تفسیر ابنِ کثیر

سُوۡرَةُ المُلک

مسند احمد میں بروایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قرآن کریم میں تیس آیتوں کیا یک سورت ہے جو اپنے پڑھنے والوں کی سفارش کرتی رہے گی یہاں تک کہ اسے بخش دیا جائے وہ سورت ترجمہ الخ، ہے۔ ابوداؤد، نسائی، ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث ہے۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اسے حسن کہتے ہیں۔ تاریخ ابن عساکر میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم سے پہلے زمانے کا ایک شخص مر گیا جس کے ساتھ کتاب اللہ میں سوائے سورہ تبارک الذی کے اور کوئی چیز نہ تھی جب اسے دفن کیا گیا اور فرشتہ اس کے پاس آیا تو یہ سورت اس کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ فرشتے نے کہا تو کتاب اللہ ہے میں تھے ناراض کرنا نہیں چاہتا تجھے معلوم ہے کہ تیرے یا اپنے یا اس میت کے کسی نفع نقصان کا مجھے اختیار نہیں اگر تو یہی چاہتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے پاس جا کر اس کی سفارش کر چنانچہ یہ سورت اللہ عز و جل کے پاس جائے گی اور کہے گی اللہ تیری کتاب میں سے مجھے فلاں شخص نے سیکھا پڑھا اب کیا تو اسے آگ میں جلائے گا؟ کیا باوجودیکہ میں اس کے سینے میں محفوظ ہوں تو اسے عذاب کرے گا؟ اگر یہی کرنا ہے تو مجھے اپنی کتاب میں سے مٹا ڈال اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو اس وقت سخت غضبناک ہے۔ یہ کہے گی مجھے حق ہے کہ میں اپنی ناراضی ظاہر کروں۔ پس جناب باری کا ارشاد ہو گا کہ جا میں نے اسے تجھے دیا اور تیری سفارش قبول کر لی۔ اب یہ سورت اس کے پاس آ جائے گی اور عذاب کے فرشتے کو ہٹا دے گی اور اس کے منہ سے اپنا منہ ملا کر کہے گی اس منہ کو مرحبا ہو یہی میری تلاوت کیا کرتا تھا اس سینے کو صد شاباش ہو اس نے مجھے یاد کر رکھا تھا، ان دونوں قدموں کو مبارکباد ہو، یہیں کھڑے ہو کر راتوں کو میری قرأت کے ساتھ قیام کیا کرتے تھے اور یہ سورت قبر میں اس کی مونس اور غم خوار بن جائے گی اور کوئی ڈرو دہشت اسے نہیں پہنچے دے گی اس حدیث کے سنتے ہی تمام چھوٹے، بڑے، آزاد اور غلام نے اسے سیکھ لیا اس کا نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منجیہ رکھا، یعنی نجات دلوانے والی سورت، لیکن یہ یاد رہے کہ یہ حدیث بہت ہی منکر ہے اس کے راوی فرات بن سائب کو امام احمد امام یحییٰ بن معین، امام بخاری، امام ابوحاتم، امام دار قطنی وغیرہ ضعیف کہتے ہیں، اور دوسری سند سے مروی ہے کہ یہ قول امام زہری کا ہے مرفوع حدیث نہیں، امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب "اثبات عذاب قبر" میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک حدیث مرفوع بھی بیان کی ہے اور موقوف بھی۔ اس میں بھی جو مضمون ہے وہ اس کی شہادت میں کام دے سکتا ہے۔ ہم نے اسے احکام کبریٰ کی کتاب الجنائز میں بیان کیا ہے واللہ الحمد طبرانی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ قرآن کی ایک سورت ہے جس نے اپنے پڑھنے والے کی طرف سے اللہ لڑ جھگڑا کر اسے جنت میں داخل کرایا وہ سورہ تبارک ہے، ترمذی شریف میں ہے کہ کسی صحابی نے جنگل میں ایک ڈیرا لگایا جہاں ایک قبر بھی تھی لیکن اسے علم نہ تھا اس نے سنا کہ کوئی شخص سورہ ملک پڑھ رہا ہے اور اس نے اسے پورا پڑھا اس نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے سارا واقعہ بیان کیا تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یہ سورت روکنے والی ہے یہ سورت نجات دلوانے والی ہے جو عذاب قبر سے نجات دلواتی ہے، یہ حدیث غریب ہے، ترمذی کی دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے سورہ الم تنزیل الخ، اور سورہ تبارک الذی ضرور پڑھ لیا کرتے تھے، حضرت طاؤس کی روایت ہے کہ یہ دونوں سورتیں قرآن کی اور سورتوں پر ستر نیکیاں فضیلت رکھتی ہیں، طبرانی میں ہے حضور فرماتے ہیں میری دلی منشا ہے کہ یہ سورت میری امت میں سے ہر ایک کے دل میں رہے یعنی سورہ تبارک۔ یہ حدیث بھی غریب ہے اور اس کا راوی ابراہیم ضعیف ہے، اور اسی جیسی روایت سورہ یس کی تفسیر میں گزر چکی ہے۔ مسند عبد بن حمید میں ذرا تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے ایک شخص سے کہا آمین تجھے ایک ایسا تحفہ دوں کہ تو خوش ہو جائے تبارک الذی الخ پڑھا کر اور اسے اپنے اہل و عیال کو اولاد کو گھر کے بچوں کو اور پڑوسیوں کو سکھا یہ سورت نجات دلوانے والی اور شفاعت کرنے والی ہے قیامت کے دن اپنے پڑھنے والے کی طرف سے اللہ سے سفارش کرے گی اور اسے عذاب آگ سے بچا لے گی اور عذاب قبر سے بھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ میں تو چاہتا ہوں کہ میرے ایک ایک امتی کے دل میں یہ ہو۔

 

۱

بہتر عمل کی آزمائش کا نام زندگی ہے

اللہ تعالیٰ اپنی تعریف بیان فرما رہا ہے اور خبر دے رہا ہے کہ تمام مخلوق پر اسی کا قبضہ ہے جو چاہے کرے۔ کوئی اس کے احکام کو ٹال نہیں سکتا اس کے غلبہ اور حکمت اور عدل کی وجہ سے اس سے کوئی باز پرس بھی نہیں کر سکتا وہ تمام چیزوں پر قدرت رکھنے والا ہے۔ پھر خود موت و حیات کا پیدا کرنا بیان کر رہا ہے، اس آیت سے ان لوگوں نے استدلال کیا ہے جو کہتے ہیں کہ موت ایک وجودی امر ہے کیونکہ وہ بھی پیدا کردہ شدہ ہے، آیت کا مطلب یہ ہے کہ تمام مخلوق کو عدم سے وجود میں لایا تاکہ اچھے اعمال والوں کا امتحان ہو جائے جیسے اور جگہ ہے ترجمہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیوں کفر کرتے ہو؟ تم تو مردہ تھے پھر اس نے تمہیں زندہ کر دیا، پس پہلے حال یعنی عدم کو یہاں بھی موت کہا گیا اور اس پیدائش کو حیات کا گیا اسی لئے اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے ترجمہ وہ پھر تمہیں مار ڈالے گا اور پھر زندہ کر دے گا، ابن ابی حاتم میں ہے رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ نبی آدم موت کی ذلت میں تھے۔ دنیا کو اللہ تعالیٰ نے حیات کا گھر بنا دیا پھر موت کا اور آخرت کو جزا کا پھر بقاء کا۔ لیکن یہی روایت اور جگہ حضرت قتادہ کا اپنا قول ہونا بیان کی گئی ہے، آزمائش اس امر کی ہے کہ تم میں سے اچھے عمل والا کون ہے؟ اکثر عمل والا نہیں بلکہ بہتر عمل والا، وہ باوجود غالب اور بلند جناب ہونے کے پھر عاصیوں اور سرتاب لوگوں کے لئے، جب وہ رجوع کریں اور توبہ کریں معاف کرنے اور بخشنے والا بھی ہے۔ جس نے سات آسمان اوپر تلے پیدا کئے ایک پر ایک گو بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ایک پر ایک ملا ہوا ہے لیکن دوسرا قول یہ ہے کہ درمیان میں جگہ ہے اور ایک دوسرے کے اوپر فاصلہ ہے، زیادہ صحیح یہی قول ہے، اور حدیث معراج وغیرہ سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے، پروردگار کی مخلوق میں تو کوئی نقصان نہ پائے گا بلکہ تو دیھے گا کہ وہ برابر ہے، نہ ہیر پھیر ہے نہ مخالفت اور بے ربطی ہے، نہ نقصان اور عیب اور خلل ہے۔ اپنی نظر آسمان کی طرف ڈال اور غور سے دیکھ کر کہیں کوئی عیب ٹوٹ پھوٹ جوڑ توڑ شگاف و سوراخ دکھائی دیتا ہے؟ پھر بھی اگر شک رہے تو دو دفعہ دیکھ لے کوئی نقصان نظر نہ آئے گا تو نے خوب نظریں جما کر ٹٹول کر دیکھا ہو پھر بھی ناممکن ہے کہ تجھے کوئی شکست و ریخت نظر آئے تیری نگاہیں تھک کر اور ناکام ہو کر نیچی ہو جائیں گی۔ نقصان کی نفی کر کے اب کمال کا اثبات ہو رہے تو فرمایا آسمان دنیا کو ہم نے ان قدرتی چراغوں یعنی ستاروں سے با رونق بنا رکھا ہے جن میں بعض چلنے پھرنے والے ہیں اور بعض ایک جا ٹھہرے رہنے والے ہیں، پھر ان کا ایک اور فائدہ بیان ہو رہا ہے کہ ان سے شیطانوں کو مارا جاتا ہے ان میں سے شعلے نکل کر ان پر گرتے ہیں یہ نہیں کہ خود ستارہ ان پر ٹوٹے واللہ اعلم۔ شیاطین کی دنیا میں یہ رسوائی تو دیکھتے ہی ہو آخرت میں بھی ان کے لئے جلانے والا عذاب ہے۔ جیسے سورہ صافات کے شروع میں ہے کہ ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں سے زینت دی ہے اور سرکش شیطانوں کی حفاظت میں انہیں رکھا ہے، وہ بلند و بالا فرشتوں کی باتیں سن نہیں سکتے اور چاروں طرف سے حملہ کر کے بھگا دیئے جاتے ہیں اور ان کے لئے دائمی عذاب ہے اگر کوئی ان میں سے ایک آدھ بات اچک کر لے بھاگتا ہے تو اس کے پیچھے چمکدار تیز شعلہ لپکتا ہے۔ حضرت فتاندہ فرماتے ہیں ستارے تین فائدوں کے لئے پیدا کئے گئے ہیں، آسمان کی زینت، شیطانوں کی مار اور راہ پانے کے نشانات۔ جس شخص نے اس کے سوا کوئی اور بات تلاش کی اس نے رائے کی پیروی کی اور اپنا صحیح حصہ کھو دیا اور باوجود علم نہ ہونے کی تکلف کیا (ابن جریر اور ابن ابی حاتم)

 

۶

جہنم کا داروغہ سوال کرے گا

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جو بھی اس کے ساتھ کفر کرے، وہ جہنمی ہے اس کا انجام اور جگہ بد سے بد ہے۔ یہ بلند اور مکروہ گدھے کی سی آوازیں مارنے والی اور جوش مارنے والی جہنم ہے جو ان پر جل رہی ہے اور جوش اور غضب سے اس طرح کچ کچا رہی ہے کہ گویا ابھی ٹوٹ پھوٹ جائے گی، اور دوزخیوں کو زیادہ ذلیل کرنے اور آخری حجت قائم کرنے اور اقبالی مجرم بنانے کے لئے داروغہ جہنم ان سے پوچھتے ہیں کہ بدنصیبو! کیا اللہ کے رسولوں نے تمہیں اس سے ڈرایا نہ تھا؟ تو یہ ہائے وائے کرتے ہوئے اپنی جانوں کو کوستے ہوئے جواب دیتے ہیں کہ آئے تو تھے لیکن وائے بدنصیبی کہ ہم نے انہیں جھوٹا جانا اور اللہ کی کتاب کو بھی نہ مانا اور پیغمبرں کو بے راہ بتایا، اب عدل اللہ صاف ثابت ہو چکات ہے اور فرمان باری پورا اترتا ہے جو اس نے فرمایا ترجمہ ہم جب تک رسول نہ بھیج دیں عذاب نہیں کرتے اور جگہ ارشاد ہے ترجمہ الخ جب جہنمی جہنم کے پاس پہنچ جائیں گے اور جہنم کے دروازے ھول دیئے جائیں گے اور داروغہ جہنم ان سے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس تم میں سے ہی رسول نہیں آئے تھے؟ جو تم پر تمہارے رب کی آیتیں پڑھتے تھے اور تمہیں اس دن کی ملاقات سے ڈراتے تھے تو کہیں گے ہاں آئے تو تھے اور ڈرا بھی دیا تھا لیکن کافروں پر کلمہ عذاب حق ہو گیا، اب اپنے آپ کو ملامت کریں گے اور کہیں گے کہ اگر ہمارے کان ہوتے اگر ہم میں عقل ہوتی تو دھوکے میں نہ پڑے رہتے، اپنے خالق مالک کے ساتھ کفر نہ کرتے، نہ رسولوں کو جھٹلاتے، نہ ان کی تابعداری سے منہ موڑتے اللہ تعالیٰ فرمائے گا اب تو انہوں نے خود اپنے گناہں کا اقرار کر لیا ان کے لئے لعنت ہو دوری ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں لوگ جب تک دنیا میں اپنے آپ میں غور کریں گے اور اپن برائیوں کو آپ دیکھ لیں گے ہلاک نہ ہوں گے (مسند احمد) اور حدیث میں ہے کہ قیامت والے دن اس طرح حجت قائم کی جائے گی کہ خود انسان سمجھ لے گا کہ میں دوزخ میں جانے کے ہی قابل ہوں (مسند احمد)

 

۱۲

نافرمانی سے خائف ہی مستحق ثواب ہیں

اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو خوشخبری دے رہا ہے جو اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتے رہتے ہیں، گو تنہائی میں ہوں جہاں کسی کی نگاہیں ان پر نہ پڑ سکیں تاہم خوف اللہ سے کسی نافرمانی کے کام کو نہیں کرتے نہ اطاعت و عبادت سے جی چراتے ہیں، ان کے گناہ بھی وہ معاف فرما دیتا ہے اور زبردست ثواب اور بہترین اجر عنایت فرمائے گا، جیسے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ جن سات شخصوں کو جناب باری اپنے عرش کا سایہ اس دن دے گا جس دن اس کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا ان میں ایک وہ ہے جسے کوئی مال و جمال والی عورت زنا کاری کی طرف بلائے اور وہ کہہ دے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور اسے بھی جو اس طرح پوشیدگی سے صدقہ کرے کہ دائیں ہاتھ کے خرچ کی خبر بائیں ہاتھ کو بھی نہ لگے مسند بزار میں ہے کہ صحابہ نے ایک مرتبہ کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے دلوں کی جو کیفیت آپ کے سامنے ہوتی ہے آپ کے بعد وہ نہیں رہتی آپ نے فرمایا یہ بتاؤ ربکے ساتھ تمہارا کیا خیال رہتا ہے؟ جواب دیا کہ ظاہر باطن اللہ ہی کو ہم رب مانتے ہیں، فرمایا جاؤ پھر یہ نفاق نہیں۔ پھر فرماتا ہے کہ تمہاری چھپی کھلی باتوں کا مجھے علم ہے دلوں کے خطروں سے بھی آگاہ ہوں، یہ ناممکن ہے کہ جو خالق ہو وہ عالم نہ ہو، مخلوق سے خالق بے خبر ہو، وہ تو بڑا باریک بیں اور بے حد خبر رکھنے والا ہے۔ ازاں بعد اپنی نعمت کا اظہار کرتا ہے کہز میں کو اس نے تمہارے لئے مسخر کر دیا وہ سکون کے ساتھ ٹھہری ہوئی ہے ہل جل کر تمہیں نقصان نہیں پہنچاتی، پہاڑوں کی میخیں اس میں گاڑ دی ہیں، پانی کے چشمے اس میں جاری کر دیئے ہیں، راستے اس میں مہیا کر دیئے ہیں، قسم قسم کے نفع اس میں رکھ دیئے ہیں پھل اور اناج اس میں سے نکل رہا ہے، جس جگہ تم جانا چاہو جا سکتے ہو طرح طرح کی لمبی چوڑی سود مند تجارتیں کر رہے ہو، تمہاری کوششیں وہ بار اور کرتا ہے اور تمہیں ان اسباب سے روزی دے رہا ہے، معلوم ہوا کہ اسباب کے حاصل کرنے کی کوشش توکل کے خلاف نہیں۔ مسند احمد کی حیث میں ہے اگر تم اللہ کی ذات پر پورا پورا بھرسہ کرو تو وہ تمہیں اس طرح رزق دے جس طرح پرندوں کو دے رہا ہے کہ اپنے گھونسلوں سے خالی پیٹ نکلتے ہیں اور آسودہ حال واپس جاتے ہیں، پس ان کا صبح شام آنا جانا اور رزق کو تلاش کرنا بھی توکل میں داخل سمجھا گیا کیونکہ اسباب کا پیدا کرنے والا انہیں آسان کرنے والا وہی رب واحد ہے، اسی کی طرف قیامت کے دن لوٹنا ہے، حضرت ابن عباس وغیرہ تو مناکب سے مراد راستے کونے اور ادھر ادھر کی جگہیں لیتے ہیں، قتادہ وغیرہ سے مروی ہے کہ مراد پہاڑ ہیں۔ حضرت بشیر بن کعب رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کی تلاوت کی اور اپنی لونڈی سے جس سے انہیں اولاد ہوئی تھی فرمایا کہ اگر مناکب کی صحیح تفسیر تم بتا دو تو تم آزاد ہو اس نے کہا مراد اس سے پہاڑ ہیں آپ نے حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا جواب ملا کہ یہ تفسیر صحیح ہے۔

 

۱۶

وہ لا انتہا عفو و مغفرت کا مالک بھی اور گرفت پر قادر بھی ہے

ان آیتوں میں بھی اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے لطف و رحمت کا بیان فرما رہا ہے کہ لوگوں کے کفر و شرک کی بناء پر وہ طرح طرح کے دنیوی عذاب پر بھی قادر ہے لیکن اس کا علم اور عفو ہے کہ وہ عذاب نہیں کرتا۔ جیسے اور جگہ فرمایا الخ، یعنی اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کی برائیوں پر پکڑ لیتا تو روئے زمین پر کسی کو باقی نہ چھوڑتا لیکن وہ ایک مقررہ وقت تک انہیں مہلت دیئے ہوئے ہے۔ جب ان کا وہ وقت آ جائے گا تو اللہ ان مجرم بندوں سے آپ سمجھ لے گا۔ یہاں بھی فرمایا کہ زمین ادھر ادھر ہو جاتی، ہلنے اور کانپنے لگ جاتی اور یہ سارے کے سارے اس میں دھنسا دیئے جاتے، یا ان پر ایسی آندھی بھیج دی جاتی جس میں پتھر ہوتے اور ان کے دماغ توڑ دیئے جاتے۔ جیسے اور جگہ ہے الخ یعنی کیا تم نڈر ہو گئے ہو کہ زمین کے کسی کنرے میں تم دھنس جاؤ یا تم پر وہ پتھر برسائے اور کوئی نہ ہو جو تمہاری وکالت کر سکے، یہاں بھی فرمان ہے کہ اس وقت تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ میری دھمکیوں کو اور ڈراوے کو نہ ماننے کا انجام کیا ہوتا ہے؟ تم خود دیکھ لو کہ پہلے لوگوں نے بھی نہ مانا اور انکار کر کے میری باتوں کی تکذیب کی تو ان کا کس قدر برا اور عبرتناک انجام ہوا۔ کیا تم میری قدرتوں کا روزمرہ کا یہ مشاہدہ نہیں کر رہے کہ پرند تمہارے سروں پر اڑتے پھرتے ہیں کبھی دونوں پروں سے کبھی کسی کو روک کر، پھر کیا میرے سوا کوئی اور انہیں تھامے ہوئے ہے؟ میں نے ہواؤں کو مسخر کر دیا ہے اور یہ معلق اڑتے پھرت یہیں یہ بھی میرا لطف و کرم اور رحمت و نعمت ہے۔ مخلوقات کی حاجتیں ضرورتیں ان کی اصلاح اور بہتری کا نگراں اور کفیل میں ہی ہوں، جیسے اور جگہ فرمایا الخ کیا انہوں نے ان پرندوں کو نہیں دیکھا جو آسمان و زمین کے درمیان مسخر ہیں جن کا تھامنے والا سوائے ذات باری کے اور کوئی نہیں یقیناً اس میں ایمانداروں کے لئے بڑی بڑی نشانیاں ہیں۔

 

۲۰

رزاق صرف رب قدیر ہے

اللہ تعالیٰ مشرکوں کے اس عقیدے کی تردید کر رہا ہے جو وہ خیال رکھتے تھے کہ جن بزرگوں کی وہ عبادت کرتے ہیں وہ ان کی امداد کر سکتے ہیں اور انہیں روزیاں پہنچا سکتے ہیں فرماتا ہے کہ سوائے اللہ کے نہ تو کوئی مدد دے سکتا ہے نہ روزی پہنچا سکتا ہے نہ بچا سکتا ہے، کافروں کا یہ عقیدہ محض ایک دھوکہ ہے۔ اگر اب اللہ تبارک و تعالیٰ تمہاری روزیاں روک لے تو پھر کوئی بھی انہیں جاری نہیں کر سکات، دینے لینے پر، پیدا کرنے اور فنا کرنے پر، رزق دینے اور مدد کرنے پر صرف اللہ عز و جل وحدہ لاشریک لہ کو ہی قدرت ہے۔ یہ لوگ خود اسے دل سے جانتے ہیں، تاہم اعمال میں اس کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کفار اپنی گمراہی کج روی گناہ اور سرکشی میں بہے چلے جاتے ہیں ان کی طبیعتوں میں ضد تکبر اور حق سے انکار بلکہ حق کی عدا تو بیٹھ چکی ہے، یہاں تک کہ بھلی باتوں کا سننا بھی انہیں گوارا نہیں عمل کرنا توں کہاں؟ پھر ممن و کافر کی مثال بیان فرماتا ہے کہ کافر کی مثال تو ایسی ہے جیسے کوئی شخص کمر کبڑی کر کے سر جھکائے نظریں نیچی کئے چلا جا رہا ہے نہ راہ دیکھتا ہے نہ اسے معلوم ہے کہ کہاں جا رہا ہے بلکہ حیران، پریشان، راہ بھولا اور ہکا بکا ہے۔ اور مومن کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص سیدھی راہ پر سیدھا کھڑا ہوا چل رہا ہے راستہ خود صاف اور بالکل سیدھا ہے یہ شخص خود اسے بخوبی جانتا ہے اور برابر صحیح طور پر اچھی چال سے چل رہا ہے، یہی حال ان کا قیامت کے دن ہو گا کہ کافر تو اوندھے منہ جہنم کی طرف جمع کئے جائیں گے اور مسلمان عزت کے ساتھ جنت میں پہنچائے جائیں گے جیسے اور جگہ ہے ترجمہ الخ، ظالموں کو اور ان جیسوں کو اور ان کے ان معبودوں کو جو اللہ کے سوا تھے جمع کر کے جہنم کا راستہ دکھا دو، مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم لوگ منہ کے بل چلا کر کس طرح حشر کئے جائیں گے، آپ نے فرمایا جس نے پیروں کے بل چلایا ہے وہ منہ کے بل چلانے پر بھی قادر ہے، بخاری و مسلم میں بھی یہ روایت ہے۔ اللہ وہ ہے جس نے تمہیں پہلی مرتبہ جب کہ تم کچھ نہ تھے پیدا کیا تمہیں کان آنکھ اور دل دیئے یعنی عقل و ادراک تم میں پیدا کیا لیکن تم بہت ہی کم شکر گزاری کرتے ہو یعنی اپنی ان قوتوں کو اللہ تعالیٰ کی حکم برداری میں اور اس کی نافرمانیوں سے بچنے میں بہت ہی کم خرچ کرتے ہو۔ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں زمین میں پھیلا دیا، تمہاری زبانیں جدا، تمہارے رنگ روپ جدا، تمہاری شکلوں صورتوں میں اختلاف۔ اور تم زمین کے چپہ چپہ پر بسا دیئے گئے، پھر اس پراگندگی اور بکھرنے کے بعد وہ وقت بھی آئے گا کہ تم سب اس کے سامنے کھڑے کر دیئے جاؤ گے اس نے جس طرح تمہیں ادھر ادھر پھیلا دیا ہے، اسی طرح ایک طرف سمیٹ لے گا اور جس طرح اولاً اس نے تمہیں پیدا کیا دوبارہ تمہیں لوٹائے گا۔ پھر بیان ہوتا ہے کہ کافر جو مر کر دوبارہ جینے کے قائل نہیں وہ اس دوسری زندگی کو محال اور ناممکن سمجھتے ہیں اس کا بیان سن کر اعتراض کرتے ہیں کہ اچھا پھر وہ وقت کب آئے گا جس کی ہمیں خبر دے رہے ہو اگر سچے ہو تو بتا دو کہ اس پراگندگی کے بعد اجتماع کب ہو گا؟ اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے فرماتا ہے کہ ان کو جواب دو کہ اس کا علم مجھے نہیں کہ قیامت کب قائم ہو گی اسے تو صرف وہی علام الغیوب جانتا ہے ہاں اتنا مجھے کہا گیا ہے کہ وہ وقت آئے گا ضرور، میری حیثیت صرف یہ ہے کہ میں تمہیں خبردار کر دوں اور اس دن کی ہولناکیوں سے مطلع کر دوں، میرا فرض تمہیں پہنچا دینا تھا جسے بحمد للہ میں ادا کر چکا، پھر ارشادِ باری ہوتا ہے کہ جب قیامت قائم ہونے لگی اور کفار اسے اپنی آنکھوں دیکھ لیں گے اور معلوم کر لیں گے کہ اب وہ قریب آ گئی کیونکہ ہر آنے والی چیز آ کر ہی رہتی ہے، گو دیر سویر سے آئے، جب اسے آیا ہوا پالیں گے، جسے اب تک جھٹلاتے رہے تو انہیں بہت برا لگے گا کیونکہ اپنی غفلت کا نتیجہ سامنے دیکھ لیں گے اور قیامت کی ہولناکیاں بدحواس کئے ہوئے ہوں گی، آثار سب سامنے ہوں گے اس وقت ان سے بطور ڈانٹ کے اور بطور تذلیل کرنے کے کہا جائے گا یہی ہے جس کی تم جلدی کر رہے تھے۔

 

۲۸

زمین سے پانی ابلنا بند ہو جائے تو؟

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے نبی! ان مشرکوں سے کہو جو اللہ کی نعمتوں کا انکار کر رہے ہیں کہ تم اس بات کی تمنا کر رہے ہو کہ نقصان پہنچے تو فرض کرو کہ ہمیں اللہ کی طرف سے نقصان پہنچایا اس نے مجھ پر اور میرے ساتھیوں پر رحم کیا لیکن اس سے تمہیں کیا؟ صرف اس امر سے تمہارا چھٹکارا تو نہیں ہوسکتا؟ تمہاری نجات کی صورت یہ تو نہیں، نجات تو موقوف ہے توبہ کرنے، اللہ کی طرف جھکنے پر، اس کے دین کو مان لینے پر، ہمارے بچاؤ یا ہلاکت پر تمہاری نجات نہیں، تم ہمارا خیال چھوڑ کر اپنی بخشش کی صورت تلاش کرو۔ پھر فرمایا ہم رب العالمین رحمن و رحیم پر ایمان لا چکے اپنے تمام امور میں ہمارا بھروسہ اور توکل اسی کی پاک ذات پر ہے، جیسے ارشاد فرمایا فاعبدہ وتوکل علیہ اسی کی عبادت کر اور اسی پر بھروسہ کر، اب تم عنقریب جان لو گے کہ دنیا اور آخرت میں فلاح و بہبود کسے ملتی ہے اور نقصان وخسران میں کون پڑتا ہے؟ رب کی رحمت کس پر ہے؟ اور ہدایت پر کون ہے؟ اللہ کا غضب کس پر ہے اور بری راہ پر کون ہے؟ پھر فرماتا ہے اگر اس پانی کو جس کے پینے پر انسانی زندگی کا مدار ہے زمین چوس لے یعنی زمین سے نکلے ہی نہیں گو تم کھودتے تھک جاؤ تو سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی ہے جو بہنے والا ابلنے اور جاری ہونے والا پانی تمہیں دے سکے؟ یعنی اللہ کے سوا اس پر قادر کوئی نہیں، وہی ہے جو اپنے فضل و کرم سے صاف نتھرے ہوئے اور صاف پانی کو زمین پر جاری کرتا ہے جو ادھر سے ادھر تک پھر جاتا ہے اور بندوں کی حاجتوں کو پوری کرتا ہے، ضرورت کے مطابق ہر جگہ بآسانی مہیا ہو جاتا ہے، فالحمد للہ۔

اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے سورۃ ملک کی تفسیر ختم ہوئی۔ فالحمد للہ رب العالمین۔

(حدیث میں ہے کہ اس آیت کے جواب میں اللہ رب العالمین کہنا چاہئے۔ مترجم)۔