۱ ۔۔۔ یعنی اس کتاب کی عظمت شان کا اندازہ اس بات سے کرنا چاہیے کہ ہم اس کے اتارنے والے اور آپ جیسی رفیع الشان شخصیت اس کی اٹھانے والی ہے اور مقصد بھی اس قدر اعلیٰ و ارفع ہے جس سے بلند تر کوئی مقصد نہیں ہو سکتا وہ یہ کہ خدا کے حکم و توفیق سے تمام دنیا کے لوگوں کو خواہ عرب ہوں یا عجم، کالے ہوں، یا گورے، مزدور ہوں یا سرمایہ دار، بادشاہ ہوں یا رعایا۔ سب کو جہالت و اوہام کی گھٹا ٹوپ اندھیریوں سے نکال کر معرفت و بصیرت اور ایمان و ایقان کی روشنی میں کھڑا کرنے کی کوشش کی جائے۔
۲ ۔۔۔ ۱: یعنی صحیح معرفت کی روشنی میں اس راستہ پر چل پڑیں جو زبردست و غالب، ستودہ صفات، شہنشاہِ مطلق اور مالک الکل خدا کا بتایا ہوا اور اس کے مقام رضاء تک پہنچانے والا ہے۔
۲: یعنی جو لوگ ایسی کتاب نازل ہونے کے بعد کفرو شرک اور جہالت و ضلالت کی اندھیری سے نہ نکلے ان کو سخت عذاب اور ہلاکت خیز مصیبت کا سامنا ہے، آخرت میں یا دنیا میں بھی۔
۳ ۔۔۔ یہ کافروں کا حال بیان فرمایا کہ ان کا اوڑھنا بچھونا یہ ہی دنیا ہے آخرت کے مقابلہ میں اسی کو پسند کرتے ہیں اور ترجیح دیتے ہیں۔ شب و روز اسی کی محبت میں غرق رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی چاہتے ہیں کہ دنیا کی محبت میں پھنسا کر خدا کی خوشنودی کے راستہ سے روک دیں۔ اسی لیے یہ فکر رہتی ہے کہ خدا کے دین میں کوئی عیب نکالیں اور سیدھے راستہ کو ٹیڑھا ثابت کریں۔ فی الحقیقت یہ لوگ راستہ سے بھٹک کر بہت ہی دور جا پڑے ہیں جن کے واپس آنے کی توقع نہیں۔ خدا کی سخت مار پڑے گی تب آنکھیں کھلیں گی۔
۴ ۔۔۔ ۱: یعنی جس طرح آپ کو ہم نے لوگوں کی ہدایت کے لیے یہ عظیم الشان کتاب عطا فرمائی، پہلے بھی ہر زمانہ میں سامان ہدایت بہم پہنچاتے رہے ہیں۔ چونکہ طبعی ترتیب کے موافق ہر پیغمبر کے اولین مخاطب اسی قوم کے لوگ ہوتے ہیں جن سے وہ پیغمبر اٹھایا جاتا ہے اس لیے اسی کی قومی زبان میں وحی بھیجی جاتی رہی۔ کہ احکام الٰہیہ کے سمجھنے سمجھانے میں پوری سہولت رہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی امت دعوت میں گو تمام جن و انس شامل ہیں، تاہم جس قوم میں سے آپ اٹھائے گئے اس کی زبان عربی تھی اور ترتیب طبعی کے موافق شیوع ہدایت کی یہ ہی صورت مقدر تھی کہ آپ کے اولین مخاطب اور مقدم ترین شاگرد ایسی سہولت اور خوبی سے قرآنی تعلیمات و حقائق کو سمجھ لیں اور محفوظ کر لیں کہ ان کے ذریعہ سے تمام اقوام عالم اور آنے والی نسلیں درجہ بدرجہ قرآنی رنگ میں رنگی جا سکیں چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ عربوں نے اپنے نبی کی صحبت میں رہ کر اپنی قومی زبان میں جس سے انہیں بیحد شغف تھا، قرآنی علوم پر کافی دسترس پائی، پھر وہ مشرق و مغرب میں پھیل پڑے اور روم و فارس پر چھا گئے۔ اس وقت قدرت نے عجمی قوموں میں ایسا زبردست جوش اور داعیہ کلام الٰہی کی معرفت اور زبان عربی میں مہارت حاصل کرنے کا پیدا فرما دیا کہ تھوڑی مدت کے بعد وہ قرآنی علوم کی شرح و تبیین میں اپنے معاصر عربوں سے گوئے سبقت لے گئے بلکہ عموماً علوم دینیہ و ادبیہ کا مدار ثریا تک پرواز کرنے والے عجمیوں پر رہ گیا۔ اس طرح خدا کی حجت بندوں پر تمام ہوتی رہتی اور وقتاً فوقتاً قرآنی ہدایت سے مستفید ہونے کے اسباب فراہم ہوتے رہے۔ فَالْحَمْدُ للّٰہِ عَلیٰ ذَالِکَ۔ بہرحال خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کے خاص قوم عرب میں سے اٹھائے جانے کی اگر کچھ وجوہ موجود ہیں (اور یقیناً ہیں) تو ان ہی وجوہ کے نتیجہ میں اس سوال کا جواب بھی آ جاتا ہے کہ قرآن عربی زبان میں اتار کر خداوند عالم نے عربوں کی رعایت کیوں کی؟
۲: یعنی تبیین و ہدایت کے سامان مکمل کر دیے پھر جس نے ان سامانوں سے منتفع ہونا چاہا اس کی دستگیری فرما کر راہ پر لگا دیا جس نے روگردانی کی اسے گمراہی میں چھوڑے رکھا۔ وہ زبردست اور غالب ہے چاہے تو سب کو زبردستی راہ ہدایت پر لگا دے لیکن اس کی حکمت مقتضی ہوئی کہ انسان کو کسب و اختیار کی ایک حد تک آزادی دے کر رحمت و غضب دونوں کے مظاہر کو دنیا میں باقی رہنے دے۔
۵ ۔۔۔ "نشانیاں دے کر یعنی معجزات دے کر جو "آیاتِ تسعہ" کے نام سے مشہور ہیں یا آیاتِ تورات مراد ہوں۔ اور "یاد دلا ان کو دن اللہ کے" یعنی ان دنوں کے واقعات یاد دلاؤ جب ان پر شدائد و مصائب کے پہاڑ ٹوٹے پھر اللہ تعالیٰ نے ان سے نجات دی اور اپنی مہربانی مبذول فرمائی کیونکہ دونوں قسم کے حالات سننے سے صابر و شاکر بندوں کو عبرت حاصل ہوتی ہے کہ مصیبت کے وقت گھبرانا اور راحت کے وقت اترانا نہیں چاہیے جو لوگ پہلے کامیاب ہوئے ہیں وہ سختیوں پر صبر اور نعمائے الٰہیہ پر شکر کرنے سے ہوئے ہیں۔"وَتَمَّتُ کَلِمَۃُ رَبِّکَ الْحُسْنیٰ عَلیٰ بَنِیْ اِسْرَآئِیْلَ بِمَا صَبَرُوْا وَدَمَّرْنَا مَاکَانَ یَصْنَعُ فِرْعُوْنُ وَقَوْمُہ، وَمَا کَانُوْا یَعْرِشُوْنَ" (اعراف، رکوع ۱۶، آیت ۱۳۷)
۶ ۔۔۔ ۱: مثلاً تم کو غلام بنا رکھا تھا اور سخت بیگاریں لیتے تھے۔
۲: کہ تم کو غلامی کی ذلت سے نکالا اور دولت آزادی سے مالا مال کیا۔ "بلاء" کے اصل معنی آزمائش کے ہیں۔ تکلیف و راحت دونوں حالتوں میں بندے کے صبر و شکر کی آزمائش ہے وَنَبْلُوْکُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَۃً (الانبیاء، رکوع ۳، آیت:۳۵) وَبَلَوْنَا ہُمْ بِالْحَسَنَاتِ وَ السَّیِّئَاتِ (اعراف، رکوع ٢۱، آیت :۱۶۸) چونکہ فرعونیوں سے نجات دینا بڑی نعمت تھی تو یہاں آزمائش انعام سے ہوئی جیسے مترجم محقق نے بطور حاصل معنی لفظ "مدد" سے تعبیر کیا۔ اس قسم کی آیت سورہ بقرہ اور اعراف میں گزر چکی ہے وہاں کے فوائد ملاحظہ کر لیے جائیں۔
۷ ۔۔۔ ۱: موسیٰ علیہ السلام کا مقولہ ہے یعنی وہ وقت بھی یاد کرو جب تمہارے پروردگار نے اعلان فرما دیا کہ اگر احسان مان کر زبان و دل سے میری نعمتوں کا شکر ادا کرو گے تو اور زیادہ نعمتیں ملیں گی۔ جسمانی و روحانی اور دنیاوی و اخروی ہر قسم کی۔
۲: موجودہ نعمتیں سلب کر لی جائیں گی اور ناشکری کی مزید سزا الگ رہی۔ حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں ایک سائل آیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے ایک کھجور عنایت فرمائی۔ اس نے نہ لی یا پھینک دی۔ پھر دوسرا سائل آیا اس کو بھی ایک کھجور دی وہ بولا سُبْحَانَ اللّٰہِ تَمْرَۃٌ مِّنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و سلم یعنی رسول اللہ کا تبرک ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جاریہ کو حکم دیا کہ ام سلمہ کے پاس جو چالیس درہم رکھے ہیں وہ اس شکر گزار سائل کو دلوا دے۔
۸ ۔۔۔ یعنی کفران نعمت کا ضرر تم ہی کو پہنچے گا۔ خدا کا کچھ نہیں بگڑتا اسے تمہارے شکریوں کی کیا حاجت ہے۔ کوئی شکر ادا کرے یا نہ کرے، بہرحال اس کے حمید و محمود ہونے میں کچھ کمی نہیں آتی۔ صحیح مسلم میں حدیث قدسی ہے جس میں حق تعالیٰ نے فرمایا "اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے پچھلے، جن و انس سب کے سب ایک اعلیٰ درجہ کے متقی شخص کے نمونہ پر ہو جائیں تو اس سے میرے ملک میں کچھ بڑھ نہیں جاتا۔ اور اگر سب اگلے پچھلے جن و انس مل کے بفرض محال ایک بدترین انسان جیسے ہو جائیں (العیاذ باللہ) تو اس سے میرے ملک میں ذرہ برابر کمی نہیں ہوتی"۔
۹ ۔۔۔ ۱: یہ موسیٰ علیہ السلام کے کلام کا تتمہ ہے یا اسے چھوڑ کر حق تعالیٰ نے اس امت کو خطاب فرمایا ہے۔ بہرحال اس میں بتلایا کہ بے شمار قومیں پہلے گزر چکیں ان کے تفصیلی پتے اور احوال بجز خدا کے کسی کو معلوم نہیں۔ البتہ چند قومیں جو عرب والوں کے یہاں زیادہ مشہور تھیں ان کے نام لے کر اور بقیہ کو وَالَّذِیْنَ مِنْ بَعْدِ ہِمْ میں درج کر کے متنبہ فرماتے ہیں کہ ان اقوام کا جو کچھ حشر ہوا کیا وہ تم کو نہیں پہنچا۔ تعجب ہے اتنی قومیں پہلے تباہ ہو چکیں اور ان کے حال سے ابھی تک تمہیں عبرت حاصل نہ ہوئی۔ (تنبیہ) ابن عباس نے لَا یَعْلَمُہُمْ اِلَّا اللّٰہُ کو پڑھ کر فرمایا" کَذَبَ النَّسَّابُوْن" (یعنی انساب کی پوری معرفت کا دعویٰ رکھنے والے جھوٹے ہیں) عروہ بن الزبیر فرماتے ہیں کہ ہم نے کسی کو نہیں پایا جو معد بن عدنان سے اوپر (تحقیقی طور پر) نسب کا حال بتاتا ہو واللہ تعالیٰ اعلم۔
۲: یعنی کفار فرطِ غیظ سے اپنے ہاتھ کاٹنے لگے جیسے دوسری جگہ ہے۔ "عَضُّوْا عَلَیْکُمُ الْاَنَامِلَ مِنَ الْغَیطِ "یا انبیاء کی باتیں سن کر فرطِ تعجب سے ہاتھ منہ پر رکھ لیے، یا ہاتھ منہ کی طرف لے جا کر اشارہ کیا کہ بس چپ رہیے یا ہماری اس زبان سے اس جواب کے سوا کوئی توقع نہ رکھو جو آگے آرہا ہے۔ یا پیغمبر کی باتیں سن کر ہنستے تھے اور کبھی ہنسی دبانے کو منہ پر ہاتھ رکھ لیتے تھے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اَیْدِیَہُمْ کی ضمیر کفار کی طرف اور اَفْوَاہِہِمْ کی "رُسل "کی طرف راجع ہو، یعنی ملعونوں نے اپنے ہاتھ پیغمبروں کے منہ میں اڑا دیے کہ وہ بالکل بول نہ سکیں یا دونوں ضمیریں رسل کی طرف ہوں یعنی گستاخانہ طور پر انبیاء کے ہاتھ پکڑ کر انہی کے منہ میں ٹھونس دیے بعض کے نزدیک یہاں "ایدی" سے مراد نعمتیں ہیں۔ یعنی جو عظیم الشان نعمتیں انبیاء نے پیش کی تھیں، مثلاً شرائع الٰہیہ وغیرہ وہ ناقدری سے ان ہی کی طرف لوٹا دیں کسی کو قبول نہ کیا جیسے ہمارے محاورات میں کہتے ہیں کہ میں نے فلاں شخص کی چیز اس کے منہ پر ماری۔ بہرحال کوئی معنی لیے جائیں سب کا حاصل یہ ہے کہ انہوں نے نعمت خداوندی کی ناقدری کی اور انبیاء علیہم السلام کی دعوت قبول نہ کی ان کے ساتھ بڑی بے رخی بلکہ گستاخی سے پیش آئے۔
۱۰ ۔۔۔ ۱: یعنی خدا کی ہستی اور وحدانیت تو ایسی چیز نہیں جس میں شک و شبہ کی ذرا بھی گنجائش ہو، انسانی فطرت خدا کے وجود پر گواہ ہے۔ علویات وسفلیات کا عجیب و غریب نظام شہادت دیتا ہے کہ اس مشین کے پرزوں کو وجود کے سانچہ میں ڈھالنے والا، پھر انہیں جوڑ کر نہایت محکم و منظم طریقہ سے چلانے والا بڑا زبردست ہاتھ ہونا چاہیے جو کامل حکمت و اختیار سے عالم کی مشین کو قابو میں کئے ہوئے ہے۔ اسی لیے کٹر سے کٹر مشرک کو بھی کسی نہ کسی رنگ میں اس بات کے اعتراضات سے چارہ نہیں رہا کہ بڑا خدا جس نے آسمان و زمین وغیرہ کرات پیدا کیے وہ ہی ہو سکتا ہے جو تمام چھوٹے چھوٹے دیوتاؤں سے اونچے مقام پر براجمان ہو۔ انبیاء کی تعلیم یہ ہے کہ جب انسانی فطرت نے ایک علیم و حکیم قادر و توانا منبع الکمالات خدا کا سراغ پا لیا پھر اوہام و ظنون کی دلدل میں پھنس کر اس سادہ فطری عقیدہ کو کھلونا یا چیستاں کیوں بنایا جاتا ہے۔ وجدان شہادت دیتا ہے کہ ایک قادر مطلق اور عالم الکل خدا کی موجودگی میں کسی پتھر یا درخت یا انسانی تصویر یا سیارہ فلکی یا اور کسی مخلوق کو الوہیت میں شریک کرنا فطرتِ صحیحہ کی آواز کو دبانے یا بگاڑنے کا مترادف ہے کیا خداوند قدوس کی ذات و صفات میں معاذ اللہ کچھ کمی محسوس ہوئی جس کی مخلوق خداؤں کی جمعیت سے تلافی کرنا چاہتے ہو۔
۲: یعنی ہم نہیں بلاتے۔ فی الحقیقت ہمارے ذریعہ سے وہ تم کو اپنی طرف بلا رہا ہے کہ توحید وایمان کے راستہ چل کر اس کے مقام قرب تک پہنچو۔ اگر تم اپنی حرکتوں سے باز آ کر ایمان و ایقان کا طریق اختیار کر لو تو ایمان لانے سے پیشتر کے سب گناہ (بجز حقوق و زواجر کے) معاف کر دے گا۔ پھر ایمان لانے کے بعد جیسا عمل کرو گے اس کے موافق معاملہ ہو گا ۔
۳: یعنی کفر و شرارت پر قائم رہنے کی صورت میں جو جلد تباہ کیے جاتے اس سے محفوظ ہو جاؤ گے اور جتنی مدت دنیا میں رہو گے سکون و اطمینان کی زندگی گزارو گے۔ "یُمَتِّعْکُمْ مَتَاعًا حَسَنًا۔" اور لَنُحْیِیَنَّہ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً " وغیرہ نصوص کے موافق۔
۴: یعنی اچھا خدا کی بحث کو چھوڑیے۔ آپ اپنی نسبت کہیں، کیا آپ آسمان کے فرشتے ہیں؟ یا نوع بشر کے علاوہ کوئی دوسری نوع ہیں؟ جب کچھ نہیں ہم ہی جیسے آدمی ہو تو آخر کس طرح آپ کی باتوں پر یقین کر لیں۔ آپ کی خواہش یہ ہو گی کہ ہم کو قدیم مذہب سے ہٹا کر اپنا تابع بنالیں تو خاطر جمع رکھئے یہ کبھی نہ ہو گا۔ اگر آپ اپنا امتیاز ثابت کرنا اور اس مقصد میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو کوئی ایسا کھلا ہوا نشان یا خدائی سرٹیفکیٹ دکھلائیے جس کے سامنے خواہی نہ خواہی سب کی گردنیں جھک جائیں اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہماری فرمائش کے موافق معجزات دکھلائیں۔
۱۱ ۔۔۔ ۱: یعنی تمہارا یہ کہنا درست ہے کہ ہم نہ فرشتے ہیں نہ کوئی اور مخلوق، بلکہ نفس بشریت میں تم ہی جیسے ہیں لیکن نوع بشر کے افراد میں احوال و مدارج کے اعتبار سے کیا زمین و آسمان کا تفاوت نہیں۔ آخر اتنا تو تم بھی مشاہدہ کرتے ہو کہ حق تعالیٰ نے جسمانی، دماغی، اخلاقی اور معاشی حالات کے اعتبار سے بعض انسانوں کو بعض پر کس قدر فضیلت دی ہے۔ پھر اگر یہ کہا جائے کہ خدا نے اپنے بعض بندوں کو ان کی فطری قابلیت اور اعلیٰ ملکات کی بدولت روحانی کمال اور باطنی قرب کے اس بلند مقام پر پہنچا دیا جسے "مقام نبوت" یا "منصب رسالت" کہتے ہیں تو اس میں کیا اشکال و استبعاد ہے؟ بہرحال دعویٰ نبوت سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہم اپنی نسبت بشر کے سوا کوئی دوسری نوع ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں۔ ہاں اس قدر ثابت ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ اپنے بندوں میں سے بعض پر ایک خصوصی احسان فرماتا ہے جو دوسروں پر نہیں ہوتا۔
۲: یعنی اب رہا سند اور سرٹیفکیٹ لانے کا قصہ، سو خدا کے حکم سے ہم پہلے ہی اپنی نبوت کی سند اور روشن نشانیاں دکھلا چکے ہیں۔ کما قال "جَآءَ ْتہُمْ رُسُلُہُمْ بِالْبَیِّنَاتِ" جو آدمی ماننا چاہے اس کے اطمینان کے لیے وہ کافی سے زیادہ ہیں۔ باقی رہا تمہاری فرمائشیں پوری کرنا، تو یہ چیز ہمارے قبضہ میں نہیں۔ نہ ہماری تصدیق عقلاً اس پر موقوف ہے۔ خدا تعالیٰ اپنی حکمت کے موافق جو سند اور نشان چاہے، تم کو دکھلائے گا۔ فرمائشی نشانات دیکھنے سے ایمان نہیں آتا، اللہ کے دینے سے آتا ہے۔ لہٰذا ایک ایمان دار کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ اگر تم نہ مانو گے اور ہماری عداوت و ایذاء رسانی پر تیار ہو گے تو ہمارا بھروسہ اسی خدا کی مہربانی اور امداد پر رہے گا۔
۱۲ ۔۔۔ ۱: یعنی حق تعالیٰ ہم کو جام توحید و عرفان پلا کر حقیقی کامیابی کے راستے بتا چکا، پھر کیسے ممکن ہے کہ ہم اس پر توکل نہ کریں۔
۲: یعنی تم خواہ کتنی ہی ایذاء پہنچاؤ، خدا کے فضل سے ہمارے توکل میں فرق نہیں پڑ سکتا۔ متوکلین کا یہ کام نہیں کہ سختیاں دیکھ کر توکل اور استقامت کی راہ سے ہٹ جائیں۔
۱۳ ۔۔۔ یعنی اپنے توکل وغیرہ کو رہنے دو، زیادہ بزرگی مت جتاؤ۔ بس اب دو باتوں میں سے ایک بات ہو کر رہے گی۔ یا تم (بعثت سے پہلے کی طرح) چپ چاپ ہم میں رل مل کر رہو گے اور جن کو تم نے بہکایا ہے وہ سب ہمارے پرانے دین میں واپس آئیں گے۔ ورنہ تم سب کو ملک بدر اور جلا وطن کیا جائے گا۔
۱۴ ۔۔۔ ۱: یعنی یہ تم کو کیا نکالیں گے ہم ہی ان ظالموں کو تباہ کر کے ہمیشہ کے لیے یہاں سے نکال دیں گے کہ پھر کبھی واپس نہ آ سکیں۔ اور ان کی جگہ تم کو اور تمہارے مخلص وفا داروں کو زمین میں آباد کریں گے۔ دیکھ لو کفار مکہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے مکہ سے نکالنا چاہا، وہ ہی نکلنا آخر اس کا سبب بن گیا کہ وہاں اسلام اور مسلمانوں کا دائمی تسلط ہو اور کافر کا نشان باقی نہ رہے۔
۲: یعنی مذکورہ بالا کامیابی ان لوگوں کے لیے ہے جو خدا سے ڈرتے ہیں یہ خیال کر کے کہ وہ ہماری تمام حرکتوں کو برابر دیکھ رہا ہے اور ایک دن حساب دینے کے لیے اس کے سامنے کھڑا ہونا ہے جہاں اس کے بے پناہ عذاب سے کوئی بچانے والا نہ ہو گا ۔
۱۵ ۔۔۔ یعنی پیغمبروں نے خدا سے مدد مانگی اور فیصلہ چاہا۔ چنانچہ نوح علیہ السلام نے کہا تھا افْتَحْ بَیْنِیْ وَبَیْنَہُمْ فَتْحاً وَّنَجِّنِیْ الخ" لوط علیہ السلام نے کہا رَبِّ نَجِّنِیْ وَاَہْلِیْ مِمَّا یَعْمَلُوْنَ شعیب علیہ السلام نے عرض کیا "رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ" موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی "رَبَّنَا اِنَّکَ اٰتَیْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلَأَہ، الخ" اور کفار نے بھی جب دیکھا کہ اتنی طویل مدت سے عذاب کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں لیکن اس کے آثار کچھ نظر نہیں آتے تو استہزاء اور تمسخر سے کہنے لگے "رَبَّنَا عَجِّلْ لَّنَا قِطَّنَا قَبْلَ یَوْمِ الْحِسَابِ" (ص، رکوع ٢، آیت :۱۶) اور اَللّٰہُمَّ اِنْ کَانَ ہٰذَا ہُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِکَ فَامْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ" (انفال، رکوع ۴، آیت :۳٢) یہ تو قریش کے مقولے ہیں، قوم نوح نے کہا تھا اْتِنَا بِمَاتَعِدُنَا"قوم شعیب نے کہا اسْقِطْ عَلَیْنَاکِسَفاً" وغیرہ ذالک۔ غرض دونوں طرف سے فیصلہ کی جلدی ہونے لگی۔
۱۶ ۔۔۔ ۱: یعنی پیغمبروں کا خدا کو پکارنا تھا کہ مدد آئی اور ہر ایک سرکش اور ضدی نامراد ہو کر رہ گیا۔ جو کچھ خیالات پکا رکھے تھے، ایک ہی پکڑ میں کافور ہو گئے نہ وہ رہے نہ ان کی توقعات رہیں۔ ایک لمحہ میں سب کا خاتمہ ہوا۔
۲: یعنی یہ تو یہاں کا عذاب تھا اس کے بعد آگے دوزخ کا بھیانک منظر ہے جہاں شدت کی تشنگی کے وقت ان کو پیپ یا پیپ جیسا پانی پلایا جائے گا۔
۱۷ ۔۔۔ ۱: یعنی خوشی سے کہاں پی سکیں گے۔ حدیث میں ہے کہ فرشتے لوہے کے گرز سر پر مار کر زبردستی منہ میں ڈالیں گے۔ جس وقت منہ کے قریب کریں گے شدت حرارت سے دماغ تک کی کھال اتر کر نیچے لٹک پڑے گی، منہ میں پہنچ کر گلے میں پھنسے گا، بڑی مصیبت اور تکلیف کے ساتھ ایک ایک گھونٹ کر کے حلق سے نیچے اتاریں گے۔ پیٹ میں پہنچنا ہو گا کہ آنتیں کٹ کر باہر آ جائیں گی۔ "وَسُقُوْا مَآئً حَمِیْمًا فَقَطَّعَ اَمْعَآءَ ہُمْ" (محمد، رکوع ٢، آیت :۱۵) وَاِنْ یَّسْتَغِیثُوا یُغَاثُوْا بِمَآءٍ کَالْمُہْلِ یَشْوِی الْوُجُوْہَ (کہف، رکوع ۴، آیت :٢۹) (اعاذنا اللہ منہما وسائر المومنین)
۲: یعنی اس کا پینا کیا ہو گا ہر طرف سے موت کا سامنا کرنا ہو گا، سر سے پاؤں تک ہر عضو بدن پر سکرات موت طاری ہوں گے، شش جہت سے مہلک عذاب کی چڑھائی ہو گی، اس زندگی پر موت کو ترجیح دیں گے۔ لیکن موت بھی نہیں آئے گی۔ جو سب تکلیفوں کا خاتمہ کر دے۔ ایک عذاب کے پیچھے دوسرا تازہ عذاب آتا رہے گا۔ کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُہُمْ بَدَّلْنَا ہُمْ جُلُوْدًا غَیْرَہَا لِیَذُوْقُوا الْعَذَابَ (نساء، رکوع ۸، آیت :۵۶) ثُمَّ لَایَمُوْتُ فِیْہَا وَلَایَحْیٰ (اعلیٰ، رکوع ۱، آیت: ۱۳) سچ ہے
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
۱۸ ۔۔۔ بعض کفار کو یہ خیال ہو سکتا تھا کہ آخر ہم نے دنیا میں بہت سے اچھے کام صدقہ خیرات کی مد میں کیے ہماری خوش اخلاقی لوگوں میں مشہور ہوئی، بہتیرے آدمیوں کی مصیبت میں کام آئے اور کسی نہ کسی عنوان سے خدا کی پوجا بھی کی، کیا یہ سب کیا کرایا اور دیا لیا اس وقت کام نہ آئے گا؟ اس کا جواب اس تمثیل میں دیا۔ یعنی جسے خدا کی صحیح معرفت نہیں۔ محض فرضی اور وہمی خدا کو پوجتا ہے اس کے تمام اعمال محض بے روح اور بے وزن ہیں۔ وہ محشر میں اسی طرح اڑ جائیں گے جس طرح آندھی کے وقت جب زور کی ہوا چلے تو راکھ کے ذرات اڑ جاتے ہیں، اس وقت کفار نیک عمل سے بالکل خالی ہاتھ ہوں گے حالانکہ وہ یہی موقع ہو گا جہاں نیک عمل کی سب سے زیادہ ضرورت ہو گی۔ اللہ اکبر! یہ کیسی حسرت کا وقت ہو گا کہ جن اعمال کو ذریعہ قرب و نجات سمجھے تھے وہ راکھ کے ڈھیر کی طرح عین اس موقع پر بے حقیقت ثابت ہوئے جب دوسرے لوگ اپنی نیکیوں کے ثمرِ شیریں سے لذت اندوز ہو رہے ہیں۔
۲۰ ۔۔۔ یعنی شاید کفار کو یہ خیال گزرے کہ جب مٹی میں مل کر مٹی ہو گئے پھر دوبارہ زندگی کہاں۔ قیامت اور عذاب و ثواب وغیرہ سب کہانیاں ہیں، ان کو بتلایا کہ جس خدا نے آسمان و زمین کامل قدرت و حکمت سے پیدا کیے اسے تمہارا از سر نو دوبارہ پیدا کرنا، یا کسی دوسری مخلوق کو تمہاری جگہ لے آنا کیا مشکل ہے؟ اگر آسمان و زمین کے محکم نظام کو دیکھ کر یہ یقین ہوتا ہے کہ اس کا پیدا کرنے اور قائم رکھنے والا کوئی صانع حکیم ہے جیسا کہ لفظ "بالحق" میں تنبیہ فرمائی تو کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اس نے اشرف المخلوقات (انسان) کو محض بے نتیجہ پیدا کیا ہو گا اور اس کی تخلیق و ایجاد سے کوئی عظیم الشان مقصد متعلق نہ ہو گا یقیناً اس زندگی کے بعد کوئی دوسری زندگی ہونی چاہیے جس میں آدم کی پیدائش کا مقصد عظیم اکمل و اتم طریقہ سے آشکارا ہو۔
۲۱ ۔۔۔ ۱: یعنی سب سے بڑی عدالت میں پیشی ہو گی۔
۲: یہ اتباع اپنے متبوعین سے کہیں گے۔ یعنی دنیا میں تم بڑے بن کر بیٹھے تھے اور ہم نے تمہاری بہت تابعداری کی تھی۔ آج اس مصیبت کی گھڑی میں کچھ تو کام آؤ، کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ عذاب الٰہی کے کسی حصہ کو ہم سے ذرا ہلکا کر دو۔ یہ دوزخ میں جانے کے بعد کہیں گے یا میدان حشر میں، ابن کثیر نے پہلے احتمال کو ترجیح دی ہے لقولہ تعالیٰ وَاِذْ یَتَحَآجُّوْنَ فِیْ النَّارِ فَیَقُوْلُ الضُّعَفَآءُ لِلَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا اِنَّا کُنَّا لَکُمْ تَبْعًا الآیۃ وغیر ذالک من الآیات۔ واللّٰہ اعلم۔
۳: یعنی اگر خدا دنیا میں ہم کو ہدایت کی توفیق دیتا تو ہم تم کو بھی اپنے ساتھ سیدھے راستہ پر لے چلتے۔ لیکن ہم نے ٹھوکر کھائی تو تمہیں بھی لے ڈوبے۔ یا یہ مطلب ہے کہ اس وقت اگر خدا تعالیٰ ہم کو اس عذاب سے نکلنے کی کوئی راہ بتلاتا تو ہم تمہیں وہ ہی راہ بتا دیتے۔ اب تو تمہاری طرح ہم خود مصیبت میں مبتلا ہیں، اور مصیبت بھی ایسی جس سے چھٹکارے کی کوئی صورت نہیں۔ نہ صبر کرنے اور خاموش رہنے سے فائدہ، نہ گھبرانے اور چلانے سے کچھ حاصل۔
۲۲ ۔۔۔ یعنی حساب کتاب کے بعد جب جنتیوں کے جنت میں اور دوزخیوں کے دوزخ میں جانے کا فیصلہ ہو چکے گا اس وقت کفار دوزخ میں جا کر یا داخل ہونے سے پہلے ابلیس لعین کو الزام دیں گے کہ مردود تو نے دنیا میں ہماری راہ ماری اور اس مصیبت میں گرفتار کرایا۔ اب کوئی تدبیر مثلاً سفارش وغیرہ کا انتظام کر۔ تاکہ عذابِ الٰہی سے رہائی ملے۔ تب ابلیس ان کے سامنے لیکچر دے گا جس کا حاصل یہ ہے کہ بیشک حق تعالیٰ نے صادق القول پیغمبروں کے توسط سے ثواب و عقاب اور دوزخ و جنت کے متعلق سچے وعدے کیے تھے جن کی سچائی دنیا میں دلائل و براہین سے ثابت تھی اور آج مشاہدے سے ظاہر ہے۔ میں نے اس کے بالمقابل جھوٹی باتیں کہیں اور جھوٹے وعدے کیے۔ جن کا جھوٹ ہونا وہاں بھی ادنیٰ فکر و تامل سے واضح ہو سکتا تھا اور یہاں تو آنکھ کے سامنے ہے۔ میرے پاس نہ حجت و برہان کی قوت تھی نہ ایسی طاقت رکھتا تھا کہ زبردستی تم کو ایک جھوٹی بات کے ماننے پر مجبور کر دیتا، بلاشبہ میں نے بدی کی تحریک کی اور تم کو اپنے مشن کی طرف بلایا، تم جھپٹ کر خوشی سے آئے اور میں نے جدھر شہ دی ادھر ہی اپنی رضا و رغبت سے چل پڑے۔ اگر میں نے اغوا کیا تھا تو تم ایسے اندھے کیوں بن گئے کہ نہ دلیل سنی نہ دعوے کو پرکھا آنکھیں بند کر کے پیچھے ہو لیے۔ انصاف یہ ہے کہ مجھ سے زیادہ تم اپنے نفسوں پر ملامت کرو۔ میرا جرم اغوا بجائے خود رہا لیکن مجھے مجرم گردان کر تم کیسے بری ہو سکتے ہو۔ آج تم کو مدد دینا تو درکنار، خود تم سے مدد لینا بھی ممکن نہیں۔ ہم اور تم دونوں اپنے اپنے جرم کے موافق سزا میں پکڑے ہوئے ہیں۔ کوئی ایک دوسرے کی فریاد کو نہیں پہنچ سکتا۔ تم نے اپنی حماقت سے دنیا میں مجھ کو خدائی کا شریک ٹھہرایا (یعنی بعض تو براہ راست شیطان کی عبادت کرنے لگے اور بہتوں نے اس کی باتوں کو ایسی طرح مانا اور اس کے احکام کے سامنے اس طرح سر تسلیم و انقیاد خم کیا جو خدائی احکام کے آگے کرنا چاہیے تھا) بہرحال اپنے جہل و غباوت سے جو شرک تم نے کیا تھا اس وقت میں اس سے منکر اور بیزار ہوں۔ یا "بِمَا اَشْرَکْتُمُوْنِ" میں بائے سببیت لے کر یہ مطلب ہو کہ تم نے مجھ کو خدائی کا رتبہ دیا اس سبب سے میں بھی کافر بنا۔ اگر میری بات کوئی نہ پوچھتا تو میں کفر و طغیان کے اس درجہ میں کہاں پہنچتا۔ اب ہر ایک ظالم اور مشرک کو اپنے کیے کی سزا دردناک عذاب کی صورت میں بھگتنا چاہیے۔ شور مچانے اور الزام دینے سے کچھ حاصل نہیں۔ گزشتہ آیت میں ضعفاء و مستکبرین (عوام اور لیڈروں) کی گفتگو نقل کی گئی تھی اسی کی مناسبت سے یہاں دوزخیوں کے مہا لیڈر (ابلیس لعین) کی تقریر نقل فرمائی چونکہ عوام کا الزام اور ان کی استدعا دونوں جگہ یکساں تھی شاید اسی لیے شیطان کی گفتگو کے وقت اس کا ذکر ضروری نہیں معلوم ہوا۔ واللہ اعلم۔ مقصود ان مکالمات کے نقل کرنے سے یہ ہے کہ لوگ اس افراتفری کا تصور کر کے شیاطین الانس و الجن کے اتباع سے باز رہیں۔
۲۳ ۔۔۔ ۱: یہ بطور مقابلہ کفار کی سزا کے بعد مومنین کا انجام بیان فرمایا۔
۲: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ دنیا میں "سلام" دعا ہے سلامتی مانگنے کی، وہاں" سلام "کہنا مبارکباد ہے سلامتی ملنے پر۔
۲۴ ۔۔۔ ۱: یعنی دیکھئے اور غور کیجئے، کیسی با موقع اور معنی خیز مثال ہے۔ عقل مند جس قدر اس میں غور کرے سینکڑوں باریکیاں نکلتی چلی آئیں۔
۲: "ستھری بات" میں کلمہ توحید، معرفت الٰہی کی باتیں، ایمان و ایمانیات، قرآن، حمد و ثناء، تسبیح و تہلیل، سچ بولنا سب داخل ہے۔
۳: اکثر روایات و آثار میں یہاں "ستھرے درخت" کا مصداق کھجور کو قرار دیا ہے، گو دوسرے ستھرے درخت بھی اس کے تحت میں مندرج ہو سکتے ہیں۔
۴: یعنی اس کی جڑیں زمین کی گہرائیوں میں پھیلی ہوئی ہوں کہ زور کا جھکڑ بھی جڑ سے نہ اکھیڑ سکے اور چوٹی آسمان سے لگی ہو یعنی شاخیں بہت اونچی اور زمینی کثافتوں سے دور ہوں۔
۲۵ ۔۔۔یعنی کوئی فصل پھل سے خالی نہ جائے یا فرض کیجیے بارہ مہینے صبح و شام اس پر تازہ پھل لگا کرے۔
۲۶ ۔۔۔ ۱: کلمہ کفر، جھوٹی بات اور ہر ایک کلام جو خدا تعالیٰ کی مرضی کے خلاف ہو "کلمہ خبیثہ" میں داخل ہے۔
۲: اکثر نے اس سے حنظل (اندرائن) مراد لیا ہے گو عموم لفظ میں ہر خراب درخت شامل ہو سکتا ہے۔
۳: یعنی جڑ کچھ نہ ہو، ذرا اشارہ سے اکھڑ جائے۔ گویا اس کے بودے پن اور ناپائیداری کو ظاہر فرمایا، دونوں مثالوں کا حاصل یہ ہوا کہ مسلمانوں کا دعوائے توحید و ایمان پکا اور سچا ہے جس کے دلائل نہایت صاف و صحیح اور مضبوط ہیں، موافق فطرت ہونے کی وجہ سے اس کی جڑیں قلوب کی پہنائیوں میں اتر جاتی ہیں اور اعمال صالحہ کی شاخیں آسمانِ قبول سے جا لگتی ہیں۔ اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعَہ، (فاطر، رکوع ٢، آیت :۱۰) اس کے لطیف و شیریں ثمرات سے موحدین کے کام و دہن ہمیشہ لذت اندوز ہوتے ہیں۔ الغرض حق و صداقت اور توحید و معرفت کا سدا بہار درخت روز بروز پھولتا پھلتا اور بڑی پائیداری کے ساتھ اونچا ہوتا رہتا ہے اس کے برخلاف جھوٹی بات اور شرک و کفر کے دعوائے باطل کی جڑ بنیاد کچھ نہیں ہوتی۔ ہوا کے ایک جھٹکے میں اکھڑ کر جا پڑتا ہے۔ ناحق بات ثابت کرنے میں خواہ کتنے ہی زور لگائے جائیں، لیکن انسانی ضمیر اور فطرت کے مخالف ہونے کی وجہ سے اس کی جڑیں دل کی گہرائی میں نہیں پہنچتیں۔ تھوڑا دھیان کرنے سے غلط معلوم ہونے لگتی ہے۔ اسی لیے مشہور ہے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے یعنی سچ کی طرح اپنے پاؤں نہیں چلتا۔ نہ اس سے دل میں نور پیدا ہوتا ہے۔ امام فخر الدین رازی نے صوفیاء کے طرز پر ان مثالوں کے بیان میں بہت اطناب سے کام لیا ہے۔ یہاں اس کے نقل کی گنجائش نہیں۔
۲۷ ۔۔۔ ۱: یعنی حق تعالیٰ توحید و ایمان کی باتوں سے جن کی مضبوطی و پائیداری پچھلی مثال میں ظاہر کی گئی مومنین کو دنیا و آخرت میں مضبوط ثابت قدم رکھتا ہے۔ رہی قبر کی منزل جو دنیا و آخرت کے درمیان برزخ ہے اس کو ادھر یا ادھر جس طرف چاہیں شمار کر سکتے ہیں۔ چنانچہ سلف سے دونوں قسم کے اقوال منقول ہیں۔ غرض یہ ہے کہ مومنین دنیا کی زندگی سے لے کر محشر تک اسی کلمہ طیبہ کی بدولت مضبوط اور ثابت قدم رہیں گے۔ دنیا میں کیسی ہی آفات و حوادث پیش آئیں، کتنا ہی سخت امتحان ہو، قبر میں نکیرین سے سوال و جواب ہو، محشر کا ہولناک منظر ہوش اڑا دینے والا ہو، ہر موقع پر یہ ہی کلمہ توحید ان کی پامردی اور استقامت کا ذریعہ بنے گا۔
۲: بے انصافوں سے مراد یہاں کفار و مشرکین ہیں، وہ دنیا میں بھی بچلے اور اخیر تک بچلتے رہیں گے کبھی حقیقی کامیابی کا راستہ ہاتھ نہ لگے گا۔
۳: یعنی اپنی حکمت کے موافق جیسا معاملہ جس کے ساتھ مناسب ہوتا ہے کرتا ہے۔
۲۸ ۔۔۔ اس سے کفار و مشرکین کے سردار مراد ہیں، خصوصاً رؤسائے قریش جن کے ہاتھ میں اس وقت عرب کی باگ تھی یعنی حق تعالیٰ نے ان پر کیسے احسان کیے، ان کی ہدایت کے لیے پیغمبر علیہ السلام کو بھیجا، قرآن اتارا، اپنے حرم اور بیت کا مجاور بنایا۔ عرب کی سرداری دی، انہوں نے ان نعمتوں اور احسانات کا بدلہ یہ کیا کہ خدا کی ناشکری پر کمربستہ ہو گئے، اس کی باتوں کو جھٹلایا، اس کے پیغمبر سے لڑائی کی، آخر اپنی قوم کو لے کر تباہی کے گڑھے میں جا گرے۔
۳۰ ۔۔۔ ۱: یعنی خدا کے احسانات سے متاثر ہو کر منعم حقیقی کی شکر گزاری اور اطاعت شعاری میں لگتے، یہ تو نہ ہوا، الٹے بغاوت پر کمربستہ ہو گئے، خدا کے مقابل دوسری چیزیں کھڑی کر دیں جن پر خدائی اختیارات تقسیم کیے اور عبادت جو خدائے واحد کا حق تھا، وہ مختلف عنوانوں سے ان کے لیے ثابت کرنے لگے، تاکہ اس سلسلہ میں اپنے ساتھ دوسروں کی راہ ماریں اور انہیں بہکا کر اپنے دام سیادت میں پھنسائے رکھیں۔
۲: یعنی بہتر ہے۔ بیوقوفوں کو جال میں پھنسا کر چند روز جی خوش کر لو اور دنیا کے مزے اڑا لو، مگر تابکے آخر دوزخ کی آگ میں ہمیشہ رہنا ہے۔ کیونکہ اس مزے اڑانے کا یہ ہی نتیجہ ہو گا۔ گویا یہ جملہ ایسا ہوا جیسے ایک طبیب کسی بد پرہیز مریض کو خفا ہو کر کہے "کُلَّ مَاتُرِیْدُ فَاِنَّ مَصِیْرَکَ اِلَی الْمَوْتِ" جو تیرا جی چاہے کھا کیونکہ ایک دن یہ مرض تیری جان لے کر رہے گا۔
۳۱ ۔۔۔ ۱: کفار کے احوال ذکر کرنے کے بعد مومنین مخلصین کو متنبہ فرماتے ہیں کہ وہ پوری طرح بیدار رہیں، وظائف عبودیت میں ذرا فرق نہ آنے دیں، دل و جان سے خالق کی عبادت اور مخلوق کی خدمت کریں کہ وہ بھی بہترین عبادت ہے۔ نمازوں کو ان کے حقوق و حدود کی رعایت کے ساتھ خشوع و خضوع سے ادا کرتے رہیں۔ خدا نے جو کچھ دیا ہے اس کا ایک حصہ خفیہ یا اعلانیہ مستحقین پر خرچ کریں۔ غرض کفار جو شرک اور کفرانِ نعمت پر تلے ہوئے ہیں ان کے بالمقابل مومنین کو جان و مال سے حق تعالیٰ کی طاعت و شکر گزاری میں مستعدی دکھلانا چاہیے۔
۲: یعنی نماز اور انفاق فی سبیل اللہ وغیرہ نیکیاں اس دن کام آئیں گی، بیع و شراء یا محض دوستانہ تعلقات سے کام نہ نکلے گا۔ یعنی نہ وہاں نیک عمل کہیں سے خرید کر لا سکو گے نہ کوئی ایسا دوست بیٹھا ہے جو بدون ایمان و عمل صالح کے محض دوستانہ تعلقات کی بنا پر نجات کی ذمہ داری کر لے (ربط) پہلے کفار کی ناشکری کا ذکر تھا، پھر مومنین کو مراسم طاعت کی اقامت کا حکم دے کر شکر گزاری کی طرف ابھارا۔ آگے چند عظیم الشان نعمائے الٰہیہ کا ذکر فرماتے ہیں جو ہر مومن و کافر کے حق میں عام ہیں، تاکہ انہیں سن کر مومنین کو شکر گزاری کی مزید ترغیب ہو اور کفار بھی غور کریں تو اپنے دل میں شرمائیں کہ وہ کیسے بڑے منعم و محسن شہنشاہ سے بغاوت کر رہے ہیں۔ اسی ضمن میں خدا تعالیٰ کی عظمت و وحدانیت کے دلائل بھی بیان ہو گئے۔ ممکن ہے انہیں سن کر کوئی عاقل منصف شرکیات سے باز آ جائے، یا عظمت و جبروت کے نشانات میں غور کر کے اس کی گرفت اور سزا سے ڈر جائے۔
۳۲ ۔۔۔ ۱: یعنی آسمان کی طرف سے پانی اتارا، یا یہ مطلب ہو کہ بارش کے آنے میں بخارات وغیرہ ظاہری اسباب کے علاوہ غیر مرئی سماوی اسباب کو بھی دخل ہے۔ دیکھو آفتاب کی شعاعیں تمام اشیاء کی طرح آتشیں شیشہ پر بھی پڑتی ہیں لیکن وہ اپنی مخصوص ساخت اور استعداد کی بدولت انہی شعاعوں سے غیر مرئی طور پر اس درجہ حرارت کا استفادہ کرتا ہے جو دوسری چیزیں نہیں کرتیں۔ چاند سمندر سے کتنی دور ہے، مگر اس کے گھٹنے بڑھنے سے سمندر کے پانی میں جزر و مد پیدا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اگر بادل بھی کسی سماوی خزانہ سے غیر محسوس طریقہ پر مستفید ہوتا ہو تو انکار کی کون سی وجہ ہے۔
۲: یعنی حق تعالیٰ نے اپنے کمالِ قدرت و حکمت سے پانی میں ایک قوت رکھی جو درختوں اور کھیتوں کے نشو و نما اور بار آور ہونے کا سبب بنتی ہے۔ اسی کے ذریعہ سے پھل اور میوے ہمیں کھانے کو ملتے ہیں۔
۳: یعنی سمندر کی خوفناک لہروں میں ذرا سی کشتی پر سوار ہو کر کہاں سے کہاں پہنچتے ہو اور کس قدر تجارتی یا غیر تجارتی فوائد حاصل کرتے ہو، یہ خدا ہی کی قدرت اور حکم سے ہے کہ سمندر کے تھپیڑوں میں ذرا سی ڈونگی کو ہم جدھر چاہیں لیے پھرتے ہیں۔
۳۳ ۔۔۔ یعنی ندیوں میں پانی کا آنا اور کہیں سے کہیں پہنچنا گو کشتی کی طرح تمہارے کہنے میں نہیں، تاہم تمہارے کام میں وہ بھی لگی ہوئی ہیں۔ اسی طرح چاند سورج جو ایک معین نظام اور ضابطہ کے موافق برابر چل رہے ہیں، کبھی تھکتے نہیں نہ رفتار میں فرق پڑتا ہے۔ یا رات اور دن ایک دوسرے کے پیچھے ٹھری ہوئی عادت کے موافق ہمیشہ چلے آتے ہیں یہ سب چیزیں گو اس معنی سے تمہارے قبضہ میں نہیں کہ تم جب چاہو اور جدھر چاہو ان کی قدرتی حرکت و تاثیر کو پھیر دو تاہم تم بہت سے تصرفات و تدابیر کر کے ان کے اثرات سے بے شمار فوائد حاصل کرتے ہو اور انسانی تصرف و تدبیر سے قطع نظر کر کے بھی وہ قدرتی طور پر ہر وقت تمہاری کسی نہ کسی خدمت میں لگے ہوئے ہیں، تم سوتے ہو، وہ تمہارا کام کرتے ہیں، تم چین سے بیٹھے ہو، وہ تمہارے لیے سرگرداں ہیں۔
۳۴ ۔۔۔ ۱: یعنی جو چیزیں تم نے زبان قال یا حال سے طلب کیں، ان میں ہر چیز کا جس قدر حصہ حکمت و مصلحت کے موافق تھا مجموعی طور پر تم سب کو دیا۔
۲: یعنی خدا کی نعمتیں اتنی بے شمار بلکہ غیر متناہی ہیں کہ اگر تم سب مل کر اجمالاً ہی گنتی شروع کرو تو تھک کر اور عاجز ہو کر بیٹھ جاؤ۔ اس موقع پر امام رازی نے نعمائے الٰہیہ کا بے شمار ہونا، اور علامہ ابو السعود نے ان کا غیر متناہی ہونا ذرا بسط سے بیان فرمایا ہے اور صاحب روح المعانی نے ان کے بیانات پر مفید اضافہ کیا۔ یہاں اس قدر تطویل کی گنجائش نہیں۔
۳: یعنی جنس انسان میں بہتیرے بے انصاف اور ناسپاس ہیں، جو اتنے بیشمار احسانات دیکھ کر بھی منعم حقیقی کا حق نہیں پہچانتے۔
۳۵ ۔۔۔ ۱: روسائے قریش جن کی ناشکر گزاری اور شرک و کفر کا بیان اوپر اَلَمْ تَرَاِلَی الَّذِیْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ الخ میں ہوا تھا، انہیں ابراہیم علیہ السلام کا قصہ یاد دلا کر متنبہ کرتے ہیں کہ تم جن کی اولاد میں ہونے کی وجہ سے کعبۃ اللہ اور حرم شریف کے مجاور بنے بیٹھے ہو، انہوں نے اس کعبہ کی بنیاد خالص توحید پر رکھی تھی، ان ہی کی دعاؤں سے خدا تعالیٰ نے یہ شہر مکہ آباد کیا اور پتھر یلے ریگستان میں ظاہری و باطنی نعمتوں کے ڈھیر لگا دیے۔ وہ دنیا سے یہ ہی دعائیں اور وصیتیں کرتے ہوئے رخصت ہوئے کہ ان کی اولاد شرک کا طریقہ اختیار نہ کرے۔ اب تم کو سوچنا اور شرمانا چاہیے کہ کہاں تک ان کی وصایا کا پاس کیا یا ان کی دعا سے حصہ پایا اور کس حد تک خدا تعالیٰ کے احسانات پر شکر گزار ہوئے۔
۲: یعنی مکہ کو" حرم آمن" بنا دے (چنانچہ خدا نے بنا دیا) نیز مجھ کو اور میری اولاد کو ہمیشہ بت پرستی سے دور رکھ۔ غالباً یہاں "اولاد" سے خاص صلبی اولاد مراد ہے سو آپ کی صلبی اولاد میں یہ مرض نہیں آیا اور اگر عام ذریت مراد ہو تو کہا جائے گا کہ دعا بعض کے حق میں قبول نہیں ہوئی۔ باوجودیکہ حضرت ابراہیم معصوم پیغمبر تھے، مگر یہ دعا کا ادب ہے کہ دوسروں سے پہلے آدمی اپنے لیے دعا کرے۔ اس قسم کی دعائیں جو انبیاء سے منقول ہوں ان میں یہ اشارہ ہوتا ہے کہ پیغمبروں کی عصمت بھی خود ان کی پیدا کی ہوئی نہیں بلکہ حق تعالیٰ کی حفاظت و صیانت سے ہے۔ اس لیے وہ ہمیشہ اسی کی طرف التجا کرتے ہیں جو ان کی عظمت کا ضامن و کفیل ہوا ہے۔ (تنبیہ) حافظ عماد الدین ابن کثیر رحمۃ اللہ کے نزدیک ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعائیں مکہ کی آبادی اور تعمیر کعبہ کے بعد کی ہیں۔ سورہ بقرہ میں اول پارہ کے ختم پر جس دعا کا ذکر ہے وہ البتہ بنائے کعبہ کے وقت حضرت اسمعیٰل کی معیت میں ہوئی۔ یہ دعائیں اس کے بہت زمانہ بعد پیرانہ سالی میں کی گئی۔
۳۶ ۔۔۔ ۱: یعنی یہ پتھر کی مورتیاں بہت آدمیوں کی گمراہی کا سبب ہوئیں۔
۲: یعنی جس نے توحید خالص کا راستہ اختیار کیا اور میری بات مانی وہ میری جماعت میں شامل ہے۔ جس نے کہنا نہ مانا اور ہمارے راستہ سے علیٰحدہ ہو گیا تو آپ اپنی بخشش اور مہربانی سے اس کو توبہ کی توفیق دے سکتے ہیں۔ آپ کی مہربانی ہو تو وہ ایمان لا کر اپنے کو رحمت خصوصی اور نجات ابدی کا مستحق بنا سکتا ہے۔ یا یہ مطلب ہو کہ آپ کو قدرت ہے اسے بھی بحالت موجودہ بخش دیں گو آپ کی حکمت سے اس کا وقوع نہ ہو۔ (تنبیہ) سورہ مائدہ کے آخر میں ہم نے حضرت خلیل علیہ السلام کے اس قول اور مسیح علیہ السلام کے مقولے میں فرق بیان کیا ہے وہاں ملاحظہ کر لیا جائے۔
۳۷ ۔۔۔ یعنی اسماعیل علیہ السلام کو۔ کیونکہ دوسری اولاد حضرت اسحاق وغیرہ شام میں تھے۔ خدا تعالیٰ کے حکم سے آپ حضرت اسماعیل کو بحالت شیر خوارگی اور ان کی والدہ ہاجرہ کو یہاں چٹیل میدان میں چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ بعدہٗ قبیلہ جرہم کے کچھ لوگ وہاں پہنچے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل کو تشنگی اور ہاجرہ کی بیتابی کو دیکھ کر فرشتے کے ذریعہ سے وہاں زمزم کا چشمہ جاری کر دیا۔ جرہم کے خانہ بدوش لوگ پانی دیکھ کر اتر پڑے اور ہاجرہ کی اجازت سے وہیں بسنے لگے۔ اسمعیٰل علیہ السلام جب بڑے ہوئے تو اسی قبیلہ میں ان کی شادی ہوئی۔ اس طرح جہاں آج مکہ ہے ایک بستی آباد ہو گئی۔ حضرت ابراہیم گاہ بگاہ ملک شام سے تشریف لایا کرتے تھے اور اس شہر اور شہر کے باشندوں کے لیے دعا فرماتے، کہ خداوندا! میں نے اپنی ایک اولاد کو اس بنجر اور چٹیل آبادی میں تیرے حکم سے تیرے معظم و محترم گھر کے پاس لا کر بسایا ہے تاکہ یہ اور اس کی نسل تیرا اور تیرے گھر کا حق ادا کریں تو اپنے فضل سے کچھ لوگوں کے دل ادھر متوجہ کر دے کہ وہ یہاں آئیں جس سے تیری عبادت ہو اور شہر کی رونق بڑھے، نیز ان کی روزی اور دل جمعی کے لیے غیب سے ایسا سامان فرما دے کہ (غلہ اور پانی جو ضروریات زندگی ہیں ان سے گزر کر) عمدہ میوے اور پھلوں کی یہاں افراط ہو جائے تاکہ یہ لوگ اطمینان قلب کے ساتھ تیری عبادت اور شکر گزاری میں لگے رہیں۔ حق تعالیٰ نے یہ سب دعائیں قبول فرمائیں۔ آج تک ہر سال ہزاروں لاکھوں آدمی مشرق و مغرب سے، کھنچ کھنچ کر وہاں جاتے ہیں۔ اعلیٰ قسم کے میوے اور پھلوں کی مکہ میں وہ افراط ہے جو شاید دنیا کے کسی حصہ میں نہ ہو۔ حالانکہ خود مکہ میں ایک بھی ثمردار درخت موجود نہ ہو گا۔ بعض سلف سے منقول ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے دعا میں اَفْئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ (کچھ آدمیوں کے دل) کہا تھا، ورنہ سارا جہاں ٹوٹ پڑتا۔
۳۸ ۔۔۔ یعنی زمین و آسمان کی کوئی چیز آپ سے پوشیدہ نہیں۔ پھر ہمارا ظاہر و باطن کیسے مخفی رہ سکتا ہے۔ یہ جو فرمایا "جو ہم کرتے ہیں چھپا کر اور جو کرتے ہیں دکھا کر" اس میں مفسرین کے کئی اقوال ہیں لیکن تخصیص کی کوئی وجہ نہیں۔ الفاظ عام ہیں جو سب کھلی چھپی چیزوں کو شامل ہیں۔ حضرت شاہ صاحب نے فرمایا کہ ظاہر میں دعا کی سب اولاد کے واسطے اور دل میں دعا منظور تھی پیغمبر آخرالزمان کی۔
۳۹ ۔۔۔ یعنی بڑھاپے میں اسحاق سارہ کے اور اسمعیٰل ہاجرہ کے بطن سے غیر متوقع طور پر عنایت کیے۔ جیسے آپ نے اولاد کے متعلق میری دعا رَبِّ ہَبْ لِیْ مِنَ الصَّالِحِیْنَ سنی یہ دعائیں بھی قبول فرمائیے۔
۴۰ ۔۔۔ ۱: یعنی میری ذریت میں ایسے لوگ ہوتے رہیں جو نمازوں کو ٹھیک طور پر قائم رکھیں۔
۲: یعنی میری سب دعائیں قبول فرمائیے۔
۴۱ ۔۔۔ یہ دعا غالباً اپنے والد کے حالت کفر پر مرنے کی خبر موصول ہونے سے پہلے کی۔ تو مطلب یہ ہو گا کہ اسے اسلام کی ہدایت کر کے قیامت کے دن مغفرت کا مستحق بنا دے۔ اور اگر مرنے کی خبر ملنے کے بعد دعا کی ہے تو شاید اس وقت تک خدا تعالیٰ نے آپ کو مطلع نہیں کیا ہو گا کہ کافر کی مغفرت نہیں ہو گی۔ عقلاً کافر کی مغفرت محال نہیں، سمعاً ممتنع ہے۔ سو اس کا علم سمع پر موقوف ہو گا اور قبل از سمع امکان عقلی معتبر رہے گا۔ بعض شیعہ نے یہ لکھا ہے کہ قرآن کریم میں ابراہیم علیہ السلام کے باپ کو جو کافر کہا گیا ہے وہ ان کے حقیقی باپ نہ تھے بلکہ چچا وغیرہ کوئی دوسرے خاندان کے بڑے تھے۔ واللہ اعلم۔
۴۲ ۔۔۔ ۱: ایک رکوع پہلے بہت سے نعمائے عظیمہ کا ذکر کر کے فرمایا تھا۔ اِنَّ الْاِ نْسَانَ لَظَلُوْمٌ کَفَّارٌ(انسان بڑا ظالم اور ناشکر گزار ہے) بعدہٗ حضرت ابراہیم کا قصہ سنا کر کفار مکہ کو بعض خصوصی نعمتیں یاد دلائیں۔ اور ان کے ظلم و شرک کی طرف اشارہ کیا۔ اس رکوع میں متنبہ فرماتے ہیں کہ اگر ظالموں کو سزا ملنے میں کچھ دیر ہو تو یہ مت سمجھو کہ خدا ان کی حرکات سے بے خبر ہے، یاد رکھو ان کا کوئی چھوٹا بڑا کام خدا سے پوشیدہ نہیں۔ البتہ اس کی عادت نہیں ہے کہ مجرم کو فوراً پکڑ کر تباہ کر دے۔ وہ بڑے بڑے ظالم کو مہلت دیتا ہے کہ یا اپنے جرائم سے باز آ جائے یا ارتکاب جرائم میں اس حد تک پہنچ جائے کہ قانونی حیثیت سے اس کے مستحق سزا ہونے میں کسی طرح کا خفا باقی نہ رہے۔ (تنبیہ) "لَا تَحْسَبَنَّ" کا خطاب ہر اس شخص کو ہے جسے ایسا خیال گزر سکتا ہو۔ اور اگر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو خطاب ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو مخاطب بنا کر دوسروں کو سنانا مقصود ہو گا کہ جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو فرمایا کہ ایسا خیال مت کرو۔ حالانکہ ایسا خیال آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب بھی نہ آ سکتا تھا تو دوسروں کے حق میں اس طرح کا خیال کس قدر واجب الاحتراز ہونا چاہیے۔
۲: یعنی قیامت کے دن ہول اور دہشت سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔
۴۳ ۔۔۔ یعنی محشر میں سخت پریشانی اور خوف و حیرت سے اوپر کو سر اٹھائے ٹکٹکی باندھے گھبرائے ہوئے چلے آئیں گے۔ جدھر نظر اٹھ گئی ادھر سے ہٹے گی نہیں، ہکا بکا ہو کر ایک طرف دیکھتے ہوں گے۔ذرا پلک بھی نہ جھپکے گی۔ دلوں کا حال یہ ہو گا کہ عقل و فہم اور بہتری کی توقع سے یکسر خالی اور فرط دہشت و خوف سے اڑے جا رہے ہوں گے۔ غرض ظالموں کے لیے وہ سخت حسرت ناک وقت ہو گا۔ رہے مومنین قانتین سو ان کے حق میں دوسری جگہ آ چکا ہے "لَایَحْزُنُہُمُ الْفَزَعُ الْاَکْبَرُ وَتَتَلَّقُاھُمُ الْمَلَائِکَۃُ" (الانبیاء، رکوع ۷، آیت ۱۰۳)
۴۴ ۔۔۔ ۱: یا تو قیامت کا دن اور عذاب اخروی مراد ہے یا موت کا وقت اور اس کے سکرات و قبض روح کی شدت یا دنیاوی عذاب سے ہلاک ہونے کا دن ارادہ کیا جائے۔
۲: اگر یہ کہنا دنیا میں عذاب یا موت کی شدت دیکھ کر ہو تب تو مطلب ظاہر ہے کہ ابھی چند روز کی ہم کو اور مہلت دیجئے۔ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ آئندہ اپنا رویہ درست کر لیں گے۔ یعنی حق کی دعوت کو قبول کر کے انبیاء کی پیروی اختیار کریں گے کما قال تعالیٰ حَتّیٰ اِذَا جَآءَ اَحَدَہُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِ لَعَلِّیْ اَعْمَلُ صَالِحًا (المومنون، رکوع ۶، آیت:۹۹،۱۰۰) اور اگر ان کا یہ مقولہ قیامت کے دن ہو گا۔ تب مہلت طلب کرنے کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم کو دوبارہ تھوڑی مدت کے لیے دنیا میں بھیج دیجئے، پھر دیکھئے ہم کیسی وفاداری دکھلاتے ہیں کما قال تعالیٰ وَلَوْتَریٰ اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاکِسُوْا رُءُوْسِہِمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ رَبَّنَا اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا (السجدہ، رکوع ، آیت:۱٢)
۳: یعنی تم وہ ہی تو ہو جن میں کے بعض مغرور بے باک زبان قال سے اور اکثر زبان حال سے قسمیں کھاتے تھے کہ ہماری شان و شکوہ کو کبھی زوال نہیں، نہ کبھی مر کر خدا کے پاس جانا ہے۔ "وَاَقْسَمُوْا بِاللّٰہِ جَہْدَ اَیْمَانِہِمْ لَایَبْعَثُ اللّٰہُ مَنْ یَّمُوْتُ" (نحل، رکوع ۵، آیت: ۳۸) یہ ان کے جواب میں خدا کی طرف سے کہا جائے گا۔
۴۵ ۔۔۔ یعنی تمہارے پچھلے ان ہی بستیوں میں یا ان کے آس پاس آباد ہوئے جہاں اگلے ظالم سکونت رکھتے تھے۔ اور ان ہی کی عادات و اطوار اختیار کیں، حالانکہ یہ تاریخی روایات اور متواتر خبروں سے ان پر روشن ہو چکا تھا کہ ہم اگلے ظالموں کو کیسی کچھ سزا دے چکے ہیں اور ہم نے امم ماضیہ کے یہ قصے کتب سماویہ میں درج کر کے انبیاء علیہم السلام کی زبانی ان کو آگاہ بھی کر دیا تھا، مگر انہیں ذرہ بھر عبرت نہ ہوئی۔ اسی سرکشی، عناد اور عداوت حق پر اڑے رہے۔ حِکْمَۃٌ مبَالِغَۃٌ فَمَا تُغْنِ النُّذُرُ (القمر، رکوع ۱، آیت :۵)
۴۶ ۔۔۔ ۱: یعنی سب اگلے پچھلے ظالم اپنے اپنے داؤ کھیل چکے ہیں۔ انبیاء کے مقابلہ میں حق کو دبانے اور مٹانے کی کوئی تدبیر اور سازش انہوں نے اٹھا نہیں رکھی۔ ان کی سب تدبیریں اور داؤ گھات خدا کے سامنے ہیں اور ایک ایک کر کے محفوظ ہیں وہ ہی ان کا بدلہ دینے والا ہے۔
۲: یعنی انہوں نے بہتیرے داؤ کر کے دیکھ لیے مگر خدا کی حفاظت کے آگے سب ناکام رہے کیا یہ ہو سکتا ہے کہ ان کی مکاریاں پہاڑوں کو ان کی جگہ سے ٹلا دیں یعنی انبیاء علیہم السلام اور شرائع حقہ جو پہاڑوں سے زیادہ مضبوط و مستقیم ہوتے ہیں ان کی مکاریوں سے ڈگمگا جائیں؟ حاشا وکلاّ۔ اس تفسیر کے موافق وَاِنْ کَانَ مَکْرُہُمْ الخ میں "اِن" نافیہ ہو گا، اور آیت کا مضمون وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا، اِنَّکَ لَنْ َتخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا (بنی اسرائیل، رکوع ۴، آیت ۳۷) کے مشابہ ہو گا۔ بعض مفسرین نے "اِن" شرطیہ اور واؤ وصلیہ لے کر آیت کا مطلب یہ لیا ہے کہ انہوں نے بڑے بڑے داؤ چلے جو حفاظت الٰہی کے سامنے ہیچ ثابت ہوئے۔ اگرچہ ان کے داؤ فی حد ذاتہ ایسے زبردست تھے جو ایک مرتبہ پہاڑوں کو بھی اپنی جگہ سے ہلا ڈالیں۔
۴۷ ۔۔۔ ۱: یعنی وہ وعدہ جو اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا اور کَتَبَ اللّٰہُ لَاَ غْلَبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ وغیرہ آیات میں کیا گیا ہے۔
۲: نہ مجرم اس سے چھوٹ کر بھاگ سکتا ہے نہ وہ خود ایسے مجرموں کو سزا دیے بدون چھوڑ سکتا ہے۔
۴۸ ۔۔۔ قیامت کو یہ زمین و آسمان بہئیات موجودہ باقی نہ رہیں گے، یا تو ان کی ذوات ہی بدل دی جائیں گی یا صرف صفات میں تغیر ہو گا اور بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ شاید متعدد مرتبہ تبدیل و تغیر کی نوبت آئے گی۔ واللہ اعلم۔ سامنے کھڑے ہونے کا مطلب وَبَرَزُوْا لِلّٰہِ جَمِیْعًا فَقَالَ الضُّعَفَآءُ الخ کے تحت میں گزر چکا ہے۔
۴۹ ۔۔۔ یعنی ایک نوعیت کے کئی کئی مجرم اکٹھے زنجیروں میں باندھے جائیں گے کمال قال تعالیٰ اُحْشُرُوا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا وَاَزْ وَاجَہُمْ (صافّات، رکوع ٢، آیت: ٢٢) وقال تعالیٰ وَاِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ (تکویر، رکوع ۱، آیت:۷)
۵۰ ۔۔۔ ۱: جس میں آگ بہت جلد اور تیزی سے اثر کرتی ہے اور سخت بدبو ہوتی ہے۔ پھر جیسی جہنم کی آگ ویسی ہی وہاں کی گندھک سمجھ لیجئے۔
۲: چہرہ چونکہ حواس و مشاعر کا محل اور انسان کے ظاہری اعضاء میں سب سے اشرف عضو ہے اس لیے اس کو خصوصیت سے ذکر فرمایا جیسے دوسری جگہ تَطَّلِعُ عَلَی الْاَفْئِدَۃِ میں قلب کا ذکر کیا ہے۔
۵۱ ۔۔۔ یعنی جس بات کا پیش آنا بالکل یقینی ہے، اسے دور مت سمجھو کما قال تعالیٰ اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُہُمْ وَہُمْ فِیْ غَفْلَۃٍ مُّعْرِضُوْنَ (الانبیاء، رکوع ۱، آیت :۱) یا یہ مطلب ہے کہ جس وقت حساب ہو گا پھر دیر نہ لگے گی۔ تمام اولین و آخرین، جن و انس کے ذرہ ذرہ عمل کا حساب بہت جلد ہو جائے گا۔ کیونکہ نہ خدا پر کوئی چیز مخفی ہے نہ اس کو ایک شان دوسری شان سے مشغول کرتی ہے۔ مَاخَلْقُکُمْ وَلَا بَعْثُکُمْ اِلَّاکَنَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ (لقمٰن، رکوع ۳، آیت :٢۸)
۵۲ ۔۔۔یعنی خواب غفلت سے بیدار ہو جائیں اور خدا سے ڈر کر اس کی آیات میں غور کریں جس سے اس کی وحدانیت کا یقین حاصل ہو اور عقل و فکر سے کام لے کر نصیحت پر کار بند ہوں۔ تم سورۃ ابراہیم علیہ السلام ولِلّٰہ الحمد والمنۃ۔