تفسیر ابنِ کثیر

سُوۡرَةُ الاٴعلی

صلوٰۃ وتر کی سورتیں

اس سورت کے مکی ہونے کی دلیل یہ حدیث ہے جو صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اصحاب رسول اللہ علیہ و آلہ و سلم میں سے سب سے پہلے ہمارے پاس حضرت مصعب بن عمیر اور حضرت ابن مکتوم آئے ہمیں قرآن پڑھانا شروع کیا پھر حضرت عمار حضرت بلال حضرت سعد آئے پھر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے ساتھ بیس صحابیوں کو لے کر آئے میں نے اہل مدینہ کو کسی چیز پر اس قدر خوش ہوتے نہیں دیکھا جتنے اس پر خوش ہوئے یہاں تک کہ چھوٹے چھوٹے بچے اور نابالغ لڑکے بھی پکار اٹھے کہ یہ ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ تشریف لائے آپ کے آنے سے پہلے ہی میں نے یہ سورت سبح اسی جیسی اور سورتوں کے ساتھ یاد کر لی تھی، مسند احمد میں ہے کہ یہ سورت حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو بہت محبوب تھی بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ تو نے سورہ سبح اسم ربک الاعلی اور والشمس وضحھا اور والالیل اذا یغشی کے ساتھ نماز کیوں نہ پڑھائی؟ مسند احمد میں مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم رسول اللہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سبح اسم ربک الاعلی اور ھل اتک حدیث دونوں عید کی نمازوں میں پڑھا کرتے تھے اور جمعہ والے دن اگر عید ہوتی تو عید میں اور جمعہ میں دونوں میں انہی دونوں سورتوں کو پڑھتے یہ حدیث صحیح مسلم میں بھی ہے ابو داؤد اور ترمذی اور نسائی میں بھی ہے ابن ماجہ وغیرہ میں بھی ہے مسند احمد میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنا سے روایت ہے کہ وتر نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سبح اسم ربک الاعلی اور قل یا ایھا الکافرون اور قل ھو اللہ احد پڑھتے تھے ایک روایت میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ سورہ معوذتین یعنی قل اعوذبرب الفلق اور قل اعوذ برب الناس بھی پڑھتے تھے یہ حدیث بھی بہت سے صحابیوں سے بہت سے طریق کے ساتھ مروی ہے ہمیں اگر کتاب کے طویل ہو جانے کا خوف نہ ہوتا تو ان سندوں کو اور ان تمام روایتوں کے الفاظ کو جہاں تک میسر ہوتے نقل کرتے لیکن جتنا کچھ اختصار کے ساتھ بیان کر دیا یہ بھی کافی ہے واللہ اعظم۔

 

۱

 مسند احمد میں ہے عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آیت فسبح باسم ربک العظیم اتری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اسے تم اپنے رکوع میں کر لو جب سبح اسم ربک الاعلی اتری تو آپ نے فرماسا اے اپنے سجدے میں کر لو ابو داؤد وغیرہ کی حدیث میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سبح اسم ربک الاعلی پڑھتے تو کہتے سبحان ربی الاعلی حضرت علی سے بھی یہ مروی ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی یہ مروی ہے اور آپ جب لا اقسم بیوم القیامۃ پڑھتے اور آخری آیت الیس ذالک بقادرعلی ان یحیی الموتی پر پہنچتے تو فرماتے سبحانک وبلی اللہ تعالیٰ یہاں ارشاد فرماتا ہے اپنے بلندیوں والے پرورش کرنے والے اللہ کے پاک نام کی پاکیزگی اور تسبیح بیان کروجس نے تمام مخلوق کو پیدا کیا اور سب کو اچھی ہیئت بخشی انسان کو سعادت شقاوت کے چہرے دکھا دئیے اور جانور کو چرنے چگنے وغیرہ کے سامان مہیا کیے جیسے اور جگہ ہے ربنا الذی اعطی کل شیء خلقہ ثم ھدی یعنی ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی پیدائش عطا فرمائی پھر رہبری کی صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ زمین آسمان کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی تقدیر لکھی اس کا عرش پانی پر تھا جس نے ہر قسم کے نباتات اور کھیت نکالے پھر ان سرسبز چاروں کو خشک اور سیاہرنگ کر دیا بعض عارفان کلام عرب نے کاہے کہ یہاں بعض الفاظ جو ذکر میں موخر ہیں معنی کے لحاظ سے مقدم ہیں یعنی مطلب یہ ہے کہ جس نے گھاس چارہ سبز رنگ سیاہی مائل پیدا کیا پھر اسے خشک کر دیا گویہ معنی بھی بن سکتے ہیں لیکن کچھ زیادہ ٹھیک نظر نہیں آتے کیونکہ مفسرین کے اقوال کے خلاف ہیں پھر فرماتا ہے کہ تجھے ہم اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایسا پڑھائیں گے جسے تو بھولے نہیں ہاں اگر خود اللہ کوئی آیت بھلا دینا چاہے تو اور بات ہے امام ابن جریر تو اسی مطلب کو پسند کرتے ہیں اور مطلب اس آیت کا یہ ہے کہ جو قرآن ہم تجھے پڑھاتے ہیں اسے نہ بھول ہاں جسے ہم خود منسوخ کر دیں اس کی اور بات ہے اللہ پر بندوں کے چھپے کھلے اعمال احوال عقائد سب ظاہر ہیں ہم تجھ پر بھلائی کے کام اچھی باتیں شرعی امر آسان کر دیں گے نہان میں کجی ہو گینہ سختی نہ جرم ہو گا تو نصیحت کر اگر نصیحت فائدے دے۔ اس سے معلوم ہوا کہ نالائقوں کو نہ سکھانا چاہیے جیسے کہ امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ اگر تم دوسروں کے ساتھ وہ باتیں کرو گے جو ان کی عقل میں نہ آسکیں تو نتیجہ یہ ہو گا کہ تمہاری بھلی باتیں ان کے لیے بری بن جائیں گی اور باعث فتنہ ہو جائیں گی بلکہ لوگوں سے ان کی سمجھ کے مطابق بات چیت کرو تاکہ لوگ اللہ اور رسول کو نہ جھٹلائیں۔ پھر فرمایا کہ اس سے نصیحت وہ حاصل کرے گا جس کے دل میں اللہ کا خوف ہے جو اس کی ملاقات پر یقین رکھتا ہے اور اس سے وہ عبرت و نصیحت حاصل نہیں کر سکتا جو بد بخت ہو جو جہنم میں جانے والا ہو جہاں نہ تو راحت کی زندگی ہے نہ بھلی موت ہے بلکہ وہ لازوال عذاب اور دائمی برائی ہے اس میں طرح طرح کے عذاب اور بدترین سزائیں ہیں مسند احمد میں ہے کہ جو اصلی جہنمی ہیں انہیں نہ تو موت آئے گی نہ کار آمد زندگی ملے گی ہاں جن کے ساتھ اللہ کا ارادہ رحمت کا ہے وہ آگ میں گرتے ہی جل کرمر جائیں گے پھر سفارشی لوگ جائیں گے اور ان میں سے اکثر کو چھڑالائیں گے پھر نہر حیاۃ میں ڈال دئیے جائیں گے جنتی نہروں کا پانی ان پر ڈالا جائے گا اور وہ اس طرح جی اٹھیں گے جس طرح دانہ نالی کے کنارے کوڑے پر اگ آتا ہے کہ پہلے سبز ہوتا ہے پھر زرد پھر ہرا لوگ کہنے لگے حضور صلی اللہ علیہ و سلم تو اس طرح بیان فرماتے ہیں جیسے آپ جنگل سے واقف ہوں یہ حدیث مختلف الفاظ سے بہت سی کتب میں مروی ہے قرآن کریم میں اور جگہ وارد ہے ونادوایا مالک لیقض علینا ربک الخ یعنی جہنمی لوگ پکار پکار کر کہیں گے کہ اے مالک داروغہ جہنم اللہ سے کہہ وہ ہمیں موت دے دے جواب ملے گا تم تو اب اسی میں پڑے رہنے والے ہو اور جگہ ہے لا یقضی علیھم فیموتواالخ یعنی نہ تو ان کی موت آئے گی نہ عذاب کم ہوں گے اس معنی کی آیتیں اور بھی ہیں۔

 

۱۴

جس نے صلوٰۃ کو بروقت ادا کیا

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس نے رذیل اخلاق سے اپنے تئیں پاک کر لیا احکام اسلام کی تابعداری کی نماز کو ٹھیک وقت پر قائم رکھا صرف اللہ تعالیٰ کی رضامندی اور اس کی خوشنودی طلب کرنے کے لیے اس نے نجات اور فلاح پالی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا کہ وہ شخص اللہ تعالیٰ کے وحدہ لا شریک ہونے کی گواہی دے اس کے سوال کسی کی عبادت نہ کرے اور میری رسالت کو مان لے اور پانچوں وقت کی نمازوں کی پوری طرح حفاظت کرے وہ نجات پا گیا (بزار) ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس سے مراد پانچ وقت کی نماز ہے حضرت ابو العالیہ نے ایک مرتبہ الو خلدہ سے فرمایا کہ کل جب عید گاہ جاؤ تو مجھ سے ملتے جانا جب میں گیا تو مجھ سے کہا کچھ کھا لیا ہے میں نے کہا ہاں، فرمایا نہا چکے ہو؟ میں نے کہا ہاں فرمایا زکوٰۃ فطر ادا کر چکے ہو؟ میں نے کہا ہاں، فرمایا بس یہی کہنا تھا کہ اس آیت میں یہی مراد ہے۔ اہل مدینہ فطرہ سے اور پانی پلانے سے افضل اور کوئی صدقہ نہیں جانتے تھے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ بھی لوگوں کو فطرہ ادا کرنے کا حکم کرتے پھر اسی آیت کی تلاوت کرتے، حضرت ابو الاحواص فرماتے ہیں جب تم میں سے کوئی نماز کا ارادہ کرے اور کوئی سائل آ جائے تو اسے خیرات دے دے پھر یہی آیت پڑھی۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں اس نے اپنے مال کو پاک کر لیا اور اپنے رب کو راضی کر لیا پھر ارشاد ہے کہ تم دنیا کی زندگی کو آخرت کی زندگی پر ترجیح دے رہے ہو اور دراصل تمہاری مصلحت تمہارا نفع اخروی زندگی کو دنیوی زندگی پر ترجیح دینے میں ہے دنیا ذلیل ہے فانی ہے آخرت شریف ہے باقی ہے کوئیعاقل ایسا نہیں کر سکتاکہ فانی کو باقی کی جگہ اختیار کر لے اور اس فانی کے انتظام میں پڑ کر اس باقی کے اہتمام کو چھوڑ دے مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں دنیا اس کاگھر ہے جس کا آخرت آخرت میں نہ ہو دنیا اسک امال ہے جس کا مال وہاں نہ ہو اسے جمع کرنے کے پیچھے وہ لگتے ہیں جو بیوقوف ہیں ابن جریر میں ہے کہ حضرت عرفجہ ثقفی اس سورت کو حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پڑھ رہے تھے جب اس آیت پر پہنچے تو تلاوت چھوڑ کر اپنے ساتھیوں سے فرمانے لگے کہ سچ ہے ہم نے دنیا کو آخرت پر ترجیح دی لوگ خاموش رہے تو آپ نے پھر فرمایا کہ اس لیے کہ ہم دنیا کے گرویدہ ہو گئے کہ یہاں کی زینت کو یہاں کی عورتوں کو یہاں کے کھانے پینے کو ہم نے دیکھ لیا آخرت نظروں سے اوجھل ہے اس لیے ہم نے اس سامنے والی کی طرف توجہ کی اور اس نظر نہ آنے والی سے آنکھیں پھیر لیں یا تو یہ فرمان حضرت عبد اللہ کا بطور تواضع کے ہے یا جنس انسان کی بابت فرماتے ہیں واللہ اعلم۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں جس نے دنیا سے محبت کی اس نے اپنی آخرت کو نقصانپ ہنچایا اور جس نے آخرت سے محبت رکھی اس نے دنیا کو نقصان پہنچایا تم اے لوگو! باقی رہنے والی کو فنا ہونے والی پر ترجیح دو، مسند احمد پھر فرماتا ہے کہ ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں بھی یہ تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں کہ یہ سب بیان ان صحیفوں میں بھی تھا (بزار) نسائی میں حضرت عباس سے یہ مروی ہے اور جب آیت وابراہیم الذی وفی نازل ہوئی تو فرمایا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ ایک کا بوجھ دوسرے کو نہ اٹھانا ہے سورہ نجم میں ہے ام لم ینبا بما فی صحف موسیٰ آخری مضمون تک کی تمام آیتیں یعنی یہ سب احکام اگلی کتابوں میں بھی تھے اسی طرح یہاں بھی مراد سبح اسم کی یہ آیتیں ہیں بعض نے پوری سورت کہی ہے بعض نے قد افلح سے ابقی تک کہا ہے زیادہ قوی بھی یہی قول معلوم ہوتا ہے واللہ اعلم۔ الحمد اللہ سورہ سبح کی تفسیر ختم ہوئی واللہ الحمد والمنہ وبہ التوفیق والعصمہ