مسند احمد میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسسورت کو اور اس کے بعد کی سورت کو قرآن شریف میں نہیں لکھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ میری گواہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے خبر دی کہ جبرئیل علیہ اسلام نے آپ سے فرمایا قل اعوذ برب الفلق الخ، تو میں نے بھی یہی کہا۔ پھر کہا قل اعوذ برب الناس الخ، تو میں نے یہی کہا پس ہم بھی اسی طرح کہتے ہیں جس طرح حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے کہا، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان دونوں سورتوں کے بارے میں پوچھا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہا آپ کے بھائی حضرت ابن مسعود تو ان دونوں کو قرآن شریف میں سے کاٹ دیا کرتے تھے تو فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا مجھ سے کہا گیا کہو میں نے کہا پس ہم بھی کہتے ہیں جس طرح حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے کہا (ابوبکر حمیدی) مسند میں بھی یہ روایت الفاظ کے تغیر و تبدل کے ساتھ مروی ہے، اور بخاری شریف میں بھی، مسند ابویعلی وغیرہ میں ہے کہ ابن مسعود ان دونوں سورتوں کو قرآن میں نہیں لکھتے تھے اور نہ قرآن میں انہیں شمار کرتے تھے، بلکہ قاریوں اور فقہیوں کے نزدیک مشہور بات یہی ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان دونوں سورتوں کو قرآن میں نہیں لکھتے تھے، شاید انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے نہ سنا ہو اور تواتر کے ساتھ ان تک نہ پہنچا ہو، پھر یہ اپنے اس قول سے رجوع کر کے جماعت کے قول کی طرف پلٹ آتے ہیں، صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے ان سورتوں کو ائمہ کے قرآن میں اخل کیا جس کے نسخے چاروں طرف پھیلے، وللہ الحمد والمنہ صحیح مسلم شریف میں حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰعنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کیا تم نے نہیں دیکھا چند آیتیں مجھ پر اس رات ایسی نازل ہوئی ہیں جن جیسی کبھی دیکھی نہیں گئیں، پھر آپ نے ان دونوں سورتوں کی تلاوت فرمائی، یہ حدیث مسند احمد، ترمذی اور نسائی میں بھی ہے۔ امام ترمذی اسے حسن صحیح کہتے ہیں۔ مسند احمد میں ہے حضرت عقبہ ہیں میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ مدینہ کی گلیوں میں آپ کی سواری کی نکیل تھامے چلا جا رہا تھا کہ آپ نے مجھ سے فرمایا، اب آؤ تم سوار ہو جاؤ میں نے اس خیال سے آپ کی بات نہ مانوں گا تو نافرماین ہو گی سوار ہونا منظور کر لیا تھوڑی دیر کے بعد میں اتر گیا اور حضور سوار ہو گئے پھر آپ نے فرمایا عقبہ میں تجھے دو بہترین سورتیں نہ سکھاؤں؟ میں نے کہا ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ضرور سکھایئے۔ پس آپ نے مجھے سورہ قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس پڑھائیں پھر نماز کھڑی ہوئی آپ نے نماز پڑھائی اور ان ہی دونوں سورتوں کی تلاوت کی پھر مجھ سے فرمایا تو نے دیکھ لیا؟ سن جب تو سوئے اور جب کھڑا ہوا نہیں پڑھ لیا کر، ترمذی ابو داؤد اور نسائی میں بھی یہ حدیث ہے۔ مسند احمد کی اور حدیث میں ہے کہ حضرت عقبہ بن عامر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہر نماز کے بعد ان سورتوں کی تلاوت کا حکم دیا۔ یہ حدیث بھی ابو داؤد، ترمذی اور نسائی میں ہے امام ترمذی اسے غریب بتلاتے ہیں اور روایت میں ہے کہ ان جیسی سورتیں تو نے پڑھی ہی نہیں، حضرت عقبہ والی حدیث جس میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی سواری کے ساتھ آپ کا ہونا مذکور ہے اس کے بعض طرق میں یہ بھی ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے یہ سورتیں بتائیں تو مجھے کچھ زیادہ خوش ہوتے نہ دیکھ کر فرمایا کہ شاید تو انہیں چھوٹی سی سورتیں سمجھتا ہے سن نماز کے قیام میں ان جیسی سورتوں کی قرأت اور ہے ہی نہیں۔ نسائی شریف کی حدیث میں ہے کہ ان جیسی سورتیں کسی پناہ پکڑنے والے کے لئے اور نہیں۔ ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عقبہ سے یہ سورتیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے پڑھائیں پھر فرمایا نہ تو دعا کی ان جیسی اور سورتیں ہیں نہ تعویذ کی، ایک روایت میں ہے صبح کی فرض نماز حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ان ہی دونوں سورتوں سے پڑھائی، اور حدیث میں ہے حضرت عقبہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی سواری کے پیچھے جاتے ہیں اور آپ کے قدم پر ہاتھ رکھ کر عرض کرتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم مجھے سورہ ہود یا سورہ یوسف پڑھائے آپ نے فرمایا اللہ کے پاس نفع دینے والی کوئی سورت قل اعوذ برب الفلق سے زیادہ نہیں اور حدیث میں ہے کہ آپ نے اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا میں تمہیں بتاؤں کہ پناہ حاصل کرنے والوں کے لئے ان دونوں سورتوں سے افضل سورت اور کوئی نہیں، پس بہت سی حدیثیں اپنے تواتر کی وجہ سے اکثر علماء کے نزدیک قطعیت کا فائدہ دیتی ہیں اور وہ حدیث بھی بیان ہو چکی کہ آپ نے ان دونوں سورتوں اور سورہ اخلاص کی نسبت فرمایا کہ چاروں کتابوں میں ان جیسی سورتیں نہیں اتریں، نسائی وغیرہ میں ہے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے سواریاں کم تھیں باری باری سوار ہوتے تھے حضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص کے مونڈھوں پر ہاتھ رکھ کر یہ دونوں سورتیں پڑھائیں اور فرمایا جب نماز پڑھو تو انہیں پڑھا کرو، بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص حضرت عقبہ بن عامر ہوں گے، واللہ اعلم۔ حضرت عبد اللہ بن سلام کے سینے پر ہاتھ رکھ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ نہیں سمجھے؟ وہ نہ سمجھے کہ کیا کہیں تو پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سورہ قل ھو اللہ پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اسی طرح پناہ مانگا کر۔ اس جیسی پناہ مانگنے کی اور سورت نہیں (نسائی) نسائی کی اور حدیث میں ہے کہ حضرت جابر سے یہ دونوں سورتیں آپ نے پڑھوائیں پھر فرمایا انہیں پڑھتا رہ ان جیسی سورتیں تو اور پڑھے گا، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا والی وہ حدیث پہلے گزر چکی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم انہیں پڑھ کر اپنے ہاتھوں پر پھونک کر اپنے سر چہرے اور سامنے کے جسم پر پھیر لیتے تھے، موطامالک میں ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم بیمار پڑتے تو ان دونوں سورتوں کو پڑھ کر اپنے اوپر پھونک لیا کرتے تھے جب آپ کی بیماری سخت ہوئی تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا معوذات پڑھ کر خود آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھوں کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے جسم مبارک پر پھیرتی تھیں اس عمل کا مقصد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھوں کی برکت کا ہوتا تھا سورہ ن کی تفسیر کے آخر میں یہ حدیث گزر چکی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جنات کی اور انسانوں کی آنکھوں سے پناہ مانگا کرتے تھے جب یہ دونوں سورتیں اتریں تو آپ نے انہیں لے لیا اور باقی سب چھوڑ دیں، امام ترمذی اسے حسن صحیح فرماتے ہیں۔
حضرت جابر وغیرہ فرماتے ہیں فلق کہتے ہیں صبح کو، خود قرآن میں نور جگہ ہے فالق الاصباح ابن عباس سے مروی ہے فلق سے مراد مخلوق ہے، حضرت کعب احبار فرماتے ہیں فلق جہنم میں ایک جگہ ہے جب اس کا دروازہ کھلتا ہے تو اس کی آگ گرمی اور سختی کی وجہ سے تمام جہنمی چیخنے لگتے ہیں۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی اسی کے قریب قریب مروی ہے۔ لیکن وہ حدیث منکر ہے۔ یہ بھی بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ جہنم کا نام ہے۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ سب سے زیادہ ٹھیک قول پہلا ہی ہے یعنی مراد اس سے صبح ہے۔ امام بخاری بھی یہی فرماتے ہیں اور یہی صحیح ہے۔ تمام مخلوق کی برائی سے جسم میں جہنم بھی داخل ہے اور ابلیس اور اولاد ابلیس بھی۔ غاسق سے مراد رات ہے۔ اذا وقت یس مراد سورج کا غروب ہو جانا ہے، یعنی رات جب اندھیرا لئے ہوئے آ جائے، ابن زید کہتے ہیں کہ عرب ثریا ستارے کے غروب ہونے کو غاسق کہتے ہیں۔ بیماریاں اور وبائیں اس کے واقع ہونے کے وقت بڑھ جاتی تھیں اور اس کے طلوع ہونے کے وقت اٹھ جاتی تھیں۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ستارہ غاسق ہے، لیکن اس کا مرفوع ہونا صحیح نہیں، بعض مفسرین کہتے ہیں مراد اس سے چاند ہے، ان کی دلیل مسند احمد کی یہ حدیث ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ہاتھ تھامے ہوئے چاند کی طرف اشارہ کر کے فرمایا اللہ تعالیٰ سے اس غاسق کی برائی سے پناہ مانگ اور روایت میں ہے کہ غاسق اذا وقب سے یہی مراد ہے، دونوں قولوں میں با آسانییہ تطبیق ہو سکتی ہے کہ چاند کا چڑھنا اور ستاروں کا ظاہر ہونا وغیرہ، یہ سب رات ہی کے وقت ہوتا ہے جب رات آ جائے، واللہ اعلم۔ گرہ لگا کر پھونکنے والیوں سے مراد جادوگر عورتیں ہیں، حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں شرک کے بالکل قریب وہ منتر ہیں نہیں پڑھ کر سانپ کے کاٹے پر دم کیا جاتا ہے اور آسیب زدہ پر۔ دوسری حدیث میں ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہا کیا آپ بیمار ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے یہ دعا پڑھی
یعنی اللہ تعالیٰ کے نام سے میں دم کرتا ہوں ہر اس بیماری سے جو تجھے دکھ پہنچائے اور ہر حاسد کی برائی اور بدی سے اللہ تجھے شفا دے۔ اس بیماری سے مراد شاید وہ بیماری ہے جبکہ آپ پر جادو کیا گیا تھا پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو عافیت اور شفا بخشی اور حاسد یہودیوں کے جادوگر کے مکر کو رد کر دیا اور ان کی تدبیروں کو بے اثر کر دیا اور انہیں رسوا اور فضیحت کیا، لیکن باوجود اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی بھی اپنے اوپر جادو کرنے والے کو ڈانٹا ڈپٹا تک نہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کی کفایت کی اور آپ کو عافیت اور شفا عطا فرمائی۔ مسند احمد میں ہے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر ایک یہودی نے جادہ کیا جس سے کئی دن تک آپ بیمار رہے پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آ کر بتایا کہ فلاں یہودی نے آپ جادو کیا ہے اور فلاں فلاں کنوئیں میں گر ہیں لگا کر کر رکھا ہے آپ کسی کو بھیج کر اسے نکلوا لیجئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے آدمی بھیجا اور اس کنوئیں سے وہ جادو نکلوا کر گر ہیں کھول دیں سارا اثر جاتا رہا پھر نہ تو آپ نے اس یہودی سے کبھی اس کا ذکر کیا اور نہ کبھی اس کے سامنے غصہ کا اظہار کیا، صحیح بخاری شریف کتاب الطب میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر جادو کیا گیا آپ سمجھتے تھے کہا آپ ازواج مطہرات کے پاس آئے حالانکہ نہ آئے تھے، حضرت سفیان فرماتے ہیں یہی سب سے بڑا جادو کا اثر ہے، جب یہ حالت آپ کی ہو گئی ایک دن آپ فرمانے لگے عائشہ میں نے اپنے رب سے پوچھا اور میرے پروردگار نے بتا دیا دو شخص آئے ایک میری سرہانے ایک پائیتوں کی طرف، سرہانے والے نے اس دوسرے سے پوچھا ان کا کیا حال ہے؟ دوسرے نے کہا ان پر جادو کیا گیا ہے پوچھا کس نے جادو کیا ہے؟ کہا عبید بن اعصم نے جو بنو رزیق کے قبیلے کا ہے جو یہود کا حلیف ہے اور منافق شخص ہے، کہا کس چیز میں؟ کہا تر کھجور کے درخت کی چھال میں پتھر کی چٹان تلے ذروان کے کنوئیں میں، پھر حضور صلی اللہ علیہ السلام اس کنوئیں کے پاس آئے اور اس میں سے وہ نکلوایا اس کا پانی ایسا تھا گویا مہندی کا گدلا پانی اس کے پاس کے کھجوروں کے درخت شیطانوں کے سر جیسے تھے، میں نے کہا بھی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم انسے بدلہ لینے چائے آپ نے فرمایا الحمد اللہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تو شفا دے دی اور میں لوگوں میں برائی پھیلانا پسند نہیں کرتا، دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ ایک کام کرتے نہ تھے اور اس کے اثر سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا میں کر چکا ہوں اور یہ بھی ہے کہ اس کنوئیں کو آپ کے حم سے بند کر دیا گیا، یہ بھی مروی ہے کہ چھ مہینے تک آپ کی یہی حالت رہی، تفسیر ثعلبی میں حضرت ابن عباس اور حضرت ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ یہود کا ایک بچہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت کیا کرتا تھا اسے یہودیوں نے بہکا سکھا کر آپ کے چند بال اور آپ کی کنگھی کے چند دندانے منگوا لئے اور ان میں جادو کیا اس کام میں زیادہ تر کوشش کرنے والا لبید بن اعصم تھا پھر ذرو ان نامی کنوئیں میں جو بنوزریق کا تھا اسے ڈال دیا پس حضور صلی اللہ علیہ و سلم بیمار ہو گئے سر کے بال جھڑنے لگے خیال آتا تھا کہ میں عورتوں کے پاس ہو آیا حالانکہ آتے نہ تھے گو آپ اسے دور کرنے کی کوشش میں تھے لیکن وجہ معلوم نہ ہوتی تھی چھ ماہ تک یہی حال رہا پھر وہ واقعہ ہوا جو اوپر بیان کیا کہ فرشتوں کے ذریعے آپ کو اس کا تمام حال علم ہو گیا اور آپ نے حضرت علی حضرت زبیر اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہم کو بھیج کر کنوئیں میں سے وہ سب چیزیں نکلوائیں ان میں ایک تانت تھی جس میں میں بارہ گرہیں لگی ہوئی تھیں اور ہر گرہ پر ایک سوئی چبھی ہوئی تھی، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ دونوں سورتیں اتاریں، حضور صلی اللہ علیہ و سلم ایک ایک آیت ان کی پڑھتے جاتے تھے اور ایک ایک گرہ اس کی خودبخود کھلتی جاتی تھی، جب یہ دونوں سورتیں پوری ہوئیں وہ سب گر ہیں کھل گئیں اور آپ بالکل شفایاب ہو گئے، ادھر جبرئیل علیہ السلام نے وہ دعا پڑھی جو اوپر گزر چکی ہے، لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ و سلم ہمیں اجازت دیجئے کہ ہم اس خبیث کو پکڑ کر قتل کر دیں آپ نے فرمایا نہیں اللہ نے مجھے تو تندرستی دے دی اور میں لوگوں میں شر و فساد پھیلانا نہیں چاہتا۔ یہ روایت تفسیر ثعلبی میں بلا سند مروی ہے اس میں غربات بھی ہے اور اس کے بعض حصے میں سخت نکارت ہے اور بعض کے شواہد بھی ہیں جو پہلے بیان ہو چکے ہیں واللہ اعلم۔
اس میں اللہ تعالیٰ عز و جل کی تین صفتیں بیان ہوئی ہیں، پالنے اور پرورش کرنے کی، مالک اور شہنشاہ ہونے کی، معبود اور لائق عبادت ہونے کی تمام چیزیں اسی کی پیدا کی ہوئی ہیں اسی کی ملکیت میں ہیں اور اسی کی غلامی میں مشغول ہیں، پس وہ حکم دیتا ہے کہ ان پاک اور برتر صفات والے اللہ کی پناہ میں آ جائے جو بھی پناہ اور بچاؤ کا طالب ہو، شیطان جو انسان پر مقرر ہے اس کے وسوسوں سے وہی بچانے والا ہے، شیطان ہر انسان کے ساتھ ہے۔ برائیوں اور بدکاریوں کو خوب زینت دار کر کے لوگوں کے سامنے وہ پیش کرتا رہتا ہے اور بہکانے میں راہ راست سے ہٹانے میں کوئی کمی نہیں کرتا۔ اس کے شر سے وہی محفوظ رہ سکتا ہے جسے اللہ بچا لے۔ صحیح حدیث شری میں ہے تم میں سے ہر شخص کے ساتھ ایک شیطان ہے لوگوں نے کہا کیا آپ کے ساتھ بھی آپ نے فرمایا ہاں لیکن اللہ تعالیٰ نے اس پر میری مدد فرمائی ہے پس میں سلامت رہتا ہوں وہ مجھ صرف نیکی اور اچھائی کی بات ہی کہتا ہے۔ بخاری مسلم کی اور حدیث میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبانی ایک واقعہ منقول ہے جس میں بیان ہے کہ حضرت صلی اللہ علیہ و سلم جب اعتکاف میں تھے تو ام المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کے پاس رات کے وقت آئیں جب واپس جانے لگیں تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں آواز دے کر ٹھہرایا اور فرمایا سنو!میرے ساتھ میری بیوی صفیہ بنت حی (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) ہیں انہوں نے کہا سبحان اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس فرمان کی ضرورت ہی کیا تھی؟ آپ نے فرمایا انس ان کے خون کے جاری ہنے کی جگہ شیطان گھومتا پھرتا رہتا ہے، مجھے خیال ہوا کہ کہیں تمہارے دلوں میں وہ کوئی بدگمانی نہ ڈال دے، حافظ ابویعلی موصلی رحمۃ اللہ نے ایک حدیث وارد کی ہے جس میں ہے نبی صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ شیطان اپنا ہاتھ انسان کے دل پر رکھے ہوئے ہے اگر یہ اللہ کا ذکر کرتا ہے تب تو اس کا ہاتھ ہٹ جاتا ہے اور اگر یہ ذکر اللہ بھول جاتا ہے تو وہ اس کے دل پر پورا قبضہ کر لیتا ہے، یہی وسواس الحناس ہے، یہ حدیث غریب ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے گدھے پر سوار ہو کر کہیں جا رہے تھے ایک صحابی آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے گدھے نے ٹھوکر کھائی تو ان کے منہ سے نکلا شیطان برباد ہو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یوں نہ کہو اس سے شیطان پھول کر بڑا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے اپنی قوت سے گرا دیا اور جب تم بسم اللہ کہو تو و گھٹ جاتا ہے یہاں تک مکھی کے برابر ہو جاتا ہے، اس سے ثابت ہوا کہ ذکر اللہ سے شیطان پست اور مغلوب ہو جاتا ہے اور اس کے چھوڑ دینے سے وہ بڑا ہو جاتا ہے اور غالب آ جاتا ہے، مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں جب تم میں سے کوئی مسجد میں ہوتا ہے اس کے پاس شیطان آتا ہے اور اسے تھپکتا اور بہلاتا ہے جیسے کوئی شخص اپنے جانور کو بہلاتا ہو پھر اگر وہ خاموش رہا تو وہ ناک میں نکیل یا منہ میں لگام چڑھا دیتا ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ حدیث بیان فرما کر فرمایا تم خود اسے دیکھتے ہو نکیل والا تو وہ ہے جو ایک طرف جھکا کھڑا ہوا اور اللہ کا ذکر نہ کرتا ہو اور لگام والا وہ ہے جو منہ کھولے ہوئے ہو اور اللہ کا ذکر نہ کرتا ہو، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں شیطان ابن آدم کے دل پر چنگل مارے ہوئے ہے جہاں یہ بھولا اور غفلت کی کہ اس نے وسوسے ڈالنے شروع کئے اور جہاں اس نے ذکر اللہ کیا اور یہ پیچھے ہٹا، سلیمان فرماتے ہیں مجھ سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ شیطان راحت و رنج کے وقت انسان کے دل میں سوراخ کرنا چاہتا ہے یعنی اسے بہکانا چاہتا ہے اگر یہ اللہ کا ذکر کرے تو یہ بھاگ کھڑا ہوتا ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ شیطان برائی سکھاتا ہے جاں انسان نے اسکی مان لی پھر ہٹ جاتا ہے، پھر فرمایا جو وسوسے ڈالتا ہے لوگوں کے سینے میں، لفظ ناس جو انسان کے معنی میں ہے اس کا اطلاق جنوں پر بھی بطور غلبہ کے آ جاتا ہے۔ قرآن میں اور جگہ ہے برجال من الجن کہا گیا ہے تو جنات کو لفظ ناس میں داخل کر لینے میں کوئی قباحت نہیں، غرض یہ ہے کہ شیطان جنتا کے اور انسان کے سینے میں وسوسے ڈالتا رہتا ہے۔ اس کے بعد کے جملے من الجنتہ والناس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جن کے سینوں میں شیطان وسوسے ڈالتا ہے وہ جن بھی ہیں اور انسان بھی اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ وسواس ڈالنے والا خواہ کوئی جن ہو خواہ کوئی انسان جیسے اور جگہ ہے وکذالک جعلنا لکلک نبی وعداواً شیاطین الانس والجن یوحئی بعضھم الی بعض زخروف القول غرور یعنی اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمنی انسانی اور جناتی شیطان بنائے ہیں ایک دوسرے کے کان میں دھوکے کی باتیں بنا سنور کر ڈالتے رہتے ہیں۔ مسند احمد میں ہے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس مسجد میں آیا اور بیٹھ گیا، آپ نے فرمایا نماز بھی پڑھی؟ میں نے کہا نہیں۔ فرمایا کھڑے ہو جاؤ اور دو رکعت ادا کر لو۔ میں اٹھا اور دو رکعت پڑھ کر بیٹھ گیا۔ آپ نے فرمایا اے ابوذر اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو انسان شیطانوں اور جن شیطانوں سے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیا انسانی شیطان بھی ہوتے ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں، میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز کیسی چیز ہے، آپ نے ارشاد فرمایا بہترین چیز ہے، جو چاہے کم کرے جو چاہے اس عمل کو زیادہ کرے، میں نے پوچھا روزہ؟ فرمایا کافی ہونے والا فرض ہے اور اللہ کے پاس اجر و ثواب لا انتہا ہے۔ میں نے پھر پوچھا صدقہ؟ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بہت ہی بڑھا چڑھا کر کئی گنا کر کے بدلہ دیا جائے گا۔ میں نے پھر عرض کی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کونسا صدقہ افضل ہے؟ فرمایا باوجود مال کی کمی کے صدقہ کرنا یا چپکے سیچ ھپا کر کسی مسکین فقیر کے ساتھ سلوک کرنا، میں نے سوال کیا حضور صلی اللہ علیہ و سلم سب سے پہلے نبی کون تھے؟ آپ نے فرمایا حضرت آدم علیہ السلام، میں نے پوچھا کیا وہ نبی تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں وہ نبی تھے اور وہ بھی وہ جن سے اللہ تعالیٰ نے بات چیت کی، میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رسول کتنے ہوئے؟ فرمایا تین سو کچھ اوپر دس بہت بڑی جماعت اور کبھی فرمایا تین سو پندرہ، میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جو کچھ آپ پر نازل کیا گیا ان سب سے بڑی عظمت والی آیت کونسی ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا آیت الکرسی اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم الخ، یہ حدیث نسائی میں بھی ہے اور ابو حاتم بن حبان کی صحیح ابن حبان میں تو دوسری سند سے دوسرے الفاظ کے ساتھ یہ حدیث بہت بڑی ہے، فااللہ اعلم، مسند احمد کی ایک اور حدیث شریف میں ہے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میرے دل میں تو ایسے ایسے خیالات آتے ہیں کہ ان کا زبان سے نکالنا مجھ پر آسمان سے گر پڑنے سے بھی زیادہ برا ہے، نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ ہی کے لئے حمد و ثناء ہے جس نے شیطان کے مکر و فریب کو وسوسے میں ہی لوٹا دیا، یہ حدیث ابو داؤد اور نسائی میں بھی ہے۔
الحمد اللہ اللہ تعالیٰ کے احسان سے یہ تفسیر ختم ہوئی۔
اللہ کے فضل و کرم سے تیسویں پارے کی تفسیر بھی ختم ہوئی اور تفسیر ابن کثیر کا ترجمہ تفسیر محمدی بالکل کامل ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے پاک کلام کی صحیح سمجھ دے اور اس پر عمل نصیب فرمائے اور پھر قبول کرے۔ آمین الہ الحق امین! والحمد للہ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام و علی جمیع المرسلین