۲ ۔۔۔ یعنی مال و اولاد کی کثرت اور دنیا کے سازو سامان کی حرص آدمی کو غفلت میں پھنسائے رکھتی ہے۔ نہ مالک کا دھیان آنے دیتی ہے نہ آخرت کی فکر۔ بس شب و روز یہی دھن لگی رہتی ہے کہ جس طرح بن پڑے مال و دولت کی بہتات ہو، اور میرا کنبہ اور جتھا سب کنبوں اور جتھوں سے غالب رہے۔ یہ پردہ غفلت کا نہیں اٹھتا یہاں تک کہ موت آ جاتی ہے۔ تب قبر میں پہنچ کر پتہ لگتا ہے کہ سخت غفلت اور بھول میں پڑے ہوئے تھے محض چند روز کی چہل پہل تھی۔ موت کے بعد وہ سب سامان ہیچ بلکہ و بالِ جان ہیں ۔ (تنبیہ) بعض روایات میں آیا ہے (اللّٰہ اعلم بصحتھا) کہ ایک مرتبہ دو قبیلے اپنے اپنے جتھے کی کثرت پر فخر کر رہے تھے۔ جب مقابلہ کے وقت ایک کے آدمی دوسرے سے کم رہے تو اس نے کہا کہ ہمارے اتنے آدمی لڑائی میں مارے جا چکے ہیں چل کر قبریں شمار کر لو۔ وہاں پتہ لگے گا کہ ہمارا جتھا تم سے کتنا زیادہ ہے۔ اور ہم میں کیسے کیسے نامور گزر چکے ہیں ۔ یہ کہہ کر قبریں شمار کرنے لگے۔ اس جہالت و غفلت پر متنبہ کرنے کے لئے یہ سورت نازل ہوئی۔ ترجمہ میں دونوں مطلبوں کی گنجائش ہے۔
۴ ۔۔۔ یعنی دیکھو بار بار بتاکید کہا جاتا ہے کہ تمہارا خیال صحیح نہیں کہ مال و اولاد وغیرہ کی بہتات ہی کام آنے والی چیز ہے۔ عنقریب تم معلوم کر لو گے کہ یہ زائل وفانی چیز ہرگز فخر و مباہات کے لائق نہ تھی پھر سمجھ لو کہ آخرت ایسی چیز نہیں جس سے انکار کیا جائے یا غفلت برتی جائے۔ آگے چل کر تم پر بہت جلد کھل جائے گا کہ خواب سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتی، یہ حقیقت بعض لوگوں کو دنیا میں تھوڑی بہت کھل جاتی ہے لیکن قبر میں پہنچ کر اور اس کے بعد محشر میں سب کو پوری طرح کھل جائے گی۔
۵ ۔۔۔ یعنی تمہارا خیال ہرگز صحیح نہیں اگر تم یقینی طور پر دلائل صحیحہ سے اس بات کو جان لیتے کہ آخرت کے مقابلہ میں دنیا کے سب سامان ہیچ ہیں تو ہرگز اس غفلت میں پڑے نہ رہتے۔
۷ ۔۔۔ یعنی اس غفلت و انکار کا نتیجہ دوزخ ہے، وہ تم کو دیکھنا پڑے گا۔ اول تو اس کا کچھ اثر برزخ میں نظر آ جائے گا۔ پھر آخرت میں پوری طرح دیکھ کر عین الیقین حاصل ہو جائے گا۔
۸ ۔۔۔ یعنی اس وقت کہیں گے اب بتلاؤ! دنیا کے عیش و آرام کی کیا حقیقت تھی۔ یا اس وقت سوال کیا جائے گا کہ جو نعمتیں (ظاہری و باطنی، آفاقی وانفسی، جسمانی و روحانی) دنیا میں عطا کی گئی تھیں ان کا حق تم نے ادا کیا اور منعمِ حقیقی کو کہاں تک خوش رکھنے کی سعی کی۔