تفسیر ابنِ کثیر

سُوۡرَةُ القَارعَة

اعمال کا ترازو

قارعہ بھی قیامت کا ایک نام ہے جیسے حآقہ طآمہ صآخہ غاشیہ وغیرہ اس کی بڑائی اور ہولناکی کے بیان کے لیے سوال ہوتا ہے کہ وہ کیا چیز ہے؟ اس کا علم بغیر میرے بتائے کسی کو حاصل نہیں ہو سکتا پھر خود بتاتا ہے کہ اس دن لوگ منتشر اور پراگندہ حیران و پریشان ادھر ادھر گھوم رہے ہوں گے جس طرح پروانے ہوتے ہیں اور جگہ فرمایا ہے کانھم جراد منتشر گویا وہ ٹڈیاں ہیں پھیلی ہوئیں پھر فرمایا پہاڑوں کا یہ حال ہو گا کہ وہ دھنی ہوئی اون کی طرح ادھر ادھر اڑتے نظر آئیں گے پھر فرماتا ہے اس دن ہر نیک و بد کا انجام ظاہر ہو جائے گا نیکوں پر چھا گئیں بھلائیوں کا پلڑا ہلکا ہو گا وہ جہنمی ہو جائے گا وہ منہ کے بل اوندھا جہنم میں گرا دیا جائے گا ام سے مراد دماغ ہے یعنی سر کے بل ہاویہ میں جائے گا اور یہ بھی معنی ہیں کہ فرشتے جہنم میں اسے کے سر پر عذابوں کی بارش برسائیں گے اور یہ بھی مطلب ہے کہ اس کا اصلی ٹھکانا وہ جگہ جہاں اس کے لیے قرار گاہ مقرر کیا گیا ہے وہ جہنم ہے ھاویہ جہنم کا نام ہے اسی لیے اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہیں نہیں معلوم کہ ہاویہ کیا ہے؟ اب میں بتاتا ہوں کہ وہ شعلے مارتی بھڑکتی ہوئی آگ ہے حضرت اشعث بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ مومن کی موت کے بعد اس کی روح کو ایمانداروں کی روحوں کی طرف لے جاتے ہیں اور فرشتے ان سے کہتے ہیں کہ اپنے بھائی کی دلجوئی اور تسکین کرو یہ دنیا کے رنج و غم میں مبتلا تھا اب وہ نیک روحیں اس سے پوچھتی ہیں کہ فلاں کا کیا حال ہے وہ کہتا ہے کہ وہ تو مر چکا تمہارے پاس نہیں آیا تو یہ سمجھ لیتے ہیں اور کہتے ہیں پھونکہ اسے وہ تو اپنی ماں ہاویہ میں پہنچا ابن مردویہ کی ایک مرفوع حدیث میں یہ بیان خوب سبط سے ہے اور ہم نے بھی اسے کتاب صفۃ النار میں وارد کیا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فضل و کرم سے اس آگ جہنم سے نجات دے آمین! پھر فرماتا ہے کہ وہ سخت تیز حرارت والی آگ ہے بڑے شعلے مارنے والی جھلسا دینے والی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں تمہاری یہ آگ تو اس کا سترھواں حصہ ہے لوگوں نے کہا حضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہلاکت کو تو یہی کافی ہے آپ نے فرمایا ہاں لیکن آتش دوزخ تو اس سے انہتر حصے تیز ہے صحیح بخاری میں یہ حدیث ہے اور اس میں یہ بھی ہے کہ ہر ایک حصہ اس آگ جیسا ہے مسند احمد میں بھی یہ روایت موجود ہے مسند کی ایک حدیث میں اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ یہ آگ باوجود اس آگ کا ستھواں حصہ ہونے کے بھی دو مرتبہ سمندر کے پانی میں بجھا کر بھیجی گئی ہے اگر یہ نہ ہوتا تو اس سے بھی نفع نہ اٹھا سکتے اور حدیث میں ہے یہ آگ سوواں حصہ ہے طبرانی میں ہے جانتے ہو کہ تمہاری اس آگ اور جہنم کی آگ کے درمیان کیا نسبت ہے؟ تمہاری اس آگ کے دھوئیں سے بھی ستر حصہ زیادہ سیاہ خود وہ آگ ہے ترمذی اور ابن ماجہ میں حدیث ہے کہ جہنم کی آگ ایک ہزار سال تک جلائی گئی تو سرخ ہوئی پھر ایک ہزار سال تک جلائی گئی تو سفید ہو گئی پھر ایک ہزار سال تک جلائی گئی تو سیاہ ہو گئی پس اب وہ سخت سیاہ اور بالکل اندھیرے والی ہے مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ سب سے ہلکے عذاب والا جہنمی وہ ہے جس کے پیروں میں آگ کی دو جوتیاں ہونگی جس سے اس کا دماغ کھدبدا رہا ہو گا بخاری و مسلم میں ہے کہ آگ نے اپنے رب سے شکایت کی کہ اے اللہ میرا ایک حصہ دوسرے کو کھائے جا رہا ہے تو پروردگار نے اسے دو سانس لینے کی اجازت دی ایک جاڑے میں ایک گرمی میں پس ست جاڑا جو تم پاتے ہو یہ اس کا سرد سانس ہے اور سخت گرمی جو پڑتی ہے یہ اس کے گرم سانس کا اثر ہے اور حدیث میں ہے کہ جب گرمی شدت کی پڑے تو نماز ٹھنڈی کر کے پڑھو گرمی کی سختی جہنم کے جوش کی وجہ سے ہے الحمد اللہ سورہ قارعہ کی تفسیر ختم ہوئی۔