۱ ۔۔۔ یعنی قرآن مجید "لوح محفوظ" سے سماء دنیا پر "شب قدر"میں اتارا گیا اور شاید اسی شب سماءِ دنیا سے پیغمبر علیہ السلام پر اترنا شروع ہوا۔ اس کے متعلق کچھ مضمون سورہ "دخان" میں گزر چکا ہے۔ وہاں دیکھ لیا جائے۔
۳ ۔۔۔ یعنی اس رات میں نیکی کرنا ایسا ہے گویا ہزار مہینے تک نیکی کرتا رہا۔ بلکہ اس سے بھی زائد۔
۴ ۔۔۔ ۱: یعنی اللہ کے حکم سے روح القدس (حضرت جبرائیل علیہ السلام) بے شمار فرشتوں کے ہجوم میں نیچے اترتے ہیں تاکہ عظیم الشان خیرو برکت سے زمین والوں کو مستفیض کریں ۔ اور ممکن ہے "روح" سے مراد فرشتوں کے علاوہ کوئی اور مخلوق ہو۔ بہرحال اس مبارک شب میں باطنی حیات اور روحانی خیر و برکت کا ایک خاص نزول ہوتا ہے۔
۲: یعنی انتظام عالم کے متعلق جو کام اس سال میں مقدر ہیں ان کے نفاذ کی تعیین کے لئے فرشتے آتے ہیں ۔ کما مرفی سورۃ الدخان۔ یا "من کل امر" سے امرِ خیر مراد ہو۔ یعنی ہر قسم کے امورِ خیر لے کر آسمان سے اترتے ہیں ۔ واللہ اعلم۔
۵ ۔۔۔ ۱: یعنی وہ رات امن و چین اور دلجمعی کی رات ہے۔ اس میں اللہ والے لوگ عجیب و غریب طمانیت اور لذت و حلاوت اپنی عبادت کے اندر محسوس کرتے ہیں ۔ اور یہ اثر ہوتا ہے، نزول رحمت و برکت کا جو روح و ملائکہ کے توسط سے ظہور میں آتا ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ اس رات جبرائیل علیہ السلام اور فرشتے عابدین و ذاکرین پر صلوٰۃ و سلام بھیجتے ہیں ۔ یعنی ان کے حق میں رحمت اور سلامتی کی دعا کرتے ہیں ۔
۲: یعنی شام سے صبح تک ساری رات یہی سلسلہ رہتا ہے اس طرح وہ پہلی رات مبارک ہے
(تنبیہ) قرآن سے معلوم ہوا کہ وہ رات رمضان شریف میں ہے " شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن۔ " اور حدیث صحیح میں بتلایا کہ رمضان کے اخیر عشرہ میں خصوصاً عشرہ کی طاق راتوں میں اس کو تلاش کرنا چاہئے، پھر طاق راتوں میں بھی ستائیسویں شب پر گمان غالب ہوا ہے۔ واللہ اعلم۔ بہت سے علماء نے تصریح کی ہے کہ "شب قدر" ہمیشہ کے لئے کسی ایک رات میں متعین نہیں ۔ ممکن ہے ایک رمضان میں کوئی رات ہو، دوسرے میں دوسری۔