تفسیر ابنِ کثیر

سُوۡرَةُ القَصَص

۱

 حروف مقطعہ کا بیان پہلے ہو چکا ہے۔

یہ آیتیں ہیں واضح جلی روشن صاف اور کھلے قرآن کی تمام کاموں کی اصلیت اب گذشتہ اور آئندہ کی خبریں اس میں ہیں اور سب سچی اور کھلی۔ ہم تیرے سامنے موسیٰ اور فرعون کا سچا واقعہ بیان کرتے ہیں۔ جیسے اور آیت میں ہے ہم تیرے سامنے بہترین واقعہ بیان کرتے ہیں۔ اس طرح کہ گویا تو اس کے ہونے کے وقت وہیں موجود تھا۔ فرعون ایک متکبر سرکش اور بد دماغ انسان تھا۔ اس نے لوگوں پر بری طرح قبضہ جما رکھا تھا اور انہیں آپس میں لڑوا لڑوا کر ان میں پھوٹ اور اختلاف ڈلوا کر انہیں کمزور کر کے خود ان پر جبر و تعدی کے ساتھ سلطنت کر رہا تھا۔ خصوصاً بنی اسرائیل کو تو اس ظالم نے نیست و نابود کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اور دن رات یہ بے چارے بیکار میں گھیسٹے جاتے تھے۔ اس پر بھی اس کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوتا تھا یہ ان کی نرینہ اولاد کو قتل کروا ڈالتا تھا۔ تاکہ یہ افرادی قوت سے محروم رہیں قوت والے نہ ہو جائیں اور اس لئے بھی کہ یہ ذلیل و خوار رہیں اور اس لئے بھی کہ اسے ڈر تھا کہ ان میں سے ایک بچے کے ہاتھوں میری سلطنت تباہ ہونے والی ہے۔ بات یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام مصر کی حکومت میں سے مع اپنی بیوی صاحبہ حضرت سارہ کے جا رہے تھے اور یہاں کے سرکش بادشاہ نے حضرت سارہ کو لونڈی بنانے کے لئے آپ سے چھین لیا جنہیں اللہ نے اس کافر سے محفوظ رکھا اور اسے آپ پردست درازی کرنے کی قدرت ہی حاصل نہ ہوئی تو اس وقت حضرت ابراہیم نے بطور پیش گوئی فرمایا تھا کہ تیری اولاد میں سے ایک کی اولاد کے لڑکے کے ہاتھوں ملک مصر اس قوم سے جاتا رہے گا اور انکا بادشاہ اس کے سامنے ذلت کے ساتھ ہلاک ہو گا۔ چونکہ یہ روایت چلی آ رہی تھی اور ان کے درس میں ذکر ہوتا رہتا تھا جسے قبطی بھی سنتے تھے جو فرعون کی قوم تھی، انہوں نے دربار میں مخبری کی جب سے فرعون نے یہ ظالمانہ اور سفاکانہ قانون بنا دیا کہ بنو اسرائیل کے بچے قتل کر دئے جائیں اور ان کی بچیاں چھوڑ دی جائیں۔ لیکن رب کو جو منظور ہوتا ہے وہ اپنے وقت پر ہو کر ہی رہتا ہے حضرت موسیٰ زند رہ گئے اور اللہ نے آپ کے ہاتھوں اس عاری سرکش کو ذلیل و خوار کیا، فالحمد للہ چنانچہ فرمان ہے کہ ہم نے ان ضعیفوں اور کمزوروں پر رحم کرنا چاہا۔ ظاہر ہے کہ اللہ کے چاہت کو پورا ہونا یقینی ہے۔ جیسے فرمایا اورثنا القوم الذین الخ، آپ نے اس گری پڑی قوم کو ان کی تمام چیزوں کا مالک بنا دیا۔ فرعون نے اپنی تمام تر طاقت کا مظاہرہ کیا لیکن اسے اللہ کی طاقت کا اندازہ ہی نہ تھا۔ آخر اللہ کا ارادہ غالب رہا اور جس ایک بچے کی خاطر ہزاروں بے گناہ بچوں کا خون ناحق بہایا تھا۔ اس بچے کو قدرت نے اسی کے گود میں پلوایا، پروان چڑھایا، اور اسی کے ہاتھوں اسکا اسکے لشکر کا اور اسکے ملک و مال کا خاتمہ کرایا تاکہ وہ جان لے اور مان لے کہ وہ اللہ کا ذلیل مسکین بے دست و پا غلام تھا اور رب کی چاہت پر کسی کی چاہت غالب نہیں آ سکتی۔ حضرت موسیٰ اور ان کی قوم کو اللہ نے مصر کی سلطنت دی اور فرعوں جس سے خائف تھا وہ سامنے آگیا اور تباہ و برباد ہوا۔ فالحمد للہ

 

۷

بچوں کا قتل اور بنی اسرائیل

مروی ہے کہ جب بنی اسرائیل کے ہزار ہا بچے قتل ہو چکے تو قبطیوں کو اندیشہ ہوا کہ اگر بنواسرائیل ختم ہو گئے تو جتنے ذلیل کام اور بے ہودہ خدمتیں حکومت ان سے لے رہیں ہیں کہیں ہم سے نہ لینے لگیں۔ تو دربار میں میٹنگ ہوئی اور یہ رائے قرار پائی کہ ایک سال مار ڈالے جائیں اور دوسرے سال قتل نہ کئے جائیں۔ حضرت ہارون اس سال تولد ہوئے جس سال بچوں کو قتل نہ کیا جاتا تھا لیکن حضرت موسیٰ اس سال پیدا ہوئے جس سال بنی اسرائیل کے لڑکے عام طور پر تہ تیغ ہو رہے تھے۔ عورتیں گشت کرتی رہتی تھی اور حاملہ عورتوں کو خیال رکھتی تھی۔ ان کے نام لکھ لیے جاتے تھے۔ وضع حمل کے وقت یہ عورتیں پہنچ جاتی تھی اگر لڑکی ہوئی تو واپس چلی جاتی تھی اور اگر لڑکا ہوا تو فورا جلادوں کو خبر کر دیتی تھی۔ یہ لوگ تیز چھرے لئے اسی وقت آ جاتے تھے اور ماں باپ کے سامنے اسی وقت ان کے بچوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے چلے جاتے تھے۔ حضرت موسیٰ کی والدہ کا جب حمل ہوا تو عام حمل کی طرح اس کا پتا نہ چلا اور جو عورتیں اس کام پر مامور تھی اور جتنی دایائیں آتی تھی کسی کو حمل کا پتہ نہ چلا۔ یہاں تک کہ حضرت موسیٰ تولد بھی ہو گئے آپ کی والدہ سخت پریشان ہونے لگی اور ہر وقت خوفزدہ رہنے لگیں اور اپنے بچے سے محبت بھی اتنی تھی کہ کسی ماں کو اپنے بچے سے اتنی نہ ہو گی۔ ایک ماں پر ہی کیا موقوف اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کا چہرہ ہی ایسا بنایا تھا۔ کہ جس کی نظر پڑ جاتی تھی اس کے دل میں ان کی محبت بیٹھ جاتی تھی۔ جیسے جناب باری تعالیٰ کا ارشاد ہے والقیت علیک محبۃ منی میں نے اپنی خصوصی محبت سے تمہیں نوازا۔ پس جب کہ والدہ موسیٰ ہر وقت کبیدہ خاطر، خوفزدہ اور رنجیدہ رہنے لگیں تو اللہ نے ان کے دل میں خیال ڈالا کہ اسے دودھ پلاتی رہے اور خوف کے موقعہ پر انہیں دریائے نیل میں بہا دے جس کے کنارے پر ہی آپ کا مکان تھا۔ چنانچہ یہی کیا کہ ایک پیٹی کی وضع کا صندوق بنا لیا اس میں حضرت موسیٰ کو رکھ دیا دودھ پلا دیا کرتیں اور اس میں سلا دیا کرتیں۔ جہاں کوئی ایسا ڈراؤنا موقعہ آیا کہ اس صندوق کو دریا میں بہا دیتیں اور ایک ڈوری سے اسے باندھ رکھا تھا خوف ٹل جانے کے بعد اسے کھینچ لیتیں۔ ایک مرتبہ ایک ایسا شخص گھر میں آنے لگا جس سے آپ کی والدہ صاحبہ کو بہت دہشت ہوئی دوڑ کر بچے کو صندوق میں لٹا کر دریا میں بہا دیا اور جلدی اور گھبراہٹ میں ڈوری باندھنی بھول گئیں صندوق پانی کی موجوں کے ساتھ زور سے بہنے لگا اور فرعون کے محل کے پاس گزرا تو لونڈیوں نے اسے اٹھا لیا اور فرعون کی بیوی کے پاس لے گئیں راستے میں انہوں نے اسے ڈر کے مارے کھولا نہ تھا کہ کہیں تہمت ان پر نہ لگ جائیں جب فرعون کی بیوی کے پاس اسے کھولا گیا تو دیکھا کہ اس میں تو ایک نہایت خوبصورت نورانی چہرے والا صحیح سالم بچہ لیٹا ہوا ہے جسے دیکھتے ہی ان کا دل مہر محبت سے بھر گیا اور اس بچہ کی پیاری شکل دل میں گھر کر گئی۔ اس میں بھی رب کی مصلحت تھی کہ فرعون کی بیوی کو راہ راست دکھائے اور فرعون کے سامنے اس کا ڈر لائے اور اسے اور اس کے غرور کو ڈھائے تو فرماتا ہے کہ آل فرعون نے اس صندوق کو اٹھا لیا اور انجام کار وہ ان کی دشمنی اور ان کے رنج و ملال کا باعث ہوا۔ محمد بن اسحاق وغیرہ فرماتے ہیں لیکون کا لام لام عاقبت ہے لام تعلیل نہیں۔ اس لئے کہ ان کا ارادہ نہ تھا بظاہر یہ ٹھیک بھی معلوم ہوتا ہے لیکن معنی کو دیکھتے ہوئے لام کو لام تعلیل سمجھنے میں بھی کوئی حرج نہیں اتا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس صندوقچے کا اٹھا نے والا اس لئے بنایا تھا کہ اللہ اسے ان کے لئے دشمن بنا دے اور ان کے رنج و غم کا باعث بنائے بلکہ اس میں ایک لطف یہ بھی ہے کہ جس سے وہ بچنا چاہتے تھے وہ ان کے سر چڑھ گیا۔ اس لئے اس کے بعد ہی فرمایا گیا کہ فرعون ہامان اور ان کے ساتھی خطاکار تھے۔ روایت ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے قدریہ کو جو لوگ کہ تقدیر کے منکر ہیں ایک خط میں لکھا کہ موسیٰ کے سابق علم میں فرعون کے دشمن اور اس کے لئے باعث رنج و غم تھے جیسے قرآن کی اس آیت سے ثابت ہے لیکن تم کہتے ہو کہ فرعون چاہتا تو موسیٰ اس کے مددگار اور دوست ہوتے۔ پھر فرماتا ہے کہ اس بچے کو دیکھتے ہی فرعون بد کا کہ ایسا نہ ہو کسی اسرائیلی عورت نے اسے پھینک دیا ہو اور کہیں یہ وہی نہ ہو جس کے قتل کرنے کے لئے ہزاروں بچوں کو فنا کر چکا ہوں۔ یہ سوچ کر اس نے انہیں بھی قتل کرنا چاہا لیکن اس کی بیوی حضرت آسیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان کی سفارش کی۔ فرعون کو اس کے ارادے سے روکا اور کہا اسے قتل نہ کیجیئے بہت ممکن ہے کہ یہ آپ کی اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک کا باعث ہو مگر فرعون نے جواب دیا کہ تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہو لیکن مجھے تو آنکھوں کی ٹھنڈک کی ضرورت نہیں۔ اللہ کی شان دیکھئے کہ یہی ہوا کہ حضرت آسیہ کو اللہ نے اپنا دین نصیب فرمایا اور حضرت موسیٰ کی وجہ سے انہوں نے ہدایت پائی اور اس متکبر کو اللہ نے اپنے نبی کے ہاتھوں ہلاک کیا۔ نسائی وغیرہ کے حوالے سے سورۃ طہ کی تفسیر میں حدیث فتون میں یہ قصہ پورا بیان ہو چکا ہے۔ حضرت آسیہ فرماتی ہے شاید ہمیں نفع پہنچائے۔ ان کی امید اللہ نے پوری کی دنیا میں حضرت موسیٰ ان کی ہدایت کا ذریعہ بنے اور آخرت میں جنت میں جانے کا۔ اور کہتی ہیں کہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہم اسے اپنا بچہ بنا لیں۔ انہیں کوئی اولاد نہ تھی تو چاہا کہ حضرت موسیٰ کو متبنی بنا لیں۔ ان میں سے کسی کو شعور نہ تھا کہ قدرت کس طرح پوشیدہ اپنا ارادہ پورا کر رہی ہے

 

۱۰

جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے؟

موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے جب اُن کو صندوقچہ میں ڈال کر دریا میں بہا دیا تو بہت پریشان ہوئیں اور سوائے اللہ کے سچے رسول اور اپنے لخت جگر حضرت موسیٰ کے آپ کو کسی اور چیز کا خیال ہی نہ رہا۔ صبر وسکون جاتا رہا دل میں بجز حضرت موسیٰ کی یاد کے اور کوئی خیال ہی نہیں اتا تھا۔ اگر اللہ کی طرف سے ان کی دل جمعی نہ کر دی جاتی تو وہ تو بے صبری میں راز فاش کر دیتیں لوگوں سے کہہ دیتیں کہ اس طرح میرا بچہ ضائع ہو گیا۔ لیکن اللہ نے اس کا دل ٹھہرا دیاڈھارس دی اور تسکین دے دی کہ تیرا بچہ تجھے ضرور ملے گا۔ والدہ موسیٰ نے اپنی بڑی بچی سے جو ذرا سمجھ دار تھیں فرمایا کہ بیٹی تم اس صندوق پر نظر جما کر کنارے کنارے چلی جاؤ دیکھو کیا انجام ہوتا ہے؟ مجھے بھی خبر کرنا تو یہ دور سے اسے دیکھتی ہوئی چلیں لیکن اس انجان پن سے کہ کوئی اور نہ سمجھ سکے کہ یہ اس کا خیال رکھتی ہوئی اس کے ساتھ جا رہی ہے۔ فرعون کے محل تک پہنچتے ہوئے اور وہاں اس کی لونڈیوں کا اٹھاتے تو آپ کی ہمشیرہ نے دیکھا پھر وہیں باہر کھڑی رہ گئیں کہ شاید کچھ معلوم ہو سکے کہ اندر کیا ہو رہا ہے۔ وہاں یہ ہوا کہ جب حضرت آسیہ نے فرعون کو اس کے خونی ارادے سے باز رکھا اور بچے کو اپنی پرورش میں لے لیا تو شاہی محل میں جتنی دایہ تھیں سب کو بچہ دیا گیا۔ ہر ایک نے بشری محبت و پیار سے انہیں دودھ پلانا چاہا لیکن بحکم الٰہی حضرت موسیٰ نے کسی کے دودھ کا یک گھونٹ بھی نہ پیا۔ آخر اپنے لونڈیوں کے ہاتھوں اسے باہر بھیجا کہ کسی دایہ کو تلاش کرو جس کا دودھ یہ پئے اس کو لے آؤ۔ چونکہ رب العلمین کو یہ منظور نہ تھا کہ اس کا اپنی والدہ کے سوا کسی اور کو دودھ پے اور اس میں سب سے بڑی مصلحت یہ تھی کہ اس بہانے حضرت موسیٰ اپنی ماں تک پہنچ جائیں۔ لونڈیاں آپ کو لے کر جب باہر نکلیں تو آپ کی بہن نے آپ کو پہچان لیا لیکن ان پر ظاہر نہ کیا اور نہ خود انہیں کوئی پتہ چل سکا آپ کی بہن تو پہلے بہت پریشان تھی لیکن اس کے بعد اللہ نے انہیں صبر وسکون دے دیا اور وہ خاموش اور مطمئن تھیں۔ بہن نے انکو کہا کہ تم اس قدر پریشان کیوں ہو؟ انہوں نے کہا یہ بچہ کسی دایہ کا دودھ نہیں پیتا اور ہم اس کے لئے دایہ کی تلاش میں ہے۔ یہ سن کو ہمشیرہ موسیٰ نے فرمایا اگر تم کہو تو تمہیں ایک دائی کا پتہ دوں ؟ ممکن ہے بچہ ان کا دودھ پی لئے اور اسے پرورش کریں اور اس کی خیر خواہی کریں۔ یہ سن کر انہیں کچھ شک گزرا کہ یہ لڑکی اس لڑکے کی اصلیت ہے اور اس کے ماں باپ سے واقف ہے اسے گرفتار کر لیا اور پوچھا تمہیں کیا معلوم کہ وہ عورت اسکی کفالت اور خیر خواہی کرے گی؟ اس نے فورا جواب دیا سبحان اللہ۔ کون نہ چاہے گا کہ شاہی دربا میں اس کی عزت ہو۔ انعام و اکرام کی خاطر کون اس سے ہمدردی نہ کریگا۔ ان کی سمجھ میں بھی آگیا کہ ہمارا پہلا گمان غلط تھا یہ تو ٹھیک کہہ رہی ہے اسے چھوڑ دیا اور کہا اچھا چل اس کا مکان دکھا یہ انہیں لیکر اپنے گھر لے آئیں اور اپنی والدہ کی طرف اشارہ کر کے کہا ا نہیں دیجئے۔ سرکاری آدمیوں نے انہیں دیا تو بچہ دودھ پینے لگا۔ فورا یہ خبر حضرت آسیہ کو دی گئی وہ اسے سن کر بہت خوش ہوئیں اور انہیں اپنے محل میں بلوایا اور بہت کچھ انعام و اکرام کیا لیکن یہ علم نہ تھا کہ فی الواقع یہی اس بچے کی والدہ ہیں۔ فقط اس وجہ سے کہ حضرت موسیٰ نے ان کا دودھ پیا تھا وہ ان کا دودھ پیا تھا وہ ان سے بہت خوش ہوئیں۔ کچھ دنوں تک تو ہونی کام چلتا رہا۔ آخر کار ایک روز حضرت آسیہ نے فرمایا میری خوشی ہے کہ تم محل میں آ جاؤ یہیں ہو سہو اور اسے دودھ پلاتی رہو۔ ام موسیٰ نے جواب دیا کہ یہ تو مجھے سے نہیں ہو سکتا میں بال بچوں والی ہوں میرے میاں بھی ہیں میں انہیں دودھ پلا دیا کرونگی پھر آپ کے ہاں بھیج دیا کروں گی۔ یہ طے ہوا اور اس پر فرعون کی بیوی بھی رضامند ہو گئیں ام موسیٰ کا خوف امن سے، فقیری امیری سے، بھوک آسودگی سے، دولت و عزت میں بدل گئی۔ روزانہ انعام و اکرام پاتیں۔ کھانا، کپڑا، شاہی طریق پر ملتا ا ور اپنے پیارے بچے کو اپنی گود میں پالیتں۔ ایک ہی رات یا ایک ہی دن یا ایک دن ایک رات کے بعد ہی اللہ نے اس کی مصیبت کو راحت سے بدلیا۔ حدیث شریف میں ہے جو شخص اپنا کام دھندا کرے اور اسمیں اللہ کا خوف اور میری سنتوں کا لحاظ کرے اسکی مثال ام موسیٰ کی مثال کی مثال ہے کہ اپنے ہی بچے کو دودھ پلائے اور اجرت بھی لے۔ اللہ کی ذات پاک ہے اسی کے ہاتھ میں تمام کام ہے اسی کا چاہا ہوا ہوتا ہے اور جس کام کو وہ نہ چاہے ہرگز نہیں ہوتا۔ یقیناً وہ ہر اس شخص کی مدد کرتا ہے جو اس پر توکل کرے۔ اس کی فرمانبرداری کرنے والے کا دستگیر وہی ہے۔ وہ اپنے نیک بندوں کے آڑے وقت کام آتا ہے اور ان کی تکلیفوں کو دور کرتا ہے اور ان کی تنگی کو فراخی سے بدلتا ہے۔ اور ہر رنج کے بعد راحت عطا فرماتا ہے۔ فسبحانہ ما اعظم شانہ۔ پھر فرماتا ہے کہ ہم نے اسے اسکی ماں کی طرف واپس لوٹا دیا تاکہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور اسے اپنے بچے کا صدمہ نہ رہے۔ اور وہ اللہ کے وعدوں کو بھی سچا سمجھے اور یقین مان لے کہ وہ ضرور نبی اور رسول بھی ہونے والا ہے، اب آپ کی والدہ اطمینان سے آپ کی پرورش میں مشغول ہو گئیں اور اسی طرح پرورش کی جس طرح ایک بلند درجہ نبی کی ہونی چاہیے۔ ہاں رب کی حکمتیں بے علموں کی نگاہ سے اوجھل رہتی ہیں۔ وہ اللہ کے احکام کی غایت کو اور فرمانبرداری کے نیک انجام کو نہیں سوچتے۔ ظاہرہ نفع نقصان کے پابند رہتے ہیں۔ اور دنیا پر ریجھے ہوئے ہوتے ہیں۔ انہیں یہ نہیں سوجھتاکہ ممکن ہے جسے وہ برا سمجھ رہے ہیں اچھا ہو اور بہت ممکن ہے کہ جسے وہ اچھاسمجھ رہیے ہیں وہ برا ہو یعنی ایک کام برا جانتے ہوں مگر کیا خبر کہ اس میں قدرت نے کیا فوائد پوشیدہ رکھیں ہیں۔

 

۱۴

گھونسے سے موت

حضرت موسیٰ کے لڑکپن کا ذکر کے اب ان کی جوانی کا واقعہ بیان ہو رہا ہے کہ اللہ نے انہیں حکمت و علم عطا فرمایا۔ یعنی نبوت دی۔ نیک لوگ ایسا ہی بدلہ پاتے ہیں ، پھر اس واقعہ کا ذکر ہو رہا ہے جو حضرت ٍموسیٰ ٰ علیہ السلام کے مصر چھوڑنے کا باعث نا اور جس کے بعد اللہ کی رحمت نے ان کا رخ کیا یہ مصر چھوڑ کر مدین کی طرف چل دئیے۔ آپ ایک مرتبہ شہر میں آتے ہیں یا تو مغرب کے بعد یا ظہر کے وقت کہ لوگ کھانے پینے میں یا سونے میں مشغول ہیں راستوں پر آمد و رفت نہیں تھی تو دیکھتے ہیں کہ دو شخص لڑ جھگڑ رہے ہیں۔ ایک اسرائیلی ہے دوسرا قبطی ہے۔ اسرائیلی نے حضرت موسیٰ سے قبطی کی شکایت کی اور اس کا زور ظلم بیان کیا جس پر آپ کو غصہ آگیا اور ایک گھونسہ اسے کھینچ مارا جس سے وہ اسی وقت مرگیا۔ موسیٰ گھبرا گئے اور کہنے لگے یہ تو شیطانی کام ہے اور شیطان دشمن اور گمراہ ہے اور اس کا دوسروں کو گمراہ کرنے والا ہونا بھی ظاہر ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کرنے لگے اور استغفار کرنے لگے۔ اللہ نے بھی بخشش دیا وہ بخشنے والا مہربان ہی ہے۔ اب کہنے لگے اے اللہ تو نے جو جاہ و عزت بزرگی اور نعمت مجھے عطا فرمائی ہے میں اسے سامنے رکھ کر وعدہ کرتا ہوں  کہ آئندہ کبھی کسی نافرمان کی کسی امر میں موافقت اور امداد نہیں کروں گا

 

۱۸

جسے بچایا اسی نے راز کھولا

موسیٰ کے گھونسے سے قبطی مرگیا تھا اس لئے آپ کی طبیعت پر گھبراہٹ تھی۔ شہر میں ڈرتے دبکتے آئے کہ دیکھیں کیا باتیں ہو رہی ہیں ؟ کہیں راز کھل تو نہیں گیا۔ دیکھتے ہیں کہ کل والا اسرائیلی آج ایک اور قبطی سے لڑ رہا ہے۔ آپ کو دیکھتے ہی کل کی طرح آج بھی اس نے فریادی اور دہائی دینے لگا۔ آپ نے فرمایا تم بڑے فتنہ آدمی ہو۔ یہ سنتے ہی وہ گھبرا گیا۔ جب حضرت موسیٰ نے اس ظالم قبطی کو روکنے کے لئے اس کی طرف ہاتھ بڑھانا چاہا تو یہ شخص اپنے کمینہ پن اور بزدلی سے سمجھ بیٹھا کہ آپ نے مجھے برا کہا ہے اور مجھے پکڑنا چاہتے ہیں اپنی جان بچانے کے لئے شور مچانا شروع کر دیا کہ موسیٰ کیا جیسے تو نے کل ایک شخص کا خون کیا تھا آج میری جان بھی لینا چاہتا ہے؟ کل کا واقعہ صرف اسی کی موجودگی میں ہوا تھا اس لئے اب تک کسی کو پتہ نہ چلا تھا؟ لیکن آج اس کے زبان سے اس قبطی کو پتہ چلا کہ یہ کام موسیٰ کاہے۔ اس بزدل ڈرپوک نے یہ بھی ساتھ ہی کہا کہ تو زمین پر سرکش بن کر رہنا چاہتا ہے اور تیری طبعیت میں ہی صلح پسندی نہیں۔ قبطی یہ سن کر بھاگا دوڑادربار فرعونی میں پہنچا اور وہاں مخبری کی۔ فرعون کی بددلی کی اب کوئی حد نہ رہی اور فورا سپاہی دوڑائے کہ موسیٰ کو لا کر پیش کریں

 

 ۲۰

گمنام ہمدرد

اس آنے والے کو رجل کہا گیا۔ عربی میں رجل کہتے ہیں قدموں کو۔ اس نے جب دیکھا کہ سپاہ حضرت موسیٰ کے تعاقب میں جار ہی ہے تو یہ اپنے پاؤں پر تیزی سے دوڑا اور ایک قریب کے راستے سے نکل کر جھٹ سے آپ کو اطلاع دے دی کہ یہاں کے امیر امراء آپ کے قتل کے ارادے کر چکے ہیں آپ شہر چھوڑ دیجئے۔ میں آپ کا بہی خواہ ہوں میری مان لیجئے۔

 

۲۱

ٍموسیٰ علیہ السلام کا فرار

فرعون اور فرعونیوں کے ارادے جب اس شخص کی زبانی آپ کو معلوم ہو گئے تو آپ وہاں سے تن تنہا چپ چاپ نکل کھڑے ہوئے۔ چونکہ اس سے پہلے کی زندگی کے ایام آپ کے شہزادوں کی طرح گزرے تھے سفر بہت کڑا معلوم ہوا لیکن خوف وہراس کے ساتھ ادھر ادھر دیکھتے سیدھے چلے جا رہے تھے اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتے جا رہے تھے کہ اے اللہ ! ان ظالموں سے یعنی فرعون اور فرعونیوں سے نجات دے۔ مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی رہبری کے واسطے ایک فرشتہ بھیجا تھا جو گھوڑے پر آپ کے پاس آیا اور آپ کو راستہ دکھا گیا واللہ اعلم۔ تھوڑی دیر میں آپ جنگلوں اور بیابانوں سے نکل کر مدین کے راستے پر پہنچ گئے تو خوش ہوئے اور فرمانے لگے مجھے ذات باری سے امید ہے کہ وہ راہ راست پر ہی لے جائے گا۔ اللہ نے آپ کی امید بھی پوری کی۔ اور آخرت کی سیدھی راہ نہ صرف بتائی بلکہ اوروں کو بھی سیدھی راہ بتانے والا بنایا۔ مدین کے پاس کے کنویں پر آئے تو دیکھا کہ چرواہے پانی کھینچ کھینچ کر اپنے اپنے جانوروں کو پلا رہے ہیں۔ وہیں آپ نے یہ بھی ملاحظہ فرمایا کہ دو عورتیں اپنی بکریوں کو ان جانوروں کے ساتھ پانی پینے سے روک رہی ہیں تو آپ کو ان بکریوں پر اور ان عورتوں کی اس حالت پر کہ بے چاریاں پانی نکال کر پلا نہیں سکتیں اور ان چرواہوں میں سے کوئی اس کا روادار نہیں کہ اپنے کھینچے ہوئے پانی میں سے ان بکریوں کو بھی پلا دے تو آپ کو رحم آیا ان سے دریافت فرمایا کہ تم اپنے جانوروں کو اس پانی سے کیوں روک رہی ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم تو پانی نکال نہیں سکتیں جب یہ اپنے جانوروں کو پانی پلا کر چلے جائیں تو بچا کھچا پانی ہم اپنی بکریوں کو پلا دیں گی۔ ہمارا والد صاحب ہیں لیکن وہ بہت ہی بوڑھے ہیں۔ 

بکریوں کو پانی پلایا

آپ نے خود ہی ان جانوروں کو پانی کھینچ کر پلا دیا۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کنویں کے منہ کو ان چرواہوں نے ایک بڑے پتھر سے بند کر دیا تھا۔ جس چٹان کو دو آدمی مل کر سرکا سکتے تھے آپ نے تن تنہا اس پتھر کو ہٹا دیا اور ایک ڈول نکالا تھا جس میں اللہ نے برکت دی اور ان دونوں لڑکیوں کی بکریاں شکم سیرہو گئیں۔ اب آپ تھکے ہارے بھوکے پیاسے ایک درخت کے سائے تلے بیٹھ گئے۔ مصر سے مدین تک پیدل بھاگے دوڑے آئے تھے۔ پیروں میں چھالے پڑ گئے تھے کھانے کو کچھ پاس نہیں تھا درختوں کے پتے اور گھاس پونس کھاتے رہے تھے۔ پیٹ پیٹھ سے لگ رہا تھا اور گھاس کا سبز رنگ باہر سے نظر آ رہا تھا۔ آدھی کھجور سے بھی اس وقت آپ ترسے ہوئے تھے حالانکہ اس وقت کی ساری مخلوق سے زیادہ برگزیدہ اللہ کے نزدیک آپ تھے صلوات اللہ وسلامہ علیہ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ دو رات کا سفر کر کے میں مدین گیا اور وہاں کے لوگوں سے اس درخت کا پتہ پوچھا جس کے نیچے اللہ کے کلیم نے سہارا لیا تھا۔ لوگوں ایک درخت کی طرف اشارہ کیا میں نے دیکھا کہ وہ ایک سرسبز درخت ہے۔ میرا جانور بھوکا تھا اس نے اس میں منہ ڈالا پتے منہ میں لے کر بڑی دیر تک بدقت چباتا رہا لیکن آخر اس نے نکال ڈالے۔ میں نے کلیم اللہ کے لئے دعا کی اور وہاں سے واپس لوٹ آیا۔ اور روایت میں ہے کہ آپ اس درخت کو دیکھنے کے لئے گئے تھے جس سے اللہ نے آپ سے باتیں کی تھیں جیسے کہ آگے آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ سدی فرماتے ہیں یہ ببول کا درخت تھا۔ الغرض اس درخت تلے بیٹھ کر آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے رب میں تیرے احسانوں کا محتاج ہوں۔ عطائ کا قول ہے کہ اس عورت نے بھی آپ کی دعا سنی

 

۲۵

حضرت موسیٰ اور شعیب علیہما السلام کا معاہدہ

ان دونوں بچیوں کی بکریوں کو جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پانی پلا دیا تو یہ اپنی بکریاں لیکر واپس اپنے گھر گئیں۔ باپ نے دیکھا کہ آج وقت سے پہلے یہ آ گئیں ہیں تو دریافت فرمایا کہ آج کیا بات ہے؟ انہوں نے سچا واقعہ کہہ سنایا۔ آپ نے اسی وقت ان دونوں میں سے ایک کو بھیجا کہ جاؤ اور ان کو میرے پاس لے آؤ۔ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں اور جس طرح گھر گھر ہست پاک دامن عفیفہ عورتوں کا دستور ہوتا ہے شرم و حیا سے اپنی چادر میں لپٹی ہوئی پردے کے ساتھ چل رہی تھی۔ منہ بھی چادر کے کنارے سے چھپائے ہوئے تھیں پھر اس دانائی اور صداقت کو دیکھئے کہ صرف یہی نہ کہا کہ میرے ابا آپ کو بلا رہے ہیں کیونکہ اس میں شبہ کی باتوں کی گنجائش تھی صاف کہہ دیا کہ میرے والد آپ کی مزدوری دینے کے لئے اور اس احسان کا بدلہ اتارنے کے لئے بلا رہے ہیں۔ جو آپ نے ہماری بکریوں کو پانی پلا کر ہمارے ساتھ کیا ہے۔ کلیم اللہ کو جو بھوکے پیاسے تن تنہا مسافر اور بے خرچ تھے یہ موقعہ غنیمت معلوم ہوا یہاں ائے۔ انہیں ایک بزرگ سمجھ کر ان کے سوال پر اپنا سارا واقعہ بلا کم وکاست سنایا۔ انہوں نے دل جوئی کی اور فرمایا اب کیا خوف ہے؟ ان ظالموں کے ہاتھ سے آپ نکل آئے۔ یہاں ان کی حکومت نہیں۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ بزرگ حضرت شعیب علیہ السلام تھے جو مدین والوں کی طرف اللہ کے نبی بن کر آئے ہوئے تھے۔ یہ مشہور قول امام حسن بصری اور بہت سے علماء یہ فرماتے ہیں۔ طبرانی کی ایک حدیث میں ہے کہ جب حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی قوم کی طرف سے الیچی بن کررسول کریم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا شعیب کی قوم اور موسیٰ کے سسرال والوں کو مرحبا ہو کہ تمہیں ہدایت کی گئی۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ حضرت شعیب کے بھتیجے تھے کوئی کہتا ہے کہ قوم شعیب کے ایک مومن مرد تھے۔ بعض کا قول ہے کہ شعیب علیہ السلام کا زمانہ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے سے بہت پہلے کا ہے۔ ان کا قول قرآن میں اپنی قوم سے یہ مروی ہے۔ وماقوم لوط منکم ببعید لوط کی قوم تم سے کچھ دور نہیں۔ اور یہ بھی قرآن سے ثابت ہے کہ لوطیوں کی ہلاکت حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے زمانے میں ہوئی تھی۔ اور یہ بھی بہت ظاہر ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے درمیان کا زمانہ بہت لمبا زمانہ ہے۔ تقریباً چار سول سال کا ہے جیسے اکثر مورخین کا قول ہے ہاں بعض لوگوں نے اس مشکل کا یہ جواب دیا ہے کہ حضرت شعیب کی بڑی لمبی عمر ہوئی تھی۔ ان کا مقصد غالباً اس اعتراض سے بچنا ہے واللہ اعلم۔ ایک اور بات بھی خیال میں رہے کہ اگر یہ بزرگ حضرت شعیب علیہ السلام ہی ہوئے تو چاہئے تھا کہ قرآن میں اس موقعہ پر ان کا نام صاف لے دیا جاتا۔ ہاں البتہ بعض احادیث میں یہ آیا ہے کہ یہ حضرت شعیب علیہ السلام تھے۔ لیکن ان احادیث کی سندیں صحیح نہیں جیسے کہ ہم عنقریب وارد کریں گے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ بن اسرائیل کی کتابوں میں ان کا نام ثیرون بتلایا گیا ہے واللہ اعلم۔ حضرت ابن مسعور کے صاحبزادے فرماتے ہیں ثیرون حضرت شعیب کے بھتیجے تھے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ یہ یثربی تھے۔ ابن جریر فرماتے ہیں یہ بات اس وقت ہوتی کہ جب اس بارے میں کوئی خبر مروی ہوتی اور ایسا ہے نہیں۔ ان کی دونوں صاحبزادیوں میں سے ایک نے باپ کی توجہ دلائی۔ یہ توجہ دلانے والی صاحبزادی وہی تھیں جو آپ کو بلانے گئی تھیں۔ کہا کہ انہیں آپ ہماری بکریوں کی چرائی پر رکھ لیجئے کیونکہ وہ کام کرنے والا اچھا ہوتا ہے جو قوی اور امانت دار ہو۔ باپ نے بیٹی سے پوچھا تم نے یہ کیسے جان لیا کہ ان میں یہ دونوں وصف ہیں۔ بچی نے جواب دیا کہ دس آدمی مل کر جس پتھر کو کنویں سے ہٹا سکتے تھے انہوں نے تنہا اس کو ہٹا دیا ان سے انکی قوت کا اندازہ با اسانی ہو سکتا ہے۔ امانت داری کا علم مجھے اس طرح ہوا کہ جب میں انہیں لے کر آپ کے پاس آنے لگی تو اس لئے کہ راستے سے ناواقف تھے میں آگے ہولی انہوں نے کہا تم میرے پیچھے رہو اور جہاں راستہ بدلنا ہو اس طرف کنکر پھینک دینا میں سمجھ لوں گا کہ مجھے اس راستے چلنا چاہیے۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں تین شخص کی سی زیر کی معاملہ فہمی دانائی اور دوربینی کسی اور میں نہیں پائی گئی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دانائی کہ جب انہوں نے اپنے بعد خلافت کے لئے جناب عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو منتخب کیا۔ حضرت یوسف کے خریدنے والے مصری جنہوں نے بہ یک نظر حضرت یوسف کو پہچان لیا اور جا کر اپنی بیوی سے فرمایا کہ انہیں اچھی طرح رکھو۔ اور اس بزرگ کی صاحبزادی جنہوں نے حضرت ٍموسیٰ ٰ کی نسبت اپنے باپ سے سفارش کی کہ انہیں اپنے کام پر رکھ لیجئے۔ یہ سنتے ہی اس بچی کے باپ نے فرمایا کہ اگر آپ پسند کریں تو میں اس مہر پر ان دو بچیوں میں سے ایک کا نکاح آپ کے ساتھ کر دیتا ہوں  کہ آپ آٹھ سال تک ہماری بکریاں چرائیں۔ ان دونوں کا نام صفورا اور اولیا تھا یا صفور اور شرفایا صفوررا ورلیا۔ اصحاب ابی حنیفہ رحمۃ اللہ نے اسی سے استدلال کیا ہے کہ جب کوئی شخص اس طرح کی بیع کرے کہ ان دو غلاموں میں سے ایک کو ایک سوکے بدلے فروخت کرتا ہوں  اور خریدار منظور کر لے تو یہ بیع ثابت اور صحیح ہے۔ واللہ اعلم۔ اس بزرگ نے کہا کہ آٹھ سال تو ضروری ہے اس کے بعد آپ کو اختیار ہے دس سال کا۔ اگر آپ اپنی خوشی سے دوسال تک اور بھی میرا کام کریں تو اچھا ہے ورنہ آپ پر لازمی نہیں۔ آپ دیکھیں گے کی میں بد آدمی نہیں آپ کو تکلیف نہ دوں گا۔ امام اوزاعی نے اس سے استدلال کر کے فرمایا ہے کہ اگر کوئی کہے میں فلاں چیز کو نقددس اور ادھار بیس پر بیچتا ہوں  تو یہ بیع صحیح ہے اور خریدار کو اختیار ہے کہ دس پر نقد لے بیس پر ادھار لے۔ وہ اس حدیث کا بھی یہی مطلب لے رہے ہیں جس میں ہے جو شخص دو بیع ایک بیع میں کرے اسکے لئے کمی والی بیع ہے یاسود۔ لیکن یہ مذہب غور طلب ہے جس کی تفصیل کا یہ مقام نہیں واللہ اعلم۔ اصحاب امام محمد نے اس آیت سے استدلال کر کے کہا ہے کہ کھانے پینے اور کپڑے پر کسی کو مزدوری اور کام کاج پر لگا لینا درست ہے۔ اس کی دلیل میں ابن ماجہ کی ایک حدیث بھی ہے جو اس بات میں ہے کہ مزدور مقرر کرنا اس مزدوری پر کہ وہ پیٹ بھر کر کھانا کھا لیا کرے گا امیں حدیث لائیں ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سورۃ طس کی تلاوت کی جب حضرت موسیٰ کے ذکر تک پہنچے تو فرمانے لگے موسیٰ علیہ السلام نے اپنے پیڑ کے بھرنے اور اپنی شرم گاہ کو بچانے کے لئے آٹھ سال یادس سال کے لئے اپنے آپ کو ملازم کر لیا۔ اس حدیث کا راوی کامسلمہ بن علی خیشنی ہے جو ضعیف ہے۔ یہ حدیث دوسری سند سے بھی مروی ہے لیکن وہ سند بھی نظر سے خالی نہیں۔ کلیم اللہ نے بزرگ کی اس شرط کو قبول کر لیا اور فرمایا کہ ہم تم میں یہ طے شدہ فیصلہ ہے مجھ اختیار ہو گا کہ خواہ دس سال پورے کروں یا اٹھ سال کے بعد چھوڑ دوں آٹھ سال کے بعد آپ کا کوئی حق مزدوری مجھ پر لازم نہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کو اپنے اس معاملہ پر گواہ کرتے ہیں اسی کی کارسازنی کافی ہے۔ تو گودس سال پورا کرنا مباح ہے لیکن وہ فاضل چیز ہے ضروری نہیں ضروری نہیں آٹھ سال ہیں جیسے منی کے آخری دو دن کے بارے میں اللہ کا حکم ہے اور جیسے کہ حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حمزہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا تھا جو بکثرت روزے رکھا کرتے تھے کہ اگر تم سفر میں روزے رکھو تو تمہیں اختیار ہے اور اگر نہ رکھو تو تمہیں اختیار ہے باوجودیکہ دوسری دلیل سے رکھنا افضل ہے۔ چنانچہ اس کی دلیل بھی آ چکی ہے کہ حضرت موسیٰ نے دل سال ہی پورے کئے۔ بخاری شریف میں ہے سعید بن جبیر سے یہودیوں نے سوال کیا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آٹھ سال پورے کئے تھے یادس سال؟ تو آپ نے فرمایا کہ مجھے خبر نہیں پھر میں عرب کے بہت بڑے عالم حضرت ابن عباس کے پاس گیا اور ان سے یہی سوال کیا تو آپ نے فرمایا ان دونوں میں جو زیادہ اور پاک مدت تھی وہی آپ نے پوری کی یعنی دس سال۔ اللہ تعالیٰ کے نبی جو کہتے ہیں پورا کرتے ہیں۔ حدیث فنون میں ہے کہ سائل نصرانی تھا لیکن بخاری میں جو ہے وہی اولیٰ ہے۔ واللہ اعلم۔ ابن جریر میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے سوال کیا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کون سی مدت پوری کی تھی تو جواب ملا کہ ان دونوں میں سے جو کامل اور مکمل مدت تھی ایک مرسل حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے کسی نے پوچھا آپ نے جبرئیل سے پوچھا جبرئیل نے اور فرشتے سے یہاں تک کہ فرشتے نے اللہ سے۔ اللہ نے جواب دیا کہ دونوں میں ہی پاک اور پوری مدت یعنی دس سال۔ ایک حدیث میں ہے کہ حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوال پر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے دس سال کی مدت کا پورا کرنا بتایا کہ یہ بھی فرمایا کہ اگر تجھ سے پوچھا جائے کہ کون سی لڑکی سے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے نکاح کیا تھا تو جواب دینا کہ دونوں میں جو چھوٹی تھیں اور روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے مدت دراز کو پورا کرنا بتایا پھر فرمایا کہ جب موسیٰ حضرت شعیب علیہ السلام سے رخصتی لے کر جانے لگے تو اپنی بیوی صاحبہ سے فرمایا کہ اپنے والد سے کچھ بکریاں لے لو جن سے ہمارا گزارہ ہو جائے آپ نے اپنے والد سے سوال کیا جس پر انہوں نے وعدہ کیا کہ اس میں سے جتنی چت کبری بکریاں ہونگی سب تمہاری حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بکریوں کے پیٹ پر اپنی لکڑی پھیری تو ہر ایک کو دو دو تین تین بچے ہوئے اور سب کے سب چت کبرے جن کی نسل اب تک تلاش کرنے سے مل سکتی ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ حضرت شعیب کی سب بکریاں کالے رنگ کی خوبصورت تھیں۔ جتنے بچے ان کے اس سال ہوئے سب کے سب بے عیب تھے اور بڑے بڑے بھرے ہوئے تھنوں والے اور زیادہ دودھ دینے والے ان تمام روایتوں کا مدار عبد اللہ بن لہیعہ پر ہے جو حافظہ کے اچھے نہیں اور ڈر ہے کہ یہ روایتیں مرفوع نہ ہوں۔ چنانچہ اور سند سے یہ انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے موقوفاً مروی ہے۔ اور اس میں یہ بھی ہے کہ سب بکریوں کے بچے اس سال ابلق ہوئے سوائے ایک بکری کے۔ جن سب کو آپ لے گئے۔ علیہ السلام

 

۲۹

دس سال حق مہر

پہلے یہ بیان گزر چکا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دس سال پورے کئے تھے۔ قرآن کے اس لفظ الاجل سے بھی اس کی طرف اشارہ ہے واللہ اعلم۔ بلکہ حضرت مجاہد کا تو قول ہے کہ دس سال یہ اور دس سال اور بھی گزرے۔ اس قول میں یہ صرف تنہا ہے۔ واللہ اعلم۔ اب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خیال اور شوق پیدا ہوا کہ چپ چاپ وطن میں جاؤں اور اپنے والوں سے مل آؤں چنانچہ آپ اپنی بیوی صاحبہ کو اور اپنی بکریوں کو لے کر وہاں سے چلے رات کو بارش ہونے لگی اور سرد ہوائیں چلنے لگیں اور سخت اندھیرا ہو گیا۔ آپ ہر چند چراغ جلاتے تھے مگر روشنی نہیں ہوتی تھی۔ سخت متعجب اور حیران تھے اتنے میں دیکھتے ہیں کہ کچھ دور آگ روشن ہے تو اپنی اہلیہ صاحبہ سے فرمایا کہ تم یہاں ٹھہرو وہاں کچھ روشنی دکھائی دیتی ہے میں وہاں جاتا ہوں  اگر کوئی وہاں ہوا تو اس سے راستہ بھی دریافت کر لوں گا اس لئے کہ ہم راہ بھولے ہوئے ہیں۔ یا میں وہاں سے کچھ آگ لے آؤں گا جس سے تم تاپ لو اور جاڑے کا علاج ہو جائے۔ جب آپ وہاں پہنچے تو اس وادی کے دائیں جانب کے مغربی پہاڑ سے آواز سنائی دی۔ جیسے قرآن کی اور آیت میں ہے وماکنت بجانب الغربی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ آگ کے قصدے سے قبلہ کی طرف چلے تھے اور مغربی پہاڑ آپ کے دائیں طرف تھا اور ایک سرسبزے ہرے بھرے درخت میں آگ نظر آ رہی تھی جو پہاڑ کے دامن میں میدان کے متصل تھی۔ یہ وہاں جا کر اس حالت کو دیکھ کر حیران و ششدر رہ گئے کہ ہرے اور سبز درخت میں سے آگ کے شعلے نکلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں لیکن آگ کسی چیز میں جلتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی، اسی وقت اللہ کی طرف سے آواز آئی۔ حضرت عبد اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس درخت کو جس میں سے حضرت موسیٰ کو آواز آئی تھی دیکھا ہے وہ سرسبز و شاداب ہرا بھرا درخت ہے جو چمک رہا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ علیق کا درخت تھا اور بعض کہتے ہیں یہ عوسج کا درخت تھا اور آپ کی لکڑی بھی اسی درخت کی تھی۔ کلیم اللہ نے سنا کہ آواز آ رہی ہے کہ اے موسیٰ میں ہوں رب العالمین۔ جو اس وقت تجھ سے کلام کر رہا ہوں۔ میں جو چاہوں کر سکتا ہوں۔ میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں نہ میرے سوا کوئی رب ہے میں اس سے پاک ہو کہ کوئی مجھ جیسا ہو مخلوق میں سے کوئی بھی میرا شریک نہیں میں یکتا اور بے مثل ہو اور وحدہٗ لاشریک ہوں۔ میری ذات، میری صفات، میرے افعال میرے اقوال میں میرا کوئی شریک ساجھی ساتھی نہیں۔ میں ہر طرح پاک اور نقصان سے دور ہوں۔ اسی ضمن میں فرمان ہوا کہ اپنی لکڑی زمین پر گرا دو اور میری قدرت اپنی آنکھوں سے دیکھ لو۔ اور آیت میں ہے کہ پہلے دریافت فرمایا گیا کہ اے موسیٰ تیرے دائیں ہاتھ میں کیا ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ یہ میری لکڑی ہے جس سے میں ٹیک لگاتا ہوں  اور جس سے اپنی بکریوں کے لے پتے جھاڑ لیتا ہوں  اور دوسرے بھی میرے بہت سے کام اس سے نکلتے ہیں۔ اب مطلع فرمایا کہ لکڑی کو احساس دلا کر پھر زمین پر انہی کے ہاتھوں پھنکوائی۔ وہ زمین پر گرتے ہی ایک پھن اٹھائے پھنکارتا ہوا اژدہا بن کر ادھر ادھر فراٹے بھرے لگی۔ یہ اس بات کی دلیل تھی کہ بولنے والا واقعی اللہ ہی ہے جو قادر مطلق ہے وہ جس چیز کو جو فرما دے ٹل نہیں سکتا۔ سورۃ طہ کی تفسیر میں اس کی بیان بھی پورا گزر چکا ہے۔ اس خوفناک سانپ کو جو باوجود بہت بڑا اور بہت موٹا ہونے کے تیر کی طرح ادھر ادھر جا رہا تھا منہ کھولتا تھا تو معلوم ہوتا تھا کہ ابھی نگل جائے گا۔ جہاں سے گزرتا تھا پتھر ٹوٹ جاتے تھے اسے دیکھ کر حضرت موسیٰ سہم گئے اور دہشت کے مارے ٹھہر نہ سکے الٹے پیروں بھاگے اور مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ وہیں اللہ کی طرف سے آواز آئی موسیٰ ادھر آ ڈر نہیں تو میرے امن میں ہے۔ اب حضرت موسیٰ کا دل ٹھہر گیا۔ اطمینان سے بے خوف ہو کر وہیں اپنی جگہ آ کر با ادب کھڑے ہو گئے۔ یہ معجزہ عطا فرما کر پھردوسرا معجزہ یہ دیا کہ حضرت موسیٰ اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈال کر نکالتے تو وہ چاند کی طرح چمکنے لگتا اور بہت بھلا معلوم ہوتا یہ نہیں کہ کوڑھ کے داغ کی طرح سفید ہو جائے۔ یہ بھی بحکم الٰہی آپ نے وہی کیا اور اپنے ہاتھ کو مثل چاند منور دیکھ لیا۔ پھر حکم دیا کہ تمہیں اس سانپ سے یا کسی گھبراہٹ ڈر خوف رعب سے دہشت معلوم ہو تو اپنے بازو اپنے بدن سے ملالو ڈر خوف جاتا رہے گا۔ اور یہ بھی ہے کہ جو شخص ڈر اور دہشت کے وقت اپنا ہاتھ اپنے دل پر اللہ کے اس فرمان کے ماتحت رکھ لے تو انشاء اللہ اس کا خوف ڈر جاتا رہے گا۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ ابتدا میں حضرت موسیٰ کے دل پر فرعون کا بہت خوف تھا آپ جب اسے دیکھتے تو یہ دعا پڑھتے۔ اللھم انی ادرابک فی نحرہ واعوذبک من شرہ۔ اے اللہ میں تجھے اس کے مقابلہ میں کرتا ہوں۔ اور اس کے برائی سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل سے رعب وخوف ہٹا لیا اور فرعون کے دل میں ڈال دیا پھرتو اسکا یہ حال ہو گیا تھا کہ حضرت موسیٰ کو دیکھتے ہی اس کا پیشاب خطا ہو جاتا تھا۔ یہ دونوں معجزے یعنی عصائے موسیٰ اور ید بیضاء دے کر اللہ نے فرمایا کہ اب فرعون اور فرعونیوں کے پاس رسالت لے کر جاؤ اور بطور دلیل یہ معجزہ پیش کرو اور ان فاسقوں کو اللہ کی راہ دکھاؤ

 

۳۳

یاد ماضی

یہ گزر چکا کہ حضرت موسیٰ فرعون سے خوف کھا کر اس کے شہر سے بھاگ نکلے تھے۔ جب اللہ تعالیٰ نے وہیں اسی کے پاس نبی بن کر جانے کو فرمایا تو آپ کو وہ سب یاد آگیا اور عرض کرنے لگے اے اللہ ان کے ایک آدمی کی جان میرے ہاتھ سے نکل گئی تھی تو ایسانہ ہو کہ وہ بدلے کا نام رکھ کر میرے قتل کے درپے ہو جائیں۔ حضرت موسیٰ نے بچپن کے زمانے میں جب کہ آپ کے سامنے بطور تجربہ کے ایک آگ اور ایک کھجور یا یک موتی رکھا تھا تو آپ نے انگارہ پکڑ لیا تھا اور منہ میں ڈال لیا تھا اس واسطے آپ کی زبان میں کچھ کسر رہ گئی تھی اور اسی لیے آپ نے اپنی زبان کی بابت اللہ سے دعا مانگی تھی کہ میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں اور میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر بنا دے اس سے میرا بازو مضبوط کر اور اسے میرے کام میں شریک کر تاکہ نبوت ورسالت کا فریضہ ادا ہو اور تیرے بندوں کو تیری کبریائی کی دعوت دے سکیں۔ یہاں بھی آپ کی دعا منقول ہے کہ آپ نے فرمایا میرے بھائی ہارون کو میرے ساتھ ہی اپنا رسول بنا کر بھیجیں وہ میرا معین و وزیر ہو جائے۔ وہ میری باتوں کو باور کرے تاکہ میرا بازو مضبوط رہے دل بڑھا ہوا رہے۔ اور یہ بھی بات ہے کہ دو آوازیں بہ نسبت ایک آواز کے زیادہ مضبوط اور با اثر ہوتی ہیں۔ میں اکیلا رہا تو ڈر ہے کہ کہیں وہ مجھے جھٹلا نہ دیں اور ہارون ساتھ ہوا تو میری باتیں بھی لوگوں کو سمجھا دیا کرے گا۔ جناب باری ارحم الراحیمن نے جواب دیا کہ تیری مانگ منظور ہے ہم تیرے بھائی کو تجھ کو سہارا دیں گے اور اسے بھی تیرے ساتھ نبی بنا دیں گے۔ جیسے اور آیت میں ہے (قد اوتیت سولک یاموسیٰ) موسیٰ تیرا سوال پورا کر دیا گیا۔ اور آیت میں ہے ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کے بھائی ہارون کو نبی بنا دیا۔ اسی لئے بعض اسلاف کا فرمان ہے کہ کسی بھائی نے اپنے بھائی پر وہ احسان نہیں کیا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت ہارون پر کیا کہ اللہ سے دعا کر کے انہیں نبی بنوا دیا۔ یہ موسیٰ علیہ السلام کی بڑی بزرگی کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی ایسی دعا بھی رد نہ کی۔ واقعی آپ اللہ کے نزدیک بڑے ہی مرتبہ والے تھے۔ پھر فرماتا ہے کہ ہم تم دونوں کو زبردست دلیلیں اور کام حجتیں دیں گے فرعونی تمہیں کوئی ایذا نہیں دے سکتے۔ کیونکہ تم میرا پیغام میرے بندوں کے نام پہنچانے والے ہو۔ ایسوں کو میں خود دشمنوں سے سنبھالتا ہوں۔ ان کا مددگار اور موید میں خود بن جاتا ہوں۔ انجام کار تم اور تمہارے ماننے والے ہی غالب آئیں گے۔ جیسے فرمان ہے اللہ لکھ چکا ہے میں اور میرے رسول ہی غالب آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ قوت والا عزت والا ہے۔ اور آیت میں ہے ان لننصر رسلنا الخ، ہم اپنے رسولوں اور ایمان والوں کی دنیا کی زندگی میں بھی مدد کرتے ہیں۔ ابن جریر کے نزدیک آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ ہمارے دئیے ہوئے غلبہ کی وجہ سے فرعونی تمہیں تکلیف نہ پہنچاسکیں گے اور ہماری دی ہوئی نشانیوں کی وجہ سے غلبہ صرف تمہیں ہی حاصل ہو گا۔ لیکن پہلے جو مطلب بیان ہوا ہے اس سے بھی یہی ثابت ہے تو اس کی کوئی حاجت ہی نہیں۔ واللہ اعلم

 

۳۶

فرعونی قوم کا رویہ

حضرت موسیٰ علیہ السلام خلعت نبوت سے اور کلام الٰہی سے ممتاز ہو کر بحکم اللہ مصر میں پہنچے اور فرعون اور فرعونیوں کو اللہ کی وحدت اور اپنی رسالت کی تلقین کے ساتھ ہی جو معجزے اللہ نے دئیے تھے ا نہیں دکھایا۔ سب کو مع فرعون کے یقین کامل ہو گیا کہ بیشک حضرت موسیٰ اللہ کے رسول ہیں۔ لیکن مدتوں کا غرور اور پرانا کفر سر اٹھائے بغیر نہ رہا اور زبانیں دل کے خلاف کر کے کہنے لگے یہ تو صرف مصنوعی جادو ہے۔ اب فرعونی اپنے دبدبے اور قوت و طاقت سے حق کے مقابلے پر جم گئے اور اللہ کے نبیوں کا سامنا کرنے پر تل گئے اور کہنے لگے کبھی ہم نے تو نہیں سنا کہ اللہ ایک ہے اور ہم تو کیا ہمارے اگلے باپ دادوں کے کان بھی آشنا نہیں تھے۔ ہم سب کے سب مع اپنے بڑے چھوٹوں کے بہت سے معبودوں کو پوجتے رہے۔ یہ نئی باتیں لے کر کہاں سے آگیا؟ کلیم اللہ حضرت موسیٰ نے جواب دیا کہ مجھے اور تم کو اللہ خوب جانتا ہے وہی ہم تم میں فیصلہ کرے گا ہم میں سے ہدایت پر کون ہے؟ اور کون نیک انجام ہے؟ اس کا علم بھی اللہ ہی کو ہے وہ فیصلہ کر دے گا اور تم عنقریب دیکھ لو گے کہ اللہ کی تائید کس کا ساتھ دیتی ہے؟ ظالم یعنی مشرک کبھی خوش انجام اور شاد کام نہیں ہوئے وہ نجات سے محروم ہیں

 

۳۸

 فرعون کی سرکشی اور اس کے الہامی دعوے کا ذکر ہو رہا ے کہ اس نے اپنی قوم کو بے عقل بنا کر ان سے اپنا دعویٰ منوا لیا اس نے ان کمینوں کو جمع کر کے ہانک لگائی کہ تمہارا رب میں ہی ہوں سب سے اعلی اور بلند تر ہستی میری ہی ہے اسی بنا پر اللہ نے اسے دنیا اور آخرت کے عذابوں میں پکڑ لیا اور دوسروں کے لئے اسے نشان عبرت بنایا۔ ان کمینوں نے اسے اللہ مان کر اس کا دماغ یہاں تک بڑھا دیا کہ اس نے کلیم اللہ حضرت موسیٰ سے ڈانٹ کر کہا کہ سن اگر تو نے میرے سواکسی اور کو اپنا معبود بنایا تو میں تجھے قید میں ڈال دوں گا۔ انہی سفلے لوگوں میں بیٹھ کر اپنا دعوی ا نہیں منوا کر اپنے ہی جیسے اپنے خبیث وزیر ہامان سے کہتا ہے کہ تو ایک پژاوا بنا اور اس میں اینٹیں پکوا اور میرے لئے ایک بلند و بالا مینار بنا کہ میں جا کر جھانکوں کہ واقعہ میں موسیٰ علیہ السلام کا کوئی اللہ ہے بھی یا نہیں۔ گو مجھے اس کے دروغ گو ہونے کا علم تو ہے۔ مگر میں اس کا جھوٹ تم سب پر ظاہر کرنا چاہتا ہوں۔ اسی کا بیان یا ھامان ابن لی صرحا میں بھی ہے۔ چنانچہ ایک بلند مینار بنایا گیا کہ اس سے اونچا دنیا میں نہیں گیا۔ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نہ صرف دعویٰ رسالت میں ہی جھوٹ جانتا تھا بلکہ یہ تو واحد باری تعالیٰ کا قائل ہی نہ تھا۔ چنانچہ خود قرآن میں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام سے اس نے کہا وما رب العلمین رب العالمین ہے کیا؟ اور اس نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر تو نے میرے سوا کسی کو اللہ جانا تو میں تجھے قید کر دوں گا۔ اس آیت میں بھی ہے کہ اس نے اپنے درباریوں سے کہا میرے علم میں بجز میرے تمہارا اللہ کوئی اور نہیں۔ جب اس کی اور اس کی قوم کی طغیانی اور سرکشی حد سے گزر گئی۔ اللہ کے ملک میں ان کے فساد کی کوئی انتہا نہ رہی ان کے عقیدے کھوٹے پیسے جیسے ہو گئے۔ قیامت کے حساب کتاب کے بالکل منکر بن بیٹھے تو بالاخر اللہ کا عذاب ان پربرس پڑا اور رب نے انہیں تاک لیا اور بیچ تک مٹا دیا۔ سب کو اپنے عذاب میں پکڑ لیا اور ایک ہی دن ایک ہی وقت ایک ساتھ دریا برد کر دیا۔ لوگوں سوچ لو کہ ظالموں کا کیسا عبرتناک انجام ہوتا ہے؟ ہم نے ا نہیں دوزخیوں کا امام بنا دیا ہے کہ یہ لوگوں کو ان کاموں کی طرف بلاتے ہیں جن سے وہ اللہ کے عذابوں میں جلیں۔ جو بھی ان کی پرورش پر چلا اسے وہ جہنم میں لئے گئے جس نے بھی رسولوں کو جھٹلایا اور اللہ کو نہ مانا وہ ان کی راہ پر ہے۔ قیامت کے دن بھی انکی کچھ نہ چلیں گی کہیں سے انہیں کوئی امداد نہ پہنچے گی دونوں جہاں میں یہ نقصان اور گھاٹے میں رہیں گے جسیے فرمان ہے (اھلکناھم فلاناصر لھم) ہم نے انہیں تہ و بالا کر دیا اور کوئی ان کا مددگار نہ ہوا۔ دنیا میں بھی یہ ملعون ہوئے اللہ کی اس فرشتوں کی اس نبیوں کی اور تمام نیک بندوں کی ان پر لعنت ہے جو بھی بھلا آدمی ان کا نام سنے گا ان پر پھٹکار بھیجے گا دنیا میں بھی ملعون ہوئے اور آخرت میں بھی قباحت والے ہوں گے جیسے فرمان ہے واتبعوافی ھذلعنتہ ویوم القیامۃ یہاں بھی پھٹکار وہاں بھی لعنت۔

 

۴۳

اس آیت میں ایک لطیف بات یہ ہے کہ فرعونیوں کی ہلاکت کے بعد والی امتیں اس طرح عذاب آسمانی سے ہلاک نہیں ہوئیں بلکہ جس امت نے سرکشی کی اس کی سرکشی کا بدلہ اسی زمانے کے نیک لوگوں کے ہاتھوں اللہ نے اسے دلوایا۔ مومنین مشرکین سے جہاد کرتے رہے جیسے فرمان باری ہے وجاء فرعون من قبلہ والمؤ تفکت با الخاطئتہ الخ، یعنی فرعون اور جو امتیں اس سے پہلے ہوئیں اور الٹی ہوئی بستی کے رہنے والے یعنی قوم لوط یہ سب لوگ بڑے بڑے قصوروں کے مرتکب ہوئے اور اپنے زمانے کے رسولوں کی نافرمانیوں پر کمر کس لی تو اللہ تعالیٰ نے ان سب کو بھی بڑی سخت پکڑ سے پکڑ لیا۔ اس گروہ کی ہلاکت کے بعد بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت کلیم علیہ من ربہ افضل الصلوۃ والتسلیم پر نازل ہوتے رہے جن میں سے ایک بہت بڑے انعام کا ذکر یہاں ہے کہ انہیں تورات ملی۔ اس تورات کے نازل ہونے کے بعد کسی قوم کو آسمان کے یا زمین کے عام عذاب سے ہلاک نہیں کیا گیا سوائے اس بستی کے چند مجرموں کے جنہوں نے اللہ کی حرمت کے خلاف ہفتے کے دن شکار کھیلا تھا اور اللہ نے انہیں سور اور بندر بنا دیا تھا۔ یہ واقعہ بیشک حضرت موسیٰ کے بعد کا ہے۔ جیسے کہ حضرت ابوسیعد خدری نے بیان فرمایا ہے کہ اور اس کے بعد ہی آپ نے اپنے قول کی شہادت میں یہی آیت ولقد اتینا کی تلاوت فرمائی۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد کسی قوم کی عذاب آسمانی یا زمینی سے ہلاک نہیں کیا۔ اسے عذاب جتنے آئے آپ سے پہلے آئے۔ پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔ پھر تورات کے اوصاف بیان ہو رہے ہیں کہ وہ کتاب کو اندھا پے سے گمراہی سے نکالنے والی تھی اور حق کی ہدایت کرنے والی تھی۔ اور آپ کی رحمت سے تھی نیک اعمال کی ہادی تھی۔ تاکہ لوگ اس سے ہدایت حاصل کریں اور نصیحت بھی۔ اور راہ راست پر آ جائیں۔

 

۴۴

دلیل نبوت

اللہ تبارک و تعالیٰ ا پنے نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت کی دلیل دیتا ہے کہ ایک وہ شخص جو شخص امی ہو جس نے ایک حرف بھی نہ پڑھا ہو جو اگلی کتابوں سے محض نا آشنا ہو جس کی قوم علمی مشاغل سے اور گذشتہ تاریخ سے بالکل بے خبر ہو وہ تفصیل اور وضاحت کے ساتھ کام فصاحت و بلاغت کے ساتھ بالکل سچے ٹھیک اور صحیح گذشتہ واقعات کو اس طرح بیان کرے جیسے کہ اس کے اپنے چشم دید ہو اور جیسے کہ وہ ان کے ہونے کے وقت وہیں موجود ہو کیا یہ اس امر کی دلیل نہیں کہ وہ اللہ کی طرف سے تلقین کیا جاتا ہی اور اللہ تعالیٰ خود اپنی وحی کے ذریعہ سے انہیں وہ تمام باتیں بتاتا ہے۔ حضرت مریم صدیقہ کا واقعہ بیان فرماتے ہوئے بھی قرآن نے اس چیز کو پیش کیا ہے اور فرمایا ہے وماکنت لدیھم اذیلقون اقلامھم الخ، جب کہ وہ حضرت مریم کے پالنے کے لیے قلمیں ڈال کر فیصلے کر رہے تھے اس وقت تو ان کے پاس موجود نہ تھا اور نہ تو اس وقت تھا جب کہ وہ آپس میں جھگڑ رہے تھے پس باوجود عدم موجودگی اور بے خبری کے آپ کی نبوت کی کھری دلیل ہے اور صاف نشانی ہے اس امر پر کہ وحی الٰہی سے یہ کہہ رہے ہیں۔ اسی طرح نوح نبی کا واقعہ بیان فرما کر فرمایا ہے تلک من انباء الغیب الخ، یہ غیب کی خبریں ہیں جنہیں ہم بذریعہ وحی کے تم تک پہنچا رہے ہیں تو اور تیری سای قوم اس وحی سے پہلے ان واقعات سے محض بے خبر تھی۔ اب صبر کے ساتھ دیکھتا رہ اور یقین مان کہ اللہ سے ڈرتے رہنے والے ہی نیک انجام ہوتے ہیں۔ سورۃ یوسف کے آخر میں بھی ارشاد ہوا ہے کہ یہ غیب کی خبریں ہیں جنہیں ہم بذریعہ وحی کے تیرے پاس بھیج رہے ہیں تو ان کے پاس اس وقت موجود نہ تھا جب کہ برادران یوسف نے اپنا مصمم ارادہ کر لیا تھا اور اپنی تدبیروں میں لگ گئے تھے۔ سورۃ طہ میں عام طور پر فرمایا کذالک نقص علی کا من انباء ماقد سبق اسی طرح ہم تیرے سامنے پہلے کی خبریں بیان فرماتے ہیں۔ پس یہاں بھی موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ان کی نبوت کی ابتداء وغیرہ اول اسے آخر تک بیان فرما کر فرمایا کہ تم اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم مغربی پہاڑ کے جانب جہاں کے مشرقی درخت میں سے جو وادی کے کنارے تھے اللہ نے اپنے کلیم سے باتیں کیں موجود نہ تھے بلکہ اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنی وحی کے ذریعے آپ کو یہ سب معلومات کرائیں۔ تاکہ یہ آپ کی نبوت کی ایک دلیل ہو جائے ان زمانوں پر جو مدتوں سے چلے آ رہے ہیں اور اللہ کی باتوں کو وہ بھول بھال چکے ہیں۔ اگلے نبیوں کی وحی ان کے ہاتھوں سے گم ہو چکی ہے اور نہ تو مدین میں رہتا تھا کہ وہاں کے نبی حضرت شعیب علیہ السلام کے حالت بیان کرتا جو ان میں اور ان کے قوم میں واقع ہوئے تھے۔ بلکہ ہم نے بذریعہ یہ خبریں تمہیں پہنچائیں اور تمام جہان کی طرف تجھے اپنا رسول بنا کر بھیجا۔ اور نہ تو طور کے پاس تھا جب کہ ہم نے آواز دی۔ نسائی شریف میں حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ یہ آواز دی گئی کہ اے امت محمد صلی اللہ علیہ و سلم تم اس سے پہلے مجھ سے مانگو میں نے تمہیں دے دیا اور اس سے پہلے تم مجھ سے دعا کرو میں قبول کر چکا۔ مقاتل کہتے ہیں کہ ہم نے تیری امت کو جوا بھی باپ دادوں کی پیٹھ میں تھی آواز دی کہ جب تو نبی بنا کر بھیجا جائے تو وہ تیری اتباع کریں۔ قتادہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ہم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو آواز دی یہی زیادہ مشابہ اور مطابق ہے کیونکہ اوپر بھی یہی ذکر ہے۔ اوپر عام طور بیان تھا یہاں خاص طور سے ذکر کیا جیسے اور آیت میں ہے واذانادی ربک موسیٰ کو آواز دی اور آیت میں ہے کہ وادی مقدس میں اللہ نے اپنے کلیم کو پکارا۔ اور آیت میں ہے کہ طور ایمن کی طرف سے ہم نے اسے پکارا اور سرگوشیاں کرتے ہوئے اسے اپنا قرب عطا فرمایا۔ پھر فرماتا ہے کہ ان میں سے ایک واقعہ بھی نہ تیری حاضری کا ہے نہ تیرا چشم دید ہے کہ بلکہ یہ اللہ کی وحی ہے جو وہ اپنی رحمت سے تجھ پر فرما رہے ہیں اور یہ بھی اس کی رحمت ہے کہ اس نے تجھے اپنے بندوں کی طرف نبی بنا کر بھیجا۔ کہ تو نے ان لوگوں کو آگاہ اور ہوشیار کر دے جن کے پاس تجھ سے پہلے کوئی نبی نہیں آیا تاکہ نصیحت حاصل کریں اور ہدایت پائیں۔ اور اس لیے بھی کہ ان کی دلیل باقی نہ رہ جائے اور کوئی عذر ان کے ہاتھ میں نہ رہے اور یہ اپنے کفر کی وجہ سے عذابوں کو آتا دیکھ کر یہ نہ کہہ سکیں کہ ان کے پاس کوئی رسول آیا ہی نہ تھا جو انہیں راہ راست کی تعلیم دیتا اور جیسے کہ اپنی مبارک کتاب قرآن کریم کے نزول کو بیان فرما کر فرمایا کہ یہ اس لئے ہے کہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ کتاب تو ہم سے پہلے کی دونوں جماعت پر اتری تھی لیکن ہم تو اس کی درس وتدریس بے بالکل غافل تھے اگر ہم پر کتاب نازل ہوتی تو یقیناً ہم ان سے زیادہ راہ راست پر آ جاتے۔ اب بتاؤ کہ خود تمہارے پاس بھی تمہارے رب کی دلیل اور ہدایت و رحمت آ چکی۔ اور آیت میں ہیں رسول ہیں خوشخبریاں دینے والے ڈرانے والے تاکہ ان رسولوں کے بعد کسی کی کوئی حجت اللہ پر باقی نہ رہ جائے۔ اور آیت میں فرمایا یا اھل الکتاب قد جاء کم رسولنا علی فترہ من الرسل الخ، اے اہل کتاب اس زمانہ میں جو رسولوں کی عدم موجودگی کا چلا آ رہا تھا ہمارا رسول تمہارے پاس آ چکا اب تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمارے پاس کوئی بشیر و نذیر نہیں پہنچا لو خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا تمہارے پاس اللہ کی طرف سے آ پہنچا۔ اور آیتیں بھی اس مضمون کی بہت ہیں غرض رسول آ چکے اور تمہارا یہ عذر کٹ گیا کہ اگر رسول آتے تو ہم اس کی مانتے اور مومن ہو جاتے

 

۴۸

پہلے بیان ہوا کہ اگر نبیوں کے بھیجنے سے پہلے ہی ہم ان پر عذاب بھیج دیتے تو ان کی یہ بات رہ جاتی کہ اگر رسول ہمارے پاس آتے تو ہم ضرور ان کی مانتے اس لیے ہم نے رسول بھیجے۔ بالخصوص رسول اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو آخر الزمان رسول بنا کر بھیجا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم انکے پاس پہنچے تو انہوں نے آنکھیں پھیر لیں منہ موڑ لیا اور تکبر عنادکیساتھ ضد اور ہٹ دھرمی کے ساتھ کہنے لگے جیسے حضرت موسیٰ کو بہت معجزات دئے گئے تھے جیسے لکڑی اور ہاتھ طوفان ٹڈیاں جوئیں مینڈک خون اور اناج کی پھلوں کی کمی وغیرہ جن سے دشمنان الٰہی تنگ آئے اور دریا کو چیرنا اور ابر کا سایہ کرنا اور من وسلویٰ کا اتارنا وغیرہ جو زبردست اور بڑے بڑے معجزے تھے انہیں کیوں نہیں دئیے گئے؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ لوگ جس واقعہ کو مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں اور جس جیسے معجزے طلب کر رہے ہیں یہ خود انہی معجزوں کو کلیم اللہ کے ہاتھ ہوتے ہوئے دیکھ کر بھی کون سا ایمان لائے تھے؟ جو ان کے ایمان کی تمنا کرے؟ انہوں نے تو یہ معجزے دیکھ کر صاف کہا تھا یہ دونوں بھائی ہمیں اپنے بڑوں کی تابعداری سے ہٹانا چاہتے ہیں اور اپنی بڑائی ہم سے منوانا چاہتے ہیں ہم تو ہرگز انہیں مان کر نہیں دیں گے دونوں نبیوں کو جھٹلاتے رہے آخر انجام ہلاک کر دئیے گئے تو فرمایا کہ ان بڑے جو حضرت موسیٰ کے زمانہ میں تھے انہوں نے خود موسیٰ کیساتھ کفر کیا اور ان معجزوں کو دیکھ کر صاف کہہ دیا تھا کہ یہ دونوں بھائی آپس میں متفق ہو کر ہمیں زیر کرنے اور خود بڑا بننے کے لئے آئے ہیں تو ہم تو ان دونوں میں سے کسی کی بھی نہیں ماننے کے۔ یہاں گو ذکر صرف موسیٰ علیہ السلام کا ہے لیکن چونکہ حضرت ہارون انکے ساتھ ایسے گھل مل گئے تھے کہ گویا دونوں ایک تھے تو ایک کے ذکر کے کو دووسرے کے ذکر کے لئے کافی سمجھا، جیسے کسی شاعر کا قول ہے کہ جب میں کسی جگہ کا ارادہ کرتا ہوں  تو میں نہیں جانتا کہ وہاں مجھے نفع ملے گا یا نقصان ہو گا؟ تو یہاں بھی شاعر نے خیر کا لفظ تو کہا مگر شرط کا لفظ بیان نہیں کیونکہ خیر و شر دونوں کی ملازمت مقاربت اور مصاحبت ہے۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں یہودیوں نے قریش سے کہا کہ تم یہ اعتراض حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے کرو انہوں نے کیا اور جواب پا کر خاموش رہے ایک قول یہ بھی ہے کہ دونوں جادوگروں سے مراد حضرت موسیٰ علیہ السلام اور انحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کی مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم ہیں لیکن اس تیسرے قول میں تو بہت ہی بعد ہے اور دوسرے قول سے بھی پہلا قول مضبوط اور عمدہ ہے اور بہت قوی ہے واللہ اعلم۔ یہ مطلب ساحران کی قرأت پر ہے اور جن کی قرأت سحران ہے وہ کہتے ہیں مراد تورات اور انجیل ہے۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم بالصواب۔ لیکن اس قرأت پر بھی ظاہری تورات و قرآن کے معنی ٹھیک ہیں کیونکہ اس کے بعد ہی فرمان اللہ ہے کہ تم ہی ان دونوں سے زیادہ ہدایت کوئی کتاب اللہ کے ہاں سے لاؤ جس کی میں تابعداری کروں۔ تورات اور قرآن کو اکثر ایک ہی جگہ میں بیان فرمایا گیا ہے۔ جیسے فرمایا قل من انزل الکتاب الذی جاء بہ موسیٰ نورا وھدل للناس پس یہاں تورات کے نور و ہدایت ہونے کا ذکر فرما کر پھر فرمایا وھذا کتاب انزلناہ مبارک اور اس کتاب کو بھی ہم نے ہی بابرکت بنا کر اتارا ہے۔ اور سورت کے آخر میں فرمایا ثم اتینا موسیٰ الکتاب پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور فرمان ہے اس ہماری اتاری ہوئی مبارک کتاب کی تم پیروی کرو اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے جنات کا قول قرآن میں ہے کہ انہوں نے کہا ہم نے وہ کتاب سنی جو موسیٰ کے بعد اتاری گئی ہے جو اپنے سے پہلے کی اور الہامی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے۔ ورقہ بن نوفل کا مقولہ حدیث کی کتابوں میں مروی ہے کہ انہوں نے کہا تھا یہ وہی اللہ کے راز داں بھیدی ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد آپ کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ جس شخص نے غائر نظر سے علم دین کا مطالعہ کیا ہے اس پر یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ آسمانی کتابوں میں سب سے زیادہ عظمت و شرافت والی عزت و کرامت والی کتاب تو یہی قرآن مجید فرقان حمید ہے جو اللہ تعالیٰ حمید و مجید نے اپنے رؤف و رحیم نبی آخر الزمان پر نازل فرمائی اس کے بعد تورات شریف کا درجہ ہے جس میں ہدایت و نور تھا جس کے مطابق انبیاء اور انکے ماتحت حکم احکام جاری کرتے ہے۔ انجیل تو صرف توراۃ کو تمام کرنے والی اور بعض حرام کو حلال کرنے والی تھی اس لیے فرمایا کہ ان دونوں کتابوں سے بہتر کتاب اگر تم اللہ کے ہاں سے لاؤ تو میں اس کی تابعداری کروں گا۔ پھر فرمایا کہ جو آپ کہتے ہیں وہ بھی اگر یہ نہ کریں اور نہ آپ کی تابعداری کریں تو جان لے کہ دراصل انہیں دلیل برہان کی کوئی حاجت ہی نہیں۔ یہ صرف جھگڑالو ہیں اور خواہش پرست ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ خواہش کے پابند لوگوں سے جو اللہ کی ہدایت سے خالی ہوں بڑھ کر کوئی ظالم نہیں۔ اس میں انہماک کر کے جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم کریں وہ آخر تک راہ راست سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ہم نے ان کے لیے تفصیلی قول بیان کر دیا واضح کر دیا صاف کر دیا اگلی پچھلی باتیں بیان کر دیں قریشوں کے سامنے سب کچھ ظاہر کر دیا۔ بعض مراد اس سے رفاعہ لیتے ہیں اور ان کے ساتھ کے اور نو آدمی۔ یہ رفاعہ حضرت صفیہ بن حی کے ماموں ہیں جنہوں نے عتیمہ بن وہب کو طلاق دی تھی جن کا دوسرا نکاح عبدالرحمن بن زبیر سے ہوا تھا۔

 

۵۲

اہل کتاب علماء

اہل کتاب کے علماء درحقیقت اللہ کے دوست تھے ان کے پاکیزہ اوصاف بیان ہو رہے ہیں کہ وہ قرآن کو مانتے ہیں جیسے فرمان ہے جنہیں ہم نے کتاب دے ہے اور وہ سمجھ بوجھ کر پڑھتے ہیں ان کا تو اس قرآن پر ایمان ہے۔ اور آیت میں ہے کہ بعض اہل کتاب ایسے بھی ہیں جو اللہ کو مان کر تمہاری طرف نازل شدہ کتاب اور اپنی طرف اتری ہوئی کتاب کو بھی مانتے ہیں اور اللہ سے ڈرتے رہتے ہیں۔ اور جگہ ہے پہلے کے اہل کتاب ایسے بھی ہیں کہ ہمارے اس قرآن کی آیتیں سن کر سجدوں میں گر پڑتے ہیں اور زبان سے کہتے ہیں کہ سبحان ربنا ان کان وعد ربنا لمفعولا اور آیت میں ہے ولتجدن اقربھم مودۃ للذین امنوا الذین قالوا انانصاری الخ، یعنی مسلمانوں کے ساتھ دوستی کے اعتبار سے سب لوگوں سے قریب تر انہیں پاؤ گے جو اپنے تئیں انصاری کہتے ہیں اس لیے کہ ان میں علماء اور مشائخ تھے جو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں نجاشی حبشہ کے بھیجے ہوئے آئے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں سورۃ یاسین سنائی جسے سن کر یہ رونے لگے اور مسلمان ہو گئے۔ انہی کے بارے میں یہ آیتیں اتری کہ یہ انہیں سنتے ہی اپنے موحد مخلص ہونے کا اقرار کرتے ہیں اور قبول کر کے مومن مسلم بن جاتے ہیں۔ ان کی ان صفتوں پر اللہ بھی ا نہیں دوہرا اجر دیتا ہے ایک پہلی کتاب کو ماننے کا دوسرا قرآن کو تسلیم کرنے و تعمیل کا۔ یہ اتباع حق پر ثابت قدمی کرتے ہیں جو دراصل ایک مشکل اور اہم کام ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ تین قسم کے لوگوں کو دوہرا اجر ملتا ہے اہل کتاب جو اپنے نبی کو مان کر پھر مجھ پر بھی ایمان لائے۔ غلام مملوک جو اپنے مجازی آقا کی فرماں برداری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حق کی ادائیگی بھی کرتا رہے اور وہ شخص جس کے پاس کوئی لونڈی ہو جسے وہ ادب و علم سکھائے پھر آزاد کرے اور اس سے نکاح کر لے۔ قاسم بن ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں وہ فتح مکہ والے دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سواری کیساتھ ہی اور بالکل پاس ہی تھا۔ آپ نے بہت بہترین باتیں ارشاد فرمائیں جن میں یہ بھی فرمایا کہ یہود و نصاریٰ میں جو مسلمان ہو جائے اسے دوہرا دوہرا اجر ہے اور اس کے عام مسلمانوں کے برابر حقوق ہیں۔ پھر ان کے نیک اوصاف بیان ہو رہے ہیں۔ کہ یہ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں لیتے بلکہ معاف کر دیتے ہیں۔ درگزر کر دیتے ہیں۔ اور نیک سلوک ہی کرتے ہیں اور اپنی حلال روزیاں اللہ کے نام خرچ کرتے ہیں اپنے بال بچوں کا پیٹ بھی پالتے ہیں زکوٰۃ صدقات و خیرات میں بھی بخیلی نہیں کرتے۔ لغویات سے بچے ہوئے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے دوستیاں نہیں کرتے ایسی مجلسوں سے دور رہتے ہیں بلکہ اگر اچانک گزر ہو بھی جائے تو بزرگانہ طور ہٹ جاتے ہیں ایسوں سے میل جول الفت محبت نہیں کرتے صاف کہہ دیتے ہیں کہ تمہاری کرنی تمہارے ساتھ ہمارے اعمال ہمارے ساتھ۔ یعنی جاہلوں کی سخت کلامی برداشت کر لیتے ہیں انہیں ایسا جواب نہیں دیتے کہ وہ اور بھڑکیں بلکہ چشم پوشی کر لیتے ہیں اور کترا کر نکل جاتے ہیں۔ چونکہ خود پاک نفس ہیں اس لئے پاکیزہ کلام ہی منہ سے نکالتے ہیں۔ کہہ دیتے ہیں کہ تم پر سلا ہو، ہم نہ جاہلانہ روش پر چلیں نہ جہلا کی چال کو پسند کریں۔ امام محمد بن اسحاق فرماتے ہیں کہ حبشہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس تقریباً بیس نصرانی آئے۔ آپ اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے یہیں یہ بھی بیٹھ گئے اور بات چیت شروع کی اس وقت قریشی اپنی اپنی بیٹھکوں میں کعبہ کے ارد گرد بیٹھے ہوئے تے۔ ان عیسائی علماء نے جب سوالات کر لئے اور جوابات سے ان کی تشفی ہو گئی تو آپ نے دین اسلام ان کے سامنے پیش کیا اور قرآن کریم کی تلاوت کر کے انہیں سنائی۔ چونکہ یہ لوگ پڑھے لکھے سنجیدہ اور روشن دماغ تھے قرآن نے ان کے دلوں پر اثر کیا اور ان کے آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ انہوں ں ے فور ا دین اسلام قبول کر لیا اور اللہ پر اور اللہ کے رسول پر ایمان لائے۔ کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی جو صفتیں انہوں نے اپنی آسمانی کتابوں میں پڑھی تھیں سب آپ میں موجود پائیں۔ جب یہ لوگ آپ کے پاس جانے لگے تو ابوجہل بن ہشام ملعون اپنے آدمیوں کے لئے ہوئے انہیں راستے میں ملا اور تمام قریشیوں نے مل کر انہیں طعنے دینے شروع کئے اور برا کہنے لگے کہ تم سے بدترین وفد کسی قوم ہم کا نہیں دیکھا تمہاری قوم نے تمہیں اس شخص کے حالات معلوم کرنے کے لئے بھیجا یہاں تم نے آبائی مذہب کو چھوڑ دیا اور اس کا ایسا رنگ تم پر چڑھا کہ ذراسی دیر میں اپنے دین کو ترک کر کے دین بدل دیا اور اسی کا کلمہ پڑھنے لگے تم سے زیادہ احمق ہم نے کسی کو نہیں دیکھا۔ انہوں نے ٹھنڈے دل سے یہ سب سن لیا اور جواب دیا کہ ہم تمہارے ساتھ جاہلانہ باتیں کرنا پسند نہیں کرتے ہمارا دین ہمارے ساتھ تمہارا مذہب تمہارے ساتھ۔ ہم نے جس بات میں اپنی بھلائی دیکھی اسے قبول کر لیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ وفد نجران کے نصرانیوں کا تھا واللہ اعلم۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ آیتیں انہی کے بارے میں اتری ہیں۔ حضرت زہری سے ان آیتوں کا شان نزول پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا میں نے تو اپنے علماء سے یہی سنتا چلا آیا ہوں کہ یہ آیتیں نجاشی اور ان کے اصحاب رضی اللہ عنہم کے بارے میں اتری ہیں۔ اور سورۃ مائدہ کی آیتیں ذالک بان منھم قسیسن ورھباناسے مع الشاہدین تک کی آیتیں بھی انہی کے بارے میں نازل ہوئی ہیں

 

۵۶

ہدایت صرف اللہ کے ذمہ ہے

اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کسی کا ہدایت قبول کرنا تمہارے قبضے کی چیز نہیں۔ آپ پر تو صرف پیغام اللہ کے پہنچا دینے کا فریضہ ہے۔ ہدایت کا مالک اللہ ہے وہ اپنی حکمت کے ساتھ جسے چاہے قبول ہدایت کی توفیق بخشتا ہے۔ جیسے فرمان ہے لیس علیک ھدھم تیرے ذمہ ان کی ہدایت نہیں وہ چاہے تو ہدایت بخشے۔ اور آیت میں ہے وما اکثرالناس ولوحرصت بمومنین۔ گو تو ہر چند طمع کرے لیکن ان میں سے اکثر ایماندار نہیں ہوتے کہ یہ اللہ کے ہی علم میں ہے کہ مستحق ہدایت کون ہے؟ اور مستحق ضلالت کون ہے؟ بخاری و مسلم میں ہے کہ یہ آیت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا ابوطالب کے بارے میں اتری جو آپ کا بہت طرف دار تھا اور ہر موقعہ پر آپ کی مدد کرتا تھا اور آپ کا ساتھ دیتا تھا۔ اور دل سے محبت کرتا تھا لیکن یہ محبت بوجہ رشتہ داری کے طبعی تھی شرعاً نہ تھی۔ جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے اسلام کی دعوت دی اور ایمان لانے کی رغبت دلائی لیکن تقدیر کا لکھا اور اللہ کا چاہا غالب آگیا یہ ہاتھوں میں سے پھسل گیا اور اپنے کفر پر اڑارہا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم اس کے انتقال پر اس کے پاس آئے۔ ابوجہل اور عبد اللہ بن امیہ بھی اس کے پاس بیٹھے ہوئے تھے آپ نے فرمایا لا الہ الا اللہ کہو میں اس کی وجہ سے اللہ کے ہاں تیرا سفارشی بن جاؤں گا۔ ابوجہل اور عبد اللہ کہنے لگے ابو طالب کیا تو اپنے باپ عبدالمطلب کے مذہب سے بڑھ جائے گا۔ اب حضور صلی اللہ علیہ و سلم سمجھاتے اور دونوں اسے رو کتے یہاں تک کہ آخر کلمہ اسکی زبان سے یہی نکلتا کہ میں یہ کلمہ نہیں پڑھتا اور میں عبدالمطلب کے مذہب پر ہوں۔ آپ نے فرمایا بہتر میں تیرے لیے رب سے استغفار کرتا رہوں گا یہ اور بات ہے کہ میں روک دیا جاؤں اللہ مجھے منع فرما دے۔ لیکن اسی وقت آیت اتری کہ ماکان للنبی والذین امنو ا ان یستغفرو اللمشرکین ولوکانوا اولی قربی یعنی نبی کو اور مومن کو ہرگز یہ بات سزاوارنیں کہ وہ مشرکوں کے لئے استغفار کریں گو وہ ان کے نزدیکی قرابتدار ہی کیوں نہ ہوں اور اسی ابوطالب کے بارے میں آیت انک لاتھدی بھی نازل ہوئی (صحیح مسلم وغیرہ) ترمذی وغیرہ میں ہے کہ ابوطالب کے مرض الموت میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے کہا کہ چچا لا الہ اللہ کہہ لو میں اس کی گواہی قیامت کے دن دے دوں گا تو اس نے کہا اگر مجھے اپنے خاندان قریش کے اس طعنے کا خوف نہ ہو اس نے موت کی گھبراہٹ کی وجہ سے یہ کہہ لیا تو میں اسے کہہ کر تیری آنکھوں کو ٹھنڈی کر دیتا مگر پھر بھی اسے تیری خوشی کے لئے کہتا ہوں۔ اس پر یہ آیت اتری۔ دوسری روایت میں ہے کہ اس نے کلمہ پڑھنے سے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ میرے بھتیجے میں تو اپنے بڑوں کی روش پر ہوں۔ اور اسی بات پر اس کی موت ہوئی کہ وہ عبدالمطلب کے مذہب پر ہے۔ قیصر کا قاصد جب رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور قیصر کا خط خدمت نبوی میں پیش کیا تو آپ نے اسے اپنی گود میں رکھ کر فرمایا تو کس قبیلے سے ہے؟ اس نے کہا تیرج قبیلے کا آدمی ہوں آپ نے فرمایا کہ تیرا قصد ہے کہ تو اپنے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین پر آ جائے ؟ اس نے جواب دیا کہ میں جس قوم کا قاصد ہوں جب تک ان کے پیغام کو جواب انہیں نہ پہنچا دوں ان کے مذہب کو نہیں چھوڑ سکتا۔ تو آپ نے مسکرا کر اپنے صحابہ کی طرف دیکھ کر یہی آیت پڑھی۔ مشرکین اپنے ایمان نہ لانے کی ایک وجہ یہ بھی بیان کرتے تھے کہ ہم آپ کی لائی ہوئی ہدایت کو مان لیں تو ہمیں ڈر لگتا ہے کہ اس دین کے مخالف جو ہمارے چاروں طرف ہیں اور تعداد میں مال میں ہم سے زیادہ ہیں۔ وہ ہمارے دشمن بن جائیں گے اور ہمیں تکلیفیں پہنچائیں گی اور ہمیں برباد کر دیں گے۔ اللہ فرماتا ہے کہ یہ حیلہ بھی ان کا غلط ہے اللہ نے انہیں حرم محترم میں رکھا ہے جہاں شروع دنیا سے اب تک امن وامان رہا ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ حالت کفر میں تو یہاں امن سے رہیں اور جب اللہ کے سچے دین کو قبول کریں اور امن اٹھ جائے یہی تو شہر طائف وغیرہ مختلف مقامات سے پھل فروٹ سامان اسباب مال تجارت وغیرہ کیآمد ورف بکثرت رہتی ہے۔ تمام چیزیں یہاں کھنچی چلی آتی ہے اور ہم انہیں بیٹھے بیٹھائے روزیاں پہنچا رہے ہیں لیکن ان میں اکثر بے علم ہے۔ اسی لیے ایسے رکیک حیلے اور بے جا عذر پیش کرتے ہیں مروی ہے کہ یہ کہنے والا حارث بن عامر بن نوفل تھا

 

۵۸

اہل مکہ کو تنبیہ

اہل مکہ کو ہوشیار کیا جاتا ہے کہ جو اللہ کے بہت سی نعمتیں حاصل کر کے اترا رہے تھے اور سرکشی اور بڑائی کرتے تھے اور اللہ سے کفر کرتے تھے نبی کا انکار کرتے تھے اور اللہ کی روزیاں کھاتے تھے اور اس کی نمک حرامی کرتے تھے انہیں اللہ تعالیٰ نے اس طرح تباہ و برباد کر دیا کہ آج ان کا نام لینے والا نہیں رہا۔ جیسے اور آیت میں ہے وضرب اللہ مثلاً قریتہہ امنتہ الخ، یہاں فرماتا ہے کہ ان کی اجڑی ہوئی بستیاں اب تک اجڑی پڑی ہے۔ کچھ یونہی سے آبادی اگرچہ ہو گئی ہو لیکن دیکھو ان کے کھنڈرات سے آج تک وحشت برس رہی ہے ہم ہی انکے مالک رہ گئے ہیں حضرت کعب (تابعی) کو قول ہے کہ الو سے حضرت سلیمان نے دریافت فرمایا کہ تو کھیتی اناج کیوں نہیں کھاتا اس نے کہا کہ اس لئے کہ اسی کے باعث حضرت آدم جنت سے نکالے گئے پوچھا پانی کیوں نہیں پیتا ؟ کہا اس لئے کہ قوم نوح اسی میں ڈبو دی گئی۔ پوچھا ویرانے میں کیوں رہتا ہے؟ کہا اس لیے کہ وہ اللہ کی میراث ہے۔ پھر حضرت کعب نے وکنا نحن الوارثین پڑھا۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے عدل و انصاف کو بیان فرما رہا ہے کہ وہ کسی کے ظلم سے ہلاک نہیں کرتا پہلے ان پر اپنی حاجت ختم کرتا ہے اور ان کا عذر دور کرتا ہے۔ رسولوں کو بھیج کر اپناکلام ان تک پہنچاتا ہے۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت عام تھی آپ ام القریٰ میں مبعوث ہوئے تھے۔ اور تمام عرب و عجم کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے جیسے فرمان ہے لتنذرام القریٰ ومن حولھا تاکہ تو مکہ والوں کو اور دوسرے شہر والوں کو ڈرا دے اور فرمایا قل یا ایھا الناس انی رسول اللہ علیکم جمیعاً کہہ دے کہ اے لوگو ! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں اور آیت میں ہے لانذر کم بہ ومن بلغ تاکہ اس قرآن سے میں تمہیں بھی ڈرا دو اور ہر اس شخص کو جس تک یہ قرآن پہنچے۔ اور آیت میں ہے ومن یکفر بہ من الاحزاب فالنار موعدہ اس قرآن کے ساتھ دنیا والوں میں سے جو بھی کفر کریں اس کے وعدے کی جگہ جہنم ہے۔ اور جگہ اللہ کا فرمان ہے وان من قریۃ الانحن مھلکھا الخ، یعنی تمام بستیوں کو ہم قیامت سے پہلے ہلاک کرنے والے ہیں یہ سخت عذاب کرنے والے ہیں۔ پس خبر دی کہ قیامت سے پہلے وہ سب بستیوں کو برباد کر دے گا۔ اور آیت میں ہے کہ ہم جب تک رسول نہ بھیج دیں عذاب نہیں کرتے۔ پاس حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے بعثت کو عام کر دیا اور تمام جہاں کے لئے کر دیا اور مکہ میں جو کہ تمام دنیا کا مرکز ہے آپ کو مبعوث فرما کر ساری دنیا پر اپنی حجت ختم کر دی۔ بخاری و مسلم میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد مروی ہے کہ میں تمام سیاہ سفید کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ اسی لئے نبوت ورسالت کو آپ پر ختم کر دیا آپ کے بعد سے قیامت تک نہ کوئی نبی آئے گا نہ رسول۔ کہا گیا کہ مراد ام القری سے اصل اور بڑا قریہ ہے

 

۶۰

دنیا اور آخرت کا تقابلی جائزہ

اللہ تعالیٰ دنیا کی حقارت اس کی رونق کی قلت و ذلت اس کی ناپائیداری بے ثباتی اور برائی بیان فرما رہا ہے اور اس کے مقابلہ میں آخرت کی نعمتوں کی پائیداری دوام عظمت اور قیام کا ذکر فرما رہے ہیں۔ جیسے ارشاد ہے ماعندکم ینفدو ماعند اللہ باق تمہارے پاس جو کچھ ہے فنا ہونے والا ہے۔ اور اللہ کے پاس تمام چیزیں بقا والی ہیں۔ اللہ کے پاس جو ہے وہ نیک لوگوں کے لئے بہت ہی بہتر اور عمدہ ہے۔ آخرت کے مقابلہ میں دنیا تو کچھ بھی نہیں۔ لیکن افسوس کہ لوگو دنیا کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور آخرت سے غافل ہو رہے ہیں جو بہت بہتر اور بہت باقی رہنے والی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں دنیا آخرت کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسے تم میں سے کوئی سمندر میں انگلی ڈبو کر نکال لے پھر دیکھ لے کہ اس کی انگلی پر جو پانی چڑھا ہوا ہے وہ سمندر کے مقابلہ میں کتنا کچھ ہے افسوس کہ اس پر بھی اکثر لوگ اپنی کم علمی اور بے علمی کے باعث دنیا کے متوالے ہو رہے ہیں۔ خیال کر لو ایک تو وہ جو اللہ پر اللہ کے نبی پر ایمان و یقین رکھتا ہو اور ایک وہ ایمان نہ لایا ہو نتیجے کے اعتبار سے برابر ہو سکتے ہیں ؟ ایمان والوں کے ساتھ تو اللہ کا جنت کا اور اپنی بے شما ان مٹ غیر فانی نعمتوں کا وعدہ ہے اور کافر کے ساتھ وہاں کے عذابوں کا ڈراوا ہے گو دنیا میں کچھ روز عیش ہی منا لے۔ مروی ہے کہ یہ آیت حضور صلی اللہ علیہ و سلم اور ابوجہل کے بارے میں نازل ہوئی ایک قول یہ بھی ہے کہ حمزہ علی اور ابوجہل کے بارے میں یہ آیت اتری ہے۔ ظاہر یہ ہے کہ یہ آیت عام ہے جیسے فرمان اللہ ہے کہ جتنی مومن اپنے جنت کے درجوں سے جھانک کر جہنمی کافر کو جہنم کے جیل خانہ میں دیکھ کر کہے گا۔ لولانعمتہہ ربی لکنت من المحضرین اگر مجھ پر میرے رب کا انعام نہ ہوتا تو میں بھی ان عذابوں میں پھنس جاتا۔ اور آیت میں ہے ولقد علمت الجن انہم لمحضرون جنات کو یقین ہے کہ وہ حاضر کیے جانے والوں میں سے ہیں

 

۶۲

کہاں ہیں تمہارے بت

مشرکوں کو قیامت کے دن پکار کر سامنے کھڑا کر کے اللہ تبارک و تعالیٰ فرمائے گا کہ دنیا میں جنہیں تم میرے سوا پوجتے رہے جن بتوں اور پتھروں کو مانتے رہے ہو وہ کہاں ہیں ؟ انہیں پکارو اور دیکھو کہ وہ تمہاری کچھ مدد کرتے ہیں ؟ یا وہ خواہ اپنی کوئی مدد کر سکتے ہیں ؟ یہ صرف بطور ڈانٹ ڈپٹ کے ہو گا۔ جیسے فرمان ہے ولقد جئتمونا فرادی کما خلقنکم اول مرۃالخ، یعنی ہم تمہیں ویسے ہی تن تنہا اور ایک ایک کر کے لائیں گے جیسے ہم نے اول دفعہ پیدا کیا تھا اور جو کچھ ہم نے تمہیں یاد دلایا تھا وہ سب تم اپنے پیچھے ہی چھوڑ آئے۔ ہم تو آج تمہارے ساتھ کسی سفارشی کو بھی نہیں دیکھتے جنہیں تم شریک الٰہی ٹھہرائے ہوئے تھے۔ تم میں ان میں کوئی لگاؤ نہیں رہا اور تمہارے گمان کردہ شریک سب آج تم سے کھوئے ہوئے ہیں۔ جن پر عذاب کی بات ثابت ہو چکی یعنی شیاطین اور سرکش لوگ اور کفر کے بانی اور شرک کی طرف لوگوں کو بلانے والے یہ سب بڑے بڑے لوگ اس دن کہیں گے کہ اے اللہ ہم نے انہیں گمراہ کیا اور انہوں نے ہماری کفریہ باتیں سنیں اور مانیں جیسے ہم بہکے ہوئے تھے انہیں بھی بہکایا۔ ہم ان کی عبادت تیرے سامنے اپنی بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔ جیسے اور آیت میں ہے واتخذوامن دون اللہ الھۃالخ، انہوں نے اللہ کے سوا اور معبود بنا لئے تاکہ وہ ان کے لئے باعث عزت بنیں لیکن ایسا نہیں ہونے کا یہ تو انکی عبادت سے بھی انکار کر جائیں گے اور الٹے ان کے دشمن بن جائیں گے۔ اور آیت میں ہے ومن اضل ممن یدعومن دون اللہ الخ، اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہے جو اللہ کے سوا دوسروں کو پکارتا ہے جو قیامت کی گھڑی تک انہیں جواب نہ دے سکیں اور وہ ان کی پکار سے بھی غافل ہوں اور قیامت کے دن لوگوں کے حشر کے موقعہ پر ان کے دشمن بن جائیں اور اس بات سے صاف انکار کر دیں کہ انہوں نے انکی عبادت کی تھی۔ حضرت خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ تم نے جن بتوں کو پوجا پاٹ شروع کر رکھی ہے ان سے صرف دنیا کی ہی دوستی ہے قیامت کے دن تو تم سب ایک دوسرے کے منکر ہو جاؤ گے اور ایک دوسرے پر لعنت بھیجو گے۔ اور آیت میں ہے اذتبرالذین انتبعوا من الذین اتبعوا الخ، یعنی جو تابعداری کرنے والے تھے اور وہ ان کی پر جوش کی تابعداری کرتے رہے مگر یہ ان سے بری اور بیزار ہو جائیں گے یعنی عذابوں کو سامنے دیکھتے ہوئے سب تعلقات ٹوٹ جائیں گے۔ ان سے فرمایا جائے گا کہ دنیا میں جنہیں پوجتے رہے ہو آج انہیں کیوں نہیں پکارتے؟ اب یہ پکاریں گے لیکن کوئی جواب نہ پائیں گے اور انہیں یقین ہو جائے گا کہ یہ آگ کے عذاب میں جائیں گے اس وقت آرزو کریں گے کہ کاش ہم راہ یافتہ ہوتے ؟ جیسے ارشاد ہے کہ ویوم یقول نادوا شرکای الذی زعمتم الخ، جس دن فرمائے گا کہ میرے ان شریکوں کو آواز دو جنہیں تم بہت کچھ سمجھ رہے تھے یہ پکاریں گے لیکن وہ جواب نہ دیں گے اور ہم ان کے اور ان کے درمیان آڑ کریں گے مجرم لوگ دوزخ کو دیکھیں گے پھر باور کرائیں گے کہ وہ اس میں گرنے والے ہیں لیکن اس سے بچنے کی کوئی راہ نہ پائیں گے اسی قیامت والے دن ان سب کو سنا کر ایک سوال یہ بھی ہو گا کہ تم نے میرے انبیاء کو کیا جواب دیا؟ اور کہاں تک ان کا ساتھ دیا؟ پہلے توحید کے متعلق بازپرس تھی اب رسالت کے متعلق سوال جواب ہو رہے ہیں۔ اسی طرح قبر میں بھی سوال ہوتا ہے کہ تیرا رب کون ہے؟ تیرا نبی کون ہے؟ اور تیرا دین کیا ہے؟ مومن جواب دیتا ہے کہ میرا معبود صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور میرے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہیں جو اللہ کے بندے اور اس کے رسول تھے (سلام علیہ) ہاں کافر سے کوئی جواب نہیں بن پڑتا وہ گھبراہٹ اور پریشانی سے کہتا ہے مجھے اسکی کوئی خبر نہیں۔ اندھا بہرا ہو جاتا ہے جیسے فرمایا من کان فی ھذہ اعمی فھو فی الاخرۃ اعمی واضل سبیلا جو شخص یہاں اندھا ہے وہ ہاں بھی اندھا اور راہ بھولا رہے گا۔ تمام دلیلیں ان کی نگاہوں سے ہٹ جائیں گی رشتے ناتے حسب نسب کی کوئی قدر نہ ہو گی نسب ناموں کا کوئی سوال نہ ہو گا۔ ہاں دنیا میں توبہ کرنے والے ایمان اور نیکی کے ساتھ زندگی گزارنے والے تو بے شک فلاح اور نجات حاصل کر لیں گے یہاں اسی یقین کے معنی میں ہے یعنی مومن ضرور کامیاب ہوں گے۔

 

۶۸

صفات الٰہی

ساری مخلوق کا خالق تمام اختیارات والا اللہ ہی ہے۔ نہ اس میں کوئی اس سے جھگڑنے والا نہ اس کا شریک وساتھی۔ جو چاہے پیدا کرے جسے چاہے اپنا خاص بندہ بنا لے۔ جو چاہتا ہے ہوتا ہے جو نہیں چاہتا ہو نہیں سکتا۔ تمام امور سب خیرو شر اسی کے ہاتھ ہے۔ سب کی باز گشت اسی کی جانب ہے کسی کوئی اختیار نہیں۔ یہی لفظ اسی معنی میں آیت ماکان لھم الخیرۃ من امرھم میں وہ دونوں جگہ مانافیہ ہے۔ گو ابن جریر نے یہ کہا کہ ما معنی میں الذی کے ہے یعنی اللہ پسند کرتا ہے اسے جس میں بھلائی ہو اور اس معنی کو لے کر معزولیوں نے مراعات صالحین پر استدلال کیا ہے لیکن صحیح بات یہی ہے کہ یہاں مانفی کے معنی میں ہے جیسے کہ حضرت ابن عباس وغیرہ سے مروی ہے۔ یہ آیت اسی بیان میں ہے کہ مخلوق کی پیدائش میں تقدیر کے مقرر کرنے میں اختیار رکھنے میں اللہ ہی اکیلا ہے اور نظیر سے پاک ہے۔ اسی لیے آیت کے خاتمہ پر فرمایا کہ جب بتوں وغیرہ کو وہ شریک الٰہی ٹھہرا رہے ہیں جو نہ کسی چیز کو بناسکیں نہ کسی طرح اختیار رکھیں اللہ ان سب سے پاک اور بہت دور ہے۔ پھر فرمایا سینوں اور دلوں میں چھپی ہوئی باتیں بھی اللہ جانتا ہے اور وہ سب بھی اس پر اسی طرح ظاہر ہیں جس طرح کھلم کھلا اور ظاہر باتیں۔ پوشیدہ بات کہو یا اعلان سے کہو وہ سب کا عالم ہے رات میں اور دن میں جو ہو رہا ہے اس پر پوشیدہ نہیں۔ الوہیت میں بھی وہ یکتا ہے مخلوق میں کوئی ایسا نہیں جو اپنی حاجتیں اس کی طرف لے جائے۔ جس سے مخلوق عاجزی کرے، جو مخلوق کا ملجا و ماویٰ ہو، جو عبادت کے لائق ہو۔ خالق مختار رب مالک وہی ہے۔ وہ جو کچھ کر رہا ہے سب لائق تعریف ہے اسکا عدل و حکمت اسی کے ساتھ ہے۔ اس کے احکام کو کوئی رد نہیں کر سکتا اس کے ارادوں کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ غلبہ حکمت رحمت اسی کی ذات پاک میں ہے۔ تم سب قیامت کے دن اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے وہ سب کو ان کے اعمال کا بدلہ دے گا۔ اس پر تمہارے کاموں میں سے کوئی کام چھپا ہوا نہیں۔ نیکوں کو جزا بدوں کو سزا وہ اس روز دے گا اور اپنی مخلوق میں فیصلے فرمائیں گا

 

۷۱

سنی ان سنی نہ کرو

اللہ کا احسان دیکھو کہ بغیر تمہاری کوشش اور تدبیر کے دن اور برابر آگے پیچھے آ رہے ہیں اگر رات ہی رات رہے تو تم عاجز آ جاؤ تمہارے کام رک جائیں تم پر زندگی وبال ہو جائے تم تھک جاؤ اکتا جاؤ کسی کو نہ پاؤ جو تمہارے لئے دن نکال سکے کہ تم اس کی روشنی میں چلو پھرو، دیکھو بھالو اپنے کام کاج کر لو۔ افسوس تم سنا کر بھی بے سنا کر دیتے ہو۔ اسی طرح اگر وہ تم پر دن ہی دن کو روک دے رات آئے ہی نہیں تو بھی تمہاری زندگی تلخ ہو جائے۔ بدن کا نظام الٹ پلٹ ہو جائے تھک جاؤ تنگ ہو جاؤ کوئی نہیں جسے قدرت ہو کہ وہ رات لاسکے جس میں تم راحت و آرام حاصل کر سکو لیکن تم آنکھیں رکھتے ہوئے اللہ کی ان نشانیوں اور مہربانیوں کو دیکھتے ہی نہیں ہو۔ یہ بھی اس کا احسان ہے کہ اس نے دن رات دونوں پیدا کر دئیے ہیں کہ رات کو تمہیں سکون و آرام حاصل ہو اور دن کو تم کام کاج تجارت زراعت سفر شغل کر سکو۔ تمہیں چاہئے کہ تم اس مالک حقیقی اس قادر مطلق کا شکر ادا کرو رات کو اس کی عبادتیں کرو رات کے قصور کی تلافی دن میں اور دن کے قصور کی تلافی رات میں کر لیا کرو۔ یہ مختلف چیزیں قدرت کے نمونے ہیں اور اس لئے ہیں کہ تم نصیحت و عبرت سیکھو اور رب کا شکر کرو

 

۷۴

افترا بندی چھوڑ دو

مشرکوں کو دوسری دفعہ ڈانٹ دکھائی جائے گی اور فرمایا جائے گا کہ دنیا میں جنہیں میرا شریک ٹھہرا رہے تھے وہ آج کہاں ہیں ؟ ہر امت میں سے ایک گواہ یعنی اس امت کا پیغمبر ممتاز کر لیا جائے گا۔ مشرکوں سے کہا جائے گا اپنے شرک کی کوئی دلیل پیش کرو۔ اس وقت یہ یقین کر لیں گے کہ فی الواقع عبادتوں کے لائق اللہ کے سوا اور کوئی نہیں۔ کوئی جواب نہ دے سکیں گے حیران رہ جائیں گے اور تمام افترا بھول جائیں گے

 

۷۶

قارون

مروی ہے کہ قارون حضرت موسیٰ علیہ السلام کے چچا کا لڑکا تھا۔ اس کانسب یہ ہے قارون بن یصہر بن قاہیث اور موسیٰ علیہ السلام کانسب یہ ہے موسیٰ بن عمران بن قاہیث۔ ابن اسحق کی تحقیق یہ کہ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا چچا تھا۔ لیکن اکثر علماء چچا کا لڑکا بتاتے ہیں۔ یہ بہت خوش آواز تھا، تورات بڑی خوش الحانی سے پڑھتا تھا اس لئے اسے لوگ منور کہتے تھے۔ لیکن جس طرح سامری نے منافق پنا کیا تھا یہ اللہ کا دشمن بھی منافق ہو گیا تھا۔ چونکہ بہت مال دار تھا اس لئے بھول گیا تھا اور اللہ کو بھول بیٹھا تھا۔ قوم میں عام طور پر جس لباس کا دستور تھا اس نے اس سے بالشت بھر نیچا لباس بنوایا تھا جس سے اس کا غرور اور اس کی دولت ظاہر ہو۔ اس کے پاس اس قدر مال تھا کہ اس خزانے کی کنجیاں اٹھانے پر قوی مردوں کی ایک جماعت مقرر تھی۔ اس کے بہت خزانے تھے۔ ہر خزانے کی کنجی الگ تھی جو بالشت بھر کی تھی۔ جب یہ کنجیاں اس کی سواری کے ساتھ خچروں پر لا دی جاتیں تو اس کے لئے ساٹھ پنج کلیاں خچر مقرر ہوتے، واللہ اعلم۔ قوم کے بزرگ اور نیک لوگوں اور عالموں نے جب اس کے سرکشی اور تکبر کو حد سے بڑھتے ہوتے دیکھا تو اسے نصیحت کی کہ اتنا اکڑا نہیں اس قدر غرور نہ کر اللہ کا ناشکرا نہ ہو، ورنہ اللہ کی محبت سے دور ہو جاؤ گے۔ قوم کے واعظوں نے کہا کہ یہ جو اللہ کی نعمتیں تیرے پاس ہیں انہیں اللہ کی رضامندی کے کاموں میں خرچ کر تاکہ آخرت میں بھی تیرا حصہ ہو جائے۔ یہ ہم نہیں کہتے کہ دنیا میں کچھ عیش و عشرت کر ہی نہیں۔ نہیں اچھا کھا، پی، پہن اوڑھ جائز نعمتوں سے فائدہ اٹھا نکاح سے راحت اٹھا حلال چیزیں برت لیکن جہاں اپنا خیال رکھ وہاں مسکینوں کا بھی خیال رکھ جہاں اپنے نفس کو نہ بھول وہاں اللہ کے حق بھی فراموش نہ کر۔ تیرے حق کا بھی حق ہے تیرے مہمان کا بھی تجھ پر حق ہے تیرے بال بچوں کا بھی تجھ پر حق ہے۔ مسکین غریب کا بھی تیرے مال میں ساجھا ہے۔ ہر حق دار کا حق ادا کر اور جیسے اللہ نے تیرے ساتھ سلوک کیا تو اوروں کے ساتھ سلوک واحسان کر اپنے اس مفسدانہ رویہ کو بدل ڈال اللہ کی مخلوق کی ایذ رسانی سے باز آ جا۔ اللہ فسادیوں سے محبت نہیں رکھتا

 

۷۸

اپنی عقل و دانش پہ مغرور قارون

قوم کے علماء کی نصیحتوں کوسن کر قارون نے جو جواب دئیے اس کا ذکر ہو رہا ہے کہ اس نے کہا آپ اپنی نصیحتوں کو رہنے دیجئے میں خوب جانتا ہوں  کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جو دے رکھا ہے اسی کا مستحق میں تھا، میں ایک عقلمند زیرک، دانا شخص ہوں میں اسی قابل ہوں اور اسے بھی اللہ جانتا ہے اسی لئے اس نے مجھے یہ دولت دی ہے۔ بعض انسانوں کا یہ خاصہ ہے کہ جیسے کہ قرآن میں ہے کہ جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تب بڑی عاجزی سے ہمیں پکارتا ہے اور جب انسان کو کوئی نعمت و راحت اسے ہم دے دیتے ہیں تو کہہ دیتا ہے کہ انما اوتیتہ علی علم یعنی اللہ جانتا تھا کہ میں اسی کا مستحق ہوں اس لئے اس نے مجھے یہ دیا ہے۔ اور آیت میں ہے کہ اگر ہم اسے کوئی رحمت چھکائیں اس کے بعد جب اسے مصیبت پہنچی ہو تو کہ اٹھتا ہے کہ ھذا لی اس کا حقدار تو میں تھاہی۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ قارون علم کیمیا جانتا تھا لیکن یہ قول بالکل ضعیف ہے۔ بلکہ کیمیا کا علم فی الواقع ہے ہی نہیں۔ کیونکہ کسی چیز کے عین کو بدل دینا یہ اللہ ہی کی قدرت کی بات ہے جس پر کوئی اور قادر نہیں۔ فرمان الٰہی ہے کہ اگر تمام مخلوق بھی جمع ہو جائے تو ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتی۔ صحیح حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو کوشش کرتا ہے کہ میری طرح پیدائش کرے۔ اگر وہ سچا ہے تو ایک ذرہ یا ایک جو ہی بنادے۔ یہ حدیث ان کے بارے میں ہے جو تصویریں اتارتے ہیں اور صرف ظاہر صورت کو نقل کرتے ہیں۔ ان کے لئے تو یہ فرمایا پھر جو دعویٰ کرے کہ وہ کیمیا جانتا ہے اور ایک چیز کی کایا پلٹ کر سکتا ہے ایک ذات سے دوسری ذات بنا دیتا ہے مثلاً لوہے کو سونا وغیرہ تو صاف ظاہر ہے کہ یہ محض جھوٹ ہے اور بالکل محال ہے اور جہالت و ضلالت ہے۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ رنگ وغیرہ بدل دھوکے بازی کرے۔ لیکن حقیقتاً یہ ناممکن ہے۔ یہ کیمیا گر جو محض جھوٹے جاہل فاسق اور مفتری ہیں یہ محض دعوے کر کے مخلوق کو دھوکے میں ڈالنے والے ہیں۔ ہاں یہ خیال رہے کہ بعض اولیاء کے ہاتھوں جو کرامتیں سرزد ہو جاتی ہیں اور کبھی کبھی چیزیں بدل جاتی ہے ان کا ہمیں انکار نہیں۔ وہ اللہ کی طرف سے ان پر ایک خاص فضل ہوتا ہے وہ بھی ان کے بس کی بات نہیں ، نہ ان کے قبضے کو ہوتا ہے، نہ کوئی کاری گری، صنعت یا علم ہے۔ وہ محض اللہ کے فرمان کا نتیجہ ہے جو اللہ اپنے فرمانبردار نیک کار بندوں کے ہاتھوں اپنی مخلوق کو دکھا دیتا ہے۔ چنانچہ مروی ہے کہ حضرت حیوہ بن شریح مصری سے ایک مرتبہ کسی سائل نے سوال کیا اور آپ کے پاس کچھ نہ تھا اور اسکی حاجت مندی اور ضرورت کو دیکھ کر آپ دل میں بہت آزردہ ہو رہے تھے۔ آخر آپ نے ایک کنکر زمین سے اٹھایا اور کچھ دیر اپنے ہاتھوں میں الٹ پلٹ کر کے فقیر کی جھولی میں ڈال دیا تو وہ سونے کا بن گیا۔ معجزے اور کرامات احادیث اور آثار میں اور بھی بہت سے مروی ہیں۔ جنہیں یہاں بیان کرنا باعث طول ہو گا۔ بعض کا قول ہے کہ قارون اسم اعظم جانتا تھا جسے پڑھ کر اس نے اپنی مالداری کی دعا کی تو اس قدر دولت مند ہو گیا۔ قارون کے اس جواب کی رد میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ غلط ہے کہ میں جس پر مہربان ہوتا ہوں  اسے دولت مند کر دیتا ہوں  نہیں اس سے پہلے اس سے زیادہ دولت اور آسودہ حال لوگوں میں نے تباہ کر دیا ہے تو یہ سمجھ لینا کہ مالداری میری محبت کی نشانی ہے، محض غلط ہے۔ جو میرا شکر ادانہ کریں کفر پر جما رہے اس کا انجام بد ہوتا ہے۔ گناہ گاروں کے کثرت گناہ کی وجہ سے پھر ان سے ان کے گناہوں کا سوال بھی عبث ہوتا۔ اس کا خیال تھا کہ مجھ میں خیریت ہے اس لئے اللہ کا یہ فضل مجھ پر ہوا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ میں اس مالداری کا اہل ہوں اگر مجھ سے خوش نہ ہوتا اور مجھے اچھا آدمی نہ جانتا تو مجھے اپنی یہ نعمت بھی نہ دیتا

 

۷۹

سامان تعیش کی فراوانی

قارون ایک دن نہایت قیمتی پوشاک پہن کر زرق برق عمدہ سواری پرسوار ہو کر اپنے غلاموں کو آگے پیچھے بیش بہا پوشاکیں پہنائے ہوئے لے کر بڑے ٹھاٹھ سے اتراتا ہوا اکڑتا ہوا نکلا اسکا یہ ٹھاٹھ اور یہ زینت و تجمل دیکھ کر دنیا داروں کے منہ میں پانی بھر آیا اور کہنے لگے کاش کہ ہمارے پاس بھی اس جتنا مال ہوتا۔ یہ تو بڑا خوش نصیب ہے اور بڑی قسمت والا ہے۔ علماء کرام نے ان کی یہ بات سن کر انہیں اس خیال سے روکنا چاہا اور انہیں سمجھانے لگے کہ دیکھو اللہ نے جو کچھ اپنے مومن اور نیک بندوں کے لئے اپنے ہاں تیار کر رکھا ہے وہ اس سے کروڑہا درجہ با رونق دیرپا اور عمدہ ہے۔ تمہیں ان درجات کو حاصل کرنے کے لئے اس دو روزہ زندگی کو صبر و برداشت سے گزارنا چاہئے جنت صابروں کا حصہ ہے یہ مطلب بھی ہے کہ ایسے پاک کلمے صبر کرنے والوں کی زبان ہی سے نکلتے ہیں جو دنیا کی محبت سے دور اور دار آخرت کی محبت میں چور ہوتے ہیں اس صورت میں ممکن ہے کہ یہ کلام ان واعظوں کا نہ ہو بلکہ ان کے کام کی اور ان کی تعریف میں یہ جملہ اللہ کی طرف سے خبر ہو

۸۱

ایک بالشت کا آدمی؟

اوپر قارون کی سرکشی بے ایمانی کا ذکر ہو چکا یہاں اس کے انجام کا بیان ہو رہا ہے۔ ایک حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ایک شخص اپنا تہمد لٹکائے فخر سے جا رہا تھا کہ اللہ نے زمین کو حکم دیا کہ اے نگل جا۔ کتاب العجائب میں نوفل بن ماحق کہتے ہیں کہ نجران کی مسجد میں میں نے ایک نوجوان کو دیکھا بڑا لمبا چوڑا بھرپور جوانی کے نشہ میں چور گٹھے ہوئے بدن والا بانکا ترچھا اچھے رنگ روغن والا خوبصورت شکیل۔ میں نگاہیں جما کر اس کے جمال و کمال کو دیکھنے لگا تو اس نے کہا کیا دیکھ رہے ہو؟ میں نے کہا آپ کے حسن و جمال کا مشاہدہ کر رہا ہوں اور تعجب معلوم ہو رہا ہے۔ اس نے جواب دیا کہ تو ہی کیا خود اللہ تعالیٰ بھی تعجب ہے۔ نوفل کہتے ہیں کہ اس کلمہ کے کہتے ہی وہ گھٹنے لگا اور اس کا رنگ روپ اڑنے لگا اور قدپست ہونے لگا یہاں تک کہ بے قدر ایک بالشت کے رہ گیا۔ آخر کار اس کا کوئی قریبی رشتہ دار اپنی آستین میں ڈال کر لے گیا۔ یہ بھی مذکور ہے کہ قارون کی ہلاکت حضرت موسیٰ کی بدعاسے ہوئی تھی اور اس کے سبب میں بہت کچھ اختلاف ہے۔ ایک سبب تو یہ بیان کیا جاتا ہے کہ قارون ملعون نے ایک فاحشہ عورت کو بہت کچھ مال وماع دے کر اس بات پر آمادہ کیا کہ عین اس وقت جب حضرت موسیٰ کلیم اللہ بنی اسرائیل میں کھڑے خطبہ کہہ رہے ہوں وہ آئے اور آپ سے کہے کہ تو وہی ہے ناجس نے میرے ساتھ ایسا ایسا کیا۔ اس عورت نے یہی کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام کانپ اٹھے اور اسی وقت نماز کی نیت باندھ لی اور دو رکعت ادا کر کے اس عورت کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمانے لگے تجھے اس اللہ کی قسم جس نے سمندر میں سے راستہ دیا اور تیری قوم کو فرعون کے مظالم سے نجات دی اور بھی بہت سے احسانات کئے تو جو سچا واقعہ ہے اسے بیان کر۔ یہ سن کر اس عورت کا رنگ بدل گیا اور اس نے صحیح واقعہ سب کے سامنے بیان کر دیا اور اللہ سے استغفار کیا اور سچے دل سے توبہ کر لی۔ حضرت موسیٰ پھر سجدہ میں گر گئے اور قارون کی سزا چاہی۔ اللہ کی طرف سے وحی نازل ہوئی کہ میں نے زمین کو تیرے تابع کر دیا ہے۔ آپ نے سجدے سے سر اٹھایا اور زمین سے کہا کہ تو اسے اور اس کے محل کو نگل لے۔ زمین نے یہی کیا دوسرا سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ جب قارون کی سواری اس طمطراق سے نکلی سفید قیمتی خچر پر بیش بہا پوشاک پہنے سوار تھا، اس کے غلام بھی سب کے سب ریشمی لباسوں میں تھے۔ ادھر حضرت موسیٰ علیہ السلام خطبہ پڑھ رہے تھے بنو اسرائیل کا مجمع تھا۔ یہ جب وہاں سے نکلا تو سب کی نگاہیں اس پر اور اس کی دھوم دھام پر لگ گئیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسے دیکھ کر پوچھا آج اس طرح کیسے نکلے؟ اس نے کہا بات یہ ہے کہ ایک بات اللہ نے تمہیں دے رکھی ہے اور ایک فضلیت مجھے دے رکھی ہے اگر تمہارے پاس نبوت ہے تو میرے پاس یہ جاہ و حشم ہے اور اگر آپ کو میری فضیلت پر شک ہو تو میں تیار ہوں کہ آپ اور میں چلیں اور اللہ سے دعا کریں۔ دیکھ لیجئے کہ اللہ کس کی دعا قبول فرماتا ہے آپ اس بات پر آمادہ ہو گئے اور اسکو لے کر چلیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ پہلے تو دعا کرتا ہے یا میں کروں ؟ اس نے کہا نہیں میں کروں گا اب اس نے دعا مانگنی شروع کر دی اور ختم ہو گئی لیکن دعا قبول نہ ہوئی۔ حضرت موسیٰ نے کہا اب دعا میں کرتا ہوں  اس نے کہا ہاں کیجئے۔ آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یا اللہ زمین کو حکم دے کہ جو میں کہوں مان لے اللہ نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور وحی آئی کہ میں نے زمین کو تیری اطاعت کا حکم دے دیا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ سن کر زمین سے فرمایا اے زمین! اسے اور اس کے لوگوں کو پکڑ لیں اور وہیں یہ لوگ اپنے قدموں تک زمین میں دھنس گئے۔ آپ نے فرمایا اور پکڑے لے۔ یہ اپنے گھٹنوں تک دھنس گئے۔ آپ نے فرمایا اور پکڑ یہ مونڈھوں تک زمین میں دھنس گئے۔ پھر فرمایا ان کے خزانے اور مال بھی یہیں لے آ۔ اسی وقت ان کے کل خزانے اور مال وہاں آ گئے اور انہوں نے اپنی آنکھوں سے ان سب کو دیکھ لیا پھر آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ ان کو ان کے خزانوں سمیت اپنے اندر کر لے اسی وقت یہ سب غارت ہو گئے اور زمین جیسی تھی ویسی ہو گئی۔ مروی ہے کہ ساتوں زمین تک یہ لوگ بقدر انسان دھنستے جا رہے ہیں قیامت تک اسی عذاب میں رہے گے۔ یہاں پر بنی اسرائیل کی اور بہت سی روایتیں ہیں لیکن ہم نے ان کا ذکر یہاں چھوڑ دیا ہے۔ نہ تو مال ان کے کام آیا نہ جاہ و حشم نہ دولت و تمکنت نہ کوئی ان کی مدد کے لئے اٹھا نہ یہ خود اپنا کوئی بچاؤ کر سکے۔ تباہ ہو گئے بے نشان ہو گئے مٹ گئے اور مٹا دئیے گئے (اعاذنا اللہ) اس وقت تو ان لوگوں کی بھی آنکھیں کھل گئی جو قارون کی دولت کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے تھے۔ اور اسے نصیب دار سمجھ کر لمبے سانس لیا کرتے تھے اور رشک کیا کرتے تھے کہ کاش ہم ایسا دولت مند ہوتے۔ وہ کہنے لگے اب دیکھ لیا کہ واقعی سچ ہے دولت مند ہونا کچھ اللہ کی رضامندی کا سبب نہیں۔ یہ اللہ کی حکمت ہے جسے چاہے زیادہ دے جسے چاہے کم دے۔ جس پر چاہے وسعت کرے جس پر چاہے تنگ کرے۔ اس کی حکمتیں وہی جانتا ہے ایک حدیث میں بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم میں اخلاق کی بھی اسی طرح تقسیم کی ہے جس طرح روزی کی۔ مال تو اللہ کی طرف سے اس کے دوستوں کو بھی ملتا ہے اور اس کے دشمنوں کو بھی۔ البتہ ایمان اللہ کی طرف سے اسی کو ملتا ہے جسے اللہ چاہتا ہو۔ قارون کے اس دھنسائے جانے کو دیکھ کر وہ جو اس جیسا بننے کی امیدیں کر رہے تھے کہنے لگے اگر اللہ کا لطف واحسان ہم پر نہ ہوتا تو ہماری اس تمنا کے بدلے جو ہمارے دل میں تھی کہ کاش ہم بھی ایسے ہی ہوتے۔ آج اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس کے ساتھ دھنسا دیتا۔ وہ کافر تھا اور کافر اللہ کے ہاں فلاح کے لائق نہیں ہوتے۔ نہ ا نہیں دنیا میں کامیابی ملے نہ آخرت میں ہی وہ چھٹکارا پائیں۔ نحوی کہتے ہیں ویکان کے معنی ویلک اعلم ان ہے لیکن مخفف کر کے ویک رہ گیا اور ان کے فتح نے اعلم کے محذوف ہونے پر دلالت کر دی۔ لیکن اس قول کو امام ابن جریر نے ضعیف بتایا ہے۔ مگر میں کہتا ہوں  یہ ضعیف کہنا ٹھیک نہیں۔ قرآن کریم میں اس کی کتابت کا ایک ساتھ ہونا اس کے ضعیف ہونے کی وجہ نہیں بن سکتا۔ اس لئے کہ کتابت کا طریقہ تو اختراعی امر ہے جو رواج پا گیا وہی معتبر سمجھا جاتا ہے۔ اس سے معنی پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ واللہ اعلم۔ دوسرے معنی اس کے الم تران کے لئے گئے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس طرح یہ دو لفظ ہے وی اور کان۔ حرف وی تعجب کے لیے ہیں اور یا تنبیہ کے لئے اور کان معنی میں اظن کے ہے۔ ان تمام اقوال میں قوی قول یہ ہے کہ یہ معنی میں الم تر کے ہے یعنی کیا نہ دیکھا تو نے جیسے کہ حضرت قتادہ کا قول ہے اور یہی معنی عربی شعر میں بھی مراد لئے گئے ہیں

 

۸۳

جنت اور آخرت

فرماتا ہے کہ جنت اور آخرت کی نعمت صرف انہی کو ملے گی جن کے دل خوف الٰہی سے بھرے ہوئے ہوں اور دنیا کی زندگی تواضع فروتنی عاجزی اور اخلاق کے ساتھ گزار دیں۔ کسی پر اپنے آپ کو اونچا اور بڑا نہ سمجھیں ادھر ادھر فساد نہ پھیلائیں سرکشی اور برائی نہ کریں۔ کسی کا مال ناحق نہ ماریں اللہ کی زمین پر اللہ کی نافرمانیاں نہ کریں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ جسے یہ بات اچھی لگے کہ اس کی جوتی کا تسمہ اپنے ساتھی کی جوتی کے تسمے سے اچھا ہو تو وہ بھی اسی آیت میں داخل ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جب وہ فخر غرور کرے۔ اگر صرف بطور زیبائش کے چاہتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ جیسے صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ !میری تو یہ چاہت ہے کہ میری چادر بھی اچھی ہو میری جوتی بھی اچھی ہو تو کیا یہ بھی تکبر ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں نہیں یہ تو خوبصورتی ہے اللہ تعالیٰ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے۔ پھر فرمایا جو ہمارے پاس نیکی لائے گا وہ بہت سی نیکیوں کا ثواب پائے گا۔ یہ مقام فضل ہے اور برائی کا بدلہ صرف اسی کے مطابق سزاہے۔ یہ مقام عدل ہے اور آیت میں ہے من جاء بالسیتہ فکبت وجوھھم فی النار الخ، جو برائی لے کر آئے گا وہ اندھے منہ آگ میں جائے گا۔ تمہیں وہی بدلہ دیا جائے گا جو تم کرتے رہے

 

۸۵

جوکرو گے سو بھرو گے

اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو حکم فرماتا ہے کہ رسالت کی تبلیغ کرتے رہیں لوگوں کو کلام اللہ سناتے رہیں اللہ تعالیٰ آپ کو قیامت کی طرف واپس لے جانے والا ہے اور وہاں نبوت کی بابت پرسش ہو گی۔ جیسے فرمان ہے۔ فلنسئلن الذین ارسل الیھم ولنسئلن المرسلین یعنی امتوں سے اور رسولوں سے سب سے ہم دریافت فرمائیں گے۔ اور آیت میں ہے رسولوں کو جمع کر کے اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ تمہیں کیا جواب دیا گیا؟ اور آیت میں ہے نبیوں کو اور گواہوں کو لایا جائے گا۔ معاد سے مراد جنت بھی ہو سکتی ہے موت بھی ہو سکتی ہے۔ دوبارہ کی زندگی بھی ہو سکتی ہے کہ دوبارہ پیدا ہوں اور داخل جنت ہوں۔ صحیح بخاری میں ہے اس سے مراد مکہ ہے۔ مجاہد سے مروی ہے کہ اس سے مراد مکہ ہے جو آپ کی جائے پیدائش تھی۔ ضحاک فرماتے ہیں جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم مکہ سے نکلے ابھی حجفہ ہی میں تھے جو آپ کے دل میں مکے کا شوق پیدا ہوا پسیہ آیت اتری اور آپ سے وعدہ ہوا کہ آپ واپس مکے پہنچائے جائیں گے۔ اس سے یہ بھی نکلتا ہے کہ یہ آیت مدنی ہو حالانکہ پوری سورت مکی ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد اس سے بیت المقدس ہے شاید اس کہنے والے کی غرض اس سے بھی قیامت ہے۔ اس لیے کہ بیت المقدس ہی محشر زمین ہے۔ ان تمام اقوال میں جمع کی صورت یہ ہے کہ ابن عباس نے کبھی تو آپ کے مکے کی طرف لوٹنے سے اس کی تفسیر کی ہے جو فتح مکہ سے پوری ہوئی۔ اور یہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی عمر کے پورا ہونے کی ا یک زبردست علامت تھی جیسے کہ آپ نے سورۃ اذاجاء کی تفسیر میں فرمایا ہے۔ جس کی عمر نے بھی موافقت کی تھی۔ اور فرمایا تھا کہ تو جو جانتا ہے وہی میں بھی جانتا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ انہی سے اس آیت کی تفسیر میں جہاں مکہ پیروی ہے وہاں حضور کا انتقال بھی مروی ہے اور کبھی قیامت سے تفسیر کی کیونکہ موت کے بعد قیامت ہے اور کبھی جنت سے تفسیر کی جو آپ کا ٹھکانا ہے اور آپ کی تبلیغ رسالت کا بدل ہے کہ آپ نے جن وانس کو اللہ کے دین کی دعوت دی اور آپ تمام مخلوق سے زیادہ کلام زیادہ فصیح اور زیادہ افضل تھے۔ پھر فرمایا کہ اپنے مخالفین سے اور جھٹلانے والوں سے کہہ دو کہ ہم میں سے ہدایت والوں کو اور گمراہی والوں کو اللہ خوب جانتا ہے۔ تم دیکھ لو گے کہ کس کا انجام بہتر ہوتا ہے؟ اور دنیا اور آخرت میں بہتری اور بھلائی کس کے حصے میں آتی ہے؟ پھر اپنی ایک اور زبردست نعمت بیان فرماتا ہے کہ وحی اترنے سے پہلے کبھی آپ کو یہ خیال بھی نہ گزرا تھا کہ آپ پر کتاب نازل ہو گی۔ یہ تو تجھ پر اور تمام مخلوق پر رب کی رحمت ہوئی کہ اس نے تجھ پر اپنی پاک اور افضل کتاب فرمائی۔ اب تمہیں ہرگز کافروں کا مددگار نہ ہونا چاہئے بلکہ ان سے الگ رہنا چاہئے۔ ان سے بیزاری ظاہر کر دینی چاہیے اور ان سے مخالفت کا اعلان کر دینا چاہیے۔ پھر فرمایا کہ اللہ کی اتری ہوئی آیتوں سے یہ لوگ کہیں تجھے روک نہ دیں یعنی جو تیرے دین کی مخالفت کرتے ہیں اور لوگوں کو تیری تابعداری سے روکتے ہیں۔ تو اس سے اثر پذیر نہ ہونا اپنے کام پر لگے رہنا اللہ تیرے کلمے کو بلند کرنے والا ہے تیرے دین کی تائید کرنے والا ہے تیری رسالت کو غالب کرنے والا ہے۔ تمام دینوں پر تیرے دین کو اونچا کرنے والا ہے۔ تو اپنے رب کی عبادت کی طرف لوگوں کو بلاتارہ جو اکیلا اور لاشریک ہے تجھے نہیں چاہیے کہ مشرکوں کا ساتھ دے۔ اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکار۔ عبادت کے لائق وہی ہے الوہیت کے قابل اسی کی عظیم الشان ذات ہے وہی دائم اور باقی ہے حی و قیوم ہے تمام مخلوق مر جائے گی اور وہ موت سے دور ہے۔ جیسے فرمایا کل من علیھا فان ویبقی وجہ ربک ذوالجلال ولاکرام جو بھی یہاں پر ہے فانی ہے۔ تیرے رب کا چہرہ ہی باقی رہ جائے گا جو جلالت و کرامت والا ہے۔ وجہ سے مراد ذات ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں سب سے زیادہ سچا کلمہ لبید شاعر کا ہے جو اس نے کہا ہے  الا کل شئی ماخلا اللہ باطل یاد رکھو کہ اللہ کے سوا سب کچھ باطل ہے۔ مجاہد و ثور سے مروی ہے کہ ہر چیز باطل ہے مگر وہ کام جو اللہ کی رضا جوئی کے لئے جائیں ان کو ثواب رہ جاتا ہے۔ شاعروں کے شعروں میں بھی وجہ کا لفظ اس مطلب کے لئے استعمال کیا گیا ہے ملاحظہ ہو۔

استغفر اللہ ذنبا لست محصیہ رب العباد الیہ الوجہ والعمل

 میں اللہ سے جو تمام بندو ں کا رب ہے جس کی طرف توجہ اور قصد ہے اور جس کے لئے عمل ہیں اپنے ان تمام گناہوں کی بخش چاہتا ہوں  جنہیں میں شمار بھی نہیں کر سکتا۔ یہ قول پہلے قول کے خلاف نہیں۔ یہ بھی اپنی جگہ صحیح ہے کہ انسان کے تمام اعمال اکارت ہیں صرف ان ہی نیکیوں کے بدلے کا مستحق ہے جو محض اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے کی ہوں۔ اور پہلے قول کا مطلب بھی بالکل صحیح ہے کہ سب جاندار فانی اور زائل ہیں صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات پاک ہے جو فنا اور زوال سے بالاتر ہے۔ وہی اول و آخر ہے ہر چیزسے پہلے تھا اور ہر چیز کے بعد رہے گا۔ مروی ہے کہ جب حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے دل کو مضبوط کرنا چاہتے تھے تو جنگل میں کسی کھنڈر کے دروازے پر کھڑے ہو جاتے اور دردناک آواز سے کہتے کہ اس کے بانی کہاں ہے؟ پھر خود جواب میں یہی پڑھتے۔ حکم و ملک اور ملکیت صرف اسی کی ہے مالک و متصرف وہی ہے۔ اس کے حکم احکام کو کوئی رد نہیں کر سکتا۔ روز جزا سب اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ وہ سب کو ان نیکیوں اور بدیوں کا بدلہ دے گا۔ نیک کو نیک بدلہ اور برے کو بری سزا۔ الحمد اللہ سورۃ قصص کی تفسیر ختم ہوئی