تفسیر ابنِ کثیر

سُوۡرَةُ الجُمُعَة

صحیح مسلم شریف میں حضرت ابن عباس اور حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جمعہ کی نماز میں سورہ جمعہ اور سورہ منافقوں پڑھا کرتے تھے۔

 

۱

قرآن حکیم آفاقی کتاب ہدایت ہے

اور ہر جگہ بھی فرمایا ہے کہ کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی تسبیح اس کی حمد کے ساتھ نہ کرتی ہو تمام مخلوق خاہ آسمان کی ہو، خواہ زمین کی، اس کی تعریفوں اور پاکیزگیوں کے بیان میں مصروف و مشغول ہے، وہ آسمان و زمین کا بادشاہ اور ان دونوں میں اپنا پورا تصرف اور اٹل حکم جاری کرنے والا ہے، وہ تمام نقصانات سے پاک اور بے عیب ہے، تمام صفات کمالیہ کے ساتھ موصوف ہے، وہ عزیز و حکیم ہے۔ اس کی تفسیر کئی بار گزر چکی ہے۔ امیون سیم راد عرب ہیں۔ جیسے اور جگہ فرمان باری ہے۔ الخ، یعنی تو اہل کتاب اور ان پڑھ لوگوں سے کہہ دے کہ کیا تم نے اسلام قبول کیا؟ اور وہ مسلمان ہو جائیں تو وہ راہ راست پر ہیں اور اگر منہ پھیر لیں تو تجھ پر تو صرف پہنچا دینا ہے اور بندوں کی پوری دیکھ بھال کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ یہاں عرب کا ذکر کرنا اس لئے نہیں کہ غیر عرب کی نفی ہو بلکہ صرف اس لئے کہ ان پر احسان و اکرام بہ نسبت دوسروں کے بہت زیادہ ہے۔ جیسے اور جگہ ہے وانہ لذکر لک ولقومک یعنی یہ تیرے لئے بھی نصیحت ہے اور تیری قوم کے لئے بھی، یہاں بھی قوم کی خصوصیت نہیں کیونکہ قرآن کریم سب جہان والوں کے لئے نصیحت ہے اسی طرح اور جگہ فرمان ہے (ترجمہ) اپنے قرابت دار اور کنبہ والوں کو ڈرا دے، یہاں بھی یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ کی تنبیہ صرف اپنے گھر والوں کے ساتھ ہی مخصوص ہے بلکہ عام ہے، ارشاد باری ہے۔ (ترجمہ) لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں اور جگہ فرمان ہے (ترجمہ) یعنی اس کے ساتھ میں تمہیں خبردار کر دوں اور ہر اس شخص کو جسے یہ پہنچے، اسی طرح قرآن کی بات فرمایا (ترجمہ) تمام گروہ میں سے جو بھی اس کا انکار کرے وہ جہنمی ہے، اسی طرح کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں، جن سے صاف ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت روئے زمین کی طرف تھی، کل مخلوق کے آپ پیغمبر تھے، ہر سرخ و سیاہ کی طرف آپ نبی بنا کر بھیجے گئے تھے۔ (ترجمہ) سورہ انعام کی تفسیر میں اس کا پورا بیان ہم کر چکے ہیں اور بہت سی آیات و احادیث وہاں وارد کی ہیں فالحمد اللہ یہاں یہ فرمانا کہ ان پڑھوں یعنی عربوں میں اپنا رسول بھیجا اس لئے ہے کہ حضرت خلیل اللہ کی دعا کی قبولیت معلوم ہو جائے، آپ نے اہل مکہ کے لئے دعا ماگنی تھی کہ اللہ تعالیٰ ان میں ایک رسول ان ہی میں سے بھیجے جو انہیں اللہ کی آیتیں پڑھ کر سنائی، انہیں پاکیزگی سکھائے اور کتاب و حکمت کی تعلیم دے، پس اللہ تعالیٰ نے آپ کی یہ دعا قبول فرمائی اور جبکہ مخلوق کو نبی اللہ کی سخت حاجت تھی سوائے چند اہل کتاب کے جو حضرت عیسیٰ کے سچے دین پر قائم تھے اور افراط تفریط سے الگ تھی باقی تمام دنیا دین حق کو بھلا بیٹھی تھی اور اللہ کی نا مرضی کے کاموں میں مبتلا تھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو مبعوث فرمایا، آپ نے ان ان پڑھ کو اللہ کے کلام کی آیتیں پڑھ سنائیں انہیں پاکیزگی سکھائی اور کتاب و حکمت کا معلم بنا دیا حالانکہ اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں تھے، سنئے عرب حضرت ابراہیم کے دین کے دعویدار تھے لیکن حالت یہ تھی کہ اصل دین کو خورد برد کر چکے تھے اس میں اس قدر تبدل تغیر کر دیا تھا کہ توحید شرک سے اور یقین شک سے بدل چکا تھا ساتھ ہی بہت سی اپنی ایجاد کردہ بدعتیں دین اللہ میں شامل کر دی تھیں، اسی طرح اہل کتاب نے بھی اپنی کتابوں کو بدل دیا تھا ان میں تحریف کر لی تھی اور متغیر کر دیا تھا ساتھ ہی معنی میں بھی الٹ پھیر کر لیا تھا پس اللہ پاک نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو عظیم الشان شریعت اور کامل مکمل دین دے کر دنیا والوں کی طرف بھیجا کہ اس فساد کی آپ اصلاح کریں، اہل دنیا کو اصل احکام الٰہی پہنچائیں اللہ کی مرضی اور نا مرضی کے احکام لوگوں کو معلوم کرا دیں، جنت سے قریب کرنے والے عذاب سے نجات دلوانے والے تمام اعمال بتائیں، ساری مخلوق کے ہادی بنیں اصول و فروغق سب سکھائیں، کوئی چھوٹی بڑی بات باقی نہ چھوڑیں۔ تمام تر شکوک و شبہات سب کے دور کر دیں اور یاسے دین پر لگوں کو ڈال دیں جن میں ہر بھلائی موجود ہو، اس بلند و بالا خدمت کے لئے آپ میں وہ برتریاں اور بزرگیاں جمع کر دیں جمع کر دیں جو نہ آپ سے پہلے کسی میں تھیں نہ آپ کے بعد کسی میں ہو سکیں، اللہ تعالیٰ آپ پر ہمیشہ ہمیشہ درود و سلام نازل فرماتا رہے آمین! دوسری آیت کی تفسیر میں حضرت ابوہریرہ سے صحیح بخاری شریف میں مروی ہے کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ پر سورہ جمعہ نازل ہوئی جب آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی تو لوگوں نے پوچھا کہ اخرین منھم سے کیا مراد ہے تین مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال ہوا تب آپ نے اپنا ہاتھ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سر پر رکھا اور فرمایا اگر ایمان ثریا ستارے کے پاس ہوتا تو بھی ان لوگوں میں سے ایک یا کئی ایک پا لیتے۔ اس روایت سے معلوم ہوا کہ یہ سورت مدنی ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی پیغمبری تمام دنیا والوں کی طرف ہے صرف عرب کے لئے مخصوص نہیں کیونکہ آپ نے اس آیت کی تفسیم میں فارس والوں کو فرمایا۔ اسی عام بعثت کی بناء پر آپ نے فارس و روم کے بادشاہوں کے نام اسلام قبول کرنے کے فرامین بھیجے۔ حضرت مجاہد وغیرہ بھی فرماتے ہیں اس سے مراد عجمی لوگ ہیں یعنی رب کے سوا کے جو لوگ حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لائیں اور آپ کی وحی کی تصدیق کریں۔ ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے کہ اب سے تین تین پشتوں کے بعد آنے والے میرے امتی بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے، پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی۔ وہ اللہ عزت و حکمت والا ہے، اپنی شریعت اور اپنی تقدیر میں غالب با حکمت ہے، پھر فرمان ہے یہ اللہ کا فضل ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو ایسی زبردست عظیم الشان نبوت کے ساتھ سرفراز فرمانا اور اس امت کو اس فضل عظیم سے بہرہ ور کرنا، یہ خاص اللہ کا فضل ہے، اللہ اپنا فضل جسے چاہے دے، وہ بہت بڑے فضل و کرم والا ہے۔

 

۵

کتابوں کا بوجھ لادا گدھا اور بے عمل عالم

ان آیتوں میں یہودیوں کی مذمت بیان ہو رہی ہے کہ انہیں تورات دی کتابوں کا بوجھ لاد دیا جائے تو اسے یہ تو معلوم ہے کہ اس پر کوئی بوجھ ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ اس میں کیا ہے؟ اسی طرح یہود ہیں کہ ظاہری الفاظ تو خوب رٹے ہوئے ہیں لیکن نہ تو یہ معلوم ہے کہ مطلب کیا ہے؟ نہ اس پر ان کا عمل ہے بلکہ اور تبدیل و تحریف کرتے رہتے ہیں، پس در اصل یہ اس بے سمجھ جانور سے بھی بدترین، کیونکہ اسے تو قدرت نے سمجھ ہی نہیں دی لیکن یہ سمجھ رکھتے ہوئے پھر بھی اس کا استعمال نہیں کرتے۔ اسی لئے دوسری آیت میں فرمایا گیا ہے۔ (ترجمہ) یہ لوگ مثل چوپایوں کے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بہکے ہوئے، یہ غافل لوگ ہیں۔ یہاں فرمایا اللہ کیا آیتوں کے جھٹلانے والوں کی بری مثال ہے، ایسے ظالم اللہ کی رہنمائی سے محروم رہتے ہیں۔ مسند احمد میں ہے جو شخص جمعہ کے دن امام کے خطبہ کی حالت میں بات کرے، وہ مثل گدھے کے ہے جو کتابیں اٹھائے ہوئے ہو اور جو اسے کہے کہ چپ رہ اس کا بھی جمعہ جاتا رہا۔ پھر فرماتا ہے اے یہود! اگر تمہارا دعویٰ ہے کہ تم حق پر ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے اصحاب ناحق پر ہیں تو آؤ اور دعا مانگو کہ ہم دونوں میں سے جو حق پر نہ ہو اللہ اسے موت دے، پھر فرماتا ہے کہ انہوں نے جو اعمال آگے بھیج رکھے ہیں وہ ان کے سامنے ہیں مثلاً کفر فجور ظلم نافرمانی وغیرہ اس وجہ سے ہماری پیشین گوئی ہے کہ وہ اس پر آمادگی نہیں کریں گے، ان ظالموں کو اللہ بخوبی جانتا ہے۔ سورہ بقرہ کی آیت قل ان کانت الخ، کی تفسیر میں یہودیوں کے اس مباہلے کا پورا ذکر ہم کر چکے ہیں اور وہیں یہ بھی بیان کر دیا ہے کہ مراد یہ ہے کہ اپنے اوپر اگر خود گمراہ ہوں تو ان پر تو یا اپنے مقابل پر اگر وہ گمراہ ہوں موت کی بد دعا کریں، جیسے کہ نصرانیوں کے مباہلہ کا ذکر سورہ آل عمران میں گزر چکا ہے، ملاحظہ ہو تفسیر آیت فمن حاجک الخ، مشرکین سے بھی مباہلہ کا اعلان کیا گیا ملاحظہ ہو تفسیر سورہ مریم آیت قل من کان فی الضلالۃ الخ، یعنی اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم ان سے کہہ دے کہ جو گمراہی میں ہو رحمٰن اسے اور بڑھا دے۔ مسند احمد میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ ابوجہل لعنۃ اللہ علیہ نے کہا کہ اگر میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو کعبہ کے پاس دیکھوں گا تو اس کی گردن ناپوں گا جب یہ خبر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو پہنچی تو آپ نے فرمایا اگر یہ ایسا کرتا تو سب کے دیکھتے فرشتے اسے پکڑ لیتے اور اگر یہود میرے مقابلہ پر آ کر موت طلب کر تے تو یقیناً وہ مر جاتے اور اپنی جگہ جہنم میں دیکھ لیتے اور اگر مباہلہ کے لئے لوگ نکلتے تو وہ لوٹ کر اپنے اہل و مال کو ہرگز نہ پاتے۔ یہ حدیث بخاری ترمذی اور نسائی میں بھی موجود ہے، پھر فرماتا ہے موت سے تو کوئی بچ ہی نہیں سکتا، جیسے سورہ نساء میں ہے (ترجمہ) یعنی تم جہاں کہیں بھی ہو وہاں تمہیں موت پا ہی لے گی گو مضبوط محلوں میں ہو، معجم طبرانی کی ایک مرفوع حدیث میں ہے موت سے بھاگنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے ایک لومڑی ہو جس پر زمین کا کچھ قرض ہو وہ اس خوف سے کہ کہیں یہ مجھ سے مانگ نہ بیٹھے، بھاگے، بھاگتے بھاگتے جب تھک جائے تب اپنے بھٹ میں گھس جائے جہاں گھسی اور زمین نے پھر اس سے تقاضا کیا کہ لومڑی میرا قرض ادا کر دو پھر وہاں سے دم دبائے ہوئے تیزی سے بھاگی آخر یونہی بھاگتے بھاگتے ہلاک ہو گئی۔

 

۹

جمہ کا دن کیا ہے؟ اس کی اہمیت کیوں ہے؟

جمعہ کا لفظ جمع سے مشتق ہے، وجہ اشتقاق یہ ہے کہ اس دن مسلمان بڑی بڑی مساجد میں اللہ کی عبادت کے لئے جمع ہوتے ہیں اور یہ بھی وجہ ہے کہ اسی دن تمام مخلوق کامل ہوئی چھ دن میں ساری کائنات بنائی گئی ہے چھٹا دن جمعہ کا ہے اسی دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے، اسی دن جنت میں بسائے گئے اور اسی دن وہاں سے نکالے گئے، اسی دن میں قیامت قائم ہو گی، اس دن میں ایک ایسی ساعت ہے کہ اس وقت مسلمان بندہ اللہ تعالیٰ سے جو طلب کرے اللہ تعالیٰ اسے عنایت فرماتا ہے، جیسے کہ صحیح احادیث میں آیا ہے، ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت سلمان سے پوچھا جانتے ہو جمعہ کا دن کیا ہے؟ انہوں نے کہا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو زیادہ علم ہے۔ آپ نے فرمایا اسی دن تیرے ماں باپ (یعنی آدم و حوا) کو اللہ تعالیٰ نے جمع کیا۔ یا یوں فرمایا کہ تمہارے باپ کو جمع کیا۔ اسی طرح ایک موقوف حدیث میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے فاللہ اعلم، پہلے اسے یوم العروبہ کہا جاتا تھا، پہلی امتوں کو بھی ہر سات دن میں ایک دن دیا گیا تھا، لیکن جمعہ کی ہدایت انہیں نہ ہوئی، یہودیوں نے ہفتہ پسند کیا جس میں مخلوق کی پیدائش شروع بھی نہ ہوئی تھی، نصاریٰ نے اتوار اختیار کیا جس میں مخلوق کی پیدائش کی ابتدا ہوئی ہے اور اس امت کے لئے اللہ تعالیٰ نے جمعہ کو سند فرمایا جس دن اللہ تعالیٰ نے جمعہ کو پسند فرمایا جس دن اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پورا کیا تھا، جیسے صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ ہم دنیا میں آنے کے اعتبار سے تو سب کے پیچھے ہیں لیکن قیامت کے دن سب سے پہلے ہوں گے سوائے اس کے کہ انہیں ہم سے پہلے کتاب اللہ دی گئی، پھر ان کے اس دن میں انہوں نے اختلاف کیا اللہ تعالیٰ نے ہمیں راہ راست دکھائی پس لوگ اس میں بھی ہمارے پیچھے ہیں یہودی کل اور نصرانی پرسوں، مسلم میں اتنا اور بھی ہے کہ قیامت کے دن تمام مخلوق میں سب سے پہلے فیصلہ ہمارے بارے میں کیا جائے گا، یہاں اللہ تعالیٰ مومنوں کو جمعہ کے دن اپنی عبادت کے لئے جمع ہونے کا حکم دے رہا ہے، سعی سے مراد یہاں دوڑنا نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ ذکر اللہ یعنی نماز کے لئے قصد کرو چل پڑو کوشش کرو کام کاج چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہو جاؤ، جیسے اس آیت میں سعی کوشش کے معنی میں ہے ومن ارادالاخرۃ وسعی لھا سمیھا یعنی جو شخص آخرت کا ارادہ کرے پھر اس کے لئے کوشش بھی کرے، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود کی قرأت میں بجائے فاسمعوا کے فامضوا ہے، یہ یاد رہے کہ نماز کے لئے دوڑ کر جانا منع ہے۔ بخاری و مسلم میں ہے جب تم اقامت سنو تو نماز کیلئے سکینت اور وقار کے ساتھ چلو، دوڑو نہیں، جو پاؤ پڑھ لو، جو فوت ہو ادا کر لو۔ ایک اور روایت میں ہے کہ آپ نماز میں تھے کہ لوگوں کے پاؤں کی آہٹ زور زور سے سنی، فارغ ہو کر فرمایا کیا بات ہے؟ لوگوں نے کہا حضرت ہم جلدی جلدی نماز میں شامل ہوئے فرمایا ایسا نہ کرو نماز کو اطمینان کے ساتھ چل کر آؤ جو پاؤ پڑھ لو جو چھوٹ جائے پوری کر لو، حضرت حسن فرماتے ہیں اللہ کی قسم یہاں یہ حکم نہیں کہ دوڑ کر نماز کے لئے آؤ یہ تو منع ہے بلکہ مراد دل اور نیت اور خشوع خضوع ہے، حضرت قتادہ فرماتے ہیں اپنے دل اور اپنے عمل سے کوشش کرو، جیسے اور جگہ ہے فلما بلغ معہ السعی حضرت ذبیح اللہ جب خلیل اللہ کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہو گئے، جمعہ کے لئے آنے والے کو غسل بھی کرنا چاہئے، بخاری مسلم میں ہے کہ جب تم میں سے کوئی جمعہ کی نماز کے لئے جانے کا ارادہ کرے وہ غسل کر لیا کرے، اور حدیث میں ہے جمعہ کے دن کا غسل ہر بالغ پر واجب ہے اور روایت میں ہے کہ ہر بالغ پر ساتویں دن سر اور جسم کا دھونا ہے، صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ وہ دن جمعہ کا دن ہے، سنن اربعہ میں ہے جو شخص جمعہ کے دن اچھی طرح غسل کرے اور سویرے سے ہی مسجد کی طرف چل دے پیدل جائے سوار نہ ہو اور امام سے قریب ہو کر بیٹھے خطبے کو کان لگا کر سنے لغو کام نہ کرے تو اسے ہر ایک قدم کے بدلے سال بھر کے روزوں اور سال بھر کے قیام کا ثواب ہے، بخاری مسلم میں ہے جو شخص جمعہ کے دن جنابت کے غسل کی طرح غسل کرے، اول ساعت میں جائے اس نے گویا ایک اونٹ اللہ کی راہ میں قربان کیا دوسری ساعت میں جانے والا مثل گائے کی قربانی کرنے والے کے ہے، تیسری ساعت میں جانے والا مرغ راہ اللہ میں تصدق کرنے والے کی طرح ہے، پانچویں ساعت میں جانے والا انڈا راہ اللہ دینے والے جیسا ہے، پھر جب امام آئے فرشتے خطبہ سننے کے لئے حاضر ہو جاتے ہیں، مستحب ہے کہ جمعہ کے دن اپنی طاقت کے مطابق اچھا لباس پہنے خوشبو لگائے مسواک کرے اور صفائی اور پاکیزگی کے ساتھ جمعہ کی نماز کے لئے آئے، ایک حدیث میں غسل کے بیان کے ساتھ ہی مسواک کرنا اور خوشبو ملنا بھی ہے، مسند احمد میں ہے جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے اور اپنے گھر والوں کو خوشبو ملے اگر ہو اور اچھا لباس پہنے پھر مسجد میں آئے اور کچھ نوافل پڑھے اگر جی چاہے اور کسی کے ایذا نہ دے (یعنی گردنیں پھلانگ کر نہ آئے نہ کسی بیٹھے ہوئے کو ہٹائے) پھر جب امام آ جائے اور خطبہ شروع ہو خاموشی سے سنے تو اس کے گناہ جو اس جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک کے ہوں سب کا کفارہ ہو جاتا ہے، ابوداؤد اور ابن ماجہ میں ہے حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے منبر پر بیان فرماتے ہوئے سناکہ تم میں سے کسی پر کیا حرج ہے اگر وہ اپنے روز مرہ کے محنتی لباس کے علاوہ دو کپڑے خرید کر جمعہ کے لئے مخصوص رکھے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ فرمان اس وقت فرمایا جب لوگوں پر وہی معمولی چادریں دیکھیں تو فرمایا کہ اگر طاقت ہو تو ایسا کیوں نہ کر لو۔ جس اذان کا یہاں اس آیت میں ذکر ہے اس سے مراد وہ اذان ہے جو امام کے منبر پر بیٹھ جانے کے بعد ہوتی ہے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں یہی اذان تھی جب آپ گھر سے تشریف لاتے منبر پر جاتے اور آپ کے بیٹھ جانے کے بعد آپ کے سامنے یہ اذان ہوتی تھی، اس سے پہلے کی اذان حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں نہ تھی اسے امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صرف لوگوں کی کثرت کو دیکھ کر زیادہ کیا۔ صحیح بخاری شریف میں ہے نبی صلی اللہ علیہ و سلم، حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق کے زمانے میں جمعہ کی اذان صرف اسی وقت ہوتی تھی جب امام منبر پر خطبہ کہنے کے لئے بیٹھ جاتا، حضرت عثمان کے زمانے میں جب لوگ بہت زیادہ ہو گئے تو آپ نے دوسری اذان ایک الگ مکان پر کہلوائی زیادہ کی اس مکان کا نام زورا تھا مسجد سے قریب سب سے بلند یہی مکان تھا۔ حضرت مکحول سے ابن ابی حاتم میں روایت ہے کہ اذان صرف ایک ہی تھی جب امام آتا تھا اس کے بعد صرف تکبیر ہوتی تھی، جب نماز کھڑی ہونے لگے، اسی اذان کے وقت خرید و فروخت حرام ہوتی ہے، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے پہلے کی اذان کا حکم صرف اس لئے دیا تھا کہ لوگ جمع ہو جائیں۔ جمعہ میں آنے کا حکم آزاد مردوں کو ہے عورتوں، غلاموں اور بچوں کو نہیں، مسافر مریض اور تیمار دار اور ایسے ہی اور عذر والے بھی معذور گنے گئے ہیں جیسے کہ کتب فروغ میں اس کا ثبوت موجود ہے۔ پھر فرماتا ہے بیع کو چھوڑ دو یعنی ذکر اللہ کے لئے چل پڑو تجارت کو ترک کر دو، جب نماز جمعہ کی اذان ہو جائے علماء کرام رضی اللہ عنہم کا اتفاق ہے کہ اذان کے بعد خرید و فروخت حرام ہے، اس میں اختلاف ہے کہ دینے والا اگر دے تو وہ بھی صحیح ہے یا نہیں؟ ظاہر آیت سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی صحیح نہ ٹھہرے گا واللہ اعلم، پھر فرماتا ہے بیع کو چھوڑ کر ذکر اللہ اور نماز کی طرف تمہارا آنا ہی تمہارے حق میں دین دنیا کی بہتری کا باعث ہے اگر تم میں علم ہو۔ ہاں جب نماز سے فراغت ہو جائے تو اس مجمع سے چلے جانا اور اللہ کے فضل کی تلاش میں لگ جانا، تمہارے لئے حلال ہے۔ عراک بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ جمعہ کی نماز سے فارغ ہو کر لوٹ کر مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو جاتے اور یہ دعا پڑھتے (ترجمہ) یعنی اے اللہ میں نے تیری آواز پر حاضری دی اور تیری فرض کردہ نماز ادا کی پھر تیرے حکم کے مطابق اس مجمع سے اٹھ آیا، اب تو مجھے اپنا فضل نصیب فرما تو سب سے بہتر روزی رساں ہے (ابن ابی حاتم) اس آیت کو پیش نظر رکھ کر بعض سلف صالحین نے فرمایا ہے کہ جو شخص جمعہ کے دن نماز جمعہ کے بعد خرید و فروخت کرے اسے اللہ تعالیٰ ستر حصے زیادہ برکت دے گا۔ پھر فرماتا ہے کہ خرید فروخت کی حالت میں بھی ذکر اللہ کیا کرو دنیا کے نفع میں اس قدر مشغول نہ ہو جاؤ کہ آخروی نفع بھول بیٹھو۔ حدیث شریف میں ہے جو شخص کسی بازار جائے اور وہاں (ترجمہ) پڑھے اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک لاکھ نیکیاں لکھتا ہے اور ایک لاکھ برائیاں معاف فرماتا ہے۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں بندہ کثیر الذکر اسی وقت کہلاتا ہے جبکہ کھڑے بیٹھے لیٹے ہر وقت اللہ کی یاد کرتا رہے۔

 

۱۱

تجارت عبادت اور صلوٰۃ جمعہ

مدینہ میں جمعہ والے دن تجارتی مال کے آ جانے کی وجہ سے جو حضرات خطبہ چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے تھے، انہیں اللہ تعالیٰ عتاب کر رہا ہے کہ یہ لوگ جب کوئی تجارت یا کھیل تماشہ دیکھ لیتے ہیں تو اس کی طرف چل کھڑے ہوتے ہیں اور تجھے خطبہ میں ہی کھڑا چھوڑ دیتے ہیں، حضرت مقاتل بن حیان فرماتے ہیں یہ مال تجارت وحیہ بن خلیفہ کا تھا جمعہ والے دن آیا اور شہر میں خبر کے لئے طب بجنے لگا حضرت وحیہ اس وقت تک مسلمان نہ ہوئے تھے، طبل کی آواز سن کر سب لوگ اٹھ کھڑے ہوئے صرف چند آدمی رہ گئے، مسند احمد میں ہے صرف بارہ آدمی رہ گئے باقی لوگ اس تجارتی قافلہ کی طرف چل دیئے جس پر یہ آیت اتری۔ مسند ابو یعلی میں اتنا اور بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر وہ بھی باقی نہ رہتے اور سب کی طرف چل دیئے جس پر یہ آیت اتری۔ مسند ابویعلی میں اتنا اور بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر یہ بھی باقی نہ رہتے اور سب اٹھ کر چلے جاتے تو تم سب پر یہ وادی آگ بن کر بھڑک اٹھتی، جو لوگ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس سے نہیں گئے تھے، ان میں حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق عنہما بھی تھے، اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جمعہ کا خطبہ کھڑے ہو کر پڑھنا چاہئے، صحیح مسلم میں ہے نبی صلی اللہ علیہ و سلم جمعہ کے دن دو خطبے پڑھتے تھے درمیان میں بیٹھ جاتے تھے قرآن شریف پڑھتے تھے اور لوگوں کو تذکیر و نصیحت فرماتے تھے، یہاں یہ بات بھی معلوم رہنی چاہئے کہ یہ واقعہ بہ قول بعض کے اس وقت کا ہے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم جمعہ کی نماز کے بعد خطبہ پڑھا کرتے تھے۔ مراسیل ابو داؤد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خطبہ سے پہلے جمعہ کی نماز پڑھا کرتے تھے جیسے عیدین میں ہوتا ہے، یہاں تک کہ ایک مرتبہ آپ خطبہ سنا رہے تھے کہ ایک شخص نے آن کر کہا وحیہ بن خلیفہ مال تجارت لے کر آ گیا ہے، یہ سن کر سوائے چند لوگوں کے اور سب اٹھ کھڑے ہو گئے۔ پھر فرماتا ہے اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم انہیں خبر سنا دو کہ دار آخرت کا ثواب عند اللہ ہے وہ کھیل تماشوں سے خرید و فروخت سے بہت ہی بہتر ہے، اللہ پر توکل رکھ کر، طلب رزق اوقات اجازت میں جو کرے اللہ اسے بہترین طریق پر روزیاں دے گا۔ الحمد اللہ سورہ جمعہ کی تفسیر پوری ہوئی۔