تفسیر ابنِ کثیر

سُوۡرَةُ الفُرقان

۱

اللہ تعالیٰ ابن رحمت کا بیان فرماتا ہے تاکہ لوگوں  پر اس کی بزرگی عیاں  ہو جائے کہ اس نے اس پاک کلام کو اپنے بندے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل فرمایا ہے۔ سورۃ کہف کے شروع میں  بھی اپنی حمد اسی انداز سے بیان کی ہے یہاں  اپنی ذات کا بابرکت ہونا بیان فرمایا اور یہی وصف بیان کیا۔ یہاں  لفظ نزل فرمایا جس سے بار بار بکثرت اترنا ثابت ہوتا ہے۔ جیسے فرمان ہے والکتاب الذی نزل علی رسولہ والکتاب الذی انزل من قبل پس پہلی کتابوں  کو لفظ انزل سے اور اس آخر کتاب کو لفظ نزل سے تعبیر فرمانا ہے اسی لئے ہے کہ پہلی کتابیں  ایک ساتھ اترتی رہیں  اور قرآن کریم تھوڑا تھوڑا کر کے حسب ضرورت اترتا رہا کبھی کچھ آیتیں ، کبھی کچھ سورتیں  کبھی کچھ احکام۔ اس میں  ایک بڑی حکمت یہ بھی تھی کہ لوگوں  کو اس پر عمل کرنا مشکل نہ ہو اور خوب یاد ہو جائے اور مان لینے کے لئے دل کھل جائے۔ جیسے کہ سورت میں  فرمایا کیا ہے کہ کافروں  کا ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ قرآن کریم اس نبی پر ایک ساتھ کیوں  نہ اترا ؟ جواب دیا گیا ہے کہ اس طرح اس لئے اترا کہ اس کے ساتھ تیری دل جمعی رہے اور ہم نے ٹھہر ا ٹھہرا کر نازل فرمایا۔ یہ جو بھی بات بنائیں  گے ہم اس کا صحیح اور جچا تلا جواب دیں  جو خوب مفصل ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں  اس آیت میں  اس کا نام فرقان رکھا۔ اس لئے کہ یہ حق و باطل میں  ہدایت و  گمراہی میں  فرق کرنے والا ہے اس سے بھلائی برائی میں  حلال حرام میں  تمیز ہوتی ہے۔ قرآن کریم کی یہ پاک صفت بیان فرما کر جس پر قرآن اترا ان کی ایک پاک صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ خاص اس کی عبادت میں  لگے رہنے والے ہیں  اس کے مخلص بندے ہیں۔ یہ وصف سب سے اعلیٰ وصف ہے اسی لئے بڑی بڑی نعمتوں  کے بیان کے موقعہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یہی وصف بیان فرمایا گیا ہے۔ جیسے معراج کے موقعہ پر فرمایا سبحان الذی اسری بعبدہ اور جیسے اپنی خاص عبادت نماز کے موقعہ پر فرمایا وانہ لما قام عبد اللہ اور جب بندہ اللہ یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی عبادت کرنے کھڑے ہوتے ہیں  یہی وصف قرآن کریم کے اترنے اور آپ کے پاس بزرگ فرشتے کے آنے کے اکرام کے بیان کرنے کے موقعہ پر بیان فرمایا۔ پھر ارشاد ہوا کہ اس پاک کتاب کا آپ کی طرف اترنا اس لئے ہے کہ آپ تمام جہان کے لئے آگاہ کرنے والے بن جائیں ، ایسی کتاب جو سراسر حکمت و ہدایت والی ہے جو مفصل مبین اور محکم ہے جس کے آس پاس بھی باطل پھٹک نہیں  سکتا جو حکیم و حمید اللہ کی طرف سے اتاری ہوئی ہے۔ آپ اس کی تبلیغ دنیا بھر میں  کر دیں  ہر سرخ و سفید کو ہر دور و نزدیک والے کو اللہ کے عذابوں  سے ڈرا دیں ، جو بھی آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر ہے اس کی طرف آپ کی رسالت ہے۔ جیسے کہ خود حضور علیہ السلام کا فرمان ہے میں  تمام سرخ و سفید انسانوں  کی طرف بھیجا گیا ہوں  اور فرمان ہے مجھے پانچ باتیں  ایسی دی گئی ہیں  جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں  دی گئی تھیں  ان میں  سے ایک یہ ہے کہ ہر نبی اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا رہا لیکن میں  تمام دنیا کی طرف بھیجا گیا ہوں۔ خود قرآن میں  ہے قل یایہاالناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا اے نبی اعلان کر دو کہ اے دنیا کے لوگوں  میں  تم سب کی طرف اللہ کا پیغمبر ہوں۔ پھر فرمایا کہ مجھے رسول بنا کر بھیجنے والا مجھ پر یہ پاک کتاب اتارنے والا وہ اللہ ہے جو آسمان و زمین کا تنہا مالک ہے جو جس کام کرنا چاہے اسے کہہ دیتا ہے کہ ہو جا وہ اسی وقت ہو جاتا ہے۔ وہی مارتا اور جلاتا ہے اس کی کوئی اولاد نہیں  نہ اس کا کوئی شریک ہے ہر چیز اس کی مخلوق اور اس کی زیر پرورش ہے۔ سب کا خالق، مالک، رازق، معبود اور رب وہ ہی ہے۔ ہر چیز کا اندازہ مقرر کرنے والا اور تدبیر کرنے والا وہی ہے۔

 

۲

مشرکوں کی حالت

مشرکوں  کی جہالت بیان ہو رہی ہے کہ وہ خالق، مالک، قادر، مختار، بادشاہ کو چھوڑ کر ان کی عبادتیں  کرتے ہیں  جو ایک مچھر کا پر بھی نہیں  بنا سکتے بلکہ وہ خود اللہ کے بنائے ہوئے اور اسی کے پیدا کئے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو بھی کسی نفع نقصان کے پہنچانے کے مالک نہیں  چہ جائیکہ دوسرے کا بھلا کریں  یا دوسرے کا نقصان کریں۔ یا دوسری کوئی بات کر سکیں  وہ اپنی موت زیست کا یا دوبارہ جی اٹھنے کا بھی اختیار نہیں  رکھتے۔ پھر اپنی عبادت کرنے والوں  کی ان چیزوں  کے مالک وہ کیسے ہو جائیں  گے؟ بات یہی ہے کہ ان تمام کاموں  کا مالک اللہ ہی ہے، وہی جلاتا اور مارتا ہے، وہی اپنی تمام مخلوق کو قیامت کے دن نئے سرے سے پیدا کرے گا۔ اس پر یہ کام مشکل نہیں  ایک کا پیدا کرنا اور سب کو پیدا کرنا، ایک کو موت کے بعد زندہ کرنا اور سب کو کرنا اس پر یکساں  اور برابر ہے۔ ایک آنکھ جھپکانے میں  اس کا پورا ہو جاتا ہے صرف ایک آواز کے ساتھ تمام مری ہوئی مخلوق زندہ ہو کر اس کے سامنے ایک چٹیل میدان میں  کھڑی ہو جائے گی۔ اور آیت میں  فرمایا ہے صرف ایک دفعہ کی ایک عبادت ہے، اس کا چاہا ہوتا ہے اس کے چاہے بغیر کچھ بھی نہیں  ہوتا۔ وہ ماں  باپ سے، لڑکی لڑکوں  سے عدیل، وزیر و نظیر سے، شریک و سہیم سب سے پاک ہے۔ وہ احد ہے، صمد ہے، ولم یلدولم یولد ہے، اس کا کفو کوئی نہیں۔

 

۳

خود فریب مشرک

مشرکین ایک جہالت اوپر کی آیتوں  میں  بیان ہوئی۔ جو ذات الٰہی کی نسبت تھی۔ یہاں  دوسری جہالت بیان ہو رہی ہے جو ذات رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی نسبت ہم وہ کہتے ہیں  کہ اس قرآن کو تو اس نے اوروں  کی مدد سے خود ہی جھوٹ موٹ گھڑ لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ ان کا ظلم اور جھوٹ ہے جس کے باطل ہونے کا خود انہیں  بھی علم ہے۔ جو کچھ کہتے ہیں  وہ خود اپنی معلومات کے بھی خلاف کہتے ہیں۔ کبھی ہانک لگانے لگتے ہیں  کہ اگلی کتابوں  کے قصے اس نے لکھوا لئے ہیں  وہی صبح شام اس کی مجلس میں  پڑھے جا رہے ہیں۔ یہ جھوٹ ہے بھی وہ ہے جس میں  کسی کو شک نہ ہو سکے اس لئے کہ صرف اہل مکہ ہی نہیں  بلکہ دنیا جانتی ہے کہ ہمارے نبی امی تھے نہ لکھنا جانتے تھے نہ پڑھنا چالیس سال کی نبوت سے پہلے کی زندگی آپ نے انہی لوگوں  میں  گزر رہی تھی اور وہ اس طرح کہ اتنی مدت میں  ایک واقعہ بھی آپ کی زندگی کا یا اک لمحہ بھی ایسا نہ تھاجس پر انگلی اٹھا سکے ایک ایک وصف آپ کا وہ تھا جس پر زمانہ شیدا تھا جس پر اہل مکہ رشک کرتے تھے آپ کی عام مقبولیت اور محبوبیت بلند اخلاقی اور خوش معاملگی اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ ہر ایک دل میں  آپ کے لئے جگہ تھی۔ عام زبانیں  آپ کو محمد صلی اللہ علیہ و سلم امین کے پیارے خطب سے پکارتی تھیں  دنیا آپ کے قدموں  تلے آنکھیں  بچھاتی تھی۔ کو نسا دل تھا جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا گھر نہ ہو کون سی آنکھ تھی جس میں  احمد صلی اللہ علیہ و سلم کی عزت نہ ہو؟ کون سا مجمع تھا جس کا ذکر خیر نہ ہو؟ کون وہ شخص تھا جو آپ کی بزرگی صداقت امانت نیکی اور بھلائی کا قائل نہ ہو ؟ پھر جب کہ اللہ کی بلند ترین عزت سے آپ معزز کئے گئے آسمانی وحی کے آپ امین بنائے گئے تو صرف باپ دادوں  کی روش کو پامال ہوتے ہوئے دیکھ کر یہ بے وقوف بے پیندے لوٹے کی طرح لڑھک گئے تھالی کے بینگن کی طرح ادھر سے ادھر ہو گئے، لگے باتیں  بنانے، اور عیب جوئی کرنے لیکن جھوٹ کے پاؤں  کہاں  ؟ کبھی آپ کو شاعر کہتے، کبھی ساحر، کبھی مجنوں  اور کبھی کذاب،حیران تھے کہ کیا کہیں  اور کس طرح اپنی جاہلانہ روش کو باقی رکھیں  اور اپنے معبودان باطل کے جھنڈے اوندھے نہ ہونے دیں  اور کس طرح ظلم کدہ دنیا کو نور الٰہی سے نہ جگمگانے دیں  ؟ اب انہیں  جواب ملتا ہے کہ قرآن کی سچی حقائق پہ مبنی اور سچی خبریں  اللہ کی دی ہوئی ہیں  جو عالم الغیب ہے، جس سے ایک ذرہ بھی پوشیدہ نہیں۔ اس میں  ماضی کے بیان سبھی سچ ہیں۔ جو آئندہ کی خبر اس میں  ہے وہ بھی سچ ہے اللہ کے سامنے ہو چکی ہوئی اور ہونے والی بات یکساں  ہے۔ وہ غیب کو بھی اسی طرح جانتا ہے جس طرح ظاہر کو۔ اس کے بعد اپنی شان غفاریت کو اور شان رحم و کرم کو بیان فرمایا تاکہ بد لوگ بھی اس سے مایوس نہ ہوں  کچھ بھی کیا ہو۔ اب بھی اس کی طرف جھک جائیں۔ توبہ کریں۔ اپنے کئے پر پچھتائیں۔ نادم ہوں۔ اور رب کی رضا چاہیں۔ رحمت رحیم کے قربان جائیے کہ ایسے سرکش و دشمن، اللہ و رسول پر بہتان باز، اس قدر ایذائیں  دینے والے لوگوں  کو بھی اپنی عام رحمت کی دعوت دیتا ہے اور اپنے کرم کی طرف انہیں  بلاتا ہے۔ وہ اللہ کو برا کہیں ، وہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو برا کہیں ، وہ کلام اللہ پر باتیں  بنائیں  اور اللہ تعالیٰ انہیں  اپنی رحمت کی طرف رہنمائی کرے اپنے فضل و کرم کی طرف دعوت دے۔ اسلام اور ہدایت ان پر پیش کرے اپنی بھلی باتیں  ان کو سمجھائے اور سمجھائے۔ چنانچہ اور آیت میں  عیسائیوں  کی تثلیث پرستی کا ذکر کر کے ان کی سزا کا بیان کرتے ہوئے فرمایا افلا یتوبون الی اللہ ویستغفرون ہواللہ غفور رحیم یہ لوگ کیوں  اللہ سے توبہ نہیں  کرتے ؟ اور کیوں  اس کی طرف جھک کر اس سے اپنے گناہوں  کی معافی طلب نہیں  کرتے ؟ وہ تو بڑا ہی بخشنے والا اور بہت ہی مہربان ہے۔ مومنوں  کو ستانے اور انہیں  فتنے میں  ڈالنے والوں  کا ذکر کر کے سورۃ بروج میں  فرمایا کہ اگر ایسے لوگ بھی توبہ کر لیں  اپنے برے کاموں  سے ہٹ جائیں ، باز آئیں  تو میں  بھی ان پر سے اپنے عذاب ہٹا لوں  گا اور رحمتوں  سے نواز دوں گا۔ امام حسن بصری رحمۃاللہ علیہ نے کیسے مزے کی بات بیان فرمائی ہے۔ آپ فرماتے ہیں  اللہ کے رحم و کرم کو دیکھو یہ لوگ اس کے نیک چہیتے بندوں  کو ستائیں  ماریں  قتل کریں  اور وہ انہیں  توبہ کی طرف اور اپنے رحم و کرم کی طرف بلائے ! فسبحانہ مااعظم شانہٗ

 

۷

مشرکین کی حماقتیں

اس حماقت کو ملاحظہ فرمائیے کہ رسول کی رسالت کی انکار کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں  کہ یہ کھانے پینے کا محتاج کیوں  ہے ؟ اور بازاروں  میں  تجارت اور لین دین کے لئے آتا جاتا کیوں  ہے ؟ اس کے ساتھ ہی کوئی فرشتہ کیوں  نہیں  اتارا گیا ؟ کہ وہ اس کے دعوے کی تصدیق کرتا اور لوگوں  کو اس کے دین کی طرف بلاتا اور عذاب الٰہی سے آگاہ کرتا۔ فرعون نے بھی یہی کہا تھا کہ فلو لا القی علیہ اسوۃ من ذہب الخ، اس پر سونے کے کنگن کیوں  نہیں  ڈالے گئے ؟ یا اس کی مدد کے لئے آسمان سے فرشتے کیوں  نہیں  اتارے گئے۔ چونکہ دل ان تمام کافروں  کے یکساں  ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے کے کفار نے بھی کہا کہ اچھا یہ نہیں  تو اسے کوئی خزانہ ہی دے دیا جاتا کہ یہ خود بہ آرام اپنی زندگی بسر کرتا اور دوسروں  کو بھی آسان ہے لیکن سر دست ان سب چیزوں  کے نہ دینے میں  بھی حکمت ہے۔ یہ ظالم مسلمانوں  کو بھی بہکاتے ہیں  اور کہتے ہیں  کہ تم ایک ایسے شخص کے پیچھے لگ لئے ہو جس پر کسی نے جادو کر دیا ہے۔ دیکھو تو سہی کہ کیسی بے بنیاد باتیں  بناتے ہیں ، کسی ایک بات پر جم ہی نہیں  سکتے، ادھر ادھر کروٹیں  لے رہے ہیں  کبھی جادوگر کہہ دیا تو کبھی جادو کیا ہوا بتا دیا، کبھی شعر کہہ دیا کبھی جن کا سکھایا ہوا کہہ دیا، کبھی کذاب کہا کبھی مجنون۔ حالانکہ یہ سب باتیں  محض غلط ہیں  اور ان کا غلط ہونا اس سے بھی واضح ہے کہ خود ان میں  تضاد ہے کسی ایک بات پر خود ان مشرکین کا اعتماد نہیں۔ گھڑتے ہیں  پھر چھوڑتے ہیں  پھر گھڑتے ہیں  پھر بدلتے ہیں  کسی ٹھیک بات پر جمتے ہی نہیں۔ جدھر متوجہ ہوتے ہیں  راہ بھولتے اور ٹھوکر کھاتے ہیں۔ حق تو ایک ہوتا ہے اس میں  تضاد اور تعارض نہیں  ہو سکتا۔ ناممکن ہے کہ یہ لوگ ان بھول بھلیوں  سے نکال سکیں۔ بیشک اگر رب چاہے تو جو یہ کافر کہتے ہیں  اس سے بہتر اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دنیا میں  ہی دے دے وہ بڑی برکتوں  والا ہے۔ پتھر سے بنے ہوئے گھر کو عرب قصر کہتے ہیں  خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا ہو۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے تو جناب باری تعالیٰ کی جانب سے فرمایا اور جواب دیا کہہ اگر آپ چاہیں  تو زمین کے خزانے اور یہاں  کی کنجیاں  آپ کو دے دی جائیں  اور اس قدر دنیا کا مالک بنا کر دیا جائے کہ کسی اور کو اتنی ملی نہ ہو ساتھ ہی آخرت کی آپ کی تمام نعمتیں  جوں  کی توں  برقرار ہیں  لیکن آپ نے اسے پسند نہ فرمایا اور جواب دیا کہ نہیں  میرے لئے تو سب کچھ آخرت ہی میں  جمع ہو۔ پھر فرماتا ہے کہ یہ جو کچھ کہتے ہیں  یہ صرف تکبر، عناد، ضد اور ہٹ کے طور پر کہتے ہیں  یہ نہیں  کہ ان کا کہا ہوا ہو جائے تو یہ مسلمان ہو جائیں  گے۔ اس وقت پھر اور کچھ حیلہ بہانہ ٹٹول نکالیں  گے۔ ان کے دل میں  تو یہ خیال جما ہوا ہے کہ قیامت ہونے کی نہیں۔ اور ایسے لوگوں  کے لیے ہم نے بھی عذاب الیم تیار کر رکھا ہے جو ان کے دل کی برداشت سے باہر ہے جو بھڑکانے اور سلگانے والی جھلس دینے والی تیز آگ کا ہے۔ ابھی تو جہنم ان سے سو سال کے فاصلے پر ہو گی جب ان کی نظریں  اس پر اور اور اس کی نگاہیں  ان پر پڑیں  گی وہیں  جہنم پیچ و تاب کھائے گی اور جوش و خروش سے آوازیں  نکالے گا۔ جسے یہ بدنصیب سن لیں  گے اور ان کے ہوش و حواس خطا ہو جائیں  گے، ہوش جاتے رہے گے، ہاتھوں  کے طوطے اڑ جائیں  گے، جہنم ان بدکاروں  پر دانت پیس رہی ہو گی کہ ابھی ابھی مارے جوش کے پھٹ پڑے گی۔ ابن ابی حاتم میں  ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص میرا نام لے کر میرے ذمے وہ بات کہے جو میں  نے نہ کہی ہو وہ جہنم کی دونوں  آنکھوں  کے درمیان اپنا ٹھکانا بنا لے۔ لوگوں  نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیا جہنم کی بھی آنکھیں  ہیں  ؟ آپ نے فرمایا ہاں  کیا تم نے اللہ کے کلام کی یہ آیت نہیں  سنی اذا راتہم من مکان بعید الخ، ایک مرتبہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ربیع وغیرہ کو ساتھ لئے ہوئے کہیں  جا رہے تھے راستے میں  لوہار کی دکان آئی آپ وہاں  ٹھہر گے اور لوہا جو آگ میں  تپایا جا رہا تھا اسے دیکھنے لگے حضرت ربیع کا تو برا حال ہو گیا عذاب الٰہی کا نقشہ آنکھوں  تلے پھر گیا۔ قریب تھا کہ بیہوش ہو کر گر پڑیں۔ اس کے بعد آپ فرات کے کنارے گئے وہاں  آپ نے تنور کو دیکھا کہ اس کے بیچ میں  آگ شعلے مار رہی ہے۔ بے ساختہ آپ کی زبان سے یہ آیت نکل گئی اسے سنتے ہی حضرت ربیع بے ہوش ہو کر گر پڑے چار پائی پر ڈال کر آپ کو گھر پہنچایا گیا صبح سے لے کر دوپہر تک حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے پاس بیٹھے رہے اور چارہ جوئی کرتے رہے لیکن حضرت ربیع کو ہوش نہ آیا۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جب جہنمی کو جہنم کی طرف گھسیٹا جائے گا جہنم چیخے گی اور ایک ایسی جھر جھری لے گی کہ کل اہل محشر خوف زدہ ہو جائیں  گے۔ اور روایت میں  ہے کہ بعض لوگوں  کو جب دوزخ کی طرف لے چلیں  گے دوزخ سمٹ جائے گی۔ اللہ تعالیٰ مالک و رحمن اس سے پوچھے گا یہ کیا بات ہے ؟ وہ جواب دے گی کہ اے اللہ یہ تو اپنی دعاؤں  میں  تجھ سے جہنم سے پناہ مانگا کرتا تھا، آج بھی پناہ مانگ رہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا پھر تم کیا سمجھ رہے تھے ؟ یہ کہیں  گے یہی کہ تیری رحمت ہمیں  چھپا لے گی، تیرا کرم ہمارے شامل حال ہو گا، تیری وسیع رحمت ہمیں  اپنے دامن میں  لے لے گی۔ اللہ تعالیٰ ان کی آرزو بھی پوری کرے گا اور حکم دے گا کہ میرے ان بندوں  کو بھی چھوڑ دو۔ کچھ اور لوگ گھسیٹتے ہوئے آئیں  گے انہیں  دیکھتے ہی جہنم ان کی طرف شور مچاتی ہوئی بڑھے گی اور اس طرح جھر جھری لے گی کہ تمام مجمع محشر خوفزدہ ہو جائے گا۔ حضرت عبید بن عمیر فرماتے ہیں  کہ جب جہنم مارے غصے کے تھرتھرائے گی اور شور و غل اور چیخ پکار اور جوش و خروش کرے گی اس وقت تمام مقرب فرشتے اور ذی رتبہ انبیاء کانپنے لگیں  گے یہاں  تک خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی اپنے گھٹنوں  کے بل گر پڑیں  گے اور کہنے لگے اے اللہ میں  آج تجھ سے صرف اپنی جان کا بچاؤ چاہتا ہوں   اور کچھ نہیں  مانگتا۔ یہ لوگ جہنم کے ایسے تنگ و تاریک مکان میں  ٹھوس دیئے جائیں  گے جیسے بھالا کسی سوراخ میں  اور روایت میں  حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے اس آیت کی بابت سوال ہونا اور آپ کا یہ فرمانا مروی ہے کہ جیسے کیل دیوار میں  بمشکل گاڑی جاتی ہے اس طرح ان دوزخیوں  کو ٹھونسا جائے گا۔ یہ اس وقت خوب جکڑے ہوئے ہوں گے بال بال بندھا ہوا ہو گا۔ وہاں  وہ موت کو فوت کو ہلاکت کو حسرت کو پکارنے لگیں  گے۔ ان سے کہا جائے ایک موت کو کیوں  پکارتے ہو؟ صدہا ہزارہا موتوں  کو کیوں  نہیں  پکارتے ؟ مسند احمد میں  ہے سب سے پہلے ابلیس کو جہنمی لباس پہنایا جائے گا یہ اسے اپنی پیشانی پر رکھ کر پیچھے سے گھسیٹتا ہوا اپنی ذریت کو پیچھے لگائے ہوئے موت و ہلاکت کو پکارتا ہوا دوڑتا پھرے گا۔ اس کے ساتھ ہی اس کی اولاد بھی سب حسرت و افسوس، موت و غارت کو پکار رہی ہو گی۔ اس وقت ان سے یہ کہا جائے گا۔ ثبور سے مراد موت، ویل، حسرت، خسارہ، بربادی وغیرہ ہے۔ جیسے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے کہا تھا وانی لاظنک یافرعون مثبورا فرعون میں  تو سمجھتا ہوں  کہ تو مٹ کر برباد ہو کر ہی رہے گا۔ شاعر بھی لفظ ثبور کو ہلاکت و بربادی کے معنی میں  لائے ہیں  

 

۱۵

ابدی لذتیں اور مسرتیں

اوپر بیان فرمایا ان بدکاروں  کا جو ذلت و خواری کے ساتھ اوندھے منہ جہنم کی طرف گھسیٹے جائیں  گے اور سر کے بل وہاں  پھینک دئیے جائیں  گے۔ بندھے بندھائے ہوں  گے اور تنگ و تاریک جگہ ہوں  گے، نہ چھوٹ سکیں  نہ حرکت کر سکیں ، نہ بھاگ سکیں  نہ نکل سکیں۔ پھر فرماتا ہے بتاؤ یہ اچھے ہیں  یاوہ؟ جو دنیا میں  گناہوں  سے بجتے رہے اللہ کا ڈر دل میں  رکھتے رہے اور آج اس کے بدلے اپنے اصلی ٹھکانے پہنچ گئے یعنی جنت میں  جہاں  من مانی نعمتیں  ابدی لذتیں  دائمی مسرتیں  ان کے لئے موجود ہیں  عمدہ کھانے، اچھے بچھونے، بہترین سواریاں ، بڑ تکلف لباس بہتر بہتر مکانات، بنی سنوری پاکیزہ حوریں ، راحت افزا منظر، ان کے لئے مہیا ہیں  جہاں  تک کسی کی نگاہیں  تو کہاں  خیالات بھی نہیں  پہنچ سکتے۔ نہ ان راحتوں  کے بیانات کسی کان میں  پہنچے۔ پھر ان کے کم ہو جانے، خراب ہو جانے، ٹوٹ جانے، ختم ہو جانے، کا بھی کوئی خطرہ نہیں  اور نہ ہی وہاں  سے نکالے جائیں  نہ وہ نعمتیں  کم ہوں۔ لازوال، بہترین زندگی، ابدی رحمت، دوامی کی دولت انہیں  مل گئی اور ان کی ہو گئی۔ یہ رب کا احسان و انعام ہے جو ان پر ہوا اور جس کے یہ مستحق تھے۔ رب کا وعدہ ہے جو اس نے اپنے ذمے کر لیا ہے جو ہو کر رہنے والا ہے جس کا عدم ایفا ناممکن ہے، جس کا غلط ہونا محال ہے۔ اس سے اس کے وعدے کے پورا کرنے کا سوال کرو، اس سے جنت طلب کرو، اسے اس کا وعدہ یاد دلاؤ۔ یہ بھی اس کا فضل ہے کہ اس کے فرشتے اس سے دعائیں  کرتے رہتے ہیں  کہ رب العالمین مومن بندوں  سے جو تیرا وعدہ ہے اسے پورا کر اور انہیں  جنت عدن میں  لے جا۔ قیامت کے دن مومن کہیں  گے کہ اے ہمارے پروردگار تیرے وعدے کو سامنے رکھ کر ہم عمل کرتے رہے آج تو اپنا وعدہ پورا کر۔ یہاں  پہلے دوزخیوں  کا ذکر کر کے پھر سوال کے بعد جنتیوں  کا ذکر ہوا۔ سورہ صافات میں  جنتیوں  کا ذکر کر کے پھر سوال کے بعد دوزخیوں  کا ذکر ہوا کہ کیا یہی بہتر ہے یا زقوم کا درخت ؟ جسے ہم نے ظالموں  کے لئے فتنہ بنا رکھا ہے جو جہنم کی جڑ سے نکلتا ہے جس کے پھل ایسے بدنما ہیں  جیسے سانپ کے پھن دوزخی اسے کھائیں  گے اور اسی سے پیٹ بھرنا پڑے گا پھر کھولتا ہوا گرم پانی پیپ وغیرہ ملا جلا پینے کو دیا جائے گا پھر ان کا ٹھکانہ جہنم ہو گا۔ انہوں  نے اپنے پاپ دادوں  کو گمراہ پایا اور بے تحاشا ان کے پیچھے لپکنا شروع کر دیا

 

۱۷

عیسیٰ علیہ السلام سے سوالات

بیان ہو رہا ہے کہ مشرک جن جن کی عبادتیں  اللہ کے سوا کرتے رہے قیامت کے دن انہیں  ان کے سامنے ان پر عذاب کے علاوہ زبانی سرزنش بھی کی جائے گی تاکہ وہ نادم ہوں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت عزیر علیہ السلام اور فرشتے جن جن کی عبادت ہوئی تھی سب موجود ہوں  گے اور ان کے عابد بھی۔ سب اسی مجمع میں  موجود ہوں  گے۔ اس وقت اللہ تبارک و تعالیٰ ان معبودوں  سے دریافت فرمائے گا کہ کیا تم نے میرے ان بندوں  سے اپنی عبادت کرنے کو کہا تھا؟ یا یہ از ایسا کرنے لگے ؟ چنانچہ اور آیت میں  ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بھی یہی سوال ہو گا۔ جس کا وہ جواب دیں  گے کہ میں  نے انہیں  ہرگز اس بات کی تعلیم نہیں  دی یہ جیسا کہ تجھ پر خوب روشن ہے میں  نے تو انہیں  وہی کہا تھا جو تو نے مجھ سے کہا تھا کہ عبادت کے لائق فقط اللہ ہی ہے۔ یہ سب معبود جو اللہ کے سوا تھے اور اللہ کے سچے بندے تھے اور شرک سے بیزار تھے جواب دیں  گے کہ کسی مخلوق کو ہم کو یا ان کو یہ لائق ہی نہ تھا کہ تیرے سوا کسی اور کی عبادت کریں  ہم نے ہرگز انہیں  اس شرک کی تعلیم نہیں  دی۔ خود ہی انہوں  نے اپنی خوشی سے دوسروں  کی پوجا شروع کر دی تھی ہم ان سے اور ان کی عبادتوں  سے بیزار ہیں۔ ہم ان کے اس شرک سے بری الذمہ ہیں۔ ہم تو خود تیرے عابد ہیں۔ پھر کیسے ممکن تھا کہ معبودیت کے منصب پر آ جاتے ؟ یہ تو ہمارے لائق ہی نہ تھا، تیری ذات اس سے بہت پاک اور برتر ہم کہ کوئی تیرا شریک ہو۔ چنانچہ اور آیت میں  صرف فرشتوں  سے اس سوال جواب کا ہونا بھی بیان ہوا ہے۔ نتخذ کی دوسری قرأت نتخذ بھی ہے یعنی ہی کسی طرح نہیں  ہو سکتا تھا، نہ یہ ہمارے لائق تھا کہ لوگ ہمیں  پوجنے لگیں  اور تیری عبادت چھوڑ دیں۔ کیونکہ ہم تو خود تیرے بندے ہیں ، تیرے در کے بھکاری ہیں۔ مطلب دونوں  صورتوں  میں  قریب قریب ایک ہی ہے۔ ان کے بہکنے کی وجہ ہماری سمجھ میں  تو یہ آتی ہے کہ انہیں  عمریں  ملیں ، ہی بہت کھانے پینے کو ملتا رہا بد مستی میں  بڑھتے گئے یہاں  تک کہ جو نصیحت رسولوں  کی معرفت پہنچی تھی اسے بھلا دیا۔ تیری عبادت سے اور سچی توحید سے ہٹ گئے۔ یہ لوگ تھے یہ بے خبر، ہلاکت کے گڑھے میں  گر پڑے۔ تباہ و برباد ہو گئے بورا سے مطلب ہلاک والے ہی ہیں۔ جیسے ابن زبعری نے اپنے شعر میں  اس لفظ کو اس معنی میں  باندھا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ ان مشرکوں  سے فرمائے گا لو اب تو تمہارے یہ معبود خود تمہیں  جھٹلا رہے ہیں  تم تو انہیں  اپنا سمجھ کر اس خیال سے کہ یہ تمہیں  اللہ کے مقرب بنا دیں  گے ان کی پوجا پاٹ کرتے رہے، آج یہ تم سے کوسوں  دور بھاگ رہے ہیں  تم سے یکسو ہو رہے ہیں  اور بیزاری ظاہر کر رہے ہیں۔ جیسے ارشاد ہے ومن اضل ممن یدعوا من دون اللہ الخ، یعنی اس سے زیادہ گمراہ کون ہے جو اللہ کے سوا ایسوں  کو پکارتا ہے جو قیامت تک اس کی چاہت پوری نہ کر سکیں  بلکہ وہ تو ان کی دعا سے محض غافل ہیں  اور محشر والے دن یہ سب ان سب کے دشمن ہو جائیں  گے اور ان کی عبادتوں  کے صاف منکر ہو جائیں  گے۔ پس قیامت کے دن یہ مشرکین نہ تو اپنی جانوں  سے عذاب اللہ ہٹا سکیں  گے اور نہ اپنی مدد کر سکیں  گے نہ کسی کو اپنا مددگار پائیں  گے۔ تم میں  سے جو بھی اللہ واحد کے ساتھ شرک کرے ہم اسے زبردست اور نہایت سخت عذاب کریں  گے

 

۲۰

کافر جو اس بات پر اعتراض کرتے تھے کہ نبی کو کھانے پینے اور تجارت بیوپار سے کیا مطلب ؟ اس کا جواب ہو رہا ہے کہ اگلے سب پیغمبر بھی انسانی ضرورتیں  بھی رکھتے تھے کھانا پینا ان کے ساتھ بھی لگا ہوا تھا۔ بیوپار، تجارت اور کسب معاش وہ بھی کیا کرتے تھے یہ چیزیں  نبوت کے خلاف نہیں۔ ہاں  اللہ تعالیٰ عز و جل اپنی عنایت خاص سے انہیں  وہ پاکیزہ اوصاف نیک خصائل عمدہ اقوال مختار افعال ظاہر دلیلیں  اعلیٰ معجزے دیتا ہے کہ ہر عقل سلیم والا ہر دانا بینا مجبور ہو جاتا ہے کہ ان کی نبوت کو تسلیم کر لے اور ان کی سچائی کو مان لے۔ اسی آیت جیسی اور آیت وما ارسلنا من قبلک الارجالا الخ، ہے۔ یعنی تجھ سے پہلے بھی جتنے نبی آئے سب شہروں  میں  رہنے والے انسان ہی تھے۔ اور آیت میں  ہے۔ وما جعلنا ہم جسدا لا یاکلون الطعام الغ، ہم نے انہیں  ایسے جثے نہیں  بنائے تھے کہ کھانے پینے سے وہ آزاد ہوں۔ ہم تو تم میں  سے ایک ایک کی آزمائش ایک ایک سے کر لیا کرتے ہیں  تاکہ فرمانبردار اور نافرمان ظاہر ہو جائیں۔ صابر اور غیر صابر معلوم ہو جائیں۔ تیرا رب دانا و بینا ہے خوب جانتا ہے کہ مستحق نبوت کون ہے ؟ جیسے فرمایا اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ منصب رسالت کی اہلیت کس کی میں  ہے ظ اسے اللہ ہی بخوبی جانتا ہے۔ اسی کو اس کا علم ہے کہ مستحق ہدایت کون ہیں  ؟ اور کون نہیں  ؟ چونکہ اللہ کا ارادہ بندوں  کا امتحان لینے کا ہے اس لئے نبیوں  کو عموماً معمولی حالت میں  رکھتا ہے ورنہ اگر انہیں  بکثرت دنیا دیتا ہے تو ان کے مال کے لالچ میں  بہت سے ان کے ساتھ ہو جاتے ہیں  تو پھر سچے جھوٹے مل جاتے۔ صحیح مسلم شریف میں  ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں  کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں  خود تجھے اور تیری وجہ سے اور لوگوں  کو آزمانے والا ہوں۔ مسند میں  ہے آپ فرماتے ہیں  اگر میں  چاہتا تو میرے ساتھ سونے چاندی کے پہاڑ چلتے رہتے اور صحیح حدیث شریف میں  ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو نبی اور بادشاہ بننے میں  اور نبی بننے میں  اختیار دیا گیا ہے تو آپ نے بندہ اور نبی بننا پسند فرمایا۔ فصلوات اللہ وسلامہ علیہ وعلی الہ واصحابہ اجمعین

 

۲۱

تصدیق نبوت کے لئے احمقانہ شرائط

کافر لوگ انکار نبوت کا ایک بہانہ یہ بھی بناتے تھے کہ اگر اللہ کو کوئی رسول بھیجنا ہی تھا کو کسی فرشتے کو کیوں  نہ بھیجا ؟ چنانچہ اور آیت میں  ہے کہ وہ ایک بہانہ یہ بھی کرتے تھے لن نومن حتی نوتی مثل ما اوتی رسل اللہ یعنی جب تک خود ہمیں  وہ نہ دیا جائے جو رسولوں  کو دیا گیا ہم ہرگز ایمان نہ لائیں  گے۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح نبیوں  کے پاس اللہ کی طرف سے فرشتہ وحی لے کر آتا ہے ہمارے پاس بھی آئے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کا مطالبہ یہ ہو کہ فرشتوں  کو دیکھ لیں۔ خود فرشتے آ کر ہمیں  سمجھائیں  اور انحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت کی تصدیق کریں  تو ہم آپ کو بنی مان لیں  گے۔ جیسے اور آیت میں  ہے کہ کفار نے کہا اوتاتی باللہ والملائکتہ قبیلا یعنی تو اللہ کو لے آ فرشتوں  کو بنفس نفیس ہمارے پاس لے آ۔ اس کی پوری تفسیر سورۃ سبحان میں  گزر چکی ہے۔ یہاں  بھی ان کا یہی مطالبہ بیان ہوا ہے کہ یا تو ہمارے اوپر فرشتے اتریں  یا ہم اپنے رب کو دیکھ لیں۔ یہ بات اس لئے ان کے منہ سے نکلی کہ یہ اپنے ّآپ کو بہت کچھ سمجھنے لگے تھے اور ان کو غرور حد سے بڑھ گیا تھا۔ ان کی ایمان لانے کی نیت نہ تھی۔ جیسے فرمان ہے ولا اننا نزلنا الیہم الملائکۃ الخ، یعنی اگر ہم ان فرشتوں  کو بھی اتارتے اور ان سے مردے باتیں  کرتے، اس قسم کی اور بھی تمام چیزیں  ہم ان کے سامنے کر دیتے جب بھی انہی ایمان لانا نصیب نہ ہوتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فرشتوں  کو یہ دیکھیں  گے لیکن اس وقت ان کے لئے ان کا دیکھنا کچھ سود مند نہ ہو گا اس سے مراد سکرات موت کا وقت ہے جب کہ فرشتے کافروں  کے پاس آتے ہیں  اور اللہ کے غضب اور جہنم کی آگ کی خبر انہیں  سناتے ہیں  اور کہتے ہیں  کہ اے خبیث نفس تو خبیث اور ناپاک جسم میں  تھا اب گرم ہواؤں ، گرم پانی اور نا مبارک سایوں  کی طرف چل۔ وہ نکلنے سے کتراتی ہے اور بدن میں  چھپتی پھرتی ہے اس پر فرشتے ان کے چہروں  پر اور ان کی کمروں  پر ضربیں  مارتے ہیں۔ جیسے فرمان ہے ولوتریٰ اذ الظالمون فی غمرات الموت الخ، یعنی کاش کہ تو ظالموں  کو ان کی سکرات کے وقت دیکھتا جب کہ فرشتے انہیں  مارنے کے لیے ہاتھ بڑھائے ہوئے ہوں  گے اور کہہ رہے ہوں  گے کہ اپنی جانیں  نکالو آج تمہیں  ذلت کے عذاب چکھنے پڑیں  گے۔ کیونکہ تم اللہ تعالیٰ سے متعلق ناحق الزامات ترا شتے تھے۔ اور اس کی آیتوں  سے تکبر کرتے تھے۔ مومنوں  کا حال ان کے بالکل برعکس ہو گا وہ اپنی موت کے وقت خوشخبریاں  سنائے جاتے ہیں  اور ابدی مسرتوں  کی بشارتیں  دئیے جاتے ہیں  جسیے فرمان ہے ان الذین قالوا ربنا اللہ الخ، جنہوں  نے اللہ کو اپنا رب کہا اور مانا پھر اس پر جمے رہے ان کے پاس ہمارے فرشتے آتے ہیں  اور کہتے ہیں  کہ تم نہ ڈرو اور نہ غم کرو، ان جنتوں  میں  جانے کی خوشی مناؤ جن کا تمہیں  وعدہ دیا جاتا رہا۔ ہم تمہارے والی ہیں  دنیا کی زندگی میں  بھی اور آخرت میں  بھی، تم جو کچھ چاہو گے پاؤ گے اور جس چیز کی خواہش کرو گے موجود ہو جائے گی بخشنے والے مہربان اللہ کی طرف سے یہ تمہاری میزبانی ہو گی۔ صحیح حدیث میں  ہے کہ فرشتے مومن کی روح سے کہتے ہیں  اے پاک روح جو پاک جسم میں  تھی تو اللہ تعالیٰ کے رحم اور رحمت کی طرف چل جو تجھ سے ناراض نہیں۔ سورۃ ابراہیم کی آیت یثبت اللہالخ کی تفسیر میں  یہ سب حدیثیں  مفصل بیان ہو چکی ہیں۔ بعض نے کہا مراد اس سے قیامت کے دن فرشتوں  کا دیکھنا ہو سکتا ہے کہ دونوں  موقعوں  پر فرشتوں  کا دیکھنا مراد ہو اس میں  ایک قول کی دوسرے قول سے نفی نہیں  کیونکہ دونوں  ہر نیک و بد فرشتوں  کو دیکھیں  گے مومنوں  کو رحمت و رضوان کی خوشخبری کے ساتھ فرشتوں  کا دیدار ہو گا اور کافروں  کو لعنت و پھٹکار اور عذابوں  کی خبروں  کے ساتھ فرشتے اس وقت ان کافروں  سے صاف کہہ دیں  گے کہ اب فلاح و بہبود تم پر حرام ہے۔ حجر کے لفظی معنی روک ہیں  چنانچہ قاضی جب کسی کو اس کی مفلسی یا حماقت یا بچپن کی وجہ سے مال کی تصرف سے روک دے تو کہتے ہیں  حجر القاضی علی فلان۔ حطیم کو بھی حجر کہتے ہیں  اس لئے کہ وہ طواف کرنے والوں  کو ا پنے اندر طواف کرنے سے روک دیتا ہے بلکہ اس کے باہر سے طواف کیا جاتا ہے۔ عقل کو بھی عربی میں  حجر کہتے ہیں  اس لئے وہ بھی انسانوں  کو برے کاموں  سے روک دیتی ہے۔ پس فرشتے ان سے کہتے ہیں  کہ جو خوش خبریاں  مومنوں  کو اس وقت ملتی ہیں  اس سے تم محروم ہو۔ یہ معنی تو اس بنا پر ہیں  کہ اس جملے کو فرشتوں  کا قول کہا جائے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ مقولہ اس وقت کافروں  کا ہو گا وہ فرشتوں  کو دیکھ کر کہیں  گے کہ اللہ کرے تم ہم سے آڑ میں  رہو تمہیں  ہمارے پاس آنا نہ ملے۔ گو یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں  لیکن دور کے معنی ہیں۔ بالخصوص اس وقت کہ جب اس کے خلاف وہ تفسیر جو ہم نے اوپر بیان کی اور سلف سے مروی ہے۔ البتہ حضرت مجاہد رحمۃ  اللہ علیہ سے ایک قول ایسا مروی ہے لیکن انہی سے صراحت کے ساتھ یہ بھی مروی ہے کہ یہ قول فرشتوں  کا ہو گا، واللہ اعلم۔ پھر قیامت کے دن اعمال کے حساب کے وقت ان کے اعمال غارت و اکارت ہو جائیں  گے۔ یہ جنہیں  اپنی نجات کا ذریعہ سمجھے ہوئے تھے وہ بیکار ہو جائیں  گے کیونکہ یا تو وہ خلوص والے نہ تھے یا سنت کے مطابق نہ تھے۔ اور جو عمل ان دونوں  سے یا ان میں  سے ایک چیز سے خالی ہو وہ اللہ کے نزدیک قابل قبول نہیں۔ اس لیے کافروں  کے نیک اعمال بھی مردود ہے۔ ہم نے ان کے اعمال کا ملاحظہ کیا اور ان کو مثل بکھرے ہوئے ذروں  کے مثل کر دیا کہ وہ سورج کی شعاعیں  جو کسی سوراخ سے آ رہی ہوں  ان میں  نظر تو آتے ہیں  لیکن کوئی انہیں  پکڑنا چاہئے تو ہاتھ نہیں  آتے۔ جس طرح پانی جو زمین پر بہا دیا جائے وہ پھر ہاتھ نہیں  آ سکتا۔ یا غبار جو ہاتھ نہیں  لگ سکتا۔ یا درختوں  کے پتوں  کا چورا جو ہوا میں  بکھر گیا ہو یا راکھ اور خاک جو اڑتی پھرتی ہو۔ اسی طرح ان کے اعمال ہیں  جو محض بیکار ہو گئے ان کا کوئی ثواب ان کے ہاتھ نہیں  لگے گا۔ اس لئے کہ یا تو ان میں  خلوص نہ تھا یا شریعت کی مطابقت نہ تھی یا دونوں  وصف نہ تھے۔ پس جب یہ عالم و عادل حاکم حقیقی کے سامنے پیش ہوئے تو محض نکمے ثابت ہوئے اسی لئے اسے ردی اور نہ ہاتھ لگنے والی شے سے تشبیہ دی گئی جیسے اور جگہ ہے۔ مثل الذین کفروا بربھم اعمالھم کرماد اشتدت بہ الربح الخ۔ کافروں  کے اعمال کی مثال راکھ جیسی ہے جسے تیز ہوا اڑا دے۔ انسان کی نیکیاں  بعض بدیوں  سے بھی ضائع ہو جاتی ہیں  جیسے صدقہ خیرات کہ وہ احسان جتانے اور تکلیف پہنچانے سے ضائع ہو جاتا ہے جیسے فرمان ہے یا ایھا ا لذین امنو الا تبطلوا صدقاتکم بالمن والاذی پس ان کے اعمال میں  سے آج یہ کسی عمل پر قادر نہیں۔ اور آیت میں  ان کے اعمال کی مثال اس ریت کے ٹیلے سے دی گئی جو دور سے مثل دریا کے لہریں  مارتا ہوا دکھائی دیتا ہے جسے دیکھ کر پیاسا آدمی پانی سمجھتا ہے لیکن پاس آتا ہے تو امید ٹوٹ جاتی ہے۔ اس کی تفسیر بھی اللہ کے فضل سے گزر چکی ہے۔ پھر فرمایا کہ ان کے مقابلے میں  جنتیوں  کی بھی سن لو کیونکہ یہ دونوں  فریق برابر کے نہیں۔ جنتی تو بلند درجوں  میں  اعلیٰ بالاخانوں  میں  امن و امان، راحت و آرام کے ساتھ عیش و عشرت میں  ہوں گے۔ مقام اچھا، منظر دل پسند، ہر راحت موجود، ہر دل خوش کن چیز سامنے، جگہ اچھی، مکان طیب، منزل مبارک سونے بیٹھنے رہنے سہنے کا آرام، برخلاف اس کے جہنمی دوزخ کے نیچے کے طبقوں  میں  جکڑ بند، اوپر نیچے، دائیں  بائیں  آگ، حسرت افسوس، رنج غم، پکھنا، جلنا، بے قرار، جگر سوز، مقام بد، بری منزل خوفناک منظر، عذاب سخت۔ نیک لوگوں  کے جن کے دل میں  ایمان تھا اعمال مقبول ہوئے، اچھی جزائیں  دی گئیں  بدلے ملے۔ جہنم سے بچے، جنت کے وارث و مالک بنے۔ پس یہ جو تمام بھلائیوں  کو سمیٹ بیٹھے اور وہ جو ہر نیکی سے محروم رہے کہیں  برابر ہو سکتے ہیں ؟ پس نیکوں  کی سعادت بیان فرما کر بدوں  کی شقاوت پر تنبیہ کر دی۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ مروی ہے کہ ساعت ایسی بھی ہو گی کہ جنتی اپنی حوروں  کے ساتھ دن دوپہر کو آرام فرمائیں  اور جہنمی شیطانوں  کے ساتھ جکڑے ہوئے دوپہر کو گھبرائیں۔ سعد بن جبیر کہتے ہیں  اللہ تعالیٰ آدھے دن میں  بندوں  کے حساب سے فارغ ہو جائے گا پس جنتیوں  کے لئے دوپہر کے سونے کا وقت جنت میں  ہو گا اور دوزخیوں  کا جہنم میں۔ حضرت عکرمہ رحمۃ  اللہ علیہ فرماتے ہیں  مجھے معلوم ہوا ہے کہ کس وقت جنتی جنت میں  جائیں  گے اور جہنمی جہنم میں۔ یہ وہ وقت ہو گا جب یہاں  دنیا میں  دوپہر کا وقت ہوتا ہے کہ لوگ اپنے گھروں  کو دو گھڑی آرام حاصل کرنے کی غرض سے لوٹتے ہیں۔ جنتیوں  کا یہ قیلولہ جنت میں  ہو گا۔ مچھلی کی کلیجی انہیں  پیٹ بھر کر کھلائی جائے گی۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ دن آدھا ہو اس سے بھی پہلے جنتی جنت میں  اور جہنمی جہنم میں  قیلولہ کریں  گے پھر آپ نے یہی آیت پڑھی اور آیت ثم مرجعھم لالی الجحیم بھی پڑھی۔ جنت میں  جانے والے صرف ایک مرتبہ جناب باری کے سامنے پیش ہوں گے یہی آسانی سے حساب لینا پے پھر یہ جنت میں  جا کر دوپہر کا آرام کریں  گے جیسے فرمان اللہ ہے فاما من اوتی کبابہ بیمینہ فسوف یحاسب حسابا یسیرا ونقلب الی اھلہ مسرورا یعنی جس شخص کو اپنا عمل نامہ داہنے ہاتھ میں  دیا جائے گا اور وہ اپنے والوں  کی طرف خوشی خوشی لوٹے گا۔ اس کا قیام اور منزل بہتر ہے۔ صفوان بن امحرز رحمۃ  اللہ علیہ فرماتے ہیں  کہ قیامت کے دن دو شخصوں  کو لایا جائے گا ایک تو وہ جو ساری دنیا کا بادشاہ تھا اس سے حساب لیا جائے گا تو اس کی پوری عمر میں  ایک نیکی بھی نہ نکلے گی پس اسے جہنم کے داخلے کا حکم ملے گا پھر دوسرا شخص آئے گا جس نے ایک کمبل میں  دنیا گزاری تھی جب اس سے حساب لیا جائے گا تو یہ کہے گا کہ اے اللہ میرے پاس دنیا میں  تھا ہی کیا جس کا حساب لیا جائے گا ؟ اللہ فرمائے گا۔ یہ سچا ہے اسے چھوڑ دو۔ اسے جنت میں  جانے کی اجازت دی جائے گی۔ پھر کچھ عرصے کے بعد دونوں  کو بلایا جائے گا تو جہنمی بادشاہ تو مثل سوختہ کوئلے کے ہو گیا ہو گا۔ اس سے پوچھا جائے گا کہو کس حال میں  ہو یہ کہے گا نہایت برے حال میں  اور نہایت خراب جگہ میں  ہوں۔ پھر جنتی کو بلایا جائے گا اس کا چہرہ چودہویں  رات کے چاند کی طرح چمکتا ہو گا۔ اس سے پوچھا جائے گا کہو کیسی گزرتی ہے؟ یہ کہے گا الحمد للہ بہت اچھی اور نہایت بہتر جگہ میں  ہوں۔ اللہ فرمائے گا جاؤ اپنی اپنی جگہ پھر چلے جاؤ۔ حضرت سعید صواف رحمۃ  اللہ علیہ کا بیان ہے کہ مومن پر تو قیامت کا دن ایسا چھوٹا ہو جائے گا جیسے عصر سے مغرب تک کا وقت۔ یہ جنت کی کیاریوں  میں  پہنچا دئیے جائیں  گے۔ یہاں  تک کہ اور مخلوق کے حساب ہو جائیں۔ پس جنتی بہتر ٹھکانے والے اور عمدہ جگہ والے ہوں گے

 

۲۵

فیصلوں کا دن

قیامت کے دن جو ہولناک امور ہوں گے ان میں  سے ایک آسمان کا پھٹ جانا اور نورانی ابر کا نمودار ہو نا بھی ہے جس کی روشنی سے آنکھیں  چکا چوند ہو جائیں  گی پھر فرشتے اتریں  گے اور میدان محشر میں  تمام انسانوں  کو گھیر لیں  گے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں  میں  فیصلے کے لئے تشریف لائے گا۔ جیسے فرمان ہے ھل ینظرون الا ان الخ، یعنی کہ انہیں  اس بات کا انتظار ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے بادلوں  میں  آئیں۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں  اللہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوق کو سب انسانوں  اور کل جنات کو ایک میدان میں  جمع کرے گا۔ تمام جانور چوپائے درندے پرندے اور کل مخلوق وہاں  ہو گی پھر آسمان اول پھٹے گا اور اس کے فرشتے اتریں  گے جو تمام مخلوق کو دو طرف سے گھیر لیں  گے اور وہ گنتی میں  بہت زیادہ ہوں گے پھر دوسرا آسمان پھٹے گا اسکے فرشتے بھی آئیں  گے جو زمین کی اور آسمان اول کی تمام مخلوق کی گنتی سے بھی زیادہ ہوں گے۔ پھر تیسرا آسمان شق ہو گا اس کے فرشتے بھی دونوں  آسمانوں  کے فرشتے مل کر زمین کی مخلوق سے بھی زیادہ ہوں گے سب کو گھیر کر کھڑے ہو جائیں  گے۔ پھر اسی طرح چوتھا پانچواں  پھر چھٹا پھر ساتواں  پھر ہمارا رب ابر کے سائے میں  تشریف لائے گا اسکے ارد گرد بزرگ تر پاک فرشتے ہوں گے جو ساتوں  آسمانوں  اور ساتوں  زمینوں  کی کل مخلوق سے بھی زیادہ ہوں گے ان پر سینگوں  جیسے نشان ہوں گے، وہ اللہ کے عرش کے نیچے اللہ کی تسبیح و تہلیل و تقدس بیان کریں  گے، ان کے تلوے سے لے کر ٹخنے تک کا فاصلہ پانچ سو سال کا راستہ ہو گا اور ٹخنے سے گھٹنے تک کا بھی اتنا ہی۔ اور گھٹنے سے ناف تک کا بھی اتنا ہی فاصلہ ہو گا۔ اور ناف سے گردن کا فاصلہ بھی اتنا ہو گا اور گردن سے کان کی لو تک بھی اتنا فاصلہ ہو گا اور اس کے اوپر سے سر تک کا بھی اتنا فاصلہ ہو گا۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے کہ قیامت کا نام یوم التلاق اسی لئے ہے کہ اس میں  زمین اور آسمان والے ملیں  گے انہیں  دیکھ پہلے تو محشر والے سمجھ لیں  گے کہ ہمارا اللہ آیا لیکن فرشتے سمجھا دیں  گے کہ وہ آنے والا ہے ابھی تک نازل نہیں  ہوا۔ پھر جب کہ ساتوں  آسمانوں  کے فرشتے آ جائیں  گے اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر تشریف لائے گا جسے آٹھ فرشتے اٹھائے ہوں  جن کے ٹخنے سے گھٹنے تک سر سال کا راستہ ہے اور ران اور مونڈھے کے درمیان بھی ستر سال کا راستہ ہے ہر فرشتہ دوسرے سے علیحدہ اور جدا گانہ ہے ہر ایک کی ٹھوڑی سینے سے لگی ہوئی ہے اور زبان پر سبحان الملک القدوس کا وظیفہ ہے۔ انکے سروں  پر ایک پھیلی ہوئی ہے جیسے سرخ شفق اسکے اوپر عرش ہو گا۔ اس میں  راوی علی بن زید بن جدعان ہیں  جو ضعیف ہیں  اور بھی اس حدیث میں  بہت سی خامیاں  ہیں۔ صور کی مشہور حدیث میں  بھی اسی کے قریب قریب مروی ہے۔ واللہ اعلم اور آیت میں  ہے کہ اس دن ہو پڑنے والی ہو پڑے گی اور آسمان پھٹ کر روئی کی طرح ہو جائے گا۔ اور اس کے کناروں  پر فرشتے ہوں گے اور اس دن تیرے رب کا عرش آٹھ فرشتے لئے ہوں  گے۔ شہر بن جوشب کہتے ہیں  ان میں  سے چار کی تسبیح تو یہ ہو گی سبحانک اللہم وبحمدک لک الحمد علی حلمک بعد علمک اے اللہ تو پاک ہے تو قابل ستائش و تعریف ہے باوجود علم کے پھر بھی بردباری برتنا تیرا وصف ہے جس پر ہم تیری تعریف بیان کرتے ہیں۔ اور چار کی تسبیح یہ ہو گی سبحانک اللہم وبحمدک لک الحمد علی عفوک بعد قدرتک اے اللہ تو پاک ہے اور اپنی تعریفوں  کے ساتھ ہے تیرے ہی لئے سب تعریف ہے کہ تو باوجود قدرت کے معاف فرماتا رہتا ہے۔ ابوبکر بن عبد اللہ رحمۃ  اللہ کہتے ہیں  کہ عرش کو اترتا دیکھ کر اہل محشر کی آنکھیں  پھٹ جائیں  گی، جسم کانپ اٹھیں  گے، دل لرز جائیں  گے۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ فرماتے ہیں  کہ جس وقت اللہ عز و جل مخلوق کی طرف اترے گا تو درمیان میں  ستر ہزار پردے ہو گے بعض نور کے بعض ظلمت کے۔ اس ظلمت میں  سے ایک ایسی آواز نکلے گی جس سے دل پاش پاش ہو جائیں  گے شاید ان کی یہ روایت انہی دو تھیلوں  میں  سے لی ہوئی ہو گی، واللہ اعلم۔ اس دن صرف اللہ ہی کی بادشاہت ہو گی جیسے فرمان ہے لمن الملک الیوم الخ۔ آج ملک کس کے لئے ہے؟ صرف اللہ غالب و قہار کے لئے۔ صحیح حدیث میں  ہے اللہ تعالیٰ آسمانوں  کو اپنے داہنے ہاتھ سے لپیٹ لے گا اور زمینوں  کو اپنے دوسرے ہاتھ میں  لے لے گا پھر فرمائے گا میں  مالک ہوں  میں  فیصلہ کرنے والا ہوں  زمین کے بادشاہ کہاں  ہیں  ؟ تکبر کرنے والے کہاں  ہیں ؟ وہ دن کفار پر بڑا بھاری پڑا ہو گا۔ اسی کا بیان اور جگہ بھی ہے کہ کافروں  پر وہ دن گراں  گزرے گا۔ ہاں  مومنوں  کو اس دن مطلق گھبراہٹ یا پریشانی نہ ہو گی۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پچاس ہزار سال کا دن تو بہت ہی دراز ہو گا۔ آپ نے فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں  میری جان ہے کہ مومن پر تو وہ ایک وقت کی فرض نماز سے بھی ہلکا اور آسان ہو گا۔ پیغمبر علیہ السلام کے طریقے اور آپ اور آپ کے لائے ہوئی کلمۂ حق سے ہٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی راہ کے سوا دوسری راہوں  پہ چلنے والے اس دن بڑے ہی نادم ہوں گے اور حسرت و افسوس کے ساتھ اپنے ہاتھ چبائیں  گے۔ گو اس کا نزول عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں  ہو یا کسی اور کے بارے میں  لیکن حکم کے اعتبار سے یہ ہر ایسے ظالم کو شامل ہے۔ جیسے فرمان ہے یوم نقلب وجوھھم فی النار پوری دو آیتوں  تک۔ پس ہر ظالم قیامت کے دن پچھتائے گا اپنے ہاتھوں  کو چبائے گا اور آہ و زاری کر کے کہے گا کاش کہ میں  نے نبی کی راہ اپنائی ہوتی۔ کاش کہ میں ے فلاں  کی عقیدت مندی نہ کی ہوتی۔ جس نے مجھے راہ حق سے گم کر دیا۔ امیہ بن خلف کا اور اس کے بھائی ابی بن خلف کا بھی یہی حال ہو گا اور انکے سوا اور بھی ایسے لوگوں  کا یہ حال ہو گا۔ کہے گا کہ اس نے مجھے ذکر یعنی قرآن سے بیگانہ کر دیا حالانکہ وہ مجھ تک پہنچ چکا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے شیطان انسان کو رسوا کرنے والا ہے، وہ اسے ناحق کی طرف بلاتا ہے اور حق سے ہٹا دیتا ہے

 

۳۰

شکایت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم

قیامت والے دن اللہ کے سچے رسول آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم اپنی امت کی شکایت جناب باری تعالیٰ میں  کریں  گے کہ نہ یہ لوگ قرآن کی طرف مائل تھے نہ رغبت سے قبولیت کے ساتھ سنتے تھے بلکہ اوروں  کو بھی اس کے سننے سے روکتے تھے جیسے کہ کفار کا مقولہ خود قرآن میں  ہے کہ وہ کہتے تھے لاتسمعوا لھذا لقرآن والغو افیہ اس قرآن کو نہ سنو اور اسکے پڑھے جانے کے وقت شور و غل کرو۔ یہی اس کا چھوڑ رکھنا تھا۔ نہ اس پر ایمان لاتے تھے، نہ اسے سچا جانتے تھے نہ اس پر غور و فکر کرتے تھے، نہ اسے سمجھنے کی کوشش کرتے تھے نہ اس پر عمل تھا، نہ اس کے احکام کو بجا لاتے تھے، نہ اس کے منع کردہ کاموں  سے رکتے تھے بلکہ اسکے سوا اور کلاموں  سے دلچسپی لیتے تھے اور ان پر عامل تھے، یہ اسے چھوڑ دینا تھا۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کریم و منان جو ہر چیز پر قادر ہے۔ ہمیں  توفیق دے کہ ہم اس کے ناپسندیدہ کاموں  سے دست بردار ہو جائیں  اور اس کے پسندیدہ کاموں  کی طرف جھک جائیں۔ وہ ہمیں  اپنے کلام سمجھ دے اور دن رات اس پر عمل کرنے کی ہدایت دے، جس سے وہ خوش ہو، وہ کریم وہاب ہے۔ پھر فرمایا جس طرح اے نبی آپ کی قوم قرآن کو نظر انداز کر دینے والے لوگ ہیں۔ اسی طرح اگلی امتوں  میں  بھی ایسے لوگ تھے جو خود کفر کر کے دوسروں  کو اپنے کفر میں  شریک کار کرتے تھے اور اپنی گمراہی کے پھیلانے کی فکر میں  لگے رہتے تھے۔ جیسے فرمان ہے وکذالک جعلنالکل نبی عدوا الخ، یعنی اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن شیاطین و انسان بنا دئیے ہیں  پھر فرمایا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تابعداری کرے، کتاب اللہ پر ایمان لائے، اللہ کی وحی پر یقین کرے اس کا ہادی اور ناصر خود اللہ تعالیٰ ہے۔ مشرکوں  کی جو خصلت اوپر بیان ہوئی اس سے انکی غرض یہ تھی کہ لوگوں  کو ہدایت پر نہ آنے دیں  اور آپ مسلمانوں  پر غالب رہیں۔ اس لئے قرآن نے فیصلہ کیا کہ یہ نامراد ہی رہیں  گے۔ اللہ اپنے نیک بندوں  کو خود ہدایت کرے گا اور مسلمان کی خود مدد کرے گا۔ یہ معاملہ اور ایسوں  کا مقابلہ کچھ تجھ سے ہی نہیں  تمام اگلے نبیوں  کے ساتھ یہی ہوتا رہا ہے

 

۳۲

قرآن حکیم مختلف اوقات میں کیوں اتارا

کافروں  کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ جیسے توریت، انجیل، زبور، وغیرہ ایک ساتھ پیغمبروں  پر نازل ہوتی رہیں۔ یہ قرآن ایک ہی دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل کیوں  نہ ہوا؟ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں  فرمایا کہ ہاں  واقعی یہ متفرق طور پر اترا ہے، بیس برس میں  نال ہوا ہے جیسے جیسے ضرورت پڑتی گئی جو جو واقعات ہوتے رہے احکام نازل ہوتے گئے تاکہ مومنوں  کا دل جما رہے۔ ٹھہر ٹھہر کر احکام اتریں  تاکہ ایک دم عمل مشکل نہ ہو پڑے، وضاحت کے ساتھ بیان ہو جائے۔ سمجھ میں  آ جائے۔ تفسیر بھی ساتھ ہی ساتھ ہوتی رہے۔ ہم ان کے کل اعتراضات کا صحیح اور سچا جواب دیں  گے جو ان کے بیان سے بھی زیادہ واضح ہو گا۔ جو کمی یہ بیان کریں  گے ہم ان کی تسلی کر دیں  گے۔ صبح شام، رات دن۔ سفر حضر میں  بار بار اس نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی عزت اور اپنے خاص بندوں  کی ہدایت کے لئے ہمارا کلام ہمارے نبی کی پوری زندگی تک اترتا رہا۔ جس سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی بزرگی اور فضلیت بھی ظاہر ہوتی رہی لیکن دوسرے انبیاء علیہ السلام پر ایک ہی مرتبہ سارا کلام اترا مگر اس سے بہترین نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اللہ تبارک و تعالیٰ بار بار خطاب کرتا کہ اس قرآن کی عظمت بھی آشکار ہو جائے اس لیے یہ اتنی لمبی مدت میں  نازل ہوا۔ پس نبی صلی اللہ علیہ و سلم بھی سب نبیوں  میں  اعلیٰ اور قرآن بھی سب کلاموں  میں  بالا۔ اور لطیفہ یہ ہے کہ قرآن کو دونوں  بزرگیاں  ملیں  یہ ایک ساتھ لوح محفوظ سے ملا اعلیٰ میں  اترا۔ لوح محفوظ سے پورے کا پورا دنیا کے آسمان تک پہنچا۔ پھر حسب ضرورت تھوڑا تھوڑا کر کے نازل ہوتا رہا۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں  سارا قرآن ایک دفعہ ہی لیلۃ القدر میں  دنیا کے آسمان پر نازل ہوا پھر بیس سال تک زمین پر اترتا راہ۔ پھر اس کے ثبوت میں  آپ نے آیت وال یاتونک الخ، اور آیت وقرانا فرقناہ الخ تلاوت فرمائی۔ اس کے بعد کافروں  کی جو درگت قیامت کے روز ہونے والی ہے اس کا بیان فرمایا کہ بدترین حالت اور قبیح تر ذلت میں  ان کا حشر جہنم کی طرف ہو گا۔ یہ اوندھے منہ گھسیٹے جائیں  گے یہی برے ٹھکانے والے اور سب سے بڑھ کر گمراہ ہیں۔ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ کافروں  کا حشر منہ کے بل کیسے ہو گا؟ آپ نے فرمایا کہ جس نے انہیں  پیر کے بل چلایا وہ سر کے بل چلانے پر بھی قادر ہے

 

۳۵

انبیاء سے دشمنی کا خمیازہ

اللہ تعالیٰ مشرکین کو اور آپ کے مخالفین کو اپنے عذابوں  سے ڈرا رہا ہے کہ تم سے پہلے کے جن لوگوں  نے میرے نبیوں  کی نہ مانی، ان سے دشمنی کی ان کی مخالفت کی میں  نے انہیں  تہس نہس کر دیا۔ فرعونیوں  کا حال تم سن چکے ہو کہ موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کو ان کی طرف نبی بنا کر بھیجا لیکن انہوں  نے نہ مانا جس کے باعث اللہ کا عذاب آ گیا اور سب ہلاک کر دیئے گئے۔ قوم نوح کو دیکھو انہوں  نے بھی ہمارے رسولوں  کو جھٹلایا اور چونکہ ایک رسول کا جھٹلانا تمام نبیوں  کو جھٹلانا ہے اس واسطے یہاں  رسل جمع کر کے کہا گیا۔ اور یہ اس لیے بھی کہ اگر بالفرض ان کی طرف تمام رسول بھی بھیجے جاتے تو بھی یہ سب کے ساتھ وہی سلوک کرتے جو نوح علیہ السلام نبی کے ساتھ کیا۔ یہ مطلب نہیں  کہ انکی طرف بہت سے رسول بھیجے گئے تھے بلکہ ان کے پاس تو صرف حضرت نوح علیہ السلام ہی آئے تھے جو ساڑھے نو سو سال کت ان میں  رہے ہر طرح انہیں  سمجھایا بجھایا لیکن سوائے معدودے چند کے کوئی ایمان نہ لایا۔ اس لئے اللہ نے سب کو غرق کر دیا۔ سوائے ان کے جو حضرت نوح علیہ السلام ساتھ کشتی میں  تھے ایک بنی آدم روئے زمین پر نہ بچا۔ لوگوں  کے لئے انکی ہلاکت باعث عبرت بنا دی گئی۔ جیسے فرمان ہے کہ پانی کی ظغیانی کے وقت ہم نے تمہیں  کشی میں  سوار کر لیا تاکہ تم اسے اپنے لئے باعث عبرت بناؤ اور کشتی کو ہم نے تمہارے لیے اس طوفان سے نجات پانے اور لمبے لمبے سفر طے کرنے کا ذریعہ بنا دیا تاکہ تم اللہ کی اس نعمت کا یاد رکھو کہ اس نے عالمگیر طوفان تمہیں  بچا لیا اور ایماندار اور ایمان داروں کی اولاد میں  رکھا۔ عادیوں  اور ثمودیوں  کا قصہ تو بارہا بیان ہو چکا ہے جیسے کہ سورۃ اعراف وغیرہ میں  اصحاب الرس کی بابت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ یہ ثمودیوں  کی ایک بستی والے تھے۔ عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں  یہ خلیج والے تھے جن کا ذکر سورۃ یاسین میں  ہے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ آذر بائی جان کے ایک کنویں  کے پاس ان کی بستی تھی۔ عکرمہ فرماتے ہیں  کہ ان کو کنویں  والے اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ انہوں  نے اپنے پیغمبر کو کنویں  میں  ڈال دیا تھا۔ ابن اسحاق رحمۃاللہ علیہ محمد بن کعب رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کرتے ہیں  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ایک سیاہ فام غلام سب سے اول جنت میں  جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ایک بستی والوں  کی طرف اپنا نبی بھیجا تھا لیکن ان بستی والوں  میں  سے بجز اس کے کوئی بھی ایمان نہ لایا بلکہ انہوں  نے اللہ کے نبی کو ایک غیر آباد کنویں  میں  ویران میدان میں  ڈال دیا اور اس کے منہ پر ایک بڑی بھاری چٹان رکھ دی کہ یہ وہیں  مر جائیں۔ یہ غلام جنگل میں  جاتا لکڑیاں  کاٹ کر لاتا انہیں  بازار میں  فروخت کرتا اور روٹی وغیرہ خرید کر کنویں  پر آتا اس پتھر کا سرکا دیتا۔ یہ ایک رسی میں  لٹکا کر روٹی اور پانی اس پیغمبر علیہ السلام کے پاس پہنچا دیتا جسے وہ کھا پی لیتے۔ مدتوں  تک یونہی ہوتا رہا۔ ایک مرتبہ یہ گیا لکڑیاں  کاٹیں ، چنیں ، جمع کیں ، گٹھری باندھی، اتنے میں  نیند کا غلبہ ہوا، سو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر نیند ڈال دی۔ سات سال تک وہ سوتا رہا۔ سات سال کے بعد آنکھ کھلی، انگڑائی لی اور کروٹ بدل کر پھر سو رہا۔ سات سال کے بعد پھر آنکھ کھلی تو اس نے لکڑیوں  کی گٹھڑی اٹھائی اور شہر کی طرف چلا۔ اسے یہی خیال تھا کہ ذرا سی دیر کے لئے سو گیا تھا۔ شہر میں  آ کر لکڑیاں  فروخت کیں۔ حسب عادت کھانا خریدا اور وہیں  پہنچا۔ دیکھتا کہ کنواں  تو وہاں  ہے ہی نہیں  بہت ڈھونڈا لیکن نہ ملا۔ درحقیقت اس عرصہ میں  یہ ہوا تھا کہ قوم کے دل میں  ایمان کی طرف راغب ہوئے، انہوں  نے جا کر اپنے نبی کو کنویں سے نکالا۔ سب کے سب ایمان لائے پھر نبی فوت ہو گئے۔ نبی علیہ السلام بھی اپنی زندگی میں اس غلام کو تلاش کرتے رہیں لیکن اس کا پتہ نہ چلا۔ پھر اس شخص کو نبی کے انتقال کے بعد اس کی نیند سے جگایا گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں پس یہ حبشی غلام ہے جو سب سے پہلے جنت میں جائے گا۔ یہ روایت مرسل ہے اور اس میں غرابت و نکارت ہے اور شاید ادراج بھی ہے واللہ اعلم۔ اس روایت کو ان اصحاب رس پر چسپاں بھی نہیں کر سکتے اس لئے کہ یہاں مذکور ہے کہ انہیں ہلاک کیا گیا۔ ہاں یہ ایک توجیہہ ہو سکتی ہے کہ یہ لوگ تو ہلاک کر دئیے گئے پھر ان کی نسلیں ٹھیک ہو گئیں اور انہیں ایمان کی توفیق ملی۔ امام ابن جریر رحمۃ اللہ کا فرمان ہے کہ اصحاب رس وہی ہے جن کا ذکر سورۃ بروج میں ہے جنہوں نے خندقیں کھدائی تھیں۔ واللہ اعلم۔ پھر فرمایا کہ اور بھی ان کے درمیان بہت سی امتیں آئیں جو ہلاک کر دی گئیں۔ ہم نے ان سب کے سامنے اپنا کلام بیان کر دیا تھا۔ دلیلیں پیش کر دی تھیں۔ معجزے دکھائے تھے، عذر ختم کر دئے تھے پھر سب کو غارت اور برباد کر دیا۔ جیسے فرمان ہے کہ نوح علیہ السلام کے بعد کی بھی بہت سی بستیاں ہم نے غارت کر دیں۔ قرن کہتے ہیں امت کو۔ جیسے فرمان ہے کہ ان کے بعد ہم نے بہت سی قرن یعنی امتیں پیدا کیں۔ قرن کی مدت بعض کے نزدیک ایک سو بیس سال ہے کوئی کہتا ہے سو سال کوئی کہتا ہے اسی سال کوئی کہتا ہے چالیس سال اور بھی بہت سے قول ہیں۔ زیادہ ظاہر بات یہ ہے کہ ایک زمانہ والے ایک قرن ہیں جب وہ سب مر جائیں تو دوسرا قرن شروع ہوتا ہے۔ جیسے بخاری مسلم کی حدیث میں ہے سب سے بہتر زمانہ میرا زمانہ ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ سدوم نامی بستی کے پاس سے تو یہ عرب برابر گزرتے رہتے ہیں۔ یہیں لوطی آباد تھے۔ جن پر زمیں الٹ دی گئی اور آسمان سے پھتر برسائے گئے اور برا مینہ ان پر برسا جو سنگلاخ پتھروں کا تھا۔ یہ دن رات وہاں سے آمدو رفت رکھتے پھر بھی عقلمندی کا کام نہیں لیتے۔ یہ بستیاں تو تمہاری گزرگاہ ہیں ان کے واقعات مشہور ہیں کیا تم انہیں نہیں دیکھتے ؟ یقیناً دیکھتے ہو لیکن عبرت کی آنکھیں ہی نہیں کہ سمجھ سکو اور غور کرو کہ اپنی بدکاریوں کی وجہ سے وہ اللہ کے عذابوں کے شکار ہو گئے۔ بس انہیں اڑا دیا گیا بے نشان کر دئے گئے۔ بری طرح دھجیاں بکھیر دی گئیں۔ اسے سوچے تو وہ جو قیامت کا قائل ہو۔ لیکن انہیں کیا عبرت حاصل ہو گی جو قیامت ہی کے منکر ہیں۔ دوبارہ زندگی کو ہی محال جانتے ہیں۔

 

۴۱

انبیاء کا مذاق

کافر لوگ اللہ کے برتر و بہتر پیغمبر حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھ کر ہنسی مذاق اڑاتے تھے، عیب جوئی کرتے تھے اور آپ میں نقصان بتاتے تھے۔ یہی حالت ہر زمانے کے کفار کی اپنے نبیوں کے ساتھ رہی۔ جیسے فرمان ہے ولقد استھزی برسل من قبلک تجھ سے پہلے کے رسولوں کا بھی مذاق اڑایا گیا۔ کہنے لگے وہ تو کہئے کہ ہم جمے رہے ورنہ اس رسول نے ہمیں بہکانے میں کوئی کمی نہ رکھی تھی۔ اچھا انہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ ہدایت پر یہ کہاں تک تھے؟ عذاب کو دیکھتے ہی آنکھیں کھل جائیں گی۔ اصل یہ ہے کہ ان لوگوں نے خواہش پرستی شروع کر رکھی ہے نفس وشیطان جس چیز کو اچھا ظاہر کرتا ہے یہ بھی اسے اچھی سمجھنے لگتے ہیں۔ بھلا ان کا ذمہ دار تو کیسے ٹھہر سکتا ہے؟ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ جاہلیت میں عرب کی یہ حالت تھی کہ جہاں کسی سفید گول مول پتھر کو دیکھا اسی کے سامنے جھکنے اور سجدے کرنے لگے۔ اس سے اچھا کوئی نظر پڑگیا تو اس کے سامنے جھک گئے۔ اور اول کو چھوڑ دیا۔ پھر فرماتا ہے یہ تو چوپایوں سے بھی بدتر ہیں نہ انکے کان ہیں نہ دل ہیں چوپائے تو خیر قدرتاً آزاد ہیں لیکن یہ جو عبادت کے لئے پیدا کیے گئے تھے یہ ان سے بھی زیادہ بہک گئے بلکہ اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت کرنے لگے۔ اور قیام حجت کے بعد رسولوں کے پہنچ چکنے کے بعد بھی اللہ کی طرف نہیں جھکتے۔ اس کی توحید اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کو نہیں مانتے

 

 ۴۵

اگر وہ چاہے تو رات دن نہ بدلے

اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی قدرت پر دلیلیں بیان ہو رہی ہے کہ مختلف اور متضاد چیزوں کو وہ پیدا کر رہا ہے۔ سائے کو وہ بڑھاتا ہے کہتے ہیں کہ یہ وقت صادق سے لے کر سورج کے نکلنے تک کا ہے اگر وہ چاہتا تو اسے ایک ہی حالت پر رکھ دیتا۔ جیسے فرمان ہے کہ اگر وہ رات ہی رات رکھے تو کوئی دن نہیں کر سکتا اور اگر دن ہی دن رکھے تو کوئی رات نہیں لا سکتا۔ اگر سورج نہ نکلتا تو سائے کا حال ہی معلوم نہ ہوتا۔ ہر چیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے سائے کے پیچھے دھوپ دھوپ کے پیچھے سایہ بھی قدرت کا انتظام ہے۔ پھر سہج سہج ہم اسے یعنی سائے کو یا سورج کو اپنی طرف سمیٹ لیتے ہیں۔ ایک گھٹتا جاتا ہے تو دوسرا بڑھتا جاتا ہے اور یہ انقلاب سرعت سے عمل میں آتا ہے کوئی جگہ سایہ دار باقی نہیں رہتی صرف گھروں کے چھپڑوں کے اور درختوں کے نیچے سایہ رہ جاتا ہے اور ان کے بھی اوپر دھوپ کھلی ہوئی ہوتی ہے۔ آہستہ آہستہ تھوڑا تھوڑا کر کے ہم اسے اپنی طرف سمیٹ لیتے ہیں۔ اسی نے رات کو تمہارے لیے لباس بنایا ہے کہ وہ تمہارے وجود پر چھا جاتی ہے اور اسے ڈھانپ لیتی ہے جیسے فرمان ہے قسم ہے رات کی جب کہ ڈھانپ لے، اسی نے نیند کو سبب راحت و سکون بنایا کہ اس وقت حرکت موقوف ہو جاتی ہے۔ اور دن بھر کے کام کاج سے جو تھکن چڑھ گئی تھی وہ اس آرام سے اتر جاتی ہے۔ بدن کو اور روح کو راحت حاصل ہو جاتی ہے۔ پھر دن کو اٹھ کھڑے ہوتے ہو پھیل جاتے ہو۔ اور روزی کی تلاش میں لگ جاتے ہو۔ جیسے فرمان ہے کہ اس نے اپنی رحمت سے رات دن مقرر کر دیا ہے کہ تم سکون و آرام بھی حاصل کر لو اور اپنی روزیاں بھی تلاش کرو

 

۴۸

بارش سے پہلے بارش کی خوشخبری

اللہ تعالیٰ اپنی ایک اور قدرت کا بیان فرما رہا ہے کہ وہ بارش سے پہلے بارش کی خوشخبری دینے والی ہوائیں چلاتا ہے۔ ان ہواؤں میں رب نے بہت سے خواص رکھے ہیں۔ بعض بادلوں کو پراگندہ کر دیتی ہیں ، بعض انہیں اٹھاتی ہیں ، بعض انہیں لے چکا آلہ بنے۔ یہاں طہور ایسا ہی ہے جیسا سحور اور وجور وغیرہ بعض نے کہا ہے کہ یہ فعول معنی میں فاعل کے ہے یا مبالغہ کے لئے مبنی ہے یا متعدی کے لئے۔ یہ سب اول لغت اور حکلتی ہیں بعض خنک اور بھیگی ہوئی چل کر لوگوں کو باران رحمت کی طرف متوجہ کر دیتی ہیں بعض اس سے پہلے زمین کو تیار کر دیتی ہیں بعض بادلوں کو پانی سے بھر دیتی ہیں اور انہیں بوجھل کر دیتی ہیں۔ آسمان سے ہم پاک صاف پانی برساتے ہیں کہ وہ پاکیزگی م کے اعتبار سے مشکل ہیں۔ پوری تفصیل کے لائق یہ مقام نہیں واللہ اعلم۔ حضرت ثابت بنانی رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ میں حضرت ابوالعالیہ رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ بارش کے زمانہ میں نکلا۔ بصرے کے راستے اس وقت بڑے گندے ہو رہے تھے، آپ نے ایسے راستہ پر نماز ادا کی۔ میں نے آپ کی توجہ دلائی تو آپ نے فرمایا اسے آسمان کے پاک پانی نے پاک کر دیا۔ اللہ فرماتا ہے کہ ہم آسمان سے پاک پانی برساتے ہیں۔ حضرت سعید بن میسب رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ نے اسے پاک اتارا ہے اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا کہ بیر بضاعہ سے وضو کر لیں ؟ یہ ایک کنواں ہے جس میں گندگی اور کتوں کے گوشت پھینکے جاتے ہیں آپ نے فرمایا پانی پاک ہے اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی۔ امام شافعی اور امام احمد نے اسے وارد کی ہے۔ امام ابوداؤد اور امام ترمذی نے اسے صحیح کہا ہے۔ نسائی میں بھی یہ روایت ہے۔ عبد الملک بن مروان کے دربار میں ایک مرتبہ پانی کا ذکر چھڑا تو خالد بن یزید نے کہا بعض پانی آسمان کے ہوتے ہیں بعض پانی وہ ہوتے ہیں جسے بادل سمندر سے پیتا ہے اور اسے گرج کڑک اور بجلی میٹھا کر دیتی ہے لیکن اس سے زمین میں پیداوار نہیں ہوتی ہاں آسمانی پانی سے پیداوار اگتی ہے۔ عکرمہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں آسمان کے پانی کے ہر قطرہ سے چارہ گھاس وغیرہ پیدا ہوتا ہے یا سمندر میں لولو اور موتی پیدا ہوتے ہیں یعنی فی البر وفی البحر در زمین میں گیہوں اور سمندر میں موتی۔ پھر فرمایا کہ اسی سے ہم غیر آباد بنجر خشک زمین کو زندہ کر دیتے ہیں وہ لہلہانے لگتی ہے اور تر و تازہ ہو جاتی ہے جیسے فرمان ہے فاذا انزلنا علیہا الماء اھتزت وربت الخ، علاہ مردہ زمین کے زندہ ہو جانے کے یہ پانی حیوانوں اور انسانوں کے پینے میں آتا ہے ان کے کھیتوں اور باغات کو پلایا جاتا ہے۔ جیسے فرمان ہے کہ وہ اللہ وہی ہے جو لوگوں کی کامل نا امیدی کے بعد ان پر بارشیں برساتا ہے۔ اور آیت میں ہے کہ اللہ کے آثار رحمت کو دیکھو کہ کس طرح مردہ زمین کو زندہ کر دیتا ہے۔

 پھر فرماتا ہے ساتھ ہی میری قدرت کا ایک نظارہ یہ بھی دیکھو کہ ابر اٹھتا ہے گرجتا ہے لیکن جہاں میں چاہتا ہوں برستا ہے اس میں بھی حکمت و حجت ہے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ کوئی سال کسی سال کم و بیش بارش کا نہیں لیکن اللہ جہاں چاہے برسائے جہاں سے چاہے پھیرے۔ پس چاہئے تھا کہ ان نشانات کو دیکھ کر اللہ کی ان زبردست حکمتوں کو اور قدرتوں کو سامنے رکھ کر اس بات کو بھی مان لیتے کہ بیشک ہم دوبارہ ندہ کئے جائیں گے اور یہ بھی جان لیتے کہ بارشیں ہمارے گناہوں کی شامت سے بند کر دی جاتی ہیں تو ہم گناہ چھوڑ دیں لیکن ان لوگوں نے ایسا نہ کیا بلکہ ہماری نعمتوں پر اور ناشکری کی۔ ایک مرسل حدیث ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے کہا کہ بادل کی نسبت کچھ پوچھنا چاہتا ہو ں حضرت جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا بادلوں پر جو فرشتہ مقرر ہے وہ یہ ہے آپ ان سے جو چاہیں دریافت فرما لیں اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے پاس تو اللہ کا حکم آتا ہے کہ فلاں فلاں شہر میں اتنے اتنے قطرے برساؤہم تعمیل ارشاد کرتے ہیں۔ بارش جیسی نعمت کے وقت اکثر لوگوں کے کفر کا طریقہ یہ بھی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے یہ بارش برسائے گئے۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ بارش برس چکنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا لوگو! جانتے ہو تمہارے رب نے کیا فرمایا ؟ انہوں نے کہا اللہ اور اس کو رسول خوب جاننے والا ہے۔ آپ نے فرمایا سنو! اللہ تعالیٰ نے میرے بندوں میں سے بہت سے میرے ساتھ مومن ہو گئے اور بہت سے کافر ہو گئے جنہوں نے کہا کہ صرف اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ بارش ہم پر برسی ہے وہ تو میرے ساتھ ایمان رکھنے والے اور ستاروں سے کفر کرنے والے ہوئے اور جنہوں نے کہا کہ فلاں فلاں تارے کے اثر سے پانی برسایا گیا انہوں نے میرے ساتھ کفر کیا اور تاروں پر ایمان لائے

 

 ۵۱

النبی کل عالم علیہ السلام

اگر رب چاہتا تو ہر ہر بستی میں ایک ایک نبی بھیج دیتا لیکن اس نے تمام دنیا کی طرف صرف ایک ہی نبی بھیجا ہے اور پھر اسے حکم دے دیا ہے کہ قرآن کا وعظ سب کو سنا دے۔ جیسے فرمان ہے کہ میں اس قرآن سے تمہیں اور جس جس کو یہ پہنچے ہوشیار کر دو اور ان تمام جماعتوں میں سے جو بھی اس سے کفر کرے اس کے ٹھہر نے کی جگہ جہنم ہے اور فرمان ہے کہ تم مکے والوں کو اور چاروں طرف کے لوگوں کو آگاہ کر دے۔ اور آیت میں ہے کہ اے نبی آپ کہہ دیجئے کہ اے تمام لوگو! میں تم سب کی طرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) بن کر آیا ہو ں۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے میں سرخ وسیاہ سب کی طرف بھیجا گیا ہوں۔ بخاری و مسلم کی اور حدیث میں ہے کہ تمام انبیاء اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجے جاتے رہے اور میں عام لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں۔ پھر فرمایا کافروں کا کہنا نہ ماننا اور اس قرآن کے ساتھ ان سے بہت بڑا جہاد کرنا۔ جیسے ارشاد ہے۔ یا یا ایھا النبی جاھد الکفار والمنافقین یعنی اے نبی کافروں سے اور منافقوں سے جہاد کرتے رہو۔ اسی رب نے پانی کو دو طرح کا کر دیا ہے۔ میٹھا اور کھاری۔ نہروں چشموں اور کنووں کا پانی عموماً شیریں صاف اور خوش ذائقہ ہوتا ہے۔ بعض ٹھہرے ہوئے سمندروں کا پانی کھاری اور بدمزہ ہوتا ہے۔ اللہ کی اس نعمت پر بھی شکر کرنا چاہیے کہ اس نے میٹھے پانی کی چاروں طرف ریل پیل کر دی تاکہ لوگوں کو نہانے دھونے پینے اور کھیت اور باغات کو پانی دینے میں آسانی رہے۔ مشرقوں اور مغربوں میں محیط سمندر کھاری پانی کے اس نے بہا دیئے جو ٹھہرے ہوئے ہیں ، ادھر ادھر بہتے نہیں لیکن موجیں مار رہے ہیں ، تلاطم پیدا کر رہے ہیں ، بعض میں مد و جزر ہے، ہر مہینے کی ابتدائی تاریخوں میں تو ان میں زیادتی اور بہاؤ ہوتا ہے پھر چاند کے گھٹنے کے ساتھ وہ گھٹتا جاتا ہے یہاں تک آخر میں اپنی حالت پر آ جاتا ہے پھر جاں چاند چڑھا یہ بھی چڑھنے لگا چودہ تاریخ تک برابر چاند کے ساتھ چڑھتا رہا پھر اترنا شروع ہوا ان تمام سمندروں کو اسی اللہ نے پیدا کیا ہے وہ پوری اور زبردست قدرت والا ہے۔ کھاری اور گرم پانی گو پینے کے کام نہیں آتا لیکن ہواؤں کو صاف کر دیتا ہے جس سے انسانی زندگی ہلاکت میں نہ پڑے اس میں جو جانور مر جاتے ہیں ان بدبو دنیا والوں کو ستا نہیں سکتی اور کھاری پانی کے سبب سے اس کی ہوا صحت بخش اور اسکا مردہ پاک طیب ہوتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے جب سمندر کے پانی کی نسبت سوال ہوا کہ کیا ہم اس سے وضو کر لیں ؟ تو آپ نے فرمایا اسکا پانی پاک ہے اور اسکا مردہ حلال ہے۔ مالک شافعی اور اہل سنن رحمۃ  اللہ علیہ نے اسے روایت کی ہے اور اسناد بھی صحیح ہے پھر اسکی قدرت دیکھو کہ محض اپنی طاقت سے اور اپنے حکم سے ایک دوسرے سے جدا رکھا ہے نہ کھاری میٹھے میں مل سکے نہ میٹھا کھاری میں مل سکے۔ جیسے فرمان ہے مرج البحرین یلتقیان بینھمابرزخ لایبغیان الخ، اس نے دونوں سمندر جاری کر دئیے ہیں کہ دونوں مل جائیں اور ان دونوں کے درمیان ایک حجاب قائم کر دیا ہے کہ حد سے نہ بڑھیں پھر تم اپنے رب کی کس نعمت کے منکر ہو؟ اور آیت میں ہے کون ہے وہ جس نے زمین کو جائے قرار بنایا اور اس میں جگہ جگہ دریا جاری کر دئیے اس پر پہاڑ قائم کر دئیے اور دو سمندروں کے درمیان اوٹ کر دی۔ کیا اللہ کے ساتھ اور کوئی معبود بھی ہے؟ بات یہ ہے کہ ان مشرکین کے اکثر لوگ بے علم ہیں۔ اس نے انسان کو ضعیف نطفے سے پیدا کیا ہے پھر اسے ٹھیک ٹھاک اور برابر بنایا ہے۔ اور اچھی پیدائش میں پیدا کر کے پھر اسے مرد یا عورت بنایا۔ پھر اس کے لئے نسب کے رشتے دار بنا دئیے پھر کچھ مدت بعد سسرالی رشتے قائم کر دئیے اتنے بڑے قادر اللہ کی قدرتیں تمہارے سامنے ہیں

 

۵۵

آبائی گمراہی

مشرکوں کی جہالت بیان ہو رہی ہے کہ وہ بت پرستی کرتے ہی اور بلا دلیل و حجت ان کی پوجا کرتے ہیں جو نہ نفع کے مالک نہ نقصان کے۔ صرف باپ دادوں کی دیکھا دیکھی نفسانی خواہشات سے انکی محبت و عظمت اپنے دل میں جمائے ہوئے ہیں اور اللہ و رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے دشمنی اور مخالفت رکھتے ہیں۔ شیطانی لشکر میں شامل ہو گئے ہیں اور رحمانی لشکر کے مخالف ہو گئے ہیں لیکن یاد رکھیں کہ انجام کار غلبہ اللہ والوں کو ہی ہو گا۔ یہ خواہ مخواہ ان کی طرف سے سینہ سپر ہو رہے ہیں انجام کار مومنوں کے ہی ہاتھ رہے گا۔ دنیا اور آخرت میں ان کا پروردگار انکی امداد کرے گا۔ ان کفار کو تو شیطان صرف اللہ کی مخالفت پر ابھار دیتا ہے اور کچھ نہیں۔ سچے اللہ کی عداوت انکے دل میں ڈال دیتا ہے شرک کی محبت بٹھا دیتا ہے یہ اللہ کے احکام سے پیٹھ پھیر لیتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ اپن رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے خطاب کر کے فرماتا ہے کہ ہم نے تمہیں مومنوں کو خوشخبری سنانے والا اور کفار کو ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اطاعت گزاروں کو جنت کی بشارت دیجئے اور نا فرمانوں کو جہنم کے عذابوں سے مطلع فرما دیجئے۔ لوگوں میں عام طور پر اعلان کر دیجئے کہ میں اپنی تبلیغ کا بدلہ اپنے وعظ کا معاوضہ تم سے نہیں چاہتا۔ میرا ارادہ سوائے اللہ کی رضامندی کی تلاش کے اور کچھ نہیں۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں  کہ تم میں سے جو راہ راست پر آنا چاہے اس کے سامنے صحیح راستہ نمایا ں کر دوں۔ اے پیغمبر اپنے تمام کاموں میں اس اللہ پر بھروسہ رکھئے جو ہمیشہ اور دوام والا ہے جو موت و فوت سے پاک ہے جو اول و آخر ظاہر و باطن اور ہر چیز کا عالم ہے جو دائم باقی سرمدی ابدی حی و قیوم ہے جو ہر چیز کا مالک اور رب ہے اسکو اپنا ماویٰ و ملجا  ٹھہرا لے۔ اسی کی ذات ایسی ہے کہ اس پر توکل کیا جائے ہر گھبراہٹ میں اسی کی طرف جھکا جائے۔ وہ کافی ہے وہی ناصر ہے وہی موید و مظفر ہے۔ جیسے فرمان ہے یا ایھا الرسول بلغ ما انزل الیک اے نبی جو کچھ آپ کے رب کی جانب سے اتارا گیا ہے اسے پہنچا دیجئے۔ اگر آپ نے یہ نہ کیا تو آپ نے حق رسالت ادا نہیں کیا۔ آپ بے فکر رہئے اللہ آپ کو لوگوں کے برے ارادوں سے بچا لے گا۔ ایک مرسل حدیث میں ہے کہ مدینے کی کسی گلی میں حضرت سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو سجدہ کرنے لگے تو آپ نے فرمایا اے سلمان مجھے سجدہ نہ کر سجدے کے لائق وہ ہے جو ہمیشہ کی زندگی والا ہے۔ جس پر کبھی موت نہیں (ابن ابی حاتم) اور اس کی تسبیح و حمد بیان کرتا رہ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم اسکی تعمیل میں فرمایا کرتے تھے۔ سبحانک اللہم ربنا و بحمدک مراد اس سے یہ ہے کہ عبادت اللہ ہی کی کر توکل صرف اسی کی ذات پر کر جیسے فرمان ہے مشرق مغرب کا رب وہی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں تو اسی کو اپنا کارساز سمجھ اور جگہ ہے فاعبدہ وتوکل علیہ اسی کی عبادت کر ا سی پر بھروسہ رکھ اور آیت میں ہے اعلان کر دے کہ اسی رحمن کے ہم بندے ہیں اور اسی پر ہمارا کامل بھروسہ ہے۔ اس پر بندوں کے سب اعمال ظاہر ہیں۔ کوئی ایک ذرہ بھی اس سے پوشیدہ نہیں کوئی پراسرار بات بھی اس مخفی نہیں وہی تمام چیزوں کا خالق ہے مالک و قابض ہے وہی ہر جاندار کا روزی رساں ہے اس نے اپنی قدرت و عظمت سے آسمان و زمین جیسی زبردست مخلوق کو صرف چھ دن میں پیدا کر دیا پھر عرش پر قرار پکڑا ہے کامو کی تدبیروں کا انجام اسی کی طرف سے اور اسی کے حکم اور تدبیر کا مرہون ہے۔ اس کا فیصلہ اعلی اور اچھا ہی ہوتا ہے جو ذات الہ کا عالم ہو اور صفات الہ سے آگاہ ہو اس سے اس کی شان دریافت کر لے۔ یہ ظاہر ہے کہ اللہ کی ذات کی پوری خبرداری رکھنے والے اسکی ذات سے پورے واقف آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہی تھے۔ جو دنیا اور آخرت میں تمام اولاد آدم کے علی الاطلاق سردار تھے۔ جو ایک بات بھی اپنی طرف سے نہیں کہتے تھے بلکہ جو فرماتے تھے وہ فرمودہ الہ ہی ہوتا تھا۔ آپ نے جو جو صفتیں اللہ کی بیان کی سب برحق ہیں آپ نے جو خبریں دیں سب سچ ہیں سچے امام آپ ہی ہیں تمام جھگڑوں کا فیصلہ آپ ہی کے حکم سے کیا جا سکتا ہے جو آپ کی بات بتلائے وہ سچا جو آپ کے خلاف کہے وہ مردود خواہ کوئی بھی ہو۔ اللہ کا فرمان واجب الاذعان کھلے طور سے صادر ہو چکا ہے۔ فان تنازعتم فی شئی الخ، تم اگر کسی چیز میں جھگڑو تو اسے اللہ اور اسکے رسول کی طرف لوٹاؤ۔ اور فرمان ہے وماختلفتم فیہ من شئی فحکمہ الی اللہ تم جس چیز میں بھی اختلاف کرو اسکا فیصلہ اللہ کی طرف ہے۔ اور فرمان ہے وتمت کلمتہ ربک صدقا وعدلا الخ، تیرے رب کی باتیں جو خبروں میں سچی اور حکم و ممانعت میں عدل کی ہیں پوری ہو چکیں۔ یہ بھی مروی ہے کہ مراد اس سے قرآن ہے۔ مشرکین اللہ کے سوا اوروں کو سجدے کرتے تھے۔ ان سے جب رحمان کو سجدہ کرنے کو کہا جاتا تھا تو کہتے تھے کہ ہم رحمان کو نہیں جانتے۔ وہ اس سے منکر تھے کہ اللہ کا نام رحمان ہے جیسے حدیبیہ والے سال حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے صلح نامہ کے کاتب سے فرمایا بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھ۔ تو مشرکین نے کہا نہ ہم رحمان کو جانیں نہ رحیم کو ہمارے رواج کے مطابق باسمک اللہم لکھ۔ اس کے جواب میں یہ آیت اتری قل ادعواللہ اودعوالرحمن الخ، کہہ دے کہ اللہ کو پکارو یا رحمن کو جس نام سے چاہو پکارو اس کے بہت سے بہترین نام ہیں وہی اللہ ہے وہی رحمن پے پس مشرکین کہتے تھے کہ کیا صرف تیرے کہنے سے ہم ایسا مان لیں ؟ الغرض وہ اور نفرت میں بڑھ گئے برخلاف مومنوں کے کہ وہ اللہ کی عبادت کرتے ہیں جو رحمان و رحیم ہے اسی کو عبادت کے لائق سمجھتے ہیں اور اسی کے لئے سجدہ کرتے ہیں۔ علماء رحمۃ  اللہ علیہم کا اتفاق ہے کہ سورۃ فرقان کی اس آیت کے پڑھنے اور سننے والے پر سجدہ مشروع ہے جیسے کہ اسکی جگہ اس کی تفصیل موجود ہے واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم

 

۶۱

اللہ تعالیٰ کی رفعت و عظمت

اللہ تعالیٰ کی بڑائی، قدرت، رفعت کو دیکھو کہ اس نے آسمان میں برج بنائے اس سے مراد یا تو بڑے بڑے ستارے ہیں یا چوکیداری کے برج ہیں۔ پہلا قول زیادہ ظاہر ہے اور ہو سکتا ہے کہ بڑے بڑے ستاروں سے مراد بھی یہی برج ہوں۔ اور آیت میں ہے آسمان دنیا کو ہم نے ستاروں کے ساتھ مزین بنایا۔ سراج سے مراد سورج ہے جو چمکتا رہتا ہے اور مثل چراغ کے ہے جیسے فرمان ہے وجعلنا سراجا وھاجا اور ہم نے روشن چراغ یعنی سورج بنایا اور چاند بنیا جو منور اور روشن ہے دوسرے نور سے جو سورج کے سوا ہے۔ جیسے فرمان ہے کہ اس نے سورج کو روشن بنایا اور چاند کو نور بنایا۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا الم ترواکیف خلق اللہ سبع سموات طباقا الخ، کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ اللہ تعالیٰ نے اوپر تلے سات آسمان پیدا کیے اور ان میں چاند کو نور بنایا اور سورج کو چراغ بنایا۔ دن رات ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے میں اس کی قدرت کا نظام ہے۔ یہ جاتا ہے وہ آتا ہے اس کا جانا اس کا آنا ہے۔ جیسے فرمان ہے اس نے تمہارے لئے سورج چاند پے درپے آنے جانے والے بنائے ہیں۔ اور جگہ ہے رات دن کو ڈھانپ لیتی ہے اور جلدی جلدی اسے طلب کرتی آتی ہے۔ نہ سورج چاند سے آگے بڑھ سکے نہ رات دن سے سبقت لے سکے۔ اسی سے اس کے بندوں کو اسکی عبادتوں کے وقت معلوم ہوتے ہیں رات کا فوت شدہ عمل دن میں پورا کر لیں۔ دن کا رہ گیا ہوا عمل رات کو ادا کر لیں۔ صحیح حدیث شریف میں ہے اللہ تعالیٰ رات کو اپنے ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ دن کا گنہگار توبہ کر لے اور دن کو ہاتھ پھیلاتا ہے کہ رات کا گنہگار توبہ کر لے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دن ضحی کی نماز میں بڑی دیر لگا دی۔ سوال پر فرمایا کہ رات کا میرا وظیفہ کچھ باقی رہ گیا تھا تو میں نے چاہا کہ اسے پورا یا قضا کر لوں۔ پھر اپنے یہی آیت تلاوت فرمائی خلفۃ کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ مختلف یعنی دن روشن رات تاریک اس میں اجالا اس میں اندھیرا یہ نورانی اور وہ ظلماتی۔

۶۳

مومنوں کا کردار

اللہ کے مومن بندوں کے اوصاف بیان ہو رہے جئئ ہیں کہ وہ زمین پر سکون و وقار کے ساتھ، تواضع، عاجزی، مسکینی اور فروتنی سے چلتے پھرتے ہیں۔ تکبر، تجبر، فساد اور ظلم و ستم نہیں کرتے، جیسے حضرت لقمان رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے لڑکے سے فرمایا تھا کہ اکڑ کر نہ چلا کر۔ مگر اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تصنع اور بناوٹ سے کمر جھکا کر بیماروں کی طرح قدم قدم چلنا، یہ تو ریاکاروں کا کام ہے کہ وہ اپنے آپ کو دکھانے کے لئے اور دنیا کی نگاہیں اپنی طرف اٹھانے کے لئے ایسا کرتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی عادت اسکے بالکل برعکس تھی۔ آپ کی چال ایسی تھی کہ گویا آپ کسی اونچائی سے اتر رہے ہیں اور گویا کہ زمین آپ کے لئے لپٹی جا رہی ہے۔ سلف صالحین نے بیماروں کی سی تکلف والی چال کو مکروہ فرمایا ہے۔ فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک نوجوان کو دیکھا کہ وہ بہت آہستہ آہستہ چل رہا ہے آپ نے اس سے دریافت فرمایا کہ کیا تو کچھ بیمار ہے؟ اس نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا پھر یہ کیا چال ہے ؟ خبردار جو اب اس طرح چلا تو کوڑے کھائے گا۔ طاقت کے ساتھ جلدی جلدی چلا کرو۔ پس یہاں مراد تسکین اور وقار کے ساتھ شریفانہ چال چلنا ہے نہ کہ ضعیفانہ اور مریضانہ۔ چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ جب نماز کے لئے آؤ تو دوڑ کر نہ آؤ بلکہ تسکین کے ساتھ آؤ۔ جو جماعت کے ساتھ مل جائیں ادا کر لو اور جو فوت ہو جائی پوری کر لو۔ امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کی تفسیر میں نہایت ہی عمدہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ مومنوں کی آنکھیں اور ان کے کان اور ان کے اعضاء جھکے ہوئے اور کے ہوئے رہتے ہیں ، یہاں تک کہ گنوار اور بے وقوف لوگ انہیں بیمار سمجھ لیتے ہیں حالانکہ وہ بیمار نہیں ہوتے بلکہ خوف الٰہی سے جھکے جاتے ہیں۔ ویسے پورے تندرست ہیں لیکن دل اللہ کے خوف سے پر ہیں۔ آخرت کا علم دنیا طلبی سے اور یہاں کے ٹھاٹھ سے انہیں روکے ہوئے ہے۔ یہ قیامت کے دن کہیں گے کہ اللہ کا شکر ہے جس نے ہم سے غم کو دور کر دیا۔ اس سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ انہیں دنیا میں کھانے پینے وغیرہ کا غم لگا رہتا تھا، نہیں نہیں اللہ کی قسم دنیا کا کوئی غم ان کے پاس بھی نہیں پھٹکتا تھا۔ ہاں انہیں آخرت کا کھٹکا ہر وقت لگا رہتا تھا جنت کے کسی کام کو وہ بھاری نہیں سمجھتے تھے ہاں جہنم کا خوف انہیں رلاتا رہتا تھا جو شخص اللہ کے خوف دلانے سے بھی خوف نہ کھائے اس کا نفس حسرتوں کا مالک ہے جو شخص کھانے پینے کو ہی اللہ کی نعمت سمجھے وہ کم علم ہے اور عذابوں میں پھنسا ہوا ہے۔ پھر اپنے نیک بندوں کا اور وصف بیان فرمایا کہ جب جاہل لوگ ان سے جہالت کی باتیں کرتے ہیں تو یہ بھی ان کی طرح جہالت پر نہیں اترتے بلکہ درگزر کر لیتے ہیں معاف فرما دیتے ہیں اور سوائے بھلی بات کے گندی باتوں سے اپنی زبان آلودہ نہیں کرتے۔ جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی عادت مبارک تھی کہ جوں جوں دوسرا آپ پر تیز ہوتا آپ اتنے ہی نرم ہوتے۔ یہی وصف قرآن کریم کی اس آیت میں بیان ہوا ہے واذاسموا اللغوا اعرضو عنہ مومن لوگ بیہودہ باتیں سن کو منہ پھیر لیتے ہیں۔ ایک حسن سند سے مسند احمد میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے کسی شخص نے دوسرے کو برا بھلا کہا لیکن اس نے پلٹ کر جواب دیا کہ تجھ پر سلام ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم دونوں کے درمیاں فرشتہ موجود تھا وہ تیری طرف سے گالیاں دینے والے کو جواب دیتا تھا وہ جو گالی تجھے دیتا تھا فرشتہ کہتا تھا یہ نہیں بلکہ تو اور جب تو کہتا تھا تجھ پر سلام تو فرشتہ کہتا تھا اس پر نہیں بلکہ تجھ پر تو ہی سلامتی کو پورا حق دار ہے۔ پس فرمان ہے کہ یہ اپنی زبان کو گندی نہیں کرتے برا کہنے والوں کو برا نہیں کہتے سوائے بھلے کلمے کے زبان سے اور کوئی لفظ نہیں نکالتے۔ امام حسن بصری رحمۃ  اللہ علیہ فرماتے ہیں دوسرا ان پر ظلم کرے یہ صلح اور برداشت کرتے ہیں۔ اللہ کے بندوں کے ساتھ دن اس طرح گزارتے ہیں کہ ان کی کڑوی کسیلی سن لیتے ہیں رات کو جس حالت گزارتے ہیں اس کا بیان اگلی آیت میں ہے۔ فرماتا ہے کہ رات اللہ کی عبادت اور اس کی اطاعت میں بسر ہوتی ہے بہت کم سوتے ہیں صبح کو استغفار کرتے ہیں کروٹیں بستروں سے الگ رہتی ہیں دلوں میں اللہ کا خوف ہوتا ہے امید رحمت ہوتی ہے اور راتوں کی گھڑیوں کو اللہ کی عبادتوں میں گزارتے ہیں۔ دعائیں مانگتے ہیں کہ اے اللہ عذاب جہنم ہم سے دور رکھ وہ تو دائمی اور لازمی عذاب ہے۔ جیسے شاعر نے اللہ کی شان بتائی ہے کہ ان یعذیکن غراما وان یعط جزیلافانہ لایبالی یعنی اس کے عذاب بھی سخت اور لازمی اور ابدی اور اسکی عطا اور انعام بھی بے حد ان گنت اور بے حساب جو چیز آئے اور ہٹ جائے وہ غرام نہیں۔ غرام وہ ہے جو آنے کے بعد ہٹنے اور دور ہونے کا نام ہی نہ لے۔ یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ عذاب جہنم تاوان ہے جو کفران نعمت سے لیا جائے گا۔ انہوں نے اللہ کے دیئے کو اس کی راہ میں نہیں لگایا لہذا آج اسکا تاوان یہ بھرنا پڑے گا جہنم کو پرُ کر دیں۔ وہ بری جگہ ہے بد منظر ہے تکلیف دہ ہے مصیبت ناک ہے۔ حضرت مالک بن حارث کا بیان ہے کہ جب دوزخی دوزخ میں پھینک دیا جائے گا تو اللہ ہی جانتا ہے کہ کتنی مدت تک وہ نیچے ہی نیچے چلا جائے گا اسکے بعد جہنم کے ایک دروازے پر اسے روک دیا جائے گا اور کہا جائے گا تم بہت پیاسے ہو رہے ہو گے لو ایک جام تو نوش کر لو۔ یہ کہہ کر انہیں کالے ناگ اور زہریلے بچھوؤں کے زہر کا ایک پیالہ پلایا جائے گا جس کے پیتے ہی ان کی کھالیں الگ جھڑ جائیں گی بال الگ ہو جائیں گے رگیں الگ جا پڑیں گی ہڈیاں جدا جدا ہو جائیں گی۔ حضرت عمیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جہنم میں گڑھے ہیں کنویں ہیں ان میں سانپ ہیں جیسے بختی اونٹ اور بچھو ہیں جیسے خچر جب کسی جہنمی کو جہنم میں ڈالا جاتا ہے تو وہ وہاں سے نکل کر آتے اور انہیں لپٹ جاتے ہیں ، ہونٹوں پر سروں پر اور جسم کے اور حصوں پر ڈستے اور ڈنک مارتے ہیں جس سے ان کے سارے بدن میں زہر پھیل جاتا ہے اور پھکنے لگتے ہیں سارے سر کی کھال جھلس کر گر پڑتی ہے پھر وہ سانپ چلے جاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ جہنمی ایک ہزار سال تک جہنم میں چلاتا رہے گا یا حنان یا منان تب اللہ تعالیٰ حضرت جبرئیل علیہ السلام سے فرمائے گا جاؤ دیکھو یہ کیا کہہ رہا ہے۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام آ کر دیکھیں گے کہ سب جہنمی برے حال سر جھکائے آہ و زاری کر رہے ہیں۔ جا کر جناب باری تعالیٰ میں خبر کریں گے اللہ تعالیٰ فرمائے گا پھر جاؤ فلاں فلاں جگہ یہ شخص ہے جاؤ اور اسے لے آؤ۔ یہ بحکم الٰہی جائیں گے اور اسے لا کر سامنے کھڑا کر دیں گے۔ اللہ تعالیٰ اس سے دریافت فرمائے گا اچھا اب اسے اس کی جگہ واپس لے جاؤ تو یہ گڑگڑائے گا عرض کرے گا کہ اے میرے ارحم الراحمین اللہ! جب کہ تو نے مجھے یہ جواب دے گا کہ اے اللہ ٹھہرنے کی جگہ بھی بری جگہ اور سونے بیٹھے کی بھی بدترین جگہ ہے۔ اللہ فرمائے گا اچھا اب اسے اس کی جگہ واپس لے جاؤ تو یہ گڑگڑائے گا عرض کرے گا کہ اے میرے ارحم الرحمین اللہ ! جب کہ تو نے مجھے اس سے باہر نکالا تو تیری ذات ایسی نہیں کہ پھر مجھے اس میں داخل کر دے مجھے تو تجھ سے رحم و کرم کی ہی امید ہے۔ اے اللہ بس اب مجھ پر کرم فرما۔ جب تو نے مجھے جہنم سے نکالا تو میں خوش ہو گیا تھا کہ اب تو اس میں نہ ڈالے گا۔ اس مالک و رحمن و رحیم اللہ کو بھی رحم آ جائے گا اور فرمائے گا اچھا میرے بندے کو چھوڑ دو۔ پھر ان کا ایک اور وصف بیان ہوتا ہے کہ وہ نہ مسرف ہیں نہ بخیل ہیں نہ بے جا خرچ کرتے ہیں نہ ضروری اخراجات میں کوتاہی کرتے ہیں بلکہ میانہ روی سے کام لیتے ہیں نہ ہی ایسا کرتے ہیں کہ اپنے والوں کو اہل و عیال کو بھی تنگ رکھیں۔ نہ ایسا کرتے ہیں کہ جو ہو سب لٹا دیں۔ اسی کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے فرماتا ہے ولاتجعل یدک مغلولتہ الخ، یعنی نہ تو اپنے ہاتھ اپنی گردن سے باندھ اور نہ انہیں بالکل ہی چھوڑ دے۔ مسند احمد میں فرمان رسول ہے کہ اپنی گزران میں میانہ روی کرنا انسان کی سمجھ داری کی دلیل ہے۔ اور حدیث میں ہے جو افراط تفریط سے بچتا ہے وہ کبھی فقیر و محتاج نہیں ہوتا۔ بزار کی حدیث میں ہے کہ امیری میں فقیری میں عبادت میں درمیانہ روی بڑی ہی بہتر اور احسن چیز ہے۔ امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اللہ کی راہ میں کتنا ہی چاہو دو اس کا نام اسراف نہیں ہے۔ حضرت ایاس بن معاویہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جہاں کہیں تو حکم اللہ سے آگے بڑھ جائے وہی اسراف ہے۔ اور بزرگوں کا قول ہے اللہ کی نافرمانی کا خرچ اسراف کہلاتا ہے۔

 

۶۸

سب سے بڑا گناہ

حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سوال کیا کہ سب سے بڑا گناہ کونسا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ تیرا اللہ کے ساتھ شرک کرنا۔ حالانکہ اسی اکیلے نے تجھے پیدا کیا ہے۔ اس نے کہا اس سے کم؟ فرمایا تیرا اپنی اولاد کو اس خوف سے مار ڈالنا کہ تو اسے کھلائے گا کہاں سے؟ پوچھا اس کے بعد ؟ فرمایا تیرا اپنے پڑوس کی کسی عورت سے بدکاری کرنا۔ پس اس کی تصدیق میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں۔ یہ حدیث بخاری و مسلم وغیرہ میں موجود ہے۔ اور روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم باہر جانے لگے تنہا تھے میں بھی ساتھ ہولیا آپ ایک اونچی جگہ بیٹھ گئے میں آپ سے نیچے بیٹھ گیا اور اس تنہائی کے موقعہ کو غنیمت سمجھ کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے وہ سوالات کئے جو اوپر مذکور ہوئے۔ حجۃ الوداع میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا چار گناہوں سے بچو، اللہ کے ساتھ کا شرک، کسی حرمت والے نفس کا قتل، زناکاری اور چوری۔ مسند احمد میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا زنا کی بابت تم کیا کہتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا وہ حرام ہے اور وہ قیامت تک حرام ہے۔ آپ نے فرمایا ہاں سنو! انسان کا اپنی پڑوس کی عورت سے زنا کرنا دوسری دس عورتوں سے زنا سے بھی بدتر ہے۔ پھر آپ نے فرمایا چوری کی نسبت کیا کہتے ہو؟ انہوں نے یہی جواب دیا کہ وہ حرام ہے اللہ اور اس کے رسول اسے حرام قرار دے چکے ہیں۔ آپ نے فرمایا سنو دس جگہ کی چوری بھی اتنی بری نہیں جیسی پڑوس کی ایک جگہ کی چوری۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ شرک کے بعد اس سے بڑا گناہ کوئی نہیں کہ انسان اپنا نطفہ اس رحم میں ڈالے جو اس کے لئے حلال نہیں۔ یہ بھی مروی ہے کہ بعض مشرکین حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے اور کہا حضرت آپ کی دعوت اچھی ہے سچی ہے لیکن ہم نے تو شرک بھی کیا ہے قتل بھی کیا ہے، زنا کاریاں بھی کی ہیں اور یہ سب کام بکثرت کیے ہیں تو فرمائیے ہمارے لیے کیا حکم ہیں ؟ اس پر یہ آیت اتری اور آیت قل یعبادی الذین اسرافوا بھی نازل ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اللہ تمہیں اس سے منع فرماتا ہے کہ تم خالق کو چھوڑ کر مخلوق کی عبادت کرو اور اس سے بھی منع فرماتا ہے کہ اپنے کتے کو تو پالو اور اپنے بچے کو قتل کر ڈالو۔ اور اس سے بھی منع فرماتا ہے کہ اپنی پڑوسن سے بدکاری کرو۔ اثام جہنم کی ایک وادی کا نام ہے یہی وہ وادی ہے جن میں زانیوں کو عذاب دیا جائے گا۔ اس کے معنی عذاب وسزا کے بھی آتے ہیں۔ حضرت لقمان حکیم کی نصیحتوں میں ہیں کہ اے بچے زناکاری سے بچنا اس کے شروع میں ڈر خوف ہے اور اس کا انجام ندامت و حسرت ہے۔ یہ بھی مروی ہے کہ غی اور اثام دوزخ کے دو کنوئیں ہیں اللہ ہمیں محفوظ رکھیں۔ اثام کے معنی بدلے کے بھی مروی ہے اور یہی ظاہر آیت کے مشابہ بھی ہے۔ اور گویا اسکے بعد کی آیت اسی بدلے اور سزا کی تفسیر ہے۔ کہ اسے با بار عذاب کیا جائے گا اور سختی کی جائیگی اور ذلت کے دائمی عذابوں میں پھنس جائے گا۔ اللہم احفظنا ان کاموں کے کرنے والے کی سزا تو بیان ہو چکی ہے، مگر اس سزا سے وہ بچ جائیں گے جو دنیا ہی میں توبہ کر لیں اللہ ان کی توبہ قبول فرمائے گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قاتل کی توبہ بھی قبول ہوتی ہے جو آیت سورۃ نساء میں ہیں ومن یقتل مومنا متعمدا الخ، وہ اس کے خلاف نہیں گو وہ مدنی آیت ہے لیکن وہ مطلق ہے تو وہ محمول کی جائے گی ان قاتلوں پر جو اپنے اس فعل سے توبہ نہ کریں اور یہ آیت ان قاتلوں کے بارے میں ہے جو توبہ کریں پھر مشرکوں کی بخشش نہ ہونے کا بیان فرمایا ہے اور صحیح احادیث سے بھی قاتل کی توبہ کی مقبولیت ثابت ہے۔ جیسے اس شخص کا قصہ جس نے ایک سو قتل کیے تھے پھر توبہ کی اور اس کی توبہ قبول ہوئی۔ وہ لوگ ہیں جن کی برائیاں اللہ تعالیٰ بھلائیوں سے بدل دیتا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اسلام قبول کرنے سے پہلے گناہ کے کام کئے تھے اسلام میں آنے کے بعد نیکیاں کیں تو اللہ تعالیٰ نے ان گناہ کے کاموں کے بدلے نیکیوں کی توفیق عنایت فرمائی۔ اس آیت کی تلاوت کے وقت آپ ایک عربی شعر پڑھتے تھے جس میں احوال کے تغیر کا بیان ہے جیسے گرمی سے ٹھنڈک۔ عطا بن ابی رباح فرماتے ہیں یہ دنیا کا ذکر ہے کہ انسان کی بری خصلت کو اللہ تعالیٰ اپنی مہربانی سے نیک عادت سے بدل دیتا ہے۔ سعید بن جبیر کا بیان ہے کہ بتوں کی پرستش کے بدلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی توفیق انہیں ملی۔ مومنوں سے لڑنے کے بجائے کافروں سے جہاد کرنے لگے۔ مشرکہ عورتوں سے نکاح کے بجائے مومنہ عورتوں سے نکاح کئے۔ حسن بصری فرماتے ہیں گناہ کے بدلے ثواب کے عمل کرنے لگے۔ شرک کے بدلے توحید و اخلاص ملا۔ بدکاری کے بدلے پاکدامنی حاصل ہوئی۔ کفر کے بدلے اسلام ملا۔ ایک معنی تو اس آیت کے یہ ہوئے دوسرے معنی یہ ہیں کہ خلوص کے ساتھ ان کی جو توبہ تھی اس سے خوش ہو کر اللہ عز و جل نے ان کے گناہوں کو نیکوں میں بدل دیا۔ یہ اس لیے کہ توبہ کے بد جب کبھی انہیں اپنے گزشتہ گناہ یاد آتے تھے انہیں ندامت ہوتی تھی یہ غمگین ہو جاتے تھے شرمانے لگتے تھے اور استغفار کرتے تھے۔ اس وجہ سے ان کے گناہ اطاعت سے بدل گئے گو وہ ان کے نامہ اعمال میں گناہ کے طور پر لکھے ہوئے تھے لیکن قیامت کے دن وہ سب نیکیاں بن جائیں گے جیسے کہ احادیث و آثار میں ثابت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں میں اس شخص کو پہچانتا ہوں جو سب سے آخر جہنم سے نکلے گا اور سب سے آخر جنت میں جائے گا یہ ایک وہ شخص ہو گا جسے اللہ کے سامنے لایا جائے گا اللہ تعالیٰ فرمائے گا اسکے بڑے بڑے گناہوں کو چھوڑ کر چھوٹے چھوٹے گناہوں کی نسبت اس سے باز پرس کرو چنانچہ اس سے سوال ہو گا کہ فلاں فلاں دن تو نے فلاں کام کیا تھا ؟ فلاں دن فلاں گناہ کیا تھا ؟ یہ ایک کا بھی انکار نہ کر سکے گا اقرار کرے گا۔ آخر میں کہا جائے گا تجھے ہم نے ہر گناہ کے بدلے نیکی دی اب تو اس کی باچھیں کھل جائیں گی اور کہے گا اے میرے پروردگار میں نے اور بھی بہت سے اعمال کئے تھے جنہیں یہاں پا نہیں رہا۔ یہ فرما کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم اس قدر ہنسے کہ آپ کے مسوڑے دیکھے جانے لگے (مسلم) آپ فرماتے ہیں کہ جب انسان سوتا ہے تو فرشتہ شیطان سے کہتا ہے مجھے اپنا صحیفہ جس میں اس کے گناہ لکھے ہوئے ہیں دے وہ دیتا ہے تو ایک نیکی کے بدلے دس دس گناہ وہ اس کے صحیفے سے مٹا دیتا ہے اور انہیں نیکیاں لکھ دیتا ہے پس تم میں سے جو بھی سونے کا ارادہ کریں وہ چونتیس دفعہ اللہ اکبر اور تینتیس دفعہ الحمد للہ اور تینتیس دفعہ سبحان اللہ کہے یہ مل کر سو مرتبہ ہو گئے۔ (ابن ابی دنیا) حضرت سلمان فرماتے ہیں انسان کو قیامت کے دن نامہ اعمال دیا جائے گا وہ پڑھنا شروع کرے گا تو اوپر ہی اس کی برائیاں درج ہو گی جنہیں پڑھ کر یہ کچھ نا امید سا ہونے لگے گا۔ اسی وقت اس کی نظر نیچے کی طرف پڑے گی تو اپنی نیکیاں لکھی ہوئی پائے گا جس سے کچھ ڈھارس بندھے گی۔ اب دوبارہ اوپر کی طرف دیکھے گا تو گناہوں کی برائیوں کو بھی بھلائیوں سے بدلا ہوا پائے گا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ بہت سے لوگ اللہ تعالیٰ کے سامنے آئیں گے جن کے پاس بہت کچھ گناہ ہوں گے پوچھا گیا کہ وہ کون سے لوگ ہوں گیا آپ نے فرمایا کہ وہ جن کی برائیوں کو اللہ تعالیٰ بھلائیوں سے بدل دے گا۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جنتی جنت میں چار قسم کے جائیں گے۔ متقین یعنی پرہیز گاری کرنے والے پھر شا کرین یعنی شکر الٰہی کرنے والے پھر خائیفین یعنی خوف الٰہی رکھنے والے پھر اصحاب یمین جن کے دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال پانے والے۔ پوچھا گیا کہ انہیں اصحاب یمین کیوں کہا جاتا ہے؟ جواب دیا اس لئے کہ انہوں نے نیکیاں بدیاں سب کی تھیں ان کے اعمال نامے ان کے داہنے ہاتھ ملے اپنی بدیوں کا ایک ایک حرف پڑھ کر یہ کہنے لگے کہ اے اللہ ہماری نیکیاں کہاں ہیں ؟ یہاں تو سب بدیاں لکھی ہوئی ہیں اس وقت اللہ تعالیٰ ان بدیوں کو مٹا دے گا اور ان کے بدلے نیکیاں لکھ دے گا انہیں پڑھ کر خوش ہو کر اب تو یہ دوسروں سے کہیں گے کہ آؤ ہمارے اعمال نامے دیکھو جنتیوں میں اکثر یہی لوگ ہوں گے۔ امام علی بن حسین زین العابدین فرماتے ہیں برائیوں کو بھلائیوں سے بدلنا آخرت میں ہو گا۔ مکحول فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو بخشے گا اور انہیں نیکیوں میں بدل دے گا۔ حضرت مکحول نے ایک مرتبہ حدیث بیان کی ایک بہت بوڑھے ضعیف آدمی جن کی بھویں آنکھوں پر آ گئی تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں ایک ایسا شخص ہو ں جس نے کوئی غداری کوئی گناہ کوئی بدکاری باقی نہیں چھوڑی۔ میرے گناہ اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ اگر تمام انسانوں پر تقسیم ہو جائیں تو سب کے سب غضب الٰہی میں گرفتار ہو جائیں کیا میر بخشش کی بھی کوئی صورت ہے ؟ کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ تم مسلمان ہو جاؤ اس نے کلمہ پڑھ لیا اشہد ان لا الہ الا اللہ وحدہٗ لاشریک لہٗ واشہد ان محمدا عبدہ ورسولہ تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ تیری تمام برائیاں ، گناہ، بدکاریاں سب کچھ معاف فرما دے گا بلکہ جب تک تو اس پر قائم رہے گا اللہ تعالیٰ تیری برائیاں بھلائیوں میں بدل دے گا۔ اس نے پھر پوچھا حضور صلی اللہ علیہ و سلم میرے چھوٹے بڑے گناہ سب صاف ہو جائیں گے؟ آپ نے فرمایا ہاں ہاں سب کے سب پھر تو وہ شخص خوشی خوشی واپس جانے لگا اور تکبیر و تہلیل پکارتا ہوا لوٹ گیا رضی اللہ تعالیٰ عنہ (ابن جریر) حضرت ابوفروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حاضر حضور صلی اللہ علیہ و سلم ہو کر عرض کرتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے سارے گناہ کئے ہوں جو جی میں آیا ہو پورا کیا، کیا ایسے شخص کی توبہ بھی قبول ہو سکتی ہے ؟ آپ نے فرمایا تم مسلمان ہو گئے ہو؟ اس نے کہا جی ہاں آپ نے فرمایا اب نیکیاں کرو برائیوں سے بچو تو اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ بھی نیکوں میں بدل دے گا اس نے کہا میری غداریاں اور بدکاریاں بھی؟ آپ نے فرمایا ہاں اب وہ اللہ اکبر کہتا ہوا واپس چلا گیا۔ (طبرانی) ایک عورت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئی اور دریافت فرمایا کہ مجھ سے بدکاری ہو گئی اس سے بچہ ہو گیا میں نے اسے مار ڈالا اب کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اب نہ تیری آنکھیں ٹھنڈی ہو سکتی ہے نہ اللہ کے ہاں تیری بزرگی ہو سکتی ہے تیرے لئے توبہ ہرگز نہیں وہ روتی پیٹتی واپس چلی گئی۔ صبح کی نماز حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ پڑھ کر میں نے یہ واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا تو نے اس سے بہت ہی بری بات کہی کیا تو ان آیتوں کو قرآن میں نہیں پڑھتا والذین لاید عون سے الا من تاب تک۔ مجھے بڑا ہی رنج ہوا اور میں لوٹ کر اس عورت کے پاس پہنچا۔ اور اسے یہ آیتیں پڑھ کر سنائیں وہ خوش ہو گئی اور اسی وقت سجدے میں گر پڑی اور کہنے لگی اللہ کا شکر ہے کہ اس نے میرے لئے چھٹکارے کی صورت پیدا کر دی (طبرانی) اور روایت میں ہے کہ حضرت ابوہریرہ کا پہلا فتویٰ سن کر وہ حسرت افسوس کے ساتھ یہ کہتی ہوئ واپس چلی کہ ہائے ہائے یہ اچھی صورت کیا جہنم کے لے بنائی گئی تھی؟ اس میں یہ بھی ہے کہ جب حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنی غلطی کا علم ہوا و اس عورت کو ڈھونڈنے کے لئے نکلے تمام مدینہ اور ایک ا یک گلی چھان ماری لیکن کہیں پتہ نہ چلا۔ اتفاق سے رات کو وہ عوت پھر آئی تب حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں صحیح مسلۂ بتلایا۔ اس میں یہ بھی ہے کہ اس نے اللہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس نے میرے لئے چھٹکارے کی صورت بنائی اور میری توبہ کو قبول فرمایا یہ کہہ کر اس کے ساتھ جو لونڈی تھی اسے آزاد کر دیا اس لونڈی کی ایک لڑکی بھی تھی اور سچے دلے توبہ کر لی۔ پھر فرماتا ہے اور پنے عام لطف و کرم فضل و رحم کی خبر دیتا ہے کہ جو بھی اللہ کی طرف جھکے اور اپنی سیاہ کاریوں پر نادم ہو کر توبہ کرے اللہ اس کی سنتا ہے قبول فرماتا ہے اور اسے دیتا ہے۔ جیسے ارشاد ہے ومی یعمل سوء ا اویظلم نفسہ الخ، جو برا عمل کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر توبہ استغفار کرے وہ اللہ کو غفور ورحیم پائے گا۔ اور جگہ ارشاد ہے الم یعملوا اللہ یقبل التوبۃ الخ کیا انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ اللہ تعالیٰ توبہ کو قبول فرمانے والا ہے۔ قل یا عبادی الذین اسرافوا علی انفسھم الخ، میرے ان بندوں سے جو گنہگار ہیں کہہ دیجئے کہ وہ میری رحمت سے نا امید نہ ہوں۔ یعنی توبہ کرنے والا محروم نہیں۔

 

۷۲

عباد الرحمن کے اوصاف

عباد الرحمن کے اور نیک اوصاف بیان ہو رہے ہیں کہ وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے یعنی شرک نہیں کرتے، بت پرستی سے بچتے ہیں ، جھوٹ نہیں بولتے فسق و فجور نہیں کرتے کفر سے الگ رہتے ہیں لغو اور باطل کاموں سے پرہیز کرتے ہیں گانا نہیں سنتے مشرکوں کی عیدیں نہیں مناتے خیانت نہیں کرتے بری مجلسوں میں نشست نہیں رکھتے شرابیں نہیں پیتے شراب خانوں میں نہیں جاتے اس کی رغبت نہیں کرتے حدیث میں بھی ہے کہ سچے مومن کو چاہئے کہ اس دسترخوان پر نہ بیٹھے جس پر دور شراب چل رہا ہو اور یہ بھی مطلب ہے کہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔ بخاری و مسلم میں ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کیا میں تمہیں سب سے بڑا گناہ بتا دوں ؟ تین دفعہ یہی فرمایا صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے کہا ہاں یار سول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ نے فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا ماں باپ کی نافرمانی کرنا اس وقت تک آپ تکیہ لگائے بیٹھے ہوئے تھے اب اس سے لگ ہو کر فرمانے لگے سنو اور جھوٹی بات کہنا سنو اور جھوٹی گواہی دینا اسے بار بار فرماتے رہے یہاں تک کہ ہم اپنے دل میں کہنے لگے کاش رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اب خاموش ہو جاتے۔ زیادہ ظاہر لفظوں سے تو یہ ہے کہ وہ جھوٹ کے پاس نہیں جاتے۔ اللہ کے ان بزرگ بندو ں کی ایک وصف یہ بھی ہے کہ قرآن کی آیتیں سن کر ان کے دل ہل جاتے ہیں ان کے ایمان اور توکل بڑھ جاتے ہیں بخلاف کفار کے کہ ان پر کلام الٰہی کا اثر نہیں ہوتا وہ اپنی بد اعمالیوں سے باز نہیں رہتے۔ نہ اپنا کفر چھوڑتے ہیں نہ سرکشی، طغیانی اور جہالت و ضلالت سے باز آتے ہیں ایمان والوں کے ایمان بڑھ جاتے ہیں اور بیمار سل والوں کی گندگی ابھر آتی ہے پس کافر اللہ کی آیتوں سے بہرے اور اندھے ہو جاتے ہیں۔ ان مومنوں کی حالت ان کے برعکس ہے نہ یہ حق سے بہرے ہیں نہ حق سے اندھے ہیں۔ سنتے ہیں سمجھتے ہیں نفع حاصل کرتے ہیں اپنی اصلاح کرتے ہیں۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو پڑھتے تو ہیں لیکن اندھا پن بہراپن نہیں چھوڑتے۔ حضرت شعبی رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا کہ ایک شخص آتا ہے اور دوسروں کو سجدے میں پاتا ہے لیکن اسے نہیں معلوم کہ کس آیت کو پڑھ کر سجدہ کیا ہے؟ تو کیا وہ بھی ان کیساتھ سجدہ کر لے؟ تو آپ نے یہی آیت پڑھی یعنی سجدہ نہ کرے اس لیے کہ اس نے نہ سجدے کی آیت پڑھی نہ سنی نہ سوچی تو مومن کا کوئی کام اندھا دھند نہ کرنا چاہئے جب تک اسے سامنے کسی چیز کی حقیقت نہ ہو اسے شامل نہ ہونا چائیے۔ پھر ان بزرگ بندوں کی ایک دعا بیان ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے طلب کرتے ہیں کہ ان کی اولادیں بھی ان کی طرح رب کی فرماں بردار عبادت گزار موحد اور غیر مشرک ہوں تاکہ دنیا میں بھی اس نیک اولاد سے ان کا دل ٹھنڈا رہے اور آخرت میں بھی یہ انہیں اچھی حالت میں دیکھ کر خوش ہوں۔ اس دعا سے ان کی غرض خوبصورتی اور جمال نہیں بلکہ نیکی اور خوش خلقی کی ہے۔ مسلمان کی سچی خوشی اسی میں ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال کو دوست احباب کو اللہ کا فرماں بردار دیکھے۔ وہ ظالم نہ ہو بدکار نہ ہو۔ سچے مسلمان ہوں۔ حضرت مقداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھ کر ایک صاحب فرمانے لگے ان کی آنکھوں کو مبارک باد ہو جنہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت کی ہے۔ کاش کہ ہم بھی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھتے اور تمہاری طرح فیض صحبت حاصل کرتے۔ اس پر حضرت مقداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ ناراض ہوئے تو نفیر کہتے ہیں مجھے تعجب معلوم ہوا کہ اس بات میں کوئی برائی نہیں پھر یہ خفا کیوں ہو رہے ہیں ؟ اتنے میں حضرت مقداد رضی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ اس چیز کی آرزو کرتے ہیں کہ جو قدرت نے انہیں نہیں دی۔ اللہ ہی کو علم ہے کہ یہ اگر اس وقت ہوتے تو ان کا کیا حال ہوتا؟ واللہ وہ لوگ بھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں تھے جنہوں نے نہ آپ کی تصدیق نہ تابعداری اور اوندھے منہ جہنم میں گئے۔ تم اللہ کا یہ احسن نہیں مانتے کہ اللہ نے تمہیں اسلام میں اور مسلمان گھروں میں پیدا کیا۔ پیدا ہوتے ہی تمہارے کانوں میں اللہ کی توحید اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت پڑی اور ان بلاؤں سے تم بچا لئے گئے جو تم سے اگلے لوگوں پر آئی تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم تو ایسے زمانے میں مبعوث ہوئے تھے جس وقت دنیا کی اندھیر نگری اپنی انتہا پر تھی۔ اس وقت دنیا والوں کے نزدیک بت پرستی سے بہتر کوئی مذہب نہ تھا۔ آپ فرقان لے کر آئے حق و باطل میں تمیز کی۔ باپ بیٹے جدا ہو گئے۔ مسلمان اپنے باپ دادوں بیٹوں پوتوں دوست احباب کو کفر پر دیکھتے ان سے انہیں کوئی محبت پیار نہیں ہوتا تھا بلکہ کڑھتے تھے کہ یہ جہنمی ہیں اسی لئے ان کی دعائیں ہوتی تھیں۔ اس دعا کا آخر یہ ہے کہ ہمیں لوگوں کا رہبر بنا دے کہ ہم انہیں نیکی کی تعلیم دیں ، لوگ بھلائی میں ہماری اقتدا کریں۔ ہماری اولاد ہماری راہ چلے تاکہ ثواب بڑھ جائے اور ان کی نیکیوں کا باعث بھی ہم بن جائیں۔ رسول کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم فرماتے ہیں کہ انسان کے مرتے ہی اس کے اعمال ختم ہو جاتے ہیں مگر تین چیزیں۔ نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرے یا علم جس سے اس کے بعد نفع اٹھایا جائے یا صدقہ جاریہ۔

 

۷۴

مومنوں کے اعمال اور اللہ کے انعامات

مومنوں کی پاک صفتیں ان کے بھلے اقوال عمدہ افعال بیان فرما کر ان کا بدلہ بیان ہو رہا ہے کہ انہیں جنت ملے گی۔ جو بلند تر جگہ ہے اس وجہ سے یہ ان اوصاف پر جمے رہے وہاں ان کی عزت ہو گی اکرام ہو گا ادب تعظیم ہو گی۔ احترام اور توقیر ہو گی۔ ان کے لئے سلامتی ہے ان پر سلامتی ہے ہر ایک دروازہ جنت سے فرشتے حاضر خدمت ہوتے ہیں اور سلام کر کے کہتے ہیں کہ تمہارا انجام بہتر ہو گیا کیونکہ تم صبر کرنے والے تھے۔ یہ وہاں ہمیشہ رہیں گے نہ نکلیں نہ نکالے جائیں نہ نعمتیں کم ہوں نہ راحتیں فنا ہوں یہ سعید بخت ہیں جنتوں میں ہمیشہ رہیں گے ان کے رہنے سہنے راحت و آرام کرنے کی جگہ بڑی سہانی پاک صاف طیب و طاہر دیکھنے میں خوش منظر رہنے میں آرام دہ۔ اللہ نے اپنی مخلوق کو اپنی عبادت اور تسبیح و تہلیل کے لئے پیدا کیا ہے اگر مخلوق یہ نہ بجا لائے تو وہ اللہ کے نزدیک نہایت حقیر ہے۔ اللہ کے نزدیک یہ کسی گنتی میں ہی نہیں۔ کفرو! تم نے جھٹلایا اب تم نہ سمجھو کہ بس معاملہ ختم ہو گیا۔ نہیں اس کا وبال دینا اور آخر میں تمہارے ساتھ ساتھ ہے تم برباد ہو گے اور عذاب اللہ تم سے چمٹے ہوئے ہیں اسی سلسلے کی ایک کڑی بدر کے دن کفار کی ہزیمت اور شکست تھی جیسے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ سے مروی ہے قیامت کے دن کی سزا ابھی باقی ہے الحمد للہ کہ سورۃ فرقان کی تفسیر ختم ہوئی فا لحمدللہ