروائیوں میں مشغول منہمک اور اس فوجی ڈکٹیٹر کی ہاں میں ہاں ملاتے جا رہے ہیں، اِلاَّ ماشاء اللہ۔ جَعَلَ اللّٰہُ کَیْدَہُمْ فِیْ نُحُوْرِہِمْ وَاَعَاذنَا مِنْ سُّرُوْرِہِمْ۔

۸۹.    سو اس سے حضرات انبیاء کرام کی شان عبدیت و انابت اور ان کے کمال توحید و اعتدال کا نمونہ سامنے آتا ہے، حضرت شعیب نے اپنی قوم کے ان متکبر سرداروں کی اس دھمکی کے جواب میں پہلے تو اس حقیقت کا صاف و صریح طور پر اور واشگاف انداز میں جواب دے دیا کہ اب ہمارے لئے تمہاری اس ملت کفر و شرک میں واپس آنے کا کوئی سوال و امکان نہیں، اس کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس سے نجات عطاء فرما دی، مگر یہ کہ اللہ چاہے جو کہ ہمارا رب ہے کہ معاملہ سب کا سب اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے، اور اس کی مشیت سب پر حاوی و غالب ہے، اس کی آزمائشوں میں کامیاب ہونا اسی کی توفیق و عنایت ہی پر منحصر ہے، اور یہ اسی کے علم میں ہے کہ کس کے لئے کیا مقدر ہے، اور کس کا انجام کیا ہونا ہے۔ ہمارا بھروسہ بہرحال اسی پر ہے۔ اسی نے ہمیں راہ حق و ہدایت سے سرفراز فرمایا ہے، اور اسی سے امید ہے کہ وہ ہمیں ٹھکانے لگائے گا۔ سو اس ارشاد کے پہلے حصے میں انہوں نے راہ حق پر استقامت کے لئے اپنے عزم بالجزم کا اظہار فرمایا۔ اور دوسرے میں تفویض الی اللہ کا، اور یہی اصل حقیقت ہے عقیدہ توحید کی، کہ راہِ حق پر استقامت کے لئے عزم بالجزم بھی پورا ہو۔ اور تفویض الی اللہ بھی کامل درجے میں، وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، وہو الہادی الی سواء السبیل۔

۹۳.    سو اس سے پیغمبر کی رحمت و شفقت اور ان کی اپنی قوم سے ہمدردی و عنایت کا نمونہ سامنے آتا ہے۔ کہ حضرت شعیب نے اپنی اس بدبخت اور متکبر قوم کی تمام تر دل آزاریوں کے باوجود ان سے خطاب کر کے ارشاد فرمایا کہ میں نے تو تم لوگوں کو اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیئے۔ تمہاری خیر خواہی کی پوری کوشش کی۔ اور اس کے لئے دن رات ایک کر دیئے، مگر تم لوگوں نے میری بات پر کان نہ دھرا، اور تم اپنا بیڑا غرق کرنے پر تل گئے۔ تو اب میرے لئے تمہارے اس ہولناک انجام پر افسوس کرنے اور ترس کھانے کا کیا موقع باقی رہا۔ تم لوگ اپنے کئے کرائے کے نتیجے میں، اور اپنے عناد و ہٹ دھرمی کی بناء پر اپنے آخری انجام کو پہنچ گئے ہو۔

۹۴.    باساء اور ضراء کے دونوں لفظوں کے معنی آپس میں قریب قریب ہیں۔ لیکن جب یہ دونوں لفظ ایک ساتھ اور اکٹھے بولے جاتے ہیں، جیسا کہ اس آیت کریمہ میں ہے تو اس وقت ان کے درمیان معنی و مفہوم کے اعتبار سے یہ فرق ہوتا ہے کہ اس میں باساء سے مراد مالی مصیبتیں ہوتی ہیں جیسے گرانی، قحط سالی، اور کساد بازاری، وغیرہ، اور ضراء سے مراد جسمانی مصیبتیں ہوتی ہیں، جیسے مختلف وبائیں اور بیماریاں وغیرہ۔ والعیاذُ باللہ سو اس سے قدرت کی ایک سنت کو بیان فرمایا گیا ہے جو اس ارشاد ربانی کے مطابق ہر پیغمبر کی بعثت کے ساتھ ہمیشہ ظاہر ہوئی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ جب پیغمبر اللہ کا پیغام سناتا ہے۔ اور حق کی منادی شروع کرتا ہے، تو اس کے ساتھ ہی اللہ پاک کی اس کائنات میں مختلف محرکات اور مؤیدات بھی ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ سو ایک طرف پیغمبر لوگوں کو حق کا پیغام پہنچاتے ہیں اور ان کو تکذیب و انکار کے عواقب و نتائج سے خبردار کرتے ہیں۔ اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے مختلف مصیبتوں اور عذابوں کے ذریعے ان لوگوں کو جھنجھوڑنے کا سامان کیا جاتا ہے۔ تاکہ اس طرح وہ لوگ دیکھیں اور درس عبرت لیں جن کے پاس دیدہ عبرت نگاہ موجود ہو۔ اور ان کے سامنے یہ حقیقت واضح ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ جب چاہے اور جیسے چاہے ان کو پکڑ سکتا ہے اور اس کی پکڑ سے کوئی بھی کسی کو بچا نہیں سکتا۔ سو اس طرح گویا دعوت حق کے ساتھ واقعات کی تائید اور عقل و فطرت کی شہادت کے ساتھ مشاہدہ کی اثر انگیزی بھی جمع ہو جاتی ہے، تاکہ جن لوگوں کے اندر اثر یزیری کی کچھ بھی رمق موجود ہو، وہ صدق دل سے حق کے آگے جھک جائیں۔ اور اپنی اصلاح کر لیں۔

۹۵.    سو جن لوگوں کے پاس دیکھنے والی آنکھیں، اور اثر قبول کرنے والے دل ہوتے ہیں، وہ ان آزمائشوں اور مصیبتوں سے فائدہ اٹھا کر اپنے خالق و مالک کے حضور جھک جاتے ہیں، اور توبہ و اصلاح کے ذریعے اپنی بگڑی بنا لیتے ہیں۔ اور ان کو پیغمبر کی دعوت اپنے دل کی آواز اور فطرت کی پکار معلوم ہونے لگتی ہے۔ اور دعوت حق کی باز گشت ان کو کائنات کے تمام عناصر میں سنائی دینے لگتی ہے۔ لیکن جن کے دل پتھر اور ان کے کان بہرے ہو جاتے ہیں، ان کے لئے سنت الٰہی پھر دوسرا رخ اختیار کرتی ہے اور ان کو مزید ڈھیل ملتی ہے اور ان کو بدحالی کے بجائے خوشحالی، اور تنگی کے بجائے آسودگی بخشی جاتی ہے، ان کو ہر طرف ترقی اور فراوانی کے آثار میسر آتے ہیں۔ جس سے وہ مست ہو کر اللہ کے پیغمبر کا مذاق اڑانے لگتے ہیں، اور وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ہم ٹھیک جا رہے ہیں، اور جو کچھ ہم کرتے ہیں وہ سب ٹھیک اور درست ہے، یہاں تک کو ان کو اللہ کے عذاب میں اس طرح اچانک دھر لیا جاتا ہے کہ ان کو اس کا احساس و شعور ہی نہیں ہوتا۔ والعیاذُ باللہ العظیم

۱۰۰.  سو اس سے اللہ پاک کی اس سنت اور اس کے قانون و دستور کا حوالہ دیا گیا ہے جس کا ذکر قرآن پاک میں مختلف مواقع میں فرمایا گیا ہے، اور اس کو طرح طرح سے واضح فرمایا گیا ہے وہ یہ کہ جو لوگ اپنے عناد اور ہٹ دھرمی سے باز نہیں آتے، ان کے دلوں پر مہر کر دی جاتی ہے جو کہ عذاب الٰہی کا مقدمہ ہوتی ہے پھر آخرکار ان کو ان کے عذاب میں دھر لیا جاتا ہے جیسا کہ سورہ انعام کی آیت نمبر۴۶ میں اس بارے ارشاد فرمایا گیا کہ ان سے پوچھو کہ اگر اللہ چھین لے تم لوگوں سے'تمہارے کان، اور سلب کر لے تم سے تمہاری آنکھیں، اور مہر لگا دے وہ تمہارے دلوں پر، تو پھر کونسا معبود ایسا ہو سکتا ہے جو تم لوگوں کو یہ چیزیں واپس دے سکے سو اس ارشاد سے منکرین و معاندین کو تنبیہ فرمائی گئی ہے کہ ابھی تک تو ہم نے ان کے دلوں پر مہر نہیں لگائی۔ لیکن اگر ہم چاہیں تو ان کے عناد اور ہٹ دھرمی پر ایسا کر دیں۔ جس کے بعد یہ سننے سمجھنے سے محروم ہو کر رہ جائیں؟ والعیاذُ باللہ العظیم۔

۱۰۱.  سو اس سے اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ پہلی امتوں کے پاس جب ان کے رسول نہایت واضح اور کھلی نشانیاں لے کر آئے تو وہ لوگ ان پر ایمان لانے کے بجائے الٹا ان کو جھٹلاتے ہی گئے تو آخرکار وہ ایمان کی توفیق ہی سے محروم ہو گئے۔ کیونکہ آدمی کی طبیعت یہ ہے کہ جب وہ اللہ تعالیٰ کی عام آیات سے رُو گردانی کا عادی ہو جاتا ہے تو آہستہ آہستہ اس کا دل ایسا پتھر بن جاتا ہے کہ رسولوں کے ذریعے جو خاص نشانیاں ظاہر ہوتی ہیں وہ بھی اس پر کارگر نہیں ہوتیں۔ اور وہ ان پر بھی ایمان نہیں لاتا۔ سو یہی طریقہ ہے اللہ تعالیٰ کے یہاں سے دلوں پر مہر لگنے کا۔ کیونکہ دل کا اصل کام تعقل و تفکر اور عبرت پذیری و سبق آموزی ہے۔ سو اگر کوئی شخص یا گروہ اپنی خواہشات کی پیروی میں اندھا بہرا بن جاتا ہے۔ اور تنبیہ و تذکیر کے بعد بھی وہ دل کی آنکھیں نہیں کھولتا تو ایسوں کے دل سپاٹ، اور ان کی آنکھیں اندھی ہو کر رہ جاتی ہیں جس کے نتیجے میں وہ حق کو دیکھنے اور سمجھنے کے اہل ہی نہیں رہتے جو کہ محرومیوں کی محرومی ہے۔ والعیاذُ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین،

۱۰۲.  سو اس سے دلوں پر مہر لگنے کا اثر و نتیجہ بیان فرمایا گیا کہ ایسے لوگ جن کے دلوں پر ان کے عناد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے مہر لگا دی جاتی ہے، وہ اندھے بہرے ہو کر رہ جاتے ہیں، اور ان کی مت مار کر رکھ دی جاتی ہے۔ جس کے بعد ان پر کوئی بھی نشانی اثر نہیں کرتی۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَاِنْ یَّرَوْا کُلَّ ایَٰۃٍ لاَّ یُؤْمِنُوْا بِہَا الایٰۃ(الانعام۔۲۵) یعنی اگر ایسے لوگ ہر نشانی دیکھ لیں تو بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے۔ اور اسی حقیقت کو سورہ اعراف میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے۔ وَاِنْ یَّرَوْا کُلَّ ٰایَۃٍ لاَّیُؤْمِنُوْا بِہَا، وَاِنْ یَّرَوْا سَبِیْلَ الرُّشْدِ لَا یَتَّخِذُوْہُ سَبِیْلاً وَ اِنْ یَّرَوْا سَبِیْلَ الْغَیِّ یَتَّخِذُوْہُ سَبِیْلاً الایٰۃ (اعراف۔۱۶۴) یعنی ایسے لوگ اگر ہر نشانی دیکھ لیں تو بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے، اور اگر یہ ہدایت کی راہ دیکھ لیں تو بھی اس کو نہیں اپنائیں گے۔ اور اگر گمراہی کا راستہ دیکھیں گے تو اس کو اپنا راستہ بنالیں گے۔ اور اسی مضمون کو سورہ انعام کی آیت نمبر۱٠٩ اور آیت نمبر۱۱٠ میں مزید وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے زیغ و ضلال اور اس کے جملہ شوائب و علائق سے ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت وپ ناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین

۱۰۷.  ثعبان اژدہا کو کہا جاتا ہے اور اس کے ساتھ مبین کی صفت لگا کر اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ وہ کوئی خیالی اور شعبدہ بازی کی نوعیت کی چیز نہ تھا، بلکہ سچ مچ کا اور ایک کھلم کھلا اژدہا تھا، اور ایسا کھلم کھلا کہ اس کے بارے میں کسی شک و شبہہ کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ بلکہ وہ اپنی تمام خصوصیات اور صفات کے ساتھ ایک اژدہا تھا۔ بہرکیف فرعون کے لئے یہ بات چونکہ نہایت ہی حیران کن اور غیظ و غضب میں ڈالنے والی بات تھی کہ ایک شخص اور وہ بھی اسی کی رعیت اور غلام قوم میں کا ایک شخص خدا کا رسول بن کر آئے۔ جبکہ فرعون خود اپنے تئیں خدائی کا دعویدار بنا ہوا تھا۔ بلکہ وہ اپنے آپ کو سب سے بڑے دیوتا یعنی سورج کا اوتار اور لوگوں کا رب اعلیٰ بنا ہوا تھا۔ اور وہ لوگوں سے کہتا تھا اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلیٰ۔ سو ایسے میں حضرت موسیٰ کی طرف سے آنجناب کے اللہ تعالیٰ کے رسول بن کر آنے کے دعوے اور اعلان سے اس کو بہت تعجب بھی ہوا۔ اور اس کے سخت غیظ و غضب کا باعث بھی۔ اس لئے اس نے چھوٹتے ہی اور غضبناک انداز میں حضرت موسیٰ سے کہا کہ لاؤ تم پیش کرو کوئی نشانی، اگر تم واقعی سچے ہو اپنے اس دعوی رسالت میں۔ تو اس پر حضرت موسیٰ نے عصا اور ید بیضاء کے دونوں معجزے اس کے سامنے پیش کر دیئے۔

۱۰۸.  سو حضرت موسیٰ کے اس دوسرے معجزے کے ساتھ بھی للناظرین کی قید لگا کر یہ واضح فرما دیا گیا کہ آنجناب کے ہاتھ کی وہ سفیدی اور چمک کوئی فریب نظر کی نوعیت کی چیز نہیں تھی بلکہ وہ ایک ایسی حقیقی چیز تھی جس کی تابانی غور و تامل سے دیکھنے والوں کو حقیقی معلوم ہوتی تھی اور یہ اس لئے کہ نظر کا لفظ اصل عربی کے اعتبار سے غور و تامل کے ساتھ دیکھنے ہی کے معنی میں آتا ہے۔ بہرکیف اس طرح حضرت موسیٰ نے فرعون کے مطالبے کے جواب میں اپنی صداقت و حقانیت کے ثبوت اور اس کی تائید کے لئے عصا اور ید بیضا کے یہ دونوں معجزے اس کے سامنے پیش کر دیئے۔

۱۱۳.  سو ان جادوگروں نے فرعون کے دربار میں پہنچتے ہی پیشہ وروں کے عام طریقہ کے مطابق خوشامدانہ انداز میں فرعون سے کہا کہ اگر ہم یہ بازی جیت گئے تو ہمیں اس کے صلے میں کیا ملے گا؟ تو اس کے جواب میں فرعون نے ان سے کہا کہ تم لوگوں کو انعام جو ملنا ہے وہ تو ملے گا ہی لیکن اس پر مزید نوازش یہ ہو گی کہ اس کے بعد تم لوگ ہمارے خاص مقربین میں شامل ہو جاؤ گے، تمہیں ہمارے دربار میں خاص عزت و احترام اور تعظیم و توقیر سے نوازا جائے گا،

۱۱۶.  سو اس سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ سحر سے کسی شیئ کی حقیقت نہیں بدلتی بلکہ اس کا تمام تر تعلق محض دیکھنے والوں کی نظر اور انکی قوت متخیلہ سے ہوتا ہے۔ اس لئے سحر سے جو کرشمہ ظاہر ہوتا ہے وہ یکسر باطل، جھوٹ، اور نظر و تخیل کا فریب ہوتا ہے جبکہ معجزہ ایک حقیقت ہوتا ہے، وہ جیسا دیکھنے میں نظر آتا ہے حقیقت میں بھی ویسے ہی ہوتا ہے۔

۱۱۸.  سو جب جادوگروں نے اپنا سحر دکھا دیا۔ اور اس کے اثر سے ان کی رسیاں اور لاٹھیاں لوگوں کو سانپوں کی طرح رینگتی نظر آنے لگیں، تو حضرت موسیٰ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت ہوئی کہ اپنا عصا زمین پر ڈال دو۔ وہ اژدہا بن کر ان تمام نمائشی سانپوں سنپولیوں کو ہڑپ کر جائے گا۔ سو ایسے ہی ہوا، اور اس طرح حضرت موسیٰ کے معجزہ عصا کے ظاہر ہوتے ہی ساحروں کا رچایا ہوا وہ سارا سوانگ، اور ان کا بپا کردہ وہ سارا طلسم غائب ہو گیا۔ اور حق غالب آگیا۔ والعیاذُ باللہ العظیم، اور مغلوب ہو جانے کے اس مظاہرے کا تعلق صرف جادوگروں سے نہیں تھا۔ بلکہ اس کا اصل تعلق فرعون اور اس کے اعوان و انصار کے ساتھ تھا۔ جو کہ بڑے طمطراق اور جشن فتح منانے کے پروگرام کے ساتھ اس میدان مقابلے میں آئے تھے۔ لیکن اپنی اس رسوا کن شکست کے ساتھ وہاں سے نہایت ذلیل و خوار ہو کر لوٹے، ان کے کئے کرائے پر نہ صرف یہ کہ پانی پھر گیا۔ بلکہ ان لوگوں کا وہ سارا اہتمام غلبہ حق کے مظاہرے اور اس کی تشہیر کا ذریعہ بنا۔ والحمد للہ جل وعلا،

۱۱۹.  سو فرعون اور اس کے اعوان و انصار نے جس بڑے پیمانے پر اس مقابلے کا اہتمام کیا تھا اس کو انہوں نے میلے کے دن اور ایک کھلے میدان میں منعقد کرایا تھا، جیسا کہ دوسرے مقام پر اس کی تصریح موجود ہے، اور ملک بھر سے لوگوں کو اس کے لئے بطور خاص بلایا گیا تھا تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں جمع ہوں۔ اور اسطرح ان کے سامنے اپنی فتح کا ڈنکا پوری دھوم دھام سے بجایا جائے۔ مگر میدان مقابلہ میں نتیجہ اس کی توقعات کے بالکل الٹ نکلا۔ اور ان کو ایسی ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا کہ کہیں منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔ اور سرکاری خرچ اور اہتمام پر فرعون کی طرف سے جمع کردہ لوگوں کا وہ ہجوم فتح حق کی تشہیر اور اس کی منادی کا ایک بے مثال ذریعہ بن گیا، والحمد للہ جَلَّ وَعَلَا

۱۲۰.  یہاں پر اُلْقِیَ ماضی کا صیغہ استعمال فرمایا گیا ہے، جو کہ دراصل ان کے غیر اختیاری اور بے ساختہ تأثر اور مغلوبیت کا اعلان و اظہار تھا، سو حضرت موسیٰ کے اس عظیم الشان اور بے مثال معجزے کے دیکھنے سے ان حضرات پر ایسا اثر ہوا کہ وہ بے ساختہ اور بلا اختیار سجدے میں گر پڑے اور تعظیم و تکریم کے لئے سجدے کا رواج اس زمانے میں مصریوں اسرائیلیوں اور عربوں سب ہی میں موجود تھا۔ اگرچہ اکثر حالات میں اس کی حد وہی ہوتی تھی جو ہمارے یہاں نماز کے رکوع کی ہوتی ہے۔ لیکن غیر اللہ کے لئے اس قسم کی تعظیم کا رواج بہرحال موجود تھا بہرکیف معجزہ موسوی کی تاثیر اور اس کی اثر آفرینی سے مقابلے پر آئے ہوئے وہ سب ماہر جادوگر بلا اختیار سجدے میں گر پڑے۔ جس سے حق کا غلبہ سب کے سامنے واضح ہو گیا۔ اور فرعون کی تدبیر خود اس کے خلاف پڑی۔ والحمدللہ جل وعلا

۱۲۲.  سو انہوں نے رب العالمین پر اپنے ایمان کا ڈنکے کی چوٹ اعلان کر دیا۔ اور ساتھ ہی یہ تصریح بھی کر دی کہ ہم اس رب پر ایمان لے آئے جس کو موسیٰ اور ہارون اپنا رب مانتے ہیں، اور اس طرح انہوں نے فرعون کی خدائی کا بھی واضح الفاظ میں انکار کر دیا۔ سو ان کے اس اعلان حق ترجمان سے سارے مجمع پر جو اثر پڑا ہو گا۔ اور فرعون اور اس کے درباریوں کو جس ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا ہو گا۔ اس کا پورا اندازہ ہی کون کر سکتا ہے والحمد للہ رب العالمین۔

۱۲۴.  سو فرعون کی ان فرعونی دھمکیوں سے جہاں ایک طرف اس کی بوکھلاہٹ کا اندازہ ہوتا ہے، وہیں اس سے اس کے ڈھیٹ پنے اور سٹنٹ بازی کی سیاست کا بھی پتہ چلتا ہے، کہ ان تمام جادوگروں کو وہ ملک کے کونے کونے سے خود سرکاری طور پر اور بطور خاص موسیٰ کے مقابلے کے لئے بلا کر لایا، اور اب ان کے اعلان حق کے بعد انہی سے کہتا ہے کہ یہ سب کچھ تم لوگوں کی ملی بھگت اور باہمی سازش تھی۔ جو تم لوگوں نے اس ملک میں رچائی تھی۔ تاکہ اس طرح تم لوگ اس ملک کے باشندوں کو اس سے نکال باہر کرو۔ اور سیاسی لوگوں کی سٹنٹ بازی کی یہ ملعون سیاست جب سے اب تک موجود و برقرار رہے، اِلاَّ ماشاء اللہ، اپنی کرسی اور اقتدار کی بقاء کے لئے ایسے لوگ ہر حربہ اختیار کرتے اور ہر قسم کی سٹنٹ بازی سے کام لیتے ہیں۔ والعیاذُ باللہ العظیم

۱۲۶.  سو اس سے قوت ایمان و یقین کی انقلاب آفرینی کا کرشمہ اور اس کا مظہر و نمونہ ملاحظہ ہو کہ کہاں یہ لوگ ابھی کچھ ہی دیر قبل مقابلے میں جیتنے پر اپنے لئے خاص انعام و اکرام کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اور کہاں اب یہی ہیں کہ لذت ایمان سے سرشاری و آشنائی اور قوت یقین سے سرفرازی کے بعد اپنے دین و ایمان کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اور فرعون کی ان خوفناک دھمکیوں کو پر کاہ کی حیثیت بھی نہیں دیتے۔ فسبحان اللہ العظیم وسبحان اللہ وبحمدہ بکل حال من الاحوال، وفی کل موطنٍ من المواطن فی الحیاۃ

۱۲۸.  سو اس سے اصل حقیقت کو بھی واضح فرما دیا گیا کہ یہ زمین اللہ ہی کی ہے وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے اس کا وارث بنا دے۔ اور اس ارشاد سے فرعون کے اس فرعونی دعوے کی تردید بھی فرما دی گئی۔ جس کا اعلان اس نے اپنے فرعونی تکبر میں وَ اِنَّا فَوْقَہُمْ قَاہِرُوْنَ کے الفاظ سے کیا تھا۔ پس اس سے واضح فرما دیا گیا کہ زمین کا اصل مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے وہی اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اپنی مشیت سے اور اپنی حکمت کے تقاضوں کے مطابق اس کا مالک بنا دیتا ہے اور آخرکار کامیابی انہی لوگوں کے لئے ہے جو اپنے خدا سے ڈرتے رہتے ہیں۔ وباللہ التوفیق لمایحب ویرید وعلی مایحب ویرید،

۱۲۹.  سو اس سے استخلاف فی الارض یعنی زمین کی خلافت عطاء فرمائے جانے کے اصل مقصد کی تذکیر و یاد دہانی فرما دی گئی کہ اس سے مقصود بندوں کا امتحان اور ان کی ابتلاء و آزمائش ہوتی ہے، یعنی یہ کہ کسی قوم کو اقتدار بخش کر اس کی آزمائش کی جاتی ہے کہ وہ اقتدار کو پا کر کیا رویہ اختیار کرتی ہے؟ حضرت واہب مطلق جل جلالہ، کے آگے جھکتی اور اس کا شکر بجا لاتی ہے یا غفلت و ناشکری کی راہ کو اپنا کر بغاوت و سرکشی پر اتر آتی ہے والعیاذُ باللہ۔ پھر پہلی صورت اختیار کرنے والوں کو وہ دنیا و آخرت دونوں میں اپنے ان خاص انعامات سے نوازتا ہے جس کا انہوں نے اپنے عمل و کردار سے اپنے آپ کو اہل اور مستحق بنایا ہوتا ہے، جبکہ دوسری صورت میں وہ ایسے باغیوں کو بالآخر اپنی گرفت و پکڑ میں لے لیتا ہے تاکہ اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہوں جو کہ تقاضا ہے عقل و نقل دونوں کا، والحمد للہ علی کل حال

۱۳۰.  اور اس طرح یہ لوگ بغاوت و سرکشی کو ترک کر کے اطاعت و عبدیت کی راہ کو اپنائیں اور اپنے لئے دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کی راہ ہموار کریں۔ سو اس اعتبار سے مصائب و آلام کے اندر بھی رحمت و عنایت خداوندی کا ایک خاص اور اہم پہلو پایا جاتا ہے، کہ اس سے انسان کی اکڑی ہوئی گردن میں خم آتا ہے اور وہ اپنے خالق و مالک کی طرف رجوع کرتا۔ اور اس کے آگے جھک کر اپنے لئے دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا سامان کرتا ہے وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلیٰ مایحب ویرید

۱۳۱.  سو اکثر لوگ چونکہ اصل حقیقت کو جانتے نہیں، اور وہ حق اور حقیقت کے علم سے غافل اور بے بہرہ ہوتے ہیں اس لئے وہ طرح طرح کے اوہام و خرافات میں مبتلا ہوتے ہیں اور اسی کے نتیجے میں وہ اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہونے کے بجائے اپنے جرم و قصور کا الزام دوسروں کے سر پر ڈالتے ہیں سو اس طرح جب فرعونیوں پر کوئی مصیبت آتی تو وہ اپنی غلطی اور کوتاہی کی طرف متوجہ ہونے کے بجائے الٹا اس کو حضرت موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کی نحوست قرار دیتے۔ کہ انہی کی وجہ سے آسمانی اور زمینی دیوتا ہم سے ناراض ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے ہم لوگوں پر اس طرح کی مصیبتیں آرہی ہیں۔ سو اس کی تردید میں ارشاد فرمایا گیا کہ آگاہ رہو کہ ان کی نحوست اللہ تعالیٰ کے یہاں ہے۔ یعنی ان کی نحوست ان کی اپنی بد اعمالیوں کا نتیجہ ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے قانون و ضابطہ کے مطابق ان کے اعمال پر مترتب ہوتی ہے، لیکن ان کی اکثریت اس حقیقت کو جانتی نہیں، سو انسان کی سعادت و نحوست کا اصل تعلق اس کے اپنے عقیدہ و ایمان، اور عمل و کردار سے ہے اور ہر انسان اپنی نحوست کا ذمہ دار خود ہے، جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے ارشاد فرمایا گیا اور صاف و صریح طور پر ارشاد فرمایا گیا وَکُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰـہُ طٰائِرَہ، فِیْ عُنُقِہٖ الایٰۃ (الاسراء۔۱۳) یعنی ہر انسان کی نحوست اور اس کے نصیبے کو ہم نے اس کے گلے میں مڑھ دیا ہے۔

۱۳۵.  سو اس سے ان لوگوں کی بدبختی اور ان کی عہد شکنی کا نمونہ و مظہر سامنے آتا ہے کہ جب ان کو کوئی مصیبت آتی تو وہ بڑی لجاجت اور منت سماجت کے ساتھ حضرت موسیٰ سے عرض کرتے کہ آپ اپنے رب سے اس عہد کی بناء پر جو اس نے آپ سے فرما رکھا ہے، یعنی یہ کہ وہ آپ کی بات سنتا، اور آپ کی دعاء قبول کرتا ہے۔ سو آپ اس کے اس عہد کی بناء پر ہمارے لئے اس کے حضور دعاء کریں کہ وہ اس عذاب کو ہم سے دور کر دے۔ اگر آپ کی دعاء و سفارش سے اس کا یہ عذاب ہم سے ٹل گیا تو ہم ضرور بالضرور آپ کی بات بھی مانیں گے، اور بنی اسرائیل کو بھی آپ کے ساتھ جانے دیں گے۔ لیکن جونہی ہم ان سے اس عذاب کو ایک ایسی مدت تک کے لئے دور کر لیتے جس کو انہوں نے بہرحال پہنچنا ہوتا تھا، تو وہ یکایک اپنے عہد کو توڑ ڈالتے۔ سو عہد شکنی اور وعدہ خلافی ایسے بد باطن لوگوں کا پرانا وطیرہ ہے ایسوں کے اندر جو جب سے اب تک قائم و موجود ہے والعیاذُ باللہ العظیم

۱۳۶.  یعنی ان کو جتنی ڈھیل ملنا تھی وہ مل گئی۔ اور آخرکار ان کے ان جرائم کا ان سے انتقام لیا گیا۔ اور وہ اپنے ہولناک انجام کو پہنچ کر رہے۔ اور ان کو سب کی آنکھوں کے سامنے اور ان کے دیکھتے ہی دیکھتے غرق آب کر دیا گیا۔ سو اللہ تعالیٰ کی آیتوں کی تکذیب اور ان سے اعراض و رُوگردانی اور غفلت برتنے کا نتیجہ و انجام بہرحال بڑا ہی ہولناک ہوتا ہے، اس سلسلہ میں جتنی بھی ڈھیل کسی کو ملے، وہ بہرحال ڈھیل ہی ہوتی ہے۔ جس نے بالاخر اپنے وقت مقرر پر ختم ہو جانا ہوتا ہے، پس اس سے کبھی اس کے دھوکے میں نہیں پڑنا چاہیے والعیاذُ باللہ العظیم بکلِ حالٍ من الاحوال۔

۱۳۷.            ۱:یعنی کسی کو اس کا یہ وعدہ کہ ان کو ہم اس زمین کا وارث بنائیں گے، اور ان کو اس کا اقتدار بخشیں گے، جیسا کہ اس سورہ کریمہ کی آیت نمبر۱۲٨ اور آیت نمبر۱۲٩ میں ارشاد فرمایا گیا ہے، اور جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے ارشاد فرمایا گیا وَنُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَنَجْعَلَہُمْ أَئِمَّۃً وَّنَجْعَلَہُمُ الْوٰارِثِیْنَ (القصص۔۵) یعنی فرعون تو ان کو اپنے جبر و قہر کی بناء پر ہمیشہ دبا کر اور غلام بنا کر ہی رکھنا چاہتا تھا۔ لیکن ہم چاہتے تھے کہ ان دبا کر رکھے گئے مظلوموں پر احسان کریں ان کو اس ظلم سے نکال کر اور ان کو امام و پیشوا بنائیں۔ اور ان کو اس زمین میں اقتدار کا وارث بنائیں سو اپنے اس وعدے کو ہم نے پورا کر دیا۔

۲:  سو اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ راہ حق پر صبر و استقامت ذریعہ فتح وظفر ہے اور بِمَاصَبَرُوْا کے ان کلمات کریمہ سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ قوموں پر اللہ تعالیٰ کے جو انعامات ہوتے ہیں وہ ان کے اوصاف اور عمل و کردار ہی پر مبنی ہوتے ہیں یہ نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ محض کسی خاندان اور نسب کی بناء پر کسی کو اپنا محبوب اور چہیتا بنا دے، جیسا کہ یہود و  نصاریٰ کا کہنا تھا نَحْنُ اَبْنَاءُ اللّٰہِ وَاَحِبُّاءُ ہ، یعنی ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں، سو یہ سب ان لوگوں کی من گھڑت باتیں ہیں، جن کی نہ کوئی اصل ہے نہ بنیاد اور نہ ہی ان کی کوئی اصل اور بنیاد ہو سکتی ہے۔

 ۳: سو اپنی جس مادی تعمیر و ترقی پر فرعونیوں کو بڑا ناز تھا وہ ان کے کچھ کام نہ آ سکی، ان کی شاندار تعمیرات، اونچے اونچے محلات، اور سرسبز و شاداب باغات، وغیرہ سب کچھ اجڑ کر رہ گیا۔ سو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فرعونیوں پر ان کی غرقابی کے علاوہ اور بھی تباہی آئی تھی جس نے ان کے محلات اور باغات وغیرہ کو اجاڑ کر رکھ دیا تھا۔ والعیاذ باللہ العظیم

۱۳۸.  یعنی سمندر پار کرتے ہی جب ان لوگوں کا گزر ایک ایسی مشرک قوم پر ہوا جو اپنے ہاتھوں کے گھڑے ہوئے بتوں پر چپکی بیٹھی تھی۔ تو شرک کے قدیم رسیا، اور بت پرستی کے یہ پرانے روگی، اور ان لوگوں کو دیکھتے ہی ان پر ریجھ گئے اور توحید و وحدانیت خداوندی کے لئے حضرت موسیٰ جیسے جلیل القدر پیغمبر کی بے مثال تعلیم و تلقین کے باوجود ان کے اندر ان کے شرک و بت پرستی کے قدیم جراثیم پھر سے عود کر آئے اور انہوں نے فوراً موسیٰ سے یہ مطالبہ کر دیا کہ اے موسیٰ تم ہمارے لئے بھی ایسے ہی معبود گھڑ دو جیسے کہ ان لوگوں کے معبود ہیں، سو اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے، کہ مصر کی غلامی، اور وہاں کے مشرکانہ ماحول کی بود و باش سے شرک کے اثرات ان لوگوں کے اندر کس قدر گہرے ہو چکے تھے، اور ان لوگوں کی ذہنی اور اخلاقی سطح کس قدر پست ہو چکی تھی، کہ یہ لوگ حضرت موسیٰ کی براہ راست تعلیم و تبلیغ، اور قدرت کے جلال و جمال کی اس قدر عظیم واضح شانیں دیکھنے کے باوجود یہ لوگ مشرکوں کے ایک ٹولے کو دیکھتے ہی ان پر ریجھ گئے، اور یہ جسارت و بیباکی کی اس حد تک پہنچ گئے کہ حضرت موسیٰ جیسے جلیل القدر پیغمبر سے بھی اسی طرح کے بت اپنے لئے بنانے کی درخواست کرتے ہیں سو قدیم مالوفات اور پرانی عادتوں کو چھوڑنا آسان نہیں ہوتا۔ اسی لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فتح مکہ کے بعد مشرکوں اور شرک کے تمام آثار و نشانات کو یکسر مٹانے کے احکام جاری فرما دئیے تھے۔ تاکہ خام ذہن اور کمزور قسم کے لوگوں کے لئے یہ چیزیں بعد میں فتنہ نہ بن جائیں، علیہ افضل الصلوٰات، واتم السلیمات۔

۱۴۰.  سو حضرت موسیٰ نے ان لوگوں کے اس مطالبہ کے جواب میں ان کے قلوب و ضمائر کو جھنجھوڑتے ہوئے ان سے فرمایا کہ یہ لوگ جو کچھ کرنے میں لگے ہوئے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے یہاں تباہ و برباد ہے۔ اور جو کام یہ لوگ کر رہے ہیں وہ سراسر باطل ہیں، تو کیا تم لوگ مجھ سے یہ چاہتے ہو کہ میں اللہ تعالیٰ کے سوا تمہارے لئے کوئی اور معبود تلاش کروں؟ حالانکہ اسی وحدہٗ لاشریک نے تم لوگوں کو سب جہانوں پر فضیلت و فوقیت بخشی ہے، پس تم لوگ ذرا سوچو کہ یہ کتنی بڑی ناشکری اور کس قدر ظلم و بے انصافی ہے جس کا ارتکاب تم لوگ کرتے ہو؟ اور تم توحید کے مقام بلند سے گر کر شرک کے کس قدر ہولناک گڑھے میں پہنچنا چاہتے ہو؟والعیاذ باللہ العظیم

۱۴۲.  سو حضرت موسیٰ کو جب تورات اور شریعت سے نوازنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے کوہ طور کے ایک مخصوص مقام پر حاضری کا حکم دیا۔ جیسا کہ سورہ طٰہٰ وغیرہ میں مذکور ہے تو اس دوران اپنی نیابت و خلافت کے لئے حضرت موسیٰ نے اپنے بھائی حضرت ہارون کو مقرر فرمایا۔ اور ان کو اس بارے میں اس موقع پر خاص ہدایات دیں جن کا ذکر یہاں فرمایا جا رہا ہے۔ سو آپ نے ان سے فرمایا کہ میری اس غیابت میں میری قوم کا خاص خیال رکھنا، کہ ان کے اندر اس دوران کوئی خرابی و بگاڑ، فتنہ و فساد اور ضلالت و گمراہی، پیدا نہ ہونے پائے۔ اور اگر اس طرح کی کوئی چیز رونما ہو جائے تو اس کی اصلاح کرتے رہنا۔ اور فساد پھیلانے والوں کی روش کی کبھی پیروی نہ کرنا۔ سو حضرت موسیٰ کے ان کلمات سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ آپ کی قوم کے اندر کچھ فسادی عناصر ایسے موجود تھے جن کی فتنہ انگیزی کے بارے میں آنجناب کو خاص خدشہ و اندیشہ تھا اس لئے آپ نے حضرت ہارون کو اس موقع پر اس بارے بطور خاص تنبیہ و تذکیر فرمائی۔ علیٰ نبینا وعلیہما الصلوٰۃ والسلام۔

۱۴۳.  سو حضرت موسیٰ کی درخواست دید و زیارت کے جواب میں جب اللہ تعالیٰ نے اس پہاڑ پر تجلی فرمائی تو وہ ریزہ ریزہ ہو گیا، اور حضرت موسیٰ بیہوش ہو کر گر پڑے۔ اور ہوش میں آنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کیا کہ اے اللہ تو پاک ہے، یعنی تو پاک ہے اس سے کہ تجھے کوئی ان ناسوتی آنکھوں سے دیکھ سکے۔ اور میں نے اس کے لئے جو درخواست پیش کی تھی، میں اس سے توبہ کرتا ہوں۔ اور میں سب سے پہلے اس بات پر ایمان لاتا ہوں کہ تیری ذات اقدس و اعلیٰ ہماری دید و مشاہدہ سے اعلیٰ و بالا ہے۔ واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر حضرت موسیٰ کو یہ سب کچھ جو دکھایا تو اس سے اصل مقصود بنی اسرائیل کی محسوس پرستی کی ذہنی اور عقلی بیماری کا ازالہ کرنا تھا۔ تورات میں یہ بات کئی مواقع پر مذکور ہوئی ہے کہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ سے خدا کو دکھانے کا مطالبہ کیا۔ ان بدبختوں کا کہنا تھا کہ جب اللہ آپ سے بات کرتا ہے تو ہم سے رُو در رُو بات کیوں نہیں کرتا؟ تاکہ ہم اس کو دیکھیں۔ اللہ تعالیٰ کی وہ تمام شانیں جو اب تک ان لوگوں نے دیکھی تھیں وہ ان کے اطمینان کے لئے کافی نہیں تھیں کیونکہ وہ پیکر محسوس کے خوگر ہو گئے تھے جیسا کہ آج تک یہی ہے، انسانیت بالعموم پیکر محسوس کی خوگر، اور اس کی غلام بنی ہوئی ہے، اس لئے ایسی دنیا حس و مشاہدے کے دائرے کے باہر کے حقائق کو ماننے اور تسلیم کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتی۔ حالانکہ اصل حقائق وہی ہیں جو دائرہ محسوسات سے وراء اوراء ہیں۔ اور کائنات کے وجود اور اس کی بقاء کا مدار و انحصار انہی پر ہے۔ مگر محسوسات اور مادیات کا غلام انسان بڑے تکبر اور غور کے ساتھ ان کا انکار کرتا ہے اور اپنی سائنسی اور مادی ترقی کے زعم اور گھمنڈ میں وہ حق بات کو سننے اور ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتا۔ اور اسطرح وہ اپنی محرومی اور سیاہ بختی کے داغ کو اور پکا کرتا جاتا ہے حالانکہ دنیاوی ترقی۔ اور مادی وسائل کا یہ پہلو دنیا کا صرف ایک پہلو ہے اور بس۔ یعنی اس کا صرف مادی اور ظاہری پہلو۔ حالانکہ آخرت کی بے مثال اور لامحدود زندگی کے علاوہ خود اس دنیاوی زندگی کے بھی دوسرے کئی اہم پہلو ہیں، جن سے ایسے لوگ محروم اور غافل ہیں۔ فَصَدَقَ اللّٰہُ الْقَائِلُ یَعْلَمُوْنَ ظَاہِرًا مِّنَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَہُمْ عَنِ الْاٰخِرَۃِ ہُمْ غَافِلُوْنَ (الروم۔۷) سو محسوس پرستی کے اسی خوفناک اور تباہ کن مرض کی بناء پر مادہ پرست انسان نے اپنے معبود بھی خود اپنے ہاتھوں سے گھڑے، اور برابر گھڑے جا رہا ہے۔ اور اسی مرض کی بناء پر کل کے ان مشرکوں اور بنی اسرائیل کے ان بت پرستوں کا دل بھی بن دیکھے خدا پر جمتا نہیں تھا۔ اس لئے انہوں نے حضرت موسیٰ سے بھی ایسے مصنوعی معبود بنا دینے کا بیہودہ مطالبہ کر دیا تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کے ذریعے ایسے لوگوں کے لئے اس حقیقت کو واضح فرما دیا کہ خداوند قدوس ظاہری آنکھوں سے دیکھنے اور ہاتھوں سے چھونے کی چیز نہیں، جس طرح کہ بتوں کے پجاریوں نے سمجھ رکھا ہے۔ بلکہ اس کو صرف عقل و دل کی آنکھوں سے ہی دیکھا جا سکتا ہے البتہ ظاہری آنکھوں سے اس کی صفات کے ان جلووں کو دیکھا جا سکتا ہے جو اس کائنات میں ہر طرف پھیلے بکھرے ہیں، جو اس کی عظمت شان کی گواہی دے رہے ہیں، سبحانہ و تعالیٰ

۱۴۶.  سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ تکبر یعنی اپنی بڑائی کا زعم و گھمنڈ باعث محرومی ہے۔ پس جو لوگ خداوند قدوس کی زمین میں رہنے بسنے اور اس کی گوناگوں نعمتوں پر پلنے بڑھنے کے باوجود اس کے اوامر و ارشادات سے بے نیاز بن کر رہتے ہیں اور اس کی بخشی ہوئی نعمتوں کو وہ اپنا ذاتی استحقاق سمجھتے ہیں وہ اس کی توفیق و عنایت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اور ایسے لوگوں کے اندر خیر اور ہدایت کی رغبت مردہ ہو جاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں اگر ان کو حق و ہدایت کی راہ دکھائی جائے تو وہ اس کو اپنانے اور اختیار کرنے کے بجائے الٹا اس سے دور بھاگتے ہیں، اور اس کے برعکس اگر ان کو گمراہی کی کوئی راہ دکھائی جائے تو اس کو وہ فوراً اپنا لیتے ہیں اور یہ سب اس لئے ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کو جھٹلاتے اور ان سے غفلت و لاپرواہی برتتے ہیں، والعیاذ باللہ العظیم بکل حالٍ من الاحوال،

۱۴۷.  سو اللہ تعالیٰ کی آیتوں کی تکذیب اور انکار آخرت کا جرم ایسا ہولناک اور اس قدر سنگین جرم ہے کہ اس سے سب اعمال حبط اور اکارت چلے جاتے ہیں، والعیاذُ باللہ جل وعلا آخرت میں صرف انہی اعمال کی قدر و قیمت اور ان کا وزن ہو سکتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی تعلیمات و ہدایات کے مطابق اس کی رضاء و خوشنودی کے لئے اور آخرت کے ایمان و یقین کے ساتھ کئے جائیں۔ وباللّٰہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلی مایُحِبُّ ویرید۔

۱۴۸.  کہ انہوں نے اس بچھڑے کو جو کہ ایک مصنوعی اور بے حقیقت بچھڑا تھا اس کو انہوں نے اپنا معبود بنا کر شرک کا ارتکاب کیا، جو کہ ظلم عظیم، اور ظلم بالائے ظلم ہے جس کا ارتکاب ان لوگوں نے اپنے خالق و مالک کے حق میں بھی کیا اپنے رسول کے حق میں بھی اور خود اپنی جانوں کے حق میں بھی، سو اس سے ان لوگوں کی بلادت و  سفاہت، اور انکی بے قدری و ناشکری، کے کھلے مظاہر سامنے آتے ہیں کہ ایک طرف تو حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، نے ان کو کیسے کیسے عظیم الشان اور بے مثال انعامات اور احسانات سے نوازا۔ اور اپنے پیغمبر کے ذریعے ان کو نور حق و ہدایت سے سرفراز کرنے کے لئے کیسے کیسے انتظامات فرمائے، جن کا ذکر جگہ جگہ اور طرح طرح سے فرمایا گیا ہے، مگر انہوں نے دعوت حق و ہدایت کو مان کر اور ایمان لا کر نہ دیا۔ مگر دوسری طرف یہ لوگ سامری جیسے دجال کی ایک ہی دعوت و پکار پر اس کے اس مصنوعی بچھڑے کے آگے جھک گئے، جو اصل، حقیقی اور سج مچ کا بچھڑا بھی نہیں تھا۔ بلکہ ایک خود ساختہ اور مصنوعی دھڑ تھا، جس سے بھاں بھاں کی ایک بے معنی آواز نکلتی تھی اور بس مگر سامری کے کہنے پر انہوں نے اس بے حقیقت چیز کو اپنا خدا مان لیا اور یہ سب اس کے آگے سجدہ ریز ہو گئے۔ یہاں تک کہ اس کے بارے میں ان بدبختوں نے یہ تک بکواس کر دی کہ یہی تمہارا وہ معبود ہے جس نے تم لوگوں کو فرعون کی غلامی سے چھڑایا۔ اور یہی تم کو اپنی راہنمائی میں ارض موعود کی بادشاہی دلائے گا۔ اتنا بڑا ظلم؟ اس قدر بیہودہ بکواس؟ اور وہ بھی حضرت موسیٰ جیسے جلیل القدر پیغمبر کی زندگی میں؟ سو کیسے بے انصاف اور کس قدر ظالم لوگ تھے یہ لوگ؟ اور کتنا بڑا صبر، اور کس قدر جگر گردہ تھا حضرت موسیٰ کا۔ جنہوں نے اس سب کے باوجود خباثت و نجاست کے ان بوروں کو اس کے بعد اللہ کی سرزمین پر زندہ چھوڑ دیا؟ سو یہ حضرات انبیاء و رسل ہی کا جگر گردہ، اور انہی کا حلم۔ اور ان ہی کی شان ہو سکتی ہے علیٰ نبینا وعلیٰ سائرھم الصلوٰۃ والسلام، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے، آمین

۱۴۹.  سُقِطَ فِیْ اَیْدِیْہِمْ عربی زبان کا ایک محاورہ ہے، جس کے معنی نادم اور خجل ہونے کے آتے ہیں۔ اور ندامت و خجالت کا لازم چونکہ غلطی پر متنبہ ہونا ہوتا ہے اس لئے اس کا مطلب یہ ہو گیا کہ جب ان لوگوں کو اپنے کئے پر ندامت و شرمندگی ہوئی۔ تو ان کو اپنی حماقت کا احساس ہوا۔ اور ظاہر ہے کہ یہ احساس انہی لوگوں کو ہوا ہو گا جن کے اندر کچھ سوجھ بوجھ موجود تھی سو انہوں نے دیکھا کہ وہ یقیناً راہ حق سے بہک اور بھٹک چکے ہیں، تو انہوں نے کہا کہ اگر ہمارے رب نے ہم پر رحم نہ فرمایا۔ اور ہماری بخشش نہ فرمائی تو یقیناً ہم لوگ بڑے سخت خسارے میں پڑ گئے۔

۱۵۰.  سو اس سے حضرت موسیٰ کی دینی حمیت اور آنجناب کے غلبہ حال کی تصویر پیش فرمائی گئی ہے کہ قوم کی اس گمراہی سے لاحق ہونے والے صدمے اور تاثر کے نتیجے میں حضرت موسیٰ نے ان تختیوں کو ایک طرف ڈال دیا۔ اور حضرت ہارون کا سر اور ان کا شانہ پکڑ کر ان کو جھنجھوڑا کہ یہ کیا ہوا؟ اور کیوں ہوا؟ اس قدر خبیث فتنے کو سر کیوں اٹھانے دیا؟ اور اللہ تعالیٰ کے معاملے میں یہ جوش و جذبہ مطلوب و مامور، اور غیرت ایمانی کا تقاضا اور ایک طبعی و فطری اور محمود امر بھی ہے، اور حضرت ہارون کے ساتھ قلبی تعلق و لگاؤ کا مظہر بھی۔ اس لئے حضرت ہارون نے اس کے جواب میں محبت و پیار اور رِقّت بھرے اندازو اسلوب میں ان کے سامنے اپنی صفائی بیان فرمائی۔ علی نبینا وعلیہما الصلوٰۃُ والسلام،

۱۵۱.  سو حضرت ہارون نے حضرت موسیٰ کے غضب و عتاب کے جواب میں جب اپنی صفائی پیش کی۔ اور بتایا کہ میرا اس میں کوئی قصور نہیں تھا۔ میں نے تو اپنے بس کی حد تک فتنے کو روکنے اور قوم کو سمجھانے کی پوری کوشش کی، انہوں نے میری کوئی بات نہیں مانی۔ اور یہ اس حد تک بگڑ گئے تھے کہ قریب تھا کہ مجھے قتل کر دیں۔ سو اس سے واضح ہے کہ حضرت ہارون نے اس ضمن میں کوئی کوتاہی کی تھی۔ بلکہ انہوں نے اس فتنے کے مقابلے کے لئے اپنی جان کو خطرے میں ڈال دیا تھا، لیکن صورت حال یہ تھی کہ لوگوں کی بھاری اکثریت سامری کے چکر میں آ گئی تھی۔ حضرت ہارون کے ساتھ تھوڑی سی تعداد باقی رہ گئی تھی۔ اور ان کے بس نہیں تھا کہ وہ زور اور قوت کے ساتھ ان گمراہوں کا مقابلہ کریں، اور ان کو اس فتنے سے روکیں، اس لئے انہوں نے مصلحت اسی میں دیکھی کہ صبر و برداشت اور خاموشی ہی سے کام لیں۔ تاکہ قوم کے اندر مزید خرابی و فساد، اور خرابے اور انتشار کی نوبت نہ آنے پائے یہاں تک کہ حضرت موسیٰ واپس آ جائیں، اور وہ اپنے شخصی اثر و رسوخ سے اس فتنے کا قلع قمع کر سکیں۔ جیسا کہ سورہ طٰہٰ وغیرہ میں اس کی تصریح موجود ہے سو حضرت موسیٰ جب حضرت ہارون کی اس معذرت سے مطمئن ہو گئے اور ان کے سامنے واضح ہو گیا کہ حضرت ہارون کا واقعی اس میں کوئی قصور نہیں تھا تو آپ اپنے رب کی طرف متوجہ ہو گئے۔ اور اپنے اور اپنے بھائی کے لئے مغفرت و بخشش اور رحمت و عنایت کی دعا مانگنے لگے، علی نبینا وعلیہما الصلوٰۃ والسلام۔

۱۵۲.  سو اس سے بنی اسرائیل کو یہ وعید سنائی گئی کہ جن لوگوں نے گوسالہ پرستی کے اس سنگین اور انتہائی ہولناک جرم کا ارتکاب کیا ان کے لئے آخرت سے پہلے اس دنیا میں بھی ان کے رب کی طرف سے غضب اور ذلت و رسوائی کی سزا ہے۔ اس لئے کہ یہ اللہ پر افتراء کا سنگین جرم ہے۔ اور اللہ پر افتراء پردازی کرنے والوں کی یہی سزا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔

۱۵۳.  سو اس ارشاد ربانی کے ذریعے اس سنگین جرم سے توبہ کرنے والوں کے لئے بخشش اور رحمت کا مژدہ جانفزا سنایا گیا، اور اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ جن لوگوں نے گناہ کے بعد صدق دل سے توبہ کی۔ اور انہوں نے اپنے ایمان کی تجدید کرلی، اللہ ان کو معاف فرما دے گا کہ وہ بڑا ہی غفور و رحیم ہے۔ یہاں توبہ کے ساتھ ایمان کا بھی ذکر فرمایا گیا ہے۔ اور یہ اس لئے کہ بعض گناہ ایسے ہوتے ہیں جن سے انسان کا ایمان بھی سلب ہو جاتا ہے۔ اور بنی اسرائیل کا یہ گناہ انہی گناہوں میں سے تھا۔ اس لئے اس میں توبہ کے ساتھ تجدید ایمان کی شرط بھی لگا دی گئی۔ اگر گناہ اس نوعیت کا نہ ہو تو اس میں توبہ کے ساتھ اپنے رویے اور حال کی اصلاح ہی کافی ہوتی ہے۔ اس لئے یہاں پر بنی اسرائیل کے ان لوگوں کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ انہوں نے توبہ کی اور وہ ایمان لائے،

۱۵۵.  سو حضرت موسیٰ نے اس سلسلہ میں اپنے رب کے حضور عرض کیا کہ اس جرم کا ارتکاب تو ہم میں سے کچھ بدبختوں نے کیا، اور تیری رحمت سے یہ امر بعید ہے کہ تو چند نادانوں کے جرم کی پاداش میں سب کو ہلاک کر دے، سو یہ تو محض تیری ایک آزمائش تھی۔ اور تیری آزمائش سے عہدہ برآء وہی لوگ ہو سکتے ہیں جن کو تیری توفیق حاصل ہوتی ہے۔ اور جن کو تیری توفیق نصیب نہیں ہوتی وہ محروم اور گمراہ ہو جاتے ہیں۔ سو اس سے حضرت موسیٰ نے دراصل اللہ تعالیٰ کی اس سنت کا حوالہ دیا ہے جس کو ہدایت و ضلالت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اختیار فرمایا ہے اور جس کو قرآن میں کئی جگہ بیان فرمایا گیا ہے۔ بہرکیف اس سے یہ درس عظیم دیا گیا کہ بندے کو بہرحال اللہ ہی کی طرف رجوع کرنا چاہیے وباللہ التوفیق

۱۵۶.  سو حضرت موسیٰ کی اس دعاء و درخواست کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے عذاب اور رحمت کے بارے میں اپنے قانون اور ضابطہ کو بیان فرما دیا۔ چنانچہ ارشاد فرمایا گیا کہ عذاب کے بارے میں تو میرا قانون اور ضابطہ یہ ہے کہ وہ میں ان ہی لوگوں کو دیتا ہوں جو میرے قانون عدل و انصاف کے مطابق اس کے مستحق ہوتے ہیں، رہی میری رحمت تو وہ اس دنیا میں ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے جس کو بھی وجود کی نعمت ملی ہے، وہ میرے ہی فضل و کرم سے ملی ہے۔ اور جس کو رزق پہنچ رہا ہے، وہ میرے ہی خوان کرم سے پہنچ رہا ہے۔ مومن و کافر، اور شاہ و گدا، جس کے پاس جو بھی کچھ ہے، وہ سب میری ہی رحمت کا نتیجہ، اور میرا ہی دیا بخشا ہے، سو دنیا کی یہ عمومی رحمت سب ہی کے لئے ہے۔ رہ گئی آخرت سے متعلق میری خاص رحمت تو اس سے میں انہی لوگوں کو نوازوں گا جن میں یہ اور یہ خاص صفتیں پائی جاتی ہونگی، کہ وہ مجھ ہی سے ڈرتے ہوں۔ زکوٰۃ اداء کرتے ہوں اور جو ہماری آیتوں پر صدق دل سے ایمان رکھتے ہوں گے۔

۱۵۷.            ۱: یہاں پر یہ نہیں فرمایا گیا کہ وہ ان کی صفات کو تورات اور انجیل میں پائیں گے بلکہ فرمایا گیا یَجِدُوْنَہ، یعنی وہ خود ان کو تورات و انجیل میں لکھا ہوا پائیں گے، یعنی ان کتابوں میں ان کی صفات کو اس طرح بیان فرمایا گیا ہے کہ گویا کہ وہ خود مشخص ہو کر ان کے اندر موجود ہیں جس کے بعد ان کے بارے میں کسی قسم کے شک و شبہ اور کسی طرح کے اشتباہ کی کوئی گنجائش نہیں رہتی، اور ان کی ان صفات میں نبی اُمّی ہونے کی صفت ایک امتیازی اور معجزانہ صفت ہے، کہ آنجناب نے دنیا میں کسی سے ایک حرف نہ پڑھنے کے باوجود دنیا کو ان عظیم الشان اور بے مثال علوم و معارف سے نوازا کہ جن کی دوسری کوئی نظیر و مثال ممکن نہیں، علیہ الصلوٰۃ والسلام۔

۲:  سو آیت کریمہ کے اس آخری حصے سے دارین کی سعادت و سرخروئی اور حقیقی فوز و فلاح سے سرفرازی سے متعلق جامع اور اصولی تعلیم سے نوازا گیا ہے، چنانچہ اس سے واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں کامیابی اور فوز و فلاح سے سرفرازی کا تعلق کسی نسل و نسب اور قوم قبیلے سے نہیں، جس طرح کہ بعض قومیں اسی غلط فہمی کی بناء پر نسلی تفاخر اور استکبار میں مبتلا ہوئیں، اور اس کے نتیجے میں وہ ہلاکت و تباہی کے دائمی گڑھے میں جا گریں، والعیاذُ باللہ بلکہ فوز و فلاح کا اصل تعلق انسان کے اپنے ایمان و عقیدہ، اور عمل و کردار سے ہے۔ اور جس کے اہم اور بنیادی عناصر یہ چار چیزیں ہیں، جن کا ذکر اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے، یعنی یہ کہ وہ اس نبی اُمّی پر صدق دل سے ایمان لائیں جن کا ذکر تورات و انجیل میں ہے، اور جو سب نبیوں کے خاتم اور ان کے امام ہیں۔ یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم دوسرے یہ کہ وہ ان کی صحیح معنی میں تعظیم و تکریم کریں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں انسان پر سب سے بڑا حق انہی کا ہے، اور تیسرے یہ کہ وہ راہِ حق میں ان کی مدد کریں۔ یعنی ان کے لائے ہوئے دین حق کی نصرت و امداد کریں۔ اور چوتھے یہ کہ وہ اس نور حق کی اتباع و پیروی کریں، جو اس پیغمبر کے ساتھ اتارا گیا ہے، یعنی قرآن مجید کی، جو کہ دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا واحد ذریعہ ہے، سو ایسے لوگوں کے بارے میں جن میں یہ چاروں صفتیں پائی جائیں گی، ارشاد فرمایا گیا اور حَصْر و قصر کے انداز و اسلوب میں ارشاد فرمایا گیا، کہ یہی ہیں حقیقی فوز و فلاح سے سرفراز ہونے والے، خواہ وہ کوئی بھی ہوں اور کہیں کے بھی ہوں، وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلیٰ مایحب ویرید وہو الہادی الی سواء السبیل۔

۱۵۸.  یعنی اس راہ راست سے جو کہ عقل و نقل اور فطرتِ سلیمہ کے تقاضوں کے عین مطابق، اور دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز کرنے والی واحد راہ ہے۔ سو اس ارشادِ رّبانی سے اس راہِ راست کی تعیین و تشخیص بھی فرما دی گئی۔ اور اس سے سرفرازی کا طریقہ بھی تعلیم و تلقین فرما دیا گیا۔ سو وہ راہ وہی راہ ہے جس کو اس نبی اُمّی نے دنیا کے سامنے پیش فرمایا ہے، جس کو خالق ارض و سماء نے سب دنیا جہاں کی ہدایت و راہنمائی کے لئے مبعوث فرمایا ہے، اس وحدہٗ لاشریک کے سوا کوئی بھی معبود نہیں، اور زندگی اور موت کا سب اختیار اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے۔ پس تم لوگ صدقِ دل سے ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے اس رسول نبی اُمّی پر، جو کہ ایمان رکھتا ہے اللہ پر اور اس کے کلمات پر، اور اسی کی پیروی کرو تو اس کے نتیجے میں تم راہ راست سے سرفراز ہو جاؤ گے۔ وباللہ التوفیق لمایحب ویرید، وعلیٰ مایحب ویرید، وہو الہادی الی سواء السبیل

۱۵۹.  قرآن حکیم نے جہاں مختلف مقامات پر بنی اسرائیل کی عہد شکنیوں اور ان کی بد اعمالیوں پر شدت کے ساتھ ان کی نکیر فرمائی اور ان کی سرزنش کی ہے، وہیں پر انکے اندر موجود ان نیک لوگوں کی تحسین بھی فرمائی ہے جو راہ حق پر قائم تھے، ایسے لوگ تعداد میں اگرچہ تھوڑے تھے۔ لیکن بنی اسرائیل کے اندر وہ موجود بہرحال رہے، اور اصل میں یہی وہ قیمتی عناصر تھے جن کی وجہ سے بنی اسرائیل کو ان کے جرائم کے باوجود مہلت ملتی رہی سو یہاں بھی اس بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ حضرت موسیٰ کی نابکار و ناہنجار قوم کے اندر ایک گروہ ایسے لوگوں کا بھی برابر موجود رہا، جو حق کے مطابق لوگوں کی راہنمائی کرتا اور عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق ان کے معاملات کے فیصلے کرتا تھا۔ یعنی ان کے علماء اور قضاۃ دونوں ہی گروہوں میں ایسے اچھے لوگ ہمیشہ پیدا ہوتے رہے، جو حق کی ہدایت و راہنمائی کرتے، اور اسی کے مطابق ان کے درمیان فیصلے کرتے تھے۔

۱۶۱.            ۱:سو اس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور اس کے اوامر و ارشادات سے منہ موڑنا۔ اور اِعْراض و رُو گردانی برتنا خود اپنے ہی اوپر ظلم کرنا ہے، کیونکہ اللہ پاک کے احکام اور اس کے اوامر و ارشادات سراسر بندوں ہی کے بھلے کے لئے ہوتے ہیں، ورنہ اللہ پاک کا ان سے اپنا کوئی مفاد وابستہ نہیں ہو سکتا۔ وہ ہر طرح سے اور ہر اعتبار سے غنی و بے نیاز ہے سبحانہ و تعالیٰ لیکن وہ چونکہ رحمان اور رحیم بھی ہے اس لئے وہ چاہتا ہے کہ اس کے بندے اس کے احکام و ارشادات پر عمل کر کے اس کی رحمت کے مستحق بنیں، اور اسطرح وہ خود اپنی بھلائی اور بہتری کا سامان کریں۔ دنیا کی اس عارضی زندگی میں بھی، اور آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہاں میں بھی جو اس دنیا کے بعد آنے والا ہے سو اس کے احکام سے منہ موڑنا خود اپنی ہی جانوں پر ظلم کرنا ہے والعیاذ باللہ العظیم۔

          ۲: یعنی سجدے کا لفظ یہاں پر اپنے مشہور و معروف معنوں میں نہیں ہے کیونکہ اس کے ساتھ دروازے کے اندر داخل ہونا متعذر ہے، اس لئے سجدے کا یہ لفظ یہاں پر جھکنے کے معنی میں ہے، جو تقاضائے ادب و احترام ہے، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کو حال مقدرہ مانا جائے۔ یعنی دروازے سے داخل ہونے کے بعد اپنے خالق و مالک کے آگے اس کی شکر گزاری کے لئے سجدہ ریز ہو جانا، جو کہ تقاضا ہے بندے کی شان عبدیت کا اور جو حق ہے حضرت خالق جَلَّ جَلَالُہ، کا، اس کے گوناگوں اور لا متناہی احسانات و انعامات کا، اور شکر نعمت ہی نعمت سے سرفرازی اور اس کی حفاظت و بقاء کا ذریعہ و وسیلہ ہے، وباللہ التوفیق لمایحب ویرید، وعلیٰ مایحب ویرید، بکل حالٍ من الاحوال،

۱۶۲.  سو اس سے ایک تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی باتوں اور اس کے ارشاد فرمودہ کلمات کو اپنے طور پر بدلنا اور ان میں تحریف و تغییر سے کام لینا ظلم ہے، والعیاذُ باللہ۔ پس اس سے ان زائغین اور اہل بدعت کو سبق لینا چاہئے۔ جو اپنی مخصوص اہواء و اغراض کی خاطر کتاب و سنت کی نصوص کریمہ کے اندر طرح طرح کی تحریفات سے کام لیتے ہیں، والعیاذُ باللہ العظیم، اور دوسری طرف اس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ کی معصیت و نافرمانی کی سزا کبھی کبھی آخرت سے پہلے اس دنیا میں بھی ملتی ہے، والعیاذُ باللہ، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اور ہر موقع و مقام پر اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ اٰمین ثم اٰمین۔

۱۶۳.           ۱: ہُمْ کی ضمیر مفعول سے یہاں پر مراد یہود ہیں جن سے متعلق یہ سلسلہ کلام چل رہا ہے، اور جن کے کردار کے کچھ نمونے اوپر بیان فرمائے گئے ہیں، اور جو اپنی بڑائی کے زعم و گھمنڈ میں مبتلا تھے، اور جو اپنے آپ کو اللہ کی اولاد اور اس کے چہیتے بتاتے تھے، سو ان کے بارے میں اور ان کے زجر و توبیخ کے لئے ارشاد فرمایا گیا کہ اگر یہ لوگ اپنے ان کرتوتوں کے باوجود اپنی بڑائی اور بزرگی کے زعم اور گھمنڈ میں مبتلا ہیں، تو ان سے ذرا اس بستی کے بارے میں پوچھو جس نے قانون سبت کے بارے میں حکم عدولی کی تھی۔ اور اس کی سزا و پاداش میں ان کو ایسی سزا دی گئی تھی جس سے ان کو نمونہ عبرت بنا دیا گیا تھا۔ سو ان سے اس کے بارہ میں پوچھو تاکہ اپنے آپ کو شعب اللہ المختار، یعنی اللہ کی چنی ہوئی مخلوق (Chosen People) کہنے والے یہ لوگ ذرہ اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ جن کے کرتوت یہ اور یہ ہوں، وہ اس طرح کے دعوے کرتے ہوئے آخر شرماتے کیوں نہیں؟ ان کو ایسے دعوے کرنے سے قبل ذرا اپنے بارہ میں سوچنا، اور اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ ان کے کام اور کرتُوت کیا ہیں، اور دعوے کیا؟

۲: سو اس سے بنی اسرائیل کے لئے ایک خاص ابتلاء و آزمائش کا ذکر فرمایا گیا ہے اور وہ یہ کہ یہ لوگ چونکہ ساحل سمندر پر رہتے تھے وہاں سے مچھلیاں پکڑنا اور ان کو کھانا اور بیچنا اور ان کا کاروبار کرنا ان کا خاص مشغلہ بھی تھا، اور ذریعہ معاش بھی۔ یہود کی شریعت میں ہفتے کے روز شکار کرنا اور مچھلیاں پکڑنا منع تھا۔ اب قدرت کی طرف سے ان کی آزمائش کے لئے یہ صورت پیش آئی کہ ہفتے کے روز تو مچھلیاں ابھر ابھر کر سامنے آتیں۔ لیکن جس دن ہفتہ نہ ہوتا اس دن مچھلیاں بالکل نہ آتیں۔ یا بہت کم آتیں تو اس سے یہود کے لئے سخت آزمائش کی صوت پیش آ گئی۔ لیکن یہ لوگ صبر نہ کر سکے۔ اور انہوں نے ہفتے کے روز مچھلی کے شکار کے لئے مختلف حیلوں بہانوں سے کام لینا شروع کر دیا۔ اور اللہ پاک سبحانہ و تعالیٰ کی سنت اور اس کا دستور یہ ہے، کہ جب کوئی قوم یا جماعت نافرمانی میں اصرار کی حد تک بڑھ جاتی ہے اور ناصحین کی نصیحت پر بھی کان نہیں دھرتی، اور ان کے سمجھانے سے بھی باز نہیں آتی تو اس سلسلے میں اس کی آزمائش اور بھی سخت کر دی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ اپنے انجام کو پہنچ کر رہتی ہے۔ والعیاذُ باللہ سو یہی صورت بنی اسرائیل کے ان لوگوں کے لئے پیش آئی جن کا ذکر یہاں فرمایا گیا ہے، سو ناصحین نے ان لوگوں کو سمجھایا، تاکہ وہ اپنی غلط روش کی اصلاح کر لیں، تو اس پر دوسروں نے ان ناصحین سے کہا کہ آپ لوگوں کا ان کو سمجھانا جب بےسود ہے تو پھر آپ کیوں ان کے پیچھے لگے ہوئے جبکہ اس کا کوئی نتیجہ و اثر نہیں تو ناصحین مخلصین نے ان لوگوں کے جواب میں اور اپنے طرز عمل کے حق میں کہا کہ ہم تو وعظ و نصیحت کا یہ سلسلہ بہرحال جاری رکھیں گے، تاکہ ہم اپنے فرض سے سبکدوش ہو سکیں۔ اور کیا پتہ کہ یہ لوگ مان ہی لیں۔ اور اسطرح ہمارا اصل مقصود بھی پورا ہو جائے۔

۱۶۷.  سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ ان لوگوں پر قیامت تک کوئی نہ کوئی عذاب مسلط رہے گا ہی۔ ان کی عہد شکنیوں نافرمانیوں اور سرکشیوں کی بناء پر۔ چنانچہ تاریخ اس پر گواہ ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ ہمیشہ ایسے ہی ہوتا رہا۔ کبھی ان پر بخت نصر مسلط ہوا، جس نے یروشلم کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، ان میں سے ہزاروں کو اس نے تہ تیغ کیا۔ اور ہزاروں کو وہ غلام بنا کر اپنے ساتھ لے گیا، اور کبھی ان پر ٹیٹس رومی مسلط ہوا، اور کبھی کوئی اور، اور انیسویں صدی کے وسط میں ان پر یہ عذاب جرمنی کے ہٹلر کی صورت میں مسلط ہوا جس نے ساٹھ لاکھ سے بھی زیادہ یہودیوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ ان کو مٹانے اور تہس نہس کرنے کے لئے اس نے سپیشل پلانٹ لگوائے، جن میں ان کو ٹھونسا جاتا اور یہ پس کر سیال مادے کی طرح دوسری طرف سے باہر نکلتے۔ اس کا ان کے بارے میں کہنا تھا کہ یہ جونکیں ہیں، جنہوں نے میری قوم کا خون چوسا ہے لہٰذا ان کو مار کر ان کا ملبہ میرے ملک کی زمین کے اندر ڈالا جائے، تاکہ میری قوم کا چوسا ہوا وہ خون واپس میرے ملک کی دھرتی میں جذب ہو جائے۔ اب موجود اسرائیل کا وجود جو ارض فلسطین میں فلسطینیوں کی پیٹھ میں ایک خنجر کی حیثیت سے استعماری قوتوں کی ملی بھگت، اور عالمی صہیونی گٹھ جوڑ کے نتیجے میں قائم کیا گیا ہے۔ انشاء اللہ، یہ بھی وقت آنے پر اپنے آخری انجام کو پہنچ کر رہے گا۔ اور یہی ارض فلسطین اس خبیث قوم کے لئے مرگھٹ اور ان کا آخری گڑھا بنے گی، والاَمرللہ جل وعلا۔

۱۶۸.  سو یہ اللہ پاک کی سنت اور اس کا دستور ہے جو اس کے بندوں کے لئے ہمیشہ جاری اور کار فرما رہا، کہ وہ ان کو اچھے اور برے دونوں ہی قسم کے حالات سے آزماتا ہے تاکہ وہ اپنی غلط روی سے باز آ جائیں، سو اسی کے مطابق بنی اسرائیل کو بھی آزمایا گیا۔ تاکہ وہ اپنے رب کی طرف رجوع کریں، لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا ان کی خواہشات پرستی کی عادت مالوفہ ان پر ایسی غالب اور مسلط رہی کہ ان کی قوت خیر مفلوج ہو کر رہ گئی۔ وہ اس بات کا احساس رکھتے ہوئے بھی کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ غلط ہے، وہ اسی پر اڑے رہے۔ اور اپنے ضمیر کو یہ دھوکہ دیتے رہے کہ ہماری بخشش کر دی جائیں گی کہ ہم اللہ کے پیارے اور اس کے لاڈلے ہیں وغیرہ۔ سو یہی ان لوگوں کی من گھڑت امیدیں اور بے بنیاد آرزوئیں (امانی) ہیں، جنہوں نے ان کا بیڑا غرق کر کے رکھ دیا، اور یہ عزت و عظمت کی بلندیوں سے گر کر ذلت و رسوائی کے ہولناک گڑھے میں جا پہنچے۔ والعیاذ باللہ العظیم

۱۶۹.  سو اس میں عقل سے کام لینے کے لئے تحریک و تحریض ہے مطلب یہ کہ تم لوگوں کو عقل سے کام لینا چاہیئے۔ اور اس بات کا احساس و ادراک کرنا چاہیے کہ آخرت کا وہ حقیقی اور اَبَدی گھر اس دنیاءِ دُوں کے متاعِ فانی اور حُطامِ زائل سے کہیں بہتر ہے پس دنیا کے عارضی اور وقتی فائدوں کو آگے رکھ کر آخرت کے اس حقیقی گھر اور اس کے تقاضوں کو پس پشت ڈال دینا بڑا ہی ہولناک خسارہ ہے، والعیاذُ باللہ، اور آخرت کے اس گھر سے سرفرازی ان ہی لوگوں کو نصیب ہو گی جو تقوی اور پرہیزگاری کی زندگی گزارتے ہوں، سو تقویٰ و پرہیزگاری دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے، وباللہ التوفیق لما یحب ویرید۔ وعلیٰ مایحب ویرید، بکل حالٍ من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ

۱۷۲.  سو اس سے اس عہد فطرت کی تذکیر و یاد دہانی فرمائی گئی ہے، جو حضرتِ خالق جَلَّ مَجْدُہ، نے انسان کے وجود میں آنے سے پہلے ہی اس سے عالم غیب میں لیا تھا، جس میں اس نے اس سے اپنی ربوبیت کا اقرار کرایا تھا، اور تمام بنی آدم سے پوچھا تھا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ تو اس کے جواب میں ان سب نے بیک زبان کہا تھا بلیٰ یعنی ہاں کیوں نہیں، یقیناً تُو ہی ہمارا رب ہے اے ہمارے خالق و مالک! اسی لئے اس عہد کو عہد اَلَسْت بھی کہا جاتا ہے، جو ہر انسان کی فطرت میں پیوست ہے اور اس کا اقرار ان سب نے کیا ہے، اور اس کی گواہی انہوں نے اپنی جانوں پر دی ہے سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ عقیدہ توحید بدیہیات فطرت میں سے ہے، اور بدیہیات فطرت کے بارے میں قیامت کے روز ہر انسان محض اسی اقرار فطرت اور عہد اَلَسْت کی بناء پر مسئول اور جواب دہ ہو گا، قطع نظر اس سے کہ اس کے پاس کسی نبی کی دعوت پہنچی ہو، یا نہ پہنچی ہو۔ اگر کسی پیغمبر کی دعوت اس کو پہنچ گئی تو اس سے اس پر مزید حجت قائم ہو جائے گی۔ لیکن اگر اس کو کوئی ایسی دعوت نہیں بھی پہنچی تو بھی وہ مسئول ہو گا، اور بدیہیات فطرت کے بارے میں وہ کوئی عذر پیش نہیں کر سکے گا کہ یہ عہدِ فطرت ہی اس کے لئے کافی ہے۔

۱۷۳.  اور یہ چیز تیری شانِ عدل و انصاف کے منافی اور اس کے خلاف ہے کہ جرم و قصور کا ارتکاب کسی اور نے کیا ہو۔ اور پُرسش و پوچھ ہم سے ہو۔ سو اب اس عہدِ اَلَسْت کے بعد تم لوگ اس طرح کا کوئی عذر پیش نہیں کر سکو گے، کہ عقیدہ توحید اور ربوبیت خداوندی کو تمہاری فطرت میں پیوست کر دیا گیا ہے اور تم لوگوں نے خود اس کی گواہی دی ہے۔

۱۷۵.  سو اس سے یہ اہم اور بنیادی حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ آیات خداوندی کے ساتھ اور ان کے سائے میں اور ان کی پناہ میں رہنا حفاظت خداوندی کا ذریعہ و وسیلہ ہے، اور ان سے نکلنا اور دُور ہو جانا اپنے آپ کو شیاطین کے حوالے کرنا اور ان کا شکار بنانا ہے والعیاذ باللہ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہرحال میں اپنی رضا کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے، اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے اپنی پناہ میں رکھے، آمین

۱۷۶.            ۱: سو اس سے ہدایت و ضلالت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی سنت اور اس کے دستور کو واضح فرما دیا گیا ہے، کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنی آیتوں سے نوازتا ہے، اور وہ انکی قدر کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو انہی آیات کی بناء پر دین و دنیا دونوں کی سرفرازی عطا فرماتا ہے جس سے ان کی عقلوں کو رفعت ملتی ہے، اور ان کی روحوں کو معراج حاصل ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں وہ اس دنیا میں اور حوادث و مصائب کے ہجوم کے اندر بھی سکون و اطمینان کی ایسی دولت بے مثال اور نعمت لازوال سے بہرہ مند و سرفراز ہوتے ہیں، جن کو سمجھنا بھی ابنائے دنیا کے لئے ممکن نہیں۔ لیکن جو لوگ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ کی ان آیتوں کی قدر دانی نہیں کرتے۔ والعیاذُ باللہ، تو وہ ایسے ذلیل و خوار ہوتے ہیں کہ ان کی مثال کتے کی سی ہو جاتی ہے۔ جو کبھی خط مستقیم پر گردن اٹھا کر نہیں چلتا۔ بلکہ ہمیشہ زمین کو سونگھتا ہوا، اور ہر پاک و ناپاک چیز کا اپنی ناک سے جائزہ لیتا ہوا چلتا ہے، کہ شاید کھانے کی کوئی چیز مل جائے، اور اس کی راہنما اس کی آنکھ نہیں اس کی ناک ہوتی ہے، جو اس کی خواہشوں کی سراغ رساں ہوتی ہے اور اس کا کام اور مقصد ہی خواہشات بطن و فرج کی پیروی ہوتا ہے، اور بس، والعیاذُ باللہ العظیم          ۲:  حَمَلَ عَلَیْہ کے معنی محاورے کی زبان میں کسی پر حملہ کرنے کی غرض سے کسی چیز کو اٹھانے کے آتے ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں حَمَلَ عَلَیْہِ الْعَصَا۔ یعنی اس نے اس کو مارنے کے لئے لاٹھی اٹھائی۔ یا حَمَلَ عَلَیْہِ الْحَجَرَ یعنی اس نے اس پر پتھر اٹھایا، وغیرہ، اسی لئے ہم نے اس کا ترجمہ دھتکارنے کے لفظ سے کیا ہے۔ کہ یہ اس کے اصل مفہوم کے زیادہ قریب ہے، والحمد للہ جل وعلا۔ اور یَلْہَثْ، لَہَثَ سے ماخوذ ہے جس کے معنی زبان نکالنے کے آتے ہیں۔ اور اس کا غالب استعمال کتے ہی کے لئے ہوتا، ہے کہ اس کی زبان اکثر و بیشتر لٹکتی ہی رہتی ہے، اور اس سے رال ٹپکتی ہی رہتی ہے۔ جو علامت ہے اس کی انتہاء درجے کی حرص اور ہوس کی۔

۱۷۷.  ۲ کہ تکذیب آیات الٰہی کے نتیجے میں ایسے لوگ حقیقی عزت و عظمت اور سچی رفعت و کرامت سے محروم ہو کر کتے کی طرح ہو جاتے ہیں، جس کی زندگی کا محور و مدار خواہشات بطن و فرج کی تحصیل و تکمیل ہی کے لئے سرگرداں رہنا ہوتا ہے اس کی ناک ہر وقت زمین ہی میں لگی رہتی ہے، کہ شاید کہیں سے کھانے کی کسی چیز کی بو مل جائے، یہاں تک کہ اگر اس کو پتھر مارا جائے تو وہ اس کو بھی اس توقع میں کہ شاید یہ روٹی کا کوئی ٹکڑا یا کوئی ہڈی پھینکی گئی ہو، اس کو بھی اپنے دانتوں سے پکڑ لیتا ہے، اور شہوت بطن کے ساتھ ساتھ اس کی دوسری خصوصیت شہوت فرج ہے، سو اس کی ساری تگ و دو اور دوڑ دھوپ کا محور و مدار بطن و فرج کی شہوتوں کی تحصیل و تکمیل کے گرد گھومنا، اور ان کے لئے سرگرداں رہنا ہے، اور یہی مثال ان لوگوں کی ہے جو آیات خداوندی اور نور حق و ہدایت سے منہ موڑ کر خواہشاتِ بطن و فرج ہی کے پیچھے لگ جاتے ہیں، اور وہ ہمہ تن بطن اور ہمہ تن فرج بن کر رہ جاتے ہیں۔ سو اس سے بڑھ کر بُری مثال اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ کہ انسان اپنی شرافت و کرامت کو ضائع کر کے، اور شہوات کے پیچھے لگ کر اس حد تک گر جائے۔ کہ کتے کی مثال بن جائے۔ والعیاذُ باللہ العظیم۔

۱۷۹.  سو ایسے لوگ جب اپنے دلوں سے حق و ہدایت کے بارے میں سوچتے اور غور نہیں کرتے، اپنی آنکھوں سے راہ حق و ہدایت کو دیکھتے اور اپناتے نہیں اور اپنے کانوں سے حق بات کو سننے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ بلکہ ایسے لوگ حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کی دی بخشی ان صلاحیتوں اور قوتوں کو خواہشات بطن و فرج کی تحصیل و تکمیل ہی کے پیچھے لگا دیتے ہیں، اور انہی کے حصول کو اپنی زندگی کا اصل مقصد اور نصب العین بنا لیتے ہیں۔ تو اس سے ایسے لوگ اپنے آپ کو حیوانات کی سطح پر اتار دیتے ہیں، کہ ان کی زندگی کا مقصد بھی یہی ہے، بلکہ ایسے لوگ ان حیوانات سے بھی کہیں بڑھ کر گمراہ اور فروتر ہیں، کہ حیوانات نے آگے کوئی حساب نہیں دینا، جبکہ انہوں نے اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا حساب دینا، اور اس کا پھل پانا ہے، حیوانات کو قدرت کی طرف سے عقل و فکر کی دولت نہیں بخشی گئی، اس لئے ان کو مکلف نہیں بنایا گیا، جبکہ ان کو عقل و فکر کی دولت بھی بخشی گئی ہے، اور ان کو مکلف بھی بنایا گیا ہے، مگر اس سب کے باوجود ان لوگوں کا اپنے اصل مقصد کو بھلا کر، اپنے آپ کو خواہشات بطن و فرج کا غلام بنا دینا۔ اور خود کو انسانیت کے منصبۂ شرف سے گرا کر حضیض حیوانیت سے ہمکنار کر دینا خساروں کا خسارہ اور محرومیوں کی محرومی ہے، سو اس طرح انسان آیات الٰہی سے منہ موڑ کر انتہائی ہولناک خسارے میں مبتلا ہوتا ہے، والعیاذ باللہ العظیم

۱۸۱.  سو اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں جہاں بڑی تعداد ان اندھے بہرے لوگوں کی ہے جنہوں نے اپنے قوائے علم و ادراک کو ضائع کر کے اپنے آپ کو حیوانات کی سطح سے بھی نیچے گرا دیا ہے، وہاں کچھ لوگ ایسے خوش نصیب اور نیک بخت بھی ہیں، جنہوں نے اپنی انسانیت اور اس کے شرف و امتیاز کو باقی اور محفوظ رکھا۔ وہ اپنی عقلوں سے صحیح کام لیتے، حق کو پہچانتے، اسی کے مطابق لوگوں کی راہنمائی کرتے۔ اور عدل و انصاف کے مطابق اپنے معاملات کے فیصلے کر تے ہیں۔ اور بالآخر ایسے ہی نیک بخت اور سلیم الفطرت لوگ نور اسلام سے منور ہوتے۔ اور دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی سے اہل اور حقدار بنتے ہیں، والحمد للہ

۱۸۳.  ایسی مضبوط اور اس قدر سخت کہ ان کو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا اور یہ اس کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔ ہم نے جو ان کو ڈھیل اور چھوٹ دے رکھی ہے، یہ اس کو اپنی جیت سمجھتے ہیں حالانکہ اصل اور حقیقت کے اعتبار سے یہی ڈھیل اور چھوٹ ان کے لئے ہلاکت کا پھندا ہوتی ہے۔ سو سرکش لوگ یہ نہ سمجھیں کہ وہ ہماری گرفت و پکڑ سے باہر ہیں، یا باہر ہو سکتے ہیں بلکہ یہ لوگ استدراج کے پھندے میں ہیں سو اس سے رَبِّ رحمان و رحیم کی شان رحمت و عنایت کا اندازہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ وہ ایسے سرکشوں کو اپنی گرفت اور اپنی چال سے اس طرح آگہی بھی بخشتا ہے تاکہ یہ لوگ چونک کر بیدار ہو جائیں اور اپنے ہولناک انجام سے بچنے کی فکر و کوشش کریں، مگر دنیا ہے کہ پھر بھی غفلت و لاپرواہی میں ڈوبی پڑی ہے۔ الا ماشاء اللہ، والعیاذُ باللہ جل وعلا۔

۱۸۵.  سو اس سے کائنات میں غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے اور اس حقیقت کو واضح فرمایا گیا ہے کہ اگر یہ لوگ اس حکمتوں بھری کائنات میں صحیح طریقے سے غور وفکر سے کام لیں، تو ان کے سامنے یہ حقیقت پوری طرح واضح ہو جائے گی کہ جس چیز کی طرف ان کو خدا کے پیغمبر بلا رہے ہیں اس کی تصدیق و تائید اس پوری کائنات سے ہو رہی ہے۔ اور اس کی صدا اس کے گوشے گوشے سے بلند ہو رہی ہے۔ اور اس کائنات میں صحیح طریقے سے غور کرنے والا پکار اٹھے گا کہ حضرت خالق جَلَّ مَجْدَہ، نے اس کائنات کو بیکار و بے مقصد نہیں پیدا فرمایا۔ اور یہ کہ یہ لازماً ایک روز جزاء پر منتہی ہونے والی ہے جس میں فوز و فلاح سے وہی لوگ سرفراز ہو سکیں گے جنہوں نے راستی اور پاکبازی کی زندگی بسر کی ہو گی اور جس کا ذریعہ و وسیلہ صرف قرآن حکیم کی تعلیمات مقدسہ کی اتباع و پیروی ہے اور جو اس راہ سے ہٹ کر چلیں گے۔ اور اپنی خواہشات کی پیروی ہی میں لگے رہیں گے، اور قرآنِ حکیم کی تعلیمات مقدسہ کو جھٹلائیں گے، ان کا ٹھکانا دوزخ ہی ہو گا۔ والعیاذُ باللہ جل وعلا، سو یہ کائنات اور اس کا یہ مجموعی اور پُر حکمت نظام اپنی زبان حال سے اسی بات کی تائید و تصدیق کرتا ہے جس کی دعوت یہ قرآن دنیا کو دے رہا ہے کیونکہ قرآن اور کائنات دونوں کا تعلق ایک ہی ذات اقدس و اعلیٰ سے ہے۔ یعنی اللہ جل جلالہ سے، اس لئے ان میں سے ہر ایک دوسرے کی تائید و تصدیق کرتا ہے۔ کیونکہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور کائنات اس وحدہٗ لاشریک کا کام۔ پس دونوں کا پیغام اور دونوں کی دعوت ایک ہی ہے، پس جو کچھ اس قرآن میں فرمایا گیا ہے اس کی تائید و تصدیق اس پوری کائنات اور اس کی ایک ایک چیز سے ہوتی ہے، اور جو کچھ اس کائنات کے اندر ہے اس سب کے بارے میں ہدایت و راہنمائی اس کتاب ہدایت سے ملتی ہے والحمد للّٰہ جَلَّ وَعَلَا، خالق الکوۃ، وَمُنَزِّلَ القرآن، سبحانہ، و تعالیٰ

۱۸۷.  سو اسی بناء پر وہ جانتے نہیں کہ کیا چیز ان کے جاننے کی ہے جس کے درپے ان کو ہونا چاہیئے۔ اور کیا چیز ان کے حدود علم آگہی سے ماوراء ہے، جس کے پیچھے پڑنا بےسود و لا حاصل ہے۔ اور یہ انسان کی بدبختی ہمیشہ سے رہی ہے، کہ یہ زیادہ تر انہی چیزوں کے پیچھے پڑتا ہے جو نہ اس کے جاننے کی ہوتی ہیں۔ اور نہ ہی وہ ان کو جان سکتا ہے، اور پھر نفس و شیطان کی انگیخت و شر انگیزی سے وہ ایسی ہی چیزوں کو بہانہ بنا کر ان اصل اور بنیادی حقائق سے منہ موڑ لیتا ہے جن کو جاننا اس کے لئے ضروری اور دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہوتا ہے۔ بلکہ وہ الٹا ان اہم اور بنیادی حقائق کا مذاق اڑانے لگتا ہے۔ جیسا کہ قیامت سے متعلق سوال کے بارے میں ان لوگوں کا مذاق کے انداز میں کہنا تھا اَیَّانَ مُرْسَاہَا، کیونکہ مُرْسیٰ اصل میں جہاز کے لنگر انداز ہونے کو کہا جاتا ہے سو ان لوگوں کا قیامت کے بارے میں کہنا تھا کہ آخر وہ آئی کیوں نہیں اس کا جہاز آخر کب لنگر انداز ہو گا؟ سو اس کے جواب میں ارشاد فرمایا گیا کہ ان سے کہو کہ اس کا علم تو اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے وہی جانتا ہے کہ وہ کب آئے گی، پیغمبر کا کام تو صرف اس سے آگاہ اور خبردار کر دینا ہوتا ہے اور بس، آگے اس کو اپنے وقت پر اللہ ہی ظاہر کرے گا۔ سبحانہ و تعالیٰ

۱۸۸.  سو پیغمبر کے انذار سے مستفید و فیضیاب وہی لوگ ہوتے ہیں، اور وہی ہو سکتے ہیں، جو ایمان رکھتے ہوں، یا ایمان لانا چاہتے ہوں رہ گئے معاند اور ہٹ دھرم لوگ تو ان کو پیغمبر کے انذار سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ سو اس ارشاد سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو بھی واضح فرما دیا گیا کہ پیغمبر نہ تو مختار کل ہوتے ہیں اور نہ ہی عالم غیب جیسا کہ اہل بدعت کا کہنا اور ماننا ہے کیونکہ اس میں صاف اور صریح طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ میں خود اپنی ذات کے لئے بھی نہ کسی نفع کا اختیار رکھتا ہوں۔ نہ نقصان کا اور نہ ہی میں غیب جانتا ہوں، اگر میں غیب جانتا ہوتا، تو اپنے لئے بہت کچھ بھلائیاں جمع کر لیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی۔ میرا کام تو صرف انذار و تبشیر ہے، اور یہ انذار و تبشیر اگرچہ سب لوگوں کے لئے اور عام ہے۔ لیکن اس سے مستفید و فیضیاب وہی لوگ ہوتے ہیں، اور وہی ہو سکتے ہیں، جو ایمان رکھتے ہوں یا رکھنا چاہتے ہوں۔ اس لئے عناد اور ہٹ دھرمی والوں کے لئے محرومی ہی محرومی ہے والعیاذ باللہ

۱۹۰.  سو اس سے انسان کی ایک اور بدبختی اور زیع طبع کا نمونہ پیش فرمایا گیا ہے کہ جب اولاد پیدا ہونے والی ہوتی ہے تو میاں بیوی دونوں مل کر خدا سے دعا کرتے ہیں کہ اگر تو نے ہمیں بھلی چنگی اولاد عطاء فرما دی تو ہم ضرور تیرے شکر گزار ہوں گے لیکن جب اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فضل و کرم سے بھلی چنگی اولاد عطاء فرما دیتا ہے، تو یہ دونوں شرک کرنے لگ جاتے ہیں۔ کوئی اس کو کسی دیوی دیوتا کی طرف منسوب کرتا ہے، اور اسی کی دین بتاتا ہے، اور کوئی اس کو کسی خانقاہ درگاہ کی طرف منسوب کرتا ہے، اور اس کو اسی کا کرم اور عطاء قرار دیتا ہے۔ اور کوئی کسی پیر فقیر اور ملنگ کی طرف منسوب کرتا ہے، کہ یہ فلاں کی عطاء اور اس کی بخشش مہربانی ہے، وغیرہ وغیرہ پھر اسی بناء پر وہ اس کے بعد طرح طرح کی شرکیات کا ارتکاب کرتے ہیں، اور اس کے شرکیہ نام بھی رکھتے ہیں، بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ کہ کتنے ہی بدبخت ایسے ہوتے ہیں جو اپنے آپ کو کسی درگاہ کا کتا قرار دیتے ہیں، اور فخریہ کہتے ہیں کہ میں سگ درگاہ فلاں یعنی فلاں درگاہ کا۔۔ کتا ہوں، والعیاذ باللہ، سو یہ کتنا بڑا ظلم۔ اور کس قدر ناشکری اور بے انصافی ہے کہ دیا بخشا کس نے، اور نام کس کا لیا جا رہا ہے اور منسوب کس طرف کیا جا رہا ہے، فَتَعَلیٰ اللّٰہُ الْمُلْکُ الْحَقُّ۔۔۔۔۔ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ، اللہ تعالیٰ شرک اور اس کے ہر شائبہ سے ہمیشہ محفوظ رکھے۔ اور ہمیشہ اور ہر طرح سے اپنا ہی بنائے رکھے۔ آمین ثم آمین

۱۹۳.  سو اس سے معبودان من دون اللہ کی بے حقیقتی کو واضح فرما دیا گیا، کیونکہ عابد کی معبود سے سب سے بڑی حاجت اور ضرورت یہی ہوتی ہے کہ وہ اس سے ہدایت و راہنمائی کی طلب و درخواست کرے۔ تاکہ اس کے مطابق وہ اپنی زندگی گزار سکے، لیکن یہاں پر حال یہ ہے کہ تم لوگ، اللہ کے سوا جن کو پوجتے پکارتے ہو۔ اے مشرکو! وہ تمہاری کوئی راہنمائی نہیں کر سکتے۔ تم لوگ زندگی کے جس موڑ پر بھی ان کو پکارو گے، وہ تم کو کوئی جواب نہیں دے سکیں گے کہ یہ چیز ان کے بس میں ہے ہی نہیں، تم خواہ چیخ چیخ کر ان کو پکارو، یا بالکل خاموش رہو۔ دونوں ہی صورتیں ایک برابر ہیں، تو پھر ایسوں کو معبود بنانے کی آخر کیا تُک ہو سکتی ہے؟ والعیاذُ باللہ، اسی مضمون کی وضاحت آگے آیت نمبر۱٩٨ میں فرمائی گئی ہے۔ جس سے معبودان باطلہ کی بے حقیقتی کو پوری طرح واضح فرما دیا گیا ہے والحمدللہ جل وعلا

۱۹۶.  سو اس ارشاد ربانی سے پیغمبر کی زبان سے کارساز حقیقی کی تعریف اور اس کی شان ذکر کروائی گئی ہے۔ سو اس سے واضح فرمایا گیا کہ میرا حامی و ناصر اور کارساز حقیقی وہ اللہ ہی ہے جس نے میری اور ساری مخلوق کی ہدایت و راہنمائی کے لئے یہ کتاب عظیم نازل فرمائی ہے، اور جو اپنے نیکوکار اور صالح بندوں کو دوست رکھتا، اور ہر ہر مرحلے پر انکی مدد و راہنمائی فرماتا ہے سو ایک طرف تو تمہارے اے مشرکو! یہ من گھڑت اور خود ساختہ معبود ہیں۔ جو نہ تمہاری کوئی مدد اور راہنمائی کر سکتے ہیں، اور نہ ہی زندگی کے کسی مرحلے اور موڑ پر وہ تمہارے کچھ کام آ سکتے ہیں، اور دوسری طرف وہ کار ساز حقیقی ہے، یعنی اللہ وحدہٗ لاشریک جس نے اپنی مخلوق کی ہدایت و راہنمائی کے لئے یہ عظیم الشان کتاب ہدایت نازل فرمائی ہے، اور وہ اپنے نیک اور صالح بندوں کی زندگی کے ہر موقع اور ہر موڑ پر مدد فرماتا ہے۔ اب ذرا تم لوگ سوچو اور اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھو کہ تم لوگ راہ حق و ہدایت سے منہ موڑ کر کس قدر ہولناک خسارے میں پڑے ہوئے ہو۔ والعیاذُ باللہ العظیم۔

۱۹۹.  سو اس سے مکارم اخلاق کی عظیم الشان اور جامع تعلیم دی گئی ہے جنمیں پہلی بات تو یہ فرمائی گئی ہے کہ عفو کی خو کو اپناؤ۔ اور دوسری یہ کہ عُرف یعنی نیکی کی تعلیم دیتے رہو۔ عُرْف ایسی بات کو کہا جاتا ہے جو عقل و فطرت اور معقول لوگوں کے نزدیک جانی پہنچانی ہو۔ اور اس کا مصداق توحید و رسالت آخرت و معاد اور نیکی و عدل کی وہی باتیں جو دین حنیف دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے، جو عقل و فطرت تقاضوں کے عین مطابق، اور طبائع سلیمہ کی پکار ہیں۔ تیسری بات یہ کہ جاہلوں سے اِعْراض و روگردانی سے کام لو۔ ان سے الجھو نہیں، کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں، حضرت جعفر صادق سے مروی ہے کہ یہ مکارمِ اخلاق کی سب سے جامع آیت ہے (محاسن التاویل وغیرہ) سو اس سے پیغمبر کو خطاب کر کے ان مکارمِ اخلاق کی تعلیم دی گئی ہے اور آنجناب کے توسّط سے یہی تعلیم پوری امت کو دی گئی ہے، سو پوری امت اور اس کے ہر ہر فرد سے اس کی پابندی و پاسداری مطلوب ہے پس پیغمبر سے خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ تم جو توحید و معاد۔ اور نیکی و عدل، کی تعلیم دے رہے ہو اس پر جمے رہو، اور جاہلوں سے درگزر ہی برتو۔ کہ صحت و سلامتی کی راہ یہی ہے، یہ لوگ اپنے کئے کرائے کا نتیجہ و انجام بہرحال بھگت کر رہیں گے، پس ہر بندہ مومن کو چاہیے کہ ہمیشہ عفو و درگزر ہی سے کام لے، نیکی اور خیر کی تعلیم و تلقین کرتا رہے، اور جاہلوں سے الجھنے سے بچتا رہے، اور بھروسہ اپنے خالق و مالک ہی پر رکھے، وباللہ التوفیق لمایُحِبُّ ویرید، وعلیٰ مایُحِبُّ ویرید،

۲۰۰.  سو اس سے شیاطین اور ان کے شرور و فتن سے اللہ کی پناہ مانگنے کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے، کہ ان کے شرور و فتن سے بچنے کا صرف یہی طریقہ ہے، کہ اللہ کی پناہ مانگی جائے کہ وہی قادر مطلق سمیع و علیم ہے اور وہی اپنے بندوں کی دعا و پکار کو سنتا اور قبول فرماتا ہے، اور وہی بندوں کو شیاطین کے شرور و فتن سے بچا سکتا ہے۔ خواہ وہ شیاطین انس ہوں یا شیاطین جن اَللّٰہُمَّ اِنَّا نَعُوْذُبِکَ مِنَ الشُّرُوْرِ وَالْفِتْنِ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ، بِکُلِّ حَالٍ مِّنَ الْاَحْوَالِ۔ وَفِیْ کُلِ مَوْطِنٍ مِّنَ الْمَوَاطِنِ فِی الْحَیَاۃِ یَاذَالْجَلَالِ والاکرام۔

۲۰۳.  سو اس سے منکرین و معاندین کے مذکورہ بالا طنز کا نہایت متین و با وقار جواب بھی دیا گیا ہے، اور اصل حقیقت کو بھی پوری طرح واضح فرما دیا گیا۔ ان بدبختوں کا کہنا تھا کہ کیوں نہیں چھانٹ لائے آپ (اے پیغمبر!) ایسی کسی آیت کو۔ تو اس کے جواب میں ارشاد فرمایا گیا کہ ان سے کہو کہ میرا کام از خود آیتوں کو گھڑنا اور ان کو چھانٹنا نہیں، بلکہ میرا کام تو اتباع اور پیروی کرنا ہے اس وحی کی جو میری طرف میرے رب کی جانب سے بھیجی جاتی ہے، تم لوگ تو ان کو من گھڑت کہتے ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تمہارے رب کی طرف سے اتاری جانے والی ایسی آیتیں ہیں جو دلوں اور آنکھوں کے پردے ہٹا دینے والی، اور ان کو روشن و منور کر دینے والی ہیں، اور یہ سراسر ہدایت اور عین رحمت ہیں ان لوگوں کے لئے جو ایمان رکھتے ہیں، اور جو ایمان لانا چاہتے ہیں۔ سو ایمان کی دولت ہی وہ واحد دولت ہے جو انسان کو انسان بناتی، اور اس کو دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا اہل بناتی ہے۔

۲۰۴.  سو اس ارشاد سے ہدایت قرآن سے صحیح طور پر مستفید و فیضیاب ہونے کا طریقہ بتایا گیا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا گیا کہ جب قرآن پڑھا جائے تو تم لوگ اس کو غور اور توجہ سے سنا کرو۔ اور خاموش رہا کرو تاکہ تم رحمت خداوندی سے مستفید و فیضیاب ہو سکو، وباللہ التوفیق لمایُحِبُّ ویرید

۲۰۵.  سو اس ارشاد سے دعا سے متعلق تین اہم اور بنیادی آداب تعلیم و تلقین فرمائے گئے ہیں، اول یہ کہ دعاء عاجزی و زاری اور خوف و خشیت کے ساتھ ہو، نہ کہ ناز و تدلل، اور احساس استحقاق کے ساتھ، اور دوسرا یہ کہ دعا ضرورت سے زیادہ بلند آواز سے نہ ہو، اور تیسرا یہ کہ خدا کی یاد سے کبھی غفلت نہ ہو۔ بلکہ اس کی یادِ دلشاد سے دل کی دنیا ہمیشہ معمور و آباد رہے، کیونکہ جس طرح جسم کی زندگی کے لئے سانس کی آمدو رفت کا تسلسل ضروری ہے اسی طرح روح کی زندگی کے لئے ذکر الٰہی اور یاد خداوندی ضروری ہے وباللہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی مایحب ویرید۔

۲۰۶.  سو اس سے اللہ کے فرشتوں کی شان عبدیت و عبادت کو ذکر فرمایا گیا ہے، جس سے ایک طرف تو اللہ کے ذاکر و شاکر بندوں کی عظمت شان واضح ہو جاتی ہے، کہ وہ اگرچہ ہوتے خاکی اور بندے ہیں، اور رہتے بستے اللہ کی زمین پر ہیں۔ لیکن ان کا تعلق فرشتوں کی بزم قدس سے ہوتا ہے اور دوسری اس طرف سے منکرین و معاندین کی محرومی بھی واضح ہو جاتی ہے، جو نتیجہ ہوتا ہے ان کے کفر و عناد کا۔ والعیاذ باللہ