اللہ تعالیٰ فرماتا ہے زبان سے لوگوں کی عیب گیری کرنے والا اپنے کاموں سے دوسروں کی حقارت کرنے والا، خرابی والا شخص ہے۔ ھماز مشآء بنمیم کی تفسیر بیان ہو چکی ہے حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ اس سے مراد طعنہ دینے والا غیبت کرنے والا ہے ربیع بن انس کہتے ہیں سامنے برا کہنا تو ہمزہ ہے اور پیٹھ پیچھے عیب بیان کرنا لمز ہے۔ قتادہ کہتے ہیں زبان سے اور آنکھ کے اشاروں سے بندگان اللہ کو ستنا اور چڑانا مراد ہے کہ کبھی تو ان کا گوشت کھائے یعنی غیب کرے اور کبھی ان پر طعنہ زنی کرے مجاہد فرماتے ہیں ہمز ہاتھ اور آنکھ سے ہوتا ہے اور لمز زبان سے بعض کہتے ہیں اس سے مراد اخنس بن شریف کافر ہے مجاہد فرماتے ہیں آیت عام ہے پھر فرمایا جو جمع کرتا ہے اور گن گن کر رکھتا جاتا ہے جیسے اور جگہ ہے جمع فاوعیٰ حضرت کعب فرماتے ہیں دن بھر تو مال کمانے کی ہائے وائے میں لگا رہا اور رات کو سڑی بھسی لاش کی طرح پڑ رہا اس کا خیال یہ ہے کہ اس کا مال اسے ہمیشہ دنیا میں رکھے گا حالانکہ واقعہ یوں نہیں بلکہ یہ بخیل اور لالچی انسان جہنم کے اس طبقے میں گے گا جو ہر اس چیز کو جو اس میں گرے چور چور کر دیتا ہے پھر فرماتا ہے یہ توڑ پھوڑ کرنے والی کیا چیز ہے؟ اس کا حال اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم تمہیں معلوم نہیں یہ اللہ کی سلگائی ہوئی آگ ہے جو دلوں پر چڑھ جاتی ہے جلا کر بھسم کر دیتی ہے لیکن مرتے نہیں حضرت ثابت بنائی جب اس آیت کی تلاوت کر کے اس کا یہ معنی بیان کرتے تو رو دیتے اور کہتے انہیں عذاب نے بڑا ستایا محمد بن کعب فرماتے ہیں آگ جلاتی ہوئی حلق تک پہنچ جاتی ہے پھر لوٹتی پھر پہنچی ہے یہ آگ ان پر چاروں طرف سے بند کر دی گئی ہے جیسے کہ سورہ بلد کی تفسیر میں گزرا۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے اور دوسرا طریق اس کا موقوف ہے لوہا جو مثل آگ کے ہے اس کے ستونوں میں بہ لمبے لمبے دروازے ہیں حضرت عبد اللہ بن مسعود کی قرأت میں بعمد مروی ہے ان دوزخیوں کیگ ردنوں میں زنجیریں ہو گی یہ لمبے لمبے ستونوں میں جکڑے ہوئے ہوں گے اور اوپر سے دروازے بند کر دئیے جائیں گے ان آگ کے ستونوں میں انہیں بدترین عذاب کیے جائیں گے ابو صالح فرماتے ہیں یعنی وزنی بیڑیاں اور قیدوبند ان کے لیے ہوں گی اس سورت کی تفسیر بھی اللہ کے فضل و کرم سے پوری ہوئی فالحمداللہ ۔