۱ ۔۔۔ یعنی سب ملک اس کا ہے اور تنہا اسی کا اختیار ساری سلطنت میں چلتا ہے۔
۲ ۔۔۔ یعنی مرنے جینے کا سلسلہ اسی نے قائم کیا، ہم پہلے کچھ نہ تھے (اسے موت ہی سمجھو) پھر پیدا کیا، اس کے بعد موت بھیجی، پھر مرے پیچھے زندہ کر دیا۔ کما قال "وَکُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ" (بقرہ، رکوع۳، آیت:۲۸) موت و حیات کا یہ سارا سلسلہ اس لیے ہے کہ تمہارے اعمال کی جانچ کرے کہ کون برے کام کرتا ہے کون اچھے، اور کون اچھے سے اچھے۔ پہلی زندگی میں یہ امتحان ہوا اور دوسری زندگی میں اس کا مکمل نتیجہ دکھلا دیا گیا۔ فرض کرو اگر پہلی زندگی نہ ہوتی تو عمل کون کرتا، اور موت نہ آتی تو لوگ مبداء و منتہیٰ سے غافل اور بے فکر ہو کر عمل چھوڑ بیٹھتے اور دوبارہ زندہ نہ کیے جاتے تو بھلا برے کا بدلہ کہاں ملتا۔
۳ ۔۔۔ ۱: یعنی زبردست ہے جس کی پکڑ سے کوئی نہیں نکل سکتا اور بخشنے والا بھی بہت بڑا ہے۔
۲: حدیث میں آیا کہ ایک آسمان کے اوپر دوسرا آسمان، دوسرے پر تیسرا اسی طرح سات آسمان اوپر نیچے ہیں ۔ اور ہر ایک آسمان سے دوسرے تک پانچ سو برس کی مسافت ہے۔ نصوص میں یہ تصریح نہیں کی گئی کہ اوپر جو نیلگونی چیز ہم کو نظر آتی ہے وہ ہی آسمان ہے ہو سکتا ہے کہ ساتوں آسمان اس کے اوپر ہوں اور یہ نیلگونی چیز آسمان کی چھت گیری کا کام دیتی ہو۔
۳: یعنی قدرت نے اپنے انتظام اور کاریگری میں کہیں فرق نہیں کیا ہر چیز میں انسان سے لے کر حیوانات، نباتات، عناصر، اجرام علویہ، سبع سماوات اور نیرات تک یکساں کاریگری دکھلائی ہے۔ یہ نہیں کہ بعض اشیاء کو حکمت و بصیرت سے اور بعض کو یونہی کیف ما اتفق، بے تکا یا بیکار و فضول بنا دیا ہو (العیاذ باللہ) اور جہاں کسی کو ایسا وہم گزرے سمجھو اس کی عقل و نظر کا قصور ہے۔
۴: یعنی ساری کائنات نیچے سے اوپر تک ایک قانون اور مضبوط نظام میں جکڑی ہوئی ہے اور کڑی سے کڑی ملی ہوئی ہے، کہیں درز یا دراڑ نہیں ۔ نہ کسی صنعت میں کسی طرح کا اختلال پایا جاتا ہے۔ ہر چیز ویسی ہے جیسا اسے ہونا چاہیے۔ اور اگر یہ آیتیں صرف آسمان سے متعلق ہیں تو مطلب یہ ہو گا کہ اے مخاطب! اوپر آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھ کہیں اونچ نیچ یا درز اور شگاف نہیں پائے گا۔ بلکہ ایک صاف ہموار، متصل، مربوط اور منظم چیز نظر آئے گی جس میں باوجود مرورِد ہور اور تطاولِ ازمان کے آج تک کوئی فرق اور تفاوت نہیں آیا۔
۴ ۔۔۔ یعنی ممکن ہے ایک آدھ مرتبہ دیکھنے میں نگاہ خطا کر جائے، اس لیے پوری کوشش سے بار بار دیکھ، کہیں کوئی رخنہ تو دکھائی نہیں دیتا خوب غور و فکر اور نظر ثانی کر کہ قدرت کے انتظام میں کہیں انگلی رکھنے کی جگہ تو نہیں ۔ یاد رکھ! تیری نگاہ تھک جائے گی اور ذلیل و درماندہ ہو کر واپس آ جائے گی۔ لیکن خدائی مصنوعات و انتظامات میں کوئی عیب و قصور نہ نکال سکے گی۔
۵ ۔۔۔ ۱: یعنی آسمان کی طرف دیکھو! رات کے وقت ستاروں کی جگمگاہٹ سے کیسی رونق و شان معلوم ہوتی ہے۔ یہ قدرتی چراغ ہیں جن سے دنیا کے بہت سے منافع وابستہ ہیں ۔
۲: یہ مضمون سورہ "حجر" وغیرہ میں کئی جگہ بہت تفصیل سے گزر چکا ہے۔
۳: یعنی دنیا میں تو شہاب پھینکے جاتے ہیں اور آخرت میں ان کے لیے دوزخ کی آگ تیار ہے۔
۶ ۔۔۔ یعنی کافروں کا ٹھکانا بھی شیاطین کے ساتھ اسی دوزخ میں ہے۔
۷ ۔۔۔ یعنی اس وقت دوزخ کی آواز سخت کریہ اور خوفناک ہو گی اور بے انتہا جوش و اشتعال سے ایسا معلوم ہو گا گویا غصہ میں آ کر پھٹی پڑتی ہے اعاذنا اللہ منہا بلطفہ وکرمہ۔
۸ ۔۔۔ یہ پوچھنا اور زیادہ ذلیل و محجوب کرنے کے لیے ہو گا یعنی تم جو اس مصیبت میں آ کر پھنسے ہو، کیا کسی نے تم کو متنبہ نہ کیا تھا؟ اور ڈرایا نہ تھا کہ اس راستے سے مت چلو ورنہ سیدھے دوزخ میں گرو گے جہاں ایسے ایسے عذاب ہوں گے۔
۹ ۔۔۔ یعنی کھسیانے ہو کر حسرت و ندامت سے جواب دیں گے کہ بیشک ڈرانے والے آئے تھے مگر ہم نے ان کی بات نہ مانی برابر جھٹلایا کیے کہ تم سب غلط کہتے ہو۔ نہ اللہ نے تم کو بھیجا نہ تم پر وحی اتاری بلکہ تم عقل و فہم کے راستہ سے بہک کر بڑی سخت گمراہی میں جا پڑے ہو۔
۱۰ ۔۔۔ یعنی کیا خبر تھی کہ یہ ڈرانے والے ہی سچے نکلیں گے۔ اگر ہم اس وقت کسی ناصح کی بات سنتے یا عقل سے کام لے کر معاملہ کی حقیقت کو سمجھ لیتے تو آج دوزخیوں کے زمرہ میں کیوں شامل ہوتے اور تم کو یہ طعن دینے کا موقع کیوں ملتا۔
۱۱ ۔۔۔ یعنی خود اقرار کر لیا کہ بیشک ہم مجرم ہیں یوں ہی بے قصور ہم کو دوزخ میں نہیں ڈالا جا رہا لیکن اس نا وقت کے اقرار و اعتراف سے کچھ فائدہ نہ ہو گا۔ ارشاد ہو گا "فَسُحْقًا لِّاَصْحٰبِ السَّعِیْرِ۔" (اب دفع ہو جائیں دوزخ والے) ان کے لیے جوارِ رحمت میں کہیں ٹھکانا نہیں ۔
۱۲ ۔۔۔ یعنی اللہ کو دیکھا نہیں ، مگر اس پر اور اس کی صفات پر پورا یقین رکھتے ہیں ۔ اور اس کی عظمت و جلال کے تصور سے لرزتے اور اس کے عذاب کا خیال کر کے تھرتھراتے ہیں ۔ یا "بالغیب" کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے مجمع سے الگ ہو کر خلوت و عزلت میں اپنے رب کو یاد کر کے لرزاں و ترساں رہتے ہیں ۔
۱۳ ۔۔۔ یعنی گو تم اس کو نہیں دیکھتے مگر وہ تم کو دیکھ رہا ہے اور تمہاری ہر کھلی چھپی بات خلوت میں ہو یا جلوت میں سب کو جانتا ہے بلکہ دلوں میں اور سینوں میں جو خیالات گزرتے ہیں ان کی بھی خبر رکھتا ہے۔ غرض وہ تم سے غائب ہے پر تم اس سے غائب نہیں ۔
۱ ۴ ۔۔۔ یعنی تمہارا اور تمہارے افعال و اقوال ہر چیز کا خالق و مختار وہ ہے اور خالق و مختار جس چیز کو پیدا کرے ضروری ہے کہ اس کا پورا علم اسے حاصل ہو، ورنہ پیدا کرنا ممکن نہیں ، پھر کیسے ہو سکتا ہے کہ جس نے بنایا وہ ہی نہ جانے۔
۱۵ ۔۔۔ یعنی زمین کو تمہارے سامنے کیسا پست و ذلیل و مسخر و منقاد کر دیا کہ جو چاہو اس میں تصرف کرو تو چاہے کہ اس پر اور اس کے پہاڑوں پر چلو پھرو اور روزی کماؤ، مگر اتنا یاد رکھو کہ جس نے روزی دی ہے اسی کی طرف پھر لوٹ کر جانا ہے۔
۱۶ ۔۔۔ پہلے انعامات یاد دلائے تھے۔ اب شانِ قہر و انتقام یاد دلا کر ڈرانا مقصود ہے یعنی زمین بیشک تمہارے لیے مسخر کر دی گئی۔ مگر یاد رہے اس پر حکومت اسی آسمان والے کی ہے وہ اگر چاہے تو تم کو زمین میں دھنسا دے۔ اس وقت زمین بھونچال سے لرزنے لگے اور تم اس کے اندر اترتے چلے جاؤ لہٰذا آدمی کو جائز نہیں کہ اس مالک مختار سے نڈر ہو کر شرارتیں شروع کر دے اور اس کے ڈھیل دینے پر مغرور ہو جائے۔
۱۷ ۔۔۔ ۱: یعنی بیشک زمین پر چلو پھرو اور روزی کماؤ، لیکن خدا کو نہ بھولو ورنہ وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر ایک سخت آندھی بھیج دے۔ یا پتھروں کا مینہ برسا دے۔ پھر تم کیا کرو گے ساری دوڑ دھوپ یوں ہی رکھی رہ جائے گی۔
۲: یعنی جس عذاب سے ڈرایا جاتا تھا وہ کیسا تباہ کن اور ہولناک ہے۔
۱۸ ۔۔۔ یعنی "عاد" و "ثمود" وغیرہ کے ساتھ جو معاملہ ہو چکا ہے اس سے عبرت پکڑو۔ دیکھ لو! ان کی حرکات پر ہم نے انکار کیا تھا تو وہ انکار کیسے عذاب کی صورت میں ظاہر ہو کر رہا۔
۱۹ ۔۔۔ پہلے آسمان و زمین کا ذکر ہوا تھا۔ یہاں درمیانی چیز کا ذکر ہے یعنی خدا کی قدرت دیکھو پرندے زمین و آسمان کے درمیان کبھی پر کھول کر اور کبھی بازو سمیٹے ہوئے کس طرح اڑتے رہتے ہیں ۔ اور باوجود جسم ثقیل مائل الی المرکز ہونے کے نیچے نہیں گر پڑتے نہ زمین کی قوت جاذبہ اس ذرا سے پرندے کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ بتلاؤ رحمان کے سوا کس کا ہاتھ ہے جس نے انہیں فضاء میں تھام رکھا ہے۔ بیشک رحمان نے اپنی رحمت و حکمت سے ان کی ساخت ایسی بنائی اور اس میں وہ قوت رکھی جس سے وہ بے تکلف ہوا میں گھنٹوں ٹھہر سکیں ۔ وہ ہی ہر چیز کی استعداد کو جانتا اور تمام مخلوق کو اپنی نگاہ میں رکھتا ہے۔ شاید پرندوں کی مثال بیان کرنے سے یہاں اس طرف بھی اشارہ ہو کہ اللہ آسمان سے عذاب بھیجنے پر قادر ہے اور کفار اپنے کفر و شرارت سے اس کے مستحق بھی ہیں ۔ لیکن جس طرح رحمان کی رحمت نے پرندوں کو ہوا میں روک رکھا ہے، عذاب بھی اسی کی رحمت سے رکا ہوا ہے۔
۲۰ ۔۔۔ یعنی منکر سخت دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں ۔ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے باطل معبودوں اور فرضی دیوتاؤں کی فوج ان کو اللہ کے عذاب اور آنے والی آفت سے بچا لے گی؟ خوب سمجھ لو! رحمان سے الگ ہو کر کوئی مدد کو نہ پہنچے گا۔
۲۱ ۔۔۔ یعنی اللہ اگر روزی کے سامان بند کر لے تو کس کی طاقت ہے جو تم پر روزی کا دروازہ کھول دے؟ف۴ یعنی دل میں یہ لوگ بھی سمجھتے ہیں کہ اللہ سے الگ ہو کر نہ کوئی نقصان کو روک سکتا ہے نہ نفع پہنچا سکتا ہے۔ مگر محض شرارت اور سرکشی ہے کہ توحید و اسلام کی طرف آتے ہوئے بدکتے ہیں ۔
۲۲ ۔۔۔ یعنی ظاہری کامیابی کی راہ طے کر کے وہی مقصد اصلی تک پہنچے گا جو سیدھے راستہ پر آدمیوں کی طرح سیدھا ہو کر چلے۔ جو شخص ناہموار راستہ پر اوندھا ہو کر منہ کے بل چلتا ہو اس کے منزل مقصود تک پہنچنے کی کیا توقع ہو سکتی ہے۔ یہ مثال ایک موحد اور ایک مشرک کی ہوئی۔ محشر میں بھی دونوں کی چال میں ایسا ہی فرق ہو گا۔
۲۳ ۔۔۔ یعنی اللہ نے سننے کے لیے کان، دیکھنے کے لیے آنکھیں ، اور سمجھنے کے لیے دل دیئے تھے کہ اس کا حق مان کر ان قوتوں کو ٹھیک مصرف میں لگاتے، اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری میں خرچ کرتے مگر ایسے شکر گزار بندے بہت کم ہیں ۔ کافروں کو دیکھ لو کہ ان نعمتوں کا کیسا حق ادا کیا؟ اس کی دی ہوئی قوتیں اسی کے مقابلہ میں استعمال کیں ۔
۲ ۴ ۔۔۔ یعنی ابتداء بھی اس سے ہوئی انتہاء بھی اسی پر ہو گی، جہاں سے آئے تھے وہیں جانا ہے۔ چاہیے تھا کہ اس سے ایک دم غافل نہ ہوتے اور ہمہ وقت اس کی فکر رکھتے کہ مالک کے سامنے خالی ہاتھ نہ جائیں مگر ایسے بندے بہت تھوڑے ہیں ۔
۲۵ ۔۔۔ یعنی اکٹھے کب کیے جائیں گے؟ اور قیامت کب آئے گی اسے جلدی بلا لو۔
۲۶ ۔۔۔ یعنی وقت کی تعیین میں نہیں کر سکتا۔ اس کا علم اللہ ہی کو ہے۔ البتہ جو چیز یقیناً آنے والی ہے اس سے آگاہ کر دینا اور خوفناک مستقبل سے ڈرا دینا میرا فرض تھا وہ میں ادا کر چکا۔
۲۷ ۔۔۔ یعنی اب تو جلدی مچا رہے لیکن جس وقت وہ وعدہ قریب آ لگے گا، بڑے بڑے سرکشوں کے منہ بگڑ جائیں گے اور چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگیں گی۔
۲۸ ۔۔۔ کفار تمنا کرتے تھے کہ کہیں جلد مرمرا کر ان کا قصہ ختم ہو جائے (العیاذ باللہ) اس کا جواب دیا کہ فرض کرو تمہارے زعم کے موافق میں اور میرے ساتھی دنیا میں سب ہلاک کر دیے جائیں یا ہمارے عقیدے کے موافق مجھ کو اور میرے رفقاء کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے کامیاب و با مراد کرے۔ ان دونوں صورتوں میں سے جو صورت بھی ہو، مگر تم کو اس سے کیا فائدہ ہے۔ ہمارا انجام دنیا میں جو کچھ ہو، بہرحال آخرت میں بہتری ہے کہ اس کے راستہ میں جدوجہد کر رہے ہیں ۔ لیکن تم اپنی فکر کرو کہ اس کفر و سرکشی پر جو دردناک عذاب آنا یقین ہے، اس سے کون بچائے گا۔ ہمارا اندیشہ چھوڑ دو، اپنی فکر کرو، کیونکہ کافر کسی طرح بھی خدائی عذاب سے نہیں چھوٹ سکتا۔
۲۹ ۔۔۔ ۱: یعنی جب ہمارا ایمان اس پر ہے تو ایمان کی بدولت نجات یقین ہے اور جب ہم صحیح معنی میں اسی پر بھروسہ رکھتے ہیں تو مقاصد میں کامیابی یقینی ہے۔ "وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسْبُہٗ اِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ" تم میں دونوں چیزیں نہیں ، نہ ایمان، نہ توکل، پھر تو کیسے بے فکر ہو؟
۲: یعنی ہم جیسا کہ تمہارا گمان ہے یا تم جیسا کہ ہمارا عقیدہ ہے۔
۳۰ ۔۔۔ یعنی زندگی اور ہلاکت کے سب اسباب اسی اللہ کے قبضہ میں ہیں ۔ ایک پانی ہی کو لے لو، جس سے ہر چیز کی زندگی ہے، اگر فرض کرو! چشموں اور کنوؤں کا پانی خشک ہو کر زمین کے اندر اتر جائے جیسا کہ اکثر موسم گرما میں پیش آ جاتا ہے تو اس کی قدرت ہے کہ موتی کی طرح صاف شفاف پانی اس قدر کثیر مقدار میں مہیا کر دے جو تمہاری زندگی اور بقاء کے لیے کافی ہو۔ لہٰذا ایک مومن متوکل کو اسی خالق الکل مالک علی الاطلاق پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔ یہیں سے یہ بھی سمجھ لو کہ جب ہدایت کے سبب چشمے خشک ہو چکے، اس وقت ہدایت و معرفت کا خشک نہ ہونے والا چشمہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی صورت میں جاری کر دینا بھی اسی رحمانِ مطلق کا کام ہو سکتا ہے۔ جس نے اپنے فضل و انعام سے تمام جانداروں کی ظاہری و باطنی زندگی کے سامان پیدا کیے ہیں اگر فرض محال یہ چشمہ خشک ہو جائے، جیسا کہ اشقیاء کی تمنا ہے، تو کون ہے جو مخلوق کے لیے ایسا پاک و صاف نتھرا پانی مہیا کر سکے۔ تم سورۃ الملک وللہ الحمد والمنۃ۔