تفسیر ابنِ کثیر

سورة صٓ

حروف مقطعات جو سورتوں کے شروع میں آتے ہیں ان کی پوری تفسیر سورہ بقرہ کے شروع میں گزر چکی ہے۔ یہاں قرآن کی قسم کھائی اور اسے پند و نصیحت کرنے والا فرمایا۔ کیونکہ اس کی باتوں پر عمل کرنے والے کی دین و دنیا دونوں سنور جاتی ہیں اور آیت میں ہے فیہ ذکر کم اس قرآن میں تمہارے لئے نصیحت ہے اور یہ بھی مطلب ہے کہ قرآن شرافت میں بزرگ عزت و عظمت والا ہے۔ اب اس قسم کا جواب بعض کے نزدیک تو ان کل الاکذب الرسل الخ، ہے۔ بعض کہتے ہیں ان ذالک لحق الخ، ہے لیکن یہ زیادہ مناسب نہیں معلوم ہوتا یہ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں اس کا جواب اس کے بعد کی آیت ہے۔ ابن جریر اسی کو مختار بتاتے ہیں۔ بعض عربی داں کہتے ہیں اس کا جاب ص ہے اور اس لفظ کے معنی صداقت اور حقانیت کے ہیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ پوری سورت کا خلاصہ اس قسم کا جواب ہے۔ واللہ اعلم۔ پھر فرماتا ہے یہ قرآن تو سراسر عبرت و نصیحت ہے مگر اس سے فائدہ وہی اٹھاتے ہیں جن کے دل میں ایمان ہے کافر لوگ اس فائدے سے اس لئے محروم ہیں کہ وہ متکبر ہیں اور مخالف ہیں یہ لوگ اپنے سے پہلے اور اپنے جیسے لوگوں کے انجام پر نظر ڈالیں تو اپنے انجام سے ڈریں۔ اگلی امتیں اسی جرم پر ہم نے تہ و بالا کر دی ہیں عذاب آ پڑنے کے بعد تو بڑے روئے پیٹے خوب آہ و زاری کی لیکن اس وقت کی تمام باتیں بے سود ہیں۔ جیسے فرمایا فلما احسواباسنا الخ، ہمارے عذابوں کو معلوم کر کے ان سے بچنا اور بھاگنا چاہا۔ لیکن یہ کیسے ہو سکتا تھا؟ ابن عباس فرماتے ہیں کہ اب بھاگن کا وقت نہیں نہ فریاد کا وقت ہے، اس وقت کوئی فریاد رسی نہیں کر سکتا۔ چاہو جتنا چیخو چلاؤ محض بے سود ہے۔ اب توحید کی قبولیت بے نفع، توبہ بیکار ہے۔ یہ بے وقت کی پکار ہے۔ لات معنی میں لا کے ہے۔ اس میں "ت" زائد ہے جیسے ثم میں بھی "ت" زیادہ ہوتی ہے اور ریت میں بھی۔ یہ مفصولہ ہے اور اس پر وقف ہے۔ امام ابن جری کا قول ہے کہ یہ "ت" حین سے ملی ہوئی ہے یعنی ولاتحین ہے، لیکن مشہور اول ہی ہے۔ جمہور نے حین کو زبر سے پڑھا ہے۔ تو مطلب یہ ہو گا کہ یہ وقت آہ و زاری کا وقت نہیں۔ بعض نے یہاں زیر پڑھنا بھی جائز رکھا ہے لغت میں نوص کہتے ہیں پیچھے ہٹنے کو اور بوص کہتے ہیں آگے بڑھنے کو پس مقصد یہ ہے کہ یہ وقت بھاگنے اور نکل جانے کا وقت نہیں واللہ الموفق۔

 

۴

مشرکین کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم پر تعجب

حضور علیہ السلام کی رسالت پر کفار کے حماقت آمیز تعجب کا اظہار ہو رہا ہے جیسے اور آیت میں ہے اکان للناس عجبا الخ، کیا لوگوں کو اس بات سے تعجب ہوا کہ ان میں سے ایک انسان کی طرف ہم نے وحی کی تاکہ وہ لوگوں کو ہوشیار کر دے اور ایمانداروں کو اس بات کی خوش خبری سنا دے کہ اس کے پاس ان کے لئے بہترین لائحہ عمل ہے۔ کافر تو ہمارے رسول کو کھلا جادوگر کہنے لگے۔ یہیں پر یہ ذکر ہے کہ انہی میں سے انہی جیسے ایک انسان کے رسولبن کر آنے پر انہیں تعجب ہوا اور کہنے لگے کہ یہ تو جادوگر اور کذاب ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت پر تعجب کے ساتھ ہی اللہ کی وحدانیت پر بھی انہیں تعجب معلوم ہوا اور کہنے لگے کہ اور سنو اتنے سارے معبودوں کے بدلے یہ تو کہتا ہے کہ اللہ ایک ہی ہے اور اس کا کوئی کسی طرح کا شریک ہی نہیں ان بیوقوفوں کو اپنے بڑوں کی دیکھا دیکھی جس شرک و کفر کی عادت تھی اس کے خلاف آواز سن کر ان کے دل دکھنے اور رکنے لگے اور وہ توحید کو ایک انوکھی اور انجان چیز سمجھنے لگے۔ ان کے بڑوں اور سرداروں نے تکبر کے ساتھ منہ موڑتے ہوئے اعلان کیا کہ اپنے قدیمی مذہب پر جمے رہو۔ اس کی بات نہ مانو اور اپنے معبودوں کی عبادت کرتے رہو۔ یہ تو صرف اپنے مطلب کی باتیں کہتا ہے۔ یہ اس بہانے اپنی جما رہا ہے کہ یہ تمہارا سب کا برا بن جائے اور تم اس کے تابع فرمان ہو جاؤ۔ ان آیتوں کا شان نازل یہ ہے کہ ایک بار قریشیوں کے شریف اور سردار رؤسا ایک مرتبہ جمع ہوئے ان میں ابوجہل بن ہشام عاص بن وائل اسود بن المطلب اسود بن عبد یغوث وغیرہ بھی تھے اور سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ چل کر آج ابو طالب سے آخری فیصلہ کر لیں وہ انصاف کے ساتھ ایک بات ہمارے ذمہ ڈال دے اور ایک اپنے بھتیجے کے ذمے۔ کیونکہ یہ اب انتہائی عمر کو پہنچ چکے ہیں چراغ سحری ہو رہے ہیں اگر مر گئے اور ان کے بعد ہم نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو کوئی مصیبت پہنچائی تو عرب میں طعنہ دیں گے کہ بڈھے کی موجودگی تک تو کچھ نہ چلی اور ان کی موت کے بعد بہادری آ گئی۔ چنانچہ ایک آدمی بھیج کر ابو طالب سے اجازت مانگی ان کی اجازت پر سب گھر میں گئے اور کہا سنئے جناب! آپ ہمارے سردار ہیں بزرگ ہیں بڑے ہیں۔ ہم آپ کے بھتیجے سے اب بہت تنگ آ گئے ہیں آپ انصاف کے ساتھ ہم میں اور اس میں فیصلہ کر دیجئے۔ دیکھئے ہم آپ سے انصاف چاہتے ہیں وہ ہمارے معبودوں کو برا نہ کیں اور نہ ہم انہیں ستائیں وہ مختار ہیں جس کی چاہیں عبادت کریں لیکن ہمارے معبودوں کو برا نہ کہیں۔ ابو طالب نے آدمی بھیج کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو بلوایا اور کہا جان پدر دیکھتے ہو آپ کی قوم کے سردار اور بزرگ سب جمع ہوئے ہیں اور آپ سے صرف یہ چاہتے ہیں کہ آپ ان کے معبودوں کی توہین اور برائی کرنے سے باز آ جائیں اور یہ آپ کو آپ کے دین پر چلنے میں آزادی دے رہے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا چچا جان کیا میں انہیں بہترین اور بڑی بھلائی کی طرف نہ بلاؤں؟ ابو طالب نے کہا وہ کیا ہے؟ فرمایا یہ ایک کلمہ کہہ دیں صرف اس کے کہنے کی وجہ سے سارا عرب ان کے ماتحت ہو جائے گا اور سارے عجم پر ان کی حکومت ہو جائے گی۔ ابوجہل ملعون نے سوال کیا کہ اچھا بتاؤ وہ ایسا کونسا کلمہ ہے؟ ایک نہیں ہم دس کہنے کو تیار ہیں۔ رسولاللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہو لا الہ الا اللہ بس یہ سننا تھا کہ شور و غل کر دیا اور کہنے لگے اس کے سوا جو تو مانگے ہم دینے کو تیار ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر تم سورج کو بھی لا کر میرے ہاتھ پر رکھ دو تو بھی تو تم سے اس کلمے کے سوا اور کچھ نہیں مانگوں گا۔ سارے کے سرے مارے غصے اور غضب کے بھنا کر کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے واللہ ہم تجھے اور تیرے اللہ کو گالیں ا دیں گے جس نے تجھے یہ حکم دیا ہے۔ اب یہ چلے اور ان کے سردار یہ کہتے رہے کہ جاؤ اپنے دین پر اور اپنے معبودوں کی عبادت پر جمے رہو۔ معلوم ہو گیا کہ اس شخص کا تو ارادہ ہی اور ہے یہ تو بڑا بننا چاہتا ہے (ابن ابی حاتم وغیرہ) ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ ان کے بھاگ جانے کے بعد حضور نے اپنے چچا سے کہا کہ آپ ہی اس کلمے کو پڑھ لیجئے اس نے کہا نہیں میں تو اپنے باپ دادوں اور قوم کے بڑوں کے دین پر ہی رہوں گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو فرمایا کہ جسے تو چاہے ہدایت نہیں کر سکتا اور روایت میں ہے کہ اس وقت ابو طالب بیمار تھے اور اسی وجہ سے وہ مرا بھی۔ جس وقت حضور صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے اس وقت ابو طالب کے پاس ایک آدمی کے بیٹھنے کی جگہ خالی تھی باقی تمام گھر آدمیوں سے بھرا ہوا تھا تو ابوجہل خبیث نے خیال کیا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم آ کر اپنے چچا کے پاس بیٹھ گئے تو زیادہ اثر ڈال سکیں گے اس لئے یہ ملعون کود کر وہاں جا بیٹھا اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو دروازہ کے پاس ہی بیٹھنا پڑا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے جب ایک کلمہ کہنے کو کہا تو سب نے جواب دیا کہ ایک نہیں دس ہم سب منتظر ہیں فرمایئے وہ کیا کلمہ ہے؟ اور جب کلمہ توحید آپ کی زبانی سنا تو کپڑے جھاڑتے ہوئے بھاگ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے لو اور سنو یہ تو سارے معبودوں کا ایک معبود بنا رہا ہے۔ اس پر یہ آیتیں عذاب تک اتریں۔ امام ترمذی اس روایت کو حسن کہتے ہیں۔ ہم نے تو یہ بات نہ اپنے دین میں دیکھی نہ نصرانیوں کے دین میں۔ یہ بالکل غلط اور جھوٹ اور بے سند بات ہے۔ یہ کیسے کچھ تعجب کی بات ہے کہ اللہ میاں کوئی اور نظر ہی نہ آیا اور اس پر قرآن اتار دیا۔ جیسے ایک اور آیت میں ان کا قول ہے لولا نزل ھذا القرآن علی رجل من القریتین عظیم یعنی ان دونوں شہروں میں کے کسی بڑے آدمی پر یہ قرآن کیوں نہ اتارا گیا؟ جس کے جواب میں جناب باری کا ارشاد ہوا کہ کیا ہی لوگ رب کی رحمت کی تقسیم کرنے والے ہیں؟ یہ تو اس قدر محتاج ہیں کہ ان کی اپنی روزیاں اور درجے بھی ہم تقسیم کرتے ہیں۔ الغرض یہ اعتراض بھی ان کی حماقت کا غرہ تھا۔ اللہ فرماتا ہے، یہ ہے ان کے شک کا نتیجہ اور وجہ یہ ہے کہ اب تک یہ چکنی چپڑی کھاتے رہے ہیں ہمارے عذابوں سے سابقہ نہیں پڑا۔ کل قیامت کے دن جبکہ دھکے دے کر جہنم میں گرائے جائیں گے۔ اس وقت اپنی اس سرکشی کا مزہ پائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنا قبضہ اور اپنی قدرت ظاہر فرماتا ہے کہ جو وہ چاہے کرے، جسے چاہے جو چاہے دے، عزت ذلت اس کے ہاتھ ہے، ہدایت ضلالت اس کی طرف سے ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے وحی نازل فرمائے اور جس کے دل پر چاہے اپنی مہر لگا دے بندوں کے اختیار میں کچھ نہیں وہ محض بے بس بالکل لاچار اور سراسر مجبور ہیں۔ اسی لئے فرمایا کیا ان کے پاس اس بلند جناب غالب و وہاب الہ کی رحمت کے خزانے ہیں؟ یعنی نہیں ہیں جیسے فرمایا ام لھم نصیب من الملک الخ، اگر اللہ کی حکمرانی کا کوئی حصہ ان کے ہاتھ میں ہوتا تو یہ بخیل تو کسی کو ٹکڑا بھی نہ کھانے دیتے۔ یا انہیں لوگوں کے ہاتھوں میں اللہ کا فضل دیکھ کر حسد آ رہا ہے؟ ہم نے آل ابراہیم کو کتاب و حکمت اور بہت بڑی سلطنت دی تھی۔ ان میں سے بعض تو ایمان لائے اور بعض ایمان سے رکے رہے جو بھڑکتی جہنم کے لقمے بنیں گے وہ آگ ہی انہیں کافی ہے اور آیت میں ہے یعنی اگر میرے رب کی رحمتوں کے خزانے تمہاری ملکیت میں ہوتے تو تم تو کمی سے ڈر کر خرچ کرنے سے رک جاتے انسان ہے ہی ناشکرا۔ قوم صالح نے بھی اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے یہی کہا تھا کہ الخ، کیا ہم سب کو چھوڑ کر اسی پر ذکر اتارا گیا؟ نہیں بلکہ یہ کذاب اور شریر ہے۔ اللہ فرماتا ہے کل معلوم کر لیں گے کہ ایسا کون ہے؟ پھر فرمایا کیا زمین آسمان اور اس کے درمیان کی چیزوں پر ان کا اختیار ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر آسمانوں کی راہوں پر چڑھ جائیں ساتویں آسمان پر پہنچ جائیں۔ یہ یہاں کا لشکر بھی عنقریب ہزیمت و شکست اٹھائے گا اور مغلوب و ذلیل ہو گا۔ جیسے اور بڑے بڑے گروہ حق سے ٹکرائے اور پاش پاش ہو گئے، جیسے اور آیت میں ہے الخ، یعنی کیا ان کا قول ہے کہ ہم بڑی جماعت ہیں اور ہم ہی فتح یاب رہیں گے؟ سنو انہیں ابھی ابھی شکست فاش ہو گی اور پیٹھ دکھاتے ہوئے بزدلی کے ساتھ بدحواس ہو کر بھاگ کھڑے ہوں گے چنانچہ بدر والے دن اللہ کی فرماں روائی نے اللہ کی باتوں کی سچائی انہیں اپنی آنکھوں سے دکھائی اور ابھی ان کے عذابوں کے وعدے کا دن تو آخرت کا دن ہے جو سخت کڑوا اور نہایت دہشت ناک اور وحشت والا ہے۔

 

۱۲

ان سب کے واقعات کئی مرتبہ بیان ہو چکے ہیں کہ سک طرح ان پر ان کے گناہوں کی وجہ سے اللہ کے عذاب ٹوٹ پڑے۔ یہی وہ جماعتیں ہیں جو مال اولاد میں قوۃ و طاقت میں زور زور میں تمہارے زمانہ کے ان کٹر کافروں سے بہت بڑھی ہوئی تھیں لیکن امر الٰہی کے آ چکنے کے بعد انہیں کوئی چیز کام نہ آئی۔ پھر ان کی تباہی کی وجہ بھی بیان ہوئی کہ یہ رسولوں کے دشمن تھے انہیں جھوٹا کہتے تھے۔ انہیں صرف صور کا انتظار ہے اور اس میں بھی کوئی دیر نہیں بس وہ ایک آواز ہو گی کہ جس کے کان میں پڑی بے ہوش و بے جان ہو گیا۔ سوائے ان کے جنہیں رب نے مستثنیٰ کر دیا ہے۔ قط کے معنی کتاب اور حصے کے ہیں۔ مشرکین کی بیوقوفی اور ان کا عذابوں کو محال سمجھ کر نڈر ہو کر عذابوں کے طلب کرنے کا ذکر ہو رہا ہے۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ انہوں نے کہا اللہ اگر یہ صحیح ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسایا اور کوئی درد ناک عذاب آسمانی ہمیں پہنچا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہوں نے اپنا جنت کا حصہ یہاں طلب کیا اور یہ جو کچھ کہا یہ بہ وجہ اسے جھوٹا سمجھنے اور محال جاننے کے تھا۔ ابن جریر کا فرمان ہے کہ جس خیر و شر کے وہ دنیا میں مستحق تھے اسے انہوں نے جلد طلب کیا۔ یہی بات ٹھیک ہے ضحاک اور اسماعیل کی تفسیر کا ماحصل بھی یہی ہے۔ واللہ اعلم۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کی اس تکذیب اور ہنسی کے ماقبلے میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو صبر کی تعلیم دی اور برداشت کی تلقین کی۔ 

حضرت داؤد علیہ السلام کی فراست

ذالاید سے مراد علمی اور عملی قوت والا ہے اور صرف قوۃ والے کے معنی بھی ہوت یہیں جیسے فرمان ہے والسماء بنینا ھاباید الخ، مجاہد فرماتے ہیں مراد اطاعت کی طاقت ہے۔ حضرت داؤد صلی اللہ علیہ و سلم کو عبادت کی قدرت اور اسلام کی فقہ عطا فرمائی گی تھی۔ یہ مذکور ہے کہ آپ ہر رات تہائی رات تک تہجد میں کھڑے رہتے تھے اور ایک دن بعد ایک دن ہمیشہ روزے سے رہتے تھے۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ اللہ کو سب سے زیادہ پسند حضرت داؤد کی رات کی نماز اور انہی کے روزے تھے۔ آپ آدھی رات سوتے اور تہائی رات قیام کرتے اور چھٹا حصہ رات کا پھر سو جاتے، اور ایک دن روزہ رکھتے ایک دن نہ رکھتے اور دشمنان دین سے جہاد کرنے میں پیٹھ نہ دکھاتے اور اپنے ہر حال میں اللہ کی طرف رغبت و رجوع رکھتے۔ پہاڑوں کو ان کے ساتھ مسخر کر دیا تھا۔ وہ آپ کے ساتھ سورج کے چکنے کے وقت اور دن کے آخری وقت تسبیح بیان کرتے۔ جیسے فرمان ہے یا جبال اوبی معہ یعنی اللہ نے پہاڑوں کو ان کے ساتھ رجوع کرنے کا حکم دیا تھا۔ اسی طرح پرندے بھی آپ کی آواز سن کر آپ کے ساتھ اللہ کی پاکی بیان کرنے لگ جاتے اڑتے ہوئے پرند پاس سے گزرتے اور آپ توراۃ پڑھتے ہوتے تو آپ کے ساتھ ہی وہ بھی تلاوت میں مشغول ہو جاتے اور اڑنا بھول جاتے بلکہ ٹھہر جاتے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فتح مکہ والے دن ضحیٰ کے وقت حضرت ام ہانی کے گھر میں آٹھ رکعت نماز ادا کی۔ ابن عباس فرماتے ہیں میرا خیال ہے کہ یہ بھی وقت نماز ہے جیسے فرمان ہے یسبحن بالعشی والشراق۔ عبد اللہ بن حارث بنی نوفل کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ضحیٰ کی نماز نہیں پڑھتے تھے ایک دن میں انہیں حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کے ہاں لے گیا اور کہا کہ آپ ان سے وہ حدیث بیان کیجئے جو آپ نے مجھ سے بیان فرمائی تھی۔ تو مائی صاحبہ نے فرمایا فتح مکہ والے دن میرے گھر میں میرے پاس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم آئے۔ پھر ایک برتن میں پانی بھروایا اور ایک کپڑا تان کر نہانے بیٹھ گئے پھر گھر کے ایک کونے میں پانی چھڑک کر آٹھ رکعت صلوۃ ضحیٰ کی ادا کیں، ان کا قیام رکوع سجدہ اور جلوس سب قریب قریب برابر تھے حضرت ابن عباس جب یہ سن کر وہاں سے نکلے تو فرمانے لگے پورے قرآن کو میں نے پڑھ لیا میں نہیں جانتا کہ ضحیٰ کی نماز کیا ہے!  آج مجھے معلوم ہوا کہ والی آیت میں بھی اشراق سے مراد یہی ضحیٰ ہے۔ چنانچہ اس کے بعد انہوں نے اپنے اگلے قول سے رجوع کر لیا۔ جب حضرت داؤد اللہ کی پاکیزگی اور بزرگی بیان فرماتے تو پرندے بھی ہواؤں میں رک جاتے تھے اور حضرت داؤد کی ماتحتی میں ان کی تسبیح کا ساتھ دیتے تھے۔ اور اس کی سلطنت ہم نے مضبوط کر دی اور بادشاہوں کو جن جن چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے ہم نے اسے سب دے دیں۔ چار ہزار تو ان کی محافظ سپاہ تھی۔ اس قدر فوج تھی کہ ہر رات تینتیس ہزار فوجی پہرے پر چڑھتے تھے لیکن جو آج کی رات آتے پھر سال بھر تک ان کی باری نہ آتی۔ چالیس ہزار آدمی ہر وقت ان کی خدمت میں مسلح تیار رہتے۔ ایک روایت میں ہے کہ ان کے زمانے میں بنی اسرائیل کے دو آدمیوں میں ایک مقدمہ ہوا۔ ایک نے دوسرے پر دعویٰ کیا کہ اس نے میری گائے غصب کر لی ہے۔ دوسرے نے اس جرم سے انکار کیا حضرت داؤد علیہ السلام نے مدعی سے دلیل طلب کی وہ کوئی وگاہ پیش نہ کر سکا آپ نے فرمایا اچھا تمہیں کل فیصلہ سنایا جائے گا۔ رات کو حضرت داؤد کو خواب میں حکم ہوا کہ دعویدار کو قتل کر دو۔ صبح آپ نے دونوں بلوایا اور حکم دیا کہ اس مدعی کو قتل کر دیا جائے اس نے کہا اے اللہ کے نبی آپ میرے ہی قتل کا حکم دے رہے ہیں حالانکہ اس نے میری گائے چرالی ہے۔ آپ نے فرمایا یہ میرا حکم نہیں یہ اللہ کا فیصلہ ہے اور ناممکن ہے کہ یہ ٹل جائے تو تیار ہو جا۔ تب اس نے کہا اے اللہ کے رسول میں اپنے دعوے میں تو سچا ہوں اس نے میری گائے غصب کر لی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو میرے قتل کا حکم میرے اس مقدمے کی وجہ سے نہیں کیا۔ اس کی وجہ اور ہی ہے اور اسے صرف میں ہی جانتا ہوں۔ بات یہ ہے کہ آج میں نے اسے فریب سے قتل کر دیا ہے جس کا کسی کو علم نہیں۔ پس اس کے بدلے میں اللہ نے آپ کو قصاص کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ وہ قتل کر دیا گیا۔ اب تو حضرت داؤد کی ہیبت ہر شخص کے دل میں بیٹھ گئی ہم نے اسے حکمت دی تھی یعنی فہم و عقل ، زیرکی اور دانائی، عدل و فراست کتاب اللہ اور اس کی اتباع نبوت و رسالت وغیرہ اور جھگڑوں کا فیصلہ کرنے کا صحیح طریقہ۔ یعنی گواہ لینا قسم کھلوانا، مدعی کے ذمہ بار ثبوت ڈالنا مدعی علیہ سے قسم لینا۔ یہی طریقہ فیصلوں کا انبیاء کا اور نیک لوگوں کا رہا اور یہی طریقہ اس امت میں رائج ہے۔ غرض حضرت داؤد معاملے کی تہ کو پہنچ جاتے تھے اور حق و باطل سچ جھوٹ میں صحیح اور کھرے کا امتیاز کر لیتے تھے۔ کلام بھی آپ کا صاف ہوتا تھا اور حکم بھی دعل پر مبنی ہوتا تھا۔ آپ ہی نے اما بعد کا کہنا ایجاد کیا ہے اور فصل الخاطب سے اس کی طرف بھی اشارہ ہے۔

مفسرین نے یہاں پر ایک قصہ بیان کیا ہے لیکن اس کا اکثر حصہ بنو اسرائیل کی روایتوں سے لیا گیا ہے۔ حدیث سے ثابت نہیں۔ ابن ابی حاتم میں ایک حدیث ہے لیکن وہ بھی ثابت نہیں کیونکہ اس کا ایک راوی یزید رقاشی ہے گو وہ نہایت نیک شخص ہے لیکن ہے ضعیف۔ پس اولیٰ یہ ہے کہ قرآن میں جو ہے اور جس پر یہ شامل ہے وہ حق ہے۔ حضرت داؤد کا انہیں دیکھ کر گھبرانا اس وجہ سے تھا کہ وہ اپنے تنہائی کے خاص خلوت خانے میں تھے اور پہرہ داروں کو منع کیا تھا کہ کوئی بھی آج اندر نہ آئے اور یکایک ان دونوں کو جو دیکھا تو گھبرا گئے۔ عزنی الخ، سے مطلب بات چیت میں غالب آ جانا دوسرے پر چھا جانا ہے۔ حضرت داؤد سمجھ گئے کہ یہ اللہ کی آزمائش ہے پس وہ رکوع سجدہ کرتے ہوئے اللہ کی طرف جھک پڑے۔ مذکور ہے کہ چالیس دن تک سجدہ سے سر نہ اٹھایا پس ہم نے اسے بخش دیا۔ یہ یاد رہے کہ جو کام عوام کے لئے نیکیوں کے ہوتے ہیں وہی کام خواص کے لئے بعض مرتبہ بدیوں کے بن جاتے ہیں۔ یہ آیت سجدے کی ہے یا نہیں؟ اس کی بات امام شافعی کا جدید مذہب تو یہ ہے کہ یہاں سجدہ ضروری نہیں یہ تو سجدہ شکر ہے۔ ابن عباس کا قول ہے کہ ص ضروری سجدوں میں سے نہیں ہاں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس میں سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے (بخاری وغیرہ) نسائی میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے یہاں سجدہ کر کے فرمایا یہ سجدہ حضرت داؤد کا تو توبہ کے لئے تھا اور ہمارا شکر کے لئے ہے۔ ترمذی میں ہے کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں نے خواب میں دیکھ گویا میں ایک درخت کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہوں اور نماز میں میں نے سجدے کی آیت تلاوت کی اور سجدہ کیا تو میرے ساتھ اس درخت نے بھی سجدہ کیا اور میں نے سنا کہ وہ یہ دعا مانگ رہا تھا یعنی اے اللہ! میرے اس سجدے کو تو میرے لئے اپنے پاس اجر اور خزانے کا سبب بنا اور اس سے تو میرا بوجھ ہلکا کر دے اور اسے مجھ سے قبول فرما جیسے کہ تو نے اپنے بندے داؤد کے سجدے کو قبول فرمایا۔ ابن عباس فرماتے ہیں میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کھڑے ہو کر نماز ادا کی اور سجدے کی آیت کو پڑھ کر سجدہ کیا اور اس سجدے میں وہی دعا پڑھی جو اس سخص نے درخت کی دعا نقل کی تھی۔ ابن عباس اس آیت کے سجدے پر یہ دلیل وارد کرتے تھے کہ قرآن نے فرمایا ہے اس کی اولاد میں سے داؤد سلیمان ہیں جنہیں ہم نے ہدایت کی تھی پس تو اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم ان کی ہدایت کی پیروی کر پس حضور صلی اللہ علیہ و سلم ان کی اقتداء کے مامور تھے اور یہ صاف ثابت ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے سجدہ کیا اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی یہ سجدہ کیا۔ ابو سعید خدری کا بیان ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا گویا میں سورہ ص لکھ رہا ہوں جب آیت سجدہ تک پہنچا تو میں نے دیکھا کہ قلم اور دوات اور میرے آس پاس کی تمام چیزوں نے سجدہ کیا۔ انہوں نے اپنا یہ خواب حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کیا پھر آپ اس آیت کی تلاوت کے وقت برابر سجدہ کرتے رہے (احمد) ابو داؤد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے منبر پر سورہ ص پڑھی اور سجے کی آیت تک پہنچ کر منبر سے اتر کر آپ نے سجدہ تک پہنچے تو لوگوں نے سجدے کی تیاری کی آپ نے فرمایا یہ تو ایک نبی کی توبہ کا سجدہ تھا لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تم سجدہ کرنے کے لئے تیار ہو گئے ہو چنانچہ آپ اترے اور سجدہ کیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے اسے بخش دیا۔ قیامت کے دن اس کی بڑی منزلت اور قدر ہو گی نبیوں اور عادلوں کا درجہ وہ پائیں گے۔ حدیث میں ہے عادل لوگ نور کے ممبروں پر رحمٰن کے دائیں جانب ہوں گے۔ اللہ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں۔ یہ عادل وہ ہیں جو اپنی اہل و عیال میں اور جن کے وہ مالک ہوں عدل و انصاف کرتے ہیں۔ اور حدیث میں ہے سب سے زیادہ اللہ کے دوست اور سب سے زیادہ اس کے مقرب وہ بادشاہوں گے جو عدل ہوں اور سب سے زیادہ دشمن اور سب سے سخت عذاب والے وہ ہوں گے جو ظالم بادشاہ ہوں۔ (ترمذی وغیرہ) حضرت مالک بن دینار فرماتے ہیں قیامت کے دن حضرت داؤد علیہ السلام کو عرش کے پائے کے پاس کھڑا کیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ حکم دے گا کہ اے داؤد جس پیاری درد ناک میٹھی اور جاذب آواز سے تم میری تعریفیں دنیا میں کرتے تھے اب بھی کرو۔ آپ فرمائیں گے باری تعالیٰ اب وہ آواز کہاں رہی؟ اللہ فرمائے گا میں نے وہی آواز آج تمہیں پھر عطا فرمائی۔ اب حضرت داؤد علیہ السلام اپنی دلکش اور دلربا آواز نکال کر نہایت وجد کی حالت میں اللہ کی حمد و ثناء بیان کریں گے جسے سن کر جنتی اور نعمتوں کو بھی بھول جائیں گے اور یہ سریلی آواز اور نورانی گلا انہیں سب نعمتوں سے ہٹا کر اپنی طرف متوجہ کرے گا۔

 

۲۶

صاحب اختیار لوگوں کے لئے انصاف کا حکم

اس آیت میں بادشاہ اور ذی اختیار لوگوں کو حکم ہو رہا ہے کہ وہ دل و انصاف کے ساتھ قرآن و حدیث کے مطابق فیصلے کریں ورنہ اللہ کی راہ سے بھٹک جائیں گے اور جو بھٹک کر اپنے حساب کے دن کو بھول جائے وہ سخت عذابوں میں مبتلا ہو گا۔ حضرت ابوزرعہ رحمۃ اللہ علیہ سے بادشاہ وقت ولید بن عبد الملک نے ایک مرتبہ دریافت کیا کہ کیا خلیفہ وقت سے بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں حساب لیا جائے گا آپ نے فرمایا سچ بتا دوں خلیفہ نے کہا ضرور سچ ہی بتاؤ اور آپ کو ہر طرح امن ہے۔ فرمایا اے امیر المومنین اللہ کے نزدیک آپ سے بہت بڑا درجہ حضرت داؤد علیہ السلام کا تھا انہیں خلافت کے ساتھ ہی ساتھ اللہ تعالیٰ نے نبوت بھی دے رکھی تھی لیکن اس کے باوجود کتاب اللہ ان سے کہتے ہیں یاداو دانا الخ، عکرمہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ان کے لئے یوم الحساب کو سخت عذاب ہیں اس کے بھول جانے کے باعث سدی کہتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہیں اس وجہ سے کہ انہوں نے یوم الحساب کے لئے اعمال جمع نہیں کئے۔ آیت کے لفظوں سے اسی قول کو زیادہ مناسبت ہے واللہ تعالیٰ اعلم۔

 

۲۷

ارشاد ہے کہ مخلوق کی پیدائش عبث اور بیکار نہیں یہ سب عبادت خالق کے لئے پیدا کی گئی ہے پھر ایک وقت آنے والا ہے کہ ماننے والے کی سربلندی کی جائے اور نہ ماننے والوں کو سخت سزا دی جائے۔ کافروں کا خیال ہے کہ ہم نے انہیں یونہی پیدا کر دیا ہے؟ وار آخرت اور دوسری زندگی کوئی چیز نہیں یہ غلط ہے۔ ان کافروں کو قیامت کے دن بڑی خرابی ہو گی کیونکہ اس آگ میں انہیں جلنا پڑے گا جو ان کے لئے اللہ کے فرشتوں نے بڑھکا رکھی ہے۔ یہ ناممکن ہے اور ان ہوئی بات ہے کہ مومن و مفسد کو اور پرہیزگار اور بدکار کو ایک جیسا کر دیں۔ اگر قیامت آنے والی ہی نہ ہو تو تو یہ دونوں انجام کے لحاظ سے یکساں ہی رہے۔ حالانکہ یہ خلاف انصاف ہے قیامت ضرور آئے گی نیک کار جنت میں اور گنہگار جہنم میں جائیں گے۔ پس عقلی اقتضا بھی دار آخرت کے ثبوت کو ہی چاہتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ظالم پاپی اللہ کی درگاہ سے راندہ وا دنیا میں خوش وقت ہے مال اولاد فراغت تندرستی سب کچھ اس کے پاس ہے اور ایک مومن متقی پاک دامن ایک ایک پیسے سے تنگ ایک ایک راحت سے دور رہے تو حکمت علیم و حکیم و عادل کا اقتضاء یہ تھا کہ کؤی ایسا وقت بھی آئے کہ اس نمک حرام سے اس کی نمک حرامی کا بدلہ لیا جائے اور اس صابر و شاکر فرمانبردار کی نیکیوں کا اسے بدلہ دیا جائے اور یہی دار آخرت میں ہونا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ اس جہان کے بعد ایک جہاں یقیناً ہے۔ چونکہ یہ پاک تعلیم قرآن سے ہی حاصل ہوئی ہے اور اس نیکی کا رہبر یہی ہے اسی لئے اس کے بعد ہی فرمایا کہ یہ مبارک کتاب ہم نے تیری طرف نازل فرمائی ہے تاکہ لوگ اسے سمجھیں اور ذی عقل لوگ اس سے نصیحت حاصل کر سکیں۔ حضرت حسن بصری فرماتے ہیں جس نے قرآن کے الفاظ حفظ کر لئے اور قرآن پر عمل نہیں کیا اس نے قرآن میں تدبر و غور بھی نہیں کیا لوگ کہتے ہیں ہم نے پورا قرآن پڑھ لیا لیکن قرآن کی ایک نصیحت یا قرآن کے ایک حکم کا نمونہ میں نظر نہیں آتا ایسا نہ چاہئے۔ اصل غور و خوض اور نصیحت و عبرت عمل ہے۔

 

۳۰

حضرت سلیمان حضرت داؤد کے وارث

اللہ تعالیٰ نے جوا یک بڑی نعمت حضرت داؤد علیہ اسلام کو عطا فرمائی تھی اس کا ذکر فرما رہا ہے کہ ان کی نبوت کا وارث ان کے لڑکے حضرت سلیمان علیہ اسلام کو کر دیا۔ اسی لئے صرف حضرت سلیمان کا ذکر کیا ورنہ ان کے اور بچے بھی تے۔ ایک سو عورتیں آپ کی لونڈیوں کے علاوہ تھیں۔ چنانچہ اور آیت میں ہے وارث سلیمان داؤد یعنی حضرت داؤد کے وارث حضرت سلیمان ہوئے یعنی نبوت آپ کے بعد انہیں ملی۔ یہ بھی بڑے اچھے بندے تھے یعنی خوب عبادت گزار تھے اور اللہ کی طرف جھکنے والے تھے۔ مکحول کہتے ہیں کہ جناب داؤد نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مرتبہ آپ سے چند سوالات کئے اور ان کے معقول جوابات پا کر فرمایا کہ آپ نبی اللہ ہیں۔ پچھا کہ سب سے اچھی چیز کیا ہے؟ جواب دیا کہ اللہ کی طرف سکنیت اور ایمان پوچھا کہ سب سے زیادہ میٹھی چیز کیا ہے؟ جواب ملا اللہ کی رحمت پوچھا سب سے زیادہ ٹھنڈک والی چیز کیا ہے؟ جواب دیا اللہ کا لوگوں سے درگزر کرنا اور لوگوں کا آپس میں ایک دوسرے کو معاف کر دینا (ابن ابی حاتم) حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے ان کی بادشاہت کے زمانے میں ان کے گھوڑے پیش کئے گئے۔ یہ بہت تیز رفتار تھے جو تین ٹانگوں پر کھڑے رہتے تھے اور ایک پیر یونہی سا زمین پر ٹکتا تھا۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ پردار گھوڑے تھے تعداد میں بیس تھے۔ ابراہیم تمیمی نے گھوڑوں کی تعداد بیس ہزار بتلائی ہے۔ واللہ اعلم ابو داؤد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم تبوک یا خیبر کے سفر سے واپس آئے تھے گھر میں تشریف فرما تھے جو تیز ہوا کے جھونکے سے گھر کے کون کا پردہ ہٹ گیا وہاں حضرت عائشہ کی کھیلنے کی گڑیاں رکھی ہوئی تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر بھی پڑ گئی۔ دریافت کیا یہ کیا ہے؟ حضرت عائشہ نے جواب دیا میری گڑیاں ہیں آپ نے دیکھا کہ بیچ میں ایک گھوڑا سا بنا ہوا ہے جس کے دو پر بھی کپڑے کے لگے ہوئے ہیں۔ پوچھا یہ کیا ہے؟ کہا گھوڑا ہے فرمایا اور یہ اس کے اوپر دونوں طرف کپڑے کے کیا بنے ہوئے ہیں؟ کہا یہ دونوں اس کے پر ہیں۔ فرمایا اچھا گھوڑا اور اس کے پر بھی؟ صدیقہ نے عرض کیا کیا آپ نے نہیں سنا کہ حضرت سلیمان کے پردار گھوڑے تھے، یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم ہنس دیئے یہاں تک کہ آپ کے آخری دانت دکھائی دینے لگے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام ان کے دیکھنے بھالنے میں اس قدر مشغول ہو گئے کہ عصر کی نماز کا خیال ہی نہ رہا بالکل بھول گئے۔ جیسے کہ حضور علیہ السلام جنگ خندق والے دن لڑائی کی مشغولیت کی وجہ سے عصر کی نماز نہ پڑھ سکے تھے اور مغرب کے بعد ادا کی۔ چنانچہ بخاری و مسلم میں ہے کہ سورج ڈوبنے کے بد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کفار قریش کو برا کہتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے اور کہنے لگے حضور صلی اللہ علیہ و سلم میں تو عصر کی نماز بھی نہ پڑھ سکا۔ آپ نے فرمایا میں بھی اب تک ادا نہیں کر سکا۔ چنانچہ ہم بطحان میں گئے واں وضو کیا اور سورج کے غروب ہونے کے بعد عصر کی نماز ادا کی اور پھر مغرب پڑھی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دین سلیمان میں جنگی صالح کی وجہ سے تاخیر نماز جائز ہو اور یہ جنگی گھوڑے تھے جنہیں اسی مقصد سے رکھا تھا۔ چنانچہ بعض علماء نے یہ کہا بھی ہے کہ صلوۃ خوف کے جاری ہونے سے پہلے یہی حال تھا۔ بعض کہتے ہیں جب تلواریں تنی ہوئی ہوں لشکر بھڑ گئے ہوں اور نماز کے لئے رکوع سجود کا امکان ہی نہ ہو تب یہ حکم ہے جیسے صحابہ رضی اللہ نہم نے تیستر کی فتح کے بعد موقعہ پر کیا تھا لیکن ہمارا پہلا قول ہی ٹھیک ہے اس لئے کہ اس کے بعد ہی حضرت سلیمان کا ان گھوڑوں کو دوبارہ طلب کرنا وغیرہ بیان ہوا ہے۔ انہیں واپس منگوا کر ان کے کاٹ ڈالنے کا حکم دیا اور فرمایا میرے رب کی عبادت سے مجھے اس چیز نے غافل کر دیا میں ایسی چیز ہی نہیں رکھنے کا۔ چنانچہ ان کی کوچیں کاٹ دی گئیں اور ان کی گردنیں ماری گئیں۔ لیکن حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ آپ نے گھوڑوں کے پیشانی کے بالوں وغیرہ پر ہاتھ پھیرا۔ امام ابن جریر بھی اسی قول کو اختیار کرتے ہیں کہ بلا وجہ جانوروں کو ایذا پہنچانی ممنوع ہے ان جانوروں کا کوئی قصور نہ تھا جو انہیں کٹوا دیتے لیکن میں کہتا ہوں کہ ممکن ہے یہ بات ان کی شرع میں جائز ہو خصوصاً ایسے قوت جبکہ وہ یاد اللہ میں حارج ہوئے اور وقت نماز نکل گیا تو دراصل یہ غصہ بھی اللہ کے لئے تھا۔ چنانچہ ا سی وجہ سے ان گھوڑوں سے بھی تیز اور ہلکی چیز اللہ نے اپنے نبی کو عطا فرمائی یعنی ہوا ان کے تابع کر دی۔ حضرت ابو قتادہ اور حضرت ابودھما اکثر حج کیا کرتے تھے ان کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ ایک گاؤں میں ہماری ایک بدوی سے ملاقات ہوئی اس نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے میرا ہاتھ تھام کر مجھے بہت کچھ دینی تعلیم دی اس میں یہ بھی فرمایا کہ اللہ سے ڈر کر تو جس چیز کو چھوڑے گا اللہ تجھے اس سے بہتر عطا فرمائیگا۔

 

۳۴

سلیمان علیہ السلام کا تفصیلی تذکرہ

ہم نے حضرت سلیمان کا امتحان لیا اور ان کی کرسی پر ایک جسم ڈال دیا، یعنی شیطان پھر وہ اپنے تخت و تاج کی طرف لوٹ آئے اس شیطان کا نام صخر تھا یا آصف تھا یا صرو تھا یا حقیق تھا۔ یہ واقعہ اکثر مفسرین نے ذکر کیا ہے کسی نے تفصیل کے ساتھ، کسی نے اختصار کے ساتھ۔ حضرت قتادہ اس واقعہ کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ حضرت سلیمان کو بیت المقدس کی تعمیر کا اس طرح حکم ہوا کہ لوہے کی آواز بھی نہ سنی جائے۔ آپ نے ہر چند تدبیریں کیں، لیکن کارگر نہ ہوئیں۔ پھر آپ نے سنا کہ سمندر میں ایک شیطان ہے جس کا نام صخر ہے وہ البتہ ایسی ترکیب بتا سکتا ہے آپ نے حکم دیا کہ اسے کسی طرح لاؤ۔ ایک دریا سمندر میں ملتا تھا ہر ساتویں دن اس میں لبالب پانی آ جاتا تھا اور یہی پانی یہ شیطان پیتا تھا۔ اس کا پانی نکال دیا گیا اور بالکل خالی کر کے پانی کو بند کر کے اس کے آنے والے دن اسے شراب سے پر کر دیا گیا جب شیطان آیا اور یہ حال دیکھا تو کہنے لگا یہ تو مزے کی چیز ہے لیکن عقل کی دشمن جہالت کو ترقی دینے والی چیز ہے۔ چنانچہ وہ پیاسا ہی چلا گیا۔ جب پیاس کی شدت ہوئی تو مجبوراً یہ سب کچھ کہتے ہوئے پینا ہی پڑا۔ اب عقل جاتی رہی اور اسے حضرت سلیمان کی انگوٹھی دکھائی گئی یا مونڈھوں کے درمیان سے مہر لگا دی گئی۔ یہ بے بس ہو گیا حضرت سلیمان کی حکومت اسی انگوٹھی کی وجہ سے تھی۔ جب یہ حضرت سلیمان کے پاس پہنچا تو آپ نے اسے یہ کام سر انجام دینے کا حکم دیا یہ ہدہد کے انڈے لے آیا اور انہیں جمع کر کے ان پر شیشہ رکھ دیا۔ ہدہد آیا اس نے اپنے انڈے دیکھے چاروں طرف گھوما لیکن دیکھا کہ ہاتھ نہیں آسکتے اڑ کر واپس چلا گیا اور الماس لے آیا اور اسے اس شیشے پر رکھ کر شیشے کو کاٹنا شروع کر دیا آخر وہ کٹ گیا اور ہدہد اپنے انڈے لے گیا اور اس الماس کو بھی لے لیا گیا اور اسی سے پتھر کاٹ کاٹ کر عمارت شروع ہوئی حضرت سلیمان علیہ السلام جب بیت الخلا میں یا حمام میں جاتے تو انگوٹھی اتار جاتے ایک دن حمام میں جانا تھا اور یہ شیطان آپ کے ساتھ تھا آپ اس وقت فرضی غسل کے لئے جا رہے تھے انگوٹھی اسی کو سونپ دی اور چلے گئے اس نے انگوٹھی سمندر میں پھینک دی اور شیطان پر حضرت سلیمان کی شکل ڈال دی گئی اور آپ سے تخت و تاج چھن یا۔ سب چیزوں پر شیطان نے قبضہ کر لیا سوائے آپ کی بیویوں کے۔ اب اس سے بہت سی غیر معروف باتیں ظہور میں آنے لگیں اس زمانہ میں ایک صاحب تھے جو ایسے ہی تھے جیسے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں حضرت فاروق رضی اللہ عنہ۔ اس نے کہا آزمائش کرنی چاہئے مجھے تو یہ شخص سلیمان معلوم نہیں ہوتا۔ چنانچہ ایک روز اس نے کہا کیوں جناب اگر کوئی شخص رات کو جنبی ہو جائے اور موسم ذرا ٹھنڈا ہو اور وہ سورج طلوع ہونے تک غسل نہ کرے تو کوئی حرج تو نہیں؟ اس نے کہا ہرگز نہیں۔ چالیس دن تک یہ تخت سلیمان پر رہا پھر آپ کی مچھلی کے پیٹ سے انگوٹھی مل گئی ہاتھ میں ڈالتے ہی پھر تمام چیزیں آپ کی مطیع ہو گئیں۔ اسی کا بیان اس آیت میں ہے۔ سدی فرماتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی ایک سو بیویاں تھیں آپ کو سب سے زیادہ اعتبار ان میں سے ایک بیوی پر تھا جن کا نام جراوہ تھا۔ جب جنبی ہونے یا پاخانے جاتے تو اپنی انگوٹھی انہی کو سونپ جاتے۔ ایک مرتبہ آپ پاخانے گئے پیچھے سے ایک شیطان آپ ہی کی صورت میں بنا کر آیا اور بیوی صاحبہ سے انگوٹھی طلب کی آپ نے دے دی یہ آتے ہی تخت پر بیٹھ گیا جب حضرت سلیمان آئے اور انگوٹھی طلب کی تو بیوی صاحبہ نے فرمایا آپ انگوٹھی تو لے گئے۔ آپ سمجھ گئے کہ یہ اللہ کی آزمائش ہے نہایت پریشان حالی سے محل سے نکل گئے اس شیطان نے چالیس دن تک حکومت کی لیکن احکام کی تبدیلی کو دیکھ کر علماء نے سمجھ لیا کہ یہ سلیمان نہیں۔ چنانچہ ان کی جماعت آپ کی بیویوں کے پاس آئی اور ان سے کہا یہ کیا معاملہ ہے ہمیں سلیمان کی ذات میں شک پڑ گیا۔ اگر یہ سچ مچ سلیمان ہے تو اس کی عقل جاتی رہی ہے یا یہ کہ یہ سلیمان ہی نہیں۔ ورنہ ایسے خلاف شرع احکام نہ دیتا۔ عورتیں یہ سن کر رونے لگیں۔ یہ یہاں سے واپس آ گئے اور تخت کے اردگرد اسے گھیر کر بیٹھ گئے اور تورات کھول کر اس کی تلاوت شروع کر دی۔ یہ خبیث شیطان کلام اللہ سے بھاگا اور انگوٹھی سمندر میں پھینک دی جسے ایک مچھلی نگل گئی۔ حضرت سلیمان یونہی اپنے دن گزارتے تھے ایک مرتبہ سمندر کے کنارے نکل گئے بھوک بہت لگی ہوئی تھی ماہی گیروں کو مچھلیاں پکڑتے ہوئے دیکھ کر ان کے پاس آ کر ان سے ایک مچھلی مانگی اور اپنا نام بھی بتایا، اس پر بعض لوگوں کو بڑا طیش آیا کہ دیکھو بھیک منگا اپنے تئیں سلیمان بتاتا ہے انہوں نے آپ کو مارنا پیٹنا شروع کیا آپ زخمی ہو کر کنارے جا کر اپنے زخم کا خون دھونے لگے۔ بعض ماہی گیروں کو رحم آ گیا کہ ایک سائل کو خواہ مخواہ مارا۔ جاؤ بھئی اسے دو مچھلیاں دے آؤ بھوکا ہے بھون کھائے گا۔ چنانچہ و مچھلیاں آپ کو دے آئے بھوک کی وجہ سے آپ اپنے زخم کو اور خون کو تو بھول گئے اور جلدی سے مچھلی کا پیٹ چاک کرنے بیٹھ گئے۔ قدرت اللہ سے اس کے پیٹ سے وہ انگوٹھی نکلی آپ نے اللہ کی تعریف بیان کی اور انگوٹھی انگلی میں ڈال اس وقت پرندوں نے آ کر آپ پر سایہ کر لیا اور لوگوں نے آپ کو پہچان لیا اور آپ سے معذرت کرنے لگے آپ نے فرمایا یہ سب امر اللہ تھا اللہ کی طرف سے ایک امتحان تھا۔ آپ آئے اپنے تخت پر بیٹھ گئے اور حکم دیا کہ اس شیطان کو جہاں بھی وہ ہو گرفتار کر لاؤ چنانچہ اسے قید کر لیا گیا آپ نے اسے ایک لوہے کے صندوق میں بند کیا اور قفل لگا کر اس پر اپنی مہر لگا دی اور سمندر میں پھنکوا دیا جو قیامت تک وہیں قید رہے گا۔ اس کا نام حقیق تھا۔ آپ کی یہ دعا کہ مجھے ایسا ملک عطا فرمایا جائے جو میرے بعد کسی کے لائق نہ ہو یہ بھی پوری ہوئی اور آپ کے تابع ہوائیں کر دی گئیں۔ مجاہد سے مروی ہے کہ ایک شیطان سے جس کا نام آصف تھا ایک مرتبہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے پوچھا کہ تم لوگوں کو کس طرح فتنے میں ڈالتے ہو؟ اس نے کہا ذرا مجھے انگوٹھی دکھاؤ میں ابھی آپ کو دکھا دیتا ہوں آپ نے انگوٹھی دے دی اس نے اسے سمندر میں پھینک دیا تخت و تاج کا مالک بن بیٹھا اور آپ کے لباس میں لوگوں کو راہ اللہ سے ہٹانے لگا۔ “یاد رہے کہ یہ سب واقعات بنی اسرائیل کے بیان کردہ ہیں” اور ان سب سے زیادہ منکر واقعہ وہ ہے۔ جو ابن ابی حاتم میں ہے جس کا اوپر بیان ہوا۔ جس میں آپ کی بیوی صاحبہ حضرت جراوہ کا ذکر ہے۔ اس میں یہ بھی ہے کہ آخر نبوت یہاں تک پہنچی تھی کہ لڑکے آپ کو پتھر مارتے تھے۔ آپ کی بیویوں سے جب علماء نے معاملہ کی تفتیش کی تو انہوں نے کہا کہ ہاں ہمیں بھی اس کے سلیمان ہونے سے انکار ہے کیونکہ وہ حالت حیض میں ہمارے پاس آتا ہے۔ شیطان کو جب یہ معلوم ہو گیا کہ راز کھل گیا ہے تو اس نے جادو اور کفر کی کتابیں لکھوا کر کرسی تلے دفن کر دیا اور پھر لوگوں کے سامنے انہیں نکلوا کر ان سے کہا دیکھو ان کتابوں کی بدولت سلیمان تم پر حکومت کر رہا تھا چنانچہ لوگوں نے آپ کو کافر کہنا شروع کر دیا۔ حضرت سلیمان سمندر کے کنارے مزدوری کرتے تھے ایک مرتبہ ایک شخص نے بہت سی مچھلیاں خریدیں مزدور کو بلایا آپ پہنچے اس نے کہا یہ اٹھالو کنارے مزدوری کرتے تھے ایک مرتبہ ایک شخص نے بہت سی مچھلیاں خریدیں مزدور کو بلایا آپ پہنچے اس نے کہا یہ اٹھا لو پوچھا مزدوری کیا دو گے؟ اس نے کہا اس میں سے ایک مچھلی تمہیں دے دوں گا آپ نے ٹوکرا سر پر رکھا اس کے ہاں پہنچایا اس نے ایک مچھلی دے دی آپ نے اس کا پیٹ چاک کیا پیٹ چاک کرتے ہی وہ انگوٹھی نکل پڑی پہنتے ہی کل شیاطین جن انسان پھر تابع ہو گئے اور جھرمٹ باندھ کر حاضر ہو گئے آپ نے ملک پر قبضہ کیا اور اس شیطان کو سخت سزا دی۔ پس ثم اناب سے مراد شیطان جو مسلط کیا گیا تھا اس کا لوٹنا ہے۔ اس کی اسناد حضرت ابن عباس تک ہے تو قوی لیکن یہ ظاہر ہے کہ اسے حضرت ابن عباس نے اہل کتاب سے لیا ہے، یہ بھی اس وقت جبکہ اسے ابن عباس کا قول مان لیں۔ اہل کتاب کی ایک جماعت حضرت سلیمان کو نہیں نہیں مانتی تھی تو عجب نہیں کہ یہ بیہودہ قصہ اسی خبیث جماعت کا گھڑا ہوا ہو۔ اس میں تو وہ چیزیں بھی ہیں جو بالکل ہی منکر ہیں خصوصاً اس شیطان کا آپ کی عورتوں کے پاس جانا اور آئمہ نے بھی ایسے ہی قصے بیان تو کئے ہیں لیکن اس بات کا سب نے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ جن ان کے پاس نہیں جا سکا اور نبی کے گھرانے کی عورتوں کی عصمت و شرافت کا تقاضا بھی یہی ہے اور بھی بہت سے لوگوں نے ان واقعات کو بہت تفصیل سے بیان کیا ہے لیکن سب کی اصل یہی ہے کہ وہ بنی اسرائیل اور اہل کتاب سے لئے گئے ہیں۔ واللہ اعلم۔ شیبانی فرماتے ہیں آپ نے اپنی انگوٹھی عسقلان میں پائی تھی اور بیت المقدس تک تواضعاً آپ پیدل چلے تھے۔ امام ابن بی حاتم نے صفت سلیمان میں حضرت کعب احبار سے ایک عجیب خبر روایت کی ہے۔ ابو اسحاق مصری کہتے ہیں کہ جب ارم ذات العماد کے قصی سے حضرت کعب نے فراغت حاصل کی تو حضرت معاویہ نے کہا ابو اسحاق آپ حضرت سلیمان کی کرسی کا ذکر بھی کیجئے فرمایا کہ وہ ہاتھی دانت کی تھی اور یاقوت زبر جد اور لولو سے مرصع تھی اور اس کے چاروں طرف سونے کے کھجور کے درخت بنے ہوئے تھے جن کے خوشے بھی موتیوں کے تھے ان میں سے جو دائیں جانب تھے ان کے سرے پر سونے کے مور تھے اور بائیں طرف والوں پر سونے کے گدھ تھے۔ اس کرسی کے پہلے درجے پر دائیں جانب سونے کے دو درخت صنوبر کے تھے اور بائیں جانب سونے کے دو شیر بن ہوئے تھے۔ ان کے سروں پر زبر جد کے دوستون تھے اور کرسی کے دونوں جانب انگور کی سنہری بیلیں تھیں جو کرسی کو ڈھانپے ہوئے تھیں اس کے خوشے بھی سرخ موتی کے تھے پھر کرسی کے اعلیٰ درجے پر دو شیر بہت بڑے سونے کے بنے ہوئے تھے جن کے اندر خول تھا ان میں مشک و عنبر بھرا رہتا تھا۔ جب حضرت سلیمان کرسی پر آتے تو یہ شیر حرکت کرتے اور ان کے گھومنے سے ان یک اندر سے مشک و عنبر چاروں طرف چھڑک دیا جاتا پھر دو منبر سونے کے بچھا دئے جاتے۔ ایک آپ کے وزیر کا اور ایک اس وقت کے سب سے بڑے عالم کا۔ پھر کرسی کے سامنے ستر منبر سونے کے اور بچھائے جاتے جن پر بنو اسرائیل کے قاضی ان کے علماء اور ان کے سردار بیٹھتے۔ ان کے پیچھے پینتیس منبر سونے کے اور ہوتے تھے جو خالی رہا کرتے تھے۔ حضرت سلیمان جب تشریف لاتے پہلے زینے پر قدم رکھتے ہی کرسی ان تمام چیزوں سمیت گھوم جاتی شیر اپن داہنا قدم آگے بڑھا دیتا اور گدھ اپنا بایاں پر پھیلا دیتا۔ جب دوسرے درجے پر قدم رکھتے تو شیر اپنا بایاں پاؤں پھیلا دیتا اور گدھ اپنا دایاں پر جب آپ تیسرے درجے پر چڑھ جاتے اور کرسی پر بیٹھ جاتے تو ایک با گدھ آپ کا تاج لے کر آپ کے سر پر رکھت ا پھر کرسی زور زور سے گھومتی۔ حضرت معاوضہ نے پوچھا آخر اس کی کیا وجہ؟ فرمایا وہ ایک سونے کی لاٹ پر تھی جسے صخر جن نے بنایا تھا۔ اس کے گھومتے ہی نیچے والے مور گدھ وغیرہ سب اوپر آ جاتے اور سر جھکاتے پر پھڑ پھڑاتے جس سے آپ کے جسم پر مشک و عنبر کا چھڑکاؤ ہو جاتا پھر ایک سونے کا کبوتر تورات اٹھا کر آپ کے ہاتھ میں دیتا جسے آپ تلاوت فرماتے۔ لیکن یہ روایت بالکل غریب ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی دعا کا مطلب یہ ہے کہ مجھے ایسا ملک دے کہ مجھ سے کوئی اور چھین نہ سکے جیسے کہ اس جسم کا واقعہ ہوا جو آپ کی کرسی پر ڈال دیا گیا تھا۔ یہ مطلب نہیں کہ آپ دوسروں کے لئے ایسے ملک کے نہ ملنے کی دعا کرتے ہوں۔ لیکن جن بعض لوگوں نے یہ معنی لئے ہیں وہ کچھ ٹھیک نظر نہیں آتے، بلکہ صحیح مطلب یہی ہے کہ آپ کی دعا کا یہی مطلب تھا کہ مجھے ایسا ملک اور سلطنت دی جائے کہ میرے بعد پھر کسی اور شخص کو ایسی سلطنت نہ ملے۔ یہی آیت کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے اور یہی احادیث سے بھی ثابت ہوتا ہے۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مرتبہ فرمایا ایک سرکش جن میں گزشتہ شب مجھ پر زیادتی کی اور میری نماز بگاڑ دینا چاہی لیکن اللہ نے مجھے اس پر قابو دے دیا اور میں نے چاہا کہ اسے مسجد کے اس ستون سے باندھ دوں تاہ صبح تم سب اسے دیکھو لیکن اسی وقت مجھے میری بھائی حضرت سلیمان علیہ الصلوٰۃ و السلام کی دعا یاد آ گئی۔ راوی حدیث حضرت روح فرماتے ہیں پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے ذلیل و خوار کر کے چھوڑ دیا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نماز میں کھڑے ہوئے تو ہم نے سنا کہ آپ نے فرمایا اعوذ باللہ منک پھر آپ نے تین بار فرمایا العنک بلعنۃ اللہ پھر آپ نے اپنا ہاتھ اس طرح بڑھایا کہ گویا آپ کسی چیز کو لینا چاہتے ہیں۔ جب فارغ ہوئے تو ہم نے آپ سے ان دونوں باتوں کی وجہ پوچھی آپ نے فرمایا اللہ کا دشمن ابلیس آگ لے کر میرے منہ میں ڈالنے کے لئے آیا تو میں نے تین مرتبہ اعوذ پڑھی پھر تین مرتبہ اس پر لعنت بھیجی لیکن وہ پھر بھی نہ ہٹا پھر میں نے چاہا کہ اسے پکڑ کر باندھ دوں تاکہ مدینے کے لڑکے اس سے کھیلیں اگر ہمارے بھائی حضرت سلیمان کی دعا نہ ہوتی تو میں یہی کرتا۔ حضرت عطا بن یزید لیشی نماز پڑھ رہے تھے جو ابوعبید نے ان کے سامنے سے گزرنا چاہا انہوں نے انہیں اپنے ہاتھ سے روک دیا پھر فرمایا مجھ سے حضرت ابوسعید خدری نے حدیث بیان کی کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم صبح کی نماز پڑھا رہے تھے یہ بھی آپ کے پیچھے تھے قرأت آپ پر خلط ملط ہو گئی فارغ ہو کر فرمایا کاش تم دیکھتے کہ میں نے ابلیس کو پکڑ لیا تھا اور اس قدر اس کا گلا گھونٹا کہ اس یک منہ کے جھاگ میری شہادت کی اور بیج کی انگلی پر پڑی اگر میرے بھائی حضرت سلیمان کی دعا نہ ہوتی تو وہ صبح ہوتے اس مسجد کے ستون سے بندھا ہوا ہوتا اور مدینہ کے بچے اسے ستاتے تم سے جہاں تک ہو سکے اس بات کا خیال رکھو کہ نماز کی حالت میں تمھارے سامنے سے کوئی گزرنے نہ پائے (مسند احمد) مسند کی اور حدیث میں ہے ربیعہ بن یزید عبد اللہ ویلمی کہتے ہیں میں حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس طائف کے ایک باغ میں گیا جس کا ام ربط تھا آپ اس وقت ایک قریشی کا محاصرہ کئے ہوئے تھے جو زانی اور شرابی تھا۔ میں نے ان سے کہا مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ یہ حدیث بیان فرماتے ہیں کہ جو ایک گھونٹ شراب پئے گا اللہ تعالیٰ چالیس دن تک اس کی توبہ قبول نہ فرمائے گا اور برا آدمی وہ ہے جو ماں کے پیٹ میں ہی برا ہو گیا ہے جو شخص صرف نماز ہی کی نیت سے بیت المقدس کی مسجد میں جائے تو وہ گناہوں سے ایسا پاک ہو جاتا ہے جیسے آج ہی پیدا ہوا۔ وہ شرابی جسے حضرت عبد اللہ پکڑے ہوئے تھے وہ شراب کا ذکر سنتے ہی جھٹکا دے کر اپنا ہاتھ چھڑا کر بھاگ گیا۔ اب حضرت عبد اللہ نے فرمایا کسی کو حلال نہیں کہ میرے ذمے وہ بات کرے جو میں نے نہ کی۔ میں نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے یوں سنا ہے جو شخص شراب کا ایک گھونٹ بھی پی لے اس کی چالیس دن کی نماز نا مقبول ہے۔ اگر وہ توبہ کرے تو اللہ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔ پھر اگر دوبارہ لوٹے تو پھر چالیس دن تک کی نمازیں نا مقبول ہیں پھر اگر توبہ کر لے تو توبہ مقبول ہے مجھے اچھی طرح یاد نہیں کہ تیسری یا چوتھی مرتبہ میں فرمایا کہ پھر اگر لوٹے گا تو یقیناً اللہ تعالیٰ اسے جہنمیوں کے بدن کا خون، پیپ، پیشاب وغیرہ قیامت کے دن پلائے گا اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے میں نے سنا ہے کہ اللہ عز و جل نے اپنی مخلوق کو اندھیرے میں پیدا کیا پھر ان پر اپنا نور ڈالا جس پر وہ نور اس دن پڑ گیا وہ تو ہدایت والا ہو گیا اور جس تک وہ نور نہ پہنچا وہ بھٹک گیا۔ اسی لئے میں کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ عز و جل کے علم کے مطابق قلم چل چکا اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے تین دعائیں کی جن میں سے دو تو انہیں مل گئیں اور ہمیں امید ہے کہ تیسری ہمارے لئے ہو (۱) مجھے ایسا حکم دے جو تیرے حکم کے موافق ہو (۲) مجھے ایسا ملک دے جو میرے بعد کسی کے لئے لائق نہ ہو۔ تیسری دعا یہ تھی کہ جو شخص اپنے گھر سے اس مسجد کی نماز کے ارادے ہی سے نکلے تو جب وہ لوٹے تو ایسا ہو جائے گویا آج پیدا ہوا پس ہمیں اللہ سے امید ہے کہ یہ ہمارے لئے اللہ نے دی ہو۔ طبرانی میں ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں اللہ عز و جل نے حضرت داؤد علیہ السلام کو اپنے لئے ایک گھر بنانے کا حکم دیا حضرت داؤد نے پہلے اپنا گھر بنا لیا اس پر وحی آئی کہ تم نے اپنا گھر میرے گھر سے پہلے بنایا آپ نے عرض کیا پروردگار یہی فیصلہ کیا گیا تھا پھر مسجد بنانی شروع کی دیواریں پوری ہو گئیں تو اتفاقاً تہائی حصہ گر گیا آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی جواب ملا کہ تو میرا گھر نہیں بنا سکتا۔ پوچھا کیوں؟ فرمایا اس لئے کہ تیرے ہاتھوں سے خون بہا ہے۔ عرض کیا اللہ تعالیٰ وہ بھی تیری ہی محبت میں فرمایا ہاں لیکن وہ میرے بندے تھے میں ان پر رحم کرتا ہوں۔ آپ کو یہ کلام سن کر سخت پریشانی ہوئی۔ پھر وحی آئی کہ غمگین نہ ہو میں اسے تیرے لڑکے سلیمان کے ہاتھوں پورا کراؤں گا۔ چنانچہ آپ کے انتقال کے بعد حضرت سلیمان نے اسے بنانا شروع کیا جب پورا کر چکے تو بڑی بڑی قربانیاں کیں اور ذبیحہ ذبح کئے اور بنو اسرائیل کو جمع کر کے خوب کھلایا پلایا اللہ کی وحی آئی کہ تو نے یہ سب کچھ میرے حکم کی تعمیل کی خوشی میں کیا ہے تو مجھ سے مانگ جو مانگے گا پائے گا۔ عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ میرے تین سوال ہیں مجھے ایسا فیصلہ سمجھا جو تیرے فیصلے کے مطابق ہو اور ایسا ملک دے جو میرے بعد کسی کے لائق نہ ہو اور جو اس گھر میں آئے صرف نماز کے ارادے سے تو وہ اپنے گناہوں سیایسا آزاد ہو جائے جیسے آج پیدا ہوا۔ ان میں سے دو چیزیں تو اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرما دیں اور مھے امید ہے کہ تیسری بھی دے دی گئی ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی ہر دعا کو ان لفظوں سے شروع فرماتے (ترجمہ) (مستند احمد) اور روایت میں ہے کہ حضرت داؤد کے انتقال کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان سے فرمایا مجھ سے اپنی حاجت طلب کرو آپ نے عرض کیا اللہ تعالیٰ مجھے ایسا دل دے جو تجھ سے ڈرتا رہے جیسے کہ میرے والد کا دل تجھ سے خوف کیا کرتا تھا اور میرے دل میں اپنی محبت ڈال دے جیسے کہ میرے والد کے دل میں تیری محبت تھی اس پر اللہ تعالیٰ بہت خوش ہوا کہ میرا بندہ میری عین عطا کے وقت بھی مجھ سے میرا ڈر اور میری محبت طلب کرتا ہے مجھے اپنی قسم میں اسے اتنی بڑی سلطنت دوں گا جو اس کے بعد کسی کو نہ ملے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی ماتحتی میں ہوائیں کر دیں اور جنات کو بھی ان کا ماتحت بنا دیا اور اسی قدر ملک و مال پر بھی انہیں حساب قیامت سے آزاد کر دیا۔ ابن عساکر میں ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے دعا کی کہ باری تعالیٰ سلیمان کے ساتھ بھی اسی لطف و کرم سے پیش آج لطف و کرم تیر مجھ پر رہا تو وحی آئی کہ سلیمان سے کہہ دو وہ بھی اسی طرح میرا رہے جس طرح تو میرا تھا، تو میں بھی اس کے ساتھ ہو خوبصورت پیارے وفادار تیز رو گھوڑوں کو کاٹ ڈالا تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں ان کے عوض ان سے بہتر عطا فرمائی۔ یعنی ہوا کو ان کے تابع فرمان کر دیا جو مہینے بھر کی راہ کو صبح کی ایک گھڑی میں طے کر دیتی تھی اور اسی طرح شام کو جہاں کا ارادہ کرتے ذرا سی دیر میں پنچا دتی۔ جنات کو بھی حضرت سلیمان علیہ السلام کے تابع کر دیا میں سے بعض بڑی اونچی لمبی سنگین پختہ عمارت کے بنانے کے کام سر انجام دیتے جو انسانی طاقت سے باہر تھا اور بعض غوطہ خور تھے جو سمندر کی تہ میں سے لو لو جواہر اور دیگر قسم قسم کی نفیس و نادر چیزیں لا دیتے تھے۔ پھر اور کچھ تھے جو بھاری بھاری بیڑیوں میں جکڑے رہتے تھے۔ یہ یا تو وہ تھے جو حکومت سے سرتابی کرتے تھے یا کام کاج میں شرارت اور کمی کرتے تھے یا لوگوں کو ستاتے اور ایذا دیتے تھے۔ یہ ہے ہماری مہربانی اور ہماری بخشش اور ہمارا انعام اور ہمارا عطیہ اب تجھے اختیار ہے جس سے جو چاہے سلوک کر سب بے حساب ہے کسی پر پکڑ نہیں۔ جو تیری زبان سے نکلے گا وہ حق ہو گا۔ صحیح حدیث میں ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اختیار دیا گیا کہ اگر چاہیں عبد و رسول رہیں یعنی جو حکم کیا جائے بجا لاتے رہیں اللہ کے فرمان کے مطابق تقسیم کرتے رہیں اور اگر چاہیں نبی اور بادشاہ بنا دیئے جائیں جسے چاہیں دیں جسے چاہیں نہ دیں اور اس کا کوئی حساب اللہ کے ہاں نہ لیا جائے تو آپ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے مشورہ لیا اور آپ کے مشورے سے پہلی بات قبول فرمائی کیونکہ فضیلت کے لحاظ سے اولیٰ اور اعلیٰ وہی ہے۔ گو نبوت و سلطنت بھی بڑی چیز ہے۔ اسی لئے حضرت سلیمان کا دنیوی عز و جاہ بیان کرتے ہی فرمایا کہ وہ دار آخرت میں بھی ہمارے پاس بڑے مرتبے اور بہترین بزرگی اور اعلیٰ تر قریب والا ہے۔

 

۴۱

حضرت ایوب علیہ السلام اور ان کا صبر

حضرت ایوب علیہ السلام کا ذکر ہو رہا ہے اور ان کے صبر اور امتحان میں پاس ہونے کی تعریف بیان ہو رہی ہے کہ مال برباد ہو گیا اولادیں مر گئیں جسم مریض ہو گیا یہاں تک کہ سوئی کے ناکے برابر سارے جسم میں ایسی جگہ نہ تھی جہاں بیماری نہ ہو صرف دل سلامت رہ گیا اور پھر فقیری اور مفلسی کا یہ حال تھا کہ ایک وقت کا کھانا پاس نہ تھا کوئی نہ تھا جو خبر گیر ہوتا سوائے ایک بیوی صاحبہ رضی اللہ عنہا کے جن کے دل میں خوف اللہ تھا اور اپنے خاوند اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت تھی۔ لوگوں کا کام کاج کر کے اپنا اور اپنے میاں کا پیٹ پالتی تھیں آٹھ سال تک یہی حال رہا حالانکہ اس سے پہلے ان سے بڑھ کر مالدار کوئی نہ تھا۔ اولاد بھی بکثرت تھی اور دنیا کی ہر راحت موجود تھی۔ اب ہر چیز چھین لی گئی تھی اور شہر کا کوڑا کرکٹ جہاں ڈالا جاتا تھا وہں آپ کو لا بٹھایا تھا۔ اسی حال میں ایک دو دن نہیں سال دو سال نہیں آٹھ سال کامل گزارے اپنے اور غیر سب نے منہ پھیر لیا تھا۔ خیریت پوچھنے والا بھی کوئی نہ تھا۔ صرف آپ کی یہی ایک بیوی صاحبہ تھیں جو ہر وقت دن اور رات آپ کی خدمت میں کمر بستہ تھیں۔ ہاں پیٹ پالنے کے لئے محنت مزدوری کے وقت آپ کے پاس سے چلی جاتی تھیں یہاں تک کہ دن پھرے اور اچھا وقت آ گیا تو رب العالمین الہ المرسلین کی طرف تضرع و زاری کی اور کپکپاتے ہوئے کلیجے سے دل سے دعا کی کہ اے میرے پالنہار اللہ مجھے دکھ نے تڑپا دیا ہے اور تو ارحم الراحمین ہے یہاں جو دعا ہے اس میں جسمانی تکلیف اور مال و اولاد کے دکھ درد کا ذکر کیا۔ اسی وقت رحیم و کریم اللہ نے اس دعا کو قبول فرمایا اور حکم ہوا کہ زمین پر اپنا پاؤں مارو۔ پاؤں کے لگتے ہی وہاں ایک چشمہ ابلنے لگا حکم ہوا کہ اس پانی سے غسل کر لو۔ غسل کرتے ہی بدن کی تمام بیماری اس طرح جاتی رہی گویا تھی ہی نہیں۔ پھر حکم ہوا کہ اور جگہ ایڑی لگاؤ وہاں پاؤں مارتے ہی دوسرا چشمہ جاری ہو گیا حکم ہوا کہ اس کا پانی پی لو اس پانی کے پیتے ہی اندرونی بیماریاں بھی جاتی رہیں اور ظاہر و باطن کی عافیت اور کامل تندرستی حاصل ہو گئی۔ ابن جریر اور ابن جریر اور ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں اٹھارہ سال تک اللہ کے یہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم دکھ درد میں مبتلا رہے اپنے اور غیر سب نے چھوڑ دیا ہاں آپ کے مخلص دوست صبح شام خیریت خبر کے لئے آ جایا کرتے تھے ایک مرتبہ ایک نے دوسرے سے کہا میرا خیال یہ ہے کہ ایوب نے اللہ کی کوئی بڑی نافرمانی کی ہے کہ اٹھارہ سال سے اس بلا میں پڑا ہوا ہے اور اللہ اس پر رحم کرے اس دوسرے شخص نے شام کو حضرت ایوب علیہ السلام سے اس کی یہ بات ذکر کر دی۔ آپ کو سخت رنج ہوا اور فرمایا میں نہیں جانتا کہ وہ ایسا کیوں کہتے ہیں۔ اللہ خوب جانتا ہے میری یہ حالت تھی کہ جب دو شخصوں کو آپس میں جھگڑتے دیکھا اور دونوں اللہ کو بیچ میں لاتے تو مجھ سے یہ نہ دیکھا جاتا کہ اللہ تعالیٰ کے عزیز نام کی اس طرح یاد کی جائے کیونکہ دو میں سے ایک تو ضرور مجرم ہو گا اور دونوں اللہ کا نام لے رہے ہیں تو میں اپنے پاس سے دے دلا کر ان کے جھگڑے کو ختم کر دیتا کہ نام اللہ کی بے ادبی نہ ہو۔ آپ سے اس وقت چلا بھرا بلکہ اٹھا بیٹھا بھی نہیں جاتا تھا پاخانے کے بعد آپ کی بیوی صاحبہ آپ کو اٹھا کر لاتی تھیں۔ ایک مرتبہ وہ نہیں تھیں آپ کو بہت تکلیف ہوئی اور دعا کی اور اللہ کی طرف سے وحی ہوئی کہ زمین پر لات مار دو۔ بہت دیر کے بعد جب آپ کی بیوی صاحبہ آئیں تو دیکھا کہ مریض تو ہے نہیں اور کوئی اور شخص تندرست نورانی چہرے والا بیٹھا ہوا ہے پہچان نہ سکیں اور دریافت کرنے لگیں کہ اے اللہ کے نیک بندے یہاں اللہ کے ایک نبی جو درد دکھ میں مبتلا تھے انہیں دیکھا ہے؟ واللہ کہ جب وہ تندرست تھے تو قریب قریب تم جیسے ہی تھے، تب آپ نے فرمایا وہ میں ہی ہوں۔ راوی کہتا ہے آپ کی دو کوٹھیاں تھیں ایک گیہوں کیلئے اور ایک جو کے لئے۔ اللہ تعالیٰ نے دو برابر بھیجے ایک میں سونا برسا اور ایک کوٹھی اناج کی، اس سے بھر گئی دوسرے میں سے بھی سونا برسا اور دوسری کوٹھی اس سے بھر گئی (ابن جریر) صحیح بخاری شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں حضرت ایوب علیہ السلام ننگے ہو کر نہا رہے تھے جو آسمان سے سونے کی ٹٹڈیاں برسنے لگیں آپ نے جلدی جلدی انہیں اپنے کپڑے میں سمیٹنی شروع کیں تو اللہ تعالیٰ نے آواز دی کہ اے ایوب کیا میں نے تمہیں غنی اور بے پرواہ نہیں کر رکھا؟ آپ نے جواب دیا ہاں الٰہی بیشک تو نے مجھے بہت کچھ دے رکھا ہے میں سب سے غنی اور بے نیاز ہوں لیکن تیری رحمت سے بے نیاز نہیں ہوں بلکہ اس کا تو پورا محتاج ہوں۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے اس صابر پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کو نیک بدلہ اور بہتر جزائیں عطا فرمائیں۔ اولاد بھی دی اور اسی کے مثل اور بھی دی بلکہ حضرت حسن اور قتادہ سے منقول ہے کہ مردہ اولاد اللہ نے زندہ کر دی اور اتنی ہی اور نئی دی۔ یہ تھا اللہ کا رحم جو ان کے صبر و استقلال رجوع الی اللہ تواضح اور انکساری کے بدلے اللہ نے انہیں دیا اور عقلمندوں کے لئے نصیحت و عبرت ہے وہ جان لیتے ہیں کہ صبر کا انجام کشادگی ہے اور رحمت و راحت ہے۔ بعض لوگوں کا بیان ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام اپنی بیوی کے کسی کام کی وجہ سے ان پر ناراض ہو گئے تھے بعض کہتے ہیں وہ اپنے بالوں کی ایک لٹ بیچ کر ان کے لئے کھانا لائی تھیں اس پر آپ ناراض ہوئے تھے اور قسم کھائی تھی کہ شفا کے بعد سو کوڑے ماریں گے دوسروں نے وجہ ناراضگی اور بیان کی ہے۔ جبکہ آپ تندرست اور صحیح سالم ہو گئے تو ارادہ کیا کہ اپنی قسم کا پورا کریں لیکن ایسی نیک صفت عورت اس سزا کے لائق نہ تھیں جو حضرت ایوب نے طے کر رکھی تھی جس عورت نے اس وقت خدمت کی جبکہ کوئی ساتھ نہ تھا اسی لئے رب العالمین ارحم الراحمین نے ان پر رحم کیا اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم دیا کہ قسم پوری کرنے کے لئے کھجور کا ایک خوشہ لے لو جس میں ایک سو سیخیں ہوں اور ایک انہیں مار دو اس صورت میں قسم کا خلاف نہ ہو گا اور ایک ایسی صابرہ شاکرہ نیک بیوی پر سزا بھی نہ ہو گی۔ یہی دستور الٰہی ہے کہ وہ اپنے نیک بندوں کو جو اس سے ڈرتے رہتے ہیں برائیوں اور بدیوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ حضرت ایوب کی ثناء و صفت بیان فرماتا ہے کہ ہم نے انہیں بڑا صاب و ضابط پایا وہ بڑا نیک اور اچھا بندہ ثابت ہوا۔ اس کے دل میں ہماری سچی محبت تھی وہ ہماری ہی طرف جھکتا رہا اور ہمیں سے لو لگائے رہا، اسی لئے فرمان اللہ ہے کہ جو اللہ سے ڈرتا رہتا ہے اللہ اس کے لئے چھٹکارے کی صورت نکال دیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے روزی پہنچاتا ہے جو اس کے خیال میں بھی نہ ہو۔ اللہ پر توکل رکھنے والوں کو اللہ کافی ہے۔ اللہ اپنے کام میں پورا اترتا ہے اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔ سمجھدار علماء کرام نے اس آیت سے بہت سے ایمانی مسائل اخذ کئے ہیں واللہ اعلم۔

 

۴۵

اللہ تعالیٰ اپنے عابد بندوں اور رسولوں کی فضیلتوں کو بیان فرما رہا ہے اور ان کے نام گنوا رہا ہے ابراہیم اسحاق اور یعقوب صلواۃ اللہ وسلامیہ علیہم اجمعین اور فرماتا ہے کہ ان کے اعمال بہت بہتر تھے اور صحیح علم بھی ان میں تھا۔ ساتھ ہی عبادت الٰہی میں قومی تھے اور قدرت کی طرف سے انہیں بصیرت عطا فرمائی گئی تھی۔ دین میں سمجھدار تھے اطاعت اللہ میں قوی تھے حق کے دیکھنے والے تھے۔ ان کے نزدیک دنیا کی کوئی اہمیت نہ تھی صرف آخرت کا ہی ہر وقت خیال بندھا رہتا تھ۔ ہر عمل آخرت کے لئے ہی ہوتا تھا۔ دنیا کی محبت سے وہ الگ تھے، آخرت کے ذکر میں ہر وقت مغشول رہتے تھے۔ وہ اعمال کرتے تھے جو نت دلوائیں، لوگوں کو بھی نیک اعمال کی ترغیب دیتے تھے۔ انہیں اللہ تعالیٰ بھی قیامت کے دن بہترین بدلے اور افضل مقامات عطا فرمائے گا۔ یہ بزرگان دین اللہ کے چیدہ مخلص اور خاص الخاص بندے ہیں۔ اسماعیل اور ذوالکفل صلوات و سلامہ علیہم اجمعین بھی پسندیدہ اور خاص بندوں میں تھے۔ ان کے بیانات سورہ انبیاء میں گزر چکے ہیں اس لئے ہم نے یہاں بیان نہیں کئے۔ ان فضائل کے بیان میں ان کے لئے نصیحت ہے جو پندو نصیحت حاصل کرنے کے لئے عادی ہیں اور یہ مطلب بھی ہے کہ یہ قرآن عظیم ذکر یعنی نصیحت ہے۔

 

۴۹

صالحین کے لئے اجر

نیکو کار تقوے والوں کے لئے دار آخرت میں کتنا پاک بدلہ اور کیسی پیاری جگہ ہے؟ ہمیشہ رہنے والی جنتیں ہیں جن کے دروازے ان کے لئے بند نہیں بلکہ کھلے ہوئے ہیں۔ کھلوانے کی بھی زحمت نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں جنت میں ایک محل عدن ہے جس کے آس پاس برج ہیں جس کے پانچ ہزار دروازے ہیں اور ہر دروازے پر پانچ ہزار چادریں ہیں ان میں صرف نبی یا صدیق یا شہید یا عادل بادشاہ رہیں گے (ابن ابی حاتم) اور یہ تو بہت سی بالکل صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں۔ اپنے تختوں پر تکئے لگائے بے فکری سے چار زانو با آرام بیٹھ ہوئے ہوں گے۔ اور جس قوم کو جس میوے شراب کا جی چاہے حکم کے ساتھ خدام باسلیقہ حاضر کر دیں گے۔ ان کے پاس ان کی بیویاں ہوں گی جو عفیفہ، پاک دامن، نیچی نگاہوں والی اور ان سے محبت و عشق رکھنے والی ہوں گی جن کی نگاہیں کبھی دوسرے کی طرف نہ اٹھی ہیں نہ اٹھیں نہ اٹھ سکیں۔ ان کی ہم عمر ہوں گی ان کی عمروں کے لائق ہوں گی۔ ان صفات والی جنت کا وعدہ اللہ سے ڈرتے رہنے والے بندوں سے ہے ، قیامت کے دن یہ اس کے وارث و مالک ہوں گے جبکہ قبروں سے اٹھ کر آگ سے نجات پا کر حساب سے فارغ ہو کر یہاں آ کر بہ آرام بسیں گے۔ یہ ہے ہمارے انعام جس میں نہ کبھی کمی آئے گی نہ یہ منقطع ہو گا۔ جیسے فرمایا تمہارے پاس جو کچھ ہے وہ ختم ہو جاتا ہے اور اللہ کے پاس جو ہے وہ باقی رہنے والا ہے اور آیت میں ہے اور جگہ غیر ممنون بھی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ نہ اس میں کبھی کمی ہے وہ باقی رہنے والا ہے اور آیت میں غیر جذوذ ہے اور جگہ غیر ممنون بھی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ نہ اس میں کبھی کمی اور گھاٹا آئے نہ کبھی وہ ختم اور فنا ہو۔ جیسے ارشاد ہے اکلھا دائم و ظلھا الخ، اس کے میوے اور کھانے پینے اور اس کے سائے دائمی ہیں۔ پرہیز گاروں کا انجام یہی ہے اور کافروں کا انجام جہنم ہے۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں۔

 

۵۵

اہل نار کے احوال

اوپر نیکوں کا حال بیان کیا تو یہاں بروں کا حال بیان فرما رہا ہے جو اللہ کی نہیں مانتے تھے، نبی کی نافرمانی کرتے تھے ان کے لوٹنے کی جگہ بہت بری ہے اور وہ جہنم ہے جس میں یہ لوگ داخل ہوں گے اور چاروں طرف سے انہیں آتش دوزخ گھیر لے گی۔ یہ نہایت ہی برا بچھونا ہے۔ حمیم اس پانی کو کہتے ہیں جس کی حرارت اور گرمی انتہا کو پہنچ چکی ہو۔ اور غساق کہتے ہیں اس ٹھنڈک کو جس کی سردی انتہا کو پہنچ چکی ہو۔ پس ایک طرف آگ کا گرم عذاب دوسری جانب ٹھنڈک ا سرد عذاب اور اسی طرح قسم قسم کے، جوڑ جوڑ کے عذاب، جو ایک دوسرے کی ضد ہوں۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں اگر ایک ڈول غساق کا دنیا میں بہایا جائے تو تمام اہل دنیا بدبو دار ہو جائیں۔ حضرت کعب احبار فرماتے ہیں غساق نامی جہنم میں ایک نہر ہے جس میں سانپ بچھو وغیرہ کا زہر جمع ہوتا ہے پھر وہ گرم ہو کر اونٹنے لگتا ہے اس میں جہنمیوں کو غوطے دیئے جائیں گے جس سے ان کا سارا گوشت پوست جھڑ جائے گا اور پنڈلیوں میں لٹک جائے گا۔ جسے وہ اس طرح گھسیٹتے پھریں گے جیسے کوئی شخص اپنا کپڑا گھسیٹ رہا ہو (ابن ابی حاتم) غرض سردی کا عذاب الگ ہو گا گرمی کا الگ ہو گا حمیم پینے کو زقوم کھانے کو کبھی آگ کے پہاڑوں پر چڑھایا جاتا ہے تو کبھی آگ کے گڑھوں میں دھکیلا جاتا ہے اللہ ہمیں بچائے۔ اب جہنمیوں کا جھگڑا ان کا تنازع اور ایک دوسرے کو برا کہنا بیان ہو رہا ہے جیسے اور آیت میں ہے کلما دخلت الخ، ہر گروہ دوسرے پر بجائے سلام کے لعنت بھیجے گا۔ ایک دوسرے کو جھٹلائے گا اور ایک دوسرے پر الزام رکھے گا۔ ایک جماعت جو پہلے جہنم میں جا چکی ہے وہ دوسری جماعت کو داروغہ جہنم کے ساتھ آتی ہئی دیکھ کر کہے گی کہ یہ گروہ جو تمہارے ساتھ ہے انہیں مرحبا نہ ہو اس لئے کہ یہ بھی جہنمی گروہ ہے۔ وہ آنے والے ان سے کہیں گے کہ تمہارے لئے مرحبا ہو تم ہی تو تھے کہ ہمیں ان برے کاموں کی طرف بلاتے رہے جن کا انجام یہ ہوا۔ پس بری منزل ہے۔ پھر کہیں گے کہ اے باری تعالیٰ جس نے ہمارے لئے اس کی تقدیم کی تو اسے دوگنا عذاب کر۔ جیسے فرمان ہے الخ، یعنی پچھلے پہلوں کے لئے کہیں گے کہ پروردگار انہوں نے ہمیں گمراہ کر دیا تو انہیں آگ ا دگنا عذاب کر۔ اللہ فرمائے گا ہر ایک کے لئے دگنا ہی ہے لیکن تم نہیں جانتے۔ یعنی ہر ایک کے لئے ایسا عذاب ہے جس کی انتہا اسی کے لئے ہے۔ چونکہ کفار وہاں مومنوں کو نہ پائیں گے جنہیں اپنے خیال میں بہکا ہوا جانتے تھے تو آس میں ذکر کریں گے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ ہمیں مسلمان جہنم میں نظر نہیں آتے؟ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ ابوجہل کہے گا کہ بلال عمار صھیب وغیرہ وغیرہ کہاں ہیں؟ وہ تو نظر ہی نہیں آتے غرض ہر کافر یہی کہے گا کہ وہ لوگ جنہیں دنیا میں ہم شریر گنتے تھے وہ آج یہاں نظر نہیں آتے۔ کیا ہماری ہی غلطی تھی کہ ہم انہیں دنیا میں مذاق میں اڑاتے تھے؟ لیکن نہیں ایسا تو نہ تھا وہ ہوں گے تو جہنم میں ہی لیکن کہیں ادھر ادھر ہوں گے ہماری نگاہ میں نہیں پڑتے۔ اسی وقت جنتیوں کی طرف سے ندا آئے گی کہ اے دوزخیو! ادھر دیکھو ہم نے تو اپنے رب کے وعدے کو حق پایا تم اپنی کہو کیا اللہ کے وعدے کے سچے نکلے؟ یہ جواب دیں گے کہ ہاں بالکل سچ نکلے اسی وقت ایک منادی ندا کرے گا کہ ظالموں پر اللہ کی لعنت ہو۔ اسی کا بیان آیات قرآنیہ سے تک ہے۔ پھر فرماتا ہے اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم جو خبر میں تمہیں دے رہا ہوں کہ جہنمی اسی طرح لڑیں جھگڑیں گے اور آپس میں ایک دوسرے پر لعن طعن کریں گے یہ بالکل سچی واقعی اور ٹھیک خبر ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔

 

۶۵

نبی علیہ السلام کا خواب

اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم فرماتا ہے کہ کافروں سے کہہ دو کہ میری نسبت تمہارے خیالات محض غلط ہیں میں تو تمہیں ڈر کی خبر پہچانے والا ہوں۔ اللہ وحدہٗ لا شریک لہٗ کے سوا اور کوئی قابل پرستش نہیں وہ اکیلا ہے وہ ہر چیز پر غالب ہے، ہر چیز اس کے ماتحت ہے۔ وہ زمین و آسمان اور ہر چیز کا مالک ہے اور سب تصرفات اسی کے قبضے میں ہیں۔ وہ عزتوں والا ہے اور باوجود اس عظمت و عزت کے بڑا بخشنے والا ہے۔ یہ بہت بڑی چیز ہے یعنی میرا رسول بن کر تمہاری طرف آنا پھر تم اے غافلو اس سے اعراض کر رہے ہو۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ بڑی چیز ہے یعنی قرآن کریم۔ حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں فرشتوں میں جو کچھ اختلاف ہوا اگر رب کی وحی میرے پاس نہ آئی ہوئی تو مجھے اس کی بابت کیا علم ہوتا؟ ابلیس کا آپ کو سجدہ کرنے سے منکر ہونا اور رب کے سامنے اس کی مخالفت کرنا اور اپنی بڑائی جتانا وغیرہ ان سب باتوں کو میں کیا جانوں؟ مسند احمد میں ہے ایک دن صبح کی نماز میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے بہت دیر لگا دی یہاں تک کہ سورج طلع ہونے کا وقت آ گیا پھر بہت جلدی کرتے ہوئے آئے تکبیر کہی گئی اور آپ نے ہلکی نماز پڑھائی۔ پھر ہم سے فرمایا ذرا دیر ٹھہرے رہو پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا رات کو میں تہجد کی نماز پڑھ رہا تھا جو مجھے اونگھ آنے لگی یہاں تک کہ میں جاگا میں نے دیکھا کہ گویا میں اپنے رب کے پاس ہوں میں نے اپنے پروردگار کو بہترین عمدہ صورت میں دیکھا مجھ سے جناب باری نے دریافت فرمایا جانتے و عالم بالا کے فرشتے اس وقت کس امر میں گفتگو اور سوال و جواب کر رہے ہیں؟ میں نے کہا میرے رب مجھے کیا خبر؟ تین مرتبہ کے سوال جواب کے بعد میں میں نے دیکھا کہ میرے دونوں مونڈھوں کے درمیان اللہ عز و جل نے اپنا ہاتھ رکھا یہاں تک کہ انگلیوں کی ٹھنڈک مجھے میرے سینے میں محسوس ہوئی اور مجھ پر ہر ایک چیز روشن ہو گئی پھر مجھ سے سوال کیا اب بتاؤ ملا اعلیٰ میں کیا بات چیت ہو رہی ہے؟ میں نے کہا گناہوں کے کفارے کی۔ فرمایا پھر تم بتاؤ کفارے کیا کیا ہیں؟ میں نے کہا نماز با جماعت کے لئے قدم اٹھا کر جانا۔ نمازوں کے بعد مسجدوں میں بیٹھے رہنا اور دل کے نہ چاہئے پر بھی کامل وضو کرنا۔ پھر مجھ سے میرے اللہ نے پوچھا درجے کیا ہیں؟ میں نے کہا کھانا کھلانا۔ نرم کلامی کرنا اور راتوں کو جبہ لوگ سوئے پڑے ہوں نماز پڑھنا۔ اب مجھ سے میرے رب نے فرمایا مانگ کیا مانگتا ہے؟ میں نے کہا میں نیکیوں کا کرنا برائیوں کا چھوڑنا مسکینوں سے محبت رکھنا اور تیری بخشش، تیرا رحم اور تیرا ارادہ جب کسی قوم کی آزمائش کا فتنے کے ساتھ ہو تو اسے فتنے میں مبتلا ہونے سے پہلے موت، تیری محبت اور تجھ سے محبت رکھنے والوں کی محبت اور ان کاموں کی چاہت جو تیری محبت سے قریب کرنے والے ہوں مانگتا ہوں اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یہ سراسر حق ہے اسے پڑھو پڑھاؤ سیکھو سکھاؤ۔ یہ حدیث خواب کی ہے اور مشہور بھی یہی ہے بعض نے کہا ہے یہ جاگتے کا واقعہ ہے لیکن یہ غلط ہے بلکہ صحیح یہ ہے کہ یہ واقعہ خواب کا ہے اور یہ بھی خیال رہے کہ قرآن میں فرشتوں کی جس بات کا رد و بدل کرنا اس آیت میں مذکور ہے وہ یہ نہیں جو اس حدیث میں ہے بلکہ یہ سوال تو وہ ہے جس کا ذکر اس کے بعد ہی ہے ملاحظہ ہوں اگلی آیتیں۔

 

۷۱

تخلیق آدم اور ابلیس کی سرکشی

یہ قصہ سورہ بقرہ، سورہ اعراف، سورہ حجر، سورہ سبان، سورہ کہف اور اس سورہ ص میں بیان ہوا ہے۔ حضرت آدم کو پیدا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو اپنا ارادہ بتایا کہ میں مٹی سے آدم کو پیدا کرنے والا ہوں۔ جب میں اسے پیدا کر چکوں تو تم سب اسے سجدہ کرنا تاکہ میری فرمانبرداری کے ساتھ ہی حضرت آدم کی شرافت و بزرگی کا بھی اظہار ہو جائے۔ پس کل کے کل فرشتوں نے تعمیل ارشاد کی۔ ہاں ابلیس اس سے رکا، یہ فرشتوں کی جنس میں سے تھا بھی نہیں بلکہ جنات میں سے تھا۔ طبعی خباثت اور جبلی سرکشی ظاہر ہو گئی۔ سوال ہوا کہ اتنی معزز مخلوق کو جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا تو نے میرے کہنے کے باوجود سجدہ کیوں نہ کیا؟ یہ تکبر! اور یہ سرکشی؟ تو کہنے لگا کہ میں اس سے افضل و اعلیٰ ہوں کہاں آگ اور کہاں مٹی؟ اس خطا کار نے اس کے سمجھنے میں بھی غلطی کی اور اللہ کے حکم کی مخالفت کی وجہ سے غارت ہو گیا حکم ہوا کہ میرے سامنے سے منہ ہٹا میرے دربار میں تجھ جیسے نا فرمانوں کی رسائی نہیں تو میری رحمت سے دور ہو گیا اور تجھ پر ابدی لعنت نازل ہوئی اور اب تو خیرو خوبی سے مایوس ہو جا۔ اس نے اللہ سے دعا کی کہ قیامت تک مجھے مہلت دی جائے۔ اس حلیم اللہ نے جو اپنی مخلوق کو ان کے گناہوں پر فوراً نہیں پکڑتا اس کی یہ التجا پوری کر دی اور قیامت تک کی اسے مہلت دے دی۔ اب کہنے لگا میں تو اس کی تمام اولاد کو بہکا دوں گا صرف مخلص لوگ تو بچ جائیں گے منظور اللہ بھی یہی تھا جیسے کہ قرآن کریم کی اور آیتوں میں بھی ہے مثلاً الخ، ارو کو حضرت مجاہد نے پیش سے پڑھا ہے معنی یہ ہیں کہ میں خود حق ہوں اور میری بات بھی حق ہی ہوتی ہے اور ایک روایت میں ان سے یوں مروی ہے کہ حق میری طرف سے ہے اور میں حق ہی کہتا ہوں اوروں نے دونوں لفظ زبر سے پڑھے ہیں۔ سدی کہتے ہیں یہ قسم ہے۔ میں کہتا ہوں یہ آیت اس آیت کی طرح ہے یعنی میرا یہ قول اٹل ہے کہ میں ضرور ضرور جہنم کو اس قسم کے انسانوں اور جنوں سے پر کر دونگا اور جیسے فرمان ہے الخ، یہاں سے نکل جا جو شخص بھی تیری مانے گا اس کی اور تیری پوری سزا جہنم ہے۔

 

۸۶

اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم دیتا ہے کہ لوگوں میں آپ اعلان کر دیں کہ میں تبلیغ دین پر اور احکام قرآن پر تم سے کوئی اجرت و بدلہ نہیں مانگتا۔ اس سے میرا مقصود کوئ دنیوی نفع حاصل کرنا نہیں اور نہ میں تکلف کرنے والا ہوں کہ اللہ نے نہ اتارا ہو اور میں جوڑ لوں۔ مجھے تو جو کچھ پہنچایا ہے وہی میں تمہیں پہنچا دیتا ہوں نہ کمی کروں نہ زیادتی اور میرا مقصود اس سے صرف رضائے رب اور مرضی مولیٰ ہے۔ حضرت عبد اللہ بن معسود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں لوگوں جسے کسی مسئلہ کا علم ہو وہ اسے لوگوں سے بیان کر دے اور جو نہ جانتا ہو وہ کہہ دے کہ اللہ جانے۔ دیکھو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے بھی یہی فرمایا کہ میں تکلف کرنے والا نہیں ہوں۔ یہ قرآن تمام انسانوں اور جنوں کے لئے نصیحت ہے جیسے اور آیت میں ہے تاکہ میں تمہیں اور جن جن لوگوں تک یہ پہنچے آگاہ اور ہوشیار کر دوں اور آیت میں ہے کہ جو شخص بھی اس سے کفر کرے وہ جہنمی ہے۔ میری باتوں کی حقیقت میرے کلام کی تصدیق میرے بیان کی سچائی میرے زبان کی صداقت تمہیں ابھی ابھی معلوم ہو جائے گی یعنی مرتے ہی، قیامت کے قائم ہوتے ہی۔ موت کے وقت یقین آ جائے گا اور میری کہی ہوئی خبریں اپنی آنکھوں دیکھ لو گے۔ واللہ اعلم بالصواب اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سورہ ص کی تفسیم ختم ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کے انعام و احسان پر اس کا شکر ہے۔