تفسیر ابنِ کثیر

سُوۡرَةُ الإخلاص

شان نزول اور فضیلت کا بیان

مسند احمد میں ہے کہ مشرکین نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے کہا اپنے رب کے اوصاف بیان کرو اس پر یہ سورت نازل ہوئی، صمد کے معنی ہیں جو نہ تو پیدا ہوا ہو نہ اس کی اولاد ہو، اس لئے کہ جو پیدا ہوا ہے وہ ایک وقت مرے گا بھی اور دوسرے اس کے وارث ہوں گے اللہ عز و جل نہ مرے نہ اس کا کوئی وارث ہو اس جیسا اور اس کی جنس کا کوئی نہیں نہ اس کے مثل کوئی چیز ہے۔ ترمذی وغیرہ میں بھی یہ روایت ہے، ابویعلی موصلی میں بھی ہے کہ ایک اعرابی نے یہ سوال کیا تھا، اور روایت میں ہے کہ مشرکین کے اس سوال کے جواب میں یہ سورت اتری، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہیں ہر چیز کی نسبت ہے اور اللہ کی نسبت یہ سورت ہے، صمد اسے کہتے ہیں جو کھلا کھلا نہ ہو، بخاری شریف کتاب التوحید میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک چھوٹا سا لشکر کہیں بھیجا جس وقت وہ پلٹے تو انہوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم پر جسے سردار بنایا تھا وہ ہر نماز کی قرأت کے خاتمہ پر سورہ قل ھواللہ الخ، پڑھا کرتے تھے آپ نے فرمایا ان سے پوچھو کہ وہ ایسا کیوں کرتے تھے، پوچھنے پر انہوں نے کہا کہ یہ سورت رحمان کی صفت ہے مجھے اس کا پڑھنا بہت ہی پسند ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا انہیں خبر دو کہ اللہ بھی اس سے محبت رکھتا ہے، بخاری شریف کتاب الصلوٰۃ میں ہے کہ ایک انصاری مسجد قبا کے امام تھے ان کی عادت تھی کہ الحمد ختم کر کے پھر اس سورت کو پڑھتے پھر جونسی سورت پڑھنی ہوتی یا جہاں سے چاہتے قرآن پڑھتے، ایک دن مقتدیوں نے کہا کہ آپ اس سورت کو پڑھتے پھر دوسری سورت ملاتے ہیں یا تو آپ صرف اسی کو پڑھئے یا چھوڑ دیجئے دوسری سورت ہی پڑھا کیجئے انہوں نے جواب دیا کہ میں تو جس طرح کرتا ہوں کرتا رہوں گا تم چاہو تو مجھے امام رکھو کہو تو میں تمہاری امامت چھوڑ دوں، اب انہیں یہ بات بھاری پڑی جانتے تھے کہ ان سب میں یہ زیادہ افضل ہیں ان کی موجودگی میں دوسیر کا نماز پڑھانا بھی انہیں گوارا نہ ہو سکا، ایک دن جبکہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم ان کے پاس تشریف لائے تو ان لوگوں نے آپ سے یہ واقعہ بیان کیا، آپ نے امام صاحب سے کہا تم کیوں اپنے ساتھیوں کی بات نہیں مانتے اور ہر رکعت میں اس سورت کو کیوں پڑھتے ہو؟ وہ کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مجھے اس سورت سے بڑی محبت ہے آپ نے فرمایا اس کی محبت نے تجھے جنت میں پہنچا دیا، ترمذی اور مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے آپ سے کہا میں اس سورت سے بہت محبت رکھتا ہوں آپ نے فرمایا اس کی محبت نے تجھے جنت میں پہنچا دیا، ایک شخص نے کسی کو اس سورت کو پڑھتے ہوئے رات کے وقت سنا کہ وہ بار بار اسی کو دوہرا رہا ہے۔ صبح کے وقت آ کر اس نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے ذکر کیا گویا کہ وہ اسے ہلکے ثواب کا کام جانتا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ سورت مثل تہائی قرآن کے ہے (بخاری) صحیح بخاری شریف کی اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا کیا تم سے یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک رات میں ایک تہائی قرآن پڑھ لو تو یہ صحابہ بھاری پڑا اور کہنے لگے بھلا اتنی طاقت تو ہر ایک میں نہیں آپ نے فرمایا سنو سورہ قل ہو اللہ تہائی قرآن ہے، مسند احمد میں ہے کہ حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ساری رات اسی سورت کو پڑھتے رہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے جب ذکر کیا گیا تو آپ نے قسم کا کر فرمایا کہ یہ آدھے قرآن یا تہائی قرآن کے برابر ہے، ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت ابو ایوب انصاری نے فرمایا کیا تم میں سے کسی کو اس کی طاقت ہے کہ وہ ہر رات تیسرا حصہ قرآن کا پڑھ لیا کرے، صحابہ کہنے لگے یہ کس سے ہو سکے گا؟ آپ نے فرمایا سنو قل ھو اللہ احد الخ، تہائی قرآ نکے برابر ہے، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی آ گئے آپ نے سن لیا اور فرمایا ابو ایوب سچ کہتے ہیں (مسند احمد) ترمذی میں ہے کہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ سے فرمایا جمع ہو جاؤ میں تمہیں آج تہائی قرآن سناؤں گا لوگ جمع ہو کر بیٹھ گئے۔ آپ گھر سے آئے سورہ قل ھو اللہ احد الخ، پڑھی اور پھر گھر چلے گئے اب صحابہ میں باتیں ہونے لگیں کہ وعدہ تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ تھا کہ تہائی قرآن سنائیں گے شاید آسمان سے کوئی وحی آ گئی ہو۔ اتنے میں آپ پھر واپس آئے اور فرمایا میں نے تم سے تہائی قرآن سنانے کا وعدہ کیا تھا، سنو یہ سورت تہائی قرآن کے برابر ہے۔ حضرت ابوالدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کیا تم اس سے عاجز ہو کہ ہر دن تہائی قرآن شریف پڑھ لیا کرو لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ و سلم ہم اس سے بہت عاجز اور بہت ضعیف ہیں، آپ نے فرمایا سنو اللہ تعالیٰ نے قرآن کے تین حصے کئے ہیں، قل ھو اللہ احد الخ، تیسرا حصہ ہے (مسلم نسائی وغیرہ) ایسی ہی روایتیں صحابہ کرام کی ایک بہت بڑی جماعت سے مروی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ایک مرتبہ کہیں سے آ رہے تھے آپ کے ساتھ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے تو آپ نے ایک شخص کو اس سورت کی تلاوت کرتے ہوئے سن کر فرمایا واجب ہو گئی، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے تو آپ نے ایک شخص کو اس سورت کی تلاوت کرتے ہوئے سن کر فرمایا واجب ہو گئی، حضرت ابوہریرہ نے پوچھا کیا واجب ہو گئی؟ فرمایا جنت (ترمذی و نسائی) ابو یعلی کی ایک ضعیف حدیث میں ہے کیا تم میں سے کوئی یہ طاقت نہیں رکھتا کہ سورہ قل ھو اللہ الخ کو رات میں تین مرتبہ لے؟ یہ سورت تہائی قرآن کے برابر ہے، مسند احمد میں ہے عبد اللہ بن حبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم پیاسے تھے رات اندھیری تھے، حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا انتظار تھا کہ آپ تشریف لائیں اور نماز پڑھائیں۔ آپ آئے اور میرا ہاتھ پکڑ کر فرمانے لگے پڑھ۔ میں چپکا رہا، آپ نے پھر فرمایا پڑھ۔ میں نے کہا کیا پڑھوں؟ آپ نے فرمایا ہر صبح شام تین تین مرتبہ سورہ قل ھو اللہ احد اور قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس پڑھ لیا کہ یہ کافی ہو جائے گا۔ نسائی کی ایک روایت میں ہے ہر چیز سے تجھے یہ کفایت کرے گی، مسند کی ایک اور ضعیف حدیث میں ہے جس نے ان کلمات کو دس مرتبہ پڑھ لیا اسے چالیس لاکھ نیکیاں ملتی ہیں وہ کلمات یہ ہیں

ان کے راوی خلیل بن مرہ ہیں جنہیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ وغیرہ بہت ضعیف بتلاتے ہیں، مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں جو شخص اس پوری سورت کو دس مرتبہ پڑھ لے گا اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں ایک محل تعمیر کرے گا۔ حضرت عمر نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پھر تو ہم بہت سے محل بنوا لیں گے۔ آپ نے فرمایا اللہ اس سے بھی زیادہ اور اس سے بھی اچھے دینے والا ہے۔ دارمی میں ہے کہ دس مرتبہ پر ایک محل، بیس پر دو، تیس پر تین، یہ حدیث مرسل ہے۔ ابویعلی موصلی کی ایک ضعیف حدیث ہے کہ جو شخص اس سورت کو پچاس مرتبہ پڑھ لے اس کے پچاس سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں، اسی کی ایک اور ضعیف سند والی حدیث میں ہے کہ جو شخص اس سورت کو ایک دن میں دو سو مرتبہ پڑھ لے اس کے لئے ایک ہزار پانچ سو نیکیاں لکھی جاتی ہیں بشرطیکہ اس پر قرض نہ ہو، ترمذی کی اس حدیث میں دو سو مرتبہ پڑھ لے اس کے لئے ایک ہزار پانچ سو نیکیاں لکھی جاتی ہیں بشرطیکہ اس پر قرض نہ ہو، ترمذی کی اس حدیث میں ہے کہ اس کے پچاس سال کے گناہ معاف کئے جاتے ہیں مگر یہ کہ اس پر فرض ہو، ترمذی کی ایک غریب حدیث میں ہے جو شخص سونے کے لئے اپنے بستر پر جائے پھر داہنی کروٹ لیٹ کر سو دفعہ اس سورت کو پڑھ لے تو قیامت کے دن رب عز و جل فرمائے گا۔ اے میرے بندے اپنی داہنی طرف سے جنت میں چلا جا۔ بزار کی ایک ضعیف سند والی حدیث میں ہے جو شخص اس سورت کو دو سو مرتبہ پڑھے اللہ تعالیٰ اس کے دو سو سال کے گناہ معاف فرما دیتا ہے، نسائی شریف میں اس آیت کی تفسیر میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم میں آئے تو دیکھا کہ ایک شخص نماز پڑھ رہا ہے دعا مانگ رہا ہے اپنی دعا میں کہتا ہے

یعنی اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس بات کی گواہی دے کر کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو اکیلا ہے بے نیاز ہے نہ اس کے ماں باپ نہ اولاد نہ ہمسر اور ساتھی کوئی اور آپ یہ سن کر فرمانے لگے اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس نے اسم اعظم کے ساتھ دعا مانگی ہے اللہ کے اس بڑے نام کے ساتھ کہ جب کبھی اس نام کے ساتھ سوال کیا جائے تو عطا ہو اور جب کبھی اس نام کے ساتھ دعا کی جائے تو قبول ہو۔ ابویعلی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں تین کام ہیں جو انہیں ایمان کے ساتھ کر لے وہ جنت کے تمام دروازوں میں سے جس سے چاہے جنت میں چلا جائے اور جس کسی حور جنت سے چاہے نکاح کرا دیا جائے۔ جو اپنے قاتل کو معاف کر دے اور پوشیدہ قرض ادا کر دے اور ہر فرض نماز کے بعد دس مرتبہ سورہ قل ھو اللہ احد الخ، کو پڑھ لے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جو ان تینوں کاموں میں سے ایک کر لے آپ نے فرمایا کی پر بھی یہی درجہ ہے۔ طبرانی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں جو شخص اس سورت کو گھر میں جاتے وقت پڑھ لے اللہ تعالیٰ اس گھر والوں سے اور اس کے پڑوسیوں سے فقیری دور کر دے گا، اس کی اسناد ضعیف ہے۔ مسند ابویعلی میں ہے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ میدان تبوک میں تھے سورج ایسی روشنی نور اور شعاعوں کے ساتھ نکلا کہ ہم نے اس سے پہلے ایسا صاف شفاف اور روشن و منور نہیں دیکھا تھا حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے دریافت فرمایا کہ آج سورج کی اس تیز روشنی اور زیادہ نور اور چمکیلی شعاعوں کی کیا وجہ ہے؟ تو آپ نے فرمایا آج مدینہ میں حضرت معاویہ بن معاویہ لیثی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتقال ہو گیا ہے جن کے جنازے کی نماز کے لئے اللہ تعالیٰ نے ستر ہزار فرشتے آسمان سے بھیجے ہیں پوچھا ان کے کس عمل کے باعث ؟ فرمایا وہ سورہ قل ھو اللہ احد کو دن رات چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے پڑھا کرتے تھے اگر آپ کا ارادہ ہو تو زمین سمیٹ لوں اور آپ ان کے جنازے کی نماز ادا کر لیں؟ آپ نے فرمایا بہت اچھا پس آپ نے ان کے جنازے کی نماز ادا کی۔ اس حدیث کو حافظ ابوبکر بیہقی رحمۃ اللہ علیہ بھی اپنی کتاب دلائل النبوۃ میں یزید بن ہارون کی روایت سے لائے ہیں وہ علاء بن محمد سے روایت کرتے ہیں۔ ان پر موضوع حدیثیں بیان کرنے کی تہمت ہے، واللہ اعلم۔ مسند ابویعلی میں اس کی دوسری سند بھی ہے جس میں یہ راوی نہیں۔ اس میں ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ معاویہ بن معاویہ یشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتقال ہو گیا ہے کہ کیا آپ ان کے جنازے کی نماز پڑھنا چاہتے ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں حضرت جبرئیل نے اپنا پر زمین پر مارا تمام درخت اور سب ٹیلے وغیرہ پست ہو گئے ان کا جنازہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو نظر آنے لگا آپ نے نماز شروع کی اور آپ کے پیچھے فرشتوں کی دو صفیں تھیں ہر صف میں ستر ہزار فرشتے تھے آپ نے دریافت کیا کہ آخر اس مرتبہ کی کیا وجہ ہے؟ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا ان کی سورت سے محبت اور ہر وقت آتے جاتے بیٹھتے اٹھتے اس کی تلاوت، اسے بیہقی نے بھی روایت کیا ہے، اور بیہقی کی سند میں محبوب بن ہلال ہیں۔ ابو حاتم رازی فرماتے ہیں یہ مشہور نہیں، ابو یعلی میں یہ راوی نہیں وہاں ان کی جگہ ابو عبد اللہ محمود ہیں، لیکن ٹھیک بات محبوب کا ہونا ہے، اس روایت کی اور بھی بہت سی سندیں ہیں اور سب ضعیف ہیں، ہم نے اختصار کے لئے انہیں یہاں نقل نہیں کیا، مسند احمد میں ہے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز میری رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ملاقات ہوئی میں نے جلدی سے آپ کا ہاتھ تھام لیا اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مومن کی نجات کس عمل پر ہے؟ آپ نے فرمایا اے عقبہ زبان تھامے رکھ اپنے گھر میں ہی بیٹھا رہا کہ اور اپنی خطاؤں پر روتا رہ، پھر دوبارہ جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے میری ملاقات ہوئی تو آپ نے خود میرا ہاتھ پکڑ لیا اور فرمایا عقبہ! کیا میں تمہیں توراۃ انجیل، زبور اور قرآن میں اتری ہوئی تمام سورتوں سے بہترین سورتیں بتاؤں؟ میں نے کہا ہاں حضور صلی اللہ علیہ و سلم ضرور ارشاد فرمایئے، اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر فدا کرے پس آپ نے مجھے سورہ اعوذ برب الفلق اور اعوذ برب الناس پڑھائیں پھر فرمایا دیکھو عقبہ! انہیں نہ بھولنا اور ہر رات انہیں پڑھ لیا کرنا۔ فرماتے ہیں پھر نہ میں انہیں بھولا اور نہ کوئی رات ان کے پڑھے بغیر گزاری، میں نے پھر آپ سے ملاقات کی اور جلدی کر کے آپ کے دست مبارک کو اپنے ہاتھ میں لے کر عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مجھے بہترین اعمال کا ارشاد فرمایئے آپ نے فرمایا سن جو تجھ سے توڑے تو اس سے جوڑ، جو تجھے محروم رکھے تو اسے دے، جو تجھ پر ظلم کرے تو اس سے درگزر کر اور معاف کر دے، اس کا بعض حصہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی زہد کے باب میں وارد کیا ہے اور فرمایا ہے یہ حدیث حسن ہے۔ مسند احمد میں بھی اس کی ایک اور سند ہے، صحیح بخاری شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم رات کے وقت جب بستر پر جاتے تو ہر رات تینوں سورتوں کو پڑھ کر اپنی دونوں ہتھیلیاں ملا کر ان پر دم کر کے اپنے جسم مبارک پر پھیر لیا کرتے جہاں تک ہاتھ پہنچتے پہنچاتے، پہلے سر پر، پھر منہ پر، پھر اپنے سامنے کے جسم پر تین مرتبہ اسی طرح کرتے، یہ حدیث سنن میں بھی ہے۔