تفسیر ابنِ کثیر

سُوۡرَةُ الکافِرون

مشرک سے براۃ اور بیزاری

صحیح مسلم شریف میں حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہوے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سورت کو اور سورہ قل ھواللہ کو طواف کے بعد کی دو رکعت نماز میں تلاوت فرمایا صحیح مسلم شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ صبح کی دو سنتوں میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلوم انہی دونوں سورتوں کی تلاوت کیا کرتے تھے مسند احمد میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صبح کے فرضوں سے پہلے کی دو رکعتوں میں اور مغرب کے بعد کی دو رکعتوں میں بیس اوپر کچھ دفعہ یا دس دفعہ اوپر کچ مرتبہ سورہ قل یآایھاالکفرون اور سورہ قل ھواللہ احد پڑھی یعنی اتنی مرتبہ میں نے آپ کو یہ سورتیں ان نمازوں میں پڑھتے ہوئے سنا مسند احمد میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو میں نے چوبیس یا پچیس مرتبہ صبح کی دو سنتوں میں ان دونوں سورتوں کو پڑھتے ہوئے بخوبی دیکھا، مسند ہی کی دوسری روایت میں آپ سے مروی ہے کہ مہینہ بھر تک میں نے آپ کو ان دونوں رکعتوں میں یہ دونوں سورتیں پڑھتے ہوئے پایا یہ روایت ترمذی ابن ماجہ اور نسائی میں بھی ہے امام ترمذی اسے حسن کہتے ہیں وہ روایت پہلے بیان ہو چکی ہے کہ یہ سورت چوتھائی قرآن کے برابر ہے اور سورہ اذا زلزلت بھی مسند احمد میں روایت ہے حضرت نوفل بن معاویہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا کہ ہماری ربیبہ زینب کی پرورش تم اپنے ہاں کرو میرخ یال سے یہ حضرت زینب تھیں یہ ایک مرتبہ پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہو بچی کیا کر رہی ہے کہا میں اسے اس کی ماں کے پاس چھوڑ آیا ہوں فرمایا اچھا کیوں آئے ہو عرض کیا اس لیے کہ آپ سے کوئی وظیفہ سیکھ جاؤں جو سوتے وقت پڑھ لوں آپ نے فرمایا قل یا ایھا الکفرون پڑھ کر سو جایا کرو اس میں شرک سے براۃ اور بیزاری ہے طبرانی کی روایت میں ہے کہ جبلہ بن حاثرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی آپ نے یہی فرمایا تھا طبرانی کی اور روایت میں ہے کہ خود حضور صلی اللہ علیہ و سلم بھی اپنے بسترے پر لیپ کر اس سورت کی تلاوت فرمایا کرتے تھے مسند احمد کی روایت میں ہے کہ حضرت حارث بن جبلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مجھے کوئی ایسی چیز بتائیے کہ میں سونے کے وقت اسے کہہ لیا کروں آپ نے فرمایا جب تو رات کو اپنے بستر پر جا تو قل یآایھا الکفرون پڑھ لیا کرو یہ شرک سے بیزاری ہے واللہ اعلم۔

 

۱

مشرکین الگ اور موحدین الگ

اس سورہ مبارکہ میں مشرکین کے عمل سے بیزاری کا اعلان ہے اور اللہ کی عبادت کے اخلاص کا حکم ہے گو یہاں خطاب مکہ کے کفار قریش سے ہے لیکن دراصل روئے زمین کے تمام کافر مراد ہیں اس کی شان نزول یہ ہے کہ ان کارفوں نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے سے کہا تھا کہ ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی عبادت کریں تو اگلے سال ہم بھی اللہ کی عبادت کریں گے اس پر یہ سورت نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی برحق صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حکم دیا کہ ان کے دین سے اپنی پوری بیزاری کا اعلان فرما دیں کہ میں تمہارے ان بتوں کو اور جن جن کو تم اللہ کا شریک مان رہے ہو ہرگز نہ پوجوں گا گو تم بھی میرے معبود برحق اللہ وحدہ لا شریک لہ کو نہ پوجو پس ما یہاں پر معنی میں من کے ہے پھر دوبارہ یہی فرمایا کہ میں تم جیسی عبادت نہ کروں گا تمہارے مذہب پر میں کاربند نہیں ہو سکتا نہ میں تمہارے پیچھے لگ سکتا ہوں بلکہ میں تو صرفاپنے رب کی عبادت کروں گا اور وہ بھی اس طریقے پر جو اسے پسند ہو اور جیسے وہ چاہے اسی لیے فرمایا کہ نہ تم میرے رب کے احکام کے آگے سر جھکاؤ گے نہ اس کی عبادت اس کے فرمان کے مطابق بجا لاؤ گے بلکہ تم نے تو اپنی طرف سے طریقے مقرر کر لیے ہیں جیسے اور جگہ ہے ان یتبعون الا الظن الخ یہ لوگ صرف وہم و گمان اور خواہش نفسانی کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں حالانکہ ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے ہدایت پہنچ چکی ہے پس جناب نبی اللہ احم دمجتبیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہر طرح اپنا دامن ان سے چھڑا لیا اور صاف طور پر ان کے معبودوں سے اور ان کی عبادت کے طریقوں سے علیحدگی اور ناپسندیدگی کا اعلان فرما دیا ظاہر ہے کہ ہر عابد کا معبود ہو گا اور طریقہ عبادت ہو گا پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کی امت صر فاللہ ہی کی عبادت کرتے ہیں اور طریقہ عبادت ان کا وہ ہے جو سرور رسل صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تعلیم فرمایا ہے اسی لیے کلمہ اخلاص لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کا راستہ وہی ہے جس کے بتانے والے محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہویں جو اللہ کے پیغمبر ہیں صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور مشرکین کے معبود بھی اللہ کے سوا غیر ہیں اور طریقہ عبادت بھی اللہ کا بتلایا ہوا نہیں اسی لیے فرمایا کہ متہارا دین تمہارے لیے میرا میرے لیے جیسے اور جگہ ہے وان کذبوک فقل لی عملی ولکم عملکم انتم بریون مما اعمل وانا بری مما تعملون یعنی اگر یہ تجھے جھٹلائیں تو تو کہہ دے کہ میرے لیے میرا عمل اور تمہارے لیے متہارا عمل ہے تم میرے اعمال سے الگ ہو اور میں تمہارے کاموں سے بیزار ہوں اور جگرہ فرمایا لنا اعمالنا ولکم اعمالکم ہمارے عمل ہمارے ساتھ اور تمہارے تمہارے ساتھ صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں ہے تمہارے لیے متہارا دین ہے یعنی کفر اور میرے لیے میرا دن ہے یعنی اسلام یہ لفظ اصل میں دینی تھا لیکن چونکہ اور آیتوں کا وقف نون پر ہے اس لیے اس میں بھی “یا” کو حذف کر دیا جیسے فھوا یھدین میں اور یسقین میں بعض مفسرین نے کہا ہے مطلب یہ ہے کہ میں اب تو تمہارے معبودوں کی پرستش کرتا نہیں اور آگے کے لیے بھی تمہیں نا امید کر دیتا ہوں کہ عمر بھر میں کبھی بھی یہ کفر مجھ سے نہ ہو سکے گا اسی طرح نہ تم اب میرے اللہ کو پوجتے ہو نہ آئندہ اس کی عبادت کرو گے اس سے مراد وہ کفار ہیں جن کا ایمان نہ لانا اللہ کو معلوم تھا جیسے قرآن میں اور جگہ ہے ولیزیدن کثیرا منھم ما انزل الیک من ربک طغیانا وکفرا یعنی تیری طرف جو اترتا ہے اس سے ان میں سے اکثر تو سرکشی اور کفر میں بڑھ جاتے ہیں ابن جرری نے بعض عربی دان حضرات سے نقل کیا ہے کہ وہ مرتبہ اس جملے کا لانا صرف تاکید کے لیے ہے جیسے فان مع العسر یسرا ان معالعسر یسرا میں اور جیسے لترون الجحیم ثم لترونھا عین الیقین پس ان دونوں جملوں کو دو مرتبہ لانے کی حکمت میں یہ تین قول ہوئے ایک تو یہ کہ پہلے جملے سے مراد معبود دوسرے سے مراد طریق عبادت دوسرے یہ کہ پہلے جملے سے مراد حال دوسرے سے مراد استقبال یعنی آئندہ تیسرے یہ کہ پہلے جملے کی تاکید دوسرے جملے سے ہے لیکن یہ یاد رہے کہ یہاں ایک چوتھی توجیہ بھی ہے جسے حضرت امام ابن تیمیہ اپنی بعض تصنیفات میں قوت دیتے ہیں وہ یہ کہ پہلے تو جملہ فعلیہ ہے اور دوبارہ جملہ اسمیہ ہے تو مراد یہ ہوئی کہ نہ تو میں غیر اللہ کی عبادت کرتا ہو نہ مجھ سے کبھی بھی کوئی امید رکھ سکتا ہے یعنی واقعہ کی بھی نفی ہے اور شرعی طور پر ممکن ہونے کا بھی انکار ہے یہ قول بھی ہت اچھا ہے واللہ اعلم حضرت امام ابو عبد اللہ شافعی کررحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ کفر ایک ہی ملت ہے اس لیے یہود نصرانی کا اور نصرانی یہود کا وارث ہوس کتا ہے جبکہ ان دونوں میں سنب یا سبب ورثے کا پایا جائے اس لیے کہ اسلام کے سوا کفر کی جتنی راہیں ہیں وہ سب باطل ہونے میں ایک ہی ہیں حضرت امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے موافقین کا مذہب اس کے برخلاف ہے کہ نہ یہودی نصرانی کا وارث ہو سکتا ہے نہ نصرانی یہود کا کیونکہ حدیث ہے دو مختلف مذہب والے آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہیں ہو سکتے سورہ کافرون کی تفسیر ختم ہوئی فالحمد اللہ احسانہ۔